از: ام سلمہ عطاریہ
مدنیہ ملیر کراچی
جب
یومُ الحرّہ کے موقع پر اہلِ مدینہ شہید کئے جا رہے تھے تو شہیدوں میں سیدہ زینب
بنتِ ابو سلمہ رضی اللہُ عنہما کے دو بیٹے
بھی شامل تھے، جب ان کی لاشیں آپ کے سامنے لائی گئیں تو آپ نے صبر و تحمل سے کام
لیا اور بالکل بھی واویلا نہ کیا۔([1])
مصیبت
کے وقت عموماً عورتیں بے صبری سے کام لیتی ہیں۔ حالانکہ ہماری بزرگ خواتین نے سخت
مشکل حالات میں بھی ہمیشہ مثالی صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ ہر حال میں
اللہ پاک اور اس کے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی خوشنودی کو پیشِ نظر رکھتیں اور ان
کی ناراضی کا سبب بننے والے کاموں سے بچتیں۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ دنیا فانی اور جنت کی نعمتیں ابدی (یعنی ہمیشہ رہنے والی)
ہیں۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف اپنے رشتے داروں اور بچوں کے انتقال پر صبر کیا، بلکہ
کوئی حرفِ شکایت بھی زبان پر نہ لائیں۔ مگر افسوس! فی زمانہ اکثر عورتیں قریبی
عزیز کے فوت ہو جانے پر زمانۂ جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرتی اور شکوے شکایات کرتی
دکھائی دیتی ہیں اور بسا اوقات تو یہ سب دکھلاوہ ہوتا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ
انہیں کوئی غم نہیں۔ نیز کبھی بےصبری کے سبب کفریہ کلمات تک بَک دئیے جاتے ہیں ۔
الامان والحفیظ۔
بلاشبہ
قریبی رشتہ داروں خصوصاً اپنے بچوں کی موت پر صبر کرنا مشکل ہوتا ہے، مگر یہ ناممکن نہیں۔ چنانچہ ایسی صورت میں صبر کیا
جائے اور خصوصاً زبان کو قابو میں رکھا
جائے کہ بے صبری کرنے سے صبر کا اجر تو ضائع ہو سکتا ہے مگر مرنے والا پلٹ کر نہیں
آسکتا۔(2) یہ بھی خیال رہے! نوحہ یعنی میّت کے اوصاف اور خوبیاں مبالغہ
کے ساتھ بڑھا چڑھا کر بیان کر کے آواز سے رونا، جس کو بَین بھی کہتے ہیں بالاجماع
حرام ہے۔ یونہی واویلا، گریبان پھاڑنا، منہ نوچنا، بال کھولنا، سر پر خاک ڈالنا،
سینہ کوٹنا، ران پر ہاتھ مارنا یہ سب جاہلیت کے کام ہیں اور حرام۔ اسی طرح آواز سے
رونا بھی منع ہے البتہ آواز بلند نہ ہو تو اس کی ممانعت نہیں۔(3)
حضور
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا:آنکھ کے آنسو اور دل کے غم کے سبب اللہ پاک عذاب نہیں فرماتا۔ بلکہ (زبان
کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ) اس کے سبب عذاب یا رحم فرماتا ہے اور گھر والوں کے
رونے کی وجہ سے میّت پر عذاب ہوتا ہے۔(4) یعنی جبکہ اس
نے وصیّت کی ہو یا وہاں رونے کا رواج ہو اور اس نے منع نہ کیا ہو، واللہ اعلم۔ یا
یہ مراد ہے کہ ان کے رونے سے اسے تکلیف ہوتی ہے کہ ایک روایت میں ہے: اے اﷲ کے بندو! اپنے مردے کو تکلیف نہ دو، جب تم رونے لگتے ہو وہ بھی روتا ہے۔(5) ہمیں چاہئے کہ ایسے مواقع پر خود بھی صبر و ہمت سے
کام لیں، دیگر گھر والوں کو بھی صبر کرنے اور میت کو تکلیف نہ دینے کی ترغیب
دلائیں اور زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب کرکے میت کو نفع پہنچائیں۔ موت تو یقیناً
برحق ہے اور ایک دن ہمیں بھی اس دنیا سے جانا ہی ہے اس لئے اپنی موت کو بھی ہرگز
فراموش نہ کریں اور گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کے ذریعے قبر و آخرت کی تیاری
کرتی رہیں۔ نیز ابھی سے اپنا یہ ذہن بنالیں کہ اگر میرے جیتے جی گھر میں کسی کی فوتگی ہوگئی تو ان شاء اللہ میں رضائے الٰہی پر راضی
رہتے ہوئے صبر کروں گی۔(6)اللہ پاک ہمیں صبر کرنے اور اپنی رضا پر راضی رہنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]الاستیعاب،
4/ 411 2کفریہ
کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص492 3بہار
شریعت حصہ4، ص 203 4بخاری،
1/ 441، حدیث: 1304 5معجم
کبیر، 25/ 10 ، حدیث: 1 6صحابیات
و صالحات اور صبر، ص 37