اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْنط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط
دُرود
شریف کی فضیلت
حضرت علامہ مَجدُالدّین فیروز آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ سے منقول ہے :جب کسی مجلس میں (یعنی لوگوں میں)بیٹھواورکہو: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد تو اللہ پاک تم پر ایک فِرِشتہ مقرّر فرمادے گا جو تم کو غیبت سے
بازرکھے گا۔اور جب مجلس سے اُٹھو تو کہو: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد تو فِرِشتہ لوگوں کو تمہاری غیبت کرنے سے باز رکھے گا ۔ (القول البدیع ،ص278)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب _ _صَلَّی
اللهُ علٰی مُحَمَّد
دنیا،
قبر(برزخ) اور آخرت
عام طور پر لوگ دو عالَموں (یعنی دنیا وآخرت) کے بارے میں گفتگو کرتے اور ان کے لئے
ہی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انسان کےلئےپانچ عالَم ہیں: عالَمِ اَرواح، عالَمِ دنیا،
عالَمِ برزخ، عالَمِ حشر اورعالَمِ آخرت(یعنی
جنت اور جہنم)۔ انسان
کےایک عالَم سے دوسرےعالَم میں منتقل ہونےکےاَسباب مُقَرَّرہیں۔ عالَمِ اَرواح سےعالَمِ
دنیامیں آنے کاسبب والدین ، عالَمِ دنیا سے عالَمِ برزخ میں جانے کا سبب موت، عالَمِ
برزخ سے عالَمِ حشر میں پہنچنے کاسبب صورِ اسرافیل اورعالَمِ حشر سے عالَمِ آخرت میں منتقل ہونے کا
سبب ایمان یا کفر ہے۔ الغرض! انسان کے پیشِ
نظر تین عالَم ہیں: (1)…… عالَمِ دنیا۔(2)…… عالَمِ برزخ اور (3)……عالَمِ آخرت ( یعنی جنت یا جہنم) اور ان تین میں سے
بھی دو کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ”دنیا و آخرت کو “جبکہ ایک تعداد ہے جو برزخ وقبر
کو بھولی بیٹھی ہے حالانکہ ’’برزخ “ ایسا عالَم ہے جس سےپہلےبھی دواوربعدمیں
بھی دوعالَم ہیں یہاں سےاس کی اہمیت کااندازہ
لگایاجاسکتا ہے۔
اس رسالے کے شروع میں دنیا کی اہمیت، قدر
ومنزلت اور حیثیت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں رہ کر قبر وآخرت میں کام آنے
والے اور فائدہ مند چند اعمال بیان کئے گئے ہیں، پھر قبر وبرزخ کے معاملات اور اس میں
کام آنے والے چند اعمال بیان ہوئے ہیں اور پھر آخرت کی اہمیت وفضیلت اور آخرت میں
فائدہ پہنچانے والے کچھ اعمال بیان ہوئے ہیں۔چنانچہ عالَمِ دنیا یہ بہت مختصر،
جلد ختم ہونے والااور فانی ہے، اس کی ابتدا
انسان کی پیدائش اور اختتام موت ہے۔ بعض کی دنیاوی زندگی عیش وعشرت میں گزرتی ہے جبکہ
بعض کی مصائب وآلام میں۔ اگر عیش وعشرت میں زندگی گزارنے والا مال دار مومن فرمانبردار
ہے تو کامیاب اور اگر نافرمان ہے تو دھوکے
کا شکار۔ اسی طرح مصائب و آلام میں زندگی گزارنے والا مسلمان اگر صابر وشاکر ہے تو
کامیاب اور اگر بےصبرا ور ناشکرا ہے تو ہلاکت میں
مبتلا ہوگا۔ یوں یہ دونوں ہی آزمائش میں ہیں۔ نیز دنیا اور اس کی نعمتوں کے حصول کے
لئے جتنی بھی کوشش کی جائے ملے گا اتنا ہی جتنا نصیب میں ہوگا۔ پس اس کی فانی نعمتوں
اور آسائشوں کے پیچھے بھاگنا خود کو مصائب وآلام میں ڈالنے اور تھکانے کے مترادف
ہے، لہٰذا اس کی حقیقت وحیثیت اور مقام ومرتبے کو سمجھنا چاہئے۔
چنانچہ دنیا وی زندگی کی حقیقت قرآنِ مجید(پ4: سورۃ اٰل عمرٰن:185) میں یوں بیان کی گئی ہے ترجمۂ کنز الایمان:
اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔
تفسیرخزائن
العرفان:مشہور
مفسر، خلیفَۂ اعلیٰ حضرت،
صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:
’’دنیا کی حقیقت اس مبارک جملہ نے بے حجاب کر دی۔ آدمی زندگانی پرمفتون (شیدائی ودیوانہ) ہوتا ہے۔ اسی کو سرمایہ سمجھتا ہے اور
اس فرصت کو بیکار ضائع کر دیتا ہے۔ وقت اخیر(موت
کے وقت) اسے معلوم
ہوتا ہے کہ اس میں بقانہ تھی۔ اس کے ساتھ دل لگانا حیاتِ باقی اور اُخروی زندگی کے
لئے سخت مُضَرَّت رساں (نقصان
دہ ثابت) ہوا۔ حضرت
سعید بن جبیر رَحْمَۃُ اللہِ
عَلَیْہنے فرمایا
کہ’’دنیا طالبِ دنیا کے لئے متاع غرور اور دھوکے کا سرمایہ ہے۔ لیکن آخرت کے طلب
گار کے لئے دولت باقی کے حصول کا ذریعہ اور نفع دینے والا سرمایہ ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمۂ کنز الایمان:
تو ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے دنیا کی زندگی۔(پ۲۱،لقمٰن:۳۳)تفسیر نور العرفان: مشہور مفسر، حکیم الاُمت مفتی احمد یار
خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ
عَلَیْہ اس کی تفسیر میں
لکھتے ہیں:’’دنیا کی زندگی کو باقی سمجھ کر رب سے غافل ہو جانا بڑی ہی غفلت ہے یہ تو
پانی کے بلبلے کی طرح خالی غلاف ہے جس کی کچھ حقیقت نہیں، خیال رہے کہ اولیاء، انبیاء
کی دنیاوی زندگی دنیا کی زندگی نہیں بلکہ آخرت کی زندگی ہے کہ وہ حضرات اس میں توشَۂ
آخرت جمع کر لیتے ہیں لہٰذا یہ آیت ہم جیسے غافلوں کو بیدار کرنے کے لئے ہے۔‘‘ (نور
العرفان، پ21،سورۂ لقمٰن، تحت الآیۃ:33)
دنیا کی حیثیت
حضرت سیِّدُناسہل بن سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہ
سےمروی ہے کہ حضورنبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا: لَوْ کانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَاللہِ جَنَاحَ
بَعُوْضَۃٍ مَّاسَقٰی کَافِرًا مِّنْہَاشَرْبَۃَ مَاءٍ یعنی اگر اللہ پاک کے نزدیک دنیا کی حیثیت مچھر کے پَر برابر بھی ہوتی تو وہ اس میں سے کسی
کافر کو پانی کا ایک گھونٹ نہ پلاتا۔ (ترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء فی ھوان الدنیا علی اللّٰہ، 4/ 143، حدیث:2327)
حضرت سیِّدُنا مُستَورِد بن شداد رَضِیَ اللہُ عَنْہ
سے مروی ہے کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
ارشاد فرمایا: وَاللہِ مَا
الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ اَحَدُكُمْ اِصْبَعَهُ ھٰذِہِ
فِي الْيَمِّ ، فَلْيَنْظُرْ بِمَ تَرجِعْ یعنی
بخدا! آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر
میں ڈالے پھر دیکھے کہ وہ کتنا پانی لے کر لوٹتی ہے۔ (مسلم
، کتاب الجنة وصفة نعیمھا
واھلھا، باب فناءالدنیاوبیان الحشریوم القیامة، ص:1171،حدیث
: 7197)
شرح حديث
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس
حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں:’’مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی بہت تنگ ہے اور فنا
ہونے والی ہے جبکہ آخرت دائمی ہے اور اس کی نعمتوں کو بھی ہمیشگی ہے لہٰذا اگر اِس
اعتبار سے دیکھا جائے تو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت وہی ہے جو انگلی پر لگنے
والے پانی کی سمندر کے مقابلے میں ہوتی ہے۔‘‘(شرح مسلم للنووی ،
9/ 192 ، الجزءالسابع عشر)
مشہور شارح حدیث، حکیم الامت مفتی احمد
یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مذکورہ حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’ یہ بھی فقط سمجھانے کے لیے ہے ورنہ فانی اور متناہی کو باقی ، غیر فانی ، غیر متناہی
سے (وہ) وجہ نسبت بھی نہیں جو بھیگی انگلی کی تری
کو سمندر سے ہے۔ خیال رہے کہ دنیا وہ ہے جو اللہ سے غافل کر دے، عاقل عارف کی دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے اس کی دنیا بہت ہی عظیم ہے۔ غافل کی نماز بھی دنیا ہے جو وہ نام نمود کے لیے
اداکرتا
ہے۔ عاقل(نیک، متقی و پرہیزگار) کا کھانا پینا ، سونا جاگنا بلکہ جینا
مرنا بھی دِین ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّم کی سنت ہے۔ مسلمان اس لیے کھائے پئے سوئے جاگے کہ
یہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی سنتیں ہیں۔ حَیَاۃُ الدُّنْیَا
اور چیز ہے، حَیاۃٌ فِی الدُّنْیَا اور حَیَاۃٌ لِّلدُّنْیَا کچھ اور یعنی دنیا کی زندگی، دنیا میں
زندگی ، دنیا کے لیے زندگی ، جو زندگی دنیا میں ہو مگر آخرت کے لیے ہو دنیا کے لیے
نہ ہو وہ مبارک ہے ۔ مولانا(روم
رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) فرماتے ہیں:
آب
اندر زیر کشتی پشتی است
آب در کشتی ہلاک کشتی است
یعنی:
کشتی دریا میں رہے تو نجات ہے : اور اگر دریا
کشتی میں آجاوے تو ہلاک ہے۔
مؤمن کا دل مال و اولاد میں رہنا چاہیے
مگر دل میں اللہ و رسول کے سوا کچھ نہ رہنا ضرو ری ہے ۔(مراۃ المناجیح،
7/ 3)
دنیا کیا ہے؟
مشہور مفسر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان
نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:’’خیال رہے کہ دُنیاوی زندگی
وہ ہے جونفسانی خواہشات میں خرچ ہو۔اورجوزندگی آخرت کی تیاری میں صرف ہو، وہ دُنیاکی
زندگی نہیں اگرچہ دُنیامیں زندگی ہے۔دُنیاکی زندگی اور ہے۔ دُنیا میں زندگی کچھ اور۔
دُنیاکی زندگی فانی ہے مگرجودُنیامیں زندگی آخرت کے لئے ہے، فنا نہیں۔‘‘(نور العرفان، پ30،سورۂ نازعات، تحت الآیۃ:39)
حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: دنیا کو دنیا اس لئے کہتے ہیں
کہ یہ’’دَنِيَّة یعنی گھٹیا‘‘ہے اور مال کو مال اس لئے کہتے
ہیں کہ یہ مال دار کوٹیڑھاکردیتا ہے۔ (حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء،7/ ۱۱، رقم:9339)
عقل مندی کا تقاضا
پس جب اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دنیا کی حقیقت اور حیثیت واضح طور پر
بیان کر دی تو اب عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لئے بقدر ضرورت ہی کوشش کی جائے
اور حرص و لالچ میں آ کر اسے حاصل کرنے کے لئے بلاضرورت خود کو مشقت میں نہ ڈالا جائے
کیونکہ اس کے پیچھے جتنا بھاگیں گے یہ اتنا ہی دور ہوتی جائے گی، اگر اسے چھوڑ دیا جائے اور کوئی اہمیت نہ دی جائے
تو پیچھے پیچھے آئے گی۔ اس کی مثال انسان کے سائے کی مثل ہے کہ اگر بندہ اپنے سائے
کے پیچھے بھاگے تو اسے پکڑ نہ سکے گا بلکہ وہ اسے تھکا دے گا اور اگر اسے چھوڑ کر مخالف
سمت میں چلنا شروع کر دیا جائے تو پیچھے پیچھے آتاہے دنیا کا حال بھی یہ ہی ہے۔ لہٰذا
دنیا میں اس طرح رہا جائے جس طرح حضور نبی
پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے رہنے کی تعلیم دی۔
دنیا میں مسافر کی طرح رہو
حضرت سیِّدُناعبداللہ بن عُمَررَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا بیان کرتےہیں کہ اللہ پاک کےآخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرا کاندھا پکڑکرارشادفرمایا:کُنْ فِی الدُّنْیَاکَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْکَعَابِرِ
سَبِیْلٍ یعنی دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم پردیسی
یامسافرہو۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی کن فی الدنیا…الخ، 4/ 223، حدیث:6416)
دنیا کے محبوب وپسندیدہ اعمال
ایک بار حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اَصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے، گفتگو
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:حُبِّبَ اِلَیَّ مِنْ
دُنْیَاکُمْ ثَلَاثٌ اَلطِّیْبُ وَالنِّسَاءُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی
الصَّلٰوۃِ ’’
یعنی مجھے تمہاری دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں: خوشبو لگانا،بیویاں اورنماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے۔‘‘یہ
سن کر حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آپ نے سچ فرمایا اور مجھے بھی دنیا کی
تین چیزیں محبوب ہیں: ’’ اَلنَّظْرُ اِلَی
وَجْہِ رَسُوْلِ اللہِ وَاِنْفَاقُ مَالِیْ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ وَاَنْ یَّکُوْنَ
اِبْنَتِیْ تَحْتَ رَسُوْلِ اللہِ یعنی
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کے رُخِ روشن کی
زیارت کرنا، اپنا مال آپ کی مبارک ذات پر نچھاور کرنا اور اپنی بیٹی کو آپ کے نکاح
میں دینا ۔‘‘ یہ سن کر حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے
بارگاہِ صدیقی میں عرض کی: آپرَضِیَ اللہُ عَنْہ نے
سچ فرمایا اور مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں محبوب ہیں: ’’اَلْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْف وَالنَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَر
وَالثَّوْبُ الْخَلِقُ یعنی نیکی کا حکم دینا، برائی سے منع کرنا اور پرانے
کپڑے پہننا۔‘‘ یہ سن کر حضرت سیِّدُنا عثمان غنی ذوالنورین رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے
بارگاہِ فاروقی میں عرض کی: آپرَضِیَ اللہُ عَنْہ نے سچ فرمایا اور مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں محبوب ہیں: ’’اِشْبَاعُ الْجِیْعَانِ وَکِسْوَۃُ الْعُرْیَانِ وَتِلَاوَۃُ
الْقُرْاٰنِ یعنی
بھوکے کا پیٹ بھرنا، بےلباس کو کپڑے پہنانا اور قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا۔‘‘ یہ سن
کر حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ
الْکَرِیْمنے بارگاہِ
عثمانی میں عرض کی: آپرَضِیَ اللہُ عَنْہ نے
سچ فرمایا اور مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں
محبوب ہیں: ’’اَلْخِدْمَۃُ لِلضَّیْف
وَالصَّوْمُ فِی الصَّیْف وَالضَّرْبُ بِالسَّیْف یعنی مہمان کی خدمت کرنا، گرمیوں میں روزے
رکھنا اور تلوار کے ساتھ جہاد کرنا۔‘‘ یہ تمام گفتگو سن کر حضرت سیِّدُنا جبرائیل امین عَلَیْہِ السَّلَام بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:
اللہ پاک نے آپ سب کی یہ گفتگو سن کر مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھ سے بھی یہ استفسار فرمائیں کہ اگر میں دنیا والوں میں سے ہوتا تو مجھے کون سی چیزیں محبوب ہوتیں۔ اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
اِستفسار فرمایا:اے جبرائیل! اگر تم دنیا والوں میں سے ہوتے تو تمہیں کون سی چیزیں
محبوب ہوتیں۔عرض کی: ’’ اِرْشَادُ الضَّالِّیْنَ
وَمُوَانَسَۃُ الْغُرَبَاءِ الْقَانِتِیْنَ وَمُعَاوَنَۃُ اَھْلِ الْعَیَالِ الْمُعْسِرِیْنَ
‘‘یعنی راہ بھولنے
والوں کو راہ دکھانا، فرمانبردار اجنبیوں سے ہمدردی کرنا اور تنگ دست عیال دار کی مدد کرنا۔‘‘
پھر حضرت سیِّدُنا جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام عرض گزار ہوئے: اللہ پاک کوبھی اپنے بندوں کی تین خصلتیں محبوب ہیں: ’’بَذْلُ الْاِسْتِطَاعَۃ وَالْبُکَاءُ عِنْدَ النَّدَامَۃِ وَالصَّبْرُ
عِنْدَ الْفَاقَۃِ یعنی
(نیکیوں کے معاملے میں ) اپنی
طاقت کو خرچ کرنا، ندامت کے وقت رونا اور فاقے کی حالت میں صبرکرنا۔‘‘(المنبھات لابن حجر،
ص :27)
حضرت سیِّدُنا ابو دَرْدَاء رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرمایا کرتے کہ اگر
تین چیزیں نہ ہوتیں تو میں موت کو ترجیح دیتا۔ عرض کی گئی: وہ تین چیزیں کون سی ہیں؟ارشاد
فرمایا:(1)……دن رات اپنے ربّ کریم کے حضور سجدے کرنا، (2)……سخت گرمی کے دنوں میں پیاسا
رہنا (یعنی روزے رکھنا) اور (3)……ان لوگوں کے حلقوں میں بیٹھناجو کلام کوعمدہ پھلوں
کی طرح چنتے ہیں۔پھر فرمایا: کمال درجہ کا تقویٰ یہ ہے کہ بندہ ایک ذرّہ کے معاملے
میں بھی اللہ پاک سے ڈرے اورجس حلال میں ذرّہ بھر حرام کا شبہ ہو اسے ترک کر دے ،اس
طرح وہ اپنے اور حرام کے درمیان مضبوط آڑ بنالے گا۔(الزھد الکبیر للبیھقی، ص ۳۲۴، حدیث:۸۷۰)
حضرت سیِّدُنامعضد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ اگر تین چیزیں نہ ہوتیں تو مجھے اپنے شہد کی مکھی
ہونے کی بھی پروا نہ ہوتی: (1)……گرمیوں کی دوپہر کی پیاس (یعنی گرمیوں کے روزے)، (2)……(عبادت کے لئے) سردیوں کی لمبی راتیں اور (3)……نماز تہجد
میں کِتَابُ اللہ (تلاوت
قرآن) کی لذت۔(حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ۴/ ۱۷۴، رقم:۵۱۶۱)
دنیا کے تین حصے اور ان کی وضاحت
دُنیاکے تین حصے ہیں:(1)…وہ جس میں ثواب ہے (2)…وہ جس کاحساب ہے اور (3)…وہ جس میں عذاب ہے ۔ ثواب والا حصہ: وہ ہےجس کے وسیلے سے
بندہ بھلائی تک پہنچتا اور بُرائی سے نجات پاتا ہے۔ یہ مومن کی سواری، آخرت کی کھیتی اور کفایت کرنے والی حلال
روزی ہے۔ حساب والا حصہ: وہ ہے جس کی وجہ سے تو کسی حکم کی ادائیگی سے غافل نہ ہو اور
اس کی طلب میں کسی ناجائز کام کا ارتکاب نہ کرے اور اس کے اہل وہ اغنیا(مال دار) ہیں جن کا حساب طویل ہوگا، فقرا (غریب، مسکین جن کے پاس دنیاوی مال ودولت
نہیں ہے وہ) ان
سے 500 سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ عذاب والا حصہ: وہ ہے جس میں بندہ تمام ضروری
اُمور کی ادائیگی سے دور ہو کر گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جو اس حصے کا مالک بنے
گا یہ اس کو آگ کی طرف بڑھائے گا اور خسارے کے گھر میں دھکیل دے گا۔( الرسالة المذکرة،ص۴۱)
خلاصہ
پس یہ دنیا جس میں
ہم زندگی گزاررہے ہیں ، آخرت کی کھیتی ہے،ہم
پر لازم ہے کہ اپنی عمر بھلائی کے کاموں میں صرف کریں کیونکہ ہرنئے دن ، دنیا ہم سے
دور ہوتی جارہی ہے اور آخرت ہمارے قریب آرہی ہے،آج عمل کاموقع ہے اورکوئی حساب نہیں
لیکن کل صرف حساب ہوگا اورکچھ عمل نہ کرسکیں گے۔ نیز جب دنیا اتنی ناپائیدار، فانی
اور جلد فنا ہونے والی ہے تو عقل مند وہی ہے جو اس کے لئے اتنی ہی بھاگ دوڑ اور تیاری
کرے جتنا اس میں رہنا ہے۔ پھر چونکہ یہ آخرت کی کھیتی ہے اور اس میں جو بوئیں گے وہی
کاٹیں گے تو چاہئے کہ دنیاوی زندگی کو قبر وآخرت کی تیاری میں بسر کیا جائے نہ کہ
صرف دنیا بنانے اور سنوارنے میں۔
عالَمِ برزخ
دنیا و آخرت کے درمیان ایک اور عالَم ہے
جسے برزخ کہتے ہیں۔ تمام انسانوں اور جنّوں کو حسب مراتب اُس میں رہنا ہوتا ہے اور
یہ عالَم اِس دنیا سے بہت بڑا ہے۔ دنیا کے ساتھ برزخ کو وہی نسبت ہے جو ماں کے پیٹ
کے ساتھ دنیا کو۔ برزخ میں کسی کو آرام ہے اور کسی کو تکلیف۔ چونکہ برزخی زندگی دنیاوی
زندگی کے مقابلے میں بہت طویل ہے لیکن ختم ہونے والی ہے۔ اس کی ابتدا موت اور اختتام
حشر کے لئے قیامت کے دن اٹھنا۔چنانچہ:اللہ
پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:(پ18،المؤمنون:۱۰۰)ترجمۂ کنزالایمان: اور ان کے آگے ایک
آڑ ہے اُس دن تک جس میں اٹھائے جائیں گے۔تفسیر خزائن العرفان:
مشہور مفسر، خلیفَۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ’’ان کے آگے ایک آڑ ہے‘‘کے تحت فرماتے
ہیں: ’’جو انہیں دنیا کی طرف واپس ہونے سے مانع (روکے ہوئے)ہے اور وہ موت ہے۔(خازن، پ 18، المؤمنون، تحت الاٰیۃ:۱۰۰، ۳/ ۳۳۱) بعض مفسرین نے کہا کہ برزخ وقت موت سے وقْتِ
بعث (یعنی قیامت کے
دن اٹھائے جانے) تک کی مدت
کو کہتے ہیں۔‘‘
برزخ کیا ہے؟
برزخ کے لفظی معنیٰ آڑ اور پردہ کے ہیں
اور مرنے کے بعد سے لے کر قیامت میں اٹھنے تک کا وقفہ برزخ کہلاتا ہے۔ سیِّدی اعلیٰ
حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں عرض کی گئی: ’’برزخ کی تعریف
تو یہ ہے کہ جو دو چیزوں کے درمیان متوسط ہو، جسے دونوں سے علاقہ ہو سکے۔ جب صرف برزخ
کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس کا مفہوم قبر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ برزخ سے مراد قبر ہے
یا وہ زمانہ جو مرنے کے بعد سے قیامت یا حشر تک ہے؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: نہ قبر نہ وہ زمانہ بلکہ وہ
مقامات جن میں موت کے بعد حشر تک روحیں حسب مراتب رہتی ہیں ۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت،ص
455 بحوالہ: مفردات الفاظ القراٰن
للراغب الاصفہانی، ص
118)
آخرت کی پہلی منزل
عالَم برزخ آخرت کی منزلوں میں سے پہلی
منزل ہے جس نے اس میں نجات پائی اس کے لئے آگے کی منزلیں آسان ہوں گی۔ چنانچہ مروی
ہے کہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی ذوالنورین رَضِیَ اللہُ عَنْہ
جب کسی قبر پرتشریف لاتےتواس قدرآنسو بہاتے کہ آپ کی داڑھی مبارک ترہوجاتی ۔ عرض
کی گئی: جنت ودوزخ کا تذکرہ کرتے وقت آپ نہیں روتے مگر قبر پربہت روتےہیں اس کی وجہ کیاہے؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے حضورنبی پاک
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم سےسنا
ہےکہ بےشک آخرت کی سب سے پہلی منزل قبر ہے، اگر قبر والے نے اس سے نجات پائی تو بعد کا معاملہ
اس سے آسان ہے اور اگر اس سے نجات نہ پائی تو بعد کا معاملہ زیادہ سخت ہے۔ ( ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب القبر والبلی،
۴/ ۵۰۰، حدیث:۴۲۶۷)
حضرت سیِّدُنابَراءبن عازبرَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان
کرتےہیں:ہم حضورنبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے
ہمراہ ایک جنازے میں شریک تھے تو آپ قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور اتنا روئے کہ مٹی بھیگ
گئی۔ پھرارشاد فرمایا: اس کے لئے تیاری کرو۔)ابن
ماجہ ، کتاب الزھد، باب الحزن والبکاء، 4/ 466، حدیث :4195)
مسلمانوں کے پہلے خلیفہ امیرالمؤمنین حضرت
سیِّدُناابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: مَنْ دَخَلَ الْقَبْرَ
بِلَازَادٍ فَکَاَنَّمَا رَکِبَ الْبَحْرَ بِلَاسَفِیْنَۃٍ یعنی جو شخص قبر میں توشہ(یعنی نیک اعمال)کے بغیر داخل ہوا اس کی مثال اس شخص کی
طرح ہے جو سمندر میں کشتی کے بغیر داخل ہو جائے۔(المنبھات لابن حجر،
ص:3)
کوئی راحت میں تو کوئی تکلیف میں
دنیاکی طرح برزخ میں بھی لوگوں کی مختلف
حالتیں ہوتی ہیں۔ بعض عیش وعشرت میں ہوتے ہیں اور بعض تکلیف میں، جس نے دنیا میں اللہ
پاک اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی
اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوئے زندگی گزاری اور رحمتِ الٰہی شاملِ حال رہی تو وہ برزخ
وقبر میں بھی راحت و سکون میں ہوگا خواہ مال دار ہو یا فقیر اور جس نے نافرمانی میں
زندگی بسر کی اور رحمت الٰہی اس کے شامل حال نہ رہی تو وہ برزخ میں سخت تکالیف میں
مبتلا ہوگا۔ چنانچہ
باغ یا گڑھا
حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِّنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، اَوْ
حُفْرَةٌ مِّنْ حُفَرِ النَّارِ یعنی
قبر جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔(ترمذی، کتاب صفة القیامة، باب حدیث: اکثروا من ذکر ھاذم
اللذات، باب : 91،ج: 4/ 209، حدیث:2468) شرح حدیث :مشہور شارح حدیث، حکیم الامت مفتی احمد
یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:مؤمن کی قَبر میں جَنّت کی
خوشبوئیں، وہاں کی تَروتازگی آتی رہتی ہیں۔کافر کی قبر میں دوزخ کی گرمی وہاں کی بَدبُو
پہنچتی رہتی ہے۔بُزرگوں کی قَبروں کو اُردو میں رَوضہ کہتے ہیں۔ فُلاں بُزرگ کا رَوضہ۔یہ
لفظ اِسی حَدیث سے مَاخوذ ہے یعنی جنّت کا باغ۔(مراٰۃ المناجیح،7/
160)
قبر کی پکار
حضرت سیِّدُناعبداللہ بن عُبَیْدرَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ سے
مروی ہے کہ مردے کوجب قبرمیں رکھاجاتاہے تووہ بیٹھ جاتاہے اورجنازے کے ساتھ آنے والوں
کے قدموں کی آواز سنتاہے، سب سے پہلے اس کی قبراس سے کلام کرتے ہوئے کہتی ہے: اے اِبْنِ
آدم! تیرابُراہوکیاتجھے مجھ سے ڈرایانہیں گیا؟کیاتجھے میری تنگی، بدبو، وحشت، ہولناکی
اور کیڑے مکوڑوں کاخوف نہ دلایاگیاتھا؟یہ میں نے آج کے دن کے لئے تیارکئے ہیں تُو
بتا تُونے میرے لئے کیاتیاری کی ہے؟ (مارواہ نعیم بن حماد ملحق الزھدلابن مبارک، باب مایبشربہ المیت عندالموت …الخ ، ص41، حدیث : 163 ،ملخصًا)
قبر کا محبوب اورمبغوض بندہ
حضرت سیِّدُنا بِلال بن سَعدرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ قبر روزانہ پکار کر کہتی
ہے:مىں تنہائی، وَحْشَت اورکیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، مىں جہنم کے گڑھوں مىں سےایک گڑھا
ہوں ىا جنت کے باغوں مىں سے ایک باغ۔ جب مومن کو قبر مىں اُتارا جاتا ہےتوقبر کہتى
ہے:جب تو مىرى پُشت پر چلتا تھا تو مجھے بہت عزىز تھا اور اب جبکہ تو میرے پیٹ میں
آگیا ہے تو مىرا حُسنِ سلوک دىکھ لےگا۔ چنانچہ
قبر حد نگاہ تک وسیع ہوجاتی ہے اور جب کافر کو قبر مىں رکھاجاتا ہے تو قبر کہتی ہے:
جب تو میری پشت پر چلتا تھا تب بھی مجھے انتہائی ناپسند تھا اور اب تو تجھے میرے حوالے
کر دیا گیا ہے اب دیکھ میں تیرا کیا حال کرتی ہوں۔ پس قبر اسے ایسا دباتی ہے کہ اس
کى پسلىاں ٹوٹ پھوٹ جاتى ہىں۔(شعب الایمان ، باب فی ان دار المؤمنين ، 1 / 360، حدیث : 401)
حکایت: تین دوست
حضرت سیِّدُناعاصم ر َحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سےمروی ہے کہ حضرت سیِّدُنا عُبَیْد بن
عُمَیْررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک شخص کے تین خاص دوست تھے،ہرایک
دوسرےسےبڑھ کرتھا۔ایک مرتبہ اس پر مصیبت آپڑی توو ہ سب سے خاص دوست کے پاس گیا اور
کہا:اے فلاں ! مجھ پر فلاں مصیبت آپڑی ہےاورمیں چاہتا ہوں کہ آپ میری مدد کریں۔ اس
دوست نے جواب دیا:میں کچھ نہیں کرسکتا۔ وہ دوسرے کےپاس گیااوربتایاکہ مجھ پرفلاں مصیبت آپڑی ہےاورمیں چاہتاہوں کہ آپ میری مدد کریں۔
اس نے کہا:جہاں آپ جانا چاہتے ہیں وہاں تک میں آپ کے ساتھ چلوں گا جب وہاں پہنچو گے
تو میں تمہیں چھوڑ کر واپس پلٹ آؤں گا۔ وہ تیسرے کے پاس گیا اور کہا: اے فلاں!مجھے
فلاں فلاں مصیبت کا سامنا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ میری مددکریں۔اس نےکہا:آپ جہاں جائیں
گے میں ساتھ جاؤں گااورجہاں داخل ہوں گے میں بھی آپ کے ساتھ رہوں گا۔حضرت سیِّدُنا
عُبَیْد بن عُمَیْر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:پہلا دوست اس کا مال ہے جو
اس کے پیچھے گھر والوں کے پاس رہ گیا اس میں سے کچھ بھی اُس کے ساتھ نہیں گیا۔ دوسرادوست اس کےگھر والےاوررشتہ
دار ہیں جو قبر تک اس کے ساتھ گئے پھر اسے چھوڑ کر لوٹ آئے اور تیسرا دو ست اس کا عمل
ہے جو اس کے ساتھ ہوگااور جہاں وہ جائے گا اور جس جگہ داخل ہوگا وہ اس کے ساتھ رہے
گا۔(حلیة
الاولیاء وطبقات الاصفیاء، 3 / 308، حدیث: 4046)
خلاصہ
مذکورہ روایات سے معلوم ہوا کہ قبر وبرزخ
میں لوگوں کی مختلف حالتیں ہوں گی، بعض خوش نصیب نعمتوں میں ہوتے ہیں حتی کہ بعض کے
جسم اور کفن تک سلامت رہتے ہیں جبکہ بعض بدنصیب عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں یہاں تک کہ
ان کے جسم بھی گل سڑ جاتے ہیں۔ نیز مال ودولت اور رشتے دار واحباب قبرستان تک ہی مرنے
والے کے ساتھ جاتے ہیں جبکہ اعمال اچھے ہوں یا برے قبر میں بھی اس کے ساتھ رہتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ خود بھی نیکی کریں اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دیں کہ نیکی
کرنے اور نیکی کی دعوت دینے والوں کی قبریں روشن ہوں گی۔ چنانچہ
قبریں روشن ہوں گی
اللہ پاک نے حضرت سیِّدُنا موسیٰ کَلِیْمُ
اللہ عَلَیْہِ السَّلام کی طرف وحی فرمائی:’’بھلائی کی باتیں خود
بھی سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کہ میں بھلائی سیکھنے اور سکھانے والوں کی قبروں
کو روشن فرماؤں گا تاکہ انہیں کسی قسم کی وَحشت نہ ہو۔‘‘ ( حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء، 6/ 5، حدیث: 7622)
مرنے کے بعد کام آنے اور نقصان دینے والےچند اعمال
کام آنے والے اعمال: نماز پڑھناکہ نماز اندھیری قبر کا چراغ
ہے، صدقہ کرنا، تلاوت قرآن کرنا بالخصوص سورۂ ملک کی تلاوت، ذکر اللہ کرنا، باوضو
رہنا، راہِ خدا میں شہادت، لمبے لمبے سجدے کرنا، نیکوں سے محبت کہ حدیث پاک کا مفہوم
ہے: ’’بندہ اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اُسے محبت ہوگی۔‘‘(بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،باب مناقب عمر بن خطاب…الخ،
2/ 527، حدیث:
3688)، اطاعت
و فرمانبرداری میں زندگی گزارنا وغیرہ۔نقصان دینے والے اعمال: گناہ ونافرمانی،جھوٹ،
خیانت، چغلی، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا کہ عذاب قبر عموماً پیشاب کے چھینٹوں سے
نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
ماقبل میں ہم نے پڑھا کہ عالَمِ برزخ میں
بعض عیش وعشرت میں ہوتے ہیں حتی کہ ان جسم اور کفن بھی سلامت رہتے ہیں، مٹی انہیں کچھ
بھی نقصان نہیں پہنچاتی، ان میں شامل خوش نصیب افراد میں سے چند یہ ہیں۔
شہدا کو مردہ نہ کہو
قرآن مجید میں شہدا کی فضیلت میں ارشاد ہوا: #"ò¯ ñ ð " A E6 ÂSuöÉõwô'&"Æ'ترجمۂ کنزالایمان: اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ
وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔(پ۲،البقرة:۱۵۴) تفسیرخزائن العرفان: مشہور مفسر،
خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس آیتِ مبارکہ کے
تحت فرماتے ہیں: ’’موت کے بعد ہی اللہ تعالیٰ شُہدا کو حیات عطا فرماتا ہے، ان کی ا
رواح پر رزق پیش کئے جاتے ہیں، انہیں راحتیں دی جاتی ہیں، ان کے عمل جاری رہتے ہیں،
اجرو ثواب بڑھتا رہتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ شہدا کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں
جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔
مسئلہ: اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار
بندوں کو قبر میں جنتی نعمتیں ملتی ہیں۔ شہید وہ مسلمان مکلف ظاہر ہے جو تیز ہتھیار
سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو، یا معرکَۂ جنگ میں
مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ آسائش نہ پائی۔ اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں:
کہ نہ اس کو غسل دیا جائے نہ کفن ، اپنے کپڑوں میں ہی رکھا جائے، اس پر نماز پڑھی جائے،
اسی حالت میں دفن کیا جائے۔ آخرت میں شہید کا بڑا رتبہ ہے۔ بعض شہداء وہ ہیں کہ ان
پر دنیا کے یہ احکام تو جاری نہیں ہوتے لیکن آخرت میں ان کے لئے شہادت کا درجہ ہے جیسے
ڈوب کر یا جل کر، یا دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا،طلبِ علم، سفرِحج، غرض راہِ خدا
میں مرنے والا اور نفاس میں مرنے والی عورت اور پیٹ کے مرض اور طاعون اور ذات الجنب
اور سِل( یعنی پسلی کے درد اور پھیپھڑوں کی بیماری وپرانے بخار) میں اور جمعہ کے
روز مرنے والے وغیرہ۔
شہیدوں کو مردہ گمان بھی نہ کرو
مذکورہ بالاآیت میں شہدا کو
مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے، نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی اجازت ہے اور نہ دل میں
انہیں مردہ سمجھنے کی اجازت ہے، جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ لا(۱۶۹) ترجمۂ کنز الایمان:
اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب
کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ (پ۴،اٰل عمرٰن:۱۶۹) تفسیر خزائن العرفان: مشہور مفسر، خلیفَۂ
اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ’’(روزی پاتے ہیں) اور
زندوں کی طرح کھاتے پیتے عیش کرتے ہیں۔ سیاقِ آیت اس پر دلالت کرتا ہے کہ حیات روح
و جسم دونوں کے لئے ہے علماء نے فرمایا کہ شہدا کے
جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں مٹی ان کو نقصان نہیں پہنچاتی اور زمانۂ صحابہ میں اور اس کے بعد بکثرت معائنہ ہوا ہے کہ
اگر کبھی شہدا کی قبریں کھل گئیں تو ان کے جسم تر و تازہ پائے گئے(خازن وغیرہ)۔ (خازن، پ:4، اٰل عمرٰن، تحت الاٰیۃ:169، 1/ 323)
انبیا اپنی قبروں میں زندہ ہیں
حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہارے دنوں میں سب سے
افضل دن جمعہ کا دن ہے، لہٰذا اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود
مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔ صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان نے
عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اس وقت ہمارا درود آپ کی بارگاہ میں کیسے پیش ہوگا
جب کہ قبر انور میں آپ کا جسم مبارک بکھر کر پرانی ہڈیوں کی صورت میں ہوجائے گا؟ تو
اللہ پاک کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
ارشاد فرمایا: اِنَّ اللہَ حَرَّمَ
عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء فَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ
یُّرْزَقُ یعنی
اللہ پاک نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے، پس اللہ کا نبی
زندہ ہےرزق دیا جاتا ہے۔ ( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، 2/ 291، حدیث:1637)
ایک روایت میں ہے: اَلْاَنْبِیَاءُ اَحْیَاءٌ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ یعنی انبیا زندہ ہیں اپنی قبروں میں نمازیں
پڑھتے ہیں۔( مسند ابی یعلی،
3/216،حدیث:3412)
وہ اجسام جن کو مٹی نقصان نہیں پہنچاتی
انبیائےکرام عَلَیْہِمُ السَّلام
، اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ، علمائے دِین و شہدائے عظام، باعمل حفاظِ
قرآن، وہ جو منصبِ محبت پر فائز ہیں، وہ جس
نے کبھی اللہ پاک کی نافرمانی نہ کی اور وہ جو کثرت سے دُرُودْ شریف پڑھتا رہے، ان
کے بدن کو مٹی نہیں کھا سکتی۔(ہمارا
اسلام، عالم برزخ، حصہ5، ص250 ملخصًا، بہار شریعت، حصہ1، 1/ 114)ثواب کی خاطِر اذان دینے والا اُس شہید
کی مانند ہے جوخون میں لِتھڑا ہوا ہے اورجب مرے گا، قبر میں اس کے جسم میں کیڑے نہیں پڑیں گے۔(الترغیب والترھیب،کتاب الصلاة،باب الترغیب فی الاذان وما
جاء فی فضلہ، 1/ 139، حدیث: 384)
ابنِ ابی الدنیا نے مالک سے روایت کی ہے
کہ مومنین کی ارواح جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں۔ مؤمنین سے مراد کاملین ہیں ، حق تعالیٰ ان کے جسموں کو روحوں کی قوت عطا فرماتا ہے تو وہ قبروں میں نماز ادا کرتے اور ذکر کرتے ہیں اور قرآنِ کریم پڑھتے ہیں۔ (صراط الجنان،9/8
45)
بارگاہِ رِسالت میں اُمَّت کے اعمال
نیز حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے حضرت سیِّدُنا سعید بن مسیب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی روایت سے نقل فرمایا کہ کوئی دن ایسا
نہیں کہ صبح وشام امت کے اعمال بارگاہِ رسالت میں پیش نہ کئے جاتے ہو۔ اچھے اعمال دیکھ
کر آپ شکر بجا لاتے اور بُرے اعمال دیکھ کر
مغفر ت کی دعا کر تے ہیں۔( مسند
البزار، مسند عبداللہ بن مسعود، ۵/ ۳۰۸، حدیث: ۱۹۲۵۔ شرح الزرقانی علی المواھب، المقصد العاشر، 12/ 195)
ایک روایت میں حضرت سیِّدُنا اَنَس بن مالک
رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے مروی
ہے کہ حُضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
ارشاد فرمایا: اِنَّ اَعْمَالَ
اُمَّتِيْ تُعْرَضُ عَلَيَّ فِيْ كُلِّ يَوْمِ جُمُعَةٍ یعنی میری اُمَّت کے اعمال ہر جمعہ کے
دن مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں۔(تفسیر الثعلبی،
پ:18، النور، تحت الاٰیۃ:۲، ۷/ 65)
اسی طرح والدین کی قبر میں بھی اولاد کے
اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ منقول ہے کہ’’ہر جمعہ فوت شدہ والدین کو قبر میں ان
کی اولاد کے اچّھے بُرے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، نیکیاں دیکھ کر وہ خوش ہوتے ہیں اور
ان کا چہرہ خوشی سے کِھل اٹھتا ہے (یعنی
ان کے چہرے پر خوشی کے آثار ہوتے ہیں)
جبکہ گناہ دیکھ کر رنجیدہ (یعنی
غمگین)ہوتے ہیں۔(فتاویٰ رضویہ، 24/392، 401 ماخوذاً)
خلاصہ
مذکورہ آیات، روایات
اور اقوال سے جہاں یہ پتا چلا کہ خوش نصیب عالَم برزخ میں راحت اور عیش عشرت میں رہتے
ہیں، اسی طرح یہ بھی علم ہوا کہ حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے روضَۂ انور میں
امتیوں کے اور مرحوم والدین کی قبروں میں اولاد کے اعمال پیش ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے
کام کرنے چاہئیں جن سے انہیں راحت پہنچے اور ان کاموں سے بچنا چاہئے جو انہیں رنجیدہ
کریں۔ نیز ہر مسلمان کو چاہئے کہ عالَمِ برزخ میں راحت وسکون پانے اور خوش نصیب لوگوں
کے گروہ میں شامل ہونے کے لئے قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارے، گناہ
ونافرمانی سے باز رہے تاکہ قبر جنت کا باغ بنے۔
عالَمِ آخرت
اُخروی زندگی نہ ختم ہونے والی اور ہمیشہ
باقی رہنے والی ہے۔ اس کی ابتدا قیامت کے دن حشر کے لئے اٹھنا ہے، اس کی کوئی انتہا
نہیں، خواہ من مانتی نعمتوں(جنت) میں ہو یا درد ناک عذاب(جہنم)میں۔سیِّدی اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام
احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ علما فرماتے ہیں: دنیا
کو برزخ سے وہی نسبت ہے جو رحم مادر(ماں
کے رحم) کو دنیا سے، پھر
برزخ کو آخرت سے یہی نسبت ہے جو دنیا کو برزخ سے۔(فتاوی رضویہ، 9/ 707) دنیا اور برزخ کی طرح عالَمِ آخرت میں بھی لوگ دو گروہ ہوں گے ایک گروہ رحمت
الٰہی سےجنتی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے والا اور دوسرا جہنم کے درد ناک عذاب میں گرفتار
ہوگا،پہلا گروہ مؤمنین کا اور دوسرا کفار ومشرکین کا۔ پھر روایات سے یہ بھی ثابت ہے
کہ بعض مؤمنین بھی اپنے بُرے اعمال کے عوض کچھ وقت کے لئے گرفتار عذاب ہوں گے اور بہت
سے خوش نصیب وہ ہوں گے جو بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے۔ لہٰذا ایسے اعمال اختیار کئے
جائیں کہ دنیا میں ایمان ونیک اعمال پر ثابت قدمی اور موت کے وقت کلمہ طیبہ نصیب ہو
کہ حدیث پاک میں ہے: ’’جس کا آخری کلام ’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘(کلمہ طیبہ) ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘(ابو داود، کتاب الجنائز، باب فی التلقین، ۳/ ۲۵۵، حدیث:۳۱۱۶) پس خوش نصیب ہیں وہ جو دنیا میں رہتے ہوئے
اپنی قبر وآخرت کی تیار ی میں مشغول رہتے ہیں۔وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دیتے
بلکہ دنیا ان کے نزدیک ٹھیکری اور آخرت سونا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک دنیاوی زندگی کو
آخرت کی زندگی پر ترجیح دینے والوں کی مذمت اور اُخروی زندگی کی بقا وبھلائی کو بیان
کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا٘ۖ(۱۶) وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ
اَبْقٰىؕ(۱۷)ترجمۂ
کنز الایمان: بلکہ تم جیتی دنیا کو ترجیح دیتے ہو اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی۔(پ۳۰،الاعلی:17،16)
تفسیر نور العرفان: مشہور مفسر،
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ ان
آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’خیال رہے کہ دنیاوی زندگی چار قسم کی ہے۔ طغیانی، شیطانی،
نفسانی، ایمانی۔طغیانی زندگی :وہ ہے جو اللہ ورسول کی مخالفت میں گزرے
جیسے فرعون یا ابو جہل کی زندگی۔ نفسانی وشیطانی زندگی :وہ جو نفس امارہ
کی پرورش اور ربّ سے غفلت میں گزرے جیسے عام غافلوں کی زندگی۔
ایمانی
زندگی: جو آخرت کی تیاری میں گزرے جیسے صحابَۂ کرام
عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان کی زندگی، یہاں پہلی دو زندگیاں مراد ہیں، دنیاوی زندگی صِفَرْ
کی مثل ہے اگر اکیلی رہے تو خالی، اور اگر کسی عدد سے مل جائے تو اس کو دس گنا بنا
دے، اگر یہ آخرت سے مل جائے تو دس گنا بلکہ سات سو گنا کردے اللہ نصیب کرے آمین۔
آخرت سے مراد آخری زندگی ہے جس کی ابتداء قبروں سے اٹھنے پر ہے، انتہاء کوئی نہیں،
وہ پچھلی تین زندگیوں سے اعلیٰ ہے۔ یعنی دنیا میں آنے سے پہلے کی زندگی، دنیاوی زندگی،
برزخی زندگی، یہاں آخرت کی زندگی دو وجہوں سےاعلیٰ فرمائی گئی تواس لئے کہ وہاں کی راحتیں تکلیف سے مخلوط(یعنی ملی ہوئی) نہیں۔ کسی نعمت میں
حاکم، حکیم، عالِم کی روک ٹوک نہیں، ربّ کی ناراضگی کا اندیشہ نہیں، اس لئے ہے کہ اسے فنا نہیں وہاں فنا کرنے والی چیز یعنی
موت بھی فنا ہو جائے گی، جس نیکی کا تعلق آخرت سے ہو جائے وہ باقی بن جاتی ہے۔ ‘‘
(نور العرفان، پ: 30،سورۂ اعلیٰ، تحت الآیۃ:17) پس بڑا نادان اور
بیوقوف ہے وہ جو ہمیشہ رہنے والی آخرت کو چھوڑ کر فانی اور دھوکے باز دنیا کو اہمیت
دے اور اسی کے لئے بھاگ دوڑ کرے اور اپنی آخرت کو نقصان پہنچائے۔
باقی کو فانی پر ترجیح دو
حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنی دنیا سے محبت
کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو آخرت سے محبت کرتا ہے وہ اپنی دنیا
کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پس تم باقی رہنے والی (آخرت) کو فنا ہونے والی (دنیا)پر ترجیح دو۔ (مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی
موسیٰ الاشعری، ۷/ ۱۶۵، حدیث:۱۹۷۱۷)
دنیا ٹھیکری اور آخرت سونا ہے
حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اگر دنیا سونے کی ہوتی پھر
بھی فنا ہو جاتی اور اگر آخرت ٹھیکری (مٹی) کی ہوتی تو بھی باقی رہتی۔ اس لئے ہمیں
چاہئے کہ ہم باقی رہنے والی ٹھیکری کو ختم ہو جانے والے سونے پر ترجیح دیں، تو اس کا
کیا بنے گا جس نے باقی رہنے والے سونے(یعنی
آخرت) کے مقابلے میں
فنا ہونے والی ٹھیکری(یعنی
دنیا) کو اختیار کر
رکھا ہے۔(احیاء علوم الدین،
کتاب ذم الدنیا، باب بیان ذم الدنیا،۳/ ۲۵۶)
یاد رکھئے! دنیا سے جو حصہ نصیب میں لکھا
ہے وہ پہنچ کر رہے گاساری دنیا مل کر بھی اسے روک نہیں سکتی اور جو نصیب میں نہیں وہ
پوری دنیا مل کر بھی نہیں دے سکتی، لہٰذا دنیا کے نہیں بلکہ آخرت کے طلب گار بنو اور
اس کے لئے کوشش کرو کہ جو آخرت کی طلب میں رہتا ہے دنیا اس کے پیچھے آتی ہے۔ چنانچہ
دنیا وآخرت کے طلب گار
اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: دنیا اور آخرت دونوں
کےطالب بھی ہیں اور مطلوب بھی۔ پس جو آخرت کو طلب کرتا ہے دنیا اسے تلاش کرتی ہے یہاں
تک کہ وہ اس میں سے اپنا پورا پورا حصہ لے لیتا ہے اور جو دنیا کا طلب گار ہوتا ہے
آخرت اسے ڈھونڈتی رہتی ہے یہاں تک کہ موت اسے گردن سے آدبوچتی ہے۔ (الفتوحات المکیۃ،
باب الموفی ستین وخمسمائة…الخ، ۸/ ۴۵۷)
اسلاف کرام رَحِمَہُمُ اللہ
کی یہی سوچ ہوا کرتی تھی وہ دنیا وی مصائب و آلام تو برداشت کر لیتے تھے لیکن اُخروی
خسارا کسی صورت برداشت نہیں کرتے تھے کیونکہ دنیا کا نقصان وقتی اور قابلِ تلافی ہے
جب کہ مرنے کے بعد آخرت میں پہنچنے والے نقصان کی تلافی ممکن نہیں ہوگی۔ چنانچہ
دنیا کی نہیں آخرت کی سوچ!
حضرت سیِّدُنا ابو حازم مدنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی زوجہ محترمہ نے ان سے عرض کی: اچانک
سردی ہو گئی ہے اور کھانا، لباس اور لکڑیوں کے بغیر ہمارا کوئی چارہ نہیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: ان کے بغیر تو چارہ ہے لیکن
موت، پھر مرنے کے بعد اٹھائے جانے، اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہونے اور اس کے بعد
جنت ٹھکانا ہے یا جہنم اس کے بغیر چارہ نہیں۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزھد، بیان فضیلة الزھد، ۴/ ۲۷۷، مفھومًا)
دونوں میں فائدہ یا دونوں میں خسارہ
حضرت سیِّدُنالقمان حکیم نے رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
اے بیٹے! اپنی دنیا کو آخرت کے عوض بیچ دے دونوں میں فائدہ اٹھاؤ گے لیکن اپنی آخرت
کو دنیا کے بدلے نہ بیچنا ورنہ دنیا وآخرت دونوں میں نقصان اٹھاؤ گے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذم الدنیا، باب بیان ذم الدنیا،۳/ ۲۵۶)
دنیا وآخرت کس کے لئے ہے؟
ایک دانا (عقل مند) شخص سے پوچھا گیا: دنیا کس کے لئے ہے؟
جو اب دیا: جو اسے چھوڑ دے۔ پوچھا گیا: آخرت کس کے لئے ہے؟ فرمایا: جو اسے طلب کرے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذم الدنیا، باب
بیان ذم الدنیا،۳/ ۲۵۹)
آخرت میں کام آنے والے چند اعمال
نماز کا سوال:حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: بندے کا قیامت کے دن
سب سے پہلے جس چیز کا حساب ہوگا وہ نماز ہے۔ اگر نماز مکمل ہوئی تو اس کے لئے کامل
ہونا لکھ دیاجائے گا اور اگر وہ نامکمل ہوئی تو اللہ پاک فرشتوں سے ارشاد فرمائے گا:
کیا میرے بندے کے پاس تم نوافل پاتے ہو؟ لہٰذا فرائض کی کمی نوافل سے پوری کی جائے
گی۔ پھر بقیہ اعمال کا حساب بھی اسی طرح ہوگا۔ (نسائی،کتاب الصلاة، باب المحاسبة علی الصلاة، ص۸۴، حدیث:۴۶۳ بتغیر قلیل)
عرش کا سایہ:حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تین قسم کے لوگ اس دن
عرش الٰہی کے سائے میں ہوں گے جس دن عرش کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ عرض کی گئی: وہ
کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: جس نے میرے کسی امتی کی پریشانی دور کی، جس نے میری
سنت کو زندہ کیا اور جس نے مجھ پر کثرت سے درود پڑھا۔) شرح الزرقانی علی موطا الامام مالک، کتاب
الشعر، باب ماجاء فی المتحابین فی اللّٰہ، ۴/ ۴۶۹، تحت الحدیث:۱۸۴۱(
صدقہ کا سایہ:ایک روایت میں ہے: اِنَّمَا یَسْتَظِلُّ الْمُؤْمِنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
فِیْ ظِلِّ صَدَقَتِہٖ یعنی بلاشبہ مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سائے میں ہوگا۔(شعب الایمان، باب الزکاة، التحریض علی صدقة التطوع، ۳/ ۲۱۲، حدیث:۳۳۴۷)
پل صراط پر ثابت قدمی: حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: میں نے گزشتہ رات عجیب
معاملات دیکھے (ان
میں سے ایک یہ بھی تھا کہ) میں
نے اپنے ایک اُمتی کو دیکھاجوپُل صراط پر کبھی گھسٹ کر اور کبھی گھٹنوں کے بل چل رہا
تھا، اتنے میں وہ دُرُود شریف آیا جو اس نے مجھ پر بھیجا تھا، اُس نے اُسے پُل صراط
پر کھڑا کر دیا یہاں تک کہ اُس نے پل صراط پار کر لیا۔ (معجم کبیر، ۲۵/ ۲۸۲، حدیث:۳۹)
حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ جس نے جمعہ کے دن مغرب
کے بعد دو رکعت نماز پڑھی اور ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ’’اِذَا زُلْزِلَت‘‘(یعنی سورۂ زِلْزَال مکمل)پندرہ مرتبہ پڑھی تو اللہ پاک اس پر سکراتِ
موت(یعنی موت کی سختیاں)
آسان کر دے گا،
اسے عذابِ قبرسے محفوظ فرمائے گا اور پل صراط پر ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔(شرح الصدور، باب ما ینجی من عذاب القبر، ص۱۸۶)
سورۂ اخلاص کی فضیلت: سورۂ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے جو
بیمار اپنی بیماری کے زمانے میں اسے پڑھتا
رہے اگر اس بیماری میں مرگیا تو حدیث کا بیان ہے کہ وہ قبر کے دبوچنے اور قبر کی تنگی
کے عذاب سے محفوظ رہے گا اور قیامت کے دن فرشتے اسے چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر اور
اپنے بازوؤں پر بٹھا کر پل صراط پار کرا کر جنت میں پہنچادیں گے۔ (جنتی زیور، ص604)
پانچ کے ذریعے پانچ سے حفاظت
حضرت سیِّدُنا شقیق بلخی رَحْمَۃُ اللہِ
عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ
ہم نے پانچ چیزوں کو تلاش کیا تو انہیں پانچ چیزوں میں پایا:(1)……گناہوں کے چھوڑنے
کو چاشت کی نماز میں، (2)……قبر کی روشنی کو نمازِ تہجد میں، (3)……منکر نکیر کے جوابات
کو تلاوتِ قرآن میں، (4)……پل صراط پار کرنے کو روزے اور صدقے میں اور (5)……عرش کے
سائے کو خلوت (گوشہ نشینی) میں۔ (روض الریاحین، الحکایة السابعة
والثلاثون بعد الثلاث مئة، ص۲۸۱)
مسکراتے ہوئے جنت میں داخل
حضرت سیِّدُنا ابو
درداء رَضِیَ اللہُ
عَنْہ فرماتے ہیں: جو ہنستے ہوئے جنت میں جانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اپنی زبان ہمیشہ ذِکْرُ
اللہ سے تر رکھے۔(الکواکب
الدریة فی ترجم السادة الصوفیة، ۱/ ۱۱۷)
اسماء الحسنیٰ کی فضیلت
حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ
اللہُ عَنْہ سے
روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کے 99 نام ہیں جو ان مبارک ناموں کو گن گن کر اخلاص کے ساتھ
پڑھتا رہے وہ جنت میں داخل ہوگا۔(بخاری،کتاب الشروط، باب مایجوز من الاشتراط والثنیا فی
الاقرار…الخ، ۲/ ۲۲۹، حدیث:۲۷۳۶)
میزانِ عمل میں سب سے وزنی عمل
اللہ پاک کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن مومن کے
میزان میں سب سے بھاری عمل ’’اچھے اخلاق‘‘ ہوں گے اور اللہ پاک فحش کلامی(بُری بات) کرنے والے بےحیا آدمی کو بہت ناپسند فرماتا
ہے۔ (ترمذی، کتاب
البر والصلة، باب ماجاء فی حسن الخلق،
۳/ ۴۰۳، حدیث:۲۰۰۹)
ایک روایت میں ہے حضورنبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو
زبان پر ہلکے، میزانِ عمل میں بھاری اور اللہ پاک کو بہت پسند ہیں: سُبْحَانَ اللہ وَ بِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللہ الْعَظِيمِ۔(بخاری،کتاب الایمان والنذور، باب اذا قال:واللّٰہ لا اتکلم الیوم… الخ، ۴/ ۲۹۷، حدیث:۶۶۸۲)
حساب میں آسانی
اللہ پاک کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ اَنْظَرَ مُعْسِرًا اَوْ تَرَکَ لَہٗ حَاسَبَہُ اللہُ
حِسَابًا یَّسِیْرًا یعنی جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اس
کا قرض معاف کر دیا تو اللہ پاک اس کے حساب
میں آسانی فرمائے گا۔ (قوت
القلوب لابی طالب المکی،۲ / ۴۴۳، ابن ماجہ،
کتاب الصدقات، باب انظار المعسر، ۳/ ۱۴۶،حدیث:۲۴۱۷، بتغیر)
ایک روایت میں ہے حضورنبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تین باتیں جس شخص میں
ہوں گی اللہ پاک (قیامت
کے دن) اُس کا حساب بہت
آسان طریقے سے لے گا اور اُسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابَۂ کرام
عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے
عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!
وہ باتیں کون سی ہیں؟ ارشاد فرمایا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو، جو تم سے تعلق
توڑے تم اس سے تعلق جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے تم اُسے معاف کر دو۔ )معجم اوسط، ۴/ ۱۸، حدیث:۵۰۶۴(
مرتے ہی جنت میں داخلہ
اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ہر فرض نماز کے
بعد آیۃ الکرسی پڑھی اسے موت کے علاوہ جنت میں داخلے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔(معجم
کبیر، ۸/ ۱۱۴، حدیث:
۷۵۳۲)
مخصوص آفات سے نجات دلانے والے اعمال
حضرت سیِّدُناعبْدُالرحمٰن بن سَمُرہ رَضِیَ
اللہُ عَنْہ رواىت کرتے ہیں کہ اىک دن حضورنبی رحمت
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے پاس تشرىف لائےاورارشادفرماىا :
آج رات مىں نےاىک عجىب خواب دىکھا کہ میرے اىک امتی کى رُوح قبض کرنے کےلئےحضرت ملَکُ
الموت عَلَیْہِ السَّلَام تشرىف
لائے لىکن اس کا اپنے والدىن سے حُسْنِ سلوک کرنا سامنے آگىا اور اس نے موت کے فرشتے
کو واپس کر دیا۔ اىک امتی پر عذابِ قبر چھا گىا لىکن اس کے وُضو نے اسے بچالىا ، اىک
امتی کو شىطانوں نے گھىر لىا لىکن ذِکْرُاللہ نے اسے خلاصی دلا دی۔ اىک امتی کو عذاب
کے فرشتوں نے گھیر لیا مگر اس کی نماز نے اس کی جان بخشی کروا دی۔ اىک امتی کو دىکھا
کہ پىاس کى شدت سے زبان نکالے اىک حوض پر پانى پىنے جاتاہےمگر لوٹا دىا جاتا ہے ، اتنےمىں
اس کے روزے آگئے اور اسے پانی پلا کر سىراب کردىا۔ دیکھاکہ حضرات انبیائے کرام عَلَیْہِمُ
السَّلَام حلقہ
بنائے بیٹھے ہیں اور میرا ایک امتی ان کے پاس جانا چاہتا ہےمگردور کر دىا جاتا ہے، اتنے مىں اس کاجنابت سے غسل کرنا آتا ہے اور
اس کا ہاتھ پکڑ کراسےان کےقریب بٹھادیتاہے۔ ایک اُمَّتی کو دیکھا کہ اس کے دائیں بائیں
، اوپر نیچے اور آگے پیچھے اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور وہ حیران وپریشان کھڑا ہے اتنے
میں اس کے حج وعمرہ آتے ہیں اور اسے اندھیرے سے نکال کر اُجالے میں لے جاتے ہیں۔ اىک
امتی کو دىکھا کہ وہ مسلمانوں سے گفتگو کرنا چاہتا ہے لىکن کوئى اُس سے بات نہیں کرتا
اتنے میں اس کا صلہ رحمی کرنا آکر مؤمنىن سے کہتا ہے: اے ایمان والو! اس سے کلام کرو۔
تو لوگ اس سےگفتگو کرنے لگتے ہیں۔ اىک امتی کے جسم اور چہرے کى طرف آگ بڑھ رہى ہے اور
وہ اپنے ہاتھ سے خود کو بچارہا ہےاتنے میں
اس کا صدقہ آکر اس کے چہرےکے سامنے رکاوٹ اور سر کا سایہ بن گیا۔ اىک امتی کو عذاب
کے فرشتوں نے چاروں طرف سے گھىرلىا لىکن اس کا نىکى کى دعوت دىنا اور بُرائى سے منع
کرناآیا اور ان سے چُھڑا کر رحمت کے فرشتوں کے حوالے کر دیا۔ اىک شخص کو دىکھا جوگھٹنوں
کے بل بىٹھا ہے اور اس کے اور اللہ پاک کے درمیان حِجاب ہے اتنے میں اس کا حُسنِ اخلاق
آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر دربارِ الٰہی میں پہنچادیا۔ اىک امتی کو اس کااعمال نامہ بائىں ہاتھ میں دیا جارہا ہے تو اس کاخوفِ خدا آیا
اور اعمال نامہ پکڑ کر اس کے سیدھے ہاتھ میں دے دیا ۔ اىک امتی کا نىکىوں کا پلڑاہلکا
ہوا مگر اس کی چھوٹی (نابالغ) اولاد نے آکر اسے بھاری کر دیا۔ اىک شخص
جہنم کے کنارے پر کھڑا تھا لىکن اس کا خوفِ
خدا سے کانپناآیا اور اسے بچا لیا۔ اىک امتی کو جہنم میں پھینکا جارہا ہےمگر اس کے
خوفِ خدا سے بہائے گئے آنسو آئے اور اسے جہنم
سےبچا لیا۔ اىک امتی پل صراط پر کھڑا سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا لىکن اس کا اللہ
پاک سے حُسنِ ظن(اچھا گمان) رکھنا آیا تو وہ
پُرسکون ہو کر پل صراط پار کر گیا۔ اىک امتی
کو دیکھا کہ پل صراط پر کبھی سرین کے بل گھسٹتا ہے کبھی گھٹنوں کے بل چلتا ہےتواس کا
مجھ پر درود پڑھنا آیااور اس کا ہاتھ پکڑکر سیدھاکھڑا کر دیا تو وہ پل صراط پارکرگیا۔
ایک امتی کو دیکھا کہ جنت کےدروازوں پر آتا ہے مگر اس کےلیےبندکردیئےجاتےہیں اتنےمیں
اس کی ’’لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ‘‘ کی گواہی دیناآیااوراس کے لئےدروازے
کھلوا کر اسے داخِلِ جنت کر دیا۔ پھر مجھے ایسے لوگ نظر آئے جن کے ہونٹ قىنچىوں سے
کاٹے جا رہے تھے مىں نےحضرت جبرائىل عَلَیْہِ
السَّلَام سے
پوچھا: ىہ کون لوگ ہىں؟ انہوں کہا: یہ لوگوں کے درمىان چغل خورى کرنے والے ہىں۔ کچھ
لوگوں کو زبانوں سے لٹکے ہوئے دیکھا توحضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام
سے پوچھا: یہ کون ہیں؟انہوں نے کہا: یہ مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو بلاوجہ عیب
لگانے والے ہیں۔( التذکرة للقرطبی، باب ما ینجی من احوال یوم القیامة ومن
کربھا، ص:۲۳۲)
خلاصہ
ماقبل میں ذکر کردہ آیات، احادیث، روایات
واقوال سے واضح ہوا کہ قبر وآخرت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں، لہٰذا ، اُخروی بھلائی اور بہتری کے مقابلے میں
دنیا کو ترجیح دینا انتہائی خسارے کا باعث ہے۔ نیز دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ
ہے۔ پھر یہ قبر وآخر ت کے مقابلے میں ہے بھی بہت مختصر۔ جب دنیا کی بےثباتی کا علم
ہو چکا تو ہونا تو یہ چاہئے کہ جتنا عرصہ دنیا میں رہنا ہے اتنی دنیا کے لئے اور جتنا
عرصہ قبر وآخرت کا ہے اتنی قبر وآخرت کے لئے تیاری کی جائے لیکن بھاری اکثریت ایسی
ہے جس نے صرف دنیا ہی کو مطمح نظر بنارکھا ہے اور اس کی فانی اور جلد ختم ہوجانے والی
نعمتوں میں اس قدر منہمک ہیں کہ قبر وآخرت کو بھولے بیٹھے ہیں، ان کا رہن سہن اس بات
کی عکاسی کرتا ہے کہ شاید انہوں نے ہمیشہ یہیں رہنا ہے، کبھی کوچ نہیں کرنا۔ لہٰذا
ہمیں چاہئے کہ اپنی سوچ کو بدلیں اور عقل مندی کا ثبوت دیں کیونکہ عقل مند نقصان دہ
چیزوں سے بچتا، فائدہ مند اورپائیدار چیزوں کو اپناتا ہے۔پس ہر عالَم کی اہمیت کو سمجھیں
اور اس کے لئے اتنی ہی کوشش ومحنت کریں۔
بارگاہِ الٰہی میں دعا ہے کہ ہمیں اپنی
اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنی اصلاح کے لئے مستند علمائے
اہل سنت کی دینی کتب اور تحریرات کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ’’72 نیک اعمال‘‘ نامی رسالے
پر عمل اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کے لئے مدنی قافلوں میں سنتوں بھرے سفر کی
سعادت نصیب ہو۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم