سالگرہ

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ

سالگرہ کی رسم سے پوری دنیا تقریباً متعارف ہے ، یہ رسم اگرچہ غیر مسلموں کی ایجاد ہے، لیکن اگر جائز طریقے سے منائی جائے تو شریعت میں منع نہیں یعنی کیک وغیرہ بھی کاٹ سکتی ہیں۔ کیونکہ اس موقع پر عموما ً رشتے داروں کو کھانا وغیرہ بھی کھلایا جاتا ہے جو ایک طرح سے صلہ رحمی بھی ہے جس پر ثواب ملے گا۔ یاد رہے! صلہ رحمی کی شریعت میں بہت تاکید آئی ہے اور اس کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: بیشک اللہ پاک صدقہ اور صلہ رحمی کے سبب عمر میں اضافہ کرتا، بری موت کو دور کرتا اور مکروہ وناپسندیدہ چیزوں سے بچاتا ہے۔ ([1]) البتہ! اگر اس موقع پر میوزک، گانے باجے بجائے جائیں وغیرہ تو یہ عمل اس طرح کے حرام کاموں کی وجہ سے ناجائز ہو جائے گا۔

سالگرہ پر کیک کاٹنے کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟

کیک کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے، مثلاً مصر میں کیک یہاں پر حکومت کرنے والے فراعنہ، یونانیوں، رومن اور بازنطینیوں یہاں تک کہ مسلمانوں کے دور میں بھی عید کے موقع پر ہوتا تھا، مگر سالگرہ کے موقع پر کیک کاٹنے کی ابتدا جرمنی سے ہوئی یعنی سب سے پہلے سالگرہ کا کیک جرمنی میں بنایا گیا تھا، جرمن لوگ اپنے بچوں کی سالگرہ کو کیک کے ساتھ مناتے تھے، اس جشن کو کنڈر فیسٹ کہا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ سالگرہ منانے کے طریقے میں بھی جدّت آتی گئی اور کیک کاٹنے کی روایت کے ساتھ ساتھ اس میں ایک اور اضافہ بھی کیا گیا جس میں سالگرہ کے وقت کیک پر موم بتیاں لگائی جانے لگیں اور کیک کاٹتے وقت ان موم بتیوں کو پھونک مار کر بجھایا جانے لگا۔ بعض کے نزدیک کیک پر موم بتیاں لگانے کا آغاز قدیم یونان سے ہوا۔ یونانی گول کیک بناتے اور اس پر موم بتیاں لگاتے تھے اور ایسا وہ اپنی چاند کی دیوی Artemis کے احترام میں کیا کرتے تھے۔ جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ کیک پر موم بتیاں لگانے کا آغاز بھی جرمنی سے ہی ہوا جو کہ زندگی میں روشنی کی عکاسی کرتی ہیں۔ آج کیک پر موم بتیاں جلانا باقاعدہ رسم کی شکل اختیار کر گیا ہے جسے تقریباً دنیا کے ہر ملک میں اپنایا جاتا ہے۔ بہرحال سالگرہ کے موقع پر آج کل جو رسومات دیکھنے میں آ رہی ہیں، ان کا مختصر جائزہ کچھ یوں پیش کیا جا سکتا ہے:

جائز و ناجائز وغیرہ رسومات: سالگرہ پر ایسی تقاریب کا اہتمام کرنا جس میں بے پردگی و نامحرم مرد و زن کا اختلاط ہو جائز نہیں۔سالگرہ پر تحائف دینے کا سلسلہ ہوتا ہے، اگر جائز تحفہ ہے اور رضا مندی سے دیا جا رہا ہے تو درست ہے۔ البتہ! غیر محرم یعنی کزن دیور جیٹھ وغیرہ کا تحفہ دینا یا اس کا تحفہ قبول کرنے کی شریعت میں ممانعت ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ محرم میں یا صفر کے مہینے میں سالگرہ نہیں کر سکتے، اس کی کوئی اصل نہیں۔ فی زمانہ سالگرہ کی مبارک باد دینے کیلئے مخصوص کارڈز وغیرہ دئیے جاتے ہیں۔ قدیم زمانے کے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ جس کی سالگرہ ہو اس پر بد روحیں حملہ کرتی ہیں، لیکن اگر اس کے دوست اس سے ملنے آئیں اور اُسے دعائیں دیں تو وہ ان حملوں سے محفوظ رہے گا۔ جبکہ بعض کے نزدیک سالگرہ کی موم بتیوں میں ایک خاص جادو ہوتا ہے جس سے خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں۔ حالانکہ شرعاً ان نظریات کی کوئی حیثیت نہیں۔

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1] مسند ابی یعلی، 3/398، رقم 4090