اس جہانِ رنگ و بو میں بعض لوگ وہ ہوتے ہیں  جو تاریخ لکھتےہیں، جبکہ بعض وہ ہوتے ہیں جن کو خودتاریخ لکھتی ہے۔ آج ہم جن کے بارے میں بات کر رہےہیں، وہ بجا طور پر اپنے عہد کی تاریخ ساز شخصیت ہیں۔ ان کی عادات و اطوار کی کیا بات کی جائے۔ قدرت نے ان کو جو دیا ہے ناں ،بڑی فیاضی سے عطا فرمایا ہے۔

لوگ شریعت کے جزئیے کتابوں میں تلاشتے ہیں ہم نے شریعت کے جزئیات کو ان کی اداؤں میں پنہاں دیکھا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ان کی ذات سنتِ نبویہ کی سمٹی ہوئی کتاب ہے۔

لوگ سنتوں کو اپنانے کیلئے لاکھوں جتن کرتے ہیں جبکہ یہاں یوں لگتا ہے کہ طبعی طور پر ہر ادا موافقِ شرع ہے۔

ہر قول دین و سنت کا آئینہ دار ہے یا جذبَۂ خیر خواہی سے سرشار، ان کی نشست و برخواست ہو یا عمل و کردار ، قول و قرار ہو یا رفتار و گفتار، اَلْغَرَض! بِسطامی خصائل، جنیدی شَمائل اور رومی سوچ کا مظہر آج کے دور میں جسے دیکھنا ہو وہ ان کی ذات کو دیکھ سکتا ہے ۔

ذکر و فکر، صبر و شکر، عشق و عرفان، ضبط و تحمل، ایثار و توکل، تسلیم و رِ ضا، خدمت و طاعت، عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ، عجز و انکسار، احتیاط اور صدق و صفا سمیت وہ کون سی عادت ہےجو ان میں موجود نہیں ہے۔

چشمِ فلک اس بات پر شاہد ہے کہ ان کی ذات مصدر الحسنات، منبع الفیضان اور مرجع الخلائق ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو محسوس کیا اور پھر خود بھی لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے ہیں۔

آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہےہیں کہ دنیا کے مقتدر علمائے کرام اور ذی وجاہت مشائخِ عظام ان کے جلوہ کے گرد پروانہ وار پھرتے ہیں۔یہ کیفیت خواص کی ہے جبکہ عوام کے ہجومِ عاشقاں کی طرف نظر دوڑائیں تو کتنی آنکھیں ہیں جو ان کے دیدار سے سیر نہیں ہو پاتیں، کتنے قلوب ہیں جو ان کی عقیدت سے شکِیبْ آشنا نہیں ہو پاتے، زائرین کا حال یہ ہوتا ہے کہ ”اے جلوۂ جاناناں! دل دیتا ہوں نذرانہ! “ کہہ کر قدموں پر لَوْٹنے کیلئے تیار ہیں۔

ان کے طرزِ گفتگو میں نُزہتوں اور نکہتوں کا ایسا سویرا ہوتا ہے جو ماحول کو لطیف اور فضا کو خوشگوار بنا دیتا ہے۔

یہ جب بولتے ہیں تو سامعین کی توجہات کا مرکز بن جاتےہیں اور جب خاموش رہتے ہیں تب بھی توجہ انہی کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔

وہ منظر ذہن میں لائیں ، جب یہ رشد و ہدایت کا منبع اور علم و آگہی کا پیکر بن کر، عقیدت، محبت اور الفت کے پھولوں کی مالاؤں سے سج دھج کر، امام ِ اعظم ابوحنیفہ کے علم ، علامہ عراقی کے تصوف، امام غزالی کے فلسفۂ زہد، شیخ بایزید کے کردار، شیخ جنید کی گفتار اور امام احمد رضا کی للکار کافیض بانٹ رہے ہوتے ہیں، اور کاروبارِ زندگی سے منسلک تمام طبقات اپنی بِساط بھر لُوْٹ رہے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی عالَمِ خیال کی منظر کشی نہیں ہے بلکہ مدنی مذاکرے کے جلووں کی ایک جھلک ہے۔

ان کی پرانے انقلابی بیانات ہوں یا وعظ و نصیحت سے بھرپور موتیوں کی مالائیں ہوں ، ان کی دعوت و آواز میں خونِ جگر شامل ہوتا ہے، ان کی آواز اپنی دلکشی، رعنائی، انفرادیت اور نرالی ادا کی ایسی اَلَسْتی پکار ہے جس نے اہل ِدل کے ساتھ ساتھ سخت سے سخت دلوں کے بھی تار ہلا دیئے ہیں۔ آج کے اس مادِیّت زدہ دور میں ان کی آواز ہی ہے جو غافل روحوں اور بے چین دلوں کے درد کا دَرْمَاں ثابت ہوئی ہے۔

روایتی انداز کے برعکس ان کی بے ساختہ گفتگو جب جذب و مستی، حِدَّتِ عشق، رموزِ تصوف، معاشرتی اسرار، تجارب و واقعاتی نتائج کی روشنیوں سے قلوب و اذہان کو منور کرتی ہے تو کسی کو تن من کی خبر نہیں رہتی، خصوصی مدنی مذاکروں میں چشمِ زَدَنْ میں رات کے سارے پہر گزر جاتے ہیں اور محفل میں شرکت کی سعادت پانے کیلئے سحر بھی آن دھمکتی ہے۔

عام مشاہدہ یہی ہے کہ جو صاحبِ تصنیف ہو وہ کتابوں کے ہجوم میں گم رہتا ہے، لوگوں سے ربط و ضبط اس کے لئے بارِ گراں ہوتا ہے، جو محقق ہو وہ پوری عمر کتابوں کی گرد جھاڑنے میں کھپا دیتا ہے معاشرے کی رَوِش سدھارنے کو وہ کارِ فضول سمجھتا ہے، جو صوفی ہو وہ فقط اپنے گریبان میں سارے جہاں کا مشاہدہ کرنے میں مشغول رہتا ہے، وہ مکاشفے اور مراقبے میں ایسا غرق رہتا ہے کہ گرد و پیش سے ہی بے نیار ہوجاتا ہے، لیکن ہمارے پیر کے کمالات میں سے یہ ہے کہ وہ مقبول و مشہور مصنف بھی ہیں اور ہزاروں کو شرفِ ملاقات سے بھی فیض یاب فرماتے ہیں، باطنی و ظاہری بیماریوں کے اسپیشلسٹ بھی ہیں تو معاشرے کی زلفِ پریشاں کو سنوارنے کیلئے مصروفِ عمل بھی، وہ مراقبے اور محاسبے کے پابند صوفی و صافی بزرگ بھی ہیں اور دکھیاری امت پر پڑنے والے مصائب پر بے قرار بھی۔

عام طور پر مشاہیر و مشائخ کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنا علاقہ و ایریا جہاں ان کے شب و روز، صبح و شام، بچپن اور جوانی گزری ہوتی ہے وہاں کے لوگوں کی نگاہ میں ان کا کوئی خصوصی مقام نہیں ہوتا، لیکن اس عمومی ضابطے سے ہمارے پیر کی ذات مستثنیٰ ہے، جس طرح دور دراز علاقوں میں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں ان کے دیوانے ان کیلئے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوتے ہیں اسی طرح کھارادر اور میٹھا در کے باسیوں کے دلوں پر بھی انہی کا راج ہے، بلکہ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ آج وہ کون سا دل ہے جس پر غوثِ اعظم کے اس متوالے کا سکہ نہیں چل رہا، وہ کون سی نگاہ ہے جس میں ان کے دیدارِ پُر جمال کا عکس نظر نہیں آتا، ہزاروں نہیں لاکھوں ہیں جن کے دل دھڑکتے ہیں تو ان کی یاد میں، جن کی آنکھیں ترستی ہیں تو ان کی دید کیلئے، جن کی سماعتیں مچلتی ہیں جو ان کی صدائے دل نواز کیلئے اور جو منتظر رہتے ہیں تو صرف ان کے اشارۂ ابرو کے۔

یہ شان دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ برکۃ العصر ، فرید الدہر ، نباضِ قوم، کُشتہ عشقِ رسول، آفتابِ علم و حکمت، مقبول عوام و خواص مولانا محمدمفددحمد الیاس عطارقادری صاحب محبوبیت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہیں۔ آپ دنیا میں مسلکِ اعلی حضرت کی پہچان ہیں، رضویت کے پاسبان ہیں اور ناموس صحابہ واہل بیت کے علمبردار ہیں، اللہ کریم آپ کو عافیتوں والی عمرخضری عطا فرمائے۔ آمین