مجدِّدِ اعظم ،امامِ اہلسنّت،اعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پانی کی رنگت سےمتعلّق 11صفحات پر محیط شاندار تحقیق فرمائی ہے۔ سطورِ ذیل میں اس تحقیق کا مختصر خُلاصہ پیشِ خدمت ہے۔

خُلاصۂ تحقیق

پانی کی رنگت میں اختلاف:

محققین کا اِس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا پانی کاکوئی رنگ ہے بھی یا نہیں۔بعض علما و محققین کے نزدیک پانی بے رنگ ہے اور بعض کی تحقیق کے مطابق پانی ذِی لَون (رنگ والا) ہے۔ چنانچہ امامِ اہلسنت ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے دلائلِ نقلیہ و عقلیہ کے ذریعے اِس بات کو ثابت فرمایا ہے کہ پانی ذِی لَون یعنی رنگ والا ہے۔

آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا :صحیح یہ ہے کہ پانی کا رنگ ہوتاہے۔ امام فخرالدین رازی وغیرہ کئی علما و محققین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِم کا یہی مختار ہے۔نیز فقہائے کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِم نے پانی سے متعلّق شرعی اَحکام بیان کرتے ہوئے پانی کے ذِی لَون( رنگ والا ) ہونے کو جابجا تواتر کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ عبارتِ امام ملاحظہ ہو: "اور صحیح یہ کہ وہ ذی لَون(رنگ والا) ہے ، یہی امام فخر الدین رازی وغیرہ کا مختار ہے جو کلام فقہا مسائل آبِ کثیر و آبِ مطلق وغیرہما میں ذکرِ لَون متواتر ہے۔"[1]

اس کے بعد امامِ اہلسنت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےچند ایسی حدیثوں کو نقل فرمایا جن میں پانی کے لئے "لَون" یعنی رنگ والا ہونےکا ذکر فرمایا گیا ہے۔ پھر پانی کے رنگ والا ہونے کے مَوْقِف پر عقلی دلیل بھی ذکر فرمائی ہے کہ : " معہذا مقرَّر ہوچکا کہ اَبصارِ عادی دُنیاوی کے لئے مرئی کا ذی لَون ہونا شرط ہے ،بلکہ مرئی نہیں مگر لَون و ضیا ،تو پانی بے لَون کیونکر ہوسکتاہےو لہذا ابنِ کمال پاشا نے اُس کے حقیقۃً ذی لَون ہونے پر جَزم کیا۔"[2]

مذکورہ بالا سطور کا خلاصہ یہ ہے کہ دُنیا میں عادۃً ظاہری نگاہوں سے رنگ والی شے کو ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ دِکھائی دی جانے والی چیز کے لئے رنگ والا ہونا شرط ہے ، لہذا پانی کا ظاہری آنکھوں سے دِکھائی دینا ہی اِس کے ذِی لَون(رنگ والا) ہونے کی دلیل ہے۔

پانی کا رنگ سیاہ یا سفید:

جن علما و محققین کے نزدیک پانی ذِی لَون یعنی رنگ والا ہے ان میں بھی باہم اختلاف ہے۔ بعض محققین کےنزدیک پانی کا رنگ سفید ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ پانی کا رنگ سیاہ یعنی کالا ہے۔ امامِ اہلسنّت ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے دونوں طرف کے محققین کے دلائل کو نقل فرما کر ان کے تحقیقی اور تشفی بخش جوابات ارشاد فرمائے ہیں۔ چنانچہ پانی کے سفید رنگ والاہونے کی نفی کرتے ہوئے امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پیش کردہ دلائل میں سے تین دلیلیں ملاحظہ ہوں:

چند دلائل کاذکر:

1: مشاہدہ شاہد کہ وہ (پانی)سپید نہیں ولہذا آبی اُس رنگ کو کہتے ہیں کہ نیلگونی کی طرف مائل ہو۔

2: سپید کپڑے کا کوئی حصہ دھویا جائے جب تک خشک نہ ہو اس کا رنگ سیاہی مائل رہے گا،یہ پانی کا رنگ نہیں تو کیا ہے۔

3: دُودھ جس میں پانی زیادہ ملا ہو سپید نہیں رہتا ،نیلا ہٹ لے آتا ہے۔[3]

تحقیقاتِ رضا کی روشنی میں پانی کی رنگت :

اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اختتامِ بحث پر دلائل اور براہین کی روشنی میں پانی کی رنگت کے حوالے سے تحقیقی قول ارشاد فرمایا ہے اور اس پر زبردست قسم کے شرعی وسائنسی دلائل بھی بیان فرمائے ہیں۔[4]

چنانچہ قلمِ رضا کو جنبش ہوتی ہے اور تحقیقاتِ رضا میں سے ایک عظیم شہ پارہ یوں ترتیب پاتا ہے:

أَقُوْل: حقیقتِ اَمر یہ ہے کہ پانی خالص سیاہ نہیں ،مگر اُس کا رنگ سپید بھی نہیں ،میلا مائل بیک گونہ سواد خفیف ہے اور وہ صاف سپید چیزوں کے بمقابل آکر کھل جاتا ہے جیسا کہ ہم نے سفید کپڑے کا ایک حصہ دھونے اور دودھ میں پانی ملانے کی حالت بیان کی واللّٰہ سبحٰنہ وتعالی أعلم۔[5]

حاصلِ کلام: دلائلِ نقلیہ و عقلیہ کے تناظر میں معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ پانی بے رنگ (colorless) نہیں ہے ، بلکہ ذِی لَون (رنگ والا) ہے۔پھر پانی کی رنگت کے حوالے سے بھی تحقیق یہ ہے کہ پانی کا رنگ نہ تو خالص سیاہ ہے اور نہ ہی (دودھ وغیرہ کی طرح)بالکل سفید ہے۔ پانی کا اصل رنگ "ہلکا سیاہی مائل" ہے ۔

جو اس نے لکھ دیا ہے سَند ہے وہ دِین میں

اہلِ قلم کی آبرو نُقطہ رضا کاہے

وادی رضا کی ، کوہِ ہِمالہ رضا کا ہے

جس سمت دیکھیےوہ علاقہ رضا کا ہے

سگِ درگاہِ اعلیٰ حضرت

ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی

١٩ذوالقعدہ١٤٤٣ھ، مطابق 19 جون 2022ء، بروز: اتوار



[1]فتاوی رضویہ،3/236، رضافاؤنڈیشن لاہور۔

[2]فتاوی رضویہ،3/237، رضافاؤنڈیشن لاہور۔

[3]فتاوی رضویہ،3/238، رضافاؤنڈیشن لاہور۔

[4] اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالی عَلَیْہنے اپنے مَوقِف پر اِنتہائی شاندار انداز میں دلائل قائم فرمائے ہیں ۔ چونکہ عوام الناس ان دلائل کو کماحقُّہ نہیں سمجھ سکتی ،اِس لئے ان کا یہاں تفصیلی یا اِجمالی ذکر نہیں کیا گیا۔ اہلِ علم حضرات مسئلۂ مذکورہ میں امام کے تفصیلی دلائل کو جاننے کے لئے فتاوی رضویہ مخرَّجہ کی تیسری جلد کے صفحہ 235 تا 245 کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

[5]فتاوی رضویہ،3/244-245، رضافاؤنڈیشن لاہور۔