مادہ پرستی اور نفسانفسی کے اس دور میں ہر انسان کسی نہ کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا ہے اور سکون کی تلاش میں ہے۔ویسے تو زندگی میں سکون قائم رہنے اور کوئی پریشانی نہ آنے کی انسانی خواہش ہمیشہ سے رہی ہے لیکن افراتفری کے اس دور میں سکون کے کچھ لمحے میسر آنے کی تمنا کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔اگر آپ زندگی میں سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایسے اصول اپنانے ہوں گے جو آپ کو پرسکون اور خوشگوار زندگی فراہم کرسکیں۔قرآن پاک جو اللہ کی پاکیزہ کتاب ہے اور ہماری ہدایت اور کامیابی کے لئے اتاری گئی ہے اس میں اللہ پاک نے جہاں اپنی وحدانیت،نبوت و رسالت بیان کی ہے اور دینی اور دنیوی کامیابی کے لئے سماجی اور معاشرتی آداب کو بیان کیا یہ وہیں زندگی کو خوشگوار بنانے کے حوالے سے بھی رہنما اصول بیان کئیے ہیں۔ان اصولوں کو جان کر اگر ان پر عمل کیا جائیے تو زندگی کی بہت سی پریشانیوں اور مشکلات کو ختم کرکے اسے خوشگوار بنایا جاسکتا ہے۔پارہ 26 سورہ حجرات میں اللہ رب العزت ان الفاظ کے ساتھ یہ اصول ارشاد فرماتا ہے"اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔بے شک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور پوشیدہ باتوں کی جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں ناپسند ہوگا۔" مذکورہ آیت میں خوشگوار زندگی کے تین اصول بیان کئے گئے۔

1 بہت زیادہ گمان سے بچو

2 کسی کی ٹوہ میں نہ پڑو 3

کسی کی غیبت نہ کرو۔

ان ہی چیزوں کو جدید اصطلاحات میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے اور خوشگوار اور پرسکون زندگی کے لئے ان سے بچنے کا کہا جاتا ہے۔جیسے اوور تھنکنگ ،ڈپریشن وغیرہ۔ ترقی یافتہ دنیا نے جن علوم کو برسوں بعد دریافت کرکے دنیا کو بتایا قرآن کریم نے صدیوں پہلے اس وقت جب سائنس اور نفسیات کا نام بھی نہیں تھا تب خوشگوار زندگی کے یہ اصول بیان کردیئے تھے۔اب ذرا ان کی تفصیل جانتے ہیں۔

پہلا اصول یہ بیان کیا گیا کہ بہت گمانوں سے بچو۔کہ اگر کسی شخص کے حوالےسے تمہارے علم میں کوئی قابل اعتراض بات آئے یا اس کی کوئی غلط حرکت معلوم ہو تو اس پر فورا بدگمانی کرنے کی بجائے معاملے کی تحقیق کرلو کہ آیا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا آپ نے دیکھا یا حقیقت کچھ اور ہے۔اسی طرح اگر دو شخص آپس میں گفتگو کررہے ہیں تو ان کے بارے میں یہ خیال نہ کرو کہ وہ تمہاری برائی کررہے ہیں۔الغرض اس آیت میں بالخصوص بدگمانی اور بالعموم ہر برے خیال سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ انسان کی پریشانی حالات سے نہیں بلکہ خیالات سے ہوتی ہے لہذا خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے ہر قسم کے فضول خیالات سے بچنا ضروری ہے۔

فرمان نبوی ہے"بدگمانی سے بچو اس لئے کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔اور کسی کے عیوب کی جستجو نہ کرو اور نہ اس کی ٹوہ میں لگے رہو۔" (بخاری)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بدگمانی کی۔اگر آپ خوشگوار زندگی کے طلبگار ہیں تو اس قرآنی اصول کو پلے باندھ لیجیئے اور کسی بھی مسلمان کے بارے میں دل میں برا خیال لاکر اس پر یقین نہ کیجئے۔"

بدگمانی سےبچنے کے لئے کچھ طریقے۔

1 مسلمان کی خوبیوں پر نظر رکھیے۔

2 بدگمانی پیدا ہو تو اس سے توجہ ہٹالیں۔

3 بری صحبت سے برے گمان پیدا ہوتے ہیں لہذا اس سے بچئے۔

4 اللہ کی بارگاہ میں اس سے بچنے کی دعا کیجئے۔

5 اس کے نقصانات کو یاد رکھئیے۔

بدگمانی سے بچنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ اس کے نقصانات کو پیش نظر رکھنا بھی ہے۔جیسے اس کے چار دینی نقصانات یہ ہیں۔

1 جس کے بارے میں بدگمانی کی اگر اس کے سامنے اس کا اظہار کردیا تو اس کی دل آزاری ہوسکتی ہے اور بلا اجازت شرعی مسلمان کی دل آزاری حرام ہے۔

2 اس کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنا برا گمان ظاہر کیا تو یہ غیبت ہوجائے گی حالانکہ مسلمان کی غیبت حرام ہے۔

3 بدگمانی کرنے والا محض اس پر بس نہیں کرتا بلکہ اس کے عیوب تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے۔اور کسی مسلمان کے عیبوں کو تلاش کرنا ناجائز و گناہ ہے۔

4 بد گمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک امراض پیدا ہوتے ہیں۔

مزید 2 دنیوی نقصانات یہ ہیں۔

1 بدگمانی کرنے سے رشتوں میں دراڑ پڑجاتی ہے۔بھائیوں میں دشمنی ہوجاتی ہے،ساس بہو کی نہیں بنتی،میاں بیوی اور بھائی بہن ایک دوسرے کے خلاف ہوجاتے ہیں اور بات طلاق اور قطع تعلق تک پہنچ جاتی ہے۔یوں ہنستا بستا گھر اجڑ جاتا ہے۔

2 دوسروں کے لئے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے جیسا کہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جو افراد دوسروں کے لئے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ اور غصے کا شکار رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ 86 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

دوسرا اصول قرآن نے یہ بتایا کہ تجسس نہ کرو۔کسی کی ٹوہ میں نہ پڑو،لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش نہ کرو۔

حدیث مبارک میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:"گمان سے بچو،گمان بڑی جھوٹی بات ہے اور مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو۔" دوسری روایت میں ہے:جو بندہ دنیا میں دوسرے کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالی روز قیامت اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔

ایک مقام پر ارشاد فرمایا:"اے وہ لوگوں جو زبان سے ایمان لےآئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا۔مسلمانوں کو ایذاء مت دو اور نہ ان کے عیوب تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ تعالی اس کا عیب ظاہر فرمادے گا اور اللہ جس کا عیب ظاہر فرمادے تو اسے رسوا کردیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں ہو۔"

دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا:"غیبت کرنے والوں،چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ جل جلالہ قیامت کے دن کتے کی شکل میں اٹھائے گا۔"

بیان کردہ آیت و احادیث کی روشنی میں ہر ذی شعور پر یہ عیاں ہوگیا ہوگا کہ لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کی کوشش کتنی ممنوع اور ناپسندیدہ ہے۔اس میں مبتلا ہونے کی وجوہات اور اس سے بچنے کے طریقے درج ذیل ہیں۔

1 تجسس کا پہلا سبب بغض، کینہ اور ذاتی دشمنی ہے۔لہذا اس سے بچنے کے لئے اپنے دل کو بغض و کینہ سے صاف کرکے اس میں مسلمانوں کے لئے محبت پیدا کریں اور یہ فرمان نبوی ذہن نشین کرلیں"جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی طرف محبت بھری نگاہ سے دیکھے اور اس کے دل یا سینے میں عداوت نہ ہو تو نگاہ لوٹنے سے پہلے دونوں کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔"

2 اس کا دوسرا سبب حسد ہے کیونکہ حاسد اپنے محسود (جس سے حسد ہے) کو کبھی خوش نہیں دیکھ سکتا لہذا وہ اسے بدنام کرنے کے لئے اس کے عیب تلاش کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے لہذا تجسس سے بچنے کے لئے حسد سے بچنا ضروری ہے۔حسد سے بچنے کی صورت اس کی تباہ کاری پر غور کرنا بھی ہے۔اور اس کی تباہ کاری یہ ہے کہ "نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا جیسے آگ لکڑی کو"۔

3 اس کا ایک سبب چغل خوری بھی ہے کہ چغل خور کو اپنی اس عادت کے لئے عیوب تلاش کرکے انہیں ادھر ادھر بیان کرنا اور چغل خوری کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوتا ہے۔لہذا تجسس سے بچنے کے لئے چغل خوری کو ترک کرنا ضروری ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ اس کی وعیدوں کو پیش نظر رکھے اور اس سے بچنے کی کوشش کرے۔خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"چغل خور ہرگز جنت میں داخل نہ ہوگا۔" چغل خور کو آخرت سے پہلے دنیا میں عذاب دیا جائےگا۔"

4 اس کا سبب منفی سوچ بھی ہے کہ جب کوئی شخص منفی سوچ کا حامل بن جاتا ہے تو پھر وہ تجسس جیسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ہر وقت لوگوں کے عیب تلاش کرنا اس کا وطیرہ بن جاتا ہے۔اس کا حل یہی ہے کہ بندہ اپنی سوچ کو مثبت بنائے۔بلا ضرورت تجسس اور لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کی بجائے ان کی خوبیوں پر نظر رکھے۔اور یہ سوچے کہ جب خالق نے ان کےعیوب کو چھپاکر رکھا ہے تو مجھ حقیر کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کے عیبوں کو تلاش کرتا پھرے اور اسے بدنام کرے۔

تیسرا اصول جو خالق کائنات نے بیان کیا وہ یہ ہے کہ کسی کی غیبت نہ کرو کیونکہ ایسا کرنا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے اور تم میں سے ہر ایک اسے ناپسند کرتا ہے۔قرآن پاک میں جس طرح اس کی مذمت کی گئی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ کتنا بڑا اور کتنا سخت گناہ ہے۔لیکن افسوس اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت اس میں مبتلا ہے اور بہت لوگ تو اسے گناہ سمجھتے ہی نہیں ہیں اور دن رات غیبت میں مبتلا رہتے ہیں۔

اکثریت کی غیبت میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ اس کے متعلق معلومات نہ ہونا ہے لہذا اس کے متعلق کچھ معلومات ملاحظہ کیجئے۔

غیبت کی تعریف۔کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا۔البتہ اگر وہ عیب اس میں موجود نہ ہو تو اب یہ بہتان ہوگا جو غیبت کے مقابل دوہرا گناہ ہے۔جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا"کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟عرض کی گئی اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔فرمایا:(غیبت یہ ہے کہ)تم اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرو جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔عرض کی گئی:اگر وہ بات اس میں موجود ہو تو؟فرمایا: جو بات تم کہہ رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان باندھا۔"(صحیح مسلم)

غیبت کے حرام ہونے کی حکمت:

کسی شخص میں واقعی برائی موجود ہے لیکن پھر بھی بلاوجہ اس کے بیان کرنے کو حرام قرار دینا دین اسلام کی خوبصورتی ہے۔اور یہ ایسی خوبی ہے جو اسے دیگر ادیان سے ممتاز کرتی ہے کیونکہ کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے برائی بیان کرنا اس کی عزت و آبرو پر حملہ کرنے کی طرح ہے لہذا مومن کی عزت و حرمت کی حفاظت کے لئے اسے حرام قرار دیا گیا۔اور اس میں یہ اشارہ بھی پنہاں ہے کہ انسان کی عزت و حرمت اور اس کے حقوق کی بہت زیادہ تاکید ہے۔کیونکہ اللہ رب العزت نے اس کی عزت کو گوشت اور خون کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے اور اس میں مبالغہ کرتے ہوئے اسے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا کہ جس طرح کسی کا گوشت کاٹنے سے اسے تکلیف ہوتی ہے اسی طرح اس کی بدگوئی کرنے سے اسے قلبی تکلیف ہوتی ہے اور درحقیقت عزت و آبرو گوشت سے زیادہ پیاری ہے۔

اس کا ایک سبب اس کے نقصانات اور عذابات سے آگہی نہ ہونا بھی ہے۔لہذا اس سے بچنے کے لئے اس کے بارے میں بیان کردہ وعیدوں اور نقصانات کا علم ہونا ضروری ہے۔

1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "معراج کی رات میں ایسے مردوں کے پاس سے گزرا جو اپنی چھاتیوں کے ساتھ لٹک رہے تھے تو میں نے پوچھا اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کی یہ منہ پر عیب لگانے والے اور پیٹھ پیچھے برائی کرنے والے ہیں۔"

2 دوسری حدیث میں ہے: شب معراج میرا گزر ایسی قوم کے پاس سے ہوا جو اپنے چہروں اور سینوں کو تانبے کے ناخنوں سے نوچ رہے تھے۔میں نے پوچھا: اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟کہا یہ لوگوں کا گوشت کھاتے (یعنی غیبت کرتے) اور ان کی عزت خراب کرتے تھے۔(سنن ابو داود)

3 ایک مقام پر ارشاد ہوا: جس رات مجھے آسمانوں کی سیرکرائی گئی تو میرا گزر ایسی قوم پر ہوا جس کے پہلووں سے گوشت کاٹ کر ان ہی کو کھلایا جارہا تھا۔انہیں کہا جاتا،کھاٶ! تم اپنے بھائیوں کا گوشت کھایا کرتے تھے۔میں نے پوچھا: اے جبرئیل! یہ کون ہیں؟جوابا عرض گزار ہوئے۔یہ لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے۔(دلائل النبوة)

4 اور دل دہلا دینے والی اس روایت کو بھی پڑھئے کہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو دنیا میں اپنے جس بھائی کا گوشت کھائے گا (یعنی غیبت کرے گا)وہ (جس کی غیبت کی تھی) قیامت کے دن اس کے قریب لایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا"اسے مردہ حالت میں بھی کھا جس طرح اسے زندہ کھاتا تھا۔پس وہ اسے کھائے گا اور تیوری چڑھالے گا اور شور و غل کرے گا۔ (معجم اوسط)