تنقیدوں کا مقابلہ

Tue, 22 Mar , 2022
2 years ago

زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے کچھ مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے اسکول اور مدرسے میں تعلیم اور ڈگری تو دی جاتی ہے۔ لیکن زندگی گزارنے کی بنیادی مہارتیں نہیں سکھائیں جاتیں۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں نیک اور بد ، لیڈر اور عالم ہر ایک کو بُرا بھلا ضرور کہا گیا ہے۔لیکن یہ تنقید ان بڑے لوگوں کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکی۔ اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے پاس دل بھی تھے اور ان کا دل ٹوٹ بھی جاتا تھا۔ لیکن یہ لوگ تنقید کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے واقف تھے۔ کچھ صلاحتیں پیدائشی ہوتی ہیں۔ یہ خاص لوگوں کو ملتی ہیں۔اور کچھ صلاحتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اور پیدا اس وقت ہونگی جب” کوئی بھی انسان اگر سچے دل کے ساتھ چاہے تو کسی بھی صلاحیت کو محنت کرکے اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے “۔

اب 6 ایسے نکات عرض کرتا ہوں کہ جن پر عمل کرکے آپ تنقیدوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔

1) آپ کسی کی تنقید کو اہمیت نہ دیں۔

2) ہمیشہ اچھے لوگوں کی رائے کو ذہن نشین رکھیں۔ اور انہیں بار بار دہراتے اور یاد کرتے رہیں۔

3) آپ اپنے آپ کو پہچانیں۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھیں۔ اپنی خامیوں کو خوبیوں میں بدلنے کی کوشش کریں۔

4) تنقید کرنے والوں کی فطرت تنقید کرنا ہے۔ تو آپ ان کو چھوڑ دیں۔ آپ ان کی وجہ سے اپنے آپ کو نہ بدلیں۔ ایک بات یاد رکھیں "کتے کی فطرت بھوکنا ہے"۔

5) آپ بڑا سوچیں ، چھوٹے جھگڑوں میں نہ پڑیں۔ کیونکہ ”بڑی منزل کے مسافر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتے “۔

6) آپ اچھے لوگوں کی مجلس اختیار کریں۔ کیونکہ اچھا کام کرنے والوں پر تنقید کا اثر کم ہوتا ہے۔

آخری بات؛ جو سب باتوں سے اہم ہے۔ کبھی بھی کسی کی تنقید آپ کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہے۔کیونکہ تنقید کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ لیکن ایک فائدہ سارے مانتے ہیں کہ تنقید ”آپ کے اندر سوئے ہوئے احساس کو جگاتی ہے “ کیونکہ جس کو احساس نہ جگائے اسے کون جگا سکتا ہے۔

از: ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری


جیت آپ کی ہے لیکن

Tue, 22 Mar , 2022
2 years ago

اس دنیا میں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جیسے آتی ہے۔ ویسے ہی چلی جاتی ہے۔ وہ یوں زندگی گزراتے ہیں گویا کبھی زندہ ہی نہ تھے۔ جبکہ بعض لوگ آتے ہیں اور ان کا نام ہمیشہ کے لئے  زندہ ہوجاتا ہے۔وہ کیوں زندہ رہتے ہیں؟ دونوں کی زندگیوں میں صرف ایک فرق ہے۔ وہ فرق کامیابی کا ہے۔ وہ کامیابیاں جو انہوں نے حاصل کی ہوتی ہیں۔ ان کی کامیابیوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ ان کا مضبوط تعلق بن جاتا ہے۔

اس دنیا میں کچھ لوگوں کے نام کے چرچے ہوتے ہیں۔ اور کچھ کے نام تو اپنے خاندان اور کچھ دوستوں تک رہتے ہیں۔ حالانکہ دونوں انسان ہیں۔ پھر ایسی کونسی بات ہے جس نے ایک کو عُروج دیا اور دوسرے کو زوال ؟ فرق صرف اپنی ذات کو سمجھنے کا ہے۔ جس نے اپنی ذات کو سمجھا ، اور اپنی زندگی کو اہمیت دی اُس کا نام باقی رہ گیا۔ اور جس نے نہ سمجھا اس کا نام مٹ گیا۔

زندگی کو جتنی اہمیت دینی چاہیے۔ ہم اسے اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ سب سے قیمتی چیز زندگی ہے۔ افسوس سے یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ لوگ پیسوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ زندگی کو اہمیت نہیں دیتے۔

میرے بھائیو!! زندگی ایک بار ملی ہے۔ اس لیے جینے کا حق ادا کیجئے۔ اس زندگی کو محسوس کرکے شان دار بنا کر جائیں۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں یہ کام کل سے کرونگا ، اس کا شان دار لمحہ کبھی نہیں آتا۔ اس کی زندگی کبھی شان دار نہیں ہو پاتی۔ اسی لمحے سے شروع کیجئے۔

غُبارے کالے ہوں ، نیلے ہوں الغرض غُبارے کسی بھی کلر کے ہوں وہ غُبارے کلر کی وجہ سے نہیں اُڑتے۔ بلکہ اندر موجود گیس کی وجہ سے اُڑتے ہیں۔ اسی طرح کامیابی کا تعلق امیری، غریبی شہری، دیہاتی اچھے، کالے سے نہیں ہوتا۔ بلکہ اندر موجود جذبے ، جنون سے ہوتا ہے۔

انسان کے اندر کچھ ہوگا تو وہ اُڑان کے قابل بنے گا۔ جس میں کوئی تڑپ ہے ، لگن ہے، آنسو ہیں۔ وہ زیادہ ترقی کرسکتا ہے۔

بس آپ سر جھکائے اپنی منزل کی طرف چلتے چلے جائیے۔ اس چیز کی پروا چھوڑ دیجئے۔ کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ صرف اپنی منزل کو فوکس رکھئیے۔ ایک دن جب آپ سر اٹھائیں گےتو زمانہ آپ کے ساتھ ہوگا۔ شرط یہ ہے کہ آپ لگے رہیں۔


صوبۂ پنجا ب میں جن صوفیائے کرام نے اپنے علم و عمل اور حسنِ اخلاق سے ہزارہا لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا، انہیں کفر کے اندھیروں سے نکال کر ان کے دلوں کو نورِ ایمان سے منور کیا، اسلامی تعلیمات کو عام کیا اورمخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچایا ان میں عظیم المرتبت صوفی بزرگ برہان الواصلین، شمس السالکین، سلطان العارفین حضرت خواجہ سلطان باہو کا بھی شمار ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے وصالِ پُرملال کو سینکڑوں سال گزر نے کے باوجود آج بھی ان کا نام زندہ و تابندہ ہے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نام ”سلطان باہو“ ہے۔ صوفیائے کر ام رحمۃاللہ علیہم نے آپ کو”سلطان العارفین“ کے لقب دیا۔ آپ کا تعلق قبیلہ اعوان سے ہے۔ آپ کا شجرۂ نسب سلطان باہو بن بازیدمحمد بن فتح محمد بن اللہ دتہ جو آگے چل کر امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم تک جا پہنچتا ہے۔

پیدائش سے پہلے ولایت کی بشارت :

والدۂ ماجدہ حضرت بی بی راستی رحمۃ اللہ علیہا کو حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پیدائش سے پہلے ہی الہام ہوچکا تھا کہ ان کے شکم میں ایک ولیِ کامل پرورش پارہا ہے چنانچہ خود فرماتی ہیں: مجھے غیب سے یہ پتاچلا کہ میرے پیٹ میں جو لڑکا ہے وہ پیدائشی ولی اللہ اور تارکِ دنیا ہوگا۔

بچپن کی کرامات :

۱۔آپ رحمۃ اللہ علیہ شیر خواری کے دنوں میں جب رمضان المبارک آتاتو دن بھر والدہ ماجدہ کا دودھ نہ پیتے، افطار کے وقت پی لیا کر تے۔

۲۔ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سانس کے ساتھ ”ہو ہو“ کی آواز اس طرح نکلتی تھیں جیسے آپ رحمۃ اللہ علیہ ذکر الہٰی میں مشغول ہوں۔

۳۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو کھلونوں سے کھیلا کر تے اور نہ ہی بچوں کے دیگر مشاغل اختیار کرتے۔(باہو عین باہو، ص ۱۱، ملخصاً)

آپ ر حمۃاللہ علیہ کی نظر کی کر امت :

آپ رحمۃ اللہ علیہ نظریں جھکا کر چلا کرتے تھےاگر راہ چلتے اچانک کسی مسلمان پر نظر پڑ جاتی تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا: واللہ! یہ کوئی عام بچہ نہیں اس کی آنکھوں میں عجیب روشنی ہے جو براہِ راست دلوں کو متاثر کرتی ہےاگر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر کسی غیر مسلم پر پڑجاتی تو اس کی بگڑی سنور جاتی اور وہ اپنے آبائی باطل مذہب کو ترک کردیتا اور کلمۂ طیبہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ۔

جب سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی نظر ولایت سے غیر مسلموں کے قبول اسلام کے واقعات کئی مرتبہ پیش آئے تو مقامی غیر مسلموں میں کھلبلی مچ گئی چنانچہ وہ سب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم حضرت بازید محمد علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے صاحبزادے حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی شکایت کرنے لگے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم نے پوچھا: آخر میرے بیٹے کا قصو ر کیا ہے؟ یہ تو بہت چھوٹا ہے کسی پرہاتھ اٹھانے کے بھی قابل نہیں ہے۔ایک شخص نے کہا: اگر ہاتھ اٹھالیتا تو زیادہ اچھا تھا، والد ماجد نے حیران ہو کر پوچھا پھر کیا گلہ ہے؟

ان کے سر برا ہ نے کہا: آپ کا بچہ ہم میں جس پر بھی نظر بھرکر دیکھ لیتا ہے وہ مسلمان ہوجاتا ہے اس کی وجہ سے شور کوٹ کے لوگوں کا آبائی مذہب خطرے میں پڑ گیا ہے، بڑی عجیب شکایت تھی والد صاحب کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر فرمایا : اب تم ہی بتاؤ میں اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں؟

سربراہ نے کہا، قصور تو بچے کی دایہ کا ہے جو اسے وقت بے وقت باہر لے جاتی ہے آپ سے ایک گزار ش ہے کہ آپ بچے کی سیر کا ایک وقت مقرر کرلیں، بالآخر حضرت بازید محمد رحمۃ اللہ علیہ نے سختی کے ساتھ دایہ کو ہدایت کردی کہ وہ ایک مقررہ وقت پر سلطان باہو کو باہر لے کرجایا کریں اس کے بعد شہر کے غیر مسلموں نےاس کام پر چند نوکر رکھ لئے کہ جب سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ باہر نکلیں تو بازاروں اور گلی کوچوں میں ان کی آمد کی خبر پہنچادی جائے لہذا جب نوکر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی خبر سنتے تو لوگ یعنی غیر مسلم اپنی اپنی دکانوں اور مکانوں میں چھپ جاتے۔(مناقب سلطانی، ص ۲۷ ، مخلصاًوغیرہ)

بارگاہِ رسالت سے فیوض و برکات:

حضرت سلطا ن باہو فرماتے ہیں: کہ میں بچپن میں ایک دن سڑک کے کنارے کھڑا تھا ایک با رُعب صاحب حشمت نورانی صورت والے بزرگ گھوڑے پر تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے گھوڑے پر بٹھالیامیں نے ڈرتے اور کانپتے ہوئے پوچھاآپ کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: میں علی بن ابی طالب ہوں۔ میں نے پھر عرض کی: مجھے کہاں لے جار ہے ہیں، فرمایا: پیارے آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے تمہیں ان کی بارگاہ میں لے جارہا ہوں جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ی ہوئی تو وہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہم بھی جلوہ فرماتھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے نبیوں کے سردار رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھائے اور ارشاد فرمایا: میر ے دونوں ہاتھ پکڑلو ، پھر دستِ اقدس پر بیعت لی اور کلمہ طیبہ کی تلقین فرمائی ۔حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب میں نے لا الہ الالہ محمد الرسول اللہ“ پڑھا تو درجات و مقامات کا کوئی حجاب باقی نہ رہا، اس کے بعد حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مجھ پر توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں صدق و صفا ( یعنی سچائی اور پاکیزگی ) پیدا ہوگئی،توجہ فرمانے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس مجلس سے رخصت ہوگئے، پھر اس کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے میری طرف توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں عدل و محاسبہ نفس پیدا ہوگیا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ بھی رخصت ہو گئے، ان کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے میری طرف توجہ فرمائی جس سے میرے اندر حیا اور سخاوت کا نور پیدا ہوگیا، پھر وہ بھی اس نورانی مجلس سے رخصت ہوگئے، اس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھ پر توجہ فرمائی، تو میرا جسم علم، شجاعت اور حلم سے بھر گیا پھر پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر حضرت سیدتنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : تم میرے فرزند ہو پھر میں نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہا کے قدمین شریفین کا بوسہ لیا اور ان کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں ڈال لیا، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیردستگیر حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمادیا۔ حضور غوث پاک نے مجھے مخلوق خدا کی رہنمائی کا حکم ارشاد فرمایا، حضرت سلطا ن باہو رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے جو بھی دیکھا ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔(باہو عین باہو،ص ۱۱۱تا ۱۱۳ ملخصاً وغیرہ)

سائلو دامن سخی کا تھام لو، کچھ نہ کچھ انعام ہوہی جائے گا

مفلسوں ان کی گلی میں جا پڑو باغ خلد اکرام ہو ہی جائے گا

مٹی سونا بن گئی :

تحصیل شور کوٹ (ضلع جھنگ پنجاب پاکستان) سے کئی میل دور ایک خاندانی رئیس مفلس ہوگیا، اس نے ایک مقامی بزرگ سے اپنی مفلسی و تنگدستی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی حالت زار اس طرح بیان کی کہ حضور اب تو اکثر فاقوں نے گھیر رکھا ہے دروازے پر قرض خواہوں کا ہجوم رہتا ہے، مفلسی کی وجہ سے بچوں کی شادیاں اور دیگر ضروریات کی ادائیگی مشکل ہوگئی ہے سمجھ نہیں آتا کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ بزرگ نے فرمایا کہ دریائے چناب کے کنارے شور کورٹ جاؤ، وہاں سلطان العار فین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی مشکلات بیان کرنا، جب اسے امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی تو وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ سفر کرکے شور کوٹ پہنچا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس وقت کھیت میں ہل چلا رہے تھے، وہ شخص یہ دیکھ کر بہت مایوس ہوا اور سوچنے لگا جو شخص خود مفلسی کا شکار ہے اور ہل چلا کر گزر بسر کرتاہے وہ بھلا میری کیا مدد کرے گا، یہ سوچ کر جونہی پلٹا تو کسی نے اس کا نام لے کر پکارا وہ حیران ہوا کہ یہاں تو میں اجنبی ہوں پھر میرا نام پکارنے والا کون ہے؟، پلٹ کر دیکھا تو حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ اسے بلارہے تھے جب اس نے یہ ماجرا دیکھا تو دل میں امید پیدا ہوئی اور فورا آپ رحمہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں باادب حاضر ہوگیا۔

حضرت سلطان باہو رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: تم نے سفر کی تکالیف برداشت کیں اتنا فاصلہ طے کیا پھر بھی ہم سے ملے بغیر جارہے ہو، اس نے گریہ زاری کرتے ہوئے اپنی خستہ حالی کی داستان سنائی ، حضرت سلطان باہو علیہ الرحمہ نے اسی وقت زمین سے مٹی کا ایک ڈھیلا اٹھایا اور اسے زمین پر دے مارا جب اس شخص نے زمین پر نظر ڈالی تو کھیت میں موجود تمام پتھر اور ڈھیلے سونا بن گئے۔ ولی کامل حضرت سلطا ن باہو رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی بے نیازی سے فرمایا: اپنی ضرورت کے مطابق سونا اٹھا لو چنانچہ رئیس اور اس کے دوستوں نے وافر مقدار میں سونا اپنے اوپر لادا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اس کرم نوازی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہوگئے۔(مناقبِ سلطان، ص ۶۸، ملخصا وغیرہ)

دل کی بات جان لی :

مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں دو اشرفیوں کی تھیلیاں بھیجیں اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کنویں کے پاس بیٹھے کھیتوں کو پانی دے رہے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں تھیلیاں کنویں میں پھینک دیں وزیر کو بڑا تعجب ہوا اور اس کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ کاش یہ اشرفیاں مجھے مل جاتیں،آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دل کی بات جان لی اور جب کنویں کی طرف نظر فرمائی تو اس سے پانی کی بجائے اشرفیاں نکلنے لگیں آپ رحمہ اللہ علیہ کی یہ کرامت دیکھ کر وزیر آپ رضی اللہ عنہ کے قدموں میں گر گیا، آپ رحمہ اللہ علیہ نے ایک بار پھر اس پر نظرِ کرم فرما کر عشق حقیقی کا جام پلایا اوروہ دونوں اشرفیوں سے بھری تھیلیاں ا س کے حوالے کر دیں۔(باہو عین باہو، ص ۳۲۶،ملخصاً)


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ط

تذکرہ ٔ خواجہ سیدمبارک علی شاہ الوری رحمۃ اللہ علیہ

دُرُود شریف کی فضیلت

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم:میں نے گزشتہ رات عجیب واقعہ دیکھا ، میں نے اپنے ایک اُمتی کو دیکھاجوپُل صراط پر کبھی گھسٹ کر اور کبھی گھٹنوں کے بل چل رہا تھا ، اتنے میں وہ دُرُودآیا جو اس نے مجھ پر بھیجا تھا، اُس نے اُسے پُل صراط پر کھڑا کر دیا یہاں تک کہ اُس نے پل صراط پار کر لیا۔ (معجم کبیر ،25/282، حدیث:39)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

تذکرہ ٔ خواجہ سیدمبارک علی شاہ الوری

الورصوبہ راجستھان، ہند(1) کاسادات خاندان اپنی نسبی شرافت، علمیت اور قائدانہ صلاحیتوں سے مالامال ہے ،ان میں کئی ہستیوں نے دین وملت کے لیےایسی کثیر خدمات سرانجام دیں جوتاریخ کے اوراق میں نقش ہیں،تقریبا تین سوسال سے مسلمانانِ ہندوپاک ان کے فیوضات وبرکات سے مستفیض ہورہے ہیں ،اس خاندان کے ایک عظیم فرزند پاکستان کے آٹھویں بڑے شہرحیدرآباد(2 ) میں مدفون ہیں، میری مراد جوہرکانِ ولایت،گوہر بحرحقیقت،مخزنِ اسرارِ شریعت، معدنِ نورِ معرفت،پیرِطریقت،عالم شریعت حضرت خواجہ مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی رضوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اس رسالے میں ان کا مختصر ذکرخیرکیا جاتاہے ۔

خاندان کا تعارف

پیرطریقت حضرت خواجہ مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی رضوی صاحب خاندانِ سادات کے چشم وچراغ تھے ، آپ حسنی رضوی سیدتھے ،44ویں پشت میں آپ کانسب حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ (3) سے مل جاتاہے۔(4) آپ کے آباء واجداد مشہد مقدس(5) سے بلگرام(6) وہاں سے فیض آباد(7) اوروہاں سے ریاست الورمیں آئے، یہیں بودوباش اختیار کرلی ۔یہ خاندان نہایت شریف ،دین دار اور متقی تھا ، اس خاندان کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:مولانا سیدمبارک علی حسنی رضوی، مولانا سیدسلامت علی حسنی رضوی،مولانا حکیم سیدوزیرعلی حسنی رضوی ،سیدشاہ محورحسنی رضوی، سید ابوسعید محمود حسنی رضوی ،سیدابی نصربلخی حسنی رضوی،سید ابوکمال محمدحسنی رضوی،سیدقوت الدین محسن حسنی رضوی، سید ذکی حسن حسنی رضوی،سیدعلی حسنی رضوی، سید نورالدین ثانی حسنی رضوی،سیدصفی جفوی حسنی رضوی، سید غوث الدین حسنی رضوی، سید نورالدین حسنی رضوی، سید ابراہیم حسنی رضوی، سیدبرہان الدین حسنی رضوی، سید رضی الدین حسنی رضوی،سیدعبدالرزاق حسنی رضوی،سیدحافظ عبدالغفور حسنی رضوی، سید محمد صالح حسنی رضوی، سیدمہیمن حسنی رضوی، سیدعبداللہ ثالث حسنی رضوی، سیدشہاب الدین غوری حسنی ،سیدعبدالرحمٰن غوری حسنی، سیداسماعیل غوری حسنی، سید صفدرعلی حسنی، سیدتواب ابوالقاسم حسنی ،سیدطاہر حسنی ،سیدطیب حسنی ، سید اویس ثانی حسنی، سید عسکر حسنی، سید یحییٰ حسنی،سیدناصرالدین حسنی،سیدعلی حسنی، سیدحمود حسنی،سیدمحمود حسنی، سیدعبداللہ ثانی حسنی ،سید امام احمد حسنی، سید امام عمر حسنی ، سیدادریس اول حسنی، سید امام عبداللہ محض حسنی ،سیدامام حسن مجتبیٰ ۔ (8)

خاندانِ مبارکیہ الورمیں

اس خاندان کے پہلے فردجو الور آئے وہ مولانا سید مبارک علی شاہ کے جدامجد مولاناحکیم سید وزیرعلی حسنی رضوی بلگرامی ہیں،یہ عالم دین ،حکیم حازق ، اسلامی شاعر، مصنف کتب اورمعززینِ زمانہ سے تھے ، ان کا علاج حیرت انگیز ہوتاتھا ، مایوس لوگ ان کے علاج سے شفاپاتے تھے ،ریاست کے راجہ نے انہیں ریاستی طبیب مقررکیا تھا،انھوں نے 1855ء میں دہلی، لکھنؤ،آگرہ اوربریلی وغیرہ کے مشاہیربزرگوں کے حالات بنام ’’مرآۃ الہند‘‘تحریرفرمائے، جسے 1856ء میں الورسے شائع کروایا گیا تھا۔(9)

پیدائش

حضرت مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی صاحب کی ولادت تقریبا 1305ھ مطابق 1888ء کومحلہ نواب پورہ ، الور (راجستھان ، ہند)میں ہوئی۔ آپ کانام الورکے مشہور محدث اور ولی اللہ داداجی میاں،شاہ ِولایت ِالور حضرت شیخ سید مبارک شاہ محدث الوری رحمۃ اللہ علیہ (10) کے نام گرامی کی نسبت سے’’ سیدمبارک علی‘‘رکھا گیا، الورکے مشہور شاعر صاحبزادہ سیدشبیرحسین اخترزید ی (11) نے آپ کی منقبت لکھی جس میں آپ کے نام و جائے پیدائش (مولد)کا اس طرح ذکر کیا ہے :

مبارک ہے کہ جس پر مہرباں ہے خالق اکبر

جناب رحمۃ للعالمین کا پیار ہے جس پر

مبارک ہے نثارِ یاعلی کا جوخلیفہ ہے

مبارک ہے کہ جس کا مولدومسکن رہا الور (12)

والدین کا تذکرہ

مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب کے والدگرامی حضرت مولانا خواجہ سید سلامت علی شاہ حسنی صاحب ایک نیک اور علمی شخصیت کے مالک تھے،آپ کوتجارہ شہر (13) میں مدارالمہام (حاکم اعلیٰ،سربراۂ کار،نائبُ السلطنت)کے عہدے پر تعینات کیا گیا، اس کے بعد آپ تجارہ کے ایک قریبی علاقے ٹپوکڑہ (14) میں تشریف لے آئے یہاں کے لوگ آپ کے معتقد تھے، آپ نے یہیں قیام فرمایا اوررشدوہدایت کا سلسلہ جاری رکھا ، یہیں آپ کا وصال ہوا،مزارمبارک یہیں ہے۔ آپ صاحب کرامات تھے ، پٹوکڑہ کی ایک شاہراہ پر بہت بڑااژدھا رہتاتھا ،لوگ اس کے خوف سے لمباراستہ اختیار کرتے تھے، جب آپ کو معلوم ہوا توآپ وہاں تشریف لے گئے ،آپ نے ایک سکے پرکچھ پڑھ کردم کیا اوراژدھے کی طرف پھینک دیا، اس کا منہ بندہوگیااور وہ دم توڑ گیا۔ (15) حضرت مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب کی والدہ محترمہ دینی تعلیم سےآراستہ اور سلیقہ شعارخاتون تھیں، یہ بھی سادات کے حسنی خاندان سےتعلق رکھتی تھیں۔ (16)

تعلیم وتربیت

مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب نے دینی تعلیم علمائے الورسے حاصل کی۔قرآن کریم حضرت حافظ قاری محمدحنیف انصاری صاحب(17) اور فارسی کی تعلیم حضرت مولانا مفتی زین الدین الوری (18)سے حاصل کی ،اس زمانے میں الورمیں ولی کامل، مرشددوراں حضرت میاں صاحب مولانا سید نثارعلی شاہ مشہدی قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ (19) مرجع خاص و عام تھے، بچپن میں ہی مولانا سید مبارک علی شاہ صاحب کو میاں صاحب الوری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت حاصل ہوئی ، ان سےہی بیعت کا شرف پایا اورپھر سلسلہ قادریہ راجشاہیہ (20) اور سلسلہ چشتیہ صابریہ(21) میں خلافت سے بھی نوازے گئے۔(22)

مجاہد ات وریاضات

آپ بچپن سے ہی نمازروزوں کے پابند،فرائض وسنن کے عامل اورحسنِ اخلاق کے پیکر تھے ،تصوف کی جانب بہت لگاؤتھا ،آپ نے الورکی چاند پہاڑی (تال برچھوں )میں چِلّے کاٹے، ڈگی تالاب میں کھڑے ہوکرریاضت کی ،دوران ریاضت مچھلیوں نے آپ کوزخمی بھی کیا اورپنڈلیوں کا گوشت کھا لیا مگرپھربھی آپ نمازیں باجماعت اداکرتے رہے۔(23)

دیگربزرگوں سے استفادہ

مولاناسیدمبارک علی شاہ صاحب نے حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی(24) سے بھی استفادہ کیا اورسلسلہ نقشبندیہ توکلیہ (25)میں خلافت حاصل کی ، میاں صاحب حضرت مولانا سید نثارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ نے شیخ المشائخ، شبیہِ غوثِ اعظم پیرسیدشاہ علی حسین اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ(26) کی جانب رجوع کیا اور اُن سے 18ذیقعدہ 1341ھ کو سلسلہ چشتیہ نظامیہ اشرفیہ (27)اور سلسلہ قادریہ جلالیہ اشرفیہ(28)کی خلافت واجازت سے مشرف ہوئے (29) آپ کو شہزادۂ اعلیٰ حضرت، حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ (30) سے بھی استفادے کاموقع ملا اوراُن سے سلسلہ قادریہ رضویہ حامدیہ(31) کی خلافت اور اجازت حاصل ہوئی۔ صاحبزادہ سیدشبیرحسین اخترزیدی نے آپ کے روحانی سلسلوں کو اپنے شعرمیں یوں منظوم کیاہے:

مبارک ہے کہ چشتی قادری تھے سلسلے جس کے

مبارک ہے حقیقت معرفت کے جس میں تھے جوہر(32)

روحانی مقام ومرتبہ

مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب علم وعمل کے پیکر،ولی کامل، مرجع عوام،صاحب مراتب ، صاحب مسند اور کثیر اوصاف حمیدہ کے جامع بزرگ تھے ، الورمیں آپ کا مرتبہ ٔ روحانیت قابل ذکرشمارہوتاہے ،شارح بخاری ،شیخ الحدیث حضرت علامہ محمود احمد رضویرحمۃ اللہ علیہ (33) تحریر فرماتے ہیں :حضرت مولانا سید مبارک علی شاہ صاحب الوری جو اپنے وقت کے باکمال بزرگ تھے،نہایت عابدوزاہد،متقی و پرہیزگار اور صاحب کرامت شخصیت تھے ،رات دن عبادت وریاضت میں گزار دیتے۔ ریاست ِالورمیں آپ کے دولت کدہ پر مشائخ وفقراء اورمجازیب کا ہجوم رہتا تھا، دور دورسے حاجت مندآتے اور اپنی مشکلات کا روحانی علاج کراتےتھے ،حضرت سیدمبارک علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ بھی حضرت سید شاہ نثارعلی صاحب علیہ الرحمہ کے مرید وخلیفہ تھے۔آپ ریاست الورمیں اپنے پیرومرشدکا سالانہ عرس بڑی دھوم دھام سے منعقد کرواتے تھے،جس میں علما و مشائخ اورفقراءوصوفیاتشریف لاتے تھے ۔ (34)

پاکستان میں ہجرت

قیام پاکستان کے لیے الورکے مسلمانوں نے بھرپورکرداراداکیا اور تحریک پاکستان میں حصہ لیا،جب پاکستان بن گیا توحالات کے نا گفتہ بہ ہونے کی وجہ سے مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب نے پاکستان کے شہرلاہور(35) ہجرت کرنے کافیصلہ کیا کیونکہ لاہورمیں آپ کی ہمشیرہ رہتی تھی ،جن کی شادی امام المحدثین علامہ مفتی سیددیدارعلی شاہ الوری رحمۃاللہ علیہ (36) سے ہوئی تھی ،(37) نیزآپ کے بیٹے شیخ التصوف حضرت مولانا سید محمدعلی حسنی رضوی صاحب جامعہ حزب الاحناف لاہور(38) سے فارغ التحصیل ہوئے تھے اورلاہورشہرسے زمانہ طالب علمی سے واقف تھے۔ کچھ عرصہ آپ نے دارالعلوم حزب الاحناف اندرون دہلی گیٹ لاہورمیں قیام فرمایا ،پھر الور کے راجپوتوں نے (جو الور سے حیدرآباد ہجرت کرکے آئے تھےاورآپ کے مریدتھے ) آپ کو حیدرآبادآنے کی دعوت دی چنانچہ آپ حیدرآبادمنتقل ہوگئے۔ (39)

حیدرآباد میں خدمات

حیدرآبادمیں آپ کے مریدین نے آپ کو ہیرہ آباد،شاہی بازاراوردیگرمقامات پر ٹھہرنے کی پیشکش کی مگرآپ نے جامع مسجدنورکے قریب بلدیہ سے ایک پلاٹ خرید کر مکان تعمیرکرکے اس میں رہائش اختیارکی ،نور مسجدچھوٹی تھی ، اس کی توسیع فرمائی اور مسجد میں امامت اختیارکی اورسلسلہ مبارکیہ کی ترویج کی بھی کوشش جاری رکھی، آپ سے حیدرآبادکے ہزاروں لوگوں نے استفادہ کیا اوربھرپورمستفیض ہوئے ۔ (40)

شریعت کی پابندی

عوام ہوں یا خواص سب پر شریعت کی پابندی ضروری ہے ،حضرت مولانا سید مبارک شاہ صاحب نہ صرف خود پابندِقرآن وحدیث اورمتبع سنت تھےبلکہ اپنے مریدوں اوردیگرلوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے ،آپ کو نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے میں کسی کی پروا ہ نہیں ہوتی تھی ،یہی وجہ ہے کہ جو آپ کی صحبت میں آتاپابندِصوم و صلوۃ اورشریعت مطہرہ کےمطابق زندگی گزارنے والابن جاتاتھا ،آپ کی پوری زندگی سنت مصطفی کی تصویرتھی،آپ نے اپنے دونوں بیٹوں شیخ التصوف حضرت مولانا سیدمحمدعلی حسنی رضوی اورمولانا سیدانوارعلی حسنی رضوی رحمۃ اللہ علیہماکی ایسی تربیت کی کہ یہ دونوں بھی علم وعمل کے پیکراورسنتوں کے پابندتھے ۔(41)

شادی و اولاد

حضرت مولانا سیدمبارک علی شاہ رضوی صاحب کا نکاح اپنے پیرومرشد حضرت مولانا سید نثارعلی رضوی مشہدی رحمۃاللہ علیہ کی بھتیجی سے ہوا ۔(42) آپ کی زوجہ سیّدہ محترمہ صوم و صلوۃ کی پابنداورعلم وعمل کی پیکرتھیں۔ آپ کے دوصاحبزادے ہیں :

شیخ التصوف علامہ سیدمحمدعلی رضوی

بڑے بیٹے مجاہدتحریک عقیدہ ٔختم نبوت حضرت مولانا سید محمد علی حسنی رضوی الوری(43)تھےجن کی شادی کاظمی خاندان میں ہوئی ،ان کے سسرقاضی سید محفوظ علی کاظمی اجمیری صاحب تھے، ان کےدوصاحبزادے٭صاحبزادہ سید برکات احمدحسنی رضوی ٭صاحبزادہ سیدحسنات احمدحسنی رضوی اورتین صاحبزادیاں ہیں ۔

مولانا صوفی سیدانوارعلی رضوی

چھوٹے بیٹے حضرت مولانا صوفی سید انوار علی حسنی رضوی ہیں (44) جن کی شادی قیام پاکستان کے بعد مغل خاندان کے مرزا مقیم بیگ صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی ،آپ کی آٹھ صاحبزادیاں اور تین صاحبزادے ہیں ،صاحبزادوں کے نام یہ ہیں :٭صاحبزادہ حضرت مولانا پیر سید اشرف علی حسنی رضوی٭صاحبزادہ سیدافسرعلی حسنی رضوی ٭صاحبزادہ مولانا سید نجف علی حسنی رضوی ۔ (45)

صاحبزادیاں

حضرت مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی تین صاحبزادیاں ہیں : ٭زوجہ حضرت قبلہ سائیں سید احمد علی شاہ کمبل پوش چشتی نظامی(46)، ٭زوجہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی شاہ ابو البرکات سید احمد رضوی(47)، ٭زوجہ قاضی اشتیاق حسین (سابق فارسٹ آفیسر پنجاب)اللہ پاک اس سادات گھرانے کو سلامت رکھے اور دنیا و آخرت سے مالامال فرمائے۔ (48)

مشائخ سے رابطہ

آپ حسن اخلاق کے پیکر،دل جوئی اورمہمان نوازی کرنے والے اور ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے ،آپ کا ہم عصرعلماومشائخ سے نہ صرف رابطہ تھا بلکہ دلی وابستگی بھی تھی، ان میں سے حضرت قاری حافظ پیر سید عابد علی شاہ صاحب(49)، حضرت پیر سید واحد علی شاہ صاحب(50) حضرت پیرطریقت میاں عبدالقادر تولیڑے والے(51)، حضرت پیر میاں سید نذیر احمدشاہ دیسولے والے(52) حضرت پیر ننھا میاں قادری (53) حضرت پیر سید احمد مدنی شاہ(54) حضرت مولانا عبدالرحیم ڈکاری شاہ اور حضرت خواجہ اخونددوسی پشاوری(55) وغیرہ شامل ہیں ،یہ حضرت نمازجمعہ جامع مسجد الور (56) میں ادافرماتے اور عصرتک ان حضرات کی مجلس جاری رہتی، حضرت پیر عیدوپھول شاہ صاحب دوھے والے(57) الورتشریف لاتے اورحضرت حافظ سیدعبدالحکیم شاہ صاحب (58) کے ہاں قیام فرماتے ، یہ آپ سےضرورملاقات کیا کرتے تھے ۔(59)

وفات ومدفن

مولانا سیدمبارک علی شاہ حسنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی وفات کی خبرپہلے دے دی تھی، علالت کے دوران حضرت مولانا عبدالشکورصادق چشتی نظامی(60) کوحکم صادرفرمایا کہ میرے دونوں بیٹوں کی خلافت واجازت نامہ تحریرفرمائیں ،چنانچہ ایساہی کیا گیا ،آپ نے ان پر دستخط فرماکردونوں بیٹوں کواجازت نامے عطافرمائے۔(61) آپ کا وصال حیدرآباد سندھ میں 23ذوالحجہ 1373ھ مطابق 3ستمبر1953ءکو ہوا،تدفین حیدرآباد کے قدیمی ٹنڈویوسف قبرستان میں کی گئی،(62) الورکے مشہورشاعرصاحبزادہ سید شبیر حسین اختر زیدی نےیہ قطعہ لکھا :

بست وذی الحجہ درآدینہ شب رحلت نمود اس مسافرازسرائے ہستی ناپائیدار

سہ ستمبربودوسالش خواں ’’براے مغفرت‘‘1953ء

مزارکی تعمیر

1954ء میں آپ کی قبرکو پختہ کیا گیا ،1972ء میں آپ کے صاحبزادے مولانا سیدمحمدعلی صاحب نے مزارشریف پر چھت ڈالنے کی سعادت پائی ،1993ء میں مزارشریف کے چاروں جانب چاردیواری تعمیرکی گئی ،1996ء میں آپ کے پوتے اشرف ملت حضرت مولانا صاحبزادہ سیداشرف علی شاہ صاحب نے چاردیواری کی ازسرنوتعمیرکی اورگنبدبنایا، مزیدتزئین وآرائش آپ کے پوتے صاحبزادہ سیدبرکات احمدرضوی نے کروائی ،اس آستانے کے موجودہ سجادہ نشین حضرت صاحبزادہ پیر سید اشرف علی حسنی رضوی قادری مدظلہ العالی(63) ہیں،جوعلم دین سےمالامال، سنتوں کے پابند اور ذکر و فکر میں مشغول رہنے والے انسان ہیں۔(64)

عرس کی تقریبات

حضرت خواجہ سیدمبارک علی شاہ صاحب کے مزارپرانواراور جامع مسجدنورپنجرہ پور حیدرآبادمیں ہرسال دھوم دھام سے عرس ہوتاہے ،راقم کے سامنے 68ویں دو روزہ عرس کا اشتہارہے ،جس سے معلوم ہوتاہے کہ 22،23ذوالحجہ1442ھ مطابق 2،3 اگست 2021ء کو حیدرآبادمیں منعقدکیا گیا ،جو قرآن خوانی،نعت خوانی، تقاریر علمائے اہل سنت اورچادرپوشی وغیرہ کی تقریبات پرمشتمل ہیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حواشی ،ماخذومراجع

(1) الورہند کے صوبے راجستھان کا ایک شہرہے جو تقریبا 75سال پہلے ریاست الورکا دارالحکومت تھا ، یہ دہلی اور جےپور کے درمیان واقع ہے دونوں جانب برابربرابر(یعنی 150کلومیڑ) فاصلہ ہے ،الورشہرمیں کئی اولیائے کرام کا مسکن ہے مثلامحدث الورسید مبارک شاہ،حضرت غالب شہید،حضرت مخدوم شاہ کمال چشتی، سلسلہ رسول شاہی کے بزرگ وغیرہ ۔(حیات کرم حسین ،23)

(2) حیدرآباد، پاکستان کے صوبہ ٔ سند ھ کا اہم شہرہے ،1935ء سے پہلے یہ سندھ کا دارالحکومت تھا،حیدرآباد صنعت اور تجارت کے لحاظ سے پاکستان کے اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی اہم صنعتوں میں چوڑی، چمڑا، کپڑا اور دیگر صنعتیں شامل ہیں،اس میں دعوت اسلامی کاعالی شان مدنی مرکز فیضان مدینہ آفندی ٹاؤن میں واقع ہے ،جس کو دنیائے دعوت اسلامی میں پہلافیضان مدینہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔

(3) نورِچشمِ رسول، جگر گوشۂ بتول، حضرت امام ابو محمد حسن بن علی مُجتبٰی رضی اللہ عنہ کی ولادت 15رمضان 3ہجری کو مدینہ منور ہ میں ہوئی اوریہیں 5ربیعُ الاوّل 49یا50ھ کو بذریعہ زہرخوانی شہادت پائی ،مزارپرانوارجنت البقیع میں ہے، آپ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم کےبڑے بیٹے،حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے شہزادے، نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشابےاورجنت کے نوجوانوں کے سردار تھے ،شجاعت،سیادت(سرداری)،سخاوت، تقویٰ وعبادت کے خوگرتھے، آپ کی شان میں کئی فرامین مصطفیٰ ہیں جن میں سے یہ بھی ہے: یہ میرا بیٹا سردار ہے یقیناً، اللہ پاک اس کی وجہ سے مسلمانوں کےدوگروہوں میں صلح کرائےگا۔ ( الاصابہ، 2 /60،صفۃ الصفوة، 1/386)

(4) اشتہارعرس ،اگست 2021ء ۔

(5) مشہد ایران کے شہروں میں سے ایک اہم شہر ہے ،آبادی کے لحاظ سے ایران کا دوسرا بڑا شہرہے۔ اس شہر میں امام علی رضارحمۃ اللہ علیہ مدفون ہیں، سالانہ کروڑوں لوگ آپ کے مزارپر حاضری کے لئے آتے ہیں۔

(6) بلگرام ہند کی ریاست اترپردیش کے ضلع ہردوائی کا ایک اہم شہر ہے۔

(7) فیض آباد ہندکے صوبے اترپردیش کا اہم شہرہے یہ دریائے گھاگھراکے کنارے واقع ہے ،یہ 1722ء تا 1775ء تک نوابی ریاست اودھ کا دارالحکومت رہا اورخوب ترقی کی ،اس کےبعد لکھنؤ(یوپی ہند)کو ریاست کا دارالحکومت بنادیا گیا ۔

(8) روشن تحریریں ،48،49وغیرہ۔

(9) مرجع الور،ص146،حیات کرم حسین ،ص130،تذکرۂ مبارک ،ص16،17،حیات کرم حسین میں آپ کا تخلص شیدالکھا ہے ۔

(10) اکبری دورکے عظیم محدث داداجی میاں صاحب،شاہِ ولایت الور حضرت علامہ سیدمبارک شاہ محدث الوری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ایک سادات گھرانے میں 897ھ مطابق1491ء میں ہوئی اوروصال 22محرم 987ھ مطابق 21مارچ 1579ءکو نوے سال کی عمرمیں الورمیں فرمایا۔آپ کو شہرسے باہرایک پرسکون مقام میں دفن کیا گیا، بعدمیں جہانگیر بادشاہ نے آپ کا عالیشان مزار تعمیرکروایا تھا، آپ بہترین عالم دین ،محدث وفقیہ ،صاحب کرامت ولی اللہ اورکثیرالفیض تھے اس لیے لوگوں کا آپ کی طرف بہت رجوع تھا۔ آپ صاحب کمال بزرگ تھے، آپ کی ذات میں سخاوت اورایثارپسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، مخلوق خدا پر بے دریغ مال خرچ کیا کرتے تھے،حاجت مندوں کی مدد کرتے، امرا بھی خالی ہاتھ نہ جاتے۔ (سیدی ابوالبرکات،118، نزھۃ الخواطر، 4/251، روشن تحریریں ، 130، مستفاد، منتخب التواریخ، ص 623) آپ کے تفصیلی حالات پڑھنے کے لیے راقم کا مقالہ ’’تذکرۂ محدث الور‘‘کا مطالعہ کیجئے۔

(11) صاحبزادہ سیدشبیرحسین اختر زیدی الورکے مشہورشاعرتھے اوراخترانکاتخلص تھا یہ الورکےعالم شہیراستاذالعلماء مولانا سیّد ضامن علی زیدی صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ سندھ کےمعروف شاعرمقبول الوری (وفات: 27فروری 1989ء) ان اختر الوری صاحب کے بیٹے ہیں ۔(حیات کرم حسین،ص130،روشن تحریریں ،ص50)

(12) روشن تحریریں،ص50،تذکرہ مبارک ص 16۔

(13) تجارہ (Tijara،তিজারা)الورشہرسے شمال مشرق55کلومیڑواقع ایک قدیم قصبہ ہے، یہ ریاست الورکا حصہ تھا، 1826ء میں راجۂ ریاست الور بختاورسنگھ کے بعد یہ ریاست اس کے دوبیٹوں میں تقسیم ہوگئی ،راجہ بنے سنگھ ریاست الوراورراجہ بلونت سنگھ ریاست تجارہ کے حکمران طے پائے،بلونت سنگھ نے 1845ء تک تقریباً 20سال تجارہ،کشن گڑھ،کرنی کوٹ،منڈاورپر حکومت کی اور1845ءکو لاولداس دنیا سے گیا ، تجارہ پھر الورمیں شامل ہوگیا ،راؤ راجہ بنے سنگھ الوروتجارہ کا حکمران بن گیا۔تجارہ میں کئی اولیائے کرام کے مزارات ہیں ،حضرت شاہ غازی گدن شاہ ولایت مداری(وفات1009ھ مطابق 1600ء)،حضرت رکن عالم شہید (421ھ مطابق 1030ء)، حضرت میراں جی شاہ جیون ابوالعلائی (26رجب 1167ھ مطابق1753ء)،حضرت شاہ بلم نور،حضرت مرزا احمد شاہ قادری (خلیفہ حضرت حمزہ مارہروی )،حضرت شاہ ابوالغیث ابوالعلائی (1241ھ مطابق1825ء) وغیرہ(حیات کرم حسین، ص23،22،67،68 ،126)

(14) ٹپوکڑہ(Tapukra،टपूकड़ा) تجارہ سے جانب شمال 21کلومیٹراوردہلی سے جانب جنوب ساڑھے 87کلومیٹرواقع ہے۔

(15) تذکرہ مبارک،ص17،20۔

(16) روشن تحریریں ،ص48،49۔

(17) حالات معلوم نہ ہوسکے۔

(18) حضرت مولانامفتی سیدزین العابدین الوری امام المحدثین مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے شاگرد،مدرسہ قوت الاسلام الورکے مدرس اورمفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدقادری الوری کے بھی استاذہیں ۔( تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہور،ص319،تذکرہ اکابراہل سنت،ص142،تذکرہ مبارک،ص17)

(19) حضرت میاں صاحب مولانا سید نثارعلی شاہ مشہدی قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت غالبا1245ھ مطابق 1830ء کو الورکے سادات گھرانے میں ہوئی اور یہیں 6شوال 1328ھ مطابق 11،اکتوبر 1910ء کو وصال فرمایا،آپ درسِ نظامی کے فاضل ،جیدعالم دین ، سلسلہ قادریہ راجشاہیہ اورسلسلہ چشتیہ صابریہ کے شیخ طریقت تھے ، یہ الورکی ہردل عزیزشخصیت اورمرجع خاص وعام تھے ، مشہور سنی عالم دین امام المحدثین مفتی سیددیدارعلی شاہ الوری ان کے بھتیجے اور خلیفہ ہیں ۔ ( سیدی ابوالبرکات ،ص117،روشن تحریریں ،ص139 )حضرت میاں صاحب الوری رحمۃ اللہ علیہ کے تفصیلی حالات اورآپ کے سلسلہ قادریہ وسلسلہ چشتیہ صابریہ کے بزرگوں کے مختصر حالات پڑھنے کے لیے راقم کا مقالہ ’’تذکرہ ٔ حضرت میاں صاحب الوری‘‘کا مطالعہ کیجئے ۔

(20) سلسلہ قادریہ راجشاہیہ میں شجرہ طریقت اس طرح ہے : میاں صاحب حضرت مولانا پیرسید نثارعلی رضوی قادری راجشاہی ، شیخ کمال میاں غازی الدین شاہ قادری راجشاہی، فردوِقت حضرت میاں راج شاہ قادری،قطب عالم حکیم محمد اسماعیل مہمی قادری شہید، خواجہ مجاہد حضرت شاہ غلام جیلانی صدیقی قادری، جامع شریعت وطریقت حضرت شاہ بدرالدین اوحدقادری، ناصرالملت والدین حضرت مولانا شاہ محمدفاخرالہ آبادی قادری، حضرت شاہ خوب اللہ یحیی الہ آبادی قادری، تاج العارفین شیخ محمدافضل الہ آبادی قادری،سیّدالاولیاء حضرت سید محمد ترمذی کالپوی قادری، اس کے آگے شجرہ ٔ قادریہ پاک وہند میں معروف ہے۔ (ملت راج شاہی، 370تا372) مزیدتفصیل راقم کے مقالے ’’تذکرہ میاں صاحب الوری‘‘ میں دیکھئے۔

(21) سلسلہ چشتیہ صابریہ میں شجرہ طریقت یہ ہے: میاں صاحب حضرت مولانا پیرسید نثار علی رضوی قادری چشتی، حضرت خواجہ غلام رسول لکھنؤی، حضرت خواجہ خدا بخش لکھنؤی، حضرت مولاناخواجہ شاہ عبدالرحمن موحد لکھنؤی، حضرت خواجہ شاہ نورالہدی منگلوری،حضرت خواجہ مفتی محمد سلیم الدین منگلوری، حضرت خواجہ محمد یوسف سامانہی،حضرت خواجہ محمدابراہیم مرادآبادی،حضرت خواجہ محمد صادق گنگوہی، حضرت خواجہ ابوسعید گنگوہی، اس کے آگے شجرہ ٔ چشتیہ صابریہ پاک و ہند میں معروف ہے۔ (شجرہ قادریہ نثاریہ مبارکیہ رضویہ اشرفیہ، ص3تا5) مزید تفصیل راقم کے مقالے ’’تذکرہ میاں صاحب الوری‘‘میں دیکھئے۔شجرہ قادریہ نثاریہ 21صفحات پر مشتمل رسالہ ہے اس کے ناشرصاحبزادہ پیرسیدنجف علی شاہ حسنی صاحب ہیں جنہوں نے اسےحضرت مولانا صاحبزادہ پیرسید اشرف علی شاہ حسنی صاحب کے حکم سے بخاری پرنٹنگ پریس حیدرآبادسندھ سے شائع کروایا ہے، سن اشاعت معلوم نہ ہوسکا،یہ رسالہ مبلغ دعوت اسلامی حاجی محمدسہیل عطاری صاحب نے مجھے بھیجا اس پر راقم ان کا اورحضرت مولاناصاحبزادہ پیر سید اشرف علی شاہ حسنی صاحب کا شکرگزارہے ۔

(22) روشن تحریریں ، ص49۔

(23) تذکرہ مبارک،ص18۔

(24) حضرت خواجہ سائیں توکل شاہ انبالوی کی ولادت 1255ھ مطابق 1840ء موضع پکھو کی (ضلع گورد اسپور،مشرقی پنجاب )میں ہوئی اور4ربیع الاول 1315ھ مطابق 3اگست1897ء کو انبالہ (مشرقی پنجاب )میں وفات پائی،آپ مادر زاد ولی ، سلسلہ نقشبندیہ کے معروف بزرگ ،امی ہونے کے باوجودعلم لدنی اورمعرفت کے خزینے تھے۔ (ذکرخیرصحیفہ محبوب،ص17،174،243)

(25) سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ توکلیہ میں شجرہ طریقت یہ ہے : حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی، خواجہ قادربخش جہاں خیلاں ہوشیارپوری ،حافظ حاجی محمود آرزو جالندھری، مولانا شاہ محمدشریف قندھاری ،حضرت شاہ ابوسعیدمجددی دہلوی، حضرت شاہ غلام علی دہلوی، اس کے آگے شجرہ ٔ نقشبندیہ مجددیہ پاک وہند میں معروف ہے ۔ (لمعات کمالات قادریہ وتبرکات خالقیہ، ص 110تا123)

(26) شیخ المشائخ مخدوم الاولیا ،شبیہ غوث اعظم حضرت شاہ سیدعلی حسین اشرفی رحمۃ اللہ علیہ عالِمِ دین، شیخِ طریقت، مَرْجَعِ عُلَما اور اَکابِرِینِ اَہلِ سنّت سے تھے۔ 1266ھ کَچھوچَھہ شریف میں پیدا ہوئے اور 11 رجب 1335ھ میں وِصال فرمایا۔ مزار شریف کچھوچھہ شریف میں ہے۔(تذکرہ علمائے اَہْلِ سنّت، 188تا190)

(27) سلسلہ چشتیہ نظامیہ اشرفیہ میں شجرہ طریقت یہ ہے :حضرت شاہ سیدعلی حسین اشرفی کچھوچھوی،مولانا سیداشرف حسین شاہ ،حضرت سیدنیاز اشرف شاہ، حضرت سید داؤدعلی شاہ،حضرت سیدتوکل علی شاہ،حضرت سیدبہاؤالدین شاہ، حضرت سید محمدمرادشاہ،حضرت سیدفتح اللہ شاہ،حضرت سیداحمدشاہ،حضرت سید شاہ راجو، حضرت سید محمود شمس الحق والدین،حضرت سیدحاجی چراغ جہاں، حضرت سید جعفر شاہ لاڈ،حضرت سیدحسین قتال، حضرت سید عبدالرزاق نورالعین، مخدوم سلطان سیداشرف جہانگیرسمنانی،حضرت خواجہ شیخ علاء الدین بنگالی، حضرت خواجہ عثمان اخی سراج الحق بنگالی ۔(سوانح حیات خاندان رضویہ برکاتیہ مع شجرہ عالیہ قادریہ اشرفیہ برکاتیہ،35،36)

(28) سلسلہ قادریہ جلالیہ اشرفیہ میں شجرہ طریقت یہ ہے :حضرت شاہ سیدعلی حسین اشرفی کچھوچھوی،مولانا سید اشرف حسین شاہ، حضرت سیدمنصب علی شاہ، حضرت سید قلندربخش شاہ،حضرت سیدصفت اللہ اشرف، حضرت سیدنواز اشرف، حضرت سید نذر اشرف ،حضرت سیدعنایت اللہ،حضرت سیدہدایت اللہ، حضرت سید نوراللہ، حضرت سیدعبدالرسول ،حضرت سیدحسین،حضرت سیدمحمد، حضرت سید اشرف شاہ شہید، حضرت سید محمد حسن، حضرت سید عبدالرزاق نورالعین، مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی،حضرت سیدمخدوم جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت۔ (سوانح حیات خاندان رضویہ برکاتیہ مع شجرہ عالیہ قادریہ اشرفیہ برکاتیہ، 37،38)

(29) مخدوم الاولیا محبوب ربانی ،309۔

(30) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عالم ِدین،ظاہری و باطنی حسن سےمالامال اور جانشینِ اعلیٰ حضرت تھے ۔بریلی شریف میں ربیعُ الاول 1292ھ میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ میں وصال فرمایا اور مزار شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہور ہے۔ (فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(31) سلسلہ قادریہ رضویہ میں شجرہ طریقت یہ ہے : حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان ، اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان ، حضرت شاہ آل رسول مارہروی ، حضرت شاہ آل احمداچھے میاں ، حضرت شاہ حمزہ مارہروی، حضرت شاہ آل محمدمارہروی، حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی، حضرت سیدفضل اللہ شاہ کالپوی، حضرت شاہ احمدکالپوی ، حضرت شاہ محمد کالپوری ۔ (شجرات قادریہ نثاریہ مبارکیہ رضویہ اشرفیہ ،12،13) یہ اوراس سے آگے شجرہ ٔ قادریہ پاک وہند میں معروف ہے ۔

(32) روشن تحریریں ،50۔

(33) شارح بخاری،شیخ الحدیث حضرت محموداحمدرضوی صاحب بن مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی 1343ھ مطابق 1924ء کو آگرہ (ہند) میں پیدا ہوئے،آپ جیدعالم دین ،محقق مقرر، مفتی اسلام، بہترین مدرس درس نظامی ، مصنف کتب کثیرہ اورملکی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے تھے، کچھ عرصہ رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے، 4رجب المرجب 1420 ھ مطابق 14 اکتوبر 1999ء کو لاہور میں وفات پائی،دارالعلوم حزب الاحناف لاہورمیں دفن کئے گئے۔ ( تذکرہ اکابرِ اہل سنّت، ص 140 ، تذکرہ علما اہل سنت و جماعت لاہور، ص 372 )

(34) سیدی ابوالبرکات ،118،119۔

(35) لاہورایک قدیم وتاریخی شہرہےمغلیہ عہدمیں لاہورکے اردگردفصیل اورتیرہ دروازے بنائےگئے ،372ھ کویہ ملتان سلطنت کا حصہ تھا،اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکزہے،اسےپاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباایک کروڑ 11لاکھ ہے۔

(36) امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ اسلام تھے۔ آپ اکابرین اہل سنّت سے تھے۔ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان) ہِند میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 22رجب 1345ھ مطابق 26جنوری 1927ءمیں وِصال فرمایا۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف اور فتاویٰ دِیداریہ آپ کی یادگار ہیں۔ آپ کا مزار مُبارَک اَندرونِ دہلی گیٹ محمدی محلّہ لاہور میں ہے۔ (فتاویٰ دیداریہ، ص2)

(37) ماخوذازسیدی ابوالبرکات ،118۔

(38) دار العلوم حزبُ الاحناف لاہوراہل سنت کی ایک مرکزی دینی درس گاہ ہے جو داتا گنج بخش روڈ پر واقع ہے۔ جس میں سے بڑے جلیل القدر علما فارغ التحصیل ہوئے،اس کے بانی امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ الوری ہیں جنہوں نے جامع مسجدوزیرخان (اندرونی دہلی گیٹ لاہور)میں 1322ھ مطابق 1924ء کواس کا آغاز فرمایا، 1345ھ مطابق 1926ء کو باقاعدہ اس کی عمارت جامع مسجدحنفیہ (مفتی سیددیدارعلی شاہ)محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ سے متصل بنائی گئی ،پھراسے گنج بخش روڈ پر وسیع وعریض عمارت میں منتقل کردیا گیا ۔

(39) روشن تحریریں،56،12۔

(40) تذکرہ مبارک،22۔

(41) تذکرہ مبارک ،22،23۔

(42) صاحبزادہ حضرت مولانا پیرسیدمحمداشرف حسنی رضوی صاحب کی جانب سے ایک تحریرمیں یہ بات ہے جس کا عکس راقم کے پاس موجودہے ۔

(43) مجاہدتحریک عقیدہ ختم نبوت حضرت مولانا سید محمد علی حسنی رضوی الوری کی پیدائش 1332ھ مطابق 1914ء کو الورمیں ہوئی، شعبان المعظم 1356ھ مطابق اکتوبر1937ء کو دارالعلوم حزب الاحناف سےفارغ التحصیل ہوئے، 1947ء تک دہلی کینٹ کی مسجدکے خطیب رہے ،جزوی طورپر تدریس بھی کی ،قیام پاکستان کے بعد لاہور آکر ہربنس پورکی مسجدمیں امامت وخطابت کی، اس کے بعدحیدرآبادآگئے ،یہاں آکر محلہ پنجرہ پول میں نورمسجداورمدرسہ برکات اسلام کی بنیاد رکھی ،اسکول میں ہیڈ ماسٹرکے فرائض بھی اداکرتے رہے ،1970ء میں قومی اسمبلی کے ممبربنائے گئے ،ختم نبوت بل پاس کرانے میں آپ کا بھی اہم کردار رہا، 1990ء میں مدرسہ احسن البرکات حیدرآباد(بالمقابل ہوم اسٹیڈ ہال) میں شیخ التصوف مقررہوئے ،دس سال اس منصب پرفائزرہے، آپ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب کے مریدوخلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ،شیخ المشائخ حضرت شاہ علی حسین اشرفی جیلانی،والدگرامی مولانا سید مبارک علی شاہ قادری چشتی، علامہ شاہ ابوالحسنات سیدمحمداحمدقادری،علامہ شاہ ابوالبرکات سید احمد رضوی اورشہزادۂ غوث الوری حضرت سید طاہرعلاؤ الدین گیلانی سے بھی خلافت حاصل تھی، آپ نے 11جمادی الاخریٰ 1429ھ مطابق 16جون 2008ءکو حیدرآبادمیں وصال فرمایا اوردرگاہ حضرت عبدالوہاب شاہ جیلانی میں دفن ہونے کی سعادت پائی۔(روشن تحریریں ،52تا64،32،5)

(44) حضرت مولانا صوفی سیدانوارعلی شاہ الوری میاں صاحب کے خلیفہ وجانشین حضرت مولانا سید مبارک علی حسنی رضوی کے فرزند،عالم دین اورصوفی باصفا تھے، ان کی وفات30جمادی الاخریٰ1415 مطابق3دسمبر 1994ء حیدرآباد سندھ میں ہوئی ،مزار، احاطہ مزارحضرت سیدنا گل شاہ غازی میں ہے ۔

(45) روشن تحریریں،56،55۔

(46) حضرت خواجہ سیداحمدعلی جمال شاہ کمبل پوش نظامی خاندانِ محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیا کے چشم وچراغ اور سجادہ نشین تھے ، آپ سالک نمامجذوب صاحبِ معارف تھے، صوفی شاعرحضرت مولانا عبدالشکورنظامی کمبل پوش اکبرآبادی ثم حیدرآبادی (وفات :14ربیع الاخر 1395ھ مطابق 26،اپریل1975 ء، مدفون حیدر آباد،سندھ پاکستان) آپ کے ہی خلیفہ ہیں۔ (انوارعلمائے اہلسنت سندھ، 547)

(47) مفتیِ اعظم پاکستان، سیّدُ المحدّثین حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قادری رَضَوی اشرفی، استاذُ العلماء، شیخ الحدیث، مناظرِ اسلام، بانی و امیر مرکزی دار ُالعُلوم حِزب ُالاحناف اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 1319 ہجری کو محلہ نواب پور اَلْوَر (راجستھان) ہند میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 20شوّال 1398ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک دارُ العلوم حِزب الاحناف داتا دربار مارکیٹ لاہور میں ہے۔ (تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص 318-314)

(48) تذکرہ مبارک،21،اس کے بارے میں مزیدمعلومات بذریعہ تحریرصاحبزادہ مولانا سیداشرف علی شاہ حسنی رضوی مدظلہ العالی نے عطا فرمائیں ۔

(49) امام انام حضرت خواجہ حافظ سید عابدعلی شاہ قادری چشتی الوری رحمۃ اللہ علیہ الورکے مشہوربزرگ ہیں ،آپ حضرت شاہ ولایت امروہی سہروردی کے خاندان سے تھے، حافظ صاحب کی ولادت 29رمضان 1298ھ مطابق 25،اگست 1881ءکو مرادآباد(یوپی ،ہند)میں ہوئی ،آپ نے حافظ محمد انورشاہ مرادآبادی (مریدوخلیفہ پیرجی میاں)سے حفظ قرآن کی سعادت پائی پھرحصول علم دین کے بعد پیرجی میاں احمد شاہ رامپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات میں حاضرہوکر 3صفر1316ھ کو بیعت ہوئےاور27شعبان1322ھ کو24سال کی عمرمیں خلافت سے نوازے گئے ،پیرجی میاں صاحب کے حکم سے2رمضان 1322ھ مطابق10 نومبر 1904 ء کو الورتشریف لائے اور رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا،آپ کا قیام دوسال چنبیلی باغ (بیرون دروازہ مالاکھیڑا،دامن کوہ الور)میں رہا،آپ عموماً نمازجمعہ مسجد دائرہ میں ادافرماتے تھے کیونکہ یہ مسجدآپ کے قریب تھی، نماز سے فراغت کے بعدآپ میاں صاحب مولاناسید نثار علی شاہ صاحب سے ملاقات کرتےاورباہم علم وعرفان پرمبنی گفتگوہوتی۔1323ھ مطابق 1905ء میں بحکم مرشد آپ اپنے چھوٹے بھائی حافظ سید واحدعلی شاہ الوری کو بھی یہاں لے آئے، تقریباً دوسال آپ کا قیام خواص کنہیالال جی باغیچی میں رہا، صرف 28سال کی عمرمیں آپ نے 29رمضان 1326ھ مطابق 25، اکتوبر 1908ء کو وصال فرمایا،آپ کی تدفین خانقاہ قادریہ موضع مونگسکہ نزدالورریلوے اسٹیشن میں ہوئی، جس پر عالیشان مزارکی تعمیرکی گئی ،آپ کا یوم عرس گیارہ شوال ہے۔(تجلیات مرشدالمعروف بہ سوانح امام انام حضرت سیدنا عابدعلی الوری، 20،23،24،32،88،110،109،134،تذکرہ صوفیائے میوات،571تا 578، تذکرہ کاملان رامپور، 20تا22،روشن تحریریں،137)

(50) پیرِ طریقت حضرت پیر سیّد واحد علی شاہ قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ 1305ھ کو خاندانِ شاہِ ولایت امروہی مرادآباد میں پیدا ہوئے ، تعلیم و تربیت “ الور “ میں ہوئی ، آپ عالمِ دین، پیرِ طریقت اور عظیم روحانی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا وصال 11ربیعُ الآخر 1366ھ کو کراچی میں ہوا، مزار بارگاہِ واحدیہ (سخی حسن چورنگی ،  نارتھ ناظم آباد) کراچی میں ہے۔ (اللہ والے ، کلیاتِ مناقب ، ص689)

(51) تولیڑے والے باباحضرت صوفی سید عبد القادر شاہ نقشبندی کی ولادت پیر12 ربیع الاول 1219ھ پھلور ضلع جالندھر مشرقی پنجاب انڈیا میں ہوئی،10 ربیع الاول 1381ھ مطابق 1961ء بروز منگل سہ پہر تین بجے حیدرآباد سندھ میں وصال فرماگئے، آپکا مزارمبارک ہالہ ناکہ آفتاب آباد حیدرآباد میں مرجع خلائق ہے ،آپ کو حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی کے پیربھائی حضرت کرم بخش نقشبندی مجددی پھلواری (خلیفۂ حضرت خواجہ قادر بخش نقشبندی )سے بیعت وخلافت کی سعادت حاصل ہوئی ،آپ نے سلطان الہندحضرت خواجہ سیدحسن سنجری اجمیری کے روحانی حکم سے قصبہ تولڑہ ریاست الورمیں قیام فرمایا،1947ء میں پاکستان ہجرت کی، دوسال گوجرانوالہ میں قیام فرمایا اور1949ء میں حیدرآبادتشریف لے آئے،آپ شریعت وطریقت کے جامع تھے، کبھی نماز قضانہ ہوئی۔ کئی غیرمسلم آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے،آپ عابدوزاہد،کم سخن ، خاموش طبع،صوفی کامل تھے ۔اگرچہ آپ کی شخصیت مرجع خلائق تھی مگرآپ نے کسی کو اپنے سلسلے کی خلافت عطانہیں فرمائی۔(بزم جاناں،۲۸۴ ،روشن تحریریں ،۶۲وغیرہ)

(52) دیسولے والے پیرصاحب حضرت میاں سیدنذیراحمدشاہ نقشبندی لکھنؤ کی پیدائش قصبہ موہان ضلع اناؤ ریاست اترپردیش میں ہوئی تعلیمی مراحل لکھنؤمیں طے کئے، آپ حضرت علامہ شاہ شمس الدین احمدمیاں گنج مرادآبادی (صاحبزادے وجانشین حضرت علامہ شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی )کے مرید و خلیفہ تھے ،انہیں کے حکم سے قصبہ دیسولہ ریاست الورمیں قیام فرمایا ،1947ء میں لاہورپھرشیخوپورہ اور آخرمیں بہاولپورتشریف لائے اوریہیں 25ربیع الاول1388ھ مطابق 22جون 1968ء کو دوران نعت خوانی وصال فرمایا ۔غزالی زماں حضرت علامہ سیداحمد سعیدشاہ کاظی اورفیض ملت حضرت مولانا فیض احمداویسی رحمۃ اللہ علیہما نے بھی ان سے استفادہ فرمایا ،علامہ کاظمی صاحب کو غزالی زماں کا لقب بھی آپ نے عطافرمایا۔(اولیائے بہاولپور،287،288)

(53) حضرت ننھامیاں قادری راجشاہی صاحب فردوقت میاں راج شاہ قادری صاحب کے نواسے تھے۔( روشن تحریریں ،140)

(54) خواجہ سیداحمدمدنی الوری صاحب سادات کے عظیم خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، آپ علاقہ میں معروف ومشہورصاحب نسبت اورخدارسیدہ بزرگ تھے اور ہمہ وقت جذب ومستی میں رہا کرتے تھے ، ان کے والد حضرت مولانا سید نورمحمد مدنی شاہ نقشبندی شیخ المشائخ علامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی کے خلیفہ اورالورکی ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے ،ان کا وصال 28رجب 1316ھ مطابق 12دسمبر1898 ء کو ہوا،آپ کو ہسپتال سے متصل ریلوے روڈپر دفن کیا گیا اور بعد میں خوبصورت مزارتعمیرکیاگیا، مولانامفتی شاہ عبدالرحیم منڈاوری الوری صاحب (تلمیذامام المحدثین مفتی سیددیدارعلی شاہ ) ان کے سجادہ نشین مقررہوئے جبکہ مولانا محبوب لعل شاہ سید نورمحمد مدنی شاہ صاحب کے خلیفہ تھے،مدنی شاہ صاحب کے ایک اورخلیفہ سیداعجازحسین شاہ نے آپ کی تعلیمات،ملفوظات اور حالات پر مشتمل رسائل بنام مجموعہ رسائل رحمانی مطبع نامی کانپورمحمدرحمت اللہ سے 1320ھ مطابق 1903ء میں شائع کروائے۔(حیات کرم حسین ،166،312، بزم جاناں،280)

(55) حضرت عبدالرحیم ڈکاری شاہ اورحضرت خواجہ اخونددوسی پشاوری رحمۃ اللہ علیہما کے حالات سے آگاہی نہ ہوسکی ۔

(56) جامع مسجدالورکو الورکے بادشاہ ترسون محمدخان میواتی نے 969ھ مطابق 1562ء میں تعمیرکروایا۔(مرقع الور،50(

(57) حضرت عیدوپھول شاہ صاحب دوھے والے،اللہ پاک کی یادمیں مست اورمخلوق کی رہبری میں مصروف رہنے والی شخصیت تھے ۔(بزم جانان،۲۸۶)

(58) حضرت حافظ سیدعبدالحکیم شاہ صاحب کےحالات معلوم نہ ہوسکے۔

(59) تذکرہ مبارک ،13،19۔

(60) حضرت مولانا عبدالشکورصادق چشتی نظامی کمبل پوش کی ولادت 27رجب 1311ھ مطابق1894ء کو آگرہ (یوپی، ہند)میں ہوئی، 26اپریل 1975ء کو حیدرآبادمیں وصال فرمایا،آپ حضرت سیداحمدعلی جمال شاہ نظامی کمبل پوش کے مریدوخلیفہ اوراسلامی شاعرتھے ،دیوان ذوق تصوف آپ کی یادگارہے جسے آپ کے خلیفہ صوفی محمدیعقوب نظامی کورنگی کراچی نے شائع کروایاہے ۔(انوارعلمائے اہل سنت سندھ،547تا551)

(61) تذکرہ مبارک،24،23۔

(62) تذکرہ مبارک ،13۔

(63) اشرف ملت حضرت صاحبزادہ مولاناسیداشرف علی شاہ حسنی رضوی صاحب تذکرہ کے چھوٹے بیٹے مولانا سیدانوار علی شاہ الوری رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے ہیں، آپ حافظ قرآن۔ عالم باعمل ،فاضل طب وجراحت،امام وخطیب جامع مسجد نور پنجرہ پول حیدرآباد،اورنیٹل ٹیچرگورنمنٹ سندھ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، پرنسپل دارالعلوم برکات اسلام،سرپرست انجمن عاشقان رسول وبزم منارکیہ وحلقہ اشرفیہ حیدرآباد ہیں۔ ( بیک ٹائٹل تذکرہ مبارک)

(64) تذکرۂ مبارک،24۔


اَلْحَمْدُ للہ ہم مسلمان ہیں، اور ایک کامل مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا نہیں احکام الٰہیہ کا پابند ہوتا ہے، اپنی خواہشات کا نہیں بلکہ دینِ اسلام کے اصول وقوانین کا پابند ہوتاہے، ہرحال میں اپنے رب کی رضا پر راضی رہتا ہے، وہ اولاد کو اللہ پاک کی بڑی نعمت سمجھتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹے اللہ کی نعمت ہیں تو بیٹیاں اللہ کی رحمت، اللہ کریم جسے چاہے بیٹے عطا فرمائے، جسے چاہے بیٹیوں جیسی رحمت سے نوازے اور جسے چاہے بے اولاد رکھے، اس کے ہر کا م میں بے شمار حکمتیں ہوتی ہیں ، ہمیں ہرحال میں اس کی اطاعت وفرمانبرداری کرنی چاہیئے ۔

اسلام نے بیٹی کو بڑی عَظَمت بخشی ہے، اس کا وقار بُلند کیا ہے،اسے کئی شانیں دی ہیں، بیٹی اللہ کی رحمت، باپ کی ا ٓنکھوں کی ٹھنڈک، گھر کی رونق، ماں کاسکون، بھائیوں کی لاڈلی، ننھیال اور ددھیال کی شہزادی، اپنے کفالت کرنے والوں کوجہنم کی آگ سے بچانے والی، انہیں جنت دلانے والی، فرشتو ں کی طرف سے سلامتی کی دعائیں پانے کا ذریعہ، قیامت تک کے لئے اللہ کریم کی مدد حاصل کرنے کا سبب، جس کی خوشنودی بروزِ قیامت والدین کو محشر کی ہولناکیوں سے بچا کر خوشیاں دلائے گی، بیٹی پر خرچ کرنا صدقہ کرنے کی طرح ہے اور اس پر شفقت کرنے والا خوفِ خدا سے رونے والے کی مثل ہے۔

ہر مسلمان کو چاہئے کہ دینی ماحول سے وابستہ رہے تاکہ دینی معلومات ملیں،برائیوں سے بچنے کاذہن بنے ، اور زمانۂ جاہلیت کی طرح بیٹیوں کو بُرا سمجھنے،انہیں تکلیف دینے اور انہیں حقیر ومنحوس سمجھ کر قتل کردینے جیسی ظالمانہ و وحشیانہ سوچ سے بچا جاسکے،اور بیٹیوں کو اللہ کی رحمت سمجھ کر پیار و محبت سے ان کی پرورش و تربیت کرنے کا جذبہ ملے۔ اپنے مسلمان بھائیوں کی خیر خواہی کے لئے یہاں کچھ احادیث بیان کی جاتی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ اسلام نے بیٹیوں پر کس قدر احسان فرمایا ہے اور انہیں کیسی شانیں عطا فرمائی ہیں:

محبت کرنے والیاں:

ہمارے پیارےنبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:”بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو، بے شک وہ محبت کرنے والیاں ہیں۔“ (مسند اِمام احمد،6/134،حدیث:17378)

جنت میں داخلہ:

حدیثِ نبوی ہے:”جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ نہ تواسے کوئی تکلیف پہنچائے، نہ ہی اسے بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ کریم اسے جنت میں داخِل فرمائے گا۔ (مستدرک، 5/248 ، حدیث: 7428)

جہنم سے حفاظت:

حدیث پاک میں ہےکہ ”جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آ پڑے اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لئے جہنم سے رُکاوٹ بن جائیں گی ۔“ (مسلم،ص 1414، حدیث:2629)

اللہ کی رحمت شامل حال رہے گی :

ہمارے پیارے نبی صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمنے ارشاد فرمایا:” جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ پاک فِرِشتوں کو بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں :’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم اَہْلَ الْبَیْتیعنی اے گھر والو! تم پر سلامَتی ہو۔‘‘ پھر فِرِشتے اُس بچّی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک کمزور جان ہے جو ایک کمزور سے پیدا ہوئی ہے ، جو شخص اس کمزور جان کی پرورِش کی ذمّے داری لے گا، قِیامت تک اللہ کریم کی مدد اُس کے شاملِ حال رہے گی۔ (مجمع الزوائد،8 /285، حدیث: 13484)

جنت کی بشارت:

اللہ پاک کے پیارے نبیصَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم نے فرمایا:”جس کی تین بیٹیاں ہوں اوروہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے جنت واجِب ہوجاتی ہے ۔عرض کی گئی : اور دو ہوں تو؟ فرمایا : دو ہوں تب بھی ۔ عرض کی گئی : اگر ایک ہو تو ؟ فرمایا:”اگر ایک ہو توبھی ۔“ (معجم الاوسط،4/347 ،حدیث:6199)

جہنم کی آگ سے حفاظت:

ہمارے پیارے نبی صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا:”جو اپنی دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو رشتے دا ر بچیوں پر ثواب کی نیّت سے خرچ کرے یہاں تک کہ اللہ پاک انہیں بے نیاز کر دے(یعنی ان کا نِکاح ہوجائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں یا ان کی وفات ہو جائے ) تووہ اس کیلئے آگ سے رکاوٹ ہوجائیں گی۔“ (مسند امام احمد بن حنبل، 10/179، حدیث: 26578)

بیٹیوں کے ساتھ ہمارے پیارے نبی کا طرز عمل:

ہمارے پیارے نبی کی پیاری بیٹی سیدۂ کائنات حضرتِ بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا جب نبی کریم ،رؤوف و رحیم صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کے پاس آتیں تو آپ صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کھڑے ہو کران کی طرف متوجِّہ ہو تے ، پھر اپنے پیارے پیارے ہاتھ میں اُن کا ہاتھ لے کراُسے بوسہ دیتے پھر اُنہیں اپنی جگہ بٹھا تے۔ اسی طرح جب نبی کریم صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم حضرت بی بی فاطِمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں ، آپ کا مبارک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چُومتیں اورآپ صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ (ابوداود،4/454 ،حدیث: 5217)

مسکین ماں کا بیٹیوں پر ایثار:

اُم ُّالمومنین حضرتِ عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ”میرے پاس ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ آئی ، میں نے اُسے تین کھجوریں دیں۔ اُس نے ایک ایک کھجور اپنی بیٹیوں کو دی اور ایک خود لے لی پھر اپنی کھجور بھی دوٹکڑے کر کے اپنی دونوں بیٹیوں کو کھلا دی ۔ مجھے اس واقعے سے بہت تعجب ہوا ، میں نے نبی کریم، رؤوف و رحیم صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کی بارگاہ میں اس خاتون کے ایثار کا واقعہ بیان کیا تو آپ صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم نے فرمایا: اللہ پاک نے اِس ایثار کی وجہ سے اُس عورت کے لئے جنت واجِب کردی ہے ۔ ‘‘(مسلم ،ص 1415،حدیث: 2630)

اللہ کریم اپنے پیارے حبیب صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کے صدقے ہمیں اپنی اولاد سے بالخصوص بیٹیوں سے محبت سے پیش آنے کی ، ان کی اچھی تربیت کرنے اور ان سے مشفقانہ رویہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین یا رَبَّ الْعَالَمِیْن، بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن

حکیم سید محمد سجاد عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ العملیہ)

لیکچرار جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن عالمی مدنی مرکز کراچی


شب براءت کیسے گزاریں؟

Fri, 18 Mar , 2022
2 years ago

اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ نے ”شعبان المعظم“ کو اپنا مہینہ قرار دیا اورخاص طور پر اس کی پندرہویں رات یعنی شب براءت کی عظمت وفضیلت کو بیان کیا ہے اور اس میں عبادت ودعاوغیرہ کی خوب ترغیب ارشاد فرمائی ہے،یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف کرام اس رات میں کو عبادتِ الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے جیسا کہ منقول ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزيز رحمۃ اللہ علیہ شبِ براءت میں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔(تفسیرروح البیان،8/402) حضرت خالد بن مَعدان، حضرت لقمان بن عامر اور دیگر بزرگان دین رحمۃ اللہ علیہم شعبان کی پندرھویں(15ویں) رات اچھا لباس پہنتے، خوشبو، سُرمہ لگاتے اور رات مسجد میں (جمع ہو کر) عبادت کیا کرتے تھے۔(ماذا فی شعبان، ص75) یوں ہی تیسری صدی ہجری کے بزرگ حضرت ابو عبدالله محمد بن اسحاق فاکہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب شبِ براءت آتی تو اہلِ مکّہ کا آج تک یہ طریقۂ کار چلا آرہا ہےکہ مسجد ِحرام شریف میں آجاتےاور نَماز ادا کرتے ہیں، طواف کرتے اور ساری رات عبادت اور تلاوتِ قراٰن میں مشغول رہتےہیں، ان میں بعض لوگ 100 رکعت (نفل نماز) اس طرح ادا کرتے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھتے۔ زم زم شریف پیتے، اس سے غسل کرتے اور اسے اپنے مریضوں کے لئے محفوظ کر لیتے اور اس رات میں ان اعمال کے ذریعے خوب برکتیں سمیٹتے ہیں۔(اخبار مکہ،3/84) معلوم ہوا کہ شب براءت میں اہتمام کے ساتھ مساجد میں جمع ہونا،عبادات کرنا،تلاوت کرنا اور نوافل پڑھنا وغیرہ یہ صدیوں سے بزرگوں کا طریقہ چلا آرہا ہے۔

عام مسلمانوں کی طرف سے یہ سوال اکثر ہوتا ہے کہ ہم اس رات کو کیسے گزاریں ،کون سے ایسے اعمال بجالائیں کہ زیادہ سے زیادہ فوائدوبرکات حاصل ہوں ؟ استاد محترم مفتیٔ دعوتِ اسلامی شیخ الحدیث والتفسیر مفتی ابوصالح محمد قاسم قادری مدظلہ العالی سے مدنی چینل کے ایک پروگرام میں یہی سوال ہوا تو آپ نے شب براءت کو گزارنے کے لیے انتہائی اختصار کے ساتھ درج ذیل8 اعمال بتائے۔راقم نے افادہ عام کے لیے ان معمولات کو تحریری شکل دے دی ہے ، تحریر کے تقاضوں کے تحت کچھ ترمیم واضافہ بھی کردیا ہے اور جن احادیث مبارکہ ، آثار شریفہ اور روایات کریمہ کی روشنی میں استاد صاحب مدظلہ العالی نے یہ اعمال بیان کئے ان کو ذکر کردیا ہے تاکہ فضائل وبرکات پیش نظر رہیں اور مسلمان مزید اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ شب براءت کو گزار سکیں۔

(1)شب براءت میں نفل پڑھے جائیں کہ صلوۃ اللیل یعنی رات میں نفل پڑھنے کی ترغیب وفضیلت قرآن پاک میں آئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:قُمِ الَّیْلَ (پ29،المزمل :2) یعنی رات میں قیام فرمائیے ۔اور اللہ پاک رات میں رات میں نفل ادا کرنے والا کا ذکر یوں فرماتا ہے:وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا (پ19،الفرقان:64) ترجمہ:اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں ۔شعبان المعظم کی پندرہویں شب کے علاوہ بھی راتوں میں کچھ نہ کچھ نفل پڑھنے چاہیں کہ عبادت کے ساتھ شب بیداری کرنا اللہ پاک کے آخری نبیﷺ کی سنت اور صحابہ کرام وبزرگان دین کے معمولات سے ہے۔

(2)شب براءت میں بطور خاص ”صلوۃ التسبیح“ ادا کیجئے کہ حدیث پاک میں فرمایا: اگر تو یہ نماز پڑھے گا تو اللہ پاک تیرے اگلے پچھلے، نئے پرانے ، جو بھول کر کئے اور جو جان بوجھ کر کئے، چھوٹے بڑے ،پوشید ہ اور ظاہر تمام گناہ معاف فرما دے گا۔(سنن ابن ماجہ،حدیث:1374)حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : بہتر یہ ہے کہ شبِ براءت میں صلوٰۃُ التسبیح بھی ادا کر لی جائے کیونکہ یہ کسی شک و شبہ کے بغیر صحیح طور پر ثابت ہے۔( مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری ،3 / 51)

(3)شب براءت میں کلمہ طیبہ کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا جائے کہ افضل ترین ذکر ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل ذکرلَا إِلٰـہَ إِلَّا اللہُ ہے اور سب سے افضل دعا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ہے۔(سنن ترمذی،حدیث:3394) نیز فرمایا:’’جس بندے نے اخلاص کے ساتھ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللہُ کہا تو آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ کلمہ عرش تک پہنچ جاتا ہے جبکہ کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔(سنن ترمذی ،حدیث:3590)

(4) اس بابرکت رات کو” سُبْحَانَ ﷲ اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ “ کی کثرت کی جائے کہ یہ اللہ پاک کو بہت پسند ہیں۔حدیث پاک میں فرمایا:100 مرتبہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہہ لیا کر و کہ یہ تمہا رے لئے سو کجاوے اور زین والے گھوڑے راہ خدا میں دینے سے بہتر ہے۔(مسند احمد،حدیث:26977)نیزرحمت عالم ﷺنے ارشادفرمایا:کیا تم میں سے کوئی رو زانہ ایک ہزار نیکیاں کرنے سے عا جز ہے؟ایک شخص نے عرض کی:کوئی ایک ہزار نیکیا ں کیسے کما سکتا ہے؟فرمایا:اگروہ سو مرتبہ سُبْحَانَ ﷲ کہے تو اس کے ‏لیے ایک ہزار نیکیا ں لکھی جا تی ہیں یا ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جا تے ہیں ۔ (صحیح مسلم،حدیث:2698)

(5)مبارک رات میں پیارے آقاﷺ پر بکثرت درود شریف پڑھا جائے یعنی آپ ﷺ کے لیے رحمت کی دعا کی جائے کہ اس کی برکت سے ہمارے گناہ معاف ہوں گے۔حدیث شریف میں فرمایا: میرا جو اُمتی اخلاص کے ساتھ مجھ پر ایک مرتبہ درودِ پاک پڑھے گا اللہ پاک اس پر 10رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے 10درجات بلند فرمائے گا، اس کے لئے 10نیکیاں لکھے گا اور اس کے 10 گناہ مٹا دے گا۔(سنن کبری للنسائی،حدیث:9892)

(6)شب براءت میں استغفاریعنی دعائے مغفرت اوررزق و عافیت کی دعا بہت زیادہ کرنی چاہیے کہ اس کی خاص طور پر ترغیب ارشاد ہوئی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:جب نصف شعبان کی رات (شب براءت)آئے تو اس کی رات میں قیام کیا کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھاکرو کہ اللہ پاک غروبِ آفتاب سےآسمان دنیا پر خاص تجلّی کرتا اور فرماتا ہے:”ہے کوئی مغفرت چاہنے والاکہ اس کی مغفرت فرماؤں ،ہے کوئی رزق کا طلب گا ر کہ اسے رزق عطا فرماؤں ، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اسے عافیت دوں، ہے کوئی ایسا !ہے کوئی ایسا!۔۔۔۔“ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوکرآتی ہے۔(سنن ابن ماجہ،حدیث:1388)

(7)اس مقدس رات میں قرآن کریم کی تلاوت بھی کی جائے کہ تلاوت قرآن بے انتہا برکتوں،رحمتوں اور سعادتوں کے حصول کا ذریعہ ہے،یہ بڑی عظیم عبادت ہے اور اس پر بہت زیادہ اجروثواب ہے۔حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص کتابُ اللہ کا ایک حَرف پڑھے گا، اُس کو ایک نیکی ملے گی جو10 کے برابر ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا الٓـمّٓ ایک حَرف ہے،بلکہ اَلِف ایک حَرف،لام ایک حَرف اور میم ایک حَرف ہے۔(سنن ترمذی،حدیث:2919) اور قرآن پاک کو تو دیکھنا بھی عبادت بتایا گیا۔حدیثِ پاک میں ہے:اَلنَّظْرُ فِی الْمُصْحَفِ عِبَادَۃٌ یعنی قرآنِ مجید کو دیکھنا عبادت ہے۔(شعب الایمان،حدیث:7560)

(8)شب براءت میں قبروں کی زیارت کی جائے کہ اس رات قبرستان جانا رسول کریمﷺ کے عمل مبارک سے ثابت ہے اور زیارت قبور سے عبرت حاصل ہوتی ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاکﷺکو نہ پایا۔ میں آپ کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ پاک شعبان کی پندرھویں رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(سنن ترمذی،حدیث:739) رسول اکرمﷺ نے فرمایا:میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا(اب میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ)ان کی زیارت کرو۔(صحیح مسلم ،حدیث:104)نیز آپ ﷺ نے فرمایا: سن لو! قبروں کی زیارت کرو کہ وہ تمہیں دنیا سے بے رغبت کرے گی اور آخرت یاددلائے گی۔(سنن ابن ماجہ،حدیث:1571، مستدرک، حدیث:1425)

ہمارے ہاں پاک وہند میں عام طور پر شب براءت میں قبرستان جانے کا رواج ہے ۔اگر اچھی نیت کے ساتھ حاضر ہوا جائے تو یہ ایک اچھا عمل ہےلیکن اسے صرف ایک رات تک محدود نہ کیاجائے بلکہ عام دنوں بالخصوص جمعہ کے دن قبرستان کی حاضری کواپنا معمول بنانا چاہیے تاکہ دل گناہوں سے اُچاٹ ہو اور قبر و آخرت کی فکر پیدا ہو اور یہ بھی یاد رہے کہ قبرستان میں مذاق مسخری بالکل نہ کی جائے کہ دل کی سختی کا باعث ہے اور زیارت قبور کرتے وقت یہ احتیاط کی جائے کہ ہمارے پاؤں کسی قبر پر نہ پڑئیں اور نہ قبروں کو پھلانگیں اور نہ قبروں پر بیٹھیں اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ عورتوں کو زیارت قبور منع ہے۔ حدیث میں ہے: لعن اﷲ زائرات القبور یعنی اﷲ کی لعنت ان عورتوں پرجو قبروں کی زیارت کوجائیں۔(عمدۃ القاری شرح البخاری،8/69)

14شعبان المعظم1443ھ

مطابق18مارچ2022ء


ربِّ کریم کا اپنےبندوں پر یہ فضل و اِحسان ہے کہ مسلمان جس دن یا جس رات کو بھی ذکرِ الہٰی اور عبادت و طاعت کی بجاآوری میں  بسر کریں، وہ بارگاہِ صمدیت میں محمودقرارپاتی ہے۔ لیکن بعض ایام اور راتیں ایسی ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ نیک اَعمال کرنے کی ترغیب شریعتِ مطہرہ میں موجودہے اور اِس پر خاص اِنعاماتِ رَبانی اور بارگاہِ الہٰی سے اپنےبندوں کے لئے بخشش ومعافی کی بِشارتیں خودسراجِ مُنیر،رسولِ بشرﷺنے سُنائی ہیں۔اُنہیں عظمت والی راتوں میں سےایک رات شعبان المعظَّم کی نصف رات ہےجسے’’شبِ براءَت‘‘ کہاجاتا ہے۔سرکارِ اقدسﷺ نےاپنی اُمّت کو15 شعبان کی رات عبادت میں گزارنےاوراس کےدن میں روزہ رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی ہے۔نیز اس رات میں رزّاق و رحمٰن عزوجل کی خاص تجلیوں، بخششوں اور عنایتوں کا بیان فرمایاہے۔

تجلّیات والی رات: چنانچہ’’سنن ابنِ ماجہ‘‘ میں حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ رسولِ عظیمﷺ نےارشادفرمایا: اِذَا کَانَ لَیْلَۃُ النَّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُوْمُوْا لَیْلَھَا وَ صُوْمُوْا نَھَارَھَا، فَاِنَّ اللہَ یَنْزِلُ فِیْھَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ:اَلَامِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاَغْفِرَ لَہُ، اَلَا مُسْتَرْزِق فَاَرْزُقَہُ، اَلَا مُبْتَلی فَاُعَافِیَہُ، اَلَا کَذَا، اَلَا کَذَا حَتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ۔ جب شعبان کی پندرھویں رات آجائے تو اُس رات قیام کرو اور دن میں روزہ رکھوکہ رب تبارک وتعالیٰ غُروبِ آفتاب سے آسمانِ دُنیا پر خاص تجلّی فرماتاہے اور فرماتاہے: کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ اُسے بخشش دوں ، ہے کوئی روزی طلب کرنےوالا کہ اُسے روزی دوں، ہے کوئی مبتلا (یعنی مصیبت زدہ) کہ اُسےعافیت دوں، ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا اور یہ اس وقت تک فرماتاہے کہ فجر طلوع ہوجائے۔ (سنن ابن ماجہ،2/160، حدیث:1388)

پچھلی راتِیں رَحمت ربّ دِی کرے بلند آوازاں

بخشش مَنگن والِیاں کارَن کُھلا ہے دروازہ

عظمت والی راتیں: علمائے اسلام نےبھی عظمت والی راتوں میں ’’شبِ براءت‘‘ کاشُمارفرمایاہےاوران راتوں میں خاص طورپر عبادت کرنےکو مستحب قرار دیاہے۔ چنانچہنورُالاِیضاح میں ہے: نُدِبَ اِحْیَاءُ لَیَالِی العَشْرِ الْاَخِیْرِ مِنْ رَمَضَانَ وَ اِحْیَاءُ لَیْلَتَیِ الْعِیْدَیْنِ وَ لَیَالِی عَشْرِ ذِی الْحِجَّۃِ وَ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ۔ رَمضان المبارَک کی آخری دس راتوں،عیدَین (عیدالفِطر اور عیدالاَضحیٰ) کی راتوں، ذوالحجہ الحرام کی (پہلی) دس راتوں اور نصف شعبان کی رات(شبِ براءت) کوزندہ کرنا (یعنی اِن راتوں کو عبادات میں گُزارنا)مستحب ہے۔ (نورالایضاح،ص205-206 ، مكتبة المدينه)

شبِ براءت سےمتعلق ’’دُرِّ مختار‘‘میں ہےکہ: شبِ براءَت میں شب بیداری(کرکےعبادت)کرنامستحب ہے۔ (درمختار، ج2، ص568)

لہٰذا اِس رات میں فضولیات اور گناہوں سے بچ کر فرائض و وَاجبات اور سننِ مؤکَّدہ و غیر مؤکَّدہ کی بجاآوری کےساتھ ساتھ نفلی نمازوں،تلاوتِ قرآن پاک، ذکر و دُرود،نفلی صدقات و خیرات اور فوت شُدہ عزیز و اَقارب اور دیگر مسلمانوں کے لئے فاتحہ و اِیصالِ ثواب کاخاص اہتمام کرنا چاہئے۔

مرحومین منتظر رہتےہیں: فوت شُدہ مسلمان عالمِ برزَخ میں زندوں کی طرف سےکئےجانےوالےصدقےاور دُعائےمغفرت کےمنتظر رہتے ہیں۔ چُنانچہ امام جلالُ الدین عبدالرحمن بن ابوبکر سُیوطی شافعی رحمۃُاللہ علیہ(المتوفّی911ھ) اپنی مشہورکتاب’’شرحُ الصدور‘‘میں نقل فرماتے ہیں کہ رسولِ خُدا،حبیبِ کبریاﷺ نے ارشادفرمایا:قبر میں مُردے کا حال ڈوبتےہوئےانسان کی مانند ہے جو شِدّت سےاِنتظار کرتاہےکہ باپ یا ماں یا بھائی یا کسی دوست کی دُعا اس کو پہنچےاور جب کسی کی دُعااسے پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیا و ما فیہا (یعنی دنیا اوراس میں جوکچھ ہے) سب سے بہترہوتی ہے۔ اللہ عزوجل قبروالوں کو ان کےزندہ مُتعلقین کی طرف سے ہَدِیَّہ کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانِند عطا فرماتاہے، زندوں کا تحفہ مُردوں کے لئے’’دعائےمغفرت کرنا‘‘ہے۔ (فردوس الاخبار،2/336،حدیث:6664)، (شعب الایمان،باب فی برالوالدین،6/203،حدیث:7905)، (شرح الصدور ’’متَرْجَم‘‘،ص518،مکتبۃالمدینۃ)

رُوحیں گھروں پر آتی ہیں: عظمت والےدِنوں اور راتوں بشمول ’’شبِ براءَت‘‘میں فوت شُدہ مسلمانوں کی رُوحیں اپنے گھروں پر آکر صدقہ و خیرات کا سوال کرتی ہیں۔اس بارےمیں اعلیٰ حضرت،امامِ اہل سنت رحمۃُاللہ علیہ ایک روایت نقل فرماتے ہیں،اُس کاترجمہ ملاحظہ ہو: ’’غرائباورخزانہ میں منقول ہے کہ مؤمنین کی رُوحیں ہر شبِ جمعہ ،روزِعید،روزِ عاشوراء اور شبِ برات کو اپنے گھر آکر باہر کھڑی رہتی ہیں اور ہر رُوح غمناک بلند آواز سے نداکرتی ہے کہ اے میرے گھر والو! اے میری اَولاد،اےمیرےقرابت دارو! صدقہ کرکےہم پر مہربانی کرو۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ،9/650،رضافاؤنڈیشن لاہور)

نیز’’خزانۃ الروایات‘‘کے حوالے سے ایک روایت نقل فرماتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سےروایت ہے جب عید یا جمعہ یا عاشورےکادن یا شبِ برات ہوتی ہے،اَموات (فوت شُدہ افراد)کی رُوحیں آکر اپنےگھروں کےدروازوں پر کھڑی ہوتی اور کہتی ہیں:ہے کوئی کہ ہمیں یاد کرے،ہے کوئی کہ ہم پر تَرس کھائے،ہےکوئی کہ ہماری غربت کی یاد دلائے۔ (فتاویٰ رضویہ، 9/653،رضافاؤنڈیشن لاہور)

ہمارےقریبی رشتہ دار اوردوست و اَحباب جیسے ہی فوت ہوکر عالَمِ دُنیا سےعالَمِ برزخ کی طرف منتقل ہوتے ہیں تو آنکھوں سےاُن کےغائب اورنہاں ہونےکی وجہ سے رَفتہ رَفتہ ہم اُنہیں بُھول جاتے ہیں،لیکن یاد رکھیں۔۔۔ وہ ہمیں نہیں بھولتےاور ہماری طرف سےدعائے مغفرت اورایصالِ ثواب کے منتظر رہتےہیں۔توجس طرح ہم اپنےوالدین،اَولاد،بہن بھائی،عزیز و اَقارِب اور دوست و اَحباب وغیرہ کی دُنیوی زندگی میں اُن پر اپنا مال خرچ کرتےہیں،اُنہیں اپنا وقت اور توجہ دےکراُن کی دلجوئی کاسامان کرتے ہیں،یوہیں ہمیں چاہئےکہ ان کےدُنیاسےچلےجانےکےبعدبھی اُنہیں اپنی دعاؤں، صدقہ و خیرات اورنیکیوں پر حاصل ہونےوالےاَجر و ثواب میں شریک کرتےرہاکریں۔خصوصاً بڑےدِنوں مثلاً یومِ عرفہ(9ذوالحجہ کےدن)،یومِ عاشورا (10محرم الحرام کےدن)،عیدالفطراورعیدالاَضحیٰ وغیرہ کےدن،نیز بڑی راتوں مثلاً رَمضان شریف کی راتوں،عیدَیْن (عیدالفِطراورعیدالاَضحیٰ)کی راتوں،ذوالحجہ الحرام کی(پہلی) دس راتوں اور نصف شعبان کی رات(یعنی شبِ براءت) وغیرہ میں خوب عبادت، دعائےمغفرت اورصدقہ و خیرات کرکےاپنےمرحومین اورتمام مؤمنین کو ایصالِ ثواب کا اہتمام کرنا چاہئے۔

ہے کون کہ گِریہ کرے یا فاتحہ کو آئے

بیکس کےاُٹھائےتِری رحمت کےبَھرن پھول

(حدائقِ بخشش،ص79)

حَرَّرَہُ : ابوالحقائق راشدعلی رضوی عطاری مدنی

شبِ منگل،13شعبان المعظَّم1441ھ،مطابق6اپریل2020ء


فضائلِ شبِ براءت:

خالق کائنات کی طرف سے امت ِمحمدیہ کو سال میں چند راتیں ایسی ملی ہیں جن میں خوب اللہ پاک کی رحمتوں، برکتوں کا نزول ہوتا ہےاور رحمت الہٰی کی چھما چھم بارشیں ہوتی ہیں۔ ان میں عبادت و ریاضت اور دعائیں مانگنے والے شخص کو بارگاہ ِربُّ العزت سے محروم نہیں کیا جاتا، ان راتوں میں جو شخص بیدار رہ کر عبادت کرتا ہے اُسے جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ اُن بابرکت راتوں میں سے ایک شعبان المعظم کی پندرہویں رات شب براءتبھی ہے ۔ یہ شب ان پانچ راتوں میں بھی شامل ہے جن میں دُعا ئیں رد نہیں کی جاتیں۔ ذیل میں ہم شبِ براءت کی فضیلتوں اور برکتوں پر کچھ روایات ذکرکررہے ہیں اور اس رات کی جانے والی عبادات بھی بیان کررہے ہیں۔

شبِ براءت کی فضیلت پر احادیثِ مبارکہ:

٭اُم المؤمنین حضرت سیدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے: (1)بقر عید کی رات (2)عیدالفطر کی رات (3)شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اِس سال)حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں (4)عرفہ کی رات اذانِ (فجر)تک۔ (در منثور، الدخان، تحت الآیۃ: ، 4 / ۴۰۲)

٭حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے پانچ راتیں بیدار رہ کر عبادت میں گزاریں اس کے لئے جنت واجب ہے۔ وہ راتیں یہ ہیں: لیلۃ الترویہ، لیلۃ النحر، لیلۃ عرفہ (نویں اور دسویں ذوالحجہ کی رات)، عید الفطر کی شب اور شب براءت۔ (الترغیب والترہیب (منذری)، 2/ 98)

٭سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی۔ ماہ رجب کی پہلی رات، پندرہویں شعبان کی رات (شب براءت)، جمعہ کی رات، عید الفطر کی رات اور عید الاضحٰی کی رات۔ (فردوس الاخبار، ۱/۳۷۷، الحدیث ۲۷۹۷)

شب براءت کے معنیٰ:

ماہ شعبان المعظم کی پندرہویں رات کو” شب براءت“ کہا جاتا ہے۔شب کے معنی ”رات“ اور براءت کے معنیٰ نجات کے ہیں، یعنی اس رات کو ”نجات کی رات“ کہا جاتا ہے چونکہ اس رات کو مسلمان عبادت و ریاضت میں گزار کر جہنم سے نجات حاصل کرتے ہیں اس لئے اس رات کو شبِ براءت کہا جاتا ہے۔(بارہ ماہ کی عبادات، ص108)

شب براءت کے چند نام:

حضرت علامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ نقل کرتے ہیں: شبِ براءت کے چار نام ہیں: (1)لیلۃ المبارکۃ (برکت والی رات) (2)لیلۃ البراءۃ (نجات والی رات) (3)لیلۃ الصَّکِّ_ (دستاویز والی رات) (4)لیلۃ الرحمۃ (رحمت والی رات)۔

مزید فرماتے ہیں: اسے لیلۃ البراءۃ اور لیلۃ الصَّک(نجات و دستاویزات والی رات) اس لئے کہتے ہیں کہ جب تاجر مالک سے اُس کا اناج وصول کرلیتا ہے تو اس کے لئے براءت نامہ لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک اس رات اپنے مؤمن بندوں کے لئے براءت نامہ لکھ دیتا ہے۔ (مجموع رسائل العلامہ الملا علی قاری، الرسالۃ:التبیان فی بیان ما فی لیلۃ النصف من شعبان، 3/41)

اس رات کے بارے میں اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِۙۛ(۲) اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ(۳) فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ(۴)

ترجمہ کنز الایمان: قسم اس روشن کتاب کی،  بےشک ہم نے اُسے برکت والی رات میں اُتارا ،بےشک ہم ڈر سنانے والے ہیں،  اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ (سورۃ الدخان، آیت2تا 4)

اکثر مفسرین کے نزدیک برکت والی رات سے شبِ قدر مراد ہے اور بعض مفسرین اس سے ”شبِ براء ت “مراد لیتے ہیں ۔(تفسیرصراط الجنان، سورۃ الدخان، آیت2تا 3)

عبادات شب براءت:

شب براءت میں جس طرح بھی ممکن ہو ہمیں تمام تَر وقت (غروب آفتاب سے طلوع فجر تک) عبادت الہی میں ہی گزرنا چاہیئے مثلاً ذکر و اذکار، درود و سلام اور تلاوت ِقرآنِ پاک الغرض جو بھی ممکن ہوسکے۔ لیکن عاشقان رسول کی آسانی کے لئے چند نوافل ذکر کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ وہ اس رات اپنے لئے ثواب کا ذخیرہ جمع کرسکیں۔

مغرب کے بعد چھ نوافل:

حضرت علامہ سیّد محمد مرتضیٰ زبیدی حسینی رحمۃُ اللہِ علیہ شعبانُ المعظم کے چھ نوافل کے بارے میں فرماتے ہیں: شبِ براءت کی عبادت سے متعلق دورِ اسلاف سے لے کر اب تک صوفیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم کا یہ معمول چلا آرہا ہے کہ اس رات نمازِ مغرب کے بعد چھ رکعتیں دو دو کرکے ادا کی جائیں ، ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورۂ فاتحہ اور چھ بار سورۂ اخلاص پڑھی جائے۔ ہر دو رکعات کے بعد ایک بار سورۂ یسین اور دعائے نصف شعبان پڑھی جائے۔ پہلی دو کے ذریعے اللہ پاک سے عمر میں برکت ، دوسری دو کے ذریعے رزق میں برکت اور تیسری دو رکعات کے ذریعے اچھے خاتمہ کا سوال کیا جائے۔ اسلافِ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے ذکر فرمایا ہے کہ جو اس طریقے کے مطابق یہ نوافل ادا کرے گا اس کی مذکورہ حاجتیں پوری کی جائیں گی۔ مزید فرماتے ہیں : یہ معمولاتِ مشائخ میں سے ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین ، 3 / 708)

سورۂ یٰسین شریف پڑھنے میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک اسلامی بھائی بلند آواز سے قراءت کرے اور دوسرے خاموشی سے سنیں لیکن اس میں یہ خیال رہے کہ سننے والا اِس دوران زبان سے یٰسین شریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے۔

یہ مسئلہ خوب یاد رکھئے کہ جب قرآنِ کریم بلند آواز سے پڑھا جائے تو جو لوگ سننے کے لئے حاضر ہیں اُن پر فرضِ عین ہے کہ چپ چاپ خوب کان لگا کر سُنیں۔ اِنْ شَآءَاللہ رات شروع ہوتے ہی ثواب کا اَنبار لگ جائے گا۔ ہر بار یٰسین شریف کے بعد’’دُعائے نصف شعبان‘‘بھی پڑھئے۔ (رسالہ”آقا کا مہینہ“ ص15)

دعائے نصف شعبان

مفتیِ مالکیہ حضرت شیخ سالم بن محمد سنھوری مصری رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو بندہ یہ دعا مانگے گا اس کے رزق میں وسعت کردی جائے گی :

اَللّٰھُمَّ یَاذَا الْمَنِّ وَلَا یُمَنُّ عَلَیْہِ ، یَاذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ، یَاذَاالطَّوْلِ وَ الاِنْعَامِ ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ، ظَھْرُ اللَّاجِئِیْنَ وَجَارُالْمُسْتَجِیْرِ یْنَ وَمَأْمَنُ الْخَائِـفِیْنَ، اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ عِنْدَکَ فِیْ اُمِّ الْکِتَابِ شَقِیّاً فَامْحُ عَنِّیْ اِسْمَ الشَّقَاوَۃِ ، وَ اَثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ سَعِیْدًا ، وَ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ عِنْدَکَ فِیْ اُمِّ الْکِتَابِ مَحْرُوْمًا مُقَتَّرًا عَلٰی رِزْ قِیْ فَامْحُ حِرْمَانِیْ وَیَسِّرْ رِزْ قِیْ وَاَ ثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ سَعِیْدًا مُوَفِّقاً لِلْخَیْرَ اتِ ، فَاِنَّکَ تَقُوْلُ فِیْ کِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَ لْتَ ( یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚ وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ(۳۹) (پ13 ، الرعد : 39)( مصنف ابن ابی شیبہ،7 / 85بتغیرقلیل)

 اِلٰہِیْ بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِ فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ الْمُکَرَّمَ ، الَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْہَا کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَیُبْرَمُ ، نَسْاَ لُکَ اَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَاءِ مَانَعْلَمُ ، وَمَا لَانَعْلَمُ وَمَا اَنْتَ بِہٖ اَعْلَمُ ، اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعِزُّ الْاَکْرَمُ ، وَصَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَ سَلَّم (الکشف والبیان عن فضائل لیلۃ النصف من شعبان ، ص 27 واللفظ لہ ،  نعت البدایات ، ص 197 بتغیر)

صلاۃُ التسبیح کی اہمیت و فضیلت :

پیارے پیارے اسلامی بھائیو !زہے نصیب کہ شبِ براءت میں دیگر عبادات و نوافل کے ساتھ ساتھ صلوۃُ التسبیح کے نفل بھی ادا کر لئے جائیں جیساکہ حضرت علامہ علی بن سلطان قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بہتر یہ ہے کہ شبِ براءت میں صلوٰۃُ التسبیح بھی ادا کر لی جائے کیونکہ یہ کسی شک و شبہ کے بغیر صحیح طور پر ثابت ہے۔ (مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری ، الرسالۃ : التبیان فی بیان مافی لیلۃ النصف من شعبان۔۔ الخ ، 3 / 51)

صلاۃُ التسبیح کی فضیلت پر حدیث:

ہمارے پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے چچا حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو صلوۃُ التسبیح کا تفصیلی طریقہ بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا : میرے چچا جان!اگرروزانہ یہ نماز ادا کرسکیں توضرور کریں ، اگر روزانہ نہ ہوسکے تو ہرجمعہ کواور اگر ایسا بھی نہ کرسکیں تو ہر مہینے ادا کرلیا کریں ، یہ بھی نہ ہوسکے توسال میں ایک مرتبہ ادا کرلیا کریں اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ ادا کرلیں۔ (ابو داؤد ، کتاب التطوع ، باب صلوۃ التسبیح ، 2 / 45، الحدیث : 1297)

صلاۃُ التسبیح کا طریقہ

اس نماز کو اس ترتیب سے پڑھیں کہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد ثَناء پڑھیں پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے : سُبْحٰنَ اﷲِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَر پھر اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم اور بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم سورۂ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر رکوع سے پہلے دس بار یہی تسبیح پڑھے پھر رکوع کرے اور رکوع میں سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم تین مرتبہ پڑھ کر پھر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر رکوع سے سر اٹھائے اور سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد پڑھ کر پھر کھڑے کھڑے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر پہلے سجدے میں جائے اور تین مرتبہ سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پڑھ کر پھر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر سجدہ سے سر اٹھائے اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر دوسرے سجدہ میں جائے اور سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی تین مرتبہ پڑھےپھراس کےبعدیہی تسبیح دس مرتبہ پڑھےاسی طرح چار رکعت پڑھے اور خیال رہے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے پندرہ مرتبہ اور باقی سب جگہ یہ تسبیح دس دس بار پڑھے یوں ہر رکعت میں 75مرتبہ تسبیح پڑھی جائے گی اور چار رکعتوں میں تسبیح کی گنتی تین سو مرتبہ ہوگی۔ ( بہار شریعت ، حصہ 4 ، 1 / 683)

ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کریں گے :

حضرت علامہ علی بن سلطان قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شبِ براءت میں سورۂ الدُخّان پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو رات میں حٰم الدُّخان کی تلاوت کرےگا تو وہ صبح اس حال میں کرے گا کہ ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہوں گے۔ (ترمذی،4/406، الحدیث 2897)

جنت کی خوشخبری :

حضرت علامہ احمد بن محمدصاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو کوئی شبِ براءت میں 100رکعت پڑھے گا تو اللہ کریم اس کے پاس 100فرشتے بھیجے گا ، جن میں سے 30 فرشتے اسے جنت کی بشارت دیں گے ، 30عذابِ نار سے بچائیں گے ، 30 اس سے دنیوی آفتیں دور کریں گے اور10 فرشتے اس سے شیطان کے مکرو فریب دور کریں گے۔ (حاشیۃ الصاوی، الدخان، تحت الایۃ : 2 ، 5 / 1908)

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس رات عبادات کرنے اور زیادہ سے زیادنیکیاں کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیّین الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مولانا حسین علاؤالدین عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی


سراج الاُمَّہ، امامُ الاَئِمَّہْ، فَقِیْہِ اَفْخَمْ،اِمام ِاعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے علم و فضل کا آفتاب بنایا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور لقب ’’ امامُ الاَئِمَّہ‘‘ہے،جس کا معنی’’اماموں کا امام‘‘ ہے۔ علمِ تفسیر،علمِ حدیث،علمِ فقہ اور دین کے دیگر فنون کے ماہرین،علماء اورائمہ کا اگر شجرہ علمی دیکھا جائے تو وہ اُوپر جا کر امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی سے جاملتا ہے اور بعد کے ائمہ و علماء بالواسطہ یا بلاواسطہ امامِ اعظم رضی اللہ عنہ کے شاگرد بنتے ہیں۔ مثلاً فقہ کے ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا شجرہ علمی ملاحظہ ہو:

٭ امام ِمالک : یہ امام اعظم کے بلا واسطہ شاگرد ہیں۔

٭ امام شافعی : امام اعظم کے شاگرد امام محمداور امام محمد کے شاگرد امام شافعی ہیں۔

٭ امام احمد بن حنبل : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی اور امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل ہیں۔

علم حدیث کے ہزاروں علمائے کرام،محدثین کا شجرہ علمی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے۔ سرِدَست چھ مشہور ائمہ،اصحاب صحاح ستہ یعنی امام بخاری،امام مسلم،امام ابوداؤد،امام نسائی،امام ترمذی اور امام ابن ماجہ کا شجرہ علمی ملاحظہ ہو:

٭ امام بخاری : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام بخاری ہیں۔

٭ امام مسلم : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی، امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام مسلم ہیں۔

٭ امام ابوداؤد : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام ابوداؤد ہیں۔

٭ امام نسائی : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل،امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام ابو داؤد اور امام ابو داؤد کے شاگرد امام نسائی ہیں۔

٭ امام ترمذی :امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل،امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام بخاری اور امام بخاری کے شاگرد امام ترمذی ہیں۔

٭ امام ابن ماجہ : امام اعظم کے شاگرد امام عبداللہ بن مبارک،امام عبداللہ بن مبارک کے شاگرد امام ابوبکر بن ابی شیبہ اور امام ابو بکر بن ابی شیبہ کے شاگرد امام ابن ماجہ ہیں۔

وللہ الحمد ۔

اللہ کریم ہمیں بھی امام ِاعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا علمی و روحانی فیضان نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین  صلی اللہ علیہ وسلم

کَتَبَہُ: ابوالحقائق راشدعلی عطاری رضوی مدنی۔


برکاتِ نام محمد

Wed, 9 Mar , 2022
2 years ago

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات و صفات کو اللہ پاک نے بےشمار خوبیوں اور کمالات سے نوازا ہے،آپ کی شان و عظمت یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی آپ سے نسبت ہوجائے تو اس چیز کی عظمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کا مقام و مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت و اخلاق کی طرح آپ ﷺ کے نام مبارک کی برکتیں بھی بے شمار ہیں۔

آنحضرتﷺ کے دو مشہور نام:

یوں تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم کے بہت سے نام ہیں مگر دو نام ”محمد“ اور” احمد“ بہت مشہور ہیں، نام محمد کے معنی ہیں ”بہت ہی حمد کئے ہوئے“ ۔

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ آپ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )ابھی میرے شکم میں تھے کہ والدِ نامدار حضرت عبداللہ رضی اللہُ عنہ نے سفر کی حالت میں مدینۃ المنورہ میں انتقال فرمایا اور کسی نے خواب میں آ کر مجھے پاؤں کی جُنبش سے اُٹھا یا اورارشاد فرمایا:اے آمنہ!تجھے بشارت ہو کہ تیرے شکمِ اطہر میں پرورش پانے والی ذات تمام جہانوں سے بہتر ہے، جب ان کی ولادت ہوجائے تو ان کا نام محمد رکھنا اور اپنے اس معاملے پر کسی کو آگاہ نہ کرنا۔([1])

اگر ہم بھی اس مُعزز و مُکرم نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اپنے بیٹوں کا نام محمد رکھیں تویہ مُبارک نام ہماری بخشش و مغفرت کا ذَرِیعہ بن سکتاہے چنانچہ نام محمد کی فضیلت پر چند احادیث ملاحظہ ہوں۔

(1) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :جو میری محبت کی وجہ سے اپنے لڑکے کا نام محمد یا احمد رکھے گا اللہ پاک باپ اور بیٹے دونوں کو بخشے گا ۔([2])

(2) بروزِ قیامت دو شخص اللہ پاک کے حضور کھڑے کئے جائیں گے،حکم ہو گا اِنہیں جنت میں لے جاؤ! وہ عرض کریں گے : اے ہمارےرب!ہم کس عمل کی بدولت جنت کے قابل ہوئے، ہم نے توکوئی کام جنت کا نہیں کیا؟ اللہ پاک فرمائے گا :جنت میں جاؤ !میں نے قسم ارشاد فرمائی ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہو وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔([3])

(3) جس مشورے میں اِس نام (یعنی محمدنام) کا آدمی شریک ہو اس میں برکت رکھی جاتی ہے ۔([4])

(4)تمہارا کیا نقصان ہے کہ تمہارے گھروں میں دو یا تین محمد ہوں۔([5])

(5) رحمتِ عالم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے میرے نام سے برکت کی امید کرتے ہوئے میرے نام پر نام رکھا،قیامت تک صبح وشام اس پر برکت نازل ہوتی رہے گی ۔([6])

(6) مولا مشکل کشا حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم بیٹے کا نام محمد رکھو تو اس کی عزّت کرو اور مجلس میں اس کے لئے جگہ کشادہ کرو اور اس کی نسبت برائی کی طرف نہ کرو ۔ ([7])

صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:محمد بہت پیارا نام ہے،اس نام کی بڑی تعریف حدیثوں میں آئی ہے ۔اگر تصغیر کا اندیشہ نہ ہو تو یہ نام رکھا جائے اور ایک صورت یہ ہے کہ عقیقہ کا نام یہ ہو اور پکارنے کے لئے کوئی دوسرا نام تجویز کر لیا جائے ، اس صورت میں نام کی بھی برکت ہو گی اور تصغیر سے بھی بچ جائیں گے۔ جب کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے تو اسے چاہيے اِس نامِ پاک کی نسبت کے سبب اس کے ساتھ حسن ِ سلوک کرے اور اس کی عزت کرے ۔

یادرکھئے ! جن کے نام محمد و احمد یا کسی مُقدس ہستی کے نام پر رکھے جائیں تو ان کا اَدب بھی ہم پر لازِم ہے۔ لیکن فی زمانہ ہمارے معاشرے میں نام تو اچھے اچھے رکھے جاتے ہیں لیکن بَدقِسمتی سے ان مبارک اَسماء کا احترام بالکل نہیں کیا جاتا اور ا نہیں بگاڑ کر عجیب و غریب ناموں سے پکارا جاتا ہے حالانکہ ہمارے اَسلافِ کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کی یہ عادت کریمہ تھی کہ مُقدس ناموں کا حتی الامکان اَدب واحترام بجا لایا کرتے چنانچہ مشہور بادشاہ،سُلطان محمود غَزنوی ایک زَبر دَست عالمِ دین اور صوم و صلوٰۃ کے پابندتھے اور باقاعدگی کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کیا کرتے آپ نے اپنی ساری زِندگی دینِ اسلام کے مُطابق گزاری اور پرچمِ اسلام کی سربُلَندی اور اِعلائے کلمۃ اللہ کے لئے بہت سی جنگیں لڑیں اورفتح یاب ہوئے ۔ آپ شجاعت وبہادری کے ساتھ ساتھ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عظیم مَنصب پر بھی فائز تھے۔آپ کے فرمانبردار غلام ایازکا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد تھا۔محمود غزنوی رحمۃُ اللہِ علیہ جب بھی اس لڑکے کو بُلاتے تو اس کے نام سے پُکارتے،ایک دن آپ نے خِلافِ معمول اُسے اے اِبنِ ایاز ! کہہ کر مُخاطب کیا۔ ایاز کو گمان ہوا کہ شاید بادشاہ آج ناراض ہیں اس لئے میرے بیٹے کو نام سے نہیں پکارا ، وہ آپ کے دَربار میں حاضِر ہوا اور عرض کی: حضور! میرے بیٹے سے آج کوئی خَطا سَرزد ہوگئی جو آپ نے اس کا نام چھوڑ کر اِبنِ ایاز کہہ کر پکارا؟ آپ نے فرمایا :میں نام محمد کی تعظیم کی خاطِر تمہارے بیٹے کا نام بے وضو نہیں لیتا چونکہ اس وَقت میں بے وضو تھا اس لیے لفظِ محمد کو بِلا وضو لبوں پر لانا مناسب نہ سمجھا۔ہمیں بھی چاہئے کہ ہم برکت والے پاکیزہ نام رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کا ادب و احترام بھی کریں۔

مؤلف:احمد رضا بن عبد الحمید عطاری المدنی

Date:26-02-2022



[1] البدایہ و النھایہ،4/ 720،ملخصا

2 کنزالعمال،16/175،حدیث:45215

[3] فردوس الاخبار،2/503،حدیث:8515،ملتقطا،ملخصا

[4] کنز العمال،16/175،حدیث:45216،ملتقطا ملخصا

[5] طبقات الکبری،5/40،حدیث:622،ملخصا

[6] کنزالعمال،16/175،حدیث:45213

[7] تاریخ بغدادا،3/305


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

لَکَ الْحَمْدُ یَا اللہ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ

اللہ تعالیٰ نے قلمِ رضا کوایسی جامعیّت اور قُوت عطافرمائی ہےکہ امامِ اہلسنت، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جس مسئلہ کی تحقیق میں بھی کوئی کتاب ،رسالہ یا فتویٰ تحریر فرماتے ہیں ،تواُس مسئلےکواَلَمْ نَشرَح (یعنی واضح) کردیتے ہیں۔یوہیں جس موضوع پربھی اَشعار لکھتے ہیں تو اُس کی مَنظرکَشی کا حق ادا فرمادیتے ہیں، جسے دیکھ کرفنِ شاعری کےماہرین حیران اور انگشُت بدنداں (یعنی حیران) ہوجاتےہیں۔ اس کی زبردست مثال اِنتہائی مختصرسےوقت میں لکھاجانےوالاکلام’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ہے، جوکہ67اَشعار پر مشتمل ہے۔ امامِ اہلسنت علیہ الرّحمہ نے اس قصیدے میں حَسین تخیُّلات کےساتھ ساتھ جابجا آیاتِ قراٰنیہ اوراَحادیثِ نَبویّہ کی زبردست عَکاسی اور ترجمانی فرمائی ہے نیز آپ رحمۃ اللہ علیہ نےاس قصیدے میں سفرِ معراج کےمختلف مرحلوں کوبڑےفصیح و بلیغ اَلفاظ میں بصورتِ شعرپیش فرمایاہے۔ساتھ ہی ساتھ امامِ عشق و محبت رحمۃ اللہ علیہ نےاِس قصیدےمیں اُردو زبان کے رائج اِستعاروں اورمُحاروں کا کثرت سےاستعمال کیاہے۔ اس قصیدےکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مجدِّدِ اعظم،اعلیٰ حضرت رحمۃا للہ علیہ نےواقعۂ معراج کی مناسبت سےکعبہ و حطیم،مسجدِ اَقصیٰ ونمازِ اَقصیٰ ،جِبرَئِیل و بُراق ،آسمان و عرشِ اَعظم، سِدرۃُالمنتہیٰ و جنّت اور لامکان و دیدارِ رحمن کاتذکرہ بڑےلطیف اَنداز میں فرمایاہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگرکسی کو سفرِ معراج کےنقطۂ آغاز (یعنی ابتداء)سےلےکراِس کےمقامِ عُروج ورِفعت (اختتام و تکمیل)تک کامختصربیان اُردوزبان میں بصورتِ نظم پڑھنا ہوتووہ امامِ اہلسنت،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے اس مبارَک اورمنفرد’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ کو ملاحظہ کرلے۔

شرح قصیدہ معراجیہ:

اللہ ربُّ العزت کے فضل وکر م سےحقیر سراپا تقصیر نے اس مبارَک قصیدے کی شرح :’’لَمَعَانُ الْاَنْوَارِ الْاَحْمَدِیَۃِ فِی تَوْضِیْحِ الْقَصِیْدَۃِ الْمِعْرَاجِیَۃِ‘‘ بنام شرح قصیدۂ معراجیہ‘‘تحریر کرنے کی سعادت پائی ہے۔ اِس شرح میں راقم الحروف نے بنیادی طور پر دو باتوں کا اہتمام کرنے کی سعی کی ہے۔

(1) عوام الناس کیلئے کلامِ اعلیٰ حضرت کی عام فہم تشریح کرنا۔

(2) معجزۂ معراج سے متعلق اس مبارَک قصیدے کے اَشعار میں بیان کردہ مضامین کی تائید میں قرآن و سنت کی نصوص اور اَقوالِ ائمہ و علما کو ضبط ِ تحریر میں لانا۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں پائی جانے والی فصاحت و بلاغت کی صنعتوں کی نشاندہی اور تفصیل کو قصداً تحریر نہیں کیا؛ تاکہ کلام طویل نہ ہوجائے اور عوام کو سمجھنے میں یہ طوالت مخل نہ ہو۔المختصر! اِس شرح کا صفحۂ قرطاس پر منقش ہونا محض فضلِ ربّانی سے ہے، ورنہ راقم الحروف بے بَضاعت اپنی بے مائیگی کا معترف ہے۔ اِس شرح میں اگر کوئی خوبی و عمدگی ہے تو وہ خاص فضلِ سبحانی اورخدا کی مہربانی سے ہےاور اگرتحریر میں کوئی نقص و خامی ہے تو وہ راقم حقیر سراپا تقصیر کی طرف سے ہے۔

سگِ درگاہِ اعلیٰ حضرت

ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی


بچپن کے معاملات:

جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ شیر خواری کے دنوں میں دن بھر والدہ ماجدہ کا دودھ نہ پیتے اور افطار کے وقت پی لیا کرتے۔ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سانس کے سا تھ ’’ھو ھو‘‘ کی آواز اس طرح نکلتی جیسے آپ رحمۃ اللہ علیہ ذکرِ الہی میں مشغول ہوں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو کھلونوں سے کھیلا کرتے اور نہ ہی بچوں کے دیگر مشاغل اختیار فرماتے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نظریں جھکا کر چلا کرتے اگر راہ چلتے اچانک کسی مسلمان پر نظر پڑ جاتی تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا واللہ ! یہ کوئی عام بچہ نہیں اس کی آنکھوں میں عجیب روشنی ہے جو براہِ راست دلوں کو متاثر کرتی ہےاگر نظر کسی غیر مسلم پر پڑ تی تو اس کی بگڑی سنور جاتی اور وہ اپنا باطل مذہب ترک کردیتا اور کلمہ طیبہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا۔اے کاش ! ہم بھی بزرگانِ دین کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے نظریں جھکا کر چلنے والے بن جائیں۔

بارگاہِ رسالت سے فیوض و برکات :

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بچپن میں ایک دن سڑک کے کنارے کھڑا تھا کہ ایک با رعب صاحب، حشمت نورانی صورت والے بزرگ گھوڑے پر تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے بٹھالیا، میں نے ڈرتے اور کانپتے ہوئے پوچھا۔آپ کون ہیں ؟ ار شاد فرمایا: میں علی بن ابی طالب ہوں۔ میں نے پھر عرض کی: مجھے کہاں لے جار ہے ہیں؟ فرمایا: پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے تمہیں ان کی بارگاہ میں لے جارہا ہوں۔ فرماتے ہیں:پھر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری ہوئی تو وہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی جلوہ فرما تھے ،مجھے دیکھتے ہی نبیوں کے سلطان رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھائے اور ارشاد فرمایا، میرے ہاتھ پکڑ لو پھر دستِ اقدس پر بیعت کی اور کلمے کی تلقین فرمائی ، حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب میں نے کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ پڑ ھا تو درجات و مقامات کا کوئی حجاب باقی نہ رہا ۔اس کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھ پر توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں صدق( سچائی) پیدا ہوگئی ۔ توجہ فرما نے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مجلس سے رخصت ہوگئے پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے میری جانب توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں عدل و محاسبہ نفس پیدا ہوگیا پھر آپ رضی اللہ عنہ بھی رخصت ہوگئے ان کے بعد حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے میری جانب توجہ فرمائی جس سے میرے اندر حیا اور سخاوت کا نور جگمگا اٹھاپھر وہ بھی اس نورانی مجلس سے رخصت ہوگئے اس کےبعد حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھ پر توجہ فرمائی تو میرا جسم علم و شجاعت اور حلم سے بھر گیا، پھر پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر خاتون جنت حضرت سیدتنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا :تم میرے فرزند ہو پھر میں نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہا کے قدمین شریفین کا بوسہ لیا اور ان کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں پہن لیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر دستگیر حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ عنہا کے سپرد فرمادیا حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے مجھے مخلوقِ خدا کی ر ہنمائی کا ار شاد فرمایا: حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے جو کچھ بھی دیکھا اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔

سائلو ! دامنِ سخی کا تھام لو

کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا

مفلسو! ان کی گلی میں جا پڑو

باغ خلد اکرام ہو ہی جائے گا

دل کی بات جان لی :

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر رحمۃاللہ علیہ نے اپنے ایک وزیر کے ہاتھ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اشرفیوں کی دو تھیلیاں بھیجیں اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کنویں کے پاس بیٹھے کھیتوں کو پانی دے رہے تھے آپ رحمۃاللہ علیہ نے دونوں تھیلیاں کنویں میں پھینک دیں وزیر کو بڑا تعجب ہوااوراس کےدل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یہ اشرفیاں مجھے مل جاتیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دل کی بات جان لی اور جب کنویں کی طرف نظر فرمائی تو اس سے پانی کی بجائے اشرفیاں نکلنے لگیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت دیکھ کر وزیر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں میں گرگیا، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار پھر اس پر نظر فرما کر عشقِ حقیقی کا جام پلایا اور وہ دونوں اشرفیوں سے بھری تھیلیاں اس کے حوالے کردیں۔

راہِ حق دکھا دی :

ایک مرتبہ حضرت سلطان باہو رحمۃاللہ علیہ شاہ راہِ پرلیٹےہوئےتھے کہ غیر مسلموں کا ایک گروہ گزراان میں سے ایک بطورِ حقارت آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ٹھوکر ماری اور کہا:ہمارے لئے راستہ بناؤ،آپ نے اٹھتے ہی فرمایا: ”لا الہ الا انت محمد رسول اللہ“ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے کلمہ طیبہ جاری ہونا تھا کہ غیر مسلموں کا پورا گروہ کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

مٹی سونا بن گئی :

جب آپ شور کورٹ میں کاشتکاری کرتے تھے تو افلاس و نادری سے تنگ ایک سفید پوش بزرگ سید صاحب بزرگوں اور فقیروں کی تلاش میں مار ے مارے پھرتے کہ کہیں سے کوئی اللہ کا بندہ مل جائے او راس کی روح سے میری غربت اورتنگی دور ہوجائے اسی طلب میں وہ ایک فقیر کی خدمت میں رہنے لگےاور اس کی خدمت کرتے ، ایک فقیر کو ان کے حال پر رحم آیا پوچھا تیری مراد اور حاجت کیا ہے اس سید نے عرض کی : میرا بہت بھاری کنبہ ہے اور میں قرض دار ہوگیا ہوں جوان لڑکیاں اور لڑکے ہیں افلاس اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کی شادی بھی نہیں کرسکتا ظاہر ی اسباب ختم ہوچکے ہیں اب تو خالی مددکے سوائے میری تنگ دستی کا علاج ممکن نہیں تب اس فقیر نے کہا کہ میں تجھے ایک مردِ کامل کا پتا بتاتا ہوں سوائے اس کے کہ تیرا علاج کسی کے پاس نہیں ہیں تو سخی سلطان باہو کے پاس شور کورٹ چلا جاان کی بارگاہ میں عرض پیش کرنا وہ پریشان حال سید صاحب سلطان العارفین کے پاس پہنچ گئے لیکن ان کی مایوسی کی کوئی حد نہ رہی تھی جب دیکھا کہ آپ رحمۃاللہ علیہ کھیتوں میں ہل چلا رہے ہیں جبکہ انہیں وہاں کے لوگوں سےپتا چل چکا تھا کہ لوگ آپ کو فقیر کی حیثیت سے نہیں کسان کی حیثیت سے جانتے ہیں یہ حالت دیکھ کر مایوس ہو کر واپس موڑنے ہی والے تھے کہ سلطان العارفین نے جو ان کی قلبی کیفیت سے آگاہ ہو چکے تھے ان کو آواز دی آپ کی آواز سن کر ان سید صاحب کوکچھ حوصلہ ملا ، دل میں کہنے لگے اب خود بلایا ہے تو عرض پیش کرنے میں کیا حرج ہے، سید صاحب نے قریب آکر سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا خیریت پوچھی کہ کس وجہ سے یہاں آئے ہوسید صاحب نے اپنی ساری مشکلات سناد ی آپ نے فرمایا : شاہ صاحب مجھے پیشاب کی حاجت ہے آپ میرا ہل پکڑ کر رکھیں میں پیشاب سے فارغ ہولوں، غرض آپ نے پیشاب کیا مٹی کے ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد وہ ڈھیلے ہاتھ میں لے لیا، سید صاحب سے مخاطب ہوئے شاہ صاحب آپ نے مفت تکلیف اٹھائی میں تو ایک جٹ آدمی ہوں، سید صاحب کا دل پہلے ہی سفر کی تھکاوٹ اور مایوسی سے جلا ہوا تھا طیش میں آکر بولے: ہاں یہ میری سزا ہے! سید ہو کر آج ایک جٹ کے سامنے سائل کی حیثیت سے کھڑا ہوں حضرت سلطان العارفین کو جلال آیا اور اپنی زبان مبارک سےشعرپڑھتے ہوئے وہ پیشاب والا ڈھیلا زمین پر دے مارا، آپ کے پیشاب والا ڈھیلا اس زمین کے جن جن ڈھیلوں سے لگتا گیا وہ سونا بن گیا، سید صاحب یہ حالت دیکھ کر دم بہ خود ہو گئے ، آپ کے قدموں پر گر کر رونے لگے اور معافی مانگنے لگے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: شاہ صاحب یہ وقت رونے کا نہیں یہ ڈھیلے چپکے سے اٹھالو اور چلتے بنو ورنہ لوگوں کو پتا چل گیا تو نہ تیری خیر ہے اور نہ میری چنانچہ سید صاحب نے ان سونے کے ڈھیلوں کو جلدی سے اپنی چادر میں ر کھ لئے اور آپ کے پاؤں چومتے ہوئے وہاں سے چل دیئے۔

وفات و مدفن :

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 63 سال اس دارِ فانی میں دینِ اسلام کی تعلیمات عام کیں اور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے عہد میں یکم جمادی الاخر ی ۱۱۰۲ھ بمطابق 2 مارچ 1691 ءشبِ جمعہ تیسرے پہر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے سفر آخرت اختیار فرمایا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک دریائے چناب کے مغربی کنارے پر واقعہ قلعہ قہرکان سے کچھ فاصلے پر ہے جس کے چاروں جانب پختہ دیواریں ہیں۔

(مأخد: رسالہ : فیضانِ سلطان باہو)

از: بنت اجمل عطاریہ (طالبہ جامعۃ المدینہ گرلز)