فطرت کا تقاضا 

Thu, 7 Apr , 2022
3 years ago

اقوام عالَم کو درسِ صفائی:

سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کے باشندے صفائی ستھرائی اور طہارت وپاکیزگی سے ناواقف تھے ۔گندگی سے گھن کھانا تو دور کی بات ہے وہ تو جس مکان میں سوتے تھے اسی میں اپنے پالتوجانور باندھتے تھےاور گھر کے باہر کھلی گلیوں میں قضائے حاجت کرتے تھے ۔روشنی کا انتظام نہ ہونے کے باعث اگر کوئی اندھیرا چھاجانے کے بعد گھر سے باہر نکلتا تونجاست سے آلودہ ہوکر واپس آتا۔ مکان اورگلی کوچوں کی گندگی کے ساتھ ساتھ ان کے جسم اورروح بھی پراگندہ تھے ۔نہ انہیں قضائے حاجت وجنابت کے بعد استنجاوطہارت کا شعور تھا اور نہ ہی بلند پایہ اخلاق کی معرفت تھی ۔یہ تو اسلام کانور تھا جس نے اہل یورپ کوروشنی دی،انہیں نفاست وپاکیزگی کا طریقہ اوررہن سہن کا سلیقہ بتایا، انسانی فطرت کے تقاضوں سے آشنا کیا اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کروایا۔اس کی وجہ علامہ عبدالرسول ارشد(گولڈ میڈلسٹ)کی زبانی ملاحظہ کیجئے :جب مسلمانوں کے شہر اپنی صفائی اور خوبصورتی کی وجہ سے دل ونگاہ کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے ،اس وقت یورپ کے شہروں میں گندگی،غلاظت اور تاریکی کے سوا کچھ نہ تھا۔۔اور۔۔یہ انسانی فطرت ہے کہ اندھیروں میں بھٹکنے والا انسان اس طرف دوڑتا ہے جہاں اسے روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔اہل یورپ نے بھی یہی کچھ کیا۔جب انہیں اپنے ہاں ہر طرف تاریک اور ظلمت نظر آئی تو انہوں نے علم، تہذیب،اخلاق اور خوش حالی کا درس لینے کے لئے مسلمانوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔

طہارتِ امت کافریضہ:

دین مبین نے نہ صرف اہل یورپ کو روشنی سے نوازابلکہ اپنے آفاقی پیغام اور فطرت سے کامل ہم آہنگی کی بدولت دنیا کی تمام ہی اقوام کونور بانٹا ہے۔اس مضمون میں ہم اسلام کے صرف اس پہلو پر گفتگو کریں گے کہ توحیدورسالت کی دعوت کے ساتھ ساتھ اسلام نے انسان کو نفاست وپاکیزگی کا تصور دیا اور اس پر کاربند رہنے کی تلقین کی ہے اور حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے عظیم مقصد میں یہ بھی شامل تھا کہ امت کو نجاست وگندی سے پاک فرمائیں۔حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے تعمیرکعبہ کے بعد جو دعا فرمائی اس میں یہ بھی تھا : اے ہمارے رب ! ان میں ایسا رسول بھیج جو انہیں خوب ستھرا فرمادے۔۱،البقرۃ:۱۲۹) مفسرقرآن ابوالحسن علاء الدین علی بن محمد المعروف امام خازن رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی ایسا رسول جو انہیں شرک، بت پرستی، ہرقسم کی نجاست وگندگی،گھٹیاحرکتوں اور کوتاہیوں سے پاک کردے۔ (تفسیرخازن،ج۱،ص۹۲)پھر یہ کہ اسلام دین فطرت ہے اور صفائی ستھرائی اور طہارت وپاکیزگی فطرت کا تقاضا ہے۔حضورنبی طاہر ومطہر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: الفطرۃ خمس الختان والاستحداد وقص الشارب وتقلیم الأظفار ونتف الآباط یعنی پانچ چیزیں فطرت سے ہیں:(۱) ختنہ کرنا (۲)موئے زیر ناف صاف کرنا(۳) مونچھیں پست کرنا (۴) ناخن تراشنا (۵) اور بغل کے بال اکھیڑنا۔(صحیح بخاری،ج۴، ص۷۵، الحدیث:۵۸۹۱)

مسلمان کا اسلامی نشان:

صفائی ستھرائی کی اہمیت وافادیت کو اُجاگر کرتے ہوئے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:صفائی ستھرائی کی مبارک عادت بھی مردوں اور عورتوں کے لیے نہایت ہی بہترین خصلت ہے جو انسانیت کے سر کا ایک بہت ہی قیمتی تاج ہے۔ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی و ستھرائی انسان کے وقار و شرف کا آئینہ دار اور محبوبِ پروردگار ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کا یہ اسلامی نشان ہے کہ وہ اپنے بدن، اپنے مکان و سامان، اپنے دروازے اور صحن وغیرہ ہر ہر چیز کی پاکی اور صفائی ستھرائی کا ہر وقت دھیان رکھے۔ گندگی اور پھوہڑ پن انسان کی عزت و عظمت کے بدترین دشمن ہیں اس لیے ہر مردو عورت کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کی عادت ڈالنی چاہیے۔ صفائی ستھرائی سے صحت و تندرستی بڑھتی رہتی ہے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’اﷲتعالیٰ پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح ،ج۲،ص۴۹۷، الحدیث : ۴۴۸۷) رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کو پھوہڑ اور میلے کچیلے رہنے والے لوگوں سے بے حد نفرت تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کاحکم دیتے رہتے اور اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔پھوہڑ عورتیں جو صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتی ہیں وہ ہمیشہ شوہر کی نظروں میں ذلیل وخوار رہتی ہیں بلکہ بہت سی عورتوں کو ان کے پھوہڑ پن کی وجہ سے طلاق مل جاتی ہے اس لئے عورتوں کو صفائی ستھرائی کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے۔(جنتی زیور،ص۱۳۹)

پاکیزگی آدھا ایمان:

یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ ہر وقت بننے سنورنے ہی میں نہ لگا رہے کہ اس کی بھی ممانعت ہے بلکہ شرع میں جتنی صفائی مطلوب ہے وہ حسب قدرت وطاقت بجالائے ۔ ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے : تنظفوا بکل ما استطعتم فان اللّٰہ بنی الاسلام علی النظافۃ ولن یدخل الجنۃ الا کل نظیف ترجمہ:تم سے جتنا ممکن ہو صفائی رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں وہی داخل ہوگا جو صاف ستھر اہوگا۔(جمع الجوامع،ج4،ص: 115) اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر طرح کی صفائی کا حکم دیا ہے خواہ جسمانی ہو یا روحانی ،فرد کی ہو یا معاشرے کی ، گھر کی ہو یا مسجد کی یا پھر محلے کی ہو، الغرض اسلام جسم وروح ،دل ودماغ ،قرب وجواراورتہذیب وتمدن کو ستھرا رکھنے کا درس دیتا ہے ۔ اسے ہر جگہ ترتیب وسلیقہ اور نفاست وعمدہ مطلوب ومحبوب ہے اور گندگی وناپاکی اور غلاظت ونجاست ناپسند ہے۔ صفائی کی اہمیت بتاتے ہوئے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’الطھورنصف الایمان یعنی پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔‘‘ (سنن الترمذی ،ج ۵،ص۳۰۸،الحدیث: ۳۵۳۰)

جسمانی صفائی کتنے دن بعد ؟

جسم کی صفائی کے متعلق اول الذکر حدیث فطرت میں پانچ طرح کی صفائی کو بیان کیا گیا ہے،اول ختنہ کہ سنت ہے اور یہ شعار اسلام میں ہے کہ مسلم وغیرمسلم میں اس سے امتیاز ہوتا ہے اسی لیے عرف عام میں اس کو مسلمانی بھی کہتے ہیں۔ختنہ کی مدت سات سال سے بارہ سال کی عمرتک ہے اور بعض علما نے یہ فرمایا کہ ولادت سے ساتویں دن کے بعد ختنہ کرنا جائز ہے۔(بہارشریعت،ج۳،ص۵۸۹)باقی چارچیزوں کے متعلق صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہرجمعہ کو اگر ناخن نہ ترشوائے تو پندرھویں دن ترشوائے اور اس کی انتہائی مدت چالیس ۴۰ دن ہے اس کے بعد نہ ترشوانا ممنوع ہے۔ یہی حکم مونچھیں ترشوانے اور موئے زیر ِ ناف دور کرنے اور بغل کے بال صاف کرنے کا ہے کہ چالیس دن سے زیادہ ہونا منع ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے، کہتے ہیں کہ’’ناخن ترشوانے اور مونچھیں کاٹنے اور بغل کے بال صاف کرنے میں ہمارے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی تھی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔‘‘(صحیح مسلم ، ص۱۵۳،الحدیث:۲۵۸)مزید فرماتے ہیں : موئے زیر ناف دور کرنا سنت ہے۔ ہر ہفتہ میں نہانا، بدن کو صاف ستھرا رکھنا اور موئے زیر ناف دور کرنا مستحب ہے اور بہتر جمعہ کا دن ہے اور پندرھویں روز کرنا بھی جائز ہے اور چالیس روز سے زائد گزار دینا مکروہ و ممنوع۔ موئے زیر ناف استرے سے مونڈنا چاہیے اور اس کو ناف کے نیچے سے شروع کرنا چاہیے اور اگر مونڈنے کی جگہ ہرتال چونا یا اس زمانہ میں بال اڑانے کا صابون چلا ہے، اس سے دور کرے یہ بھی جائز ہے(بال صفاپاؤڈراور کریم وغیرہ بھی اسی حکم میں داخل ہیں)، عورت کو یہ بال اکھیڑ ڈالنا سنت ہے۔(بہارشریعت،ج۳،ص۵۸۴)ممکن ہوتو ہر جمعہ کو یہ کام کر لینے چاہیں کیونکہ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز کوجانے سے پہلے مونچھیں کترواتے اور ناخن ترشواتے۔ (شعب الایمان،ج۳،ص۲۴ ،الحدیث:۲۷۶۳)

دس چیزوں کی صفائی:

حجۃ الاسلام امام محمدبن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :طہارت حاصل کرنے والے کو چاہیے کہ پاکیزگی حاصل کرے، مونچھوں کو پست کرے، بغلوں کے بال اکھیڑے، موئے زیرِناف مونڈے، ناخن کاٹے، ختنہ کرے،وضو میں ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے جوڑاچھی طرح دھوئے، ناک کی صفائی کاخاص خیال رکھےاور کپڑوں اوربدن کی پاکیزگی کا خوب اہتمام کرے۔(رسائل امام غزالی ،ص۴۰۷) ۔۔صفائی اور پاکیزگی سے متعلق یہ وہ چیزیں ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بھی لازم تھیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: وہ دس چیزیں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام پرواجب تھیں وہ یہ ہیں:(۱) مونچھیں کتروانا(۲) کلی کرنا (۳) ناک میں صفائی کے لئے پانی استعمال کرنا (۴)مسواک کرنا (۵) سر میں مانگ نکالنا (۶) ناخن ترشوانا (۷) بغل کے بال دور کرنا (۸) موئے زیر ناف کی صفائی(۹) ختنہ (۱۰) پانی سے استنجا کرنا۔صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ یہ قول نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں: یہ سب چیزیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر واجب تھیں اور ہم پر ان میں سے بعض واجب ہیں بعض سنت۔ (خزائن العرفان،سورۃ البقرۃ، تحت الایۃ:۱۲۴)

خِلال بھی صفائی ہے:

ظاہری جسم کی صفائی میں اس قدر مبالغہ اور باریک بینی دین اسلام کا خاصہ اور طرۂ امتیاز ہے۔یہاں تک آیا ہے کہ کھانے کے بعدلکڑی وغیرہ سے دانتوں کا خلال کیا جائے اوردوران وضو اپنے ہاتھ پاؤں کی انگلیوں اور داڑھی کے بالوں کا خلال کیاجائے اور یہ مستحب ہے ۔سراپا پاکیزہ ونفیس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تخللوا فإنہ نظافۃ والنظافۃ تدعو إلی الإیمان والإیمان مع صاحبہ فی الجنۃ ترجمہ :خلال کیا کرو کیونکہ یہ صفائی ہے اور صفائی ایمان کی طرف بلاتی ہے اور ایمان مومن کے ساتھ جنت میں ہوگا۔(المعجم الاوسط،ج۷،ص:۲۱۵)دانتوں کی صفائی کے لئے خِلال نیم کی لکڑی کا ہوکہ اس کی تلخی سے منہ کی صفائی ہوتی ہے اور یہ مسوڑھوں کیلئے مفید ہوتی ہے۔ بازاریTOOTH PICKS عموماً موٹی اور کمزور ہوتی ہیں۔ ناریل کی تیلیوں کی غیرمستعمل جھاڑو کی ایک تیلی یا کھجور کی چٹائی کی ایک پٹی سے بلیڈ کے ذریعے کئی مضبوط خِلا ل تیار ہو سکتے ہیں۔بعض اوقات منہ کے کونے کے دانتوں میں خلا ہوتا ہے اوراس میں بوٹی وغیرہ کاریشہ پھنس جاتا ہے جوکہ تنکے وغیرہ سے نہیں نکل پاتا۔ اس طرح کے ریشے نکالنے کیلئے میڈیکل اسٹور پر مخصوص طرح کے دھاگے (flosses) ملتے ہیں نیز آپریشن کے آلات کی دکان پر دانتوں کی اسٹیل کی کریدنی (curved sickle scale) بھی ملتی ہے مگر ان چیزوں کے استعِمال کا طریقہ سیکھنا بہت ضروری ہے ورنہ مسوڑھے زخمی ہو سکتے ہیں۔(فیضان سنت،ج۱،ص۲۸۹)

صفائی کی اہمیت پراحادیث مبارکہ:

دین اسلام میں ظاہری بدن کے ساتھ لباس ،بالوں اور استعمال کی دیگر چیزوں کی صفائی پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔ ان چیزوں کی صفائی ستھرائی کے بارے میں بھی کثیراحادیث وآثار وارد ہیں۔چند روایات ملاحظہ کیجئے :

{1}حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے کپڑے دھوؤ،بالوں کو سنوارو،مسواک کرو،زینت اپناؤاور صفائی ستھرائی رکھو کیونکہ بنی اسرائیل ایسا نہیں کرتے تھے تو ان کی عورتیں بدکاری میں مبتلا ہوگئیں۔ (کنزالعمال،ج۳،جزء۶،ص۲۷۳، الحدیث: ۱۷۱۷۱) {2} حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من کرامۃ المؤمن علی اللہ نقاء ثوبہ ورضاہ بالیسیر ترجمہ: بندہ مومن کی بارگاہِ الہٰی میں عزت وکرامت سے یہ بھی ہے کہ اس کے کپڑے صاف ہوں اور وہ تھوڑے پر راضی رہے۔(المرجع السابق ،الحدیث:۱۷۱۸۲)علامہ عبدالروف مناوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :تھوڑے پر راضی رہنے سے مراد لباس،کھانے ،پانی اور مال ودولت میں کمی پر راضی رہنا ہے اور لباس میں یہ بات پسندیدہ ہے کہ وہ صاف ستھرا ہو اور متوسط درجے کا ہو۔ (التیسیرشرح الجامع الصغیر،ج۲،ص۷۴۱) {3} حضرت عطاء بن یساررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے ۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کیا گویا اسے اپنے بال اور ڈاڑھی کی درستی کا حکم دے رہے ہیں ۔وہ درست کرکے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ألیس ہذا خیرا من أن یأتی أحدکم وہو ثائر الرأس کأنہ شیطان یعنی کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ تم میں سے کوئی شیطان کی طرح سر بکھیرے ہوئے آئے۔(مشکوۃ المصابیح ،ج۱،ص۱۳۷،الحدیث:۴۴۸۶) {4} حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت ہے ۔آپ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر ملاقات کے لئے تشریف لائے تو ایک بکھرے بالوں والے کو دیکھا تو فرمایا:کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس سے اپنے بالوں کو سنوارے اور ایک میلے کپڑوں والے شخص کو دیکھ کر فرمایا:کیا اس کے پاس کوئی ایسی شے نہیں جس سے اپنے کپڑے دھو لے۔ (مسند ابی یعلی ،ج۲،ص ۲۷۷،الحدیث:۲۰۲۲) {5}حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری خوبصورت گھنی زلفیں تھیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:’’ان کا اچھی طرح خیال رکھنا۔‘‘تومیں دن میں ان کو دومرتبہ تیل لگاتا تھا۔(حلیۃ الاولیا،ج۳،ص۱۸۴،الحدیث:۳۶۳۸)

مسواک کی ضرورت واہمیت:

منہ کی صفائی وپاکیزگی بھی ظاہری جسم کی صفائی میں داخل ہے اور اس صفائی کے لئے مسواک سے بڑھ کر کوئی شے نہیں اور اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی میرے پاس آئے انہوں نے مجھے مسواک کرنے کی وصیت کی حتی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ مجھ پر اور میری امت پر فرض نہ ہوجائے اور اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کاخوف نہ ہوتاتومیں ان پر مسواک کرنا فرض کردیتااور میں اس قدر مسواک کرتا ہوں کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں اپنے اگلے دانت زائل نہ کرلوں۔(سنن ابن ماجہ ، ج ۱، ص۱۸۶، الحدیث: ۲۸۹)اورایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا معمول تھا کہ جب گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کیا کرتے ۔(صحیح مسلم،ص۱۵۲،الحدیث:۲۵۳)

اگر چہ منجن ، ٹوٹھ پیسٹ اور ماؤتھ واش سے بھی منہ کی صفائی ہوجاتی ہے مگران سے مسواک والا ثواب حاصل نہ ہوگا جبکہ مسواک عبادت کی نیت سے ہو ۔کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: مسواک کولازم کرلو کہ یہ منہ کی صفائی اور رب تعالیٰ کی رضا کاسبب ہے۔(مسنداحمد ،ج۲،ص۴۳۸،الحدیث:۵۸۶۹)اس حدیث شریف کی شرح کرتے ہوئے حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔خیال رہے کہ مسواک سے مسلمان کا مسواک کرنابنیت عبادت مراد ہے،کفار کی مسواک اورمسلمانوں کی عادتًا مسواک اگرچہ منہ تو صاف کردے گی مگر رضائے الٰہی کا ذریعہ نہ بنے گی نیز اگرچہ مسواک میں دنیوی اور دینی بہت فوائد ہیں،مگر یہاں صرف دو فائدے بیان ہوئے،یا اس لئے کہ یہ بہت اہم ہیں یا کیونکہ باقی فوائد بھی ان دو میں داخل ہیں۔منہ کی صفائی سے معدے کی قوت اور بے شمار بیماریوں سے نجات ہے اور جب رب راضی ہوگیا پھر کیا کمی رہ گئی۔(مراٰۃ المناجیح ،ج۱،ص۳۶۳)

عبادات اور مسواک:

خاص طور پر نماز سے قبل مسواک ضرورکی جائے کہ اس سے منہ کی صفائی کے ساتھ ساتھ نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے نیزاس میں فرشتوں کی راحت کا سامان بھی ہے۔ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلمہے:مسواک کے ساتھ دو رکعت پڑھنا بغیر مسواک کے ستر رکعتیں پڑھنے سے افضل ہے ۔ (الترغیب والترہیب، ج ۱، ص ۱۰۲،الحدیث:۱۸)اور ایک موقع پر ارشادفرمایا: جب تم میں سے کوئی رات کو نمازکے لئے کھڑا ہو تواسے مسواک کرلینی چاہئے کیونکہ جب وہ نماز میں قرا ء ت کرتا ہے توفرشتہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ لیتا ہے اور جو چیز اس کے منہ سے نکلتی ہے وہ فرشتے کے منہ میں داخِل ہوجاتی ہے۔(شعب الایمان،ج۲،ص۳۸۱، الحدیث:۲۱۱۷)اور اگر کوئی نمازی مسواک وغیرہ سے دانتوں میں پھنسے ریزے وریشے وغیرہ نہیں نکالتا تو اس سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔مروی ہے کہ دونوں فرشتوں کے لئے اس سے زیادہ کوئی چیزتکلیف دہ نہیں کہ وہ اپنے ساتھی کونماز پڑھتا دیکھیں اور اس کے دانتوں میں کھانے کے رَیزے پھنسے ہوں۔(المعجم الکبیر،ج۴،ص۱۷۷، الحدیث:۴۰۶۱)

نماز کی طرح تلاوت اورذکرودعا کے لئے بھی مسواک کی رعایت رکھنا چاہیے ۔حدیث شریف میں ہے : طیبوا افواھکم فانہا طرق القراٰن یعنی اپنے منہ صاف رکھو کیونکہ یہ قرآن کا راستہ ہیں۔( کنز العمال،ج۱،ص۶۰۳،الحدیث: ۲۷۵۲) اوررئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان حنفی رحمۃ اللہ علیہ’’احسن الوعالآداب الدعا‘‘میں دعاکا ۵۳واں ادب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب قصدِ دعا ہو پہلے مسواک کر لے کہ اب اپنے رب سے مناجات کریگا، ایسی حالت میں رائحہ متغیرہ (یعنی منہ کی بدبو) سخت ناپسند ہے خصوصاً حقّہ پینے والے، خصوصاً تمباکو کھانے والوں کو اس ادب کی رعایت ذکر ودعا ونماز میں نہایت اہم ہے، کچا لہسن پیاز کھانے پر حکم ہوا کہ مسجد میں نہ آئے۔(صحیح مسلم، ص۲۸۲، الحدیث: ۵۶۴)وہی حکم یہاں بھی ہوگا، مع ہذا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلمفرماتے ہیں:”مسواک رب کو راضی کرنے والی ہے۔“(صحیح بخاری،ج۱،ص۶۳۷،الحدیث:۱۹۳۳) اور ظاہر ہے کہ رضائے رب باعثِ حصولِ اَرب ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا مراد ملنے کا سبب ہے)۔(فضائل دعا،ص۱۰۸)

گھر اور محلے کی صفائی:

انسانی طبیعت اپنے قرب وجوار سے بہت جلد اثر قبول کرتی ہے اور اچھے یا برے ماحول کے اثرات انسان پرضرور مرتب ہوتے ہیں خواہ معاملہ معاشرتی برائیوں اوربدکرداریوں کا ہو یا کچرے ،غلاظت اور نجاست کے ڈھیروں کا ہو لہٰذاانسان جس گھر ،محلے اور علاقے میں رہتا ہے اس کا صاف ستھرا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے ۔گھر اور علاقے کا صاف ستھرا ہونا افرادِ معاشرہ کی نفاست،اچھے مزاج،پروقارزندگی اور خوبصورت سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : إن اللہ طیب یحب الطیب نظیف یحب النظافۃ کریم یحب الکرم جواد یحب الجود فنظفوا افنیتکم ولا تشبہوا بالیہود ترجمہ: اللہ تعالیٰ پاک ہے پاکی کو پسند فرماتا ہے ،ستھرا ہے ستھرے پن کو پسند کرتا ہے،کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے ،جواد ہے سخاوت کو پسند فرماتا ہےتو تم اپنے صحنوں کوصاف ستھرا رکھو اوریہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔(سنن الترمذی،ج۴،ص۳۶۵،الحدیث:۶۸۰۸)

ایک حدیث شریف میں یوں ہے : فنظِّفوا عَذِراتِكم ولا تَشبَّهوا باليَهود تجمع الأكْباء في دْورها ترجمہ:تم اپنے صحنوں کو صاف رکھو اور یہود سے مشابہت نہ کرو کیونکہ ان کے گھروں میں کچرے ڈھیر رہتے ہیں۔(غریب الحدیث لابن قتیبۃ،ج۱،ص۲۹۷)اس حدیث پاک میں ہمیں یہ درس دیا گیا ہے کہ اپنے گھر صاف رکھو ۔لباس، بدن وغیرہ کی صفائی تو بہت ہی ضروری ہے گھر بھی صاف رکھو وہاں کوڑا جالا وغیرہ جمع نہ ہونے دو اور اپنے صحن صاف رکھ کر یہود کی مخالفت کروکیونکہ یہود اپنے گھر کے صحن صاف نہیں رکھتے نیز یہود بہت گندے، بہت بخیل، بڑے خسیس ،بڑے ذلیل ہیں عیسائی اگرچہ کافر ہیں مگر وہ یہود کی طرح گندے نہیں ان میں کچھ صفائی ہے اگرچہ ان کے بھی دانت میلے منہ بدبو دار اور ناخن لمبے ہوتے ہیں۔ ہر طرح کی صفائی تو اسلام نے ہی سکھائی ہے۔(ماخوذ ازمراۃ المناجیح،ج۶،ص،ملخصاً) ۔

مسجد کی صفائی کا حکم:

ایک بندہ ٔمومن کااپنے گھر کے علاوہ مسجد سے بھی گہرا تعلق ہوتا اور وہ بارباریا وقتا فوقتا وہاں حاضری کی سعادت پاتا رہتا ہے اور اپنے خالق ومالک کے حکم کی بجاآوری میں عبادت وریاضت سے مشرف ہوتا ہے۔لہٰذا اس کی صفائی وستھرائی بھی ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَعَہِدْنَاۤ اِلٰۤی اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَالْعٰکِفِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِترجمہ :اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسمٰعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے۔ ۱،البقرۃ:۱۲۵)نیزصدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سورۃ توبہ کی آیت ۱۸کے تحت رقم طراز ہیں:اس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ مسجدوں کے آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں۔ مسجدوں کے آباد کرنے میں یہ امور بھی داخل ہیں جھاڑو دینا ، صفائی کرنا ، روشنی کرنا اور مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے محفوظ رکھنا جن کے لئے وہ نہیں بنائی گئیں ۔ مسجدیں عبادت کرنے اور ذکر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور علم کا درس بھی ذکر میں داخل ہے۔(خزائن العرفان)

مسجد کی صفائی کرنا باعث اجروثواب ہے اور صفائی کرنے والوں کا مرتبہ بڑا بلند ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی جوان مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا ۔ایک بار حضورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موجودنہ پایا تو اس کے متعلق دریافت کیا ۔صحابہ کرام نے عرض کی:وہ تو فوت ہوگیا ۔ارشادفرمایا:کیا تم مجھے اس کی خبر نہیں دے سکتے تھے؟بقول راوی شاید لوگوں نے اس کے معاملے کو چھوٹا خیال کرکے خبر نہ دی ۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے اس کی قبر پر لے چلو ۔قبر پر پہنچ کر آپ نے اس کی نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا:بے شک یہ قبریں اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ میرے ان پرنماز پڑھنے کی برکت سے ان کو روشن ومنورفرمادے گا۔‘‘(صحیح مسلم ، ج ۱ ،ص ۴۷۶ ، الحدیث:۹۵۶)اسی طرح مسجد کی صفائی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:مسجد کی صفائی کرنا بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کا حق مہر ہے۔(المعجم الکبیر، الحدیث۲۵۲۱، ج۳، ص۱۹)

ظاہر کے ساتھ باطن کی صفائی:

ظاہرکی صفائی کے مقابلے میں باطن کی صفائی زیادہ اہم ہے۔انسان اگر صرف اپنا ظاہر صاف ستھرا رکھے مگر باطن طرح طرح کی نجاستوں سے آلودہ ہو تو یہ ایک تشویش ناک امر ہے، کیونکہ باطن یعنی دل کی صفائی پورے جسم کو فیض یاب کرتی ہے اور اس کی درستی کی ضمانت ہے۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله ألا وهي القلب ترجمہ:بے شک جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر یہ درست ہوجائے تو پوراجسم درست ہوجائے اور اگر یہ خراب ہوجائے تو پوراجسم خراب ہوجائے ۔سُن لو وہ دِل ہے۔(صحیح بخاری،ج۱، ص۳۳، الحدیث:۵۲) اوردل کادرست اورسلامتی والا ہونا یہ ہے کہ وہ کفر، گناہوں کے اِرتکاب اور تمام قباحتوں(یعنی برائیوں اور خرابیوں) سے پاک ہو۔(تفسیر بیضاوی،ج۴،ص۲۴۴)حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :’’بُنِیَ الدِّیْنُ عَلَی النَّظَافَۃِ ترجمہ:دین کی بنیاد طہارت پر ہے۔‘‘(المجروحین لابی حاتم ،ج۲،ص۴۰۱، الحدیث :۱۱۱۹)حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں :’’یہاں طہارت سے مراد صرف کپڑوں کا صاف ہونا ہی نہیں بلکہ دل کی صفائی بھی مراد ہے۔ اس پریہ فرمانِ الہٰی دلیل وحجت ہے:اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ ترجمہ: مشرک نرے ناپاک ہیں۔۱۰ ،التوبہ:۲۸) اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہوا کہ نجاست صرف کپڑوں کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ جب تک باطن خبائث سے پاک نہ ہو اس وقت تک علمِ نافع حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی علم کے نور سے انسان روشنی پاسکتا ہے۔(لباب الاحیاء،ص۳۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:’’ہرچیز کے لئے کوئی نہ کوئی صفائی کرنے والی شے ہوتی ہے اور دلوں کی صفائی خدا کے ذکر سے ہوتی ہے۔‘‘(الترغیب والترہیب، ج۲،ص۲۵۴، الحدیث:۱۰)

اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے:

باری تعالیٰ کوطہارت و صفائی اس قدر محبوب ہےکہ اس نے صفائی اپنانے والے کو اپنا محبوب وپیارا قرار دیا ہے۔ارشادِ الہٰی ہے: وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیۡنَ ترجمہ : اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔۱۰،التوبہ:۱۰۸)نیزاس کا اندازہ اُخروی چیزوں میں پاکیزگی وطہارت اور عمدگی ونفاست کے اہتمام سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔اس نے جنت بنائی تو انتہائی صاف ستھری ،وہاں بسنے والوں کو پسینہ نہیں آئے گا،ان کے بدن میلے نہیں ہوں،بول وبراز کی اذیت سے محفوظ ہوں گے،جنتی حوروں کو انتہائی پاکیزہ بنایا۔ارشادربانی ہے:کَاَنَّـہُنَّ الْیَاقُوۡتُ وَ الْمَرْجَانُترجمہ:(صفائی وخوش رنگی میں )گویا وہ یاقوت اور مونگا ہیں۔۲۷،الرحمن:۵۸) حدیث شریف میں ہے کہ جنّتی حوروں کے صفائے ابدان کا یہ عالَم ہے کہ ان کی پنڈلی کا مغز اس طرح نظر آتا ہے جس طرح آبگینہ کی صراحی میں شرابِ سرخ۔(خزائن العرفان)دوسرے مقام پرفرمایا:کَاَمْثٰلِ اللُّؤْلُؤَ الْمَکْنُوۡنِترجمہ:جیسے چُھپے رکھے ہوئے موتی۲۷،الواقعۃ:۲۳) یعنی جیسا موتی صدف میں چُھپا ہوتا ہے کہ نہ تو اسے کسی کے ہاتھ نے چھوا ، نہ دھوپ اور ہوا لگی اس کی صفائی اپنی نہایت پر ہے اس طرح حوریں اچھوتی ہوں گی ۔(خزائن العرفان)اور جنت کی شراب کے ستھرا ہونے کو یوں بیان فرماتا ہے:وَ سَقٰىہُمْ رَبُّہُمْ شَرَابًا طَہُوۡرًا ترجمہ :اور انہیں ان کے رب نے ستھری شراب پلائی۔۲۹،الدھر:۲۱)جو نہایت پاک صاف ، نہ اسے کسی کا ہاتھ لگا، نہ کسی نے چھوا ، نہ وہ پینے کے بعد شرابِ دنیا کی طرح جسم کے اندر سڑ کر بول بنے ، بلکہ اس کی صفائی کا یہ عالَم ہے کہ جسم کے اندر اتر کر پاکیزہ خوشبو بن کر جسم سے نکلتی ہے اہلِ جنّت کو کھانے کے بعدشراب پیش کی جائے گی ، اس کو پینے سے ان کے پیٹ صاف ہوجائیں گے اور جو انہوں نے کھایا ہے وہ پاکیزہ خوشبو بن کر ان کے جسموں سے نکلے گا اور ان کی خواہشیں اور رَغْبَتِیں پھرتازہ ہوجائیں گی۔(خزائن العرفان)

موجودہ مسلمان اور صفائی کا فقدان:

ہم نے مضمون کے شروع میں غیرمسلموں کی غیرفطری اور ناپسندیدہ روش کا تذکرہ کیا کہ وہ نفاست وپاکیزگی سے دور تھے اور یہ اسلام کا احسان تھا کہ انہوں نے صفائی ستھرائی کو کسی حد تک اختیار کیا مگر جب ہم آج کے دور میں خود اسلام کے پیروکاروں کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں ایک تعداد ایسی ملتی ہے جو طہارت وپاکیزگی اور صفائی ستھرائی کے معاملے میں سست روی کا شکار ہے۔کسی مسلمان نے لمبی لمبی مونچھیں رکھی ہوئی ہیں تو کسی کو اظفارطویلہ یعنی لمبے ناخنوں کا شوق ہے بالخصوص عورتوں میں یہ مرض زیادہ ہے۔کوئی مسلمان میلے کچلے کپڑوں میں گھن محسوس نہیں کرتا توکوئی اپنے پسینے اور منہ کی بدبو سے آس پاس کا ماحول ’’مہکا ‘‘رہا ہوتا ہے ۔کوئی پان کھا کر دانتوں کی صفائی نہیں کرتا تو کسی نے سگریٹ پی پی کر سامنے کے دانت پیلے کر رکھے ہوتے ہیں۔ کوئی گٹکا کھا کر فٹ پاتھ،دکان ومکان کی دہلیز،دفاترومارکیٹس کے مخصوص کونے کھدرےرنگین کررہا ہوتا تو کوئی بس وغیرہ کی کھڑکی سے پیچھے آنیوالے موٹر سائیکل سوار کو اپنے پان یا گٹکے کی پچکاری سےصبروبرداشت کا’’درس‘‘ دے رہاہوتا ہے ۔کوئی اپنی بلڈنگ سے کچرے کا تھیلا باہر گلی میں پھینک کر اپنی ’’شرافت ونفاست‘‘کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے تو کوئی اپنے گھرکا کوڑاکرکٹ جمع کرکےکسی چوراہے یا گلی کے نکڑ کی’’ زینت‘‘ بنا رہا ہوتاہے۔ کوئی غسل جنابت میں سستی کرکے اپنے گھر کو رحمت کے فرشتوں کے لئے ”نوگوایریا“بنارہا ہے توکوئی ”اندرونی صفائی“سے غفلت برت کرفطرت سے ’’جنگ“ کررہا ہے ۔الغرض یہ سب ہمارے گردوبیش میں رہنے والے افراد کر رہے ہیں ۔وہ اسلام جس نے غیروں کو صفائی ستھرائی کا خوگر کیا آج اس کے بعض اپنوں میں طہارت وپاکیزگی مفقود ہے اور گندگی وناپاکی ان کی سِرشت وپہچان بنی ہوئی ہے ۔بہر حال مسلمان کو اپنے ظاہر وباطن دونوں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ ظاہر کو نجاست، غلاظت،گندگی اور میل کچیل وغیرہ سے اور باطن کو کینۂ مسلم ، غرو ر وتکبر اوربغض وحسد وغیرہ ر ذائل سے پاک وصاف رکھے۔ باطن کی صفائی کے لئے اچھی صحبت بے حد مفید ہے۔ ظاہروباطن کو صاف رکھنارب تعالیٰ کو محبوب،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند،صحت وتندرستی کی ضمانتاور فطرت کا تقاضاہے۔

محمد آصف اقبال عطاری مدنی

سینئر اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی(المدینۃ العلمیہ)


ماہِ رمضان کی برکات

Thu, 7 Apr , 2022
3 years ago

رمضان اور قرآن:

خُدائے رحمن عزوجل کا اپنے رسولِ ذیشان صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اُمت پر یہ عظیم احسان ہے کہ انہیں قرآن اوررَمضان عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے اِن دونوں احسانات پر غور کیا جائے تو ان میں باہم ایک حسین اِمتزاج نظر آتا ہے۔ اگر رَمضان کی فضیلت جاننی ہو تو قرآنِ مجید بُرہانِ رشید اِس پر ناطق ہےاور اگر قرآن کے نُزول کاذکر کیا جائے تو قرآنِ کریم خود خبر دیتا ہے کہ نزولِ قرآن ماہِ رمضان ہی میں ہواہے۔چنانچہ خدائے مہربان عزوجل ارشاد فرماتاہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ([1])

ترجمۂ کنز الایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔

خلیفۂ اعلیٰ حضرت،صدرالاَفاضل سیّد مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ آیتِ مبارَکہ کے اِس حصّے کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’اس کے معنی میں مفسّرین کے چند اقوال ہیں:(۱) یہ کہ رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت میں قرآن پاک نازل ہوا (۲) یہ کہ قرآن کریم کے نزول کی اِبتداء رمضان میں ہوئی (۳) یہ کہ قرآن کریم بِتَمامِہٖ (پورا پورا) رمضان مبارک کی شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دُنیا کی طرف اتارا گیا اور بیتُ العزّت میں رہا ، یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فوقتاً حسب ِاِقتضائے حکمت جتنا جتنا منظورِ الٰہی ہوا جبرئیل امین لاتے رہے، یہ نُزول تئیس سال کے عرصہ میں پورا ہوا۔‘‘([2])

مفسِّرشہیر ، حکیم الاُمت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اسی (رمضان کے)مہینہ میں قرآن کریم اُترا اور اسی مہینہ کا نام قرآن شریف میں لیا گیا ۔‘‘([3])

مہینوں کا سردار:

اللہ ربُّ العزت نے اپنی مخلوقات میں بعض کو بعض پر افضلیت او ر بُزرگی بخشی ہے۔ اَفضلیت اور بُزرگی کا یہ تسلسل ہمیں مخلوقات کے ہر ہر طبقے میں نظر آتاہے۔دیگر مہینوں میں اگر ماہِ رمضان کی قدر و منزلت معلوم کرنی ہو تو سیِّدِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ

"سَیِّدُ الشُّھُوْرِ رَمَضَانُ وَسَیِّدُ الْاَیَّامِ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ([4])

یعنی ،سارے مہینوں کا سردار رَمضان ہے اورتمام دِنوں کا سردار جمعہ کا دِن ہے۔

جنّت اور آسمانوں کے دروازے:

ماہِ رَمضان کی تو دُنیا میں کیا آمد ہوتی ہے،قُدرت کی جانب سے خصوصی اِہتمام ہونے لگتے ہیں۔ مسلمانانِ عالَم کیلئے رحمتوں کے پیام آتے ہیں اور ہر سُو اَنوار و برکات کا ظُہور ہوتاہے۔ اِیمانی جذبے کو خوب حرارت ملتی ہے، گناہوں کا زور ٹوٹتا ہے اور مختلف قسم کے نیک اَعمال کا سلسلہ مسلمانوں میں عام ہو جاتاہے۔ اس خوشگوار تبدیلی کی چند وُجوہات اَحادیثِ مبارَکہ میں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان روایت کیا گیا ہےکہ :

إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ. ([5])

یعنی، جب رمضان آتا ہے تو جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔

اِسی میں ایک فرمانِ رسالت یوں روایت کیا گیا ہے کہ:

إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَ سُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ. ([6])

یعنی، جب ر مضان آجاتا ہے توآسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتاہے۔

شرحِ حدیث:

فقیہ اعظم ہند، شارِحِ بخاری مفتی شریف الحق اَمجدی رحمۃ اللہ علیہ "نزھۃ القاری" میں ان احادیثِ مبارَکہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:" اس سے کوئی مانع نہیں کہ دروازے کھولنے سے اس کا حقیقی معنی مراد لیا جائے ۔ مطلب یہ ہوا کہ رمضان میں شب و روز مسلمان اعمالِ صالحہ بہ کثرت کرتے ہیں، تو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں کہ انہیں عروج اور درجہ قبول تک پہنچنے میں ادنیٰ سی رکاوٹ نہ ہو۔ نیز یہ کہ جب جنّت اور آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں تو رحمت و برکت کا تسلسل کے ساتھ نزول ہوتا رہے گا۔ اسی طرح جہنم کے دروازوں کا بندہونا او رشیاطین کا زنجیروں میں جکڑنا حقیقی معنوں میں ہے۔" ([7])

ماہِ رمضان کی 10خصوصیات:

مفسِّرشہیر ، حکیم الاُمت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شاندار تصنیف "تفسیرِ نعیمی" میں ماہِ رَمضان کی کچھ خُصوصیات اور برکات تحریر فرمائی ہیں۔ ان میں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

(1) کعبہ معظّمہ مسلمانوں کو بُلا کر دیتا ہے اور یہ(رمضان) آکر رحمتیں بانٹتا ہے۔گویا وہ کنواں ہے اور یہ دریا ہے یا وہ دریا ہے اور یہ بارش ۔

(2) ہر مہینہ میں خاص تاریخیں اور تاریخوں میں بھی خاص وقت میں عبادت ہوتی ہے۔ مثلاً بقر عید کی چند تاریخوں میں حج ،محرم کی دسویں تاریخ افضل ،مگر ماہِ رمضان میں ہر دن اور ہر وقت عبادت ہوتی ہے۔روزہ عبادت افطار عبادت۔ افطار کے بعد تراویح کا انتظار عبادت۔ تراویح پڑھ کر سحری کے انتظار میں سونا عبادت ۔ پھر سحری کھانا عبادت۔ غرضیکہ ہر آن میں خُدا کی شان نظر آتی ہے۔

(3) رَمضان ایک بھٹی ہے جیسے کہ بھٹی گندے لوہے کو صاف اور صاف لوہے کو مشین کا پُرزہ بنا کر قیمتی کر دیتی ہے اور سونے کو زیور بنا کر محبوب کے استعمال کے لائق کر دیتی ہے ۔ ایسے ہی ماہِ رمضان گنہگاروں کو پاک کرتاہے اور نیک کاروں کے درجے بڑھاتاہے۔

(4) رَمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ستّر گنا ملتا ہے۔

(5) بعض علماء فرماتے ہیں کہ جو رَمضان میں مرجائے اس سے سوالات ِ قبر بھی نہیں ہوتے۔

(6) رَمضان میں ابلیس قید کر دیا جاتاہے اوردوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں جنّت آراستہ کی جاتی ہے اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اسی لئے اس زمانہ میں نیکیوں کی زیادتی اور گناہوں کی کمی ہوتی ہے۔جو لوگ گناہ کرتے بھی ہیں وہ نفسِ امارہ یا اپنے ساتھی شیطان (قرین) کے بہکانے سے۔

(7) رَمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں۔

(8) قیامت میں رَمضان و قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے کہ رَمضان تو کہے گا کہ مولیٰ میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے روکا تھا اور قرآن عرض کرےگا کہ یا ربّ میں نے اسے رات میں سونے سے روکا۔(شبینہ اور تراویح کی وجہ سے)

(9)قرآن کریم میں صرف رَمضان شریف ہی کا نام لیا گیا اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی دوسرے مہینہ کا نہ صراحتاً نام ہے نہ ایسے فضائل۔

(10)رَمضان شریف میں افطار اور سحری کے وقت دُعا قبول ہوتی ہے یعنی افطار کرتے وقت اور سحری کھا کر۔یہ مرتبہ کسی اور مہینہ کو حاصل نہیں۔([8])

اللہ کریم ہمیں رَمضان المبارَک کی برکات سے حصّہ پانے اور اس میں خوب عبادات کرکے اسے راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ طہ ویٰس

از: ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی



[1] : پ 2، البقرۃ :185۔

[2] : "ترجمہ کنزالایمان مع خزائن العرفان"، ص:60-61، مکتبۃ المدینۃ۔

[3] : "مراٰت المناجیح"،3/133،نعیمی کتب خانہ۔

[4] : "معجم کبیر" ، حدیث:9000، 9/205۔

[5] : "صحیح بخار، کتاب الصوم،باب ھل یقال : رمضان أو شهر رمضان، 1/255۔

[6] : "صحیح بخاری، کتاب الصوم،باب ھل یقال : رمضان أو شهر رمضان، 1/255۔

[7] : "نزھۃ القاری، کتاب الصوم،3/258 ، فرید بُک سٹال۔

[8] : "تفسیر نعیمی" ،2/227، نعیمی کتب خانہ، ملتقطاً ۔


ہر شخص کی خواہش ہوتی ہےکہ معاشرے میں میرا کوئی مقام ہو ،لو گ میری  طرف متوجہ ہوں،میری عزت کی جائے ،مجھے اہمیت دی جائے ۔ یاد رکھئے !معاشرےمیں اپنا مقام بنانے کےلئے، ایک اچھا انسان بننے کے لئے کچھ کام اپنے اوپر نافذ کرنے ہوتے ہیں، کچھ پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں، اپنا رویے تبدیل کرنے پڑتے ہیں اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں غور وفکر ، بزرگان ِدین کی سیرت کے مطالعے اور نیک لوگوں کی صحبت کی برکت سے جو باتیں سیکھنے کو ملیں ان میں سے کچھ یہاں بیان کی جاتی ہیں ۔ان باتوں پر عمل کیجئے ! اِنْ شَاءَ اللہ دین و دنیا میں کامیابی ملے گی اور آپ معاشرے میں ایک معزز و باوقار فر د بَن کر ابھریں گے ۔یہ ضرور پیشِ نظر رہے کہ ان تمام باتوں پر عمل کرنے سے مقصود فقط اپنےربِّ کریم کی خوشنودی کا حصول ہو کہ اللہ پاک کی رضا ہی تمام کامیابیوں کی اصل ہے ۔وہ کریم ربّ راضی ہوگیا تو سب راضی ہوجائیں گے ۔؏

جس کا عمل ہو بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے

دین ودنیامیں عزت دلانے والے42 کام:

(1)سلام میں پہل کیجئے،جاننے والے ہوں یا انجان ، سب سے آگےبڑھ کر خود ملئے، سلام سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے، سامنے والے کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہو جاتا ہے ،سلام میں پہل کرنا،کسی کو اچھے نام سے مخاطب کرنا، دلوں میں مقام ومرتبہ بنانے کاپہلا زینہ ہے۔(2) ملاقات کے وقت خوشی کااظہار کیجئے۔ (3) مسکراہٹ اپنی عادت بنالیجئے۔ (4) اپنے متعلقین پر بھر پور توجہ دیجئے۔ ( 5)دوسروں سے عزت سے پیش آئیے۔(6) دوسروں کے مقام و مرتبے کا لحاظ کیجئے۔(7) ہر معاملے میں نرمی اختیارکیجئے۔نرمی سےبڑے بڑے بگڑے ہوئے کام بن جاتے ہیں اور بے جا سختی بنے بنائے کام بگاڑ دیتی ہے۔(8)لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہئے ، ان سے غمخواری کیجئے،ڈھارس بندھائیے،غموں میں شریک رہنے والا برسوں یاد رہتا ہے۔ (9) لوگوں کی غلطیاں معا ف کر دیجئے،بدلہ لینےپر قادر ہونے کے باوجود معاف کردینا بہادروں کاکام ہے ، یہ عمل بندوں کو بےدام غلام بنادیتا ہے۔(10) دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالئے۔ ہاں! تنہائی میں حسبِ موقع ضرور سمجھائیے۔(11)کسی پر کتنا ہی غصہ آرہا ہو کبھی بھی بدتمیزی نہ کیجئے ۔ باوقار انداز میں دلائل کے ساتھ اپنا موقف واضح کیجئے۔ (12) لوگوں کو اپنائیت کا احساس دلائیے، جو آپ کے قریب ہوں انہیں اپنائیت محسوس ہو ، اجنبیت و وحشت محسوس نہ کریں۔(13) لوگوں سے بھلائی فقط اللہ کریم کی خوشنودی کے لئے کریں کسی قسم کاکوئی دنیاوی لالچ ہر گز نہ ہو۔(14) مشکل وقت میں لوگوں کے کام آئیے، ان کی مدد کیجئے۔ (15)کبھی کسی کا برا نہ سوچیئے، سب کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کیجئے ۔ (16) کوئی آ پ سے اپنا راز شیئر کرے تو اسے کبھی کسی پر ظاہرنہ کیجئے۔دوسروں کے مال ودولت اور عزت کے محافظ بن کر رہئے کہ انہیں آپ کی طرف سے خیانت کا خوف نہ ہو، بلکہ اس معاملے میں آپ کی طرف سے بالکل مطمئن ہوں ۔(17)دوسرں کے مال ودولت سے بے نیاز ہوجائیے ،کسی سے کوئی لالچ نہ رکھئے۔(18)کنجوسی سے بچئے، سخاوت اپنائیے ،اپنے اہل وعیال اور دیگر متعلقین کی ضروریات کا خیال رکھئے۔ اچھے کاموں میں خرچ کر نے سے مال بڑھتاہے گھٹتانہیں ،کنویں سے جتنا پانی لیں بڑھتا ہی جائے گا۔(19) بے مُروّتی سے بچئے ،چالاکی ، خود غرضی،لالچ، یہ چیزیں انسان کی شخصیت کو عیب دار کر دیتی ہیں۔(20) چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر بھی لوگوں کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ اِس سے اُن میں خود اعتمادی بڑھےگی، آگے بڑھنے کا ذہن بنے گا، مایوسی اور احساسِ کمتری جیسی خطر ناک سوچ سے نجات ملے گی۔ (21) اپنوں کے احوال سے واقف رہئے کہ کہیں کسی مشکل میں تو نہیں،اپنوں سے رابطےمضبوط رکھئے۔ (22)کبھی بھول کربھی کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ کیجئے ،ورنہ نفرت کی ایسی دیوار قائم ہوجائے گی جسے گرانا بہت مشکل ہوگا۔دوسروں کو عزت دیجئے اورخود عزت پائیے۔ (22)کسی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی ہرگز نہ کیجئے ،غیبت اور چغلخوری دوستی کو تلوار کی طرح کاٹ دیتی ہیں۔ (23)کسی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کی جارہی ہوتو حسبِ موقع اس کا دفاع کیجئے ۔لوگوں کو اس کی عزت اچھالنے سے روکئے ،یقین کیجئے جب اُسے معلوم ہوگا کہ آپ نے اُس کا دفاع کیا ہے تو وہ آپ کا شکر گزار ہوگا،آپ کو اپنامحسن سمجھے گا۔ (24)اپنا رویّہ ہمیشہ درست رکھئے کہ غلط رویّے دشمنی کا بیج بوتے ہیں۔ (25)قابلِ تعریف عمل پر لوگوں کی دل کھول کر تعریف کیجئے، انہیں حوصلہ ملےگا،آپ کے دو تعریفی جملے ہوسکتا ہے کسی کی زندگی بدل دیں۔(26) لوگوں کی خوشیوں میں شامل رہئے۔ (27)آپ کے متعلقین میں سے کوئی اگر غلط راستےپر چل پڑے تو اسےہر گز تنہا نہ چھوڑئیے ، کیونکہ اُس وقت اُسے آپ کی مدد کی اشد ضرورت ہے،پوری کوشش کر کے اسے برائیوں کی دلدل سے نکال کر ا چھائیوں کا مسافر بنا دیجئے(28)اپنے متعلقین کو نیک کاموں میں شریک رکھئے،اچھی محافل ،دینی اجتماعات میں انہیں ساتھ لے جائیے کہ مؤمن جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرتا ہے۔(29)اپنوں پر اعتمادکیجئے اور انکے اعتماد کو بھی ٹھیس نہ پہنچائیے۔(30) وعدہ سوچ سمجھ کر کیجئے،جب وعدہ کرلیں تو ضرور پورا کیجئے۔(31)جب کوئی مشورہ چاہے تو اپنے تجربات کی روشنی میں اچھا مشورہ دیجئے۔ (32) دوسروں کے مزاج کو سمجھئے ،لوگوں کےمزاج کے خلاف نہ چلیئے ،اگر ایسا کچھ ضروری بھی ہوتو حکمت ِ عملی اختیار کیجئے کہ حکمت و دانائی مؤمن کا گمشدہ خزانہ ہے۔(33) وفا دار رہئے ،بے وفائی سے بچئے۔(34) اپنوں کی دعوت قبول کیجئے، خود بھی ان کی دعوت کیجئے،حسبِ حیثیت تحائف بھی دیجئے آپس میں محبت بڑھے گی۔ (35) ہرگز کبھی کسی کو طعنہ مت دیجئے ،کبھی کسی پر احسان نہ جتائیے کہ اللہ پاک طعنہ دینے والوں اور احسان جتانے والوں کو پسندنہیں فرماتا۔ (36)غرور وتکبر، خود پسندی ، اور بڑا بول بولنے سے ہر دم بچئے۔(37) ایثار کیجئے لوگ دل سے دعائیں دیں گے ۔(38) آسان بن جائیے کہ لوگوں کی رسائی آپ تک ممکن ہو ،ایسا مشکل نہ بنئے کہ لوگ آپ سے ملنے کو ترس جائیں۔(39) بے جا مطالبات سے بچئے کہ اس سے آدمی کا وقار کم ہوتا ہے ۔( 40) کسی کو سب کے سامنے مت ٹوکئے ،نہ جھڑکئے، بلکہ علیحدگی میں سمجھائیے ورنہ نفرت و ضد پیدا ہوگی ۔ (41) اپنوں کے لئے دعائے خیر کرتے رہئے ۔ (42) خو د بھی نیک عمل کیجئے ،اپنے متعلقین کو بھی نیکی کی راہ پر چلائیے، اللہ پاک اپنے نیک بندوں کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے ۔

اللہ کریم کی رحمت سے امید ہے کہ ان باتوں پر عمل کر کے بندہ معاشرے کا معزز اور باوقار فرد بن سکتا ہے ۔اللہ کریم اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صدقے ہم سب پر اپنا فضل و کرم فرمائے ۔آمین

حکیم سید محمد سجاد عطاری مدنی

اسلامک سکالر، اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ العلمیۃ)

مدرِّس: مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن عالمی مدنی مرکز کراچی


فضائلِ عشرۂ رحمت

Sat, 2 Apr , 2022
3 years ago

خُدائے رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رَمَضَان جیسی عظیمُ الشّان نِعمت سے سَرفَراز فرمایا۔ ماہِ رَمَضَان کے فِیضَان کے کیا کہنے !اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت بھری ہے۔اِس مہینےمیں اَجْر و ثَواب بَہُت ہی بڑھ جاتاہے۔نَفْل کا ثواب فَرض کے برابر اور فَرْض کا ثواب 70 گُنا کردیا جاتا ہے ۔بلکہ اِس مہینے میں تو روزہ دار کاسونا بھی عبادت میں شُمار کیا جاتاہے۔عَرش اُٹھانے والے فِرِشتے روزہ داروں کی دُعاء پرآمین کہتے ہیں اور ایک حدیثِ پاک کے مُطابِق رَمَضَان کے روزہ دار کے لئے دریا کی مچھلیاں اِفطار تک دُعائے مَغْفِرت کرتی رہتی ہیں۔‘‘ (اَلتَّرغیب والتَّرہیب ج2ص55حدیث6، دار الکتب العلمیہ)

رمضان المبارک کے چاند رات کے بعد 10 دن یہ عشرہ رحمت کہلاتے ہے ، 10 دن پورے ہونے کے بعد دسواں سورج غروب ہوگیا تو یہ عشرہ مغفرت شروع ہوگیا ، اب یہ 10 دن رہے گا، اب جیسے ہی 20 کا روزہ مکمل ہوا اور سورج غروب ہوگیا تو اب یہ کہ جَہَنَّمْ سے آزادی کا عشرہ شروع ہوگیا یعنی خصوصیت کے ساتھ پہلے عشرے میں رحمت کا نزول، دوسرے میں مغفرت ہےاور تیسرے میں جہنم سے آزادیاں۔

٭عشرہ رحمت: رحمتیں لٹاتا ہے لہذا اس حوالے سے ہم اس کے فضائل جانتے ہے وہ کیاہے نیزاس میں ہمیں کون سی دعاپڑھنی ہے۔

٭(مراۃ المناجیح جلد 3،صفحہ 141 ،تحت الحدیث،مکتبہ ضیاء القراٰن)میں ہے: پہلے عشرہ میں رب تعالیٰ مؤمنوں پر خاص رحمتیں فرماتا ہے جس سے انہیں روزہ، تراویح کی ہمت ہوتی ہے اور آئندہ ملنے والی نعمتوں کی استعداد(یعنی طاقت) پیدا ہوتی ہے۔

اس عشرہ کے ابتداء سے ہی جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں ا ور دوزخ کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔(مسلم،بخاری) (مراٰۃ المناجیح،ج:3،ص:132)۔

٭حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت جب رمضان کی پہلی رات آتی ہےاللہ عزوجل نظر رحمت فرماتا ہےجس پر اللہ پاک نظر رحمت فرمائےاس کو کبھی بھی عذاب نہیں ہوگا۔(اَلتَّرغیب والتَّرہیب ج2ص56حدیث7، دارالکتب العلمیہ،) اس مہینہ میں جو کوئی بھی گناہ کرتا ہے وہ اپنے نفس امارہ کی شرارت سے کرتا ہے نہ کہ شیطان کے بہکانے سے۔(مراٰۃ ،ج:3،ص:134)

٭حضرت سَیِّدُنا عبدُاللّٰہ ابن عباس ر َضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظم ہے : ’’جب رَمضان شریف کی پہلی رات آتی ہے تو عرش عظیم کے نیچے سے مَثِیْرہ نامی ہوا چلتی ہے جوجنت کے درختوں کے پتو ں کو ہلاتی ہے، اِس ہوا کے چلنے سے ایسی دِلکش آواز بلند ہوتی ہے کہ اِس سے بہتر آواز آج تک کسی نے نہیں سنی۔اِس آواز کوسن کربڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ظاہر ہوتی ہیں یہاں تک کہ جنت کے بلند محلات پر کھڑی ہوجاتی ہیں اور کہتی ہیں :’’ہے کوئی جو ہم کو اللہ تَعَالٰی سے مانگ لے کہ ہمارا نکاح اُس سے ہو؟‘‘ پھر وہ حوریں داروغۂ جنت (حضرت)رِ ضوان (عَلَیْہِ وَالسَّلَام) سے پوچھتی ہیں : ’’آج یہ کیسی رات ہے؟‘‘ (حضرت) رِ ضوان (عَلَیْہِ السَّلَام) جواباً تَلْبِیَہ (یعنی لبَّیْک) کہتے ہیں ، پھر کہتے ہیں :’’یہ ماہِ رَمضان کی پہلی رات ہے، جنت کے دروازےاُمّتِ مُحمّد عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روزے داروں کے لئے کھول دئیے گئے ہیں ۔ ‘‘(اَلتَّرغیب والتَّرہیب، ج 2 ،ص60، حدیث 23)

٭ بلعموم پورا ہی سال اوربلخصوص رمضان شریف میں ہمیں اس مقولہ کا مصداق بنا رہنا چاہیے’’ رِضائے مولیٰ ازہَمہ اَولیٰ‘‘ یعنی اللہ عزوجل کی مرضی سب سے بہتر ہے۔ یو تو اللہ پاک کی رحمت ہمارے اوپر سارا ہی سال رہتی ہے۔اور رمضان المبارک اس میں مزید اضا فہ ہوجاتا ہے نیز رمضان المبارک کے ابتدائی 10 دن یہ خصوصیت کے ساتھ اللہ پاک سے رحمت طلب کرنے کے ہے اسی لئےانہیں کہا ہی عشرہ رحمت جاتا ہے یعنی رحمت والے دس دن ۔تو لہذا ہمیں ان دس دنوں میں خصوصیت کے ساتھ اپنے رب کریم سے اس کی رحمت طلب کرنا چاہیئے ۔ اللہ پاک اپنے بندہ سے اس سے مانگنے کو پسند فرماتا اور اس کی رحمت سے بڑے بڑے گناہ گار بخشے جاتے ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳) (پ:24/ الزمر:53) ترجمہ کنزالایمان:’’ تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ،اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بےشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ، بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

احادیث شریف میں ہے ۔پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں جبرئیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اس حال میں کے آپ منبر پر چڑھ رہے تھے اس وقت تین دعائیں کی جن پر آپ علیہ السلام نے امین کہا (پیارے آقا علیہ السلام کی زبان مبارکہ سے جاری ہونے والی کوئی بات رائیگا نھی جاتی) ان میں ایک دعا یہ تھی جس نے ماہِ رمضان کو پایا اور اپنی بخشش نہ کروا سکا تو اس پر آپ نے امین فرمایا۔ (صحیح ابن حبان،ح:410،باب حق الوالدین ،ج:1،ص:315، دارالکتب العلمیہ۔بیروت )

اَبرِ رحمت چھاگیا ہے اور سماں ہے نُورنُور

فضلِ رب سے مغفرت كا ہوگیا سامان ہے

پہلے عشرے کی دعا

رَبِّ اغُفِرُ وَارُحَمُ وَأَنُتَ خَیُرُ الرَّاحِمِينَ۔

ترجمہ:’’ اے میرے رب مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔‘‘


حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ  راشدی قادری رحمۃُ اللہِ علیہکی ولادت 1183ھ/ 1779ء کو پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میرس (سندھ)میں ہوئی۔

تعلیم:اپنے والد صاحب کی زیر سرپرستی درگاہ شریف پر مروجہ نصاب کی تعلیم حاصل کی اور والد صاحب سے مثنوی شریف ودیگر تصوف کی کتب کا درس لیا،خاندان میں آپ پہلے پیر ہیں جو پیر پگارہ (صاحب دستار)کے لقب سے مشہور ہوئے۔آپ قرآن پاک، حدیث شریف اور فقہی احکام پر دسترس رکھتے تھے۔ روزانہ بعد نماز فجر درس حدیث دینا آپ کا معمول تھا۔

بیعت وخلافت: اپنے والد ماجد امام العارفین حضرت پیر سید محمد راشد پیر صاحب روضے دھنی (وفات 1234ھ) کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہوئےاور ان کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منازل طے کیں۔والد صاحب کی وفات کے بعد 50سال کی عمر میں اپنے والد صاحب کی جگہ مسند رشدوہدایت پر فائز ہوئےاور دستار سجادگی آپ کے سر پر باندھی گئی۔

دینی کتب سے دلچسپی:آپ کو دینی،علمی اور صوفیانہ کتب سے خاص دلچسپی تھی۔اہم ومفید کتابوں کو جمع کرنا زندگی بھر دستور رہا اس لئے آپ کے کتب خانہ میں نادر ونایاب کتب کا ذخیرہ جمع ہوگیا تھا۔

عادات وخصائل: سنت مبارکہ کے پابند،پرہیزگار،شب بیدار،سخی، مہمان نواز،خلق عظیم سے آراستہ ،سادگی پسنداور غریب کسانوں کے ہمدرد تھے۔متوکل ایسے کہ جو موجود ہوتا راہِ خدا میں خرچ فرمادیتے اور کل کے لئے بچا کر نہیں رکھتے تھے۔

مقام ومرتبہ: حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی قادری رحمۃُ اللہِ علیہکی سندھ میں مقبولیت اور ان کے علمی وروحانی مراتب کا اندازہ سید حمید الدین کے اس بیان سے ہوتا ہے:”باشندگان سندھ کے نزدیک سارے ملک(متحدہ ہندوستان)میں ان (پیر صبغت اللہ)جیسا کوئی شیخ ومرشد نہیں،تقریباً تین لاکھ بلوچ ان کے مرید ہیں،مرجع خلق عام ہیں،جاہ وجلال سے زندگی گزار رہے ہیں۔جودو کرم ،اخلاص ومروت میں بھی شہرۂ آفاق ہیں۔ان کا کتب خانہ بڑا عجیب وغریب کتب خانہ ہے۔بادشاہوں اور امراء کے پاس بھی ایسا کتب خانہ نہ ہوگا ،15000ہزار معتبر کتابیں اس میں موجود ہیں۔“

معمولات:ہر سال نہایت عقیدت واحترام کے ساتھ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکا انعقاد فرماتے تھے۔ حضور پرنور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکی نعت اور صوفیانہ کلام بغیر مزامیر(ساز) کے سماعت فرماتےاور اسے اپنی روحانی خوراک قرار دیتے۔ روزانہ ختم قادریہ کرتے، آپ اور آپ کے مریدین بڑی عقیدت کے ساتھ حضور غوث اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کی نیاز دلایا کرتے۔

تبلیغ دین: رشدوہدایت اور تبلیغ دین کے لئے دوردراز علاقوں تک سفر کیااور معرفت کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ جہاں بھی گئے وہاں ذکر ونعت شریف کی محافل ضرور قائم کیں ،اس طرح خشک دلوں کو معرفت کی چاشنی نصیب ہوئی۔

وصال: 6رمضان المبارک 1246ھ/1831ء کو 63سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا۔

(انسائیکلو پیڈیا اولیائے کرام ،1/377،انوار علمائے اہل سنت سندھ،ص359،تذکر ہ صوفیائے سندھ،ص273)

از:مولانا محمد گل فراز عطاری مدنی

(سینئر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی، المدینۃ العلمیہ)


وعدہ خلافی وبدعہدی کے معاشرتی نقصانات:

”تم خالد سے پیمنٹ لے کرآئے یا نہیں؟‘‘ ہول سیلر نے اپنے ملازم سے پوچھا۔

”نہیں جناب!انہوں نے کل کا کہا ہے“ملازم نے سادہ سا جواب دیا۔

اس طرح کے ٹال مٹول پر مشتمل جملوں کا تبادلہ ہماری مارکیٹس اور بازاروں کا معمول ہے ۔ ہردن لین دین میں کتنے ہی وعدے ، ارادے اور معاہدے ہوتے اور ٹوٹتے ہیں مگر کبھی اس معاملے پر گہرائی سے سوچا نہیں جاتاکہ ہمارے معاشرے پر اس وعدہ خلافی کے کتنے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔جب اس طرح کا ایک وعدہ ٹوٹتاہے تو بعض اوقات اس کا خمیازہ کئی افراد کوبھگتنا پڑتا ہے،مثلا کسی نے ہول سیلر سے مال لیا اور پیسے دو دن میں دینے کا وعدہ کیا مگروقت مقررہ پر ادائیگی نہ کی ۔اس پر غور کیجئے کہ ہوسکتا ہے ہول سیلر نےاپنے بیٹے کی داخلہ فیس جمع کروانی ہو یااپنی بیٹی کی سالگرہ پر کوئی تحفہ دینا ہو یا آگے کسی کو پیمنٹ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہویا ملازم کو تنخواہ دینی ہواور غریب ملازم نے راشن والے سے ”ماہانہ ادائیگی“ کا وعدہ کر رکھا ہو۔یوں پوری ایک لڑی (چین)بنی ہوتی ہے اور وعدہ توڑنے والا پہلا شخص اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے معاشرتی نظام کو تباہ کرنے میں حصہ دار بن جاتا ہے۔اسی طرح ہول سیلر بھی ایڈوانس رقم پر بکنگ کرکے وقت مقررہ پر ری ٹیلر کو مال نہیں دیتے اور یہاں بھی مذکورہ خرابی جگہ بنا لیتی ہے۔قرض کی ادائیگی کا وعدہ ہو یا آرڈر پر سامان تیار کرنے کامعاہدہ ،ہمیں جابجا وعدہ خلافی اور بد عہدی کی بھیانک اور مکروہ صورتیں دیکھنے کو ملیں گی۔آپ عیدسے چنددن پہلے کسی ”ٹیلر“کی دکان پر چلے جائیں وہاں آپ کو گاہکوں سے کئے گئے وعدے ٹوٹتے صاف نظر آجائیں گے اوراس قابل مذمت فعل کے سبب نوبت بحث ومباحثہ سے تلخ کلامی حتی کہ ہاتھا پائی اور مارکٹائی تک جاپہنچتی ہے۔

وعدہ خلافی وبدعہدی سے ملکی نظام کی تباہی:

یہ تو تھاافراد کی باہمی وعدہ خلافی کا معاملہ جس کا نقصان چند لوگوں تک محدود رہتا ہے اور اگر وعدہ خلافی ومعاہدہ شکنی ایک ملک کے چند اداروں کے مابین ہوتو اس کا خمیازہ بسا اوقات پوری قوم بھگتی ہے۔جیسے بجلی کا ادارہ اگر تیل کے ادارے کو واجبات وقت مقررہ پر ادا نہ کرے تو لا محالہ قوم کو لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔یہی وہ ”گردشی قرضے‘‘ ہوتے ہیں جو طول پکڑجائیں تو کسی بھی ملک کاداخلی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے ۔وعدوں کے ٹوٹنے کا یہ عمل نہ صرف معاشرے اور نظام زندگی میں خلل ڈالتا ہے بلکہ بہت ساری برائیوں اور گناہوں کو بھی جنم دیتا ہے،اس کی وجہ سے دلوں میں بغض وکینہ،نفرت وعداوت، شماتت وشقاوت ، حسدوتکبر اور جذبہ انتقام وغیرہ ایسی قباحتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور چغل خوری،غیبت ،تہمت ،گالی گلوچ ،طعن وتشنیع اور ظلم وتعدی جیسی شناعتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ قلبی اضطراب اورذہنی بے سکونی میں مبتلا ہو کر ”نفسیاتی مریض“ بن جاتا ہے۔

وعدہ وعہد کی پاسداری کا قرآنی حکم :

ویسے تو بروزِ قیامت ہر شے کے متعلق سوال ہونا ہے مگر ”عہد“جس کی خلاف ورزی بے شمار خرابیوں کا باعث ہے اس کے متعلق خاص طور پر پوچھا جائے گا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”وَاَوْفُوۡا بِالْعَہۡدِ ۚ اِنَّ الْعَہۡدَکَانَ مَسْـُٔوۡلًا۱۵،بنی اسرائیل:۳۴)ترجمہ کنزالایمان:اورعہدپوراکروبے شک عہد سےسوال ہوناہے۔“ آیت طیبہ میں اللہ تعالیٰ اور بندوں، دونوں کے ساتھ کیے جانے والے عہد مراد ہیں ۔یہاں سے عہدووعدہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اس کا ایک رخ انسان کی زبان ہے ۔یہاں ”زبان“سے مراد ”ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں“والی زبان نہیں بلکہ گوشت کے اس ٹکڑے سے کیا گیا ”وعدہ“ ہے ۔جیسے کہہ دیا کرتے ہیں ”اب کچھ نہیں ہوسکتا ،ہم نے زبان دے رکھی ہے“اور ”بھائی! زبان بھی کوئی شے ہوتی ہے“وغیرہ ۔یہی وہ زبان ہے جسے نبھانے والے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں اور اگر کوئی تاجر اس عادت کو اپنا لیتا ہے تو وہ نہ صرف عزت وشہرت کماتا ہے بلکہ روزبروز ترقی کے زینے طے کرتا چلا جاتا ہے اور اس کے برعکس جو تاجر لین دین میں وعدہ خلافی کا عادی ہو وہ اکثر عزت اور کاروبار دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔

وعدہ وعہد نبھانے کی نبوی تعلیمات:

قرآن کریم کے ساتھ ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھی اس سلسلے میں ہماری زبردست رہنما ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خود ایک دیانت دار،سچے اور امین تاجر تھے، بعثت سے قبل اور مبعوث ہونے کے بعد دونوں ہی ادوار میں تجارتی لین دین میں وعدہ وفائی اور اپنی بات کی پاسداری کی زبردست مثالیں قائم فرمائی ہیں ۔یہاں دو نوں ادوار کی ایک ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:

(۱)پہلی مثال: حضرت عبداللہ بن ابوحمساء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نزول وحی اور اعلانِ نبوت سے قبل میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خریدوفروخت کاایک معاملہ کیامگر اس وقت پوری رقم ادا نہ کرسکا تو میں نے وعدہ کیا کہ باقی رقم ابھی آکر ادا کرتا ہوں۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہ آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں آنے کا وعدہ کیا تھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی مقام پر اپنا منتظر پایا۔ میری اس وعدہ خلافی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے پر ذرابھی بل نہیں آیا، بس اتنا ہی فرمایا کہ تم کہاں تھے؟ میں اس جگہ تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔(سنن ابی داود،4/342 ،حدیث:4836)

حدیث مبارکہ سے جہاں یہ واضح ہوا کہ ظہور نبوت سے قبل بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے مثل صداقت کے حامل تھے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان صاحب نے اگرچہ بقایا رقم کی بروقت ادائیگی کا وعدہ بھلا دیا مگر ہادی دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مقام پر ملنے کاجووعدہ فرمایا اسے ضرور پورا کیا ۔یہاں یہ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں ٹھہرنا محض اپنا مال لینے کے لئے نہ تھا بلکہ اپنا وعدہ پورا کرنے کے لئے تھا،مال تو ان کے گھر جاکر بھی وصول کیا جاسکتاتھا۔(مراٰۃ المناجیح،6/491)

(۲)دوسری مثال: یہود کےایک بڑے عالم زید بن سعنہ کی ہے،انہوں نے تورات میں اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جونشانیاں اور علامات پڑھ رکھی تھیں دو کے علاوہ تمام کا مشاہدہ ذاتِ رسالت میں کرچکے تھے اور وہ دو علامات جن میں سے ایک حضور کے حلم کا جہل پر غالب ہونا اور دوسری جہل کے برتاؤ کی زیادتی کے ساتھ ان کے حلم ووقار کا بڑھتے جاناتھیں ۔ان علامات کی پہچان اور امتحان کے لئے انہوں نے حضورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھجوروں کا سودا کیا ، کھجوریں سپرد کرنے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دامن اور چادرکے ملنے کی جگہ سے پکڑ کر بڑے تلخ و ترش لہجے میں کھجوریں دینے کا تقاضا کیا اور کہا:”تم سب عبدالمطلب کی اولاد کا یہی طریقہ ہے کہ ہمیشہ لوگوں کا حق ادا کرنے میں تاخیر کردیتے ہو اورٹال مٹول تمہاری عادت بن چکی ہے۔“یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت غضب بھری اور تیزنظروں سے گھور کر اُس سے کہا :” اےدشمنِ خدا!یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح بات کرتا ہے ۔“حلیم وکریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر!ہم تم سے اِس سے زیادہ بہتر بات کے مستحق تھے کہ تم مجھے اچھی ادائیگی کااور اسے اچھے تقاضے کا کہتے ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ” اسے اِس کے حق کے برابر کھجوریں دے دواور کچھ زیادہ بھی دے دوتاکہ یہ تمہارے اِسے سخت نظروں سے دیکھ کر خوفزدہ کرنے کا بدلہ ہوجائے۔“پس زید بن سعنہ نے اس حسنِ سلوک سے جب باقی دو علامات کو بھی دیکھ لیا تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔(دلائل النبوۃللبیہقی،1/278)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ لین دین میں وعدہ ومعاہدہ کی پاسداری رب کریم کا حکم ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ، عقل سلیم کا تقاضا اور ایک خوبصورت معاشرے کی تعمیروترقی میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے ۔ لہٰذا ہر سمجھدار تاجر کوچاہیے کہ اِس محمود ومحبوب صفت سے متصف ہو کر ایک اچھا کاروباری بنے اور اپنی دنیا وآخرت کو سنوارے۔

نوٹ: یہ تحریرغالباً 2016ء میں لکھی گئی تھی ، کچھ ترمیم واضافہ کے ساتھ دوبارہ پیش خدمت ہے۔

محمد آصف اقبال مدنی عطاری

(20شعبان المعظم1443ھ مطابق24مارچ2022ء)


عِنْدَ ذِکْرِ الصَّالِحِیْن تَنَزَّلُ الرَّحْمَۃُ ۔(نیک لوگوں کے ذکر کے وقت رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، ۲/۶۵، رقم ۱۷۷۰)) آئیے! اللہ پاک کی رحمت سے حصہ پانے اور بزرگوں کا فیضان حاصل کرنے کےلئے حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی سیرت ملاحظہ کیجئے۔

نام و نسب، القابات، پیدائش:

حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ولادت باسعادت مشہور قول کےمطابق ۵۳۸ھ میں آذربائیجان کے قصبہ ’’مَروَند‘‘ میں ہوئی۔([1]) اسی مناسبت سے آپ کومروندی کہا جاتا ہے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکانام محمد عثمان ہےجبکہ ”لعل اور شہباز“ آپ کے القاب ہیں۔([2]) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کاسلسلہ نسب سیدمحمدعثمان بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سیدنورشاہ بن سیدمحمودشاہ ہے جو گیارہ واسطوں سے حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے ملتا ہے۔ ([3])

القاب کی وجہ:

جب کوئی شخص اپنے نام کے علاوہ کسی اور لقب سے مشہور ہوجاتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے جیسے مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو آپ کی بہادری کی وجہ سے اسد اللہ کا لقب ملا جس کا مطلب ہے ”شیرِ خدا“ اور آپ کو اپنے اسی لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو ”لعل“ اور ”شہباز“ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے آپ کے ان القاب کی وجہ یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر ’’ لعل“ کی مانندسرخ کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی تھیں اسی مناسبت سےآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ ”لعل“ کے لقب سے مشہور ہوئےجبکہ ”شہباز“ کا لقب بارگاہ حسینیت سے عطا ہوا۔چنانچہ منقول ہے کہ ایک رات آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے والدِ ماجد حضرت کبیرالدینعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن امام ِعالی مقام حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی زیارت سے فیض یاب ہوئے،امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے ارشاد فرمایا: ہم تمہیں وہ شہباز عطا کرتے ہیں جو ہمیں ہمارے نانا جان ،رحمت عالمیان صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم سے عطا ہواہے ۔ اس بشارت کے بعدحضرت لعل شہبازقلندر کی ولادت ہوئی اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ ولایت کے اعلی مرتبہ پر فائز ہوگئے ۔([4])

قلندر کہنے کی وجہ:

آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سلسلہ قلندریہ سے بھی تعلق رکھتے تھے اسی لئے آپ کو قلندر کہا جاتا ہے ۔برِصغیر میں سلسلہ قلندریہ نے حضرت شاہ خضر رومی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ (مُتَوَفّٰی ۵۹۹ھ)سے شہرت پائی۔([5])

مکتبۃ المدینہ کے رسالے ”فیضان عثمان مروندی لعل شہباز قلندر“ کے صفحہ نمبر 9 پر ہے: قلندر خلافِ شرع حرکتیں کرنے والے کو نہیں کہا جاتا، جیسا کہ فی زمانہ بے نمازی ، داڑھی چٹ ، خلافِ شرع مونچھیں، عورتوں کی طرح لمبے لمبے بال ، ہاتھ پاؤں میں لوہے کے کَڑے پہننے والے لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ ہماری تو قلندری لائن ہے ، مَعَاذَ اللہ، حالانکہ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں قلندر شریعت کے پابند کو ہی کہا جاتا ہے چنانچہ

مصنفِ کُتُبِ کَثِیرہ، خلیفۂ مفتیٔ اعظم ہند فیضِ مِلَّت حضرت علامہ مولانا مفتی فیض احمد اویسی رضوی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نقل فرماتے ہیں : ’’قلندر وہ ہے جو خلائقِ زمانہ سے ظاہری اور باطنی تجربہ حاصل کر چکا ہو، شریعت و طریقت کا پابند ہو ۔ ‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’دراصل صوفی اور قلندر ایک ہی ذات کا نام ہے صرف لفظ دو ہیں مُسمّٰی (ذات)ایک ۔مگر حق یہ ہے کہ ان میں عموم خصوص کی نسبت ہے ، اس لئے کہ ہر قلندر صوفی تو ہو سکتا ہے لیکن ہر صوفی قلندر نہیں، کیونکہ جہاں صوفی کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے قلندر کی ابتدا ہوتی ہے ۔‘‘([6])

ابتدائی تعلیم:

حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سید کبیرالدین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے زیر سایہ حاصل کی۔ چونکہ والدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھِما تقویٰ و پرہیز گاری اور زیورِ علم سے آراستہ وپیراستہ تھے اس لیےبچپن ہی سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اللہ والوں کی محبتیں اورصحبتىں مىسر آئىں۔ جس کے نتیجے میں فىوض و برکات اور علمِ دىن کے گہرے نقوش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی لوحِ قلب پر مُنَقَّش ہوئے۔ یوں بچپن ہی میں نىکی اور راست بازى آپ کا شعار بن چکی تھی ۔([7])آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بچپن ہی سے علمِ دین حاصل کرنے کا شوق تھا اور آپ نے چھ سال کی چھوٹی عمر میں ہی قرآن پاک مکمل پڑھ لیا تھااور ابتدائی مسائلِ دینیہ بھی یاد کرلئے تھے یہی نہیں بلکہ سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ بعدہ دیگر دینی عُلوم کی تحصیل میں مصروف ہو گئے اور بہت جلد مروجہ علوم و فنون میں بھی مہارت حاصل کرلى۔([8])

اساتذہ و رفقاء:

حضرت لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جن اولیائے کرام اور صوفیائے عظام رَحِمَہُمُ اللہُ کى صحبتوں سے فیض یاب ہوئے اور راہ خدا کے مسافربنے ۔ان میں سر فہرست حضرت شىخ فرىدالدین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، حضرت بہاؤ الدىن زکرىا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، حضرت مخدوم جہانىاں جلال الدىن بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اور حضرت شىخ صدرالدىن عارف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا نام ِ نامی اسم ِ گرامی شامل ہے۔([9])

مزارات پر حاضری:

بزرگوں کے مزارات پر حاضری دینا بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ معمولات میں سے تھا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک طویل عرصہ تک سیر و سیاحت کرتے رہے، دورانِ سیاحت بہت سے اولیائے کرام سے ماقاتیں کیں اور بہت سے اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری کا شرف حاصل کیا، آپ اپنے وطن مروند سے عراق تشریف لے گئے، چنانچہ بغداد میں سیدالاولیا ءحضور سیدی غوث اعظم عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، مشہدشریف میں حضرت امام علی رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اور کوفہ میں امام الائمہ، سراج الامۃ امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مزار اقدس پر حاضری دے کر فیوض وبرکات حاصل کئے ۔([10])

بشارتِ غوثیہ:

بارگاہ غوثیہ سے حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بہت روحانی فیوض حاصل کئے جتنے دن رہے عبادت، تلاوت اور مراقبہ میں مصروف رہے اور انوار و برکات حاصل فرماتے رہے۔مزار مبارک میں حاضری کے دوران ایک مرتبہ حضور غوث اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خواب میں تشریف لائے اور آپ کو سینے سے لگایا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئےارشاد فرمایا : عثمان تم ہمارے قلندر ہو تمہیں فیوض و برکات دے دئیے گئے ہیں ، اب تم یہاں سے مکہ مکرمہ جاؤ اور بیت اللہ کی قربت کی سعادت حاصل کرو ۔([11])

سفر مدینہ:

بزرگوں کے مزارات سے اکتساب فیض کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے دل میں آقائے دو جہاں، سرورکون ومکاںصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درپاک پر حاضری کی تمنا جاگ اُٹھی چونکہ حج کے ایام قریب تھے لہذااحرام باندھا اور چل پڑے۔ حج بىت اللہ سے مشرف ہونے کے بعدمدینہ منورہ میں نبی محترم، شفیع معظم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر دی اورعشق ومحبت میں ڈوب کر اپنے پیارے آقا و مولیٰ محمد مصطفٰےصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر خوب خوب درود وسلام کے نذرانے پیش کیے۔ ([12])

بیعت و خلافت:

حضرت عثمان مروندی لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ علم و حکمت کی دولت سمیٹتے سمیٹتے جب کربلائے معلی پہنچے توحضرت امام موسىٰ کاظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اولاد سے ایک بزرگ حضرت شىخ ابواسحاق سید ابراہىم قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دست اقدس پر بیعت ہوئے اور تقرىباً ۱۲ماہ تک پیرومرشد کے زیرسایہ سلوک کی منزلیں طے کرتے رہے۔ پیرومرشد حضرت ابراہیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی نظر ولایت نے جب اس بات کا مشاہدہ کیا کہ یہ مرید اب مرید کامل بن کر طریقت کی اعلیٰ منزلیں طے کرچکاہے تو انہوں آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو خرقہ خلافت سے نوازا اور خدمت دین کے لیےراہِ خدا میں نکلنے کی ہدایت فرمائی۔([13])

پیر و مرشد کے حکم پر عمل:

آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو آپ کےمرشد کریم نےچونکہ خدمت ِ دین کے لئے کوئی خاص منزل متعین نہ فرمائی تھی لہذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مرشد کریم کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے اَن دیکھے راستوں پر نکل کھڑے ہوئےاور شہر بہ شہر گاؤں بہ گاؤں نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے میں مصروف ہوگئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی تمام عمر دین کی خدمت اورتبلیغ دین میں گزری ، چنانچہ

سندھ میں آمد:

سرکاردوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درِاقدس سے واپسی پر کچھ عرصہ عراق میں قیام فرمایا پھر تبلیغ قرآن و سنت کا عظیم فريضہ سرانجام دیتے ہوئے مکران کے راستے سندھ مىں جلوہ فرما ہوئےآپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عادت کریمہ تھی کہ ایک جگہ قیام پزیر نہ رہتے بلکہ اکثر سفر پر رہتے چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ملتان اور پھر ہندوستان کے دیگر شہر گرنار،گجرات ، جونا گڑھ، پانی پت، وغیرہ کا سفر اختیار فرمایا اور خوب نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیں۔([14])

سیہون آمد:

حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آمد سے قبل سیہون برائیوں اور بدکاریوں کا گڑھ تھا ہر طرف برائی اور بدکاری کا دور دورہ تھا۔ سیہون اس وقت بت پرستی اور کفر و الحاد کا مرکز بنا ہوا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے میں بے راہ روی تھی، جوا، شراب اور دوسری معاشرتی برائیاں عام تھیں۔ لوگوں کی اخلاقی حالت بہت پست تھی جگہ جگہ عصمت فروشی کے اڈے قائم تھے لیکن حضرت لعل شہباز قلندر نے سیہون پہنچتے ہی گمراہ اور بدکار لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروایا اور برائیوں اور بدکاریوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی اور لوگوں کو اسلام قبول کرنےکی دعوت دی۔

سیہون کے بڑے بڑے زمیندار اور روسا ان برائیوں میں شریک تھے۔ ان عیش پسندوں اور روساء نے آپ کی بہت مخالفت کی۔ مگر آپ نے اس ظلمت کدہ کفر میں اسلام کی شمع کو منور رکھا۔ آہستہ ہستہ اس شمع کی روشنی پھیلنے لگی اور آپ کی دینی و روحانی تعلیمات کو لوگ قبول کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے برائی کی جگہ نیکی نے لےلی اور بدکاری اور فحاشی سے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگے۔ گناہوں اور برائیوں کے مرکز ویران اور سنسان ہوگئے۔ سیہون کے جس محلہ میں آکر آپ قیام پذیر ہوئے وہ محلہ بدکار عورتوں کا تھا اس عارف باللہ کے قدموں کا پہلا اثر یہ تھا کہ وہاں زناکاری اور فحاشی کا بازار سرد پڑگیا۔ ([15])

کرامت:

حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی سیہون شریف آمد سے قبل یہاں کا ایک محلہ بے حیائی اور بد کاری کا مرکز سمجھا جاتا تھا فاحشہ عورتیں سرعام لوگوں کو دعوتِ گناہ دیتیں۔ حضرت قلندر کی آمدکے بعدجو مرد بھی گناہ کے ارادے سے اس محلے میں آتا آپ کی نظر فیض اثر پڑتے ہی فوراً واپس ہو جاتا او ر اس قدر مرعوب ہوتا کہ دوبارہ اس طرف کا رخ نہ کرتا آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں ان عورتوں کے لیے ہدایت کی دعا مانگى جو فوراً قبول ہوئی اور یکدم ان کی کایا پلٹ گئی چنانچہ وہ سب خود جمع ہوکر حضرت قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور صدق دل سے تائب ہوکر قلعہ اسلام میں پناہ گزیں ہوگئیں۔([16])

وصالِ باکمال:

زندگی کی135 بہاروں کو بارگاہِ قلندر سے فیض پانے کا موقع ملا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے 21شعبان المعظم673 ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔([17]) انا للہ وانا الیہ رٰجعون

آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے جس جگہ وصال فرمایاوہیں آپ کا روضہ مبارکہ تعمیر ہوااس کی تعمیر سب سے پہلے سلطان فیروز تغلق کے زمانےمیں ہوئی پھر وقتاًفوقتاً سرزمین ہند پر حکمرانی کرنے والے سلاطین وامراء مزار پرانوار پر حاضر ہوتے رہے اوراس کی تزئین وآرائش میں حصہ ڈال کر دین و دنیا کی سعادتیں لوٹتے رہے آج بھی آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا عرس مبارک نہایت تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتا ہےجس میں دورو نزدیک سے آنے والےعقیدت مند اور محبین اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہیں ۔([18])

اللہ پاک ہمیں حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کےفیضان سے مالا مال فرمائے۔ آمین

از:مولانا سید منیرعطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر، دعوتِ اسلامی



[1]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۳

[2]شان قلندر،ص۲۶۴ملخصاً

[3]شان قلندر،ص۲۶۴

[4]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۲بتغیر

[5]اقتباس الانوار، ص۶۶

[6]قلندر کی شرعی تحقیق، ص۶، بتصرف

[7]شان قلندر،ص۲۶۸بتغیر

[8]شان قلندر،ص۲۶۸بتغیر

[9]تذکرہ اولیائے سندھ، ص۲۰۶ بتغیر

[10]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۹

[11]سیرتِ حضرت لعل شہباز قلندر،ص۸۴

[12]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۹

[13]شان قلندر،ص۲۷۰بتغیر

[14]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۹

[15]سیرتِ حضرت لعل شہباز قلندر،ص۱۰۶۔۱۰۷

[16]تذکرہ صوفیائے سندھ، ص۲۰۳ملخصاً

[17]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۳

[18]تذکرہ صوفیائے سندھ، ص۲۰۳ملخصاً


ساتویں صدی ہجری کی ایک دوپہر ڈھل رہی تھی کہ درویشوں کا ایک قافلہ مختلف علاقوں میں نیکی کی دعوت دیتا ہوا باب الاسلام سندھ کے ایک علاقے میں پہنچا۔ ان دنوں باب الاسلام سندھ برائىوں اور بدکارىوں کى آماجگاہ تھا۔ ہر طرف گناہوں کا دور دورہ تھا۔ اس علاقے میں خاص طور پر کفر و شرک اور فحاشی وبدکاری عام تھی ۔بعض علاقے تو ایسے تھے کہ جہاں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔دینی معلومات نہ ہونے کے باعث لوگ زندگى کے ہر شعبے مىں بے راہ روى اور معاشرتى برائىوں کا شکار تھے ۔ لوگوں کى اَخلاقى حالت اَبتر تھی اسی وجہ سے جگہ جگہ برائی کے اڈے قائم تھے ۔ درویشوں کا یہ قافلہ ايك ایسے محلے میں ٹھہرا جہاں ہر طرف چہل پہل تھی ۔شام ڈھلتے ہی چراغ روشن ہونے لگے ، شام نے رات کا لبادہ اوڑھا تو گانے بجنے لگے ، عورتیں سرِعام گناہ کی دعوت دینے لگیں، اوباش نوجوان گناہوں کے بھنور کی طرف کھنچتے چلے جارہے تھے ۔ یادِ الہی میں مگن درویش یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئے اور اپنے اميرِ قافلہ سے عرض کرنے لگے : حضور! یہاں قیام کرنا ہمارے لیے مناسب نہیں، کہیں اور چلتے ہیں یہ تو بہت ہی بُری جگہ ہے ۔امیرِقافلہ نے فرمایا : ہم یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے بلکہ بھیجے گئے ہیں۔ امیرِقافلہ کا جواب سُن کر درویش مطمئن ہو گئے ۔جوں توں رات گزری ، صبح گناہوں کا بازار سرد پڑ چکا تھا۔ اگلی رات درویش یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بازار میں کل جیسی رونق نہ تھی۔ دوسری طرف برائی کے اڈوں پر بھی اوس پڑ چکی تھی، جو بھی آتا محلے میں داخل ہوتے ہی الٹے پاؤں واپس لوٹ جاتا ۔اب تو یہ معمول ہی بن گیا، بازار کی رونقیں ختم ہونے لگیں۔ ایک دن ساری عورتیں جمع ہوئیں اور کہنے لگیں : جس دن سے یہ درویش یہاں آئے ہیں ہمارا تو کاروبار ہی ٹھپ ہو گیا ہے ۔ انہیں یہاں سے نکالو ورنہ ہم تو بھوکے مر جائیں گے ۔ چنانچہ وہ ان درویشوں کے پاس آئیں اور کہا : بابا آپ صوفی لوگ ہیں یہاں آپ کا کیا کام ، یہ گناہوں کی جگہ ہے ، یہاں سے چلے جائیں آپ کی وجہ سے ہمارا کام بند ہو رہا ہے ۔ درویشوں کے امیرِ قافلہ نے فرمایا : ’’ہم یہاں جانے کے لیے نہیں آئے ، اب تو ہمارا مزار بھی یہیں بنے گا۔ البتہ اگر تمہیں کوئی مسئلہ ہے تو تم یہاں سے چلی جاؤ ۔‘‘امیرِ قافلہ کا جواب سن کر انہیں پریشانی لاحق ہوگئی۔ چونکہ بڑے بڑے زمىندار اور رؤسا یہاں تک کہ خود راجہ بھی ان گناہوں میں شریک تھا لہذا انہوں نے راجہ کو شکایت کر دی۔ راجہ نے اپنے سپاہیوں سے کہا : درویشوں سے کہو یہاں سے چلے جائیں ورنہ انہیں زبردستی نکال دیا جائے گا۔ راجہ کا حکم پاتے ہی سپاہی درویشوں کے قافلے کی طرف روانہ ہوئے ابھی قریب بھی نہ پہنچے تھے کہ اچانک انکے پاؤں زمین نے پکڑ لیے ۔ سپاہیوں نے قدم اٹھانے کے لیے بہت جتن کیے مگر بے سود۔ انہوں نے واپس پلٹنے کی کوشش کی تو زمین نے پاؤں چھوڑ دیے ۔ سپاہی گھبرا کر واپس لوٹ گئے ۔ وہ عورتیں حیرت میں ڈوبی یہ منظر دیکھ رہی تھیں انکے دل کی دنیا زیروزبر ہوگئی اور وہ دلی طور پر اس بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی معتقد ہوچکی تھیں، بے ساختہ اس بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (جو کہ اس قافلے کے امیر بھی تھے )کے قدموں میں گر کر تائب ہوگئیں اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مرد بھی ان بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دستِ حق پرست پر تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔( اللہ کے ولی ، ص۳۴۰، اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۳۳، شانِ قلندر، ص۲۸۸ بتصرف)

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ بلند رتبہ درویش کون تھے ؟ جی ہاں! یہ کوئی اور نہیں بلکہ بابُ الاسلام سندھ کی پہچان حضرت لعل شہباز قلندر سیّدمحمدعثمان مَروَندی کاظمی حنفی قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی تھے اور دوسرے درویش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مرید اور خادم تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سیہون شریف ضلع دادو بابُ الاسلام سندھ تشریف لا کرکفروشرک کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹکنے والوں کواسلام کے پاکىزہ اُصُولوں سے روشناس کراىا۔

اس ظُلمت کدے مىں اسلام کى شمع روشن کی۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی آمد سے بابُ الاسلام سندھ میں اسلام کى روشنی پھیلتی چلی گئی۔ لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی پُرتاثیر دعوت پر جوق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے احکامات اور سرکاردوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی میٹھی میٹھی سنتوں کی روشنی میں زندگی بسرکرنے لگے ۔سُطُورِذیل میں نیکی کی دعوت کے عظیم داعی ، مُبَلِّغِ اسلام حضرت لعل شہباز قلندر سید محمد عثمان مَروَندِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے مختصر حالات زندگی پیش کیے جاتے ہیں۔

ولادت اور سلسلہ نسب

حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر محمد عثمان مَروَندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی ساداتِ کرام کے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادتِ باسعادت مشہور قول کےمطابق ۵۳۸ھ بمطابق 1143ء میں آذربائیجان کے قصبہ ’’مَروَند‘‘ میں ہوئی۔(اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۳)اسی مناسبت سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کومَروَندِی کہا جاتاہے ۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نام سید محمد عثمان ہے جبکہ آپ اپنے لقب ’’لعل شہباز‘‘ سے مشہور ہیں۔(شان قلندر، ص۲۶۴ملخصاً)

اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو اس قدر حسن و جمال عطا فرمایا تھا کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی پیشانی کے نورکے سامنے چاندنی بھی مات تھی ۔حضرت علامہ مولانا میر سید غلام علی آزاد بلگرامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاسلسلہ نسب تیرہ واسطوں سے حضرت سیدناامام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہتک پہنچتاہے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاسلسلہ نسب یوں ہے : سیدعثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سیدنورشاہ بن سیدمحمودشاہ بن سیّد احمد شاہ بن سیّد ہادی بن سیّد مہدی بن سیّدمنتخب بن سیّدغالب بن سیّد منصوربن سیّداسماعیل بن سیدناامام محمدبن جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم ۔( لب تاریخ سندھ مخطوط، ص۹ بحوالہ تذكره اولياءِ سندھ، ص٢٠٦)

قلندر کہنےکی وجہ

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سلسلہ قلندریہ سے بھی تعلق رکھتے تھے اسی لئے آپ کو قلندر کہا جاتا ہے ۔برِصغیر میں سلسلہ قلندریہ نے حضرت شاہ خضر رومی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی (مُتَوَفّٰی ۵۹۹ھ)سے شہرت پائی ۔(اقتباس الانوار، ص۶۶)

قلندر کون ہوتاہے ؟

قلندر خلافِ شرع حرکتیں کرنے والے کو نہیں کہا جاتا، جیسا کہ فی زمانہ بے نمازی ، داڑھی چٹ ، خلافِ شرع مونچھیں، عورتوں کی طرح لمبے لمبے بال ، ہاتھ پاؤں میں لوہے کے کَڑے پہننے والے لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ ہماری تو قلندری لائن ہے ، مَعَاذَ اللہ، حالانکہ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں قلندر شریعت کے پابند کو ہی کہا جاتا ہے چنانچہ مصنفِ کُتُبِ کَثِیرہ، خلیفۂ مفتیٔ اعظم ہند فیضِ مِلَّت حضرت علامہ مولانا مفتی فیض احمد اویسی رضوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نقل فرماتے ہیں : ’’قلندر وہ ہے جو خلائقِ زمانہ سے ظاہری اور باطنی تجربہ حاصل کر چکا ہو، شریعت و طریقت کا پابند ہو ۔ ‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’دراصل صوفی اور قلندر ایک ہی ذات کا نام ہے (قلندر کی شرعی تحقیق، ص۶ بتصرف)

القاب کی وجہ تسمیہ

آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے چہرۂ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر ’’ لعل کی مانندسرخ کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی تھیں اسی مناسبت سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ لعلکے لقب سے مشہور ہوئے جبکہ شہبازکا لقب بارگاہِ امامِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے عطا ہوا۔چنانچہ منقول ہے کہ ایک رات آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے والدِ ماجد حضرت سیدنا کبیرالدینعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن امام ِعالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی زیارت سے فیض یاب ہوئے ، سیّدُناامام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا : ہم تمہیں وہ شہباز عطا کرتے ہیں جو ہمیں ہمارے نانا جان ، رحمتِ عالَمیان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم سے عطا ہواہے ۔اس بشارت کے بعدحضرت لعل شہبازقلندر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمَد کی ولادت ہوئی اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ولایت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوگئے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۲بتغیر)

بچپن اور ابتدائی تعلیم

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا ابتدائی سلسلۂ تعلیم والدِ گرامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِیکے زیرِ سایہ تکمیل پایا۔ چونکہ والدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھِماتقویٰ و پرہیز گاری اور زیورِ علم سے آراستہ وپیراستہ تھے اس لیے بچپن ہی سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو اللہ والوں کی محبتیں اورصحبتىں مىسر آئىں۔ جس کے نتیجے میں فُىُوض و بَرکات اور علمِ دىن کے گہرے نُقُوش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی لوحِ قلب پر مُنَقَّش ہوئے ۔ یوں بچپن ہی میں نىکی اور راست بازى آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا شِعار بن چکی تھی ۔(شان قلندر، ص۲۶۸بتغیر)

حفظِ قرآن اور مسائلِ دینیہ

اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو غیرمعمولی قوّتِ حافظہ سے نوازا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جونہی پڑھنے کی عمر میں قدم رکھا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو علاقے کى مسجد مىں دینِ اسلام کی ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیے بھیجا گیا۔ والدہ ماجدہ کی دلی خواہش تھی کہ میرا بیٹا خوب علم دین حاصل کرے ۔ چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے والدہ ماجدہ کی خواہش کوعملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے گاؤں کى مسجد میں ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ چونکہ مادرزاد ولی تھے لہذا جلد ہى آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے قرآن پاک پڑھنے کے ساتھ ساتھ ابتدائى دىنى مسائل بھى سىکھ لىے ۔ چھ برس کى عمر تک دىن کے چىدہ چىدہ مسائل اور نماز روزہ اور طہارت کے بارے مىں ضرورى مسائل سے آپ کو مکمل طور پر آگاہى حاصل ہوچکى تھى۔ سعادت مند والدین کی مدنی تربیت نے قرآن پاک حفظ کرنے کا شوق وجذبہ بیدار کیا تو سات سال کى عمر مىں قرآن مجىد بھی حفظ کرلىا۔ اس کے بعددیگر علومِ دینیہ کی تحصیل میں مصروف ہو گئے اور بہت جلد مُرَوَّجہ عُلُوم و فُنُو ن کے ساتھ ساتھ عربى اور فارسى زبانوں مىں بھى مہارت حاصل کرلى۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲٥ بتصرف)

والدین کا داغِ مفارقت

دستورِ قدرت ہے کہ جسے جتنا بلند مقام عطا کیاجاتا ہے اتنی ہی آزمائشوں اور امتحانات سے گزارا جاتا ہے ۔ حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے امتحان کا وقت آچکا تھا۔ ایامِ زیست(زندگی کے دنوں) کی گنتی اٹھارہ سال کو پہنچی تو والد ماجد داغِ مَفارقت دے گئے ، ابھی یہ زخم تازہ تھا کہ دو سال بعد والدہ ماجدہ بھى داعیٔ اَجَل کو لبیک کہہ گئیں۔چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مزید علمِ دین کے شوق میں گھربار چھوڑ کر راہ خدا عَزَّ وَجَلَّکے مسافر بن گئے اور علمائے کرام کى بارگاہ سے وراثت ِانبیاء یعنی علم اور صوفیائے کرام کی بارگاہ سے خزینۂ روحانیت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۶ بتصرف)

حضرت لعل شہباز قلندر سنی تھے

حضرت سیّدنا لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ صحیح العقیدہ سُنی اورحنفی المذہب تھے ۔آ پ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ساری زندگی اہلِ سنّت کے جلیل القدر علمائے کرام اور مشائخِ عُظّام ہی کے ساتھ دوستی اور نشست وبرخاست رکھی نیزان ہی کے ساتھ سفر بھی فرمائے ۔حضرت سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی ایک نعتیہ غزل کے آخری مصرع میں اپنا عقیدہ یوں بیان فرماتے ہیں :۔

عثمان چو شد غلام نبی و چہار یار

امیدش از مکارم عربی محمد است

یعنی : عثمان جب ہوگئے حضور نبیٔ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے چاروں یاروں(حضرت صدیق اکبر، حضرت عمرفاروق اعظم، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ )کے غلام۔۔۔ اُس کو امید ہے محمدِ عربی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق و عادات سے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۷ بتصرف)

حضرت سیدنا عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہعلم و حکمت کی دولت سمیٹتے سمیٹتے جب کربلائے معلی پہنچے توحضرت سیدنا امام موسىٰ کاظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی اولاد سے ایک بزرگ حضرت سیدنا شىخ ابواسحاق سید ابراہىم قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے دستِ اَقدس پر بیعت ہوئے اور تقرىباً ۱۲ماہ تک پیرومرشدکے زیرِسایہ سلوک کی منزلیں طے فرماتے رہے ۔ پیرومرشد حضرت سیدنا ابراہیم قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی نظرِ ولایت نے جب اس بات کا مشاہدہ کیا کہ یہ اب مریدِ کامل بن کر طریقت کی اعلیٰ منزلیں طے کرچکے ہیں تو انہوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو خرقۂ خلافت و اجازت سے نوازا اور خدمتِ دین کے لیے راہِ خدا میں سفر کرنے کی ہدایت فرمائی۔( شان قلندر و غيره، ص۲۷۰بتغیر)

بعض سیرت نگاروں نے لکھا کہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحضرت سیدنا شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِیكے مریدو خلیفہ تھے ۔( خزینۃ الاصفیاء ، ۴/ ۷۹، تذكره حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی، ص١١١)

مرشد کےحکم پرعمل

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مرشدِ کریم نے چونکہ خدمت ِ دین کے لئے کوئی خاص منزل متعین نہ فرمائی تھی اس لئے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پیرو مرشد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے اَن دیکھے راستوں پر نکل کھڑے ہوئے اور شہر بہ شہر گاؤں بہ گاؤں نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے میں مصروف ہوگئے ۔( آداب مرشد کامل، ص : ۱۹۸ملتقطاً)

ہمعصروہمسفر

حضرت سیدنا لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے مختلف اولیائے کرا م کے ساتھ مدنی قافلوں میں سفر کیا۔جن اولیائے کرام اور صوفیائے عُظَّام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامکى صحبتوں سے فیض یاب ہوئے اور راہِ خداکے مسافر بنے ۔ ان میں سَرِ فہرست (۱)حضرت سیدنا شىخ فرىدالدین گنج شکر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمَد، (۲)حضرت سیدنا بہاؤ الدىن زکرىا ملتانى قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی، (۳)حضرت سیدنا مخدوم جہانىاں جلال الدىن بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی (صوفیاء کی اصطلاح میں ان تین اور چوتھے حضرت لعل شہباز قلندر کو چار یار کہتے ہیں ۔)اور حضرت سیدنا شىخ صدرالدىن عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا نام ِ نامی اسم ِ گرامی شامل ہے ۔( معیار سالکان طریقت (سندھی)، ص ۴۲۴، تذکرہ اولیاءِ سندھ، ص۲۰۶ بتغیر)

مزارات پر حاضری

حضرت سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ طریقت کی منازل طے کرنے میں مصروف تھے اور اس دوران اپنے اپنے وقت کے برگزیدہ اولیائے کرام سے روحانی فیض حاصل کرنے کے لئے انکے مزارات پر حاضری بھی دیتے رہتے چنانچہ مشہدشریف میں حضرت سیّدناامام علی رضا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاور کوفہ (بغداد) میں امام الائمہ، سِراجُ الاُمَّۃ، حضرت سیدنا امامِ اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے مزارِ اَقدس پر حاضری دے کر فُیُوض وبَرَکات حاصل کئے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹)

غوثِ پاک کے مزار پر

حضرت سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پیرانِ پیر روشن ضمیر حضور غوثِ اعظم محی الدین سید ابومحمدعبدالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے مزار شریف پر حاضر ہوئے ، مراقبے کے دوران آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو سیّدناغوثِ اعظم کی زیارت ہوئی ، سیّدنا غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : عثمان !اب مکہ مُعَظَّمہ چلے جاؤاور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے گھر کی زیارت کرو۔( سیرت حضرت لعل شہباز قلندر، ص۷۲)

سفرِ حج اور فکرِ مدینہ

حضرت سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے مشہورومعروف علماواولیاسے اِکتِسابِ علم و روحانیت کے بعد آقائے دوجہاں، سردار انس و جاںصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے درِپاک پر حاضری کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ حج کے ایام قریب تھے لہٰذااِحرام باندھا اور چل پڑے ۔حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف غالب تھا یہاں تک کہ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سفرِ حج پر روانہ ہو رہے تھے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خُفیَہ تدبیر کا خیال آگیا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یوں فکرِ مدینہ فرمانے لگے : ’’اے عثمان! تم سواری پر سوار حجِ بیتُ اللہکے لیے جارہے ہو اور عنقریب تمہارا جنازہ بھی روانہ ہو گا۔تم نے آخرت کے لیے کیا توشہ تیار کیا ہے ؟اسی خوفِ خداکے ساتھ بیتُ اللہ شریف پہنچے ، حج کی سعادت پائی اور انوارِ الہی کی بارش سے خوب مستفیض ہوئے ۔( سیرت حضرت لعل شہباز قلندر، ص۷۲)

زیارتِ مدینہ

حجِ بیتُ اللہسے مُشَرَّف ہونے کے بعدمدینہ منورہ میں نبیٔ محترم، شفیعِ مُعَظَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہِ مُحتَشَم میں حاضر ہوئے اورعشق ومحبت میں ڈوب کر اپنے پیارے آقا و مولیٰ محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر خوب خوب درود و سلام کے گجرے نچھاور کیے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹)

منقول ہے کہ روضۂ رسول پر حاضر کیا ہوئے جد ا ہونے کو جی ہی نہ چاہتا تھا، لہذا گیارہ ماہ تک درِرسول پر حاضر رہے ۔اگلے سال پھر حج کی سعادت پائی اور ہندوستان کا سفر اختیار فرمایا۔بَرِصغیر پاک و ہند میں آپ کی منزل سیہون شریف ضلع دادو باب الاسلام سندھ تھی چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پہلے مرکزالاولیاء لاہور تشریف فرما ہوئے ۔

قلندرپاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اور باب الاسلام آمد

حج کے بعد سرکاردوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے درِاقدس پر حاضر ہوئے اور وہیں سے ہندوستان کے لیے رختِ سفر باندھا چنانچہ وہاں سے عراق پہنچے اور کچھ عرصہ وہیں قیام فرمایا پھر تبلیغ قرآن و سنّت کا عظیم فريضہ سرانجام دیتے ہوئے بلخ ، بخارا اور مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے باب الاسلام سندھ مىں جلوہ فرما ہوئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عادتِ کریمہ تھی کہ ایک جگہ قیام نہ فرماتے بلکہ اکثرمدنی قافلے کے مسافر رہتے چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مدینۃ الاولیاءملتان، مرکز الاولیاء لاہور اور پھر ہندوستان کے دیگر شہر اجمیر، گرنار، گجرات ، جونا گڑھ، پانی پت، کشمىر وغیرہ کا سفر اختیار فرمایا اور خوب نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیں۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹بتصرف)

اجمیر شریف حاضری

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے تقریباً چالیس دن تک اجمیر شریف میں سلطان الہند حضرت سیّدنا خواجہ معین الدین سید حسن چشتی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِیکے مزارِ پُر انوارکے سائے میں قیام فرمایا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہیہاں عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے اور باطنی فیوض و برکات سے مالا مال ہوتے ۔(شان قلندر، ص۲۷۹بتغیر)

سندھ کا مقدر جاگ اٹھا

ان دنوں برصغیر ہندوستان کے مختلف اطراف میں اولیاء و صوفیائے کرام شمعِ اسلام روشن کیے ہوئے تھے ۔ وسطِ ہند اور جنوبى پنجاب مىں چشتى سلسلے کے بزرگ توحىد ورسالت کادرس دے رہے تھے اور خاندانِ سہروردیہ کا فیضان دہلی تا ملتان پھیلا ہوا تھامگر ابھی تک باب الاسلام سندھ فیوض و برکات سے خاص حصہ نہ رکھتا تھا۔جب حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہپانی پت میں حضرت سیدنا بوعلی قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے پاس پہنچے تو انہوں نے باب ا لاسلام سندھ کو نوازنے کی استدعا کی اورفرمایا : ’’ہند میں تین سو قلندر ہیں ، بہتر ہو گا کہ آپ (باب الاسلام) سندھ تشریف لے جائیں ۔‘‘آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے مشورے پر حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ باب الاسلام سندھ تشریف لے آئے ۔( تحفۃ الکرام (مترجم)، ص ۴۲۹، تذكره اولياءِ سندھ، ص٢٠٦)

دشتِ شہباز

حضرت سیدنالعل شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہنے جب باب الاسلام سندھ کی طرف رخت سفر باندھا تو راستے میں مکران مىں وادى پنج گورکے قریب قیام فرمایایہاں ہزاروں مکرانى بلوچوں نے آپ کے دست حق پرست پر توبہ کی اور شمع اسلا م کے پروانے بن گئے ۔ یہ میدان آج بھى آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے لقب کی نسبت سے ’’دشتِ شہباز‘‘ کہلاتا ہے ۔ یہاں کے مقامی لوگ آج بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی عقیدت اور محبت کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔( شان قلندر، ص۲۸۲وغیرہ)

ضعیف العمری میں بھی قافلے

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہضعیفُ العمر ی کے باوجود صحت مند اور چاک و چوبند تھے ۔ منقول ہے کہ جب آپ سىہون تشرىف لائے تو اس وقت آپ کى عمر سو سال سے کچھ زائد تھى، اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہآخری ایام میں بھی حسبِ عادت نیکی کی دعوت عام کرنے کے لیے سفر فرماتے تھے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۳)

علماکاادب

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علم کے بہت ہی قدردان تھے نیز اہلِ علم کے مقام ومرتبے کا لحاظ فرمایاکرتے تھے ۔ نماز کى امامت بہت کم فرماتے ، ہمىشہ ىہ کوشش رہتی کہ پاس موجود علمائے کرام مىں سے کوئى امامت کروائے ۔( شان قلندر، ص۳۰۲وغیرہ)

علمی مقام اور تدریس

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زبردست عالمِ دین تھے ۔لِسانیات اور صرف و نحومیں آپ کو یدِ طولیٰ حاصل تھا۔فارسى اور عربى پر کامل دَسترَس رکھتے تھے نیزآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زبردست شاعربھی تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کچھ مضامىن پر کتابىں بھى لکھى ہىں جن میں سے صرف صغیر قسم دوئم، اجناس اور میزان الصرف کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس دورکے مدارس کے نصاب میں بھی شامل تھىں۔(سیرت پاک حضرت لعل شہبازقلندر وغيره، ص۲۴ بتغیر، وغیرہ)

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مدرسہ بہاؤ الدىن (مدینۃالاولیاء ملتان شریف) میں فارسى اور عربى میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ سىہون شرىف مىں مدرسہ’’فقہ الاسلام‘‘ تھا جس کے بارے میں منقول ہے کہ وہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہہی نے قائم فرمایا تھا جبکہ ایک دوسرى رواىت میں ہے کہ یہ مدرسہ پہلے سے قائم تھا البتہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کیا یہاں تک کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دور میں اس جیساعالى شان مدرسہ پورے باب الاسلام سندھ مىں نہ تھا۔ تِشنگانِ علم دُوردراز سے علم کی پیاس بجھانے سیہون آتے یہاں تک کہ اسکندرىہ (مصر)جىسے دور دراز علاقے سے طلبہ اس مدرسہ مىں تحصىلِ علم کے لىے حاضر ہوتے تھے ۔ یہ وہ دور تھا کہ سیہون باب الاسلام سندھ علم و علما کا مرکز تھا اور حضرت لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علما کى اس کہکشاں مىں مثلِ آفتاب تھے ۔( شہبازِ ولايت، ص۲۵ بحوالہاللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۳١)

سجادہ نشین

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے سجادہ نشین آپ کے محبوب مریدوخلیفہ حضرت سیدنا علی سرمست رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہوئے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے بارے میں منقول ہے کہ جب قلندر پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبغداد شریف سے باب ا لاسلام سندھ تشریف لائے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی ان کے ساتھ تشریف لائے تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہقلندر پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے وزىر مشہور تھے ۔( سیرت پاک حضرت لعل شہبازقلندر، ص۹۰)

بارانِ رحمت کا نزول

منقول ہے کہ ایک بار سىہون شرىف اور اس کے اردگردکے علاقوں مىں شدید قحط پڑا یہاں تک کہ کھانے کى کوئى چىز دور دور تک دکھائى نہ دىتى، نہریں خشک ہوگئىں، کنوئىں سوکھ گئے ، پانى کاملنا دشوار ہوگیا۔ قحط کی وجہ سے اس قدر خوفناک صورت حال ہوگئى کہ زندہ بچنے کى کوئى امىد دکھائى نہ دىتى تھى۔ آخر کار اہلِ علاقہ اکٹھے ہو کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکى خانقا ہ کے گرد جمع ہوئے اور فریاد کرنے لگے ۔ حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا) کا فريضہ سرانجام دیتے ہوئے فرمایا : تم سب لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى بارگاہ مىں گناہوں سے سچی توبہ کرو اور مىرے ساتھ دعا مانگو۔ لوگوں نے فوراً اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہِ عالی میں اپنے گناہوں کى معافى مانگی اور توبہ استغفار کرنے لگے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں دعاکے لیے ہاتھ دراز کردیے اور بارش اور خوشحالی کی دعاکی۔ کہا جاتا ہے کہ ابھى حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ مانگ کر اپنے حجرہ مبارکہ مىں داخل بھى نہ ہونے پائے تھے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کى دعا کو قبولیت سے مشرف فرمایا اور رحمت کی بوندیں برسنیں لگیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم اور حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی قبولیتِ دعا کی خوشی میں لوگوں نے کھانے پکاکر غربا و مساکىن مىں تقسىم کىے ۔ حضرت سیدنا لعل شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے نمازِ عشاء کى ادائىگى کے بعد اجتماعِ ذکرونعت کا اہتمام فرمایا اور لوگوں نے مل کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذکر کىا اور حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذات گرامی پر خوب درود و سلام پىش کىا۔(شان قلندر، ص۳۱۱وغیرہ)

مسواك سایہ داردرخت بن گئی

گرمیوں کے دن تھے ، سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھااور حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہاپنى خانقاہ کے صحن مىں وضو فرمارہے تھے ۔ ایک عقیدت مند نے دھوپ کى تپش کو دىکھتے ہوئے عرض کی : حضور! ہم اس جگہ پر اىک ساىہ دار درخت لگائىں گے تاکہ آنے والے اسکے سائے مىں آرام پائیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے وضو سے فراغت کے بعد ایک مرید کو اپنى مسواک دىتے ہوئے فرماىا : اسے یہاں زمىن مىں گاڑ دو۔حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مسواک زمىن مىں گاڑ دی گئی۔ اگلے ہى دن اس مسواک مىں ہری ہری شاخىں نمودار ہوگئىں اور چند دنوں مىں دىکھتے ہى دىکھتے ىہ چھوٹى سى مسوا ک اىک تناور ساىہ دار درخت بن گئی۔(شان قلندر، ص۳۱۳وغیرہ)

دم کرنے سے مریضوں کی شفایابی

منقول ہے کہ حضرت سیدنا لعل شہبازقلندرمحمدعثمان مَروَندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی جس مریض کے لیے دستِ دعا بلند فرمادیتے فوراً صحتیاب ہو جاتا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہقرآن کریم کی چند آىات مبارکہ تلاوت فرماتے اور پانى پر دم کرکے مریض کو پلانے اور آنکھوں پر لگانے کا حکم فرماتے ۔ نتیجۃً فوری طور پرمرىض میں صحت ىابی کے آثار نمودار ہوجاتے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دم کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ سورۃالفاتحہ، سورۃ الفلق، سورۃ الناس اور کلمۂ طیبہ بالترتیب ایک ایک بار پڑھتے ، اسکے بعدخلفائے راشدىن رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنکے وسىلہ جلىلہ سے مرىض کى شفاىا بى کے لىے بارگاہِ الہٰى عَزَّ وَجَلَّ مىں دعا کرتے ۔کہتے ہیں کہ آج بھی اگر کوئی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مزار پر حاضر ہوکر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے اىصالِ ثواب کے بعد اسی طرح بالترتیب سورۃالفاتحہ، سورۃ الفلق، سورۃ الناس اور کلمہ طیبہ پڑھ کر خلفائے راشدىن کے وسىلہ سے دعا کرتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم سے اس کى دعا قبول ہوجاتى ہے ا ور پروردگار عالم اسے شفائے کاملہ عطا فرماتا ہے ۔(شان قلندر، ص۳۱۵وغیرہ)

آخری کلمات

جب حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمَدکا آخری وقت آیا تو آپ کی زبان سے ادا ہونے والے آخری کلمات یہ تھے : مىرا کوئى ساتھى نہىں ہے ، مىرا عمل مىرا ساتھ کىادے گا، مىرا سب سے بڑا سہارا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى ذات بابرکات ہے ، مىرے ساتھى اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب حضور سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، آپ کےصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ہىں۔

حضرت سیدنا لعل شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے ان کلمات سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماورصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانبالخصوص خلفائے راشدین رِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن سے محبت و عقیدت کا پتا چلتا ہے ۔( شان قلندر، ص۳۲۲وغیرہ)

وفاتِ حسرت آیات

آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ۲۱شعبان المعظم۶۷۳ ھ میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جس جگہ وصال فرمایاوہیں آپ کا روضہ مبارکہ تعمیر ہوااس کی تعمیر سب سے پہلے سلطان فیروز تغلق کے زمانے میں ہوئی پھر وقتاًفوقتاً سرزمین ہند پر حکمرانی کرنے والے سَلاطین واُمَرَاء مزارِ پُراَنوار پر حاضر ہوتے رہے اوراس کی تَزئِین وآرائش میں حصہ ڈال کر دین و دنیا کی سعادتیں لوٹتے رہے ۔(حدیقۃ الاولیاء (سندھی)، ص۹۹، معیار سالکانِ طریقت (سندھی)، ص ۴۲۵)


قارئینِ کرام ! اچھے کام کرنے سے آپ لوگوں کی آنکھوں کے تارے بن سکتے ہیں جبکہ برے کام کرنے سے یا بری عادات اپنانے سے آپ لوگوں کی نظروں سے گِر بھی سکتے ہیں اور آپ کو ذلت و شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ اس مضمون میں ہم 16 ایسے کاموں کی نشاندہی کررہے ہیں جن سے اجتناب کرکے آپ شرمندگی سے بچ سکتے ہیں۔

(1)کسی کے فون میں جھانکنا بہت ہی نامناسب بات ہے یقین جانیں شریف اور سمجھدار لوگ ایسی حرکتیں نہیں کرتے، یہ عمل ذلیل بھی کرواسکتا ہے اور شرمندہ بھی ۔

(2)کسی کا نمبر اس کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی نہ دیں کیا پتا جس کا نمبر آپ نے کسی کو دیا اس کو یہ بات سخت نا پسند ہو ۔ ہاں اگر اس کی طرف سے اجازت ہے تو ٹھیک ہے۔

(3)اگر آپ کے پاس کسی کا فون آئے تو اس طرح فون پر بات نہ کیجئے کہ جس سے اور لوگ ڈسٹرب ہوں اگر کمرے میں ہوں تو باہر چلے جائیں تاکہ دوسرے لوگوں کو پریشانی نہ ہو، نیز موبائل کی ٹون ایسی نہ رکھیں جس سے دوسرے لوگ ڈر جائیں یا پریشان ہوں ۔

(4)بعض لوگوں کو جب فون کیا جائے تو انہوں نے عجیب ٹونز سیٹ کی ہوتی ہیں کسی نے گانے کی ٹون معاذ اللہ سیٹ کی ہوتی ہے اور نہ جانے کیا کیا بعض اوقات کسی دینی ذہن رکھنے والے کو بھی جب فون کیا جائے تو میوزک یا گانے کی آواز آجاتی ہے حالانکہ ان کو خود بھی اس بات کا پتہ نہیں ہوتا اس پر بھی وقتاً فوقتاً غور کرلینا چاہیے شاید یہ کمپنی والے ایسا کردیتے ہیں یا کوئی اور وجہ ہوتی ہے۔

(5)اگر آپ کو کوئی کام دیا گیا اور آپ نہیں کرنا چاہتے تو اپنی جان چھڑانے کے لئے کسی اور کو اس میں خدارا نہ پھنسائیں کہ بھائی میں تو نہیں کرسکوں گا ایسا کرو وہ فلاں بندہ ہے نا اس کے پاس چلے جاؤ وہ تمہارا کام کردے گا جیسے اس کے پاس دنیا کا کوئی کام نہیں ہے وہ اسی لئے بیٹھا ہے کہ کہیں سے بھی کوئی بھی کیسا بھی کام اس کو دے اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسی کام میں مصروف ہوجائے۔لوگوں کے اپنے اپنے کام فکس ہوتے ہیں آپ کے ایسا کرنے سے کوئی آزمائش میں آسکتا ہے۔

(6)کسی کی چیز اس کی اجازت کے بغیر استعمال نہ کریں چاہے کوئی معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو اگر آپ اس سے اجازت لے لیں گے تو اس کی نظر میں آپ کا مقام اور بڑھ جائے گا۔

(7)لوگوں سے چیزیں لے کر واپس نہ کرنا بہت ہی معیوب اور برا عمل ہے، اولاً کوشش کریں ایسی نوبت نہ آئے بصورت مجبوری وقت پر لوٹادیں، سکھی رہیں گے۔

(8)کھانے کے دوران منہ سے چبانے کی آوازیں نکالنے سے لوگوں کو الجھن ہوتی ہے اور یہ مہذب لوگوں کا طریقہ نہیں اس سے بچیں اور لوگوں کے سامنے بلند آواز سے ڈکار نے سے بھی گریز کریں نیز جمائی کے دوران منہ سے آواز نکالنا اور منہ پر ہاتھ نہ رکھنا بھی بری صفات میں شمار کیا جاتا ہے۔

(9)لوگوں سے ایسا مذاق کرنا جس سے ان کی دل آزاری ہو اور ان کی تحقیر ہو اسلام میں اس کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے اس عادت سے خود کو لازمی بچائیں۔

(10)بار بار کسی کے پاس بلاوجہ چلے جانے سے اہمیت کم ہوجاتی ہے اور سامنے والے کی نظر میں آپ کی وقعت بھی ختم ہوجائے گی،اگرچہ وہ آپ کا دوست یا ررشتہ دار ہو۔

(11)کسی سے کچھ بھی منگوائیں تو پیسے پہلے اس کے حوالے کریں تاکہ وہ بغیر کسی مشقت کے آپ کی چیز لے آئے بہت سے لوگوں میں یہ بری عادت موجود ہے کہ لوگوں کو آرڈر دیئے چلے جاتے ہیں کہ یار میرے لئے یہ لے آنا یا مجھے فلاں چیز لادینا پیسے میں د ے دوں گا وغیرہ جبکہ وہ بے چارہ کئی بار لوگوں کے لئے ان کا مطلوبہ سامان تو لے آیا لیکن جس کے لئے لایا اس نے پھر مڑ کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور اس کا نقصان ہوگیا یاد رکھئے بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ انہیں خود سے مانگنا اچھا نہیں لگتا اگر کسی نے ان کے پیسے ادھار لئے ہوں تب بھی وہ اپنے پیسے واپس مانگنے میں شرم محسوس کرتے ہیں اس لئے خدارا لوگوں کی پرواہ اور فکر کریں ۔ ایسی حرکتوں کی وجہ سے ہی پھر سامنے والا بھی ٹال مٹول کرنا شروع کردیتا ہے کہ یار میں تمہاری چیز لانا بھول گیا ذہن میں نہیں رہا یاد نہیں رہا اب بتائیں اگر آپ کا کردار صاف ہوتا تو وہ کیوں آپ کی مدد نہ کرتا لہذا پیسوں کے معاملے میں سستی کاہلی کا مظاہرہ نہ کریں۔جس کے جو پیسے آپ کے ذمہ ہوں فورا لوٹانے کی کوشش کریں۔

(12)کسی سے قرض لیا یہ بول کر کہ دو دن بعد لوٹادوں گا تو اب لازمی لوٹادیں ورنہ یہ ہوگا کہ اس بار تو آپ نے اس سے پیسے لے لئے لیکن آئندہ پھر وہ کبھی بھی آپ کو اُدھار پیسے نہیں دے گا۔ لوگوں کا بھروسہ مت توڑیں۔

(13)لوگ دوسروں کی مدد کرناچاہتے ہیں ان کی مشکل میں کام آنے کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن کم ظرفوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے مستحقین بھی ان کی بھلائی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

(14)کسی کے پاس جو کچھ بھی ہے اس سے جلنا ،چڑنا ،حسد کرنا ،بغض رکھنا چھوڑ دیں کیونکہ یاد رکھیں آپ کے ایسا کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن ان کاموں کی نحوستیں آپ تک ضرور پہنچیں گی ہاں توبہ کرلیں تو ان شاء اللہ بچت ہوجائے گی۔بلکہ دوسروں کے پاس نعمتیں دیکھیں تو ان کے لئے مزید دعا کریں اس سے اللہ پاک آپ کی بھی نعمتوں میں اضافہ کردے گا۔

(15)اپنی چیزوں کو ترتیب سے رکھیں تاکہ وقت ضرورت دشواری کا سامنا نہ ہو اور غصے کی کیفیت سے بچ سکیں۔

(16)کوئی بھی ضروری کام ایسا ہو جو بعد میں کرنا ہو اور بھول جانے کا اندیشہ ہو تو اس کو موبائل میں ایک فولڈر بنا کر نوٹ کرلیں ۔ تاکہ وقت ضرورت دیکھا جا سکے۔اسی طرح کسی کو کچھ دیں یا لیں تو اس کو نوٹ کرلیں تاکہ بعد میں جھگڑا نہ ہو۔

از: محمد بلال سعید عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر ، دعوتِ اسلامی

02-03-2022


تنقیدوں کا مقابلہ

Tue, 22 Mar , 2022
3 years ago

زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے کچھ مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے اسکول اور مدرسے میں تعلیم اور ڈگری تو دی جاتی ہے۔ لیکن زندگی گزارنے کی بنیادی مہارتیں نہیں سکھائیں جاتیں۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں نیک اور بد ، لیڈر اور عالم ہر ایک کو بُرا بھلا ضرور کہا گیا ہے۔لیکن یہ تنقید ان بڑے لوگوں کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکی۔ اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے پاس دل بھی تھے اور ان کا دل ٹوٹ بھی جاتا تھا۔ لیکن یہ لوگ تنقید کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے واقف تھے۔ کچھ صلاحتیں پیدائشی ہوتی ہیں۔ یہ خاص لوگوں کو ملتی ہیں۔اور کچھ صلاحتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اور پیدا اس وقت ہونگی جب” کوئی بھی انسان اگر سچے دل کے ساتھ چاہے تو کسی بھی صلاحیت کو محنت کرکے اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے “۔

اب 6 ایسے نکات عرض کرتا ہوں کہ جن پر عمل کرکے آپ تنقیدوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔

1) آپ کسی کی تنقید کو اہمیت نہ دیں۔

2) ہمیشہ اچھے لوگوں کی رائے کو ذہن نشین رکھیں۔ اور انہیں بار بار دہراتے اور یاد کرتے رہیں۔

3) آپ اپنے آپ کو پہچانیں۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھیں۔ اپنی خامیوں کو خوبیوں میں بدلنے کی کوشش کریں۔

4) تنقید کرنے والوں کی فطرت تنقید کرنا ہے۔ تو آپ ان کو چھوڑ دیں۔ آپ ان کی وجہ سے اپنے آپ کو نہ بدلیں۔ ایک بات یاد رکھیں "کتے کی فطرت بھوکنا ہے"۔

5) آپ بڑا سوچیں ، چھوٹے جھگڑوں میں نہ پڑیں۔ کیونکہ ”بڑی منزل کے مسافر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتے “۔

6) آپ اچھے لوگوں کی مجلس اختیار کریں۔ کیونکہ اچھا کام کرنے والوں پر تنقید کا اثر کم ہوتا ہے۔

آخری بات؛ جو سب باتوں سے اہم ہے۔ کبھی بھی کسی کی تنقید آپ کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہے۔کیونکہ تنقید کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ لیکن ایک فائدہ سارے مانتے ہیں کہ تنقید ”آپ کے اندر سوئے ہوئے احساس کو جگاتی ہے “ کیونکہ جس کو احساس نہ جگائے اسے کون جگا سکتا ہے۔

از: ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری


جیت آپ کی ہے لیکن

Tue, 22 Mar , 2022
3 years ago

اس دنیا میں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جیسے آتی ہے۔ ویسے ہی چلی جاتی ہے۔ وہ یوں زندگی گزراتے ہیں گویا کبھی زندہ ہی نہ تھے۔ جبکہ بعض لوگ آتے ہیں اور ان کا نام ہمیشہ کے لئے  زندہ ہوجاتا ہے۔وہ کیوں زندہ رہتے ہیں؟ دونوں کی زندگیوں میں صرف ایک فرق ہے۔ وہ فرق کامیابی کا ہے۔ وہ کامیابیاں جو انہوں نے حاصل کی ہوتی ہیں۔ ان کی کامیابیوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ ان کا مضبوط تعلق بن جاتا ہے۔

اس دنیا میں کچھ لوگوں کے نام کے چرچے ہوتے ہیں۔ اور کچھ کے نام تو اپنے خاندان اور کچھ دوستوں تک رہتے ہیں۔ حالانکہ دونوں انسان ہیں۔ پھر ایسی کونسی بات ہے جس نے ایک کو عُروج دیا اور دوسرے کو زوال ؟ فرق صرف اپنی ذات کو سمجھنے کا ہے۔ جس نے اپنی ذات کو سمجھا ، اور اپنی زندگی کو اہمیت دی اُس کا نام باقی رہ گیا۔ اور جس نے نہ سمجھا اس کا نام مٹ گیا۔

زندگی کو جتنی اہمیت دینی چاہیے۔ ہم اسے اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ سب سے قیمتی چیز زندگی ہے۔ افسوس سے یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ لوگ پیسوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ زندگی کو اہمیت نہیں دیتے۔

میرے بھائیو!! زندگی ایک بار ملی ہے۔ اس لیے جینے کا حق ادا کیجئے۔ اس زندگی کو محسوس کرکے شان دار بنا کر جائیں۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں یہ کام کل سے کرونگا ، اس کا شان دار لمحہ کبھی نہیں آتا۔ اس کی زندگی کبھی شان دار نہیں ہو پاتی۔ اسی لمحے سے شروع کیجئے۔

غُبارے کالے ہوں ، نیلے ہوں الغرض غُبارے کسی بھی کلر کے ہوں وہ غُبارے کلر کی وجہ سے نہیں اُڑتے۔ بلکہ اندر موجود گیس کی وجہ سے اُڑتے ہیں۔ اسی طرح کامیابی کا تعلق امیری، غریبی شہری، دیہاتی اچھے، کالے سے نہیں ہوتا۔ بلکہ اندر موجود جذبے ، جنون سے ہوتا ہے۔

انسان کے اندر کچھ ہوگا تو وہ اُڑان کے قابل بنے گا۔ جس میں کوئی تڑپ ہے ، لگن ہے، آنسو ہیں۔ وہ زیادہ ترقی کرسکتا ہے۔

بس آپ سر جھکائے اپنی منزل کی طرف چلتے چلے جائیے۔ اس چیز کی پروا چھوڑ دیجئے۔ کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ صرف اپنی منزل کو فوکس رکھئیے۔ ایک دن جب آپ سر اٹھائیں گےتو زمانہ آپ کے ساتھ ہوگا۔ شرط یہ ہے کہ آپ لگے رہیں۔


صوبۂ پنجا ب میں جن صوفیائے کرام نے اپنے علم و عمل اور حسنِ اخلاق سے ہزارہا لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا، انہیں کفر کے اندھیروں سے نکال کر ان کے دلوں کو نورِ ایمان سے منور کیا، اسلامی تعلیمات کو عام کیا اورمخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچایا ان میں عظیم المرتبت صوفی بزرگ برہان الواصلین، شمس السالکین، سلطان العارفین حضرت خواجہ سلطان باہو کا بھی شمار ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے وصالِ پُرملال کو سینکڑوں سال گزر نے کے باوجود آج بھی ان کا نام زندہ و تابندہ ہے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نام ”سلطان باہو“ ہے۔ صوفیائے کر ام رحمۃاللہ علیہم نے آپ کو”سلطان العارفین“ کے لقب دیا۔ آپ کا تعلق قبیلہ اعوان سے ہے۔ آپ کا شجرۂ نسب سلطان باہو بن بازیدمحمد بن فتح محمد بن اللہ دتہ جو آگے چل کر امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم تک جا پہنچتا ہے۔

پیدائش سے پہلے ولایت کی بشارت :

والدۂ ماجدہ حضرت بی بی راستی رحمۃ اللہ علیہا کو حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پیدائش سے پہلے ہی الہام ہوچکا تھا کہ ان کے شکم میں ایک ولیِ کامل پرورش پارہا ہے چنانچہ خود فرماتی ہیں: مجھے غیب سے یہ پتاچلا کہ میرے پیٹ میں جو لڑکا ہے وہ پیدائشی ولی اللہ اور تارکِ دنیا ہوگا۔

بچپن کی کرامات :

۱۔آپ رحمۃ اللہ علیہ شیر خواری کے دنوں میں جب رمضان المبارک آتاتو دن بھر والدہ ماجدہ کا دودھ نہ پیتے، افطار کے وقت پی لیا کر تے۔

۲۔ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سانس کے ساتھ ”ہو ہو“ کی آواز اس طرح نکلتی تھیں جیسے آپ رحمۃ اللہ علیہ ذکر الہٰی میں مشغول ہوں۔

۳۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو کھلونوں سے کھیلا کر تے اور نہ ہی بچوں کے دیگر مشاغل اختیار کرتے۔(باہو عین باہو، ص ۱۱، ملخصاً)

آپ ر حمۃاللہ علیہ کی نظر کی کر امت :

آپ رحمۃ اللہ علیہ نظریں جھکا کر چلا کرتے تھےاگر راہ چلتے اچانک کسی مسلمان پر نظر پڑ جاتی تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا: واللہ! یہ کوئی عام بچہ نہیں اس کی آنکھوں میں عجیب روشنی ہے جو براہِ راست دلوں کو متاثر کرتی ہےاگر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر کسی غیر مسلم پر پڑجاتی تو اس کی بگڑی سنور جاتی اور وہ اپنے آبائی باطل مذہب کو ترک کردیتا اور کلمۂ طیبہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ۔

جب سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی نظر ولایت سے غیر مسلموں کے قبول اسلام کے واقعات کئی مرتبہ پیش آئے تو مقامی غیر مسلموں میں کھلبلی مچ گئی چنانچہ وہ سب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم حضرت بازید محمد علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے صاحبزادے حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی شکایت کرنے لگے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم نے پوچھا: آخر میرے بیٹے کا قصو ر کیا ہے؟ یہ تو بہت چھوٹا ہے کسی پرہاتھ اٹھانے کے بھی قابل نہیں ہے۔ایک شخص نے کہا: اگر ہاتھ اٹھالیتا تو زیادہ اچھا تھا، والد ماجد نے حیران ہو کر پوچھا پھر کیا گلہ ہے؟

ان کے سر برا ہ نے کہا: آپ کا بچہ ہم میں جس پر بھی نظر بھرکر دیکھ لیتا ہے وہ مسلمان ہوجاتا ہے اس کی وجہ سے شور کوٹ کے لوگوں کا آبائی مذہب خطرے میں پڑ گیا ہے، بڑی عجیب شکایت تھی والد صاحب کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر فرمایا : اب تم ہی بتاؤ میں اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں؟

سربراہ نے کہا، قصور تو بچے کی دایہ کا ہے جو اسے وقت بے وقت باہر لے جاتی ہے آپ سے ایک گزار ش ہے کہ آپ بچے کی سیر کا ایک وقت مقرر کرلیں، بالآخر حضرت بازید محمد رحمۃ اللہ علیہ نے سختی کے ساتھ دایہ کو ہدایت کردی کہ وہ ایک مقررہ وقت پر سلطان باہو کو باہر لے کرجایا کریں اس کے بعد شہر کے غیر مسلموں نےاس کام پر چند نوکر رکھ لئے کہ جب سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ باہر نکلیں تو بازاروں اور گلی کوچوں میں ان کی آمد کی خبر پہنچادی جائے لہذا جب نوکر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی خبر سنتے تو لوگ یعنی غیر مسلم اپنی اپنی دکانوں اور مکانوں میں چھپ جاتے۔(مناقب سلطانی، ص ۲۷ ، مخلصاًوغیرہ)

بارگاہِ رسالت سے فیوض و برکات:

حضرت سلطا ن باہو فرماتے ہیں: کہ میں بچپن میں ایک دن سڑک کے کنارے کھڑا تھا ایک با رُعب صاحب حشمت نورانی صورت والے بزرگ گھوڑے پر تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے گھوڑے پر بٹھالیامیں نے ڈرتے اور کانپتے ہوئے پوچھاآپ کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: میں علی بن ابی طالب ہوں۔ میں نے پھر عرض کی: مجھے کہاں لے جار ہے ہیں، فرمایا: پیارے آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے تمہیں ان کی بارگاہ میں لے جارہا ہوں جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ی ہوئی تو وہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہم بھی جلوہ فرماتھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے نبیوں کے سردار رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھائے اور ارشاد فرمایا: میر ے دونوں ہاتھ پکڑلو ، پھر دستِ اقدس پر بیعت لی اور کلمہ طیبہ کی تلقین فرمائی ۔حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب میں نے لا الہ الالہ محمد الرسول اللہ“ پڑھا تو درجات و مقامات کا کوئی حجاب باقی نہ رہا، اس کے بعد حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مجھ پر توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں صدق و صفا ( یعنی سچائی اور پاکیزگی ) پیدا ہوگئی،توجہ فرمانے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس مجلس سے رخصت ہوگئے، پھر اس کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے میری طرف توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں عدل و محاسبہ نفس پیدا ہوگیا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ بھی رخصت ہو گئے، ان کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے میری طرف توجہ فرمائی جس سے میرے اندر حیا اور سخاوت کا نور پیدا ہوگیا، پھر وہ بھی اس نورانی مجلس سے رخصت ہوگئے، اس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھ پر توجہ فرمائی، تو میرا جسم علم، شجاعت اور حلم سے بھر گیا پھر پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر حضرت سیدتنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : تم میرے فرزند ہو پھر میں نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہا کے قدمین شریفین کا بوسہ لیا اور ان کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں ڈال لیا، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیردستگیر حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمادیا۔ حضور غوث پاک نے مجھے مخلوق خدا کی رہنمائی کا حکم ارشاد فرمایا، حضرت سلطا ن باہو رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے جو بھی دیکھا ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔(باہو عین باہو،ص ۱۱۱تا ۱۱۳ ملخصاً وغیرہ)

سائلو دامن سخی کا تھام لو، کچھ نہ کچھ انعام ہوہی جائے گا

مفلسوں ان کی گلی میں جا پڑو باغ خلد اکرام ہو ہی جائے گا

مٹی سونا بن گئی :

تحصیل شور کوٹ (ضلع جھنگ پنجاب پاکستان) سے کئی میل دور ایک خاندانی رئیس مفلس ہوگیا، اس نے ایک مقامی بزرگ سے اپنی مفلسی و تنگدستی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی حالت زار اس طرح بیان کی کہ حضور اب تو اکثر فاقوں نے گھیر رکھا ہے دروازے پر قرض خواہوں کا ہجوم رہتا ہے، مفلسی کی وجہ سے بچوں کی شادیاں اور دیگر ضروریات کی ادائیگی مشکل ہوگئی ہے سمجھ نہیں آتا کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ بزرگ نے فرمایا کہ دریائے چناب کے کنارے شور کورٹ جاؤ، وہاں سلطان العار فین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی مشکلات بیان کرنا، جب اسے امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی تو وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ سفر کرکے شور کوٹ پہنچا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس وقت کھیت میں ہل چلا رہے تھے، وہ شخص یہ دیکھ کر بہت مایوس ہوا اور سوچنے لگا جو شخص خود مفلسی کا شکار ہے اور ہل چلا کر گزر بسر کرتاہے وہ بھلا میری کیا مدد کرے گا، یہ سوچ کر جونہی پلٹا تو کسی نے اس کا نام لے کر پکارا وہ حیران ہوا کہ یہاں تو میں اجنبی ہوں پھر میرا نام پکارنے والا کون ہے؟، پلٹ کر دیکھا تو حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ اسے بلارہے تھے جب اس نے یہ ماجرا دیکھا تو دل میں امید پیدا ہوئی اور فورا آپ رحمہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں باادب حاضر ہوگیا۔

حضرت سلطان باہو رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: تم نے سفر کی تکالیف برداشت کیں اتنا فاصلہ طے کیا پھر بھی ہم سے ملے بغیر جارہے ہو، اس نے گریہ زاری کرتے ہوئے اپنی خستہ حالی کی داستان سنائی ، حضرت سلطان باہو علیہ الرحمہ نے اسی وقت زمین سے مٹی کا ایک ڈھیلا اٹھایا اور اسے زمین پر دے مارا جب اس شخص نے زمین پر نظر ڈالی تو کھیت میں موجود تمام پتھر اور ڈھیلے سونا بن گئے۔ ولی کامل حضرت سلطا ن باہو رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی بے نیازی سے فرمایا: اپنی ضرورت کے مطابق سونا اٹھا لو چنانچہ رئیس اور اس کے دوستوں نے وافر مقدار میں سونا اپنے اوپر لادا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اس کرم نوازی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہوگئے۔(مناقبِ سلطان، ص ۶۸، ملخصا وغیرہ)

دل کی بات جان لی :

مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں دو اشرفیوں کی تھیلیاں بھیجیں اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کنویں کے پاس بیٹھے کھیتوں کو پانی دے رہے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں تھیلیاں کنویں میں پھینک دیں وزیر کو بڑا تعجب ہوا اور اس کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ کاش یہ اشرفیاں مجھے مل جاتیں،آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دل کی بات جان لی اور جب کنویں کی طرف نظر فرمائی تو اس سے پانی کی بجائے اشرفیاں نکلنے لگیں آپ رحمہ اللہ علیہ کی یہ کرامت دیکھ کر وزیر آپ رضی اللہ عنہ کے قدموں میں گر گیا، آپ رحمہ اللہ علیہ نے ایک بار پھر اس پر نظرِ کرم فرما کر عشق حقیقی کا جام پلایا اوروہ دونوں اشرفیوں سے بھری تھیلیاں ا س کے حوالے کر دیں۔(باہو عین باہو، ص ۳۲۶،ملخصاً)