شب براءت کیسے گزاریں؟

Fri, 18 Mar , 2022
2 years ago

اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ نے ”شعبان المعظم“ کو اپنا مہینہ قرار دیا اورخاص طور پر اس کی پندرہویں رات یعنی شب براءت کی عظمت وفضیلت کو بیان کیا ہے اور اس میں عبادت ودعاوغیرہ کی خوب ترغیب ارشاد فرمائی ہے،یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف کرام اس رات میں کو عبادتِ الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے جیسا کہ منقول ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزيز رحمۃ اللہ علیہ شبِ براءت میں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔(تفسیرروح البیان،8/402) حضرت خالد بن مَعدان، حضرت لقمان بن عامر اور دیگر بزرگان دین رحمۃ اللہ علیہم شعبان کی پندرھویں(15ویں) رات اچھا لباس پہنتے، خوشبو، سُرمہ لگاتے اور رات مسجد میں (جمع ہو کر) عبادت کیا کرتے تھے۔(ماذا فی شعبان، ص75) یوں ہی تیسری صدی ہجری کے بزرگ حضرت ابو عبدالله محمد بن اسحاق فاکہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب شبِ براءت آتی تو اہلِ مکّہ کا آج تک یہ طریقۂ کار چلا آرہا ہےکہ مسجد ِحرام شریف میں آجاتےاور نَماز ادا کرتے ہیں، طواف کرتے اور ساری رات عبادت اور تلاوتِ قراٰن میں مشغول رہتےہیں، ان میں بعض لوگ 100 رکعت (نفل نماز) اس طرح ادا کرتے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھتے۔ زم زم شریف پیتے، اس سے غسل کرتے اور اسے اپنے مریضوں کے لئے محفوظ کر لیتے اور اس رات میں ان اعمال کے ذریعے خوب برکتیں سمیٹتے ہیں۔(اخبار مکہ،3/84) معلوم ہوا کہ شب براءت میں اہتمام کے ساتھ مساجد میں جمع ہونا،عبادات کرنا،تلاوت کرنا اور نوافل پڑھنا وغیرہ یہ صدیوں سے بزرگوں کا طریقہ چلا آرہا ہے۔

عام مسلمانوں کی طرف سے یہ سوال اکثر ہوتا ہے کہ ہم اس رات کو کیسے گزاریں ،کون سے ایسے اعمال بجالائیں کہ زیادہ سے زیادہ فوائدوبرکات حاصل ہوں ؟ استاد محترم مفتیٔ دعوتِ اسلامی شیخ الحدیث والتفسیر مفتی ابوصالح محمد قاسم قادری مدظلہ العالی سے مدنی چینل کے ایک پروگرام میں یہی سوال ہوا تو آپ نے شب براءت کو گزارنے کے لیے انتہائی اختصار کے ساتھ درج ذیل8 اعمال بتائے۔راقم نے افادہ عام کے لیے ان معمولات کو تحریری شکل دے دی ہے ، تحریر کے تقاضوں کے تحت کچھ ترمیم واضافہ بھی کردیا ہے اور جن احادیث مبارکہ ، آثار شریفہ اور روایات کریمہ کی روشنی میں استاد صاحب مدظلہ العالی نے یہ اعمال بیان کئے ان کو ذکر کردیا ہے تاکہ فضائل وبرکات پیش نظر رہیں اور مسلمان مزید اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ شب براءت کو گزار سکیں۔

(1)شب براءت میں نفل پڑھے جائیں کہ صلوۃ اللیل یعنی رات میں نفل پڑھنے کی ترغیب وفضیلت قرآن پاک میں آئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:قُمِ الَّیْلَ (پ29،المزمل :2) یعنی رات میں قیام فرمائیے ۔اور اللہ پاک رات میں رات میں نفل ادا کرنے والا کا ذکر یوں فرماتا ہے:وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا (پ19،الفرقان:64) ترجمہ:اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں ۔شعبان المعظم کی پندرہویں شب کے علاوہ بھی راتوں میں کچھ نہ کچھ نفل پڑھنے چاہیں کہ عبادت کے ساتھ شب بیداری کرنا اللہ پاک کے آخری نبیﷺ کی سنت اور صحابہ کرام وبزرگان دین کے معمولات سے ہے۔

(2)شب براءت میں بطور خاص ”صلوۃ التسبیح“ ادا کیجئے کہ حدیث پاک میں فرمایا: اگر تو یہ نماز پڑھے گا تو اللہ پاک تیرے اگلے پچھلے، نئے پرانے ، جو بھول کر کئے اور جو جان بوجھ کر کئے، چھوٹے بڑے ،پوشید ہ اور ظاہر تمام گناہ معاف فرما دے گا۔(سنن ابن ماجہ،حدیث:1374)حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : بہتر یہ ہے کہ شبِ براءت میں صلوٰۃُ التسبیح بھی ادا کر لی جائے کیونکہ یہ کسی شک و شبہ کے بغیر صحیح طور پر ثابت ہے۔( مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری ،3 / 51)

(3)شب براءت میں کلمہ طیبہ کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا جائے کہ افضل ترین ذکر ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل ذکرلَا إِلٰـہَ إِلَّا اللہُ ہے اور سب سے افضل دعا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ہے۔(سنن ترمذی،حدیث:3394) نیز فرمایا:’’جس بندے نے اخلاص کے ساتھ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللہُ کہا تو آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ کلمہ عرش تک پہنچ جاتا ہے جبکہ کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔(سنن ترمذی ،حدیث:3590)

(4) اس بابرکت رات کو” سُبْحَانَ ﷲ اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ “ کی کثرت کی جائے کہ یہ اللہ پاک کو بہت پسند ہیں۔حدیث پاک میں فرمایا:100 مرتبہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہہ لیا کر و کہ یہ تمہا رے لئے سو کجاوے اور زین والے گھوڑے راہ خدا میں دینے سے بہتر ہے۔(مسند احمد،حدیث:26977)نیزرحمت عالم ﷺنے ارشادفرمایا:کیا تم میں سے کوئی رو زانہ ایک ہزار نیکیاں کرنے سے عا جز ہے؟ایک شخص نے عرض کی:کوئی ایک ہزار نیکیا ں کیسے کما سکتا ہے؟فرمایا:اگروہ سو مرتبہ سُبْحَانَ ﷲ کہے تو اس کے ‏لیے ایک ہزار نیکیا ں لکھی جا تی ہیں یا ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جا تے ہیں ۔ (صحیح مسلم،حدیث:2698)

(5)مبارک رات میں پیارے آقاﷺ پر بکثرت درود شریف پڑھا جائے یعنی آپ ﷺ کے لیے رحمت کی دعا کی جائے کہ اس کی برکت سے ہمارے گناہ معاف ہوں گے۔حدیث شریف میں فرمایا: میرا جو اُمتی اخلاص کے ساتھ مجھ پر ایک مرتبہ درودِ پاک پڑھے گا اللہ پاک اس پر 10رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے 10درجات بلند فرمائے گا، اس کے لئے 10نیکیاں لکھے گا اور اس کے 10 گناہ مٹا دے گا۔(سنن کبری للنسائی،حدیث:9892)

(6)شب براءت میں استغفاریعنی دعائے مغفرت اوررزق و عافیت کی دعا بہت زیادہ کرنی چاہیے کہ اس کی خاص طور پر ترغیب ارشاد ہوئی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:جب نصف شعبان کی رات (شب براءت)آئے تو اس کی رات میں قیام کیا کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھاکرو کہ اللہ پاک غروبِ آفتاب سےآسمان دنیا پر خاص تجلّی کرتا اور فرماتا ہے:”ہے کوئی مغفرت چاہنے والاکہ اس کی مغفرت فرماؤں ،ہے کوئی رزق کا طلب گا ر کہ اسے رزق عطا فرماؤں ، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اسے عافیت دوں، ہے کوئی ایسا !ہے کوئی ایسا!۔۔۔۔“ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوکرآتی ہے۔(سنن ابن ماجہ،حدیث:1388)

(7)اس مقدس رات میں قرآن کریم کی تلاوت بھی کی جائے کہ تلاوت قرآن بے انتہا برکتوں،رحمتوں اور سعادتوں کے حصول کا ذریعہ ہے،یہ بڑی عظیم عبادت ہے اور اس پر بہت زیادہ اجروثواب ہے۔حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص کتابُ اللہ کا ایک حَرف پڑھے گا، اُس کو ایک نیکی ملے گی جو10 کے برابر ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا الٓـمّٓ ایک حَرف ہے،بلکہ اَلِف ایک حَرف،لام ایک حَرف اور میم ایک حَرف ہے۔(سنن ترمذی،حدیث:2919) اور قرآن پاک کو تو دیکھنا بھی عبادت بتایا گیا۔حدیثِ پاک میں ہے:اَلنَّظْرُ فِی الْمُصْحَفِ عِبَادَۃٌ یعنی قرآنِ مجید کو دیکھنا عبادت ہے۔(شعب الایمان،حدیث:7560)

(8)شب براءت میں قبروں کی زیارت کی جائے کہ اس رات قبرستان جانا رسول کریمﷺ کے عمل مبارک سے ثابت ہے اور زیارت قبور سے عبرت حاصل ہوتی ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاکﷺکو نہ پایا۔ میں آپ کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ پاک شعبان کی پندرھویں رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(سنن ترمذی،حدیث:739) رسول اکرمﷺ نے فرمایا:میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا(اب میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ)ان کی زیارت کرو۔(صحیح مسلم ،حدیث:104)نیز آپ ﷺ نے فرمایا: سن لو! قبروں کی زیارت کرو کہ وہ تمہیں دنیا سے بے رغبت کرے گی اور آخرت یاددلائے گی۔(سنن ابن ماجہ،حدیث:1571، مستدرک، حدیث:1425)

ہمارے ہاں پاک وہند میں عام طور پر شب براءت میں قبرستان جانے کا رواج ہے ۔اگر اچھی نیت کے ساتھ حاضر ہوا جائے تو یہ ایک اچھا عمل ہےلیکن اسے صرف ایک رات تک محدود نہ کیاجائے بلکہ عام دنوں بالخصوص جمعہ کے دن قبرستان کی حاضری کواپنا معمول بنانا چاہیے تاکہ دل گناہوں سے اُچاٹ ہو اور قبر و آخرت کی فکر پیدا ہو اور یہ بھی یاد رہے کہ قبرستان میں مذاق مسخری بالکل نہ کی جائے کہ دل کی سختی کا باعث ہے اور زیارت قبور کرتے وقت یہ احتیاط کی جائے کہ ہمارے پاؤں کسی قبر پر نہ پڑئیں اور نہ قبروں کو پھلانگیں اور نہ قبروں پر بیٹھیں اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ عورتوں کو زیارت قبور منع ہے۔ حدیث میں ہے: لعن اﷲ زائرات القبور یعنی اﷲ کی لعنت ان عورتوں پرجو قبروں کی زیارت کوجائیں۔(عمدۃ القاری شرح البخاری،8/69)

14شعبان المعظم1443ھ

مطابق18مارچ2022ء


ربِّ کریم کا اپنےبندوں پر یہ فضل و اِحسان ہے کہ مسلمان جس دن یا جس رات کو بھی ذکرِ الہٰی اور عبادت و طاعت کی بجاآوری میں  بسر کریں، وہ بارگاہِ صمدیت میں محمودقرارپاتی ہے۔ لیکن بعض ایام اور راتیں ایسی ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ نیک اَعمال کرنے کی ترغیب شریعتِ مطہرہ میں موجودہے اور اِس پر خاص اِنعاماتِ رَبانی اور بارگاہِ الہٰی سے اپنےبندوں کے لئے بخشش ومعافی کی بِشارتیں خودسراجِ مُنیر،رسولِ بشرﷺنے سُنائی ہیں۔اُنہیں عظمت والی راتوں میں سےایک رات شعبان المعظَّم کی نصف رات ہےجسے’’شبِ براءَت‘‘ کہاجاتا ہے۔سرکارِ اقدسﷺ نےاپنی اُمّت کو15 شعبان کی رات عبادت میں گزارنےاوراس کےدن میں روزہ رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی ہے۔نیز اس رات میں رزّاق و رحمٰن عزوجل کی خاص تجلیوں، بخششوں اور عنایتوں کا بیان فرمایاہے۔

تجلّیات والی رات: چنانچہ’’سنن ابنِ ماجہ‘‘ میں حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ رسولِ عظیمﷺ نےارشادفرمایا: اِذَا کَانَ لَیْلَۃُ النَّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُوْمُوْا لَیْلَھَا وَ صُوْمُوْا نَھَارَھَا، فَاِنَّ اللہَ یَنْزِلُ فِیْھَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ:اَلَامِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاَغْفِرَ لَہُ، اَلَا مُسْتَرْزِق فَاَرْزُقَہُ، اَلَا مُبْتَلی فَاُعَافِیَہُ، اَلَا کَذَا، اَلَا کَذَا حَتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ۔ جب شعبان کی پندرھویں رات آجائے تو اُس رات قیام کرو اور دن میں روزہ رکھوکہ رب تبارک وتعالیٰ غُروبِ آفتاب سے آسمانِ دُنیا پر خاص تجلّی فرماتاہے اور فرماتاہے: کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ اُسے بخشش دوں ، ہے کوئی روزی طلب کرنےوالا کہ اُسے روزی دوں، ہے کوئی مبتلا (یعنی مصیبت زدہ) کہ اُسےعافیت دوں، ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا اور یہ اس وقت تک فرماتاہے کہ فجر طلوع ہوجائے۔ (سنن ابن ماجہ،2/160، حدیث:1388)

پچھلی راتِیں رَحمت ربّ دِی کرے بلند آوازاں

بخشش مَنگن والِیاں کارَن کُھلا ہے دروازہ

عظمت والی راتیں: علمائے اسلام نےبھی عظمت والی راتوں میں ’’شبِ براءت‘‘ کاشُمارفرمایاہےاوران راتوں میں خاص طورپر عبادت کرنےکو مستحب قرار دیاہے۔ چنانچہنورُالاِیضاح میں ہے: نُدِبَ اِحْیَاءُ لَیَالِی العَشْرِ الْاَخِیْرِ مِنْ رَمَضَانَ وَ اِحْیَاءُ لَیْلَتَیِ الْعِیْدَیْنِ وَ لَیَالِی عَشْرِ ذِی الْحِجَّۃِ وَ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ۔ رَمضان المبارَک کی آخری دس راتوں،عیدَین (عیدالفِطر اور عیدالاَضحیٰ) کی راتوں، ذوالحجہ الحرام کی (پہلی) دس راتوں اور نصف شعبان کی رات(شبِ براءت) کوزندہ کرنا (یعنی اِن راتوں کو عبادات میں گُزارنا)مستحب ہے۔ (نورالایضاح،ص205-206 ، مكتبة المدينه)

شبِ براءت سےمتعلق ’’دُرِّ مختار‘‘میں ہےکہ: شبِ براءَت میں شب بیداری(کرکےعبادت)کرنامستحب ہے۔ (درمختار، ج2، ص568)

لہٰذا اِس رات میں فضولیات اور گناہوں سے بچ کر فرائض و وَاجبات اور سننِ مؤکَّدہ و غیر مؤکَّدہ کی بجاآوری کےساتھ ساتھ نفلی نمازوں،تلاوتِ قرآن پاک، ذکر و دُرود،نفلی صدقات و خیرات اور فوت شُدہ عزیز و اَقارب اور دیگر مسلمانوں کے لئے فاتحہ و اِیصالِ ثواب کاخاص اہتمام کرنا چاہئے۔

مرحومین منتظر رہتےہیں: فوت شُدہ مسلمان عالمِ برزَخ میں زندوں کی طرف سےکئےجانےوالےصدقےاور دُعائےمغفرت کےمنتظر رہتے ہیں۔ چُنانچہ امام جلالُ الدین عبدالرحمن بن ابوبکر سُیوطی شافعی رحمۃُاللہ علیہ(المتوفّی911ھ) اپنی مشہورکتاب’’شرحُ الصدور‘‘میں نقل فرماتے ہیں کہ رسولِ خُدا،حبیبِ کبریاﷺ نے ارشادفرمایا:قبر میں مُردے کا حال ڈوبتےہوئےانسان کی مانند ہے جو شِدّت سےاِنتظار کرتاہےکہ باپ یا ماں یا بھائی یا کسی دوست کی دُعا اس کو پہنچےاور جب کسی کی دُعااسے پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیا و ما فیہا (یعنی دنیا اوراس میں جوکچھ ہے) سب سے بہترہوتی ہے۔ اللہ عزوجل قبروالوں کو ان کےزندہ مُتعلقین کی طرف سے ہَدِیَّہ کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانِند عطا فرماتاہے، زندوں کا تحفہ مُردوں کے لئے’’دعائےمغفرت کرنا‘‘ہے۔ (فردوس الاخبار،2/336،حدیث:6664)، (شعب الایمان،باب فی برالوالدین،6/203،حدیث:7905)، (شرح الصدور ’’متَرْجَم‘‘،ص518،مکتبۃالمدینۃ)

رُوحیں گھروں پر آتی ہیں: عظمت والےدِنوں اور راتوں بشمول ’’شبِ براءَت‘‘میں فوت شُدہ مسلمانوں کی رُوحیں اپنے گھروں پر آکر صدقہ و خیرات کا سوال کرتی ہیں۔اس بارےمیں اعلیٰ حضرت،امامِ اہل سنت رحمۃُاللہ علیہ ایک روایت نقل فرماتے ہیں،اُس کاترجمہ ملاحظہ ہو: ’’غرائباورخزانہ میں منقول ہے کہ مؤمنین کی رُوحیں ہر شبِ جمعہ ،روزِعید،روزِ عاشوراء اور شبِ برات کو اپنے گھر آکر باہر کھڑی رہتی ہیں اور ہر رُوح غمناک بلند آواز سے نداکرتی ہے کہ اے میرے گھر والو! اے میری اَولاد،اےمیرےقرابت دارو! صدقہ کرکےہم پر مہربانی کرو۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ،9/650،رضافاؤنڈیشن لاہور)

نیز’’خزانۃ الروایات‘‘کے حوالے سے ایک روایت نقل فرماتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سےروایت ہے جب عید یا جمعہ یا عاشورےکادن یا شبِ برات ہوتی ہے،اَموات (فوت شُدہ افراد)کی رُوحیں آکر اپنےگھروں کےدروازوں پر کھڑی ہوتی اور کہتی ہیں:ہے کوئی کہ ہمیں یاد کرے،ہے کوئی کہ ہم پر تَرس کھائے،ہےکوئی کہ ہماری غربت کی یاد دلائے۔ (فتاویٰ رضویہ، 9/653،رضافاؤنڈیشن لاہور)

ہمارےقریبی رشتہ دار اوردوست و اَحباب جیسے ہی فوت ہوکر عالَمِ دُنیا سےعالَمِ برزخ کی طرف منتقل ہوتے ہیں تو آنکھوں سےاُن کےغائب اورنہاں ہونےکی وجہ سے رَفتہ رَفتہ ہم اُنہیں بُھول جاتے ہیں،لیکن یاد رکھیں۔۔۔ وہ ہمیں نہیں بھولتےاور ہماری طرف سےدعائے مغفرت اورایصالِ ثواب کے منتظر رہتےہیں۔توجس طرح ہم اپنےوالدین،اَولاد،بہن بھائی،عزیز و اَقارِب اور دوست و اَحباب وغیرہ کی دُنیوی زندگی میں اُن پر اپنا مال خرچ کرتےہیں،اُنہیں اپنا وقت اور توجہ دےکراُن کی دلجوئی کاسامان کرتے ہیں،یوہیں ہمیں چاہئےکہ ان کےدُنیاسےچلےجانےکےبعدبھی اُنہیں اپنی دعاؤں، صدقہ و خیرات اورنیکیوں پر حاصل ہونےوالےاَجر و ثواب میں شریک کرتےرہاکریں۔خصوصاً بڑےدِنوں مثلاً یومِ عرفہ(9ذوالحجہ کےدن)،یومِ عاشورا (10محرم الحرام کےدن)،عیدالفطراورعیدالاَضحیٰ وغیرہ کےدن،نیز بڑی راتوں مثلاً رَمضان شریف کی راتوں،عیدَیْن (عیدالفِطراورعیدالاَضحیٰ)کی راتوں،ذوالحجہ الحرام کی(پہلی) دس راتوں اور نصف شعبان کی رات(یعنی شبِ براءت) وغیرہ میں خوب عبادت، دعائےمغفرت اورصدقہ و خیرات کرکےاپنےمرحومین اورتمام مؤمنین کو ایصالِ ثواب کا اہتمام کرنا چاہئے۔

ہے کون کہ گِریہ کرے یا فاتحہ کو آئے

بیکس کےاُٹھائےتِری رحمت کےبَھرن پھول

(حدائقِ بخشش،ص79)

حَرَّرَہُ : ابوالحقائق راشدعلی رضوی عطاری مدنی

شبِ منگل،13شعبان المعظَّم1441ھ،مطابق6اپریل2020ء


فضائلِ شبِ براءت:

خالق کائنات کی طرف سے امت ِمحمدیہ کو سال میں چند راتیں ایسی ملی ہیں جن میں خوب اللہ پاک کی رحمتوں، برکتوں کا نزول ہوتا ہےاور رحمت الہٰی کی چھما چھم بارشیں ہوتی ہیں۔ ان میں عبادت و ریاضت اور دعائیں مانگنے والے شخص کو بارگاہ ِربُّ العزت سے محروم نہیں کیا جاتا، ان راتوں میں جو شخص بیدار رہ کر عبادت کرتا ہے اُسے جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ اُن بابرکت راتوں میں سے ایک شعبان المعظم کی پندرہویں رات شب براءتبھی ہے ۔ یہ شب ان پانچ راتوں میں بھی شامل ہے جن میں دُعا ئیں رد نہیں کی جاتیں۔ ذیل میں ہم شبِ براءت کی فضیلتوں اور برکتوں پر کچھ روایات ذکرکررہے ہیں اور اس رات کی جانے والی عبادات بھی بیان کررہے ہیں۔

شبِ براءت کی فضیلت پر احادیثِ مبارکہ:

٭اُم المؤمنین حضرت سیدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے: (1)بقر عید کی رات (2)عیدالفطر کی رات (3)شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اِس سال)حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں (4)عرفہ کی رات اذانِ (فجر)تک۔ (در منثور، الدخان، تحت الآیۃ: ، 4 / ۴۰۲)

٭حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے پانچ راتیں بیدار رہ کر عبادت میں گزاریں اس کے لئے جنت واجب ہے۔ وہ راتیں یہ ہیں: لیلۃ الترویہ، لیلۃ النحر، لیلۃ عرفہ (نویں اور دسویں ذوالحجہ کی رات)، عید الفطر کی شب اور شب براءت۔ (الترغیب والترہیب (منذری)، 2/ 98)

٭سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی۔ ماہ رجب کی پہلی رات، پندرہویں شعبان کی رات (شب براءت)، جمعہ کی رات، عید الفطر کی رات اور عید الاضحٰی کی رات۔ (فردوس الاخبار، ۱/۳۷۷، الحدیث ۲۷۹۷)

شب براءت کے معنیٰ:

ماہ شعبان المعظم کی پندرہویں رات کو” شب براءت“ کہا جاتا ہے۔شب کے معنی ”رات“ اور براءت کے معنیٰ نجات کے ہیں، یعنی اس رات کو ”نجات کی رات“ کہا جاتا ہے چونکہ اس رات کو مسلمان عبادت و ریاضت میں گزار کر جہنم سے نجات حاصل کرتے ہیں اس لئے اس رات کو شبِ براءت کہا جاتا ہے۔(بارہ ماہ کی عبادات، ص108)

شب براءت کے چند نام:

حضرت علامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ نقل کرتے ہیں: شبِ براءت کے چار نام ہیں: (1)لیلۃ المبارکۃ (برکت والی رات) (2)لیلۃ البراءۃ (نجات والی رات) (3)لیلۃ الصَّکِّ_ (دستاویز والی رات) (4)لیلۃ الرحمۃ (رحمت والی رات)۔

مزید فرماتے ہیں: اسے لیلۃ البراءۃ اور لیلۃ الصَّک(نجات و دستاویزات والی رات) اس لئے کہتے ہیں کہ جب تاجر مالک سے اُس کا اناج وصول کرلیتا ہے تو اس کے لئے براءت نامہ لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک اس رات اپنے مؤمن بندوں کے لئے براءت نامہ لکھ دیتا ہے۔ (مجموع رسائل العلامہ الملا علی قاری، الرسالۃ:التبیان فی بیان ما فی لیلۃ النصف من شعبان، 3/41)

اس رات کے بارے میں اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِۙۛ(۲) اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ(۳) فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ(۴)

ترجمہ کنز الایمان: قسم اس روشن کتاب کی،  بےشک ہم نے اُسے برکت والی رات میں اُتارا ،بےشک ہم ڈر سنانے والے ہیں،  اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ (سورۃ الدخان، آیت2تا 4)

اکثر مفسرین کے نزدیک برکت والی رات سے شبِ قدر مراد ہے اور بعض مفسرین اس سے ”شبِ براء ت “مراد لیتے ہیں ۔(تفسیرصراط الجنان، سورۃ الدخان، آیت2تا 3)

عبادات شب براءت:

شب براءت میں جس طرح بھی ممکن ہو ہمیں تمام تَر وقت (غروب آفتاب سے طلوع فجر تک) عبادت الہی میں ہی گزرنا چاہیئے مثلاً ذکر و اذکار، درود و سلام اور تلاوت ِقرآنِ پاک الغرض جو بھی ممکن ہوسکے۔ لیکن عاشقان رسول کی آسانی کے لئے چند نوافل ذکر کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ وہ اس رات اپنے لئے ثواب کا ذخیرہ جمع کرسکیں۔

مغرب کے بعد چھ نوافل:

حضرت علامہ سیّد محمد مرتضیٰ زبیدی حسینی رحمۃُ اللہِ علیہ شعبانُ المعظم کے چھ نوافل کے بارے میں فرماتے ہیں: شبِ براءت کی عبادت سے متعلق دورِ اسلاف سے لے کر اب تک صوفیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم کا یہ معمول چلا آرہا ہے کہ اس رات نمازِ مغرب کے بعد چھ رکعتیں دو دو کرکے ادا کی جائیں ، ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورۂ فاتحہ اور چھ بار سورۂ اخلاص پڑھی جائے۔ ہر دو رکعات کے بعد ایک بار سورۂ یسین اور دعائے نصف شعبان پڑھی جائے۔ پہلی دو کے ذریعے اللہ پاک سے عمر میں برکت ، دوسری دو کے ذریعے رزق میں برکت اور تیسری دو رکعات کے ذریعے اچھے خاتمہ کا سوال کیا جائے۔ اسلافِ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے ذکر فرمایا ہے کہ جو اس طریقے کے مطابق یہ نوافل ادا کرے گا اس کی مذکورہ حاجتیں پوری کی جائیں گی۔ مزید فرماتے ہیں : یہ معمولاتِ مشائخ میں سے ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین ، 3 / 708)

سورۂ یٰسین شریف پڑھنے میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک اسلامی بھائی بلند آواز سے قراءت کرے اور دوسرے خاموشی سے سنیں لیکن اس میں یہ خیال رہے کہ سننے والا اِس دوران زبان سے یٰسین شریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے۔

یہ مسئلہ خوب یاد رکھئے کہ جب قرآنِ کریم بلند آواز سے پڑھا جائے تو جو لوگ سننے کے لئے حاضر ہیں اُن پر فرضِ عین ہے کہ چپ چاپ خوب کان لگا کر سُنیں۔ اِنْ شَآءَاللہ رات شروع ہوتے ہی ثواب کا اَنبار لگ جائے گا۔ ہر بار یٰسین شریف کے بعد’’دُعائے نصف شعبان‘‘بھی پڑھئے۔ (رسالہ”آقا کا مہینہ“ ص15)

دعائے نصف شعبان

مفتیِ مالکیہ حضرت شیخ سالم بن محمد سنھوری مصری رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو بندہ یہ دعا مانگے گا اس کے رزق میں وسعت کردی جائے گی :

اَللّٰھُمَّ یَاذَا الْمَنِّ وَلَا یُمَنُّ عَلَیْہِ ، یَاذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ، یَاذَاالطَّوْلِ وَ الاِنْعَامِ ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ، ظَھْرُ اللَّاجِئِیْنَ وَجَارُالْمُسْتَجِیْرِ یْنَ وَمَأْمَنُ الْخَائِـفِیْنَ، اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ عِنْدَکَ فِیْ اُمِّ الْکِتَابِ شَقِیّاً فَامْحُ عَنِّیْ اِسْمَ الشَّقَاوَۃِ ، وَ اَثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ سَعِیْدًا ، وَ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ عِنْدَکَ فِیْ اُمِّ الْکِتَابِ مَحْرُوْمًا مُقَتَّرًا عَلٰی رِزْ قِیْ فَامْحُ حِرْمَانِیْ وَیَسِّرْ رِزْ قِیْ وَاَ ثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ سَعِیْدًا مُوَفِّقاً لِلْخَیْرَ اتِ ، فَاِنَّکَ تَقُوْلُ فِیْ کِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَ لْتَ ( یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚ وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ(۳۹) (پ13 ، الرعد : 39)( مصنف ابن ابی شیبہ،7 / 85بتغیرقلیل)

 اِلٰہِیْ بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِ فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ الْمُکَرَّمَ ، الَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْہَا کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَیُبْرَمُ ، نَسْاَ لُکَ اَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَاءِ مَانَعْلَمُ ، وَمَا لَانَعْلَمُ وَمَا اَنْتَ بِہٖ اَعْلَمُ ، اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعِزُّ الْاَکْرَمُ ، وَصَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَ سَلَّم (الکشف والبیان عن فضائل لیلۃ النصف من شعبان ، ص 27 واللفظ لہ ،  نعت البدایات ، ص 197 بتغیر)

صلاۃُ التسبیح کی اہمیت و فضیلت :

پیارے پیارے اسلامی بھائیو !زہے نصیب کہ شبِ براءت میں دیگر عبادات و نوافل کے ساتھ ساتھ صلوۃُ التسبیح کے نفل بھی ادا کر لئے جائیں جیساکہ حضرت علامہ علی بن سلطان قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بہتر یہ ہے کہ شبِ براءت میں صلوٰۃُ التسبیح بھی ادا کر لی جائے کیونکہ یہ کسی شک و شبہ کے بغیر صحیح طور پر ثابت ہے۔ (مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری ، الرسالۃ : التبیان فی بیان مافی لیلۃ النصف من شعبان۔۔ الخ ، 3 / 51)

صلاۃُ التسبیح کی فضیلت پر حدیث:

ہمارے پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے چچا حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو صلوۃُ التسبیح کا تفصیلی طریقہ بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا : میرے چچا جان!اگرروزانہ یہ نماز ادا کرسکیں توضرور کریں ، اگر روزانہ نہ ہوسکے تو ہرجمعہ کواور اگر ایسا بھی نہ کرسکیں تو ہر مہینے ادا کرلیا کریں ، یہ بھی نہ ہوسکے توسال میں ایک مرتبہ ادا کرلیا کریں اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ ادا کرلیں۔ (ابو داؤد ، کتاب التطوع ، باب صلوۃ التسبیح ، 2 / 45، الحدیث : 1297)

صلاۃُ التسبیح کا طریقہ

اس نماز کو اس ترتیب سے پڑھیں کہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد ثَناء پڑھیں پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے : سُبْحٰنَ اﷲِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَر پھر اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم اور بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم سورۂ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر رکوع سے پہلے دس بار یہی تسبیح پڑھے پھر رکوع کرے اور رکوع میں سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم تین مرتبہ پڑھ کر پھر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر رکوع سے سر اٹھائے اور سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد پڑھ کر پھر کھڑے کھڑے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر پہلے سجدے میں جائے اور تین مرتبہ سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پڑھ کر پھر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر سجدہ سے سر اٹھائے اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر دوسرے سجدہ میں جائے اور سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی تین مرتبہ پڑھےپھراس کےبعدیہی تسبیح دس مرتبہ پڑھےاسی طرح چار رکعت پڑھے اور خیال رہے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے پندرہ مرتبہ اور باقی سب جگہ یہ تسبیح دس دس بار پڑھے یوں ہر رکعت میں 75مرتبہ تسبیح پڑھی جائے گی اور چار رکعتوں میں تسبیح کی گنتی تین سو مرتبہ ہوگی۔ ( بہار شریعت ، حصہ 4 ، 1 / 683)

ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کریں گے :

حضرت علامہ علی بن سلطان قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شبِ براءت میں سورۂ الدُخّان پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو رات میں حٰم الدُّخان کی تلاوت کرےگا تو وہ صبح اس حال میں کرے گا کہ ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہوں گے۔ (ترمذی،4/406، الحدیث 2897)

جنت کی خوشخبری :

حضرت علامہ احمد بن محمدصاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو کوئی شبِ براءت میں 100رکعت پڑھے گا تو اللہ کریم اس کے پاس 100فرشتے بھیجے گا ، جن میں سے 30 فرشتے اسے جنت کی بشارت دیں گے ، 30عذابِ نار سے بچائیں گے ، 30 اس سے دنیوی آفتیں دور کریں گے اور10 فرشتے اس سے شیطان کے مکرو فریب دور کریں گے۔ (حاشیۃ الصاوی، الدخان، تحت الایۃ : 2 ، 5 / 1908)

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس رات عبادات کرنے اور زیادہ سے زیادنیکیاں کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیّین الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مولانا حسین علاؤالدین عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی


سراج الاُمَّہ، امامُ الاَئِمَّہْ، فَقِیْہِ اَفْخَمْ،اِمام ِاعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے علم و فضل کا آفتاب بنایا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور لقب ’’ امامُ الاَئِمَّہ‘‘ہے،جس کا معنی’’اماموں کا امام‘‘ ہے۔ علمِ تفسیر،علمِ حدیث،علمِ فقہ اور دین کے دیگر فنون کے ماہرین،علماء اورائمہ کا اگر شجرہ علمی دیکھا جائے تو وہ اُوپر جا کر امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی سے جاملتا ہے اور بعد کے ائمہ و علماء بالواسطہ یا بلاواسطہ امامِ اعظم رضی اللہ عنہ کے شاگرد بنتے ہیں۔ مثلاً فقہ کے ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا شجرہ علمی ملاحظہ ہو:

٭ امام ِمالک : یہ امام اعظم کے بلا واسطہ شاگرد ہیں۔

٭ امام شافعی : امام اعظم کے شاگرد امام محمداور امام محمد کے شاگرد امام شافعی ہیں۔

٭ امام احمد بن حنبل : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی اور امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل ہیں۔

علم حدیث کے ہزاروں علمائے کرام،محدثین کا شجرہ علمی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے۔ سرِدَست چھ مشہور ائمہ،اصحاب صحاح ستہ یعنی امام بخاری،امام مسلم،امام ابوداؤد،امام نسائی،امام ترمذی اور امام ابن ماجہ کا شجرہ علمی ملاحظہ ہو:

٭ امام بخاری : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام بخاری ہیں۔

٭ امام مسلم : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی، امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام مسلم ہیں۔

٭ امام ابوداؤد : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام ابوداؤد ہیں۔

٭ امام نسائی : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل،امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام ابو داؤد اور امام ابو داؤد کے شاگرد امام نسائی ہیں۔

٭ امام ترمذی :امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل،امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام بخاری اور امام بخاری کے شاگرد امام ترمذی ہیں۔

٭ امام ابن ماجہ : امام اعظم کے شاگرد امام عبداللہ بن مبارک،امام عبداللہ بن مبارک کے شاگرد امام ابوبکر بن ابی شیبہ اور امام ابو بکر بن ابی شیبہ کے شاگرد امام ابن ماجہ ہیں۔

وللہ الحمد ۔

اللہ کریم ہمیں بھی امام ِاعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا علمی و روحانی فیضان نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین  صلی اللہ علیہ وسلم

کَتَبَہُ: ابوالحقائق راشدعلی عطاری رضوی مدنی۔


برکاتِ نام محمد

Wed, 9 Mar , 2022
2 years ago

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات و صفات کو اللہ پاک نے بےشمار خوبیوں اور کمالات سے نوازا ہے،آپ کی شان و عظمت یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی آپ سے نسبت ہوجائے تو اس چیز کی عظمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کا مقام و مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت و اخلاق کی طرح آپ ﷺ کے نام مبارک کی برکتیں بھی بے شمار ہیں۔

آنحضرتﷺ کے دو مشہور نام:

یوں تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم کے بہت سے نام ہیں مگر دو نام ”محمد“ اور” احمد“ بہت مشہور ہیں، نام محمد کے معنی ہیں ”بہت ہی حمد کئے ہوئے“ ۔

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ آپ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )ابھی میرے شکم میں تھے کہ والدِ نامدار حضرت عبداللہ رضی اللہُ عنہ نے سفر کی حالت میں مدینۃ المنورہ میں انتقال فرمایا اور کسی نے خواب میں آ کر مجھے پاؤں کی جُنبش سے اُٹھا یا اورارشاد فرمایا:اے آمنہ!تجھے بشارت ہو کہ تیرے شکمِ اطہر میں پرورش پانے والی ذات تمام جہانوں سے بہتر ہے، جب ان کی ولادت ہوجائے تو ان کا نام محمد رکھنا اور اپنے اس معاملے پر کسی کو آگاہ نہ کرنا۔([1])

اگر ہم بھی اس مُعزز و مُکرم نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اپنے بیٹوں کا نام محمد رکھیں تویہ مُبارک نام ہماری بخشش و مغفرت کا ذَرِیعہ بن سکتاہے چنانچہ نام محمد کی فضیلت پر چند احادیث ملاحظہ ہوں۔

(1) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :جو میری محبت کی وجہ سے اپنے لڑکے کا نام محمد یا احمد رکھے گا اللہ پاک باپ اور بیٹے دونوں کو بخشے گا ۔([2])

(2) بروزِ قیامت دو شخص اللہ پاک کے حضور کھڑے کئے جائیں گے،حکم ہو گا اِنہیں جنت میں لے جاؤ! وہ عرض کریں گے : اے ہمارےرب!ہم کس عمل کی بدولت جنت کے قابل ہوئے، ہم نے توکوئی کام جنت کا نہیں کیا؟ اللہ پاک فرمائے گا :جنت میں جاؤ !میں نے قسم ارشاد فرمائی ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہو وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔([3])

(3) جس مشورے میں اِس نام (یعنی محمدنام) کا آدمی شریک ہو اس میں برکت رکھی جاتی ہے ۔([4])

(4)تمہارا کیا نقصان ہے کہ تمہارے گھروں میں دو یا تین محمد ہوں۔([5])

(5) رحمتِ عالم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے میرے نام سے برکت کی امید کرتے ہوئے میرے نام پر نام رکھا،قیامت تک صبح وشام اس پر برکت نازل ہوتی رہے گی ۔([6])

(6) مولا مشکل کشا حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم بیٹے کا نام محمد رکھو تو اس کی عزّت کرو اور مجلس میں اس کے لئے جگہ کشادہ کرو اور اس کی نسبت برائی کی طرف نہ کرو ۔ ([7])

صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:محمد بہت پیارا نام ہے،اس نام کی بڑی تعریف حدیثوں میں آئی ہے ۔اگر تصغیر کا اندیشہ نہ ہو تو یہ نام رکھا جائے اور ایک صورت یہ ہے کہ عقیقہ کا نام یہ ہو اور پکارنے کے لئے کوئی دوسرا نام تجویز کر لیا جائے ، اس صورت میں نام کی بھی برکت ہو گی اور تصغیر سے بھی بچ جائیں گے۔ جب کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے تو اسے چاہيے اِس نامِ پاک کی نسبت کے سبب اس کے ساتھ حسن ِ سلوک کرے اور اس کی عزت کرے ۔

یادرکھئے ! جن کے نام محمد و احمد یا کسی مُقدس ہستی کے نام پر رکھے جائیں تو ان کا اَدب بھی ہم پر لازِم ہے۔ لیکن فی زمانہ ہمارے معاشرے میں نام تو اچھے اچھے رکھے جاتے ہیں لیکن بَدقِسمتی سے ان مبارک اَسماء کا احترام بالکل نہیں کیا جاتا اور ا نہیں بگاڑ کر عجیب و غریب ناموں سے پکارا جاتا ہے حالانکہ ہمارے اَسلافِ کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کی یہ عادت کریمہ تھی کہ مُقدس ناموں کا حتی الامکان اَدب واحترام بجا لایا کرتے چنانچہ مشہور بادشاہ،سُلطان محمود غَزنوی ایک زَبر دَست عالمِ دین اور صوم و صلوٰۃ کے پابندتھے اور باقاعدگی کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کیا کرتے آپ نے اپنی ساری زِندگی دینِ اسلام کے مُطابق گزاری اور پرچمِ اسلام کی سربُلَندی اور اِعلائے کلمۃ اللہ کے لئے بہت سی جنگیں لڑیں اورفتح یاب ہوئے ۔ آپ شجاعت وبہادری کے ساتھ ساتھ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عظیم مَنصب پر بھی فائز تھے۔آپ کے فرمانبردار غلام ایازکا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد تھا۔محمود غزنوی رحمۃُ اللہِ علیہ جب بھی اس لڑکے کو بُلاتے تو اس کے نام سے پُکارتے،ایک دن آپ نے خِلافِ معمول اُسے اے اِبنِ ایاز ! کہہ کر مُخاطب کیا۔ ایاز کو گمان ہوا کہ شاید بادشاہ آج ناراض ہیں اس لئے میرے بیٹے کو نام سے نہیں پکارا ، وہ آپ کے دَربار میں حاضِر ہوا اور عرض کی: حضور! میرے بیٹے سے آج کوئی خَطا سَرزد ہوگئی جو آپ نے اس کا نام چھوڑ کر اِبنِ ایاز کہہ کر پکارا؟ آپ نے فرمایا :میں نام محمد کی تعظیم کی خاطِر تمہارے بیٹے کا نام بے وضو نہیں لیتا چونکہ اس وَقت میں بے وضو تھا اس لیے لفظِ محمد کو بِلا وضو لبوں پر لانا مناسب نہ سمجھا۔ہمیں بھی چاہئے کہ ہم برکت والے پاکیزہ نام رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کا ادب و احترام بھی کریں۔

مؤلف:احمد رضا بن عبد الحمید عطاری المدنی

Date:26-02-2022



[1] البدایہ و النھایہ،4/ 720،ملخصا

2 کنزالعمال،16/175،حدیث:45215

[3] فردوس الاخبار،2/503،حدیث:8515،ملتقطا،ملخصا

[4] کنز العمال،16/175،حدیث:45216،ملتقطا ملخصا

[5] طبقات الکبری،5/40،حدیث:622،ملخصا

[6] کنزالعمال،16/175،حدیث:45213

[7] تاریخ بغدادا،3/305


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

لَکَ الْحَمْدُ یَا اللہ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ

اللہ تعالیٰ نے قلمِ رضا کوایسی جامعیّت اور قُوت عطافرمائی ہےکہ امامِ اہلسنت، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جس مسئلہ کی تحقیق میں بھی کوئی کتاب ،رسالہ یا فتویٰ تحریر فرماتے ہیں ،تواُس مسئلےکواَلَمْ نَشرَح (یعنی واضح) کردیتے ہیں۔یوہیں جس موضوع پربھی اَشعار لکھتے ہیں تو اُس کی مَنظرکَشی کا حق ادا فرمادیتے ہیں، جسے دیکھ کرفنِ شاعری کےماہرین حیران اور انگشُت بدنداں (یعنی حیران) ہوجاتےہیں۔ اس کی زبردست مثال اِنتہائی مختصرسےوقت میں لکھاجانےوالاکلام’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ہے، جوکہ67اَشعار پر مشتمل ہے۔ امامِ اہلسنت علیہ الرّحمہ نے اس قصیدے میں حَسین تخیُّلات کےساتھ ساتھ جابجا آیاتِ قراٰنیہ اوراَحادیثِ نَبویّہ کی زبردست عَکاسی اور ترجمانی فرمائی ہے نیز آپ رحمۃ اللہ علیہ نےاس قصیدے میں سفرِ معراج کےمختلف مرحلوں کوبڑےفصیح و بلیغ اَلفاظ میں بصورتِ شعرپیش فرمایاہے۔ساتھ ہی ساتھ امامِ عشق و محبت رحمۃ اللہ علیہ نےاِس قصیدےمیں اُردو زبان کے رائج اِستعاروں اورمُحاروں کا کثرت سےاستعمال کیاہے۔ اس قصیدےکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مجدِّدِ اعظم،اعلیٰ حضرت رحمۃا للہ علیہ نےواقعۂ معراج کی مناسبت سےکعبہ و حطیم،مسجدِ اَقصیٰ ونمازِ اَقصیٰ ،جِبرَئِیل و بُراق ،آسمان و عرشِ اَعظم، سِدرۃُالمنتہیٰ و جنّت اور لامکان و دیدارِ رحمن کاتذکرہ بڑےلطیف اَنداز میں فرمایاہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگرکسی کو سفرِ معراج کےنقطۂ آغاز (یعنی ابتداء)سےلےکراِس کےمقامِ عُروج ورِفعت (اختتام و تکمیل)تک کامختصربیان اُردوزبان میں بصورتِ نظم پڑھنا ہوتووہ امامِ اہلسنت،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے اس مبارَک اورمنفرد’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ کو ملاحظہ کرلے۔

شرح قصیدہ معراجیہ:

اللہ ربُّ العزت کے فضل وکر م سےحقیر سراپا تقصیر نے اس مبارَک قصیدے کی شرح :’’لَمَعَانُ الْاَنْوَارِ الْاَحْمَدِیَۃِ فِی تَوْضِیْحِ الْقَصِیْدَۃِ الْمِعْرَاجِیَۃِ‘‘ بنام شرح قصیدۂ معراجیہ‘‘تحریر کرنے کی سعادت پائی ہے۔ اِس شرح میں راقم الحروف نے بنیادی طور پر دو باتوں کا اہتمام کرنے کی سعی کی ہے۔

(1) عوام الناس کیلئے کلامِ اعلیٰ حضرت کی عام فہم تشریح کرنا۔

(2) معجزۂ معراج سے متعلق اس مبارَک قصیدے کے اَشعار میں بیان کردہ مضامین کی تائید میں قرآن و سنت کی نصوص اور اَقوالِ ائمہ و علما کو ضبط ِ تحریر میں لانا۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں پائی جانے والی فصاحت و بلاغت کی صنعتوں کی نشاندہی اور تفصیل کو قصداً تحریر نہیں کیا؛ تاکہ کلام طویل نہ ہوجائے اور عوام کو سمجھنے میں یہ طوالت مخل نہ ہو۔المختصر! اِس شرح کا صفحۂ قرطاس پر منقش ہونا محض فضلِ ربّانی سے ہے، ورنہ راقم الحروف بے بَضاعت اپنی بے مائیگی کا معترف ہے۔ اِس شرح میں اگر کوئی خوبی و عمدگی ہے تو وہ خاص فضلِ سبحانی اورخدا کی مہربانی سے ہےاور اگرتحریر میں کوئی نقص و خامی ہے تو وہ راقم حقیر سراپا تقصیر کی طرف سے ہے۔

سگِ درگاہِ اعلیٰ حضرت

ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی


بچپن کے معاملات:

جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ شیر خواری کے دنوں میں دن بھر والدہ ماجدہ کا دودھ نہ پیتے اور افطار کے وقت پی لیا کرتے۔ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سانس کے سا تھ ’’ھو ھو‘‘ کی آواز اس طرح نکلتی جیسے آپ رحمۃ اللہ علیہ ذکرِ الہی میں مشغول ہوں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو کھلونوں سے کھیلا کرتے اور نہ ہی بچوں کے دیگر مشاغل اختیار فرماتے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نظریں جھکا کر چلا کرتے اگر راہ چلتے اچانک کسی مسلمان پر نظر پڑ جاتی تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا واللہ ! یہ کوئی عام بچہ نہیں اس کی آنکھوں میں عجیب روشنی ہے جو براہِ راست دلوں کو متاثر کرتی ہےاگر نظر کسی غیر مسلم پر پڑ تی تو اس کی بگڑی سنور جاتی اور وہ اپنا باطل مذہب ترک کردیتا اور کلمہ طیبہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا۔اے کاش ! ہم بھی بزرگانِ دین کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے نظریں جھکا کر چلنے والے بن جائیں۔

بارگاہِ رسالت سے فیوض و برکات :

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بچپن میں ایک دن سڑک کے کنارے کھڑا تھا کہ ایک با رعب صاحب، حشمت نورانی صورت والے بزرگ گھوڑے پر تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے بٹھالیا، میں نے ڈرتے اور کانپتے ہوئے پوچھا۔آپ کون ہیں ؟ ار شاد فرمایا: میں علی بن ابی طالب ہوں۔ میں نے پھر عرض کی: مجھے کہاں لے جار ہے ہیں؟ فرمایا: پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے تمہیں ان کی بارگاہ میں لے جارہا ہوں۔ فرماتے ہیں:پھر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری ہوئی تو وہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی جلوہ فرما تھے ،مجھے دیکھتے ہی نبیوں کے سلطان رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھائے اور ارشاد فرمایا، میرے ہاتھ پکڑ لو پھر دستِ اقدس پر بیعت کی اور کلمے کی تلقین فرمائی ، حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب میں نے کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ پڑ ھا تو درجات و مقامات کا کوئی حجاب باقی نہ رہا ۔اس کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھ پر توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں صدق( سچائی) پیدا ہوگئی ۔ توجہ فرما نے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مجلس سے رخصت ہوگئے پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے میری جانب توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں عدل و محاسبہ نفس پیدا ہوگیا پھر آپ رضی اللہ عنہ بھی رخصت ہوگئے ان کے بعد حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے میری جانب توجہ فرمائی جس سے میرے اندر حیا اور سخاوت کا نور جگمگا اٹھاپھر وہ بھی اس نورانی مجلس سے رخصت ہوگئے اس کےبعد حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھ پر توجہ فرمائی تو میرا جسم علم و شجاعت اور حلم سے بھر گیا، پھر پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر خاتون جنت حضرت سیدتنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا :تم میرے فرزند ہو پھر میں نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہا کے قدمین شریفین کا بوسہ لیا اور ان کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں پہن لیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر دستگیر حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ عنہا کے سپرد فرمادیا حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے مجھے مخلوقِ خدا کی ر ہنمائی کا ار شاد فرمایا: حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے جو کچھ بھی دیکھا اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔

سائلو ! دامنِ سخی کا تھام لو

کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا

مفلسو! ان کی گلی میں جا پڑو

باغ خلد اکرام ہو ہی جائے گا

دل کی بات جان لی :

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر رحمۃاللہ علیہ نے اپنے ایک وزیر کے ہاتھ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اشرفیوں کی دو تھیلیاں بھیجیں اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کنویں کے پاس بیٹھے کھیتوں کو پانی دے رہے تھے آپ رحمۃاللہ علیہ نے دونوں تھیلیاں کنویں میں پھینک دیں وزیر کو بڑا تعجب ہوااوراس کےدل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یہ اشرفیاں مجھے مل جاتیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دل کی بات جان لی اور جب کنویں کی طرف نظر فرمائی تو اس سے پانی کی بجائے اشرفیاں نکلنے لگیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت دیکھ کر وزیر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں میں گرگیا، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار پھر اس پر نظر فرما کر عشقِ حقیقی کا جام پلایا اور وہ دونوں اشرفیوں سے بھری تھیلیاں اس کے حوالے کردیں۔

راہِ حق دکھا دی :

ایک مرتبہ حضرت سلطان باہو رحمۃاللہ علیہ شاہ راہِ پرلیٹےہوئےتھے کہ غیر مسلموں کا ایک گروہ گزراان میں سے ایک بطورِ حقارت آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ٹھوکر ماری اور کہا:ہمارے لئے راستہ بناؤ،آپ نے اٹھتے ہی فرمایا: ”لا الہ الا انت محمد رسول اللہ“ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے کلمہ طیبہ جاری ہونا تھا کہ غیر مسلموں کا پورا گروہ کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

مٹی سونا بن گئی :

جب آپ شور کورٹ میں کاشتکاری کرتے تھے تو افلاس و نادری سے تنگ ایک سفید پوش بزرگ سید صاحب بزرگوں اور فقیروں کی تلاش میں مار ے مارے پھرتے کہ کہیں سے کوئی اللہ کا بندہ مل جائے او راس کی روح سے میری غربت اورتنگی دور ہوجائے اسی طلب میں وہ ایک فقیر کی خدمت میں رہنے لگےاور اس کی خدمت کرتے ، ایک فقیر کو ان کے حال پر رحم آیا پوچھا تیری مراد اور حاجت کیا ہے اس سید نے عرض کی : میرا بہت بھاری کنبہ ہے اور میں قرض دار ہوگیا ہوں جوان لڑکیاں اور لڑکے ہیں افلاس اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کی شادی بھی نہیں کرسکتا ظاہر ی اسباب ختم ہوچکے ہیں اب تو خالی مددکے سوائے میری تنگ دستی کا علاج ممکن نہیں تب اس فقیر نے کہا کہ میں تجھے ایک مردِ کامل کا پتا بتاتا ہوں سوائے اس کے کہ تیرا علاج کسی کے پاس نہیں ہیں تو سخی سلطان باہو کے پاس شور کورٹ چلا جاان کی بارگاہ میں عرض پیش کرنا وہ پریشان حال سید صاحب سلطان العارفین کے پاس پہنچ گئے لیکن ان کی مایوسی کی کوئی حد نہ رہی تھی جب دیکھا کہ آپ رحمۃاللہ علیہ کھیتوں میں ہل چلا رہے ہیں جبکہ انہیں وہاں کے لوگوں سےپتا چل چکا تھا کہ لوگ آپ کو فقیر کی حیثیت سے نہیں کسان کی حیثیت سے جانتے ہیں یہ حالت دیکھ کر مایوس ہو کر واپس موڑنے ہی والے تھے کہ سلطان العارفین نے جو ان کی قلبی کیفیت سے آگاہ ہو چکے تھے ان کو آواز دی آپ کی آواز سن کر ان سید صاحب کوکچھ حوصلہ ملا ، دل میں کہنے لگے اب خود بلایا ہے تو عرض پیش کرنے میں کیا حرج ہے، سید صاحب نے قریب آکر سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا خیریت پوچھی کہ کس وجہ سے یہاں آئے ہوسید صاحب نے اپنی ساری مشکلات سناد ی آپ نے فرمایا : شاہ صاحب مجھے پیشاب کی حاجت ہے آپ میرا ہل پکڑ کر رکھیں میں پیشاب سے فارغ ہولوں، غرض آپ نے پیشاب کیا مٹی کے ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد وہ ڈھیلے ہاتھ میں لے لیا، سید صاحب سے مخاطب ہوئے شاہ صاحب آپ نے مفت تکلیف اٹھائی میں تو ایک جٹ آدمی ہوں، سید صاحب کا دل پہلے ہی سفر کی تھکاوٹ اور مایوسی سے جلا ہوا تھا طیش میں آکر بولے: ہاں یہ میری سزا ہے! سید ہو کر آج ایک جٹ کے سامنے سائل کی حیثیت سے کھڑا ہوں حضرت سلطان العارفین کو جلال آیا اور اپنی زبان مبارک سےشعرپڑھتے ہوئے وہ پیشاب والا ڈھیلا زمین پر دے مارا، آپ کے پیشاب والا ڈھیلا اس زمین کے جن جن ڈھیلوں سے لگتا گیا وہ سونا بن گیا، سید صاحب یہ حالت دیکھ کر دم بہ خود ہو گئے ، آپ کے قدموں پر گر کر رونے لگے اور معافی مانگنے لگے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: شاہ صاحب یہ وقت رونے کا نہیں یہ ڈھیلے چپکے سے اٹھالو اور چلتے بنو ورنہ لوگوں کو پتا چل گیا تو نہ تیری خیر ہے اور نہ میری چنانچہ سید صاحب نے ان سونے کے ڈھیلوں کو جلدی سے اپنی چادر میں ر کھ لئے اور آپ کے پاؤں چومتے ہوئے وہاں سے چل دیئے۔

وفات و مدفن :

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 63 سال اس دارِ فانی میں دینِ اسلام کی تعلیمات عام کیں اور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے عہد میں یکم جمادی الاخر ی ۱۱۰۲ھ بمطابق 2 مارچ 1691 ءشبِ جمعہ تیسرے پہر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے سفر آخرت اختیار فرمایا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک دریائے چناب کے مغربی کنارے پر واقعہ قلعہ قہرکان سے کچھ فاصلے پر ہے جس کے چاروں جانب پختہ دیواریں ہیں۔

(مأخد: رسالہ : فیضانِ سلطان باہو)

از: بنت اجمل عطاریہ (طالبہ جامعۃ المدینہ گرلز)


نام :

محمد بن احمد بن محمد بن ابراہیم بن احمد الانصاری المحلی القاھری الشافعی

لقب :

جلال الدین، جلال المحلی

محلِی کہنے کی وجہ :

محلی قاہرہ کے علاقے محلی کبری میں پیدائش کی وجہ سے محلی کہا جاتا ہے۔

آپ مسلکاً شافعی ہیں، پیدائش و رہائش قاہرہ کی ہے ۔

ولادت :

شوال 791 ھ بمطابق 1389ء کو”محلہ کبری “ قاہرہ میں پیدا ہوئے ۔

تعلیم :

امام جلال الدین محلی نے فقہ و اصول فقہ: امام شمس الدین برماوی ، ابراھیم بیجوری ، امام بلقینی ،عز الدین ابن جماعہ رحم اللّٰہ علیہم سے ،

نحو: امام شہاب العجیمی ، شمس شطنوفی رحمۃ اللّٰہ علیہم سے ،

علم الفرائض و حساب :ناصر بن انس المصری رحمۃ اللہ علیہ سے ،

منطق و بلاغت: امام بدر اقصرائی سے ، تفسیر امام بساطی رحمۃ اللہ علیہ سے ،

حدیث و اصول حدیث : امام ولی عراقی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحم اللّٰہ علیہم سے حاصل کئے آپ علوم و فنون کے جامع ہوئے۔

(ظفر المحصلین باحوال المصنفین صفحہ 42 ،قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی )

اساتذہ وشیوخ :

حسن المحاضرہ اور دیگر کتب میں آپ کے اساتذہ کی تعداد اٹھائیس (28) سے زائد بتائی گئی ہے جن میں مشہور و معروف یہ ہیں:

سراج الدین بن ملقن المعروف امام ابن ملقن رحمۃ اللّٰہ علیہ

سراج الدین بلقینی رحمۃ اللہ علیہ

عز الدین ابن جماعہ رحمۃ اللہ علیہ

محمد بن موسیٰ دمیری رحمۃ اللہ علیہ

شمس الدین محمد بن ابراھیم شطنوفی رحمۃ اللہ علیہ

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ

ابراھیم بیجوری رحمۃ اللّٰہ علیہ

تلامذہ :

آپ نے قاہرہ کے بعض مدارس میں تدریس بھی کی جن کے نام یہ ہیں: مدرسہ برقوقیہ ، مدرسہ مؤیدیہ یہ وہ مدارس ہیں جن میں امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ تدریس فرمایا کرتے تھے ۔

آپ کے تلامذہ میں بڑے بڑے آئمہ کرام ہیں جن میں چند کے نام یہ ہیں :

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللّٰہ علیہ

امام سخاوی رحمۃ اللّٰہ علیہ

ابراھیم بن مقدسی رحمۃ اللّٰہ علیہ

نور الدین سمودی رحمۃ اللّٰہ علیہ

احمد بن محمد منوفی المعروف قاضی منوفی رحمۃ اللّٰہ علیہ

عبدالحق بن محمد سنباطی رحمۃ اللّٰہ علیہ

تفسیر جلالین :

ابتداء ً امام جلال الدین محلی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس تفسیر کی تالیف کا آغاز کیا تھا،آپ نے سورہ کہف سے شروعات کی اور آخر قرآن تک تفسیر کرلی پھر سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھی اور اس کے بعد داعی اَجَلْ کو لبیک کہہ گئے اور یہ تفسیر ادھوری رہ گئی۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا اور سورہ بقرۂ سے سورہ ٔ اسراء کے آخر تک تفسیر لکھ کر اس کتاب کو مکمل کردیا چونکہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر محلی صاحب کے قلم سے تھی اس لئے اس کو کتاب کے آخر میں سورۃ الناس کی تفسیر کے بعد رکھ دیا تاکہ محلی صاحب کی پوری تفسیر ایک جگہ رہے او ران کی تحریر کردہ تفسیر ایک جگہ، یہی وجہ ہے کہ تفسیر جلالین کی شروعات سورۂ بقرہ سے ہوئی ہے نہ کہ سورۂ فاتحہ سے یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے سورۂ بقرہ سے سورۂ اسراء کے آخر تک یعنی نصف قرآن کی تفسیر صرف چالیس ( 40 ) دن کے اندر تحریر کی جیسا کہ خود سورۂ اسراء کی تفسیر کے خاتمہ پر لکھتے ہیں: وألفتہ فی قدر میعاد الکلیم‘‘ کلیم اللہ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے مقرر کردہ میعاد (یعنی چالیس دن) میں، میں نے یہ کتاب تالیف کی۔ آگے لکھتے ہیں : فرغتُ من تألیفہ یوم الأحد عاشر شھر شوال سنۃ سبعین وثمان مائۃ وکان الابتداء فیہ یوم الأربعاء مستھل رمضان من السنۃ المذکورۃ یعنی یکم رمضان 870 ھ سے 10 شوال 870 ھ کے درمیان کل 40 دن میں یہ کتاب تالیف ہوئی۔(تفسیر جلالین، ج:3،ص: 456،مکتبۃ المدینہ )

تصانیف :

امام محلی نے قیمتی کتابیں تصنیف فرمائیں جو نہایت مختصر اور عمدہ عبارت پر مشتمل ہیں:

(1) تفسیر جلالین

(2) البدر الطالع فی حل جمع الجوامع

(3) کنز الراغبین شرح المنہاج الطالبین

(4) مختصر التنبیہ للشیرازی

(5) شرح تسھیل الفوائد فی النحو

(6) الجھر بالبسملۃ

(7) شرح الاعراب عن قواعد الاعراب

(8) شرح مقصورۃ ابن حازم

(9) کنز الذخائر فی شرح التائیۃ

(10) مناسک حج

(11) القول المفید فی النیل السعید

(12) الانوار المرضیۃ شرح مختصر البردۃ

(13) الطب النبوی

(14) کتاب الجھاد

(15 ) شرح الشمسیۃ فی المنطق لنجم الدین القزوینی

(16) حاشیۃ علی شرح جامع المختصرات فی فروع الشافعیۃ

(17) تعلیقۃ علی جواھر البحرین فی الفروع

(18) شرح عروض اندلسی

(19) شرح الورقات فی اصول الفقہ

نوٹ :مذکورہ کتب میں بعض ناتمام ہیں۔

وفات:

مرض اسہال کے سبب آپ کی وفات 15 رمضان المبارک 864ھ بمطابق 1459 مصر کے شہر قاہرہ میں ہوئی۔ آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

حوالہ جات :

حسن المحاضرہ

شذرات الذہب

الضوء الامع

تفسیر جلالین

از قلم :احمد رضا مغل

بمطابق یکم جمادی الثانی 1441

بروز بدھ


اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےاپنےمحبوبِ ذیشانصلی اللہ علیہ و الہ وسلم کونوری بشربنایاہے،حقیقتِ محمدی نورہے اور بشریت (یعنی بشروانسان ہونا) گویاکہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کاایک لباس اوروصف ہےاوریہ بات بھی بدیہی وواضح ہے کہ نورانیت وبشریت میں کوئی منافات وتضاد نہیں ہےلہذا ان دونوں کاایک ذات میں اِجتماع ممکن،بلکہ واقع اور قرآنِ مجید کی نصِ جلیل اورحدیثِ جبریل سےثابت ہے۔چنانچہ سورۂ مریم کی آیت نمبر17میں اللہ تعالیٰ نے نوری مخلوق کےسردارجبرائیل علیہ السلام کاحضرتِ سیدتنامریم رضی اللہ تعالیٰ عنھاکےپاس آنےکابیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

"فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا 17؀"([1])

ترجمۂ کنزالایمان: تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔

ثابت ہوا کہ جب جبریلِ امین علیہ السلام نور،بلکہ نورانی مخلوق کےسیدوسردارہونے کےباوجودبشری صورت میں آسکتے ہیں توآقائے جبریل ،رسولِ جمیل،نبیِ جلیل صلی اللہ علیہ و الہ وسلمبھی نورہوتے ہوئےبشربن کردنیامیں جلوہ فرما ہوسکتے ہیں۔

اسی طرحصحیح مسلماوردیگرمعتبرومعتمدکُتبِ اَحادیث میں"حدیثِ جبریل" مذکورومسطور ہے، جس میں اس بات کابیان موجودہے کہ حضرتِ سیدناجبریلعلیہ الصلوۃوالتسلیمنےبارگاہِ رسالت میں بشری صورت میں آکر ایمان، اسلام، اِحسان اورقیامت کی نشانیوں کےبارےمیں سوالات کئے۔چنانچہ حدیثِ جبریل کی ابتداءہی میں راویِ حدیث حضرتِ سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جبریلِ امین علیہ السلام کاحاضرِ بارگاہِ رسالت ہونااِن الفاظ سے بیان فرماتے ہیں: "بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ۔۔۔الخ" ([2])

یعنی،ایک دن ہم نبیِ کریمصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی خدمتِ اَقدس میں حاضرتھےکہ ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوئے جن کےکپڑےبہت سفیداوربال خوب کالےتھے۔۔۔الخ

پیغامِ حق وہدایت:وہ بدنصیب لوگ جونبی الاَنبیاء،رسولُ المرسلینصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکومعاذاللہ اپنے جیسابشرثابت کرنے کیلئےآپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کےکھانےپینے،چلنےوغیرہ اَفعالِ بشریہ کودلیل بناتے ہیں اُنہیں ذرامعراج کےمعجزےاوراس میں رُونماہونے والے معاملات مثلاً شقِ صد،آن کی آن میں صدیوں کا سفرطےکرنے،آسمانوں اورجنت و دوزخ کی سیرفرمانے،کُرۂ نارسےسلامتی کےساتھ گزرجانے،بغیرہوا کے زندہ رہنےاورسدرۃُالمنتہیٰ سےآگےعالَمِ اَنوارولامکاں تک پہنچنے کےمعاملےکی طرف بھی نظرکرنی چاہئے، تاکہ نورانیتِ محمدی کی حقیقت اُن کےسامنےواضح ولائح ہوسکے۔ایسےہی لوگوں کودعوتِ حق اورپیغامِ ہدایت دیتے ہوئےغزالئ زماں،رازئ دوراں حضرت علامہ سیِّداَحمدسعیدکاظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:

"جولوگ حضورصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکےکھانےپینے،چلنےپھرنےودیگراَوصافِ بشریہ کوحضورعلیہ الصلوۃوالسلام کے نور ہونے کی نفی میں بطورِ دلیل پیش کرتےہیں انہیں غورکرناچاہئےکہ جس طرح کھاناپیناوغیرہ ان کےنزدیک حضور علیہ الصلوۃوالسلامکےنورنہ ہونےکی دلیل ہےاسی طرح تمام عالَمِ عناصرسےاُوپرجانا زمین کے بغیرٹھہرا رہنا، ہوا اور سانس کامحتاج نہ ہونا،کُرۂ نارسےصحیح سالِم گزرجانااورآن کی آن میں مسجدِ حرام سےمسجدِ اقصیٰ اورآسمانوں پر جاکر واپس آجاناان ہی کےاُصول پربشرنہ ہونےکی دلیل ہوسکتاہےکیونکہ جس طرح نورکاکھاناپینا ناممکن ہےاسی طرح بشر کاآسمانوں پرجانا ہواکے بغیرزندہ رہنا،آگ سےصحیح سالِم گزرجانا،ایک آن میں آسمانوں پرجاکرواپس آجانابھی ناممکن ہے۔معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نےاپنےحبیب صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کوبشریت بھی عطافرمائی ہےاورنورانیت بھی۔ عالَمِ بشریت میں ظہورِ بشریت کاغلبہ ہےاورعالَمِ اَنوارمیں ظہور نورانیت کا۔" ([3])

نوانیتِ مصطفیﷺ اور کلام اعلی حضرت :

اعلیٰ حضرت امامِ عشق و محبت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن اپنے قصیدۂ معراجیہ میں گویا کہ اسی حقیقت کو سمجھاتے ہوئے یوں فرماتے ہیں کہ:

خَبَریہ تَحوِیلِ مہر کی تھی کہ رُت سُہانی گَھڑی پِھرے گی

وہاں کی پوشاک زیبِ تَن کی یہاں کاجوڑابَڑھاچکے تھے

شرح کلامِ رضا:

معراج کی رات(تحویلِ مہریعنی) آفتابِ نبوت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کےایک بُرج سے دوسرے بُرج(یعنی مکاں سے لامکاں) کی طرف پھرنے کی خبر گویا اِس بات کی طرف اشارہ تھی کہ اب(اُمتیوں کی خوش بختیوں کی رُت)موسم اورزمانہ بدلے گاہےاوراچھی اور سُہانی گھڑی آنے والی ہے۔

سرکارِ والاتبار صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نےوہاں(یعنی عالمِ نور اور لامکاں)کالباس پہنااور یہاں(عالمِ ظاہر ودنیا)کاپہناہوا اور مبارَک جوڑا(بڑھا چکے) صدقہ فرماچکے تھے۔

تحویلِ مہر:علمِ صَرَف کی رُو سے" تحویل"بابِ تَفْعِیْل کامَصدرہےجس کےمعنیٰ ہیں"ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا"۔قبلہ کی تبدیلی کےبیان میں بھی "تحویلِ قبلہ"کالفظ بولاجاتاہے۔اس لفظ کااستعمال "سورج چاندیاکسی ستارے کاایک بُرج سے دوسرے بُرج میں آنا"کے معنی میں بھی ہوتاہے۔چنانچہ مہرِ رسالت،ماہِ نبوت، عرب کےچاند،عجم کےسُورج صلی اللہ علیہ و الہ وسلمنےمعراج کی رات گویا ایک بُرج سےدوسرےبُرج کی طرف کاسفراختیارفرمایا۔ زمین سےآسمان کی طرف،مکاں سےلامکاں کی جانب،کعبہ وقبلہ(یعنی مسجدحرام)سے قَابَ قَوسَین تک،عالمِ بشریت سےعالمِ اَنوارکی طرف منتقل ہونےکاارادہ فرمایا تویہ تحویلِ مہرگویااس بات کی خوشخبری ونویداورنیک فال تھی کہ اب محبوبِ رحمٰن،نبیِ ذیشان،مکینِ لامکان صلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی اُمتِ مرحومہ کی خوش بختیوں کی بھی معراج ہونےوالی ہے،اِن کی قسمت کاستارہ بھی چمکنےوالاہے،ان کےبھی دن پھرنے والےہیں اوراِن کی خزاں بھی بہارمیں تبدیل ہونےوالی ہےکہ معراج کی رات اسراء کےدُولہا،محبوبِ خُدا، کونین کےداتاصلی اللہ علیہ و الہ وسلمخالقِ کائناتعزوجلکی بارگاہ سےخاص فیض لےکرمخلوق وموجودات کو فیض یاب فرمائیں گے۔

لیکن یہ سفرایک عالَم(عالَمِ بشریت)سےدوسرےعالَم (عالَمِ اَنوار)تک کاتھالہذاسرورِ ہردوسراصلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے معراج کی شب گویاکہ لباس تبدیل فرمایا یعنی لباس وصفتِ بشریت کےساتھ ساتھ نورانیتِ محمدی(جوکہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی حقیقت ہےاس)کاظُہوراپنے عُروج پرتھا۔([4])

چنانچہ معراج کی رات نبیِ مختار،شاہِ اَبرارصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی حقیقت یعنی نورانیت کاصفتِ بشریت پرایساغلبہ تھا کہ جس کےسامنےنورانی مخلوق کےسردارجبریلِ امین علیہ الصلوۃوالتسلیمکی نورانیت بھی ماندپڑگئی تھی، سدرۃُالمنتہیٰ کےاُس پار کےاَنوار کی تاب لاناجبریلِ امین علیہ الصلوۃوالسلامکےبس سےتوباہرتھا،لیکن نوری بشر، رسولِ اَنورصلی اللہ علیہ و الہ وسلمنےاُن اَنوارکامشاہدہ فرمایااورتمام ترحجابات ومنازلِ قُرب کوطےکرکےبلاحجاب اپنے ربِّ جمیل وجلیل عزوجل کادیدارفرمایا۔

اسی بات کوحکیم الاُمت مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمہ"مرآۃالمناجیح" میں یوں فرماتے ہیں:"سارے معجزات لوگوں کو دکھائے مگر معراج لوگوں سے چھپائی گئی بعد میں سنائی گئی کیونکہ معراج میں ربّ سے وصال تھا، اس میں حضورصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی نورانیت بھی ظاہر تھی اورحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کالباس بھی نورانی تھا، کسی آنکھ میں طاقت نہ تھی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کو دیکھتی،گھر کا لباس اور ہوتا ہے دفتر کا لباس دوسرا، دُنیا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کا دفتر ہے یہاں لباس بشریت میں آئے وہ جہاں حضورصلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا گھر ہے وہاں کا لباس نور ہے۔"([5])

نوٹ : فلسفۂ نورانیت وبشریت کی تفصیلات جاننے کیلئےفتاوی رضویہ مخرَّجہ میں موجود امامِ اہلسنتعلیہ الرحمہکارسالہ"صلاتُ الصَّفافی نورالمصطفےٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم" اورحکیمُ الاُمت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃاللہ علیہ کا"رسالہ نور"بہت مفیدہے۔([6])

از: ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی



[1]۔ مریم:19/17

[2]۔ صحیح مسلم،کتاب الایمان،1/27،قدیمی کتب خانہ

[3]۔ مقالاتِ کاظمی،ج1،ص206،کاظمی پبلی کیشنز

[4]۔ حکیم الاُمت مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمہ "رسالہ نور"میں فرماتے ہیں:"حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم نوربھی ہیں اوربشربھی یعنی نوری بشر ہیں۔حقیقت حضور(علیہ السلام)کی نُورہے اورلباس بشری ہے۔" (رسالہ نور،ص30،نعیمی کتب خانہ)

[5]۔ مرآۃُالمناجیح،8/136،نعیمی کتب خانہ

[6]۔ ماخوذ از: لَمَعَانُ الْاَنْوَارِ الْاَحْمَدِیَۃِ فِیْ تَوْضِیْحِ الْقَصِیْدَۃِ الْمِعْرَاجِیَۃِ بنام : شرح قصیدۂ معراجیہ


رزق میں برکت اور بےبرکتی

Mon, 28 Feb , 2022
2 years ago

تنگ دستی اور رزق میں بےبرکتی ایک عالمگیر مسئلہ بن چکاہے۔ شاید ہی کوئی گھر اس سےمحفوظ ہو۔ ہم اپنے مسائل کے حل کے لئےمشکل ترین ذرائع استعمال کرنے کو تو تیار ہیں مگر اللہ پاک اور اس کے پیارے رسولصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےعطاکردہ روزی میں برکت کےآسان ذرائع کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔بےروزگاری اور تنگ دستی کے گھمبیر مسائل نےلوگوں کوبےحال کر دیاہے۔ شاید ہی کوئی گھر اورفرد ایساہو جو تنگ دستی کا رونا نہ روتاہو۔ہرشخص پریشان ہے اور چاہتا ہےکہ کسی طرح تنگ دستی سےچھٹکارا مل جائے اور روزی میں برکت ہوجائے۔سچ تو یہ ہے کہ تنگ دستی اور رزق میں بےبرکتی کا سب سے بڑا سبب ہماری بےعملی ہے جسے قرآنِ مجید میں رازق اور خالق و مالک اللہ پاک نے یوں بیان فرمایا ہے:

وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)

ترجمۂ کنزالایمان:اورتمہیں جومصیبت پہنچی وہ اس کےسبب سے ہے جوتمہارے ہاتھوں نے کمایااوربہت کچھ تومعاف کردیتا ہے۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی بدعملی وگناہ کوتنگ دستی و بےبرکتی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ

گناہ کی نحوست:

حضرت سیِّدُنا ثوبان رَضِیَ اللہُ عَنْہسے مروی ایک روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’اِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِخَطِيْئَةٍ يَّعْمَلُهَا یعنی بےشک بندے سے جو خطا سرزد ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہ رزق سےمحروم ہوجاتاہے۔‘‘ (ابن ماجۃ،المقدمہ ،باب فی القدر،۱/ ۶۹،حدیث:۹۰)

حضرت سیِّدُنا ثوبان رَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان کرتےہیں کہ حضورنبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:’’اِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيْبُهٗ یعنی بےشک بندے سے جو گناہ سرزد ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ رزق سےمحروم ہوجاتاہے۔‘‘ (ابن ماجۃ،کتاب الفتن،باب العقوبات،۴/ ۳۶۹،حدیث:۴۰۲۲)

شرح حدیث:

مشہور شارحِ حدیث، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے چند معنیٰ ہیں:ایک یہ کہ گناہوں سے رزقِ آخرت یعنی ثوابِ اعمال گھٹ جاتا ہے۔دوسرے یہ کہ مؤمن کا گناہوں کی وجہ سے رزقِ روحانی یعنی اخلاص،اطمینانِ قلب، دل کا چین و سکون، رغبت الی اللہ گھٹ جاتی ہے۔تیسرے یہ کہ مؤمن اپنے گناہوں کی وجہ سے تنگی رزق،یا بلاؤں میں گرفتار ہوجاتا ہے تاکہ ان کی وجہ سے گناہوں سے توبہ کرکے پاک و صاف ہوکر دنیا سے جائے لہٰذا اس فرمان پر یہ اعتراض نہیں کہ اکثر متقی پرہیزگار لوگ مفلوک الحال ہوتے ہیں اور فاسق و بدکار بڑے مالدار۔ ( مراٰۃ المناجیح،۶/ ۵۲۵)

برکت اور بےبرکتی کیا ہے؟

’’خیال رہےکہ مال کی زیادتی اورہے،برکت کچھ اور،زیادتِیٔ مال کبھی ہلاک کردیتی ہےمگربرکَتِ مال دین و دنیامیں ربّ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔‘‘( مراٰۃ المناجیح،۳/ ۵۷)نیز’’مال میں برکت اللہ کی رحمت ہےاورمال کی کثرت کبھی عذاب ہوجاتی ہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح،۷/ ۲۲۵)

کیونکہ مال ودولت کی زیادتی بسااوقات کئی طرح کی آزمائشوں میں مبتلاکردیتی ہے بالخصوص گناہوں کے مرض میں کہ جب کسی شخص کےپاس مال ودولت کی فراوانی ہوتی ہےتوشیطان مردوداسےطرح طرح کےظاہری وباطنی گناہوں میں ملوث کرنےکی کوشش کرتا ہے، لہٰذاعافیت اسی میں ہےکہ اسی قدرمال پراکتفا کیا جائے جو ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہو۔نیزمال کی زیادتی نہیں بلکہ مال میں برکت کی دعامانگنی چاہئےاوران اسباب پربھی نظررکھنی چاہئےجو تنگ دستی کا باعث بنتےہیں تاکہ ان سےبچاجائے۔

الغرض:نافرمانی وگناہ سےبرکت اڑجاتی جبکہ اطاعت وفرمانبرداری باعِثِ برکت ہے۔ ہمارے معاشرے میں تنگ دستی، فقر و فاقہ کشی ،بے روزگاری اور رِزْق میں بے برکتی کا رونا رونے والے بہت ہیں، ایسے میں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم گناہ کرتے نہیں ڈرتے؟ مصیبتوں اور رِزْق میں بےبرکتیوں کا سبب کہیں ہماری اپنی ہی بداعمالیاں تو نہیں ہیں؟کیونکہ آج کل ہمارے معاشرے میں گُناہوں کا بازاراس قدر گرم ہے کہ اَلْاَمَانُ وَالْحَفِیْظ۔ بدقسمتی سے ہماری بھاری اکثریَّت بے عملی کا شکار ہے، نہ توبندوں کے حقوق کی ادائیگی کا پاس ہے اور نہ ہی حقوقُ اللہ کی پامالی کا کوئی احساس،نیکیاں کرنا نفس کے لئے بے حد دُشوار اور گناہ کرنا بَہُت آسان ہوچکا ہے۔

’’جیسےگناہ کا عذاب دنیا و آخرت میں (بھگتنا) پڑتا ہے یونہی نیکی کا فائدہ دونوں جہان میں ملتا ہے۔ جو مسلمان پانچوں نمازیں پابندی سے جماعت کے ساتھ ادا کرے اسے رزق میں برکت، قبر میں فراخی نصیب ہوگی اور پل صراط پر آسانی سے گزرے گا اور جو جماعت کا تارک ہوگا اس کی کمائی میں برکت نہ ہوگی، چہرے پر صالحین کے آثار نہ ہوں گے، لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت ہوگی، پیاس و بھوک میں جان کنی اور قبر کی تنگی میں مبتلا ہوگا اور ا س کا حساب بھی سخت ہوگا۔‘‘([1])

افسوس!مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد فرائض سے ہی غافل ہو چکی ہے، نما ز جوکہ فرض اعظم ہے اس کی ادئیگی میں سستی کا کیا حال ہے اس کا اندازہ مسجدوں کی ویرانی سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ اگر واقعی ہم امن وسکون اور رزق میں برکت کے طالب ہیں تو ہمیں گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے احکام خداوندی کی پابندی اور سنّتوں پرعمل کرناہوگا۔

بلاشبہ خوفِ خدا کی وجہ سے گناہوں کو چھوڑ دینا رزق میں برکت کا سبب بنتا ہے، جو بھی خوفِ خدا کی وجہ سے کسی گناہ سے رکتا ہے تو اللہ پاک اُسے ایسے اسباب سے رِزق عطا فرما دیتا ہے کہ جن کی طرف اس کا خیال بھی نہیں جاتا۔

یادرکھئے!دنیاوآخرت کےتمام مسائل وپریشانیوں کاواحدحل اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوئے قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔

روزی میں برکت کے چند نسخے:

(1)……حضرت سیِّدُنا سَہَلْ بن سَعَد ساعِدی رَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر اپنی غربت اور تنگ دستی کی شکایت کی تو رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلہٖ وَ سَلَّم نےارشاد فرمایا: ’’جب تم اپنے گھر میں داخل ہوتو سلام کرو اگرچہ کوئی بھی نہ ہو،پھر مجھ پر سلام بھیجو اور ایک بار قُلْ ھُوَاﷲ شریف(پوری سورۂ اخلاص) پڑھو۔‘‘ اس شخص نے ایسا ہی کیا تواللہ پاک نے اسے اتنا مال دار کر دیا کہ اس نے اپنے ہمسایوں اور رشتے داروں میں بھی تقسیم کرنا شروع کر دیا۔([2])

(2)…… مشہور شارحِ حدیث، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مراٰۃ المناجیح میں تحریر فرماتے ہے:’’بعض بزرگوں کو دیکھا گیا ہے کہ اول دن میں جب پہلی بار گھر میں ہوتے تو بِسْمِ اللہ (شریف)اورقل ہو اللہ (پوری سورۂ اخلاص)پڑھ لیتے،کہ اس سے گھر میں اتفاق بھی رہتا ہے اور رزق میں برکت بھی۔‘‘([3])

(3)……’’یَا مَلِکُ‘’90 بار جو غریب ونادار روزانہ پڑھا کرے اِنْ شَآءَ اللہ غربت سے نجات پائے گا۔([4])

(4)……”ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘کے صفحہ 128پر ہے:ایک صحابی (رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) خدمَت ِاقدس (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) میں حاضر ہوئے اور عرض کی: دنیا نے مجھ سے پیٹھ پھیر لی۔ فرمایا: کیا وہ تسبیح تمہیں یاد نہیں جو تسبیح ہے ملائکہ کی اور جس کی برکت سے روزی دی جاتی ہے۔ خَلْقِ دنیا آئے گی تیرے پاس ذلیل و خوار ہوکر، طلوعِ فجر کے ساتھ سوبار کہا کر ’’سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحٰنَ اللہِ الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللہ‘‘اُن صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو سات دن گزرے تھے کہ خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی: ’’حضور! دنیا میرے پاس اس کثرت سے آئی، میں حیران ہوں کہاں اٹھاؤں کہاں رکھوں!‘‘۔([5])

(5)……حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: جس نے استغفارکو اپنے اوپر لازم کرلیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے راحت عطافرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطافرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔([6])

(6)……حضرتِ سیِّدُنا یزید بن عبداللّٰہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَـیْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللّٰہ پاک بندے کو رزق کے معاملے میں آزماتا ہے تاکہ دیکھے کہ وہ کیا عمل کرتا ہے اگر تقسیم الٰہی پر راضی رہے تو اس کے رزق میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر راضی نہ ہو تو برکت سے محروم رہتا ہے۔‘‘([7])

(7)……رزق میں برکت کا ایک سبب رشتہ داروں سے حُسنِ سُلوک کرنا بھی ہے۔ چنانچہ حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے عُمر میں اضافہ اور رِزْق میں زیادتی ہونا پسند ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ پاک سے ڈرے اور صِلۂ رِحمی (رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک )کرے۔([8])

(8)……آیَۃُ الْکُرسی کسی چیز پر لکھ کر اس کا کَتَبَہ مکان میں کسی اونچی جگہ پر آویزاں کردیا جائے تو اِنْ شَآءَ اللہ اس گھر میں کبھی فاقہ نہ ہوگا۔ بلکہ روزی میں بَرَکت اور اضافہ ہوگا اور اس مکان میں کبھی چور نہ آسکے گا۔([9])

(9)……معاشی ترقی اور رزق میں برکت کا ایک بہترین طریقہ زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ہے۔

خیال رہے! اَورَادووظائف بھی اسی صورت میں فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں جب فرائض وواجبات پرحتَّی المقدورعمل ہو۔ جس طرح مریض کے لئے دوا کے ساتھ پرہیزضروری ہے اسی طرح اوراد ووظائف کرنے والے کے لئےفرائض وواجبات بالخصوص باجماعت نماز کی پابندی ضروری ہےورنہ کوئی بھی وِردکماحقہ فائدنہیں پہنچائےگا۔

رزق میں خیر و برکت کےحُصول کی مزید معلومات اور تنگ دستی کی وُجوہات جاننے کے لئےشَیخِ طریقت امِیرِ اہْلِ سنّت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’چڑیا اور اندھا سانپ‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) اور المدینۃ العلمیہ کا رِسالہتنگ دستی کے اَسباب اور ان کا حل‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) پڑھئے ۔



[1]صراط الجنان،۶/ ۲۶۳

[2]القول البدیع، الباب الثانی فی ثواب الصلاة علی رسول اللہالخ، ص۲۷۳

[3]مراٰۃ المناجیح،۶/ ۹

[4]مدنی پنج سورہ، ص۲۴۶

[5]لسان المیزان، حرف العین، ۴/ ۳۰۴، حدیث:۵۱۰۰۔ زرقانی علی المواھب، ذکر طبہ من داء الفقر، ۹/ ۴۲۸ واللفظ لہ

[6]ابن ماجة،کتاب الادب،باب الاستغفار،۴/ ۲۵۷،حدیث:۳۸۱۹

[7]المعجم الاوسط، ۶/ ۱۶۱، حدیث:۸۳۶۲، دون قولہ الرزق

[8]شعب الایمان، ۶/ ۲۱۹، حدیث:۷۹۴۷

[9]جنتی زیور، ص۵۸۹ ملخصاً


انسان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ابھارنے، نکھارنے اور پختہ کرنے کا بہترین ذریعہ تربیت ہے! دین ِاسلام حیات انسانی کے ہر شعبے میں مکمل راہ نمائی فراہم کرنے اور باضابطہ تربیت کرنے کا علمبردار ہے۔ یہاں میں دعوت و ارشاد کے موضوع پر اپنی زیر ترتیب کتاب کی ایک بات عرض کرتا چلوں: جو کام باقاعدہ سیکھ کر، مکمل تیاری اور مشق کے بعد کیا جائے وہ اس کام کے مقابلے میں بہترین ہوتا ہے جو ان مراحل سے گزرے بغیر انجام پائے!

دعوتِ اسلامی دین کی اس اہم ترین ہدایت کو جس خوبصورتی سے تھامے ہوئے ہے وہ اپنی مثال آپ ہے؛ ”مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔“ کا نعرہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دعوتِ اسلامی کی اس خصوصیت سے جس شخص کو سب سے زیادہ فیض یاب ہونے کا موقع میسر آتا ہے وہ اس کے امپلائیز ہیں؛ گاہ بہ گاہ ان کی تربیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو بہترین کار کردگی کا باعث بھی بنتا ہے۔ جی ہاں! دنیا بھر میں منظم طریقے سے دین کی خدمات انجام دینے والی اس تحریک کی کامیابی کے پیچھے ”اس کا اپنے امپلائیز کی تربیت کا نظام ہے!“

یہ چند سطور لکھنے پر جس جذبے نے مجھے ابھارا اور میں نماز ظہر کے بعد صرف 15 منٹ کے مختصر وقت میں ان کا اظہار کررہا ہوں وہ ریسرچ اسکالرز کی آج ہونے والی دو گھنٹے کی تربیتی نشست ہے جو المدینۃ العلمیہ کےریسرچ اینڈڈیویلیپمنٹ کےتحت منعقد ہوئی۔

جو موتی اور جواہر میں چُن سکا اس انتہائی مختصر وقت میں ان سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں اور وقفے کے بعد اس پر لکھنے کا وقت نہیں لہذا سر دست جتنا لکھ سکتا ہوں اپنے الفاظ اور معمولی اضافے کے ساتھ پیش خدمت ہے:

پہلا لیکچر : اسلامک ریسرچ اسکالر استاذ العلما مولانا ابو رجب محمد آصف مدنی دام ظلہ

_ ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے رہیے ترقی کے زینے طے ہوتے چلے جائیں گےاور کبھی بھی اپنی موجودہ اسکلز پر انحصار کرکے جامد مت بنیئے۔

اضافہ: استاذ محترم کی اس بات پر مجھے اپنی مذکورہ کتاب میں شامل جملہ یاد آیا ملاحظہ کیجیے:

1- دنیا میں ثبات صرف تغیر کو حاصل ہے؛ اگر آپ ترقی نہیں کررہے تو پھر تنزلی کی طرف جارہے ہوں گے!

_ اسٹرگل کیجیے: آگے بڑھنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیے اور ہر کام باقاعدہ سیکھ کر کیجیے کہ بائیک چلانے والے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو بغیر سیکھے سڑک پر آجاتے ہیں ؛ ایسوں سے کیا بعید کہ وہ بائیک کے تیسرے یا چوتھے گیر میں پورا کراچی گھوم آئیں! دوسرے وہ جو باقاعدہ سیکھ کر گاڑی چلاتے ہیں؛ یقینا ً یہ قابل ستائش ہیں۔

اضافہ: اسکلز کے تناظر میں میرا ذہن اپنے اس زمانے کی طرف منتقل ہوگیا تھا جب مجھے کمپیوٹر کی کچھ سدھ بدھ نہیں تھی اور میرے ذمہ دار نے مجھے زِپ فولڈر میں کام کے لیے چند فائلز دیں اور میں نے اس کو اَن زِپ کیے بغیر ہی کام شروع کردیا کچھ دیر بعد ایک فائل چیک کروائی گئی تو کچھ بھی محفوظ نہیں تھا ! ظاہر ہے زِپ فولڈر میں موجود فائلز میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہوتا اسے پہلے اَن زِپ کرنا ہوگا۔۔۔

یقین کیجیے یہی صورت حال میرے زیرِ تربیت ایک اسکالر کے ساتھ پیش آئی؛ انہیں بھی میں بتانا بھول گیا تھا ! یہاں سے مجھے ہر کام باقاعدہ سیکھ کر کرنے کا ایسا شوق پیدا ہوا کہ اب میرا کوئی کام بغیر تربیت لیے نہیں ہوتا الحمد للہ۔

_ ذمہ داری لینے کا حوصلہ پید کیجیے! جو دس سال پہلے جہاں تھا اگر وہ آج بھی وہی ہے تو اس کی محنت ضائع ہی ہوئی ہے کیونکہ اس نے جتنی محنت اسی جگہ برقرار رہنے پر کی اگر وہ یہی توانائی آگے بڑھنے پر لگادیتا تو یقیناً مفت میں اس منصب کو برقرار رکھتا بلکہ اس سے اوپر والے منصب کا حق دار قرار پاتا ۔

اضافہ: یہ سن کر مجھے صبح ہی پڑھے ہوئے مضمون کا ایک پیرا یاد آگیا ملاحظہ کیجیے:

آپ اگر بغور جائزہ لیں تو آپ کو ایسے مختلف ادارے اور افراد نظر آجائیں گے جو کافی عرصہ گزرجانے کے باوجودبھی ترقی نہیں کرپارہے ۔فرد کی ترقی نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس ادارے میں ایک عرصے سے کام کررہا ہوتا ہے اسی طویل عرصے کو ذہن میں رکھ کر وہ خودکو’’بڑا‘‘سمجھتا ہے ۔اس سوچ کی وجہ سے وہ مزید سیکھتا نہیں اورکئی سال گزرنے کے باوجود بھی ترقی نہیں کرپاتا۔ وہ ہر شخص کے سامنے یہ احسان جتلاتاہے کہ میں نے اس ادارے کو 15سال دیے ہیں لیکن اس چیز کو نہیں دیکھتاکہ اس عرصے میں اس نے ادارے سے کافی سارے مراعات اور فوائد بھی حاصل کیے ہیں۔یہ سوچ اس کی اناکا وزن بڑھادیتی ہے اور اسی وجہ سے کام کے حوالے سے اس کا انرجی لیول بھی وہ نہیں رہتا جو نوکری کے پہلے دِن تھا،جبکہ اس کے برعکس جو شخص ہر دِن کو نیا دِن سمجھ کر کام پر آتا ہے تو اس کی انرجی کا لیول بھی اسی قدر زیادہ ہوتاہے۔لہٰذا اگر زندگی کو شاندار بنانا ہے تو آج کے دِن کی اہمیت سے انکار نہ کریں۔

دوسرا لیکچر: اسلامک ریسرچ اسکالر مولانا عدنان چشتی مدنی دام ظلہ

ابتدا ہی ایسے شاندار فرمان سے ہوئی کہ مزہ آگیا:

_ اپنے کانوں کو چھننی مت بناؤ۔ اس پر قبلہ لیکچرار کا تبصرہ جس رنگ اور جذبے سے معمور تھا وہ الفاظ میں نہیں سما سکتا ایک بات سنتے چلیے کہ جس طرح چھنّی آٹا چھانتے وقت قیمتی چیز گرادیتی ہے اور کچرا روک لیتی ہے اس طرح آپ اپنے کانوں کو چھننی والا کام مت کرنے دیں کہ کام کی چیزیں ضائع کردیں اور کچرا روکتے چلے جائیں۔

_ احادیث نقل کرنے میں حتَّی الامکان صحاح ستہ کو ترجیح دیں۔

_ صحاح کے علاوہ کسی اور کتاب سے تخریج کرتے وقت رواۃ پر جرح ضرور ملاحظہ فرمالیں اور صرف ایک امام کی جرح پر اکتفا نہ کریں بلکہ دیکھیں کسی اور نے اس پر کیا کلام کیا ہے ۔

حدیث ذکر کرنے کےبارے میں جو احتیاطیں بیان کی گئیں ان سب کا احاطہ چند سطروں میں ممکن نہیں ۔

اللہ کریم دعوت اسلامی کو ترقی و عروج نصیب فرمائے۔

24/02/202


یہ دنیا انسانوں کی بستی ہےجہاں روزا نہ ہزاروں ، لاکھوں لوگ آتے ہیں اور رب کریم کی طرف سے عطا کردہ زندگی گزار کر اپنےاَبدی ٹھکانے کی طرف چل پڑتے ہیں، لیکن بعض لوگ اپنی زندگی میں ایسے زبردست کارنامےسرانجام دیتے ہیں کہ انہیں اس دنیا سے جانے کے بعدبھی یاد رکھاجاتاہے،لوگ ان کے ناموں کاادب و احترام کرتے ہیں ا ن کےعرس کے موقع پر ان کےاصاف حمیدہ اور کارناموں کاذکر کرکےخرا ج تحسین پیش کرتے ہیں،ان کی بارگاہ میں ایصالِ ثواب کی صورت میں تحائف پیش کرتے ہیں۔ رب کریم کے انہی محبوب بندوں میں ایک ہستی جنہیں حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب تم دیکھو کہ کوئی شخص حضرتِ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سےمحبت رکھتا ہےا ور ا ن کی خوبیوں کو بیان کرنے ا ور ا نہیں عام کرنے کا اِہتِمام کرتا ہے تو اِس کانتیجہ خیر ہی خیر ہے ۔([1])

مختصرتعارف

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ 61ھ یا 63ھ میں خاندانِ بنوامّیہ میں مدینۂ منوَّرہ میں پیدا ہوئے،آپرحمۃ اللہ علیہ کےوالدِ ماجِد کا نام عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ تھا جو سرزمینِ عَرَب کےمعزز ترین خاندان ’’قُرَیش ‘‘ کی شاخ ’’بنوا میّہ‘‘کی ممتازشخصیت تھے، 20سال سے زائدعرصہ مِصر کے گورنر رہے۔آپ کی والدہ اُ مِّ عاصم رحمۃ اللہ علیہا حضرت سیِّدُنا عاصم بن عمر رضی اللہُ عنہ کی صاحبزادی اور حضرتِ عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہا کی پوتی تھیں،اس لحاظ سےحضرت عمر بن عبدالعزیز کی رَگوں میں فاروقی خون تھا،اِسی وجہ سے آپ کے کردار واَطوار پرحضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کا گہرا اَثر دکھائی دیتا تھا ۔

علمی مقام و مرتبہ

حضرت سیِّدنا عمر بن عبدالعزیز بچپن سےہی نیک وپرہیزگار اور علم دین کا ذوق و شوق رکھنے والے تھے ،کم عمری میں ہی قرآن کریم حفظ کر لیا تھا اور اس کے بعدمزید علمی پیاس بجھانے کے لئےحضرتِ سیِّدنا اَنَس بن مالک،سائب بن یزید اور یوسف بن عبداللہجیسےجلیل القدرصحابہ اور تابعین کے حلقۂ دَرس میں بھی شریک ہوئے۔یوں ا ن بزرگانِ دین کی صحبتِ بابرکت میں قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل کرکے وہ مقام حاصل کیا کہ آپ کے ہم عصربڑے بڑے محدثین کو بھی آپ کےفضل وکمال پر رشک آتا تھا۔امام ذَہَبی رحمۃ اللہ علیہنے آپ کے بارے میں لکھا کہ آپ بہت بڑے اِمام، فقیہ، مجتہد، حدیث کےماہراورباکمال حافظ تھے ۔([2]) حضرت سیِّدُنا میمون بن مِہران رحمۃ اللہ علیہنےآپ کو مُعَلِّمُ الْعُلَمَاء(یعنی علماء کا استاد ) قرار دیا۔([3])

جوانی میں خلیفہ بن گئے

حضرت عمر بن عبدا لعزیز رحمۃ اللہ علیہ مدینے شریف میں ہی عِلم وعمل کی منزلیں طے کرنے کے بعد صِرف 25 سال کی عمر میں مکۃ المکرمہ،مدینۃ المنورہ اور طائف کےگورنر بنے ا ور 6سال یہ خدمت شاندارطریقے سے اَنجام دینے کے بعد استعفی دےکرخلیفہ کےمشیر خاص بن گئے اور سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد 10 صفر المظفر 99ھ کو تقریباً36 سال کی عمر میں جمعۃُ المُبارک کےدن خلیفہ بنےاور اِس شان سےخِلافت کی ذمّہ داریوں کو نِبھایا کہ تاریخ میں اُن کا نام سنہرےحُروف سےلکھا گیا،کم وبیش اڑھائی سال خلیفہ رہنے کے بعدحضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے25 رجب 101ہجری بدھ کے دن تقریباً39سال کی عمر میں اپنا سفرِ حیات مکمل کرلیا اور اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔

اوصاف وکمالات

آپ رحمۃ اللہ علیہ بےشمار اوصاف وکمالات کےحامل اور ہروصف میں اپنی مثال آپ تھے، اگرآپ کی عِبادت گزاری پرنظر دوڑائیں تو عابِدوں کےسردار، زُہد وتقویٰ کو دیکھیں تو متقین کے رہنما،ذوقِ تِلاوت کے بارےمیں پڑھیں تو بہترین قاریٔ قرآن، علمی وسعتوں کو دیکھیں تو لاجواب عالمِ دین،تجدید ی کارناموں کاجائزہ لیں تو اسلام کے پہلے مُجَدِّد ، طَرزِ حکومت کا مشاہدہ کریں تو کامیاب ترین حکمرا نوں میں اُن کاشمار ہوتا ہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کےعلم وعمل،لاجواب انقلابی کارناموں ا ور امّتِ مسلمہ کی ا صلاح کے لئے کئے جانے والےاقدامات کو دیکھ کرعلماو مورخین نے ثانیٔ عمر کا لقب دیا ۔

شوق تلاوت کے واقعات

کثیرمصروفىات کےباوجود آپ کى عبادت کا ذوق و شوق قابلِ تقلىد تھا،بالخصوص آپ کو تلاوتِ قرآن کے ساتھ عشق کى حد تک لگاؤ تھا،آپ رحمۃ اللہ علیہ روزا نہ صبح سویرےقرآن مجید کی تھوڑی دیرتلاوت کرتےاور رات کےوقت جب سونے کا ٹائم ہوتاتو نہایت پُر سوز لہجہ میں سورۂ اعراف کی یہ آیتیں پڑھتے :

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے۔ ۸، اعراف:۵۴)

اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمْ نَآئِمُوْنَؕ ترجَمۂ کنزالایمان:کیا بستیوں والے نہیں ڈرتے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سوتے ہوں ۔ (پ۹، الاعراف :۹۷)

بعض اوقات ایک ہی سورۂ مبارکہ کو بار با ر رات بھر پڑھا کرتے تھے۔ایک رات سورۂ انفال شروع کی توصبح تک پڑھتے رہے۔([4])

ابوعمرکابیان ہےکہ جب حضرتِ سیِّدنا عمر بن عبدالعزیزگورنرتھےمیں جدّہ سےان کےلئے تحائف لےکرمدینَۂ منوَّرہ پہنچا تو وہ فجرکی نَماز اداکرنےکےبعدمسجدہی میں موجودتھے ا ورگودمیں قراٰن پاک لئےتلاوت کر رہے تھےا ور ان کی آنکھوں سےآنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔([5])

دھاڑیں مار مار کر رونے لگے

ایک شخص نےحضرتِ سیِّدُناعمر بن عبد العزیزکےپاس پارہ 18سورۂ فُرقان کی آیت 13 پڑھی:

وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًاؕ         ترجَمۂ کنزالایمان:اورجب اس کی کسی تنگ جگہ میں ڈالے جائیں گے زنجیروں میں جکڑے ہوئے تو وہاں موت مانگیں گے ۔

توآپ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے،آخرِ کار وہاں سےاٹھےاور گھر میں داخِل ہوگئے ۔ ([6])

تلاوت قرآن کی عادت بنائیے

اےعاشقان اولیا!معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے نیک بندےکس قدرشوق و محبت سے تلاوت فرمایا کرتے تھے،دن رات ربِّ کریم کا کلام پڑھتے رہتے تھے۔ مگر افسوس!آج مسلمانوں کی اکثریت قرآنِ پاک کی تعلیم سے نا آشنا ہے،بعض نادانوں کو قرآنِ پاک دیکھ کر پڑھنابھی نہیں آتا، اور جن کو پڑھنا آتا ہے وہ بھی سالوں سال تک قرآنِ پاک کھول کر نہیں دیکھتے،کئی کئی مہینے(Months) گزر جاتے ہیں مگرمسلمانوں کے گھرتلاوت کی برکت سےمحروم رہتے ہیں۔ آئیے!آج حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کےعرس کے موقع پر ہم بھی نیت کرتے ہیں کہ آج سےا ن کی سیرت کی اداؤں کو ا پناتے ہوئے ہم خودبھی قرآنِ پاک پڑھیں گے ا ور دوسرے لوگوں کو بھی قرآن ِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائیں گے۔ان شاء اللہ !

25 رجب المرجب کو اپنےاپنے گھروں میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی نیاز کریں اور اپنے بچوں کو ا ن کی سیرت کے بارےمیں بتائیں ،اس کے لئے دعوت اسلامی کے مکتبۃ المدینہ کی کتاب حضرتِ سیِّدنا عمربن عبدالعزیز کی 425 حکایات“ کو خود بھی پڑھئے اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیے۔اللہ کریم ہمیں اپنے نیک بندوں کےنقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

از: مولانا عبدالجبار عطاری مدنی

اسکالر:المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر،دعوتِ اسلامی)



[1] سیرت ابن جوزی ،ص74

[2] تذکرۃ الحفاظ، 1/90

[3] سیرت ابن جوزی، ص35

[4] حلیۃ الاولیاء ، 5/385 ملخصا وسیرت ابن جوزی،ص211

[5] سیرت ابن جوزی،ص42

[6] سیرت ابن جوزی، ص217