عِنْدَ ذِکْرِ الصَّالِحِیْن تَنَزَّلُ
الرَّحْمَۃُ ۔(نیک لوگوں کے ذکر کے
وقت رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، ۲/۶۵، رقم ۱۷۷۰)) آئیے! اللہ پاک کی رحمت سے حصہ پانے اور بزرگوں کا فیضان حاصل
کرنے کےلئے حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی سیرت ملاحظہ کیجئے۔
نام و نسب، القابات، پیدائش:
حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ولادت باسعادت مشہور قول کےمطابق ۵۳۸ھ میں آذربائیجان
کے قصبہ ’’مَروَند‘‘ میں ہوئی۔([1]) اسی مناسبت سے آپ کومروندی کہا جاتا ہے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکانام محمد
عثمان ہےجبکہ ”لعل اور شہباز“ آپ کے القاب
ہیں۔([2]) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کاسلسلہ نسب سیدمحمدعثمان بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سیدنورشاہ بن
سیدمحمودشاہ ہے جو گیارہ واسطوں سے حضرت
امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے ملتا ہے۔ ([3])
القاب کی وجہ:
جب کوئی شخص
اپنے نام کے علاوہ کسی اور لقب سے مشہور ہوجاتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی
وجہ ہوتی ہے جیسے مولی علی کرم
اللہ وجہہ الکریم کو آپ کی بہادری کی وجہ سے اسد اللہ کا لقب ملا جس کا مطلب ہے ”شیرِ خدا“ اور آپ
کو اپنے اسی لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی
طرح حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کو ”لعل“ اور
”شہباز“ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے آپ کے ان القاب کی وجہ یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ
کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر ’’ لعل“ کی مانندسرخ کرنیں پھوٹتی
محسوس ہوتی تھیں اسی مناسبت سےآپ رَحْمَۃُ
اللّٰہ ِ عَلَیْہ ”لعل“ کے لقب سے
مشہور ہوئےجبکہ ”شہباز“ کا لقب بارگاہ حسینیت سے عطا ہوا۔چنانچہ منقول ہے کہ ایک
رات آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے
والدِ ماجد حضرت کبیرالدینعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن امام ِعالی مقام
حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ
کی زیارت سے فیض یاب ہوئے،امام
حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے
ارشاد فرمایا: ہم تمہیں وہ شہباز عطا کرتے ہیں جو ہمیں ہمارے نانا جان ،رحمت عالمیان صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
واٰلہٖ وسلَّم سے عطا ہواہے ۔ اس بشارت کے بعدحضرت لعل شہبازقلندر کی ولادت ہوئی اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ
ولایت کے اعلی مرتبہ پر فائز ہوگئے ۔([4])
قلندر
کہنے کی وجہ:
آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سلسلہ قلندریہ سے بھی تعلق رکھتے تھے اسی لئے آپ کو قلندر کہا جاتا
ہے ۔برِصغیر میں سلسلہ قلندریہ نے حضرت شاہ خضر رومی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ (مُتَوَفّٰی ۵۹۹ھ)سے شہرت پائی۔([5])
مکتبۃ المدینہ کے رسالے ”فیضان عثمان مروندی لعل
شہباز قلندر“ کے صفحہ نمبر 9 پر ہے: قلندر خلافِ شرع حرکتیں کرنے والے کو نہیں کہا جاتا، جیسا کہ فی زمانہ بے نمازی ، داڑھی چٹ ، خلافِ شرع مونچھیں، عورتوں کی طرح لمبے لمبے بال ، ہاتھ پاؤں میں لوہے کے کَڑے پہننے والے لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ ہماری تو قلندری لائن
ہے ، مَعَاذَ اللہ، حالانکہ
صوفیائے کرام کی اصطلاح میں قلندر شریعت کے
پابند کو ہی کہا جاتا ہے چنانچہ
مصنفِ کُتُبِ کَثِیرہ،
خلیفۂ مفتیٔ اعظم ہند فیضِ مِلَّت حضرت علامہ مولانا مفتی فیض احمد اویسی رضوی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نقل فرماتے ہیں : ’’قلندر وہ ہے جو خلائقِ زمانہ
سے ظاہری اور
باطنی تجربہ حاصل کر چکا ہو، شریعت و طریقت کا پابند ہو ۔ ‘‘ مزید
فرماتے ہیں : ’’دراصل صوفی اور قلندر
ایک ہی ذات کا نام ہے صرف لفظ دو ہیں
مُسمّٰی (ذات)ایک ۔مگر حق یہ
ہے کہ ان میں عموم خصوص کی نسبت ہے ، اس لئے کہ ہر قلندر صوفی تو ہو سکتا ہے لیکن ہر صوفی قلندر نہیں، کیونکہ جہاں صوفی کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے قلندر کی ابتدا ہوتی ہے ۔‘‘([6])
ابتدائی تعلیم:
حضرت لعل شہباز
قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد
گرامی سید کبیرالدین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے زیر سایہ حاصل کی۔ چونکہ والدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھِما تقویٰ و پرہیز گاری اور زیورِ علم سے آراستہ
وپیراستہ تھے اس لیےبچپن ہی سے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اللہ والوں کی محبتیں اورصحبتىں مىسر آئىں۔ جس کے
نتیجے میں فىوض و برکات اور علمِ دىن کے
گہرے نقوش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی لوحِ قلب پر مُنَقَّش
ہوئے۔ یوں بچپن ہی میں نىکی اور راست بازى آپ کا شعار بن چکی تھی ۔([7])آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بچپن ہی سے علمِ دین حاصل کرنے
کا شوق تھا اور آپ نے چھ سال کی چھوٹی عمر میں ہی قرآن پاک مکمل پڑھ لیا تھااور
ابتدائی مسائلِ دینیہ بھی یاد کرلئے تھے یہی نہیں بلکہ سات سال کی عمر میں قرآن
پاک حفظ کرلیا۔ بعدہ دیگر دینی عُلوم کی تحصیل میں مصروف ہو گئے اور بہت جلد مروجہ
علوم و فنون میں بھی مہارت حاصل کرلى۔([8])
اساتذہ
و رفقاء:
حضرت لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جن اولیائے کرام اور صوفیائے عظام رَحِمَہُمُ اللہُ کى صحبتوں سے فیض یاب ہوئے اور راہ خدا کے مسافربنے ۔ان
میں سر فہرست حضرت شىخ فرىدالدین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، حضرت بہاؤ الدىن
زکرىا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، حضرت مخدوم جہانىاں جلال الدىن بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اور حضرت شىخ صدرالدىن عارف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا نام ِ نامی اسم ِ گرامی شامل ہے۔([9])
مزارات پر حاضری:
بزرگوں کے مزارات پر حاضری دینا بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ معمولات
میں سے تھا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک طویل عرصہ تک سیر و سیاحت کرتے رہے، دورانِ سیاحت
بہت سے اولیائے کرام سے ماقاتیں کیں اور بہت سے اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری
کا شرف حاصل کیا، آپ اپنے وطن مروند سے عراق تشریف لے گئے، چنانچہ بغداد میں
سیدالاولیا ءحضور سیدی غوث اعظم عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، مشہدشریف میں حضرت
امام علی رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اور کوفہ میں امام الائمہ، سراج الامۃ امام اعظم
ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مزار اقدس پر حاضری دے کر فیوض وبرکات حاصل کئے ۔([10])
بشارتِ غوثیہ:
بارگاہ غوثیہ سے حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بہت روحانی فیوض حاصل کئے جتنے دن رہے عبادت،
تلاوت اور مراقبہ میں مصروف رہے اور انوار و برکات حاصل فرماتے رہے۔مزار مبارک میں
حاضری کے دوران ایک مرتبہ حضور غوث اعظم رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ خواب میں تشریف
لائے اور آپ کو سینے سے لگایا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئےارشاد فرمایا : عثمان تم
ہمارے قلندر ہو تمہیں فیوض و برکات دے دئیے گئے ہیں ، اب تم یہاں سے مکہ مکرمہ جاؤ
اور بیت
اللہ کی قربت کی سعادت حاصل کرو ۔([11])
سفر مدینہ:
بزرگوں کے
مزارات سے اکتساب فیض کے بعد آپ رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کے دل میں آقائے
دو جہاں، سرورکون ومکاںصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درپاک پر حاضری کی تمنا جاگ اُٹھی چونکہ حج
کے ایام قریب تھے لہذااحرام باندھا اور چل پڑے۔ حج بىت اللہ سے مشرف ہونے کے بعدمدینہ منورہ میں نبی محترم، شفیع
معظم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر دی اورعشق ومحبت میں ڈوب کر
اپنے پیارے آقا و مولیٰ محمد مصطفٰےصَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر خوب خوب درود وسلام کے نذرانے پیش کیے۔ ([12])
بیعت
و خلافت:
حضرت عثمان مروندی لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ علم و حکمت کی دولت سمیٹتے سمیٹتے جب کربلائے
معلی پہنچے توحضرت امام موسىٰ کاظم رَضِیَ
اللہُ عَنْہ کی اولاد سے ایک بزرگ حضرت شىخ ابواسحاق سید ابراہىم قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دست اقدس پر بیعت ہوئے اور تقرىباً ۱۲ماہ تک پیرومرشد کے زیرسایہ سلوک کی منزلیں
طے کرتے رہے۔ پیرومرشد حضرت ابراہیم رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کی نظر ولایت نے جب
اس بات کا مشاہدہ کیا کہ یہ مرید اب مرید کامل بن کر طریقت کی اعلیٰ منزلیں طے
کرچکاہے تو انہوں آپ رَحْمَۃُ اللہِ
عَلَیْہ کو خرقہ خلافت سے نوازا اور خدمت دین کے لیےراہِ
خدا میں نکلنے کی ہدایت فرمائی۔([13])
پیر و مرشد کے حکم پر عمل:
آپ رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کو آپ کےمرشد
کریم نےچونکہ خدمت ِ دین کے لئے کوئی خاص
منزل متعین نہ فرمائی تھی لہذا آپ رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ مرشد کریم کے
فرمان پر لبیک کہتے ہوئے اَن دیکھے راستوں
پر نکل کھڑے ہوئےاور شہر بہ شہر گاؤں بہ گاؤں نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے میں
مصروف ہوگئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی تمام عمر دین کی خدمت اورتبلیغ
دین میں گزری ، چنانچہ
سندھ میں آمد:
سرکاردوعالم صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درِاقدس سے واپسی پر کچھ عرصہ عراق میں قیام
فرمایا پھر تبلیغ قرآن و سنت کا عظیم فريضہ سرانجام دیتے ہوئے مکران کے راستے سندھ مىں جلوہ فرما ہوئےآپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عادت کریمہ تھی کہ ایک جگہ قیام پزیر نہ رہتے بلکہ اکثر سفر پر رہتے
چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ملتان اور پھر ہندوستان کے دیگر
شہر گرنار،گجرات ، جونا گڑھ، پانی پت، وغیرہ کا سفر اختیار فرمایا اور خوب نیکی کی دعوت کی
دھومیں مچائیں۔([14])
سیہون آمد:
حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آمد سے قبل سیہون برائیوں اور بدکاریوں کا گڑھ تھا ہر طرف برائی
اور بدکاری کا دور دورہ تھا۔ سیہون
اس وقت بت پرستی اور کفر و الحاد کا مرکز بنا ہوا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے میں بے
راہ روی تھی، جوا، شراب اور دوسری معاشرتی برائیاں عام تھیں۔ لوگوں کی اخلاقی حالت
بہت پست تھی جگہ جگہ عصمت فروشی کے اڈے قائم تھے لیکن حضرت لعل شہباز قلندر نے سیہون پہنچتے ہی گمراہ اور بدکار
لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروایا اور برائیوں اور بدکاریوں سے دور رہنے
کی تلقین فرمائی اور لوگوں کو اسلام قبول کرنےکی دعوت دی۔
سیہون کے بڑے بڑے زمیندار اور روسا ان برائیوں میں
شریک تھے۔ ان عیش پسندوں اور روساء نے آپ کی بہت مخالفت کی۔ مگر آپ نے اس ظلمت کدہ
کفر میں اسلام کی شمع کو منور رکھا۔ آہستہ ہستہ اس شمع کی روشنی پھیلنے لگی اور آپ
کی دینی و روحانی تعلیمات کو لوگ قبول کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے برائی کی جگہ
نیکی نے لےلی اور بدکاری اور فحاشی سے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگے۔ گناہوں اور
برائیوں کے مرکز ویران اور سنسان ہوگئے۔ سیہون کے جس محلہ میں آکر آپ قیام پذیر ہوئے وہ محلہ بدکار عورتوں کا تھا اس عارف باللہ کے قدموں کا پہلا اثر یہ تھا کہ وہاں زناکاری
اور فحاشی کا بازار سرد پڑگیا۔ ([15])
کرامت:
حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی سیہون شریف آمد سے قبل یہاں کا ایک محلہ بے
حیائی اور بد کاری کا مرکز سمجھا جاتا تھا فاحشہ عورتیں سرعام لوگوں کو دعوتِ گناہ
دیتیں۔ حضرت قلندر کی آمدکے بعدجو مرد بھی گناہ کے ارادے سے اس محلے میں آتا آپ کی
نظر فیض اثر پڑتے ہی فوراً واپس ہو جاتا
او ر اس قدر مرعوب ہوتا کہ دوبارہ اس طرف کا رخ نہ کرتا آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں ان عورتوں کے لیے ہدایت کی دعا
مانگى جو فوراً قبول ہوئی اور یکدم ان کی کایا پلٹ گئی چنانچہ وہ سب خود جمع ہوکر
حضرت قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور صدق دل سے تائب ہوکر قلعہ
اسلام میں پناہ گزیں ہوگئیں۔([16])
وصالِ باکمال:
زندگی کی112 بہاروں کو بارگاہِ قلندر سے فیض پانے کا
موقع ملا۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے 21شعبان المعظم650 ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔([17]) انا
للہ وانا الیہ راجعون
آپرَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ نے جس جگہ وصال
فرمایاوہیں آپ کا روضہ مبارکہ تعمیر ہوااس کی تعمیر سب سے پہلے سلطان فیروز تغلق
کے زمانےمیں ہوئی پھر وقتاًفوقتاً سرزمین ہند پر حکمرانی کرنے والے سلاطین وامراء
مزار پرانوار پر حاضر ہوتے رہے اوراس کی تزئین وآرائش میں حصہ ڈال کر دین و دنیا کی سعادتیں لوٹتے رہے آج بھی آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا عرس مبارک نہایت تزک واحتشام کے ساتھ منایا
جاتا ہےجس میں دورو نزدیک سے آنے
والےعقیدت مند اور محبین اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہیں ۔([18])
اللہ پاک ہمیں حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کےفیضان سے مالا مال فرمائے۔ آمین
از:مولانا سید منیرعطاری مدنی
اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر، دعوتِ اسلامی
[1] … اللہ کے خاص
بندے،عبدہ،ص۵۲۳
[2] … شان
قلندر،ص۲۶۴ملخصاً
[3] … شان
قلندر،ص۲۶۴
[4] … اللہ کے خاص
بندے،عبدہ،ص۵۲۲بتغیر
[5] … اقتباس الانوار، ص۶۶
[6] … قلندر کی شرعی تحقیق، ص۶، بتصرف
[7] … شان
قلندر،ص۲۶۸بتغیر
[8] … شان
قلندر،ص۲۶۸بتغیر
[9] … تذکرہ اولیائے
سندھ، ص۲۰۶ بتغیر
[10] … اللہ کے خاص
بندے،عبدہ،ص۵۲۹
[11] … سیرتِ حضرت
لعل شہباز قلندر،ص۸۴
[12] … اللہ کے خاص
بندے،عبدہ،ص۵۲۹
[13] … شان
قلندر،ص۲۷۰بتغیر
[14] … اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۹
[15] … سیرتِ حضرت
لعل شہباز قلندر،ص۱۰۶۔۱۰۷
[16] … تذکرہ صوفیائے
سندھ، ص۲۰۳ملخصاً
[17] … اللہ کے خاص
بندے،عبدہ،ص۵۲۳
[18] … تذکرہ صوفیائے
سندھ، ص۲۰۳ملخصاً