اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ط

تذکرہ ٔ خواجہ سیدمبارک علی شاہ الوری رحمۃ اللہ علیہ

دُرُود شریف کی فضیلت

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم:میں نے گزشتہ رات عجیب واقعہ دیکھا ، میں نے اپنے ایک اُمتی کو دیکھاجوپُل صراط پر کبھی گھسٹ کر اور کبھی گھٹنوں کے بل چل رہا تھا ، اتنے میں وہ دُرُودآیا جو اس نے مجھ پر بھیجا تھا، اُس نے اُسے پُل صراط پر کھڑا کر دیا یہاں تک کہ اُس نے پل صراط پار کر لیا۔ (معجم کبیر ،25/282، حدیث:39)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

تذکرہ ٔ خواجہ سیدمبارک علی شاہ الوری

الورصوبہ راجستھان، ہند(1) کاسادات خاندان اپنی نسبی شرافت، علمیت اور قائدانہ صلاحیتوں سے مالامال ہے ،ان میں کئی ہستیوں نے دین وملت کے لیےایسی کثیر خدمات سرانجام دیں جوتاریخ کے اوراق میں نقش ہیں،تقریبا تین سوسال سے مسلمانانِ ہندوپاک ان کے فیوضات وبرکات سے مستفیض ہورہے ہیں ،اس خاندان کے ایک عظیم فرزند پاکستان کے آٹھویں بڑے شہرحیدرآباد(2 ) میں مدفون ہیں، میری مراد جوہرکانِ ولایت،گوہر بحرحقیقت،مخزنِ اسرارِ شریعت، معدنِ نورِ معرفت،پیرِطریقت،عالم شریعت حضرت خواجہ مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی رضوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اس رسالے میں ان کا مختصر ذکرخیرکیا جاتاہے ۔

خاندان کا تعارف

پیرطریقت حضرت خواجہ مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی رضوی صاحب خاندانِ سادات کے چشم وچراغ تھے ، آپ حسنی رضوی سیدتھے ،44ویں پشت میں آپ کانسب حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ (3) سے مل جاتاہے۔(4) آپ کے آباء واجداد مشہد مقدس(5) سے بلگرام(6) وہاں سے فیض آباد(7) اوروہاں سے ریاست الورمیں آئے، یہیں بودوباش اختیار کرلی ۔یہ خاندان نہایت شریف ،دین دار اور متقی تھا ، اس خاندان کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:مولانا سیدمبارک علی حسنی رضوی، مولانا سیدسلامت علی حسنی رضوی،مولانا حکیم سیدوزیرعلی حسنی رضوی ،سیدشاہ محورحسنی رضوی، سید ابوسعید محمود حسنی رضوی ،سیدابی نصربلخی حسنی رضوی،سید ابوکمال محمدحسنی رضوی،سیدقوت الدین محسن حسنی رضوی، سید ذکی حسن حسنی رضوی،سیدعلی حسنی رضوی، سید نورالدین ثانی حسنی رضوی،سیدصفی جفوی حسنی رضوی، سید غوث الدین حسنی رضوی، سید نورالدین حسنی رضوی، سید ابراہیم حسنی رضوی، سیدبرہان الدین حسنی رضوی، سید رضی الدین حسنی رضوی،سیدعبدالرزاق حسنی رضوی،سیدحافظ عبدالغفور حسنی رضوی، سید محمد صالح حسنی رضوی، سیدمہیمن حسنی رضوی، سیدعبداللہ ثالث حسنی رضوی، سیدشہاب الدین غوری حسنی ،سیدعبدالرحمٰن غوری حسنی، سیداسماعیل غوری حسنی، سید صفدرعلی حسنی، سیدتواب ابوالقاسم حسنی ،سیدطاہر حسنی ،سیدطیب حسنی ، سید اویس ثانی حسنی، سید عسکر حسنی، سید یحییٰ حسنی،سیدناصرالدین حسنی،سیدعلی حسنی، سیدحمود حسنی،سیدمحمود حسنی، سیدعبداللہ ثانی حسنی ،سید امام احمد حسنی، سید امام عمر حسنی ، سیدادریس اول حسنی، سید امام عبداللہ محض حسنی ،سیدامام حسن مجتبیٰ ۔ (8)

خاندانِ مبارکیہ الورمیں

اس خاندان کے پہلے فردجو الور آئے وہ مولانا سید مبارک علی شاہ کے جدامجد مولاناحکیم سید وزیرعلی حسنی رضوی بلگرامی ہیں،یہ عالم دین ،حکیم حازق ، اسلامی شاعر، مصنف کتب اورمعززینِ زمانہ سے تھے ، ان کا علاج حیرت انگیز ہوتاتھا ، مایوس لوگ ان کے علاج سے شفاپاتے تھے ،ریاست کے راجہ نے انہیں ریاستی طبیب مقررکیا تھا،انھوں نے 1855ء میں دہلی، لکھنؤ،آگرہ اوربریلی وغیرہ کے مشاہیربزرگوں کے حالات بنام ’’مرآۃ الہند‘‘تحریرفرمائے، جسے 1856ء میں الورسے شائع کروایا گیا تھا۔(9)

پیدائش

حضرت مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی صاحب کی ولادت تقریبا 1305ھ مطابق 1888ء کومحلہ نواب پورہ ، الور (راجستھان ، ہند)میں ہوئی۔ آپ کانام الورکے مشہور محدث اور ولی اللہ داداجی میاں،شاہ ِولایت ِالور حضرت شیخ سید مبارک شاہ محدث الوری رحمۃ اللہ علیہ (10) کے نام گرامی کی نسبت سے’’ سیدمبارک علی‘‘رکھا گیا، الورکے مشہور شاعر صاحبزادہ سیدشبیرحسین اخترزید ی (11) نے آپ کی منقبت لکھی جس میں آپ کے نام و جائے پیدائش (مولد)کا اس طرح ذکر کیا ہے :

مبارک ہے کہ جس پر مہرباں ہے خالق اکبر

جناب رحمۃ للعالمین کا پیار ہے جس پر

مبارک ہے نثارِ یاعلی کا جوخلیفہ ہے

مبارک ہے کہ جس کا مولدومسکن رہا الور (12)

والدین کا تذکرہ

مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب کے والدگرامی حضرت مولانا خواجہ سید سلامت علی شاہ حسنی صاحب ایک نیک اور علمی شخصیت کے مالک تھے،آپ کوتجارہ شہر (13) میں مدارالمہام (حاکم اعلیٰ،سربراۂ کار،نائبُ السلطنت)کے عہدے پر تعینات کیا گیا، اس کے بعد آپ تجارہ کے ایک قریبی علاقے ٹپوکڑہ (14) میں تشریف لے آئے یہاں کے لوگ آپ کے معتقد تھے، آپ نے یہیں قیام فرمایا اوررشدوہدایت کا سلسلہ جاری رکھا ، یہیں آپ کا وصال ہوا،مزارمبارک یہیں ہے۔ آپ صاحب کرامات تھے ، پٹوکڑہ کی ایک شاہراہ پر بہت بڑااژدھا رہتاتھا ،لوگ اس کے خوف سے لمباراستہ اختیار کرتے تھے، جب آپ کو معلوم ہوا توآپ وہاں تشریف لے گئے ،آپ نے ایک سکے پرکچھ پڑھ کردم کیا اوراژدھے کی طرف پھینک دیا، اس کا منہ بندہوگیااور وہ دم توڑ گیا۔ (15) حضرت مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب کی والدہ محترمہ دینی تعلیم سےآراستہ اور سلیقہ شعارخاتون تھیں، یہ بھی سادات کے حسنی خاندان سےتعلق رکھتی تھیں۔ (16)

تعلیم وتربیت

مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب نے دینی تعلیم علمائے الورسے حاصل کی۔قرآن کریم حضرت حافظ قاری محمدحنیف انصاری صاحب(17) اور فارسی کی تعلیم حضرت مولانا مفتی زین الدین الوری (18)سے حاصل کی ،اس زمانے میں الورمیں ولی کامل، مرشددوراں حضرت میاں صاحب مولانا سید نثارعلی شاہ مشہدی قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ (19) مرجع خاص و عام تھے، بچپن میں ہی مولانا سید مبارک علی شاہ صاحب کو میاں صاحب الوری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت حاصل ہوئی ، ان سےہی بیعت کا شرف پایا اورپھر سلسلہ قادریہ راجشاہیہ (20) اور سلسلہ چشتیہ صابریہ(21) میں خلافت سے بھی نوازے گئے۔(22)

مجاہد ات وریاضات

آپ بچپن سے ہی نمازروزوں کے پابند،فرائض وسنن کے عامل اورحسنِ اخلاق کے پیکر تھے ،تصوف کی جانب بہت لگاؤتھا ،آپ نے الورکی چاند پہاڑی (تال برچھوں )میں چِلّے کاٹے، ڈگی تالاب میں کھڑے ہوکرریاضت کی ،دوران ریاضت مچھلیوں نے آپ کوزخمی بھی کیا اورپنڈلیوں کا گوشت کھا لیا مگرپھربھی آپ نمازیں باجماعت اداکرتے رہے۔(23)

دیگربزرگوں سے استفادہ

مولاناسیدمبارک علی شاہ صاحب نے حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی(24) سے بھی استفادہ کیا اورسلسلہ نقشبندیہ توکلیہ (25)میں خلافت حاصل کی ، میاں صاحب حضرت مولانا سید نثارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ نے شیخ المشائخ، شبیہِ غوثِ اعظم پیرسیدشاہ علی حسین اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ(26) کی جانب رجوع کیا اور اُن سے 18ذیقعدہ 1341ھ کو سلسلہ چشتیہ نظامیہ اشرفیہ (27)اور سلسلہ قادریہ جلالیہ اشرفیہ(28)کی خلافت واجازت سے مشرف ہوئے (29) آپ کو شہزادۂ اعلیٰ حضرت، حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ (30) سے بھی استفادے کاموقع ملا اوراُن سے سلسلہ قادریہ رضویہ حامدیہ(31) کی خلافت اور اجازت حاصل ہوئی۔ صاحبزادہ سیدشبیرحسین اخترزیدی نے آپ کے روحانی سلسلوں کو اپنے شعرمیں یوں منظوم کیاہے:

مبارک ہے کہ چشتی قادری تھے سلسلے جس کے

مبارک ہے حقیقت معرفت کے جس میں تھے جوہر(32)

روحانی مقام ومرتبہ

مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب علم وعمل کے پیکر،ولی کامل، مرجع عوام،صاحب مراتب ، صاحب مسند اور کثیر اوصاف حمیدہ کے جامع بزرگ تھے ، الورمیں آپ کا مرتبہ ٔ روحانیت قابل ذکرشمارہوتاہے ،شارح بخاری ،شیخ الحدیث حضرت علامہ محمود احمد رضویرحمۃ اللہ علیہ (33) تحریر فرماتے ہیں :حضرت مولانا سید مبارک علی شاہ صاحب الوری جو اپنے وقت کے باکمال بزرگ تھے،نہایت عابدوزاہد،متقی و پرہیزگار اور صاحب کرامت شخصیت تھے ،رات دن عبادت وریاضت میں گزار دیتے۔ ریاست ِالورمیں آپ کے دولت کدہ پر مشائخ وفقراء اورمجازیب کا ہجوم رہتا تھا، دور دورسے حاجت مندآتے اور اپنی مشکلات کا روحانی علاج کراتےتھے ،حضرت سیدمبارک علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ بھی حضرت سید شاہ نثارعلی صاحب علیہ الرحمہ کے مرید وخلیفہ تھے۔آپ ریاست الورمیں اپنے پیرومرشدکا سالانہ عرس بڑی دھوم دھام سے منعقد کرواتے تھے،جس میں علما و مشائخ اورفقراءوصوفیاتشریف لاتے تھے ۔ (34)

پاکستان میں ہجرت

قیام پاکستان کے لیے الورکے مسلمانوں نے بھرپورکرداراداکیا اور تحریک پاکستان میں حصہ لیا،جب پاکستان بن گیا توحالات کے نا گفتہ بہ ہونے کی وجہ سے مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب نے پاکستان کے شہرلاہور(35) ہجرت کرنے کافیصلہ کیا کیونکہ لاہورمیں آپ کی ہمشیرہ رہتی تھی ،جن کی شادی امام المحدثین علامہ مفتی سیددیدارعلی شاہ الوری رحمۃاللہ علیہ (36) سے ہوئی تھی ،(37) نیزآپ کے بیٹے شیخ التصوف حضرت مولانا سید محمدعلی حسنی رضوی صاحب جامعہ حزب الاحناف لاہور(38) سے فارغ التحصیل ہوئے تھے اورلاہورشہرسے زمانہ طالب علمی سے واقف تھے۔ کچھ عرصہ آپ نے دارالعلوم حزب الاحناف اندرون دہلی گیٹ لاہورمیں قیام فرمایا ،پھر الور کے راجپوتوں نے (جو الور سے حیدرآباد ہجرت کرکے آئے تھےاورآپ کے مریدتھے ) آپ کو حیدرآبادآنے کی دعوت دی چنانچہ آپ حیدرآبادمنتقل ہوگئے۔ (39)

حیدرآباد میں خدمات

حیدرآبادمیں آپ کے مریدین نے آپ کو ہیرہ آباد،شاہی بازاراوردیگرمقامات پر ٹھہرنے کی پیشکش کی مگرآپ نے جامع مسجدنورکے قریب بلدیہ سے ایک پلاٹ خرید کر مکان تعمیرکرکے اس میں رہائش اختیارکی ،نور مسجدچھوٹی تھی ، اس کی توسیع فرمائی اور مسجد میں امامت اختیارکی اورسلسلہ مبارکیہ کی ترویج کی بھی کوشش جاری رکھی، آپ سے حیدرآبادکے ہزاروں لوگوں نے استفادہ کیا اوربھرپورمستفیض ہوئے ۔ (40)

شریعت کی پابندی

عوام ہوں یا خواص سب پر شریعت کی پابندی ضروری ہے ،حضرت مولانا سید مبارک شاہ صاحب نہ صرف خود پابندِقرآن وحدیث اورمتبع سنت تھےبلکہ اپنے مریدوں اوردیگرلوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے ،آپ کو نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے میں کسی کی پروا ہ نہیں ہوتی تھی ،یہی وجہ ہے کہ جو آپ کی صحبت میں آتاپابندِصوم و صلوۃ اورشریعت مطہرہ کےمطابق زندگی گزارنے والابن جاتاتھا ،آپ کی پوری زندگی سنت مصطفی کی تصویرتھی،آپ نے اپنے دونوں بیٹوں شیخ التصوف حضرت مولانا سیدمحمدعلی حسنی رضوی اورمولانا سیدانوارعلی حسنی رضوی رحمۃ اللہ علیہماکی ایسی تربیت کی کہ یہ دونوں بھی علم وعمل کے پیکراورسنتوں کے پابندتھے ۔(41)

شادی و اولاد

حضرت مولانا سیدمبارک علی شاہ رضوی صاحب کا نکاح اپنے پیرومرشد حضرت مولانا سید نثارعلی رضوی مشہدی رحمۃاللہ علیہ کی بھتیجی سے ہوا ۔(42) آپ کی زوجہ سیّدہ محترمہ صوم و صلوۃ کی پابنداورعلم وعمل کی پیکرتھیں۔ آپ کے دوصاحبزادے ہیں :

شیخ التصوف علامہ سیدمحمدعلی رضوی

بڑے بیٹے مجاہدتحریک عقیدہ ٔختم نبوت حضرت مولانا سید محمد علی حسنی رضوی الوری(43)تھےجن کی شادی کاظمی خاندان میں ہوئی ،ان کے سسرقاضی سید محفوظ علی کاظمی اجمیری صاحب تھے، ان کےدوصاحبزادے٭صاحبزادہ سید برکات احمدحسنی رضوی ٭صاحبزادہ سیدحسنات احمدحسنی رضوی اورتین صاحبزادیاں ہیں ۔

مولانا صوفی سیدانوارعلی رضوی

چھوٹے بیٹے حضرت مولانا صوفی سید انوار علی حسنی رضوی ہیں (44) جن کی شادی قیام پاکستان کے بعد مغل خاندان کے مرزا مقیم بیگ صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی ،آپ کی آٹھ صاحبزادیاں اور تین صاحبزادے ہیں ،صاحبزادوں کے نام یہ ہیں :٭صاحبزادہ حضرت مولانا پیر سید اشرف علی حسنی رضوی٭صاحبزادہ سیدافسرعلی حسنی رضوی ٭صاحبزادہ مولانا سید نجف علی حسنی رضوی ۔ (45)

صاحبزادیاں

حضرت مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی تین صاحبزادیاں ہیں : ٭زوجہ حضرت قبلہ سائیں سید احمد علی شاہ کمبل پوش چشتی نظامی(46)، ٭زوجہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی شاہ ابو البرکات سید احمد رضوی(47)، ٭زوجہ قاضی اشتیاق حسین (سابق فارسٹ آفیسر پنجاب)اللہ پاک اس سادات گھرانے کو سلامت رکھے اور دنیا و آخرت سے مالامال فرمائے۔ (48)

مشائخ سے رابطہ

آپ حسن اخلاق کے پیکر،دل جوئی اورمہمان نوازی کرنے والے اور ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے ،آپ کا ہم عصرعلماومشائخ سے نہ صرف رابطہ تھا بلکہ دلی وابستگی بھی تھی، ان میں سے حضرت قاری حافظ پیر سید عابد علی شاہ صاحب(49)، حضرت پیر سید واحد علی شاہ صاحب(50) حضرت پیرطریقت میاں عبدالقادر تولیڑے والے(51)، حضرت پیر میاں سید نذیر احمدشاہ دیسولے والے(52) حضرت پیر ننھا میاں قادری (53) حضرت پیر سید احمد مدنی شاہ(54) حضرت مولانا عبدالرحیم ڈکاری شاہ اور حضرت خواجہ اخونددوسی پشاوری(55) وغیرہ شامل ہیں ،یہ حضرت نمازجمعہ جامع مسجد الور (56) میں ادافرماتے اور عصرتک ان حضرات کی مجلس جاری رہتی، حضرت پیر عیدوپھول شاہ صاحب دوھے والے(57) الورتشریف لاتے اورحضرت حافظ سیدعبدالحکیم شاہ صاحب (58) کے ہاں قیام فرماتے ، یہ آپ سےضرورملاقات کیا کرتے تھے ۔(59)

وفات ومدفن

مولانا سیدمبارک علی شاہ حسنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی وفات کی خبرپہلے دے دی تھی، علالت کے دوران حضرت مولانا عبدالشکورصادق چشتی نظامی(60) کوحکم صادرفرمایا کہ میرے دونوں بیٹوں کی خلافت واجازت نامہ تحریرفرمائیں ،چنانچہ ایساہی کیا گیا ،آپ نے ان پر دستخط فرماکردونوں بیٹوں کواجازت نامے عطافرمائے۔(61) آپ کا وصال حیدرآباد سندھ میں 23ذوالحجہ 1373ھ مطابق 3ستمبر1953ءکو ہوا،تدفین حیدرآباد کے قدیمی ٹنڈویوسف قبرستان میں کی گئی،(62) الورکے مشہورشاعرصاحبزادہ سید شبیر حسین اختر زیدی نےیہ قطعہ لکھا :

بست وذی الحجہ درآدینہ شب رحلت نمود اس مسافرازسرائے ہستی ناپائیدار

سہ ستمبربودوسالش خواں ’’براے مغفرت‘‘1953ء

مزارکی تعمیر

1954ء میں آپ کی قبرکو پختہ کیا گیا ،1972ء میں آپ کے صاحبزادے مولانا سیدمحمدعلی صاحب نے مزارشریف پر چھت ڈالنے کی سعادت پائی ،1993ء میں مزارشریف کے چاروں جانب چاردیواری تعمیرکی گئی ،1996ء میں آپ کے پوتے اشرف ملت حضرت مولانا صاحبزادہ سیداشرف علی شاہ صاحب نے چاردیواری کی ازسرنوتعمیرکی اورگنبدبنایا، مزیدتزئین وآرائش آپ کے پوتے صاحبزادہ سیدبرکات احمدرضوی نے کروائی ،اس آستانے کے موجودہ سجادہ نشین حضرت صاحبزادہ پیر سید اشرف علی حسنی رضوی قادری مدظلہ العالی(63) ہیں،جوعلم دین سےمالامال، سنتوں کے پابند اور ذکر و فکر میں مشغول رہنے والے انسان ہیں۔(64)

عرس کی تقریبات

حضرت خواجہ سیدمبارک علی شاہ صاحب کے مزارپرانواراور جامع مسجدنورپنجرہ پور حیدرآبادمیں ہرسال دھوم دھام سے عرس ہوتاہے ،راقم کے سامنے 68ویں دو روزہ عرس کا اشتہارہے ،جس سے معلوم ہوتاہے کہ 22،23ذوالحجہ1442ھ مطابق 2،3 اگست 2021ء کو حیدرآبادمیں منعقدکیا گیا ،جو قرآن خوانی،نعت خوانی، تقاریر علمائے اہل سنت اورچادرپوشی وغیرہ کی تقریبات پرمشتمل ہیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حواشی ،ماخذومراجع

(1) الورہند کے صوبے راجستھان کا ایک شہرہے جو تقریبا 75سال پہلے ریاست الورکا دارالحکومت تھا ، یہ دہلی اور جےپور کے درمیان واقع ہے دونوں جانب برابربرابر(یعنی 150کلومیڑ) فاصلہ ہے ،الورشہرمیں کئی اولیائے کرام کا مسکن ہے مثلامحدث الورسید مبارک شاہ،حضرت غالب شہید،حضرت مخدوم شاہ کمال چشتی، سلسلہ رسول شاہی کے بزرگ وغیرہ ۔(حیات کرم حسین ،23)

(2) حیدرآباد، پاکستان کے صوبہ ٔ سند ھ کا اہم شہرہے ،1935ء سے پہلے یہ سندھ کا دارالحکومت تھا،حیدرآباد صنعت اور تجارت کے لحاظ سے پاکستان کے اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی اہم صنعتوں میں چوڑی، چمڑا، کپڑا اور دیگر صنعتیں شامل ہیں،اس میں دعوت اسلامی کاعالی شان مدنی مرکز فیضان مدینہ آفندی ٹاؤن میں واقع ہے ،جس کو دنیائے دعوت اسلامی میں پہلافیضان مدینہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔

(3) نورِچشمِ رسول، جگر گوشۂ بتول، حضرت امام ابو محمد حسن بن علی مُجتبٰی رضی اللہ عنہ کی ولادت 15رمضان 3ہجری کو مدینہ منور ہ میں ہوئی اوریہیں 5ربیعُ الاوّل 49یا50ھ کو بذریعہ زہرخوانی شہادت پائی ،مزارپرانوارجنت البقیع میں ہے، آپ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم کےبڑے بیٹے،حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے شہزادے، نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشابےاورجنت کے نوجوانوں کے سردار تھے ،شجاعت،سیادت(سرداری)،سخاوت، تقویٰ وعبادت کے خوگرتھے، آپ کی شان میں کئی فرامین مصطفیٰ ہیں جن میں سے یہ بھی ہے: یہ میرا بیٹا سردار ہے یقیناً، اللہ پاک اس کی وجہ سے مسلمانوں کےدوگروہوں میں صلح کرائےگا۔ ( الاصابہ، 2 /60،صفۃ الصفوة، 1/386)

(4) اشتہارعرس ،اگست 2021ء ۔

(5) مشہد ایران کے شہروں میں سے ایک اہم شہر ہے ،آبادی کے لحاظ سے ایران کا دوسرا بڑا شہرہے۔ اس شہر میں امام علی رضارحمۃ اللہ علیہ مدفون ہیں، سالانہ کروڑوں لوگ آپ کے مزارپر حاضری کے لئے آتے ہیں۔

(6) بلگرام ہند کی ریاست اترپردیش کے ضلع ہردوائی کا ایک اہم شہر ہے۔

(7) فیض آباد ہندکے صوبے اترپردیش کا اہم شہرہے یہ دریائے گھاگھراکے کنارے واقع ہے ،یہ 1722ء تا 1775ء تک نوابی ریاست اودھ کا دارالحکومت رہا اورخوب ترقی کی ،اس کےبعد لکھنؤ(یوپی ہند)کو ریاست کا دارالحکومت بنادیا گیا ۔

(8) روشن تحریریں ،48،49وغیرہ۔

(9) مرجع الور،ص146،حیات کرم حسین ،ص130،تذکرۂ مبارک ،ص16،17،حیات کرم حسین میں آپ کا تخلص شیدالکھا ہے ۔

(10) اکبری دورکے عظیم محدث داداجی میاں صاحب،شاہِ ولایت الور حضرت علامہ سیدمبارک شاہ محدث الوری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ایک سادات گھرانے میں 897ھ مطابق1491ء میں ہوئی اوروصال 22محرم 987ھ مطابق 21مارچ 1579ءکو نوے سال کی عمرمیں الورمیں فرمایا۔آپ کو شہرسے باہرایک پرسکون مقام میں دفن کیا گیا، بعدمیں جہانگیر بادشاہ نے آپ کا عالیشان مزار تعمیرکروایا تھا، آپ بہترین عالم دین ،محدث وفقیہ ،صاحب کرامت ولی اللہ اورکثیرالفیض تھے اس لیے لوگوں کا آپ کی طرف بہت رجوع تھا۔ آپ صاحب کمال بزرگ تھے، آپ کی ذات میں سخاوت اورایثارپسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، مخلوق خدا پر بے دریغ مال خرچ کیا کرتے تھے،حاجت مندوں کی مدد کرتے، امرا بھی خالی ہاتھ نہ جاتے۔ (سیدی ابوالبرکات،118، نزھۃ الخواطر، 4/251، روشن تحریریں ، 130، مستفاد، منتخب التواریخ، ص 623) آپ کے تفصیلی حالات پڑھنے کے لیے راقم کا مقالہ ’’تذکرۂ محدث الور‘‘کا مطالعہ کیجئے۔

(11) صاحبزادہ سیدشبیرحسین اختر زیدی الورکے مشہورشاعرتھے اوراخترانکاتخلص تھا یہ الورکےعالم شہیراستاذالعلماء مولانا سیّد ضامن علی زیدی صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ سندھ کےمعروف شاعرمقبول الوری (وفات: 27فروری 1989ء) ان اختر الوری صاحب کے بیٹے ہیں ۔(حیات کرم حسین،ص130،روشن تحریریں ،ص50)

(12) روشن تحریریں،ص50،تذکرہ مبارک ص 16۔

(13) تجارہ (Tijara،তিজারা)الورشہرسے شمال مشرق55کلومیڑواقع ایک قدیم قصبہ ہے، یہ ریاست الورکا حصہ تھا، 1826ء میں راجۂ ریاست الور بختاورسنگھ کے بعد یہ ریاست اس کے دوبیٹوں میں تقسیم ہوگئی ،راجہ بنے سنگھ ریاست الوراورراجہ بلونت سنگھ ریاست تجارہ کے حکمران طے پائے،بلونت سنگھ نے 1845ء تک تقریباً 20سال تجارہ،کشن گڑھ،کرنی کوٹ،منڈاورپر حکومت کی اور1845ءکو لاولداس دنیا سے گیا ، تجارہ پھر الورمیں شامل ہوگیا ،راؤ راجہ بنے سنگھ الوروتجارہ کا حکمران بن گیا۔تجارہ میں کئی اولیائے کرام کے مزارات ہیں ،حضرت شاہ غازی گدن شاہ ولایت مداری(وفات1009ھ مطابق 1600ء)،حضرت رکن عالم شہید (421ھ مطابق 1030ء)، حضرت میراں جی شاہ جیون ابوالعلائی (26رجب 1167ھ مطابق1753ء)،حضرت شاہ بلم نور،حضرت مرزا احمد شاہ قادری (خلیفہ حضرت حمزہ مارہروی )،حضرت شاہ ابوالغیث ابوالعلائی (1241ھ مطابق1825ء) وغیرہ(حیات کرم حسین، ص23،22،67،68 ،126)

(14) ٹپوکڑہ(Tapukra،टपूकड़ा) تجارہ سے جانب شمال 21کلومیٹراوردہلی سے جانب جنوب ساڑھے 87کلومیٹرواقع ہے۔

(15) تذکرہ مبارک،ص17،20۔

(16) روشن تحریریں ،ص48،49۔

(17) حالات معلوم نہ ہوسکے۔

(18) حضرت مولانامفتی سیدزین العابدین الوری امام المحدثین مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے شاگرد،مدرسہ قوت الاسلام الورکے مدرس اورمفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدقادری الوری کے بھی استاذہیں ۔( تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہور،ص319،تذکرہ اکابراہل سنت،ص142،تذکرہ مبارک،ص17)

(19) حضرت میاں صاحب مولانا سید نثارعلی شاہ مشہدی قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت غالبا1245ھ مطابق 1830ء کو الورکے سادات گھرانے میں ہوئی اور یہیں 6شوال 1328ھ مطابق 11،اکتوبر 1910ء کو وصال فرمایا،آپ درسِ نظامی کے فاضل ،جیدعالم دین ، سلسلہ قادریہ راجشاہیہ اورسلسلہ چشتیہ صابریہ کے شیخ طریقت تھے ، یہ الورکی ہردل عزیزشخصیت اورمرجع خاص وعام تھے ، مشہور سنی عالم دین امام المحدثین مفتی سیددیدارعلی شاہ الوری ان کے بھتیجے اور خلیفہ ہیں ۔ ( سیدی ابوالبرکات ،ص117،روشن تحریریں ،ص139 )حضرت میاں صاحب الوری رحمۃ اللہ علیہ کے تفصیلی حالات اورآپ کے سلسلہ قادریہ وسلسلہ چشتیہ صابریہ کے بزرگوں کے مختصر حالات پڑھنے کے لیے راقم کا مقالہ ’’تذکرہ ٔ حضرت میاں صاحب الوری‘‘کا مطالعہ کیجئے ۔

(20) سلسلہ قادریہ راجشاہیہ میں شجرہ طریقت اس طرح ہے : میاں صاحب حضرت مولانا پیرسید نثارعلی رضوی قادری راجشاہی ، شیخ کمال میاں غازی الدین شاہ قادری راجشاہی، فردوِقت حضرت میاں راج شاہ قادری،قطب عالم حکیم محمد اسماعیل مہمی قادری شہید، خواجہ مجاہد حضرت شاہ غلام جیلانی صدیقی قادری، جامع شریعت وطریقت حضرت شاہ بدرالدین اوحدقادری، ناصرالملت والدین حضرت مولانا شاہ محمدفاخرالہ آبادی قادری، حضرت شاہ خوب اللہ یحیی الہ آبادی قادری، تاج العارفین شیخ محمدافضل الہ آبادی قادری،سیّدالاولیاء حضرت سید محمد ترمذی کالپوی قادری، اس کے آگے شجرہ ٔ قادریہ پاک وہند میں معروف ہے۔ (ملت راج شاہی، 370تا372) مزیدتفصیل راقم کے مقالے ’’تذکرہ میاں صاحب الوری‘‘ میں دیکھئے۔

(21) سلسلہ چشتیہ صابریہ میں شجرہ طریقت یہ ہے: میاں صاحب حضرت مولانا پیرسید نثار علی رضوی قادری چشتی، حضرت خواجہ غلام رسول لکھنؤی، حضرت خواجہ خدا بخش لکھنؤی، حضرت مولاناخواجہ شاہ عبدالرحمن موحد لکھنؤی، حضرت خواجہ شاہ نورالہدی منگلوری،حضرت خواجہ مفتی محمد سلیم الدین منگلوری، حضرت خواجہ محمد یوسف سامانہی،حضرت خواجہ محمدابراہیم مرادآبادی،حضرت خواجہ محمد صادق گنگوہی، حضرت خواجہ ابوسعید گنگوہی، اس کے آگے شجرہ ٔ چشتیہ صابریہ پاک و ہند میں معروف ہے۔ (شجرہ قادریہ نثاریہ مبارکیہ رضویہ اشرفیہ، ص3تا5) مزید تفصیل راقم کے مقالے ’’تذکرہ میاں صاحب الوری‘‘میں دیکھئے۔شجرہ قادریہ نثاریہ 21صفحات پر مشتمل رسالہ ہے اس کے ناشرصاحبزادہ پیرسیدنجف علی شاہ حسنی صاحب ہیں جنہوں نے اسےحضرت مولانا صاحبزادہ پیرسید اشرف علی شاہ حسنی صاحب کے حکم سے بخاری پرنٹنگ پریس حیدرآبادسندھ سے شائع کروایا ہے، سن اشاعت معلوم نہ ہوسکا،یہ رسالہ مبلغ دعوت اسلامی حاجی محمدسہیل عطاری صاحب نے مجھے بھیجا اس پر راقم ان کا اورحضرت مولاناصاحبزادہ پیر سید اشرف علی شاہ حسنی صاحب کا شکرگزارہے ۔

(22) روشن تحریریں ، ص49۔

(23) تذکرہ مبارک،ص18۔

(24) حضرت خواجہ سائیں توکل شاہ انبالوی کی ولادت 1255ھ مطابق 1840ء موضع پکھو کی (ضلع گورد اسپور،مشرقی پنجاب )میں ہوئی اور4ربیع الاول 1315ھ مطابق 3اگست1897ء کو انبالہ (مشرقی پنجاب )میں وفات پائی،آپ مادر زاد ولی ، سلسلہ نقشبندیہ کے معروف بزرگ ،امی ہونے کے باوجودعلم لدنی اورمعرفت کے خزینے تھے۔ (ذکرخیرصحیفہ محبوب،ص17،174،243)

(25) سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ توکلیہ میں شجرہ طریقت یہ ہے : حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی، خواجہ قادربخش جہاں خیلاں ہوشیارپوری ،حافظ حاجی محمود آرزو جالندھری، مولانا شاہ محمدشریف قندھاری ،حضرت شاہ ابوسعیدمجددی دہلوی، حضرت شاہ غلام علی دہلوی، اس کے آگے شجرہ ٔ نقشبندیہ مجددیہ پاک وہند میں معروف ہے ۔ (لمعات کمالات قادریہ وتبرکات خالقیہ، ص 110تا123)

(26) شیخ المشائخ مخدوم الاولیا ،شبیہ غوث اعظم حضرت شاہ سیدعلی حسین اشرفی رحمۃ اللہ علیہ عالِمِ دین، شیخِ طریقت، مَرْجَعِ عُلَما اور اَکابِرِینِ اَہلِ سنّت سے تھے۔ 1266ھ کَچھوچَھہ شریف میں پیدا ہوئے اور 11 رجب 1335ھ میں وِصال فرمایا۔ مزار شریف کچھوچھہ شریف میں ہے۔(تذکرہ علمائے اَہْلِ سنّت، 188تا190)

(27) سلسلہ چشتیہ نظامیہ اشرفیہ میں شجرہ طریقت یہ ہے :حضرت شاہ سیدعلی حسین اشرفی کچھوچھوی،مولانا سیداشرف حسین شاہ ،حضرت سیدنیاز اشرف شاہ، حضرت سید داؤدعلی شاہ،حضرت سیدتوکل علی شاہ،حضرت سیدبہاؤالدین شاہ، حضرت سید محمدمرادشاہ،حضرت سیدفتح اللہ شاہ،حضرت سیداحمدشاہ،حضرت سید شاہ راجو، حضرت سید محمود شمس الحق والدین،حضرت سیدحاجی چراغ جہاں، حضرت سید جعفر شاہ لاڈ،حضرت سیدحسین قتال، حضرت سید عبدالرزاق نورالعین، مخدوم سلطان سیداشرف جہانگیرسمنانی،حضرت خواجہ شیخ علاء الدین بنگالی، حضرت خواجہ عثمان اخی سراج الحق بنگالی ۔(سوانح حیات خاندان رضویہ برکاتیہ مع شجرہ عالیہ قادریہ اشرفیہ برکاتیہ،35،36)

(28) سلسلہ قادریہ جلالیہ اشرفیہ میں شجرہ طریقت یہ ہے :حضرت شاہ سیدعلی حسین اشرفی کچھوچھوی،مولانا سید اشرف حسین شاہ، حضرت سیدمنصب علی شاہ، حضرت سید قلندربخش شاہ،حضرت سیدصفت اللہ اشرف، حضرت سیدنواز اشرف، حضرت سید نذر اشرف ،حضرت سیدعنایت اللہ،حضرت سیدہدایت اللہ، حضرت سید نوراللہ، حضرت سیدعبدالرسول ،حضرت سیدحسین،حضرت سیدمحمد، حضرت سید اشرف شاہ شہید، حضرت سید محمد حسن، حضرت سید عبدالرزاق نورالعین، مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی،حضرت سیدمخدوم جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت۔ (سوانح حیات خاندان رضویہ برکاتیہ مع شجرہ عالیہ قادریہ اشرفیہ برکاتیہ، 37،38)

(29) مخدوم الاولیا محبوب ربانی ،309۔

(30) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عالم ِدین،ظاہری و باطنی حسن سےمالامال اور جانشینِ اعلیٰ حضرت تھے ۔بریلی شریف میں ربیعُ الاول 1292ھ میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ میں وصال فرمایا اور مزار شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہور ہے۔ (فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(31) سلسلہ قادریہ رضویہ میں شجرہ طریقت یہ ہے : حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان ، اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان ، حضرت شاہ آل رسول مارہروی ، حضرت شاہ آل احمداچھے میاں ، حضرت شاہ حمزہ مارہروی، حضرت شاہ آل محمدمارہروی، حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی، حضرت سیدفضل اللہ شاہ کالپوی، حضرت شاہ احمدکالپوی ، حضرت شاہ محمد کالپوری ۔ (شجرات قادریہ نثاریہ مبارکیہ رضویہ اشرفیہ ،12،13) یہ اوراس سے آگے شجرہ ٔ قادریہ پاک وہند میں معروف ہے ۔

(32) روشن تحریریں ،50۔

(33) شارح بخاری،شیخ الحدیث حضرت محموداحمدرضوی صاحب بن مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی 1343ھ مطابق 1924ء کو آگرہ (ہند) میں پیدا ہوئے،آپ جیدعالم دین ،محقق مقرر، مفتی اسلام، بہترین مدرس درس نظامی ، مصنف کتب کثیرہ اورملکی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے تھے، کچھ عرصہ رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے، 4رجب المرجب 1420 ھ مطابق 14 اکتوبر 1999ء کو لاہور میں وفات پائی،دارالعلوم حزب الاحناف لاہورمیں دفن کئے گئے۔ ( تذکرہ اکابرِ اہل سنّت، ص 140 ، تذکرہ علما اہل سنت و جماعت لاہور، ص 372 )

(34) سیدی ابوالبرکات ،118،119۔

(35) لاہورایک قدیم وتاریخی شہرہےمغلیہ عہدمیں لاہورکے اردگردفصیل اورتیرہ دروازے بنائےگئے ،372ھ کویہ ملتان سلطنت کا حصہ تھا،اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکزہے،اسےپاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباایک کروڑ 11لاکھ ہے۔

(36) امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ اسلام تھے۔ آپ اکابرین اہل سنّت سے تھے۔ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان) ہِند میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 22رجب 1345ھ مطابق 26جنوری 1927ءمیں وِصال فرمایا۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف اور فتاویٰ دِیداریہ آپ کی یادگار ہیں۔ آپ کا مزار مُبارَک اَندرونِ دہلی گیٹ محمدی محلّہ لاہور میں ہے۔ (فتاویٰ دیداریہ، ص2)

(37) ماخوذازسیدی ابوالبرکات ،118۔

(38) دار العلوم حزبُ الاحناف لاہوراہل سنت کی ایک مرکزی دینی درس گاہ ہے جو داتا گنج بخش روڈ پر واقع ہے۔ جس میں سے بڑے جلیل القدر علما فارغ التحصیل ہوئے،اس کے بانی امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ الوری ہیں جنہوں نے جامع مسجدوزیرخان (اندرونی دہلی گیٹ لاہور)میں 1322ھ مطابق 1924ء کواس کا آغاز فرمایا، 1345ھ مطابق 1926ء کو باقاعدہ اس کی عمارت جامع مسجدحنفیہ (مفتی سیددیدارعلی شاہ)محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ سے متصل بنائی گئی ،پھراسے گنج بخش روڈ پر وسیع وعریض عمارت میں منتقل کردیا گیا ۔

(39) روشن تحریریں،56،12۔

(40) تذکرہ مبارک،22۔

(41) تذکرہ مبارک ،22،23۔

(42) صاحبزادہ حضرت مولانا پیرسیدمحمداشرف حسنی رضوی صاحب کی جانب سے ایک تحریرمیں یہ بات ہے جس کا عکس راقم کے پاس موجودہے ۔

(43) مجاہدتحریک عقیدہ ختم نبوت حضرت مولانا سید محمد علی حسنی رضوی الوری کی پیدائش 1332ھ مطابق 1914ء کو الورمیں ہوئی، شعبان المعظم 1356ھ مطابق اکتوبر1937ء کو دارالعلوم حزب الاحناف سےفارغ التحصیل ہوئے، 1947ء تک دہلی کینٹ کی مسجدکے خطیب رہے ،جزوی طورپر تدریس بھی کی ،قیام پاکستان کے بعد لاہور آکر ہربنس پورکی مسجدمیں امامت وخطابت کی، اس کے بعدحیدرآبادآگئے ،یہاں آکر محلہ پنجرہ پول میں نورمسجداورمدرسہ برکات اسلام کی بنیاد رکھی ،اسکول میں ہیڈ ماسٹرکے فرائض بھی اداکرتے رہے ،1970ء میں قومی اسمبلی کے ممبربنائے گئے ،ختم نبوت بل پاس کرانے میں آپ کا بھی اہم کردار رہا، 1990ء میں مدرسہ احسن البرکات حیدرآباد(بالمقابل ہوم اسٹیڈ ہال) میں شیخ التصوف مقررہوئے ،دس سال اس منصب پرفائزرہے، آپ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب کے مریدوخلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ،شیخ المشائخ حضرت شاہ علی حسین اشرفی جیلانی،والدگرامی مولانا سید مبارک علی شاہ قادری چشتی، علامہ شاہ ابوالحسنات سیدمحمداحمدقادری،علامہ شاہ ابوالبرکات سید احمد رضوی اورشہزادۂ غوث الوری حضرت سید طاہرعلاؤ الدین گیلانی سے بھی خلافت حاصل تھی، آپ نے 11جمادی الاخریٰ 1429ھ مطابق 16جون 2008ءکو حیدرآبادمیں وصال فرمایا اوردرگاہ حضرت عبدالوہاب شاہ جیلانی میں دفن ہونے کی سعادت پائی۔(روشن تحریریں ،52تا64،32،5)

(44) حضرت مولانا صوفی سیدانوارعلی شاہ الوری میاں صاحب کے خلیفہ وجانشین حضرت مولانا سید مبارک علی حسنی رضوی کے فرزند،عالم دین اورصوفی باصفا تھے، ان کی وفات30جمادی الاخریٰ1415 مطابق3دسمبر 1994ء حیدرآباد سندھ میں ہوئی ،مزار، احاطہ مزارحضرت سیدنا گل شاہ غازی میں ہے ۔

(45) روشن تحریریں،56،55۔

(46) حضرت خواجہ سیداحمدعلی جمال شاہ کمبل پوش نظامی خاندانِ محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیا کے چشم وچراغ اور سجادہ نشین تھے ، آپ سالک نمامجذوب صاحبِ معارف تھے، صوفی شاعرحضرت مولانا عبدالشکورنظامی کمبل پوش اکبرآبادی ثم حیدرآبادی (وفات :14ربیع الاخر 1395ھ مطابق 26،اپریل1975 ء، مدفون حیدر آباد،سندھ پاکستان) آپ کے ہی خلیفہ ہیں۔ (انوارعلمائے اہلسنت سندھ، 547)

(47) مفتیِ اعظم پاکستان، سیّدُ المحدّثین حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قادری رَضَوی اشرفی، استاذُ العلماء، شیخ الحدیث، مناظرِ اسلام، بانی و امیر مرکزی دار ُالعُلوم حِزب ُالاحناف اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 1319 ہجری کو محلہ نواب پور اَلْوَر (راجستھان) ہند میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 20شوّال 1398ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک دارُ العلوم حِزب الاحناف داتا دربار مارکیٹ لاہور میں ہے۔ (تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص 318-314)

(48) تذکرہ مبارک،21،اس کے بارے میں مزیدمعلومات بذریعہ تحریرصاحبزادہ مولانا سیداشرف علی شاہ حسنی رضوی مدظلہ العالی نے عطا فرمائیں ۔

(49) امام انام حضرت خواجہ حافظ سید عابدعلی شاہ قادری چشتی الوری رحمۃ اللہ علیہ الورکے مشہوربزرگ ہیں ،آپ حضرت شاہ ولایت امروہی سہروردی کے خاندان سے تھے، حافظ صاحب کی ولادت 29رمضان 1298ھ مطابق 25،اگست 1881ءکو مرادآباد(یوپی ،ہند)میں ہوئی ،آپ نے حافظ محمد انورشاہ مرادآبادی (مریدوخلیفہ پیرجی میاں)سے حفظ قرآن کی سعادت پائی پھرحصول علم دین کے بعد پیرجی میاں احمد شاہ رامپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات میں حاضرہوکر 3صفر1316ھ کو بیعت ہوئےاور27شعبان1322ھ کو24سال کی عمرمیں خلافت سے نوازے گئے ،پیرجی میاں صاحب کے حکم سے2رمضان 1322ھ مطابق10 نومبر 1904 ء کو الورتشریف لائے اور رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا،آپ کا قیام دوسال چنبیلی باغ (بیرون دروازہ مالاکھیڑا،دامن کوہ الور)میں رہا،آپ عموماً نمازجمعہ مسجد دائرہ میں ادافرماتے تھے کیونکہ یہ مسجدآپ کے قریب تھی، نماز سے فراغت کے بعدآپ میاں صاحب مولاناسید نثار علی شاہ صاحب سے ملاقات کرتےاورباہم علم وعرفان پرمبنی گفتگوہوتی۔1323ھ مطابق 1905ء میں بحکم مرشد آپ اپنے چھوٹے بھائی حافظ سید واحدعلی شاہ الوری کو بھی یہاں لے آئے، تقریباً دوسال آپ کا قیام خواص کنہیالال جی باغیچی میں رہا، صرف 28سال کی عمرمیں آپ نے 29رمضان 1326ھ مطابق 25، اکتوبر 1908ء کو وصال فرمایا،آپ کی تدفین خانقاہ قادریہ موضع مونگسکہ نزدالورریلوے اسٹیشن میں ہوئی، جس پر عالیشان مزارکی تعمیرکی گئی ،آپ کا یوم عرس گیارہ شوال ہے۔(تجلیات مرشدالمعروف بہ سوانح امام انام حضرت سیدنا عابدعلی الوری، 20،23،24،32،88،110،109،134،تذکرہ صوفیائے میوات،571تا 578، تذکرہ کاملان رامپور، 20تا22،روشن تحریریں،137)

(50) پیرِ طریقت حضرت پیر سیّد واحد علی شاہ قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ 1305ھ کو خاندانِ شاہِ ولایت امروہی مرادآباد میں پیدا ہوئے ، تعلیم و تربیت “ الور “ میں ہوئی ، آپ عالمِ دین، پیرِ طریقت اور عظیم روحانی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا وصال 11ربیعُ الآخر 1366ھ کو کراچی میں ہوا، مزار بارگاہِ واحدیہ (سخی حسن چورنگی ،  نارتھ ناظم آباد) کراچی میں ہے۔ (اللہ والے ، کلیاتِ مناقب ، ص689)

(51) تولیڑے والے باباحضرت صوفی سید عبد القادر شاہ نقشبندی کی ولادت پیر12 ربیع الاول 1219ھ پھلور ضلع جالندھر مشرقی پنجاب انڈیا میں ہوئی،10 ربیع الاول 1381ھ مطابق 1961ء بروز منگل سہ پہر تین بجے حیدرآباد سندھ میں وصال فرماگئے، آپکا مزارمبارک ہالہ ناکہ آفتاب آباد حیدرآباد میں مرجع خلائق ہے ،آپ کو حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی کے پیربھائی حضرت کرم بخش نقشبندی مجددی پھلواری (خلیفۂ حضرت خواجہ قادر بخش نقشبندی )سے بیعت وخلافت کی سعادت حاصل ہوئی ،آپ نے سلطان الہندحضرت خواجہ سیدحسن سنجری اجمیری کے روحانی حکم سے قصبہ تولڑہ ریاست الورمیں قیام فرمایا،1947ء میں پاکستان ہجرت کی، دوسال گوجرانوالہ میں قیام فرمایا اور1949ء میں حیدرآبادتشریف لے آئے،آپ شریعت وطریقت کے جامع تھے، کبھی نماز قضانہ ہوئی۔ کئی غیرمسلم آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے،آپ عابدوزاہد،کم سخن ، خاموش طبع،صوفی کامل تھے ۔اگرچہ آپ کی شخصیت مرجع خلائق تھی مگرآپ نے کسی کو اپنے سلسلے کی خلافت عطانہیں فرمائی۔(بزم جاناں،۲۸۴ ،روشن تحریریں ،۶۲وغیرہ)

(52) دیسولے والے پیرصاحب حضرت میاں سیدنذیراحمدشاہ نقشبندی لکھنؤ کی پیدائش قصبہ موہان ضلع اناؤ ریاست اترپردیش میں ہوئی تعلیمی مراحل لکھنؤمیں طے کئے، آپ حضرت علامہ شاہ شمس الدین احمدمیاں گنج مرادآبادی (صاحبزادے وجانشین حضرت علامہ شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی )کے مرید و خلیفہ تھے ،انہیں کے حکم سے قصبہ دیسولہ ریاست الورمیں قیام فرمایا ،1947ء میں لاہورپھرشیخوپورہ اور آخرمیں بہاولپورتشریف لائے اوریہیں 25ربیع الاول1388ھ مطابق 22جون 1968ء کو دوران نعت خوانی وصال فرمایا ۔غزالی زماں حضرت علامہ سیداحمد سعیدشاہ کاظی اورفیض ملت حضرت مولانا فیض احمداویسی رحمۃ اللہ علیہما نے بھی ان سے استفادہ فرمایا ،علامہ کاظمی صاحب کو غزالی زماں کا لقب بھی آپ نے عطافرمایا۔(اولیائے بہاولپور،287،288)

(53) حضرت ننھامیاں قادری راجشاہی صاحب فردوقت میاں راج شاہ قادری صاحب کے نواسے تھے۔( روشن تحریریں ،140)

(54) خواجہ سیداحمدمدنی الوری صاحب سادات کے عظیم خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، آپ علاقہ میں معروف ومشہورصاحب نسبت اورخدارسیدہ بزرگ تھے اور ہمہ وقت جذب ومستی میں رہا کرتے تھے ، ان کے والد حضرت مولانا سید نورمحمد مدنی شاہ نقشبندی شیخ المشائخ علامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی کے خلیفہ اورالورکی ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے ،ان کا وصال 28رجب 1316ھ مطابق 12دسمبر1898 ء کو ہوا،آپ کو ہسپتال سے متصل ریلوے روڈپر دفن کیا گیا اور بعد میں خوبصورت مزارتعمیرکیاگیا، مولانامفتی شاہ عبدالرحیم منڈاوری الوری صاحب (تلمیذامام المحدثین مفتی سیددیدارعلی شاہ ) ان کے سجادہ نشین مقررہوئے جبکہ مولانا محبوب لعل شاہ سید نورمحمد مدنی شاہ صاحب کے خلیفہ تھے،مدنی شاہ صاحب کے ایک اورخلیفہ سیداعجازحسین شاہ نے آپ کی تعلیمات،ملفوظات اور حالات پر مشتمل رسائل بنام مجموعہ رسائل رحمانی مطبع نامی کانپورمحمدرحمت اللہ سے 1320ھ مطابق 1903ء میں شائع کروائے۔(حیات کرم حسین ،166،312، بزم جاناں،280)

(55) حضرت عبدالرحیم ڈکاری شاہ اورحضرت خواجہ اخونددوسی پشاوری رحمۃ اللہ علیہما کے حالات سے آگاہی نہ ہوسکی ۔

(56) جامع مسجدالورکو الورکے بادشاہ ترسون محمدخان میواتی نے 969ھ مطابق 1562ء میں تعمیرکروایا۔(مرقع الور،50(

(57) حضرت عیدوپھول شاہ صاحب دوھے والے،اللہ پاک کی یادمیں مست اورمخلوق کی رہبری میں مصروف رہنے والی شخصیت تھے ۔(بزم جانان،۲۸۶)

(58) حضرت حافظ سیدعبدالحکیم شاہ صاحب کےحالات معلوم نہ ہوسکے۔

(59) تذکرہ مبارک ،13،19۔

(60) حضرت مولانا عبدالشکورصادق چشتی نظامی کمبل پوش کی ولادت 27رجب 1311ھ مطابق1894ء کو آگرہ (یوپی، ہند)میں ہوئی، 26اپریل 1975ء کو حیدرآبادمیں وصال فرمایا،آپ حضرت سیداحمدعلی جمال شاہ نظامی کمبل پوش کے مریدوخلیفہ اوراسلامی شاعرتھے ،دیوان ذوق تصوف آپ کی یادگارہے جسے آپ کے خلیفہ صوفی محمدیعقوب نظامی کورنگی کراچی نے شائع کروایاہے ۔(انوارعلمائے اہل سنت سندھ،547تا551)

(61) تذکرہ مبارک،24،23۔

(62) تذکرہ مبارک ،13۔

(63) اشرف ملت حضرت صاحبزادہ مولاناسیداشرف علی شاہ حسنی رضوی صاحب تذکرہ کے چھوٹے بیٹے مولانا سیدانوار علی شاہ الوری رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے ہیں، آپ حافظ قرآن۔ عالم باعمل ،فاضل طب وجراحت،امام وخطیب جامع مسجد نور پنجرہ پول حیدرآباد،اورنیٹل ٹیچرگورنمنٹ سندھ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، پرنسپل دارالعلوم برکات اسلام،سرپرست انجمن عاشقان رسول وبزم منارکیہ وحلقہ اشرفیہ حیدرآباد ہیں۔ ( بیک ٹائٹل تذکرہ مبارک)

(64) تذکرۂ مبارک،24۔