وعدہ خلافی وبدعہدی کے معاشرتی نقصانات:

”تم خالد سے پیمنٹ لے کرآئے یا نہیں؟‘‘ ہول سیلر نے اپنے ملازم سے پوچھا۔

”نہیں جناب!انہوں نے کل کا کہا ہے“ملازم نے سادہ سا جواب دیا۔

اس طرح کے ٹال مٹول پر مشتمل جملوں کا تبادلہ ہماری مارکیٹس اور بازاروں کا معمول ہے ۔ ہردن لین دین میں کتنے ہی وعدے ، ارادے اور معاہدے ہوتے اور ٹوٹتے ہیں مگر کبھی اس معاملے پر گہرائی سے سوچا نہیں جاتاکہ ہمارے معاشرے پر اس وعدہ خلافی کے کتنے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔جب اس طرح کا ایک وعدہ ٹوٹتاہے تو بعض اوقات اس کا خمیازہ کئی افراد کوبھگتنا پڑتا ہے،مثلا کسی نے ہول سیلر سے مال لیا اور پیسے دو دن میں دینے کا وعدہ کیا مگروقت مقررہ پر ادائیگی نہ کی ۔اس پر غور کیجئے کہ ہوسکتا ہے ہول سیلر نےاپنے بیٹے کی داخلہ فیس جمع کروانی ہو یااپنی بیٹی کی سالگرہ پر کوئی تحفہ دینا ہو یا آگے کسی کو پیمنٹ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہویا ملازم کو تنخواہ دینی ہواور غریب ملازم نے راشن والے سے ”ماہانہ ادائیگی“ کا وعدہ کر رکھا ہو۔یوں پوری ایک لڑی (چین)بنی ہوتی ہے اور وعدہ توڑنے والا پہلا شخص اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے معاشرتی نظام کو تباہ کرنے میں حصہ دار بن جاتا ہے۔اسی طرح ہول سیلر بھی ایڈوانس رقم پر بکنگ کرکے وقت مقررہ پر ری ٹیلر کو مال نہیں دیتے اور یہاں بھی مذکورہ خرابی جگہ بنا لیتی ہے۔قرض کی ادائیگی کا وعدہ ہو یا آرڈر پر سامان تیار کرنے کامعاہدہ ،ہمیں جابجا وعدہ خلافی اور بد عہدی کی بھیانک اور مکروہ صورتیں دیکھنے کو ملیں گی۔آپ عیدسے چنددن پہلے کسی ”ٹیلر“کی دکان پر چلے جائیں وہاں آپ کو گاہکوں سے کئے گئے وعدے ٹوٹتے صاف نظر آجائیں گے اوراس قابل مذمت فعل کے سبب نوبت بحث ومباحثہ سے تلخ کلامی حتی کہ ہاتھا پائی اور مارکٹائی تک جاپہنچتی ہے۔

وعدہ خلافی وبدعہدی سے ملکی نظام کی تباہی:

یہ تو تھاافراد کی باہمی وعدہ خلافی کا معاملہ جس کا نقصان چند لوگوں تک محدود رہتا ہے اور اگر وعدہ خلافی ومعاہدہ شکنی ایک ملک کے چند اداروں کے مابین ہوتو اس کا خمیازہ بسا اوقات پوری قوم بھگتی ہے۔جیسے بجلی کا ادارہ اگر تیل کے ادارے کو واجبات وقت مقررہ پر ادا نہ کرے تو لا محالہ قوم کو لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔یہی وہ ”گردشی قرضے‘‘ ہوتے ہیں جو طول پکڑجائیں تو کسی بھی ملک کاداخلی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے ۔وعدوں کے ٹوٹنے کا یہ عمل نہ صرف معاشرے اور نظام زندگی میں خلل ڈالتا ہے بلکہ بہت ساری برائیوں اور گناہوں کو بھی جنم دیتا ہے،اس کی وجہ سے دلوں میں بغض وکینہ،نفرت وعداوت، شماتت وشقاوت ، حسدوتکبر اور جذبہ انتقام وغیرہ ایسی قباحتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور چغل خوری،غیبت ،تہمت ،گالی گلوچ ،طعن وتشنیع اور ظلم وتعدی جیسی شناعتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ قلبی اضطراب اورذہنی بے سکونی میں مبتلا ہو کر ”نفسیاتی مریض“ بن جاتا ہے۔

وعدہ وعہد کی پاسداری کا قرآنی حکم :

ویسے تو بروزِ قیامت ہر شے کے متعلق سوال ہونا ہے مگر ”عہد“جس کی خلاف ورزی بے شمار خرابیوں کا باعث ہے اس کے متعلق خاص طور پر پوچھا جائے گا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”وَاَوْفُوۡا بِالْعَہۡدِ ۚ اِنَّ الْعَہۡدَکَانَ مَسْـُٔوۡلًا۱۵،بنی اسرائیل:۳۴)ترجمہ کنزالایمان:اورعہدپوراکروبے شک عہد سےسوال ہوناہے۔“ آیت طیبہ میں اللہ تعالیٰ اور بندوں، دونوں کے ساتھ کیے جانے والے عہد مراد ہیں ۔یہاں سے عہدووعدہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اس کا ایک رخ انسان کی زبان ہے ۔یہاں ”زبان“سے مراد ”ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں“والی زبان نہیں بلکہ گوشت کے اس ٹکڑے سے کیا گیا ”وعدہ“ ہے ۔جیسے کہہ دیا کرتے ہیں ”اب کچھ نہیں ہوسکتا ،ہم نے زبان دے رکھی ہے“اور ”بھائی! زبان بھی کوئی شے ہوتی ہے“وغیرہ ۔یہی وہ زبان ہے جسے نبھانے والے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں اور اگر کوئی تاجر اس عادت کو اپنا لیتا ہے تو وہ نہ صرف عزت وشہرت کماتا ہے بلکہ روزبروز ترقی کے زینے طے کرتا چلا جاتا ہے اور اس کے برعکس جو تاجر لین دین میں وعدہ خلافی کا عادی ہو وہ اکثر عزت اور کاروبار دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔

وعدہ وعہد نبھانے کی نبوی تعلیمات:

قرآن کریم کے ساتھ ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھی اس سلسلے میں ہماری زبردست رہنما ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خود ایک دیانت دار،سچے اور امین تاجر تھے، بعثت سے قبل اور مبعوث ہونے کے بعد دونوں ہی ادوار میں تجارتی لین دین میں وعدہ وفائی اور اپنی بات کی پاسداری کی زبردست مثالیں قائم فرمائی ہیں ۔یہاں دو نوں ادوار کی ایک ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:

(۱)پہلی مثال: حضرت عبداللہ بن ابوحمساء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نزول وحی اور اعلانِ نبوت سے قبل میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خریدوفروخت کاایک معاملہ کیامگر اس وقت پوری رقم ادا نہ کرسکا تو میں نے وعدہ کیا کہ باقی رقم ابھی آکر ادا کرتا ہوں۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہ آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں آنے کا وعدہ کیا تھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی مقام پر اپنا منتظر پایا۔ میری اس وعدہ خلافی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے پر ذرابھی بل نہیں آیا، بس اتنا ہی فرمایا کہ تم کہاں تھے؟ میں اس جگہ تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔(سنن ابی داود،4/342 ،حدیث:4836)

حدیث مبارکہ سے جہاں یہ واضح ہوا کہ ظہور نبوت سے قبل بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے مثل صداقت کے حامل تھے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان صاحب نے اگرچہ بقایا رقم کی بروقت ادائیگی کا وعدہ بھلا دیا مگر ہادی دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مقام پر ملنے کاجووعدہ فرمایا اسے ضرور پورا کیا ۔یہاں یہ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں ٹھہرنا محض اپنا مال لینے کے لئے نہ تھا بلکہ اپنا وعدہ پورا کرنے کے لئے تھا،مال تو ان کے گھر جاکر بھی وصول کیا جاسکتاتھا۔(مراٰۃ المناجیح،6/491)

(۲)دوسری مثال: یہود کےایک بڑے عالم زید بن سعنہ کی ہے،انہوں نے تورات میں اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جونشانیاں اور علامات پڑھ رکھی تھیں دو کے علاوہ تمام کا مشاہدہ ذاتِ رسالت میں کرچکے تھے اور وہ دو علامات جن میں سے ایک حضور کے حلم کا جہل پر غالب ہونا اور دوسری جہل کے برتاؤ کی زیادتی کے ساتھ ان کے حلم ووقار کا بڑھتے جاناتھیں ۔ان علامات کی پہچان اور امتحان کے لئے انہوں نے حضورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھجوروں کا سودا کیا ، کھجوریں سپرد کرنے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دامن اور چادرکے ملنے کی جگہ سے پکڑ کر بڑے تلخ و ترش لہجے میں کھجوریں دینے کا تقاضا کیا اور کہا:”تم سب عبدالمطلب کی اولاد کا یہی طریقہ ہے کہ ہمیشہ لوگوں کا حق ادا کرنے میں تاخیر کردیتے ہو اورٹال مٹول تمہاری عادت بن چکی ہے۔“یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت غضب بھری اور تیزنظروں سے گھور کر اُس سے کہا :” اےدشمنِ خدا!یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح بات کرتا ہے ۔“حلیم وکریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر!ہم تم سے اِس سے زیادہ بہتر بات کے مستحق تھے کہ تم مجھے اچھی ادائیگی کااور اسے اچھے تقاضے کا کہتے ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ” اسے اِس کے حق کے برابر کھجوریں دے دواور کچھ زیادہ بھی دے دوتاکہ یہ تمہارے اِسے سخت نظروں سے دیکھ کر خوفزدہ کرنے کا بدلہ ہوجائے۔“پس زید بن سعنہ نے اس حسنِ سلوک سے جب باقی دو علامات کو بھی دیکھ لیا تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔(دلائل النبوۃللبیہقی،1/278)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ لین دین میں وعدہ ومعاہدہ کی پاسداری رب کریم کا حکم ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ، عقل سلیم کا تقاضا اور ایک خوبصورت معاشرے کی تعمیروترقی میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے ۔ لہٰذا ہر سمجھدار تاجر کوچاہیے کہ اِس محمود ومحبوب صفت سے متصف ہو کر ایک اچھا کاروباری بنے اور اپنی دنیا وآخرت کو سنوارے۔

نوٹ: یہ تحریرغالباً 2016ء میں لکھی گئی تھی ، کچھ ترمیم واضافہ کے ساتھ دوبارہ پیش خدمت ہے۔

محمد آصف اقبال مدنی عطاری

(20شعبان المعظم1443ھ مطابق24مارچ2022ء)