صوبۂ پنجا ب میں جن صوفیائے کرام نے اپنے علم و عمل
اور حسنِ اخلاق سے ہزارہا لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا، انہیں کفر کے اندھیروں سے نکال کر ان کے دلوں کو نورِ
ایمان سے منور کیا، اسلامی تعلیمات کو عام کیا اورمخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچایا ان میں عظیم المرتبت صوفی بزرگ برہان الواصلین، شمس السالکین، سلطان
العارفین حضرت خواجہ سلطان باہو کا بھی شمار ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے وصالِ پُرملال
کو سینکڑوں سال گزر نے کے باوجود آج بھی ان کا نام زندہ و تابندہ ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نام ”سلطان باہو“ ہے۔ صوفیائے
کر ام رحمۃاللہ علیہم نے آپ کو”سلطان
العارفین“ کے لقب دیا۔ آپ کا تعلق قبیلہ اعوان سے ہے۔ آپ کا شجرۂ نسب سلطان باہو
بن بازیدمحمد بن فتح محمد بن اللہ دتہ جو
آگے چل کر امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم تک جا پہنچتا ہے۔
پیدائش سے پہلے ولایت کی بشارت :
والدۂ ماجدہ
حضرت بی بی راستی رحمۃ اللہ علیہا کو حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی
پیدائش سے پہلے ہی الہام ہوچکا تھا کہ ان کے شکم میں ایک ولیِ کامل پرورش پارہا ہے
چنانچہ خود فرماتی ہیں: مجھے غیب سے یہ پتاچلا کہ میرے پیٹ میں جو لڑکا ہے وہ
پیدائشی ولی اللہ اور تارکِ دنیا ہوگا۔
بچپن کی کرامات :
۱۔آپ رحمۃ اللہ علیہ شیر خواری کے دنوں میں جب رمضان المبارک آتاتو دن بھر والدہ ماجدہ کا
دودھ نہ پیتے، افطار کے وقت پی لیا کر تے۔
۲۔ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سانس کے ساتھ ”ہو
ہو“ کی آواز اس طرح نکلتی تھیں جیسے آپ رحمۃ اللہ علیہ ذکر الہٰی میں مشغول ہوں۔
۳۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو کھلونوں سے کھیلا کر تے
اور نہ ہی بچوں کے دیگر مشاغل اختیار کرتے۔(باہو عین باہو، ص ۱۱، ملخصاً)
آپ ر حمۃاللہ علیہ کی نظر کی کر
امت :
آپ رحمۃ اللہ علیہ نظریں جھکا کر چلا کرتے تھےاگر راہ چلتے اچانک کسی مسلمان پر نظر پڑ
جاتی تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا: واللہ! یہ کوئی عام بچہ نہیں اس کی آنکھوں میں عجیب
روشنی ہے جو براہِ راست دلوں کو متاثر کرتی ہےاگر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر کسی
غیر مسلم پر پڑجاتی تو اس کی بگڑی سنور جاتی اور وہ اپنے آبائی باطل مذہب کو ترک
کردیتا اور کلمۂ طیبہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ۔
جب سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی
نظر ولایت سے غیر مسلموں کے قبول اسلام کے واقعات کئی مرتبہ پیش آئے تو مقامی غیر
مسلموں میں کھلبلی مچ گئی چنانچہ وہ سب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم حضرت بازید محمد علیہ الرحمہ کی
خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے صاحبزادے حضرت
سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی شکایت کرنے لگے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم نے پوچھا: آخر میرے
بیٹے کا قصو ر کیا ہے؟ یہ تو بہت چھوٹا ہے کسی پرہاتھ اٹھانے کے بھی قابل نہیں ہے۔ایک
شخص نے کہا: اگر ہاتھ اٹھالیتا تو زیادہ اچھا تھا، والد ماجد نے حیران ہو کر پوچھا
پھر کیا گلہ ہے؟
ان کے سر برا ہ نے کہا: آپ کا بچہ ہم میں جس پر بھی
نظر بھرکر دیکھ لیتا ہے وہ مسلمان ہوجاتا ہے اس کی وجہ سے شور کوٹ کے لوگوں کا
آبائی مذہب خطرے میں پڑ گیا ہے، بڑی عجیب
شکایت تھی والد صاحب کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر فرمایا : اب تم ہی بتاؤ میں اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں؟
سربراہ نے کہا، قصور تو بچے کی دایہ کا ہے جو اسے وقت
بے وقت باہر لے جاتی ہے آپ سے ایک گزار ش ہے کہ آپ بچے کی سیر کا ایک وقت مقرر
کرلیں، بالآخر حضرت بازید محمد رحمۃ اللہ علیہ نے سختی کے ساتھ دایہ کو ہدایت کردی
کہ وہ ایک مقررہ وقت پر سلطان باہو کو باہر لے کرجایا کریں اس کے بعد شہر کے غیر
مسلموں نےاس کام پر چند نوکر رکھ لئے کہ جب سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ باہر نکلیں تو بازاروں اور گلی
کوچوں میں ان کی آمد کی خبر پہنچادی جائے لہذا جب نوکر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آمد
کی خبر سنتے تو لوگ یعنی غیر مسلم اپنی اپنی دکانوں اور مکانوں میں چھپ
جاتے۔(مناقب سلطانی، ص ۲۷ ، مخلصاًوغیرہ)
بارگاہِ رسالت سے فیوض و برکات:
حضرت سلطا ن باہو فرماتے ہیں: کہ میں بچپن میں ایک دن سڑک کے کنارے کھڑا تھا
ایک با رُعب صاحب حشمت نورانی صورت والے بزرگ گھوڑے پر تشریف لائے اور میرا ہاتھ
پکڑ کر اپنے پیچھے گھوڑے پر بٹھالیامیں نے ڈرتے اور کانپتے ہوئے پوچھاآپ کون ہیں؟
ارشاد فرمایا: میں علی بن ابی
طالب ہوں۔ میں نے پھر عرض کی: مجھے کہاں لے جار ہے ہیں، فرمایا: پیارے آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے
تمہیں ان کی بارگاہ میں لے جارہا ہوں جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ی ہوئی تو وہاں
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ
عنہم بھی جلوہ فرماتھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے نبیوں کے سردار رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھائے اور
ارشاد فرمایا: میر ے دونوں ہاتھ پکڑلو ، پھر دستِ اقدس پر بیعت لی اور کلمہ طیبہ
کی تلقین فرمائی ۔حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب میں نے ”لا الہ
الالہ محمد الرسول اللہ“ پڑھا تو درجات و
مقامات کا کوئی حجاب باقی نہ رہا، اس کے بعد حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے
مجھ پر توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں
صدق و صفا ( یعنی سچائی اور پاکیزگی ) پیدا ہوگئی،توجہ فرمانے کے بعد حضرت سیدنا
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس مجلس سے رخصت ہوگئے، پھر اس کے بعد حضرت سیدنا عمر
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے میری طرف توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں عدل و
محاسبہ نفس پیدا ہوگیا۔ پھر آپ رضی اللہ
عنہ بھی رخصت ہو گئے، ان کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے میری طرف توجہ فرمائی جس سے میرے اندر
حیا اور سخاوت کا نور پیدا ہوگیا، پھر وہ بھی اس نورانی مجلس سے رخصت ہوگئے، اس کے
بعد حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ
وجہہ الکریم نے مجھ پر توجہ فرمائی، تو
میرا جسم علم، شجاعت اور حلم سے بھر گیا پھر پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم میرا
ہاتھ پکڑ کر حضرت سیدتنا فاطمہ زہرہ رضی
اللہ عنہا کے پاس لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : تم میرے فرزند ہو پھر
میں نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہا کے قدمین شریفین کا بوسہ لیا اور ان کی غلامی
کا پٹا اپنے گلے میں ڈال لیا، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیردستگیر حضور
غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمادیا۔
حضور غوث پاک نے مجھے مخلوق خدا کی رہنمائی کا حکم ارشاد فرمایا، حضرت سلطا ن باہو
رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے جو بھی دیکھا ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔(باہو عین
باہو،ص ۱۱۱تا ۱۱۳ ملخصاً وغیرہ)
سائلو دامن سخی
کا تھام لو، کچھ نہ کچھ انعام ہوہی جائے گا
مفلسوں ان کی گلی
میں جا پڑو باغ خلد اکرام ہو ہی جائے گا
مٹی سونا بن گئی :
تحصیل شور کوٹ (ضلع جھنگ پنجاب پاکستان) سے کئی میل
دور ایک خاندانی رئیس مفلس ہوگیا، اس نے ایک مقامی بزرگ سے اپنی
مفلسی و تنگدستی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی حالت زار اس طرح بیان کی کہ حضور اب تو
اکثر فاقوں نے گھیر رکھا ہے دروازے پر قرض خواہوں کا ہجوم رہتا ہے، مفلسی کی وجہ
سے بچوں کی شادیاں اور دیگر ضروریات کی ادائیگی مشکل ہوگئی ہے سمجھ نہیں آتا کیا
کروں؟ کہاں جاؤں؟ بزرگ نے فرمایا کہ دریائے چناب کے کنارے شور کورٹ جاؤ،
وہاں سلطان العار فین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی مشکلات بیان کرنا، جب اسے امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی تو وہ
اپنے چند دوستوں کے ساتھ سفر کرکے شور کوٹ پہنچا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس وقت کھیت میں ہل چلا رہے
تھے، وہ شخص یہ دیکھ کر بہت مایوس ہوا اور سوچنے لگا جو شخص خود مفلسی کا شکار ہے
اور ہل چلا کر گزر بسر کرتاہے وہ بھلا میری کیا مدد کرے گا، یہ سوچ کر جونہی پلٹا
تو کسی نے اس کا نام لے کر پکارا وہ حیران ہوا کہ یہاں تو میں اجنبی ہوں پھر میرا
نام پکارنے والا کون ہے؟، پلٹ کر دیکھا تو حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ اسے بلارہے تھے جب اس نے یہ ماجرا دیکھا تو دل میں امید پیدا ہوئی اور فورا آپ
رحمہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں باادب حاضر ہوگیا۔
حضرت سلطان
باہو رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: تم نے سفر کی تکالیف برداشت کیں اتنا فاصلہ طے کیا
پھر بھی ہم سے ملے بغیر جارہے ہو، اس نے گریہ زاری کرتے ہوئے اپنی خستہ حالی کی
داستان سنائی ، حضرت سلطان باہو علیہ الرحمہ نے اسی وقت زمین سے مٹی کا ایک ڈھیلا
اٹھایا اور اسے زمین پر دے مارا جب اس شخص نے زمین پر نظر ڈالی تو کھیت میں موجود
تمام پتھر اور ڈھیلے سونا بن گئے۔ ولی
کامل حضرت سلطا ن باہو رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی بے نیازی سے فرمایا: اپنی ضرورت کے
مطابق سونا اٹھا لو چنانچہ رئیس اور اس کے دوستوں نے وافر مقدار میں سونا اپنے اوپر
لادا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اس کرم نوازی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہوگئے۔(مناقبِ
سلطان، ص ۶۸، ملخصا وغیرہ)
دل کی بات جان لی :
مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت
سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں دو اشرفیوں کی تھیلیاں بھیجیں اس وقت آپ رحمۃ
اللہ علیہ کنویں کے پاس بیٹھے کھیتوں کو پانی دے رہے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے
دونوں تھیلیاں کنویں میں پھینک دیں وزیر کو بڑا تعجب ہوا اور اس کے دل میں یہ
خواہش ہوئی کہ کاش یہ اشرفیاں مجھے مل
جاتیں،آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دل کی بات جان لی اور جب کنویں کی طرف نظر
فرمائی تو اس سے پانی کی بجائے اشرفیاں نکلنے لگیں آپ رحمہ اللہ علیہ کی یہ کرامت
دیکھ کر وزیر آپ رضی اللہ عنہ کے قدموں
میں گر گیا، آپ رحمہ اللہ علیہ نے ایک بار پھر اس پر نظرِ کرم فرما کر عشق حقیقی
کا جام پلایا اوروہ دونوں اشرفیوں سے بھری تھیلیاں ا س کے حوالے کر دیں۔(باہو عین
باہو، ص ۳۲۶،ملخصاً)