برکاتِ نام محمد

Wed, 9 Mar , 2022
3 years ago

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات و صفات کو اللہ پاک نے بےشمار خوبیوں اور کمالات سے نوازا ہے،آپ کی شان و عظمت یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی آپ سے نسبت ہوجائے تو اس چیز کی عظمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کا مقام و مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت و اخلاق کی طرح آپ ﷺ کے نام مبارک کی برکتیں بھی بے شمار ہیں۔

آنحضرتﷺ کے دو مشہور نام:

یوں تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم کے بہت سے نام ہیں مگر دو نام ”محمد“ اور” احمد“ بہت مشہور ہیں، نام محمد کے معنی ہیں ”بہت ہی حمد کئے ہوئے“ ۔

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ آپ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )ابھی میرے شکم میں تھے کہ والدِ نامدار حضرت عبداللہ رضی اللہُ عنہ نے سفر کی حالت میں مدینۃ المنورہ میں انتقال فرمایا اور کسی نے خواب میں آ کر مجھے پاؤں کی جُنبش سے اُٹھا یا اورارشاد فرمایا:اے آمنہ!تجھے بشارت ہو کہ تیرے شکمِ اطہر میں پرورش پانے والی ذات تمام جہانوں سے بہتر ہے، جب ان کی ولادت ہوجائے تو ان کا نام محمد رکھنا اور اپنے اس معاملے پر کسی کو آگاہ نہ کرنا۔([1])

اگر ہم بھی اس مُعزز و مُکرم نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اپنے بیٹوں کا نام محمد رکھیں تویہ مُبارک نام ہماری بخشش و مغفرت کا ذَرِیعہ بن سکتاہے چنانچہ نام محمد کی فضیلت پر چند احادیث ملاحظہ ہوں۔

(1) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :جو میری محبت کی وجہ سے اپنے لڑکے کا نام محمد یا احمد رکھے گا اللہ پاک باپ اور بیٹے دونوں کو بخشے گا ۔([2])

(2) بروزِ قیامت دو شخص اللہ پاک کے حضور کھڑے کئے جائیں گے،حکم ہو گا اِنہیں جنت میں لے جاؤ! وہ عرض کریں گے : اے ہمارےرب!ہم کس عمل کی بدولت جنت کے قابل ہوئے، ہم نے توکوئی کام جنت کا نہیں کیا؟ اللہ پاک فرمائے گا :جنت میں جاؤ !میں نے قسم ارشاد فرمائی ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہو وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔([3])

(3) جس مشورے میں اِس نام (یعنی محمدنام) کا آدمی شریک ہو اس میں برکت رکھی جاتی ہے ۔([4])

(4)تمہارا کیا نقصان ہے کہ تمہارے گھروں میں دو یا تین محمد ہوں۔([5])

(5) رحمتِ عالم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے میرے نام سے برکت کی امید کرتے ہوئے میرے نام پر نام رکھا،قیامت تک صبح وشام اس پر برکت نازل ہوتی رہے گی ۔([6])

(6) مولا مشکل کشا حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم بیٹے کا نام محمد رکھو تو اس کی عزّت کرو اور مجلس میں اس کے لئے جگہ کشادہ کرو اور اس کی نسبت برائی کی طرف نہ کرو ۔ ([7])

صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:محمد بہت پیارا نام ہے،اس نام کی بڑی تعریف حدیثوں میں آئی ہے ۔اگر تصغیر کا اندیشہ نہ ہو تو یہ نام رکھا جائے اور ایک صورت یہ ہے کہ عقیقہ کا نام یہ ہو اور پکارنے کے لئے کوئی دوسرا نام تجویز کر لیا جائے ، اس صورت میں نام کی بھی برکت ہو گی اور تصغیر سے بھی بچ جائیں گے۔ جب کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے تو اسے چاہيے اِس نامِ پاک کی نسبت کے سبب اس کے ساتھ حسن ِ سلوک کرے اور اس کی عزت کرے ۔

یادرکھئے ! جن کے نام محمد و احمد یا کسی مُقدس ہستی کے نام پر رکھے جائیں تو ان کا اَدب بھی ہم پر لازِم ہے۔ لیکن فی زمانہ ہمارے معاشرے میں نام تو اچھے اچھے رکھے جاتے ہیں لیکن بَدقِسمتی سے ان مبارک اَسماء کا احترام بالکل نہیں کیا جاتا اور ا نہیں بگاڑ کر عجیب و غریب ناموں سے پکارا جاتا ہے حالانکہ ہمارے اَسلافِ کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کی یہ عادت کریمہ تھی کہ مُقدس ناموں کا حتی الامکان اَدب واحترام بجا لایا کرتے چنانچہ مشہور بادشاہ،سُلطان محمود غَزنوی ایک زَبر دَست عالمِ دین اور صوم و صلوٰۃ کے پابندتھے اور باقاعدگی کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کیا کرتے آپ نے اپنی ساری زِندگی دینِ اسلام کے مُطابق گزاری اور پرچمِ اسلام کی سربُلَندی اور اِعلائے کلمۃ اللہ کے لئے بہت سی جنگیں لڑیں اورفتح یاب ہوئے ۔ آپ شجاعت وبہادری کے ساتھ ساتھ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عظیم مَنصب پر بھی فائز تھے۔آپ کے فرمانبردار غلام ایازکا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد تھا۔محمود غزنوی رحمۃُ اللہِ علیہ جب بھی اس لڑکے کو بُلاتے تو اس کے نام سے پُکارتے،ایک دن آپ نے خِلافِ معمول اُسے اے اِبنِ ایاز ! کہہ کر مُخاطب کیا۔ ایاز کو گمان ہوا کہ شاید بادشاہ آج ناراض ہیں اس لئے میرے بیٹے کو نام سے نہیں پکارا ، وہ آپ کے دَربار میں حاضِر ہوا اور عرض کی: حضور! میرے بیٹے سے آج کوئی خَطا سَرزد ہوگئی جو آپ نے اس کا نام چھوڑ کر اِبنِ ایاز کہہ کر پکارا؟ آپ نے فرمایا :میں نام محمد کی تعظیم کی خاطِر تمہارے بیٹے کا نام بے وضو نہیں لیتا چونکہ اس وَقت میں بے وضو تھا اس لیے لفظِ محمد کو بِلا وضو لبوں پر لانا مناسب نہ سمجھا۔ہمیں بھی چاہئے کہ ہم برکت والے پاکیزہ نام رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کا ادب و احترام بھی کریں۔

مؤلف:احمد رضا بن عبد الحمید عطاری المدنی

Date:26-02-2022



[1] البدایہ و النھایہ،4/ 720،ملخصا

2 کنزالعمال،16/175،حدیث:45215

[3] فردوس الاخبار،2/503،حدیث:8515،ملتقطا،ملخصا

[4] کنز العمال،16/175،حدیث:45216،ملتقطا ملخصا

[5] طبقات الکبری،5/40،حدیث:622،ملخصا

[6] کنزالعمال،16/175،حدیث:45213

[7] تاریخ بغدادا،3/305


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

لَکَ الْحَمْدُ یَا اللہ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ

اللہ تعالیٰ نے قلمِ رضا کوایسی جامعیّت اور قُوت عطافرمائی ہےکہ امامِ اہلسنت، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جس مسئلہ کی تحقیق میں بھی کوئی کتاب ،رسالہ یا فتویٰ تحریر فرماتے ہیں ،تواُس مسئلےکواَلَمْ نَشرَح (یعنی واضح) کردیتے ہیں۔یوہیں جس موضوع پربھی اَشعار لکھتے ہیں تو اُس کی مَنظرکَشی کا حق ادا فرمادیتے ہیں، جسے دیکھ کرفنِ شاعری کےماہرین حیران اور انگشُت بدنداں (یعنی حیران) ہوجاتےہیں۔ اس کی زبردست مثال اِنتہائی مختصرسےوقت میں لکھاجانےوالاکلام’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ہے، جوکہ67اَشعار پر مشتمل ہے۔ امامِ اہلسنت علیہ الرّحمہ نے اس قصیدے میں حَسین تخیُّلات کےساتھ ساتھ جابجا آیاتِ قراٰنیہ اوراَحادیثِ نَبویّہ کی زبردست عَکاسی اور ترجمانی فرمائی ہے نیز آپ رحمۃ اللہ علیہ نےاس قصیدے میں سفرِ معراج کےمختلف مرحلوں کوبڑےفصیح و بلیغ اَلفاظ میں بصورتِ شعرپیش فرمایاہے۔ساتھ ہی ساتھ امامِ عشق و محبت رحمۃ اللہ علیہ نےاِس قصیدےمیں اُردو زبان کے رائج اِستعاروں اورمُحاروں کا کثرت سےاستعمال کیاہے۔ اس قصیدےکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مجدِّدِ اعظم،اعلیٰ حضرت رحمۃا للہ علیہ نےواقعۂ معراج کی مناسبت سےکعبہ و حطیم،مسجدِ اَقصیٰ ونمازِ اَقصیٰ ،جِبرَئِیل و بُراق ،آسمان و عرشِ اَعظم، سِدرۃُالمنتہیٰ و جنّت اور لامکان و دیدارِ رحمن کاتذکرہ بڑےلطیف اَنداز میں فرمایاہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگرکسی کو سفرِ معراج کےنقطۂ آغاز (یعنی ابتداء)سےلےکراِس کےمقامِ عُروج ورِفعت (اختتام و تکمیل)تک کامختصربیان اُردوزبان میں بصورتِ نظم پڑھنا ہوتووہ امامِ اہلسنت،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے اس مبارَک اورمنفرد’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ کو ملاحظہ کرلے۔

شرح قصیدہ معراجیہ:

اللہ ربُّ العزت کے فضل وکر م سےحقیر سراپا تقصیر نے اس مبارَک قصیدے کی شرح :’’لَمَعَانُ الْاَنْوَارِ الْاَحْمَدِیَۃِ فِی تَوْضِیْحِ الْقَصِیْدَۃِ الْمِعْرَاجِیَۃِ‘‘ بنام شرح قصیدۂ معراجیہ‘‘تحریر کرنے کی سعادت پائی ہے۔ اِس شرح میں راقم الحروف نے بنیادی طور پر دو باتوں کا اہتمام کرنے کی سعی کی ہے۔

(1) عوام الناس کیلئے کلامِ اعلیٰ حضرت کی عام فہم تشریح کرنا۔

(2) معجزۂ معراج سے متعلق اس مبارَک قصیدے کے اَشعار میں بیان کردہ مضامین کی تائید میں قرآن و سنت کی نصوص اور اَقوالِ ائمہ و علما کو ضبط ِ تحریر میں لانا۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں پائی جانے والی فصاحت و بلاغت کی صنعتوں کی نشاندہی اور تفصیل کو قصداً تحریر نہیں کیا؛ تاکہ کلام طویل نہ ہوجائے اور عوام کو سمجھنے میں یہ طوالت مخل نہ ہو۔المختصر! اِس شرح کا صفحۂ قرطاس پر منقش ہونا محض فضلِ ربّانی سے ہے، ورنہ راقم الحروف بے بَضاعت اپنی بے مائیگی کا معترف ہے۔ اِس شرح میں اگر کوئی خوبی و عمدگی ہے تو وہ خاص فضلِ سبحانی اورخدا کی مہربانی سے ہےاور اگرتحریر میں کوئی نقص و خامی ہے تو وہ راقم حقیر سراپا تقصیر کی طرف سے ہے۔

سگِ درگاہِ اعلیٰ حضرت

ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی


بچپن کے معاملات:

جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ شیر خواری کے دنوں میں دن بھر والدہ ماجدہ کا دودھ نہ پیتے اور افطار کے وقت پی لیا کرتے۔ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سانس کے سا تھ ’’ھو ھو‘‘ کی آواز اس طرح نکلتی جیسے آپ رحمۃ اللہ علیہ ذکرِ الہی میں مشغول ہوں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو کھلونوں سے کھیلا کرتے اور نہ ہی بچوں کے دیگر مشاغل اختیار فرماتے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نظریں جھکا کر چلا کرتے اگر راہ چلتے اچانک کسی مسلمان پر نظر پڑ جاتی تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا واللہ ! یہ کوئی عام بچہ نہیں اس کی آنکھوں میں عجیب روشنی ہے جو براہِ راست دلوں کو متاثر کرتی ہےاگر نظر کسی غیر مسلم پر پڑ تی تو اس کی بگڑی سنور جاتی اور وہ اپنا باطل مذہب ترک کردیتا اور کلمہ طیبہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا۔اے کاش ! ہم بھی بزرگانِ دین کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے نظریں جھکا کر چلنے والے بن جائیں۔

بارگاہِ رسالت سے فیوض و برکات :

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بچپن میں ایک دن سڑک کے کنارے کھڑا تھا کہ ایک با رعب صاحب، حشمت نورانی صورت والے بزرگ گھوڑے پر تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے بٹھالیا، میں نے ڈرتے اور کانپتے ہوئے پوچھا۔آپ کون ہیں ؟ ار شاد فرمایا: میں علی بن ابی طالب ہوں۔ میں نے پھر عرض کی: مجھے کہاں لے جار ہے ہیں؟ فرمایا: پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے تمہیں ان کی بارگاہ میں لے جارہا ہوں۔ فرماتے ہیں:پھر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری ہوئی تو وہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی جلوہ فرما تھے ،مجھے دیکھتے ہی نبیوں کے سلطان رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھائے اور ارشاد فرمایا، میرے ہاتھ پکڑ لو پھر دستِ اقدس پر بیعت کی اور کلمے کی تلقین فرمائی ، حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب میں نے کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ پڑ ھا تو درجات و مقامات کا کوئی حجاب باقی نہ رہا ۔اس کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھ پر توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں صدق( سچائی) پیدا ہوگئی ۔ توجہ فرما نے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مجلس سے رخصت ہوگئے پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے میری جانب توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں عدل و محاسبہ نفس پیدا ہوگیا پھر آپ رضی اللہ عنہ بھی رخصت ہوگئے ان کے بعد حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے میری جانب توجہ فرمائی جس سے میرے اندر حیا اور سخاوت کا نور جگمگا اٹھاپھر وہ بھی اس نورانی مجلس سے رخصت ہوگئے اس کےبعد حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھ پر توجہ فرمائی تو میرا جسم علم و شجاعت اور حلم سے بھر گیا، پھر پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر خاتون جنت حضرت سیدتنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا :تم میرے فرزند ہو پھر میں نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہا کے قدمین شریفین کا بوسہ لیا اور ان کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں پہن لیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر دستگیر حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ عنہا کے سپرد فرمادیا حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے مجھے مخلوقِ خدا کی ر ہنمائی کا ار شاد فرمایا: حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے جو کچھ بھی دیکھا اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔

سائلو ! دامنِ سخی کا تھام لو

کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا

مفلسو! ان کی گلی میں جا پڑو

باغ خلد اکرام ہو ہی جائے گا

دل کی بات جان لی :

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر رحمۃاللہ علیہ نے اپنے ایک وزیر کے ہاتھ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اشرفیوں کی دو تھیلیاں بھیجیں اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کنویں کے پاس بیٹھے کھیتوں کو پانی دے رہے تھے آپ رحمۃاللہ علیہ نے دونوں تھیلیاں کنویں میں پھینک دیں وزیر کو بڑا تعجب ہوااوراس کےدل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یہ اشرفیاں مجھے مل جاتیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دل کی بات جان لی اور جب کنویں کی طرف نظر فرمائی تو اس سے پانی کی بجائے اشرفیاں نکلنے لگیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت دیکھ کر وزیر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں میں گرگیا، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار پھر اس پر نظر فرما کر عشقِ حقیقی کا جام پلایا اور وہ دونوں اشرفیوں سے بھری تھیلیاں اس کے حوالے کردیں۔

راہِ حق دکھا دی :

ایک مرتبہ حضرت سلطان باہو رحمۃاللہ علیہ شاہ راہِ پرلیٹےہوئےتھے کہ غیر مسلموں کا ایک گروہ گزراان میں سے ایک بطورِ حقارت آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ٹھوکر ماری اور کہا:ہمارے لئے راستہ بناؤ،آپ نے اٹھتے ہی فرمایا: ”لا الہ الا انت محمد رسول اللہ“ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے کلمہ طیبہ جاری ہونا تھا کہ غیر مسلموں کا پورا گروہ کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

مٹی سونا بن گئی :

جب آپ شور کورٹ میں کاشتکاری کرتے تھے تو افلاس و نادری سے تنگ ایک سفید پوش بزرگ سید صاحب بزرگوں اور فقیروں کی تلاش میں مار ے مارے پھرتے کہ کہیں سے کوئی اللہ کا بندہ مل جائے او راس کی روح سے میری غربت اورتنگی دور ہوجائے اسی طلب میں وہ ایک فقیر کی خدمت میں رہنے لگےاور اس کی خدمت کرتے ، ایک فقیر کو ان کے حال پر رحم آیا پوچھا تیری مراد اور حاجت کیا ہے اس سید نے عرض کی : میرا بہت بھاری کنبہ ہے اور میں قرض دار ہوگیا ہوں جوان لڑکیاں اور لڑکے ہیں افلاس اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کی شادی بھی نہیں کرسکتا ظاہر ی اسباب ختم ہوچکے ہیں اب تو خالی مددکے سوائے میری تنگ دستی کا علاج ممکن نہیں تب اس فقیر نے کہا کہ میں تجھے ایک مردِ کامل کا پتا بتاتا ہوں سوائے اس کے کہ تیرا علاج کسی کے پاس نہیں ہیں تو سخی سلطان باہو کے پاس شور کورٹ چلا جاان کی بارگاہ میں عرض پیش کرنا وہ پریشان حال سید صاحب سلطان العارفین کے پاس پہنچ گئے لیکن ان کی مایوسی کی کوئی حد نہ رہی تھی جب دیکھا کہ آپ رحمۃاللہ علیہ کھیتوں میں ہل چلا رہے ہیں جبکہ انہیں وہاں کے لوگوں سےپتا چل چکا تھا کہ لوگ آپ کو فقیر کی حیثیت سے نہیں کسان کی حیثیت سے جانتے ہیں یہ حالت دیکھ کر مایوس ہو کر واپس موڑنے ہی والے تھے کہ سلطان العارفین نے جو ان کی قلبی کیفیت سے آگاہ ہو چکے تھے ان کو آواز دی آپ کی آواز سن کر ان سید صاحب کوکچھ حوصلہ ملا ، دل میں کہنے لگے اب خود بلایا ہے تو عرض پیش کرنے میں کیا حرج ہے، سید صاحب نے قریب آکر سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا خیریت پوچھی کہ کس وجہ سے یہاں آئے ہوسید صاحب نے اپنی ساری مشکلات سناد ی آپ نے فرمایا : شاہ صاحب مجھے پیشاب کی حاجت ہے آپ میرا ہل پکڑ کر رکھیں میں پیشاب سے فارغ ہولوں، غرض آپ نے پیشاب کیا مٹی کے ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد وہ ڈھیلے ہاتھ میں لے لیا، سید صاحب سے مخاطب ہوئے شاہ صاحب آپ نے مفت تکلیف اٹھائی میں تو ایک جٹ آدمی ہوں، سید صاحب کا دل پہلے ہی سفر کی تھکاوٹ اور مایوسی سے جلا ہوا تھا طیش میں آکر بولے: ہاں یہ میری سزا ہے! سید ہو کر آج ایک جٹ کے سامنے سائل کی حیثیت سے کھڑا ہوں حضرت سلطان العارفین کو جلال آیا اور اپنی زبان مبارک سےشعرپڑھتے ہوئے وہ پیشاب والا ڈھیلا زمین پر دے مارا، آپ کے پیشاب والا ڈھیلا اس زمین کے جن جن ڈھیلوں سے لگتا گیا وہ سونا بن گیا، سید صاحب یہ حالت دیکھ کر دم بہ خود ہو گئے ، آپ کے قدموں پر گر کر رونے لگے اور معافی مانگنے لگے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: شاہ صاحب یہ وقت رونے کا نہیں یہ ڈھیلے چپکے سے اٹھالو اور چلتے بنو ورنہ لوگوں کو پتا چل گیا تو نہ تیری خیر ہے اور نہ میری چنانچہ سید صاحب نے ان سونے کے ڈھیلوں کو جلدی سے اپنی چادر میں ر کھ لئے اور آپ کے پاؤں چومتے ہوئے وہاں سے چل دیئے۔

وفات و مدفن :

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 63 سال اس دارِ فانی میں دینِ اسلام کی تعلیمات عام کیں اور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے عہد میں یکم جمادی الاخر ی ۱۱۰۲ھ بمطابق 2 مارچ 1691 ءشبِ جمعہ تیسرے پہر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے سفر آخرت اختیار فرمایا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک دریائے چناب کے مغربی کنارے پر واقعہ قلعہ قہرکان سے کچھ فاصلے پر ہے جس کے چاروں جانب پختہ دیواریں ہیں۔

(مأخد: رسالہ : فیضانِ سلطان باہو)

از: بنت اجمل عطاریہ (طالبہ جامعۃ المدینہ گرلز)


نام :

محمد بن احمد بن محمد بن ابراہیم بن احمد الانصاری المحلی القاھری الشافعی

لقب :

جلال الدین، جلال المحلی

محلِی کہنے کی وجہ :

محلی قاہرہ کے علاقے محلی کبری میں پیدائش کی وجہ سے محلی کہا جاتا ہے۔

آپ مسلکاً شافعی ہیں، پیدائش و رہائش قاہرہ کی ہے ۔

ولادت :

شوال 791 ھ بمطابق 1389ء کو”محلہ کبری “ قاہرہ میں پیدا ہوئے ۔

تعلیم :

امام جلال الدین محلی نے فقہ و اصول فقہ: امام شمس الدین برماوی ، ابراھیم بیجوری ، امام بلقینی ،عز الدین ابن جماعہ رحم اللّٰہ علیہم سے ،

نحو: امام شہاب العجیمی ، شمس شطنوفی رحمۃ اللّٰہ علیہم سے ،

علم الفرائض و حساب :ناصر بن انس المصری رحمۃ اللہ علیہ سے ،

منطق و بلاغت: امام بدر اقصرائی سے ، تفسیر امام بساطی رحمۃ اللہ علیہ سے ،

حدیث و اصول حدیث : امام ولی عراقی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحم اللّٰہ علیہم سے حاصل کئے آپ علوم و فنون کے جامع ہوئے۔

(ظفر المحصلین باحوال المصنفین صفحہ 42 ،قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی )

اساتذہ وشیوخ :

حسن المحاضرہ اور دیگر کتب میں آپ کے اساتذہ کی تعداد اٹھائیس (28) سے زائد بتائی گئی ہے جن میں مشہور و معروف یہ ہیں:

سراج الدین بن ملقن المعروف امام ابن ملقن رحمۃ اللّٰہ علیہ

سراج الدین بلقینی رحمۃ اللہ علیہ

عز الدین ابن جماعہ رحمۃ اللہ علیہ

محمد بن موسیٰ دمیری رحمۃ اللہ علیہ

شمس الدین محمد بن ابراھیم شطنوفی رحمۃ اللہ علیہ

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ

ابراھیم بیجوری رحمۃ اللّٰہ علیہ

تلامذہ :

آپ نے قاہرہ کے بعض مدارس میں تدریس بھی کی جن کے نام یہ ہیں: مدرسہ برقوقیہ ، مدرسہ مؤیدیہ یہ وہ مدارس ہیں جن میں امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ تدریس فرمایا کرتے تھے ۔

آپ کے تلامذہ میں بڑے بڑے آئمہ کرام ہیں جن میں چند کے نام یہ ہیں :

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللّٰہ علیہ

امام سخاوی رحمۃ اللّٰہ علیہ

ابراھیم بن مقدسی رحمۃ اللّٰہ علیہ

نور الدین سمودی رحمۃ اللّٰہ علیہ

احمد بن محمد منوفی المعروف قاضی منوفی رحمۃ اللّٰہ علیہ

عبدالحق بن محمد سنباطی رحمۃ اللّٰہ علیہ

تفسیر جلالین :

ابتداء ً امام جلال الدین محلی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس تفسیر کی تالیف کا آغاز کیا تھا،آپ نے سورہ کہف سے شروعات کی اور آخر قرآن تک تفسیر کرلی پھر سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھی اور اس کے بعد داعی اَجَلْ کو لبیک کہہ گئے اور یہ تفسیر ادھوری رہ گئی۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا اور سورہ بقرۂ سے سورہ ٔ اسراء کے آخر تک تفسیر لکھ کر اس کتاب کو مکمل کردیا چونکہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر محلی صاحب کے قلم سے تھی اس لئے اس کو کتاب کے آخر میں سورۃ الناس کی تفسیر کے بعد رکھ دیا تاکہ محلی صاحب کی پوری تفسیر ایک جگہ رہے او ران کی تحریر کردہ تفسیر ایک جگہ، یہی وجہ ہے کہ تفسیر جلالین کی شروعات سورۂ بقرہ سے ہوئی ہے نہ کہ سورۂ فاتحہ سے یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے سورۂ بقرہ سے سورۂ اسراء کے آخر تک یعنی نصف قرآن کی تفسیر صرف چالیس ( 40 ) دن کے اندر تحریر کی جیسا کہ خود سورۂ اسراء کی تفسیر کے خاتمہ پر لکھتے ہیں: وألفتہ فی قدر میعاد الکلیم‘‘ کلیم اللہ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے مقرر کردہ میعاد (یعنی چالیس دن) میں، میں نے یہ کتاب تالیف کی۔ آگے لکھتے ہیں : فرغتُ من تألیفہ یوم الأحد عاشر شھر شوال سنۃ سبعین وثمان مائۃ وکان الابتداء فیہ یوم الأربعاء مستھل رمضان من السنۃ المذکورۃ یعنی یکم رمضان 870 ھ سے 10 شوال 870 ھ کے درمیان کل 40 دن میں یہ کتاب تالیف ہوئی۔(تفسیر جلالین، ج:3،ص: 456،مکتبۃ المدینہ )

تصانیف :

امام محلی نے قیمتی کتابیں تصنیف فرمائیں جو نہایت مختصر اور عمدہ عبارت پر مشتمل ہیں:

(1) تفسیر جلالین

(2) البدر الطالع فی حل جمع الجوامع

(3) کنز الراغبین شرح المنہاج الطالبین

(4) مختصر التنبیہ للشیرازی

(5) شرح تسھیل الفوائد فی النحو

(6) الجھر بالبسملۃ

(7) شرح الاعراب عن قواعد الاعراب

(8) شرح مقصورۃ ابن حازم

(9) کنز الذخائر فی شرح التائیۃ

(10) مناسک حج

(11) القول المفید فی النیل السعید

(12) الانوار المرضیۃ شرح مختصر البردۃ

(13) الطب النبوی

(14) کتاب الجھاد

(15 ) شرح الشمسیۃ فی المنطق لنجم الدین القزوینی

(16) حاشیۃ علی شرح جامع المختصرات فی فروع الشافعیۃ

(17) تعلیقۃ علی جواھر البحرین فی الفروع

(18) شرح عروض اندلسی

(19) شرح الورقات فی اصول الفقہ

نوٹ :مذکورہ کتب میں بعض ناتمام ہیں۔

وفات:

مرض اسہال کے سبب آپ کی وفات 15 رمضان المبارک 864ھ بمطابق 1459 مصر کے شہر قاہرہ میں ہوئی۔ آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

حوالہ جات :

حسن المحاضرہ

شذرات الذہب

الضوء الامع

تفسیر جلالین

از قلم :احمد رضا مغل

بمطابق یکم جمادی الثانی 1441

بروز بدھ


اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےاپنےمحبوبِ ذیشانصلی اللہ علیہ و الہ وسلم کونوری بشربنایاہے،حقیقتِ محمدی نورہے اور بشریت (یعنی بشروانسان ہونا) گویاکہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کاایک لباس اوروصف ہےاوریہ بات بھی بدیہی وواضح ہے کہ نورانیت وبشریت میں کوئی منافات وتضاد نہیں ہےلہذا ان دونوں کاایک ذات میں اِجتماع ممکن،بلکہ واقع اور قرآنِ مجید کی نصِ جلیل اورحدیثِ جبریل سےثابت ہے۔چنانچہ سورۂ مریم کی آیت نمبر17میں اللہ تعالیٰ نے نوری مخلوق کےسردارجبرائیل علیہ السلام کاحضرتِ سیدتنامریم رضی اللہ تعالیٰ عنھاکےپاس آنےکابیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

"فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا 17؀"([1])

ترجمۂ کنزالایمان: تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔

ثابت ہوا کہ جب جبریلِ امین علیہ السلام نور،بلکہ نورانی مخلوق کےسیدوسردارہونے کےباوجودبشری صورت میں آسکتے ہیں توآقائے جبریل ،رسولِ جمیل،نبیِ جلیل صلی اللہ علیہ و الہ وسلمبھی نورہوتے ہوئےبشربن کردنیامیں جلوہ فرما ہوسکتے ہیں۔

اسی طرحصحیح مسلماوردیگرمعتبرومعتمدکُتبِ اَحادیث میں"حدیثِ جبریل" مذکورومسطور ہے، جس میں اس بات کابیان موجودہے کہ حضرتِ سیدناجبریلعلیہ الصلوۃوالتسلیمنےبارگاہِ رسالت میں بشری صورت میں آکر ایمان، اسلام، اِحسان اورقیامت کی نشانیوں کےبارےمیں سوالات کئے۔چنانچہ حدیثِ جبریل کی ابتداءہی میں راویِ حدیث حضرتِ سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جبریلِ امین علیہ السلام کاحاضرِ بارگاہِ رسالت ہونااِن الفاظ سے بیان فرماتے ہیں: "بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ۔۔۔الخ" ([2])

یعنی،ایک دن ہم نبیِ کریمصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی خدمتِ اَقدس میں حاضرتھےکہ ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوئے جن کےکپڑےبہت سفیداوربال خوب کالےتھے۔۔۔الخ

پیغامِ حق وہدایت:وہ بدنصیب لوگ جونبی الاَنبیاء،رسولُ المرسلینصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکومعاذاللہ اپنے جیسابشرثابت کرنے کیلئےآپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کےکھانےپینے،چلنےوغیرہ اَفعالِ بشریہ کودلیل بناتے ہیں اُنہیں ذرامعراج کےمعجزےاوراس میں رُونماہونے والے معاملات مثلاً شقِ صد،آن کی آن میں صدیوں کا سفرطےکرنے،آسمانوں اورجنت و دوزخ کی سیرفرمانے،کُرۂ نارسےسلامتی کےساتھ گزرجانے،بغیرہوا کے زندہ رہنےاورسدرۃُالمنتہیٰ سےآگےعالَمِ اَنوارولامکاں تک پہنچنے کےمعاملےکی طرف بھی نظرکرنی چاہئے، تاکہ نورانیتِ محمدی کی حقیقت اُن کےسامنےواضح ولائح ہوسکے۔ایسےہی لوگوں کودعوتِ حق اورپیغامِ ہدایت دیتے ہوئےغزالئ زماں،رازئ دوراں حضرت علامہ سیِّداَحمدسعیدکاظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:

"جولوگ حضورصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکےکھانےپینے،چلنےپھرنےودیگراَوصافِ بشریہ کوحضورعلیہ الصلوۃوالسلام کے نور ہونے کی نفی میں بطورِ دلیل پیش کرتےہیں انہیں غورکرناچاہئےکہ جس طرح کھاناپیناوغیرہ ان کےنزدیک حضور علیہ الصلوۃوالسلامکےنورنہ ہونےکی دلیل ہےاسی طرح تمام عالَمِ عناصرسےاُوپرجانا زمین کے بغیرٹھہرا رہنا، ہوا اور سانس کامحتاج نہ ہونا،کُرۂ نارسےصحیح سالِم گزرجانااورآن کی آن میں مسجدِ حرام سےمسجدِ اقصیٰ اورآسمانوں پر جاکر واپس آجاناان ہی کےاُصول پربشرنہ ہونےکی دلیل ہوسکتاہےکیونکہ جس طرح نورکاکھاناپینا ناممکن ہےاسی طرح بشر کاآسمانوں پرجانا ہواکے بغیرزندہ رہنا،آگ سےصحیح سالِم گزرجانا،ایک آن میں آسمانوں پرجاکرواپس آجانابھی ناممکن ہے۔معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نےاپنےحبیب صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کوبشریت بھی عطافرمائی ہےاورنورانیت بھی۔ عالَمِ بشریت میں ظہورِ بشریت کاغلبہ ہےاورعالَمِ اَنوارمیں ظہور نورانیت کا۔" ([3])

نوانیتِ مصطفیﷺ اور کلام اعلی حضرت :

اعلیٰ حضرت امامِ عشق و محبت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن اپنے قصیدۂ معراجیہ میں گویا کہ اسی حقیقت کو سمجھاتے ہوئے یوں فرماتے ہیں کہ:

خَبَریہ تَحوِیلِ مہر کی تھی کہ رُت سُہانی گَھڑی پِھرے گی

وہاں کی پوشاک زیبِ تَن کی یہاں کاجوڑابَڑھاچکے تھے

شرح کلامِ رضا:

معراج کی رات(تحویلِ مہریعنی) آفتابِ نبوت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کےایک بُرج سے دوسرے بُرج(یعنی مکاں سے لامکاں) کی طرف پھرنے کی خبر گویا اِس بات کی طرف اشارہ تھی کہ اب(اُمتیوں کی خوش بختیوں کی رُت)موسم اورزمانہ بدلے گاہےاوراچھی اور سُہانی گھڑی آنے والی ہے۔

سرکارِ والاتبار صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نےوہاں(یعنی عالمِ نور اور لامکاں)کالباس پہنااور یہاں(عالمِ ظاہر ودنیا)کاپہناہوا اور مبارَک جوڑا(بڑھا چکے) صدقہ فرماچکے تھے۔

تحویلِ مہر:علمِ صَرَف کی رُو سے" تحویل"بابِ تَفْعِیْل کامَصدرہےجس کےمعنیٰ ہیں"ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا"۔قبلہ کی تبدیلی کےبیان میں بھی "تحویلِ قبلہ"کالفظ بولاجاتاہے۔اس لفظ کااستعمال "سورج چاندیاکسی ستارے کاایک بُرج سے دوسرے بُرج میں آنا"کے معنی میں بھی ہوتاہے۔چنانچہ مہرِ رسالت،ماہِ نبوت، عرب کےچاند،عجم کےسُورج صلی اللہ علیہ و الہ وسلمنےمعراج کی رات گویا ایک بُرج سےدوسرےبُرج کی طرف کاسفراختیارفرمایا۔ زمین سےآسمان کی طرف،مکاں سےلامکاں کی جانب،کعبہ وقبلہ(یعنی مسجدحرام)سے قَابَ قَوسَین تک،عالمِ بشریت سےعالمِ اَنوارکی طرف منتقل ہونےکاارادہ فرمایا تویہ تحویلِ مہرگویااس بات کی خوشخبری ونویداورنیک فال تھی کہ اب محبوبِ رحمٰن،نبیِ ذیشان،مکینِ لامکان صلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی اُمتِ مرحومہ کی خوش بختیوں کی بھی معراج ہونےوالی ہے،اِن کی قسمت کاستارہ بھی چمکنےوالاہے،ان کےبھی دن پھرنے والےہیں اوراِن کی خزاں بھی بہارمیں تبدیل ہونےوالی ہےکہ معراج کی رات اسراء کےدُولہا،محبوبِ خُدا، کونین کےداتاصلی اللہ علیہ و الہ وسلمخالقِ کائناتعزوجلکی بارگاہ سےخاص فیض لےکرمخلوق وموجودات کو فیض یاب فرمائیں گے۔

لیکن یہ سفرایک عالَم(عالَمِ بشریت)سےدوسرےعالَم (عالَمِ اَنوار)تک کاتھالہذاسرورِ ہردوسراصلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے معراج کی شب گویاکہ لباس تبدیل فرمایا یعنی لباس وصفتِ بشریت کےساتھ ساتھ نورانیتِ محمدی(جوکہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی حقیقت ہےاس)کاظُہوراپنے عُروج پرتھا۔([4])

چنانچہ معراج کی رات نبیِ مختار،شاہِ اَبرارصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی حقیقت یعنی نورانیت کاصفتِ بشریت پرایساغلبہ تھا کہ جس کےسامنےنورانی مخلوق کےسردارجبریلِ امین علیہ الصلوۃوالتسلیمکی نورانیت بھی ماندپڑگئی تھی، سدرۃُالمنتہیٰ کےاُس پار کےاَنوار کی تاب لاناجبریلِ امین علیہ الصلوۃوالسلامکےبس سےتوباہرتھا،لیکن نوری بشر، رسولِ اَنورصلی اللہ علیہ و الہ وسلمنےاُن اَنوارکامشاہدہ فرمایااورتمام ترحجابات ومنازلِ قُرب کوطےکرکےبلاحجاب اپنے ربِّ جمیل وجلیل عزوجل کادیدارفرمایا۔

اسی بات کوحکیم الاُمت مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمہ"مرآۃالمناجیح" میں یوں فرماتے ہیں:"سارے معجزات لوگوں کو دکھائے مگر معراج لوگوں سے چھپائی گئی بعد میں سنائی گئی کیونکہ معراج میں ربّ سے وصال تھا، اس میں حضورصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی نورانیت بھی ظاہر تھی اورحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کالباس بھی نورانی تھا، کسی آنکھ میں طاقت نہ تھی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کو دیکھتی،گھر کا لباس اور ہوتا ہے دفتر کا لباس دوسرا، دُنیا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کا دفتر ہے یہاں لباس بشریت میں آئے وہ جہاں حضورصلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا گھر ہے وہاں کا لباس نور ہے۔"([5])

نوٹ : فلسفۂ نورانیت وبشریت کی تفصیلات جاننے کیلئےفتاوی رضویہ مخرَّجہ میں موجود امامِ اہلسنتعلیہ الرحمہکارسالہ"صلاتُ الصَّفافی نورالمصطفےٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم" اورحکیمُ الاُمت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃاللہ علیہ کا"رسالہ نور"بہت مفیدہے۔([6])

از: ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی



[1]۔ مریم:19/17

[2]۔ صحیح مسلم،کتاب الایمان،1/27،قدیمی کتب خانہ

[3]۔ مقالاتِ کاظمی،ج1،ص206،کاظمی پبلی کیشنز

[4]۔ حکیم الاُمت مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمہ "رسالہ نور"میں فرماتے ہیں:"حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم نوربھی ہیں اوربشربھی یعنی نوری بشر ہیں۔حقیقت حضور(علیہ السلام)کی نُورہے اورلباس بشری ہے۔" (رسالہ نور،ص30،نعیمی کتب خانہ)

[5]۔ مرآۃُالمناجیح،8/136،نعیمی کتب خانہ

[6]۔ ماخوذ از: لَمَعَانُ الْاَنْوَارِ الْاَحْمَدِیَۃِ فِیْ تَوْضِیْحِ الْقَصِیْدَۃِ الْمِعْرَاجِیَۃِ بنام : شرح قصیدۂ معراجیہ


رزق میں برکت اور بےبرکتی

Mon, 28 Feb , 2022
3 years ago

تنگ دستی اور رزق میں بےبرکتی ایک عالمگیر مسئلہ بن چکاہے۔ شاید ہی کوئی گھر اس سےمحفوظ ہو۔ ہم اپنے مسائل کے حل کے لئےمشکل ترین ذرائع استعمال کرنے کو تو تیار ہیں مگر اللہ پاک اور اس کے پیارے رسولصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےعطاکردہ روزی میں برکت کےآسان ذرائع کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔بےروزگاری اور تنگ دستی کے گھمبیر مسائل نےلوگوں کوبےحال کر دیاہے۔ شاید ہی کوئی گھر اورفرد ایساہو جو تنگ دستی کا رونا نہ روتاہو۔ہرشخص پریشان ہے اور چاہتا ہےکہ کسی طرح تنگ دستی سےچھٹکارا مل جائے اور روزی میں برکت ہوجائے۔سچ تو یہ ہے کہ تنگ دستی اور رزق میں بےبرکتی کا سب سے بڑا سبب ہماری بےعملی ہے جسے قرآنِ مجید میں رازق اور خالق و مالک اللہ پاک نے یوں بیان فرمایا ہے:

وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)

ترجمۂ کنزالایمان:اورتمہیں جومصیبت پہنچی وہ اس کےسبب سے ہے جوتمہارے ہاتھوں نے کمایااوربہت کچھ تومعاف کردیتا ہے۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی بدعملی وگناہ کوتنگ دستی و بےبرکتی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ

گناہ کی نحوست:

حضرت سیِّدُنا ثوبان رَضِیَ اللہُ عَنْہسے مروی ایک روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’اِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِخَطِيْئَةٍ يَّعْمَلُهَا یعنی بےشک بندے سے جو خطا سرزد ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہ رزق سےمحروم ہوجاتاہے۔‘‘ (ابن ماجۃ،المقدمہ ،باب فی القدر،۱/ ۶۹،حدیث:۹۰)

حضرت سیِّدُنا ثوبان رَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان کرتےہیں کہ حضورنبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:’’اِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيْبُهٗ یعنی بےشک بندے سے جو گناہ سرزد ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ رزق سےمحروم ہوجاتاہے۔‘‘ (ابن ماجۃ،کتاب الفتن،باب العقوبات،۴/ ۳۶۹،حدیث:۴۰۲۲)

شرح حدیث:

مشہور شارحِ حدیث، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے چند معنیٰ ہیں:ایک یہ کہ گناہوں سے رزقِ آخرت یعنی ثوابِ اعمال گھٹ جاتا ہے۔دوسرے یہ کہ مؤمن کا گناہوں کی وجہ سے رزقِ روحانی یعنی اخلاص،اطمینانِ قلب، دل کا چین و سکون، رغبت الی اللہ گھٹ جاتی ہے۔تیسرے یہ کہ مؤمن اپنے گناہوں کی وجہ سے تنگی رزق،یا بلاؤں میں گرفتار ہوجاتا ہے تاکہ ان کی وجہ سے گناہوں سے توبہ کرکے پاک و صاف ہوکر دنیا سے جائے لہٰذا اس فرمان پر یہ اعتراض نہیں کہ اکثر متقی پرہیزگار لوگ مفلوک الحال ہوتے ہیں اور فاسق و بدکار بڑے مالدار۔ ( مراٰۃ المناجیح،۶/ ۵۲۵)

برکت اور بےبرکتی کیا ہے؟

’’خیال رہےکہ مال کی زیادتی اورہے،برکت کچھ اور،زیادتِیٔ مال کبھی ہلاک کردیتی ہےمگربرکَتِ مال دین و دنیامیں ربّ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔‘‘( مراٰۃ المناجیح،۳/ ۵۷)نیز’’مال میں برکت اللہ کی رحمت ہےاورمال کی کثرت کبھی عذاب ہوجاتی ہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح،۷/ ۲۲۵)

کیونکہ مال ودولت کی زیادتی بسااوقات کئی طرح کی آزمائشوں میں مبتلاکردیتی ہے بالخصوص گناہوں کے مرض میں کہ جب کسی شخص کےپاس مال ودولت کی فراوانی ہوتی ہےتوشیطان مردوداسےطرح طرح کےظاہری وباطنی گناہوں میں ملوث کرنےکی کوشش کرتا ہے، لہٰذاعافیت اسی میں ہےکہ اسی قدرمال پراکتفا کیا جائے جو ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہو۔نیزمال کی زیادتی نہیں بلکہ مال میں برکت کی دعامانگنی چاہئےاوران اسباب پربھی نظررکھنی چاہئےجو تنگ دستی کا باعث بنتےہیں تاکہ ان سےبچاجائے۔

الغرض:نافرمانی وگناہ سےبرکت اڑجاتی جبکہ اطاعت وفرمانبرداری باعِثِ برکت ہے۔ ہمارے معاشرے میں تنگ دستی، فقر و فاقہ کشی ،بے روزگاری اور رِزْق میں بے برکتی کا رونا رونے والے بہت ہیں، ایسے میں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم گناہ کرتے نہیں ڈرتے؟ مصیبتوں اور رِزْق میں بےبرکتیوں کا سبب کہیں ہماری اپنی ہی بداعمالیاں تو نہیں ہیں؟کیونکہ آج کل ہمارے معاشرے میں گُناہوں کا بازاراس قدر گرم ہے کہ اَلْاَمَانُ وَالْحَفِیْظ۔ بدقسمتی سے ہماری بھاری اکثریَّت بے عملی کا شکار ہے، نہ توبندوں کے حقوق کی ادائیگی کا پاس ہے اور نہ ہی حقوقُ اللہ کی پامالی کا کوئی احساس،نیکیاں کرنا نفس کے لئے بے حد دُشوار اور گناہ کرنا بَہُت آسان ہوچکا ہے۔

’’جیسےگناہ کا عذاب دنیا و آخرت میں (بھگتنا) پڑتا ہے یونہی نیکی کا فائدہ دونوں جہان میں ملتا ہے۔ جو مسلمان پانچوں نمازیں پابندی سے جماعت کے ساتھ ادا کرے اسے رزق میں برکت، قبر میں فراخی نصیب ہوگی اور پل صراط پر آسانی سے گزرے گا اور جو جماعت کا تارک ہوگا اس کی کمائی میں برکت نہ ہوگی، چہرے پر صالحین کے آثار نہ ہوں گے، لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت ہوگی، پیاس و بھوک میں جان کنی اور قبر کی تنگی میں مبتلا ہوگا اور ا س کا حساب بھی سخت ہوگا۔‘‘([1])

افسوس!مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد فرائض سے ہی غافل ہو چکی ہے، نما ز جوکہ فرض اعظم ہے اس کی ادئیگی میں سستی کا کیا حال ہے اس کا اندازہ مسجدوں کی ویرانی سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ اگر واقعی ہم امن وسکون اور رزق میں برکت کے طالب ہیں تو ہمیں گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے احکام خداوندی کی پابندی اور سنّتوں پرعمل کرناہوگا۔

بلاشبہ خوفِ خدا کی وجہ سے گناہوں کو چھوڑ دینا رزق میں برکت کا سبب بنتا ہے، جو بھی خوفِ خدا کی وجہ سے کسی گناہ سے رکتا ہے تو اللہ پاک اُسے ایسے اسباب سے رِزق عطا فرما دیتا ہے کہ جن کی طرف اس کا خیال بھی نہیں جاتا۔

یادرکھئے!دنیاوآخرت کےتمام مسائل وپریشانیوں کاواحدحل اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوئے قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔

روزی میں برکت کے چند نسخے:

(1)……حضرت سیِّدُنا سَہَلْ بن سَعَد ساعِدی رَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر اپنی غربت اور تنگ دستی کی شکایت کی تو رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلہٖ وَ سَلَّم نےارشاد فرمایا: ’’جب تم اپنے گھر میں داخل ہوتو سلام کرو اگرچہ کوئی بھی نہ ہو،پھر مجھ پر سلام بھیجو اور ایک بار قُلْ ھُوَاﷲ شریف(پوری سورۂ اخلاص) پڑھو۔‘‘ اس شخص نے ایسا ہی کیا تواللہ پاک نے اسے اتنا مال دار کر دیا کہ اس نے اپنے ہمسایوں اور رشتے داروں میں بھی تقسیم کرنا شروع کر دیا۔([2])

(2)…… مشہور شارحِ حدیث، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مراٰۃ المناجیح میں تحریر فرماتے ہے:’’بعض بزرگوں کو دیکھا گیا ہے کہ اول دن میں جب پہلی بار گھر میں ہوتے تو بِسْمِ اللہ (شریف)اورقل ہو اللہ (پوری سورۂ اخلاص)پڑھ لیتے،کہ اس سے گھر میں اتفاق بھی رہتا ہے اور رزق میں برکت بھی۔‘‘([3])

(3)……’’یَا مَلِکُ‘’90 بار جو غریب ونادار روزانہ پڑھا کرے اِنْ شَآءَ اللہ غربت سے نجات پائے گا۔([4])

(4)……”ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘کے صفحہ 128پر ہے:ایک صحابی (رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) خدمَت ِاقدس (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) میں حاضر ہوئے اور عرض کی: دنیا نے مجھ سے پیٹھ پھیر لی۔ فرمایا: کیا وہ تسبیح تمہیں یاد نہیں جو تسبیح ہے ملائکہ کی اور جس کی برکت سے روزی دی جاتی ہے۔ خَلْقِ دنیا آئے گی تیرے پاس ذلیل و خوار ہوکر، طلوعِ فجر کے ساتھ سوبار کہا کر ’’سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحٰنَ اللہِ الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللہ‘‘اُن صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو سات دن گزرے تھے کہ خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی: ’’حضور! دنیا میرے پاس اس کثرت سے آئی، میں حیران ہوں کہاں اٹھاؤں کہاں رکھوں!‘‘۔([5])

(5)……حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: جس نے استغفارکو اپنے اوپر لازم کرلیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے راحت عطافرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطافرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔([6])

(6)……حضرتِ سیِّدُنا یزید بن عبداللّٰہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَـیْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللّٰہ پاک بندے کو رزق کے معاملے میں آزماتا ہے تاکہ دیکھے کہ وہ کیا عمل کرتا ہے اگر تقسیم الٰہی پر راضی رہے تو اس کے رزق میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر راضی نہ ہو تو برکت سے محروم رہتا ہے۔‘‘([7])

(7)……رزق میں برکت کا ایک سبب رشتہ داروں سے حُسنِ سُلوک کرنا بھی ہے۔ چنانچہ حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے عُمر میں اضافہ اور رِزْق میں زیادتی ہونا پسند ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ پاک سے ڈرے اور صِلۂ رِحمی (رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک )کرے۔([8])

(8)……آیَۃُ الْکُرسی کسی چیز پر لکھ کر اس کا کَتَبَہ مکان میں کسی اونچی جگہ پر آویزاں کردیا جائے تو اِنْ شَآءَ اللہ اس گھر میں کبھی فاقہ نہ ہوگا۔ بلکہ روزی میں بَرَکت اور اضافہ ہوگا اور اس مکان میں کبھی چور نہ آسکے گا۔([9])

(9)……معاشی ترقی اور رزق میں برکت کا ایک بہترین طریقہ زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ہے۔

خیال رہے! اَورَادووظائف بھی اسی صورت میں فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں جب فرائض وواجبات پرحتَّی المقدورعمل ہو۔ جس طرح مریض کے لئے دوا کے ساتھ پرہیزضروری ہے اسی طرح اوراد ووظائف کرنے والے کے لئےفرائض وواجبات بالخصوص باجماعت نماز کی پابندی ضروری ہےورنہ کوئی بھی وِردکماحقہ فائدنہیں پہنچائےگا۔

رزق میں خیر و برکت کےحُصول کی مزید معلومات اور تنگ دستی کی وُجوہات جاننے کے لئےشَیخِ طریقت امِیرِ اہْلِ سنّت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’چڑیا اور اندھا سانپ‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) اور المدینۃ العلمیہ کا رِسالہتنگ دستی کے اَسباب اور ان کا حل‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) پڑھئے ۔



[1]صراط الجنان،۶/ ۲۶۳

[2]القول البدیع، الباب الثانی فی ثواب الصلاة علی رسول اللہالخ، ص۲۷۳

[3]مراٰۃ المناجیح،۶/ ۹

[4]مدنی پنج سورہ، ص۲۴۶

[5]لسان المیزان، حرف العین، ۴/ ۳۰۴، حدیث:۵۱۰۰۔ زرقانی علی المواھب، ذکر طبہ من داء الفقر، ۹/ ۴۲۸ واللفظ لہ

[6]ابن ماجة،کتاب الادب،باب الاستغفار،۴/ ۲۵۷،حدیث:۳۸۱۹

[7]المعجم الاوسط، ۶/ ۱۶۱، حدیث:۸۳۶۲، دون قولہ الرزق

[8]شعب الایمان، ۶/ ۲۱۹، حدیث:۷۹۴۷

[9]جنتی زیور، ص۵۸۹ ملخصاً


انسان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ابھارنے، نکھارنے اور پختہ کرنے کا بہترین ذریعہ تربیت ہے! دین ِاسلام حیات انسانی کے ہر شعبے میں مکمل راہ نمائی فراہم کرنے اور باضابطہ تربیت کرنے کا علمبردار ہے۔ یہاں میں دعوت و ارشاد کے موضوع پر اپنی زیر ترتیب کتاب کی ایک بات عرض کرتا چلوں: جو کام باقاعدہ سیکھ کر، مکمل تیاری اور مشق کے بعد کیا جائے وہ اس کام کے مقابلے میں بہترین ہوتا ہے جو ان مراحل سے گزرے بغیر انجام پائے!

دعوتِ اسلامی دین کی اس اہم ترین ہدایت کو جس خوبصورتی سے تھامے ہوئے ہے وہ اپنی مثال آپ ہے؛ ”مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔“ کا نعرہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دعوتِ اسلامی کی اس خصوصیت سے جس شخص کو سب سے زیادہ فیض یاب ہونے کا موقع میسر آتا ہے وہ اس کے امپلائیز ہیں؛ گاہ بہ گاہ ان کی تربیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو بہترین کار کردگی کا باعث بھی بنتا ہے۔ جی ہاں! دنیا بھر میں منظم طریقے سے دین کی خدمات انجام دینے والی اس تحریک کی کامیابی کے پیچھے ”اس کا اپنے امپلائیز کی تربیت کا نظام ہے!“

یہ چند سطور لکھنے پر جس جذبے نے مجھے ابھارا اور میں نماز ظہر کے بعد صرف 15 منٹ کے مختصر وقت میں ان کا اظہار کررہا ہوں وہ ریسرچ اسکالرز کی آج ہونے والی دو گھنٹے کی تربیتی نشست ہے جو المدینۃ العلمیہ کےریسرچ اینڈڈیویلیپمنٹ کےتحت منعقد ہوئی۔

جو موتی اور جواہر میں چُن سکا اس انتہائی مختصر وقت میں ان سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں اور وقفے کے بعد اس پر لکھنے کا وقت نہیں لہذا سر دست جتنا لکھ سکتا ہوں اپنے الفاظ اور معمولی اضافے کے ساتھ پیش خدمت ہے:

پہلا لیکچر : اسلامک ریسرچ اسکالر استاذ العلما مولانا ابو رجب محمد آصف مدنی دام ظلہ

_ ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے رہیے ترقی کے زینے طے ہوتے چلے جائیں گےاور کبھی بھی اپنی موجودہ اسکلز پر انحصار کرکے جامد مت بنیئے۔

اضافہ: استاذ محترم کی اس بات پر مجھے اپنی مذکورہ کتاب میں شامل جملہ یاد آیا ملاحظہ کیجیے:

1- دنیا میں ثبات صرف تغیر کو حاصل ہے؛ اگر آپ ترقی نہیں کررہے تو پھر تنزلی کی طرف جارہے ہوں گے!

_ اسٹرگل کیجیے: آگے بڑھنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیے اور ہر کام باقاعدہ سیکھ کر کیجیے کہ بائیک چلانے والے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو بغیر سیکھے سڑک پر آجاتے ہیں ؛ ایسوں سے کیا بعید کہ وہ بائیک کے تیسرے یا چوتھے گیر میں پورا کراچی گھوم آئیں! دوسرے وہ جو باقاعدہ سیکھ کر گاڑی چلاتے ہیں؛ یقینا ً یہ قابل ستائش ہیں۔

اضافہ: اسکلز کے تناظر میں میرا ذہن اپنے اس زمانے کی طرف منتقل ہوگیا تھا جب مجھے کمپیوٹر کی کچھ سدھ بدھ نہیں تھی اور میرے ذمہ دار نے مجھے زِپ فولڈر میں کام کے لیے چند فائلز دیں اور میں نے اس کو اَن زِپ کیے بغیر ہی کام شروع کردیا کچھ دیر بعد ایک فائل چیک کروائی گئی تو کچھ بھی محفوظ نہیں تھا ! ظاہر ہے زِپ فولڈر میں موجود فائلز میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہوتا اسے پہلے اَن زِپ کرنا ہوگا۔۔۔

یقین کیجیے یہی صورت حال میرے زیرِ تربیت ایک اسکالر کے ساتھ پیش آئی؛ انہیں بھی میں بتانا بھول گیا تھا ! یہاں سے مجھے ہر کام باقاعدہ سیکھ کر کرنے کا ایسا شوق پیدا ہوا کہ اب میرا کوئی کام بغیر تربیت لیے نہیں ہوتا الحمد للہ۔

_ ذمہ داری لینے کا حوصلہ پید کیجیے! جو دس سال پہلے جہاں تھا اگر وہ آج بھی وہی ہے تو اس کی محنت ضائع ہی ہوئی ہے کیونکہ اس نے جتنی محنت اسی جگہ برقرار رہنے پر کی اگر وہ یہی توانائی آگے بڑھنے پر لگادیتا تو یقیناً مفت میں اس منصب کو برقرار رکھتا بلکہ اس سے اوپر والے منصب کا حق دار قرار پاتا ۔

اضافہ: یہ سن کر مجھے صبح ہی پڑھے ہوئے مضمون کا ایک پیرا یاد آگیا ملاحظہ کیجیے:

آپ اگر بغور جائزہ لیں تو آپ کو ایسے مختلف ادارے اور افراد نظر آجائیں گے جو کافی عرصہ گزرجانے کے باوجودبھی ترقی نہیں کرپارہے ۔فرد کی ترقی نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس ادارے میں ایک عرصے سے کام کررہا ہوتا ہے اسی طویل عرصے کو ذہن میں رکھ کر وہ خودکو’’بڑا‘‘سمجھتا ہے ۔اس سوچ کی وجہ سے وہ مزید سیکھتا نہیں اورکئی سال گزرنے کے باوجود بھی ترقی نہیں کرپاتا۔ وہ ہر شخص کے سامنے یہ احسان جتلاتاہے کہ میں نے اس ادارے کو 15سال دیے ہیں لیکن اس چیز کو نہیں دیکھتاکہ اس عرصے میں اس نے ادارے سے کافی سارے مراعات اور فوائد بھی حاصل کیے ہیں۔یہ سوچ اس کی اناکا وزن بڑھادیتی ہے اور اسی وجہ سے کام کے حوالے سے اس کا انرجی لیول بھی وہ نہیں رہتا جو نوکری کے پہلے دِن تھا،جبکہ اس کے برعکس جو شخص ہر دِن کو نیا دِن سمجھ کر کام پر آتا ہے تو اس کی انرجی کا لیول بھی اسی قدر زیادہ ہوتاہے۔لہٰذا اگر زندگی کو شاندار بنانا ہے تو آج کے دِن کی اہمیت سے انکار نہ کریں۔

دوسرا لیکچر: اسلامک ریسرچ اسکالر مولانا عدنان چشتی مدنی دام ظلہ

ابتدا ہی ایسے شاندار فرمان سے ہوئی کہ مزہ آگیا:

_ اپنے کانوں کو چھننی مت بناؤ۔ اس پر قبلہ لیکچرار کا تبصرہ جس رنگ اور جذبے سے معمور تھا وہ الفاظ میں نہیں سما سکتا ایک بات سنتے چلیے کہ جس طرح چھنّی آٹا چھانتے وقت قیمتی چیز گرادیتی ہے اور کچرا روک لیتی ہے اس طرح آپ اپنے کانوں کو چھننی والا کام مت کرنے دیں کہ کام کی چیزیں ضائع کردیں اور کچرا روکتے چلے جائیں۔

_ احادیث نقل کرنے میں حتَّی الامکان صحاح ستہ کو ترجیح دیں۔

_ صحاح کے علاوہ کسی اور کتاب سے تخریج کرتے وقت رواۃ پر جرح ضرور ملاحظہ فرمالیں اور صرف ایک امام کی جرح پر اکتفا نہ کریں بلکہ دیکھیں کسی اور نے اس پر کیا کلام کیا ہے ۔

حدیث ذکر کرنے کےبارے میں جو احتیاطیں بیان کی گئیں ان سب کا احاطہ چند سطروں میں ممکن نہیں ۔

اللہ کریم دعوت اسلامی کو ترقی و عروج نصیب فرمائے۔

24/02/202


یہ دنیا انسانوں کی بستی ہےجہاں روزا نہ ہزاروں ، لاکھوں لوگ آتے ہیں اور رب کریم کی طرف سے عطا کردہ زندگی گزار کر اپنےاَبدی ٹھکانے کی طرف چل پڑتے ہیں، لیکن بعض لوگ اپنی زندگی میں ایسے زبردست کارنامےسرانجام دیتے ہیں کہ انہیں اس دنیا سے جانے کے بعدبھی یاد رکھاجاتاہے،لوگ ان کے ناموں کاادب و احترام کرتے ہیں ا ن کےعرس کے موقع پر ان کےاصاف حمیدہ اور کارناموں کاذکر کرکےخرا ج تحسین پیش کرتے ہیں،ان کی بارگاہ میں ایصالِ ثواب کی صورت میں تحائف پیش کرتے ہیں۔ رب کریم کے انہی محبوب بندوں میں ایک ہستی جنہیں حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب تم دیکھو کہ کوئی شخص حضرتِ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سےمحبت رکھتا ہےا ور ا ن کی خوبیوں کو بیان کرنے ا ور ا نہیں عام کرنے کا اِہتِمام کرتا ہے تو اِس کانتیجہ خیر ہی خیر ہے ۔([1])

مختصرتعارف

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ 61ھ یا 63ھ میں خاندانِ بنوامّیہ میں مدینۂ منوَّرہ میں پیدا ہوئے،آپرحمۃ اللہ علیہ کےوالدِ ماجِد کا نام عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ تھا جو سرزمینِ عَرَب کےمعزز ترین خاندان ’’قُرَیش ‘‘ کی شاخ ’’بنوا میّہ‘‘کی ممتازشخصیت تھے، 20سال سے زائدعرصہ مِصر کے گورنر رہے۔آپ کی والدہ اُ مِّ عاصم رحمۃ اللہ علیہا حضرت سیِّدُنا عاصم بن عمر رضی اللہُ عنہ کی صاحبزادی اور حضرتِ عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہا کی پوتی تھیں،اس لحاظ سےحضرت عمر بن عبدالعزیز کی رَگوں میں فاروقی خون تھا،اِسی وجہ سے آپ کے کردار واَطوار پرحضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کا گہرا اَثر دکھائی دیتا تھا ۔

علمی مقام و مرتبہ

حضرت سیِّدنا عمر بن عبدالعزیز بچپن سےہی نیک وپرہیزگار اور علم دین کا ذوق و شوق رکھنے والے تھے ،کم عمری میں ہی قرآن کریم حفظ کر لیا تھا اور اس کے بعدمزید علمی پیاس بجھانے کے لئےحضرتِ سیِّدنا اَنَس بن مالک،سائب بن یزید اور یوسف بن عبداللہجیسےجلیل القدرصحابہ اور تابعین کے حلقۂ دَرس میں بھی شریک ہوئے۔یوں ا ن بزرگانِ دین کی صحبتِ بابرکت میں قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل کرکے وہ مقام حاصل کیا کہ آپ کے ہم عصربڑے بڑے محدثین کو بھی آپ کےفضل وکمال پر رشک آتا تھا۔امام ذَہَبی رحمۃ اللہ علیہنے آپ کے بارے میں لکھا کہ آپ بہت بڑے اِمام، فقیہ، مجتہد، حدیث کےماہراورباکمال حافظ تھے ۔([2]) حضرت سیِّدُنا میمون بن مِہران رحمۃ اللہ علیہنےآپ کو مُعَلِّمُ الْعُلَمَاء(یعنی علماء کا استاد ) قرار دیا۔([3])

جوانی میں خلیفہ بن گئے

حضرت عمر بن عبدا لعزیز رحمۃ اللہ علیہ مدینے شریف میں ہی عِلم وعمل کی منزلیں طے کرنے کے بعد صِرف 25 سال کی عمر میں مکۃ المکرمہ،مدینۃ المنورہ اور طائف کےگورنر بنے ا ور 6سال یہ خدمت شاندارطریقے سے اَنجام دینے کے بعد استعفی دےکرخلیفہ کےمشیر خاص بن گئے اور سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد 10 صفر المظفر 99ھ کو تقریباً36 سال کی عمر میں جمعۃُ المُبارک کےدن خلیفہ بنےاور اِس شان سےخِلافت کی ذمّہ داریوں کو نِبھایا کہ تاریخ میں اُن کا نام سنہرےحُروف سےلکھا گیا،کم وبیش اڑھائی سال خلیفہ رہنے کے بعدحضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے25 رجب 101ہجری بدھ کے دن تقریباً39سال کی عمر میں اپنا سفرِ حیات مکمل کرلیا اور اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔

اوصاف وکمالات

آپ رحمۃ اللہ علیہ بےشمار اوصاف وکمالات کےحامل اور ہروصف میں اپنی مثال آپ تھے، اگرآپ کی عِبادت گزاری پرنظر دوڑائیں تو عابِدوں کےسردار، زُہد وتقویٰ کو دیکھیں تو متقین کے رہنما،ذوقِ تِلاوت کے بارےمیں پڑھیں تو بہترین قاریٔ قرآن، علمی وسعتوں کو دیکھیں تو لاجواب عالمِ دین،تجدید ی کارناموں کاجائزہ لیں تو اسلام کے پہلے مُجَدِّد ، طَرزِ حکومت کا مشاہدہ کریں تو کامیاب ترین حکمرا نوں میں اُن کاشمار ہوتا ہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کےعلم وعمل،لاجواب انقلابی کارناموں ا ور امّتِ مسلمہ کی ا صلاح کے لئے کئے جانے والےاقدامات کو دیکھ کرعلماو مورخین نے ثانیٔ عمر کا لقب دیا ۔

شوق تلاوت کے واقعات

کثیرمصروفىات کےباوجود آپ کى عبادت کا ذوق و شوق قابلِ تقلىد تھا،بالخصوص آپ کو تلاوتِ قرآن کے ساتھ عشق کى حد تک لگاؤ تھا،آپ رحمۃ اللہ علیہ روزا نہ صبح سویرےقرآن مجید کی تھوڑی دیرتلاوت کرتےاور رات کےوقت جب سونے کا ٹائم ہوتاتو نہایت پُر سوز لہجہ میں سورۂ اعراف کی یہ آیتیں پڑھتے :

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے۔ ۸، اعراف:۵۴)

اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمْ نَآئِمُوْنَؕ ترجَمۂ کنزالایمان:کیا بستیوں والے نہیں ڈرتے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سوتے ہوں ۔ (پ۹، الاعراف :۹۷)

بعض اوقات ایک ہی سورۂ مبارکہ کو بار با ر رات بھر پڑھا کرتے تھے۔ایک رات سورۂ انفال شروع کی توصبح تک پڑھتے رہے۔([4])

ابوعمرکابیان ہےکہ جب حضرتِ سیِّدنا عمر بن عبدالعزیزگورنرتھےمیں جدّہ سےان کےلئے تحائف لےکرمدینَۂ منوَّرہ پہنچا تو وہ فجرکی نَماز اداکرنےکےبعدمسجدہی میں موجودتھے ا ورگودمیں قراٰن پاک لئےتلاوت کر رہے تھےا ور ان کی آنکھوں سےآنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔([5])

دھاڑیں مار مار کر رونے لگے

ایک شخص نےحضرتِ سیِّدُناعمر بن عبد العزیزکےپاس پارہ 18سورۂ فُرقان کی آیت 13 پڑھی:

وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًاؕ         ترجَمۂ کنزالایمان:اورجب اس کی کسی تنگ جگہ میں ڈالے جائیں گے زنجیروں میں جکڑے ہوئے تو وہاں موت مانگیں گے ۔

توآپ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے،آخرِ کار وہاں سےاٹھےاور گھر میں داخِل ہوگئے ۔ ([6])

تلاوت قرآن کی عادت بنائیے

اےعاشقان اولیا!معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے نیک بندےکس قدرشوق و محبت سے تلاوت فرمایا کرتے تھے،دن رات ربِّ کریم کا کلام پڑھتے رہتے تھے۔ مگر افسوس!آج مسلمانوں کی اکثریت قرآنِ پاک کی تعلیم سے نا آشنا ہے،بعض نادانوں کو قرآنِ پاک دیکھ کر پڑھنابھی نہیں آتا، اور جن کو پڑھنا آتا ہے وہ بھی سالوں سال تک قرآنِ پاک کھول کر نہیں دیکھتے،کئی کئی مہینے(Months) گزر جاتے ہیں مگرمسلمانوں کے گھرتلاوت کی برکت سےمحروم رہتے ہیں۔ آئیے!آج حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کےعرس کے موقع پر ہم بھی نیت کرتے ہیں کہ آج سےا ن کی سیرت کی اداؤں کو ا پناتے ہوئے ہم خودبھی قرآنِ پاک پڑھیں گے ا ور دوسرے لوگوں کو بھی قرآن ِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائیں گے۔ان شاء اللہ !

25 رجب المرجب کو اپنےاپنے گھروں میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی نیاز کریں اور اپنے بچوں کو ا ن کی سیرت کے بارےمیں بتائیں ،اس کے لئے دعوت اسلامی کے مکتبۃ المدینہ کی کتاب حضرتِ سیِّدنا عمربن عبدالعزیز کی 425 حکایات“ کو خود بھی پڑھئے اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیے۔اللہ کریم ہمیں اپنے نیک بندوں کےنقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

از: مولانا عبدالجبار عطاری مدنی

اسکالر:المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر،دعوتِ اسلامی)



[1] سیرت ابن جوزی ،ص74

[2] تذکرۃ الحفاظ، 1/90

[3] سیرت ابن جوزی، ص35

[4] حلیۃ الاولیاء ، 5/385 ملخصا وسیرت ابن جوزی،ص211

[5] سیرت ابن جوزی،ص42

[6] سیرت ابن جوزی، ص217


سیِّدِ کائنات،فخرِ موجوداتﷺ کی ذاتِ مقدَّسہ سےجس شے کوبھی نسبت ہوجائے، وہ  مبارَک ،معظَّم اوراَشرف و اَعلیٰ ہوجاتی ہے۔نسبت ِ مُصطفیٰ علیہ التَحیۃُ والثَناء تو ذرے کو زَر(سونا،Gold)اور شمع کو آفتاب بنادیتی ہے۔اللہ ربُّ العزت کےمحبوبِ عالی مرتبت ﷺ سےنَسب کا رشتہ ہو،سُسرالی تعلّق ہو یا صحبت و قُرب کاشرف ہو،سب ہی پاکیزہ و نایاب اور عُمدہ و لاجواب ہیں۔ تاریخ ِ ا سلام کے اَوراق پر کئی ایسی ہستیوں کےتابِندہ و روشن نام تحریر ہیں جنہیں نبی اَکرمﷺسے یہ تینوں نسبتیں حاصل ہیں۔اُنھیں میں سے ایک روشن اور چمکتادمکتانام اَوّل مُلوکِ اسلام،امیرالمؤمنین ،کاتبِ وحی حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کابھی ہے۔ذیل میں صحابیِ رسول حضرت سیِّدُناامیر مُعاوِیہرضی اللہ عنہکی اِن تینوں مبارَک نسبتوں کا اِختصار کےساتھ بیان مُلاحظہ ہو:

نسبی رشتہ داری :

خالُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کاشجرۂ نَسب والد ِ ماجد اور والدۂ محترمہ دونوں کی طرف سے "عبدِ مَناف"تک جا کر رسولِ ذیشانﷺکے عالی اورمبارَک سلسلۂ نَسب سے مل جاتاہے۔یوں حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کا شُمار نبیِ کریم ﷺ کےنسبی رشتہ داروں میں ہوتاہے۔

سرکارِ اعظم ﷺ کاشجرۂ نسب:حضرتِ محمدﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطَّلب بن ہاشم بن عبد مَناف۔ (صحیح بخاری)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ نسب:

والد کی طرف سے:مُعاویہ بن ابوسفیان صخربن حَرب بن اُمَیّہ بن عبدِ شمس بن عبدِ مَناف۔(سیراعلام النبلاء،3/119)(الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ،6/120)

والد ہ کی طرف سے: مُعاویہ بن ہِندبنتِ عُتبہ بن ربیعہ بن عبدِ شمس بن عبدِ مَناف۔(سیراعلام النبلاء،3/120)(اسدالغابۃ،7/316)

نَسب میں ہیں تجلیاں قَبیلۂ رسول کی

قُریشیت سے بڑھ گئی شرافتِ مُعاوِیہ

سُسرالی رشتہ داری:

حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہکوحضورِ اکرم ﷺسے سُسرالی رشتہ داری کا شرف بھی حاصل ہے، یوں کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ(سگی بہن) حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنھاسرورِ دوعالم ﷺ کی مقدَّس زوجہ اور اُمّ المؤمنین(مومنوں کی مقدَّس ماں) ہیں ۔اِن کا اصلی نام "رَملہ"ہے۔ (المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،4/403)

چنانچہ جامع المَعقول والمنقول حضرت علامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی قُدِّسَ سِرُّہ نے اپنی کتاب "النِبراس"میں تحریر فرمایا:

کَانَ اُخْتُہُ اُمُّ حَبِیْبَۃَ رضی اللہ عنھا زَوْجَ النَبِیّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔حضرتِ امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کی بہن اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنھا نبیِ کریم ﷺ کی زوجہ مبارَکہ ہیں۔ (النبراس شرح شرح العقائد،ص307)

اِسی پاکیزہ نسبت اورتعلّق کوبیان کرنےکےلئے کئی علماءاور محدِّثین کرامرحمۃُاللہ علیھم اَجمعین نے حضرتِ سیِّدُنا امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہ کےلئے "خَالُ الْمُؤْمِنِیْنَ" کالقب استعمال فرمایاہے،جس کا معنیٰ "مومنوں کا ماموں"ہے۔چنانچہ محقّقِ اہلسنت شیخ علی بن سُلطان المعروف مُلّا علی قاری علیہ رحمۃُاللہ الغنیمشکوۃ شریف کی شرح"مِرقاۃُالمفاتیح" میں حضرتِ امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہسے روایت کردَہ ایک حدیثِ پاک کی تشریح کرتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ کےلئے "خال المؤمنین" کےالفاظ تحریر فرمائے ہیں،عبارت ملاحظہ ہو: (وعن معاویۃ) اَیْ ابن اَبی سفیان، وَھُوَ خَالُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔(مرقاۃالمفاتیح،کتاب الرقاق،تحت الحدیث:5203،9/397)

ہیں ان کی خواہرِ عزیز جملہ مومنوں کی ماں

بڑی شَرف مآب ہے ،نجابتِ مُعاوِیہ

نسبتِ صحابیت :

کاتبِ وحی حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کی سب سے شاندار اورنمایاں فضیلت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہکوسیِّدُالعَالمین ﷺ کاصحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔جنابِ امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کی کوئی اور فضیلت یا خصوصیت بیان نہ بھی کی جائے تو آپ کاصرف صحابیِ رسول ہونا ہی ساری عظمتوں اور رِفعتوں کاجامع ہے ،ایسا کیوں نہ ہو کہ نبوت و رِسالت کے مرتبے کے بعد صحابیت کا درجہ ہی بڑا درجہ ہے ۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"تابعین سےلےکر تابقیامت اُمت کا کوئی ولی کیسے ہی پایہ عظیم کو پہنچے،صاحبِ سلسلہ ہو خواہ غیر ان کا ،ہر گز ہرگز(حضورﷺ کے صحابہ )میں سے اَدنیٰ سےاَدنیٰ کےرُتبہ کو نہیں پہنچتا،اور ان میں اَدنیٰ کوئی نہیں۔" (فتاویٰ رضویہ ،29/357)

حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا ثبوت سینکڑوں کُتب میں موجود ہے ۔چنانچہ قرآنِ مجید کےبعد مسلمانوں کی سب سے مُستند اور معتبر کتاب"صحیح بخاری " کی روایت ملاحظہ ہو کہ جس میں صحابی ابنِ صحابی ،رسولِ غنیﷺ اور حضرتِ علیرضی اللہ عنہ کے چچاجان کےشہزادےحضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے جنابِ امیر مُعاویہرضی اللہ عنہکےصحابیِ رسول ہونے کا بیان فرمایا،آپ رضی اللہ عنہ کے مبارَک کلمات یہ ہیں: فَاِنَّہُ قَدْ صَحِبَ رَسُوْلَ اللہِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ بیشک یہ(امیرِ مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ) رسول اللہ ﷺ کی صحبت پانےوالے(یعنی صحابی) ہیں۔ (صحیح بخاری،کتاب فضائل الصحابہ،الحدیث:3764)

گُلِ حیات ان کا ہےصحابیت سےعطربیز

اِسی لئے ہے نَوبہ نَو،نَضارتِ مُعاوِیہ


الحمد للہ دین اسلام وہ نفیس دین ہے جس کے دامن سے وابستہ ہونے والا شخص سعادتوں کی معراج کو پالیتا ہے، کیونکہ دین اسلام  اپنے ماننے والوں کی ہر ہر شعبے اور زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے ، اچھے اور برے کا فرق بتاتا ہے ، چھوٹے اور بڑے کے ساتھ سلوک کے آداب نیز ماں باپ استاد اور پیر و مرشد کے حقوق بھی بتاتا ہے، اسی طرح زندگی گزارنے کے تمام آداب بھی ہمیں سکھاتا ہے، بعض لوگوں میں کچھ نازیبا باتیں اور افعال دیکھنے میں آتے ہیں جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوتے جن سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے تاکہ دوسرے لوگ ان افعال کی وجہ سے متنفر اور بد ظن نہ ہوں اور نہ ہی انہیں تکلیف پہنچے۔ اگرچہ ان میں بعض وہ باتیں ہیں جو پہلے بھی کئی بار آپ پڑھ یا سن چکے ہوں گے لیکن اذا تکرر قرر کے تحت ان کا ذکر فائدے سے خالی نہیں، اگر ایک شخص بھی ان پر عمل کرکے فوائد حاصل کرلے تو امید ہے اللہ پاک کو یہی عمل پسند آجائے اور راقم کی بخشش کا سامان ہوجائے ، وہ افعال درج ذیل ہیں:

1۔ایک مسلمان کو چاہیے کہ اپنا لباس جسم اور بدن صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھے۔ تاکہ وہ خود بھی بیماروں سے محفوظ رہے اور دوسرے بھی اس سے مل کر خوش ہوں۔ مسلم شریف کی حدیث پاک میں ہے: صفائی نصف ایمان ہے۔

2۔دوران گفتگو بار بار ناک یا کان میں انگلی نہ ڈالے، بار بار نہ تھتکارے، ادھر ادھر نہ دیکھے جس سے سامنے والے کویہ لگے کہ یہ مجھے اہمیت نہیں دے رہا یوں وہ آپ سے دور ہوجائے گا اور نفرت بھی کرے گا۔

3۔بہت سے لوگوں کے نزدیک افراد سے زیادہ موبائل کی قدر ومنزلت ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ کوئی ان کے پاس دور سے سفر کرکے بھی آئے اور اس دوران کسی کا فون آجائے تو اس کو چھوڑ کر فون پر مصروف ہوجائیں گے اور یہ بے چارہ اس کا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔کاش ہم انسانوں کو موبائل سے زیادہ اہمیت دیں۔

4۔وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالتے رہیں نئی اسکلز جو آپ کے شعبے سے تعلق رکھتی ہوں ان کو ضرور سیکھ لیں اس سے آپ کو آگے چل کر پریشانی نہیں ہوگی۔ہوسکے تو عربی اور انگریزی میں بھی مہارت حاصل کریں اس سے آپ کی خود اعتمادی میں بہت اضافہ ہوگا نیز اس کے علاوہ بھی ان گنت فوائد آپ محسوس کریں گے۔

5۔کبھی بھی یہ نہ سمجھیں کہ میں نے بہت علم پڑھ لیا اب مجھے مزید پڑھنے کی حاجت نہیں اسی سوچ سے علمی ترقی رک جاتی ہے ، بڑے بڑے علما آخری وقت تک کتاب کے مطالعے میں مصروف رہے اور اپنے آپ کو طالب علم ہی سمجھا۔

6۔اپنے وقت کو فضول کاموں میں برباد کرنے سے گریز کریں سوشل میڈیا کا غیر ضروری اور بے دریغ استعمال نیز اپنے کاموں کو وقت پر ادا نہ کرنا ایسی عادت ہے جو بہت سی پریشانیوں ذہنی کوفت اور تکالیف کا باعث بنتی ہے۔اس کی جگہ روزانہ کی بنیاد پر تلاوت قرآن کریم درود پاک اور ضروری وظائف کا معمول بنائیں اس کی برکت سے ذہنی سکون ملنے کے ساتھ ساتھ روحانیت میں بھی اضافہ ہوگا۔

7۔آپ کے اخلاق جس قدر عمدہ ہوں گے اسی قدر لوگوں کی نظر میں آ پ کا وقار بلند ہوگا۔ بداخلاق شخص اکیلا رہ جاتا ہے اور اسے دنیا میں اس کا ایک نقصان یہ بھی پہنچتا ہے کہ اس سے اچھے لوگ دور ہوجاتے ہیں۔

8-بری سوچیں برے خیالات اور وسوسے روزانہ انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں ان سے گھبرانے کے بجائے ہر وقت مثبت سوچتے رہیں تو اسی طرح آپ کی زندگی پر اس کا اچھا اثر مرتب ہوگا اور اس عمل میں معاون چیزیں نیک اعمال درود و استغفار کی کثرت اور اور گناہوں سے بچنا ہے۔

9۔فضول خرچی اور قرض وہ موذی بیماریاں ہیں جو انسان کی خوشیوں اور سکون کو کھا جاتے ہیں۔ کوشش کریں جتنی آمدن ہے اسی کے مطابق اپنی ضروریات کو ترتیب دیں، افراط و تفریط ہر کام میں نقصان پہنچاتی ہے اس کے بر عکس میانہ روی کے ساتھ چلنے سے بہت سے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔نیز نفسانی خواہشات سے خود کو بچانے میں بھی کافی بچت کا سامان ہوجاتا ہے۔

10۔یقینا ً دنیا مکافات عمل ہے آپ لوگوں کے ساتھ جیسا کریں گے ویسا ہی آپ کے ساتھ ہوگا شریعت نے جس کے جو حقوق آپ کے ذمہ مقرر کئے ہیں ان پر ایمانداری سے عمل پیرا ہوجائیں کوئی آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔اِن شآءَ اللہ ۔


اللہ پاک نے انسان کی رہنمائی و ہدایت کے لیے قرآن پاک کو نازل فرمایا اور انسان کو اشرف المخلوقات کے اعلیٰ منصب پر فائز فرما کر انسانیت کو معراج بخشی اور مرد وعورت کو مختلف رشتوں کے ذریعے ایک دوسرے کا ہمدرد بنایا، مرد کو عورت پر قوت عطا فرمائی جیسا کہ اس کا فرمان ہے: ” اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ “ترجمۂ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر۔ (پارہ5، نساء، آیت34)

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی اس آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں: عورتوں کو شوہر کی اطاعت لازم ہے۔ مردوں کو حق ہے کہ وہ عورتوں پر رعایا کی طرح حکمرانی کریں اور ان کے مصالح اور تدابیر اور تادیب و حفاظت کی سر انجام دہی کریں۔(تفسیر خزائن العرفان، پارہ5، نساء، آیت34، ص164)

مرد کو باہر جاکر کھانے اور باہر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے جبکہ عورت کو گھر میں رہ کر اندرونی زندگی سنبھالنے کی ذمہ داری عنایت کی گئی ہے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ عورتوں کا گھروں میں قید رکھنا ان پر ظلم ہے جب مرد باہر کی ہوا کھاتے ہیں تو ان کو اس نعمت سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گھر عورت کیلئے قید خانہ نہیں بلکہ اس کا چمن ہے۔ گھر کے کام کاج اور اپنے بال بچوں کی دیکھ بھال کر کے وہ ایسی خوش رہتی ہے جیسے چمن میں بلبل۔ گھر میں رکھنا اس پر ظلم نہیں، بلکہ عزت و عصمت کی حفاظت ہے۔ جیسے بکری اسی لیے ہے کہ رات کو گھر رکھی جائے اور شیر، چیتا اور محافظ کتا اس لیے ہے کہ ان کو آزاد پھرایا جائے، اگر بکری کو آزاد کیا تو اس کی جان خطرے میں ہے اس کو شکاری جانور پھاڑ ڈالیں گے۔ (اسلامی زندگی، ص۱۰۴)

قرآن پاک میں اللہ پاک نے مختلف احکامات بیان فرمائے ہیں، انہی احکامات میں سے ایک حکم پردے کا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پردہ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے تاکہ معاشرے سے بدنگاہی، بدکاری ختم کی جاسکے اور انسان کو اس بات کا پابند بنایا جاسکے کہ اللہ پاک کی حرام کردہ اشیا کو دیکھنا ممنوع ہے۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ (پارہ18، سورۃ نور،آیت30)

اسی طرح عورتوں کو پردہ کا حکم ارشاد فرماتا ہے: اے نبی اپنی بیبیوں اور صاجزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہوتو ستائی جائیں۔ (پارہ 22، احزاب،آیت59)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: پہلے نظر بہکتی ہے، پھر دل بہکتا ہے، پھر ستر بہکتا ہے۔ (انوار رضا، ص۳۹۱)

کن اعضا کا پردہ ضروری ہے:

پردہ کا معنی: ڈھانپنا، چھپانا ہے۔ مرد کو ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنوں سمیت چھپانا لازمی ہے، جس میں ناف شامل نہیں، عورت کو دونوں ہتھیلیوں، دونوں پاؤں کے تلوؤں،پاؤں اور ہاتھوں کی پشت اور منہ کی ٹکلی کے علاوہ سارا جسم چھپانا ضروری ہے۔ (الدرالمختار، کتاب الصلوۃ، ج۱، ص۶۵)

حکم شرعی:

آج کل یہ بات سماعت کے دروازے پر بار بار دستک دیتی ہے کہ پردہ تو صرف دل کا ہوتا ہے، جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس جملے میں قرآن پاک کی اس واضح آیت کے انکار کا پہلو موجود ہے، جس میں ظاہری جسم کو چھپانے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے پارہ22، سورۃ احزاب، آیت33 میں ارشاد فرماتا ہے: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔

بے حیائی کے حیا سوز سمندر کی موجیں ٹھاٹیں مارتی ہوئی بے لگام ہو چکی ہیں اور لوگ اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو خوب سجا سنوار کر کار کی فرنٹ سیٹ پر اور بائیک پر پیچھے بٹھاکر سفر کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ارشاد فرما تے ہیں: تین شخص جنت میں نہ جائیں گے ماں باپ کا نافرمان ،دیوث اور مردانی وضع کی عورت۔(المستدرک للحاکم، ج۱، ص۷۲)

حضرت علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ در مختار میں دیوث کی تعریف یوں کرتے ہیں : دیُّوث وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی بیوی یا کسی محرم پر غیرت نہ کھائے۔ (رد المحتارعلی الدرالمختار،کتاب الحدود،ج۶،ص۱۱۳)

اگرشوہر واقعی دیکھتا اور اس پر راضی ہوتا ہے یا بقدرِ قدرت منع نہیں کرتا تو دیوث ہے اور دیوث پر جنت حرام ہے، نیز اقارب فریقین جو منع نہیں کرتے شریک گناہ و مستحق عذاب ہیں، جیسا کہ رب تعالی کا فرمان ہے: وہ ان بدکرداروں کو برائی سے منع نہ کرتے تھے البتہ جو وہ کرتے تھے بہت برا ہے۔(پارہ6، مائدہ، آیت79)۔ (فتاوٰی رضویہ)

دور حاضر میں بے پردگی کے اسباب:

دور حاضر میں بے پردگی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں فلمیں، ڈرامے بھی ہیں کیونکہ ان میں پردہ کا نام و نشان ہی نہیں ہوتا اور شرعی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو فلمیں ڈرامے دیکھنا حرام ہے۔ بنت حوا کے سر سے چادر اتروانے میں بہت بڑا کردار موبائل اور انٹرنیٹ کا بھی ہے۔ رہی سہی کسر کیبل اور سستے کال اور ایس ایم ایس پیکجز نے پوری کردی۔ سیر و تفریح کے نام پر پارکس اور مخلوط تعلیمی نظام نے بھی پردے کی پاکیزگی کو سراسر روند کر رکھ دیا ہے۔ پہلے بھی عشق و محبت کیا جاتا تھا لیکن چھپ کر مگر اب تو بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا ناپاک رشتہ قائم کرکے پارکس اور یونیورسٹی میں کھلم کھلا حیا کا جنازہ نکالا جاتا ہے اور یہ بے تکلف دوستی اس خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے کہ نہ ہونے کا ہو جاتا ہے۔ پھر والدین کو شادی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے، اگر والدین راضی نہ ہوں تو گھر سے بھاگ کر شادی کی جاتی ہے۔ ان تمام کاموں کو اگر ایک لفظ میں تحریر کیا جائے تو اسے بے پردگی کا نام دیا جائے گا۔

میرا جسم میری مرضی!

کچھ دنوں پہلے سوشل میڈیا پر یہ عنوان زیر بحث رہا مگر ایسا ہرگز نہیں ہمارا جسم ہماری مرضی نہیں کیونکہ ہمارا خالق و مالک اللہ پاک ہےاس نے ہمیں صرف اور صرف عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور ہمیں دین اسلام کی نعمتِ عظمیٰ سے سرفراز فرمایا، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس طرح ہر مذہب، ہر تنظیم اور ہر ادارے کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں، اسی طرح اسلام بھی اپنے ماننے والوں سے اللہ پاک اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل پیرا ہونے کا تقاضا کرتا ہے، اسلام نے عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کی اتنی ہی حفاظت کی جاتی ہے، ہمارا جسم، ہماری روح، ہمارے اعضا کا ایک ایک ذرہ اُسی کی تابع ہے، لہذا ہمیں اللہ پاک اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت کرتے ہوئے پردہ کو اپنانا چاہئے کیونکہ جو کار کپڑے سے ڈھکی ہوئی ہو، مٹی سے محفوظ رہتی ہے، اپنی آنکھوں کو جھکا کر رکھیں، اس طرح ہم بدنگاہی سے بچنے میں کسی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔
دنیا بہت آگے نکل چکی ہے!

بعض لوگوں کا کہنا ہے: دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، پردے کے معا ملے میں اتنی زیادہ سختی نہیں کرنی چاہئے تو ان کی خدمتوں میں عرض ہے کہ اللہ پاک اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں جو مسلمان پر اس کی طاقت سے زائد ہو۔ جیسا کہ پارہ3، سورۃ البقرہ، آیت286 میں ارشادِ خُداوَندی ہے: اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

موجودہ دور کی بے پردگی کو دیکھیں تو اکبر الہ آبادی کی روح تڑپ کر کہتی ہے:

”بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرت ِقومی سے گڑگیا

پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ! وہ کیا ہوا؟ کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا“

گھر کے سربراہ کو چاہئے کہ اپنے گھر کی خواتین کو پردہ کروائے اور اپنے گھر والوں کی کی اِصلاح کی ہر ممکن کوشش کرے۔ پارہ28، سورۃ التحریم کی چھٹی آیت کریمہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔

ایک حدیث مبارکہ میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں: تم سب اپنے متعلقین کے سردار و حاکم ہو اور ہر ایک سے اس کے ماتحت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (مجمع الزوائد، ص۳۷۴)

یاد رکھئے! شوہر اپنی بیوی کا، باپ اپنے بچوں کا اور ہر شخص اپنے ماتحتوں کا ایک طرح سے حاکم ہے اور ہر حاکم سے قیامت کے دن اُس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پردہ کرنے اور دیگر شرعی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مزید معلومات کے لئے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ’’پردے کے بارے میں سوال جواب‘‘ کا مطالعہ فرمایئے۔


موت العالِم موت العالَم

ایک عالِم دین کی موت پورے عالَم کی موت ہے۔ 10 جنوری 2022ء کو جماعت اہل سنت کے ایک نامور مفتی ، محقق ، فقیہ حضرت مولانا مفتی آل مصطفیٰ مصباحی رحمۃ اللّٰہ علیہ کم وبیش پچاس ( 50 ) سال کی عمر میں دار فانی سے دار البقاء کی جانب رخصت ہوگئے ”اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔“

یقیناً آپ کے رخصت ہو جانے سےاہل سنت میں ایک خلاء ہوگیا ہے جسے ہم مکمل نہیں کرسکتے۔ ہم اس مضمون میں آپ کی قدر و منزلت اور علمی وجاہت کوبیان کرنے کے لئے آپ کا تفصیلی تعارف پیش کررہے ہیں تاکہ قارئینِ کرام کو اندازہ ہوجائے کہ آپ عمل و فَنْ کے کتنے بڑے بادشاہ تھے۔

مفتی آلِ مصطفیٰ مصباحی رحمۃ اللہ علیہ کا تعارف

نام : آل ِمصطفیٰ

القاب : محقق ِمسائلِ عَصْر ، فقیہِ اہلِ سنت ۔

ولدیت و نسب :آپ کے والد”مولانا محمد شہاب الدین اشرفی لطیفی“ ہیں جو خلیفہ ٔ اعلی حضرت ملک العلماء حضرت مولانا ظفر الدین بہاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ آپ کاسلسلۂ نسب آل مصطفیٰ بن محمد شہاب الدین بن منشئ نجابت حسین صدیقی ہے۔

ولادت : آپ کی ولادت 27 اکتوبر 1971 ءکو آپ کے نانا کے گھر شہجنہ بار سوئی ضلع کٹیہار صوبہ بہار، ہند کے ایک معروف گاؤں میں ہوئی۔

تعلیم و تربیت :ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک مدرسےمیں حاصل کی، قاعدۂ بغدادی اور عم پارہ حضرت مولانا منشی محمد طاہر حسین صاحب کٹیہاری سے پڑھا ، عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم حورا سوناپور ، ضلع کٹیہار میں حاصل کی، درجہ ثانیہ مدرسہ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ ضلع مئو میں پڑھا پھر ثالثہ اور رابعہ الاداریۃ الاسلامیہ دارالعلوم حنفیہ کھگڑا ضلع بہار میں مکمل کیا۔ مزید تعلیم کے لیے اہل سنت کی عظیم درسگاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ کی جانب چل پڑے جہاں درجہ خامسہ تا ثامنہ ( دورۃ الحدیث شریف ) تک چار سال تعلیم حاصل کی اور 1990 ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ اس سال آپ کی دستار فضیلت ہوئی اور اسی دوران آپ نے افتاء کی مشق کا کورس مکمل کیا۔

اولاد : آپ کے تین صاحبزادے ہیں :1 )ریحان المصطفیٰ، 2) اتقان المصطفیٰ، 3) لمعان المصطفیٰ

اساتذہ ومشائخ :

یوں تو آپ کے اساتذہ کی فہرست طویل ہے چند مشہور و معروف کے نام درجِ ذیل ہیں :

والد محترم حضرت مولانا محمد شہاب الدین اشرفی صاحب

فقیہ ملت و شارحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللّٰہ علیہ

شہزادۂ صدر الشریعہ حضرت مولانا ضیاء المصطفیٰ اعظمی صاحب

حضرت مولانا محمد اعجاز احمد مصباحی صاحب

حضرت مولانا عبد الشکور صاحب

صدر العلماء حضرت مولانا محمد احمد مصباحی صاحب

سراج الفقہاء حضرت مولانا مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب

حضرت مولانا شمس الہدیٰ مصباحی صاحب

بیعت و ارادت :

آپ حضور سرکارکلاں سید شاہ مختار اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے دَست پر بیعت ہوئے اور شیخ الاسلام حضرت سید شاہ محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی دام ظلہ نے اجازت و خلافت سے نوازا ۔

درس وتدریس :

جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فراغت کے بعد 1990ء کو آپ کے استاد محترم شہزادہ صدر الشریعہ حضرت مولانا ضیاء المصطفیٰ اعظمی صاحب نے تدریس کا حکم ارشاد فرمایا آپ حکم کو بجالاتے ہوئے جامعہ امجدیہ گھوسی تشریف لے گئے جہاں درجات درس نظامی کے ساتھ ساتھ تخصص فی الفقہ کے طلباء پر بھی خوب توجہ دی اور افتاء کی مشقیں کراتے رہے۔ 1990ء سے لے تادمِ وصال مسلسل بائیس (22) سال یہیں تدریسی فریضے کو انتہائی ذمہ دارانہ طریقے سےانجام دیا۔

فتویٰ نویسی :

دیکھا جائے تو آپ علوم و فنون میں اپنی مثال آپ ہیں لیکن آپ کی خاص دلچسپی فقہ و افتاء تھی جس میں آپ نہایت ممتاز حیثیت سے نظر آئے، فتویٰ نویسی کی تربیت آپ نے شارح بخاری حضرت مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے حاصل کیں ،آپ نے ہزاروں فتوے دیئے، آپ کے علمی و تحقیقی فتاوے ایک زمانے تک” ماہنامہ جام نور “ میں ” شرعی عدالت “کے عنوان سے شائع ہوتے رہے۔

صفات و اخلاق :

اللہ پاک نے آپ کو گوناگوں اوصاف و کمالات سے نوازا تھا،آپ ایک بہترین عالم دین، بالغ نظرمفتی ہونے کے ساتھ ساتھ سادگی و عاجزی کے پیکر اور اخلاق و کردار کے دَھنی بھی تھے ،اَصاغر نواز اور غریب پرور تھے۔ جامعہ اشرفیہ گھوسی کے کتنے غریب طلبہ کا خرچہ آپ کی جیبِ خاص سے چلتا تھا ۔ اگرکبھی کسی طالب علم سے کوئی سودہ سلف منگواتے تو بقیہ رقم اسی کو دے دیتے ، وہ طالبِ علم بقیہ رقم واپس کرتا تو فرماتے ”بیٹا رکھ لو! جیب خرچی چلا لینا “۔

مختلف سیمیناروں میں شرکت :

آپ مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے سیمینار کے رکن بھی تھے، اس کے علاوہ آپ 20 سے زائد علمی و تحقیقی سیمیناروں میں شرکت فرما چکے ہیں، جہاں آپ کو بڑی اہمیت سے مدعو کیا جاتا رہا ہے۔

تصانیف و تالیفات :

تدریس و افتاء کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ آپ نے تصنیف و تالیف کو نہ چھوڑا بلکہ بڑھ چڑھ کراس میں اپنا حصہ ملایا، آپ کے قلم سے مختلف موضوعات و عنوانات پر کم وبیش دوسو ( 200 ) سے زائد مضامین و مقالات وجود میں آچکے ہیں،کئی علمی و تحقیقی کتب آپ کے قلم سے تحریر ہوئیں، علاوہ ازیں آپ نے کئی حواشی و تعلیقات، تقاریظ ، مقدمات اور تأثرات تحریر کئے جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

(1) اسباب ستہ اور عموم بلوی کی توضیح و تنقیح

(2) مختصر سوانح صدر الشریعہ علیہ الرحمہ

(3) بیمہ زندگی کی شرعی حیثیت

(4) کنزالایمان پر اعتراض کا تحقیقی جائزہ

(5) منصبِ رسالت کا ادب و احترام

(6) روداد مناظرہ بنگال

(7) خطبہ استقبالیہ صدر الشریعہ سیمینار مطبوعہ و مشمولہ صدر الشریعہ حیات و خدمات

(8) بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے اصول

(9) نقشہ دائمی اوقات صلاۃ برائے گھوسی

(10) مسئلہ کفاءت

(11) عقل و شرع کی روشنی میں

(12) فقہ شھنشاہ و ان القلوب بید المحبوب بعطاء الله المعروف بہ شہنشاہ کون ؟ ( امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ ) تقدیم و ترجمہ عربی عبارات

(13) مذاھب ارواح القدس لکشف حکم العرس ( خلیفہ اعلیٰ حضرت ملک العلماء حضرت مولانا مفتی ظفر الدین بہاری رحمۃ اللّٰہ علیہ ) ترجمہ و تقدیم

تعلقات و حواشی :

(14) منیر التوضیح ( یہ عربی حاشیہ ہے التوضیح فی حل غوامض التنقیح پر )

(15) تعلیق و حاشیہ فتاویٰ امجدیہ جلد سوم (3) و چہارم (4) ان دونوں پر آپ کی علمی و قیمتی مقدمات بھی ہیں

(16) حاشیہ شرح عقود رسم المفتی ( یہ زیر طبع ہے )

مقدمات :

درج ذیل کتب پر آپ نے علمی و قیمتی مقدمات تحریر فرمائے :

(17) نزول آیتِ فرقان دَر رَدِّ حرکت ِزمین و آسمان (امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ )

(18) بہارِ شریعت ( صدر الشریعہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ )

(19) جامع الرضوی المعروف بہ صحیح البہاری ( ملک العلماء حضرت مولانا مفتی ظفر الدین بہاری رحمۃ اللّٰہ علیہ ) تحقیق استاذ الحدیث فیضان مدینہ مفتی محمد حسان عطاری المدنی دام ظلہ

(20) تعلیقات الامام احمد رضا علی تقریب التہذیب للامام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس کتاب پر آپ نے تقریظ تحریر فرمائی جو طویل ہے اور مقدمے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ( تحقیق استاذ الحدیث فیضان مدینہ مفتی محمد حسان عطاری المدنی دام ظلہ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت )

(21) اجماع و قیاس کی شرعی حیثیت

(22) نور الہدیٰ فی ترجمۃ المجتبی ( حضرت عبدالرحمن سرکار محبی رحمۃ اللّٰہ علیہ )

(23) روداد مناظرہ ( یہ آپ نے بذات خود تحریر فرمایا ہے )

(24) رسالہ چاند کی رویت ( یہ اصول افتاء پر عربی رسالہ ہے )

مضامین و مقالات :

(25) فقہی عبارات پر امام احمد رضا کا کلام اور ان کی تحقیق و تنقیح

(26) رجال حدیث پر امام احمد رضا کی نظر

(27) امام احمد رضا کی شاعری میں ادب و احترام

(28) امام احمد رضا اور علم الکلام

(29) امام احمد رضا کی فقہی بصیرت پر ایک مختصر اور جامع تأثر

(30) امام احمد رضا کا جشن صد سالہ اور ہماری ذمہ داریاں

(31) حضور مفتی اعظم ہند کی فقہی بصیرت ( فتاوی مصطفویہ کے آئینے میں )

(32) حضور صدر الافاضل علامہ نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ ایک ہمہ گیر شخصیت

(33) تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خاں علیہ الرحمہ حیات و خدمات

(34) حضرت سید احمد اشرف کچھوچھہ علیہ الرحمہ حیات و خدمات

(35) محدث اعظم ہند کے علمی و فکری کارنامے

(36) حضور ملک العلماء اور علوم جدیدہ

(37) کشف الاستار سے متعلق ایک مختصر جامع تأثر ( کشف الاستار یہ شرح معانی الآثار پر صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کا لکھا ہوا حاشیہ ہے )

ان کے علاوہ بھی حضرت نے کئی قدر گراں تصانیف چھوڑی ہیں آپ کی کتب ہمیشہ آپ کی یاد دلاتی رہیں گی۔

امام اہلسنت سے محبت :

آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بڑے متأثر تھے امام اہل سنت کا تذکرہ ہمیشہ آپ کی زبان پر جاری رہتا تھا آپ نے امام اہل سنت کے چند رسائل پر بھی کام کیا جو مذکورہ بالا ہیں ۔

وعظ و خطابت :

جہاں آپ نے قلم کے ذریعے اہل سنت کا پرچار کیا وہیں لسانی طور پر وعظ و خطابت کے ذریعے بھی اہل سنت کا کام جاری رکھا۔

حضرت فقیہ اہلسنت مفتی آل مصطفیٰ مصباحی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور دعوت اسلامی :

آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ تبلیغِ اسلام کی عظیم تحریک دعوتِ اسلامی سے بڑی محبت فرماتے تھے، دعوتِ اسلامی کے کئی اجتماعات میں آپ نے بیانات فرمائے اور مدرسۃ المدینہ فیضانِ شارح بخاری کا افتتاح بھی آپ نے فرمایا۔

دعوت اسلامی کے متعلق تأثرات :

نَحْمَدُہُ وَ نُصَلِّیْ وَ نُسَلِّمُ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم :

دعوت ِ اسلامی اہل سنت و جماعت کی ایک عالمگیر اور دینی تحریک ہے جس کی خدمات کا دائرہ دینی، روحانی ، تاریخی، سماجی و معاشرتی ہر طرح کے شعبہ جات پر محیط ہے۔ اس کے قیام کو چالیس سال ہوچکے ہیں اور یہ روز بروز ترقی پر ہے۔ اس کے مختلف ادارے برصغیر پاک و ہند میں بخوبی اپنا کام سر انجام دے رہے ہیں ،اس میں مختلف علوم و فنون کی تدریس جاری و ساری ہے۔ اس کے اخر اجات الحمدللہ بڑھتے ہی جار ہے ہیں اور بڑھتے ہی جائینگے، کیونکہ دین کی دعوت کی بنیاد خلوص اور للہیت پر ہو تو اس دعوت کا فیضانِ کرم عام سے عام تر ہوگااور میں سمجھتا ہوں کہ جب تک یہ چاند، ستارے آسمانوں پر جھلملاتے رہیں گے دعوت اسلامی کا فیضان عام سے عام ہی ہوتا رہے گا۔

مختصر یہ کہ وہ ایک عظیم الشان گلدستہ ہے جس کے مختلف شعبہ جات ہیں، لوگوں کی اصلاح، لوگوں کی تعلیم اور لوگوں کی تربیت دینےکے لئے وقف ہے ۔ اللہ تعالیٰ امیرِ دعوت اسلامی مدظلہ العالی کی خدمات کو قبول فرمائے، اللہ تعالیٰ مزید توفیق عطا فرمائے اور مختلف شعبہ جات پر اپنا کام کرتے رہیں، دعا کا طالب ہوں طبیعت میری ناساز ہے، آپ تمام حضرات سے، تمام رفقا سے دعا کی درخواست ہے۔( یہ تأثرات حضرت نے علالت میں بذریعہ ویڈیو ریکارڈ کروائے تھے، جس کے چند روز بعد حضرت کا وصال ہوگیا تھا۔ )

وصال :

کئی روز بیمار رہنے کے بعد مؤرخہ 10 جنوری 2022 ءبمطابق 6 جمادی الثانی 1443ھ پیر رات 12 بجکر 30 منٹ پر آپ کا انتقال ہوا۔

جنازہ :

آپ کی نماز جنازہ 11 جنوری 2022ء کو آبائی گاؤں ، کشن گنج ، ضلع کٹیہار صوبہ بہار میں ادا کی گئی۔آپ کے انتقال کی خبر آگ کی طرح اہل علم کے درمیان پھیل گئی جس پر تعزیتوں کا سلسلہ جاری ہوگیا ۔

تعزیتی پیغامات :

امیر اہلسنت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کی جانب سے تعزیتی پیغام بذریعہ ویڈیو جاری کیا گیا پیغام کچھ یوں ہے :

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم

سگِ مدینہ محمد الیاس عطار قادری رضوی عفی عنہ کی جانب سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مجھے یہ افسوس ناک خبر ملی کہ ریحان مصطفی قادری ،اتقان مصطفی قادری اور لمعان مصطفی قادری کے ابو جان اور محمد حبیب الرحمن رضوی صاحب اور ریان مصطفی قادری صاحب کے بھائی جان ،استاذ جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی، حضرت مولانا مفتی آل مصطفی قادری مصباحی طویل علالت کے بعد 06 جمادی الاخری ۱۴۴۳ سنِ ہجری مطابق 10 جنوری 2022ءکو 51 سال کی عمر میں کرشن گنج بہار ہند میں انتقال فرما گئے۔ ”اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن

میں تمام سوگواروں سے تعزیت کرتا ہوں اور صبر و ہمت سے کام لینے کی تلقین کرتا ہوں۔

الحمدللہ رب العالمین والصلوة والسلام علیٰ خاتم النبیین

یا رب ِمصطفیٰ !جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ! حضرت مفتی آل مصطفی قادری مصباحی کو غریقِ رحمت فرما، اے اللہ پاک !انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ نصیب فرما، ربِ کریم! ان کی قبر جنت کا باغ بنے، رحمت کے پھولوں سے ڈھکے ، یا اللہ پاک !ان کی قبر کا اندھیرا دور ہوجائے ، قبر کی گھبراہٹ وحشت اور تنگی دور ہو، مولائے کریم !نورِ مصطفی کا صدقہ ان کی قبر تاحشر جگمگاتی رہے، اے اللہ پاک !مرحوم کو بے حساب بخش کر جنت الفردوس میں اپنے پیارے پیارے آخر ی نبی مکی مدنی محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا پڑوسی بنا، ربِ کریم !تمام سوگواروں کو صبر جمیل اور صبر جمیل پر اجر جزیل مرحمت فرما، ربِ کریم! میرے پاس جو کچھ ٹوٹے پھوٹے اعمال ہیں اپنے کرم کے شایانِ شان ان کا اجر عطا فرما،یا اللہ پاک !یہ سار ا ثواب جنابِ رسالت ماب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرما، ربِ کریم! پیارے پیارے آخری نبی مکی مدنی محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا صدقہ یہ سار ا ثواب مرحوم حضرت مفتی آل مصطفی قادری مصباحی سمیت ساری اُمت کو عنایت فرما۔

آمین بجاہ خاتم النبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

تمام سوگوار صبر و ہمت سے کام لیں، اللہ رب العزت کی رحمت سے مایوس نہ ہو ں، اللہ پاک کی رضا پر راضی رہیں، سبھی نے دنیا سے جانا ہے جی ہاں! اپنی بھی باری لگی ہوئی ہے، عنقریب موت آنی ہی آنی ہے، جان جانی ہی جانی ہے، کوئی بھی ہمیشہ یہاں رہنے کے لیے نہیں آیا۔ بےحساب مغفرت کی دعا کا ملتجی ہوں ۔(بارہ جمادی الاخری ۱۴۴۳ سنِ ہجری مطابق پندرہ جنوری ۲۰۲۲ کو یہ پیغام ریکارڈ کیا گیا)

٭ رکنِ شوریٰ حاجی ابوماجد مولانامحمد شاہد عطاری مدنی اور دعوتِ اسلامی کی آفیشل نیوز ویب سائٹ ”دعوتِ اسلامی کے شب وروز“ کی پوری ٹیم مفتی صاحب کے صاحبزادوں ریحانِ مصطفیٰ، اتقانِ مصطفیٰ، لمانِ مصطفیٰ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کے وصال سے جماعت اہل سنت میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اللہ رب العزت ان کے امثال زیادہ کرے۔ آمین۔ساتھ ہی دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت نبی کریم ﷺ کے صدقے میں ان کو جنت میں بلند درجات عطا فرمائے، ان کی دینی خدمات کو قبول فرماکر ان کے لئے ذریعہ نجات بنائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

٭ استاذ الحدیث فیضان مدینہ مفتی محمد حسان عطاری مدنی دام ظلہ کو جیسے ہی حضرت کی رحلت کی خبر ملی آپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے یوں تعزیتی پیغام دیا :” آج یہ دکھ بھری خبر پڑھنے کو ملی کہ اہل سنت کے مایہ ناز فقیہ، استاذ العلما ءحضرت علامہ مفتی آلِ مصطفی مصباحی صاحب انتقال فرماگئے۔ ( رحمہ اللہ تعالی رحمۃ واسعۃ ) رب العزت جل وعلا مفتی صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کی تمام خدمات دینیہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔ آمین۔

مفتی صاحب زبردست محقق ، بہترین مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی شفیق اور مہربان شخصیت کے مالک تھے، جہاں آپ نے کئی کتب تصنیف فرمائی ، مقالات تحریر فرمائے وہیں ہمیشہ طلبائے علم دین کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے رہے۔ اس حقیر پُر تقصیر پر بہت شفقت فرمایا کرتے تھے ۔ کئی بار سلام بھیجواتے تھے ، اپنی اجازات عامہ سے بھی بذریعہ فون نوازا تھا ۔

صحیح البہاری کی پہلی جلد پر تفصیل کے ساتھ ملک العلما رحمہ اللہ تعالی کے حالات تحریر فرمائے تھے ، پھر التعلیقات الرضویہ علی تقریب التہذیب پر بھی اپنی گراں قدر تقریظ عطا فرمائی ۔ صحیح البہاری کے کام کی تکمیل کے لیے ہمیشہ تاکید فرمایا کرتے تھے، ان بزرگوں کی دعا اور رہنمائی میں الحمد للہ صحیح البہاری کا کام مکمل ہوگیا ہے لیکن مفتی صاحب اب ہمارے درمیان تشریف فرما نہیں رہے۔

رب کریم حضرت کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں اپنے علمائے حقہ کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

محمد حسان عطاری

۶ جمادی الآخرۃ ۱۴۴۳ھ

10 جنوری 2022ء

ایصال ثواب :

مفتی صاحب کے لئے الحمدللہ جہاں اہل سنت کے کئی اداروں میں ایصال ثواب کا سلسلہ ہوا وہاں دعوتِ اسلامی کے جامعات المدینہ و مدارس المدینہ، ہند و نیپال میں بھی خوب ایصال ثواب کا سلسلہ ہوا۔

دعا ہے اللہ جل شانہ حضور فقیہ اہل سنت کی بے حساب مغفرت فرمائے اور آپ کی قبر کو بقعۂ نور بنائے ۔

حوالہ جات:

01۔التوضیح فی حل غوامض التنقیح حاشیہ منیر التوضیح

02۔ فروغ رضویات میں فرزندان اشرفیہ کی خدمات

03۔ چند ویب سائٹس سے استفادہ