رزق میں برکت اور بےبرکتی

Mon, 28 Feb , 2022
2 years ago

تنگ دستی اور رزق میں بےبرکتی ایک عالمگیر مسئلہ بن چکاہے۔ شاید ہی کوئی گھر اس سےمحفوظ ہو۔ ہم اپنے مسائل کے حل کے لئےمشکل ترین ذرائع استعمال کرنے کو تو تیار ہیں مگر اللہ پاک اور اس کے پیارے رسولصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےعطاکردہ روزی میں برکت کےآسان ذرائع کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔بےروزگاری اور تنگ دستی کے گھمبیر مسائل نےلوگوں کوبےحال کر دیاہے۔ شاید ہی کوئی گھر اورفرد ایساہو جو تنگ دستی کا رونا نہ روتاہو۔ہرشخص پریشان ہے اور چاہتا ہےکہ کسی طرح تنگ دستی سےچھٹکارا مل جائے اور روزی میں برکت ہوجائے۔سچ تو یہ ہے کہ تنگ دستی اور رزق میں بےبرکتی کا سب سے بڑا سبب ہماری بےعملی ہے جسے قرآنِ مجید میں رازق اور خالق و مالک اللہ پاک نے یوں بیان فرمایا ہے:

وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)

ترجمۂ کنزالایمان:اورتمہیں جومصیبت پہنچی وہ اس کےسبب سے ہے جوتمہارے ہاتھوں نے کمایااوربہت کچھ تومعاف کردیتا ہے۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی بدعملی وگناہ کوتنگ دستی و بےبرکتی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ

گناہ کی نحوست:

حضرت سیِّدُنا ثوبان رَضِیَ اللہُ عَنْہسے مروی ایک روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’اِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِخَطِيْئَةٍ يَّعْمَلُهَا یعنی بےشک بندے سے جو خطا سرزد ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہ رزق سےمحروم ہوجاتاہے۔‘‘ (ابن ماجۃ،المقدمہ ،باب فی القدر،۱/ ۶۹،حدیث:۹۰)

حضرت سیِّدُنا ثوبان رَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان کرتےہیں کہ حضورنبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:’’اِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيْبُهٗ یعنی بےشک بندے سے جو گناہ سرزد ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ رزق سےمحروم ہوجاتاہے۔‘‘ (ابن ماجۃ،کتاب الفتن،باب العقوبات،۴/ ۳۶۹،حدیث:۴۰۲۲)

شرح حدیث:

مشہور شارحِ حدیث، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے چند معنیٰ ہیں:ایک یہ کہ گناہوں سے رزقِ آخرت یعنی ثوابِ اعمال گھٹ جاتا ہے۔دوسرے یہ کہ مؤمن کا گناہوں کی وجہ سے رزقِ روحانی یعنی اخلاص،اطمینانِ قلب، دل کا چین و سکون، رغبت الی اللہ گھٹ جاتی ہے۔تیسرے یہ کہ مؤمن اپنے گناہوں کی وجہ سے تنگی رزق،یا بلاؤں میں گرفتار ہوجاتا ہے تاکہ ان کی وجہ سے گناہوں سے توبہ کرکے پاک و صاف ہوکر دنیا سے جائے لہٰذا اس فرمان پر یہ اعتراض نہیں کہ اکثر متقی پرہیزگار لوگ مفلوک الحال ہوتے ہیں اور فاسق و بدکار بڑے مالدار۔ ( مراٰۃ المناجیح،۶/ ۵۲۵)

برکت اور بےبرکتی کیا ہے؟

’’خیال رہےکہ مال کی زیادتی اورہے،برکت کچھ اور،زیادتِیٔ مال کبھی ہلاک کردیتی ہےمگربرکَتِ مال دین و دنیامیں ربّ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔‘‘( مراٰۃ المناجیح،۳/ ۵۷)نیز’’مال میں برکت اللہ کی رحمت ہےاورمال کی کثرت کبھی عذاب ہوجاتی ہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح،۷/ ۲۲۵)

کیونکہ مال ودولت کی زیادتی بسااوقات کئی طرح کی آزمائشوں میں مبتلاکردیتی ہے بالخصوص گناہوں کے مرض میں کہ جب کسی شخص کےپاس مال ودولت کی فراوانی ہوتی ہےتوشیطان مردوداسےطرح طرح کےظاہری وباطنی گناہوں میں ملوث کرنےکی کوشش کرتا ہے، لہٰذاعافیت اسی میں ہےکہ اسی قدرمال پراکتفا کیا جائے جو ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہو۔نیزمال کی زیادتی نہیں بلکہ مال میں برکت کی دعامانگنی چاہئےاوران اسباب پربھی نظررکھنی چاہئےجو تنگ دستی کا باعث بنتےہیں تاکہ ان سےبچاجائے۔

الغرض:نافرمانی وگناہ سےبرکت اڑجاتی جبکہ اطاعت وفرمانبرداری باعِثِ برکت ہے۔ ہمارے معاشرے میں تنگ دستی، فقر و فاقہ کشی ،بے روزگاری اور رِزْق میں بے برکتی کا رونا رونے والے بہت ہیں، ایسے میں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم گناہ کرتے نہیں ڈرتے؟ مصیبتوں اور رِزْق میں بےبرکتیوں کا سبب کہیں ہماری اپنی ہی بداعمالیاں تو نہیں ہیں؟کیونکہ آج کل ہمارے معاشرے میں گُناہوں کا بازاراس قدر گرم ہے کہ اَلْاَمَانُ وَالْحَفِیْظ۔ بدقسمتی سے ہماری بھاری اکثریَّت بے عملی کا شکار ہے، نہ توبندوں کے حقوق کی ادائیگی کا پاس ہے اور نہ ہی حقوقُ اللہ کی پامالی کا کوئی احساس،نیکیاں کرنا نفس کے لئے بے حد دُشوار اور گناہ کرنا بَہُت آسان ہوچکا ہے۔

’’جیسےگناہ کا عذاب دنیا و آخرت میں (بھگتنا) پڑتا ہے یونہی نیکی کا فائدہ دونوں جہان میں ملتا ہے۔ جو مسلمان پانچوں نمازیں پابندی سے جماعت کے ساتھ ادا کرے اسے رزق میں برکت، قبر میں فراخی نصیب ہوگی اور پل صراط پر آسانی سے گزرے گا اور جو جماعت کا تارک ہوگا اس کی کمائی میں برکت نہ ہوگی، چہرے پر صالحین کے آثار نہ ہوں گے، لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت ہوگی، پیاس و بھوک میں جان کنی اور قبر کی تنگی میں مبتلا ہوگا اور ا س کا حساب بھی سخت ہوگا۔‘‘([1])

افسوس!مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد فرائض سے ہی غافل ہو چکی ہے، نما ز جوکہ فرض اعظم ہے اس کی ادئیگی میں سستی کا کیا حال ہے اس کا اندازہ مسجدوں کی ویرانی سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ اگر واقعی ہم امن وسکون اور رزق میں برکت کے طالب ہیں تو ہمیں گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے احکام خداوندی کی پابندی اور سنّتوں پرعمل کرناہوگا۔

بلاشبہ خوفِ خدا کی وجہ سے گناہوں کو چھوڑ دینا رزق میں برکت کا سبب بنتا ہے، جو بھی خوفِ خدا کی وجہ سے کسی گناہ سے رکتا ہے تو اللہ پاک اُسے ایسے اسباب سے رِزق عطا فرما دیتا ہے کہ جن کی طرف اس کا خیال بھی نہیں جاتا۔

یادرکھئے!دنیاوآخرت کےتمام مسائل وپریشانیوں کاواحدحل اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوئے قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔

روزی میں برکت کے چند نسخے:

(1)……حضرت سیِّدُنا سَہَلْ بن سَعَد ساعِدی رَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر اپنی غربت اور تنگ دستی کی شکایت کی تو رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلہٖ وَ سَلَّم نےارشاد فرمایا: ’’جب تم اپنے گھر میں داخل ہوتو سلام کرو اگرچہ کوئی بھی نہ ہو،پھر مجھ پر سلام بھیجو اور ایک بار قُلْ ھُوَاﷲ شریف(پوری سورۂ اخلاص) پڑھو۔‘‘ اس شخص نے ایسا ہی کیا تواللہ پاک نے اسے اتنا مال دار کر دیا کہ اس نے اپنے ہمسایوں اور رشتے داروں میں بھی تقسیم کرنا شروع کر دیا۔([2])

(2)…… مشہور شارحِ حدیث، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مراٰۃ المناجیح میں تحریر فرماتے ہے:’’بعض بزرگوں کو دیکھا گیا ہے کہ اول دن میں جب پہلی بار گھر میں ہوتے تو بِسْمِ اللہ (شریف)اورقل ہو اللہ (پوری سورۂ اخلاص)پڑھ لیتے،کہ اس سے گھر میں اتفاق بھی رہتا ہے اور رزق میں برکت بھی۔‘‘([3])

(3)……’’یَا مَلِکُ‘’90 بار جو غریب ونادار روزانہ پڑھا کرے اِنْ شَآءَ اللہ غربت سے نجات پائے گا۔([4])

(4)……”ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘کے صفحہ 128پر ہے:ایک صحابی (رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) خدمَت ِاقدس (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) میں حاضر ہوئے اور عرض کی: دنیا نے مجھ سے پیٹھ پھیر لی۔ فرمایا: کیا وہ تسبیح تمہیں یاد نہیں جو تسبیح ہے ملائکہ کی اور جس کی برکت سے روزی دی جاتی ہے۔ خَلْقِ دنیا آئے گی تیرے پاس ذلیل و خوار ہوکر، طلوعِ فجر کے ساتھ سوبار کہا کر ’’سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحٰنَ اللہِ الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللہ‘‘اُن صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو سات دن گزرے تھے کہ خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی: ’’حضور! دنیا میرے پاس اس کثرت سے آئی، میں حیران ہوں کہاں اٹھاؤں کہاں رکھوں!‘‘۔([5])

(5)……حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: جس نے استغفارکو اپنے اوپر لازم کرلیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے راحت عطافرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطافرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔([6])

(6)……حضرتِ سیِّدُنا یزید بن عبداللّٰہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَـیْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللّٰہ پاک بندے کو رزق کے معاملے میں آزماتا ہے تاکہ دیکھے کہ وہ کیا عمل کرتا ہے اگر تقسیم الٰہی پر راضی رہے تو اس کے رزق میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر راضی نہ ہو تو برکت سے محروم رہتا ہے۔‘‘([7])

(7)……رزق میں برکت کا ایک سبب رشتہ داروں سے حُسنِ سُلوک کرنا بھی ہے۔ چنانچہ حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے عُمر میں اضافہ اور رِزْق میں زیادتی ہونا پسند ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ پاک سے ڈرے اور صِلۂ رِحمی (رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک )کرے۔([8])

(8)……آیَۃُ الْکُرسی کسی چیز پر لکھ کر اس کا کَتَبَہ مکان میں کسی اونچی جگہ پر آویزاں کردیا جائے تو اِنْ شَآءَ اللہ اس گھر میں کبھی فاقہ نہ ہوگا۔ بلکہ روزی میں بَرَکت اور اضافہ ہوگا اور اس مکان میں کبھی چور نہ آسکے گا۔([9])

(9)……معاشی ترقی اور رزق میں برکت کا ایک بہترین طریقہ زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ہے۔

خیال رہے! اَورَادووظائف بھی اسی صورت میں فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں جب فرائض وواجبات پرحتَّی المقدورعمل ہو۔ جس طرح مریض کے لئے دوا کے ساتھ پرہیزضروری ہے اسی طرح اوراد ووظائف کرنے والے کے لئےفرائض وواجبات بالخصوص باجماعت نماز کی پابندی ضروری ہےورنہ کوئی بھی وِردکماحقہ فائدنہیں پہنچائےگا۔

رزق میں خیر و برکت کےحُصول کی مزید معلومات اور تنگ دستی کی وُجوہات جاننے کے لئےشَیخِ طریقت امِیرِ اہْلِ سنّت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’چڑیا اور اندھا سانپ‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) اور المدینۃ العلمیہ کا رِسالہتنگ دستی کے اَسباب اور ان کا حل‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) پڑھئے ۔



[1]صراط الجنان،۶/ ۲۶۳

[2]القول البدیع، الباب الثانی فی ثواب الصلاة علی رسول اللہالخ، ص۲۷۳

[3]مراٰۃ المناجیح،۶/ ۹

[4]مدنی پنج سورہ، ص۲۴۶

[5]لسان المیزان، حرف العین، ۴/ ۳۰۴، حدیث:۵۱۰۰۔ زرقانی علی المواھب، ذکر طبہ من داء الفقر، ۹/ ۴۲۸ واللفظ لہ

[6]ابن ماجة،کتاب الادب،باب الاستغفار،۴/ ۲۵۷،حدیث:۳۸۱۹

[7]المعجم الاوسط، ۶/ ۱۶۱، حدیث:۸۳۶۲، دون قولہ الرزق

[8]شعب الایمان، ۶/ ۲۱۹، حدیث:۷۹۴۷

[9]جنتی زیور، ص۵۸۹ ملخصاً