یہ دنیا انسانوں کی بستی ہےجہاں روزا نہ ہزاروں ، لاکھوں لوگ آتے ہیں اور رب کریم کی طرف سے عطا کردہ زندگی گزار کر اپنےاَبدی ٹھکانے کی طرف چل پڑتے ہیں، لیکن بعض لوگ اپنی زندگی میں ایسے زبردست کارنامےسرانجام دیتے ہیں کہ انہیں اس دنیا سے جانے کے بعدبھی یاد رکھاجاتاہے،لوگ ان کے ناموں کاادب و احترام کرتے ہیں ا ن کےعرس کے موقع پر ان کےاصاف حمیدہ اور کارناموں کاذکر کرکےخرا ج تحسین پیش کرتے ہیں،ان کی بارگاہ میں ایصالِ ثواب کی صورت میں تحائف پیش کرتے ہیں۔ رب کریم کے انہی محبوب بندوں میں ایک ہستی جنہیں حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب تم دیکھو کہ کوئی شخص حضرتِ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سےمحبت رکھتا ہےا ور ا ن کی خوبیوں کو بیان کرنے ا ور ا نہیں عام کرنے کا اِہتِمام کرتا ہے تو اِس کانتیجہ خیر ہی خیر ہے ۔([1])

مختصرتعارف

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ 61ھ یا 63ھ میں خاندانِ بنوامّیہ میں مدینۂ منوَّرہ میں پیدا ہوئے،آپرحمۃ اللہ علیہ کےوالدِ ماجِد کا نام عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ تھا جو سرزمینِ عَرَب کےمعزز ترین خاندان ’’قُرَیش ‘‘ کی شاخ ’’بنوا میّہ‘‘کی ممتازشخصیت تھے، 20سال سے زائدعرصہ مِصر کے گورنر رہے۔آپ کی والدہ اُ مِّ عاصم رحمۃ اللہ علیہا حضرت سیِّدُنا عاصم بن عمر رضی اللہُ عنہ کی صاحبزادی اور حضرتِ عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہا کی پوتی تھیں،اس لحاظ سےحضرت عمر بن عبدالعزیز کی رَگوں میں فاروقی خون تھا،اِسی وجہ سے آپ کے کردار واَطوار پرحضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کا گہرا اَثر دکھائی دیتا تھا ۔

علمی مقام و مرتبہ

حضرت سیِّدنا عمر بن عبدالعزیز بچپن سےہی نیک وپرہیزگار اور علم دین کا ذوق و شوق رکھنے والے تھے ،کم عمری میں ہی قرآن کریم حفظ کر لیا تھا اور اس کے بعدمزید علمی پیاس بجھانے کے لئےحضرتِ سیِّدنا اَنَس بن مالک،سائب بن یزید اور یوسف بن عبداللہجیسےجلیل القدرصحابہ اور تابعین کے حلقۂ دَرس میں بھی شریک ہوئے۔یوں ا ن بزرگانِ دین کی صحبتِ بابرکت میں قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل کرکے وہ مقام حاصل کیا کہ آپ کے ہم عصربڑے بڑے محدثین کو بھی آپ کےفضل وکمال پر رشک آتا تھا۔امام ذَہَبی رحمۃ اللہ علیہنے آپ کے بارے میں لکھا کہ آپ بہت بڑے اِمام، فقیہ، مجتہد، حدیث کےماہراورباکمال حافظ تھے ۔([2]) حضرت سیِّدُنا میمون بن مِہران رحمۃ اللہ علیہنےآپ کو مُعَلِّمُ الْعُلَمَاء(یعنی علماء کا استاد ) قرار دیا۔([3])

جوانی میں خلیفہ بن گئے

حضرت عمر بن عبدا لعزیز رحمۃ اللہ علیہ مدینے شریف میں ہی عِلم وعمل کی منزلیں طے کرنے کے بعد صِرف 25 سال کی عمر میں مکۃ المکرمہ،مدینۃ المنورہ اور طائف کےگورنر بنے ا ور 6سال یہ خدمت شاندارطریقے سے اَنجام دینے کے بعد استعفی دےکرخلیفہ کےمشیر خاص بن گئے اور سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد 10 صفر المظفر 99ھ کو تقریباً36 سال کی عمر میں جمعۃُ المُبارک کےدن خلیفہ بنےاور اِس شان سےخِلافت کی ذمّہ داریوں کو نِبھایا کہ تاریخ میں اُن کا نام سنہرےحُروف سےلکھا گیا،کم وبیش اڑھائی سال خلیفہ رہنے کے بعدحضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے25 رجب 101ہجری بدھ کے دن تقریباً39سال کی عمر میں اپنا سفرِ حیات مکمل کرلیا اور اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔

اوصاف وکمالات

آپ رحمۃ اللہ علیہ بےشمار اوصاف وکمالات کےحامل اور ہروصف میں اپنی مثال آپ تھے، اگرآپ کی عِبادت گزاری پرنظر دوڑائیں تو عابِدوں کےسردار، زُہد وتقویٰ کو دیکھیں تو متقین کے رہنما،ذوقِ تِلاوت کے بارےمیں پڑھیں تو بہترین قاریٔ قرآن، علمی وسعتوں کو دیکھیں تو لاجواب عالمِ دین،تجدید ی کارناموں کاجائزہ لیں تو اسلام کے پہلے مُجَدِّد ، طَرزِ حکومت کا مشاہدہ کریں تو کامیاب ترین حکمرا نوں میں اُن کاشمار ہوتا ہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کےعلم وعمل،لاجواب انقلابی کارناموں ا ور امّتِ مسلمہ کی ا صلاح کے لئے کئے جانے والےاقدامات کو دیکھ کرعلماو مورخین نے ثانیٔ عمر کا لقب دیا ۔

شوق تلاوت کے واقعات

کثیرمصروفىات کےباوجود آپ کى عبادت کا ذوق و شوق قابلِ تقلىد تھا،بالخصوص آپ کو تلاوتِ قرآن کے ساتھ عشق کى حد تک لگاؤ تھا،آپ رحمۃ اللہ علیہ روزا نہ صبح سویرےقرآن مجید کی تھوڑی دیرتلاوت کرتےاور رات کےوقت جب سونے کا ٹائم ہوتاتو نہایت پُر سوز لہجہ میں سورۂ اعراف کی یہ آیتیں پڑھتے :

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے۔ ۸، اعراف:۵۴)

اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمْ نَآئِمُوْنَؕ ترجَمۂ کنزالایمان:کیا بستیوں والے نہیں ڈرتے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سوتے ہوں ۔ (پ۹، الاعراف :۹۷)

بعض اوقات ایک ہی سورۂ مبارکہ کو بار با ر رات بھر پڑھا کرتے تھے۔ایک رات سورۂ انفال شروع کی توصبح تک پڑھتے رہے۔([4])

ابوعمرکابیان ہےکہ جب حضرتِ سیِّدنا عمر بن عبدالعزیزگورنرتھےمیں جدّہ سےان کےلئے تحائف لےکرمدینَۂ منوَّرہ پہنچا تو وہ فجرکی نَماز اداکرنےکےبعدمسجدہی میں موجودتھے ا ورگودمیں قراٰن پاک لئےتلاوت کر رہے تھےا ور ان کی آنکھوں سےآنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔([5])

دھاڑیں مار مار کر رونے لگے

ایک شخص نےحضرتِ سیِّدُناعمر بن عبد العزیزکےپاس پارہ 18سورۂ فُرقان کی آیت 13 پڑھی:

وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًاؕ         ترجَمۂ کنزالایمان:اورجب اس کی کسی تنگ جگہ میں ڈالے جائیں گے زنجیروں میں جکڑے ہوئے تو وہاں موت مانگیں گے ۔

توآپ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے،آخرِ کار وہاں سےاٹھےاور گھر میں داخِل ہوگئے ۔ ([6])

تلاوت قرآن کی عادت بنائیے

اےعاشقان اولیا!معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے نیک بندےکس قدرشوق و محبت سے تلاوت فرمایا کرتے تھے،دن رات ربِّ کریم کا کلام پڑھتے رہتے تھے۔ مگر افسوس!آج مسلمانوں کی اکثریت قرآنِ پاک کی تعلیم سے نا آشنا ہے،بعض نادانوں کو قرآنِ پاک دیکھ کر پڑھنابھی نہیں آتا، اور جن کو پڑھنا آتا ہے وہ بھی سالوں سال تک قرآنِ پاک کھول کر نہیں دیکھتے،کئی کئی مہینے(Months) گزر جاتے ہیں مگرمسلمانوں کے گھرتلاوت کی برکت سےمحروم رہتے ہیں۔ آئیے!آج حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کےعرس کے موقع پر ہم بھی نیت کرتے ہیں کہ آج سےا ن کی سیرت کی اداؤں کو ا پناتے ہوئے ہم خودبھی قرآنِ پاک پڑھیں گے ا ور دوسرے لوگوں کو بھی قرآن ِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائیں گے۔ان شاء اللہ !

25 رجب المرجب کو اپنےاپنے گھروں میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی نیاز کریں اور اپنے بچوں کو ا ن کی سیرت کے بارےمیں بتائیں ،اس کے لئے دعوت اسلامی کے مکتبۃ المدینہ کی کتاب حضرتِ سیِّدنا عمربن عبدالعزیز کی 425 حکایات“ کو خود بھی پڑھئے اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیے۔اللہ کریم ہمیں اپنے نیک بندوں کےنقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

از: مولانا عبدالجبار عطاری مدنی

اسکالر:المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر،دعوتِ اسلامی)



[1] سیرت ابن جوزی ،ص74

[2] تذکرۃ الحفاظ، 1/90

[3] سیرت ابن جوزی، ص35

[4] حلیۃ الاولیاء ، 5/385 ملخصا وسیرت ابن جوزی،ص211

[5] سیرت ابن جوزی،ص42

[6] سیرت ابن جوزی، ص217