اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےاپنےمحبوبِ ذیشانصلی اللہ علیہ و الہ وسلم کونوری بشربنایاہے،حقیقتِ محمدی نورہے اور بشریت (یعنی بشروانسان ہونا) گویاکہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کاایک لباس اوروصف ہےاوریہ بات بھی بدیہی وواضح ہے کہ نورانیت وبشریت میں کوئی منافات وتضاد نہیں ہےلہذا ان دونوں کاایک ذات میں اِجتماع ممکن،بلکہ واقع اور قرآنِ مجید کی نصِ جلیل اورحدیثِ جبریل سےثابت ہے۔چنانچہ سورۂ مریم کی آیت نمبر17میں اللہ تعالیٰ نے نوری مخلوق کےسردارجبرائیل علیہ السلام کاحضرتِ سیدتنامریم رضی اللہ تعالیٰ عنھاکےپاس آنےکابیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

"فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا 17؀"([1])

ترجمۂ کنزالایمان: تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔

ثابت ہوا کہ جب جبریلِ امین علیہ السلام نور،بلکہ نورانی مخلوق کےسیدوسردارہونے کےباوجودبشری صورت میں آسکتے ہیں توآقائے جبریل ،رسولِ جمیل،نبیِ جلیل صلی اللہ علیہ و الہ وسلمبھی نورہوتے ہوئےبشربن کردنیامیں جلوہ فرما ہوسکتے ہیں۔

اسی طرحصحیح مسلماوردیگرمعتبرومعتمدکُتبِ اَحادیث میں"حدیثِ جبریل" مذکورومسطور ہے، جس میں اس بات کابیان موجودہے کہ حضرتِ سیدناجبریلعلیہ الصلوۃوالتسلیمنےبارگاہِ رسالت میں بشری صورت میں آکر ایمان، اسلام، اِحسان اورقیامت کی نشانیوں کےبارےمیں سوالات کئے۔چنانچہ حدیثِ جبریل کی ابتداءہی میں راویِ حدیث حضرتِ سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جبریلِ امین علیہ السلام کاحاضرِ بارگاہِ رسالت ہونااِن الفاظ سے بیان فرماتے ہیں: "بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ۔۔۔الخ" ([2])

یعنی،ایک دن ہم نبیِ کریمصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی خدمتِ اَقدس میں حاضرتھےکہ ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوئے جن کےکپڑےبہت سفیداوربال خوب کالےتھے۔۔۔الخ

پیغامِ حق وہدایت:وہ بدنصیب لوگ جونبی الاَنبیاء،رسولُ المرسلینصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکومعاذاللہ اپنے جیسابشرثابت کرنے کیلئےآپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کےکھانےپینے،چلنےوغیرہ اَفعالِ بشریہ کودلیل بناتے ہیں اُنہیں ذرامعراج کےمعجزےاوراس میں رُونماہونے والے معاملات مثلاً شقِ صد،آن کی آن میں صدیوں کا سفرطےکرنے،آسمانوں اورجنت و دوزخ کی سیرفرمانے،کُرۂ نارسےسلامتی کےساتھ گزرجانے،بغیرہوا کے زندہ رہنےاورسدرۃُالمنتہیٰ سےآگےعالَمِ اَنوارولامکاں تک پہنچنے کےمعاملےکی طرف بھی نظرکرنی چاہئے، تاکہ نورانیتِ محمدی کی حقیقت اُن کےسامنےواضح ولائح ہوسکے۔ایسےہی لوگوں کودعوتِ حق اورپیغامِ ہدایت دیتے ہوئےغزالئ زماں،رازئ دوراں حضرت علامہ سیِّداَحمدسعیدکاظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:

"جولوگ حضورصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکےکھانےپینے،چلنےپھرنےودیگراَوصافِ بشریہ کوحضورعلیہ الصلوۃوالسلام کے نور ہونے کی نفی میں بطورِ دلیل پیش کرتےہیں انہیں غورکرناچاہئےکہ جس طرح کھاناپیناوغیرہ ان کےنزدیک حضور علیہ الصلوۃوالسلامکےنورنہ ہونےکی دلیل ہےاسی طرح تمام عالَمِ عناصرسےاُوپرجانا زمین کے بغیرٹھہرا رہنا، ہوا اور سانس کامحتاج نہ ہونا،کُرۂ نارسےصحیح سالِم گزرجانااورآن کی آن میں مسجدِ حرام سےمسجدِ اقصیٰ اورآسمانوں پر جاکر واپس آجاناان ہی کےاُصول پربشرنہ ہونےکی دلیل ہوسکتاہےکیونکہ جس طرح نورکاکھاناپینا ناممکن ہےاسی طرح بشر کاآسمانوں پرجانا ہواکے بغیرزندہ رہنا،آگ سےصحیح سالِم گزرجانا،ایک آن میں آسمانوں پرجاکرواپس آجانابھی ناممکن ہے۔معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نےاپنےحبیب صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کوبشریت بھی عطافرمائی ہےاورنورانیت بھی۔ عالَمِ بشریت میں ظہورِ بشریت کاغلبہ ہےاورعالَمِ اَنوارمیں ظہور نورانیت کا۔" ([3])

نوانیتِ مصطفیﷺ اور کلام اعلی حضرت :

اعلیٰ حضرت امامِ عشق و محبت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن اپنے قصیدۂ معراجیہ میں گویا کہ اسی حقیقت کو سمجھاتے ہوئے یوں فرماتے ہیں کہ:

خَبَریہ تَحوِیلِ مہر کی تھی کہ رُت سُہانی گَھڑی پِھرے گی

وہاں کی پوشاک زیبِ تَن کی یہاں کاجوڑابَڑھاچکے تھے

شرح کلامِ رضا:

معراج کی رات(تحویلِ مہریعنی) آفتابِ نبوت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کےایک بُرج سے دوسرے بُرج(یعنی مکاں سے لامکاں) کی طرف پھرنے کی خبر گویا اِس بات کی طرف اشارہ تھی کہ اب(اُمتیوں کی خوش بختیوں کی رُت)موسم اورزمانہ بدلے گاہےاوراچھی اور سُہانی گھڑی آنے والی ہے۔

سرکارِ والاتبار صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نےوہاں(یعنی عالمِ نور اور لامکاں)کالباس پہنااور یہاں(عالمِ ظاہر ودنیا)کاپہناہوا اور مبارَک جوڑا(بڑھا چکے) صدقہ فرماچکے تھے۔

تحویلِ مہر:علمِ صَرَف کی رُو سے" تحویل"بابِ تَفْعِیْل کامَصدرہےجس کےمعنیٰ ہیں"ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا"۔قبلہ کی تبدیلی کےبیان میں بھی "تحویلِ قبلہ"کالفظ بولاجاتاہے۔اس لفظ کااستعمال "سورج چاندیاکسی ستارے کاایک بُرج سے دوسرے بُرج میں آنا"کے معنی میں بھی ہوتاہے۔چنانچہ مہرِ رسالت،ماہِ نبوت، عرب کےچاند،عجم کےسُورج صلی اللہ علیہ و الہ وسلمنےمعراج کی رات گویا ایک بُرج سےدوسرےبُرج کی طرف کاسفراختیارفرمایا۔ زمین سےآسمان کی طرف،مکاں سےلامکاں کی جانب،کعبہ وقبلہ(یعنی مسجدحرام)سے قَابَ قَوسَین تک،عالمِ بشریت سےعالمِ اَنوارکی طرف منتقل ہونےکاارادہ فرمایا تویہ تحویلِ مہرگویااس بات کی خوشخبری ونویداورنیک فال تھی کہ اب محبوبِ رحمٰن،نبیِ ذیشان،مکینِ لامکان صلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی اُمتِ مرحومہ کی خوش بختیوں کی بھی معراج ہونےوالی ہے،اِن کی قسمت کاستارہ بھی چمکنےوالاہے،ان کےبھی دن پھرنے والےہیں اوراِن کی خزاں بھی بہارمیں تبدیل ہونےوالی ہےکہ معراج کی رات اسراء کےدُولہا،محبوبِ خُدا، کونین کےداتاصلی اللہ علیہ و الہ وسلمخالقِ کائناتعزوجلکی بارگاہ سےخاص فیض لےکرمخلوق وموجودات کو فیض یاب فرمائیں گے۔

لیکن یہ سفرایک عالَم(عالَمِ بشریت)سےدوسرےعالَم (عالَمِ اَنوار)تک کاتھالہذاسرورِ ہردوسراصلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے معراج کی شب گویاکہ لباس تبدیل فرمایا یعنی لباس وصفتِ بشریت کےساتھ ساتھ نورانیتِ محمدی(جوکہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی حقیقت ہےاس)کاظُہوراپنے عُروج پرتھا۔([4])

چنانچہ معراج کی رات نبیِ مختار،شاہِ اَبرارصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی حقیقت یعنی نورانیت کاصفتِ بشریت پرایساغلبہ تھا کہ جس کےسامنےنورانی مخلوق کےسردارجبریلِ امین علیہ الصلوۃوالتسلیمکی نورانیت بھی ماندپڑگئی تھی، سدرۃُالمنتہیٰ کےاُس پار کےاَنوار کی تاب لاناجبریلِ امین علیہ الصلوۃوالسلامکےبس سےتوباہرتھا،لیکن نوری بشر، رسولِ اَنورصلی اللہ علیہ و الہ وسلمنےاُن اَنوارکامشاہدہ فرمایااورتمام ترحجابات ومنازلِ قُرب کوطےکرکےبلاحجاب اپنے ربِّ جمیل وجلیل عزوجل کادیدارفرمایا۔

اسی بات کوحکیم الاُمت مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمہ"مرآۃالمناجیح" میں یوں فرماتے ہیں:"سارے معجزات لوگوں کو دکھائے مگر معراج لوگوں سے چھپائی گئی بعد میں سنائی گئی کیونکہ معراج میں ربّ سے وصال تھا، اس میں حضورصلی اللہ علیہ و الہ وسلمکی نورانیت بھی ظاہر تھی اورحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کالباس بھی نورانی تھا، کسی آنکھ میں طاقت نہ تھی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کو دیکھتی،گھر کا لباس اور ہوتا ہے دفتر کا لباس دوسرا، دُنیا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کا دفتر ہے یہاں لباس بشریت میں آئے وہ جہاں حضورصلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا گھر ہے وہاں کا لباس نور ہے۔"([5])

نوٹ : فلسفۂ نورانیت وبشریت کی تفصیلات جاننے کیلئےفتاوی رضویہ مخرَّجہ میں موجود امامِ اہلسنتعلیہ الرحمہکارسالہ"صلاتُ الصَّفافی نورالمصطفےٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم" اورحکیمُ الاُمت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃاللہ علیہ کا"رسالہ نور"بہت مفیدہے۔([6])

از: ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی



[1]۔ مریم:19/17

[2]۔ صحیح مسلم،کتاب الایمان،1/27،قدیمی کتب خانہ

[3]۔ مقالاتِ کاظمی،ج1،ص206،کاظمی پبلی کیشنز

[4]۔ حکیم الاُمت مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمہ "رسالہ نور"میں فرماتے ہیں:"حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم نوربھی ہیں اوربشربھی یعنی نوری بشر ہیں۔حقیقت حضور(علیہ السلام)کی نُورہے اورلباس بشری ہے۔" (رسالہ نور،ص30،نعیمی کتب خانہ)

[5]۔ مرآۃُالمناجیح،8/136،نعیمی کتب خانہ

[6]۔ ماخوذ از: لَمَعَانُ الْاَنْوَارِ الْاَحْمَدِیَۃِ فِیْ تَوْضِیْحِ الْقَصِیْدَۃِ الْمِعْرَاجِیَۃِ بنام : شرح قصیدۂ معراجیہ