انسان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ابھارنے، نکھارنے اور پختہ کرنے کا بہترین ذریعہ تربیت ہے! دین ِاسلام حیات انسانی کے ہر شعبے میں مکمل راہ نمائی فراہم کرنے اور باضابطہ تربیت کرنے کا علمبردار ہے۔ یہاں میں دعوت و ارشاد کے موضوع پر اپنی زیر ترتیب کتاب کی ایک بات عرض کرتا چلوں: جو کام باقاعدہ سیکھ کر، مکمل تیاری اور مشق کے بعد کیا جائے وہ اس کام کے مقابلے میں بہترین ہوتا ہے جو ان مراحل سے گزرے بغیر انجام پائے!

دعوتِ اسلامی دین کی اس اہم ترین ہدایت کو جس خوبصورتی سے تھامے ہوئے ہے وہ اپنی مثال آپ ہے؛ ”مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔“ کا نعرہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دعوتِ اسلامی کی اس خصوصیت سے جس شخص کو سب سے زیادہ فیض یاب ہونے کا موقع میسر آتا ہے وہ اس کے امپلائیز ہیں؛ گاہ بہ گاہ ان کی تربیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو بہترین کار کردگی کا باعث بھی بنتا ہے۔ جی ہاں! دنیا بھر میں منظم طریقے سے دین کی خدمات انجام دینے والی اس تحریک کی کامیابی کے پیچھے ”اس کا اپنے امپلائیز کی تربیت کا نظام ہے!“

یہ چند سطور لکھنے پر جس جذبے نے مجھے ابھارا اور میں نماز ظہر کے بعد صرف 15 منٹ کے مختصر وقت میں ان کا اظہار کررہا ہوں وہ ریسرچ اسکالرز کی آج ہونے والی دو گھنٹے کی تربیتی نشست ہے جو المدینۃ العلمیہ کےریسرچ اینڈڈیویلیپمنٹ کےتحت منعقد ہوئی۔

جو موتی اور جواہر میں چُن سکا اس انتہائی مختصر وقت میں ان سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں اور وقفے کے بعد اس پر لکھنے کا وقت نہیں لہذا سر دست جتنا لکھ سکتا ہوں اپنے الفاظ اور معمولی اضافے کے ساتھ پیش خدمت ہے:

پہلا لیکچر : اسلامک ریسرچ اسکالر استاذ العلما مولانا ابو رجب محمد آصف مدنی دام ظلہ

_ ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے رہیے ترقی کے زینے طے ہوتے چلے جائیں گےاور کبھی بھی اپنی موجودہ اسکلز پر انحصار کرکے جامد مت بنیئے۔

اضافہ: استاذ محترم کی اس بات پر مجھے اپنی مذکورہ کتاب میں شامل جملہ یاد آیا ملاحظہ کیجیے:

1- دنیا میں ثبات صرف تغیر کو حاصل ہے؛ اگر آپ ترقی نہیں کررہے تو پھر تنزلی کی طرف جارہے ہوں گے!

_ اسٹرگل کیجیے: آگے بڑھنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیے اور ہر کام باقاعدہ سیکھ کر کیجیے کہ بائیک چلانے والے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو بغیر سیکھے سڑک پر آجاتے ہیں ؛ ایسوں سے کیا بعید کہ وہ بائیک کے تیسرے یا چوتھے گیر میں پورا کراچی گھوم آئیں! دوسرے وہ جو باقاعدہ سیکھ کر گاڑی چلاتے ہیں؛ یقینا ً یہ قابل ستائش ہیں۔

اضافہ: اسکلز کے تناظر میں میرا ذہن اپنے اس زمانے کی طرف منتقل ہوگیا تھا جب مجھے کمپیوٹر کی کچھ سدھ بدھ نہیں تھی اور میرے ذمہ دار نے مجھے زِپ فولڈر میں کام کے لیے چند فائلز دیں اور میں نے اس کو اَن زِپ کیے بغیر ہی کام شروع کردیا کچھ دیر بعد ایک فائل چیک کروائی گئی تو کچھ بھی محفوظ نہیں تھا ! ظاہر ہے زِپ فولڈر میں موجود فائلز میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہوتا اسے پہلے اَن زِپ کرنا ہوگا۔۔۔

یقین کیجیے یہی صورت حال میرے زیرِ تربیت ایک اسکالر کے ساتھ پیش آئی؛ انہیں بھی میں بتانا بھول گیا تھا ! یہاں سے مجھے ہر کام باقاعدہ سیکھ کر کرنے کا ایسا شوق پیدا ہوا کہ اب میرا کوئی کام بغیر تربیت لیے نہیں ہوتا الحمد للہ۔

_ ذمہ داری لینے کا حوصلہ پید کیجیے! جو دس سال پہلے جہاں تھا اگر وہ آج بھی وہی ہے تو اس کی محنت ضائع ہی ہوئی ہے کیونکہ اس نے جتنی محنت اسی جگہ برقرار رہنے پر کی اگر وہ یہی توانائی آگے بڑھنے پر لگادیتا تو یقیناً مفت میں اس منصب کو برقرار رکھتا بلکہ اس سے اوپر والے منصب کا حق دار قرار پاتا ۔

اضافہ: یہ سن کر مجھے صبح ہی پڑھے ہوئے مضمون کا ایک پیرا یاد آگیا ملاحظہ کیجیے:

آپ اگر بغور جائزہ لیں تو آپ کو ایسے مختلف ادارے اور افراد نظر آجائیں گے جو کافی عرصہ گزرجانے کے باوجودبھی ترقی نہیں کرپارہے ۔فرد کی ترقی نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس ادارے میں ایک عرصے سے کام کررہا ہوتا ہے اسی طویل عرصے کو ذہن میں رکھ کر وہ خودکو’’بڑا‘‘سمجھتا ہے ۔اس سوچ کی وجہ سے وہ مزید سیکھتا نہیں اورکئی سال گزرنے کے باوجود بھی ترقی نہیں کرپاتا۔ وہ ہر شخص کے سامنے یہ احسان جتلاتاہے کہ میں نے اس ادارے کو 15سال دیے ہیں لیکن اس چیز کو نہیں دیکھتاکہ اس عرصے میں اس نے ادارے سے کافی سارے مراعات اور فوائد بھی حاصل کیے ہیں۔یہ سوچ اس کی اناکا وزن بڑھادیتی ہے اور اسی وجہ سے کام کے حوالے سے اس کا انرجی لیول بھی وہ نہیں رہتا جو نوکری کے پہلے دِن تھا،جبکہ اس کے برعکس جو شخص ہر دِن کو نیا دِن سمجھ کر کام پر آتا ہے تو اس کی انرجی کا لیول بھی اسی قدر زیادہ ہوتاہے۔لہٰذا اگر زندگی کو شاندار بنانا ہے تو آج کے دِن کی اہمیت سے انکار نہ کریں۔

دوسرا لیکچر: اسلامک ریسرچ اسکالر مولانا عدنان چشتی مدنی دام ظلہ

ابتدا ہی ایسے شاندار فرمان سے ہوئی کہ مزہ آگیا:

_ اپنے کانوں کو چھننی مت بناؤ۔ اس پر قبلہ لیکچرار کا تبصرہ جس رنگ اور جذبے سے معمور تھا وہ الفاظ میں نہیں سما سکتا ایک بات سنتے چلیے کہ جس طرح چھنّی آٹا چھانتے وقت قیمتی چیز گرادیتی ہے اور کچرا روک لیتی ہے اس طرح آپ اپنے کانوں کو چھننی والا کام مت کرنے دیں کہ کام کی چیزیں ضائع کردیں اور کچرا روکتے چلے جائیں۔

_ احادیث نقل کرنے میں حتَّی الامکان صحاح ستہ کو ترجیح دیں۔

_ صحاح کے علاوہ کسی اور کتاب سے تخریج کرتے وقت رواۃ پر جرح ضرور ملاحظہ فرمالیں اور صرف ایک امام کی جرح پر اکتفا نہ کریں بلکہ دیکھیں کسی اور نے اس پر کیا کلام کیا ہے ۔

حدیث ذکر کرنے کےبارے میں جو احتیاطیں بیان کی گئیں ان سب کا احاطہ چند سطروں میں ممکن نہیں ۔

اللہ کریم دعوت اسلامی کو ترقی و عروج نصیب فرمائے۔

24/02/202