بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
لَکَ الْحَمْدُ یَا اللہ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ
اللہ
اللہ
تعالیٰ نے قلمِ رضا کوایسی جامعیّت اور قُوت عطافرمائی ہےکہ امامِ
اہلسنت، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جس مسئلہ کی تحقیق میں بھی کوئی کتاب
،رسالہ یا فتویٰ تحریر فرماتے ہیں ،تواُس
مسئلےکواَلَمْ نَشرَح (یعنی واضح) کردیتے ہیں۔یوہیں جس موضوع پربھی اَشعار
لکھتے ہیں تو اُس کی مَنظرکَشی کا حق ادا فرمادیتے ہیں، جسے دیکھ کرفنِ شاعری
کےماہرین حیران اور انگشُت بدنداں (یعنی
حیران) ہوجاتےہیں۔ اس کی زبردست مثال اِنتہائی مختصرسےوقت میں لکھاجانےوالاکلام’’قصیدۂ
معراجیہ‘‘ہے، جوکہ67اَشعار پر مشتمل ہے۔ امامِ
اہلسنت علیہ الرّحمہ نے اس قصیدے میں حَسین تخیُّلات کےساتھ ساتھ جابجا آیاتِ
قراٰنیہ اوراَحادیثِ نَبویّہ کی زبردست عَکاسی اور ترجمانی فرمائی ہے نیز آپ رحمۃ
اللہ علیہ نےاس قصیدے میں سفرِ معراج کےمختلف مرحلوں کوبڑےفصیح و بلیغ اَلفاظ میں
بصورتِ شعرپیش فرمایاہے۔ساتھ ہی ساتھ امامِ عشق و محبت رحمۃ اللہ علیہ نےاِس قصیدےمیں اُردو زبان کے رائج اِستعاروں
اورمُحاروں کا کثرت سےاستعمال کیاہے۔ اس قصیدےکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مجدِّدِ
اعظم،اعلیٰ حضرت رحمۃا للہ علیہ نےواقعۂ معراج کی مناسبت سےکعبہ و حطیم،مسجدِ
اَقصیٰ ونمازِ اَقصیٰ ،جِبرَئِیل و بُراق ،آسمان و عرشِ اَعظم، سِدرۃُالمنتہیٰ و جنّت اور لامکان و دیدارِ رحمن
کاتذکرہ بڑےلطیف اَنداز میں فرمایاہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگرکسی کو سفرِ
معراج کےنقطۂ آغاز (یعنی ابتداء)سےلےکراِس کےمقامِ عُروج ورِفعت (اختتام و
تکمیل)تک کامختصربیان اُردوزبان میں بصورتِ نظم پڑھنا ہوتووہ امامِ اہلسنت،اعلیٰ
حضرت علیہ الرحمہ کے اس مبارَک اورمنفرد’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ کو ملاحظہ کرلے۔
شرح
قصیدہ معراجیہ:
اللہ
ربُّ العزت کے فضل وکر م سےحقیر سراپا
تقصیر نے اس مبارَک قصیدے کی شرح :’’لَمَعَانُ الْاَنْوَارِ الْاَحْمَدِیَۃِ فِی تَوْضِیْحِ الْقَصِیْدَۃِ الْمِعْرَاجِیَۃِ‘‘ بنام شرح قصیدۂ معراجیہ‘‘تحریر کرنے کی
سعادت پائی ہے۔ اِس شرح میں راقم الحروف نے بنیادی طور پر دو باتوں کا اہتمام کرنے
کی سعی کی ہے۔
(1) عوام الناس کیلئے کلامِ اعلیٰ حضرت کی عام فہم تشریح
کرنا۔
(2) معجزۂ معراج سے
متعلق اس مبارَک قصیدے کے اَشعار میں بیان
کردہ مضامین کی تائید میں قرآن و سنت کی
نصوص اور اَقوالِ ائمہ و علما کو ضبط ِ
تحریر میں لانا۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں پائی جانے والی
فصاحت و بلاغت کی صنعتوں کی نشاندہی اور
تفصیل کو قصداً تحریر نہیں کیا؛ تاکہ کلام
طویل نہ ہوجائے اور عوام کو سمجھنے میں یہ طوالت مخل نہ ہو۔المختصر! اِس شرح کا صفحۂ قرطاس پر منقش ہونا محض فضلِ
ربّانی سے ہے، ورنہ راقم الحروف بے بَضاعت اپنی بے مائیگی کا معترف ہے۔ اِس شرح میں اگر کوئی خوبی و عمدگی ہے تو وہ خاص فضلِ سبحانی اورخدا کی مہربانی سے ہےاور اگرتحریر میں کوئی نقص و خامی ہے تو وہ راقم
حقیر سراپا تقصیر کی طرف سے ہے۔
سگِ درگاہِ اعلیٰ حضرت
ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی