بچپن کے معاملات:

جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ شیر خواری کے دنوں میں دن بھر والدہ ماجدہ کا دودھ نہ پیتے اور افطار کے وقت پی لیا کرتے۔ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سانس کے سا تھ ’’ھو ھو‘‘ کی آواز اس طرح نکلتی جیسے آپ رحمۃ اللہ علیہ ذکرِ الہی میں مشغول ہوں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو کھلونوں سے کھیلا کرتے اور نہ ہی بچوں کے دیگر مشاغل اختیار فرماتے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نظریں جھکا کر چلا کرتے اگر راہ چلتے اچانک کسی مسلمان پر نظر پڑ جاتی تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا واللہ ! یہ کوئی عام بچہ نہیں اس کی آنکھوں میں عجیب روشنی ہے جو براہِ راست دلوں کو متاثر کرتی ہےاگر نظر کسی غیر مسلم پر پڑ تی تو اس کی بگڑی سنور جاتی اور وہ اپنا باطل مذہب ترک کردیتا اور کلمہ طیبہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا۔اے کاش ! ہم بھی بزرگانِ دین کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے نظریں جھکا کر چلنے والے بن جائیں۔

بارگاہِ رسالت سے فیوض و برکات :

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بچپن میں ایک دن سڑک کے کنارے کھڑا تھا کہ ایک با رعب صاحب، حشمت نورانی صورت والے بزرگ گھوڑے پر تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے بٹھالیا، میں نے ڈرتے اور کانپتے ہوئے پوچھا۔آپ کون ہیں ؟ ار شاد فرمایا: میں علی بن ابی طالب ہوں۔ میں نے پھر عرض کی: مجھے کہاں لے جار ہے ہیں؟ فرمایا: پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے تمہیں ان کی بارگاہ میں لے جارہا ہوں۔ فرماتے ہیں:پھر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری ہوئی تو وہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی جلوہ فرما تھے ،مجھے دیکھتے ہی نبیوں کے سلطان رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھائے اور ارشاد فرمایا، میرے ہاتھ پکڑ لو پھر دستِ اقدس پر بیعت کی اور کلمے کی تلقین فرمائی ، حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب میں نے کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ پڑ ھا تو درجات و مقامات کا کوئی حجاب باقی نہ رہا ۔اس کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھ پر توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں صدق( سچائی) پیدا ہوگئی ۔ توجہ فرما نے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مجلس سے رخصت ہوگئے پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے میری جانب توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں عدل و محاسبہ نفس پیدا ہوگیا پھر آپ رضی اللہ عنہ بھی رخصت ہوگئے ان کے بعد حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے میری جانب توجہ فرمائی جس سے میرے اندر حیا اور سخاوت کا نور جگمگا اٹھاپھر وہ بھی اس نورانی مجلس سے رخصت ہوگئے اس کےبعد حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھ پر توجہ فرمائی تو میرا جسم علم و شجاعت اور حلم سے بھر گیا، پھر پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر خاتون جنت حضرت سیدتنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا :تم میرے فرزند ہو پھر میں نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہا کے قدمین شریفین کا بوسہ لیا اور ان کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں پہن لیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر دستگیر حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ عنہا کے سپرد فرمادیا حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے مجھے مخلوقِ خدا کی ر ہنمائی کا ار شاد فرمایا: حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے جو کچھ بھی دیکھا اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔

سائلو ! دامنِ سخی کا تھام لو

کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا

مفلسو! ان کی گلی میں جا پڑو

باغ خلد اکرام ہو ہی جائے گا

دل کی بات جان لی :

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر رحمۃاللہ علیہ نے اپنے ایک وزیر کے ہاتھ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اشرفیوں کی دو تھیلیاں بھیجیں اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کنویں کے پاس بیٹھے کھیتوں کو پانی دے رہے تھے آپ رحمۃاللہ علیہ نے دونوں تھیلیاں کنویں میں پھینک دیں وزیر کو بڑا تعجب ہوااوراس کےدل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یہ اشرفیاں مجھے مل جاتیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دل کی بات جان لی اور جب کنویں کی طرف نظر فرمائی تو اس سے پانی کی بجائے اشرفیاں نکلنے لگیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت دیکھ کر وزیر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں میں گرگیا، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار پھر اس پر نظر فرما کر عشقِ حقیقی کا جام پلایا اور وہ دونوں اشرفیوں سے بھری تھیلیاں اس کے حوالے کردیں۔

راہِ حق دکھا دی :

ایک مرتبہ حضرت سلطان باہو رحمۃاللہ علیہ شاہ راہِ پرلیٹےہوئےتھے کہ غیر مسلموں کا ایک گروہ گزراان میں سے ایک بطورِ حقارت آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ٹھوکر ماری اور کہا:ہمارے لئے راستہ بناؤ،آپ نے اٹھتے ہی فرمایا: ”لا الہ الا انت محمد رسول اللہ“ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے کلمہ طیبہ جاری ہونا تھا کہ غیر مسلموں کا پورا گروہ کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

مٹی سونا بن گئی :

جب آپ شور کورٹ میں کاشتکاری کرتے تھے تو افلاس و نادری سے تنگ ایک سفید پوش بزرگ سید صاحب بزرگوں اور فقیروں کی تلاش میں مار ے مارے پھرتے کہ کہیں سے کوئی اللہ کا بندہ مل جائے او راس کی روح سے میری غربت اورتنگی دور ہوجائے اسی طلب میں وہ ایک فقیر کی خدمت میں رہنے لگےاور اس کی خدمت کرتے ، ایک فقیر کو ان کے حال پر رحم آیا پوچھا تیری مراد اور حاجت کیا ہے اس سید نے عرض کی : میرا بہت بھاری کنبہ ہے اور میں قرض دار ہوگیا ہوں جوان لڑکیاں اور لڑکے ہیں افلاس اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کی شادی بھی نہیں کرسکتا ظاہر ی اسباب ختم ہوچکے ہیں اب تو خالی مددکے سوائے میری تنگ دستی کا علاج ممکن نہیں تب اس فقیر نے کہا کہ میں تجھے ایک مردِ کامل کا پتا بتاتا ہوں سوائے اس کے کہ تیرا علاج کسی کے پاس نہیں ہیں تو سخی سلطان باہو کے پاس شور کورٹ چلا جاان کی بارگاہ میں عرض پیش کرنا وہ پریشان حال سید صاحب سلطان العارفین کے پاس پہنچ گئے لیکن ان کی مایوسی کی کوئی حد نہ رہی تھی جب دیکھا کہ آپ رحمۃاللہ علیہ کھیتوں میں ہل چلا رہے ہیں جبکہ انہیں وہاں کے لوگوں سےپتا چل چکا تھا کہ لوگ آپ کو فقیر کی حیثیت سے نہیں کسان کی حیثیت سے جانتے ہیں یہ حالت دیکھ کر مایوس ہو کر واپس موڑنے ہی والے تھے کہ سلطان العارفین نے جو ان کی قلبی کیفیت سے آگاہ ہو چکے تھے ان کو آواز دی آپ کی آواز سن کر ان سید صاحب کوکچھ حوصلہ ملا ، دل میں کہنے لگے اب خود بلایا ہے تو عرض پیش کرنے میں کیا حرج ہے، سید صاحب نے قریب آکر سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا خیریت پوچھی کہ کس وجہ سے یہاں آئے ہوسید صاحب نے اپنی ساری مشکلات سناد ی آپ نے فرمایا : شاہ صاحب مجھے پیشاب کی حاجت ہے آپ میرا ہل پکڑ کر رکھیں میں پیشاب سے فارغ ہولوں، غرض آپ نے پیشاب کیا مٹی کے ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد وہ ڈھیلے ہاتھ میں لے لیا، سید صاحب سے مخاطب ہوئے شاہ صاحب آپ نے مفت تکلیف اٹھائی میں تو ایک جٹ آدمی ہوں، سید صاحب کا دل پہلے ہی سفر کی تھکاوٹ اور مایوسی سے جلا ہوا تھا طیش میں آکر بولے: ہاں یہ میری سزا ہے! سید ہو کر آج ایک جٹ کے سامنے سائل کی حیثیت سے کھڑا ہوں حضرت سلطان العارفین کو جلال آیا اور اپنی زبان مبارک سےشعرپڑھتے ہوئے وہ پیشاب والا ڈھیلا زمین پر دے مارا، آپ کے پیشاب والا ڈھیلا اس زمین کے جن جن ڈھیلوں سے لگتا گیا وہ سونا بن گیا، سید صاحب یہ حالت دیکھ کر دم بہ خود ہو گئے ، آپ کے قدموں پر گر کر رونے لگے اور معافی مانگنے لگے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: شاہ صاحب یہ وقت رونے کا نہیں یہ ڈھیلے چپکے سے اٹھالو اور چلتے بنو ورنہ لوگوں کو پتا چل گیا تو نہ تیری خیر ہے اور نہ میری چنانچہ سید صاحب نے ان سونے کے ڈھیلوں کو جلدی سے اپنی چادر میں ر کھ لئے اور آپ کے پاؤں چومتے ہوئے وہاں سے چل دیئے۔

وفات و مدفن :

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 63 سال اس دارِ فانی میں دینِ اسلام کی تعلیمات عام کیں اور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے عہد میں یکم جمادی الاخر ی ۱۱۰۲ھ بمطابق 2 مارچ 1691 ءشبِ جمعہ تیسرے پہر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے سفر آخرت اختیار فرمایا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک دریائے چناب کے مغربی کنارے پر واقعہ قلعہ قہرکان سے کچھ فاصلے پر ہے جس کے چاروں جانب پختہ دیواریں ہیں۔

(مأخد: رسالہ : فیضانِ سلطان باہو)

از: بنت اجمل عطاریہ (طالبہ جامعۃ المدینہ گرلز)