ساتویں صدی
ہجری کی ایک دوپہر ڈھل رہی تھی کہ درویشوں کا ایک قافلہ مختلف علاقوں میں نیکی کی
دعوت دیتا ہوا باب الاسلام سندھ کے ایک علاقے میں پہنچا۔ ان دنوں باب الاسلام
سندھ برائىوں اور بدکارىوں کى آماجگاہ تھا۔ ہر طرف گناہوں کا دور دورہ تھا۔ اس
علاقے میں خاص طور پر کفر و شرک اور فحاشی
وبدکاری عام تھی ۔بعض علاقے تو ایسے تھے کہ جہاں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر
تھی۔دینی معلومات نہ ہونے کے باعث لوگ زندگى کے ہر
شعبے مىں بے راہ روى اور معاشرتى برائىوں کا شکار تھے ۔
لوگوں کى اَخلاقى حالت اَبتر تھی اسی وجہ سے جگہ جگہ ”برائی کے اڈے“ قائم تھے ۔ درویشوں کا یہ
قافلہ ايك ایسے محلے میں ٹھہرا جہاں ہر طرف چہل پہل تھی
۔شام ڈھلتے ہی چراغ روشن ہونے لگے ، شام نے رات کا لبادہ اوڑھا تو گانے بجنے لگے ، عورتیں سرِعام گناہ کی دعوت دینے لگیں، اوباش نوجوان گناہوں کے
بھنور کی طرف کھنچتے چلے جارہے تھے ۔ یادِ الہی میں مگن درویش یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئے اور اپنے اميرِ قافلہ سے عرض کرنے لگے : حضور! یہاں قیام کرنا ہمارے لیے مناسب نہیں، کہیں اور چلتے ہیں یہ
تو بہت ہی بُری جگہ ہے ۔امیرِقافلہ
نے فرمایا : ہم یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے بلکہ بھیجے گئے ہیں۔ امیرِقافلہ کا جواب سُن کر درویش مطمئن ہو
گئے ۔جوں توں رات گزری ، صبح گناہوں کا بازار سرد پڑ چکا تھا۔ اگلی رات درویش یہ
دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بازار میں کل
جیسی رونق نہ تھی۔ دوسری طرف برائی کے
اڈوں پر بھی اوس پڑ چکی تھی، جو بھی آتا محلے میں داخل ہوتے ہی الٹے پاؤں واپس لوٹ جاتا ۔اب تو یہ معمول ہی بن
گیا، بازار کی رونقیں ختم ہونے لگیں۔ ایک
دن ساری عورتیں جمع ہوئیں اور کہنے لگیں : جس دن سے یہ درویش یہاں آئے ہیں ہمارا تو کاروبار ہی ٹھپ ہو گیا ہے ۔ انہیں یہاں سے نکالو ورنہ ہم تو بھوکے مر جائیں گے ۔ چنانچہ وہ ان درویشوں کے پاس آئیں
اور کہا : بابا ”آپ صوفی لوگ ہیں
یہاں آپ کا کیا کام ، یہ گناہوں کی جگہ ہے ، یہاں سے چلے جائیں آپ کی وجہ سے ہمارا کام بند
ہو رہا ہے “۔ درویشوں کے امیرِ قافلہ نے فرمایا : ’’ہم یہاں جانے کے
لیے نہیں آئے ، اب تو ہمارا مزار بھی یہیں
بنے گا۔ البتہ اگر تمہیں کوئی مسئلہ ہے تو
تم یہاں سے چلی جاؤ ۔‘‘امیرِ
قافلہ کا جواب سن کر انہیں پریشانی لاحق ہوگئی۔ چونکہ بڑے بڑے زمىندار اور رؤسا یہاں تک کہ خود راجہ بھی ان گناہوں میں شریک تھا لہذا
انہوں نے راجہ کو شکایت کر دی۔ راجہ
نے اپنے سپاہیوں سے کہا : درویشوں سے کہو یہاں سے چلے جائیں ورنہ انہیں زبردستی نکال دیا جائے گا۔
راجہ کا حکم پاتے ہی سپاہی درویشوں کے
قافلے کی طرف روانہ ہوئے ابھی قریب بھی نہ پہنچے تھے کہ
اچانک انکے پاؤں زمین نے پکڑ لیے ۔ سپاہیوں
نے قدم اٹھانے کے لیے بہت جتن کیے مگر بے سود۔ انہوں نے واپس پلٹنے کی کوشش کی تو زمین نے پاؤں چھوڑ
دیے ۔ سپاہی گھبرا کر واپس لوٹ گئے ۔ وہ عورتیں حیرت میں ڈوبی یہ منظر دیکھ رہی
تھیں انکے دل کی دنیا زیروزبر ہوگئی اور وہ دلی طور پر اس بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ کی معتقد ہوچکی
تھیں، بے ساختہ اس بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ (جو کہ اس
قافلے کے امیر بھی تھے )کے قدموں میں
گر کر تائب ہوگئیں اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مرد بھی ان
بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دستِ حق پرست پر تائب ہو کر دائرہ
اسلام میں داخل ہوگئے ۔( اللہ کے ولی ، ص۳۴۰، اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۳۳، شانِ قلندر، ص۲۸۸ بتصرف)
کیا آپ
جانتے ہیں کہ یہ بلند رتبہ درویش کون تھے
؟ جی ہاں! یہ کوئی اور نہیں بلکہ بابُ الاسلام سندھ کی پہچان حضرت لعل شہباز قلندر
سیّدمحمدعثمان مَروَندی کاظمی حنفی قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی تھے اور
دوسرے درویش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکے مرید اور خادم تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ نے سیہون شریف ضلع دادو بابُ
الاسلام سندھ تشریف لا کرکفروشرک کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹکنے والوں کواسلام کے پاکىزہ
اُصُولوں سے روشناس کراىا۔
اس ظُلمت
کدے مىں اسلام کى شمع روشن کی۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکی آمد سے بابُ الاسلام سندھ میں
اسلام کى روشنی پھیلتی چلی گئی۔ لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی پُرتاثیر
دعوت پر جوق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے احکامات اور سرکاردوعالم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی میٹھی میٹھی سنتوں کی روشنی میں زندگی
بسرکرنے لگے ۔سُطُورِذیل میں نیکی کی دعوت کے
عظیم داعی ، مُبَلِّغِ اسلام حضرت لعل شہباز
قلندر سید محمد عثمان مَروَندِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے مختصر
حالات زندگی پیش کیے جاتے ہیں۔
ولادت اور سلسلہ نسب
حضرت سیدنا
لعل شہباز قلندر محمد عثمان مَروَندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی ساداتِ کرام کے مذہبی
گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادتِ باسعادت مشہور قول کےمطابق
۵۳۸ھ بمطابق 1143ء میں آذربائیجان کے
قصبہ ’’مَروَند‘‘ میں ہوئی۔(اللہ کے خاص بندے عبدہ،
ص۵۲۳)اسی مناسبت سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کومَروَندِی کہا جاتاہے ۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نام سید محمد عثمان ہے جبکہ آپ اپنے لقب ’’لعل شہباز‘‘ سے مشہور ہیں۔(شان قلندر،
ص۲۶۴ملخصاً)
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو اس قدر حسن و جمال عطا فرمایا تھا کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی پیشانی کے نورکے
سامنے چاندنی بھی مات تھی ۔حضرت علامہ
مولانا میر سید غلام علی آزاد بلگرامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاسلسلہ نسب تیرہ واسطوں سے حضرت سیدناامام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہتک پہنچتاہے ۔ ‘آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ کاسلسلہ نسب یوں ہے : سیدعثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سیدنورشاہ بن
سیدمحمودشاہ بن سیّد احمد شاہ بن سیّد ہادی بن سیّد مہدی بن سیّدمنتخب بن سیّدغالب
بن سیّد منصوربن سیّداسماعیل بن سیدناامام محمدبن جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم ۔( لب
تاریخ سندھ مخطوط، ص۹ بحوالہ تذكره اولياءِ
سندھ، ص٢٠٦)
قلندر کہنےکی
وجہ
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ سلسلہ قلندریہ سے بھی تعلق رکھتے تھے اسی لئے آپ کو قلندر کہا جاتا
ہے ۔برِصغیر میں سلسلہ قلندریہ نے حضرت شاہ خضر رومی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی (مُتَوَفّٰی ۵۹۹ھ)سے شہرت پائی ۔(اقتباس الانوار، ص۶۶)
قلندر کون ہوتاہے ؟
قلندر خلافِ
شرع حرکتیں کرنے والے کو نہیں کہا جاتا، جیسا کہ فی زمانہ بے نمازی ، داڑھی چٹ ، خلافِ شرع مونچھیں، عورتوں
کی طرح لمبے لمبے بال ، ہاتھ پاؤں میں لوہے کے کَڑے پہننے والے لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ ہماری تو قلندری لائن ہے ، مَعَاذَ اللہ، حالانکہ صوفیائے کرام کی اصطلاح
میں قلندر شریعت کے پابند کو ہی کہا جاتا ہے چنانچہ مصنفِ کُتُبِ کَثِیرہ، خلیفۂ مفتیٔ
اعظم ہند فیضِ مِلَّت حضرت علامہ مولانا مفتی فیض احمد اویسی رضوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نقل فرماتے ہیں : ’’قلندر وہ ہے جو خلائقِ زمانہ سے ظاہری اور باطنی تجربہ حاصل کر چکا ہو، شریعت و
طریقت کا پابند ہو ۔ ‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’دراصل صوفی اور قلندر
ایک ہی ذات کا نام ہے (قلندر کی
شرعی تحقیق، ص۶ بتصرف)
القاب کی وجہ
تسمیہ
آپ
رَحْمَۃُ
اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے چہرۂ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر
’’ لعل“ کی مانندسرخ کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی تھیں اسی
مناسبت سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ”لعل“کے لقب سے مشہور ہوئے جبکہ ”شہباز“ کا لقب بارگاہِ امامِ
حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے عطا
ہوا۔چنانچہ منقول ہے کہ ایک رات آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے والدِ
ماجد حضرت سیدنا کبیرالدینعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن امام ِعالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہکی زیارت سے فیض
یاب ہوئے ، سیّدُناامام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہ نے ارشاد فرمایا : ہم تمہیں وہ شہباز عطا کرتے ہیں جو ہمیں
ہمارے نانا جان ، رحمتِ عالَمیان صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم سے عطا
ہواہے ۔اس بشارت کے
بعدحضرت لعل شہبازقلندر عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمَد کی ولادت ہوئی اور
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ولایت کے اعلیٰ
مراتب پر فائز ہوگئے ۔( اللہ
کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۲بتغیر)
بچپن اور
ابتدائی تعلیم
آپ
رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا ابتدائی سلسلۂ تعلیم والدِ گرامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِیکے زیرِ سایہ تکمیل پایا۔ چونکہ والدین رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْھِماتقویٰ و پرہیز گاری اور زیورِ علم سے آراستہ وپیراستہ تھے اس لیے بچپن ہی سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو اللہ والوں کی محبتیں اورصحبتىں مىسر
آئىں۔ جس کے نتیجے میں فُىُوض و بَرکات اور علمِ دىن کے
گہرے نُقُوش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکی لوحِ قلب پر مُنَقَّش ہوئے ۔ یوں بچپن ہی میں نىکی اور راست بازى آپرَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ کا
شِعار بن چکی تھی ۔(شان قلندر، ص۲۶۸بتغیر)
حفظِ قرآن اور
مسائلِ دینیہ
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو غیرمعمولی قوّتِ حافظہ سے نوازا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے جونہی پڑھنے کی عمر میں قدم رکھا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ کو علاقے کى مسجد مىں دینِ اسلام کی ابتدائی تعلیم کے حصول کے
لیے بھیجا گیا۔ والدہ ماجدہ کی دلی خواہش
تھی کہ میرا بیٹا خوب علم دین حاصل کرے ۔ چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے والدہ ماجدہ کی خواہش کوعملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے گاؤں کى مسجد میں ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ چونکہ مادرزاد ولی تھے لہذا جلد ہى آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہنے قرآن پاک پڑھنے کے ساتھ ساتھ
ابتدائى دىنى مسائل بھى سىکھ لىے ۔ چھ برس کى عمر تک دىن کے چىدہ چىدہ
مسائل اور نماز روزہ اور طہارت کے بارے مىں ضرورى مسائل سے آپ کو مکمل طور پر آگاہى حاصل ہوچکى تھى۔ سعادت
مند والدین کی مدنی تربیت نے قرآن پاک حفظ
کرنے کا شوق وجذبہ بیدار کیا تو سات سال
کى عمر مىں قرآن مجىد بھی حفظ کرلىا۔ اس کے بعددیگر
علومِ دینیہ کی تحصیل میں مصروف ہو گئے اور بہت جلد مُرَوَّجہ عُلُوم و فُنُو ن کے ساتھ ساتھ عربى اور فارسى
زبانوں مىں بھى مہارت حاصل کرلى۔( اللہ
کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲٥ بتصرف)
والدین کا داغِ
مفارقت
دستورِ قدرت
ہے کہ جسے جتنا بلند مقام عطا کیاجاتا ہے اتنی ہی آزمائشوں اور امتحانات سے گزارا جاتا ہے ۔ حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کے امتحان کا وقت آچکا تھا۔ ایامِ زیست(زندگی کے
دنوں) کی گنتی اٹھارہ سال کو پہنچی تو والد ماجد داغِ مَفارقت دے گئے ، ابھی یہ زخم تازہ تھا کہ دو سال بعد
والدہ ماجدہ بھى داعیٔ اَجَل کو لبیک کہہ
گئیں۔چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مزید علمِ دین کے شوق میں گھربار چھوڑ کر راہ
خدا عَزَّ وَجَلَّکے مسافر بن گئے اور علمائے کرام کى بارگاہ سے وراثت ِانبیاء
یعنی علم اور صوفیائے کرام کی بارگاہ
سے خزینۂ روحانیت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۶ بتصرف)
حضرت لعل شہباز
قلندر سنی تھے
حضرت سیّدنا
لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ صحیح العقیدہ سُنی اورحنفی المذہب
تھے ۔آ پ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ساری زندگی اہلِ سنّت کے جلیل القدر
علمائے کرام اور مشائخِ عُظّام ہی کے ساتھ دوستی اور نشست وبرخاست رکھی
نیزان ہی کے ساتھ سفر بھی فرمائے ۔حضرت سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی ایک نعتیہ غزل کے
آخری مصرع میں اپنا عقیدہ یوں بیان
فرماتے ہیں :۔
عثمان چو شد غلام نبی و چہار یار
امیدش از مکارم عربی محمد است
یعنی : عثمان جب ہوگئے حضور نبیٔ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے چاروں
یاروں(حضرت صدیق اکبر، حضرت عمرفاروق اعظم، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضٰی رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُمْ )کے غلام۔۔۔ اُس کو
امید ہے محمدِ عربی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق و عادات سے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۷ بتصرف)
حضرت سیدنا
عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہعلم و حکمت کی
دولت سمیٹتے سمیٹتے جب کربلائے معلی پہنچے توحضرت سیدنا امام
موسىٰ کاظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی اولاد سے ایک بزرگ حضرت سیدنا شىخ ابواسحاق سید ابراہىم قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے دستِ اَقدس پر بیعت
ہوئے اور تقرىباً ۱۲ماہ تک پیرومرشدکے زیرِسایہ سلوک کی منزلیں طے فرماتے رہے ۔ پیرومرشد حضرت سیدنا ابراہیم قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکی نظرِ ولایت نے جب اس بات کا
مشاہدہ کیا کہ یہ اب مریدِ کامل بن کر
طریقت کی اعلیٰ منزلیں طے کرچکے ہیں تو
انہوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کو خرقۂ خلافت و اجازت سے نوازا اور خدمتِ دین کے لیے راہِ خدا میں سفر کرنے کی ہدایت فرمائی۔( شان قلندر و غيره، ص۲۷۰بتغیر)
بعض سیرت
نگاروں نے لکھا کہ آپرَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہحضرت سیدنا شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی عَلَیْہِ رَحمَۃُ
اللّٰہ ِالْقَوِیكے مریدو خلیفہ
تھے ۔( خزینۃ الاصفیاء ، ۴/ ۷۹، تذكره حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی،
ص١١١)
مرشد کےحکم
پرعمل
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہکے مرشدِ کریم نے
چونکہ خدمت ِ دین کے لئے کوئی خاص منزل متعین نہ فرمائی تھی اس لئے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پیرو مرشد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے اَن دیکھے راستوں پر نکل
کھڑے ہوئے اور شہر بہ شہر گاؤں بہ گاؤں
نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے میں مصروف
ہوگئے ۔( آداب مرشد
کامل، ص : ۱۹۸ملتقطاً)
ہمعصروہمسفر
حضرت سیدنا
لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے مختلف اولیائے کرا م کے ساتھ مدنی
قافلوں میں سفر کیا۔جن اولیائے کرام اور
صوفیائے عُظَّام رَحِمَہُمُ اللہُ
السَّلَامکى صحبتوں سے فیض یاب ہوئے اور راہِ خداکے مسافر بنے ۔ ان میں
سَرِ فہرست (۱)حضرت سیدنا شىخ
فرىدالدین گنج شکر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الصَّمَد، (۲)حضرت سیدنا بہاؤ الدىن زکرىا ملتانى قُدِّسَ سِرُّہُ
النُّوْرَانِی،
(۳)حضرت
سیدنا مخدوم جہانىاں جلال الدىن بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی (صوفیاء کی اصطلاح میں ان تین اور چوتھے حضرت لعل شہباز قلندر کو چار یار کہتے ہیں ۔)اور حضرت سیدنا شىخ صدرالدىن عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا نام ِ نامی
اسم ِ گرامی شامل ہے ۔( معیار
سالکان طریقت (سندھی)، ص ۴۲۴، تذکرہ اولیاءِ سندھ، ص۲۰۶ بتغیر)
مزارات پر حاضری
حضرت سیّدنالعل
شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ طریقت کی
منازل طے کرنے میں مصروف تھے اور اس دوران اپنے اپنے وقت کے برگزیدہ اولیائے کرام سے روحانی فیض حاصل کرنے کے لئے انکے
مزارات پر حاضری بھی دیتے رہتے چنانچہ مشہدشریف میں حضرت سیّدناامام علی رضا رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہاور کوفہ (بغداد) میں امام الائمہ، سِراجُ الاُمَّۃ،
حضرت سیدنا امامِ اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہکے مزارِ اَقدس پر حاضری دے کر فُیُوض وبَرَکات حاصل کئے ۔( اللہ
کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹)
غوثِ پاک کے
مزار پر
حضرت
سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ پیرانِ پیر روشن ضمیر حضور غوثِ اعظم محی الدین سید ابومحمدعبدالقادر
جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے مزار شریف پر حاضر ہوئے ، مراقبے
کے دوران آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو سیّدناغوثِ اعظم کی زیارت ہوئی ، سیّدنا غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : عثمان !اب مکہ مُعَظَّمہ چلے جاؤاور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے گھر کی زیارت کرو۔( سیرت حضرت لعل شہباز قلندر، ص۷۲)
سفرِ حج اور
فکرِ مدینہ
حضرت
سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ نے مشہورومعروف علماواولیاسے اِکتِسابِ علم و روحانیت کے بعد آقائے دوجہاں، سردار انس و جاںصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے درِپاک پر حاضری کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ حج کے ایام قریب تھے لہٰذااِحرام باندھا اور چل پڑے ۔حضرت سیدنا لعل
شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا
خوف غالب تھا یہاں تک کہ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ سفرِ حج پر روانہ ہو رہے تھے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی
خُفیَہ تدبیر کا خیال آگیا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ یوں فکرِ مدینہ فرمانے لگے : ’’اے عثمان! تم سواری پر سوار حجِ بیتُ اللہکے لیے جارہے ہو اور عنقریب تمہارا جنازہ بھی روانہ ہو گا۔تم نے آخرت کے لیے کیا توشہ تیار کیا ہے ؟اسی خوفِ خداکے ساتھ بیتُ اللہ شریف پہنچے ، حج
کی سعادت پائی اور انوارِ الہی کی بارش سے خوب مستفیض ہوئے ۔( سیرت حضرت
لعل شہباز قلندر، ص۷۲)
زیارتِ مدینہ
حجِ بیتُ اللہسے مُشَرَّف ہونے
کے بعدمدینہ منورہ میں نبیٔ محترم، شفیعِ مُعَظَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہِ مُحتَشَم میں حاضر ہوئے اورعشق ومحبت میں ڈوب کر اپنے پیارے آقا و مولیٰ محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر خوب خوب درود و سلام کے گجرے نچھاور کیے ۔( اللہ
کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹)
منقول ہے کہ روضۂ رسول پر حاضر کیا ہوئے جد ا ہونے کو جی ہی نہ چاہتا تھا، لہذا گیارہ
ماہ تک درِرسول پر حاضر رہے ۔اگلے سال پھر حج کی سعادت پائی اور
ہندوستان کا سفر اختیار فرمایا۔بَرِصغیر پاک و ہند میں آپ کی منزل سیہون شریف ضلع دادو باب الاسلام سندھ تھی چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پہلے مرکزالاولیاء لاہور تشریف فرما ہوئے ۔
قلندرپاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اور باب
الاسلام آمد
حج کے بعد
سرکاردوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے درِاقدس پر حاضر ہوئے اور وہیں سے ہندوستان کے لیے رختِ سفر باندھا
چنانچہ وہاں سے عراق پہنچے اور کچھ عرصہ وہیں قیام فرمایا پھر تبلیغ قرآن
و سنّت کا عظیم فريضہ سرانجام دیتے ہوئے بلخ ، بخارا اور مختلف علاقوں
سے ہوتے ہوئے باب الاسلام سندھ مىں جلوہ
فرما ہوئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عادتِ کریمہ تھی کہ ایک جگہ قیام نہ فرماتے بلکہ اکثرمدنی قافلے کے مسافر رہتے چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے مدینۃ الاولیاءملتان، مرکز الاولیاء لاہور اور پھر ہندوستان کے دیگر شہر اجمیر، گرنار، گجرات ، جونا گڑھ، پانی پت، کشمىر وغیرہ کا سفر اختیار
فرمایا اور خوب نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیں۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹بتصرف)
اجمیر شریف
حاضری
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہنے تقریباً چالیس
دن تک اجمیر شریف میں سلطان الہند حضرت سیّدنا خواجہ معین الدین سید حسن چشتی عَلَیْہِ رَحمَۃُ
اللّٰہ ِالْقَوِیکے مزارِ
پُر انوارکے سائے میں قیام فرمایا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہیہاں عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے اور باطنی فیوض و برکات سے مالا مال ہوتے ۔(شان قلندر، ص۲۷۹بتغیر)
سندھ کا مقدر
جاگ اٹھا
ان دنوں
برصغیر ہندوستان کے مختلف اطراف میں اولیاء و صوفیائے کرام شمعِ اسلام روشن کیے ہوئے تھے ۔ وسطِ ہند اور جنوبى پنجاب مىں چشتى سلسلے کے بزرگ توحىد ورسالت کادرس
دے رہے تھے اور خاندانِ سہروردیہ کا فیضان دہلی تا ملتان پھیلا ہوا تھامگر ابھی تک
باب الاسلام سندھ فیوض و برکات سے خاص حصہ
نہ رکھتا تھا۔جب حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہپانی پت میں حضرت
سیدنا بوعلی قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے پاس پہنچے تو انہوں نے باب ا لاسلام سندھ کو نوازنے کی استدعا کی اورفرمایا : ’’ہند میں تین سو قلندر ہیں ، بہتر ہو گا
کہ آپ (باب الاسلام) سندھ تشریف لے جائیں ۔‘‘آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے مشورے پر حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ باب الاسلام سندھ تشریف لے آئے ۔( تحفۃ الکرام (مترجم)، ص ۴۲۹، تذكره
اولياءِ سندھ، ص٢٠٦)
دشتِ شہباز
حضرت سیدنالعل
شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہنے جب باب الاسلام سندھ کی طرف رخت سفر باندھا تو
راستے میں مکران مىں وادى پنج گورکے قریب
قیام فرمایایہاں ہزاروں مکرانى بلوچوں نے آپ کے دست حق پرست پر توبہ کی اور شمع اسلا م کے پروانے بن گئے ۔ یہ میدان آج بھى آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے لقب کی نسبت سے ’’دشتِ شہباز‘‘ کہلاتا ہے ۔ یہاں کے
مقامی لوگ آج بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ کی عقیدت اور محبت کا
دم بھرتے نظر آتے ہیں۔( شان قلندر، ص۲۸۲وغیرہ)
ضعیف العمری میں
بھی قافلے
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہضعیفُ العمر ی کے باوجود صحت مند اور چاک و چوبند تھے ۔
منقول ہے کہ جب آپ سىہون تشرىف لائے تو اس وقت آپ کى عمر سو سال سے کچھ زائد تھى، اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہآخری ایام میں بھی حسبِ عادت نیکی
کی دعوت عام کرنے کے لیے سفر فرماتے تھے ۔( اللہ کے خاص بندے
عبدہ، ص۵۲۳)
علماکاادب
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علم کے بہت ہی قدردان تھے نیز اہلِ علم کے مقام ومرتبے کا لحاظ فرمایاکرتے تھے ۔ نماز کى امامت بہت کم فرماتے ، ہمىشہ ىہ کوشش رہتی کہ پاس موجود علمائے کرام مىں سے کوئى امامت کروائے ۔( شان قلندر، ص۳۰۲وغیرہ)
علمی
مقام اور
تدریس
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زبردست عالمِ دین تھے ۔لِسانیات اور صرف و
نحومیں آپ کو یدِ طولیٰ حاصل تھا۔فارسى اور عربى پر کامل دَسترَس رکھتے تھے نیزآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زبردست شاعربھی تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کچھ مضامىن پر
کتابىں بھى لکھى ہىں جن میں سے صرف صغیر قسم دوئم، اجناس اور میزان الصرف کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس دورکے مدارس کے نصاب میں بھی شامل تھىں۔(سیرت پاک حضرت لعل
شہبازقلندر وغيره، ص۲۴ بتغیر، وغیرہ)
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ مدرسہ بہاؤ الدىن (مدینۃالاولیاء
ملتان شریف) میں فارسى اور عربى میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ سىہون شرىف مىں مدرسہ’’فقہ الاسلام‘‘
تھا جس کے بارے میں منقول ہے کہ وہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہہی نے قائم فرمایا تھا جبکہ ایک
دوسرى رواىت میں ہے کہ یہ مدرسہ پہلے سے قائم تھا البتہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس
کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کیا یہاں تک کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکے دور میں اس جیساعالى شان مدرسہ پورے باب الاسلام سندھ مىں نہ تھا۔
تِشنگانِ علم دُوردراز سے علم کی پیاس
بجھانے سیہون آتے یہاں تک کہ اسکندرىہ (مصر)جىسے دور دراز علاقے سے طلبہ اس مدرسہ مىں تحصىلِ علم کے لىے حاضر ہوتے تھے ۔ یہ وہ دور تھا کہ
سیہون باب الاسلام سندھ علم و علما کا مرکز تھا اور حضرت لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ علما کى اس کہکشاں
مىں مثلِ آفتاب تھے ۔( شہبازِ ولايت، ص۲۵
بحوالہاللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۳١)
سجادہ نشین
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے سجادہ نشین آپ کے محبوب
مریدوخلیفہ حضرت سیدنا علی سرمست رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ ہوئے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکے بارے میں منقول ہے کہ جب قلندر پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبغداد شریف سے باب ا
لاسلام سندھ تشریف لائے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ بھی ان کے ساتھ تشریف
لائے تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہقلندر پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے وزىر مشہور تھے ۔( سیرت پاک حضرت لعل
شہبازقلندر، ص۹۰)
بارانِ رحمت کا نزول
منقول ہے کہ ایک بار سىہون شرىف اور اس کے اردگردکے علاقوں مىں شدید قحط پڑا یہاں تک کہ
کھانے کى کوئى چىز دور دور تک دکھائى نہ
دىتى، نہریں خشک ہوگئىں، کنوئىں سوکھ گئے
، پانى کاملنا دشوار ہوگیا۔ قحط کی وجہ سے اس قدر خوفناک صورت حال ہوگئى کہ زندہ بچنے کى کوئى امىد دکھائى نہ دىتى تھى۔ آخر کار اہلِ علاقہ اکٹھے ہو کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکى خانقا ہ کے گرد جمع ہوئے اور
فریاد کرنے لگے ۔ حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا) کا فريضہ سرانجام
دیتے ہوئے فرمایا : تم سب لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى بارگاہ مىں گناہوں سے سچی توبہ کرو اور مىرے ساتھ دعا مانگو۔ لوگوں نے فوراً اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہِ عالی میں اپنے گناہوں کى معافى مانگی اور توبہ استغفار
کرنے لگے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہنے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی
بارگاہ میں دعاکے لیے ہاتھ دراز کردیے اور بارش اور خوشحالی کی دعاکی۔ کہا جاتا
ہے کہ ابھى حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ مانگ کر اپنے حجرہ مبارکہ مىں داخل بھى نہ ہونے پائے تھے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کى دعا کو قبولیت سے مشرف فرمایا اور رحمت کی بوندیں برسنیں لگیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم اور حضرت
سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ کی قبولیتِ دعا کی خوشی میں لوگوں نے کھانے پکاکر غربا و مساکىن مىں تقسىم کىے ۔ حضرت
سیدنا لعل شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ نے نمازِ عشاء کى ادائىگى کے بعد اجتماعِ ذکرونعت
کا اہتمام فرمایا اور لوگوں نے مل کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذکر کىا اور حضور پرنور صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذات گرامی پر خوب درود و سلام پىش کىا۔(شان قلندر،
ص۳۱۱وغیرہ)
مسواك سایہ
داردرخت بن گئی
گرمیوں کے دن
تھے ، سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھااور حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہاپنى خانقاہ کے صحن
مىں وضو فرمارہے تھے ۔ ایک عقیدت مند
نے دھوپ کى تپش کو دىکھتے ہوئے عرض کی : حضور! ہم اس جگہ پر اىک ساىہ دار درخت لگائىں گے تاکہ آنے والے اسکے سائے مىں آرام پائیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہنے وضو سے فراغت کے بعد ایک مرید کو اپنى مسواک دىتے ہوئے فرماىا : اسے یہاں زمىن مىں گاڑ دو۔حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مسواک زمىن مىں گاڑ دی گئی۔
اگلے ہى دن اس مسواک مىں ہری ہری شاخىں نمودار ہوگئىں اور چند دنوں مىں
دىکھتے ہى دىکھتے ىہ چھوٹى سى مسوا ک اىک تناور ساىہ دار درخت بن
گئی۔(شان قلندر، ص۳۱۳وغیرہ)
دم کرنے سے مریضوں کی
شفایابی
منقول ہے کہ حضرت سیدنا لعل شہبازقلندرمحمدعثمان
مَروَندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی جس مریض کے لیے دستِ دعا بلند فرمادیتے فوراً صحتیاب ہو جاتا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہقرآن کریم کی چند آىات مبارکہ تلاوت فرماتے اور پانى پر دم کرکے مریض کو پلانے اور آنکھوں پر لگانے کا حکم فرماتے
۔ نتیجۃً فوری طور پرمرىض میں صحت ىابی کے آثار نمودار ہوجاتے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہکے دم کرنے کا
طریقہ یہ تھا کہ سورۃالفاتحہ، سورۃ الفلق، سورۃ الناس اور کلمۂ طیبہ بالترتیب ایک ایک بار پڑھتے ، اسکے بعدخلفائے راشدىن رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ
اَجْمَعِیْنکے وسىلہ جلىلہ سے مرىض کى شفاىا
بى کے لىے بارگاہِ الہٰى عَزَّ وَجَلَّ مىں دعا کرتے ۔کہتے ہیں کہ آج بھی اگر کوئی آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہکے مزار پر حاضر
ہوکر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے اىصالِ ثواب کے بعد اسی طرح بالترتیب سورۃالفاتحہ، سورۃ الفلق، سورۃ الناس اور کلمہ
طیبہ پڑھ کر خلفائے راشدىن کے وسىلہ سے دعا کرتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم سے اس کى دعا قبول ہوجاتى ہے ا ور
پروردگار عالم اسے شفائے کاملہ عطا فرماتا ہے ۔(شان قلندر، ص۳۱۵وغیرہ)
آخری کلمات
جب حضرت سیدنا
لعل شہباز قلندر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمَدکا آخری وقت آیا تو آپ کی زبان سے ادا ہونے والے آخری کلمات یہ تھے : مىرا کوئى ساتھى نہىں ہے ، مىرا عمل مىرا ساتھ
کىادے گا، مىرا سب سے بڑا سہارا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى ذات
بابرکات ہے ، مىرے ساتھى اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب حضور سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، آپ کےصحابۂ
کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ہىں۔
حضرت سیدنا لعل شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے ان کلمات سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماورصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَانبالخصوص خلفائے راشدین رِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن سے محبت و عقیدت کا پتا چلتا ہے ۔( شان قلندر، ص۳۲۲وغیرہ)
وفاتِ حسرت آیات
آپرَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ نے ۲۱شعبان المعظم۶۷۳ ھ میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا
الیہ راجعون ۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ نے جس جگہ وصال فرمایاوہیں آپ کا روضہ مبارکہ تعمیر
ہوااس کی تعمیر سب سے پہلے سلطان فیروز تغلق کے زمانے میں ہوئی پھر
وقتاًفوقتاً سرزمین ہند پر حکمرانی کرنے والے سَلاطین واُمَرَاء مزارِ
پُراَنوار پر حاضر ہوتے رہے اوراس کی تَزئِین وآرائش میں حصہ ڈال کر دین و دنیا کی سعادتیں لوٹتے رہے ۔(حدیقۃ
الاولیاء (سندھی)، ص۹۹، معیار سالکانِ
طریقت (سندھی)، ص ۴۲۵)