ویسے تو رمضانُ المبارک کی ہر گھڑی رحمتوں اور برکتوں سے بھری ہوئی ہےجیساکہ احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ رمضانُ المبارک میں روزانہ افطار کے وقت10 لاکھ ایسے گناہ گاروں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے جن پر گناہوں کی وجہ سے جہنم واجب ہو چکی تھی لیکن اللہ عزوجل نے امتِ محمدیہ کو اس مہینے میں ایک ایسی رات سے بھی نوازا ہے جس میں اتنی رحمتِ الٰہی نازل ہوتی ہیں جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔اس رات میں عبادت کرکے بندہ نہ صرف اپنے گناہوں کو بخشواتا ہے بلکہ اللہ عزوجل کا قرب بھی حاصل کرتاہے ۔ اس رات کو اللہ عزوجل نے ماہِ رمضانُ المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پوشیدہ رکھا ہے جسے لَیْلَۃُالْقَدرکہا جاتا ہے جو کہ ہزار مہینوں سے افضل ہے اوریہ رات امتِ محمدیہ ﷺکے ساتھ خاص ہے(یعنی صرف امتِ محمدیہ کو عطاء کی گئی ہے) نیز اس رات کی فضیلت پر قراٰن و احادیث کی کثیر آیتیں اور روایتیں دال ہیں۔

شبِ قدر میں قراٰن کا نزول:

اس رات کی قدرو منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےاسی رات آسمانِ دنیا میں یکبار قرآنِ مجید نازل کیا جیساکہ قرآنِ کریم میں ارشادِ خدا وندی ہے:اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ترجمۂ کنزالایمان :بیشک ہم نے اس قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا۔

تفسیردرِّ منثورمیں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہمافرماتے ہیں: اللہ عزوجل نے لوحِ محفوظ سے بیت العزت (جو کہ آسمانِ دنیا میں ہے)کی طرف ایک ہی دفعہ پورا قراٰنِ کریم شبِ قدر میں نازل فرمایا۔

شب قدر کی فضیلت پراحادیثِ مبارکہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابۂ کرام کو خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:تمہارے پاس ماہِ رمضان آیا ہے جو بَرَکت والا ہے۔اس مہینے میں ایک رات ہے(یعنی شبِ قدر) جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے (ملخص) ۔(سنن نسائی، کتاب الصیام، 355/2103)

حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ دو عالم حضرت محمد کا فرمانِ عالیشان ہے: جو ایما ن کی وجہ سے اور ثواب کے لئے شب ِ قدر کا قیام کرے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (صحیح البخاری ،کتاب الصوم ، باب من صام رمضان ایمان واحتساب ونیۃ، 1/6256 الحدیث 1901 )

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب شبِ قدر ہوتی ہےتو جبرئیلِ امین علیہ السّلام ملائکہ کی جماعت کے ساتھ اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو(اس کے لئے) دعا کرتے ہیں۔( شعب الایمان،باب فی الصیام،3/343، الحدیث ۳۷۱۷)

شبِ قدر ملنے کی وجہ:

امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے جب پچھلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ ﷺ کو اپنی امت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں۔آپ ﷺ نے یہ خیال فرمایاکہ گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ ﷺ کو شبِ قدر عطاء فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(الموطا، کتاب الاعتکاف، باب ماجاء فی لیلۃالقدر،1/295،الحدیث 761)

شبِ قدر کن راتوں میں تلاش کی جائے؟

شبِ قدر کی تعیین کے بارے میں علمائے کرام کا بڑا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک شبِ قدررمضانُ المبارک کی پہلی رات، بعض کے نزدیک اکیسویں رات، بعض کے نزدیک تیئسویں رات، بعض کے نزدیک پچیسویں رات، بعض کے نزدیک ستائیسویں رات، بعض کے نزدیک انتیسویں رات اور بہت سے علمائے کرام کا یہ قول ہے کہ شبِ قدر رمضانُ المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے جیساکہ کثیر احادیثِ صحیحہ میں بھی مذکور ہے۔

شبِ قدر کی علامت:

حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ سرکار ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:میں نے شبِ قدر کو دیکھا پھر مجھے بھلادی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔اور یہ ایک خوشگوار رات ہے، نہ گرم، نہ سرد اس رات چاند کے ساتھ شیطان نہیں نکلتا یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔(صحیح ابنِ خزیمہ، کتاب الصیام، باب صفۃ لیلۃ القدر بنفی الحر و البرد ، 3/330،الحدیث2190)

لیلۃالقدر کی دعا:

حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں:میں نے بارگاہِ رسالت ﷺ ،میں عرض کی، یا رسولُ اللہﷺ اگر مجھے شبِ قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم یہ دعا کرو’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ تو بہت معاف کرنے والا کرم فرمانے والا ہے۔ معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے، پس مجھے معاف فرما۔ (جامع الترمذی ،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی جامع الدعوات عن رسول اللہ،5/306، الحدیث3513)

تمام بھلائیوں سے محروم رہ گیا:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب رمضانُ المبارک شروع ہوتا تو رسولُ اللہﷺ ارشاد فرماتے:یہ جو مہینہ شروع ہوا ہے ، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔جو اس سے محروم رہ گیا تو وہ تمام بھلائی سے محروم کر دیا گیا اور اس کی بھلائی سے بد بخت ہی محروم رہتا ہے۔(سنن ابنِ ماجہ، کتاب الصیام، باب ماجاء فی فضلِ شہرِ رمضان،2/297، الحدیث 1644)

پیارے اسلامی بھائیوں:اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں ایسی بابرکت رات سے نوازا ہے جس میں رحمتِ الٰہی برستی رہتی ہے، ہمیں چاہیئے کہ اس بابَرَکت رات کو اللہ پاک کی عبادت و ریاضت اورخوب ذکر واذکار میں گزاریں، نوافل پڑھیں، اپنے تمام سابقہ گناہوں سے توبہ کریں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کریں۔

شبِ قدرمیں پڑھے جانے والے نوافل:

٭ چار رکعت نفل پڑہیں: ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ تکاثر ایک مرتبہ اور اس کے بعد سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھیں تو موت کی سختیوں سے آسانی ہوگی اور عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔(فضائل الایام،441 مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ)

٭دو رکعت نفل پڑہیں:ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص سات مرتبہ پڑہیں۔سلام پھیرنے کے بعد سات مرتبہ ’’اَسْتَغْفِرُاللّٰہ‘‘ پڑھے تواپنی جگہ اسے اٹھے گا کہ اس پر اور اس کے والدین پر رحمتِ خدا برسنی شروع ہو جائے گی۔(ایضاً)

٭ چار رکعت نفل پڑہیں: ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص ستائیس مرتبہ پڑھے تو یہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے گا کہ گویا آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کو جنت میں ہزار محل عنایت فرمائے گا۔(ایضاً)

از: غیاث الدین عطاری مدنی

اسلامک اسکالر، اسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ)