خاندانِ رضویت کے  وہ چشم و چراغ جنہوں نے گمنامی کی زندگی گزاردی، ایک ایسے فرد جو ممتاز عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ مفتی اسلام ، ماہر علم الفرائض اور ادیب بھی تھے ،ہماری مراد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے سب سے چھوٹے بھائی حضرت علامہ مفتی محمد رضا خاں بریلوی رحمۃُ اللہِ علیہ ہیں۔ آئیے ان کی حیات خدمات پر کچھ معلومات ملاحظہ فرمائیے۔

نام :

محمد رضا عرف ننھے میاں

والد :

رئیس المتکلمین حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللّٰہ علیہ ۔ آپ رئیس المتکلمین کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں ۔

تعلیم :

رسمِ بسم اللہ والد محترم نے ادا کی ، ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، کم سنی کے عالَم میں والد محترم کی وفات ہوگئی ، حالت یتیمی میں پروان چڑھے ، جب شعور آیا تو برادر محترم ( امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ ) کی درس گاہ اور شخصیت ساز تربیت گاہ سے وابستہ ہوئے ، برادر ِمکرم کی شفقت اور بہترین تعلیم و تربیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ ممتاز عالم ربانی ، بالغ نظر مفتی ، دور اندیش مفکر بن کر عالم اسلام پر ابھرے۔ ( مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،46 )

اساتذہ :

۱۔ رئیس المتکلمین حضرت مولانا مفتی نقی علی خان رحمۃ اللّٰہ علیہ ( حضرت مولانا ظفر الدین بہاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے رئیس المتکلمین کے تلامذہ میں محمد رضا خان کا نام اس وجہ سے لکھا کہ آپ نے ان کو رسم بسم اللّٰہ پڑھائی )

۲۔ امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ۔(مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،67 )

فتویٰ نویسی :

علم معقول و منقول خصوصاً علم الفرائض میں آپ مہارت تامہ اور ید طولیٰ رکھتے تھے، دارالافتاء بریلی شریف کا جب شُہرہ ہوا اور کثرت سے استفتاء ( سوالات ) آنے شروع ہوگئے تو علم الفرائض و میراث کے متعلقہ مسائل کے فتوے حضرت مولانا محمد رضا رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی لکھا کرتے تھے ۔( مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،67 )

تقریب نکاح :

آپ کا عقد نکاح غلام علی خان کی صاحبزادی سکینہ بیگم کے ساتھ ہوا ۔ شادی خانہ آبادی کے موقع پر استاذ ِزمن مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ نے سہرا لکھا ، پورا سہرا ثمر فصاحت میں موجود ہےجس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:

”واہ کیا خوب سجا نوشہ کے سر پر سہرا

ہے مجھے تارِ رگِ جاں کے برابر سہرا“

(کلیات حسن،ثمر فصاحت، 698 ،اکبر بک سیلرز)

اولاد :

عین جوانی میں وفات کے سبب آپ کے یہاں ایک ہی بیٹی ہوئی جو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ کے صاحبزادے مفتی اعظم ہند مفتی مصطفیٰ رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ کے نکاح میں آئیں، مفتی اعظم ہند رحمۃ اللّٰہ علیہ سے سات بیٹیاں اور ایک بیٹا انور رضا خان پیدا ہوئے مگر انور رضا خان کا کمسنی میں ہی انتقال ہوگیا۔ انوار رضا خان کو اپنے پردادا حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پائنتی میں دفن کیا گیا ۔(حیاتِ اعلیحضرت ، 74 )

انتظامی و دینی مصروفیات :

آپ علم و فضل کے ساتھ ساتھ خاندان اور حسن انتظام میں اپنی مثال آپ تھے جب برادر مکرم کو علمی مشاغل اور فتاویٰ جات میں مستغرق دیکھا تو خانگی (خاندانی) اور جاگیری ( زمین کے معاملات ) ذمے داریوں کو اپنے کاندھوں پر لے لیا گویا کہ آپ اعلیٰ حضرت کے قوت بازو بن کر اپنی جاگیر کے علاوہ اعلیٰ حضرت کی جاگیر کا انتظام بھی کرنے لگے اعلیٰ حضرت کو بس خدمت دین اور فروغ علم دین کے لیے آزاد کردیا امام اہلسنت بھی آپ پر جملہ امور میں مکمل اعتماد کرتے۔ اس کے علاوہ آپ کی دینی دلچسپی بھی برقرار رہی، علمی معاملات میں مشغول رہے فتاوجات کے علاوہ امام اہلسنت کے مُسوَّدوں کو بھی دیکھتے رہے جس کا ثبوت ان کی لگائی ہوئی مہر سے ملتا ہے۔ (مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،67 )

ایک اہم خاصیت :

آپ کو قریب سے دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ مصروف ترین زندگی گزارنے کے باوجود آپ سے کوئی نماز ترک نہ ہوئی زندگی بھر تمام نمازیں باجماعت ادا فرمائیں جب دنیا سے رخصت ہوئے تو کوئی نماز و روزہ قضا نہ تھا۔(حضرت مولانا محمد رضا خان بریلوی ،مصنف : مولانا افروز قادری چِڑیاکوٹی، 12 )

وفات :

عین جوانی کے عالم میں 21 شعبان المعظم 1358ھ بمطابق 15 اکتوبر 1939ء کو رات بعد نماز عشاء دنیا سے رخصت ہوئے ۔ نماز جنازہ حضرت مولانا عبدالعزیز خان رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پڑھائی۔ جنازہ میں حضرت صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی، مفتی امجد علی اعظمی، مولانا سردار احمد خان ، مولانا احمد یار خاں نعیمی رحمہم اللہ جیسی ہستیوں نے شرکت کی۔ آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں والدین کریمین کے پاس سپردِ خاک کیا گیا، مفتی اعظم ہند نے مزار تعمیر کروایا ۔( مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے، 67 )

از قلم : احمد رضا مغل

بروز منگل 23 جمادی الاولیٰ 1443، بمطابق28 دسمبر 2021ء