محقق دوراں، فقیہ عصر، استاذ العلماء حضرت مفتی آل مصطفیٰ مصباحی صاحب 10 جنوری 2022ء پیر  کی شب ساڑھے بارہ بجے کشن گنج، بہار ہند میں انتقال فرماگئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن ۔ مفتی صاحب طویل عرصے سے بیمار تھے، وصال کے وقت ان کی عمر 51 برس تھی۔

مفتی صاحب کی نمازِ جنازہ 11 جنوری 2022ء کو ظہر کی نماز کے بعد ان کے آبائی گاؤں کشن گنج، بہار میں ادا کی گئی۔

رکنِ شوریٰ حاجی ابوماجد مولانامحمد شاہد عطاری مدنی اور دعوتِ اسلامی کی آفیشل نیوز ویب سائٹ ”دعوتِ اسلامی کے شب وروز“ کی پوری ٹیم مفتی صاحب کے صاحبزادوں ریحانِ مصطفیٰ، اتقانِ مصطفیٰ، لمانِ مصطفیٰ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کے وصال سے جماعت اہل سنت میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اللہ رب العزت ان کے امثال زیادہ کرے۔ آمین۔

ساتھ ہی دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت نبی کریم ﷺ کے صدقے میں ان کو جنت میں بلند درجات عطا فرمائے، ان کی دینی خدمات کو قبول فرماکر ان کے لئے ذریعہ نجات بنائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

یہ بھی پڑھیں۔۔۔

واضح رہے کہ مفتی آل مصطفیٰ مصباحی ایک باکمال مدرس، پختہ قلم کار، اور ایک بالغ نظر مفتی تھے، جن کے فتاوی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حضرت منشی محمد طاہر حسین صاحب کٹیہاری سے حاصل کی جہاں آپ نے قاعدہ بغدادی اور عم پارہ کا درس لیا۔فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم حورا سونا پور،ضلع کٹیہار میں حاصل کی ۔درجہ ثانیہ کی تعلیم مدرسہ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ ضلع مئو میں حاصل کی اور ثالثہ و رابعہ کے درجات” الادارۃ الاسلامیہ دار العلوم حنفیہ کھگرا ضلع کشن گنج بہار“ میں مکمل کئے۔ اس کے بعد آپ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لے کر اپنی علمی تشنگی بجھانے لگے،آپ نے یہاں درجہ خامسہ سے درجہ ثامنہ تک چار سال تعلیم حاصل کی اور ۱۹۹۰ء میں دستار فضیلت سے نوازے گئے،آپ نے درس نظامی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مشق افتا کا بھی کورس مکمل فرما لیا ۔

آپ کے اساتذہ کرام

سلطان الاساتذہ، ممتاز الفقہا حضور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفی قادری، حضرت مولانا اعجاز احمد مصباحی علیہ الرحمہ، علامہ عبد الشکور صاحب، حضرت نصیر ملت مولانا محمد نصرالدین صاحب، حضرت صدر العلما علامہ محمد احمد مصباحی صاحب ، حضرت سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب ، حضرت مولانا اسرار احمد مصباحی صاحب ، حضرت مولانا شمس الہدیٰ مصباحی صاحب ، خطیب محقق حضرت مولانا عبد الحق رضوی صاحب ، فقیہ النفس مفتی مطیع الرحمن مضطر نوری صاحب اور والد گرامی حضرت مولانا محمد شہاب الدین اشرفی صاحب دامت فیوضھم۔

فتاویٰ نویسی کی تربیت :

فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔

درس و تدریس:

جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فراغت اور مشق افتا کی تکمیل کے بعد آپ اپنے استاد گرامی حضور محدث کبیر کے حکم پر تدریس و افتا کی خدمات کے لیے جامعہ امجدیہ گھوسی تشریف لائے اور 1990ء سے لےکر تاحیات پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔

تحریری خدمات:

مفتی صاحب اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ اب تک آپ کے قلم سے مختلف عناوین و موضوعات پر تقریباً دو سو مضامین و مقالات معرض وجود آچکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد علمی و تحقیقی کتابیں آپ کے رشحاتِ قلم سے معرضِ تحریر میں آ چکی ہیں، ان کے علاوہ بہت سی کتابوں پر آپ کے حواشی و تعلیقات، تقاریظ و مقدمات اور تاثرات و تبصرے منصۂ شہود پر آچکے ہیں، جن کی کچھ تفصیل یوں ہے:

٭منصبِ رسالت کا ادب و احترام

٭مسئلہ کفاءت عقل و شرع کی روشنی میں

٭تقدیم و ترجمہ عربی عبارات "فقہ شہنشاہ و ان القلوب بید المحبوب بعطاء اللہ المعروف بہ شہنشاہ کون؟ (امام احمد رضا قدس سرہ)

٭ترجمہ و تقدیم” مواھب ارواح القدس لکشف حکم العرس "(ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ)

٭بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے اصول،

٭حاشیہ فتاویٰ امجدیہ(صدر الشریعہ) جلدِ سوم و چہارم

٭حاشیہ توضیح وتلویح (عربی) (مطبوعہ : مجلسِ برکات)

٭مختصر سوانح صدر الشریعہ

٭بیمۂ زندگی کی شرعی حیثیت

٭اسبابِ ستہ اور عموم بلویٰ کی توضیح و تنقیح

٭کنز الایمان پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ

٭روداد مناظرۂ بنگال

٭خطبہ استقبالیہ صدر الشریعہ سیمینار مطبوعہ و مشمولہ ”صدر الشریعہ حیات و خدمات“

٭نقشہ دائمی اوقات صلوۃ برائے گھوسی

٭حاشیہ شرح عقود رسم المفتی

ان کے علاوہ بھی بہت سے علمی و تحقیقی مضامین و مقالات اور تقاریظ و مقدمات آپ کی یادگار ہیں اور تصانیف و تالیفات اور مضامین و مقالات ہمیشہ آپ کی یاد دلاتے رہیں گے۔

(نوٹ: مفتی صاحب سے متعلقہ معلومات محمد نفیس القادری امجدی صاحب (مدیر اعلیٰ سہ ماہی عرفان رضا مرادآباد) کی تحریر سے حاصل کی گئی ہے۔ )


دوستی بہت ہی قیمتی اور اہم رشتہ ہے ۔انسان کے پاس دنیا کی ساری آسائشیں اور سہولتیں ہوں مگر ایک مخلص دوست کی کمی ہو تو ایسا شخص زندگی میں خوش نہیں رہ سکتا اور جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور صرف ایک سچا دوست ہو تو وہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے یوں بسر کرسکتا ہے کہ اپنی خوشی اور غم اپنے دوست کے ساتھ بانٹ لیتا ہے ،جو بات ماں باپ ،بہن بھائی سے شئیر نہیں کرسکتا دوست سے بلا جھجک کہہ سکتا ہے ۔ دوست کوئی بھی ہوسکتا ہے کیونکہ سچی دوستی نہ تو شکل وصورت دیکھتی ہے نہ عمر،نہ مال و دولت دیکھتی ہے نہ غربت بلکہ سچی دوستی ایک ایسا بندھن ہے جو کسی بھی مقصد و لالچ کے بغیر ہوتی ہے ۔یادرکھئے! دوستی کےدنیاوی اور اخروی بہت سے فوائد ہیں ،مثلاً

دنیاوی فوائد

(1)انسان دنیا میں اگرچہ اکیلا آتا ہے اور دنیا سے جاتے وقت بھی اکیلا ہی ہوتا ہے مگر زندگی گزارنے کیلئے اس کا تنہا رہنا ناممکن نہیں مگر مشکل ضرور ہوتا ہے ۔ لہٰذا زندگی گزارنے اور اپنے دکھ سکھ بانٹنے کیلئے کسی سے دوستی کرنا اور میل جول رکھنا ہماری زندگی کی بنیادی ضرورت ہے ۔

(2) لوگوں سے میل جول اور تعلقات انسان کی زندگی میں ترقی کی راہیں کھول دیتے ہیں کیونکہ اس کی بدولت ہمیں اچھی ملازمت مل سکتی ہے اور ہمارے کاروباری معاملات بھی بہتر ہوسکتے ہیں ۔

(3)لوگوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے ان کی عادات و اخلاقیات جاننے کا موقع ملتا ہے اور کھرے کھوٹے کی پہچان کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

(4)بعض اوقات انسان کسی ایسی پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے کہ جس کا ذکر اپنے والدین ،بہن بھائی یا کسی عزیز سے شیئر نہیں کرسکتا اور اسی پریشانی میں اپنی زندگی کے ضروری معاملات کو چھوڑ کر تنہائی اختیار کرلیتا ہے تو ایسے نازک حالات میں اگر اپنے مخلص دوست سے مشاورت کرلی جائے تو وہ اس کا بہتر حل تجویز کرکے اپنے دوست کی زندگی پھر سے خوشیوں بھری بنا سکتا ہے ۔

باقی رہنے والی لذت:

حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہفرماتے ہیں : میں نے عورت سے نکاح کیا حتّٰی کہ مجھے عورت اور دیوار کے درمیان کوئی فرق محسوس نہ ہوا ، میں نے عمدہ کھانے کھائے لیکن ان پر ہمیشگی نہ رکھ سکا، میں نے مشروبات پئے حتّٰی کہ میں پانی کی طرف لوٹ آیا، میں نے جانوروں پر سواری کی اور آخر کار اپنے جوتوں کو اختیار کیا، میں عمدہ لباس پہنتا رہا حتّٰی کہ میں نے سفید لباس کو اختیار کیا مگر کوئی بھی لذت باقی نہ رہی جس کی طرف میرا نفس مشتاق تھا سوائے اپنے مہربان دوست سے گفتگو کرنے کے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں ،ص272)

یادرہے یہ تمام فوائد ہمیں اسی صورت میں مل سکتے ہیں جبکہ ہمیں ایک مخلص ،عقلمند ،نیک سیرت دوست مل جائے ورنہ مطلب پرست،بے وقوف اور بد عمل دوست سے نہ صرف ہماری دنیابرباد ہوسکتی ہے بلکہ ہم آخرت کے عذاب کا شکار بھی ہوسکتے ہیں ۔اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بری دوستی اور صحبت نہ صرف دنیا کا نقصان کرتی ہے بلکہ ایمان کیلئے بھی بہت خطرناک ہے،جیسا کہ مثنوی شریف میں ہے:

ترجمہ :جہاں تک ہوسکے بُرےدوست سے دُور رہو کہ بُرا دوست سانپ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ سانپ تو صرف جان لیتا ہے جبکہ بُرا یار ایمان لیتا ہے۔ (کفریہ کلمات کےبارےمیں سوال جواب،ص82)

دینی و اخروی فوائد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیاوی معاملات کی بہتری کے بجائے اخروی اور دینی فوائد کو پیش نظر رکھتے ہوئے دوستی کرنی چاہیے۔آئیے! نیک لوگوں سے دوستی کے دینی اور اخروی فوائد ملاحظہ کیجئے:

(1)نیک شخص سے دوستی کی برکت سے ہمارے علم وعمل میں اضافہ ہوگا اور عبادت و تلاوت اور ذکرو درود کا شوق پیدا ہوگا اور ان شاء اللہ گناہوں سے نفرت بھی ہونے لگے گی ۔ حدیث شریف میں ہمیں اچھے دوست کی پہچان یہ بتائی گئی ہےکہ اچھا ہمنشین وہ ہے کہ اس کے دیکھنے سے تمہیں خدا یاد آئے، اس کی گفتگوسے تمہارے عمل میں زیادتی ہو اور اس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔(جامع صغیر،حرف الخاء، ص۲۴۷، حدیث:۴۰۶۳)

(2)نیک شخص کی دوستی سے ہمیں یہ فائدہ بھی حاصل ہوگا کہ وہ ہماری مشکلات اور پریشانیوں میں ہمیں صبر کی تلقین کرے گا اور اپنی استطاعت کے مطابق رضائے الٰہی اور ثواب کی نیت سے ہماری مدد بھی کرے گا کیونکہ اسے یہ بات معلوم ہوگی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پسندیدہ اعمال میں سے مومن کے دل میں خوشی داخل کرنایااس سے غم دور کرنا یا اس کا قرض ادا کرنا یا بھوک میں اسے کھانا کھلاناہے۔(الزهدلابن المبارک،باب ماجاء فی الشح،الحديث:۶۸۴،ص۲۳۹)

(3)نیک شخص سے دوستی کا یہ فائدہ بھی حاصل ہوگا کہ ہم اپنی کسی پریشانی ،بیماری یا مصیبت یا اپنے گناہوں کی مغفرت کیلئے اس سے دعا کرواسکتے ہیں کہ نیکوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں حضرتِ سیِّدُنا انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: ’’ہم ایک دوسرے کے لئے دعا کیا کرتے تھے، اس لئے کہ اللہ پاکنے نیک لوگوں سے دعا کروانا ہم پرلازم کیاہے کیو نکہ وہ رات حالتِ قیام میں گزارتے اور دن روزے کی حالت میں اور فسق وفجور سے دور رہتے ہیں۔‘‘ (الجامع الصغیر للسیوطی، حرف الجیم، الحدیث:۰۳۵۹، ص۲۱۹)

(4)نیک شخص کی دوستی سے ہمیں اللہ پاک کی رحمت سے آخرت میں یہ فائدہ بھی حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ ہماری شفاعت کروا کر ہماری بخشش ومغفرت کا سبب بن سکتا ہے جیساکہ ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:”اپنے دینی بھائی زیادہ بناؤ کیونکہ ہر مومن شفاعت کرے گا، شاید کہ تم بھی اپنے کسی بھائی کی شفاعت میں داخل ہو جاؤ۔“(احیاء العلوم مترجم،2/617)

دوست کیسا ہو؟

حضرت سیِّدُنا ابنِ سماکرحمۃ اللہ علیہ سےپوچھا گیا: کون سا دوست اخوت وبھائی چارے کا سب سے زیادہ حقدار ہے ؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جو دین میں زیادہ ہو، عقل میں پختہ ہو، جو تیرے قرب کا تقاضا نہ کرے اور دوری کی وجہ سے تجھے بھلا نہ دے، اگر تو اس سے قریب ہو تو وہ بھی تیرے قریب ہواور اگر تو اس سے دور ہو تو وہ تیرا لحاظ کرے، اگر تو اس سے مدد مانگے تو تیری مدد کرے، اگر تیری اس سے کوئی حاجت ہو تو تیری حاجت کو پورا کرے اور تو اس سے محبت کرے تو وہ تجھ سے زیادہ محبت کرے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں ، 1/278)

سچے اور باوفا دوست کے اوصاف:

٭سچا دوست بھروسامند، وفادار اور رازدار ہوتا ہے۔٭غموں میں شریک ہونے والا اور خوشیوں میں یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔ ٭ کسی بھی معاملے میں مفید مشورہ دینے والا اور غلط قدم اٹھانے سے روکنے والا ہوتا ہے۔ ٭خودغرضی سے پاک ہوتا ہے۔ ٭ضرورت کے وقت ساتھ دینے والا ہوتا ہے۔ ٭ غلطیوں پر معاف کرنے والا اور اچھائیوں پر حوصلہ افزائی کرنے والا ہوتاہے۔ ٭اچھا دوست اپنے دوست کو برائی و گناہ میں تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ اسے نیکیوں کی طرف لانے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے۔ ٭مخلص دوست وہ ہوتا ہے جو دوست کی عزت کو اپنی عزت سمجھے اوراپنے دوست کی غیر موجودگی میں اُس کی عزت نہ اُچھالے۔ ٭مخلص دوست کی نظر عیش وآرام یا دولت پر نہیں بلکہ اچھائیوں اور اچھی عادات پر ہوتی ہے۔

ان لوگوں کی صحبت سے دور رہنا

حضرتِ سیِّدُنااِمام زینُ العابدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے حضرتِ سیِّدُناامام باقِررحمۃ اللہ علیہکو نصیحت فرمائی کہ پانچ قسم کے لوگوں کی صحبت اختیار نہ کرنا، (1) فاسق کی صحبت اختیار نہ کرنا کیونکہ وہ تجھے ایک یا ایک سے کم لقمہ کے بدلے میں بیچ دے گا، لقمے کا لالچ کرے گا لیکن اسے حاصل نہیں کر سکے گا۔ (2)بخیل کی صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ ایسے وقت میں تجھ سے مال روک لے گا جب تجھے اس کی سخت حاجت و ضرورت ہوگی۔ (3)جھوٹے کی صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ سَراب کی طرح ہے جو تجھ سے قریب کو دور اور دور کو قریب کر دےگا (یعنی دھوکا دے گا)۔ (4)اَحمق (بےوقوف) کی صحبت اختیار کرنے سے بچنا کیونکہ وہ تجھےفائدہ پہنچانے کی کوشش میں نقصان پہنچا دے گا۔ (5)رشتہ داروں سے قطع تعلُّق کرنے والے کی صحبت میں بیٹھنے سے بچنا کیونکہ میں نے کتابُ اللہ میں تین مقامات پراسے ملعون پایا ہے(یعنی ایسے پر لعنت کی گئی ہے)۔ (حلیۃ الاولیاء،ج 3،ص215،رقم:3745)

سوشل میڈیا اور نامحرموں کی دوستیوں کا انجام

آج کل سب سے زیادہ سوشل میڈیا کی دوستیاں عام ہیں، ایک تعداد ہے جو سوشل میڈیا پر دوست بنتے ،پھر بغیر تصدیق و تحقیق کے گہری دوستی کا دم بھرتے اور ایک دوسرے سے ملنے چل نکلتے ہیں۔ ایسی کئی خبریں مَنْظَر ِعام پر آئی ہیں جن میں سوشل میڈیا کی دوستی کے دھوکے سامنے آئے ہیں جیسا کہ ماضی قریب ہی کی خبر ہے٭سوشل میڈیا پر دوستی کی اور ملنے کے بہانے بلا کر 65ہزار روپے اور موبائل فون چھین لیا۔(ڈیلی پاکستان، 5اپریل2018آن لائن)

سوشل میڈیا پر دوستیاں کرنے والوں میں ایک تعداد صنفِ نازک کی بھی ہے جو سوشل میڈیا پر نامحرموں سے دوستی کرتی ہیں۔ یادرکھئے! جس طرح دوستی کے بارے میں اچّھے بُرے کی تمیز لازمی ہے، اسی طرح مَحْرم و نامَحْرم کا فرق بھی ضَروری ہے۔ نامحرم سے دوستی ناجائز و حرام ہے۔ دنیا میں ایسے حقیقی حادثات کی کمی نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر نامحرم سے دوستی کی اور ملنے چل پڑے، بعد میں نقصان ہوا، گوہرِ عِصْمت بھی لُٹے اور سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ ملا جیسا کہ

٭ سوشل میڈیا پر دوستی کے بعد15سالہ لڑکی دوست سے ملنے ملتان پہنچ گئی، جہاں وہ لڑکا دھوکا دے کر فرار ہوگیا۔ (دنیانیوز 6اگست2018 آن لائن)

٭حافظ آباد کی لڑکی سوشل میڈیا پر دوستی کے بعد لڑکے سے ملنےکے لئے شجاع آباد پہنچ گئی، لڑکا اسے دوست کے گھر قید کرکے فرار ہوگیا، لڑکی نے شور مچایا تو اہلِ محلّہ نے دروازہ توڑ کرنکالا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔(نوائے وقت، 19فروری 2016 آن لائن)

٭کراچی کے 18 سالہ نوجوان کی منڈی بہاءُالدّین کی لڑکی سے سوشل میڈیا پر دوستی ہوگئی اور ملنے کے لئے منڈی بہاءُالدّین پہنچ گیا، وہاں لڑکی کے بھائی نے دوستوں کےساتھ مل کر اسے قتل کردیا اور لاش نہر میں پھینک دی۔ (نوائے وقت، 19فروری2016 آن لائن)

٭گوجرانوالہ کی ایک لڑکی نے سیالکوٹ کے 22سالہ نوجوان سے سوشل میڈیا پر دوستی کی، شادی کرکے بیرونِ ملک لے جانے کاوعدہ کیا، گھر بلایا، رقم لوٹی اور قتل کرکے لاش کھیتوں میں پھینک دی۔ (نیووَن، 19مارچ 2017 آن لائن)

خبردار!خبردار!خبردار! سوشل میڈیا کا اَنْجان دوست کیسا ہی دیندار اور خُدا تَرس بندہ بنا ہوا ہو اور دین کی کتنی ہی اچّھی اچّھی باتیں پوسٹ کرتا ہو، آپ چاہے مرد ہوں یا عورت کبھی بھی کسی بھی حالت میں اپنی نجی معلومات اس سے شیئر کرنے کی غَلَطی نہ کریں اور نہ ہی کسی پارک، ہوٹل یا ریسٹورنٹ وغیرہ میں اس سے ملنے کی غَلَطی کریں کیونکہ اس میں آپ کی عزّت، آبرو، مال اور جان جانے کا خطرہ ہے اور سوشل میڈیا پر بھیڑ کی کھال میں بھیڑیوں کی کمی نہیں ۔(ماخوذ از ماہنامہ فیضان مدینہ، ربیع الاول ۱۴40ھ نومبر/دسمبر 2018ء ،ص23)


حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا وہ سب سے افضل مقام ہے جہاں حضور علیہ السلام آرام فرما ہیں اس حجرہ مبارکہ پر پہلے کوئی گنبد نہ تھا چھت پر صرف نصف قد آدم ( یعنی آدھے انسان کے قد ) کے برابر چار دیواری تھی تاکہ اگر کوئی بھی کسی غرض سے مسجد النبوی الشریف کی چھت پر جائے اسے احساس رہے کہ وہ نہایت ہی ادب کے مقام پر ہے ۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ خلافت عباسیہ کی ابتدائی دور میں علما و صلحا حضرات کے مزارات پر گنبد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلسلہ بغداد، دمشق میں دینی شخصیات کے مزارات پر گنبد بنانا باقاعدہ حصہ بن گیا ۔

بغداد میں امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے مزار مبارک پر گنبد سلجوقی سلطان ملک شاہ نے پانچویں صدی میں تعمیر کروایا تھا اس طرح کی طرز تعمیر کو مصر میں خوب رواج ملا اور وہاں قلیل مدت میں بہت سے مزارات پر گنبد بن گئے پھر جب قلاوون خاندان کا دور آیا تو گنبد تمام مسلم علاقوں میں عام ہوچکا تھا ۔

( 1 ) سلطان قلاوون نے جب روضہ رسول ﷺ پر حاضری دی اس وقت پہلی مرتبہ گنبد بنانے کا فیصلہ کیا سلطان چونکہ مصر سے تھے اور یہ فن تعمیر وہاں بہت مقبول تھا سلطان نے مصری معماروں کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے اپنے ہنر کو کام میں لاتے ہوئے 678 ہجری بمطابق 1269 ء میں حجرہ مبارکہ پر سیسہ پلائے ہوئے لکڑی کے تختوں کی مدد سے خوبصورت گنبد بنایا ۔

پہلا گنبد تقریباً ایک صدی تک عاشقان رسول کی آنکھوں میں ٹھنڈک پہچاتا رہا پھر وقت گزرنے ساتھ ساتھ لکڑی کے تختوں میں سے چند ضعیف ہوگئے چنانچہ

( 2 ) سلطان ناصر بن قلاوون نے گنبد اقدس کی خدمت کی۔

( 3 ) بعد ازاں سلطان اشرف شعبان بن حسین بن محمد نے 765 ہجری میں خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی پھر ایک صدی گزری ہی ہوگی ۔

( 4 ) کہ اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ گنبد شریف اور پنچ گوشہ ( یہ وہ مقام ہے جہاں حضور علیہ السلام اور شیخین کریمین آرام فرما ہیں اسے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے تعمیر کروائی تھی ) احاطے کی تعمیر نو یا توسیع کی جائے سلطان اشرف قایتبائی نے اولاً اپنا ایک نمایندے کو اس کی تحقیقات پر مامور کیا نمایندے کی رپورٹ کے مطابق حجرہ مطہرہ کی دیواد کی خدمت ( بمعنی مرمت ) کی اشد حاجت محسوس ہوئی اور خاص طور پر پنج گوشہ شریف کی شرقی دیوار جس میں دراڑیں پڑنی شروع ہوگئی تھیں چنانچہ 14 شعبان المعظم 881 ہجری کو پنچ گوشہ کے متاثرہ حصے کو نکال لیا گیا ، ساتھ ہی حجرہ اقدس کی پرانی چھت بھی ہٹا لی گئی اور شرقی جانب تقریباً ایک تہائی حصے پر چھت ڈال دی گئی جس سے یہ ایک تہ خانے کی ماند نظر آنے لگا جب کہ باقی کے دو تہائی حصے پر چھت نہیں بنائی گئ بلکہ اس کے اوپر تینوں مبارک قبروں کے سرہانوں کی جانب منقش پتھروں سے ایک چھوٹا سا گنبد حجرہ اقدس پر تعمیر کردیا گیا اس پر سفید سنگ مرمر لگایا گیا اور پیتل کا ہلال نصب کردیا گیا مزید یہ کہ مسجد نبوی کی چھت کو مزید بلند کردیا گیا تاکہ یہ چھوٹا سا گنبد ہلال سمیت مسجد نبوی کی چھت کے نیچے آجائے پھر اس کے اوپر بڑے گنبد کی تعمیر نو کا کام 17 شعبان المعظم 881 ہجری کر شروع ہوا یہ کام دوماہ تک جاری رہا پھر 7 شوال المکرم 881 ہجری کو اختتام پر پہنچا پھر

( 5 ) 13 رمضان المبارک 886 ہجری مؤذن آذان کی غرض سے منارہ رئیسہ پر گئے اس وقت مائک وغیرہ کا کوئی سسٹم نہ تھا مطلع ابر آلود تھا اچانک بجلی منارہ رئیسہ پر گری مؤذن بھی شہید ہوگئے اور منارہ رئیسہ مسجد نبوی قدیم کی طرف جاپہنچا جس سے آگ لگ گئ ساتھ ہی گنبد کو بھی نقصان پہنچا جس سے کچھ ملبہ حجرہ اقدس میں حاضر ہوا فوری طور پر تعمیری خدمت تو کردی گئ مگر مکمل تفصیل سلطان قایتبائی کو 16 رمضان المبارک کو قاصر کے ذریعے آگاہ کیا گیا ۔

( 6 ) سلطان نے سو ( 100 ) معمار مصر سے روانہ کئے سلطان کے حکم سے جس گنبد کو نقصان پہنچا سے مکمل ہٹا دیا گیا اس کی جگہ 892 ہجری کو ایک نیا گنبد بنایا گیا جو صدیوں تک قائم رہا ۔

( 7 ) پھر عثمانی سلطان محمود بن سلطان عبدالحمید خان اول نے قایتبائی سلطان کا بنایا ہوا گنبد شہید کروا کر از سر نو 1233 ہجری بمطابق 1818 ء کو نیا گنبد تعمیر کروایا۔

گنبد خضراء پر رنگوں کی تاریخ

( 1 ) سب سے پہلا گنبد 678 ہجری بمطابق 1269 ء کو تعمیر ہوا جس پر زرد رنگ کروایا گیا تھاجس سے یہ" قبۃالصفراء " سے مشہور ہوا ۔

( 2 ) پھر 888 ہجری بمطابق 1483 کو کالے پتھر لگادئیے گئے پھر اسے سفید رنگ سے رنگ دیا گیا پھر یہ " قبۃ البیضاء " یعنی سفید گنبد کہلانے لگا ۔

( 3 ) 980 ہجری بمطابق 1572 ء میں انتہائی حسین گنبد بنایاگیا اس کو رنگ برنگے پتھروں سے سجایا گیا تھا شاید میناکاری کا کام تھا جس سے دلکش و جاذب منظر کے سبب " رنگ برنگا گنبد " کہلانے لگا ۔

( 4 ) 1253 ہجری بمطابق 1873ء کو عثمانی سلطان محمود بن سلطان عبدالحمید خان اول نے اسے سبز رنگ کروا دیا اسی باعث اسے " گنبد خضراء " (یعنی سبز گنبد ) کہتے ہیں۔

جو انتہائی دل فریب دلکش ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گا ۔

( حوالہ جات: ملخصاً از فیضان سنت ، ملخصاً از عاشقان رسول کی 130 حکایات)

از قلم :مولانا احمد رضا مغل عطاری مدنی

متخصص فی الحدیث عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی

21 ۔ 8 ۔ 3 ،بروز منگل


ہر دل عزیز بننے کی 11ٹِپس

Mon, 3 Jan , 2022
2 years ago

کسی کا دل جیتنے کے لیے اخلاص ، اچھے اخلاق اور اعلیٰ  کردار کا مالِک ہونا ضروری ہے ۔ اِن چیزوں کے ذَریعے سامنے والے کا دِل جیت کر اسے مُتأثر کیا جا سکتا ہے ۔ یاد رکھیے ! کسی کو متأثر کرنے کا مقصد اس سے اپنی ذات کے لیے مَنافِع حاصِل کرنا نہ ہو بلکہ رِضائے الٰہی کے لیے اسے دِینِ اِسلام سے قریب کرنا مقصود ہو ۔ دینِ اسلام نے ہمیں ایسے اُصول بتائے ہیں جن پر عمل کرکے ہم دوسروں کو متأثر کر کے اسلامی ماحول سے وابستہ کر کے دِینِ اِسلام کے قریب کر سکتے ہیں ۔ چند اُصول پیشِ خدمت ہیں :

(1)نیک اعمال کیجئے

اگر آپ لوگوں کا دل جیتنا چاہتے ہیں تو اللہ پاک کی رضاوخوشنودی کیلئے گناہوں سے بچتےہوئے خوب خوب نیکیاں کیجئے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نیکیاں کرنے والے شخص کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا فرما دیتاہے چنانچہ فرمانِ خداوندی ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا(۹۶)

ترجمہ: کنزالایمانبےشک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ان کے لیے رحمٰن محبت کردے گا

بندۂ مؤمن کی محبت کس طرح لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے اس کے لیے حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیے چنانچہ

سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’جب اللہ کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو حضرت جبریل سے فرماتا ہے میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو،پس جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام بھی اس سے محبت فرماتے ہیں اور آسمانوں میں اعلان فرمادیتے ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فلاں سے محبت فرماتا ہے،آپ سب بھی اس سے محبت کریں، چنانچہ تمام فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر زمین میں اس کی مقبولیت پھیلادی جاتی ہے۔ (یعنی لوگوں کے دلوں میں اس کی مقبولیت و محبت ڈال دی جاتی ہے)‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب المقة من اللہ تعالی،۴/۱۱۰، حدیث:۶۰۴۰)

(2) لوگوں کو خوشی پہنچائیے

دل جیتنے کا ایک کامیاب ترین نسخہ دوسروں کو خوشی و راحت پہنچانا بھی ہے۔ کسی کی تکلیف دور کرنا، بھوکے کو کھانا کھلا دینا، کسی کی مالی مدد کردینا دوسروں کے دلوں میں خوشی داخل کرنے اور ان کے دلوں میں جگہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ اعمال اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو بھی بہت محبوب ہیں ۔ حدیثِ پاک میں ہے: ”اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال یہ ہیں کہ تم کسی مسلمان کو خوشی پہنچاؤ ، یا اس سے تکلیف دور کردو یا اس کی طرف سے قرض ادا کرو یا تم اس سے بھوک مٹا دو۔ (معجم كبير، عبداللہ بن عمر بن خطاب، ۱۲/۳۴۶، حدیث:۱۳۶۴۶)

(3)دوسروں کی قدر کیجئے

یہ فطری بات ہے کہ انسان دوسروں کو اپنى قدرو قىمت کا احساس دلانا چاہتا ہےاور جو کوئی اس کی قدر کرتااور اسے اہمیت دیتا ہے انسان اسی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اگر ہم ملنے والے ہر شخص کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کی خوشی اپنی خوشی اور اس کے غم کو اپنا غم سمجھیں تو اس طرح اس کے دل مىں ہماری عزت و محبت بڑھے گى، چونکہ ہمارا مدنی مقصد معاشرے کو سنتوں کا گہوارا اور لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا سچا عاشق بنانا ہے لہٰذا اس مدنی مقصد کو پروان چڑھانے کیلئے انسانی فطرت کے اس تقاضے کو پورا کرنا فائدے مندہوگا۔حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں حاضر ہوتا اور مصافحہ کرتا تو آپ اس کے ہاتھ جدا کرنے سے پہلے اپنا ہاتھ مُبارک جدا نہ فرماتے تھے اور آپ کسی سے اپنی توجہ نہ ہٹاتے تھے جب تک کہ وہ خود رخصت نہ ہوجاتا۔(ترمذی، كتاب صفة القيامةوالرقائق..الخ، باب ماجاء في صفة اواني الحوض،۴/۲۲۱، حدیث:۲۴۹۸)

(4) حاکم نہیں، خیر خواہ بنئے

نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا یقیناً بہت بڑی سعادت ہےلہٰذا اس موقع پر کسی کو نصىحت کرتے وقت ہمارا لہجہ حاکمانہ نہیں ہونا چاہىے۔ مثلاً ”تم نماز نہیں پڑھتے ، کوئی خوف خدا نہیں ہے ، خدا سے ڈرو ، کیوں عذابِ الہی کا حقدار بننا چاہتے ہو وغیرہ وغیرہ “ سخت جملے بولنے کی بجائے شفقت و محبت بھرے انداز میں سمجھایا جائے تو سامنے والے کے دل میں ہماری محبت پیدا ہوگی اور ہماری کہی ہوئی بات میں بھی اثر ہوگا ۔

(5)برائى کا بدلہ اچھائى سے دیجئے

ہم جس سے مسکرا کرملیں توضروری نہیں کہ سامنے والا بھی خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کرے، ممکن ہے کہ مخاطب ہماری مسکراہٹ کو طنز سمجھ کرغصے میں آجائے اور یوں کہہ دے کہ ”آپ مجھے دیکھ کر ہنستے کیوں ہیں ؟“ایسے موقع پر بداخلاقی سے جواب دینے کے بجائے صبر کیجئے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: ’’وہ مؤمن جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور اُن کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرتا ہے ،اُس مؤمن سے افضل ہے جو لوگوں سے میل جول نہیں رکھتا اوراُن کے تکلیف پہنچا نے پرصبر نہیں کرتا۔‘‘ (ابن ماجہ ، کتاب الفتن ، باب الصبر علی البلاء ،۴/۳۷۵، حدیث:۴۰۳۲)

(6)طبیعت و نفسیات کے مطابق گفتگوکیجئے

ہمارا مقصد نیکی کی دعوت عام کرنا ہے تو اس کےلیے ہمیں باہمی تعلقات و معاملات میں اس بات کا لحاظ رکھنا بہت ضرورى ہے کہ ہمارا اندازِ کلام، الفاظ اور جملوں کا چناؤ مخاطب کے مزاج اور عقل و شعور کے مطابق ہو جیسا کہ کہا جاتا ہے: ”کَلِّمِ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ یعنی لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کرو۔“ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الفتن، باب العلامات بین یدی الساعۃ۔۔الخ، الفصل الاول،۹/۳۷۳، تحتَ الحدیث:۵۴۷۱)

ہمارا ملنا جلنا مختلف لوگوں سے ہوتا ہے مثلاً طالب علم ، استاذ، وکیل ، ڈاکٹر ، فوجی افسر، کاروباری شخص ، ملازمت پیشہ وغیرہ، پھران میں کوئی جوان ہو تا ہے تو کوئی بوڑھا، اسی طرح ہر کسی کی گفتگو، لباس، رہن سہن اور سوچ کا انداز جداگانہ ہوتا ہے ، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہر ایک سے اس کی طبیعت کے مطابق گفتگو کریں۔ لہذا ا َنْ پڑھ کے سامنے مشکل الفاظ میں گفتگو کرنا اور پڑھے لکھے کے سامنے بے ربط جملے بولنا دل جیتنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔

(7)دل جوئی کی عادت بنائیے

دل جوئی کرنا اور کسی کی حمایت و سچی تعریف میں چند جملے بول دینا دل جیتنے کا کامیاب طریقہ ہے۔ اگر ہم دل جیتنا چاہتے ہیں تو لوگوں سے اىسا طرزِ عمل اختىار کریں کیونکہ دل جوئی نیکی کی دعوت کو کارگر بنانے میں اہم کردار اداکرتی ہے۔اگر ہم کسی کی دل جوئی کریں،مصیبت زدہ کے کام آئیں ،پریشانی میں کسی کاسہارا بنیں ، مشکل وقت میں کسی کی حاجت روائی کریں تو یقیناًاللہ کریم ایسے مسلمان کو بھی بےشمار برکتیں عطافرمائےگا۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: بے شک مغفرت کو واجب کر دینے والی چیزوں میں سے تیرا اپنے مسلمان بھائی کا دل خوش کرنا بھی ہے۔ (معجم اوسط، ۶/۱۲۹،حدیث:۸۲۴۵)

(8)دوسروں کو دعائیں دیجئے

انسانی فطرت ہے کہ بندہ ایسے شخص سے محبت کرنے لگتا ہے جو اس کی خیرخواہی کی باتیں کرے۔ لوگ عام طور پر اپنے لىے دعائىہ کلمات پسند کرتے ہىں۔ ہمیں بھی اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ دعا دینے کی عادت بنانی چاہیے ۔ کسی بھی اسلامی بھائی سے ملاقات کرتے وقت پہلے سلام کرنا، ان کا حال احوال پوچھنااور دعائیں دینا مثلاً اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کو خوش رکھے ، آپ کى زندگى مىں برکت دے ، علم و عمل میں اضافہ فرمائے ،بچوں کو آپ کى آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے ، انہیں آپ کا فرمانبردار اور آپ کا نام روشن کرنے والابنائے وغىرہ۔

(9)سنجیدگی کا دامن تھامے رکھئے

کسی کا دل جیتنے کیلئے سنجیدگی کو اپنے مزاج کا حصہ بنائیے اور مذاق مسخری کی عادت سے پرہیز کیجئے ، لیکن یاد رہے کہ رونی صورت بنا ئے رکھنے کا نام سنجیدگی نہیں اور نہ ہی بقدرِ ضرورت گفتگو کرنا یا کبھی کبھار مزاح کرلینااور مسکرانا سنجیدگی کے منافی ہے ۔ ہاں ! کثرت ِ مزاح اور زیادہ ہنسنے سے پرہیز کریں کہ اس سے وقار جاتا رہتا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’ جو شخص زیادہ ہنستا ہے ، اس کا دبدبہ اور رعب چلا جاتا ہے اور جو آدمی(کثرت سے ) مزاح کرتا ہے وہ دوسروں کی نظروں سے گر جاتا ہے ۔ ‘‘(احیاء العلوم ج ۳، ص۲۸۳ )

(10)سخاوت کیجئے

سخاوت بھی ایک عظیم وصف ہے جو دلوں کوقریب اور محبت کو عام کرتا ہے۔ نبی رحمت، شفیع امت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا دریائے جُود ہر وقت رواں رہتا ،چنانچہ حضرت سیّدنا جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہسے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے جب بھی کچھ مانگا گیا ،آپ نے منع نہ فرمایا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخاء ومایکرہ من البخل،۴/۱۰۹، حدیث:۶۰۳۴)حضرت سیّدنا انس رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : ” جب بھی نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اسلا م کے نام پر سوال کیا گیا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ضرورعطافرمایا ۔ایک مرتبہ ایک شخص آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں آیاتو سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اسے دو پہاڑوں کے درمیان کی بکریا ں عطا فرمائیں۔ وہ اپنی قوم کی طرف پلٹا اور جا کر کہا: اے میری قوم ! اسلام لے آؤ، کیونکہ محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اتنا عطا فرماتے ہیں کہ فاقے کا خوف نہیں رہتا۔“(مسلم، کتاب الفضائل، بَاب مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ۔۔الخ، ص۱۲۶۵، حدیث:۲۳۱۲)

(11)خوش لباسی اپنائیے

کسی کے دل میں جگہ بنانے کیلئے صفائی ستھرائی اور خوش لباسی کا بھی خاصہ کردار ہے چنانچہ ہمیں چاہئے کہ سنّت کے مطابق سادہ اور صاف ستھرا لباس پہننے کی عادت اپنائیں کیونکہ اگر ہمارے کپڑے میلے کچیلے نظر آئیں گے تو لوگ ملنے سے کترائیں گے ۔خوش لباسی سے ہمیں تنظیمی فوائد کے ساتھ ساتھ درج ذیل برکتیں بھی نصیب ہوں گی اِنْ شَآءَاللہعَزَّ وَجَلَّ

سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ”اللہ عَزَّ وَجَلَّ پاک ہے پاکی پسند فرماتا ہے ظاہر باطن ستھرا ہے ستھرا پن پسندکرتا ہے۔“( ترمذی، کتاب الادب، باب ماجاء فی النظافۃ، ۴/۳۶۵، حدیث: ۲۸۰۸)

مدنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ یعنی پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ “( مسلم، کتاب الطھارۃ، باب فضل الوضوء، ص۱۴۰، حدیث: ۲۲۳)

(از:مولانافرمان علی عطاری مدنی)


تفسیر،حدیث اور فقہ  کی طرح تصوّف بھی اسلامی علوم میں شامل ہےیہی وجہ ہے کہ دیگرعلوم کی طرح علمِ تصوف کو حاصل کرنے کے لیے بھی شیخِ کامل کی بارگا ہ میں حاضری دی جاتی ہے اوران کی صحبت میں رہ کراس کےحصول میں آنے والی دشواریوں کو عبور کیا جاتاہے۔چونکہ مشائخ کرام رَحِمَھُمُ اللہ السَّلام اپنےملفوظات میں لوگوں کا ظاہری و باطنی علاج اوراللہ پاک کی بارگاہ میں درجۂ قبولیت پانےکےنسخے تجویز کرتے ہیں اس لیے نصابِ تصوف میں ”ملفوظات “ کو نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ملفوظات پر مشتمل کتب سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے اِن اُصولوں کو پیشِ نظر رکھئے :(1)یہ یقین کرلیجئے کہ”ملفوظات“ پر مشتمل کتاب میں واقعی انہی بزرگ کے اقوال ہیں یااُن سے منسوب ہے؟یاد رکھئے!غیر مستند ،جعلی اور غیرمحقَّق نسخے کاانتخاب آپ کواولیائے کرام رَحِمَھُمُ اللہ السَّلام سے بدظن اور قلبی اضطراب میں مبتلا کرسکتا ہے۔(2)”ملفوظات “زبا ن و بیان کی بے ساختگی اور عام فہم اسلوب کی بناء پر عوام و خواص میں مقبول رہے ہیں اور اِ ن کی ایک سے زائد نقلیں بھی تیار ہوتی رہی ہیں جس کی وجہ سے غلطیوں کا راہ پاجانا بعیداِز امکان نہیں لہٰذااگرکوئی ملفوظات میں خلافِ شریعت بات دیکھیں تو صاحبِ ملفوظ یا مرتّب سے بدگمان ہونے کے بجائےاِسے ناقلین کی بے توجہی یاتحریف و الحاق تصورکیجئے ۔ (3)بسااوقات ایسے”ملفوظات “بھی نظرسے گزریں گےجو بظاہرسخت معلوم ہوں گے،ایسے موقعے پریوں ذہن بنائیے کہ اِن ملفوظات کے ایسے معنی نکلتے ہوں گے جس تک ہمارے فہم کی رسائی (سمجھنے کی صلاحیت)نہیں یا یہ ملفوظ ایسی کیفیت اور غلبہ حال میں ادا ہو ا ہوگا کہ جس میں شرعی احکامات لاگو ہی نہیں ہوتے ۔(4)دیگر علوم کی طرح تصوف کی بھی اپنی اصطلاحات ہیں جن کا استعمال ملفوظات میں جا بجا کیا جاتا ہےلہٰذا اُن اصطلاحات سے آگاہی آپ کو معنیٔ مراد تک پہنچانے میں نہایت معاون ثابت ہوگی۔(5)ملفوظات میں جابجا باطن سےمتعلق احکامات بیان ہوتے ہیں جس میں بعض فرض، بعض واجب،بعض مستحب، بعض ناجائز و حرام اوربعض مکروہ ہوتے ہیں لہٰذا اسلوبِ کلام سے عدم واقفیت ”استنباطِ احکام “میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، جس کی وجہ سے فرض کو مستحب اور حرام کو مکروہ سمجھنے کا امکان باقی رہتا ہے اوریہ صورت بسااوقات بے عملی اور بعض دفعہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بن جاتی ہے ۔اسی لیے ان احکامات کو سمجھنے اور طریق ِ استنباط جاننے کے لیے برسوں مشائخ کرام رحمہم اللہ السلام کی صحبت میں حاضری دینا ضروری ہے ،فقط چندکتب ِّ تصوف کے مطالعے سے یہ ملکہ (صلاحیت)پیدا ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے ۔(6)مشائخِ کرام در اصل روحانی طبیب ہیں اور مرض دیکھ کر دوا تجویز فرماتے ہیں لہٰذا اگرکسی بزرگ کے الگ الگ نوعیت کے ملفوظات نظر سے گزریں تو ایسی صورت میں انہیں متضاد سمجھنے کے بجائے ایک مرض کی دو دوائیں یاجداجدا طریقہ ٔ علاج تصور کیجیے ۔

ان چھ اصولوں کی روشنی میں بزرگوں کے”ملفوظات“کامطالعہ کیا جائےتو اللہ پاک کی رحمت سے یہ اصول علم و معرفت کے شائقین کے لیے تسکینِ ذوق اورعقل پرستوں (Rationalists) کے لیے ہدایت و رہنمائی کے اسباب ثابت ہوں گے ۔

تحریر: مولاناناصرجمال عطاری مدنی

اسکالرالمدینۃ العلمیہ( اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی )


جیت کا درد

Thu, 30 Dec , 2021
2 years ago

زندگی کے اس طویل سفر میں انسان گر جاتا ہے ، بکھرجاتا ہے ، ٹوٹ جاتا ہے، گھبرا جاتا ہے، ہار جاتا ہے، شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسی راتیں آتی ہیں جس میں انسان کو اپنی باتیں سنائی نہیں دیتی، زمین پر نہ کوئی سہارا نہ ہی کسی قسم کا کسی پر اعتماد رہتا ہے، اور کہتے ہیں کہ انسان کا سایہ بھی ساتھ دینا چھوڑ دیتا  ہے، اوپر سے ہم لوگوں کے ساتھ خوش رہنے کی آرزو کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا دل اندر سے ہر لمحے کو جانتا ہے، اور ہر گزرتی ہوئی گھڑی اندر سے توڑ رہی ہوتی ہے۔ یہ غم ، یہ تکلیف، یہ درد، ہر انسان اس سے گزرتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں شکست آتی ہے اور ایسے الفاظ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جو انسان کی روح اور اس کے دل کو مسمار کر دیتے ہیں۔ لوگوں کی ایسی کڑوی باتیں جو انسان کو جیتے جی قبر میں اتار دیتی ہیں۔ مگر حقیقت میں انسان کامل اس وقت ہوا ہے جب انسان گر کر کھڑا ہوا ہے۔ جب اس میں ہمت اور حوصلہ کو پکڑا ہواہے۔ جب اس میں اندھیروں میں اس روشنی کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے

زمیں پر بیٹھ کر کیا آسمان دیکھتا ہے

اور جب انسان نے اپنے سے مشکل الفاظ کہے کہ میں کر سکتا ہوں ، یہ ناممکن نہیں۔

خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں

وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہوگا

کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے

اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا

اور جب انسان خود سے کہے کہ میری امید ابھی بھی باقی ہے، میری روح چل رہی ہے ،

امید آپ کو کبھی چھوڑ کر نہیں جاتی بس آپ ہی امید کو چھوڑ دیتے ہیں

اور جب انسان اپنے آپ سے کہے کہ اس دنیا کا خدا کل بھی تھا ، اور آج بھی ہے ، اور ہمیشہ رہے گا۔

بہت حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے

زندگی ادھر آجا ہم تجھے گزاریں گے

بنا ٹھوکر کے انسان چمک نہیں سکتا

جو چمکے گا اسی دیے میں تو اجالا ہوگا

جو سو بار بھی گِر کر اٹھنے کی ہمت رکھتا ہے اسے کون گرائے گا ؟جو کبھی ہار نہیں مانتا اسے کون ہرائے گا ؟انسان طاقتور اپنے حوصلے سے بنتا ہے نہ کہ جسم سے ورنہ جنگل کا بادشاہ شیر کے بجائے ہاتھ ہوتا۔

خوشی کے لئے کام کرو گے تو خوشی نہیں ملے گی ,خوش ہو کر کام کرو گے تو خوشی ملے گی

کچھ نہیں ملتا دنیا میں محنت کے بغیراپنا سایہ بھی مجھے دھوپ میں آنے کے بغیر نہیں ملتا

کامیابی تو صبح کی جیسی ہوتی ہے یہ مانگنے سے نہیں جاگنے سے ملتی ہے۔

ہمیشہ یاد رکھیں! کامیابی حاصل کرنے کے لیے آپ کو اکیلے ہی آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ لوگ آپ کے ساتھ تب آتے ہیں جب آپ کامیاب ہو جاتے ہیں۔

جن میں اکیلے چلنے کا حوصلہ ہوتا ہے ایک دن ان کے پیچھے ہی قافلہ ہوتا ہےاگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تو یہ مت ڈھونڈو کہ لوگ کامیاب کیسے ہوئے،بلکہ یہ معلوم کرو کہ جب وہ ناکام ہوئے تب انہوں نے کیا کیا ؟کیونکہ اصل سبق ان کی کامیابی سے نہیں بلکہ ناکامی سے ملے گا آخر میں بس اتنا کہوں گا کہانسان اپنے آپ کو اس شعر کا مصداق بنا دے۔

وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے

جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے

مضمون نگار: ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری


چڑھتے سورج کو سلام! 

Thu, 30 Dec , 2021
2 years ago

  معاشرے میں پائی جانے والی بعض خرابیاں تو ایسی ہوتی ہیں،جن پر معمولی سی توجہ کرنےسےان کی پہچان اور نشاندہی ہوجاتی ہے۔لیکن کچھ امور ایسے بھی ہیں جن کی طرف بسا اوقات اچھوں اچھوں کی توجہ نہیں ہوتی۔

معاشرے کے راہ و رسم ہوں یا کسی انسان کا زاویہ نظر اور مزاج ،جب تک یہ(شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے) اعتدال میں ہوں تو محمود و خوب ہوتے ہیں،ورنہ افراط و تفریط کی روش اختیار کرنا انہیں مذموم اور باعث عیب بنا دیتا ہے۔

کسی بھی فن اور فیلڈ میں باصلاحیت اور اہل افراد کی پہچان کرنا بڑا اہم اور دشوار کام ہے۔ معاشرے کی فلاح وبہبود اور ترقی کیلئے یہ معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ قابل اور اہل افراد ہی کو آگے بڑھایا جائے اور ان سے ان کی استعداد و قابلیت کے مطابق کام لیا جائے۔

مگر افسوس! معاشرے میں پائے جانے والےافراد کی ایک تعداد ہے جو بھیڑ چال (اندھی تقلید) کو اپنے مزاج کا حصہ بنائے ہوئی نظر آتی ہے اور " چڑھتے سورج کو سلام " والی روش کو اپنائے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔

جو شخص بھی(کسے باشد) عوام الناس کی نظر میں کسی بھی فن یا فیلڈ کے اعتبار سے مشہور ہوگیا،بس پھر (اس کے نااہل ہونے کے باوجود)اسی کے گیت گائے جانا،اسی کو پروموٹ کئے جانا اور قابل افراد کو یکسر فراموش کردینا بعض لوگوں کی طبیعت کا حصہ بنتا چلا جا رہا ہے۔

خدارا ! ملک و ملت کی فلاح و ترقی کے وسیع تر مفاد میں معتدل رویہ و مزاج اختیار کرتے ہوئے ہر ہر معاملے اور فلیڈ میں صرف اہل اور قابل افراد ہی کی حوصلہ افزائی کیجئے اور انہیں ہی میدان عمل میں اپنی کارکردگی پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔

اللہ کرے دل میں اتر جائے میری بات...!

از: ابو الحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی

4جنوری2021,بروز پیر۔


علم دین اور خواتین

Tue, 28 Dec , 2021
2 years ago

ایک باشعور معاشرہ بنانے کیلئے تعلیم بے حد ضروری ہے۔ اس کے حصول کیلئے عمر کی قید وشرط سے آزاد ہوکر ایک کم سِن بچے بلکہ سو سال کےبوڑھے کو بھی زیورِ علم سے آراستہ ہونا چاہیے۔ تعلیم کی ضرورت واہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اللہ پاک نے اس کے پہلے ہی لفظ میں حصولِ علم کا حکم دیتے ہوئے ارشادفرمایا : اقراء (پڑھو) یعنی علم حاصل کرو۔ اگر ہم اس حکمِ قرآنی پر عمل نہ کریں تو نتیجۃً ہمارے معاشرے میں جہالت وگمراہی اور بے راہ روی جیسی بُرائیاں جنم لیں گی، جس سے ہمارا خاندانی ، معاشی ، معاشرتی، دینی اور دنیوی نظام تباہ وبرباد ہوسکتا ہے۔

علم کی اہمیت وافادیت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے اپنی ساری مخلوق میں سے انسان کو عزت و شرافت کا تاج پہناکراسے ممتاز فرمایا اور ان میں بھی ایک دوسرے پر نمایاں فضیلت دینے کیلئے ”علم“ کو معیار قرار دیا ہے جیساکہ فرمانِ خُداوندی ہے :اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پارہ، 28المجادلہ:11) حضرت حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے اس آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا:اے لوگو!اس آیت کو سمجھو اور علم حاصل کرنے کی طرف راغب ہو جاؤ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ مومن عالِم کو اس مومن سے بلند درجات عطا فرمائے گاجو عالِم نہیں ہے۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: 11، 4/258)

دورِ نبوی میں تعلیم نسواں کا اہتمام: فی زمانہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی اپنی ضرورت کے مسائل سیکھنے چاہئیں۔  دورِ نبوی میں جہاں صحابۂ کرام اپنی علمی پیاس بجھانے کیلئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتے وہیں صحابیات کا شوقِ علم بھی دیدنی ہوا کرتا تھا، ایک عورت نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکرعرض کی:مرد حضرات تو آپ کی بارگا ہ میں حاضری دے کرآپ کے ارشادات سن لیتے ہیں،ہمیں بھی ایک دن عطا فرمادیں جس میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیں وہ کچھ سکھائیں جو اللہ پاک نے آپ کو سکھایا ہے ۔ ارشاد فرمایا: تم فلاں دن فلاں مقام پر جمع ہوجایا کرو۔ چنانچہ وہ عورتیں جمع ہوگئیں۔ رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اللہ پاک کے سکھائے ہوئے (احکامات) میں سے کچھ سکھایا۔ (بخاری،4/ 510، حدیث: 7310)اسی طرح ایک موقع پر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے تعلیمِ نسواں کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:جس کی ایک بیٹی ہو وہ اسے اچھے آداب سکھائے ، اچھی تعلیم دلائے اور جونعمتیں اللہ پاک نے اسے دی ہیں ان میں سے خوب خرچ کرے تو یہ بیٹی اس کیلئےجہنم سے رُکاوٹ بن جائے گی ۔(معجم کبیر،10/197، حدیث10447)

مسلمان خواتین کے علمی کارنامے:اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتینِ اسلام عبادت وریاضت کے ساتھ ساتھ علمِ حدیث وتفسیر، درس وتدیس، وعظ وتقریر کے ذریعے اپنی خدمات سرانجام دے کر علمی مقام میں کئی مردوں سے ممتاز قرار پائیں۔

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کا شمار بھی انہی خواتین میں ہوتاہے ۔ یوں تو تمام اَزواجِ مطہرات ہی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت بابرکت سے علم وفضل والی تھیں مگر حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کو ان تمام پر علمی برتری حاصل ہے ۔حضرت سیِّدُنا عُرْوَہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فرماتے ہیں: میں نے لوگوں میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا سےبڑھ کرکسی کوقرآن،میراث،حلال و حرام، اشعار، عربوں کی رِوایات اورحسب ونسب کا عالِم نہیں دیکھا۔(حلیۃ الاولیاء، 2/60، رقم:1482) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کا شمار فقہی مسائل میں زبر دست مہارت رکھنے والے صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں ہوتا ہے نیز جن چھ (6) صحابۂ کرام نے سب سے زیادہ احادیثِ مُبارَکہ روایت کی ہیں اُن میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا بھی شامل ہیں کہ جن سے 2210 احادیثِ مُبارَکہ مروی ہیں۔(عمدۃ القاری، 1/72)اسی طرح اُمُّ المومنین حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کوبھی علمِ فقہ میں خاصی مَہارت حاصل تھی،آپ کا شمار فقیہ صحابیات میں ہوتا تھا۔(سیر اعلام النبلاء، 3/475)نیز شرعی مُعاملات میں آپ کی طرف رُجو ع کیا جاتاتھا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا عابِدہ،زاہدہ،نِہایت عقلمنداورفَہْم وفِراست جیسی عمدہ صفات کی حامِل خاتون تھیں۔(الاصابہ،8/406، ملخصاً)

صحابیات اور تابعیات میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے قرآن وحدیث کے علوم میں بڑا مقام پایا اوراس کی نشر و اشاعت میں بڑھ چڑھ کراپنا کردار ادا کیا ،ان عالی مرتبہ خواتین کے علمی فیضان سےامتِ مسلمہ نے خوب استفادہ کیا۔

حضرتِ حفصہ بنت سیرین : امام حضرت محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی بہن اور مشہور تابعیہ ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہَا نے بارہ سال کی عمر میں قرآنِ مجید پڑھ لیا تھا۔(تہذیب التہذیب، 10/464)علمِ تجوید وقراء ت میں آپ کو وہ مقام اور مہارت حاصل تھی کہ آپ کے بھائی حضرت محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو جب قرآنِ پاک کی قراءت سے متعلق کوئی مشکل پیش آتی تو اپنے شاگردوں سے کہتے کہ جاؤ اور حفصہ سے پوچھ کر آؤ وہ کیسے پڑھتی ہیں ۔(صفۃ الصفوہ، 2/الجزء الرابع21)اسی طرح آپ نے علمِ حدیث کی ترویج واشاعت میں بھی اپنا کردار ادا کیا ۔ اور صحابہ وتابعینِ عظام سےکئی احادیثِ مبارکہ روایت کیں جن میں حضرت سیدنا انس بن مالک اور حضرت سیدتنا اُمِّ عطیہ انصاریہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُما وغیرہ شامل ہیں نیز ان سےجن افرادنے روایات نقل فرمائیں ان میں حضرت اِبنِ عون، خالد، قتادہ، ہشام بن حسان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ وغیرہ شامل ہیں۔حضرت امام یحیٰ بن معین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ جو احادیثِ مبارکہ کے صحیح اور ضعیف ہونے کے علم میں ماہر تھے انہوں نے حضرت حفصہ کو ثقہ قرار دیا ہے۔حضرت ایاس بن معاویہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں نےحفصہ سے افضل کسی کو نہیں پایا۔(تہذیب التہذیب: 10/463،464)

فاطمہ بنت محمد بن احمدسمرقَنْدِیہ:خواتینِ اسلام کی ایک اورممتاز شخصیت فاطمہ بنتِ محمد بھی ہیں جو بہت بڑی عالمہ اور فقیہہ خاتون تھیں ۔آپ نے علمِ فقہ کی تعلیم اپنے والد حضرت امام محمد بن احمد سمرقندی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے حاصل کی جو مشہورمحدث اور فقیہ تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہا کو اپنے والدِ گرامی کی لکھی ہوئی کتاب ”تحفۃ الفقہاء“مکمل یادتھی۔ان کی فقہی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جب ان کے شوہر صاحبِ بدائع الصنائع ،ملکُ العلماء حضرت علامہ علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کوفتویٰ دیتے وقت کسی علمی مسئلے میں دشواری پیش آتی توحضرت فاطمہ اس مسئلے کاحل پیش کردیتیں اور وہ ان کی بات مان لیا کرتے تھے ،اسی وجہ سے ان کے شوہر احترام وتعظیم کرتے تھے ۔(الجوہر المضیہ، 2/278)

حضرت نفیسہ بنت حسن: یہ حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ کی اولاد سے ہیںآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہا پرہیزگاراورصالحہ ہونےکے ساتھ ساتھ قرآنِ پاک کی حافظہ اورتفسیر وحدیث کی عالمہ بھی تھیں۔ آپ کی بھتیجی حضرت زینبرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہا فرماتی ہیں کہ میری پھوپھی جان قرآن کی تلاوت کرتے وقت رویا کرتی تھیں، آپ کی علمی شہرت کی وجہ سے ایک بہت بڑی تعداد آپ سے علم دین حاصل کرتی تھی۔( الاعلام،8/ 44، نورالابصار، ص207)

اسلامی تاریخ میں ایسی کئی عظیم خواتین کےعلمی کارناموں کا ذکر ملتاہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دور میں خواتین کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت اہتمام کیا جاتاتھا۔

لڑکیوں کو کیا سکھائیں ؟:اولاد بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم وتربیت والدین کی اہم ذمہ داری ہے ،اگر انہیں بچپن ہی سے دینی ماحول فراہم کیا جائے تو ایسی بیٹیاں نیک پرہیز گار ،والدین کی فرمانبردار اور پاکیزہ کردار کی حامل بن کر خاندان اور شادی کے بعد سسرال میں ماں باپ کی عزت رکھتی ہیں اور اگراس نازک دور میں اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت نہ کی جائے توجوانی میں یہی بیٹیاں ماں باپ کیلئے باعثِ عار بن سکتی ہیں۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اس انتظار میں نہ بیٹھیں کہ ابھی تو میری بیٹی بہت چھوٹی ہے کچھ سمجھدار ہوجائے تو تربیت کریں گے۔ یادرکھئے! بچوں کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کو بہتر بنانے کیلئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ،جواچھی یا بری بات چھوٹی عمر میں بچہ سیکھ لیتا ہے وہ اس کے ذہن میں زندگی بھر کیلئے راسخ ہوجاتی ہےجیساکہ حدیثِ پاک میں ہے:بچپن میں علم حاصل کرنا پتھر پر لکیر کی طرح (پختہ)ہوتا ہے۔(مجمع الزوائد،1/333، حدیث:515)

یادرکھئے! ایک دن کی بچی سے لے کرجوانی تک ماں باپ کی تربیت کی ضرورت رہتی ہے۔آئیے!اس بارے میں چند کارآمد مدنی پھول ملاحظہ فرمائیے :

(1) نومولودبچی کے سامنے بار بار ذِکْرُ اللہ کیجئے تاکہ جب وہ بولے تواس کی زبان سے ادا ہونے والاپہلا لفظ ”اللہ “ ہو اور پھر آہستہ آہستہ کلمہ طیبہ سکھائیے۔حضرتِ سیدنا ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُماسے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:اپنے بچوں کی زبان سے سب سے پہلے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہلواؤ۔( شعب الایمان ،6/397، حدیث: 8649)

(2)جب بچی روئے تو اسے چپ کروانے کیلئے میوزک یا موبائل پر کہانیاں وغیرہ سنا کربہلانے کے بجائے قرآنِ پاک کی تلاوت اور حمد ونعت سنائیے تاکہ بچی کے دل میں ان چیزوں سے انسیت پیدا ہو اور بڑی ہوکر بھی ان میں رغبت باقی رہے ۔

(3) ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے شرعی احکام کی پاسداری ویسے بھی ہم پر لازم ہے مگربچی کوسکھانے کی نیت سے شرعی احکامات کی ادائیگی کرتے رہیے ،نماز وروزے اور ذکرو درود کی کثرت کیجئے،اچھے اخلاق وعادات اپنائیے کہ ماں باپ کی دیکھا دیکھی بچی کے دل میں بھی ان کاموں کاشوق پیدا ہوگا ۔

(4)بچی کے سامنے منفی باتوں اور کاموں سے بھی پرہیز کیجئے مثلاً گانے سننے،جھوٹ بولنے،گالی گلوچ کرنے،غصہ کرنے سے بچوں میں بھی یہ بری عادات منتقل ہوسکتی ہیں ۔

(5)جب بچی پڑھنے لکھنےکے قابل ہوجائے تو کسی اچھے تعلیمی ادارے کا انتخاب کیجئے جس میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی اور اخلاقی تربیت بھی کی جاتی ہو۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ فی زمانہ دعوتِ اسلامی نے ملک وبیرون ملک میں دارالمدینہ قائم کرکے ہماری اس مشکل کو آسان کردیاہے۔آپ بھی اچھی تعلیم وتربیت کیلئے اپنے بچوں کو دارالمدینہ میں داخل کروا دیجئےاِنْ شَآءَ اللہ یہ بچے آپ کیلئے دنیا میں باعثِ فخراورآخرت میں عذابِقبر وحشر سے نجات کا ذریعہ بنیں گے ۔

(6)دورانِ تعلیم بچی کی نگہداشت ونگرانی بھی کرتے رہیے، فضول کاموں اوربے کار کھیلوں کے بجائے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بیدار کرنے کیلئے اسلامی معلومات پر مشتمل سوالات پوچھئے اورجواب نہ دینے پر مختصر جوابات دیجئے تاکہ ہمیشہ کیلئے وہ باتیں اس کے ذہن میں راسخ ہوجائیں۔

(7) غلطی پر جھڑکنے یا سختی کرنے کے بجائے پیار محبت سے سمجھائیے،اچھے کارناموں پر دلجوئی اورحوصلہ افزائی کیجئے، بچوں کو بات کرنے پر بار بار ٹوکنے کے بجائے انہیں بولنے کا موقع دیجئے ورنہ دوسروں کے سامنے بات کرنے کاحوصلہ ماند پڑسکتا ہے ۔

(8)لڑکی جب بڑی ہوجائے تو اسے سلیقہ شعار اور ہنر مند بنانے کیلئے کھانے پکانے ،صفائی کرنے وغیرہ جیسے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹانے،اپنا کام خود کرنےاورسلائی کڑاہی کرنے کےمواقع فراہم کریں،ایسی بیٹیاں ماں باپ کیلئے باعثِ فخر ہوتی ہیں ۔

(9)بڑی عمر کی بچیوں کی تعلیم کیلئے بھی ایسا ادارہ منتخب کیجئے کہ جس میں ان کی عفت وعصمت محفوظ رہےاورشرعی حدود کی پامالی نہ کی جاتی ہو۔اس کیلئے بھی دعوتِ اسلامی کے زیرِاہتمام ملک وبیرون ملک میں جامعات المدینہ (للبنات) قائم ہیں جن میں عقائد واعمال، شریعت وسنت اورظاہر وباطن کی اصلاح وتربیت کی جاتی ہے ۔

فی زمانہ تعلیم ایک لڑکی کیلئے اس کی زندگی کےمختلف گوشوں میں کام آتی ہے مگر یہ بھی یادرہے کہ صرف عصری علوم پر اکتفا کرنا اور ان میں اپنی مہارت وصلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئےکسی اچھے عہدے پر فائز ہونا ہی روشن مستقبل کی ضمانت نہیں بلکہ عورت اگر بیٹی کی حیثیت سےکسی کی لختِ جگر ہے تو کل اسی نے کسی کی شریک حیات بھی بننا ہے، بیوی کے بعد ماں کاکردار نبھاکر اولاد کی تربیت بھی کرنی ہے، پھر اچھی بہو اور ایک اچھی ساس کی حیثیت سے بھی زندگی بسر کرنی ہے تو صرف عصری علوم کے حصول سے ہی ایک عورت اپنی یہ ذمہ داریاں اچھی طرح نہیں نبھا سکتی ہے بلکہ اس کو ایک اطاعت گزار بیوی ،خدمت گزار بہواور ایک سلیقہ شعار ماں بننے کیلئے دینی تعلیمات سے آشنا ہونا بے حد ضروری ہے ۔ کیونکہ ایک دینی تعلیم یافتہ عورت اپنی اور اپنی اولاد،خاندان اور رفتہ روفتہ اصلاحِ معاشرہ کیلئے اہم کردار ادا کرسکتی ہے، ماضی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ خواتین اسلام نے ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے افراد کی اصلاح کیلئے اہم کردار ادا کیا۔بالخصوص اگر ایک ماں دینی تعلیم یافتہ ہو، شریعت وسنت کی عالمہ ہو،اچھے اخلاق وکردار کی جامع ہو تو اولاد کی اچھی تربیت کرکے انہیں معاشرے کی ہردلعزیز شخصیت بنانے میں معاون ومددگار ثابت ہوگی۔

از: مولانا فرمان علی عطاری مدنی

( اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر ، دعوتِ اسلامی )


صحابَۂ کرام وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کے صدقے بعد میں آنے والےمسلمانوں تک دینِ اسلام کی تعلیمات پہنچی،ان کی شان وعظمت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ربِّ کریم نےاپنےپاکیزہ کلام میں کہیں ان کو حِزْبُ اللہ تو کہیں رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ وَرَضُوْ عَنْہ کےلقب سے یاد فرمایا اور اللہ کے آخری نبی، محمدِعربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےانہیں ہدایت کے ستارے قرار دیا۔ (مشکاة ،2/414،حدیث: 6018) یہی وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا، یہ وہ خوش نصیب افراد ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنے محبوب کی صحبت اختیار کرنے کے لئے منتخب فرمایا، یہی وہ مقدس گروہ ہے، جسےحضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم نےسب سے پہلےاسلام کی دعوت دی ، یہی وہ پاکیزہ لوگ ہیں جنہوں نےدینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کےلئے کفار کےظلم و ستم کو برداشت کیا، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ابتدائے اسلام کے مشکل دور میں بھوک پیاس برداشت کرکے، پیٹ پر پتھر باندھ کر، قریبی رشتہ داروں،اپنوں اور غیروں کی دشمنیاں مول لےکر بھی پرچمِ اسلام کو سربلند رکھا یقیناً ان کی ان تھک محنتوں اور لازوال قُربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول کےنام لیوا ہیں ، ہرطرف دِینِ اسلام کی بہاریں ہیں۔

کسی شاعر نےکیا خوب لکھا ہے کہ

نمایاں ہیں اسلام کے گلستاں میں ہراِک گُل پہ رنگِ بہارِ صحابہ

رسالت کی منزل میں ہر ہر قدم پر نبی کو رہا انتظارِ صحابہ

امین ہیں یہ قراٰن و دِین خدا کے مدارِ ہُدی اعتبارِ صحابہ

صحابہ ہیں تاجِ رِسَالَت کے لشکر رسولِ خدا تاجدارِ صحابہ

ویسے تو تمام صحابَۂ کرام حضور کے پیارےاور ہماری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں لیکن ان میں کچھ ایسے صحابہ ٔ کرام بھی ہیں جن سے خاص نبی کریم ، رؤف رحیم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو محبت تھی اور آپ کی بارگاہ میں جب بھی کوئی چیز لائی جاتی تو آپ اس کو اپنےان اصحاب میں تقسیم فرماتےجنہیں آج اصحابِ صفہ کے نام سے یادکیا جاتا ہے ۔ یہ وہ خوش نصیب صحابہ ٔکرام تھے جنہوں نے اپنا گھر بارچھوڑ کر مسجدِنبوی میں ڈیرے ڈالے تھےاورمحبوبِ خدا کی زبان سے نکلنے والے جملوں کو اپنے دلوں کے نگینوں میں بساتے تھے،انہی اصحابِ صفہ کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ یہ اسلام کےمہمان ہیں۔ ([1])

اصحابِ صُفّہ میں شامل چند مشہور صحابہ ٔکرام جن میں حضرت ابو ہُریرہ، حضرت بِلالِ حبشی،حضرت ابوذرغِفاری، حضرت عمار بن یاسِر،حضرت سلمان فارسی،حضرت حُذیفہ بن یمان اور حضرت ابُو سعید خُدری رضی اللہ عنہم کے نام نمایاں ہیں۔

یادرکھئے! بظاہراَصْحابِ صُفّہ بہت غریب تھے،اکثر فاقوں بھری زندگی میں رہتے، نبیِ کریم، رسولِ عظیم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے پاس جب کوئی تحفہ،صدقہ یا مالِ غنیمت آتا توآپ اسےاصحابِ صفہ پرخرچ فرماتے تھے اور کبھی کبھی ان عظیم لوگوں کے کئی کئی دن فاقوں میں گزر جاتے تھے ۔ جیساکہ

(1) حضرتِ سیدنافَضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب نبی ِکریم ،رؤ ف رّحیم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب لوگوں کو نماز پڑھاتے تو کچھ صحابۂ کرام نَماز کے اندرحالتِ قیام میں بھوک کی شدت کے سبب گر پڑتےاور یہ اَصحابِ صُفّہ تھے، حتی کہ کچھ لوگ کہنے لگتے:یہ دیوانے ہیں۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نَماز سے فارِغ ہوکر اُن کی طرف متوجہ ہو ئے اور فرمایا:(اے اصحابِ صُفہ ) اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ تمہارے لئے اللہ کے ہاں کیا (اجر و ثواب) ہے تو تم اِس بات کو پسند کرو کہ تمہارے فاقے اور حاجت مندی میں مزید اِضافہ ہو ۔([2])

(2) حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جواصحابِ صفہ میں سے تھے فرماتے ہیں:میں نے(بھوک کےسبب )اپنی یہ حالت بھی دیکھی کہ میں حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کےمنبر اور اُمُّ الْمُؤمنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ ٔ مبارکہ کے درمیان بیہوش ہو کر گِر پڑتا۔ کوئی آدمی آتا اور میری گردن پر پاؤں رکھ دیتا ۔ وہ سمجھتا کہ مجھ پر جُنُون کی کیفیت طاری ہے حالانکہ مجھے جنون وغیرہ کچھ نہ ہوتا، یہ حالت بھوک کی وجہ سے ہوتی تھی۔ ([3])

ان احادیث ِ مبارکہ کو پڑھ کر لگتا ہے کہ واقعی اَصْحابِ صُفّہ دِین کی خدمت کرنے میں اپنی مثال آپ تھے ۔اَصْحابِ صُفّہ علمِ دِین حاصل کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ان کے بنیادی کاموں میں سے ایک علم دِین حاصل کرنا تھا۔ کئی روایات میں ان کے علم سیکھنے کا تذکرہ ملتا ہے۔چنانچہ

حضرت سیدنا عُثمان بن ابی عاص رضی اللہ عنہ جو اصحابِ صُفّہ میں سے تھے ،ان کا معمول تھا کہ جب لوگ دوپہر کو چلےجاتےتویہ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!کی خدمت میں حاضر ہوکر دِین کےمتعلق سوالات (Questions)کرتے اور قراٰنِ کریم سیکھتے اور اس طرح انہوں نے دِین کی سمجھ بُوجھ اورعلم حاصل کرلیا ۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آرام فرما رہے ہوتےتویہ سیّدنا ابُوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ کے پاس علمِ دین سیکھنے کے لئے چلےجاتے۔ ([4])

اے عاشقان صحابہ! یقیناً اگر جذبہ سچا ہوتومنزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔اَصْحابِ صُفّہ کاعلمِ دِین سیکھنے کا جذبہ چونکہ سچا تھا اس لئے وہ دلجمعی اور استقامت کے ساتھ اس پرگامزن رہے، فاقوں پر فاقے کرتے رہے، بھوک اور تنگی برداشت کرتے رہے لیکن اپنے مقصد (Purpose)سے پیچھے نہ ہٹے۔غور کیجئے! ایک طرف اَصْحابِ صُفّہ کا حُصُولِ علمِ دِین کا ایسا جذبہ کہ کھانے پینے کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، ضروریاتِ زندگی میسر نہیں ،بدن ڈھانپنے کے لئے پورے کپڑے نہیں لیکن پھر بھی خوب شوق اور لگن سے علم دِین حاصل کرنے میں مصروف رہتے تھے جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ کھانے پینےکی ہر طرح کی سہولیات ہمیں میسر ہیں،حصولِ علمِ دِین کےآسان ذرائع بھی موجود ہیں اور اللہ کریم کے کرم سے دعوت اسلامی کا دینی ماحول بھی موجود ہے جو قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتاہے مگر افسوس!صدکروڑ افسوس! ہم محض نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر اور غفلت و سُستی کی بنا پر اس عظیم سعادت سے محروم ہیں ،یہاں تک کہ فرض و ضروری علم سیکھنے سے محروم ہیں ۔

یادرکھئے!انسان جب تک کسی کام کو کرنے کےلئے ذہنی طور پر تیار نہ ہو وہ کام کتنا ہی آسان کیوں نہ ہو مشکل لگتا ہے مگر جب اُس کا م کو کرنےکاپختہ ذہن بنالیا جائےاور اس کے لئے کوشش کی جائے تو مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتاہے۔ لہٰذا علم ِدِین کی اہمیت کو سمجھئے اور دنیا وآخرت کی بہتری کے لئے اس جذبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے علمِ دِین سیکھنے میں مشغول ہوجایئے۔ترغیب کے لئے علمِ دین کے فضائل پر مشتمل دو احادیث ِمبارکہ ملاحظہ کیجئے:چنانچہ

1. اللہ کےآخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےارشادفرمایا:جسےاس حال میں موت آئےکہ وہ اسلام زندہ کرنے کے لئےعلم سیکھ رہا ہوتوجنت میں اس کےاور انبیائےکرام کےدرمیان ایک درجے کا فرق ہوگا۔([5])

2. ایک اورحدیث ِ مبارکہ میں ارشادفرمایا:فرشتے طالب علم کی رضا کےلئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں ۔ طالب علم کے لئے زمین و آسمان کی ہر چیز حتّٰی کہ پانی میں مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں۔ ([6])

علم ِدین حاصل کرنے کے مختلف ذرائع

اِس پُرفتن دَورمیں علمِ دِین سیکھنے کے لئے ”مدنی چینل“ دیکھتے رہئے۔٭ہفتہ وارمدنی مذاکرہ خود بھی پابندی سےدیکھیں اوراپنے گھروالو ں کوبھی دِکھائیں،ا س سےبھی علمِ دین کالازوال خزانہ ہاتھ آئےگا۔٭ہفتہ وارمدنی رِسالے کے مطالعے کا معمول بنا لیں۔٭ماہنامہ فیضانِ مدینہ کا مطالعہ کرنے کی عادت بنا لیجئے۔٭دعوتِ اِسلامی کی ویب سائٹ (www.dawateislami.net) پر بہترین علمی و اصلاحی کتابیں اور دعوت اسلامی کے آفیشل پیج شب و روز میں بہترین اور معلوماتی کالمز پڑھنے کے لئے وِزٹ کیجئے۔ (news.dawateislami.net) ٭مدنی قافلوں میں سفر کیجئے کہ ان کی برکت سے علمِ دین سیکھنے کا شوق پیدا ہوگا۔٭جامعۃ المدینہ میں داخلہ لے لیجئےاور ٭ اپنے علاقے کی مساجد میں لگنے والےاسلامی بھائیوں کےمدرسۃ المدینہ میں پڑھنےکی عادت بنا لیجئےکہ یہ بھی علم ِ دین سیکھنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ ٭ جو کسی وجہ سے اگر وقت نہیں دے سکتے تو وہ آن لائن کورسز کرنےکی سعادت حاصل کریں،اِن شاءَ اللہ!بے بہا علمِ دین کاخزانہ حاصل آئے گا ۔

طالب دعا:عبدالجبار عطاری مدنی

المدینۃ العلمیہ (دعوت اسلامی )

شعبہ ذمہ دار:رسائل دعوت اسلامی



1 شعب الایمان، 7/ 283،حدیث: 458

1 ترمذی ،4/162،حدیث:2375

2 بخاری ،4/515،حدیث:7324

3 فيضان صديق اكبر ،ص 148

1 سنن دارمی ،1/ 112،حدیث:354

1 سنن دارمی ،1/ 108 ،حدیث:342ملخصا


جوں جوں مسلمان اپنے دین سے دورہوتے جارہے ہیں توں توں ان میں اغیارکے رسم ورواج اور تہوار زور پکڑتے جارہے اوریہ غیرشرعی وغیراخلاقی حرکتیں نہ صرف ان کودین اسلام سے دورکررہی ہیں بلکہ دین کاباغی بنارہی ہیں اورساتھ ہی ساتھ یہ ناعاقبت اندیش غیرمحسوس طریقے سے باطل ادیان کی طرف کھنچے چلے جارہے ہیں۔انہی رسم ورواج میں ایک نیوائیرنائٹ ہے ۔جس کی فحاشی و عریانی پر مبنی تقاریب دنیا بھر میں انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ منائی جاتی ہیں ۔اور صد افسوس کہ غیر مسلموں کی بڑی تعداد کیساتھ ساتھ مسلمانوں کی بھی ایک تعداد شرکت کرتی ہے، تمام عیسائی ممالک اس میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں ۔صرف نیویارک (امریکہ) کی تقریب میں ایک لاکھ کے قریب نوجوان شرکت کرتے ہیں ۔ ٹرائی فالگرا سکوائر میں ساٹھ ہزار افراد جمع ہوتے ہیں جب کہ برلن برائیڈن گیٹ پر دنیا کی سب سے بڑی تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں تقریباً 15 لاکھ جوڑے شرکت کرتے ہیں ۔

نیو ائیر نائٹ اورفحا شی وعریانی:

31دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب تمام روشنیاں گل کردی جاتی ہیں ، آسمان پر آتش بازی ہوتی ہے اورشراب کے نشے میں دھت نوجوان بے غیرتی کامظاہرہ کرتے پھرتے ہیں جبکہ دنیابھرکے ٹی وی چینلزان کی’’ حوصلہ افزائی‘‘ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ساتھ ساتھ تمام ممالک کے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور فحاشی اور عریانی کے مارے لوگ اپنے گھروں میں ان تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق صرف امریکہ میں171 ارب ڈالر کی شراب پی جاتی ہے،600 ملین کی آتش بازی کی جاتی ہے اور نوجوان اربوں ڈالر رقص گاہو ں میں اڑا دیتے ہیں ۔

نیو ائیر نائٹ کی ابتدا:

نیو ایئر نائٹ کی تقریبات کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے شروع میں ہوا ۔ برطانیہ کی ’’رائل نیوی‘‘ کے جوانوں کی زندگی کا زیادہ تر حصہ بحری جہازوں میں گزرتا تھا ۔لہٰذا اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کرنے کے لئے مختلف تقریبات منعقدکرتے رہتے ۔انہی تقاریب کے دوران یہ تہوار یعنی نیوایئرنائٹ ایجادہوا۔ برٹش رائل نیوی ((British Royal Neavy سے نیوایئر نائٹ دوسرے جہازوں تک پہنچی اور وہاں سے 1910 ء میں اینا ڈین شہر کے ساحل پرمنتقل ہوئی جہاں سے یہ فحاشی اور بے حیائی کا سامان شہروں میں منتقل ہوگیا ۔ اس وقت دنیا کے 129ممالک میں نیو ایئر نائٹ منائی جاتی ہے ، دنیا کے سات ہزار بڑے شہروں میں فحاشی اور عریانی سے بھر پور تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔ 1980ء تک نیو ایئر نائٹ کی تقریبات صرف یورپ تک محدود تھیں لیکن 1980ء کی دہائی میں اس مرض نے آگے پھیلنا شروع کیااورمشرقِ بعیدآیاپھربرصغیرمیں جڑپکڑنے لگا۔

نیو ائیر نائٹ اورپاکستان:

پاکستان میں1992ء میں کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں پہلی ایئر نائٹ منائی گئی ۔کڑے پہرے میں کراچی کے تاجروں،زمینداروں، وڈیروں اوراداکاراؤں نے یہ تقریب منائی جس میں شراب اور رقص کا خصوصی انتظام تھا ۔ابتداً یہ صرف اونچے طبقوں میں تھا مگراب متوسط اورنچلے طبقے میں بھی یہ خودساختہ’’ فریضہ‘‘ انجام دیا جانے لگا ہے۔ الغرض نیو ایئر نائٹ پر رنگ برنگی محفلیں ہوتی ہیں، جام سے جام ٹکراتے ہیں ، بڑے بڑے ہوٹلوں، پلازوں اور امرا کے عشرت کدوں میں ناچ گانے اور عیاشی کے پروگرام رات گئے تک جاری رہتے ہیں ۔ پاکستان میں نیو ایئر نائٹ پر ہونے والی فحاشی وعیاشی کا اندازہ کرنے کے لیے صرف ایک خبرکاخلاصہ ملاحظہ فرمائیے: گزشتہ روز شدید سردی کے باوجود نئے سال کے آغاز کی خصوصی محفلوں کا اہتمام ہوا۔ جہاں ناچ گانے کے پروگرام کے علاوہ جام سے جام ٹکراتے رہے ۔لاہور میں مال روڈ اور فورٹریس اسٹیڈیم کے علاقوں میں نوجوان نعرے بازی کرتے رہے ۔ دوسری جانب نیو ایئر نائٹ پر صوبائی دارالحکومت کے کسی بھی اہم اور غیر اہم ہوٹل میں کمرہ دستیاب نہ تھا ۔ مختلف تنظیموں اور امراء نے اپنی خفیہ محفلیں سجانے کے لیے کئی روز پہلے ہی کمرے بک کروا لیے تھے ۔ پولیس نے درجنوں شرابی گرفتار کرکے ان سے شراب کی بوتلیں برآمد کیں۔(روز نامہ پاکستان یکم جنوری2002ء)

نیو ائیر نائٹ کی تباہ کاریاں:

نیو ایئر نائٹ کاایک خطرناک پہلو حادثات بھی ہیں جن سے ساری دنیانے جان بوجھ کرچشم پوشی کررکھی ہے۔چند خبروں پر نظرڈالئے:یکم جنوری 2005ء میں ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس کے ایک نائٹ کلب میں نیوایئرنائٹ کی تقریب کے دوران آتش بازی کے نتیجے میں آگ لگ گئی ۔ کم از کم200 افراد جل کر ہلاک اور400سے زائد شدید زخمی ہوگئے ۔پیراگویہ میں 2004ء کے دوران آتش بازی کے سبب 400افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔( نوائے وقت ،یکم جنوری ، 2005ء) بیونس آئرس ارجنٹائن میں 2002ء میں100 افراد ہلاک ہوئے ۔ ٭…برطانیہ میں 2002ء کی نیو ایئر نائٹ نے1362 افراد کو متاثر کیا ۔بے شمار لوگ اپنے اعضا سے محروم ہوگئے۔ چالیس گھروں کو آگ لگی ،500 گاڑیاں تباہ ہوئیں اورآتش بازی سے4825 جانور جل کر مرگئے۔2002ء میں نیو یارک شہر میں15 ہلاک اور 50شدید زخمی ہوگئے۔ ٭…پاکستان میں کثرت شراب نوشی اور زہریلی شراب پینے کے باعث52 افراد موت کے گھاٹ اترگئے۔(روز نامہ نوائے وقت ،یکم جنوری 2005ء )نیو ایئر نائٹ کی شرعی قباحتوں سے قطع نظرصرف ظاہری نقصانات کا یہ ایک سرسری جائزہ ہے جس سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ یہ رسم ایجاد کرنے والے اہل مغرب نے در اصل اپنی لادینیت اوربدتہذیبی کے سبب تفریح کا ایک انداز اختیار کیا۔ جبکہ دنیاکاکوئی بھی مذہب ایسی واہیات اور بے ہودہ تفریح کی اجازت کبھی نہیں دے سکتا جس میں جوانیاں برباد ہوں،عزت وعصمت غیرمحفوظ ہوجائے ،جان ومال تلف ہو، ناچ رنگ کے نام پر بدکاری ہو اور جام وسبو چھلکے ،کروڑوں اربوں روپیہ ضائع کردیاجائے اوراخلاقیات کی حدود پھلانگ کربے غیرتی وحیاسوزی کامظاہرہ کیاجائے ۔

مسلمانوں سے گزارش:

مسلمانوں سے گزارش ہے کہ خدارا ! ہوش سے کام لواور اغیارکے رسم ورواج اور تہواروں سے خودکوپاک کرو خواہ نیوائیرنائٹ ہویاویلنٹائن ڈے۔بسنت میلہ ہویاکوئی اورتہواران سے دوررہنے ہی میں اپنی عافیت جانو۔ یہ دنیامیں بھی نقصان دہ ہیں اورآخرت کی خرابی کاباعث بھی ۔ آخرکب تک تم اغیارکے غلام بن کرزندگی گزارو گے ۔کب تک ان کی پیروی کرکے دین ودنیاکوداؤپرلگائے رہوگے۔یادرکھو!ہمارے دشمن (یہودو ؤنصاری) بہت عیار ومکارہیں ان کی تمناوآرزوتو یہی ہے کہ مسلمان اپنے دین سے دوراور بیزار ہوکرمکمل طورپرہماری غلامی کاطوق اپنے گلے میں ڈال لیں!!!مگر نہیں۔ ان شاء اللہ عزوجل ایساکبھی نہیں ہوگا۔ آئیے ، عہدکیجئے کہ ہم ضروراپنے دین پرثابت قدم رہیں گے اوراغیارکے رسم ورواج اورفیشن سے تعلق توڑکرحضوررحمت العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں سے ناطہ جوڑیں گے ۔

ڈاکٹراقبال نے کیاخوب کہاہے:

آج بھی ہوجوبراہیم کاایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے اندازِگلستاں پیدا


جامعۃ المدینہ  عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں فارغ التحصیل علماء کے لئے ایک تخصص شروع کیا گیا ہے جس میں فقہ اسلامی کے ساتھ ساتھ طلباء کو جدید تجارت و معیشت کے اہم شعبہ جات کا تعارف، بنیادی معلومات اور دور جدید کے فنانس کے اداروں کے طریقہ کار بھی پڑھایا جاتا ہے ۔

اس تخصص کا نام ہے” تخصص فی الفقہ و الاقتصاد الاسلامی(Specialization in Islamic Economics & Jurisprudence)“

اس تخصص میں یومیہ بنیادوں پر کلاسوں کے ساتھ ساتھ کاروباری دنیا کے مختلف ماہرین افراد ہفتے میں دو دن الگ سے کلاسیں لیتے ہیں ۔ کسی بھی تھیوری کو سمجھنے کے لئے مطالعاتی دورہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اس سلسلے میں اس تخصص فی الفقہ و الاقتصاد الاسلامی کے نگران مفتی علی اصغر عطاری صاحب اور تخصص کے استاد مفتی سجاد عطاری صاحب اور تخصص فی الفقہ و الاقتصاد الاسلامی کے طلباء اور دار الافتاء اہل سنت کے چند علماء نے کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکس چینج (پی ایس ای)اور نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان (این سی سی پی) کا ایک مطالعاتی دورہ کیا۔

اس موقع پر سب سے پہلے نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان (این سی سی پی)کی طرف سے میٹنگ روم میں تفصیلی بریفنگ دی گئی کہ اسٹاک ایکسچینج کس طرح کام کرتا ہے اور کون کون سے اہم شعبہ جات پورے نظام کو کنٹرول کرتے ہیں اور خود نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان (این سی سی پی)کا کیا کام ہوتا ہے؟ اس تعلق سے تفصیلی بریفنگ کے دوران شرکاء کے سوالات اور ان کے جواب کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔

علاوہ ازین نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان (این سی سی پی) کے سی ای او لقمان صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور مفتی علی اصغر صاحب کو یادگاری شیلڈ پیش کی ۔

اس دورے کے دوسرے مرحلے میں پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے آڈیٹوریم میں اسٹاک ایکسچینج کے نظا م، اس کی تاریخ اور موجودہ پوزیشن اور مالکان کے تعلق سے بریف کیا گیا اور آخر میں ٹریڈنگ ہال کا دورہ کراتے ہوئے بروکر ہاوس کس طرح کام کرتے ہیں ؟اس بات پر بھی بریفنگ دی گئی ۔

آخر میں اسٹاک ایکسچینج کے ایک ڈائریکٹر سابق سی پی ایل سی چیف احمد چنائے صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ۔

مفتی علی اصغر صاحب کے دورے کے اختتام پر یہ تاثرات تھے کہ یہاں تو ہماری توقع سے بڑھ کر سود کا کام ہو رہا ہے اور شریعہ کمپلائنس کمپنیوں میں بھی بہت بہتری کی ضرورت ہے۔ جب تک سودی طریقہ سے دوری نہیں ہوگی مستحکم معیشت کی تشکیل نہیں ہو پائے گی ۔البتہ کچھ چیزیں ایسے بھی دیکھنے کو ملیں جو بہت مثبت تھیں اور علم میں اضافہ ہوا۔

از:ماہرِ امورِ تجارت مفتی علی اصغر عطاری مدنی

مورخہ: 9.12.2021


برِّ عظیم  میں مدوّن ہونے(ترتیب دئیے جانے)والے ”ملفوظات “کی عام طورپر دو قسمیں ہیں : (1)تحریری یادداشت پرمشتمل ملفوظات:بزرگان دین کی بارگاہ میں حاضر ہوکراقوال کوبطوریاداشت محفوظ کردیا جاتاتھا جیسے راحت القلوب، فوائد الفواد (2)مرتب ابواب پرمشتمل ملفوظات:نصیحتوں پرمشتمل ہونے والے اقوال و معمولات وغیرہ کو ابواب کی صورت میں محفوظ کیا جاتا تھا،بطورِ مثال دیکھنے کے لئے لطائف ِ اشرفی اور خزائن جلالیہ ملاحظہ کیجئے ۔

ملفوظات ِ اولیا کی قدر و قیمت:

بزرگان ِ دین کے ملفوظات کی مشائخِ کرام کے یہاں کیا قدر و قیمت رہی ہے ، یہ جاننے کے لئے جلیل ُالقدر اولیا کے چند فرامین ملاحظہ کیجئے :(1)شیخُ الاسلام حضرت بابا فرید الدین مسعودگنج شکررَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا ارشاد ہے : اگر کسی کو شیخِ کامل نہ ملے تو وہ اہلِ سلوک(اولیائے کرام) کی کتاب کا مطالعہ کرے اور اس کی پیر وی کرتا رہے۔(راحت القلوب،ص۱۵)(2) محبوب ِ الٰہی خواجہ نظامُ الدین اولیا رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہحضرت خواجہ امیر حسن علا ء سنجری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :مشائخ کی کتاب اور اشارات جو سلوک کے باب میں فرمائیں وہ مطالعہ میں رکھنی چاہئیں ۔(فوائد الفواد،مجلس بست و ہشتم،ص۴۹)(3)محبوب ِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیا رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جب میں شیخ ُالاسلام خواجہ فرید الدین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے دامن سے وابستہ ہوا تو میں نے ارادہ کیا کہ جو کچھ آپ کی زبان سے سنوں گا وہ لکھ لیا کروں گالہذا جو کچھ میں بابا فرید رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہسے سنتا لکھ لیا کرتا،جب اپنی قیام گاہ پر آتا تو کتاب میں لکھ لیتااس کے بعد بھی جو کچھ سنتا لکھ لیتا حتی کہ میں نے یہ بات بابا فرید رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو بتادی ۔اُس کے بعد بابا فرید رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ جب بھی کوئی حکایت یا ارشاہ فرماتے تو مجھے حاضر ہونے کا حکم ارشاد فرماتے اور اگر میں تاخیر سے آتا تو وہ بات دوبارہ دہرادیتے ۔ (فوائد الفواد،،مجلس بست و ہشتم،ص۴۹)

گزشتہ سطور میں ملفوظات اور بالخصوص برعظیم میں موجود ملفوظات کے بارے میں آپ پڑھ چکے، آئیے! ایک نظرچند کتب ِملفوظات کےناموں پر ڈالتے ہیں : (1)انیسُ الارواح اور گنج اسرار:ارشاداتِ خواجہ عثمان ہارونی،(2)دلیل العارفین:ارشادات خواجہ غریب نواز، (3)فوائدالسالکین: ارشادات خواجہ قطب الدین بختیار کاکی(4تا5)راحتُ القلوب،اسرار الاولیا: ارشاداتِ بابا فرید(6)سرور الصدور:ارشاداتِ شیخ حمید الدین ناگوری (7تا10)فوائد الفواد،افضل الفوائد، راحت المحبین اور سیرالاولیا:ارشادات ِ خواجہ نظام الدین اولیا (11)مفتاح العاشقین:ارشاداتِ خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی (12تا14)جامع العلوم، سراج الہدایہ،خزائن جلالیہ: ارشاداتِ مخدوم جہانیاں جہاں گشت (15تا 16) جوامع الکلم،انوار المجالس: ارشاداتِ خواجہ بندہ نواز گیسوداراز (17)لطائف اشرفی: ارشاداتِ مخدوم جہانگیر اشرف سمنانی (18تا 19) معد ن المعانی،خوانِ پُرنعمت: ارشادات ِ خواجہ شرف الدین یحٰی منیری (21تا20) نافع السالکین، مناقب المحبوبین:ارشاداتِ خواجہ سلیمان تونسوی(22)مرآت العاشقین: ارشاداتِ خواجہ شمسُ الدّین سیالوی۔

اللہ پاک نے اولیائے کرام رَحِمَھُمُ اللہ السَّلام کو کس قدر بلند مرتبہ عطافرمایا ہے اور مخلوق کے دل میں اِن حضرات کی کیسی الفت و محبت ڈالی ہے کہ ان پاکیزہ نفوس کودنیا سےرخصت ہوئے ہزاروں سال گزر چکے ہیں مگراِن حضرات کی پاکیزہ سیرت اورملفوظات سے دلوں کی مسند آج بھی آباد ہے ۔

تحریر: مولاناناصرجمال عطاری مدنی

اسکالرالمدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)