صحابَۂ کرام وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کے صدقے بعد میں آنے والےمسلمانوں تک دینِ اسلام کی تعلیمات پہنچی،ان کی شان وعظمت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ربِّ کریم نےاپنےپاکیزہ کلام میں کہیں ان کو حِزْبُ اللہ تو کہیں رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ وَرَضُوْ عَنْہ کےلقب سے یاد فرمایا اور اللہ کے آخری نبی، محمدِعربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےانہیں ہدایت کے ستارے قرار دیا۔ (مشکاة ،2/414،حدیث: 6018) یہی وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا، یہ وہ خوش نصیب افراد ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنے محبوب کی صحبت اختیار کرنے کے لئے منتخب فرمایا، یہی وہ مقدس گروہ ہے، جسےحضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم نےسب سے پہلےاسلام کی دعوت دی ، یہی وہ پاکیزہ لوگ ہیں جنہوں نےدینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کےلئے کفار کےظلم و ستم کو برداشت کیا، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ابتدائے اسلام کے مشکل دور میں بھوک پیاس برداشت کرکے، پیٹ پر پتھر باندھ کر، قریبی رشتہ داروں،اپنوں اور غیروں کی دشمنیاں مول لےکر بھی پرچمِ اسلام کو سربلند رکھا یقیناً ان کی ان تھک محنتوں اور لازوال قُربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول کےنام لیوا ہیں ، ہرطرف دِینِ اسلام کی بہاریں ہیں۔

کسی شاعر نےکیا خوب لکھا ہے کہ

نمایاں ہیں اسلام کے گلستاں میں ہراِک گُل پہ رنگِ بہارِ صحابہ

رسالت کی منزل میں ہر ہر قدم پر نبی کو رہا انتظارِ صحابہ

امین ہیں یہ قراٰن و دِین خدا کے مدارِ ہُدی اعتبارِ صحابہ

صحابہ ہیں تاجِ رِسَالَت کے لشکر رسولِ خدا تاجدارِ صحابہ

ویسے تو تمام صحابَۂ کرام حضور کے پیارےاور ہماری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں لیکن ان میں کچھ ایسے صحابہ ٔ کرام بھی ہیں جن سے خاص نبی کریم ، رؤف رحیم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو محبت تھی اور آپ کی بارگاہ میں جب بھی کوئی چیز لائی جاتی تو آپ اس کو اپنےان اصحاب میں تقسیم فرماتےجنہیں آج اصحابِ صفہ کے نام سے یادکیا جاتا ہے ۔ یہ وہ خوش نصیب صحابہ ٔکرام تھے جنہوں نے اپنا گھر بارچھوڑ کر مسجدِنبوی میں ڈیرے ڈالے تھےاورمحبوبِ خدا کی زبان سے نکلنے والے جملوں کو اپنے دلوں کے نگینوں میں بساتے تھے،انہی اصحابِ صفہ کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ یہ اسلام کےمہمان ہیں۔ ([1])

اصحابِ صُفّہ میں شامل چند مشہور صحابہ ٔکرام جن میں حضرت ابو ہُریرہ، حضرت بِلالِ حبشی،حضرت ابوذرغِفاری، حضرت عمار بن یاسِر،حضرت سلمان فارسی،حضرت حُذیفہ بن یمان اور حضرت ابُو سعید خُدری رضی اللہ عنہم کے نام نمایاں ہیں۔

یادرکھئے! بظاہراَصْحابِ صُفّہ بہت غریب تھے،اکثر فاقوں بھری زندگی میں رہتے، نبیِ کریم، رسولِ عظیم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے پاس جب کوئی تحفہ،صدقہ یا مالِ غنیمت آتا توآپ اسےاصحابِ صفہ پرخرچ فرماتے تھے اور کبھی کبھی ان عظیم لوگوں کے کئی کئی دن فاقوں میں گزر جاتے تھے ۔ جیساکہ

(1) حضرتِ سیدنافَضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب نبی ِکریم ،رؤ ف رّحیم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب لوگوں کو نماز پڑھاتے تو کچھ صحابۂ کرام نَماز کے اندرحالتِ قیام میں بھوک کی شدت کے سبب گر پڑتےاور یہ اَصحابِ صُفّہ تھے، حتی کہ کچھ لوگ کہنے لگتے:یہ دیوانے ہیں۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نَماز سے فارِغ ہوکر اُن کی طرف متوجہ ہو ئے اور فرمایا:(اے اصحابِ صُفہ ) اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ تمہارے لئے اللہ کے ہاں کیا (اجر و ثواب) ہے تو تم اِس بات کو پسند کرو کہ تمہارے فاقے اور حاجت مندی میں مزید اِضافہ ہو ۔([2])

(2) حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جواصحابِ صفہ میں سے تھے فرماتے ہیں:میں نے(بھوک کےسبب )اپنی یہ حالت بھی دیکھی کہ میں حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کےمنبر اور اُمُّ الْمُؤمنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ ٔ مبارکہ کے درمیان بیہوش ہو کر گِر پڑتا۔ کوئی آدمی آتا اور میری گردن پر پاؤں رکھ دیتا ۔ وہ سمجھتا کہ مجھ پر جُنُون کی کیفیت طاری ہے حالانکہ مجھے جنون وغیرہ کچھ نہ ہوتا، یہ حالت بھوک کی وجہ سے ہوتی تھی۔ ([3])

ان احادیث ِ مبارکہ کو پڑھ کر لگتا ہے کہ واقعی اَصْحابِ صُفّہ دِین کی خدمت کرنے میں اپنی مثال آپ تھے ۔اَصْحابِ صُفّہ علمِ دِین حاصل کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ان کے بنیادی کاموں میں سے ایک علم دِین حاصل کرنا تھا۔ کئی روایات میں ان کے علم سیکھنے کا تذکرہ ملتا ہے۔چنانچہ

حضرت سیدنا عُثمان بن ابی عاص رضی اللہ عنہ جو اصحابِ صُفّہ میں سے تھے ،ان کا معمول تھا کہ جب لوگ دوپہر کو چلےجاتےتویہ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!کی خدمت میں حاضر ہوکر دِین کےمتعلق سوالات (Questions)کرتے اور قراٰنِ کریم سیکھتے اور اس طرح انہوں نے دِین کی سمجھ بُوجھ اورعلم حاصل کرلیا ۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آرام فرما رہے ہوتےتویہ سیّدنا ابُوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ کے پاس علمِ دین سیکھنے کے لئے چلےجاتے۔ ([4])

اے عاشقان صحابہ! یقیناً اگر جذبہ سچا ہوتومنزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔اَصْحابِ صُفّہ کاعلمِ دِین سیکھنے کا جذبہ چونکہ سچا تھا اس لئے وہ دلجمعی اور استقامت کے ساتھ اس پرگامزن رہے، فاقوں پر فاقے کرتے رہے، بھوک اور تنگی برداشت کرتے رہے لیکن اپنے مقصد (Purpose)سے پیچھے نہ ہٹے۔غور کیجئے! ایک طرف اَصْحابِ صُفّہ کا حُصُولِ علمِ دِین کا ایسا جذبہ کہ کھانے پینے کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، ضروریاتِ زندگی میسر نہیں ،بدن ڈھانپنے کے لئے پورے کپڑے نہیں لیکن پھر بھی خوب شوق اور لگن سے علم دِین حاصل کرنے میں مصروف رہتے تھے جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ کھانے پینےکی ہر طرح کی سہولیات ہمیں میسر ہیں،حصولِ علمِ دِین کےآسان ذرائع بھی موجود ہیں اور اللہ کریم کے کرم سے دعوت اسلامی کا دینی ماحول بھی موجود ہے جو قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتاہے مگر افسوس!صدکروڑ افسوس! ہم محض نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر اور غفلت و سُستی کی بنا پر اس عظیم سعادت سے محروم ہیں ،یہاں تک کہ فرض و ضروری علم سیکھنے سے محروم ہیں ۔

یادرکھئے!انسان جب تک کسی کام کو کرنے کےلئے ذہنی طور پر تیار نہ ہو وہ کام کتنا ہی آسان کیوں نہ ہو مشکل لگتا ہے مگر جب اُس کا م کو کرنےکاپختہ ذہن بنالیا جائےاور اس کے لئے کوشش کی جائے تو مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتاہے۔ لہٰذا علم ِدِین کی اہمیت کو سمجھئے اور دنیا وآخرت کی بہتری کے لئے اس جذبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے علمِ دِین سیکھنے میں مشغول ہوجایئے۔ترغیب کے لئے علمِ دین کے فضائل پر مشتمل دو احادیث ِمبارکہ ملاحظہ کیجئے:چنانچہ

1. اللہ کےآخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےارشادفرمایا:جسےاس حال میں موت آئےکہ وہ اسلام زندہ کرنے کے لئےعلم سیکھ رہا ہوتوجنت میں اس کےاور انبیائےکرام کےدرمیان ایک درجے کا فرق ہوگا۔([5])

2. ایک اورحدیث ِ مبارکہ میں ارشادفرمایا:فرشتے طالب علم کی رضا کےلئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں ۔ طالب علم کے لئے زمین و آسمان کی ہر چیز حتّٰی کہ پانی میں مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں۔ ([6])

علم ِدین حاصل کرنے کے مختلف ذرائع

اِس پُرفتن دَورمیں علمِ دِین سیکھنے کے لئے ”مدنی چینل“ دیکھتے رہئے۔٭ہفتہ وارمدنی مذاکرہ خود بھی پابندی سےدیکھیں اوراپنے گھروالو ں کوبھی دِکھائیں،ا س سےبھی علمِ دین کالازوال خزانہ ہاتھ آئےگا۔٭ہفتہ وارمدنی رِسالے کے مطالعے کا معمول بنا لیں۔٭ماہنامہ فیضانِ مدینہ کا مطالعہ کرنے کی عادت بنا لیجئے۔٭دعوتِ اِسلامی کی ویب سائٹ (www.dawateislami.net) پر بہترین علمی و اصلاحی کتابیں اور دعوت اسلامی کے آفیشل پیج شب و روز میں بہترین اور معلوماتی کالمز پڑھنے کے لئے وِزٹ کیجئے۔ (news.dawateislami.net) ٭مدنی قافلوں میں سفر کیجئے کہ ان کی برکت سے علمِ دین سیکھنے کا شوق پیدا ہوگا۔٭جامعۃ المدینہ میں داخلہ لے لیجئےاور ٭ اپنے علاقے کی مساجد میں لگنے والےاسلامی بھائیوں کےمدرسۃ المدینہ میں پڑھنےکی عادت بنا لیجئےکہ یہ بھی علم ِ دین سیکھنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ ٭ جو کسی وجہ سے اگر وقت نہیں دے سکتے تو وہ آن لائن کورسز کرنےکی سعادت حاصل کریں،اِن شاءَ اللہ!بے بہا علمِ دین کاخزانہ حاصل آئے گا ۔

طالب دعا:عبدالجبار عطاری مدنی

المدینۃ العلمیہ (دعوت اسلامی )

شعبہ ذمہ دار:رسائل دعوت اسلامی



1 شعب الایمان، 7/ 283،حدیث: 458

1 ترمذی ،4/162،حدیث:2375

2 بخاری ،4/515،حدیث:7324

3 فيضان صديق اكبر ،ص 148

1 سنن دارمی ،1/ 112،حدیث:354

1 سنن دارمی ،1/ 108 ،حدیث:342ملخصا


جوں جوں مسلمان اپنے دین سے دورہوتے جارہے ہیں توں توں ان میں اغیارکے رسم ورواج اور تہوار زور پکڑتے جارہے اوریہ غیرشرعی وغیراخلاقی حرکتیں نہ صرف ان کودین اسلام سے دورکررہی ہیں بلکہ دین کاباغی بنارہی ہیں اورساتھ ہی ساتھ یہ ناعاقبت اندیش غیرمحسوس طریقے سے باطل ادیان کی طرف کھنچے چلے جارہے ہیں۔انہی رسم ورواج میں ایک نیوائیرنائٹ ہے ۔جس کی فحاشی و عریانی پر مبنی تقاریب دنیا بھر میں انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ منائی جاتی ہیں ۔اور صد افسوس کہ غیر مسلموں کی بڑی تعداد کیساتھ ساتھ مسلمانوں کی بھی ایک تعداد شرکت کرتی ہے، تمام عیسائی ممالک اس میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں ۔صرف نیویارک (امریکہ) کی تقریب میں ایک لاکھ کے قریب نوجوان شرکت کرتے ہیں ۔ ٹرائی فالگرا سکوائر میں ساٹھ ہزار افراد جمع ہوتے ہیں جب کہ برلن برائیڈن گیٹ پر دنیا کی سب سے بڑی تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں تقریباً 15 لاکھ جوڑے شرکت کرتے ہیں ۔

نیو ائیر نائٹ اورفحا شی وعریانی:

31دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب تمام روشنیاں گل کردی جاتی ہیں ، آسمان پر آتش بازی ہوتی ہے اورشراب کے نشے میں دھت نوجوان بے غیرتی کامظاہرہ کرتے پھرتے ہیں جبکہ دنیابھرکے ٹی وی چینلزان کی’’ حوصلہ افزائی‘‘ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ساتھ ساتھ تمام ممالک کے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور فحاشی اور عریانی کے مارے لوگ اپنے گھروں میں ان تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق صرف امریکہ میں171 ارب ڈالر کی شراب پی جاتی ہے،600 ملین کی آتش بازی کی جاتی ہے اور نوجوان اربوں ڈالر رقص گاہو ں میں اڑا دیتے ہیں ۔

نیو ائیر نائٹ کی ابتدا:

نیو ایئر نائٹ کی تقریبات کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے شروع میں ہوا ۔ برطانیہ کی ’’رائل نیوی‘‘ کے جوانوں کی زندگی کا زیادہ تر حصہ بحری جہازوں میں گزرتا تھا ۔لہٰذا اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کرنے کے لئے مختلف تقریبات منعقدکرتے رہتے ۔انہی تقاریب کے دوران یہ تہوار یعنی نیوایئرنائٹ ایجادہوا۔ برٹش رائل نیوی ((British Royal Neavy سے نیوایئر نائٹ دوسرے جہازوں تک پہنچی اور وہاں سے 1910 ء میں اینا ڈین شہر کے ساحل پرمنتقل ہوئی جہاں سے یہ فحاشی اور بے حیائی کا سامان شہروں میں منتقل ہوگیا ۔ اس وقت دنیا کے 129ممالک میں نیو ایئر نائٹ منائی جاتی ہے ، دنیا کے سات ہزار بڑے شہروں میں فحاشی اور عریانی سے بھر پور تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔ 1980ء تک نیو ایئر نائٹ کی تقریبات صرف یورپ تک محدود تھیں لیکن 1980ء کی دہائی میں اس مرض نے آگے پھیلنا شروع کیااورمشرقِ بعیدآیاپھربرصغیرمیں جڑپکڑنے لگا۔

نیو ائیر نائٹ اورپاکستان:

پاکستان میں1992ء میں کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں پہلی ایئر نائٹ منائی گئی ۔کڑے پہرے میں کراچی کے تاجروں،زمینداروں، وڈیروں اوراداکاراؤں نے یہ تقریب منائی جس میں شراب اور رقص کا خصوصی انتظام تھا ۔ابتداً یہ صرف اونچے طبقوں میں تھا مگراب متوسط اورنچلے طبقے میں بھی یہ خودساختہ’’ فریضہ‘‘ انجام دیا جانے لگا ہے۔ الغرض نیو ایئر نائٹ پر رنگ برنگی محفلیں ہوتی ہیں، جام سے جام ٹکراتے ہیں ، بڑے بڑے ہوٹلوں، پلازوں اور امرا کے عشرت کدوں میں ناچ گانے اور عیاشی کے پروگرام رات گئے تک جاری رہتے ہیں ۔ پاکستان میں نیو ایئر نائٹ پر ہونے والی فحاشی وعیاشی کا اندازہ کرنے کے لیے صرف ایک خبرکاخلاصہ ملاحظہ فرمائیے: گزشتہ روز شدید سردی کے باوجود نئے سال کے آغاز کی خصوصی محفلوں کا اہتمام ہوا۔ جہاں ناچ گانے کے پروگرام کے علاوہ جام سے جام ٹکراتے رہے ۔لاہور میں مال روڈ اور فورٹریس اسٹیڈیم کے علاقوں میں نوجوان نعرے بازی کرتے رہے ۔ دوسری جانب نیو ایئر نائٹ پر صوبائی دارالحکومت کے کسی بھی اہم اور غیر اہم ہوٹل میں کمرہ دستیاب نہ تھا ۔ مختلف تنظیموں اور امراء نے اپنی خفیہ محفلیں سجانے کے لیے کئی روز پہلے ہی کمرے بک کروا لیے تھے ۔ پولیس نے درجنوں شرابی گرفتار کرکے ان سے شراب کی بوتلیں برآمد کیں۔(روز نامہ پاکستان یکم جنوری2002ء)

نیو ائیر نائٹ کی تباہ کاریاں:

نیو ایئر نائٹ کاایک خطرناک پہلو حادثات بھی ہیں جن سے ساری دنیانے جان بوجھ کرچشم پوشی کررکھی ہے۔چند خبروں پر نظرڈالئے:یکم جنوری 2005ء میں ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس کے ایک نائٹ کلب میں نیوایئرنائٹ کی تقریب کے دوران آتش بازی کے نتیجے میں آگ لگ گئی ۔ کم از کم200 افراد جل کر ہلاک اور400سے زائد شدید زخمی ہوگئے ۔پیراگویہ میں 2004ء کے دوران آتش بازی کے سبب 400افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔( نوائے وقت ،یکم جنوری ، 2005ء) بیونس آئرس ارجنٹائن میں 2002ء میں100 افراد ہلاک ہوئے ۔ ٭…برطانیہ میں 2002ء کی نیو ایئر نائٹ نے1362 افراد کو متاثر کیا ۔بے شمار لوگ اپنے اعضا سے محروم ہوگئے۔ چالیس گھروں کو آگ لگی ،500 گاڑیاں تباہ ہوئیں اورآتش بازی سے4825 جانور جل کر مرگئے۔2002ء میں نیو یارک شہر میں15 ہلاک اور 50شدید زخمی ہوگئے۔ ٭…پاکستان میں کثرت شراب نوشی اور زہریلی شراب پینے کے باعث52 افراد موت کے گھاٹ اترگئے۔(روز نامہ نوائے وقت ،یکم جنوری 2005ء )نیو ایئر نائٹ کی شرعی قباحتوں سے قطع نظرصرف ظاہری نقصانات کا یہ ایک سرسری جائزہ ہے جس سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ یہ رسم ایجاد کرنے والے اہل مغرب نے در اصل اپنی لادینیت اوربدتہذیبی کے سبب تفریح کا ایک انداز اختیار کیا۔ جبکہ دنیاکاکوئی بھی مذہب ایسی واہیات اور بے ہودہ تفریح کی اجازت کبھی نہیں دے سکتا جس میں جوانیاں برباد ہوں،عزت وعصمت غیرمحفوظ ہوجائے ،جان ومال تلف ہو، ناچ رنگ کے نام پر بدکاری ہو اور جام وسبو چھلکے ،کروڑوں اربوں روپیہ ضائع کردیاجائے اوراخلاقیات کی حدود پھلانگ کربے غیرتی وحیاسوزی کامظاہرہ کیاجائے ۔

مسلمانوں سے گزارش:

مسلمانوں سے گزارش ہے کہ خدارا ! ہوش سے کام لواور اغیارکے رسم ورواج اور تہواروں سے خودکوپاک کرو خواہ نیوائیرنائٹ ہویاویلنٹائن ڈے۔بسنت میلہ ہویاکوئی اورتہواران سے دوررہنے ہی میں اپنی عافیت جانو۔ یہ دنیامیں بھی نقصان دہ ہیں اورآخرت کی خرابی کاباعث بھی ۔ آخرکب تک تم اغیارکے غلام بن کرزندگی گزارو گے ۔کب تک ان کی پیروی کرکے دین ودنیاکوداؤپرلگائے رہوگے۔یادرکھو!ہمارے دشمن (یہودو ؤنصاری) بہت عیار ومکارہیں ان کی تمناوآرزوتو یہی ہے کہ مسلمان اپنے دین سے دوراور بیزار ہوکرمکمل طورپرہماری غلامی کاطوق اپنے گلے میں ڈال لیں!!!مگر نہیں۔ ان شاء اللہ عزوجل ایساکبھی نہیں ہوگا۔ آئیے ، عہدکیجئے کہ ہم ضروراپنے دین پرثابت قدم رہیں گے اوراغیارکے رسم ورواج اورفیشن سے تعلق توڑکرحضوررحمت العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں سے ناطہ جوڑیں گے ۔

ڈاکٹراقبال نے کیاخوب کہاہے:

آج بھی ہوجوبراہیم کاایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے اندازِگلستاں پیدا


جامعۃ المدینہ  عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں فارغ التحصیل علماء کے لئے ایک تخصص شروع کیا گیا ہے جس میں فقہ اسلامی کے ساتھ ساتھ طلباء کو جدید تجارت و معیشت کے اہم شعبہ جات کا تعارف، بنیادی معلومات اور دور جدید کے فنانس کے اداروں کے طریقہ کار بھی پڑھایا جاتا ہے ۔

اس تخصص کا نام ہے” تخصص فی الفقہ و الاقتصاد الاسلامی(Specialization in Islamic Economics & Jurisprudence)“

اس تخصص میں یومیہ بنیادوں پر کلاسوں کے ساتھ ساتھ کاروباری دنیا کے مختلف ماہرین افراد ہفتے میں دو دن الگ سے کلاسیں لیتے ہیں ۔ کسی بھی تھیوری کو سمجھنے کے لئے مطالعاتی دورہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اس سلسلے میں اس تخصص فی الفقہ و الاقتصاد الاسلامی کے نگران مفتی علی اصغر عطاری صاحب اور تخصص کے استاد مفتی سجاد عطاری صاحب اور تخصص فی الفقہ و الاقتصاد الاسلامی کے طلباء اور دار الافتاء اہل سنت کے چند علماء نے کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکس چینج (پی ایس ای)اور نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان (این سی سی پی) کا ایک مطالعاتی دورہ کیا۔

اس موقع پر سب سے پہلے نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان (این سی سی پی)کی طرف سے میٹنگ روم میں تفصیلی بریفنگ دی گئی کہ اسٹاک ایکسچینج کس طرح کام کرتا ہے اور کون کون سے اہم شعبہ جات پورے نظام کو کنٹرول کرتے ہیں اور خود نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان (این سی سی پی)کا کیا کام ہوتا ہے؟ اس تعلق سے تفصیلی بریفنگ کے دوران شرکاء کے سوالات اور ان کے جواب کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔

علاوہ ازین نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان (این سی سی پی) کے سی ای او لقمان صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور مفتی علی اصغر صاحب کو یادگاری شیلڈ پیش کی ۔

اس دورے کے دوسرے مرحلے میں پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے آڈیٹوریم میں اسٹاک ایکسچینج کے نظا م، اس کی تاریخ اور موجودہ پوزیشن اور مالکان کے تعلق سے بریف کیا گیا اور آخر میں ٹریڈنگ ہال کا دورہ کراتے ہوئے بروکر ہاوس کس طرح کام کرتے ہیں ؟اس بات پر بھی بریفنگ دی گئی ۔

آخر میں اسٹاک ایکسچینج کے ایک ڈائریکٹر سابق سی پی ایل سی چیف احمد چنائے صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ۔

مفتی علی اصغر صاحب کے دورے کے اختتام پر یہ تاثرات تھے کہ یہاں تو ہماری توقع سے بڑھ کر سود کا کام ہو رہا ہے اور شریعہ کمپلائنس کمپنیوں میں بھی بہت بہتری کی ضرورت ہے۔ جب تک سودی طریقہ سے دوری نہیں ہوگی مستحکم معیشت کی تشکیل نہیں ہو پائے گی ۔البتہ کچھ چیزیں ایسے بھی دیکھنے کو ملیں جو بہت مثبت تھیں اور علم میں اضافہ ہوا۔

از:ماہرِ امورِ تجارت مفتی علی اصغر عطاری مدنی

مورخہ: 9.12.2021


برِّ عظیم  میں مدوّن ہونے(ترتیب دئیے جانے)والے ”ملفوظات “کی عام طورپر دو قسمیں ہیں : (1)تحریری یادداشت پرمشتمل ملفوظات:بزرگان دین کی بارگاہ میں حاضر ہوکراقوال کوبطوریاداشت محفوظ کردیا جاتاتھا جیسے راحت القلوب، فوائد الفواد (2)مرتب ابواب پرمشتمل ملفوظات:نصیحتوں پرمشتمل ہونے والے اقوال و معمولات وغیرہ کو ابواب کی صورت میں محفوظ کیا جاتا تھا،بطورِ مثال دیکھنے کے لئے لطائف ِ اشرفی اور خزائن جلالیہ ملاحظہ کیجئے ۔

ملفوظات ِ اولیا کی قدر و قیمت:

بزرگان ِ دین کے ملفوظات کی مشائخِ کرام کے یہاں کیا قدر و قیمت رہی ہے ، یہ جاننے کے لئے جلیل ُالقدر اولیا کے چند فرامین ملاحظہ کیجئے :(1)شیخُ الاسلام حضرت بابا فرید الدین مسعودگنج شکررَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا ارشاد ہے : اگر کسی کو شیخِ کامل نہ ملے تو وہ اہلِ سلوک(اولیائے کرام) کی کتاب کا مطالعہ کرے اور اس کی پیر وی کرتا رہے۔(راحت القلوب،ص۱۵)(2) محبوب ِ الٰہی خواجہ نظامُ الدین اولیا رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہحضرت خواجہ امیر حسن علا ء سنجری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :مشائخ کی کتاب اور اشارات جو سلوک کے باب میں فرمائیں وہ مطالعہ میں رکھنی چاہئیں ۔(فوائد الفواد،مجلس بست و ہشتم،ص۴۹)(3)محبوب ِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیا رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جب میں شیخ ُالاسلام خواجہ فرید الدین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے دامن سے وابستہ ہوا تو میں نے ارادہ کیا کہ جو کچھ آپ کی زبان سے سنوں گا وہ لکھ لیا کروں گالہذا جو کچھ میں بابا فرید رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہسے سنتا لکھ لیا کرتا،جب اپنی قیام گاہ پر آتا تو کتاب میں لکھ لیتااس کے بعد بھی جو کچھ سنتا لکھ لیتا حتی کہ میں نے یہ بات بابا فرید رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو بتادی ۔اُس کے بعد بابا فرید رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ جب بھی کوئی حکایت یا ارشاہ فرماتے تو مجھے حاضر ہونے کا حکم ارشاد فرماتے اور اگر میں تاخیر سے آتا تو وہ بات دوبارہ دہرادیتے ۔ (فوائد الفواد،،مجلس بست و ہشتم،ص۴۹)

گزشتہ سطور میں ملفوظات اور بالخصوص برعظیم میں موجود ملفوظات کے بارے میں آپ پڑھ چکے، آئیے! ایک نظرچند کتب ِملفوظات کےناموں پر ڈالتے ہیں : (1)انیسُ الارواح اور گنج اسرار:ارشاداتِ خواجہ عثمان ہارونی،(2)دلیل العارفین:ارشادات خواجہ غریب نواز، (3)فوائدالسالکین: ارشادات خواجہ قطب الدین بختیار کاکی(4تا5)راحتُ القلوب،اسرار الاولیا: ارشاداتِ بابا فرید(6)سرور الصدور:ارشاداتِ شیخ حمید الدین ناگوری (7تا10)فوائد الفواد،افضل الفوائد، راحت المحبین اور سیرالاولیا:ارشادات ِ خواجہ نظام الدین اولیا (11)مفتاح العاشقین:ارشاداتِ خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی (12تا14)جامع العلوم، سراج الہدایہ،خزائن جلالیہ: ارشاداتِ مخدوم جہانیاں جہاں گشت (15تا 16) جوامع الکلم،انوار المجالس: ارشاداتِ خواجہ بندہ نواز گیسوداراز (17)لطائف اشرفی: ارشاداتِ مخدوم جہانگیر اشرف سمنانی (18تا 19) معد ن المعانی،خوانِ پُرنعمت: ارشادات ِ خواجہ شرف الدین یحٰی منیری (21تا20) نافع السالکین، مناقب المحبوبین:ارشاداتِ خواجہ سلیمان تونسوی(22)مرآت العاشقین: ارشاداتِ خواجہ شمسُ الدّین سیالوی۔

اللہ پاک نے اولیائے کرام رَحِمَھُمُ اللہ السَّلام کو کس قدر بلند مرتبہ عطافرمایا ہے اور مخلوق کے دل میں اِن حضرات کی کیسی الفت و محبت ڈالی ہے کہ ان پاکیزہ نفوس کودنیا سےرخصت ہوئے ہزاروں سال گزر چکے ہیں مگراِن حضرات کی پاکیزہ سیرت اورملفوظات سے دلوں کی مسند آج بھی آباد ہے ۔

تحریر: مولاناناصرجمال عطاری مدنی

اسکالرالمدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)


عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات معروف ہے کہ جس ذات کے جتنے کثیر اسماء ہوں گے وہ اتنی ہی زیادہ معظم و مکرم ہے ، ان زائد اسماء کو لقب یا صفت کہا جاتا ہے، اللہ پاک کا ذاتی نام ”اللہ“ ہے مگر صفاتی نام بہت ہیں۔ پاک و ہند میں اللہ پاک کے 99 نام معروف ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےذاتی نام ”محمد و احمد“ ہیں جبکہ صفاتی نام کثیر ہیں۔ ان موضوعات پر علمائے اسلام نے کئی کتب و رسائل لکھے ہیں جن میں اسمائے صفاتیہ کی وجوہات و حکمتوں پر کلام کیا گیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں بھی ہم رسول اللہ ﷺکے ایک ایسے ہی اسم صفت کے معانی اور اس میں موجود حکمت کے بارے میں پڑھے گئے۔

لفظ ’’اُمّی ‘‘ کا لغوی معنی:

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے صفاتیہ میں سے ایک صفت ”اُمّی“ بھی ہے ۔

چونکہ یہ ایک عربی لفظ ہے اس لئے سب سے پہلے لغت عرب سے اس کا معنی دیکھتے ہیں :

اُمّی ، اُم سے نکلا ہے اس کا ایک معنیٰ ہے اصل ،

اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو اپنی جبلتِ اولیٰ پر ہو یعنی جیسا پیدا ہوا ویسا ہی رہے یعنی لکھنے پڑھنے والا نہ ہو،

اُمّی کا ایک معنیٰ ام القریٰ جو کہ مکہ معظمہ ہی کا ایک نام ہے ۔

اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو ۔ (قاموس، تاج العروس و صحاح وغیرہم)

قرآن کریم میں لفظ ’’امی ‘‘ کا استعمال

قرآن کریم میں بھی لفظ اُمی مختلف مقامات پر حسب حال مختلف معانی میں مستعمل ہے مثلاً:

سورہ بقرہ آیت نمبر 78 میں ارشاد ہوا: وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ

اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا یا کچھ اپنی من گھڑت اور وہ نرے گمان میں ہیں

اسی طرح سورہ جمعہ کی آیت نمبر 2 میں فرمایا:

هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ

وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں

قرآن کریم میں سورۂ اعراف کے 2 مقامات پر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’امی ‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا گیا

ایک آیت نمبر 157 میں:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘

وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں

اور دوسرا مقام اسی سے اگلی آیت نمبر 158 میں :

فَآمِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون

تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ،اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔

حدیث پاک میں لفظ ’’امی ‘‘ کا استعمال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اپنی زبان مبارک سے لفظ امی کے معنیٰ کی وضاحت فرمائی امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حدیث نقل فرمائی حضور انور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا:

إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ “ یعنی ہم اہل عرب امی قوم ہیں ہم نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں (بخاری، 1/ 631، حدیث: 1913، دارالکتب العلمیہ بیروت)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ” إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أُمَّةٍ أُمَيَّةٍ “ یعنی مجھے امی قوم کی طرف (نبی بنا کر) بھیجاگیا۔ (صحیح ابن حبان، 3/ 14 حدیث: 739موسسۃ الرسالہ بیروت)

شارحین کا بیان کردہ معنیٰ

ان دونوں احادیث پر امام ابوالسعادات مبارك بن محمد جزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

آپ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ ہماری طرح اپنی پہلی جبلت پر ہیں جس پر پیدا ہوئے تھے، اور (اُمّی کا) ایک معنیٰ یہ بھی بیان کیا گیا کہ اُمّی وہ ہوتا ہے جو لکھتا نہ ہو مزید فرماتے ہیں یہاں امی سے اہلِ عرب مراد ہیں کیونکہ ان کے ہاں لکھنے لکھانے کا رواج بہت ہی کم تھا یا بالکل ہی نہیں تھا۔ (النہایۃ فی غریب الاثر، 1/ 69، دارالکتب العلمیہ بیروت)

شیخ امام عبدالرحمٰن جوزی رحمہ اللہ آخری حدیث کے تحت فرماتے ہیں: لفظ امیۃ سے مراد وہ قوم ہے جو لکھنا نہ جانتی ہو (غریب الحدیث لابن جوزی ، 1/ 41، دار الکتب العلمیہ بیروت)

معنیٰ عشق و محبت

لفظ اُمّی کا ایک معنیٰ ہے ”اصل“۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کائنات کی اصل بنا کر بھیجے گئے، باقی سب تو آپ کی فروعات (یعنی اولاد/امتی /آپ ہی کے دم قدم سے ہے) ہیں ۔

اسی طرح لفظ امام کی اصل بھی یہی مادہ ہے امام کہتے ہیں اس ذات کو جس کی طرف مقتدی جھکیں، جو وہ اشارہ کریں اس کی پابندی کریں غرض ہر معاملے میں وہی رہبر و رہنما ہے ۔

امام عشق و محبت ، امام اہل سنت سیدی امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اس تخیل کو کیسے خوبصورت انداز میں بصورت شعری فرماتے ہیں:

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

(حدائقِ بخشش، ص 206، مکتبۃ المدینۃ)

توجہ طلب بات

اب تک کی گفتگو سے اتنا ثابت ہوا کہ امی اسے کہتے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو، اس معنی کے عموم کو لے کر ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوئی معاذ اللہ رسول مکرم علیہ السلام پوری زندگی ایسے ہی رہے جو کہ سراسر خلافِ واقعہ بات ہے، ان لوگوں کو لفظِ امی کا معنیٰ سمجھنے میں غلطی ہوئی وہ لفظ جسے صفتِ محمودہ کے طور پر قرآنِ کریم نے بیان کیا اس سے لوگ ایک مذموم معنیٰ نکال کر حضور کے لئے ثابت کرتے ہیں، حالانکہ حضور کے امی لقب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کسی سکھانے والے کے سکھائے سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھے یہ معنیٰ نہیں کہ ربِ تعالیٰ نے آپ کو ایسا ہی رہنے دیا بلکہ وہ رب اپنے محبوب کی شان میں فرماتا ہے :

وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا (۱۱۳)

اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اُتاری اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے (النساء ، آیت:4)

صدرالافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی اس آیت کے تحت خزائن العرفان میں لکھتے ہیں:

اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کائنات کے علوم عطا فرمائے اور کتاب و حکمت کے اَسرارو حقائق پر مطلع کیا اوریہ مسئلہ قرآن کریم کی بہت آیات اور احادیث کثیرہ سے ثابت ہے۔

وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ(۴۸)

اور اس (نزولِ قرآن) سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا تو باطل والے ضرور شک لاتے (العنکبوت، آیت:48)

ان آیات سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ پاک نے نزولِ قرآن سے قبل ہی تمام علوم عطا فرمادئے

نزول قرآن سے قبل امی ہونے کی حکمتیں

ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل آپ کو صفتِ امِیَّت پر رکھنے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں ، اب وہ حکمتیں بیان کی جاتی ہیں:

(01)ابھی جو آیت کریمہ گزری اس میں ہی ایک حکمت موجود ہے کہ رسول اللہ اگر آپ لکھتے پڑھتے تو یہود آپ کی ضرور تکذیب کرتے اس لئے کہ ان کی کتب میں آخری نبی کی ایک نشانی اُمی ہونا بیان کی گئی تھی، مگر انہیں شک کا موقع اس لئے نہ مل سکا کہ حضور انور علیہ السلام میں یہ نشانی موجود تھی۔

(02)ایک حکمت یہ تھی کہ رسول اللہ کی رسالت، آپ پر وحی کا نزول اور قرآن پاک کے کلام اللہ ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہ رہے چونکہ یہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلےسے لکھنا پڑھنا جانتے ہیں تو یہ جسے قرآن اور وحی کہتے ہیں وہ خود ان کا اپنا کلام ہے، آپ کے بڑے بڑے دشمنوں تک نے تکذیبِ وحی کے سلسلے میں یہ اعتراض نہ کیا گویا دل سے وہ بھی مانتے تھے کہ یہ جو قرآن پیش کرتے ہیں وہ واقعی کلام اللہ ہے کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔

ہاں مگر کچھ مستشرقین نے تعصب میں آکر رسول اللہ کے اساتذہ کو ثابت کرنے کی سعی لاحاصل ضرور کی مگر ان کا یہ اعتراض اور ان کی یہ تحقیقات کسی قابل نہیں، جب وہ لوگ کہ جو نبی پاک ﷺکو لوگوں کی نظر میں غلط ثابت کرنے کے لئے کسی بھی قسم کا الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے انہوں نے بھی ایسا کوئی اعتراض ذاتِ گرامی پر نہیں کیا تو صدیوں بعد آنے والے محققین کی تحقیقات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔

خلاصہ کلام

پورے مضمون کا خلاصہ یہ نکلا کہ رسول اللہ امی تھے مگر اس معنیٰ میں کہ آپ کا کوئی دنیاوی استاد نہ تھا آپ کو تمام علوم آپ کے رب کریم نے عطا فرمائے۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی لقبِ اُمّی میں بہت حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اُمّی ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ محمودہ ہے۔

امام اہل السنۃ مجد د المائۃ الحاضرۃ والسابقہ سیدی امام احمد رضا خان قادری رحمہ اللہ کیا خوب فرماتے ہیں:

ایسا اُمّی کس لئے منت کشِ استاد ہو

کیا کفایت اس کو اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمْ نہیں

(حدائق بخشش، ص 106)

از:محمد حسین بشیر حنفی فریدی

ریسرچ اسکالر المدینۃ العلمیۃ (اسلامک ریسرچ سینٹر)


آج بڑی سردی ہے!

Sat, 11 Dec , 2021
2 years ago

فرمانِ مصطَفٰےﷺ:جب سخت گرمی ہوتی ہے تو بندہ کہتا ہے: ’’لَاالٰہ الّااللہُ‘‘ آج بڑی گرمی ہے! اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے جہنَّم کی گرمی سے پناہ دے، اللہ عَزَّوَجَلَّ دوزخ سے فرماتا ہے: ’’میرا بندہ مجھ سے تیری گرمی سے پناہ مانگ رہا ہے او رمیں تجھے گواہ بنا تا ہوں کہ میں نے اسے تیری گرمی سے پناہ دی۔‘‘ اور جب سخت سردی ہوتی ہے تو بندہ کہتا ہے:’’ لَاالٰہ الّااللہُ ‘‘ آج کتنی سخت سردی ہے! اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے جہنَّم کی زَمْھَرِیر سے بچا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ جہنَّم سے کہتا ہے : میرا بندہ مجھ سے تیری زَمْھَرِیر سے پناہ مانگ رہا ہے اور میں نے تیری زَمْھَرِیر سے اسے پناہ دی۔صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانْ نے عرض کی: جہنَّم کی زَمْھَرِیرکیا ہے؟ فرمایا: وہ ایک گڑھا ہے جس میں کافر کو پھینکا جائے گا تو سخت سردی سے اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ (اَلْبُدُوْرُ السَّافِرَۃِ لِلسُّیُوطی ،ص۴۱۸حدیث۱۳۹۵


آخری اینٹ

Tue, 7 Dec , 2021
2 years ago

اللہ تعالی نے ہم پر احسان کیا کہ ہمیں نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی امت میں پیدا کیا اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو تمام انبیاء پر فضیلت عطا فرماکر تمام انبیاء کا سردار اور خاتم الانبیاء بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔

نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کا خاتم النبیین یعنی آخری نبی ہونا اور قیامت تک آپ کے بعد کسی نبی کا نہ آنا،یہ اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے جس کو مانے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔اور جو شخص اس میں کسی بھی قسم کا شک و تردد رکھتا ہے یا تردد رکھنے والے شخص کو مسلمان مانتا ہے تو وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ یہ عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے اور قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔

قرآن کریم میں ہے۔مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہ ِوَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیءٍ عَلِیْمًا۔(الاحزاب،40)

یعنی محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔

1)حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک میرے بہت سےنام ہیں میں محمد ہوں میں احمد ہوں میں ماحی ہوں. جس کے ذریعے اللہ تعالی کفر کو مٹاتا ہےمیں حاشر ہوں کہ قیامت کے دن لوگوں کاحشر میرے قدموں پر ہوگا۔میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(مسلم شریف)

2) حضرت ابو موسی سائیں رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں محمد ہوں اور احمد ہوں۔آخری نبی ہوں، میں حاشر ہوں،میں نبی توبہ اور نبی رحمت ہوں۔(مسلم شریف)

3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:مجھے دیگر انبیاء اور رسل پر چھ چیزوں کے ذریعے فضیلت و برتری دی گئی۔پہلی چیز تو یہ کہ مجھے کلمات جامعہ عطا ہوئے۔دوسری چیز یہ کہ رعب و دبدبے کے ذریعے میری نصرت کی گئی،تیسری چیز یہ کہ اموال غنیمت میرے لیے حلال کیے گئے، چوتھی چیز یہ کہ تمام روئے زمین میرے لیے مسجد اور طاہر ومطہر بنائی گئی.پانچویں چیز یہ کہ مجھے تمام جہاں کے لیے رسول بنایا گیا،اور چھٹی چیز یہ کہ میری ذات پر نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم کیا گیا۔ (مشکوة شریف)

4) ابو امامہ باہلی رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں صفِ انبیا میں آخری نبی اور تم امتوں میں آخری امت ہو۔ (سنن ابن ماجہ)

نبی کریم علیہ الصلوة والسلام نے جہاں کئی احادیث میں اپنا آخری نبی ہونا بیان کیا وہیں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کئی لوگ خود کو میری طرح سمجھیں گے اور نبوت کا جھوٹا دعوی کریں گے۔جیسا کہ سنن ابو داود میں ہے: میری امت میں میرے بعد تیس جھوٹے ہوں گے.ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(مشکوة شریف)

اس فرمان کا ظہور آپ کی مبارک حیات میں ہی سامنے آگیا جب یمن میں اسود عنسی نامی شخص نے دعوی نبوت کیا۔جب نبی کریم علیہ الصلوة والسلام وصال کے قریب تھے تو فیروز دیلمی نے اس بدبخت کا خاتمہ کردیا اور سرکار نے اسی وقت ان کے لوٹنے سے پہلے ہی اس قتل کی خوشخبری صحابہ کرام کو سنادی تھی۔

ایک حدیث میں آپ نے بہت خوبصورت مثال کے ذریعے اس عقیدہ کو واضح کیا۔ارشاد فرمایا:میری اور مجھ سے پہلے انبیا کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک نہایت حسین و جمیل گھر بنایا،مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئیی،پس لوگ اس گھر کے گرد چکر لگاتے ہیں اور اس کے فن تعمیر پر حیرت زدہ ہوکر کہتے ہیں:کاش اس جگہ اینٹ لگادی گئی ہوتی(پھر اس عمارت میں کوئی نقص باقی نہ رہتا،ہر جہت سے باکمال ہوتی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(سو عمارت نبوت کی وہ آخری) اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(بخاری)

شریعت کے ساتھ عقل انسانی اور فطرت بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ نبوت کا اختتام ہوا ہو کیونکہ جو بھی مخلوق موجود ہے اس کی تین حالتیں ہیں اور کوئیی بھی وجود ان تین حالتوں سے مبرا نہیں ہے۔1 ابتدا 2 ارتقا 3 اختتام۔کسی بھی وجود پر نظر ڈال لیجئیے انسان و جن،حیوان و طیور،شجر و حجر جمادات و نباتات میں سے ہر ایک کی پہلے ابتدا ہوتی ہے پھر اس کی افزائیش،نشونما اور ارتقا ہوتا ہے۔پھر بعد ارتقا وہ اختتام کی طرف آتی ہے اور صفحہ ہستی سے معدوم ہوجاتی ہے۔اسی طرح نبوت بھی ایک وجودی چیز ہے جس کی ابتدا اور ارتقا سب مانتے ہیں۔ان دو حالتوں کے بعد اختتام ہوتا ہے اور نبی کریم علیہ الصلوة والسلام پر اس کا اختتام ہوچکا ہے۔اس لئیے قیامت تک آپ کے بعد کوئیی جدید نبی نہیں آئے گا۔

از قلم :حافظ نعمان حسین

shaikhnoman290@gmail.com


فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي یعنی میں ہی تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ ہی عطا فرماتا ہے۔ (بخاری،ج1،ص42،حدیث:71)

اس حدیثِ مبارکہ میں اس بات کی صراحت نہیں کہ سرورِ دو عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیا عطا فرمانے والے ہیں، اس صورت میں اصول کے مطابق معنیٰ یہ ہوگا کہ ہر نعمت کو تقسیم کرنے والے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے واسطے کے بغیر کسی کو کچھ نہیں مل سکتا۔

فقیہِ اعظم ہند حضرت علّامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں :مخلوق میں کسی کو حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بِلا واسطہ کچھ نہیں مل سکتا ۔ بخاری وغیرہ میں صحیح حدیث ہے کہ فرمایا : ”اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي“ ۔ قَاسِمٌ اور يُعْطِي دونوں کا متعلّق محذوف ہے جو عموم کا اِفادہ کرتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ مخلوقات میں جس کو جو کچھ بھی دیتا ہے خواہ وہ نعمت جسمانی ہو یا روحانی ، ظاہری ہو یا باطنی سب حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھ سے دلاتا ہے۔اس لئے علامہ احمد خطیب قسطلانی شارح بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی نے ”اَلْمَوَاھِبُ اللَّدُنیہ“ میں فرمایا، جسے علامہ محمد بن عَبدُالباقی زُرقانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے باقی رکھا: ھُوَ صَلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خِزَانَۃُ السِّرِّ وَمَوْضِعُ نُفُوْذِالْاَمْرِ فَلَا یَنْقُلُ خَیْرٌاِلَّا عَنْہُ وَلَا یَنْفُذُ اَمْرٌ اِلَّا مِنْہُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔ یعنی حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خزانۃ السر (یعنی پوشیدہ راز) ہیں اور اللہ تعالٰی کے حکم کے نافذ ہونے کا مرکز ، اس لئے ہر چیز حضور ہی سے منتقل ہوتی ہے اور ہر حکم حضور ہی سے نافذ ہوتا ہے۔(فتاویٰ شارح بخاری،ج1،ص351)

حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ دین و دنیا کی ساری نعمتیں علم، ایمان، مال، اولاد وغیرہ دیتا اللہ ہے بانٹتے حضور ہیں جسے جو مِلا حضور کے ہاتھوں مِلا کیونکہ یہاں نہ اللہ کی دَین (یعنی دینے) میں کوئی قید ہے نہ حضور کی تقسیم میں، لہٰذا یہ خیال غلط ہے کہ آپ صرف علم بانٹتے ہیں ورنہ پھر لازم آئے گا کہ خدا بھی صرف علم ہی دیتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج1، ص177)

بعض علما نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تقسیم میں فقط عِلم کا ذکر کیا ہے لیکن یہ تقسیم صرف عِلم کے ساتھ خاص نہیں، کثیر ائمہ نے اس تقسیم کو عام رکھا ہے کہ علم ہو یا مال ہر نعمت حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی تقسیم فرماتے ہیں ۔

پانچویں صدی ہجری کے بزرگ، شارحِ بخاری امام ابن بطّال مالکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: حضور علیہ الصَّلوٰۃ وَالسَّلام کا یہ فرمان ”اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ“ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضور علیہ الصَّلوٰۃ وَالسَّلام اپنے پاس کوئی مال نہیں رکھتے تھے بلکہ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان میں تقسیم فرما دیتے اور آپ علیہ الصَّلوٰۃ وَالسَّلام کا یہ فرمان لوگوں کی دل جوئی کے لئے تھا کہ کسی کو کم زیادہ مل رہا ہے تو یہ اللہ تعالٰی کی عطا ہے جس کو میں زیادہ دے رہا ہوں تو وہ بھی اللہ تعالٰی کے مقرر کرنے کی وجہ سے اور کسی کو اس کے مقابلے میں کم دے رہا ہوں تو یہ بھی اللہ تعالٰی کے مقرر کرنے کی وجہ سے۔(شرح ابن بطال علی صحیح البخاری،ج1،ص141ملخصاً)

دسویں صدی ہجری میں وصال فرمانے والے عظیم مُحدّث، حافظ ابنِ حجر ہیتمی مکی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ تعالٰی کے خلیفۂ اعظم ہیں،اللہ تعالٰی نے اپنے کرم کے خزانے اور نعمتوں کے دسترخوان حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھوں میں دے دیئے ہیں حضور جسے جو چاہیں عطا فرما دیں۔(الجوهر المنظم، ص 80)

رب ہے مُعْطِی یہ ہیں قاسم

رزْق اُس کا ہے کھلاتے یہ ہیں

اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر

ساری کثرت پاتے یہ ہیں

ان کے ہاتھ میں ہر کنجی ہے

مالک کُل کہلاتے یہ ہیں

(حدائقِ بخشش)

ایک پیالہ دودھ سب کو کافی ہوگیا

حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بھوک کی حالت میں راستے میں موجود تھے کہ اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے اور چہرہ دیکھ کر ان کی حالت سمجھ گئے۔ انہیں ساتھ لے کر اپنے مکانِ عالی شان پر تشریف لائے تو دودھ کا ایک پیالہ موجود تھا۔ جو کسی نے بطورِ تحفہ بھیجا تھا۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ جاکر اَصحابِِ صُفّہ کو بُلا لائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ ایک پیالہ دودھ سے اَہْلِ صُفّہ کا کیا بنے گا، اگر یہ دودھ مجھے عطا ہو جاتا تو میرا کام بن جاتا۔ بہر حال حکمِ رسالت پر عمل کرتے ہوئے اصحابِ صُفّہ کو بُلا لائے۔ اب اِن ہی کو حکم ہوا کہ پیالہ لے کر سب کو دودھ پِلائیں۔ آپ پیالہ لے کر اصحابِ صُفّہ میں سے ایک صاحب کے پاس جاتے، جب وہ سَیر ہو کر پی لیتے تو ان سے پیالہ لے کر دوسرے کے پاس جاتے۔ ایک ایک کر کے جب تمام حاضرین نے سیر ہوکر دودھ پی لیا تو پیالہ لے کر آقائے مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچے۔ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پِیالہ لے کر اپنے مبارک ہاتھ پر رکھا، ان کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ پھر فرمایا: بیٹھو اور پیو۔ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیٹھ کردودھ پیا۔ دوبارہ حکم ہوا: پیو، انہوں نے پھر پیا۔سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار فرماتے رہے: پیو، اور حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پیتے رہے یہاں تک عرض گزار ہوئے: اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میرے پیٹ میں اب مزید گُنجائش نہیں ہے۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے پیالہ لے کر اللہ پاک کی حمد کی، بِسْمِ اللہ پڑھی اور باقی دودھ نوش فرما (یعنی پی) لیا۔(بخاری،ج 4،ص234، حدیث: 6452 ملخصاً)


اَذان ایک عظیم عبادت،ذکرِ الہٰی کاعُمدہ انداز،اسلامی شعار،باعثِ نُزولِ برکت اوردافعِ مصیبت و وَبا ہے۔پانچ فرض نمازوں بشمول نمازِ جمعہ کےلئےاَذان سنتِ مؤکدہ ہےجبکہ یہ نمازیں جماعتِ مستحبہ کےساتھ مسجد میں وقت پرادا کی جائیں مگرنمازکےعلاوہ بھی کئی مَقاصداورمَواقع کےلئےاَذان کو شرعاًمستحب قرار دیا گیاہے۔دفعِ بَلا اور وَبا کےلئےاَذان بڑا مجرَّب وَظیفہ ہےکہ فقہائےکرام نے کئی مصیبتوں اوروباؤں سےخلاصی پانے کےلئےاَذان کہنےکی ترغیب دلائی ہے۔رنج وغم کودُور کرنےکےلئے اَذان دِلوانےکا حکم تو خود حدیثِ پاک میں صراحت کےساتھ موجودہے۔  

اذان دافعِ رنج و غم ہے :

شیخ علامہ علی قاری رحمۃاللہ علیہ اورمجدِّدِ اعظم،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ’’مسندالفردوس‘‘کےحوالےسےمولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نےارشاد فرمایا: راٰنی النبیُ حَزیناً، فقال: یاابن ابی طالب انی اراک حزیناً،فَمُر بعضَ اَھلِک یؤذن فی اُذُنِک فانہ درءالھمیعنی مجھےحضورسیِّدعالمﷺنےغمگین دیکھا، ارشاد فرمایا: اے ابوطالب کےبیٹے(علی)! میں تجھےغمگین پاتاہوں اپنے کسی گھروالےسےکہہ کہ تیرے کان میں اَذان کہے،اَذان غم و پریشانی کی دافِع (دُور کرنےوالی)ہے۔(مرقاۃالمفاتیح،کتاب الصلاۃ،باب الاذان،2/310) (فتاویٰ رضویہ،5/668)

اَذان عذاب سےاَمان دِلواتی ہے :

حضرت سیِّدنااَنس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ حضورجانِ عالَمﷺنےارشادفرمایا: جس بستی میں اَذان کہی جائے،اللہ عزوجل اپنے عذاب سےاُس دن اُسےاَمن دیتاہے۔(المعجم الصغیرللطبرانی،باب الصاد،1/179)

اَذان دیناکب کب مستحب !

علامہ سیّدمحمدامین ابن عابدین شامی رحمۃُاللہ علیہ نے’’ردالمحتار‘‘میں’’مَطلب:فی المَواضعِ التی یُنْدَبُ لَھَا الْاَذَانُ فی غَیْرِ الصَّلاۃِ‘‘کےعُنوان سےتحقیق فرمائی ہے کہ نماز کے علاوہ کن کن جگہوں پراَذان کہنا مستحب ہے۔علامہ شامی رحمۃُاللہ علیہ کی اس تحقیق کا خلاصہ صدرالشریعہ،بدرالطریقہ مفتی محمد امجدعلی اَعظمی رحمۃُاللہ علیہ کےقلم سے ملاحظہ ہو: بچے اورمغموم(غمگین)کےکان میں، مِرگی والے، غضب ناک ، بدمزاج آدمی یا جانور کےکان میں ،لڑائی کی شدّت اورآتش زدگی(آگ لگنے)کےوقت ،بعد دفنِ میت، جِن کی سرکشی کےوقت ،مسافرکےپیچھے،جنگل میں جب راستہ بھول جائےاورکوئی بتانے والا نہ ہواس وقت اَذان(دینا)مستحب ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب الاذان،2/50،مکتبہ امدادیہ) (بہارِ شریعت،حصہ3،اذان کا بیان،مسئلہ12)

مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃُاللہ علیہ’’مراٰۃالمناجیح‘‘میں تحریرفرماتےہیں:نماز کےعلاوہ 9 جگہ اَذان کہنا مستحب ہے۔بچےکےکان میں،آگ لگتے وقت،جنگ میں،جِنات کےغلبہ کےوقت،غمزدہ اورغصّےوالےکےکان میں،مسافرجب راستہ بھول جائے،مِرگی والے کےپاس اورمیت کودفن کرنےکےبعدقبرپر(درمختار و شامی)۔ (مراٰۃالمناجیح،1/399،نعیمی کتب خانہ)

دفعِ وَبا کےلئےاَذان کہنا:

وَبا دُورکرنے کی نیت سےاَذان دینے کے بارےمیں جب امامِ اہلسنت،اعلیٰ حضرت رحمۃُاللہ علیہ سے خاص سوال ہوا کہ دفعِ وبا کےلئے اَذان درست ہے یا نہیں؟ تو مجدِّدِ اعظم،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جواباً ارشاد فرمایا: درست ہے،فقیر نےخاص اس مسئلہ میں رسالہ’’نَسِیْمُ الصَّبَا فِیْ اَنَّ الْاََذَانَ یحول الْوَبَا‘‘لکھا۔ (فتاویٰ رضویہ،5/370)

وَبا دُور کرنے کےاِرادے سےاَذان کہنے کےجواز سےمتعلق جب ایک اورمقام پرسوال ہوا کہ:کیافرماتےہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ لوگ وَباءپھیلنے کے وقت و بَلِیّات و آندھی و طوفان شدید وغیرہ کےاَذان کہتےہیں،یہ امرشرعاً جائزہےیا نہیں؟ تواعلیٰ حضرت رحمۃُاللہ علیہ نے جواب دیتےہوئے تحریرفرمایا: جائزہےاورجوازکےلئے حدیثِ صحیح(موجودہے) ۔

مَا مِنْ شَئ اَنْجَی مِنْ عَذَابِ اللہِ مِنْ ذِکْرِِ اللہِ فَاِذَا رَاَیْتُمْ ذٰلِکَ فَافزعوا اِلی ذِکرِ اللہ۔(ذکرِ الٰہی سےزیادہ کوئی شےاللہ عزوجل کےعذاب سے چُھڑانےوالی نہیں۔پھر جب تم عذاب دیکھوتواس(گھبراہٹ کی)حالت میں اللہ عزوجل کےذکر کےذریعےپناہ حاصل کرو۔) (جامع الترمذی،2/173)

اور آیۂ کریمہ: اَلَابِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔(سُن لو اللہ کی یاد ہی میں دِلوں کاچین ہے۔) (الرعد:28) (فتاویٰ رضویہ،23/174)

صدرالشریعہﷺ،بدرالطریقہ مفتی محمدامجدعلی اَعظمی رحمۃُاللہ علیہ بھی’’بہارِشریعت‘‘میں خاص وَبا دُورہونےکی نیت سےاَذان کہنےکاشرعی حکم بیان فرماتےہیں کہ: وَباکےزمانے میں بھی(اَذان)مستحب ہے۔(بہارِ شریعت،حصہ3،اذان کا بیان،مسئلہ12)

تنبیہ:اَذان صرف مَرد حضرات یا سمجھدار بچے ہی دیں،خواتین کو اِس کی اجازت نہیں۔خواتین پردے کی حالت میں نماز،تلاوت،ذکرو تسبیح اوردُرود وغیرہ پڑھیں،وہ بھی اِس احتیاط کےساتھ کہ اُن کی آواز کسی نامحرم(اجنبی مرد) تک نہ پہنچے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کتبہ: ابوالحقائق راشدعلی عطاری مدنی



مولانامحمدعبدالواحد رضوی رحمۃ اللہ علیہ

چودھویں صدی ہجری کی ایک مؤثرترین ہستی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ہے،آپ بہت بڑے عالم دین ،مفتی اسلام ،مفسرقرآں،محدث دوراں ، صاحب ِ دیوان شاعر،صاحب تصانیف،مجددِ وقت ،شیخ الاسلام والمسلمین، جامع معقول و منقول اورعبقری شخصیت کے مالک تھے ،آپ قدیم علوم کے ساتھ ساتھ جدیدعلوم پربھی دسترس رکھتے تھے ،برعظیم پاک وہندکے علماوعوام آپ کی شخصیت سے بہت عقیدت رکھتےہیں ،علمائے عرب بھی آپ کے علم وبزرگی کے قائل تھے ،عرب وعجم میں اس مقبول ہستی سے مستفیض ہونے والوں نے اپنےاپنے دائرہ کارمیں کارہائے نمایاں سرانجا م دئیے،انہیں میں سے خیبرپختون خواہ کے عالم دین،استاذالعلما حضرت مولاناحافظ قاضی محمدعبدالواحدرضوی صاحب بھی ہیں ،جو اعلیٰ حضرت کے شاگرداورخلیفہ ہیں ،انھوں نے اپنی ساری زندگی اللہ پاک اور رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے وقف کردی تھی ،ذیل کی سطورمیں ان کا ذکرخیرکیا جاتاہے ۔

خاندان کا تعارف

تلمیذ وخلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت علامہ مولاناحافظ قاضی محمدعبدالواحدرضوی صاحب کا تعلق ضلع سوات (خیبرپختون خواہ،پاکستان )(1) کے گاؤں مانیارسوات (2) کے اخوندزادہ شیخ خاندان سےہے،آپ کا خاندان تقریبا 1100ھ/1700ء میں سوات سے گھڑی کپورہ(Garhi Kapura ) (3) ضلع مردان (4) میں منتقل ہواتھا ،وجۂ ہجرت یہ ہوئی کہ دوقبیلوں امازئی اورکمال زائی میں جھگڑاہوگیا ،امازئی قبیلہ حق پر تھا مگرکمزورتھا ،انھوں نے مدد کے لئے علاقہ مانیار سوات کے میاں سید حسین بابارحمۃ اللہ علیہ (5)سے درخواست کی ،چنانچہ بابا جی اپنی فوج اورقاضیوں کے ساتھ گڑھی کپورہ تشریف لائے، امازئی قبیلے کو کامیابی حاصل ہوئی ،چونکہ میاں سید حسین باباجی کی والدہ اسی علاقہ گڑھی کپورہ کی تھیں اس وجہ سے آپ یہیں مستقل مقیم ہوگئے اور وصال بھی یہیں ہوا۔ آپ کے ساتھ جو علماء اور قاضی تشریف لائےتھے ، ان میں ایک اہم شخصیت حضرت مولانا قاضی علی احمدقادری صاحب(سوات باباجی) کی ہے جوشیخ الاسلام والمسلمین حضرت سیدوبابا اخوندعبدالغفورقادری صاحب(6) کے خلیفہ ،جیدعالم دین،امام وقاضی علاقہ تھے ،آپ کی وفات امازو گھڑی (گڑھی کپورہ)میں ہوئی اوریہاں کے مشہور سنڈا سَرقبرستان گڑھی اسماعیل زئی میں دفن کیے گئے،یہاں آپ کا مزاردعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے ۔ان کے رشتہ دار،شاگردوجانشین اصولی بابا حضرت مولاناقاضی غازی الدین قادری(7) تھے جو کہ مولانامحمد عبدالواحدصاحب کے والدگرامی ہیں ۔ (8)

پیدائش

حضرت مولانا قاضی حافظ محمد عبدالواحدرضوی صاحب کی ولادت 1302ھ /1882ء میں علاقہ امازئی گڑھی کپورہ (ضلع مردان ،خیبرپختونخواہ)پاکستان میں ہوئی ۔آپ عوام الناس میں ’’مولوی صاحب ‘‘ اوراپنے خاندان میں ’’ڈھلی کاکاجی‘‘کے القابات سے جانے جاتے تھے ،ان کو ڈھلی کاکاجی اس لیے کہاجاتاہے کہ خاندان میں سب سے پہلے آپ نے دہلی (9) جاکر وہاں کےمشہورمدرسۃ الاسلام(10) میں داخلہ لیا تھا۔ (11)

والد گرامی کا تذکرہ

علامہ محمد عبدالواحدرضوی صاحب کے والدگرامی صاحبِ حق، اصولی بابا حضرت مولانا قاضی غازی الدین قادری ہیں جو تقریبا1223ھ/ 1808ء میں پیداہوئے ،آپ اپنے والداخوندزادہ محی الدین خان صاحب کے اکلوتے فرزندتھے، آپ مانیارسوات سے علاقہ امازئی گڑھی میں منتقل ہوئے اپنے خاندان کی عظیم علمی شخصیت علامہ قاضی علی احمدقادری صاحب(سوات باباجی) سے علم دین حاصل کیا ،اصول وفنون میں مہارت حاصل کرکے ’’اصولی بابا‘‘کے لقب سے مشہورہوئےاورقاضی علی احمدقادری صاحب کے انتقال کے بعد ان کے علمی جانشین اورپورے علاقے کے قاضی مقررہوئے ،درس وتدریس کاسلسلہ بھی جاری رہاآپ کے مشہورشاگردوں میں٭آپکے بیٹے صاحبِ حق ، شمس العلما حضرت مولانا قاضی عبدالخالق صاحب(12) ٭ حضرت مولانامروَت عبدالقہارصاحب (13) ٭ہوتی ملاصاحب حضرت مولانا حکیم احمدنورصاحب(14) ٭ اورمولاناسیدفضل صمدانی بنوری صاحب(15) ہیں ۔ (16) اصولی بابا قاضی غازی الدین قادری نے1338ھ/ 1920ء میں جمعیت علمائے احناف یوسف زئی قائم فرمائی جس کے صدرآپ خود تھے ،نائب صدرمفتی سرحدمولانا شائستہ گل صاحب قادری (17) اور مشہورعالم دین، شیخ الاسلام ،باباجی یارحسین علامہ عبدالحنان قادری صاحب (18) اس کے رکن تھے۔جبکہ آپ کے بیٹے حافظ عبدالودودقادری صاحب ((19 جمعیت کےناظم اعلیٰ بنائے گئے ،ہندبھرکے بڑے بڑے علماسے حافظ عبدالودودصاحب کی خط وکتابت تھی ،جمیعت کے قیام اورفعال کردارکی وجہ سے ہند کےدوردرازشہروں کے علما گڑھی کپورہ (پشتونام امازوگھڑی) سے متعارف ہوئے ۔(20) قاضی غازی الدین قادری نے 13ذیقعدہ1357ھ /6جنوری1939ء بروزجمعہ وفات پائی ،آپ کی کرامت ہے کہ بغیرکسی ظاہری سبب کے چاروں جانب آپ کی وفات کی خبرپھیل گئی اورلوگ آپ کی نمازجنازہ میں شرکت کےلیے جوق درجوق آنے لگے، چالیس ہزارسے زائد لوگوں نے آپ کی نمازجنازہ میں شرکت کی ،آپ کو مقامی سنڈا سَرقبرستان گڑھی اسماعیل زئی میں دفن کیا گیا ۔(21)

والدہ محترمہ کا ذکرخیر

علامہ عبدالواحدرضوی صاحب کی والدہ محترمہ بی بی مریم معززقاضی سیّد خاندان کے چشم وچراغ قاضی سیّد فقیرشاہ (22) قاضی خیل،طورو معیار(ضلع مردان)کی بیٹی تھیں ،آپ عالمہ فاضلہ ،صابرہ شاکرہ اورعابدہ وزاہدہ خاتون تھیں ،اللہ پاک نےآپ کو دو بیٹیوں اورچھ بیٹوں کی نعمت سے نوازا،دوبیٹوں کا انتقال بچپن میں ہوگیا بقیہ چاربیٹے یہ ہیں :٭صاحبِ حق،شمس العلما مولاناقاضی عبدالخالق صاحب٭استاذالعلماحضرت مولاناقاضی حافظ عبدالواحد رضوی٭حضرت مولانا قاضی حافظ عبدالودودقادری صاحب ٭حکیم زین العابدین دہلوی (23)صاحب ۔ (24)

تعلیم وتربیت

حضرت مولانا عبدالواحدرضوی صاحب بچپن سے اسلامی علوم کی جانب متوجہ تھے ،چندسال کے تھےکہ قرآن مجیدحفظ کرلیا ،اس کے بعدابتدائی اسلامی علوم کی تحصیل اپنے والدصاحب سمیت علاقے کےعلماسے کی ،بعدِ بلوغت دہلی،ریاست رامپور(25) اوربریلی(26) وغیرہ کے مدارس میں حصول تعلیم کے لیے روانہ ہو گئے ،ان مدارس میں آپ نے 14 سال علم دین حاصل کرنے میں گزارے،ان میں سے ایک سال مدرسۃ الاسلام دہلی میں رہے اوربقیہ تعلیم مدرسہ عالیہ رامپور(27) اوردارالعلوم (مدرسہ اہل سنت وجماعت)منظراسلام بریلی شریف (28) وغیرہ میں حاصل کی ۔ (29)

مدرسۃ الاسلام دہلی اورعلامہ عبدالواحدصاحب

غالبا آپ نے 1335ھ /1817ءمیں اس مدرسۃ الاسلام المعروف مدرسہ مولوی عبدالرب میں داخلہ لیا،اس میں حضرت مولانا عبدالعلی دہلوی صاحب(30) اور مولانا محمدشفیع دہلوی صاحب (31) سے ہدایہ شریف ،صحاح ستہ ،شمائل ترمذی اورقصیدہ بردہ شریف پڑھنے کی سعادت حاصل کی ۔فراغت 15شعبان 1336ھ /26مئی 1918ءکو ہوئی، اختتام پر سند دی گئی جو ان کے ورثاکے پاس اب بھی موجودہے ۔(32)

دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف میں داخلہ

مدرسۃالاسلام دہلی سے فراغت کے بعد بھی علم کی پیاس باقی رہی اورغالبا شوال المکرم 1336ھ/جولائی 1918ء میں دارالعلوم (مدرسہ اہل سنت وجماعت )منظراسلام بریلی میں داخلہ لے لیا چنانچہ فتاویٰ رضویہ جلد10صفحہ 72پر آپ کااستفتاء درج ہے جس سے معلوم ہوتاہے رضوی صاحب 27ذوالحجہ1336ھ کو دارالعلوم منظراسلام کےطالب علم تھے۔ آپ کا بریلی شریف میں قیام دوسال غالبا شوال المکرم 1336ھ/جولائی 1918ء تا 20ذی الحجہ 1338ھ/ 5ستمبر1920ء پر محیط ہے ۔اس میں آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان ،حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان(33) ،مولانا رحم الٰہی منگلوری (34) اورحضرت مولانا علامہ مولانا ظہورالحسین فاروقی نقشبندی(35) سے استفادہ کیا ۔

دارالعلوم منظراسلام سےسندکا اجراء

یہاں سےمولانا عبدالواحدرضوی صاحب کی فراغت 20ذی الحجہ1338ھ/5ستمبر1920ءکو ہوئی اورآپ کواسی دن سَنَدالتکمیل لمن اکمل التحصیل دی گئی، غالبا اسی دن آپ کو سلسلہ قادریہ رضویہ کی خلافت سےبھی نوازاگیا ۔ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان (36) رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے نام کے ساتھ یہ القابات تحریر فرمائے: الاخ السعید،الحمیدالرشید،ذوالقلب المکین،والدین المتین ،محب السنۃ،مبغض الفتنہ،العالم العامل،والفاضل الفاضل،المولوی عبدالواحدالرضوی بن المولوی غازی الدین المتوطن گڑھی کپورافشاورجعلہ اللہ ذاالفضل السامی ،والفیض النامی ۔ان القابات سے آپ کی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے۔(37) حضرت صاحبزادہ وجاہت رسول قادری صاحب (38) نےدارالعلوم منظراسلام کے نصاب کا ذکر کرتے ہوئےاس سندکا ذکر اس طرح فرمایا ہے :’’اس دارالعلوم کا نصاب امام احمدرضا نے اجل علماء کی معاونت ومشوروں سے خودترتیب دیاتھا ،تعلیمی معیارکا اندازہ ان کتب تفسیر،احادیث وفقہ سےلگایا جاسکتاہےجودارالعلوم منظراسلام کی اس سندحدیث میں مذکورہیں جو امام احمدرضا علیہ الرحمہ کی حیات میں جاری ہوئی تھیں ،راقم کے سامنےوہ سندفراغت ہے جوحضرت علامہ عبدالواحدرضوی ابن مولانا غازی الدین ساکن گڑھی کپورہ (پشاور،پاکستان)کو 20ذی الحجہ1338ھ/ 1920ء کو امام احمدرضا کی حیات میں جاری ہوئی تھی،اس پر علامہ مولانا حامدرضا خاں صاحب نے بحیثیت مدیراورعلامہ رحم الٰہی اورعلامہ مولانا ظہورالحسین الفاروقی نقشبندی المجددی نےبطورمدرس دستخط فرمائے ہیں ۔اس کی خاص بات یہ ہے اس میں ’’صحاح ستہ‘‘کے علاوہ دیگرتمام مشہورکتب حدیث، مسانیدمعاجم اورشروح کا ذکرہےجو دارالعلوم میں پڑھائی جاتی تھیں ۔فقہ حنفی کےعلاوہ دیگرائمہ ثلاثہ کےمذاہب سے متعلق بھی کتب پڑھائی جاتی تھیں ،مجموعی طورپر 30علوم کا ذکرہے جواس دارالعلوم میں پڑھائے جاتے تھے اورجس کی سندعلامہ عبدالواحدرضوی صاحب کو بعدفراغت جاری کی گئی تھی۔‘‘(39)

دارالعلوم منظراسلام کے سالانہ جلسوں میں شرکت

اس دوران دارالعلوم منظراسلام کےدوسالانہ جلسے ہوئے ،جس میں سے سولہواں سالانہ جلسہ بتاریخ 22،23،24شعبان1337ھ مطابق 23،24،25مئی1919ء،جمعہ تااتواربریلی مسجدبی بی صاحبہ مرحومہ (40) میں منعقدہوا۔(41) سترویں سالانہ جلسے کی تاریخ معلوم نہ ہوسکی ۔غالبا یہ جلسہ ذو الحجہ1338ھ/ ستمبر1920ءکو ہواہوگا کیونکہ علامہ رضوی صاحب کی اسنادپر 20ذوالحجہ 1338ھ درج ہے۔قرین قیاس یہی ہے کہ آپ نے ان جلسوں میں شرکت کی ہوگی ۔

رفقائے دارالعلوم منظراسلام بریلی

آپ کےساتھ پڑھنے والے علمامیں ٭ فقیہ زمانہ،حضرت مولانامفتی غلام جان ہزاروی(42) ٭مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی(43) ٭حضرت مولانا حشمت علی خان(44) ٭مولانا حاجی منیرالدین بنگالی(45) ٭مولانااکبرحسن خاں رامپوری(46) ٭حضرت مولانا افضل بخاری٭مولانا ظہورالحق صاحب ٭حضرت مولانا عبدالجلیل صاحب٭حضرت مولانالیاقت صاحب ٭حضرت مولانا عزیزاحمدفریدپوری ٭حضرت مولانا امام بخش ٭حضرت مولانا نورمحمدقادری رضوی صاحب ٭حضرت مولانا رحیم بخش بنگالی ٭حضرت مولانا میراحمدصاحب٭حضرت مولانا رمضان علی بنگالی٭حضرت مولانا محمودحسن قادری٭حضرت مولانا عبداللہ بنگالی ٭حضرت مولانا عثمان بنگالی٭حضرت مولانا محمداحمدبنگالی وغیرہ(47) شامل ہیں ۔(48)

مدرسہ عالیہ رامپورسے سند کا حصول

بریلی شریف کے قیام کے دوران آپ نے مدرسہ عالیہ رامپورسے دواسناد حاصل کیں،پہلی سند پر اجراءکی تاریخ 14ذی الحجہ 1338ھ درج ہے ،اس سندپر تین علمائے کرام کے دستخط ہیں: ٭فخرالعلماعلامہ فضل حق رامپوری(49) ٭حضرت علامہ احمدامین خان بن معین الدین پشاوری(50) اور٭حضرت علامہ مولانا ظہورالحسین فاروقی نقشبندی کی مہرہے ، یوں اس سندکے ذریعے آپ کی علوم عقلیہ کاانتساب سلسلہ غیرآبادی سے ہوجاتاہے ۔دوسری سند حضرت مولانا احمدامین خان پشاوری کی جانب سے دی گئی ،اس پر 15ذوالحجہ 1338ھ کی تاریخ درج ہے۔(51)

ہندمیں تدریس کا آغاز

فراغت کے بعد آپ1341ھ/ 1923ء تک دارالعلوم منظراسلام میں بطورمدرس خدمات سرانجام دینے لگے، ان تین سالوں میں آپ سے کثیرعلماء نے استفادہ کیا ۔ایک خاندانی تحریرسے معلوم ہوتا ہے آپ نےہند کے علاقے دان پور(52) (ضلع بلندشہر ،یوپی) کے کسی مدرسے میں بھی تدریس فرمائی۔(53)

ہند سے واپسی اورخدمات دین

آپ 1341ھ/ 1923ء کے بعد اپنے شہرگڑھی کپورہ تشریف لے آئے اور علاقہ گھڑی اسماعیل زئی کے محلہ (کندے)بقال خیل کی مسجدمیاں گان گڑھی کپورہ میں امامت وخطابت کرنے لگے ،آپ نے یہ خدمت تقریبا چالیس سال سرانجام دی ،یہی وہ مسجد ہے جس کے ایک گوشے میں مدرسہ تعلیم اسلام کا قیام میں عمل آیا،جوبعدمیں ترقی کرتے ہوئے ایک بڑے جامعہ کی شکل میں مستقل بلڈنگ میں منتقل ہوا۔(54)

گھریلوزندگی

آپ نے ساری زندگی شادی نہ کی،اس لیے آپ اپنے چھوٹے بھائی حضرت مولاناقاضی حافظ عبدالودودصاحب کے ہاں رہتے تھے ،دونوں بھائیوں میں بہت پیارتھا ،دکھ دردمیں شریک ہوتے ،رضوی صاحب کی اپنے بھائی کی اولادپر خصوصی شفقت تھی چنانچہ قاضی حافظ عبدالودودصاحب کے بیٹےاورآپ کے بھتیجے فقیہ العصر حضرت مولانا قاری عبداللطیف ظہیرصاحب(55) فرماتے ہیں :بچپن میں اسلامی تعلیمات کے راستہ پر مجھے جس نے لگایا ،جوانی میں غلط تعلیمات ومجالس سے جس نے روکا،وہ صرف اورصرف عمی المکرم حضرت علامہ مولانا عبدالواحد ہیں ۔جنہوں نے الف با سے لیکرصرف ونحو،معانی وادب،منطق وفلسفہ ،فقہ واصول فقہ کی تعلیم دی اورصرف میری ہی وجہ سے ایک مدرسہ ’’مدرسہ تعلیم الاسلام ‘‘کی بنیادڈالی،اورمیری ہرطرح سے نگرانی فرمائی ،مجھ پر عم محترم کی یہ بھی نظرعطوفت تھی کہ انہوں نے اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے دیگراساتذہ کو رکھا اورمیری ہی وجہ سے اتنی تکالیف برداشت کیں ،اللہ تعالی ان کو جزاے خیرعطافرمائے،آمین ثم آمین ۔(56)

خصائل و عادات

مولانا عبدالواحدرضوی صاحب کو جنہوں نے قریب سے دیکھا آپ سے علم حاصل کیا، سب کے سب آپ کے تقویٰ، پرہیزگاری ، اخلاص ، سادگی اور علم و عمل سے نہایت متاثر ہیں۔آپ ہر وقت باوضو ہوتے اور ہر موسم میں ہر ایک نماز کے لیے الگ وضو فرماتے۔آپ کا لباس انتہائی سادہ مگر پروقار ہوتا، آپ ہمیشہ سفید کپڑے ، سفید عمامہ شریف اور اس کے اوپر سفید رومال زیب تن فرماتے۔رات کے بہت کم حصہ میں آپ آرام فرماتے۔ آپ کو حلوہ میں مٹھائی پسند تھی جو آپ احتیاط کی وجہ سے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا کرتے تھے ،آپ نے کبھی کھانے میں بناسپتی گھی نہیں کھایا، اور یہ آپ کی کرامت تھی کہ آپ کی وفات پر ایصالِ ثواب کے لیے جتنے بھی دن جو کچھ بھی پکایا گیا سب دیسی گھی میں پکایا گیا، کہ آپ نے زندگی میں کبھی بناسپتی گھی پسند نہیں کیا تو بعد از وصال بھی آپ کی عادت کے خلاف کام نہ ہوا۔(57)

تدریس کا انداز

تہجد کے بعد سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوتا اور رات نماز عشا کے بعد تک جاری رہتا۔ آپ نہایت شفیق انسان تھے مگر تعلیم کے معاملے میں سخت مزاج تھے، طلبا پر بہت سخت نگرانی فرمایا کرتے تھے اور بسا اوقات سبق یاد نہ ہونے پر ان کی سرزنش بھی فرماتے تھے۔طلبہ کی دل جوئی کے لیے اپنی پسندیدہ مٹھائی طلبہ کے ساتھ مل کرکھایا کرتے تھے ۔(58)

بارگاہ رسالت میں آپ کی تدریس کی مقبولیت:آپ کے شاگردغلام محی الدین خان صاحب کا بیان ہے کہ ایک رات میں سویا تو قسمت انگڑائی لےکر جاگ اُٹھی ،میں نے کیا دیکھا کہ میرے پیارے آقا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس مسندپر جلوہ فرماہیں جس پر بیٹھ کر میرے استاذمحترم ’’مولوی صاحب ‘‘تدریس فرماتے ہیں ۔اس سے معلوم ہواکہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مولانا عبدالواحدرضوی صاحب پر نظرتھی اورآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی خدمت دین اورفیضان نبوی کوعام کرنے کی کوششوں سے راضی تھے۔(59)

رفاہی کاموں میں دلچسپی

آپ کو رفاہی کاموں سے بڑی دلچسپی تھی، جب ’’گڑھی امازئی ‘‘ میں تعلیم کا کوئی صحیح انتظام نہیں تھا آپ نے ایک ایسے مدرسہ کی بنیاد رکھی جس میں بیک وقت دینی اور دنیاوی ضروریات کا پورا اہتمام رکھا گیا تھا۔جناب ممتاز علی صاحب کہتے ہیں، جب گڑھی کپورہ کی ندی پر پل کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ صبح و شام معائنہ کے لیے جاتے اور منتظمین کو بسا اوقات ہدایات بھی دیتے۔(60)

دنیاوی معاملات سے دوری :آپ دنیوی باتوں اور محافل سے کوسوں دور تھے، آپ کے شاگرد جناب ممتاز علی خان صاحب ( ریٹائرڈ پرنسپل) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ خان ولی محمد خان کے گھر میں غالبا ان کے بیٹے کی خوشی ہوئی سب لوگ مبارک باد کے لیے گئے مگر مولوی صاحب نہیں گئے، ولی محمد خان خود آپ کے پاس آیا کرتا تھا، جب ملاقات ہوئی توشکوہ کیا کہ سب لوگ مبارک باد دینے آئے مگر آپ نہیں آئے تو مولوی صاحب کا سادہ جواب تھا۔’’ مجھے ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘(61)

مدرسہ تعلیم الاسلام گڑھی کپورہ کا قیام

مدرسہ تعلیم الاسلام کا آغا ز گڑھی کپورہ کے موضع گھڑی اسماعیل زئی کے محلہ (کندے)بقال خیل کی جامع مسجدمیاں گان کے ایک چبوترے میں ہوا،پھرمسجدکے ایک حجرے میں منتقل ہوگیا ،جب طلبہ کا اضافہ ہوگیا تو علامہ عبدالواحدرضوی نے دیگرافرادکے ساتھ مل کرپیپل چوک میں واقع ایک ویران عمارت (درمسال) کو مدرسے میں تبدیل کردیا ،اس مجلس انتظامی کا پہلا اجلاس یکم شعبان 1355ھ /18اکتوبر1936ء کو منعقدہوا۔اس مدرسے میں پرائمری تک دنیاوی تعلیم اوردرس نظامی کا اہتمام تھا،علامہ عبدالواحدرضوی صاحب کے ساتھ ایک اورمدرس حضرت فضل الرحمن خان صاحب(62) بھی پڑھاتےتھے ۔ مدرسے کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ان ابتدائی ایام میں تقریبا137طلبہ علم حاصل کرتے تھے ۔بعدمیں مدرسے کی دوشاخیں قائم ہوئیں ٭پہلی شاخ: یہ ابتدائی تعلیم،ناظرہ وحفظ قرآن،کچھ سورتیں ،مشق قراءت،املاء نویسی،خوشنویسی اور پہلی تا پرائمری جماعت تک مشتمل تھی۔٭دوسری شاخ :درجہ اولیٰ تا درجہ سابعہ تک کےدرجات پر مشتمل تھی۔علامہ عبدالواحدرضوی صاحب کے بھتیجے اورشاگرد حضرت مولانا قاری عبداللطیف ظہیرصاحب فرماتے ہیں :دوسری جماعت کورس شروع ہواجو ندرت فن کی بناء پراس وجہ سے ممتازتھی کہ صرف حساب وجغرافیہ ،اردو،املا،خوشنویسی پر منحصرنہیں تھا ،بلکہ پنج کتاب فارسی ،صرف بہائی اوربعض دوسری کتابوں پر مشتمل تھا ،دن گزرتے گئے اورچوتھی جماعت تک پہنچتے پہنچتے یہ نوبت آئی کہ ہمارامدرسہ اب صرف ڈے اسکول نہیں تھا بلکہ شبینہ بھی ہوااورہم صرف عصرومغرب کے درمیان تعطیل کرتے ۔اس زمانہ میں مدرسہ کااحاطہ پرائمری کے دائرہ سے نکل کرایک عظیم الشان درسگاہ بن گیا تھا چنانچہ چاراساتذہ پرائمری کے اورتین علمادرس نظامی پڑھانے میں مصروف تھے۔ہمارے گھرانے میں ماسوائے میرے دوچچازادبھائیوں کے کوئی بھی انسان ایسانہیں تھا جس کی بغل میں کتاب نہ ہو،بلکہ ابتداہی ایسی ہوتی تھی کہ سب سے پہلے توجہ اس طرف مبذول ہوتی تھی ۔ (63)

مدرسے کے قواعدوضوابط

علامہ عبدالواحدرضوی صاحب بہترین منتظم تھے ،آپ نے مدرسے کے کئی شعبے بنائے اورانہیں جدیدخطوط پراستوارکیا ،تمام شعبہ جات کے لیے ایک الگ ریکارڈ منضبط کیا گیا ،داخلہ فارم کا نفاذ،طلبہ کے داخلے اوراخراج کا ریکارڈ،آئین طلبہ کے نام سے طلبہ کے لیےقوانین وضوابط طے تھے۔ مدرسین کی کارکردگی،اسباق کی تقسیم ،تنخواہ اوردیگرقوانین،آئین رخصت مدرسین تحریری طورپر تیارکئے گئے ۔ تعلیمی سال کاتعین،امتحانات وتعطیلات کی تفصیل،مدرسے کے سالانہ تقریبات سب تحریری طور پرتیارکرکے نافذکیاگیا۔مالیات کا شعبہ بھی مضبوط تھا ،اس میں تنخواہ کے نظام کے لیے کتاب قبض الوصول،آمدن وخرچ کے حساب کے لیے کتاب آمدوخرچ کا نفاذتھا۔(64)

جید علما کا تقرر

علامہ عبدالواحدرضوی صاحب نے مدرسہ تعلیم الاسلام گڑھی کپورہ کے لیے بہترین مدرسین کا تقررفرمایا مثلا٭حضرت مولانا عبدالرب شہبازگڑھی (65) ٭حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب ٭مولانا رشیداحمدخان صاحب ٭حضرت مولانا قاضی حبیب الرحمن خان٭حضرت مولانا سیداحمدخان صاحب ٭حضرت مولانا محمدالیاس خان صاحب ٭حضرت مولانا حافظ عبدالوہاب کوٹ اسماعیل زئی٭حضرت مولانامیاں گل طوروصاحب ٭حضرت مولانا حافظ تاج دین کوٹ اسماعیل زئی(فاضل دارالعلوم حقانیہ سیدوشریف ) ٭حضرت مولانا عبداللہ بن فضل قادرسنڈاکی سوات٭حضرت مولانا عبدالعزیزخان صاحب (فاضل سیدوشریف) ٭حضرت مولانا فضل اللہ خان صاحب ٭حضرت مولانا قاری عبداللطیف ظہیرصاحب ٭حضرت مولانا شریف اللہ صاحب٭حضرت مولاناعبدالرؤف خان صاحب کوٹ دولت زئی٭حضرت مولانا سیدنوازخان صاحب٭حضرت مولانا عبیداللہ خان صاحب اور٭حضرت مولانافقیرمحمدشاہ (فاضل سیدوشریف) (66) وغیرہ ۔(67)

مدرسہ کی منتظمہ کمیٹی کا قیام

علامہ عبدالواحدرضوی صاحب کو پاک وہند کے مدارس میں پڑھنے کا موقعہ ملا،آپ جانتے تھے کہ مدرسہ بغیرانتظامی کمیٹی اورمعاونین کے نہیں چلایا جاسکتا ،اس لیے آپ نے مدرسۃ الاسلام کے انتظامی امورکےلیے دس افرادپر مشتمل ایک ’’جرگہ منتظمہ ‘‘بنایا،جس کے گاہےبگاہے اجلاس ہواکرتے تھے ۔(68)

دینی بالخصوص محافل میلاد النبی کا انعقاد

آپ یادگاردنوں میں محافل کا انعقادفرمایا کرتے تھے ،جب ربیع الاول کا مبارک ماہ آتاتو ان محافل میں مزیداضافہ ہوجاتا،ربیع الاول کی محافل کے لیے مستقل آپ نے ایک اشتہاربنایاہواتھا جس مسجدمیں محفل میلادہوتی اس کا نام لکھ دیا جاتاتھا،یہ طریقہ اب تک گڑھی کپورہ میں جاری ہے ، اب بھی گڑھی کپورہ اوراس سے ملحقہ مختلف گاؤں میں ربیع الاول کے تمام مہینے میں محافل میلادکا اہتمام بڑی دھوم دھام سے ہوتاہے۔ (69)

تحریک پاکستان میں حصہ

علامہ عبدالواحدرضوی صاحب تحریک پاکستان میں شامل رہےاورقوم وملت کی تعمیرمیں بھرپورحصہ لیا،علماومشائخ اہل سنت ساتھ نہ دیتے تو ہماراپیاراوطن وجودمیں نہ آتا۔

تلامذہ وشاگرد

علامہ قاضی محمدعبدالواحدصاحب کی علمی خدمات کی وجہ سے علاقہ امازئی ’’گڑھی کپورہ‘‘کو بخاراثانی کہاجاتاہے، وزیرستان،کوہاٹ،بنوں،خیبرایجنسی،مہمند،پشاور،مردان،سوات،دیراورچترال کے کئی علماعلامہ عبدالواحدرضوی صاحب کے شاگردہیں ۔مثلا ٭حضرت مولاناقاری عبداللطیف ظہیرصاحب(70) ٭حضرت مولانا گل بادشاہ خان صاحب سواڑیاں (71) ٭مشہورشاعرمولاناعبداللہ استادنوشہروی (72) وغیرہ(73)۔

وفات ومدفن

علامہ محمد عبدالواحدرضوی نے 14ربیع الاول 1381ھ /26اگست 1961ء تقریبا79سال کی عمرمیں وصال فرمایا ،(74) گھڑھی کپورہ کے سنڈاسَرقبرستان گڑھی اسماعیل زئی میں حضرت علامہ قاضی علی احمدقادری صاحب(خلیفہ شیخ الاسلام والمسلمین حضرت سیدوبابا)کے مزارکے قدموں کی جانب آپ کی تدفین خاندان کے دیگرافرادکی قبورکےساتھ ہوئی۔

مرقد انورپر حاضری

صفرالمظفر1439ھ مطابق اکتوبر 2017ء میں راقم کا تنظیمی مصروفیت کے سلسلے میں کراچی سے پاکستان کے مختلف شہروں کا شیڈول تھا،علامہ محمدعبدالواحد رضوی رحمۃ اللہ علیہ کے مزارپر حاضری کی تمنا تو کافی عرصے سےتھی ،جب میں واہ کینٹ پہنچاتو وہا ں برادران اسلامی محمد طارق بغدادی عطاری ،چوہدری محمدفیاض عطاری اورمحمد عاصم وقاص عطاری سے اس بات کا ذکر کیا ،وہ میرے ساتھ گھڑھی کپورہ جانے کے لیے تیارہوگئے ، سوئے اتفاق سفرکی تیاری کے دوران طارق بغدادی اورعاصم وقاص بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ،عاصم بھائی کو زیادہ چوٹیں لگیں جس کی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ نہ جاسکے ،ہم واہ کینٹ سے صبح روانہ ہوئے ،تقریبا گیارہ بجے گڑھی کپورہ پہنچ گئے ۔ علامہ عبدالواحدصاحب کے بھتیجے کے بیٹےحضرت مولانا قاری عبدالہادی ظہیرصاحب(75) نے اپنے مدرسے جامعہ عالیہ ظہیریہ ضیاءالعلوم میں ہمارااستقبال کیا،مقامی مشروب سے مہمان نوازی کی ،اتنی دیرمیں وہاں کے مقامی برادرِطریقت مولانا علی عسکرعطاری صاحب بھی تشریف لے آئے ،ان سے ملاقات ہوئی ،پھر احباب کے ساتھ قاری عبدالہادی ظہیرصاحب کے بھائی حضرت مولاناڈاکٹر قاضی عبدالناصر لطیف ضیائی صاحب (76) کے ادارےمدرسہ اسلامیہ ضیا ءالعلوم حاجی آباد ڈھیر و بابا میں حاضرہوئے، ماشاء اللہ اس ادارے میں حفظ قرآن کی کلاس کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی کے درجات بھی ہیں ،اللہ پاک اس ادارے کو آبادرکھے،اس میں علامہ عبدالواحد صاحب کی اسنادکی بھی زیارت کی جنہیں فریم کرواکر آویزاں کیاگیا تھا۔

اس کے بعد علامہ عبدالواحدصاحب کے مرقدانورکے لیے سنڈا سَرقبرستان پہنچے ، مرقدانورپرحاضری ہوئی اورفاتحہ پڑھی ،مرقدانورکےگردایک بالشت سے کم اونچائی کے پتھرلگائےگئے ہیں اوردرمیان سے کچی ہےجس میں اس وقت گھاس اگی ہوئی تھی،سرہانے کی جانب کتبہ ہے جس کی اونچائی دوبالشت اورچوڑائی ایک پالشت ہوگی ،اس پر یہ تحریرہے :

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ۔ مولوی عبدالواحد۔یغفرہ المجیب۔۱۳۸۱ھ۔ وفات۱۴ربیع الاول۱۳۸۱ھ ۔ بمطابق۲۶اگست۱۹۶۱ء بروزشنبہ۔

اللہ پاک علامہ صاحب کی مرقد پراپنے انواروتجلیات کی بارش فرمائے ،ان کے فیضان علم کے پھیلاؤکا سلسلہ تاقیامت جاری رہے ، ان کے خاندان سے ہرزمانے میں علم کی خیرات تقسیم ہوتی رہے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم

حواشی ومراجع

(1) سوات پاکستان کے صوبہ خیبرپختون خواہ کا قدیم ترین اورپہاڑی وصحت افزاعلاقہ ہے ، سیروسیاحت میں مشہورہونے کی وجہ سے اسے پاکستان کا سویٹزرلینڈ کہا جاتا ہے، اس کا شماردنیا کے حسین ترین خطوں میں ہوتاہے ا س میں موجودسر سبز و شاداب وسیع ميدان،پانی کے چشمے اوردریااس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں ،یہاں کے لوگ خوبصورت،محنتی اورتعلیم یافتہ ہیں ، پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب 254 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جب کہ صوبائی دار الحکومت پشاور سے اس کا فاصلہ 170کلومیٹر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری و خانہ شماری کے مطابق ضلع سوات کی کل آبادی بارہ لاکھ ستاون ہزار چھ سو دو (12,57,602) ہے اور اس کا کل رقبہ پانچ ہزارتین سوسینتیس( 5337 ) مربع کلومیٹر پر پھیلاہوا ہے۔ دیہی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے ۔ سوات کو تین طبعی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (1)بالائی سوات(2)زیریں سوات(3)کوہستان سوات۔

(2) مانیارسوات،تحصیل بریکوٹ ضلع سوات کا ایک گاؤں اوریونین کونسل ہے ،یہ مینگورہ سے جانب جنوب بارہ کلومیٹرفاصلے پر ہے ۔ جس کی آبادی پندرہ ہزارسے زائد ہے اوراس میں سولہ مساجدہیں ۔

(3) گھڑھی کپورہ (امازوگڑھی) ضلع مردان کی پانچویں تحصیل ہے،اس کا پشتونام امازوگھڑی ہے، یہ مردان سے جانب مشرق 9کلومیٹرکے فاصلے پرہے،اس کو گھڑی کپورہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بارہویں صدی عیسوی کی ابتدا میں معزز آدمی ملک کپوررہتاتھا یہ یہاں کے ولی اللہغازی بابا سیدخواجہ نورترمذی رحمۃ اللہ علیہ (یہ مشہور ولی کامل پیرباباسیّدعلی ترمذی بونیری کے خاندان کے چشم چراغ تھے ، انکی تاریخ پیدائش 1075ھ مطابق1664ء ہے ،ان کامزار،گڑھی اسماعیل زئی قبرستان میں ہے ۔) کا مرید تھا ،اسی کےنام پر یہ مقام ہے۔ (تذکرہ سادات ترمذی،239)اس کا پشتونام امازوگھڑی (Amaazo Garhai)ہے کیونکہ یہاں امازئی قبیلے کے لوگ رہائش پذیرہیں ،اس میں ہسپتال،کالج،بازارجیسی تمام ضروریات موجودہیں ۔شہرکے درمیان کلپانی دریاواقع ہے ،شہرچار علاقوں پر مشتمل ہے،دریاکے مشرق کی جانب (1)گھڑھی اسماعیل زئی(2)گھڑھی دولت زئی کے علاقے اورمغرب کی جانب(3)کوٹ دولت زئی اور(4 )کوٹ اسماعیل زئی کے علاقے ہیں ،یہ آبادی سے بھرپورشہرہے۔ اسی سال 2021ءمیں اسے تحصیل کا درجہ دیا گیاہے ۔

(4) مردان پاکستان کے صوبہ خیبرپختون خواہ کا ایک اہم ضلع ہے،یہ سوات روڈ پر واقع ہے یہ پشاور سے 64 کلومیٹر دورشمال مشرق میں واقع ہے ، اس کا کُل رقبہ 1632 مربع کلوميٹر ہے۔اس کی آبادی اٹھارہ لاکھ کے قریب ہے دیہی آبادی کا بڑاذریعہ معاش زراعت ہے ،اسمیں عبد الولی خان یونیورسٹی موجودہے ۔اس کو مردان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایک بزرگ حضرت پیر سیدمردان شاہ صاحب تبلیغ دین کے لیے تشریف لائے انہیں کے نام پر اس کا نام رکھا گیا ۔ ضلع مردان کے تاریخی مقامات شہباز گڑھی اور تخت بھائی ایک دوسرے سے نومیل کے فاصلے پر ہیں یہاں کے آثار قدیمہ مردان کی تاریخی عظمت کا تعین کرتے ہیں۔اس کی پانچ تحصیلیں ہیں :(1)تحصیل مردان(2)تحصیل تخت بھائی (3)تحصیل کاٹ لنگ(4)تحصیل رستم (5)تحصیل گڑھی کپورہ۔

(5) حضرت میاں سیدحسین بابا رحمۃ اللہ علیہ خیبرپختون خواہ کے مشہورولی اللہ حضرت پیرباباسید علی ترمذی شاہ رحمۃا للہ علیہ کے خاندان کے چشم وچراغ تھے ،آپ کی ولادت 1050ھ مطابق 1640ء کو دوکڈہ بونیرمیں ہوئی اورتقریبا1130ھ مطابق 1717ء کو گڑھی کپورہ میں وصال فرمایا ، مزارکلپانی (خوڑ)کے مغربی کنارے پرہے،آپ عالم دین ،صاحب دیوان پشتوشاعراوربہادرجرنیل تھے ،آپ نے خلاصۃ الاسلام کا پشتوترجمہ بھی کیاہے ۔(تذکرہ ٔ سادات ترمذی،252تا254)

(6) قطبُ العارفین، شیخُ الاسلام، امامُ المجاہدین حضرتِ سوات، سیدو بابا حافظ عبدالغفور اَخُونْد قادری رحمۃاللہ علیہ کی ولادت 1213ھ مطابق 1794ء کو موضع جبڑی سوات میں اور وصال 7محرمُ الحرام 1295ھ مطابق 12جنوری 1877ءکو سیدو شریف سوات خیبر پختونخواہ پاکستان میں ہوا۔ آپ سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخِ طریقت، ہر دلعزیز شخصیت اور شیخُ المشائخ ہیں۔ ( تذکرہ غوث الزماں سیدوباباجی،8،37)

(7) ان کی تفصیل آگےوالدین کاتذکرہ کے عنوان کےتحت موجودہے ۔

(8) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،11تا13۔

(9) دہلی یا دلی  بھارت کے شمال میں واقع ہے۔ اس کی سرحد شمال،مغرب اور جنوب میں ہندوستان کی ریاست ہریانہ سے ملتی ہے، جبکہ مشرق میں یہ اتر پردیش سے منسلک ہے۔ دہلی شہربھارت کا ممبئی کے بعد دوسرااوردنیابھرکا تیسراسب سے بڑاشہری علاقہ ہے ، اس کی آبادی اڑھائی کروڑسے زائدہے ، اس کا رقبہ 1484 مربع کلومیٹر (573 مربع میل) ہےدریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔ تاریخ میں یہ کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دار الحکومت رہا ہے،  1920ء کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر "نئی دہلی" بسایا گیا۔ جوکہ موجودہ بھارت کا دارالحکومت ہے ،فی زمانہ دہلی بھارت کا اہم ثقافتی، سیاسی و تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ستمبر 2012ء کے مطابق قومی دار الحکومت علاقہ دہلی گیارہ اضلاع پرمشتمل ہے ۔جامع مسجد دہلی ،فتحپوری مسجد،سنہری مسجد (لال قلعہ)،سنہری مسجد (چاندنی چوک) اہم مساجد ہیں جبکہ جامع مسجد (بھارت کی سب سے بڑی مسجد)، لال قلعہ، قطب مینار، ہمایوں کا مقبرہ دہلی کے عالمی ثقافتی ورثہ مقامات ہیں۔سیاحتی مقامات میں مقبرہ ہمایوں، لال قلعہ، لودھی باغ، پرانا قلعہ، جنتر منتر، قطب مینار، باب ہند اور دہلی کا آہنی ستوں کی دنیا بھر میں خاص اہمیت ہے۔

(10) مدرسۃ الاسلام المعروف مدرسہ مولوی عبدالرب دہلوی مشہورمدرسہ تھا،اس کی بنیاد1292ھ /1875ءکو رکھی گئی، اس کے بانی حضرت مولانا عبدالرب دہلوی عظیم عالم دین تھے،علوم عقلیہ ونقلیہ پردسترس،عربی ادب میں ماہراوربہترین ومؤثر واعظ بھی تھے،انھوں نے محرم 1305ھ/ اکتوبر1887ء کووفات پائی۔(تذکرہ علمائےہند،260  )

(11) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،24۔

(12) علامہ محمدعبدالواحدرضوی صاحب کے بڑے بھائی شمس العلماء ، صاحبِ حق حضرت مولانا قاضی عبدالخالق صاحب کی ولادت1292ھ/1875ء جبکہ وفات 12ربیع الاخر1406ھ / 25دسمبر1985ء کوہوئی ،مزارشریف جامع مسجدصاحبِ حق (محلہ بقال خیل،گڑھی کپورہ اڈا)سے متصل ہے ،آپ بہترین عالم دین،فن مناظرہ کےماہراوراچھے مدرس درسِ نظامی تھے ،انھوں اپنے والدکےعلاوہ جن علماسے استفادہ کیا ان میں سے صاحبِ حق حضرت مولانامضی الدین خان صاحب بھی ہیں ،آپ سے علم دین کی تحصیل کرنےوالے کئی علماہیں جن میں استاذالعلماحضرت مولانا قاضی امان اللہ خان(ڈاگئی یارحسین)نمایاں ہیں ۔یہ صاحب کرامت بزرگ تھے،کہاجاتاہے جنات بھی ان سے علم دین حاصل کیاکرتے تھے ۔مولاناقاضی غلام حبیب صاحب (تاریخ پیداش:18ربیع الاول1343ھ،تاریخ وفات:6جمادی الاولیٰ1431ھ) آپ کے بیٹے اورعلمی جانشین تھے۔(حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،21،تذکرہ علماومشائخ سرحد،2/192،204)

(13) حضرت مولانامروَت عبدالقہارصاحب کی ولادت 1296ھ/ 1879ء کو لکی مروت کے علمی گھرانے میں ہوئی اوروفات 21شعبان1359ھ / 20ستمبر1940ء کو نوشہرہ میں ہوئی۔آپ بہت بڑے عالم دین،جامع معقول ومنقول ،بہترین مدرس،مرجع علماوعوام،امام وخطیب جامع مسجدبازارنوشہرہ کلاں،اردو،عربی اورپشتوزبان کے بہترین مقررتھے ،آپ کئی سال تک مدرسہ اسلامیہ طورقل بائے پشاور اورمدرسہ انجمن تعلیم القرآن نوشہرہ کلاں میں صدرمدرس کے عہدے پر فائض رہے۔(تذکرہ علماومشائخ سرحد،2/65تا72)

(14) ہوتی (یا طبیب )ملاصاحب حضرت مولانا حکیم احمدنورصاحب نے استاذالعلماء مولانا محمودخان قادری صاحب اوردیگرعلما سےعلم دین حاصل کیا،آپ بہترین مبلغ وعالم دین،تنظیمی کاموں میں متحرک،خطیب جامع مسجدباجوڑی ،مدرس درس نظامی مدرسہ سراج الاسلام ہوتی ،علمائے مردان کے قائداورشیخ طریقت تھے۔(حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،21،تذکرہ علماومشائخ سرحد،2/280 )

(15) استاذالعلماحضرت مولانا سیدفضل صمدانی بنوری صاحب کی ولادت1300ھ/ 1882ء میں پشاورمیں ہوئی اوروصال6رجب1389ھ/ 18ستمبر1969ء کو ہوا،آپ جیدعالم دین،قاری قرآن،دارالعلوم رفیع السلام بھانہ ماڑی پشاور اورہزاروں کتب کی لائبریری کے بانی ہیں ۔آپ خوددار،متوکل، منکسرالمزاج،اخلاق حمیدہ کے پیکر،حق گو اورصاحبِ عزیمت تھے ۔(تذکرہ علماومشائخ سرحد،1/272،شخصیات سرحد،201)

(16) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی، 14،15 ۔

(17) متہ ملاصاحب ،مفتی سرحد،شیخ العلماءحضرت مولانا شائستہ گل صاحب کی ولادت موضع لنڈی شاہ متہ (ضلع مردان)میں1309ء/1891ء کو ہوئی اور5رمضان1401ھ/7جولائی1981ء کو مردان میں وصال فرمایا۔سندحدیث علامہ عبدالعلی دہلوی سےحاصل کی،دارالعلوم حنفیہ سنیہ لنڈی شاہ متہ کی بنیادرکھی،آپ پیرعبدالوہاب آف مانکی شریف سے بیعت ہوئے،آپ نے ترجمہ قرآن سمیت گیارہ کتب تحریرفرمائیں،آپ مفتی سرحداوراستاذالعلماتھے ۔(تحریک پاکستان میں علماء ومشائخ کا کردار،377)

(18) شیخ المشائخ حضرت باباجی یارحسین علامہ عبدالحنان قادری صاحب مشہورعالم دین،شیخ طریقت ،مدرس درس نظامی ،صاحب کرامت ولیاللہ اورمعمرترین بزرگ تھے ،آپ شیخ الاسلام ،حضرتِ سوات سیدوبابا علامہ عبدالغفورقادری صاحب کے مریداورخلیفہ سیدوبابا شیخ عبدالوہاب قادری مانکی شریف کے خلیفہ تھے ،آپ نیکی کی دعوت سے سرشار،دنیا کی محبت سے دوراورغناوسخاوت کے پیکرتھے ،ایک زمانے نے آپ سے فیض پایا انھوں نے 200سال عمرپائی،آپ کی پیدائش1163ھ/ 1759ءکو ہوئی اور وصال رمضان 1369ھ/ جنوری 1950ء کو ہوا،مزارشریف موضع یارحسین(ضلع صوابی) میں ہے ۔ (تذکرہ علماومشائخ سرحد،2/237تا239)

(19) حضرت مولانا قاضی حافظ عبدالودود صاحب ،اصولی بابا جی کے تیسرے فرزندہیں ،آپ عالم دین،مدرس درس نظامی ،متقی وقانع اور جمعیت علمائے احناف یوسف زئی کے ناظم اعلیٰ تھے ، اس زمانے میں موجودکثیرحفاظ آپ کے ہی شاگردتھے،آپ نے مشہوربزرگ پیرعبدالعزیزشیخ گل صاحب مبارک قادری (دربارعالیہ قادری لنڈی کوتل خیبرایجنسی)سے بیعت کا شرف پایا وصال صفر1395ھ / مارچ 1975 ء کو ہوا،تدفین سنڈاسَرقبرستان میں ہوئی۔ (مشاہیرے علمائے سرحد،436 ، حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،20)

(20) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،18تا20۔

(21) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی، 22۔

(22) قاضی سیّدفقیرشاہ صاحب بادشاہ افغانستان نادرشاہ کے مقربین میں سے تھے ،قاضی سیّد عبدالرزاق آپ کے بیٹے اورقاضی سیّد سیف الرحمن پوتے ہیں ، قاضی فقیرشاہ صاحب کی اولادابھی بھی گاؤں طورو معیار ضلع مردان میں آبادہیں ،آپ کے خاندان کے مشہورعالم دین حضرت مولانا قاضی سیدعلی شاہ باچاتھےجن کا ماضی قریب میں انتقال ہوگیا ہے۔

(23) حکیم زین العابدین دہلوی صاحب نے دہلی جاکرعلم طب حاصل کیا،بعد میں یہ مجذوب ہوگئے تھے،وفات گڑھی کپورہ میں ہوئی ،تدفین سنڈاسرقبرستان میں ہوئی ۔

(24) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،16۔

(25) دہلی سے مشرق کی جانب ریاست رام پور (Rampur State) یا مصطفی آباد ایک نوابی خودمختار ریاست تھی۔اس کا رقبہ 900مربع میل تھا ،یہ مرادآباد اوربریلی کے درمیان واقع تھی ،اس کی بنیاد 1774ء میں روہیلا جنگجو نواب فیض اللہ خان بڑھیچ نے رکھی اورپونےدوسوسال قائم رہ کر 3جون1949ء نواب رضا علی خان کے دورِ نوابی میں اس کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ،اب یہ ضلع رامپور(یوپی ہند)کہلاتاہے ، رام پور شہر کی آبادی کم وبیش تین لاکھ ہے ۔یہاں کی رضا لائبریری (کتب خانہ رضا) اسلامی ثقافت و تہذیب سے متعلق کتب ہائے نوادر، قدیمی مخطوطات اور قلمی نسخوں کی وجہ سے مشہور ہے۔(عقیدت پر مبنی اسلام اورسیاست،32)

(26) بریلی Bareilly)):یہ بھارت کے صوبے اترپردیش میں واقع ہے، دریائے گنگا کے کنارے یہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ دریا کی خوشگوار فضاء نے اس کے حسن میں موثر کردار ادا کیا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ووفات یہیں ہوئی ،اس لیے یہ شہرآپ کی نسبت سےعالمگیرشہرت رکھتاہے۔

(27) مدرسہ عالیہ رامپورکا آغازریاست رامپورکے قیام(1774ء) سے ہوا، البتہ ریاست کےپانچویں نواب محمدسعید خان نے اپنےدورحکومت (1840ء تا1855ء )میں اسے باقاعدہ ایک ادارے کی صورت دی، اس کے مصارف کے لیے دوگاؤں کی آمدن وقف کی ، اس مدرسے میں بحر العلوم ملا عبد العلی فرنگی محلی ، مولانا فضل حق خیرآبادی،مولانا عبد الحق خیرآبادی، مولانا فضل حق رامپوری،علامہ عبدالعلی رامپوری اورمفتی ارشادحسین رامپوری جیسے جلیل القدر اساتذہ درس دیتےرہے۔( ممتاز علمائے فرنگی محل، ص 71،عقیدت پر مبنی اسلام اورسیاست،92،نواب محمدسعیدخان کے عہدکی علمی وادبی سرگرمیاں، 269 تا 277)

(28) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں غالباماہ شعبان المعظم 1322ھ/ اکتوبر1904ء میں دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی کی بنیاد رکھی، اس مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت ،سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم برادراعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے حفاظ قرآن، قراء، عالم اور فاضل گریجویٹ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ہے۔(صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132)

(29) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،24،25۔

(30) مولانا عبدالعلی دہلوی، افضل المحدثین فی زمانہ، محشّی صحیح بخاری حضرت علامہ حافظ احمدعلی سہارنپوری اورعلامہ قطب الدین دہلوی کے شاگردتھے ۔

(31) مولانا محمدشفیع دہلوی صاحب کے حالات نہ مل سکے۔

(32) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،25،29۔

(33) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حجۃالاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ علامہ دہر، مفتی اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی اورعربی زبانوں پر عبوررکھنے والےعالم دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال، جانشینِ اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے ۔بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ/1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ /22مئی 1943ءمیں وصال فرمایا اور مراز شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔(فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(34) استاذُ العلما، حضرت مولانا رحم الٰہی منگلوری مظفر نگری قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت منگلور (ضلع مظفر نگر، یو پی) ہند میں ہوئی۔ آپ ماہر ِمعقولات عالم، صدر مدرس اور مجازِ طریقت تھے۔ آپ نے بحالتِ سفر آخر (غالباً28) صَفَرُالْمُظَفَّر 1363ھ کو وصال فرمایا۔ (تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص138)

(35) شمسُ العلماء حضرت علّامہ ظہور الحسین فاروقی مجددی رامپوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1274ھ/1857 ءمیں ہوئی اور 12جُمادَی الاُخریٰ 1342ھ/20جنوری 1924ء کو رامپور (یوپی، ضلع لکھنؤ) ہند میں آپ نے وفات پائی۔ آپ علامہ عبدالحق خیرآبادی ،علامہ مفتی ارشادحسین مجددی رامپوری کے شاگرداورعلامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی سے بیعت وسندحدیث کی سعادت پانے والے ہیں، علومِ عقلیہ و نقلیہ میں ماہرترین،،استاذالعلما، صدر مدرس دارُالعلوم منظراسلام بریلی شریف،مہتمم ِثانی ارشادالعلوم، بشمول مفتیِ اعظم ہند سینکڑوں علما کے استاذ اور کئی دَرسی کتب کے مُحَشِّی ہیں۔مدرسہ عالیہ رامپورمیں بیس سال تدریس فرمائی ،یہاں کے اکثرمدرسین آپ کے شاگردتھے ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ آپ پرکامل اعتمادفرماتےتھے ،اہم وضاحت :بعض کتابوں میں آپ کا نام ظہورالحسن فاروقی رامپوری لکھا گیا ہے جو کہ درست نہیں ،علامہ ظہورالحسن رامپوری ایک اور عالم دین تھے جن کے آباواجداد کا تعلق بخاراپھررامپورسے تھا اور یہ فاروقی نہیں تھے ۔ ( تذکرہ کاملان رامپور،184تا188،ممتاز علمائے فرنگی محل، ص417تا419)

(36) اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ /6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ /28اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،فقیہ اسلام ،محدث وقت ،مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم،استاذالفقہاومحدثین ،شیخ الاسلام والمسلمین مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(37) حیات مولانااحمدرضا خاں بریلوی،۷۲،۱۱۸،۱۱۹۔

(38) صاحبزادہ وجاہت رسول قادری صاحب کی پیدائش1358ھ مطابق 1939ء کو بنارس (یوپی،ہند)میں ہوئی،آپ خلیفہ اعلیٰ حضرت مولاناہدایت رسول قادری لکھنوی صاحب کے پوتے ہیں ،ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرکے1365ھ مطابق 1946ء میں مدرسہ حمیدیہ بنارس میں داخلہ لیا،ایک سال بعد والدین کےساتھ راجشاہی بنگلادیش ہجرت کرگئے،وہاں ایم اے معاشیات کیا1384ھ مطابق 1964ء میں کراچی منتقل ہوگئے ،درس نظامی کی بعض کتب اوربخاری شریف کے ابتدائی اسباق استاذالعلماءعلامہ نصراللہ خان افغانی صاحب سے پڑھے ،روزگارکے لیےملازمت اختیارکی ،آپ ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کےبانی اراکین سے ہیں ،1986ءمیں رکن مجلس عاملہ منتخب ہوئے،اگلے سال نائب صدراور1992ءمیں صدربنائے گئے،آپ مفتی اعظم ہندکےمرید اورمفتی تقدس علی خان صاحب کےخلیفہ تھے،مفتی صاحب نے آپ کو 10صفر1408ھ مطابق 28فروری 1988ءکو خلافت عطافرمائی،30جمادی الاولیٰ 1441ھ مطابق27جنوری2020ء کو کراچی میں فوت ہوئے،نمازجنازہ مرکز دعوت اسلامی ڈیفنس جامع مسجد فیضان جیلان کلفٹن کےباہر علامہ سید شاہ عبد الحق قادری(امیر جماعت اہلسنّت کراچی) نے پڑھائی۔تدفین نیو قبرستان،فیز8ڈیفنس میں کی گئی۔(ماہنامہ معارف رضا2020ء ،وجاہت رسول نمبر،ص7،8)۔

(39) ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،صدسالہ منظراسلام نمبر1/29،حیات مولانااحمدرضاخاں بریلوی ،72۔

(40) مرکزی جامع مسجدبی بی جی صاحبہ ،بریلی شریف کے محلہ بہاری پور کےبزریہ (یعنی چھوٹےبازار) میں واقع ہے ،اسے حافظ الملک حافظ رحمت خاں شہیدکی ہمشیرہ نے تعمیرکروایا تھا ،اس میں دارالعلوم منظراسلام کے سالانہ جلسے ہوتے تھے،1356ھ/1937ء میں مفتی اعظم ہندمفتی محمدمصطفی رضا خان قادری کی سرپرستی میں دارالعلوم مظہراسلام قائم ہوا،محدث اعظم پاکستان علامہ سرداراحمدقادری چشتی صاحب اس کے منتظم اورشیخ الحدیث مقررہوئے،اس دارالعلوم کی مستقل عمارت نہیں تھی ،مسجدکےحجروں اورصحن میں پڑھائی کا سلسلہ ہوتاتھا۔( حیات محدث اعظم ،45)

(41) ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،صدسالہ منظراسلام نمبر1/ 241۔

(42) فقیہ دوراں، حضرتِ علّامہ مولانا قاضی ابوالمُظفّر غلام جان ہزاروی فاضل دارالعلوم مظہرِ اسلام بریلی شریف، بہترین مدرس، مفتیِ اسلام اور صاحبِ تصنیف ہیں۔ آپ کی ولادت 1316ھ اوگرہ مانسہرہ،پاکستان میں ہوئی اور وصال 25 محرمُ الحرام 1379ھ کو فرمایا، آپ لاہور میں غازی عِلْم دین شہید کے مزار کے جنوبی جانب محوِ استراحت ہیں۔ ”فتاویٰ غلامیہ“ آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے۔(حیات فقیہ زماں،تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص299تا300)

(43) مفتیِ اعظم پاکستان، سیّدُ المحدّثین حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قادری رضوی اشرفی استاذُ العُلَماء، شیخ الحدیث، مناظرِ اسلام، بانی و امیر مرکزی دارُالعلوم حِزبُ الاحناف اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 1319 ہجری کو محلہ نواب پور اَلْوَر (راجستھان) ہند میں پیدا ہوئے اور مرکز الاولیا لاہور میں 20شوّال 1398ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک دارُالعلوم حِزب الاحناف داتا دربار مارکیٹ لاہور میں ہے۔(تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص314-318)

(44) شیر بیشۂ سنّت، مولانا ابو الفتح عبیدالرضا محمد حشمت علی خان رضوی لکھنوی 1319ھ کو لکھنو (یوپی) ہند میں پیدا ہوئے۔ آپ حافظُ القراٰن، فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، مناظرِ اہلِ سنّت، مفتیِ اسلام، مصنف، مدرس، شاعر، شیخِ طریقت اور بہترین واعظ تھے۔ چالیس تصانیف میں ”الصوارم الہندیہ“ اور ”فتاویٰ شیربیشہ سنّت“ زیادہ مشہور ہیں۔ وصال8 محرَّمُ الحرام 1380ھ میں فرمایا، مزار مبارک بھورے خاں پیلی بھیت (یوپی) ہند میں ہے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 304تا316)

(45) خلیفہ اعلیٰ حضرت ،بدرِمُنیر حضرت مولانا منیرالدین بنگالی رضوی ،عالم دین ،مَجازِطریقت اورصاحبِ کَرامت بُزُرْگ تھے ۔آپ  متحدہ بنگال ہند کے رہنے والے تھے۔حصول ِعلمِ دین کے بعد11 سال بریلی شریف میں رہے ۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،ص 555 )

(46) مولانا اکبرحسن خاں رامپوری زمانہ طالب علمی میں تمام علوم دینیہ بالخصوص منطق میں بہت ماہرتھے، دارالعلوم منظراسلام کے درجہ ششم کے استاذصاحب مستعفی ہوئے تو آپ کے استاذعلامہ ظہورالحسین رامپوری نے آپ کو شرح جامی اورپھرکنزالدائق کی تدریس سپردکی ۔(حیات فقیہ زماں،29)

(47) حضرت مولانا افضل بخاری تا حضرت مولانا محمداحمدبنگالی تک 14طلبہ ٔعلم دین کےحالات معلوم نہ ہوسکے۔

(48) ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،صدسالہ منظراسلام نمبر1/256،244۔

(49) فخرالعلما حضرت علامہ فضل حق رامپوری کی ولادت 1278ھ / 1861ء کو محلہ پنجابیاں رامپور(یوپی ہند)میں حافظ عبدالحق رامپوری کے گھرہوئی اوروصال 28 ذوالقعدہ 1359ھ / 7 جنوری 1940ء کو ہوا،محلہ مردان خان رامپور کے قبرستان میں مدرسہ مطلع العلوم کے نزدیک دفن ہوئے۔آپ حافظ قرآن،استاذالکل علامہ لطف اللہ علی گڑھی ،علامہ ہدایت علی بریلوی اورعلامہ عبدالحق خیرآبادی کے شاگرد، پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے مرید،بہترین مدرس،کثیرالفیض عالم دین ،خوش اخلاق شخصیت کے مالک اورصوفی باصفاتھے ، مدرسہ طالبیہ بریلی، مدرسہ عالیہ کلکتہ ،مدرسہ سلیمانیہ بھوپال اورمدرسہ عالیہ رامپورمیں درس وتدریس میں مصروف رہے ،مدرسہ عالیہ رامپورمیں اول مدرس اورصدرالمدرسین کے عہدے پر فائض ہوئے، ہند و پاک کے علاوہ افغانستان، ایران، اور خراسان تک طلبہ شاگردہیں ، مثلا امام المناطقہ مولانا دین محمد بدھوی،شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی،مولانا غلام جیلانی ہزاروی،مولانا مفتی عطاء محمد ضلع چکوال، مولانا صدیق قندھاروی، مولانا سیف اللہ ہراتی اور مولانا عبدالکریم لکھنوی وغیرہ۔( تذکرہ کاملان رام پور،198،317،ممتازعلمائے فرنگی محل لکھنؤ،432)

(50) حضرت علامہ احمدامین خان بن معین الدین پشاوری ،علامہ فضل حق رامپوری کے شاگرداورمدرس دوئم مدرسہ عالیہ رامپورتھے ۔( تذکرہ کاملان رام پور، 318)

(51) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی، 26،27۔

(52) دان پور ہند کا ایک قصبہ ہے جو تحصیل دیبائی (ضلع بلندشہر،یوپی،ہند)میں واقع ہے یہ دیبائی سے ساڑھے آٹھ کلومیٹر واقع ہے ،دان پورمیں مسجدجامعہ وزیرالعلوم کے نام سے ایک عمارت موجودہے ممکن ہے اس مقام پر مولانامحمد عبدالواحدصاحب نےپڑھایا ہو۔

(53) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،40۔

(54) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،42۔

(55) فقیہ العصر حضرت مولانا قاری عبداللطیف ظہیرصاحب جیدعالم دین ،بہترین قاری اورمدرس درس نظامی تھے،آپ نےپاکستان اوردیگرکئی ممالک بالخصوص یواےای میں خدمات دین سرانجام دیں ، یواے ای میں ان کی خدمات کا دائرہ کافی وسیع رہا ،ابھی بھی لوگ انہیں یادکرتے ہیں ،آپ نے9جمادی الاولیٰ1415ھ/ 14اکتوبر1994ءمیں وصال فرمایا،تدفین سنڈاسرقبرستان میں ہوئی ،حضرت مولاناقاری عبدالہادی ظہیر صاحب(مہتمم جامعہ عالیہ ظہیریہ ضیاء العلوم گڑھی کپورہ)،مبلغ اسلام مولانا حافظ نورالہادی حلیم مرحوم (وفات: 1428ھ مطابق 2007،سابق عالمی مبلغ انٹرنیشنل اسلامک مشن)،مولانا قاری عبدالباسط زبیر(اسکول ٹیچر)اورحضرت مولاناڈاکٹر قاضی عبدالناصر لطیف صاحب( مہتمم مدرسہ اسلامیہ ضیا ءالعلوم حاجی آباد ڈھیر و بابا گڑھی اسماعیل زئی  گڑھی کپورہ ضلع مردان) آپ کے قابل فخرفرزندہیں ۔

(56) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،41۔

(57) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،42،43۔

(58) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،42،43۔

(59) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،44۔

(60) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،43۔

(61) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،43۔

(62) ان کے حالات نہ مل سکے۔

(63) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،44،45۔

(64) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،49تا60۔

(65) حضرت مولانا عبدالرب شہبازگڑھی مشہورعالم دین اورسابق مدرس دارالعلوم منظراسلام بریلی ،صاحب حق حضرت مولانا عبدالمنان شہبازگڑھی کے شاگردہیں ۔( تعارف علماء اہل سنت ص 210)

(66) حضرت مولانا عبدالرب شہبازگڑھی اور مولانا قاری عبداللطیف ظہیر صاحب کے علاوہ دیگر مدرسین کے حالات معلوم نہ ہوسکے۔

(67) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،60،61۔

(68) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی، 48۔

(69) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،60۔

(70) ان کا مختصرذکرحاشیہ 54میں ہے۔

(71) حضرت مولاناقاضی گل بادشاہ خان ،اپنے گاؤں سواڑیاں (جومردان سے دس کلومیٹرکے فاصلے پرہے)کے بڑے اورمشہورعالم تھے ۔

(72) پشتوکے مشہورنعت گوشاعرمولاناعبداللہ استاد نوشہروی علامہ عبدالواحدصاحب اورصاحب علامہ عبدالمنان شہبازگڑھی کے شاگردتھے،ان کا نعتیہ کلام مرتب اورشائع شدہ ہے ،ان کی لکھی گئی نعتیں پشتوزبان میں مشہورہیں ۔ان کامزارنوشہرہ شہرمیں ہے ۔ آپ عبداللہ بابا نوھارکے نام سے بھی جانے جاتے ہیں ۔ان کاوصال تقریبا 1421ھ مطابق 2000 ء میں ہواتھا ۔

(73) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،62،کچھ معلومات مولانا علی عسکرصاحب اورمولانا عبدالہادی ظہیرصاحب سے ملیں ۔

(74) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،63۔

(75) حضرت مولانا قاری عبدالہادی ظہیرصاحب کی ولادت 1382ھ مطابق 1963ء کو گڑھی کپورہ میں ہوئی،ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ قادریہ مردان میں داخلہ لیا ،یہاں سے 1400ھ مطابق 1980ء میں فارغ التحصیل ہوئے ،پھرڈی کام کرنے کے بعد اپنے والدمولانا قاری عبداللطیف ظہیرصاحب کے پاس دبئی چلے گئے اوروہاں دس سال تک تدریس سے منسلک رہے، 1416 ھ مطابق1996ء میں واپس آکروالدصاحب کے قائم کردہ ادارے جامعہ عالیہ ظہیریہ ضیاء العلوم گڑھی کپورہ کی تعمیروترقی میں مصروف ہوئے ،اس مدرسے میں درس نطامی کے ساتھ حفظ وتجویدکے شعبے بھی قائم ہیں ۔راقم ان کا شکرگزارہے اس مضمون میں کافی رہنمائی فرمائی ۔

(76) حضرت مولانا ڈاکٹرقاضی عبدالناصرلطیف صاحب کی ولادت14ربیع الاول 1396ھ مطابق 15مارچ 1976ءکو گڑھی کپورہ میں ہوئی ،انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرکےجامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی میں داخلہ لیا اور 1420 ھ مطابق 2000ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ 1426 ھ مطابق2005ء میں اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادسے اصول الدین میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی، 1435 ھ مطابق 2014ءمیں اصول الدین میں ہی ڈاکٹریٹ میں کامیاب ہوئے ،یہ گڑھی کپورہ اوراس کے گردونواح میں پانچ مدارس دارالعلوم اسلامیہ ضیاءالعلوم ،جامعہ ام الحسنین للبنات ،مدرسۃ الحسنین ضیاء العلوم ،مدرسۃ امہات المؤمنین ضیاء البنات،مدرسہ سیدہ آمنہ ضیاء البنات کے ذریعے دین متین کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ،آپ تنظیم المدارس اہل سنّت پاکستان کے صوبائی صدر(خیبرپختون خواہ)بھی ہیں ۔راقم الحروف ان کا شکرگزارہے ،انھوں نے اس مضمون کا بالاستیعاب مطالعہ فرمایا اورمفیدمشوروں سےنوازا،نیز ان کی کتاب ’’حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی‘‘ کی مددسے ہی یہ مضمون تیارہوا ہے۔


جدول کے  مدنی پھول

Thu, 2 Dec , 2021
2 years ago

درود شریف کی فضیلت

فرمان مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو ایک دن میں مجھ پر 100 مرتبہ دُرُود بھیجےگا،اللہ پاک اس کی 100 حاجتیں پوری فرمائے گا،ان میں سے 70 آخرت اور 30 دنیا کی ہوں گی۔ [1]

جدول کیا ہے؟

عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں”جدول (Schedule) کثرت سے بولی جانے والی ایک اصطلاح ہے۔جس کا مطلب ہے کہ ہر اسلامی بھائی اپنے روز مرہ کے کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے دن رات کے اوقات کو اس طرح ترتیب دے کہ اسے بخوبی یہ بات معلوم ہو کہ اس نے فلاں کام فلاں وقت میں سر انجام دینا ہے۔

جدول کی اہمیت و ضرورت

نظامِ کائنات میں غور کریں تو ہر جگہ اللہ پاک کی قدرت کے جلوے دکھائی دیتے ہیں اور ہر شے ایک جَدْوَل کے تحت نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کائناتِ ہستی میں ہر شے کا ایک مَخْصُوص جدول کے تَحْت ہونا جہاں وجودِ باری تعالیٰ کی واضح دلیل ہے وہیں اس خالق و مالک کے قادر وحکیم ہونے کی بھی ایک واضح دلیل ہے جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: لِکُلِّ نَبَاٍ مُّسۡتَقَرٌّ ۫ وَّ سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۷﴾ ترجمۂ کنزالعرفان:ہرخبرکیلئےایک وقت مقرر ہےاور عنقریب تم جان جاؤ گے۔7، انعام:67)خزائن العرفان میں ہے: اللہ پاک نے جو خبریں دِیں ان کے لئے وَقْت مُعَیَّن ہیں ان کا وُقُوع ٹھیک اسی وَقْت ہوگا۔[2]اللہ پاک نظام ِ دنیا کو اپنی حِکْمَت سے چلا رہا ہے اور ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے کاموں کو سر انجام دینے کیلئے مَخْصُوص قواعد و ضوابط بنائیں تاکہ ہمارا ہر کام درست و مُنَظَّم ہو ،لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اوقات کا جدول بنائیں اور پھر اس پر حتی الامکان کاربند ہوجائیں۔

جدول کی اہمیت امیرِ اہل سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کی نظر میں

شیخِ طریقت امیر اہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہفرماتے ہیں:ہو سکے تو اپنا یومیہ نظامُ الاوقات ترتیب دے لینا چاہیے۔ اَوّلاً عشا کی نَماز پڑھ کر حَتَّی الْاِمْکَان 2 گھنٹے کے اندر اندر جلد سو جائیے۔ رات کو فُضُول چوپال لگانا، ہوٹلوں کی رونق بڑھانا اور دوستوں کی مجلِسوں میں وَقْت گنوانا (جبکہ کوئی دینی مَصْلَحَت نہ ہو) بَہُت بڑا نقصان ہے۔تفسیر رُوحُ البیان میں ہے :قومِ لُوط کی تباہ کاریوں میں سے یہ بھی تھا کہ وہ چوراہوں پر بیٹھ کر لوگوں سے ٹھٹھا مسخری کرتے تھے۔[3]

نظام ُالاوقات مُتَعَیَّن کرتے ہوئے کام کی نَوعِیَّت اور کَیْفِیَّت کو پیشِ نَظَر رکھنا مُناسِب ہے۔ مَثَلًا جو اِسْلَامی بھائی رات کو جَلْدی سو جاتے ہیں، صُبْح کے وَقْت وہ تَر وتازہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا عِلْمی مَشَاغِل کے لئے صُبْح کا وَقْت بَہُت مُناسِب ہے۔

کوشِش کیجئے کہ صُبْح اٹھنے کے بعد سے لے کر رات سونے تک سارے کاموں کے اَوقات مُقَرَّر ہوں مثلاً اتنے بجے تَہَجُّد،عِلْمی مَشَاغِل،مَسْجِد میں تکبیر اُولیٰ کے ساتھ باجَمَاعَت نَمازِ فجر(اسی طرح دیگر نَمازیں بھی) اِشْرَاق،چاشت، ناشتہ، کَسْب مَعاش،دوپہر کا کھانا، گھریلو مُعاملات،شام کے مَشَاغِل،اَچھّی صُحْبَت، (اگر یہ مُیَسَّر نہ ہو تو تنہائی بدرجہا بہتر ہے)، اسلامی بھائیوں سے دینی ضَروریات کے تَحْت مُلَاقَات وغیرہ کے اَوقات مُتَعیَّن کر لئے جائیں۔ جو اس کے عادی نہیں ہیں ان کے لئے ہو سکتا ہے شروع میں کچھ دُشواری ہو۔ پھر جب عادَت پڑ جائے گی تواس کی برکتیں بھی خود ہی ظاہِر ہو جائیں گی۔[4] اِن شاءَ اللہ

پیشگی جدول بنانے کے فوائد

اگر ہم دنیا و آخِرَت میں سرخروئی چاہتے ہیں تو ہمارےلئے ضروری ہے کہ اپنے اوقات کو ایک مخصوص جَدْوَل کے مُطابِق تقسیم کرکے اسی کے مُطابِق زندگی بَسَر کریں، کیونکہ اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرما نِ عبرت نشان ہے:بندے کا غیر مفید کاموں میں مشغول ہونااس بات کی عَلامَت ہے کہ اللہ پاک نے اس سے اپنی نظر ِعنایت پھیر لی ہے اور جس مَقْصَد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے،اگر اس کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اس کے علاوہ گزر گیا تو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس پر عَرْصَہ حَسْرَت دراز کر دیا جائے اور جس کی عمر 40 سال سے زِیادَہ ہوجائےاور اس کے باوُجُود اس کی برائیوں پر اس کی اچھائیاں غالِب نہ ہوں تو اسے جہنم کی آگ میں جانے کے لئے تیّار رہنا چاہئے۔

(مجموعۃ رسائل امام غزالی،ایھا الولد،ص۲۷۵)

(1) پیشگی جدول بنانا ،پورے ماہ میں دینی کام کرنے کی نیتیں بھی ہیں،صرف پیشگی جدول بنانے کی برکت سے کتنے سارے کاموں کی نیت کرنے کا ثواب ملے گا۔ ان شاۤءَ اللہُ الْکَریم

(2)غیر مفید کاموں سے بچت ہوگی (3)ہدف کے مطابق کام ہوگا اور جو کام ہدف کے ساتھ ہوتے ہیں، ان میں ترقی ہوتی ہے(4) روزانہ کے دینی کام پایہ تکمیل کو پہنچنے سے کام پینڈنگ نہیں ہوں گے(5)وقت کی پابندی کی عادت پیدا ہوگی(6) نگران و ماتحت میں ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوگی(7)جدول کی بَرَکَت سے دینی کاموں کی صورتحال کا پتا چلے گا(8)اپنے شعبے کے مسائل کو حل کرنے کیلئے مناسب وقت نکال سکیں گے۔

جدول نہ بنانے کے نقصانات

(1)جدول نہ بنانے سے دینی کاموں میں کمزوری آسکتی ہے ۔(2) سستی پیدا ہو سکتی ہے ۔ (3) دینی کاموں کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔(4) دینی کاموں کی کَیْفِیَّت سے اپ ڈیٹ نہیں رہا جاسکے گا۔(5)…مدنی مرکز کی طرف سے ملے ہوئے اَہْدَاف کی بروقت تکمیل نہیں ہو سکے گی۔(6)… پوچھ گچھ نہیں ہو سکے گی۔(7)…ذمہ داران سے رابطہ ختم ہونے کا باعث بن سکتاہےجس کی وجہ سے آپس میں بد گمانیاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔

ہمارا جدول کیسا ہونا چاہیئے؟

ہمارا جَدْوَل شَریعَت اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور دعوتِ اسلامی کے طریقۂ کار کے مُطابِق ہونا چاہئےکیونکہ اگر ہمارا جدول شَریعَت اور دعوتِ اسلامی کے تنظیمی اصولوں کے مُطابِق ہوگا تو دینِ اسلام کا پرچار ہوگا اور دعوتِ اسلامی کی ترقی ہو گی۔

کامل جدول میں کیا کیا ہونا چاہئے؟

یقیناً وہی جدول کامل جدول ہو گا، جس میں نمازِ پنجگانہ باجماعت مسجد میں ادا ہوتی ہوں، انفرادی عبادت، ماں باپ کی خدمت، بہن بھائیوں کی دل جوئی، بال بچوں کی دینی تربیت، رزقِ حلال کا حُصُول، بر وقت سونا جاگنا، روز وقتِ مقررہ پر محاسبہ ، روزانہ کے دینی کاموں میں شرکت اورہفتہ وار اجتماع میں اوّل تا آخر شرکت،ہفتے کو اجتماعی طور پر دیکھے جانے والے مدنی مذاکرے میں اوّل تا آخر شرکت، ہر ماہ تین3دن ،ہر 12 ماہ میں یکمشت ایک ماہ، عمر بھر میں کم از کم ایک بار یکمشت 12 ماہ، سب کچھ ہو۔

جدول بنانے کی نیّتیں

فرمانِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : مسلمان کی نیت اس کے عَمَل سے بہتر ہے۔[5]

اللہ پاک کی رِضا اور حصولِ ثواب کی خاطر جدول بناؤں گا ماہانہ پیشگی جدول و مدنی مشوروں کا جدول بنا کر دینی کاموں کی پوچھ گچھ، کارکردگی کا جائزہ اور آئندہ کے اہداف پیش کروں گا۔متعلقہ ذِمہ دار کو جدول کی پیشگی اطلاع دوں گا تا کہ مدنی مشورے / مدنی قافلے یا اجتماع وغیرہ کی بھرپور تیاری ہو سکے۔جَدْوَل اور اس کی کارکردگی،اپنے نگران کوبغیر طَلَب کئے پہلے ہی واٹس ایپ /ای میل/پوسٹ کردوں گا ۔

کمزور اور نئے حلقوں/علاقوں/ڈویژنوں کا بھی جدول بناؤں گا، تاکہ وہاں بھی دعوتِ اسلامی کا کام بڑھے اور سنتوں کا احیا ہو۔12دینی کاموں کو بھی جَدْوَل میں شامِل کروں گا تاکہ میں عملی طور پر دعوتِ اسلامی والا رہ سکوں اور دوسروں کے لئے سراپا ترغیب بنوں اور دینی کاموں کی دھومیں مچاؤں ۔اپنے شعبے کے کاموں کو خوش دلی اور شَرْعِی تقاضوں کو مدِ نَظَر رکھتے ہوئے پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔ان شاءَ اللہُ الْکَریم

اے کاش! ہمیں اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ پیشگی جَدْوَل بنانا اور اس کی کارکردگی جَمْع کروانا نصیب ہو جائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم



[1] ……… کنزالعمال،کتاب الاذکار، الباب السادس فی الصلوة...الخ،المجلد الاول، ۱/ ۲۵۵،حدیث:۲۲۲۹

[2] ……… خزائن العرفان، پ7،سورۃ الانعام،تحت الآیۃ:67،ص259

[3] ……… روحُ البیان،پ20،العنکبوت، تحت الآیۃ:29 ،6/495مفہوماً

[4] ……… انمول ہیرے ،ص19تا22 ملتقطاً

[5] ……… معجمِ کبیر،3/525،حدیث:5809


دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے جہاں بہت سی چیزیں  اہمیت کی حامل ہیں وہیں مبلغِ اسلام کا وعظ و نصیحت کرنا بھی کافی اہمیت رکھتا ہے۔

حضور کریم ﷺ کے بعد صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، اولیائے کاملین اور علمائے کرام جو گزر چکے ہیں اور جوآج تک حیات ہیں، انہوں نے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا نہ چھوڑا،مسلسل اس کے لئے مجالس کا قیام کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر میں اسلام کی شاخیں پھیلنے لگی، کفار مجالس میں شریک ہوکر مسلمان ہونے لگے، لوگ تائب ہوکر نیکی کی راہ پر گامزن ہونے لگے، ان ہی مجالس سے ایسے ایسے علماء پیدا ہوئے جو دنیا بھر میں جاکر دین اسلام کی روشنی سے لوگوں کو منور کرنے لگے۔

وعظ و نصیحت کی مجلس قائم کرنے میں ایک بہت بڑا نام امام ُالاولیاء، شہنشاہِ بغداد، قطبُ الاقطاب، پیرانِ پیر، روشن ضمیر، آلِ رسول، سیّدُنا حضرت شیخ عبدُ القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ذات پاک بھی ہے۔

اہم بات

لیکن حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کے اندازِ بیان اور وعظ و نصیحت کے بارے میں گفتگو کرنے سے قبل یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ہم جب بھی جملہ اولیائےکرام بشمول حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کاتذکرہ کرتے ہیں تو عموماً ہمارے زیرِ نظر اُن کی کرامات ہوتی ہیں اور ہم اِن کرامات سے ہی کسی ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس ضمن میں صحیح اور درست اسلوب یہ ہے کہ ہم صرف اولیائےکاملین کی کرامات تک ہی اپنی نظر کو محدود نہ رکھیں بلکہ اُن کی حیات کے دیگر پہلوؤں کا بھی مطالعہ کریں کہ انہوں نے علمی، فکری، معاشرتی، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے لئے کیا کردار ادا کیا ہے۔

حضور غوث اعظم کی شخصیت مبارکہ ہمہ جہتی اوصاف کی حامل ہے۔ ان جہات میں سے کرامات صرف ایک جہت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حضور غوثِ پاک کی تعلیمات کی طرف بھی متوجہ ہوں۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیئےکہ جن کے ہم نام لیوا ہیں اور پوری دنیا جنہیں غوث الاعظم دستگیر اور پیرانِ پیر کے نام سے یاد کرتی ہے، ان کی تعلیمات کیا ہیں ،ان کے ہاں تصوف، روحانیت اور ولایت کیا ہے۔

غوث پاک کی وعظ و نصیحت

حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ دیگر مصروفیات کے ساتھ تبلیغ ِعلمِ دین کے لئے روزانہ مجلس کا قیام کرتے تھے جس کا آغاز حضرت ابو سعید مخزومی رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے سے ہوا جو محلّہ باب الازج میں واقع تھا۔ جب آپ کی محفل کی شہرت بڑھنے لگی اور بغداد کے علاوہ قرب و جوار سے لوگ جوق درجوق آنے لگے تو بہت سے مکانوں کو شامل کرکے مدرسے کی توسیع کردی گئی۔لوگوں کا ہجوم بڑھنے کی وجہ سے بالآخر آپ کا منبر عید گاہ میں نصب کردیا گیا۔ حاضرین مجلس کی تعداد بسا اوقات 70 ہزار سے تجاوز کرجاتی تھی۔

اس مجلس میں آپ رضی اللہ عنہ نہایت فصاحت و بلاغت سے وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔آپ کا وعظ حکمت و دانش کے سمندر کی مانند ہوتا اور اس میں آپ رضی اللہ عنہ کی روحانیت کا دخل بھی ہوتا تھا جس کی تاثیر سے لوگوں پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی، بعض لوگ جوشِ الہٰی میں آکر اپنے کپڑے پھاڑلیتے، بعض بے ہوش ہوجاتےاور بعض کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرجاتی تھی۔(حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم ، ص65،66)

آپ کی مجلس کی یہ خاصیت تھی کہ آپ کے وعظ و نصیحت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہود و نصاریٰ، رافضین اور دیگر بدمذہب بھی شریک ہوکر اپنے سابقہ عقائد و مذہب سے تائب ہوکر اسلام قبول کرتے تھے۔

اس حوالے سے شیخ عمر کمیاتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: غوث پاک رضی اللہ عنہ کی مجالس اس امر سے خالی نہیں ہوتی تھیں کہ یہود و نصاریٰ ایمان قبول کرتے تھے۔ چور، ڈاکو، راہزن اور شریر لوگ تائب ہوتے تھے اور رافضی وغیرہ اپنے عقائد سے رجوع کیا کرتے تھے۔ (بہجۃ الاسرار، ص312)

غوث پاک کے وعظ و نصیحت میں سینکڑوں علما کی شرکت

آپ رضی اللہ عنہ کے وعظ و نصیحت کا یہ عالم ہوتا کہ ہر مجلس میں 400 علماء قلم و دوات لے کر بیٹھتے اور جو کچھ سنتے اس کو لکھتے رہتے ، آپ کی مجلس کی یہ کرامات تھی کہ دور و نزدیک کے شرکاء آپ کی آواز کو یکساں سنتے تھے۔(حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم ، ص65)

غوث پاک کی مجلس میں جنات کا ہجوم

اس کے علاوہ آپ کے وعظ و نصیحت میں انسانوں سے زیادہ جنات شریک ہوا کرتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے ایک ہم عصر شیخ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے جنات کی حاضری کے لئے وظیفہ پڑھا لیکن خلاف معمول کوئی جن حاضر نہ ہوا۔ بہت دیر بعد چند جن حاضر ہوئے میں نے تاخیر کا سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ ہم حضرت شیخ عبدُالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں حاضر تھے ،برائے مہربانی جب حضرت شیخ وعظ فرما رہے ہوں تو ہمیں نہ بلایا کریں۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا تم بھی ان کی مجلس میں حاضر ہوتے ہو؟ کہنے لگے کہ آدمیوں کے اجتماع سے کہیں زیادہ ہم جنات کا اجتماع ہوتا ہے اور ہم میں سے اکثر قبائل حضرت شیخ کے دست مبارک پر اسلام لے آئے اور اللہ کی طرف راغب ہوگئے۔(حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم ، ص67)

انبیائے کرام بھی حضور غوث پاک کی مجلس کو براہ راست فیض پہچاتے تھے

حضرت ابو سعید قیلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں نے کئی مرتبہ سرورِ کائنات، فخر موجودات حضرت محمد مصطفٰے ﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کو آپ کی مجلس میں رونق افروز دیکھااور فرشتے آپ کی مجلس میں گروہ در گروہ حاضر ہوتے تھے۔ اسی طرح رجال الغیب اور جنات کے گروہ کے گروہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے اور حاضری میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرتے تھے۔ (حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم ، ص67)

سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ اپنے وعظ و نصیحت میں مختلف علوم و فنون پر کلام کرتے تھے جن میں تصوف، معرفت، فقہ، تفاسیرسمیت دیگر فنون شامل تھے۔

ایک آیت کی چالیس تفاسیر بیان فرمادیں

ایک مرتبہ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کسی آیت کی تفسیر بیان فرمارہے تھے،امام ابوالفرج عبدالرحمٰن ابن جوزی علیہ رحمۃ اللہ القَوی بھی اِس درس میں شریک تھے۔حضورِ غوثِ پاک نے چالیس تفاسیربیان فرمائیں جس میں سےگیارہ تفاسیر امام ابنِ جوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے علم میں تھیں جب کہ29 تفاسیر پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نےتعجّب اور لاعلمی کا اظہار کیا پھرجب غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاكہ اب ہم قال سے حال کی طرف چلتے ہیں،تو لوگ بہت زیادہ مُضْطَرِب ہو گئے۔ (قلائد الجواھر، ص 38)

مجلس کے دوران مختلف موضوعات پر کلام

شیخ عالم زاہد ابو الحسن سعد الخیر بن محمد بن سہل بن سعد انصاری اندلسی فرماتے ہیں: میں شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں 529ہجری میں حاضر ہوا۔ میں سب لوگوں سے آخر میں تھا ۔ آپ زہد کے بارے میں وعظ فرمارہے تھے۔ میں نے دل میں کہا میرا مرض یہ ہے کہ آپ معرفت پر کلام کریں تب آپ نے زہد سے کلام قطع کیا اور معرفت میں کلام کرنا شروع کردیا ،میں نے آج تک ایسا بیان نہیں سنا تھا پھر میں نے دل میں کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ شوق پر کلام کریں تب معرفت سے کلام موقوف کیا اور شوق پر کلام شروع کردیا، میں نے اس سے پہلے کبھی ایسا کلام نہیں سنا تھا پھر میں نے دل میں کہا کہ آپ غیب و حضور پر کلام کریں تب آپ نے فنا و بقاء سے قطع کلام کرکے غیب و حضور میں کلام شروع کیا ،ایسا کلام میں نے آج تک نہیں سنا تھا کہ بے مثل کلام تھا پھر فرمایا ابو الحسن! تیرے لئے یہی کافی ہے۔ تب میں بے اختیار ہوا اور میں نے اپنے کپڑے پھاڑ دیئے۔(بہجۃ الاسرار، ص306)

یہاں یہ بات بھی ضمناً عرض کرتا چلوں کہ جہاں سرکار غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ مجلس میں وعظ و نصیحت فرماتے ہیں وہیں دن کا ایک بڑا حصہ درس و تدریس کی مصروفیت میں گزرتا تھا جس میں ہزاروں طلبہ علم ِدین سے فیض یاب ہوتے تھے۔

غوث پاک کی علم وفنون پر مہارت

وعظ و نصیحت کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے مدرسے میں فقہ، حدیث، تفسیر، نحو جیسے 13 مضامین (Subjects) کا تدریس بھی فرماتے تھے جبکہ بعدِ نمازِ ظہر قراءت ِقراٰن جیسا اہم مضمون پڑھاتےتھے۔ (قلائد الجواھر، ص 38)

آپ رحمۃ اللہ علیہ سے اکتساب فیض کرنے والے طلبہ کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہےجن میں فقہاکی بہت بڑی تعدادشامل ہے۔(مراۃ الجنان،ج3،ص267)

صحبتِ غوثِ اعظم کی برکت

حضرت سیّدنا عبدُاللہ خشّاب علیہ رحمۃ اللہ الوَہَّاب علمِ نحوپڑھ رہے تھے، درسِ غوثِ اعظم کا شہرہ بھی سُن رکھا تھا،ایک روز آپ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کےدرس میں شریک ہوئےجب آپ کو نحوی نکات نہ ملےتو دل میں وقت ضائع ہونے کا خیال گزرا اسی وقت غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَمآپ کی جانب متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:”ہماری صحبت اختیار کرلو ہم تمہیں(علمِ نحو کے مشہور امام) سِیْبَوَیہ (کامثل) بنادیں گے۔“یہ سُن کرحضرت عبدُ اللہ خشّاب نحوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے درِغوثِ اعظم پر مستقل ڈیرے ڈال دیئےجس کا نتیجہ یہ ظاہر ہواکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو نحوکے ساتھ ساتھ علومِ نقلیہ و عقلیہ پرمہارت حاصل ہوئی۔ (قلائدالجواھر، ص32،تاریخ الاسلام للذھبی،ج 39،ص267)

سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتوحات کا راز

بہت عجیب تر بات جس کا نہایت قلیل لوگوں کو علم ہوگا اور کثیر لوگوں کے علم میں شاید پہلی بار آئے کہ سُلطان صلاحُ الدِّین ایُّوبی نے جب القدس فتح کیا تو جس لشکر (Army) کے ذریعے بیت المقدس فتح کیا، اس میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت حضور غوث الاعظم کے تلامذہ کی تھی ،گویا آپ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف مجتہد ہی نہیں تھے بلکہ عظیم مجاہد بھی تھے۔

سُلطان صلاحُ الدِّین ایُّوبی کی آدھی سے زائد فوج حضور غوث الاعظم کے عظیم مدرسے کے طلبہ اور کچھ فیصد لوگ فوج میں وہ تھے جو امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ سُلطان صلاحُ الدِّین ایُّوبی کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی حضور سیّدُنا غوث الاعظم کے شاگرد اور خلیفہ تھے۔ آپ براہِ راست حضورغوثِ پاک کے شاگرد، مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سُلطان صلاحُ الدِّین ایُّوبی نے رقم کیا وہ سیّدُنا غوث الاعظم کا فیض تھا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ (شاگرد) بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے مثلاً سلطان نورُالدّین زنگی رحمۃ اللہ علیہنےتلمیذِ غوثِ اعظم حضرت حامد بن محمودحرانی رحمۃ اللہ علیہ کوحَرّان میں قضا(Justice)اورتدریس (Teaching)کا منصب سونپا۔تلمیذِ غوثِ اعظم حضرت زینُ الدّین علی بن ابراہیم دمشقیرحمۃ اللہ علیہسُلْطان صلاحُ الدّین ایُّوبیرحمۃ اللہ علیہ کےمُشیررہے۔(الشیخ عبد القادر الجیلانی (الام الزہد القدوۃ)- دار القلم، دمشق، شام، ص287) حضور غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کے طریقۂ تدریس اور اندازِ تربیت سے طلبہ میں دعوتِ دین کاجذبہ پیدا ہوا۔ اسی جذبے کانتیجہ تھاکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد مخلوقِ خدا کو راہِ راست پر لانے،تزکیۂ نفس فرمانےاور جہالت کی تاریکی مٹانے کے لئے عالَم میں پھیل گئے۔فیضانِ غوثِ اعظم کودنیا بھر میں عام کرنے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ وخلفا نے بھرپور کردار ادا کیا۔