پردہ و حجاب کیا ہے؟
قارئینِ کرام!حِجاب
کے متعلق علّامہ شریف جُرجانی رحمۃ اللہ علیہ کتاب
التعریفات میں فرماتے ہیں کہ حِجاب سے مُراد ہر وہ شے ہے جو آپ سے آپ کا
مقصود چھپا دے۔(کتاب التعریفات، حرف الحاء، ص 145) یعنی آپ ایک شے کو دیکھنا
چاہیں مگر وہ شے کسی آڑ یا پردے میں ہو تو اس آڑ یا پردے کو حجاب کہتے
ہیں۔حجاب کا یہ مفہوم قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر مذکور ہے، جیسا کہ پارہ 23
سورہ ص کی آیت نمبر 32 میں ارشادہوتا ہے:
حَتّٰى
تَوَارَتْ بِالْحِجَابِٙ(۳۲)
ترجمۂ کنزُ
الایمان:یہاں تک کہ نگاہ سے پردے میں چُھپ گئے۔
نیز عورتوں کے حجاب سے کیا مراد ہے اس کے متعلق حضرت
سیدنا امام ابن حَجَر عَسْقَلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عورتوں کے
حجاب سے مراد یہ ہے (کہ وہ اس طرح پردہ کریں)کہ مَرد انہیں کسی طرح دیکھ نہ
سکیں۔ (فتح الباری، ٨/٥٨١، تحت الحدیث:٤٧٥٠)
اس بارے میں علامہ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی رحمۃ اللہ
علیہ اپنی کتاب سیرت سید الانبیاء میں فرماتے ہیں: 4ہجری ذو القعدۃ
الحرام کے مہینےمیں اُمُّ المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی
کاشانَۂ نبوّت میں رخصتی کے دن مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کا حکم نازل ہوا۔
بعض علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہ حکم 2ہجری کو
نازِل ہوا، مگر پہلا قول ہی راجِح ہے۔(سیرت سید الانبیا، حصہ دوم، ص ۳۵۱)
پردہ صرف عورتوں کے لیے ہی کیوں؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف عورتوں کو ہی پردے و
حجاب کا حکم کیوں دیا گیا؟اس بارے میں دعوتِ اسلامی کی بڑی پیاری کتاب اسلامی
زندگی صفحہ نمبر 105پر عورتوں کے پردہ کرنے کے پانچ (05) اسباب کچھ یوں تحریر
ہیں:
)1(…عورت
گھر کی دولت ہے اور دولت کو چھپا کر گھر میں رکھا جاتا ہے، ہر ایک کودِکھانے سے
خطرہ ہے کہ کوئی چوری کرلے۔اسی طرح عورت کو چھپانا اور غیروں کو نہ دِکھانا ضروری
ہے۔
(2)…عورت
گھر میں ایسی ہے جیسے چَمَن میں پھول اور پھول چَمَن میں ہی ہَرا بھرا رہتا ہے،
اگر توڑ کر باہر لایا گیا تو مُرجھا جائے گا۔اسی طرح عورت کا چَمَن اس کا گھر اور
اسکے بال بچے ہیں،اس کو بلاوجہ باہر نہ لاؤ ورنہ مُرجھا جائے گی۔عورت کا دِل نہایت
نازُک ہے، بہت جلد ہر طرح کا اثر قبول کرلیتا ہے، اس لیے اس کو کچی شیشیاں فرمایا
گیا۔
(3)…ہمارے
یہاں بھی عورت کو صنف نازُک کہتے ہیں اور نازُک چیز وں کو پتھروں سے دُور رکھتے ہیں
کہ ٹوٹ نہ جائیں۔غیروں کی نگاہیں اس کے لیے مضبوط پتھر ہیں، اس لیے اس کو غیروں سے
بچاؤ۔
(4)…عورت
اپنے شوہر اور اپنے باپ دادا بلکہ سارے خاندان کی عزّت اور آبرو ہے اور اس کی
مِثال سفید کپڑے کی سی ہے،سفید کپڑے پر معمولی سا داغ دھبہ دور سے چمکتا ہے اور
غیروں کی نگاہیں اس کے لیے ایک بدنُما داغ ہیں،اس لیے اس کو ان دھبوں سے دُور
رکھو۔
(5)…عورت
کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ اس کی نِگاہ اپنے شوہر کے سِوا کسی پر نہ ہو، اس لیے
قرآنِ کریم نے حوروں کی تعریف میں فرمایا: قٰصِرٰتُ
الطَّرْفِۙ-۔ ترجمہ: شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔
(پ٢٧،الرحمٰن:٥٦) اگر اس کی نگاہ میں چند مرد آگئے تو یوں
سمجھو کہ عورت اپنے جوہر کھوچکی ،پھر اس کا دِل اپنے گھر بار میں نہ لگے گا
جس سے یہ گھر آخر تباہ ہوجائے گا۔
کیا عورتوں کا گھروں میں رہنا ظلم ہے؟
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ عورتوں کا گھروں میں
قید رکھنا ان پر ظلم ہے جب ہم باہر کی ہوا کھاتے ہیں تو ان کو اس نعمت سے کیوں
محروم رکھا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گھر عورت کیلئے قید خانہ نہیں بلکہ اس کا
چَمَن ہے گھر کے کاروبار اور اپنے بال بچّوں کودیکھ کر وہ ایسی خوش رہتی ہیں جیسے
چَمَن میں بُلبل۔ گھر میں رکھنا اس پر ظلم نہیں،بلکہ عزّت و عِصْمَت کی حفاظت ہے
اس کو قدرت نےاسی لیے بنایا ہے۔بکری اسی لیے ہے کہ رات کو گھر رکھی جائے اور شیر،
چیتا اور مُحافِظ کتا اس لیے ہے کہ ان کو آزاد پھرایا جائے، اگر بکری کو آزاد کیا
تو اس کی جان خطرے میں ہے اس کو شِکاری جانور پھاڑ ڈالیں گے۔(اسلامی زندگی، ص ۱۰۶، ملتقطاً)
پردہ و حجاب
گویا اِسلامی شعار کی حیثیت رکھتا ہے،کیونکہ اسلام سے قبل عورت بے پردہ تھی اور
اِسلام نے اسے پردہ و حجاب کے زیور سے آراستہ کر کے عظمت و کردار کی بلندی عطا فرمائی ، جیسا کہ فرمانِ
باری تعالیٰ ہے:
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ
الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ ٢،الاحزاب:٣٣)
ترجمۂ کنزُ
الایمان:اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہِلیَّت کی
بے پردگی۔
علامہ نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس
آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:اگلی جاہِلیَّت سے مُراد قبلِ
اسلام کا زمانہ ہے، اُس زمانہ میں عورتیں اِتراتی نکلتی تھیں، اپنی زینت
ومَحَاسِن (یعنی بناؤ سنگھار اور جسم کی خوبیاں مَثَلا ًسینے کے اُبھار
وغیرہ) کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں۔لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم
کے اعضا اچھّی طرح نہ ڈھکیں۔(خزائن العرفان، پ۲۲، الاحزاب،:۳۳، ص ۷۸۰) افسوس! موجودہ دور میں بھی زمانۂ جاہِلیَّت
والی بے پردگی پائی جارہی ہے۔ یقیناً جیسے اُس زمانہ میں پردہ ضَروری تھا ویسا ہی
اب بھی ہے۔
صحابیات کس قدر پردہ کرتی تھیں؟
٭ایک بار ام المؤمنین حضرت سیدتنا
سَودہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی: آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ
باقی ازواج کی طرح حج کرتی ہیں نہ عمرہ؟تو آپ رضی اللہ عنہا
نے فرمایا:میں نے حج و عمرہ کر لیا ہے،چونکہ میرے ربّ نے مجھے گھر میں رہنے
کا حکم فرمایا ہے۔ لہٰذا خدا کی قسم! اب میں موت آنے تک گھر سے باہر نہ نکلوں
گی۔ راوی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ رضی اللہ عنہا گھر
کے دروازے سے باہر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔( در منثور،پ ٢٢،
الاحزاب، تحت الآية:٣٣، ٦/٥٩٩)
٭اسی طرح حضرت سیدتنا فاطمۃ الزّہرا رضی اللہ عنہانے
موت کے وقت یہ وصیت فرمائی کہ بعدِ انتقال مجھے رات کے وقت دفن کرنا تاکہ
میرے جنازے پر کسی غیر کی نظر نہ پڑے۔( مدارج النبوت، الجزء الثانی، ص۴۶۱)
٭ اُمّ المومنین حضرتِ سیدتنا ام سلمہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب قرآنِ مجید کی یہ آیتِ مبارکہ نازِل ہوئی:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ
بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ
جَلَابِیْبِهِنَّؕ- (پ٢٢، الاحزاب:٥٩)
ترجمۂ کنزُالایمان:اے نبی اپنی بیبیوں
اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا
ایک حصّہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔
تو انصار کی خواتین سیاہ چادر اوڑھ کر گھروں
سے نکلتیں ، ان کو دور سے دیکھ کر یوں لگتا کہ ان کے سروں پر کوّے
بیٹھے ہیں۔(ابو داود، ص٦٤٥، حدیث : ٤١٠١، مفہوماً)
٭ابو داود شریف میں ہے کہ حضرت سیدتنا اُمِّ
خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا۔ آپ ان کے بارے میں
معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہو ئیں تو اس پر
کسی نے حیرت سے کہا: اِس وقت بھی باپردہ ہیں ! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا
ہے، حَیا نہیں کھوئی۔( ابو داود ، ص٣۹٧، حدیث:٢٤٨٨ ملتقطاً)
٭حضرت سیِّدُنا عطا بن ابو رَباح رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے فرمایا:
میں تمہیں جنَّتی عورت نہ دِکھاؤں؟ میں نے عرض کی:کیوں نہیں۔ فرمایا: یہ
حبشی عورت(جنتی ہے)۔ اس نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آ کر عرض کی:یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ! مرگی
کے مرض کی وجہ سے میرا سِتْر (پردہ )کھل جاتا ہے آپ میرے لیے دُعا
فرمائیے۔تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: چاہو تو صبر کرو تمہارے لیے جنّت ہے اور اگر چاہو تو میں اللہ پاک سے
تمہارے لیے دُعا کروں کہ وہ تجھے عافیت عطافرما ئے۔ اس نے عرض کی: میں صبر کروں گی۔ پھر عرض کی: دُعا کیجئے بوقت
مِرگی میرا پردہ نہ کُھلا کرے۔چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے لیے دعا فرمادی۔ (بخاری، حدیث:٥٦٥٢)
پردہ
کرنے والی خواتین کے لیے آزمائشیں
آج کل پردہ کرنے والیوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے،کبھی خاتون عورتوں کی کسی
تقریب میں مدنی بُرقع اوڑھ کر چلی جائے تو!!! ٭… کوئی کہتی ہے: ارے ! یہ
کیا اَوڑھ رکھا ہے اُتارواِس کو! ٭…کوئی بولتی ہے: بس ہمیں معلوم ہو گیا ہے
کہ تم بَہُت پردہ دار ہو اب چھوڑو بھی یہ پردہ وَردہ! ٭…کوئی کہتی ہے،
دنیابَہُت ترقّی کر چکی ہے اور تم نے یہ کیا دَقْیا نُوسی انداز اپنا رکھا ہے!
وغیرہ ۔
اِس طرح
کی دل دُکھانے والی باتوں سے شرعی پردہ کرنے والی کا دل ٹوٹ پھوٹ کر چکناچُور ہو
جاتا ہے۔ اگرچہ واقعی یہ حالات نہایت ہی نازُک ہیں اور شَرعی پردہ کرنے والی
اسلامی بہن سخت آزمائش میں مبتلا رَہتی ہے مگر اسے ہمّت نہیں ہارنی چاہیے۔ مذاق
اُڑانے یا اعتراض کرنے والیوں سے زور دار بحث شُروع کر دینا یا غصّے میں آ کر لڑ
پڑنا سخت نقصان دِہ ہے کہ اس طرح مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھ سکتا ہے۔
ایسے موقع پر یہ یاد کر کے اپنے دل کو تسلّی دینی
چاہیے کہ جب تک تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عام
اِعلانِ نبوّت نہیں فرمایا تھا اُس وقت تک کفارِ بد انجام آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو اِحتِرام کی نظر سے دیکھتے تھے اور
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو امین اور صادِق کے لقب سے یاد کرتے تھے۔
مگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے جُونہی علی الاعلان اسلام کا ڈنکا بجانا شروع
کیا وہی کفارِ بداَطوار طرح طرح سے ستانے، مذاق اُڑانے اور گالیاں سنانے لگے، صرف
یہی نہیں بلکہ جان کے در پے ہو گئے، مگر قربان جائیے ! سرکارِ نامدار ، اُمّت کے
غم خوار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم پر کہ آپ نے بالکل ہمت نہ ہاری، ہمیشہ صبر ہی
سے کام لیا ۔اب اسلامی بہن صبرکرتے ہوئے غور کرے کہ میں جب تک فیشن ایبل اور
بے پردہ تھی میرا کوئی مذاق نہیں اُڑاتا تھا، جُونہی میں نے شَرعی پردہ اپنایا،
ستائی جانے لگی۔ اللہ پاک کا شکر ہے کہ مجھ سے ظلم پر صبر کرنے کی
سنّت اَدا ہو رہی ہے ۔
مدنی اِلتجا ہے کہ کیسا ہی صَدمہ پہنچے صبر کا
دامن ہاتھ سے مَت چھوڑئیے، نیز بلا اجازتِ شَرعی ہرگز زبان سے کچھ مت بولئے۔ حدیثِ
قُدسی میں ہے، اللہ پاک فرماتا ہے:اے ابنِ آدم ! اگرتُو اوّل صَدمے
کے وقت صبر کرے اور ثواب کا طالِب ہو تو میں تیرے لیے جنَّت کے سِوا کسی ثواب پر
راضی نہیں۔( ابن ماجہ، ص٢٥٦، حدیث: ١٥٩٧)
نوٹ: پردے کے بارے میں مزید معلومات اور شرعی
احکامات تفصیل سے پڑھنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”پردے کے بارے میں سوال “
اور رسالہ” صحابیات اور پردہ“ حاصل فرمائیں۔
از: مولانا عمر فیاض
عطاری مدنی
اسکالر اسلامک ریسرچ
سینٹر دعوتِ اسلامی
09-02-2022
اس دنیا میں لاتعداد انسانوں نے جنم لیااور بالا آخر موت نے انہیں
اپنی آغوش میں لے کر ان کا نام ونشان تک مٹادیا لیکن جنہوں نے دین اسلام کی
بقاوسربلندی کے لیے اپنی جان ،مال اور اولاد کی قربانیاں دیں اورجن کے دلی جذبات
اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لیے ہمہ وقت پختہ تھے، تاریخ کے اوراق پر ان کے تذکرے
سنہرے حروف سے کُندہ ہیں۔ ان اکابرین کے کارناموں کا جب جب ذکر کیا جاتاہے، دلوں
پر رقت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ان کے پُرسوز واقعات آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ
ہیں،بالخصوص امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکا نام رقت وسوز کے ساتھ جذبہ ایثار وقربانی کوابھارتاہے
۔ صدیق اکبر نے جس شان کے ساتھ اپنی جانی اور مالی قربانی کے نذرانے پیش کیے ،تاریخ ان کی مثال بیان کرنے سے قاصر ہے۔
حضرت سیدنا ابوبکر
صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ وہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔
ابن اسحق نے ایک حدیث
روایت کی کہ حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سوائے
ابوبکر کے اور کوئی ایسا شخص نہیں جو میری دعوت پر بے توقف و تامل ایمان لایا ہو۔ (تاریخ الخلفاء،ابوبکر
الصدیق ،فصل فی اسلامہ،ص۲۷)
یوں تو تمام صحابہ
کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان ہی مقتدیٰ بہ (یعنی
جن کی اقتداء کی جائے)، ستاروں کی مانند
اور شمع رسالت کے پروانے ہیں لیکن صدیق اکبر وہ ہیں جو انبیاء کرام اور رسولوں کے بعد تمام مخلوق میں افضل ہیں۔ جو
محبوبِ حبیب خدا ہیں، جوعتیق بھی ہیں،صدیق بھی ہیں،صادق بھی ہیں، صدیق اکبر بھی
ہیں۔حلیم یعنی بردبار بھی ہیں، بچپن وجوانی دونوں میں بت پرستی سے دوررہنے والے، رسول
اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے دوست، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خاطر اپنا تن من
دھن سب کچھ قربان کرنے والے،مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے، سب سے
پہلے دعوتِ اسلام دینے والے، جن کے والدین صحابی،اولاد صحابی، اولاد کی اولاد بھی
صحابی، جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے رشتہ دار، جن کی عبادت وریاضت دیکھ کر لوگ اسلام قبول کریں، شراب سے
نفرت کرنے والے، عزت وغیرت کی حفاظت کرنے والے، خلیفہ ہونے کے باوجود انکساری کرنے
والے، مشرکین سے رسول خدا کا دفاع کرنے والے، غلاموں کو آزاد کرنے والے،سیدنا
بلال حبشی رَضِیَ اللہُ عَنْہکو خریدکربادشاہ حقیقی
یعنی اللہ عَزَّوَجَلّ َسے بہت بڑے متقی کا خطاب پانے والے،جوقرآن وحدیث کے بہت
بڑے عالم، علم تعبیر وعلم انساب کے ماہر،رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے براہ راست درس کتاب
وحکمت لینے والے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مشیرووزیر، جن کی تائید خود رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکریں، جو خوف خدا سے گریہ وزاری کرنے والے،جو دکھیاری امت کی خیر خواہی
کرنے والے، مریضوں کی عیادت کرنے والے، لواحقین سے تعزیت کرنے والے ، جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے سفر ہجرت کے دوست اوریار غار،
ہجرت کی رات معراج کے دولہا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو اپنے کندھوں پر
اٹھانے والے،ایسے یار غار کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خاطراپنی جان کی
بھی پرواہ نہ کریں، جن کا صاحب ویارغار ہونا خود اللہ عَزَّوَجَلَّ بیان کرے، جو رسول
اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کرنے
والے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی نگہبانی کرنے والے ہیں،جن کو
رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے امیر الحج بنایا،جنہیں
رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے امام بنایا، جنہوں نے رسول
اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمکی موجودگی میں نمازوں
کی امامت کی۔جوخلیفۂ اول ہیں، جن کی خلافت پر اجماع امت ہے، جنہوں نے
منکرین زکوۃ ومرتدین کے خلاف جہاد فرمایا، جن کے اوصاف واحسانات کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمخود بیان فرمائیں۔ جن
کے فضائل کو خود صحابہ کرام واسلاف کرام بیان کریں۔جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی حیات میں بھی ان کے رفیق ہیں
اور مزار میں بھی ان کے رفیق ہیں۔’’صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس‘‘ یہ ان کی کتاب زندگی کا عنوان تھا۔
عموماً کسی بھی شخص کی
مزاجی کیفیات اوراس کی ذات میں پائی جانے والی خصوصیات کا اندازہ اس کے نسب
کاتذکرہ کرنے سے ہوتا ہے،یوں سمجھئے کہ کسی شخصیت کے ذاتی اور اندرونی کوائف جاننے
کے لیے اس کا نسب ایک آئینے کی حیثیت رکھتاہے جہاں اس کے نسب کا ذکر کیاوہیں اس
کی شخصیت اپنے تمام اطوار کے ساتھ نکھر کرسامنے آگئی۔برصغیر پاک وہند کے علاوہ
آج تک عربوں میں اس بات کا رواج ہے کہ کسی شخص کی عادات سے آگاہ ہونے کے لیے اس
کے قبیلے کاتذکرہ ضرور کرتے ہیں لہٰذا
اَوّلاً نسب کا ذکر کرنا ناگزیر ہے۔
آپ کاسلسلہ نسب:
حضرت سیدناعروہ بن
زبیررَضِیَ اللہ عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ’’ امیر المؤمنین
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکا نام عبداللہ بن
عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مُرّۃ بن کعب ہے۔‘‘مرہ بن کعب تک آپ کے
سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب میں بھی مرہ بن
کعب تک چھ ہی واسطے ہیں اور مرہ بن کعب پرجاکر آپ رَضِیَ اللہ عَنْہکا سلسلہ سرکارصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد حضرت عثمان کی کنیت ابو قحافہ ہے، آپ رَضِیَ اللہ عَنْہکی والدہ ماجدہ کا نام اُمُّ الخیر سلمیٰ بنت صخر بن
عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرۃ بن کعب ہے۔ ام الخیر سلمیٰ کی والدہ
(یعنی امیرالمؤمنین حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکی نانی) کا نام دلاف ہے اور یہی امیمہ بنت عبید بن ناقد
خزاعی ہیں۔ امیرالمؤمنین حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکی دادی (یعنی حضرت سیدناابو قحافہ رَضِیَ اللہ عَنْہ کی والدہ)کا نام امینہ بنت عبد
العزیٰ بن حرثان بن عوف بن عبید بن عُویج بن عدی بن کعب ہے۔ (المعجم الکبیر، نسبۃ ابی بکر
الصدیق واسمہ، الحدیث:۱،ج۱،ص۵۱،الاصابۃ فی تمییز
الصحابۃ، ج۴، ص۱۴۴)
عشق ووفا کی امتحان گاہ میں حضرت ابو
بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا حال:
ابتدائے اسلام میں جو شخص مسلمان ہوتا تھا وہ
اپنے اسلام کو حتی الوسع مخفی رکھتا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ
والہٖ وسلم کی طرف سے بھی، اس
خیال سے کہ ان کو کافروں سے اذیت نہ پہنچے، اخفا کی تلقین ہوتی تھی۔ جب مسلمانوں
کی تعداد انتالیس تک پہنچی توحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اظہار کی درخواست کی اور چاہا کہ کھلم کھلا علی
الاعلان تبلیغ اسلام کی جائے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اول انکار فرمایا
مگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اصرار پر قبول فرمالیا ،حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہُ عنہ صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کو ساتھ لیکر مسجدحرام
شریف میں تشریف لے گئے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ شروع کیا، یہ
سب سے پہلا خطبہ ہے جو اسلام میں پڑھا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے چچا سیدالشہداء
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اسی دن اسلام لائے ہیں
اور اس کے تین دن بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ خطبہ کا شروع ہونا تھا
کہ چاروں طرف سے کفار و مشرکین مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی باوجودیکہ مکہ
مکرمہ میں عام طورپر ان کی عظمت و شرافت مسلّم تھی ،اس قدر مارا کہ تمام چہرہ
مبارک خون میں بھر گیا ، ناک کان سب لہولہان ہوگئے۔ پہچانے نہ جاتے تھے، جوتوں سے
مارا پاؤں میں روندا جونہ کرنا تھا سب کچھ ہی کیا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بے ہوش ہوگئے، بنو تیم یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہاں سے اٹھا
کر لائے۔سب کو یقین ہو چلا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وحشیانہ حملہ سے زندہ نہ بچ سکیں گے بنو تیم
مسجد میں آئے اور اعلان کیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اگر حادثہ میں وفات ہوگئی تو ہم لوگ ان کے
بدلہ میں عتبہ بن ربیعہ کو قتل کریں گے عتبہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مارنے میں بہت
زیادہ بدبختی کا اظہار کیا تھا۔ شام تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے ہوشی رہی
باوجود آوازیں دینے کے بولنے یا بات کرنے کی نوبت نہ آتی تھی۔ شام کو آوازیں دینے
پر وہ بولے تو سب سے پہلے الفاظ یہ تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ لوگوں
کی طرف سے اس پر بہت ملامت ہوئی کہ ان ہی کے ساتھ کی بدولت یہ مصیبت آئی اوردن بھر
موت کے منہ میں رہنے پر بات کی تو وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہی کا جذبہ اور ان ہی
کے ليے۔
لوگ آپ کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے
،بددلی بھی تھی اور یہ بھی کہ آخر کچھ جان ہے کہ بولنے کی نوبت آئی اور آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ام خیر سے
کہہ گئے کہ ان کے کھانے پینے کیلئے کسی چیز کا انتظام کردیں۔ وہ کچھ تیار کرکے
لائیں اور کھانے پر اصرار کیا مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وہی ایک صد ا تھی
کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم کا کیا حال ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم پر کیا گزری؟ انکی
والدہ نے کہاکہ مجھے تو خبر نہیں کیا حال ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ام جمیل (حضرت عمر کی بہن رضی اللہ عنہما)کے پاس جاکر دریافت
کر لو کہ کیا حال ہے؟ وہ بیچاری بیٹے کی اس مظلومانہ حالت کی بیتا بانہ درخواست
پوری کرنے کیلئے ام جمیل رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور محمد صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم کا حال دریافت کیا۔ و
ہ بھی عام دستور کے مطابق اس وقت اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں۔ فرمانے لگیں میں
کیا جانوں کون محمد( صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم) اور کون ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) تیرے بیٹے کی حالت سن کر رنج ہو ا اگر تو کہے تو
میں چل کر اسکی حالت دیکھوں ام خیر نے قبول کر لیا ان کے ساتھ گئیں اور حضرت
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی حالت دیکھ کر تحمل
نہ کر سکیں بے تحاشا رونا شروع کر دیا کہ بد کرداروں نے کیا حال کردیا۔ اللہ ان کو
ان کے کئے کی سزا دے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ ام
جمیل رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ کی طرف اشارہ
کرکے فرمایا کہ وہ سُن رہی ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان سے خوف نہ کرو ۔ ام جمیل رضی اللہ
عنہا نے خیریت سنائی اور عرض کیا کہ بالکل صحیح سالم ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں انہوں نے عرض کیا کہ
ار قم کے گھر تشریف رکھتے ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ کو خد اعزوجل کی قسم ہے کہ اس
وقت تک کوئی چیز نہ کھاؤں گانہ پیٔوں گا
جب تک کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم کی زیارت نہ کرلوں۔ ان
کی والدہ کو تو بیقراری تھی کہ وہ کچھ کھا لیں اور انہوں نے قسم کھا لی کہ جب تک
حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم کی زیارت نہ کرلوں
کچھ نہ کھاؤں گا۔ اس لئے والدہ نے اس کا انتظار کیا کہ لوگوں کی آمدورفت بند
ہوجائے۔ مبادا کوئی دیکھ لے اور کچھ اذیت پہنچائے۔ جب رات کا بہت سا حصہ گزر گیا
تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لیکرحضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں ارقم کے گھر پہنچیں۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم سے لپٹ گئے حضور صلی اللہ علیہ والہٖ
وسلم بھی لپٹ کر روئے۔
اَور مسلمان بھی رونے لگے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ اس کے بعد حضرت
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے درخواست کی یہ
میری والدہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے لئے ہدایت کی
دعا فرمادیں اور ان کو اسلام کی تبلیغ بھی فرمادیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ان کو اسلام کی ترغیب دی وہ بھی اسی وقت مسلمان
ہوگئیں۔ (البدایہ والنہایہ،ج۳،ص۳۰)
یہ شہادت کہ الفت میں
قدم رکھنا ہے
لوگ سمجھتے ہیں کہ
آسان ہے مسلمان ہونا
حضرت سیدنا ابوبکر
صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنی وفاؤں کے
مہکتے پھول جو سرور دوعالم، نور مجسم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں نچھاور
کیے اس کا ایک عظیم مظاہرہ جنگ اُحد کے دن دیکھا گیا جب خارا شگاف تلواریں میدان
کارزار میں چل رہی تھیں ،ہر طرف جنگی نعروں کا شوربرپاتھا ان ہوش ربا مناظر میں
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ ایک کوہ بے ستون نظر آرہے تھے اور
حضور نبی ٔکریم رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں اپنی
جان کو طشت اخلاص میں رکھ کر پیش کررہے تھے ، وہ اُحد کی جنگ جس میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان کی جانی قربانیاں دیکھ کر شیروں کاپِتّاا بھی
پانی ہورہا تھاحضرت سیدنامصعب بن عمیررَضِیَ اللہُ عَنْہ مدینہ طیبہ کے پہلے معلم علمبردار
اسلام نیزحضرت سیدناحمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہبھی جام شہادت نوش کرچکے تھے
،یقینا ان جان کاہ وجگر فرسا مناظر کو دیکھ کر جگر کو تھامنا مشکل ہو جاتا ہے ایسے
میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان جنگ میں اس طرح
مصروف ہوئے کہ لڑتے لڑتے بہت دور نکل گئے اگرکوئی محبوب خدا کے قریب تھاتووہ صرف
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہہی تھے۔چنانچہ اُمّ المؤمنین حضرت
سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاسے روایت ہے فرماتی ہیں: ’’اُحدکےدن جب تمام صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن،رَحْمَۃٌ
لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے جدا ہوگئے تھے توسب سے پہلے
سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس آپ کی حفاظت کے لیے حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ واپس پلٹے۔‘‘(تاریخ مدینۃ دمشق، ج۲۵،ص۷۵)
صدیق اکبر کی مالی قربانی:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے ارشاد فرمایاکہ’’ اپنا مال راہ خدا میں
جہاد کے لیے صدقہ کرو۔‘‘ اس فرمان عالیشان کی تعمیل میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے حسب توفیق اپنا مال
راہِ خدا میں جہاد کے لیے تصدق کیا ۔حضرت سیدناعثمان ذوالنورین رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے دس ہزار مجاہدین
کاسازوسامان تصدق کیااور دس ہزار دینار خرچ کیے اس کے علاوہ نوسو اونٹ اور سوگھوڑے
معہ سازوسامان فرمانِ رسول پرلَبَّیْک کہتے ہوئے پیش کردیے۔چنانچہ
حضرت سیدنا عمر فاروق
اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ’’ میرے پاس بھی مال
تھامیں نے سوچا حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہر دفعہ ان معاملات میں مجھ سے
سبقت لےجاتے ہیں اس بار زیادہ سے زیادہ مال صدقہ کرکے ان سے سبقت لے جاؤں گا۔‘‘چنانچہ وہ گھر گئے
اورگھر کا سارا مال اکٹھا کیا اس کے دو حصے کیے ایک گھروالوں کے لیے چھوڑا اور
دوسرا حصہ لے کر بارگاہ رسالت میں پیش کردیا۔سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے استفسار فرمایا:’’اے عمر! گھروالوں کے لیے کیا چھوڑ کے آئے ہو؟‘‘ عرض کیا: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آدھا مال گھروالوں کے لیے چھوڑ
آیاہوں۔‘‘ اتنے میں
عاشقِ اکبر،یارغار مصطفےٰ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ اپنا مال لے کر بارگاہ
رسالت میں اس طرح حاضر ہوئے کہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے ایک بالکل سادہ سی قباپہنی ہوئی
ہے جس پر ببول کے کانٹوں کے بٹن لگائے ہوئے ہیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے
غُیوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ کو دیکھ کربہت خوش
ہوئے اور استفسار فرمایا:’’اے ابوبکر! گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کرآئے ہو؟‘‘ بس! محبوب کا یہ پوچھناتھا کہ گویاعاشقِ صادق کا دل عشق ومحبت کی مہک سے
جھوم اٹھا، فوراً ہی سمجھ گئے کہ بات کچھ اورہے، کیونکہ محبوب توجانتاہے کہ میرے
عاشق صادق نے تواس وقت بھی اپنی جان ، مال، آل، اولاد سب کچھ قربان کردیاتھا جب
مکۂ مکرمہ میں حمایت کرنے والے نہ ہونے کے برابر تھےبلکہ اکثر لوگ جانی دشمن بن
گئے تھے اور محبوب کے کلام کو کیوں نہ سمجھتے کہ یہ تو وہ عاشق تھے جو ہروقت اس
موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ بس محبوب کچھ مانگے تو سہی !سب کچھ قدموں میں لاکر قربان
کردیں:
کیا پیش کریں جاناں
کیا چیز ہماری ہے
یہ دل بھی تمہارا ہے
یہ جاں بھی تمہاری ہے
یہ تو وہ عاشق صادق
تھے جنہوں نے کبھی اپنے مال کو اپنا سمجھا ہی نہیں ، بلکہ جو کچھ ان کے پاس
ہوتااسے محبوب کی عطاسمجھتے اور کیوں نہ سمجھتے کہ:
میں تو مالک ہی کہوں
گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں
نہیں میرا تیرا
فوراًسمجھ گئے کہ
محبوب کی چاہت کچھ اورہے غالباًمحبوب یہ کہناچاہتے ہیں کہ اے میرے عاشق! میں تو تیرے عشق
کو جانتاہوں، آج دنیاکو بتادے کہ عشق کسے کہتے ہیں،بس آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہنے محبت بھرے لہجے میں یوں عرض کیا: ’’یَارَسُوْلَ اللہ!
اَبْقَیْتُ لَھُمُ اللہَ وَرَسُوْلَہ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں اپنے گھر کا
سارا مال لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا ہوں اور گھروالوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول
ہی کافی ہے۔‘‘حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے
اورکہنے لگے کہ ’’میں کبھی بھی ابوبکر صدیق سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘
تینوں آرزوئیں بر آئیں:
اللہ عَزَّ وَجَلّ َنے حضرتِ سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہ عَنْہ کی یہ تینوں خواہشیں حُب رسولِ انور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے صدقے پوری فرما دیں (۱) آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کو سفروحضر میں رفاقت حبیب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نصیب رہی،یہاں
تک کہ غارثور کی تنہائی میں آپ رَضِیَ اللہ عَنْہکے سوا کوئی اور زِیارت سے مشرف ہونے والا نہ تھا (۲) اسی طرح مالی قربانی کی سعادت اِس کثرت سے نصیب ہوئی کہ اپنا سارا
مال وسامان سرکارِ دو جہاں صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں پرقربان کر دیا اور(۳)مزارپرانوارمیں
بھی اپنی دائمی رفاقت وقُربت عنایت فرمائی۔
محمد ہے متاعِ عالمِ اِیجاد سے پیارا
پِدر مادر سے مال و جان سے اولاد سے پیارا
ہجرت کے موقع پر یار
غار حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جو جاں نثاری کی
مثال قائم کی ہے وہ بھی اپنی جگہ بے مثال ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم اور صدیق اکبررضی اللہ عنہ دونوں غار کے قریب پہنچے تو پہلے صدیق اکبررضی اللہ عنہ اترے صفائی کی ، غار کے تمام
سوراخوں کو بند کیا، ایک سوراخ کو بند کرنے کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو آپ نے اپنے
پاؤں کا انگوٹھا ڈال کر اسکو بند کیا، پھر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بلایا حضور تشریف
لے گئے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زانو پر سر رکھ کر
آرام فرمانے لگے، اتنے میں سانپ نے صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے پاؤں کو کاٹ لیا، مگر صدیق اکبر، شدتِ الم کے باوجود محض اس خیال سے کہ
حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آرام میں خلل نہ
واقع ہو، بدستور ساکن وصامت رہے، آخر جب پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو آنکھوں سے آنسو
جاری ہوگئے، جب آنسو کے قطرے چہرہ اقدس پر گرے تو حضور صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم بیدار ہوئے ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ نے واقعہ عرض کیا، حضور صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ڈسے ہوئے حصے پر
اپنا لعاب دہن لگادیا فوراً آرام مل
گیا۔ایک روایت میں ہے کہ سانپ کا یہ زہر ہر سال عود کرتا بارہ سال تک حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ اس میں مبتلا رہے پھر آخر اس زہر کے اثر سے آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔(مدارج النبوت،ج۲،ص۵۸)
عاشق اکبررَضِیَ اللہ عَنْہ کے عشق ومحبت بھرے واقعات ہمارے
لئے مشعلِ راہ ہیں۔ راہ عشق میں عاشق اپنی ذات کی پرواہ نہیں کرتابلکہ اس کی دلی
تمنّایہی ہوتی ہے کہ رضائے محبوب کی خاطر اپنا سب کچھ لٹادے۔
کاش!ہمارے اندر بھی
ایسا جذبۂ صادقہ پیدا ہوجائے کہ خدا و مصطفےٰ عَزَّ وَجَلَّ وَصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کی خاطراپنا
سب کچھ قربان کر دیں۔
جان دی، دی ہوئی اُسی
کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا
نہ ہوا
از: مولانا شعیب عطاری ،المدینۃ العلمیہ
سلام دینِ اسلام
کی روشن تعلیمات میں ایک عظیم صفت اور
بہترین عادت ہے۔ سلام کی اَہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی
لگایا جاسکتاہے کہ اللہ قُدوس و سَلام عَزَّشَانُہ نے اپنے پاک کلام
میں سلام سے متعلق اپنے
بندوں کی راہنمائی بھی فرمائی ہے کہ: "وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ
فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ
شَیْءٍ حَسِیْبًا(۸۶) ([1])"
ترجمۂ کنز الایمان
: اور
جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو تم اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ
دو بے شک اللہ ہر چیز پر حساب
لینے والا ہے۔
اِسی طرح کائنات
میں اَمن و سلامتی کے سب سے بڑے اور عظیم علمبردار ،تمام نبیوں کے تاجدار صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم کی روشن و تابناک تعلیمات میں بھی ہمیں سلام کی اَہمیت و فضیلت کا بیان
ملتاہے۔چنانچہ حضرت سیِّدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے
بانیِ اسلام صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم سے سوال کیا:أَىُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ؟ اِسلام کا کونسا عمل بہتر ہے؟ تو رسولِ کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((تُطْعِمُ
الطَّعَامَ ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ)) کھانا کِھلانا
اور ہر مسلمان کو سلام کرنا، خواہ اُسے پہچانو یا نہ پہچانو۔([2])
فقہائے اِسلام نے
بھی فقہ کی کتابوں میں سلام سے متعلق شرعی
اَحکامات بڑی تفصیل کے ساتھ تحریر فرمائے ہیں۔مثلاً اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ایک مقام پر
تحریر فرماتے ہیں کہ : "سلام جب
مسنون طریقہ سے کیا گیا ہو اور سلام کرنے والا سُنّی مسلمان صحیح العقیدہ ہو تو
جواب دینا واجب ہے اور اُس کا ترک گناہ۔" ([3])
لیکن یہاں سلام
کے فقہی اَحکام کو بیان کرنا موضوعِ سُخن نہیں ہے ،بلکہ مقصود ایک اَہم مسئلے کی طرف توجہ دِلانا ہے جس
کی تفصیل درج ذیل ہے۔
سلام
لکھنے کا دُرست طریقہ:
سلام کو تحریر ی صورت
میں یوں لکھا جاتاہے: "اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم"۔لیکن عوام
الناس کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو سلام کے یہ کلمات لکھنے میں
عموماً دو غلطیاں کرجاتی ہے۔ ذیل میں اُن
اَغلاط کی نشاندہی اور غلطی کرنے کی
وجہ تحریر کی گئی ہے۔
پہلی
غلطی:
" اَلسَّلَامُ " کو بعض
لوگ (الف
کے بعد لام کے بغیر ہی) "اسلام" لکھ دیتے ہیں(اسلام علیکم)۔
غلطی
کی وجہ:
لفظِ" اَلسَّلَامُ "کے شروع
میں موجود حرفِ تعریف (ال) کا "لام" پڑھنے میں نہیں
آتا؛کیونکہ یہاں حرفِ تعریف (ال)
کے بعدحرف "سین" آرہا ہے ،جو کہ حُروفِ شمسیہ ([4])میں سے ہے اور
قاعدہ ہے کہ اگر حرفِ تعریف کے بعد حروفِ شمسیہ میں سے کوئی حرف آجائے تو ایسی
صورت میں حرفِ تعریف کا "لام" لکھنے میں تو آتاہے، لیکن Silentہونے کی وجہ سے پڑھا نہیں جاتا؛کیونکہ اِس صورت میں
حرفِ تعریف کے" الف" کو "لام" کے بعد والے حرفِ شمسی سے ملاکر پڑھتے ہیں۔ چونکہ
"اَلسَّلَامُ " کا تلفظ کرنے میں "لام" نہیں
پڑھا جاتا تو بعض لوگ اِس کو لکھنے میں بھی ترک کردیتے ہیں۔
دوسری
غلطی:
"اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم" لکھنے میں
بعض لوگ "عَلَیْکُم " سے پہلے واؤ لکھ دیتے ہیں(وعَلَیْکُم ) ۔
غلطی
کی وجہ:
لفظِ"اَلسَّلَامُ " پڑھنے میں "میم" پر موجود
پیش کی آواز سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہوجاتاہے کہ یہاں واؤ ہے اور تحریر کرتے
وقت بھی وہ "میم" کے بعد واؤ لکھ دیتے ہیں(اَلسَّلَامُ و عَلَیْکُم)۔حالانکہ یہاں واؤ نہیں لکھاجائے گا۔
اللہ کریم ہمیں
"سلام "کو عام
کرنے، اِس کی برکات سے حصّہ پانے اورتما م ہی اُمور میں اپنی اصلاح کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمِین بِجَاہِ
خَاتمِ النَّبِیِّن وخَاتمِ الْمَعْصُوْمِیْنصلی اللّٰہ
تعالی علیہ وسلم
از:
ابوالحقائق راشدعلی رضوی عطاری مدنی
اسکالر
المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)
[1] : سورۃ النساء:86۔
[2] : صحیح بخاری، کتاب الایمان،باب اطعام الطعام
من الاسلام،ج1،ص6۔
[3] : فتاوی رضویہ،22/408۔
[4] : وہ حُروف جن سے پہلے لامِ تعریف نہ پڑھا جائے بلکہ وہ اپنے بعد والے حُروف میں مُدغَم ہوجائے ان کو "حُروفِ شمسیہ " کہتے ہیں جیسے: اَلنَّجْمُ۔ (فیضانِ تجوید،ص122) حروفِ شمسیہ چودہ(14) ہیں: ص،ذ،ث،د،ت،ز،س،ر،ش،ض،ط،ظ،ل،ن
کمفرٹ زون کا مطلب ہے کہ آپ اپنے گرد ایسا دائرہ کھینچ لیتے ہیں جس میں رہتے ہوئے آپ بے حد سکون
محسوس کرتے ہیں۔ اس میں آپ کے لئے کوئی نئی چیز،نیا چیلنج یا مشکل نہیں ہوتی اور ایسا اس لئے
ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی خواہشات اور آسانیوں کو دیکھتے ہوئےاپنے گرد وہ دائرہ
کھینچا ہوتا ہے اور اس سے باہر نہیں آنا چاہتے کہ باہر آنے پر چیلنجز،مشکلات کا
سامنا کرنا پڑتا ہے اور ساری سہولتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے اسی لئے اکثر لوگ اپنے
پرانے تعلقات،پرانی جاب یا پرانی روٹین کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے کیونکہ ایسا
کرنے کی صورت میں انہیں نئی اور انجان چیزوں سے واسطہ پڑنے کا ڈر ہوتا ہے جسے وہ
اپنے لئےنقصان دہ خیال کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آگے بڑہنے اور کسی بھی طرح
کی ترقی پانے کے لئے کمفرٹ زون چھوڑنا بہت ضروری ہے کیونکہ اسے چھوڑنے سے ہی آپ کو
اپنی صلاحیتوں کا صحیح طرح علم ہوگا کہ آپ میں مزیدکیا کیا صلاحیتیں ہیں؟ اور آپ ان کے ذریعے کیا حاصل کرسکتے ہیں؟
جیسا کہ ڈیل کارنیگی کا کہنا ہے کہ عدم فعالیت شک اور
خوف کو جنم دیتی ہے اور عمل سے اعتماد اور ہمت پیدا ہوتی ہے اگر آپ خوف پر قابو
پانا چاہتے ہیں تو گھر میں بیٹھ کر اس کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ باہر جاکر کسی کام میں مصروف
ہوجائیں ۔
یاد رکھیے! کہ آپ حقیقتا
اسی وقت کامیاب ہوں گے جب آپ اپنا سیفٹی
اور کمفرٹ زون چھوڑدیں گے۔اور یہ تب ہوگا جب آپ
لوگوں کی باتیں سننے کے بجائے خودکچھ کرنے
کا فیصلہ کریں گے۔ ایسا کرنے کی صورت میں آپ ترقی کی راہ پر چل پڑیں گے اور یہ
ایسی راہ ہے جو آپ کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ اپنے موجودہ مقام سے بڑا کوئی
مقام حاصل کریں اپنے سرکل کو بڑا کریں نئے چیلنجز کا سامنا کریں اور نئی مشکلات کو
فیس کریں۔
اس کے لئےآپ کو کچھ ایکسٹرا یا غیر معمولی کام کرنے کی
ضرورت نہیں ہوتی بلکہ موجودہ صلاحیتوں کو درست طریقے سے استعمال
کرنا ہوتا ہے۔
اس کو یوں سمجھیں کہ اسکول میں نیا سبجیکٹ منتخب کرنے سے یانئی
زبان سیکھتے وقت شروع میں پریشانی ہوتی
ہے لیکن جلد ہی آپ ان چیزوں کو سیکھنا اور
سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں آپ کمفرٹ زون سے باہر نکل جاتےہیں۔
کمفرٹ زون سے باہر نکلنا ایک دشوار کام ہے اس کےلئے آپ
کو بہت ہمت اور محنت کرنی ہوگی۔اس دوران آپ اسٹریس سے بھی گزرسکتے ہیں لیکن اگر آپ
اس سے باہر آجاتے ہیں تو ترقی اور کامیابی آپ کے سامنے ہے۔
کمفرٹ زون سے باہر کیسے نکلیں؟
یہاں کچھ طریقے بیان کئے جائیں گے جن پر عمل کرکے آپ
کمفرٹ زون سے باہر آسکتے ہیں۔
1۔اپنی پرانی روٹین کو چھوڑ کر ایک نئی روٹین بنائیں ۔
2۔اگر آپ کی مصروفیت ایسی ہے جس میں بیٹھنے
کا کام ہے تو اس سے ہٹ کر ایسی چیز میں مصروف ہوجائیں جس سے جسمانی مشقت ہو اور اس
میں حصہ لے کر آپ لطف اندوز ہوں جیسے چہل قدمی کریں یا سیڑھیاں اترنا چڑھنا کریں
اور ریلکس کریں اور اگر پہلے ہی آپ کی مصروفیات میں بھاگ دوڑ اور چلنا پھرنا شامل
ہے تو پھر کوئی نئی کتاب پڑھ لیں عشق رسول میں اضافہ کرنے کے لئے
نعت شریف سن لیں یا کوئی اچھی تحریر لکھ لیں۔
3 ۔اگر آپ شرمیلےہیں اور لوگوں کے سامنے
بولنے سےججھکتے ہیں تو ایسی جگہ جائیں جہاں
آپ کو لوگوں سے بات کرنے کا زیادہ موقع ملے اور لوگوں سے ڈیلنگ کرنی پڑے۔جیسے پبلک
اسپیکنگ یا تقریری مواقع۔
4 ۔اگر آپ کو مخصوص کھانا کھانے کی عادت ہے تو اس کی جگہ کوئی نئی ڈش بنالیں اور نیا ذائقہ چکھیں۔
5۔ایک دن کسی فلاحی ادارے میں گزاریں اور
وہاں مختلف فلاحی کام کریں جیسےغریبوں کو کھانا کھلادیں،مجبور اور بے سہارا لوگوں
کی دلجوئی کریں یا کوئی بھی نیک کام کریں ایسا کرتے ہوئےآپ کو زندگی کی اصل
خوبصورتی کا احساس ہوگا اور دل و دماغ کو فرحت ملے گی۔
کمفرٹ زون کو وسیع کرنے کے فوائد
1۔زندگی کا مزہ دوبالا ہوگا اور بہتر تجربہ
ملے گا۔
2 ۔اس سے آپ کا دماغ متحرک اور بہتر ہوگا جس
سے ذہنی صحت کو بھی تقویت ملے گی۔
3 ۔خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔
4 ۔آپ کے مزاج میں لچک (flexibility)پیدا ہوگی
جس سے بہتر ین انداز میں مشکل حالات کا
مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
5۔افسردگی اور ناامیدی سے بچنا آسان ہوگا۔
6۔ کمفرٹ زون آپ کو خود کی بہتری کا
چیلنج کرتا ہے۔
7۔ خود کو آگے بڑھانے میں معاونت ہوتی ہے اور
آگے نہ بڑھنے کی سوچ ختم ہوتی ہے۔
لہذا ہمت کرکے اس سے باہر آئیں ، باہر ایک نئی اور شاندار دنیا آپ کی منتظر ہے۔
از قلم۔۔۔۔۔حافظ نعمان حسین
Email.shaikhnoman290@gmail.com
خود پر اعتماد نہ ہونا،دوسروں
سے اپنا موازنہ کرکے انہیں بہتر اور خود کو کمتر اور حقیر سمجھنا،دوسروں میں عیب
تلاش کرنا،کسی امتحان یا مقابلے سے گھبرانا،شدید توجہ کا بھوکا ہونا احساس کمتری
ہے۔احساس کمتری کو دور کرنا اور خود اعتمادی حاصل کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ
اعتماد ایک قیمتی شے ہے جس کی کمی یا نہ ہونا زندگی کو مشکل بنادیتا ہے اور اس بنا
پر کئی اہم امور انجام نہیں پاتے لہذا امور زندگی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے
اعتماد اور کانفیڈینس ہونا از حد ضروری
ہے۔
اعتماد دو طرح کا ہوتا
ہے:اندرونی اعتماد،بیرونی اعتماد۔
بیرونی اعتماد تو دولت
کماکر،اچھا لباس پہن کر یا بہترین گاڑی رکھ کر آجاتا ہے لیکن چونکہ اس کی بنیاد
دنیاوی اور عارضی چیزوں پر ہے اس لئے یہ چیزیں نہ ہونے پر یہ اعتماد ختم ہوجاتا ہےجبکہ
اندرونی اعتماد کا تعلق ان چیزوں سے نہیں ہوتا اس لئے دولت،خوبصورتی وغیرہ کے ہونے
یا نہ ہونے سے اس پر اثر نہیں پڑتا۔اور کامیابی کے حصول کے لئے درحقیقت یہی اعتماد
حاصل کرنا ضروری ہے۔
اعتماد حاصل کرکے احساس کمتری
سے نجات پانا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ احساس کمتری آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت
کے لئے نقصان دہ ہے ۔
احساس کمتری کی
علامات و نقصانات
اس
احساس کے ساتھ آدمی چڑچڑے پن اور غصیلے مزاج کا شکار ہوجاتا ہے،ضرورت سے زیادہ
حساس،تنہائی پسند،خوشامد پسند اور لوگوں کی طرف سے اچھے یا برے کے سرٹیفیکٹ کا
محتاج ہوتا ہے۔ایسے لوگ دوسرے لوگوں کو خوش رکھنے کی بیماری میں مبتلا ہوتے
ہیں،خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں،بے یقینی اور بے بسی کی کیفیت میں مبتلا ہوتے
ہیں،چھوٹی چھوٹی باتوں پر بے عزتی محسوس کرتے ہیں تعصب پسند اور حسد میں مبتلا
ہوتے ہیں۔ان کے نزدیک تعلق قائم کرنے کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔اگر یہ لوگ کسی
زہریلے اور تکلیف دہ تعلق میں پھنس جائیں تو سامنے والا ان سے جیسا چاہے سلوک کرے
یہ تعلق ختم نہیں کرتے۔کیونکہ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ چونکہ کمتر ہیں،تو ترک
تعلق کے بعد انہیں کوئی اور نہیں ملے گا۔اس لئے وہ اسی تکلیف دہ تعلق کو نبھاتے
رہتے ہیں۔
اس کی وجوہات
احساس کمتری کسی بھی عمر میں
پیدا ہوسکتی ہے لیکن عموما اس کا تعلق بچپن سے ہوتا ہے۔بچپن میں والدین کی طرف سے
نامناسب رویہ، حوصلہ شکنی،دوسرے بچوں سے موازنہ اور بچوں کی کیفیت اور احساسات کو
نہ سمجھنا بچوں میں احساس کمتری پیدا کردیتا ہے۔یوں ہی بعض رشتہ داروں یا استادوں
کی سخت گیری بھی اس کا سبب بنتی ہے۔اگر اس احساس کو ختم نہ کیا جائے تو اس کے
اثرات پوری زندگی رہتے ہیں اور بچے کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔بعض اوقات
والدین بچوں کی حد سے زیادہ فکر کرتے ہیں،انہیں ہر چیز کی سہولت پہنچانے کی کوشش
کرتے ہیں ان کے سارے کام خود کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بچہ سہولت پسند ہوجاتا ہے
اور اس کے لئے کسی کام کو از خود کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔پھر جب بھی وہ کوئی کام
کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کام کا عادی نہ ہونے کی بنا پر وہ اس کام کا حوصلہ نہیں
رکھتا اور یوں وہ آہستہ آہستہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔لہذا والدین کی ذمہ
داری ہے کہ بچوں کو اپنے کام خود کرنے کا عادی بنائیں اور کوئی بھی ایسا کام نہ
کریں جس سے بچے کی خود اعتمادی متاثر ہو۔
یاد رکھیے! اگر آپ زندگی میں
کوئی قابل ذکر کام کرنا چاہتے ہیں تو احساس کمتری کی کیفیت سے باہر آکر اپنے اندر
خود اعتمادی پیدا کرنی ہوگی کہ جب آپ خود اپنے بارے میں متذبذب ہوں گے تو پھر دیگر
لوگ آپ کو کس طرح قابل یقین اور پر اعتماد سمجھیں گے؟ لہذا سب سے پہلے آپ کا خود
پر اعتماد اور یقین ہونا ضروری ہے۔
احساس کمتری کو دور کرنے کے
طریقے۔
خود اعتمادی حاصل کرنے کے لئے درج
ذیل باتوں پر عمل کریں۔
1 جہاں تک ممکن ہو صاف ستھرا لباس پہنیں اور
اچھی ڈریسنگ کریں۔
2 کوئی زبان سیکھ لیں۔
3 روزانہ ایک ایسا کام ضرور کریں جس سے آپ
خوف محسوس کرتے ہیں۔
4 جن لوگوں کو آپ کانفیڈینٹ(پراعتماد) سمجھتے
ہیں ان کا مشاہدہ کرکے ان کی باڈی لینگویج اور عادات کو اپنائیں۔
5 ہر چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنےکاشوق
بھی احساس کمتری کی وجہ بنتاہےکیونکہ ساری چیزوں کے متعلق مکمل تفصیلات کبھی معلوم
نہیں ہوسکتیں۔اس لئے ہر چیز کا ایکسپرٹ بننے کی بجائے کسی ایک پسندیدہ چیز کو
منتخب کرکے اس کے متعلق زیادہ معلومات حاصل کریں اور اس میں ایکسپرٹ بن جائیں۔ایسا
کرنے سے دوسری چیزوں کے بارے میں معلومات کی کمی کا احساس ختم ہوجائے گا اور یوں
احساس کمتری بھی نہیں ہوگا۔
6 اپنے ذہن میں یہ تصور کریں کہ آپ کانفیڈینٹ
(پر اعتماد) ہیں پھر اس تصور کو فالو کریں۔
7 کوئی بھی انسان غلطی سے پاک نہیں ہوتا لہذا
غلطی کرنے سے نہ گھبرائیں۔
8 اپنے سے خوشحال لوگوں کو دیکھ کر ان سے
اپنا موازنہ کرنے کی بجائے ان لوگوں کو دیکھئے جو خوشحالی اور مالداری میں آپ سے
کم ہیں۔پھر پروردگار کا شکر گزار بنیے کہ اس نے آپ کو بہت سے لوگوں سے اچھی حالت
میں رکھا ہے۔جیسا کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:جس شخص میں دو
عادتیں ہوں تو اللہ اسے صابر و شاکر لکھتا ہے۔1 جو اپنے دین میں
اپنے سے اوپر والے کو دیکھے تو اس کی پیروی کرے۔2 جو اپنی دنیا میں اپنے سے نیچے
والے کو دیکھے تو اللہ کا شکر کرے کہ اللہ نے اسے اس شخص پر بزرگی
دی۔(ترمذی)
9 اگر احساس کمتری کی وجہ رنگ گورا نہ ہونا
ہے تو ذہن نشین کرلیں کہ رنگ کا صاف یا گورا نہ ہونا ایک ضمنی اور عارضی چیز ہے جو
آپ کے اختیار میں نہیں۔جبکہ حقیقی اعتبار سے تمام انسان تخلیق کا حسین شاہکار ہیں
جیساکہ خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے"بیشک یقینا ہم نے آدمی کو سب سے اچھی
صورت میں پیدا کیا"(التین۔4)لہذا اس وجہ سے خود کو کسی سے کم تر نہ سمجھیں۔
10 بعض اوقات ماضی کی کسی غلطی کو سوچ سوچ کر
انسان احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے اس معاملے میں بھی قرآن مجید میں خالق کائنات
نے ہماری رہنمائی فرمائی اور اس کا حل بھی ارشاد فرمایا"جو چلا گیا اس پر
افسوس نہ کرو"(الحدید:23) خود اعتمادی کے حصول کے لئے یہ قرآنی نسخہ بہت ہی
مفید ہے۔
11 کریٹیکل(مشکل)صورتحال میں جانے سے پہلے
پریکٹس کریں۔
12 ذہن جن چیزوں کے بارے میں خوف دلا کر ان
سے بچنے کا کہتا ہے وہ کام ضرور کریں۔
13 اپنی خوبیوں کو سوچیں اور روزانہ ان کاموں
کا تصور کریں جنہیں آپ اچھی طرح کرسکتے ہیں۔
14 مثبت خود کلامی کریں۔جیسے میں ایک خوبیوں
والا انسان ہوں جو کسی خوبیوں والے انسان کو پسند ہوں۔
15 زیادہ پر اعتماد لوگ اپنی زندگی میں زیادہ
بڑے گولز پر کام کرتے ہیں لہذا اپنی زندگی
میں بڑے گولز اور مقاصد متعین کریں جن پرعمل کرکے اپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو۔
16 دوسرے لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں
اسے نظر انداز کیجئے۔
17 مثبت لوگوں کی صحبت اختیار کیجئیے
ان لوگوں کے ساتھ تعلقات بنائیے جو آپ کی خوبیاں بیان کریں اور آپ کو بہتر بننے
میں مدد دیں۔
18 انکار کرنا سیکھیے۔اگر آپ کوئی کام نہیں
کرسکتے تو مخاطب سے کسی خوف کے بغیر اچھے انداز سے معذرت کرلیجئے۔
19 قانون قدرت یاد رکھیں کہ آپ کے بی لیوز(belives) اور یقین
ہی آپ کی حقیقت بنتے ہیں،آپ اس پر یقین نہیں رکھتے جو آپ دیکھتے ہیں بلکہ اسے
دیکھتے ہیں جس پر آپ یقین رکھتے ہیں۔آپ کے یقین آپ کی زندگی کی حقیقت تخلیق کرتے
ہیں۔اپنے تمام بی لیوز کا جائزہ لیجئے جو یقین آپ کی خود اعتمادی میں رکاوٹ ہیں
انہیں چھوڑدیجئے اور جو یقین آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتے ہیں انہیں اختیار
کیجئے اور انہیں قوی سے قوی تر کرتے رہیے۔
20 اپنے اہداف کے حصول کے لئے ہر ممکنہ قدم
اٹھائیں۔ایک دفعہ کا اقدام کافی نہیں ہوتا کیونکہ پہلی مرتبہ کی کوشش اکثر ناکام
ہوتی ہے لیکن جوں جوں عمل کرتے ہیں ناکامی کا امکان کم ہوتا جاتا ہےجیسا کہ نپولین
ہل کا کہنا ہے"زندگی میں کامیابی ملنے سے پہلے عارضی شکستوں اور ناکامیوں سے
ملاقات ضروری ہے"۔یہ حقیقت قبول کیجئے کہ مسائل ضروری ہیں ان سے بچا نہیں
جاسکتا لیکن انہیں حل ضرور کیا جاسکتا ہے۔لہذا آپ نے کبھی نہیں رکنا کیونکہ آپ
بھرپور سیلف کانفیڈینس کے مالک ہیں۔
از قلم۔حافظ نعمان حسین
shaikhnoman290@gmail.com
خوف اورخشیت کاایک ہی معنی ہےوہ ہےڈرنا،گھبراہٹ میں مبتلا ہونا۔جبکہ خشیتِ
الٰہی کامطلب ہے کہ اللہ کریم کی بے نیازی
،اس کی ناراضگی،اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ
کر انسان کا دل گھبرا ہٹ میں مبتلا رہے ۔ ([1]) اللہ کےآخری نبی،محمدِعربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس مومن کی آنکھ سے اللہ کریم کے خوف سےآنسو بہہ جائےاگر چہ وہ مکھی کےسر کے
برابر ہواور پھر وہ آنسواس کےرخسارپرپہنچ جائےتواللہ کریم اس پرجہنم حرام فرمادے گا۔([2])
یادرکھئے!خشیت الٰہی،تقوی و پرہیزگاری ایک لازوال نعمت ہے،جس انسان کو اس نعمت سے نواز دیا
جاتاہےاس کاظاہرو باطن ہمہ وقت یادِالٰہی میں مگن رہتاہے،اس کےطرزعمل اورکردار میں تبدیلی آ جاتی ہے، خشیتِ الٰہی کی یہ مقدس چادر
بندےکو دنیا کی زیب و زینت اور حیوانیت
میں ملوث ہونے سے بچا لیتی ہےاور انسان کوحقیقی انسان بننےمیں مدد فراہم کرتی ہے۔
اگرہم صحابَۂ کرام کی سیرت طیبہ کامطالعہ کریں اور ان
کےاحوالِ زندگی سےآشنائی حاصل کریں تو یہ بات ہم پر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے
گی کہ اس مقدس جماعت کی زندگیاں،ان کےشب و روز ،خشیتِ الہی ،زہدو تقویٰ کے بے مثال
نمونوں سے بھری پڑی ہیں ،بس فی زمانہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کی زندگیوں کامطالعہ کریں اور ان کےنقوشِ قدم پرچل کر اُخروی
سعادت سےسرفراز ہوجائیں ۔
ہدایت کےانہی روشن ستاروں میں سب سے پہلےاسلام قبول کرنے والےقریش کے خوش نصیب شخص جنہیں افضل
البشربعد الانبیاء، مسلمانوں کے پہلےخلیفہ
،صدیق وعتیق اور یا ر غا ر ویا ر مزار جیسی فضیلتوں
سےشہرت حاصل ہے،ویسے توحضرت سیدناصدیقِ اکبر رضی
اللہُ عنہکےجس
وصف کو دیکھیں ، آپ بےمثل و بےمثال اور ہراعتبارسےاشرف و اعلی ہیں،عبادت ہویاتلاوت،امامت ہویاخِلافت،
کرامت ہویا
شرافت، صداقت ہو یا شجاعت۔ آپ اتنی با
برکت اور برگزیدہ شخصیت ہیں کہ آپ کی مبارک زندگی کےجس پہلو پر بات
کی جائے اور آپ کے فضائلِ جمیلہ اور خصائصِ حمیدہ پر جتنا لکھاجائے کم ہے اوروقت اس
کااحاطہ نہ کرسکےگامگرآج اس تحریرکاموضوع ”صدّیقِ اکبراورخشیت ِ الٰہی“ ہے۔آپرضی اللہُ عنہ تقوی و پرہیزگاری
اورخشیتِ الٰہی کے وصف میں بھی اپنی مثال آپ تھے ،آپ کے خوفِ خدا اور خشیت الٰہی کےبارے میں جاننے سے پہلےمختصر
تعارف ملاحظہ کیجئے:چنانچہ
٭حضرت
صدیقِ اکبر کا نام عبداللہ اور والد کا نام(ابوقحافہ) عثمان ہے۔ ([3])
٭ آپ کی کنیت ابوبکر ہے اور آپ اپنے نام سے زیادہ کنیت سے مشہور ہیں، آپ کی یہ کنیت اتنی مشہور ہےکہ لوگ اسے آپ کا اصل نام سمجھتے ہیں ۔([4]) ٭آپ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں ”عتیق“ اور ”صدیق“ اور اسلام میں سب سے
پہلے عتیق کے لقب سے
آپ ہی مشہور ہوئے ۔([5]) ٭عامُ الفیل کے اَڑھائی سال بعداور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وِلادت کے دو سال اور چند ماہ بعد پیداہوئے۔([6]) ٭ آپ کی ولادت مکۃ المکرمہ میں ہوئی ۔ ٭آپ اپنی قوم
میں مالدار، بامروت، حُسنِ اخلاق کےمالک اور نہایت ہی عزّت
و شرف والے تھے۔([7]) ٭آپ وہ خوش نصیب
ہیں کہ جو خود بھی صحابی،والدبھی صحابی،
بیٹےبھی صحابی،پوتےبھی صحابی، نواسے بھی صحابی اور بیٹیوں کوبھی صحابیات ہونےکاشرف
نصیب ہوا۔٭آپ وہ عظیم صحابی ہیں،جنہوں نے آقا کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلمکی حیاتِ ظاہری میں صحابۂ کرام کو سترہ (17)نمازیں پڑھائیں، آپ کےعلاوہ کسی اور صحابی کو یہ سعادت نہیں ملی۔([8]) ٭ آپ 2 سال7 ماہ مسندِخِلافت پر
رونق اَفروز رہ کر 22جمادَی الاُخریٰ 13ہجری کواس دنیا سےپردہ فرماکر ہمیشہ کے لئے اپنے آقا کےیارِ مزار بن گئے ۔
بیاں ہو کس زباں سے مرتَبہ صدیقِ اَکبر کا
ہے یارِ غار،محبوبِ
خُدا صدیقِ اَکبر کا
اِلٰہی! رَحم
فرما! خادمِ صدیقِ اَکبَر ہوں
تِری رَحمت کے
صدقے واسِطہ صدیقِ اَکبر کا
(ذوقِ نعت ،ص76)
حضرتِ
سیدناابوبکرصدیق
رضی اللہُ
عنہخشیتِ الٰہی اور تقوی و پرہیزگاری کاایسا عملی نمونے تھے کہ خودخالقِ کائنات نے اپنے
پاکیزہ کلام میں ان کے خوفِ خُدا اور متقی ہونےکو ان الفاظ کےساتھ بیان فرمایا:وَ سَیُجَنَّبُهَا
الْاَتْقَىۙ(۱۷)
تَرْجَمَۂ
کنز العرفان:اور بہت جلداس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا
پرہیزگار۔
امام علی بن محمدخازنرحمۃُ
اللہِ علیہفرماتے ہیں :تما م مفسرین کے
نزدیک اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت ابو بکر صدّیق رضی
اللہُ عنہہیں ۔(
[9])
نہایت متّقی و پارسا صدیقِ
اَکبر ہیں
تَقِیْ ہیں بلکہ شاہِ اَتقیا صدیقِ اَکبر ہیں
1. صحابی رسول،حضرتِ سیدنا زَید بن ارقمرضی اللہُ عنہفرماتے ہیں کہ ایک بار ہم حضرتِ سیدناابوبکر
صدّیقرضی اللہُ عنہکی بارگاہ میں بیٹھے تھے کہ پانی اورشہد لایا گیااورجیسے
ہی آپ کےقریب کیا گیا، تو آپ نے زاروقطار رونا شروع کردیا اور روتے رہے،یہاں تک
کہ تمام صحابَۂ کرام بھی رونے لگ گئے،صحابَۂ کرام روروکے چُپ ہوگئے ،لیکن آپ
روتے رہے،صحابَۂ کرام آپ کو دیکھ کر پھر
رونے لگ گئے۔ بالآخرحضرت ابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہنےاپنی
آنکھیں صاف کیں توصحابَۂ کرام نے عرض کی: اے رَسُوْلَ اللہ کےخلیفہ! آپ کوکس چیز نے رُلایا؟فرمایا:ایک
بارمیں اللہ کےمحبوب کی خدمت میں بیٹھا تھا ۔اچانک میں نے دیکھا کہ آپ اپنی ذات سے کوئی شےہٹا رہے ہیں، حالانکہ اُس وقت مجھے
کوئی شے نظر نہیں آرہی تھی، میں نےعرض
کی: یَارَسُوْلَ اللہ!آپ کس شے کو ہٹا رہے ہیں؟ فرمایا: دُنیا نے میرا ارادہ کیا تھا میں نے اُس سے
کہاکہ دُور ہوجا۔ تو اُس نے مجھےکہا:آپ نے اپنےآپ کو تومجھ سے بچالیا،لیکن
آپ کےبعد والے مجھ سے نہیں بچ پائیں گے۔([10])
2. حضرت مُعاذبن جبلرضی اللہُ عنہسےروایت ہےکہ حضرتِ سیدناابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہایک باغ میں
داخل ہوئے، درخت کےسائے میں ایک چِڑیاکو بیٹھے ہوئے دیکھا،تو ایک درد بھری آہ کھینچ کر ارشادفرمایا: اےپرندے!تو کتناخوش نصیب
ہے کہ ایک درخت سے کھاتاہے اور دوسرے کے نیچے بیٹھ جاتاہے،پھرتوبغیرحساب کتاب کےاپنی منزل پہ
پہنچ جائےگا۔ اے کاش! ابوبکربھی تیری طرح ہوتا۔ ([11])
3. حضرتِ سیدنا ابُوعمران جَوْنِیرحمۃُ اللہِ علیہسےروایت ہےکہ حضرت سیدناابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہ نے ارشادفرمایا: کاش! میں ایک مومنِ صالح کے
پہلو کا کوئی بال ہوتا۔([12])
4. حضرتِ سیدناحَسَن رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت ہےکہ حضرت سیدنا ابوبکرصدّیقرضی اللہُ
عنہنے فرمایا:خدا کی قسم میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میں یہ درخت
ہوتاجسے کھایااور کاٹاجاتا۔([13])
5. حضرتِ سیدناقتادہ رضی اللہُ عنہسےمروی ہےفرماتے ہیں کہ مجھےیہ خبرملی ہےکہ ایک بارحضرتِ
سیدناابوبکر
صدّیق رضی
اللہُ عنہ نے یوں فرمایا:اے کاش! میں
سبزہ ہوتا جسے جانور کھاجاتے۔([14])
6. حضرت ِسیدناابُودَرْدَاءرضی اللہُ عنہسےروایت ہےکہ آقاکریمصلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنےارشادفرمایا: جو زُہد
وتقویٰ میں حضرت عیسیٰ کی مثل کسی کو دیکھنا چاہے تو وہ ابوبکر کو دیکھ لے۔ ([15])
7. حضرت
سیدنامطرف بن عبداللہرحمۃُ اللہِ علیہسے روایت ہےکہ حضرت سیدناابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہ نےفرمایا:
اگرآسمان سے کوئی باآواز بلند صدا دے کہ جنت میں صرف ایک آدمی داخل ہوگا تو
مجھےامید ہےکہ ایسا میں ہی ہوں گا اور اگرآسمان سے یہ آواز آئے کہ دوزخ میں صرف
ایک ہی شخص داخل ہوگا تو مجھے خوف ہےکہ کہیں
وہ بھی میں ہی نہ ہوں۔یہ روایت نقل کرنے کےبعد مطرف بن عبداللہرحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں:یہی خشیت ِالٰہی اور رضائےالٰہی کی سب سے بڑی کیفیت ہے جو حضرت سیدنا صدّیقِ
اکبررضی اللہُ عنہ کو حاصل تھی۔([16])
یقیناً منبعِ خوفِ خُدا صدیقِ اکبر ہیں
حقیقی عاشقِ خیرالوریٰ صدیقِ اکبر ہیں
22 جُمادَی
الاُخْری آپ رضی اللہُ عنہ کا یوم ِعرس
ہے،تمام مسلمان اپنے اپنے گھروں میں حضرت
صدیق رضی اللہُ عنہ کی نیاز
وفاتحہ کرکے برکتیں حاصل کیجئے ۔اے
اللہ!حضرت صدّیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ کا صدقہ ہمیں بھی اپناحقیقی خوف نصیب فرما۔اٰمین
بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
از:مولانا عبدالجبار
عطاری مدنی
اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ،دعوت اسلامی )
شعبہ ذمہ دار:رسائل دعوت
اسلامی
[1]… احیاء العلوممترجم ، 4 /451 ماخوذا
[2]… ابن
ماجہ ،4/ 467، حدیث:
4197
[3]… صحیح ابن
حبان، 9/6،حدیث: 6825
[4]… سیرت حلبیہ ، 1/390
[5]… ریاض النضرۃ ،1/77
[6]… الاصابہ ، 4/145
[7]… اسد الغابۃ ، 3/316، تاریخ الخلفاء، ص24
[8]… سیرت سیدالانبیا ء، ص601ملخصا
[9]… تفسیرخازن، واللیل،
4/384
[10]… شعب الایمان ،7 /343، حدیث:10518
[11]… کنز العمال، 6/237، حدیث:35696
[12]… کتاب الزہد ، ص138،رقم: 560
[13]… کتاب الزہد ، ص141، رقم: 581
[14]… جمع الجوامع، 11/41، حدیث: 147
[15]… ریاض النضرۃ، ، 1/ 82
[16]… اللمع فی التصوف ، ص168
استاذ العلماء حضرت مفتی آل مصطفیٰ مصباحی صاحب
طویل علالت کے بعد انتقال فرماگئے
محقق دوراں، فقیہ عصر، استاذ العلماء حضرت مفتی
آل مصطفیٰ مصباحی صاحب 10 جنوری 2022ء پیر کی شب ساڑھے بارہ بجے کشن
گنج، بہار ہند میں انتقال فرماگئے۔ اِنَّا
لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن
۔ مفتی صاحب طویل عرصے سے بیمار تھے، وصال
کے وقت ان کی عمر 51 برس تھی۔
مفتی صاحب کی نمازِ جنازہ 11 جنوری 2022ء کو ظہر کی نماز کے بعد ان کے آبائی گاؤں کشن گنج، بہار میں
ادا کی گئی۔
رکنِ شوریٰ حاجی ابوماجد مولانامحمد شاہد عطاری مدنی اور دعوتِ
اسلامی کی آفیشل نیوز ویب سائٹ ”دعوتِ اسلامی کے شب وروز“ کی پوری ٹیم مفتی صاحب کے صاحبزادوں ریحانِ
مصطفیٰ، اتقانِ
مصطفیٰ، لمانِ
مصطفیٰ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کے وصال سے جماعت اہل سنت میں ایک بڑا خلا پیدا
ہو گیا ہے۔ اللہ رب العزت ان کے امثال زیادہ کرے۔ آمین۔
ساتھ ہی دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت نبی کریم ﷺ
کے صدقے میں ان کو جنت میں بلند درجات عطا
فرمائے، ان کی دینی خدمات کو قبول فرماکر
ان کے لئے ذریعہ نجات بنائے اور پسماندگان
کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
یہ بھی پڑھیں۔۔۔
واضح رہے کہ مفتی آل مصطفیٰ مصباحی ایک باکمال
مدرس، پختہ قلم کار، اور ایک بالغ نظر مفتی تھے، جن کے فتاوی قدر کی نگاہ سے دیکھے
جاتے تھے ۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حضرت منشی
محمد طاہر حسین صاحب کٹیہاری سے حاصل کی جہاں آپ نے قاعدہ بغدادی اور عم پارہ کا
درس لیا۔فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم حورا سونا
پور،ضلع کٹیہار میں حاصل کی ۔درجہ ثانیہ کی تعلیم مدرسہ فیض العلوم محمد آباد
گوہنہ ضلع مئو میں حاصل کی اور ثالثہ و رابعہ کے درجات” الادارۃ الاسلامیہ دار
العلوم حنفیہ کھگرا ضلع کشن گنج بہار“ میں مکمل کئے۔ اس کے بعد آپ جامعہ اشرفیہ
مبارک پور میں داخلہ لے کر اپنی علمی تشنگی بجھانے لگے،آپ نے یہاں درجہ خامسہ سے
درجہ ثامنہ تک چار سال تعلیم حاصل کی اور ۱۹۹۰ء
میں دستار فضیلت سے نوازے گئے،آپ نے درس نظامی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مشق افتا کا
بھی کورس مکمل فرما لیا ۔
آپ کے اساتذہ کرام
سلطان الاساتذہ، ممتاز الفقہا حضور محدث کبیر
علامہ ضیاء المصطفی قادری، حضرت مولانا اعجاز احمد مصباحی علیہ الرحمہ، علامہ عبد
الشکور صاحب، حضرت نصیر ملت مولانا محمد نصرالدین صاحب، حضرت صدر العلما علامہ
محمد احمد مصباحی صاحب ، حضرت سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب ، حضرت
مولانا اسرار احمد مصباحی صاحب ، حضرت مولانا شمس الہدیٰ مصباحی صاحب ، خطیب محقق
حضرت مولانا عبد الحق رضوی صاحب ، فقیہ النفس مفتی مطیع الرحمن مضطر نوری صاحب اور
والد گرامی حضرت مولانا محمد شہاب الدین اشرفی صاحب دامت فیوضھم۔
فتاویٰ نویسی کی تربیت :
فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق
امجدی علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔
درس و تدریس:
جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فراغت اور مشق افتا کی
تکمیل کے بعد آپ اپنے استاد گرامی حضور محدث کبیر کے حکم پر تدریس و افتا کی خدمات
کے لیے جامعہ امجدیہ گھوسی تشریف لائے اور 1990ء سے لےکر تاحیات پوری ذمہ داری کے
ساتھ اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔
تحریری خدمات:
مفتی صاحب اپنی
تمام تر مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔
اب تک آپ کے قلم سے مختلف عناوین و موضوعات پر تقریباً دو سو
مضامین و مقالات معرض وجود آچکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد علمی و تحقیقی کتابیں آپ کے
رشحاتِ قلم سے معرضِ تحریر میں آ چکی ہیں، ان کے علاوہ بہت سی کتابوں پر آپ کے
حواشی و تعلیقات، تقاریظ و مقدمات اور تاثرات و تبصرے منصۂ شہود پر آچکے ہیں، جن کی
کچھ تفصیل یوں ہے:
٭منصبِ رسالت کا ادب و احترام
٭مسئلہ کفاءت عقل و شرع کی روشنی میں
٭تقدیم و ترجمہ عربی عبارات "فقہ شہنشاہ و ان القلوب بید
المحبوب بعطاء اللہ المعروف بہ شہنشاہ کون؟ (امام احمد رضا قدس سرہ)
٭ترجمہ و تقدیم” مواھب ارواح القدس لکشف حکم
العرس "(ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ)
٭بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے اصول،
٭حاشیہ فتاویٰ امجدیہ(صدر الشریعہ) جلدِ سوم و
چہارم
٭حاشیہ توضیح وتلویح (عربی) (مطبوعہ : مجلسِ
برکات)
٭مختصر سوانح صدر الشریعہ
٭بیمۂ زندگی کی شرعی حیثیت
٭اسبابِ ستہ اور عموم بلویٰ کی توضیح و تنقیح
٭کنز الایمان پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
٭روداد مناظرۂ بنگال
٭خطبہ استقبالیہ صدر الشریعہ سیمینار مطبوعہ و
مشمولہ ”صدر الشریعہ حیات و خدمات“
٭نقشہ دائمی اوقات صلوۃ برائے گھوسی
٭حاشیہ شرح عقود رسم المفتی
ان کے علاوہ بھی بہت سے علمی و تحقیقی مضامین و
مقالات اور تقاریظ و مقدمات آپ کی یادگار ہیں اور تصانیف و تالیفات اور مضامین و
مقالات ہمیشہ آپ کی یاد دلاتے رہیں گے۔
(نوٹ: مفتی صاحب سے متعلقہ معلومات محمد نفیس القادری امجدی صاحب (مدیر اعلیٰ سہ
ماہی عرفان رضا مرادآباد) کی تحریر سے حاصل کی گئی ہے۔ )
دوستی بہت ہی قیمتی اور اہم رشتہ ہے ۔انسان کے پاس دنیا کی ساری آسائشیں اور سہولتیں ہوں مگر ایک مخلص دوست کی کمی ہو
تو ایسا شخص زندگی میں خوش نہیں رہ سکتا
اور جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور صرف ایک سچا دوست ہو تو وہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے یوں بسر
کرسکتا ہے کہ اپنی خوشی اور غم اپنے دوست کے ساتھ بانٹ لیتا ہے ،جو بات ماں باپ ،بہن بھائی سے شئیر نہیں کرسکتا
دوست سے بلا جھجک کہہ سکتا ہے ۔ دوست کوئی
بھی ہوسکتا ہے کیونکہ سچی دوستی نہ تو شکل وصورت دیکھتی ہے نہ عمر،نہ مال و دولت
دیکھتی ہے نہ غربت بلکہ سچی دوستی ایک ایسا بندھن ہے جو کسی بھی مقصد و لالچ کے بغیر ہوتی ہے ۔یادرکھئے! دوستی
کےدنیاوی اور اخروی بہت سے فوائد ہیں ،مثلاً
دنیاوی فوائد
(1)انسان دنیا میں اگرچہ اکیلا آتا ہے اور دنیا سے جاتے وقت بھی
اکیلا ہی ہوتا ہے مگر زندگی گزارنے کیلئے اس کا تنہا رہنا ناممکن نہیں مگر مشکل ضرور ہوتا ہے ۔ لہٰذا زندگی گزارنے اور اپنے دکھ سکھ بانٹنے کیلئے کسی
سے دوستی کرنا اور میل جول رکھنا ہماری
زندگی کی بنیادی ضرورت
ہے ۔
(2) لوگوں سے میل جول اور تعلقات انسان کی زندگی میں ترقی
کی راہیں کھول دیتے ہیں کیونکہ اس کی بدولت ہمیں اچھی ملازمت مل سکتی ہے اور ہمارے کاروباری معاملات بھی بہتر ہوسکتے ہیں ۔
(3)لوگوں کے ساتھ
میل جول کی وجہ سے ان کی عادات و اخلاقیات جاننے
کا موقع ملتا ہے اور کھرے کھوٹے کی پہچان کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
(4)بعض اوقات
انسان کسی ایسی پریشانی کا شکار
ہوجاتا ہے کہ جس کا ذکر اپنے والدین ،بہن بھائی یا کسی عزیز سے شیئر نہیں
کرسکتا اور اسی پریشانی میں اپنی زندگی کے ضروری معاملات کو چھوڑ کر تنہائی اختیار کرلیتا
ہے تو ایسے نازک حالات میں اگر اپنے مخلص دوست سے مشاورت کرلی
جائے تو وہ اس کا بہتر حل تجویز کرکے اپنے
دوست کی زندگی پھر سے خوشیوں بھری بنا
سکتا ہے ۔
باقی
رہنے والی لذت:
حضرت
سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہفرماتے ہیں : میں نے عورت سے نکاح کیا حتّٰی کہ مجھے عورت
اور دیوار کے درمیان کوئی فرق محسوس نہ ہوا ، میں نے عمدہ کھانے کھائے لیکن ان پر ہمیشگی نہ رکھ سکا، میں نے مشروبات پئے حتّٰی کہ میں پانی کی طرف لوٹ آیا، میں نے جانوروں پر سواری کی اور آخر کار اپنے
جوتوں کو اختیار کیا، میں عمدہ لباس پہنتا
رہا حتّٰی کہ میں نے سفید لباس کو اختیار کیا مگر کوئی بھی لذت باقی نہ رہی جس کی
طرف میرا نفس مشتاق تھا سوائے اپنے مہربان دوست سے گفتگو کرنے کے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں
،ص272)
یادرہے یہ تمام فوائد ہمیں اسی صورت میں مل سکتے ہیں جبکہ ہمیں
ایک مخلص ،عقلمند ،نیک سیرت دوست مل جائے ورنہ مطلب پرست،بے وقوف اور بد عمل دوست
سے نہ صرف ہماری دنیابرباد ہوسکتی ہے بلکہ ہم آخرت کے عذاب کا شکار بھی ہوسکتے ہیں ۔اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بری دوستی اور صحبت نہ صرف دنیا کا
نقصان کرتی ہے بلکہ ایمان کیلئے بھی بہت خطرناک ہے،جیسا کہ مثنوی شریف میں ہے:
ترجمہ :جہاں تک ہوسکے بُرےدوست سے دُور رہو کہ بُرا دوست سانپ سے بھی زیادہ
نقصان دہ ہوتا ہے۔ سانپ تو صرف جان لیتا ہے جبکہ بُرا یار ایمان لیتا ہے۔ (کفریہ کلمات کےبارےمیں سوال جواب،ص82)
دینی و اخروی فوائد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیاوی
معاملات کی بہتری کے بجائے اخروی اور دینی فوائد کو پیش نظر رکھتے ہوئے دوستی کرنی
چاہیے۔آئیے! نیک لوگوں سے دوستی کے دینی اور اخروی فوائد ملاحظہ کیجئے:
(1)نیک شخص سے دوستی کی برکت سے ہمارے علم وعمل میں اضافہ ہوگا اور عبادت و تلاوت اور ذکرو
درود کا شوق پیدا ہوگا اور ان شاء اللہ گناہوں سے نفرت بھی ہونے لگے گی ۔ حدیث شریف میں ہمیں اچھے دوست کی پہچان یہ بتائی گئی ہےکہ اچھا ہمنشین وہ ہے کہ اس کے دیکھنے
سے تمہیں خدا یاد آئے، اس کی گفتگوسے
تمہارے عمل میں زیادتی ہو اور اس کا عمل
تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔(جامع صغیر،حرف الخاء، ص۲۴۷، حدیث:۴۰۶۳)
(2)نیک شخص کی دوستی سے ہمیں یہ فائدہ بھی حاصل ہوگا کہ وہ ہماری مشکلات اور پریشانیوں میں ہمیں صبر کی تلقین کرے گا اور اپنی استطاعت کے
مطابق رضائے الٰہی اور ثواب کی نیت سے
ہماری مدد بھی کرے گا کیونکہ اسے یہ بات
معلوم ہوگی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پسندیدہ اعمال میں سے مومن کے دل میں خوشی داخل کرنایااس سے غم دور کرنا یا
اس کا قرض ادا کرنا یا بھوک میں اسے کھانا کھلاناہے۔(الزهدلابن المبارک،باب ماجاء فی الشح،الحديث:۶۸۴،ص۲۳۹)
(3)نیک شخص سے دوستی کا یہ فائدہ بھی حاصل ہوگا کہ ہم اپنی کسی پریشانی ،بیماری یا مصیبت یا اپنے
گناہوں کی مغفرت کیلئے اس سے دعا کرواسکتے ہیں کہ نیکوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں حضرتِ
سیِّدُنا انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: ’’ہم ایک دوسرے کے لئے دعا کیا کرتے تھے، اس لئے کہ اللہ پاکنے نیک لوگوں سے دعا کروانا ہم پرلازم کیاہے
کیو نکہ وہ رات حالتِ قیام میں گزارتے اور دن روزے کی حالت میں اور
فسق وفجور سے دور رہتے ہیں۔‘‘ (الجامع الصغیر للسیوطی، حرف الجیم، الحدیث:۰۳۵۹، ص۲۱۹)
(4)نیک شخص کی دوستی سے ہمیں اللہ پاک کی
رحمت سے آخرت میں یہ فائدہ بھی حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ ہماری شفاعت کروا کر ہماری
بخشش ومغفرت کا سبب بن سکتا ہے جیساکہ ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:”اپنے دینی بھائی زیادہ
بناؤ کیونکہ ہر مومن شفاعت کرے گا، شاید کہ تم بھی اپنے کسی بھائی کی شفاعت میں
داخل ہو جاؤ۔“(احیاء العلوم
مترجم،2/617)
دوست
کیسا ہو؟
حضرت
سیِّدُنا ابنِ سماکرحمۃ اللہ علیہ سےپوچھا
گیا: کون سا دوست اخوت وبھائی چارے کا سب سے زیادہ حقدار ہے ؟ آپ رحمۃ
اللہ علیہ نے فرمایا: جو دین میں زیادہ ہو، عقل میں پختہ ہو، جو تیرے قرب کا تقاضا نہ کرے اور دوری کی وجہ
سے تجھے بھلا نہ دے، اگر تو اس سے قریب ہو تو وہ بھی تیرے قریب ہواور
اگر تو اس سے دور ہو تو وہ تیرا لحاظ کرے، اگر تو اس سے مدد مانگے تو تیری مدد کرے، اگر تیری اس سے کوئی حاجت ہو تو تیری حاجت کو پورا کرے اور تو اس سے محبت
کرے تو وہ تجھ سے زیادہ محبت کرے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں ، 1/278)
سچے اور باوفا دوست کے اوصاف:
٭سچا دوست بھروسامند، وفادار اور رازدار ہوتا
ہے۔٭غموں میں شریک ہونے والا اور خوشیوں میں یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔ ٭ کسی بھی معاملے میں
مفید مشورہ دینے والا اور غلط قدم اٹھانے سے روکنے والا ہوتا ہے۔ ٭خودغرضی سے پاک ہوتا ہے۔ ٭ضرورت کے وقت ساتھ دینے والا ہوتا ہے۔ ٭
غلطیوں پر معاف کرنے والا اور اچھائیوں پر حوصلہ افزائی کرنے والا ہوتاہے۔ ٭اچھا
دوست اپنے دوست کو برائی و گناہ میں تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ اسے نیکیوں کی طرف لانے
کی ہرممکن کوشش کرتا ہے۔ ٭مخلص دوست وہ ہوتا ہے جو دوست کی عزت کو اپنی عزت
سمجھے اوراپنے دوست کی غیر موجودگی میں اُس کی عزت نہ اُچھالے۔ ٭مخلص دوست کی نظر عیش وآرام یا دولت پر نہیں بلکہ اچھائیوں اور اچھی عادات پر ہوتی ہے۔
ان
لوگوں کی صحبت سے دور رہنا
حضرتِ سیِّدُنااِمام زینُ العابدین رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنے بیٹے حضرتِ سیِّدُناامام باقِررحمۃ
اللہ علیہکو نصیحت فرمائی کہ
پانچ قسم کے لوگوں کی صحبت اختیار نہ
کرنا، (1) فاسق کی صحبت اختیار نہ کرنا کیونکہ وہ تجھے ایک یا ایک سے کم لقمہ کے
بدلے میں بیچ دے گا، لقمے کا لالچ کرے گا لیکن اسے حاصل نہیں کر سکے گا۔ (2)بخیل کی
صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ ایسے وقت میں تجھ سے مال روک لے گا جب تجھے اس کی
سخت حاجت و ضرورت ہوگی۔ (3)جھوٹے کی صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ سَراب کی طرح ہے
جو تجھ سے قریب کو دور اور دور کو قریب کر دےگا (یعنی
دھوکا دے گا)۔ (4)اَحمق (بےوقوف) کی صحبت
اختیار کرنے سے بچنا کیونکہ وہ تجھےفائدہ پہنچانے کی کوشش میں نقصان پہنچا دے گا۔
(5)رشتہ داروں سے قطع تعلُّق کرنے والے کی صحبت میں بیٹھنے سے بچنا کیونکہ میں نے
کتابُ اللہ میں تین مقامات پراسے ملعون پایا ہے(یعنی ایسے
پر لعنت کی گئی ہے)۔ (حلیۃ الاولیاء،ج 3،ص215،رقم:3745)
سوشل
میڈیا اور نامحرموں کی دوستیوں کا انجام
آج کل سب سے زیادہ سوشل میڈیا کی دوستیاں عام ہیں،
ایک تعداد ہے جو سوشل میڈیا پر دوست بنتے ،پھر بغیر تصدیق و تحقیق کے گہری دوستی
کا دم بھرتے اور ایک دوسرے سے ملنے چل نکلتے ہیں۔ ایسی کئی خبریں مَنْظَر ِعام پر
آئی ہیں جن میں سوشل میڈیا کی دوستی کے دھوکے سامنے آئے ہیں
جیسا کہ ماضی قریب ہی کی خبر ہے٭سوشل میڈیا پر دوستی کی اور ملنے کے بہانے
بلا کر 65ہزار روپے اور موبائل فون چھین لیا۔(ڈیلی پاکستان، 5اپریل2018آن
لائن)
سوشل میڈیا پر دوستیاں کرنے والوں
میں ایک تعداد صنفِ نازک کی بھی ہے جو سوشل میڈیا پر نامحرموں سے دوستی کرتی ہیں۔ یادرکھئے!
جس طرح دوستی کے بارے میں اچّھے بُرے کی تمیز لازمی ہے، اسی طرح مَحْرم و نامَحْرم
کا فرق بھی ضَروری ہے۔ نامحرم سے دوستی ناجائز و حرام ہے۔ دنیا میں ایسے حقیقی
حادثات کی کمی نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر نامحرم سے دوستی کی اور ملنے چل پڑے، بعد
میں نقصان ہوا، گوہرِ عِصْمت بھی لُٹے اور
سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ ملا جیسا کہ
٭ سوشل میڈیا پر دوستی کے بعد15سالہ لڑکی دوست سے ملنے ملتان پہنچ گئی، جہاں وہ لڑکا دھوکا دے کر فرار ہوگیا۔ (دنیانیوز 6اگست2018 آن لائن)
٭حافظ آباد کی لڑکی سوشل میڈیا پر
دوستی کے بعد لڑکے سے ملنےکے لئے شجاع آباد پہنچ گئی، لڑکا اسے دوست کے گھر قید
کرکے فرار ہوگیا، لڑکی نے شور مچایا تو اہلِ محلّہ نے دروازہ توڑ کرنکالا اور پولیس
کے حوالے کر دیا۔(نوائے وقت، 19فروری 2016 آن لائن)
٭کراچی کے 18 سالہ نوجوان کی منڈی بہاءُالدّین کی لڑکی سے سوشل میڈیا پر دوستی ہوگئی اور ملنے کے لئے منڈی بہاءُالدّین پہنچ
گیا، وہاں لڑکی کے بھائی نے دوستوں کےساتھ مل کر اسے قتل کردیا اور لاش نہر میں پھینک
دی۔ (نوائے
وقت، 19فروری2016 آن لائن)
٭گوجرانوالہ کی ایک لڑکی نے سیالکوٹ
کے 22سالہ نوجوان سے سوشل میڈیا پر دوستی کی، شادی کرکے بیرونِ ملک لے جانے کاوعدہ
کیا، گھر بلایا، رقم لوٹی اور قتل کرکے لاش کھیتوں میں پھینک دی۔ (نیووَن، 19مارچ 2017 آن لائن)
خبردار!خبردار!خبردار! سوشل میڈیا
کا اَنْجان دوست کیسا ہی دیندار اور خُدا تَرس بندہ بنا ہوا ہو اور دین کی کتنی ہی
اچّھی اچّھی باتیں پوسٹ کرتا ہو، آپ چاہے مرد ہوں یا عورت کبھی بھی کسی بھی حالت میں
اپنی نجی معلومات اس سے شیئر کرنے کی غَلَطی نہ کریں اور نہ ہی کسی پارک، ہوٹل یا
ریسٹورنٹ وغیرہ میں اس سے ملنے کی غَلَطی کریں کیونکہ اس میں آپ کی عزّت، آبرو،
مال اور جان جانے کا خطرہ ہے اور سوشل میڈیا پر بھیڑ کی کھال میں بھیڑیوں کی کمی
نہیں ۔(ماخوذ از ماہنامہ فیضان مدینہ، ربیع الاول ۱۴40ھ نومبر/دسمبر 2018ء ،ص23)
حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا وہ سب سے افضل مقام ہے
جہاں حضور علیہ السلام آرام فرما ہیں اس حجرہ مبارکہ پر پہلے کوئی گنبد نہ تھا چھت
پر صرف نصف قد آدم ( یعنی آدھے انسان کے قد ) کے برابر چار دیواری تھی تاکہ اگر کوئی بھی کسی
غرض سے مسجد النبوی الشریف کی چھت پر جائے اسے احساس رہے کہ وہ نہایت ہی ادب کے
مقام پر ہے ۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ خلافت عباسیہ کی ابتدائی
دور میں علما و صلحا حضرات کے مزارات پر گنبد کی تعمیر کا سلسلہ شروع
ہوا پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلسلہ بغداد، دمشق میں دینی شخصیات کے مزارات پر گنبد
بنانا باقاعدہ حصہ بن گیا ۔
بغداد میں امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے مزار
مبارک پر گنبد سلجوقی سلطان ملک شاہ نے پانچویں صدی میں تعمیر کروایا تھا اس طرح کی
طرز تعمیر کو مصر میں خوب رواج ملا اور وہاں قلیل مدت میں بہت سے مزارات پر گنبد
بن گئے پھر جب قلاوون خاندان کا دور آیا
تو گنبد تمام مسلم علاقوں میں عام ہوچکا تھا ۔
( 1 ) سلطان قلاوون نے جب روضہ رسول ﷺ پر حاضری دی اس وقت پہلی مرتبہ گنبد بنانے کا فیصلہ
کیا سلطان چونکہ مصر سے تھے اور یہ فن تعمیر وہاں بہت مقبول تھا سلطان نے مصری
معماروں کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے اپنے ہنر کو کام میں لاتے ہوئے 678 ہجری بمطابق
1269 ء میں حجرہ مبارکہ پر سیسہ پلائے ہوئے لکڑی کے تختوں کی مدد سے خوبصورت گنبد
بنایا ۔
پہلا گنبد تقریباً ایک صدی تک عاشقان رسول کی
آنکھوں میں ٹھنڈک پہچاتا رہا پھر وقت گزرنے ساتھ ساتھ لکڑی کے تختوں میں سے چند ضعیف
ہوگئے چنانچہ
( 2 ) سلطان ناصر بن قلاوون نے گنبد اقدس کی خدمت کی۔
( 3 ) بعد ازاں سلطان اشرف شعبان بن حسین بن محمد نے 765 ہجری
میں خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی پھر ایک صدی گزری ہی ہوگی ۔
( 4 ) کہ اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ گنبد شریف اور پنچ
گوشہ ( یہ وہ مقام ہے جہاں حضور علیہ السلام اور شیخین کریمین آرام فرما ہیں اسے
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے تعمیر کروائی تھی ) احاطے کی تعمیر نو یا
توسیع کی جائے سلطان اشرف قایتبائی نے اولاً اپنا ایک نمایندے کو اس کی تحقیقات پر
مامور کیا نمایندے کی رپورٹ کے مطابق حجرہ مطہرہ کی دیواد کی خدمت ( بمعنی مرمت )
کی اشد حاجت محسوس ہوئی اور خاص طور پر پنج گوشہ شریف کی شرقی دیوار جس میں دراڑیں
پڑنی شروع ہوگئی تھیں چنانچہ 14 شعبان المعظم 881 ہجری کو پنچ گوشہ کے متاثرہ حصے
کو نکال لیا گیا ، ساتھ ہی حجرہ اقدس کی پرانی چھت بھی
ہٹا لی گئی اور شرقی جانب تقریباً ایک تہائی حصے پر چھت ڈال دی گئی جس سے یہ ایک
تہ خانے کی ماند نظر آنے لگا جب کہ باقی کے دو تہائی حصے پر چھت نہیں بنائی گئ
بلکہ اس کے اوپر تینوں مبارک قبروں کے سرہانوں کی جانب منقش پتھروں سے ایک چھوٹا
سا گنبد حجرہ اقدس پر تعمیر کردیا گیا اس پر سفید سنگ مرمر لگایا گیا اور پیتل کا
ہلال نصب کردیا گیا مزید یہ کہ مسجد نبوی کی چھت کو مزید بلند کردیا گیا تاکہ یہ
چھوٹا سا گنبد ہلال سمیت مسجد نبوی کی چھت کے نیچے آجائے پھر اس کے اوپر بڑے گنبد
کی تعمیر نو کا کام 17 شعبان المعظم 881 ہجری کر شروع ہوا یہ کام دوماہ تک جاری رہا پھر 7 شوال المکرم 881 ہجری کو
اختتام پر پہنچا پھر
( 5 ) 13 رمضان المبارک 886 ہجری مؤذن آذان کی غرض سے منارہ
رئیسہ پر گئے اس وقت مائک وغیرہ کا کوئی سسٹم نہ تھا مطلع ابر آلود تھا اچانک بجلی
منارہ رئیسہ پر گری مؤذن بھی شہید ہوگئے اور منارہ رئیسہ مسجد نبوی قدیم کی طرف
جاپہنچا جس سے آگ لگ گئ ساتھ ہی گنبد کو بھی نقصان پہنچا جس سے کچھ ملبہ حجرہ اقدس
میں حاضر ہوا فوری طور پر تعمیری خدمت تو کردی گئ مگر مکمل تفصیل سلطان قایتبائی
کو 16 رمضان المبارک کو قاصر کے ذریعے آگاہ کیا گیا ۔
( 6 ) سلطان نے سو ( 100 ) معمار مصر سے روانہ کئے سلطان کے
حکم سے جس گنبد کو نقصان پہنچا سے مکمل ہٹا دیا گیا اس کی جگہ 892 ہجری کو ایک نیا
گنبد بنایا گیا جو صدیوں تک قائم رہا ۔
( 7 ) پھر عثمانی سلطان محمود بن سلطان عبدالحمید خان اول نے
قایتبائی سلطان کا بنایا ہوا گنبد شہید کروا کر از سر نو 1233 ہجری بمطابق 1818 ء
کو نیا گنبد تعمیر کروایا۔
گنبد خضراء پر رنگوں کی تاریخ
( 1 ) سب سے پہلا گنبد 678 ہجری بمطابق 1269 ء کو تعمیر ہوا
جس پر زرد رنگ کروایا گیا تھاجس
سے یہ" قبۃالصفراء " سے مشہور ہوا ۔
( 2 ) پھر 888 ہجری بمطابق 1483 کو کالے پتھر
لگادئیے گئے پھر اسے سفید رنگ سے رنگ دیا گیا پھر یہ " قبۃ البیضاء " یعنی سفید گنبد کہلانے لگا ۔
( 3 ) 980 ہجری بمطابق 1572 ء میں انتہائی حسین گنبد بنایاگیا
اس کو رنگ برنگے پتھروں سے سجایا گیا تھا شاید
میناکاری کا کام تھا جس سے دلکش و جاذب منظر کے سبب " رنگ برنگا گنبد " کہلانے لگا ۔
( 4 ) 1253 ہجری بمطابق 1873ء کو عثمانی سلطان محمود بن سلطان
عبدالحمید خان اول نے اسے سبز رنگ کروا دیا اسی باعث اسے " گنبد خضراء "
(یعنی سبز گنبد ) کہتے ہیں۔
جو
انتہائی دل فریب دلکش ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گا ۔
( حوالہ جات: ملخصاً از فیضان سنت ، ملخصاً از
عاشقان رسول کی 130 حکایات)
از قلم :مولانا احمد رضا مغل عطاری مدنی
متخصص فی الحدیث
عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی
21 ۔ 8 ۔ 3 ،بروز
منگل
کسی کا دل جیتنے کے لیے اخلاص ، اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار کا مالِک ہونا ضروری ہے ۔ اِن چیزوں کے ذَریعے
سامنے والے کا دِل جیت کر اسے مُتأثر کیا جا سکتا ہے ۔ یاد رکھیے ! کسی کو متأثر
کرنے کا مقصد اس سے اپنی ذات کے لیے مَنافِع حاصِل کرنا نہ ہو بلکہ رِضائے الٰہی
کے لیے اسے دِینِ اِسلام سے قریب کرنا
مقصود ہو ۔ دینِ اسلام نے ہمیں ایسے اُصول بتائے ہیں جن پر عمل کرکے
ہم دوسروں کو متأثر
کر کے اسلامی ماحول سے وابستہ کر کے دِینِ
اِسلام کے قریب کر سکتے ہیں ۔ چند اُصول پیشِ خدمت ہیں :
(1)نیک اعمال
کیجئے
اگر آپ لوگوں کا دل جیتنا چاہتے
ہیں تو اللہ پاک کی رضاوخوشنودی کیلئے گناہوں
سے بچتےہوئے خوب خوب نیکیاں کیجئے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نیکیاں کرنے والے شخص کی محبت لوگوں کے دلوں
میں پیدا فرما دیتاہے چنانچہ فرمانِ خداوندی ہے:
اِنَّ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ
وُدًّا(۹۶)
ترجمہ: کنزالایمانبےشک
وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ان کے لیے رحمٰن محبت کردے گا
بندۂ مؤمن کی
محبت کس طرح لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے اس کے لیے حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیے
چنانچہ
سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’جب اللہ کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو حضرت جبریل سے
فرماتا ہے میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو،پس جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام بھی اس سے محبت فرماتے ہیں اور آسمانوں میں اعلان فرمادیتے
ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فلاں سے محبت فرماتا
ہے،آپ سب بھی اس سے محبت کریں، چنانچہ تمام فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر
زمین میں اس کی مقبولیت پھیلادی جاتی ہے۔ (یعنی لوگوں کے دلوں میں اس کی مقبولیت و
محبت ڈال دی جاتی ہے)‘‘ (بخاری،
کتاب الادب، باب المقة من اللہ تعالی،۴/۱۱۰، حدیث:۶۰۴۰)
(2) لوگوں کو خوشی پہنچائیے
دل جیتنے کا ایک
کامیاب ترین نسخہ دوسروں کو خوشی و راحت پہنچانا بھی ہے۔ کسی کی تکلیف دور کرنا،
بھوکے کو کھانا کھلا دینا، کسی کی مالی مدد کردینا دوسروں کے دلوں میں خوشی داخل
کرنے اور ان کے دلوں میں جگہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ اعمال اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو بھی
بہت محبوب ہیں ۔ حدیثِ پاک میں ہے: ”اللہ کے نزدیک
سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال یہ ہیں کہ تم کسی مسلمان کو خوشی پہنچاؤ ، یا اس سے
تکلیف دور کردو یا اس کی طرف سے قرض ادا کرو یا تم اس سے بھوک مٹا دو۔ (معجم كبير، عبداللہ بن عمر بن خطاب، ۱۲/۳۴۶،
حدیث:۱۳۶۴۶)
(3)دوسروں کی قدر کیجئے
یہ فطری بات ہے
کہ انسان دوسروں کو اپنى قدرو قىمت کا احساس دلانا چاہتا ہےاور جو کوئی اس کی قدر
کرتااور اسے اہمیت دیتا ہے انسان اسی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اگر ہم ملنے والے ہر شخص کو قدر کی نگاہ
سے دیکھیں اور اس کی خوشی اپنی خوشی اور اس کے غم کو اپنا غم سمجھیں تو اس طرح اس کے دل مىں ہماری عزت و محبت بڑھے گى، چونکہ
ہمارا مدنی مقصد معاشرے کو سنتوں کا گہوارا اور لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا سچا
عاشق بنانا ہے لہٰذا اس مدنی مقصد کو پروان چڑھانے کیلئے انسانی فطرت کے اس تقاضے کو پورا کرنا فائدے مندہوگا۔حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی
بارگاہ میں حاضر ہوتا اور مصافحہ کرتا تو آپ اس کے ہاتھ جدا کرنے سے پہلے اپنا
ہاتھ مُبارک جدا نہ فرماتے تھے اور آپ کسی سے
اپنی توجہ نہ ہٹاتے تھے جب تک کہ وہ خود رخصت نہ ہوجاتا۔(ترمذی،
كتاب صفة القيامةوالرقائق..الخ، باب ماجاء في صفة اواني الحوض،۴/۲۲۱، حدیث:۲۴۹۸)
(4) حاکم نہیں، خیر خواہ بنئے
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا یقیناً
بہت بڑی سعادت ہےلہٰذا اس موقع پر کسی کو نصىحت کرتے وقت ہمارا لہجہ حاکمانہ نہیں
ہونا چاہىے۔ مثلاً ”تم نماز نہیں پڑھتے ، کوئی خوف خدا نہیں ہے ، خدا سے ڈرو ،
کیوں عذابِ الہی کا حقدار بننا چاہتے ہو وغیرہ وغیرہ “ سخت جملے بولنے کی بجائے شفقت
و محبت بھرے انداز میں سمجھایا جائے تو سامنے
والے کے دل میں ہماری محبت پیدا ہوگی اور ہماری کہی ہوئی بات میں بھی اثر ہوگا ۔
(5)برائى کا بدلہ اچھائى سے دیجئے
ہم جس سے مسکرا
کرملیں توضروری نہیں کہ سامنے والا بھی خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کرے، ممکن ہے کہ مخاطب ہماری مسکراہٹ کو طنز سمجھ کرغصے میں آجائے اور یوں
کہہ دے کہ ”آپ مجھے دیکھ کر ہنستے کیوں ہیں ؟“ایسے موقع پر بداخلاقی سے جواب دینے کے بجائے صبر کیجئے کہ
نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: ’’وہ مؤمن جو لوگوں سے میل جول
رکھتا ہے اور اُن کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرتا ہے ،اُس مؤمن سے افضل ہے جو لوگوں سے
میل جول نہیں رکھتا اوراُن کے تکلیف پہنچا نے پرصبر نہیں کرتا۔‘‘ (ابن ماجہ ، کتاب الفتن ، باب الصبر علی
البلاء ،۴/۳۷۵، حدیث:۴۰۳۲)
(6)طبیعت و نفسیات کے مطابق گفتگوکیجئے
ہمارا مقصد نیکی
کی دعوت عام کرنا ہے تو اس کےلیے ہمیں باہمی تعلقات و معاملات میں اس بات کا لحاظ رکھنا بہت ضرورى ہے کہ ہمارا اندازِ
کلام، الفاظ اور جملوں کا چناؤ مخاطب کے مزاج اور عقل و شعور کے مطابق ہو جیسا کہ
کہا جاتا ہے: ”کَلِّمِ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ
یعنی
لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کرو۔“ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الفتن، باب العلامات بین یدی الساعۃ۔۔الخ، الفصل
الاول،۹/۳۷۳، تحتَ الحدیث:۵۴۷۱)
ہمارا ملنا جلنا مختلف لوگوں سے ہوتا ہے مثلاً طالب علم ، استاذ، وکیل ،
ڈاکٹر ، فوجی افسر، کاروباری شخص ، ملازمت پیشہ وغیرہ، پھران میں کوئی جوان ہو تا ہے تو کوئی بوڑھا، اسی طرح ہر کسی کی گفتگو، لباس،
رہن سہن اور سوچ کا انداز جداگانہ ہوتا ہے ، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہر ایک سے اس کی طبیعت کے مطابق گفتگو کریں۔ لہذا ا
َنْ پڑھ کے سامنے مشکل الفاظ میں گفتگو
کرنا اور پڑھے لکھے کے سامنے بے ربط جملے بولنا دل جیتنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
(7)دل جوئی کی عادت بنائیے
دل جوئی
کرنا اور کسی کی حمایت و سچی تعریف میں چند
جملے بول دینا دل جیتنے کا کامیاب طریقہ
ہے۔ اگر ہم دل جیتنا چاہتے ہیں تو لوگوں سے
اىسا طرزِ عمل اختىار کریں کیونکہ دل جوئی نیکی کی دعوت کو کارگر بنانے میں اہم
کردار اداکرتی ہے۔اگر ہم کسی کی دل جوئی
کریں،مصیبت زدہ کے کام آئیں ،پریشانی میں
کسی کاسہارا بنیں ، مشکل وقت میں کسی کی حاجت روائی کریں تو یقیناًاللہ کریم ایسے
مسلمان کو بھی بےشمار برکتیں عطافرمائےگا۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: بے شک مغفرت کو واجب کر دینے
والی چیزوں میں سے تیرا اپنے مسلمان بھائی کا دل خوش کرنا بھی ہے۔ (معجم
اوسط، ۶/۱۲۹،حدیث:۸۲۴۵)
(8)دوسروں کو
دعائیں دیجئے
انسانی فطرت ہے
کہ بندہ ایسے شخص سے محبت کرنے لگتا ہے جو
اس کی خیرخواہی کی باتیں کرے۔ لوگ عام طور پر اپنے لىے دعائىہ کلمات پسند کرتے ہىں۔
ہمیں بھی اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ دعا دینے کی عادت بنانی چاہیے ۔ کسی بھی اسلامی بھائی سے ملاقات کرتے وقت
پہلے سلام کرنا، ان کا حال احوال پوچھنااور دعائیں دینا مثلاً اللہ
عَزَّ وَجَلَّ آپ کو خوش رکھے ، آپ کى زندگى مىں برکت دے ، علم
و عمل میں اضافہ فرمائے ،بچوں کو آپ کى آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے ، انہیں آپ کا فرمانبردار اور آپ کا
نام روشن کرنے والابنائے وغىرہ۔
(9)سنجیدگی کا
دامن تھامے رکھئے
کسی کا دل جیتنے کیلئے سنجیدگی کو اپنے مزاج کا حصہ بنائیے
اور مذاق مسخری کی عادت سے پرہیز کیجئے ،
لیکن یاد رہے کہ رونی صورت بنا ئے رکھنے کا نام سنجیدگی نہیں اور نہ ہی بقدرِ
ضرورت گفتگو کرنا یا کبھی کبھار مزاح کرلینااور مسکرانا سنجیدگی کے منافی ہے ۔ ہاں ! کثرت ِ مزاح اور زیادہ ہنسنے سے پرہیز
کریں کہ اس سے وقار جاتا رہتا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ
اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’ جو شخص زیادہ ہنستا ہے ، اس
کا دبدبہ اور رعب چلا جاتا ہے اور جو آدمی(کثرت سے ) مزاح کرتا ہے وہ دوسروں کی نظروں سے گر جاتا
ہے ۔ ‘‘(احیاء العلوم ج ۳،
ص۲۸۳ )
(10)سخاوت کیجئے
سخاوت بھی ایک عظیم وصف ہے جو دلوں کوقریب اور محبت کو
عام کرتا ہے۔ نبی رحمت، شفیع امت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا دریائے
جُود ہر وقت رواں رہتا ،چنانچہ حضرت سیّدنا جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہسے مروی
ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے جب بھی
کچھ مانگا گیا ،آپ نے منع نہ فرمایا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخاء ومایکرہ من البخل،۴/۱۰۹،
حدیث:۶۰۳۴)حضرت سیّدنا انس رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : ” جب بھی نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم سے اسلا م کے نام پر سوال کیا گیا تو آپ صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ضرورعطافرمایا
۔ایک مرتبہ ایک شخص آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ
میں آیاتو سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمنے اسے دو پہاڑوں کے درمیان کی بکریا ں عطا فرمائیں۔ وہ اپنی
قوم کی طرف پلٹا اور جا کر کہا: اے میری قوم ! اسلام لے آؤ، کیونکہ محمد صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اتنا
عطا فرماتے ہیں کہ فاقے کا خوف نہیں رہتا۔“(مسلم، کتاب الفضائل، بَاب مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ۔۔الخ،
ص۱۲۶۵، حدیث:۲۳۱۲)
(11)خوش لباسی اپنائیے
کسی کے دل میں جگہ بنانے کیلئے صفائی ستھرائی اور خوش
لباسی کا بھی خاصہ کردار ہے چنانچہ ہمیں چاہئے کہ سنّت کے مطابق سادہ اور صاف ستھرا لباس
پہننے کی عادت اپنائیں کیونکہ اگر ہمارے کپڑے میلے کچیلے نظر آئیں گے
تو لوگ ملنے سے کترائیں گے ۔خوش لباسی سے ہمیں تنظیمی فوائد کے ساتھ ساتھ درج ذیل
برکتیں بھی نصیب ہوں گی اِنْ شَآءَاللہعَزَّ وَجَلَّ
سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ”اللہ عَزَّ وَجَلَّ پاک ہے پاکی پسند فرماتا ہے ظاہر باطن ستھرا ہے ستھرا پن
پسندکرتا ہے۔“( ترمذی، کتاب الادب، باب ماجاء فی النظافۃ،
۴/۳۶۵، حدیث: ۲۸۰۸)
مدنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ یعنی پاکیزگی
نصف ایمان ہے۔ “( مسلم، کتاب
الطھارۃ، باب فضل الوضوء، ص۱۴۰، حدیث: ۲۲۳)
(از:مولانافرمان علی عطاری مدنی)
تفسیر،حدیث اور فقہ کی طرح
تصوّف بھی اسلامی علوم میں شامل ہےیہی وجہ
ہے کہ دیگرعلوم کی طرح علمِ تصوف کو حاصل کرنے کے لیے بھی شیخِ کامل کی بارگا ہ میں حاضری دی جاتی ہے اوران کی صحبت میں
رہ کراس کےحصول میں آنے والی دشواریوں کو
عبور کیا جاتاہے۔چونکہ مشائخ کرام رَحِمَھُمُ اللہ السَّلام اپنےملفوظات میں لوگوں کا ظاہری و باطنی علاج اوراللہ پاک کی بارگاہ میں درجۂ
قبولیت پانےکےنسخے تجویز کرتے ہیں اس لیے
نصابِ تصوف میں ”ملفوظات “ کو نہایت اہم
مقام حاصل ہے۔ملفوظات پر مشتمل کتب سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے اِن اُصولوں کو پیشِ نظر رکھئے :(1)یہ
یقین کرلیجئے کہ”ملفوظات“ پر مشتمل
کتاب میں واقعی انہی بزرگ کے اقوال ہیں یااُن سے منسوب ہے؟یاد رکھئے!غیر مستند ،جعلی اور غیرمحقَّق
نسخے کاانتخاب آپ کواولیائے کرام رَحِمَھُمُ اللہ السَّلام سے بدظن اور قلبی اضطراب میں مبتلا کرسکتا ہے۔(2)”ملفوظات “زبا ن و
بیان کی بے ساختگی اور عام فہم اسلوب کی
بناء پر عوام و خواص میں مقبول رہے
ہیں اور اِ ن کی ایک سے زائد نقلیں بھی تیار ہوتی رہی ہیں جس کی وجہ سے غلطیوں کا راہ پاجانا بعیداِز امکان نہیں لہٰذااگرکوئی ملفوظات میں خلافِ شریعت بات دیکھیں تو صاحبِ ملفوظ یا مرتّب سے بدگمان ہونے کے
بجائےاِسے ناقلین کی بے توجہی یاتحریف و الحاق تصورکیجئے ۔ (3)بسااوقات ایسے”ملفوظات “بھی نظرسے گزریں گےجو بظاہرسخت معلوم ہوں گے،ایسے موقعے پریوں ذہن بنائیے کہ اِن ملفوظات
کے ایسے معنی نکلتے ہوں گے جس تک ہمارے فہم کی رسائی (سمجھنے کی صلاحیت)نہیں یا یہ ملفوظ ایسی کیفیت اور غلبہ حال میں ادا ہو ا ہوگا کہ جس میں شرعی احکامات لاگو ہی نہیں ہوتے ۔(4)دیگر علوم کی طرح تصوف کی بھی اپنی اصطلاحات ہیں جن کا استعمال ملفوظات میں جا بجا کیا جاتا
ہےلہٰذا اُن اصطلاحات سے آگاہی آپ کو معنیٔ مراد تک پہنچانے میں نہایت معاون ثابت ہوگی۔(5)ملفوظات میں جابجا باطن سےمتعلق احکامات بیان ہوتے ہیں جس میں بعض فرض، بعض
واجب،بعض مستحب، بعض ناجائز و حرام اوربعض مکروہ ہوتے ہیں لہٰذا اسلوبِ کلام سے عدم
واقفیت ”استنباطِ احکام “میں رکاوٹ پیدا
کرتی ہے، جس کی وجہ سے فرض کو مستحب اور
حرام کو مکروہ سمجھنے کا امکان باقی رہتا ہے اوریہ صورت بسااوقات بے عملی اور بعض دفعہ
ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بن جاتی
ہے ۔اسی لیے ان احکامات کو سمجھنے اور
طریق ِ استنباط جاننے کے لیے برسوں مشائخ کرام رحمہم اللہ السلام کی صحبت میں حاضری دینا ضروری ہے ،فقط چندکتب ِّ تصوف کے مطالعے
سے یہ ملکہ (صلاحیت)پیدا ہونا ناممکن نہیں تو مشکل
ترین ضرور ہے ۔(6)مشائخِ کرام در
اصل روحانی طبیب ہیں اور مرض دیکھ کر دوا تجویز فرماتے
ہیں لہٰذا اگرکسی بزرگ کے الگ الگ نوعیت کے ملفوظات نظر سے گزریں تو ایسی صورت میں انہیں متضاد سمجھنے کے بجائے ایک مرض
کی دو دوائیں یاجداجدا طریقہ ٔ علاج تصور
کیجیے ۔
ان چھ اصولوں کی روشنی میں بزرگوں کے”ملفوظات“کامطالعہ کیا جائےتو اللہ پاک کی رحمت سے یہ اصول علم و معرفت کے شائقین کے لیے تسکینِ ذوق اورعقل پرستوں (Rationalists) کے لیے ہدایت و
رہنمائی کے اسباب ثابت ہوں گے ۔
تحریر:
مولاناناصرجمال عطاری مدنی
اسکالرالمدینۃ
العلمیہ( اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی
)
زندگی کے اس طویل سفر میں انسان گر جاتا ہے ،
بکھرجاتا ہے ، ٹوٹ جاتا ہے، گھبرا جاتا ہے، ہار جاتا ہے، شکست کا سامنا کرنا پڑتا
ہے، ایسی راتیں آتی ہیں جس میں انسان کو اپنی باتیں سنائی نہیں دیتی، زمین پر نہ
کوئی سہارا نہ ہی کسی قسم کا کسی پر اعتماد رہتا ہے، اور کہتے ہیں کہ انسان کا سایہ
بھی ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے، اوپر سے ہم
لوگوں کے ساتھ خوش رہنے کی آرزو کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا دل اندر سے ہر لمحے کو جانتا
ہے، اور ہر گزرتی ہوئی گھڑی اندر سے توڑ رہی ہوتی ہے۔ یہ غم ، یہ تکلیف، یہ درد،
ہر انسان اس سے گزرتا ہے۔ ہر انسان کی
زندگی میں شکست آتی ہے اور ایسے الفاظ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جو انسان کی روح
اور اس کے دل کو مسمار کر دیتے ہیں۔ لوگوں کی ایسی کڑوی باتیں جو انسان کو جیتے جی
قبر میں اتار دیتی ہیں۔ مگر حقیقت میں انسان کامل اس وقت ہوا ہے جب انسان گر کر
کھڑا ہوا ہے۔ جب اس میں ہمت اور حوصلہ کو پکڑا ہواہے۔ جب اس میں اندھیروں میں اس
روشنی کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
پروں کو کھول
زمانہ اڑان دیکھتا ہے
زمیں پر بیٹھ کر
کیا آسمان دیکھتا ہے
اور جب انسان نے اپنے سے مشکل الفاظ کہے کہ میں
کر سکتا ہوں ، یہ ناممکن نہیں۔
خواہش سے نہیں
گرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے
دوست ہلانا ہوگا
کچھ نہیں ہوگا
اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا
خود ہی جلانا ہوگا
اور جب انسان خود سے کہے کہ میری امید ابھی بھی
باقی ہے، میری روح چل رہی ہے ،
امید آپ کو کبھی چھوڑ کر نہیں جاتی بس آپ ہی امید کو چھوڑ دیتے ہیں
اور جب انسان اپنے آپ سے کہے کہ اس دنیا کا خدا
کل بھی تھا ، اور آج بھی ہے ، اور ہمیشہ رہے گا۔
بہت حوصلے والے تیرا
ساتھ کیا دیں گے
زندگی ادھر آجا
ہم تجھے گزاریں گے
بنا ٹھوکر کے
انسان چمک نہیں سکتا
جو چمکے گا اسی دیے
میں تو اجالا ہوگا
جو سو بار بھی گِر کر اٹھنے کی ہمت رکھتا ہے اسے
کون گرائے گا ؟جو کبھی ہار نہیں مانتا اسے کون ہرائے گا ؟انسان طاقتور اپنے حوصلے
سے بنتا ہے نہ کہ جسم سے ورنہ جنگل کا بادشاہ شیر کے بجائے ہاتھ ہوتا۔
خوشی کے لئے کام کرو گے تو خوشی نہیں ملے گی ,خوش
ہو کر کام کرو گے تو خوشی ملے گی
کچھ نہیں ملتا دنیا میں محنت کے بغیراپنا سایہ
بھی مجھے دھوپ میں آنے کے بغیر نہیں ملتا
کامیابی تو صبح کی جیسی ہوتی ہے یہ مانگنے سے نہیں
جاگنے سے ملتی ہے۔
ہمیشہ یاد رکھیں! کامیابی حاصل کرنے کے لیے آپ
کو اکیلے ہی آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ لوگ آپ کے ساتھ تب آتے ہیں جب آپ کامیاب ہو جاتے ہیں۔
جن میں اکیلے چلنے کا حوصلہ ہوتا ہے ایک دن ان
کے پیچھے ہی قافلہ ہوتا ہےاگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تو یہ مت ڈھونڈو کہ لوگ کامیاب
کیسے ہوئے،بلکہ یہ معلوم کرو کہ جب وہ ناکام ہوئے تب انہوں نے کیا کیا ؟کیونکہ اصل
سبق ان کی کامیابی سے نہیں بلکہ ناکامی سے ملے گا آخر میں بس اتنا کہوں گا کہانسان اپنے آپ کو اس شعر کا مصداق بنا دے۔
وہ مرد نہیں جو
ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے
جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے
مضمون
نگار: ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری
Dawateislami