کسی کا دل جیتنے کے لیے اخلاص ، اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار کا مالِک ہونا ضروری ہے ۔ اِن چیزوں کے ذَریعے
سامنے والے کا دِل جیت کر اسے مُتأثر کیا جا سکتا ہے ۔ یاد رکھیے ! کسی کو متأثر
کرنے کا مقصد اس سے اپنی ذات کے لیے مَنافِع حاصِل کرنا نہ ہو بلکہ رِضائے الٰہی
کے لیے اسے دِینِ اِسلام سے قریب کرنا
مقصود ہو ۔ دینِ اسلام نے ہمیں ایسے اُصول بتائے ہیں جن پر عمل کرکے
ہم دوسروں کو متأثر
کر کے اسلامی ماحول سے وابستہ کر کے دِینِ
اِسلام کے قریب کر سکتے ہیں ۔ چند اُصول پیشِ خدمت ہیں :
(1)نیک اعمال
کیجئے
اگر آپ لوگوں کا دل جیتنا چاہتے
ہیں تو اللہ پاک کی رضاوخوشنودی کیلئے گناہوں
سے بچتےہوئے خوب خوب نیکیاں کیجئے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نیکیاں کرنے والے شخص کی محبت لوگوں کے دلوں
میں پیدا فرما دیتاہے چنانچہ فرمانِ خداوندی ہے:
اِنَّ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ
وُدًّا(۹۶)
ترجمہ: کنزالایمانبےشک
وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ان کے لیے رحمٰن محبت کردے گا
بندۂ مؤمن کی
محبت کس طرح لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے اس کے لیے حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیے
چنانچہ
سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’جب اللہ کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو حضرت جبریل سے
فرماتا ہے میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو،پس جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام بھی اس سے محبت فرماتے ہیں اور آسمانوں میں اعلان فرمادیتے
ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فلاں سے محبت فرماتا
ہے،آپ سب بھی اس سے محبت کریں، چنانچہ تمام فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر
زمین میں اس کی مقبولیت پھیلادی جاتی ہے۔ (یعنی لوگوں کے دلوں میں اس کی مقبولیت و
محبت ڈال دی جاتی ہے)‘‘ (بخاری،
کتاب الادب، باب المقة من اللہ تعالی،۴/۱۱۰، حدیث:۶۰۴۰)
(2) لوگوں کو خوشی پہنچائیے
دل جیتنے کا ایک
کامیاب ترین نسخہ دوسروں کو خوشی و راحت پہنچانا بھی ہے۔ کسی کی تکلیف دور کرنا،
بھوکے کو کھانا کھلا دینا، کسی کی مالی مدد کردینا دوسروں کے دلوں میں خوشی داخل
کرنے اور ان کے دلوں میں جگہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ اعمال اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو بھی
بہت محبوب ہیں ۔ حدیثِ پاک میں ہے: ”اللہ کے نزدیک
سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال یہ ہیں کہ تم کسی مسلمان کو خوشی پہنچاؤ ، یا اس سے
تکلیف دور کردو یا اس کی طرف سے قرض ادا کرو یا تم اس سے بھوک مٹا دو۔ (معجم كبير، عبداللہ بن عمر بن خطاب، ۱۲/۳۴۶،
حدیث:۱۳۶۴۶)
(3)دوسروں کی قدر کیجئے
یہ فطری بات ہے
کہ انسان دوسروں کو اپنى قدرو قىمت کا احساس دلانا چاہتا ہےاور جو کوئی اس کی قدر
کرتااور اسے اہمیت دیتا ہے انسان اسی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اگر ہم ملنے والے ہر شخص کو قدر کی نگاہ
سے دیکھیں اور اس کی خوشی اپنی خوشی اور اس کے غم کو اپنا غم سمجھیں تو اس طرح اس کے دل مىں ہماری عزت و محبت بڑھے گى، چونکہ
ہمارا مدنی مقصد معاشرے کو سنتوں کا گہوارا اور لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا سچا
عاشق بنانا ہے لہٰذا اس مدنی مقصد کو پروان چڑھانے کیلئے انسانی فطرت کے اس تقاضے کو پورا کرنا فائدے مندہوگا۔حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی
بارگاہ میں حاضر ہوتا اور مصافحہ کرتا تو آپ اس کے ہاتھ جدا کرنے سے پہلے اپنا
ہاتھ مُبارک جدا نہ فرماتے تھے اور آپ کسی سے
اپنی توجہ نہ ہٹاتے تھے جب تک کہ وہ خود رخصت نہ ہوجاتا۔(ترمذی،
كتاب صفة القيامةوالرقائق..الخ، باب ماجاء في صفة اواني الحوض،۴/۲۲۱، حدیث:۲۴۹۸)
(4) حاکم نہیں، خیر خواہ بنئے
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا یقیناً
بہت بڑی سعادت ہےلہٰذا اس موقع پر کسی کو نصىحت کرتے وقت ہمارا لہجہ حاکمانہ نہیں
ہونا چاہىے۔ مثلاً ”تم نماز نہیں پڑھتے ، کوئی خوف خدا نہیں ہے ، خدا سے ڈرو ،
کیوں عذابِ الہی کا حقدار بننا چاہتے ہو وغیرہ وغیرہ “ سخت جملے بولنے کی بجائے شفقت
و محبت بھرے انداز میں سمجھایا جائے تو سامنے
والے کے دل میں ہماری محبت پیدا ہوگی اور ہماری کہی ہوئی بات میں بھی اثر ہوگا ۔
(5)برائى کا بدلہ اچھائى سے دیجئے
ہم جس سے مسکرا
کرملیں توضروری نہیں کہ سامنے والا بھی خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کرے، ممکن ہے کہ مخاطب ہماری مسکراہٹ کو طنز سمجھ کرغصے میں آجائے اور یوں
کہہ دے کہ ”آپ مجھے دیکھ کر ہنستے کیوں ہیں ؟“ایسے موقع پر بداخلاقی سے جواب دینے کے بجائے صبر کیجئے کہ
نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: ’’وہ مؤمن جو لوگوں سے میل جول
رکھتا ہے اور اُن کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرتا ہے ،اُس مؤمن سے افضل ہے جو لوگوں سے
میل جول نہیں رکھتا اوراُن کے تکلیف پہنچا نے پرصبر نہیں کرتا۔‘‘ (ابن ماجہ ، کتاب الفتن ، باب الصبر علی
البلاء ،۴/۳۷۵، حدیث:۴۰۳۲)
(6)طبیعت و نفسیات کے مطابق گفتگوکیجئے
ہمارا مقصد نیکی
کی دعوت عام کرنا ہے تو اس کےلیے ہمیں باہمی تعلقات و معاملات میں اس بات کا لحاظ رکھنا بہت ضرورى ہے کہ ہمارا اندازِ
کلام، الفاظ اور جملوں کا چناؤ مخاطب کے مزاج اور عقل و شعور کے مطابق ہو جیسا کہ
کہا جاتا ہے: ”کَلِّمِ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ
یعنی
لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کرو۔“ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الفتن، باب العلامات بین یدی الساعۃ۔۔الخ، الفصل
الاول،۹/۳۷۳، تحتَ الحدیث:۵۴۷۱)
ہمارا ملنا جلنا مختلف لوگوں سے ہوتا ہے مثلاً طالب علم ، استاذ، وکیل ،
ڈاکٹر ، فوجی افسر، کاروباری شخص ، ملازمت پیشہ وغیرہ، پھران میں کوئی جوان ہو تا ہے تو کوئی بوڑھا، اسی طرح ہر کسی کی گفتگو، لباس،
رہن سہن اور سوچ کا انداز جداگانہ ہوتا ہے ، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہر ایک سے اس کی طبیعت کے مطابق گفتگو کریں۔ لہذا ا
َنْ پڑھ کے سامنے مشکل الفاظ میں گفتگو
کرنا اور پڑھے لکھے کے سامنے بے ربط جملے بولنا دل جیتنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
(7)دل جوئی کی عادت بنائیے
دل جوئی
کرنا اور کسی کی حمایت و سچی تعریف میں چند
جملے بول دینا دل جیتنے کا کامیاب طریقہ
ہے۔ اگر ہم دل جیتنا چاہتے ہیں تو لوگوں سے
اىسا طرزِ عمل اختىار کریں کیونکہ دل جوئی نیکی کی دعوت کو کارگر بنانے میں اہم
کردار اداکرتی ہے۔اگر ہم کسی کی دل جوئی
کریں،مصیبت زدہ کے کام آئیں ،پریشانی میں
کسی کاسہارا بنیں ، مشکل وقت میں کسی کی حاجت روائی کریں تو یقیناًاللہ کریم ایسے
مسلمان کو بھی بےشمار برکتیں عطافرمائےگا۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: بے شک مغفرت کو واجب کر دینے
والی چیزوں میں سے تیرا اپنے مسلمان بھائی کا دل خوش کرنا بھی ہے۔ (معجم
اوسط، ۶/۱۲۹،حدیث:۸۲۴۵)
(8)دوسروں کو
دعائیں دیجئے
انسانی فطرت ہے
کہ بندہ ایسے شخص سے محبت کرنے لگتا ہے جو
اس کی خیرخواہی کی باتیں کرے۔ لوگ عام طور پر اپنے لىے دعائىہ کلمات پسند کرتے ہىں۔
ہمیں بھی اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ دعا دینے کی عادت بنانی چاہیے ۔ کسی بھی اسلامی بھائی سے ملاقات کرتے وقت
پہلے سلام کرنا، ان کا حال احوال پوچھنااور دعائیں دینا مثلاً اللہ
عَزَّ وَجَلَّ آپ کو خوش رکھے ، آپ کى زندگى مىں برکت دے ، علم
و عمل میں اضافہ فرمائے ،بچوں کو آپ کى آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے ، انہیں آپ کا فرمانبردار اور آپ کا
نام روشن کرنے والابنائے وغىرہ۔
(9)سنجیدگی کا
دامن تھامے رکھئے
کسی کا دل جیتنے کیلئے سنجیدگی کو اپنے مزاج کا حصہ بنائیے
اور مذاق مسخری کی عادت سے پرہیز کیجئے ،
لیکن یاد رہے کہ رونی صورت بنا ئے رکھنے کا نام سنجیدگی نہیں اور نہ ہی بقدرِ
ضرورت گفتگو کرنا یا کبھی کبھار مزاح کرلینااور مسکرانا سنجیدگی کے منافی ہے ۔ ہاں ! کثرت ِ مزاح اور زیادہ ہنسنے سے پرہیز
کریں کہ اس سے وقار جاتا رہتا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ
اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’ جو شخص زیادہ ہنستا ہے ، اس
کا دبدبہ اور رعب چلا جاتا ہے اور جو آدمی(کثرت سے ) مزاح کرتا ہے وہ دوسروں کی نظروں سے گر جاتا
ہے ۔ ‘‘(احیاء العلوم ج ۳،
ص۲۸۳ )
(10)سخاوت کیجئے
سخاوت بھی ایک عظیم وصف ہے جو دلوں کوقریب اور محبت کو
عام کرتا ہے۔ نبی رحمت، شفیع امت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا دریائے
جُود ہر وقت رواں رہتا ،چنانچہ حضرت سیّدنا جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہسے مروی
ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے جب بھی
کچھ مانگا گیا ،آپ نے منع نہ فرمایا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخاء ومایکرہ من البخل،۴/۱۰۹،
حدیث:۶۰۳۴)حضرت سیّدنا انس رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : ” جب بھی نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم سے اسلا م کے نام پر سوال کیا گیا تو آپ صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ضرورعطافرمایا
۔ایک مرتبہ ایک شخص آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ
میں آیاتو سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمنے اسے دو پہاڑوں کے درمیان کی بکریا ں عطا فرمائیں۔ وہ اپنی
قوم کی طرف پلٹا اور جا کر کہا: اے میری قوم ! اسلام لے آؤ، کیونکہ محمد صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اتنا
عطا فرماتے ہیں کہ فاقے کا خوف نہیں رہتا۔“(مسلم، کتاب الفضائل، بَاب مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ۔۔الخ،
ص۱۲۶۵، حدیث:۲۳۱۲)
(11)خوش لباسی اپنائیے
کسی کے دل میں جگہ بنانے کیلئے صفائی ستھرائی اور خوش
لباسی کا بھی خاصہ کردار ہے چنانچہ ہمیں چاہئے کہ سنّت کے مطابق سادہ اور صاف ستھرا لباس
پہننے کی عادت اپنائیں کیونکہ اگر ہمارے کپڑے میلے کچیلے نظر آئیں گے
تو لوگ ملنے سے کترائیں گے ۔خوش لباسی سے ہمیں تنظیمی فوائد کے ساتھ ساتھ درج ذیل
برکتیں بھی نصیب ہوں گی اِنْ شَآءَاللہعَزَّ وَجَلَّ
سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ”اللہ عَزَّ وَجَلَّ پاک ہے پاکی پسند فرماتا ہے ظاہر باطن ستھرا ہے ستھرا پن
پسندکرتا ہے۔“( ترمذی، کتاب الادب، باب ماجاء فی النظافۃ،
۴/۳۶۵، حدیث: ۲۸۰۸)
مدنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ یعنی پاکیزگی
نصف ایمان ہے۔ “( مسلم، کتاب
الطھارۃ، باب فضل الوضوء، ص۱۴۰، حدیث: ۲۲۳)
(از:مولانافرمان علی عطاری مدنی)