حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا وہ سب سے افضل مقام ہے جہاں حضور علیہ السلام آرام فرما ہیں اس حجرہ مبارکہ پر پہلے کوئی گنبد نہ تھا چھت پر صرف نصف قد آدم ( یعنی آدھے انسان کے قد ) کے برابر چار دیواری تھی تاکہ اگر کوئی بھی کسی غرض سے مسجد النبوی الشریف کی چھت پر جائے اسے احساس رہے کہ وہ نہایت ہی ادب کے مقام پر ہے ۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ خلافت عباسیہ کی ابتدائی دور میں علما و صلحا حضرات کے مزارات پر گنبد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلسلہ بغداد، دمشق میں دینی شخصیات کے مزارات پر گنبد بنانا باقاعدہ حصہ بن گیا ۔

بغداد میں امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے مزار مبارک پر گنبد سلجوقی سلطان ملک شاہ نے پانچویں صدی میں تعمیر کروایا تھا اس طرح کی طرز تعمیر کو مصر میں خوب رواج ملا اور وہاں قلیل مدت میں بہت سے مزارات پر گنبد بن گئے پھر جب قلاوون خاندان کا دور آیا تو گنبد تمام مسلم علاقوں میں عام ہوچکا تھا ۔

( 1 ) سلطان قلاوون نے جب روضہ رسول ﷺ پر حاضری دی اس وقت پہلی مرتبہ گنبد بنانے کا فیصلہ کیا سلطان چونکہ مصر سے تھے اور یہ فن تعمیر وہاں بہت مقبول تھا سلطان نے مصری معماروں کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے اپنے ہنر کو کام میں لاتے ہوئے 678 ہجری بمطابق 1269 ء میں حجرہ مبارکہ پر سیسہ پلائے ہوئے لکڑی کے تختوں کی مدد سے خوبصورت گنبد بنایا ۔

پہلا گنبد تقریباً ایک صدی تک عاشقان رسول کی آنکھوں میں ٹھنڈک پہچاتا رہا پھر وقت گزرنے ساتھ ساتھ لکڑی کے تختوں میں سے چند ضعیف ہوگئے چنانچہ

( 2 ) سلطان ناصر بن قلاوون نے گنبد اقدس کی خدمت کی۔

( 3 ) بعد ازاں سلطان اشرف شعبان بن حسین بن محمد نے 765 ہجری میں خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی پھر ایک صدی گزری ہی ہوگی ۔

( 4 ) کہ اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ گنبد شریف اور پنچ گوشہ ( یہ وہ مقام ہے جہاں حضور علیہ السلام اور شیخین کریمین آرام فرما ہیں اسے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے تعمیر کروائی تھی ) احاطے کی تعمیر نو یا توسیع کی جائے سلطان اشرف قایتبائی نے اولاً اپنا ایک نمایندے کو اس کی تحقیقات پر مامور کیا نمایندے کی رپورٹ کے مطابق حجرہ مطہرہ کی دیواد کی خدمت ( بمعنی مرمت ) کی اشد حاجت محسوس ہوئی اور خاص طور پر پنج گوشہ شریف کی شرقی دیوار جس میں دراڑیں پڑنی شروع ہوگئی تھیں چنانچہ 14 شعبان المعظم 881 ہجری کو پنچ گوشہ کے متاثرہ حصے کو نکال لیا گیا ، ساتھ ہی حجرہ اقدس کی پرانی چھت بھی ہٹا لی گئی اور شرقی جانب تقریباً ایک تہائی حصے پر چھت ڈال دی گئی جس سے یہ ایک تہ خانے کی ماند نظر آنے لگا جب کہ باقی کے دو تہائی حصے پر چھت نہیں بنائی گئ بلکہ اس کے اوپر تینوں مبارک قبروں کے سرہانوں کی جانب منقش پتھروں سے ایک چھوٹا سا گنبد حجرہ اقدس پر تعمیر کردیا گیا اس پر سفید سنگ مرمر لگایا گیا اور پیتل کا ہلال نصب کردیا گیا مزید یہ کہ مسجد نبوی کی چھت کو مزید بلند کردیا گیا تاکہ یہ چھوٹا سا گنبد ہلال سمیت مسجد نبوی کی چھت کے نیچے آجائے پھر اس کے اوپر بڑے گنبد کی تعمیر نو کا کام 17 شعبان المعظم 881 ہجری کر شروع ہوا یہ کام دوماہ تک جاری رہا پھر 7 شوال المکرم 881 ہجری کو اختتام پر پہنچا پھر

( 5 ) 13 رمضان المبارک 886 ہجری مؤذن آذان کی غرض سے منارہ رئیسہ پر گئے اس وقت مائک وغیرہ کا کوئی سسٹم نہ تھا مطلع ابر آلود تھا اچانک بجلی منارہ رئیسہ پر گری مؤذن بھی شہید ہوگئے اور منارہ رئیسہ مسجد نبوی قدیم کی طرف جاپہنچا جس سے آگ لگ گئ ساتھ ہی گنبد کو بھی نقصان پہنچا جس سے کچھ ملبہ حجرہ اقدس میں حاضر ہوا فوری طور پر تعمیری خدمت تو کردی گئ مگر مکمل تفصیل سلطان قایتبائی کو 16 رمضان المبارک کو قاصر کے ذریعے آگاہ کیا گیا ۔

( 6 ) سلطان نے سو ( 100 ) معمار مصر سے روانہ کئے سلطان کے حکم سے جس گنبد کو نقصان پہنچا سے مکمل ہٹا دیا گیا اس کی جگہ 892 ہجری کو ایک نیا گنبد بنایا گیا جو صدیوں تک قائم رہا ۔

( 7 ) پھر عثمانی سلطان محمود بن سلطان عبدالحمید خان اول نے قایتبائی سلطان کا بنایا ہوا گنبد شہید کروا کر از سر نو 1233 ہجری بمطابق 1818 ء کو نیا گنبد تعمیر کروایا۔

گنبد خضراء پر رنگوں کی تاریخ

( 1 ) سب سے پہلا گنبد 678 ہجری بمطابق 1269 ء کو تعمیر ہوا جس پر زرد رنگ کروایا گیا تھاجس سے یہ" قبۃالصفراء " سے مشہور ہوا ۔

( 2 ) پھر 888 ہجری بمطابق 1483 کو کالے پتھر لگادئیے گئے پھر اسے سفید رنگ سے رنگ دیا گیا پھر یہ " قبۃ البیضاء " یعنی سفید گنبد کہلانے لگا ۔

( 3 ) 980 ہجری بمطابق 1572 ء میں انتہائی حسین گنبد بنایاگیا اس کو رنگ برنگے پتھروں سے سجایا گیا تھا شاید میناکاری کا کام تھا جس سے دلکش و جاذب منظر کے سبب " رنگ برنگا گنبد " کہلانے لگا ۔

( 4 ) 1253 ہجری بمطابق 1873ء کو عثمانی سلطان محمود بن سلطان عبدالحمید خان اول نے اسے سبز رنگ کروا دیا اسی باعث اسے " گنبد خضراء " (یعنی سبز گنبد ) کہتے ہیں۔

جو انتہائی دل فریب دلکش ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گا ۔

( حوالہ جات: ملخصاً از فیضان سنت ، ملخصاً از عاشقان رسول کی 130 حکایات)

از قلم :مولانا احمد رضا مغل عطاری مدنی

متخصص فی الحدیث عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی

21 ۔ 8 ۔ 3 ،بروز منگل