حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حضورِ اکرم ﷺکے پھوپھی زاد بھائی، خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے داماد ، ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہُ عنہا کے بھتیجے اور حضرت صفیہ بنت عبد المطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے فرزند ہیں۔

بچپن کے زمانے میں والد کا سایہ شفقت اٹھ جانے کے بعد آپ کی تربیت کی ساری ذمہ داری آپ کی والدہ حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پوری کی ۔حضرت صفیہ نے ابتدا ء ہی سے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہوکر ایک عالی حوصلہ،بہادر،الوالعزم مرد ثابت ہوں، چنانچہ وہ بچپن میں عموماًانہیں سخت سے سخت محنت ومشقت کے کام کا عادی بناتی تھیں اور انکی سخت نگرانی کرتیں۔حضرت زبیر سابقین اسلام (سب سے پہلے ایمان لانے والوں) میں ممتاز اورنمایاں تقدم کا شرف رکھتے ہیں۔حضرت زبیر اگرچہ ابھی کمسن تھے،لیکن استقامت اورجان نثاری میں کسی سے پیچھے نہ تھے، قبول اسلام کے بعدمکہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مشرکین نے آنحضرت ﷺ کو گرفتارکرلیاہے،یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اسی وقت ننگی تلوارکھینچ کر مجمع کو چیرتے ہوئے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو پوچھا زبیر !یہ کیا ہے؟ عرض کیا مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ گرفتار کرلئےگئے ہیں،سرورکائنات ﷺ نہایت خوش ہوئے اوران کے لیے دعائے خیر فرمائی، اور اپنی چادر عنایت کی۔ علمافر ماتے ہیں کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت وجان نثاری میں ایک بچے کے ہاتھ سے برہنہ ہوئی۔(الریاض النضرۃ،4/ 274 ) مکہ کے باقی مسلمانوں کی طرح حضرت زبیر بھی مشرکین مکہ کےظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے،ان کے چچانے ہر ممکن طریقہ سے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنا چاہا،لیکن توحید کا نشہ ایسانہ تھا جو اترجاتا ،بالآخراس نے برہم ہوکر اوربھی سختی شروع کر دی ، غرض مظالم وشدائد سے اس قدر تنگ آئے کہ وطن چھوڑکرپہلے حبشہ کی راہ لی، پھر دوسری دفعہ سرور کائنات ﷺ کے ساتھ مدینہ کا قصد کیا۔ (اسد الغابہ،2/295 )۔

نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے، جنگ بدر میں بڑی جانبازی سے لڑے اور دیگر غزوات میں بھی بڑی شجاعت دکھائی۔ فتح مکہ کے روز رسول اللہ کے ذاتی دستے کے علمبردار تھے ۔ جنگ فسطاط میں حضرت عمرنے چار افسروں کی معیت میں چار ہزار مجاہدین کی کمک مصر روانہ کی۔ ان میں ایک افسر حضرت زبیر بھی تھے۔ اور اس جنگ کی فتح کا سہرا آپ کے سر ہے۔آپ رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کرام میں سے ہیں جن کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی۔(سنن الترمذی ،حدیث:3768 ،5/416 )آپ کا شمار ان چھ صحابہ کرام کی شوری ٰمیں بھی ہوتا ہے جو حضرت عمر نے اپنی دورِخلافت میں بنا یا تھا۔(اسد الغابہ ،2/296 )آپ کا لقب حواریِ رسول ہے۔ ( سنن الترمذی ،حدیث:3765 ،5/415)مدینہ ہجرت کرنے کے بعد سب سے پہلے آپ کے یہاں بیٹے (عبد اللہ بن زبیر) مولود ہوئے۔(البدایۃ والنہایۃ ، 2/ 633 )حضرت زبیر کا دامن اخلاقی زروجواہر سے مالا مال تھا، تقوی،پارسائی،حق پسندی،بے نیازی،سخاوت اورایثار آپ کا خاص شیوہ تھا،رقت قلب اورعبرت پذیری کا یہ عالم تھا کہ معمولی سے معمولی واقعہ پر دل کانپ اٹھتا تھا۔مساواتِ اسلامی کا اس قدر خیال تھا کہ دومسلمان لاشوں میں بھی کسی تفریق یا امتیاز کو جائز نہیں سمجھتے تھے، جنگ احد میں آپ کےماموں حضرت حمزہ شہید ہوئے تو حضرت صفیہ نے بھائی کی تجہیز و تکفین کے لیے دو کپڑے لاکر دئیے ،لیکن ماموں کے پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بے گوروکفن پڑی تھی، دل نے گوارا نہ کیا کہ ایک کے لیے دودو کپڑے ہوں اوردوسرا بے کفن رہے،غرض تقسیم کرنے کے لیے دونوں ٹکڑوں کو ناپا،اتفاق سے چھوٹا بڑا نکلا قرعہ ڈال کر تقسیم کیا کہ اس میں بھی کسی طرح کی ترجیح نہ پائی جائے۔ (المسند للامام احمد،1/ 349 )

امانت و دیانت اورانتظامی قابلیت کا عام شہرہ تھا،یہاں تک کہ لوگ عموماًاپنی وفات کے وقت ان کو اپنے آل واولاد اورمال ومتاع کے محافظ بنانے کی تمنا ظاہر کرتے تھے،مطیع بن الاسود نے ان کو وصی بنانا چاہا، انہوں نے انکار کیا تو لجاجت کے ساتھ کہنے لگےمیں آپ کو خدا و رسول ﷺ اورقرابت داری کا واسطہ دیتا ہوں، میں نے فاروق اعظم کو کہتے سنا ہے کہ زبیر دین کے ایک رکن ہیں، حضرت عثمان ، مقداد ،عبد اللہ بن مسعود اورعبدالرحمان بن عوف وغیرہ نے بھی ان کو اپنا وصی بنایا تھا، (الاصابۃ،2/460 )چنانچہ یہ دیانتداری کے ساتھ ان کے مال ومتاع کی حفاظت کرکے ان کے اہل و عیال پر صرف کرتے تھے۔

فیاضی،سخاوت اورخداکی راہ میں خرچ کرنے میں بھی پیش پیش رہتے تھے، حضرت زبیر کے پاس ایک ہزار غلام تھے،روزانہ اجرت پر کام کرکے ایک بیش قرار رقم لاتے تھے، لیکن انہوں نے اس میں سے ایک حبہ بھی کبھی اپنی ذات یا اپنے اہل و عیال پر صرف کرنا پسند نہ کیا بلکہ جو کچھ آیا اسی وقت صدقہ کر دیا،غرض ایک پیغمبر کے حواری میں جو خوبیاں ہوسکتی ہیں،حضرت زبیر کی ذات والا صفات میں ایک ایک کرکے وہ سب موجود تھیں۔

آپ کا ذریعہ معاش تجارت تھا، انہوں نےجس کام میں ہاتھ لگایا، کبھی گھاٹا نہیں ہوا۔تجارت کے علاوہ مالِ غنیمت سے بھی گراں قدررقم حاصل کی،حضرت زبیر کی ملکیت کا صرف اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان کے تمام مال کا تخمینہ پانچ کروڑدولاکھ درہم کیا گیا تھا، لیکن یہ سب نقد نہیں؛ بلکہ جائداد غیر منقولہ کی صورت میں تھا، اطراف مدینہ میں ایک جھاڑی تھی، اس کے علاوہ مختلف مقامات میں مکانات تھے،چنانچہ خاص مدینہ میں گیارہ ،بصرہ میں دو اورمصروکوفہ میں ایک ایک مکان تھا۔

دولت وثروت کے باوجود طرز معاشرت نہایت سادہ تھا،غذا بھی پرتکلف نہ تھی ،لباس عموماً معمولی اورسادہ زیب تن فرماتے ،البتہ جنگ میں ریشمی کپڑے استعمال کرتے تھے؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خاص طور پران کو اجازت دی تھی،آلاتِ حرب کا نہایت شوق تھا اوراس میں تکلف جائز سمجھتے تھے،چنانچہ ان کی تلوار کا قبضہ نقرئی تھا۔

رسول اللہ سے قربت رکھنے کے باعث بے شمار احادیث جانتے تھے۔ لیکن بہت کم حدیث بیان کی۔حضرت سیِّدُنا زُبَیربن عَوَام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مختلف اوقات میں کل نو شادیاں کیں مگر اولاد صرف چھ ازواج سے ہوئی چنانچہ، (1) حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق سے عبد اللہ، عروہ ، منذر ، عاصم، مہاجر، خدیجۃ الكبرى، ام حسن، عائشہ (2)بنو اُمیہ کی أم خالد بنت خالد بن سعيد بن العاص سے خالد ، عمرو، حبیبۃ، سودة، ہند (3) بنی کلب کی رباب بنت اُنَيْف سے مصعب ، حمزہ، رملہ (4) بنو ثعلب کی ام جعفر زينب بنت مرثد سے عبيدہ ، جعفر (5) ام كلثوم بنت عقبۃ بن ابی معيط سے زينب (6)بنو اسد کی حلال بنت قيس بن نوفل سے خدیجۃ الصغرى رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں۔ (طبقات الکبریٰ ،3/74)

حضرت سیِّدُنا زُبَیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب جنگ جمل چھوڑ کر واپس جا رہے تھے، تو ابن جرموز نے تعاقب کر کے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو دھوکےسےشہیدکردیا۔ یہ جنگ بروز جمعرات ۱۱جمادی الاخریٰ ۳۶ ھ؁ میں ہوئی۔ (الاصابۃ، 2/460) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا مزار مبارک عراق کی سر زمین پر جس شہر میں واقع ہے اس کا نام ہی مَدِیْنَۃُ الزُّبَیْر ہے۔

روایت میں ہے کہ جب حضرت سیِّدُنا زُبَیْربن عَوَام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جامِ شہادت نوش فرمایا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کوئی درہم و دینارنہ چھوڑا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ترکہ میں صرف غابہ کی چند زمینیں اور کچھ (تقریباً پندرہ) گھر تھے اور قرضے کا عالم یہ تھا کہ جب کوئی شخص ان کے پاس امانت رکھنے کے لئے آتا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے: ’’امانت نہیں ، قرض ہے کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘ لہٰذا جب میں نے حساب لگایا تو وہ بیس لاکھ (20,00,000) بنا، پس میں نے وہ قرض ادا کر دیا۔