از قلم: ابوالحقائق راشدعلی رضوی عطاری مدنی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وِلادتِ اقدس کی تاریخ کے حوالے سے مسلمانوں میں بسا اوقات یہ شورش پھیلائی جاتی ہے کہ امامِ اہلسنت، اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نےتو سرورِ دوعالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ِ وِلادت 8 ربیع الاوّل بیان فرمائی ہے ،حالانکہ مسلمانانِ عالَم وِلادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن 12 ربیع الاوّل کے دن مناتے ہیں۔یہ شورش پھیلانےوالوں کے کیا کیا مذموم مقاصد ہوسکتے ہیں ،حقیقتِ حال تو ربِّ علیم وخبیر ہی جانے۔ لیکن اس کا ایک مقصد یہ معلوم ہوتاہے کہ اس طرح مسلمان جشنِ ولادت کے اہتمام کے معاملے میں شک و شبہ کا شکار ہوجائیں اور اس مقدَّس و محمود عمل کی بجاآوری سے دُور ہوجائیں ،کہ جب اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک 12 ربیع الاوّل سیِّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وِلادت ہی نہیں ہےتو ہم اِس تاریخ کو یومِ وِلادت قرار دے کر اس کا خاص احترام و اہتمام کیوں کرتے ہیں؟

اگرتحقیق و دیانت کے تناظر میں اِس معاملے کو دیکھا جائے تو حقیقتِ حال اِس شوشے کے بالکل برخلاف ظاہر ہوتی ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا موقف تاریخِ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا ہے،اسے جاننے سے پہلے چند بنیادی باتیں پیشِ نظر رکھنا بڑا مفید ہوگا۔چنانچہ ذیل میں ان کا بیان ملاحظہ ہو:

تاریخی معاملات کو سمجھنے کا درست طریقہ:

تاریخی معاملات کو سُلجھانے ،سمجھنے اور سمجھانے کے لئے چند باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھنا انتہائی ضروری ہوتاہے۔ ان باتوں کو بالائےطاق رکھ کر کسی تاریخی مسئلے کو حل کرنے کاعام طور پرنتیجہ یا تو کسی غلط فہمی کا وُجود میں آنا ہوتاہے یا بندہ مغالطے کا شکار ہوکر رہ جاتاہے۔پھر ایسا شخص خود بھی حقیقتِ امر سے ناآشنا رہتاہے اور دوسروں کو بھی بہکانےکا باعث بنتاہے۔لہذا درج ذیل نکات کو سمجھ لینا کئی تاریخی مسائل کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔

٭تاریخی اُمور میں تاریخ کی تعیین سے متعلق عموماً مؤرخین کے کئی اَقوال ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر اِس امر(بات یا معاملے) کا نہ تو انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس بات میں تذبذب کو راہ دی جاسکتی ہے ،بلکہ اُن متعارض اورمختلف اَقوال میں سے درست اور راجح قول کی تلاش کی جائے گی۔قرآنی آیات اور احادیثِ کریمہ میں ناسخ و منسوخ کے معاملے ہی کو دیکھ لیاجائے ،کئی اَقوال کُتب میں ملتے ہیں۔ لیکن ان مختلف اَقوال کے باوجود مفسرین اور محدّثین درست قول تک پہنچنے کے لئے تحقیق سے کام لیتے ہیں اور راجح قول کی نشاندہی فرماکر مسئلے کوحل فرمادیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح تاریخ سے تعلّق رکھنے والے معاملات میں بھی ہمیں محققین کی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے درست اور راجح قول تک پہنچنا چاہیئے۔

٭ محقّق جب بھی تاریخ سے تعلّق رکھنے والے کسی معاملے پر تحقیق کرتا ہے تو دیانت کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے اُس بارے میں منقول تمام ہی اَقوال کو ذکر کر دیتاہے۔ لیکن نقل کرنے والے محقّق کا اپنا موقف اس حوالے سے کیا ہےاور اس کے نزدیک کونسا قول درست اور راجح ہے،یہ بات اُس محقّق کےاپنےکلام سے ہی ظاہر ہوسکتی ہے۔لہذا اس کی تلاش کے لئے متعلقہ موضوع پر اُس محقق کے لکھے ہوئے تمام تر کلام کوپڑھنا ضروری ہوتاہے ،خواہ وہ کلام ایک ہی جگہ مسطور ہو یا اُس محقّق نے اپنی مختلف کُتب میں اُ س موضوع پر منتشرطورپر کلام کیا ہو ،اُن سب کامطالعہ کرنا ضروری ہوتاہے۔

٭تاریخی اختلافی مسائل میں تمام تر اَقوال میں سے کسی بھی ایک قول کو اپنی مرضی اور خواہش سے اختیار نہیں کیا جاسکتا،نہ ہی اِس کی کوئی علمی وقعت و حیثیت ہے۔بلکہ یہ دیکھنا ضروری ہوتاہے کہ اِن اَقوال میں سے کس قول کو اُمّت کے جمہور عُلماء و محققین نے اختیار کیا ہے اورکس قول پر اکثر نے اعتماد کیا ہے۔لہذا جس قول کو جمہور نے اختیار کیا ہوا ورجس قول پر اُمّت کی اکثریت کا اعتماد ہو ،وہی قول اپنایا جا ئے گا۔جمہوراور اُمّت کی اکثریت کے موقف کے برخلاف کسی دوسرے مرجوح اور ضعیف و مردود قول کو لینا راہِ صواب سے ہٹنے اور اُمت میں افتراق و انتشار کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔

٭اگر کوئی محقّق اپنے کلام میں کسی موضوع کے حوالے سے مختلف اَقوال کو نقل تو کرتاہے، لیکن اپنی رائے اور موقف کو بیان نہیں کرتا ، تو ہرگز کسی کویہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی طرف سے اُن اقوال میں سے کسی بھی قول کو اُس محقّق کا موقف بنا کر پیش کرے۔ یہ بات تحقیق کے منافی اور خیانت و بہتان قرار پاتی ہے۔

اعلیٰ حضرت کا اندازِ تحقیق:

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کوئی عام عالِم یا معمولی محرِّر نہیں تھے ،بلکہ اجتہادی صلاحیتیں رکھنے والے اِسلام کے عظیم محقِّق اور فقیہ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ جس بھی موضوع پر قلم اُٹھاتےہیں تو تحقیق اور دیانت کے تمام تقاضوں کو نبھاتے ہوئے اُس موضوع کو الم نشرح فرمادیتے ہیں۔جن معاملات کا تعلّق تاریخ سے ہو،اُن کو بیان کرنے کا طریقہ کار بھی محققانہ اختیار فرماتے ہیں۔تاریخِ وِلادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ بھی اِسی نوعیت کا ہے ،جسے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی تحقیق کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔

تاریخِ وِلادتِ اقدس سے متعلق اعلیٰ حضرت کا موقف:

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاندار رسالے"نُطْقُ الھِلال بارخ ولاد الحبیب والوصال " میں نبیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت سے متعلّق تقریباً سات(7) اَقوال تحریر فرمائے ہیں۔لیکن صرف نقلِ اَقوال پر ہی اِکتفاء نہیں فرمایا،بلکہ تحقیق کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے اُن سات (7) میں سے ایک قول کی ترجیح کوبھی بیان فرمایاہے۔چنانچہ اعلیٰ حضرت ،مجدِّدِ اعظم ، امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:" اس (تاریخِ ولادتِ اقدس کے بارے)میں اَقوال بہت مختلف ہیں، دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس، سات قول ہیں مگراَشہرواَکثروماخوز ومعتبربارہویں ہے۔ مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولدِاقدس کی زیارت کرتے ہیں کما فی المواھب والمدارج (جیسا کہ مواہب لدنیہ اورمدارج النبوۃ میں ہے۔ت) اورخاص اس مکانِ جنّت نشان میں اسی تاریخ مجلس میلاد مقدس ہوتی ہے۔"

(فتاویٰ رضویہ،26/411،رضافاؤنڈیشن لاہور)

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کی طرف تاریخِ ولادتِ اقدس 8 ربیع الاوّل کا قول منسوب کرنے والے غوراور پوری توجہ سے کلامِ امام کے اِس اقتباس کو ملاحظہ کریں کہ امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے سات(7) اَقوال کو ذکر کرکے کس قول کو راجح قرار دیا ہے ۔یقیناً وہ 8 ربیع الاوّل نہیں ،بلکہ 12 ربیع الاوّل ہے۔

نیز فنِ اِفتاء کو سمجھنے والے حضرات ملاحظہ کریں کہ اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نےتاریخِ ولادتِ اقدس 12 ربیع الاوّل والے قول کو چار(4) اَلفاظِ فتویٰ "اَشْہَر"،"اَکْثَر"،"ماخوذ" اور "معتبر" کی تاکید کے ساتھ بیان فرمایاہے۔اِس اُسلوبِ کلام سے ہی ہر ذی شعور اورمُنصِف مزاج شخص سمجھ سکتاہے کہ اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سیِّدِ کائنات،فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وِلادت 12 ربیع الاوّل ہی ہے۔

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ مسئلےکی مزید تحقیق کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ 12 ربیع الاوّل ہی کو سلطانِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وِلادت قرار دینا جمہور کے نزدیک مشہورہے۔چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:" شرع مطہر میں مشہور بین الجمہور(جمہورکےنزدیک کسی امر کےمشہور )ہونے کے لئے وقعتِ عظیم( انتہائی اہمیت) ہے اور مشہور عند الجمہور ہی 12 ربیع الاوّل ہے۔" (فتاویٰ رضویہ،26/427،رضافاؤنڈیشن لاہور)

تاریخِ وِلادتِ اقدس کے بارے میں اعلیٰ حضرت کی اُمت کو ترغیب:

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے 12 ربیع الاوّل کے تاریخِ ولادتِ اقدس ہونے پر اِس بات کو بھی بطورِدلیل ذکرفرمایاہے کہ اِس پر حرمَین شریفَین اور دیگر بلادِ اسلام کے مسلمانوں کا تعامُل ہے۔تعامُل کا شرعی احکامات اور معاملات میں دائرۂ اثر کیا ہے،یہ ہراہلِ علم جانتاہے۔پھر آخر میں امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اُمتِ مسلمہ کو یہ ترغیب بھی دِلائی ہے کہ اِسی (12 ربیع الاوّل کو یومِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طورپرمنانے)پر عمل کیا جائے۔چنانچہ امام کی عبارت ملاحظہ ہو:

"تعامُلِ مسلمین حرمَین شریفَین و مصر و شام بلادِ اسلام و ہندوستان میں 12 ہی پر ہے اس پر عمل کیاجائے۔"

(فتاویٰ رضویہ،26/427،رضافاؤنڈیشن لاہور)

بحمد اللّٰہ!درج بالا چند سُطور سے یہ واضح ہوگیا کہ تاریخِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سےاعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کاموقف کیا ہے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کا نچوڑ کیاہے۔اللہ کریم قبولِ حق کی توفیق عطافرمائے۔

کتبہ

ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی

7ربیع الاوّل 1443ھ،13 اکتوبر2021ء،شبِ جمعرات


امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی سیرت تکریم انسانیت کا مکمل درس تھی۔ایک دن آپ نے چند لوگوں کو دیکھا جو جذام کے مرض میں مبتلا تھے اور لوگ انہیں دھتکار رہے تھے، آپ انہیں اپنے گھر لے گئے اور ان کا خیال رکھا۔ امام زین العابدین کا آستانہ غریبوں، یتیموں اور بے کسوں کے لئے پناہ گاہ تھا جسے دنیا دھتکارتی اسے امام زین العابدین سینے سے لگا لیتے ۔

آپ رضی اللہ عنہ کا نام و نسب:

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ 12 اماموں میں چوتھے امام ہیں۔ آپ کا اسم گرامی :علی بن حسین رضی اللہ عنہما ہے۔آپ کی کنیت: ابو محمد،ابو الحسن اور ابوبکر ہے۔

حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما کا لقب سجّاد اور زین العابدین ہے اور آپ نے اسی لقب کے ساتھ شہرت پائی ہے۔آپ کی والدہ ماجدہ طیبہ طاہرہ عابدہ کا اسمِ گرامی شہر بانو ہے۔

ولادتِ باسعادت:

امام عساکر نے یعقوب بن سفیان فسوی سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین 33 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن [سیر اَعلام النبلا، 386/4] میں علامہ موصوف نے یہ لکھا ہے کہ (شاید) ان کی پیدائش38 ہجری میں ہوئی ہے، علامہ ابوالحجاج جمال الدین یوسف مزّی نے بھی [تہذیب الکمال، 402/20] یعقوب بن سفیان سے سن ولادت33 ہجری نقل کیا ہے اور یہی راجح ہے۔

زین العابد ین کہنے کی وجہ تسمیہ:

آپ کی شخصیت اسمِ گرامی کے بجائے لقب کے ساتھ زیادہ معروف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ امام ابنِ کثیر فرماتے ہے کہ کَانَ یُصَلِّی فی کُلِّ یومٍ و لیلۃٍ اَلْفَ رَکْعَۃٍ آپ ایک دن اور رات میں ہزار رکعت نماز(نفل) پڑھا کرتے تھے۔آپ کا یہ معمول آخری وقت تک رہا۔ (تاریخ ابن کثیر ج12،ص482، مطبوعہ دارالھجر)

شواہد النبوۃ میں ہے کہ آپ ”زین العابدین“ سے اس لئے مشہور ہوئے کہ آپ ایک رات نمازِ تہجد میں مشغول تھے کہ شیطان ایک سانپ کی شکل میں نمودار ہواتاکہ اس ڈراؤنی شکل سے آپ کو عبادت سے باز رکھ کر عیش و نشاط میں مشغول کردے آپ نے اس کی طرف توجہ نہ فرمائی یہاں تک کہ سانپ نے آپ کے پاؤں کا انگوٹھا اپنے منہ میں ڈال لیا لیکن آپ پھر بھی اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ سانپ نے آپ کے انگوٹھے کو اس سختی سے کاٹا کہ آپ کو درد ہوا آپ نے پھر بھی سانپ کی طرف توجہ نہ کی۔آپ پر اللہ پاک نے ظاہر فرمادیا تھا کہ وہ شیطان ہے۔آپ نےاُسے بُری طرح زَدُ و کوب کیا اور پھر فرمایا:”اے ذلیل و خوار کمینہ یہاں سے دور ہوجا“۔جب سانپ چلا گیا تو آپ کھڑے ہوئے تاکہ درد میں اِفاقہ ہوجائے۔پھر آپ کو ایک آواز سنائی دی لیکن بولنے والا نظر نہیں آیا،کہنے والے نے کہا:”آپ زین العابدین ہیں، آپ زین العابدین ہیں، آپ زین العابدین ہیں“۔ (شواہد النبوت ص 421)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اور واقعہ کربلا:

حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو کہا کہ آپ ہر وقت غم ناک ہی رہتے ہیں اور آپ کے آنسو کبھی خشک نہیں ہوتے، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے اس آدمی کو جواب دیا حضرتِ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت ِ یوسف علیہ السلام گم ہوئے تھے( فوت نہیں ہوئے تھے) حضر تِ یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں ان کے غم و فِراق میں رو رو کر سفید ہوگئیں میں نے تو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے گھر کے 18 افراد دشمن کے ہاتھوں ذبح ہوتے ہوئے دیکھے ہیں میں کیسے غم ناک نہ ہوں اور کیسے نہ روؤں تم دیکھتے نہیں ان کے غم کی وجہ سے میرے دل کے ٹکڑے ہورہے ہیں۔(البدایہ والنہایہ ص 107/ ج 09)

سید علی ہجویری داتا گنج بخش لکھتے ہیں کہ جب میدانِ کربلا میں حسین ابن علی کوفرزندوں سمیت شہید کردیا گیا تو سوائے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے مستورات کا کوئی پُرسانِ حال نہیں تھا، وہ بھی بیمار تھے حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان کو علی اصغر کہا کرتے تھے، جب مستورات کو اونٹوں پر برہنہ (ننگے) سر دمشق میں لے کر آئے تاکہ یزید بن معاویہ کے سامنے پیش کریں تو اسی اثنا میں کسی نے کہا اے علی (زین العابدین) اور اہل بیت تمہاری صبح کیسی ہے، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہماری صبح ہماری قوم کے ہاتھوں میں ایسی ہے جیسے قومِ موسیٰ کی صبح فرعون اور اس کی قوم کے ہاتھوں تھی، ان کے مردوں کو قتل کیا جاتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھا جاتا تھا، ہمارے لیے صبح و شام کی تفریق ختم ہوچکی ہے، یہ ہماری مصیبت کی حقیقت ہے۔(کشف المحجوب ص78)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا اخلاق:

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے اخلاقِ حسنہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم کی چمک دمک تھی یہی وجہ تھی کہ دشمن نے بھی امام زین العابدین کے بلند اخلاق کا اعتراف کیا ہے اور امام زین العابدین محاسنِ اخلاق کے تمام زاویوں اور گوشوں کو لپیٹے ہوئے تھے یعنی علم و عفو، رحم و کرم، جودو سخا، مہمان نوازی، عدم تشدد، صبر و قناعت ، نرم گفتاری، غم خواری، تواضع و انکساری کے تمام مراتب پر امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فائز تھے چنانچہ سفیان بن عیینہ کا بیان ہے کہ ایک شخص امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ فلاں شخص آپ کی غیبت کررہا ہے، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا کہ تم میرے ساتھ اس کے پاس چلو وہ بایں وجہ آپ کے ساتھ چلا کہ آپ اس کو ناراض ہوں گے لیکن امام زین العابدین رضی اللہ عنہ جب اس کے پاس پہنچے تو امام نے فرمایا: اے شخص !جو کچھ تم نے میرے متعلق کہا ہے اگر یہ سچ ہے تو خدا تعالیٰ مجھے بخش دے اگر تم نے غلط کہا ہے تو خدا تعالیٰ تجھے بخش دے پھر آ پ واپس تشریف لے آئے، (نورالابصار 245)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی سخاوت:

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بہت بڑے فیاض اور سخی تھے چونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں لہذا آپ سخاوت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نمونہ تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات سے بڑھ کر زیادہ سخی تھے، دوست پر بھی سخاوت تھی اور دشمن پر بھی چنانچہ صفوان بن امیہ جب مقام جعرانہ میں حاضر دربار ہوا تو آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے اس کو اتنی تعداد میں اونٹوں اور بکریوں کا ریوڑ عطا فرمادیا کہ دو پہاڑیوں کے درمیان کا میدان بھر گیا، صفوان مکہ جا کر بلند آواز سے اپنی قوم(قریش) سے کہنے لگا اے لوگو دامنِ اسلام میں آجاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر زیادہ مال عطا فرماتے ہیں کہ فقیری کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہتا، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سائل کے جواب میں خواہ وہ کتنی ہی بڑی چیز کا سوال کیوں نہ کر ے لَا( نہیں) کا لفظ نہیں فرمایا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت دوست اور دشمن دونوں پر تھی اسی طر ح آپ کے بیٹے امام زین العابدین کی سخاوت بھی دوست اور دشمن دونوں کے لیے تھی جیسے رسول پاک صلی ا للہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی سائل کے جواب میں لَا( نہیں) نہیں فرمایا، اسی طرح امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی تمام عمر میں کسی سائل کے جواب میں کلمہ لَا ( نہیں) کا استعمال نہیں فرمایا۔

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے ارشادات:

ویسے تو امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے کئی ارشادات ہیں جن میں سے چند درجِ ذیل ہیں:

*آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اے خدا! میں اس سے تمہاری پناہ مانگتا ہوں کہ لوگوں کی نظر میں میرا ظاہر اچھا ہوجائے او رباطن بگڑ جائے۔

*بعض لوگ خوف کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں یہ گویا کہ غلاموں کی عبادت ہے، بعض جنت کی طمع میں عبادت کرتے ہیں یہ گویا کہ سودا گروں کی عبادت ہے کچھ ایسے بھی ہیں جو محض خدا کے لیے عبادت کرتے ہیں یہ آزادوں کی عبادت ہے۔

*مومن وہ ہے جو اپنا علم اپنی عقل میں سمو چکا ہے، سوال کرتا ہے کہ سیکھے، خاموش رہتا ہے تاکہ سوچے سمجھے اور عمل کرے۔

*وہ شخص کیسے تمہارا دوست ہوسکتا ہے جب تم اس کی کوئی چیز استعمال کرلو تو اسے خوشی نہ ہو۔

وفات و مزار:

حضرت سیِّدُنا امام زینُ العابدین علیہ رحمۃ اللہ المُبِین نے14 ربیع الاوّل 94 سن ہجری کو 56سال کی عمرمیں اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا، مزار مبارک جنَّۃُ البقیع میں ہے۔(سیر اعلام النبلاء،ج5،ص341 ملتقطاً)

شہادت کے وقت امام زین العابدین58سال کے تھے ۔آپ کے فرزند امام محمدباقرنے آپ کی نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ منورہ میں اپنے عم بزرگوار حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور دادی خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے پہلو میں جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔(البدایہ والنہایہ113/ ج09، نورالابصار249)

از: مولانا زید عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ ( اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی )


سیرتِ طیبہ کی اہمیت 

Sat, 16 Oct , 2021
3 years ago

سیرتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اہمیت ہر مسلمان پر واضح ہے۔ قرآنِ کریم کے بعد مسلمانوں کیلئے سب سے اہم ترین ماخذ و مصدر پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فرمودات، اعمال اور سیرتِ طیبہ ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ تمام انسانوں کیلئے عملی نمونہ ہے جسے قرآن ”اسوۂ حسنہ“ سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو بیجا نہیں کہ قرآن پیدائش سے وفات تک زندگی گزارنے کے احکامات کا مجموعہ ہے اور سیرتِ نبوی اس مجموعہ کی عملی تعبیر اور تصویر کا نام ہے۔اسلامی عقائد، اعمال، اخلاق، معاشرتی مسائل، انفرادی معاملات، اجتماعی مسائل، بین الاقوامی تعلقات، روابطِ عامہ، امن کے تقاضے، جنگی قوانین وغیرہ وغیرہ یہ سب سیرتِ طیّبہ کے موضوعات ہیں اور سیرتِ طیبہ میں ان تمام موضوعات کا حل موجود ہے۔ اسی وسعت اور ہمہ گیریت کی وجہ سے سیرت کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان اپنے سامنے انسانیتِ کاملہ کی ایسی اعلیٰ مثال دیکھتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں کامل و مکمل نظرآتی ہے یوں مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ سامنے آتا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مقدس حیات کا اعجاز ہے کہ انسانی زندگی کے جس بھی پہلو کو سامنے رکھ کر سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک زندگی میں نظر آتا ہے۔ سیرتِ طیبہ کی اہمیت پر مبنی مزید تین نکات پیش خدمت ہیں:

مطالعَۂ سیرت نبی علیہ السلام کی زندگی سے آگہی کا ذریعہ ہے

1. سیرتِ طیبہ کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے مطالعہ سے مسلمان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دین کن مراحل سے گزرا، یعنی سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے ایک مسلمان جانتا ہے کہ اللہ کریم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کیسی خاندانی شرافت و عظمت عطا فرمائی، اعلانِ نبوت سے پہلے آپ کی کردار کیسا تھا؟ بعد میں آپ کا رہن سہن کیسا تھا؟ آپ کا طرزِ زندگی کیا تھا؟ آپ کے اخلاق کیسے تھے؟ وحی کے مراحل ،مدارج کیا کیا تھے؟ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دین کی تبلیغ کس طرح سے کی؟ آپ نے تبلیغِ دین کیلئے کیسی کیسی مشقتیں جھیلیں اور کتنے مصائب برداشت کئے؟ کفار نے آپ کو روکنے کے لیے کیا کیا حکمتِ عملی اپنائی؟ اللہ کریم نے کفار کے مقابلے میں آپ کی کس طرح سے مدد فرمائی؟ آپ کے معجزات کیا تھے؟ آپ کے ساتھ مٹھی بھر جانبازوں نے بڑے بڑے لشکروں کو کیسے پچھاڑا؟ الغرض یہ ساری تفصیلات اور یہ ساری باتیں سیرتِ طیبہ کے سنہری اور مقدس اوراق کی زینت ہیں، ایک مسلمان ان معلومات سے اس وقت ہی آگاہ ہو سکتا ہے جب وہ سیرتِ طیبہ کے سنہری اوراق کا مطالعہ کرے۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بہترین تصویر سیرتِ طیبہ

2. انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو ذاتِ خدا سے متعلق ہے جسے حقوقُ اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ دوسرا پہلو بندوں سے متعلق ہے جسے حقوق العباد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حقوقُ اللہ میں سے اکثر کا تعلق معاد و آخرت سے ہے جبکہ حقوق العباد میں سے اکثر کا تعلق معاش اور تمدن سے ہے۔معاد و آخرت کے ضمن میں خدا اور انسان سے متعلق تمام امور داخل ہیں جیسےعقائد، عبادات، اخروی باز پرس اور جوابدہی وغیرہ۔ جبکہ معاش اور تمدن کے تحت انسان کے انسان سے ہر طرح کے تعلقات شامل ہیں ، جیسے حاکم کے محکوم سے روابط، خاوند اور بیوی کی رفاقت، باپ اور بیٹے کا پیار، تاجر اور آجر کے معاملات، پڑوسی و رشتہ دار سے تعلق، دشمن اور دوست سے رویہ، الغرض معاشرتِ انسانی کا ہر پہلو اس ضمن میں داخل ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں معاد وآخرت اور معاش و تمدن ان دونوں پہلوؤں سے ہمہ جہت، جامع اور احسن ترین زندگی کی تصویر اگر کسی کی نظر آتی ہے تو وہ بی بی آمنہ کے لعل، رسولِ بےمثال صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نظرا ٓتی ہے۔ آپ پیداہوئے تو آتش کدے ٹھنڈے پڑ گئے، ظلم اور جبر کے تسلسل کا اختتام ہوا، آپ نے ہی مظلومیت اور بے بسی کو فخر و شرف کا مقام عطا کیا، آپ نے ہی تلاشِ معاش میں دیانت و صداقت سے لبریز ایک نئی روشنی دنیا بھر کو عطا فرمائی، آپ نے ہی جہالت کو شعور، ظلمت کو نور اور فکر کو گہرائی عطا فرمائی۔ میدانِ جنگ میں جہالت اور ظلم پر مبنی اقدامات کا خاتمہ آپ نے فرمایا اور رہتی دنیا کے لیے اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں عدل و مساوات پر مبنی زندہ جاوید کردار بھی آپ ہی نے پیش کیا۔ الغرض انسانیت کو جو معراج آپ نے عطا فرمائی اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج بھی اگر انسانیت معراج کی متمنی ہے تو رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے تعلق اور آپ کی حیاتِ طیبہ کی تعلیمات پر عمل سے ہی یہ معراج انسان کو حاصل ہوسکتی ہے۔

بنیادی مسائل کا حل سیرتِ طیبہ:

3. آج کے اس عہدِ جدید میں انسان نے زندگی کے بعض گوشوں میں ترقی ضرور کی ہے مگر انسان کے بنیادی مسائل اب بھی وہی ہیں جو آج سے سینکڑوں سال پہلے تھے، آج کے انسان نے جدید اشیا ایجاد کر کے زندگی کے بعض پہلوؤں کو ضرور بدل کر رکھ دیا ہے مگر انسان کی طبیعت و نفسیات اب بھی وہی ہے جو آج سے پہلے تھی۔ نفرت و عداوت، بغض و حسد، وحشت و بربریت جیسی بری عادات ہوں یا محبت و اخوت، ایثار و قربانی اور صدق و خلوص جیسی نیک عادات ہوں یہ اب بھی ویسی ہیں اور اتنی ہی ہیں ان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آج بھی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ سکون اور اطمینان کی تلاش ہے، آج بھی انسان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ دنیا میں اسے امن و امان کی فضا میسر آ جائے، آج بھی انسان اس خواب کی تعبیر میں ہے کہ اسے ایسا معاشرہ نصیب ہو جائے جہاں اس کے ساتھ حق تلفی نہ ہو ، جہاں سب برابر ہوں، وہ جس معاشرے میں رہے وہاں لوگ اس کے مونس و غمخوار ہوں، اس معاشرے میں عدل و انصاف ہو، حریت و مساوات ہو، فرداور معاشرے میں باہم ہم آہنگی ہو۔ یہ سب ممکن تو ہے لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی خود انسان ہی ہے، ہر انسان دوسرے انسان سے باہم مربوط ہے، ان کے آپس میں دسیوں طرح کے مختلف نوعیت کے تعلقات قائم ہیں، ہر انسان کے جذبات، احساسات، خواہشات اور ضروریات میں بھی فرق ہے، اس وجہ سے جگہ جگہ مفادات اور اغراض آپس میں ٹکراتی ہیں، ایسے میں کسی کو بھی اوپر نیچے نہ کرتے ہوئے حدِ اعتدال پر قائم رہنا اور کسی کو دوسرے پر ترجیح نہ دینا بہت نازک مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کا حل نہ تو سائنس دے سکتی ہے نہ ہی کسی کے افکار و خیالات، بلکہ اس کیلئے عملی نمونہ چاہیے، ایسی ذات چاہیے جس نے ایسا کر کے دکھایا ہو اور جس کے ماننے والے ایسا کر سکتے ہوں۔ اور وہ نمونہ ذاتِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے۔ اسی لیے قرآنِ پاک انہیں بہترین نمونہ قرار دیتا ہے۔ تو اب دنیا میں جہاں بھی انسان موجود ہیں اور انسانی آبادی پائی جاتی ہے ، وہاں اطمینان و سکون سے لبریز برابری کی زندگی کیلئے دینِ نبی کی پیروی اور سیرت الرسول کی اطاعت و اتباع لازم ہے۔

ان چند امور کوسامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آج سیرتِ طیبہ پر مبنی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایسے لڑیچر کی شدید ضرورت ہے جو عام انسانوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت سے روشناس کرے اور انہیں اپنے کردار کو سیرت کے حقیقی رنگ میں ڈھالنے کی تحریک دے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیرت اور پیامِ سیرت کو دلچسپ پیرائے،عمدہ اور جدید طرزِ تحریر میں پیش کیا جائے ، تاکہ ایک مسلمان اس پر عمل کر کے گفتار کے غازی کے ساتھ ساتھ کردار کا بھی غازی بن سکے۔ الحمدللہ دعوتِ اسلامی کے شعبہ المدینۃ العلمیہ کا ذیلی شعبہ سیرتِ مصطفیٰ اس اہم کام کیلئے کوشاں ہے۔

از قلم:مولانا محمد حامد سراج مدنی عطاری

ذمہ دار شعبہ سیرتِ مصطفیٰ


شمائلِ ترمذی کا تعارف:

شمائلِ رسول پر کئی کتب تصنیف کی گئی ہیں، لیکن اس سلسلہ میں لکھی گئی اولین تصانیف میں سےا یک امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”الشمائل المحمدیہ“ ہے۔ یہ امام ترمذی کا امت پر احسانِ عظیم ہے کہ آپ نے عاشقانِ رسول کیلئے ایسی عظیم کتاب تالیف فرما کر فرقت کے ماروں کو لذتِ وصال سے آشنا کر دیا۔ اب وہ جانِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھ کر ہنس رہے ہیں، خوش ہو رہے ہیں، غم ناک ہیں اور رو بھی رہے ہیں۔ یقیناًآقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک تذکار عاشقوں کیلئے دل و جان کا قرار ہیں۔ ان کی زلفِ دوتا کی بات ہو تو مشامِ جاں معطر ہو جاتے ہیں، رخِ روشن کا تذکرہ ہو تو دل کی کلیاں کھل اٹھتی ہیں، مبارک مسکان کا ذکر ہو تو انگ انگ مسرت و انبساط میں جھومنے لگتا ہے اور جب گزر اوقات پر نظر پڑتی ہے تو اشک رواں ہو جاتے ہیں۔

مالکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں

دوجہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں

شمائل پر کثیر کتب موجود ہیں لیکن جو شہرتِ دوام اور مقبولیتِ عام اللہ پاک نے امام ترمذی کی اس کتاب کو عطا فرمائی ہے وہ اور کسی کتاب کو حاصل نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق امام ترمذی نے 56 ابواب میں 97 صحابہ و صحابیات سے روایت شدہ 415([1]) احادیث اس طرح سے لائی ہیں کہ لعل و گہر کی ایک خوبصورت لڑی بن گئی ہے۔ ان میں سے تین چوتھائی احادیث وہ ہیں جو امام ترمذی نے اپنی جامع میں بھی ذکر کی ہیں جبکہ تقریباً ایک چوتھائی احادیث وہ ہیں جو جامع ترمذی میں نہیں ہیں صرف شمائلِ ترمذی کا حصہ ہیں۔ حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا ہی خوب فرمایا: وَمِنْ أَحْسَنِ مَا صُنِّفَ فِي شَمَائِلِهِ وَأَخْلَاقِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابُ التِّرْمِذِيِّ الْمُخْتَصَرُ الْجَامِعُ فِي سِيَرِهِ عَلَى الْوَجْهِ الْأَتَمِّ بِحَيْثُ إِنَّ مُطَالِعَ هَذَا الْكِتَابِ كَأَنَّهُ يُطَالِعُ طَلْعَةَ ذَلِكَ الْجَنَابِ. وَيَرَى مَحَاسِنَهُ الشَّرِيفَةَ فِي كُلِّ بَابٍ. وَقَدْ سَتَرَ قَبْلَ الْعَيْنِ أَهْدَابَهُ وَلِذَا قِيلَ: وَالْأُذْنُ تَعْشَقُ قَبْلَ الْعَيْنِ أَحْيَانًا (جمع الجوامع، 1/2) یعنی آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اخلاق اور عاداتِ مبارکہ پر امام ترمذی کی (شمائل ترمذی) بہت ہی زبردست کتاب ہے۔ مختصر، جامع اور مکمل۔ مطالعہ کریں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے سیرتِ طیبہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آپ کی سیرتِ طیبہ کا ہر گوشہ نظروں میں آجاتا ہے۔ سچ ہے کہ کان آنکھ سے پہلے محبت کے اسیر ہو جاتے ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے: وَالْأُذْنُ تَعْشَقُ قَبْلَ الْعَيْنِ أَحْيَانًا

شمائلِ ترمذی پر کام کا جائزہ:

ہماری معلومات کے مطابق اس کتاب کے اردو، عربی، انگریزی، فرانسیسی، فارسی، سندھی اور ترکی میں متعدد ترجمے بھی ہوچکے ہیں اور کثیر شروحات بھی لکھی گئی ہیں۔ ہمارا مقصود تو اس کتاب پر علمائے اہلسنت کے اردو زبان میں کئے جانے والےکام کاجائزہ ہے لیکن محققین کی دلچسپی کیلئے حروفِ تہجی کے اعتبار سے دیگرزبانوں([2]) کی شروحات، اختصارات اور تراجم کے نام بھی پیش کئے جا رہے ہیں۔ مؤلف، سنِ اشاعت اور مصدر کا نام بھی پیش ہے:

نمبر شمار

نام کتاب

مؤلف/شارح

مکتبۃ/سن اشاعت/مقام

مصدر

1.

الاتحاف الربانیۃ بشرح الشمائل المحمدیۃ

احمد بن عبدالجواد الدومی

1381، مکتبۃ التجاریۃ، مصر

مطبوعہ

2.

اسنی الوسائل بشرح الشمائل

العلامۃ اسماعیل بن محمد العجلونی

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

3.

اعذب المناہل علی الشمائل

احمد بن جعفر الکتانی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص95

4.

اختصار الشمائل

شیخ الاسلام عبداللہ بن حجازی الشرقاوی

ذکرہ الکتانی فی فہرس الفہارس

5.

اوصاف النبی

الاستاذ سمیع عباس

طبع بدار الجیل و مکتبۃ الزہراء

مطبوعہ

6.

اشرف الوسائل

اسماعیل مفید بن علی العطار الرومی

ذکرہ سزکین

7.

اشرف الوسائل الی فہم الشمائل

العلامۃ احمد بن محمد بن حجر المکی الہیتمی

دارالکتب العلمیۃ، 1998

مطبوعہ

8.

اشرف الشمائل فی شرح الشمائل

محمد صفی اللہ بن ہبۃ اللہ ترک دہلوی

ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015

9.

اشرف الوسائل شرح الشمائل

الشیخ سیف اللہ بن نور اللہ بن نور الحق بن عبدالحق الدہلوی

10.

اقرب الوسائل فی شرح الشمائل

الحافظ الامام محمد بن عبدالرحمن السخاوی

فہرس الفہارس ،2/990

11.

اکمل الوسائل لرجال الشمائل للترمذی

عبدالوہاب المدراسی

12.

انجح الوسائل فی شرح الشمائل

قاسم بن محمد بن احمد

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ،ص47

13.

ترجمۃ رجال الشمائل للترمذی

السيد علي كبير الاله آبادي

14.

ترجمۃ الشمائل للترمذی

(فارسی زبان میں)

الشیخ محمد سلام اللہ رام پوری

محدثِ اعظم حجاز کی وفات اور سعودی صحافت، ص426

15.

ترجمہ شمائل النبویۃ و الخصائل المصطفویۃ

(فارسی زبان میں)

محمد مصلح الدین لاری

ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015،ص7

16.

ترجمہ شمائل النبیﷺ

(فارسی زبان میں)

حاجی محمد کشمیری

ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015،ص7

17.

تحفۃ نظامیہ در شرح شمائل النبی

(فارسی زبان میں)

نظام الدین محمد بن محمد رستم علی بن عبداللہ الخجندی ثم الامن آباد

ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص7

18.

ترجمہ شمائل النبی

(فارسی زبان میں)

دین محمد

ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص7

19.

ترجمۃ الشمائل للترمذی

(فرنچ زبان میں)

شیخ مروان جردلی

طبع بدار ابن حزم

محدثِ اعظم حجاز کی وفات اور سعودی صحافت، ص425

20.

تحفۃ الاخیار علی شمائل المختار

ابوالحسن علی بن احمد الحریشی الفاسی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص52

21.

تعلیق الحمائل فیما اغفلہ شراح الشمائل

ابو عبداللہ بن طاہر الکرسیفی التازی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص78

22.

تفسیر الفاظ الترمذی

مؤلف مجہول

ذکرہ فؤاد سزگین

23.

تہذیب الشمائل

شیخ محمد بن عمر بن حمزۃ الانطاکی

ذکرہ حاجی خلیفۃ فی کشف الظنون

24.

تہذیب الشمائل

الدکتور مصطفی البغا

25.

تحقیق و تخریج و تعلیق علی الشمائل المحمدیۃ([3])

الشیخ عبدہ علی کوشک

مکتبۃ نظام یعقوبی الخاصۃ، 2021 ؁ء،بحرین

مطبوعہ

26.

جمع الوسائل فی شرح الشمائل([4])

العلامۃ الامام علی بن سلطان القاری

دارالمعرفۃ، مصطفی البابی مصر، جامعۃا م القری 2008

مطبوعہ

27.

حاشیۃ باللغۃ الفارسیۃ

راجی حاج الحرمین تلمیذ علی ہمزائی

ذکرہا فؤاد سزکین

28.

حاشیۃ علی الشمائل

القاضی عبدالقار بن محمد اکرم رامپوری

29.

حاشیۃ علی الشمائل

محمد بن الطیب الفاسی المدنی

ذکرہا الکتانی فی فہرس الفہارس

30.

حاشیۃ علی شرح الشمائل

محمد بن محمد النیریزی

ذکرہا البغدادی فی ایضاح المکنون

31.

حواشی عبدالکبیر الکتانی علی الشمائل

عبدالکبیر بن محمد الحسنی الادریسی الکتانی

ذکرہا الکتانی فی فہرس الفہارس

32.

الحلیۃ المبارکۃ

ذکرہ بروکلمان

33.

حواشی علی متن الشمائل و شرحہا لابن حجر المکی الہیتمی

علی بن علی الشبراملّسی

ذکر ہا الزرکلی فی الاعلام

34.

ختم الشمائل

العلامۃ عبدالکبیر بن محمد الکتانی

ذکرہ الکتانی فی فہرس الفہارس

35.

دررالفضائل شرح الشمائل

الشیخ علیم الدین بن فصیح الدین القنوجی

36.

روض الازہار فی شمائل النبی المختار

عبدالسلام بن احمد العمرانی الفاسی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص91

37.

زہر الخمائل علی الشمائل

الحافظ عبدالرحمن بن ابو بکر السیوطی

مکتبۃا لقرآن، مصر، 1988

مطبوعہ

38.

شرح باللغۃ الترکیۃ

شیخ حسام الدین نقش بندی

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

39.

شرح باللغۃ الفارسیۃ

حاجی محمد الکشمیری

40.

شرح باللغۃ الفارسیۃ

محمد بن صلاح بن جلال الاری

ذکرہ حاجی خلیفۃ

41.

شرح باللغۃ الفارسیۃ

لیس بمعلوم

ذکرہ السزکین

42.

شرح باللغۃ الفارسیۃ

الشیخ محمد عاشق بن عمر الحنفی

43.

شرح باللغۃ الفارسیۃ

الشیخ محمد فیض بن محمد البلگرامی

44.

شرح

شیخ ابو عبداللہ محمد الحجیج التونسی

ذکرہ الشیکخ مکخلوف فی شجرۃ النور الزکیۃ

45.

شرح الشمائل

محمد بن عبدالرحمن بن زکری المغربی الفاسی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص55

46.

شرح

فقیہ المالکی ابو البرکات احمد بن محمد الشہیر بالدردیر

ذکرہ الشیکخ مکخلوف فی شجرۃ النور الزکیۃ

47.

شرح الشمائل

ابوالعباس احمد بن الطالب بن سودۃ

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص89

48.

شرح

عصام الدین ابراہیم بن محمد بن عرب شاہ الاسفرائینی

ذکرہ سیزکین و حاجی خلیفۃ

49.

شرح

قاضی ابراہیم بن مصطفی الوحدی

ذکرہ سیزکین

50.

شرح

احمد بن خیر الدین الکوز لحصاری

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

51.

شرح

العلامۃ الامام احمد بن محمد القسطلانی

ذکرہ الکتانی

52.

شرح

حسن بن عبداللہ الحبشی

ذکرہ البغدادی فی ہدیۃ العارفین

53.

شرح البکار المالکی

مؤلف مجہول

ذکرہ بروکلمان

54.

شرح

عبداللہ الازہری الحموی الشافعی

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

55.

شرح

سعید بن محمد الخادمی

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

56.

شرح

سلطان بن احمد المصری المزاحی

ذکرہ الزرکلی فی الاعلام

57.

شرح

العلامۃ عبداللہ بن حجازی الشرقاوی

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

58.

الحواشی النادرۃ علی الشمائل

مولانا عبدالنبی الہندی

59.

شرح الشمائل النبویۃ

ابو العلا ادریس بن محمد الحسینی العراقی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص63

60.

شرح علی الشمائل

ابو حامد العربی بن احمد بن الشیخ التادوی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص66

61.

شرح مختصر للشمائل ماخوذ من شرحی الہیثمی و جسوس

محمد بن سعد بن محمد بن سعید الحسنی التازی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص83

62.

شرح

علی العدوی

ذکرہ سزگین

63.

شرح

الشیخ حسن آفندی

انوارِ غوثیہ،ص6

64.

شرح صغیر

محمد عبدالرؤوف المناوی

ذکرہ الکتانی فی فہرس الفہارس

65.

شرح کبیر

الحافظ المناوی

ذکرہ الکتانی فی فہرس الفہارس

66.

شرح

قاضی عبداللہ نجیب العینتابی

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

67.

شرح

قاضی محمد بن احمد الحریشی

ذکرہ البغدادی فی ہدیۃ العارفین

68.

شرح

ابو عبداللہ بن محمد البنانی

ذکرہ سزگین

69.

شرح

عبدالرحمن بن احمد الدمشقی

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

70.

شرح

محمد بن شاکر العقادالمصری

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

71.

شرح

شمس الدین محمد الحنفی

ذکرہ حاجی خلیفۃ فی کشف الظنون

72.

شرح

محمد بن صلاح بن جلال اللاری

ذکرہ حاجی خلیفۃ فی کشف الظنون

73.

شرح

نسیم الدین محمد میرک شاہ

ذکرہ سزگین

74.

شرح

محمد شروانی البخاری

ذکرہ سزگین

75.

شرح

الشیخ المفتی نورالحق بن الشاہ عبدالحق المحدث الدہلوی

انوارِ غوثیہ،ص6

76.

شرح

العلامۃ بدرالدین محمد بن یوسف الحسنی

ذکرہ الزرکلی فی الاعلام

77.

شرح

الشيخ محمد حسين اليزدي الدهلوي

78.

شرح بالفارسیۃ

حسین بن باقر الہروی،نثر الشمائل صنفہ لسلیم بن اکبر شاہ

79.

شرح بالفارسیۃ

حسین بن باقر الہروی،نظم الشمائل، صنفہ لمراد بن اکبر شاہ

80.

شرح شمائل النبی

(فارسی زبان میں)

عبدالہادی بن محمد معصوم

قبل از 1108 مطابق 1969

ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص12

81.

شرح شمائل الترمذی

محمد بن التہامی گنون

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص93

82.

شرح الشمائل

ابوالشتاء ابن الحسن الصنہاجی الفاسی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص97

83.

شرح

مؤلف مجہول

ذکرہ سزگین و بروکلمان

84.

شمائل ترمذی

(اردو ترجمہ)

محمد جاوید عالم

ادارہ پیغام القرآن لاہور

85.

شرح شمائل ترمذی

(فارسی زبان میں)

حکیم شیر علی احمد آبادی

86.

شرح شمائل ترمذی

(فارسی زبان میں)

مبارک بن کبیر بن محمد انصاری ملتانی

ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص13

87.

شرح شمائل النبی

(فارسی زبان میں)

شیخ شہاب الدین احمد

ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص12

88.

شرح شمائل ترمذی

(فارسی زبان میں)

محمد مسیح ہمت خان بن اسلام خان بہادر علوی حسینی بدخشانی

ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص13

89.

شرح شمائل ترمذی

(فارسی زبان میں)

مصلح الدین محمد بن صلاح بن جلال بن کمال بن محمد لاری شافعی

ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص13

90.

شرح

مؤلف مجہول

نسخۃ فی متحف ہراۃ بافغانستان

91.

صلات الشمائل و کنز الفضائل

ذکرہ بروکلمان

92.

طرر علی الشمائل

العارف ابو زید عبدالرحمن الفاسی

93.

عنوان الفضائل فی تلخیص الشمائل

محمد بن مصطفی البکری الفلسطینی

ذکرہ الدکتور المنجد

94.

العطر الشذی فی شرح مختصر الشمائل الترمذی

الفقیہ عبدالمجید الشرنوبی الازہری

دار البیروتی، الطبعۃ الثانیہ 2009 ؁ ء

مطبوعہ

95.

الفتح الايمن المقبول و الشرح المهدي لاشرف رسول

الفاضل محمود ابن عبدالمحسن

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

96.

فتیۃ السائل فی اختصار الشمائل

محمد بن جعفر الکتانی

ذکرہ الدکتور المنجد

97.

الفوائد الجلیلۃ البہیۃ علی الشمائل المحمدیۃ([5])

المحدیث محمد ابن قاسم بن جسوس

طبع فی بولاق و فی القاہرۃ

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص58

98.

فضائل النبی ترجمہ شمائل ترمذی

غلام محمد جعفر صدیقی

قاموس الکتب ، 1/761

99.

كتابة علي الشمائل

الشیخ علی بن زین الدین الاجہوری

ذکرہ الدکتور المنجد فی معجم ما الف عن النبی ﷺ

100.

کشف الشمائل شرح شمائل النبی

(فارسی زبان میں)

ابراہیم معصوم بن شیخ زین اولیائی چشتی

ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص13

101.

کشف الفضائل

نور محمد الکاشانی

ذکرہ برکلمان

102.

مختار من شرح الحسن بن اسحاق بن مہدی

ذکرہ سزگین

103.

المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ

شیخ الازہر العلامۃ ابراہیم محمد الباجوری

مطبوع بالقاہرۃ و مکتبۃ مصطفی البابی

مطبوعہ

104.

المواہب المحمدیۃ بشرح الشمائل الترمذیہ

سلیمان بن عمر المعروف بالجمل

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

105.

معین الفضائل فی شرح الشمائل

الشیخ محمد بن فاضل بن محمد حامد العبیدی الحجازی

106.

مختصر

القاضی محمد بن احمد الحریشی الفاسی

ذکرہ بروکلمان

107.

المورد الہائل علی کتاب الشمائل

محمد عبدالحی الکتانی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص101

108.

المختصر فی الشمائل المحمدیۃ و شرحہا

الاستاذ محمود سامی بک

طبع بالقاہرۃ

109.

منیۃ السائل خلاصۃ الشمائل

علامۃ محمد عبدالحی الکتانی

طبع في مركز التراث الثقافي المغربي الدار البيضاء الطبعة الاولى 1426 هـ

110.

نشر الشمائل لنشر الشمائل

ابو اسحاق ابراہیم بن محمد التادلی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص86

111.

نظم الشمائل بالترکیۃ

مصطفی بن الحسین المعروف مظلوم زادہ

جہود العلماء فی بیان الشمائل النبویۃ،ص11

112.

نشرالفضائل فی شرح الشمائل

ابو الخیر فضل اللہ بن روزبہان الشیرازی

ذکرہ سزگین

113.

وسیلۃ الفقیر المحتاج فی شرح شمائل صحیح اللواء والتاج

ابو عبداللہ محمد بن بدرالدین الشاذلی

الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص68

114.

الوسیلۃ الی شفاعۃ النبیﷺ

تلخیص الشفاء للعیاض و الشمائل للترمذی

الشیخ محمد بن فضل اللہ البرہانپوری

115.

الوفا لشرح شمائل المصطفیٰ

الشیخ علی بن ابراہیم الحلبی

ذکرہ البغدادی فی ایضاح المکنون

شمائلِ ترمذی پر علمائے اہلسنت کا کام:

سیرتِ طیبہ کی اصل زبان تو عربی ہے لیکن اردو نے بھی اس سے خوب کشکول بھرا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شمائل پر ایسی عظیم کتاب پر کام کا بیان ہو اور اردو زبان تہی دامن رہ جائے۔ اس زبان میں شمائل ترمذی کے ترجمے بھی ہوئے ہیں اور شروحات بھی لکھی گئی ہیں، اردو زبان میں اہلسنت و جماعت کے اب تک ہونے والے کام کا مختصر جائزہ پیشِ خدمت ہے :

1. سید باباقادری کی سراج النبوۃ (قلمی) سینٹرل اسٹیٹ لائبریری، حیدر آباد دکن ہند۔

2. جلال الدین احمد قادری کی شمائلِ محمدیہ، مطبوعہ ممبئی۔

3. مولانا نور احمد پسروری ثم امرتسری کا ترجمہ شمائلِ ترمذی، عربی متن کا حامل 88صفحات پر مشتمل یہ رسالہ امرتسر الیکٹرک پریس سے 1340 ؁ھ میں شائع ہوا۔ (مراۃ التصانیف، ص29)

4. قیام الدین احمد کی شمائلِ محمدیہ، کتب خانہ مدراس([6])

5. مولانا کرامت علی صدیقی جونپوری کی انوارِ محمدی ترجمہ شمائلِ ترمذی مطبوعہ میرٹھ 1941 ؁ء

6. علامہ سید کفایت علی کافی([7]) علیہ الرحمہ کا منظوم ترجمہ بنام بہارِ خلد([8]) اس کا جو نسخہ ہمارے پاس پی ڈی ایف میں ہے وہ نعیمی کتب خانہ سے شائع ہوا ہے جو 124 چھوٹے صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں عربی متن میں حدیث جبکہ خانوں میں اس کا منظوم ترجمہ پرانی اردو میں شامل ہے۔ 124 صفحات کے اس منظوم ترجمہ کے بعد 40 صفحات پر مشتمل ”پاکیزہ قول فیصل در استحسانِ صندل“ بھی کتاب کا حصہ ہے۔

7. علامہ محمد امیر شاہ صاحب قادری گیلانی کی شرح انوارِ غوثیہ۔ ہمارے پاس جو نسخہ ہےوہ ضیاء الدین پبلی کیشنز کھارادر کراچی سے شائع ہوا ہے۔ اس کے صفحات کی تعداد 603 ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1972 ؁ء میں عظیم پبلشنگ ہاؤس پشاور سے شائع ہوا تھا۔ اپنی اولین اشاعت میں یہ کتاب جہازی (11بائی9)سائز کے صفحات پر مشتمل تھی جسے بعد میں سکوڑ کر چھاپا گیا ہے۔ اس ایڈیشن میں خاصے کی چیز ”افتتاحیہ“ ہے جو پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد صاحب علیہ الرحمہ کے قلم سے ہے۔ اس افتتاحیہ میں کتاب کی خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے: مصنف کے جدّ اعلیٰ حضرت شاہ محمد غوث([9]) پشاوری کا عربی رسالہ اصولِ حدیث مع اردو ترجمہ کتاب کے ساتھ ہے۔ شاہ صاحب کی مادری زبان پشتو ہے لیکن ترجمہ و شرح سلیس اردو میں رقم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عربی حل لغات، راویوں کے مستند حالات، ترجمہ، شرح اور مکمل عربی متن، ہر باب کا خلاصہ اور مقصد، اردو، عربی اور فارسی اشعار یہ سب کتاب کا حصہ ہیں۔ مخالفین کے اقوال بھی شاملِ کتاب ہیں جبکہ مختلف فقہی، طبی اور عارفانہ نکات بھی کتاب کا حصہ ہیں۔

8. حضرت علامہ صدیق ہزاروی صاحب کا ترجمہ شمائلِ ترمذی، برکاتی پبلشرز کراچی سے شائع ہے،چھوٹے سائز کے 160 صفحات پر مشتمل ہے۔ شروع میں رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری صاحب کا حجیتِ حدیث پر مقدمہ بھی ہے۔

9. حضرت علامہ ناصر الدین ناصر مدنی صاحب کی شرح شمائل ترمذی۔ یہ 712 صفحات پر مشتمل ہے۔ہماری دانست میں فاضل مصنف نے ایک طرح کی احادیث کو عنوان کی شکل دے کر اس سے متعلق کثیر مواد جمع کر دیا ہے۔

10. امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی اور اور ان کا شمائل ترمذی کا تحقیقی مطالعہ۔ یہ مقالہ ایم اے کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں 1990 میں لکھا گیا ۔ مقالہ نگار منظور حسین ہیں جبکہ نگران ڈاکٹر حمیداللہ عبدالقادر ہیں۔

11. برصغیر میں شمائل النبوی پر ہونےو الے کام کا تاریخی و تنقیدی جائزہ۔ یہ مقالہ پی ایچ ڈی کیلئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں 2009 میں لکھا گیا۔ 

12. خطیبِ سحر بیاں، علامہ مولانا ابوالبیان پیر محمد سعید احمد مجددی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح شمائل ترمذی لکھنا شروع کی تھی جو نامکمل رہ گئی تھی۔ اندازہ ہے کہ یہ شرح بھی البینات شرح مکتوبات کی طرز پر ہوتی۔

13. حضرت مولانا سید عماد الدین صاحب زید مجدہ کی العطاء الصمدیۃ فی شرح الشمائل المحمدیۃ۔ ان سطور کے لکھتے وقت ساڑھے تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ اعلیٰ حضرت سے اشاعت کے مراحل میں ہے۔ فاضل مصنف کے بقول عربی متن کے ساتھ ترجمہ اور ضروری مقامات پر حدیث کے نیچےتوضیح بھی دی گئی ہے، جبکہ ہر باب کے اختتام پر اس کی جملہ احادیث پر شرح کی گئی ہے، اصلاحی پہلوؤں کو بھی مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ کتاب معلم متعلم اور عوام خواص ہر ایک کیلئے مفید رہے اس کا خیال رکھا گیا ہے۔

شمائلِ ترمذی پر کام سے متعلق تجاویز:

ممکنہ طور پر ہم نے اہلسنت و جماعت کی طرف سے شمائلِ ترمذی پر اب تک ہونے والے اردو زبان کے کام کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس فہرست سے یہ آشکار ہوتا ہے کہ اہلسنت کی طرف سے شمائل ترمذی پر کافی کام ہوا ہے۔ لیکن اس کام کا اکثر حصہ پچھلی صدی میں منصۂ شہود پر آیا ہے۔ اہلسنت کی طرف سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ، مختصر، جامع اور سلیس اردو شرح کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔ اے کاش کہ کوئی مردِ مجاہد کمر باندھے اور اس ضرورت کو پورا کرے۔ شمائل شریف کی شرح کے کیا کیا انداز ہو سکتے ہیں اس پر کچھ تجاویز پیشِ خدمت ہیں۔ قدیم و جدید کئی شروحاتِ شمائل دیکھنے کے بعد یہ تجاویز گوش گزار کی جا رہی ہیں۔ من و عن ان تجاویز پر عمل نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی اس کی فرمائش، مقصود فقط راہ دکھانا ہے، مسافر جب جادہ پیمائی کرتا ہے تو حکمتِ عملی میں ضروری تبدیلی کرتا ہی رہتا ہے۔

پہلی تجویز:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صفات سے متعلق ابواب قائم ہوں جو امام ترمذی نے قائم کئے ہوئے ہیں۔ ان میں اولا اس صفت کا تعارف ہو، پھر نبوی صفت کا تعارف ہو اور بطور استدلال شمائل ترمذی کی متعلقہ ابواب کی احادیث ذکر کی جائیں۔ ضرورتاً حل لغات حاشیے میں اور ضروری تشریح ہر حدیث کے بعد دی جائے۔ (اس سلسلے میں ڈاکٹر وہبہ زحیلی کی شمائل پر کتاب ہے۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بہترین اور زبردست کام ہے اس کے ضروری مباحث کو فوکس کیا جا سکتا ہے۔ )

دوسری تجویز:ایک انداز یہ بھی ہو سکتا ہےکہ حدیث، اس کا ترجمہ، حل لغات، اور سلیس انداز میں حدیث کی شرح اشرف الوسائل اور جمع الوسائل وغیرہ کی طرز پر ہو۔ ضرورتاً واقعات بھی شامل کئے جائیں۔

تیسری تجویز:ایک انداز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک باب کی جملہ احادیث مع ترجمہ اور ضروری شرح کے ایک ساتھ بیان کر دی جائیں۔ باب کے اختتام پر تمام فوائد و احکام جو باب سے ثابت ہوں بیان کر دیئے جائیں۔

چوتھی تجویز:ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شمائل ترمذی کی ایسی شرح ہو جس میں ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی کتاب کے ضروری اور عام فہم مباحث خلاصے بنا کر ذکر کر دیئے جائیں۔ انداز کتاب وہی ہو جو کتبِ احادیث کی شروحات کا مروج ہے۔

متفرق ہدایات:

مذکورہ بالا تجاویز کے ساتھ ساتھ اگر ان ہدایات کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے تو کام کی وقعت اور افادیت کئی گنا بڑھ جائےگی۔

1) اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کےمعروف سلام(مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام) میں اعضائے مبارکہ سے متعلق اشعار ضروری وضاحت و تفہیم کے ساتھ جابجا ذکر جائیں۔

2) حدائقِ بخشش ([10])میں موجود دیگر نعتیہ اشعار جہاں مختلف عادات کا بیان ہے انہیں بھی متعلقہ مقامات پر کتاب کا حصہ بنایا جائے۔اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

جہاں آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دل نشیں و دل ریز تبسم کا بیان ہو وہاں یہ شعر ہو:

جس تبسّم نے گلستاں پہ گرائی بجلی

پھر دِکھا دے وہ ادائے گلِ خنداں ہم کو

جہاں آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خرامِ ناز کی بات ہو تو وہاں یہ شعر ہو:

عرش جس خوبیِ رفتار کا پامال ہوا

دو قدم چل کے دِکھا سروِ خراماں! ہم کو

آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جمالِ جہاں آرا کی بات ہو تووہاں یہ اشعار ہوں:

حسن کھاتا ہے جس کے نمک کی قسم

وہ مَلیحِ دِل آرا ہمَارا نبی

جِس کا حُسن اللہ کو بھی بَھا گیا

ایسے پیارے سے محبت کیجیے

3) عوام الناس سے متعلق مباحث و موضوعات پر فوکس کیا جائے، جیسے عمامہ شریف کے ذکر پر عمامے کتنے رنگوں کے تھے، سائز کیا ہوتا تھا، کم از کم کتنے پیچ عمامہ میں ہونے چاہئیں ، کس طرح باندھنا چاہیے وغیرہ وغیرہ یہ معلومات شامل ہوں۔

4) غیر ضروری علمی مباحث سے اعرض جبکہ بہت ضروری علمی مباحث کو خلاصے کی صورت میں ذکر کیا جائے۔

5) ہر ہر وصف سے متعلق واقعات و روایات بھی بطور استشہاد پیش کئے جا سکتے ہیں۔

6) قرآنِ پاک میں اعضائے مبارکہ کا ذکر ہے ان آیات کو ضروری تفسیر کے ساتھ شامل کیا جائے۔

7) کتاب میں جہاں بھی کسی صحابی کا ذکر ہو بیانِ روایت یا دورانِ حدیث، ان کا دو تین لائنوں پر مشتمل مختصر تعارف حاشیے میں شامل کیا جائے۔

8) شمائل میں بعض استعمال کی اشیا کا مختصر ذکر ہے یا ان کی تعداد کم ہے، اس پر اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

9) استعمال کے کھانوں کے بعض طبی فوائد بھی ذکر کئے جا سکتےہیں۔

10) بعض عاداتِ مبارکہ ایسی ہیں کہ جدید سائنسی تحقیقات سے ان کے کثیر فوائد سامنے آئے ہیں، وہ تحقیقات بھی شامل کی جا سکتی ہیں۔

یہ دس نکات پیش کئے گئے ہیں، باقی کام کو کام سکھاتا ہے، کام کرنے والے کے ذہن میں اس سے اچھےا ور بہترین آئیڈیاز آ سکتے ہیں۔

مولانا محمد حامد سراج مدنی عطاری

ذمہ دار: شعبہ سیرتِ مصطفیٰ



[1]مکررات ہٹا کر یہ تعداد 397 بنتی ہے۔ ان میں سے 313وہ ہیں جو جامع ترمذی میں بھی موجود ہیں، بقیہ 84 وہ ہیں جو صرف شمائل کا حصہ ہیں۔

[2]ابتدا میں ہم نے صرف علمائے اہلسنت کے اردو کام کا احاطہ کیا تھا۔ پھر نگرانِ مجلس المدینۃ العلمیہ حضرت مولانا حاجی ابو ماجد محمد شاہد عطاری حفظہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد اور رہنمائی پر دیگر زبانوں کی شروحات بھی جمع کی گئی ہیں۔انہوں نے شیخ عبدہ علی کوشک کی شرح عنایت فرمائی، شیخ نے اس میں تقریباً 72 شروحاتِ شمائل اور کئی تراجمِ شمائل کے نام ذکر کئے ہیں، اس تعداد پر مزید اضافہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا، لیکن رکنِ شوریٰ نے مزید کئی کتب کی طرف رہنمائی فرمائی، جن سے مراجعت کی بدولت ہم 130 کے قریب شروحات و تراجم وغیرہ کے نام ذکر کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ فجزاہ اللہ خیرا کثیرا

[3]… یہ عربی زبان میں بہت زبردست شرح ہے۔ شارح نے ابتدا میں شمائلِ ترمذی پر ہونے والے کام کا مقدور بھر احاطہ کرنے کی سعی کی ہے اور 72 شروحات کے نام ذکر کئے ہیں۔ہم نے مزید تتبع سے یہ تعداد 104 تک پہنچا دی، پھر یہ فہرست ملاحظہ کیلئے فاضلِ جلیل، برادرِ مکرم مولانامحمد عدنان احمد مدنی چشتی عطاری صاحب کو پیش کی۔ ان کی مشاورت کے بعد یہ تعداد 109 تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے بعد بعض کتب کی عدم دستیابی پر کام روک دیا گیا ، کتب میسر آنے پر یہ تعداد 130 تک پہنچ چکی ہے۔

[4]… حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی زبردست شرح ہے، اس کے کئی ایڈیشن شائع ہونا اس کی مقبولیت کی دلیل ہیں، اس شرح پر امامِ اہلسنت ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کا حاشیہ بھی ہے جو غیر مطبوعہ ہے۔ (مراۃ التصانیف، ص32)

[5]اس شرح کے دو اختصار بھی ملتے ہیں، ایک کا نام ہے: اختصار شرح جسوس علی الشمائل۔ یہ عبدالرحمن بن ابراہیم التغرغرتی کی طرف موسوم ہے۔ (الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ للترمذی، ص74) جبکہ دوسرا نام ہے : اختصار شرح الشمائل لجسوس۔ مصنف ہیں محمد بن حسن الحجوی۔ (الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ للترمذی، ص99)

[6]اردو تراجم و شروح کی مذکورہ بالا تمام تفصیلات ہم نے قاموس الکتب اردو (از انجمن ترقیِ اردو کراچی)سے حاصل کی ہیں۔

[7]علامہ کفایت علی کافی علیہ الرحمہ نے 1857 ؁ء کی جنگ آزادی میں دہلی و دیگر مقامات پر مجاہدینِ آزادی کی کمان سنبھالی۔ بالآخر 30 اپریل 1858 ؁ء کو انہیں چوک مراد آبادمیں سولی پر چڑھایا گیا۔ نعت گوئی میں کما ل درجہ رکھتے تھے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ ان کی نعت گوئی سے بہت متاثر تھے، ایک شعر میں انہیں نعت گو شعراء کا بادشاہ اور خود کو وزیراعظم قرارد یا ہے۔

[8]… بہارِ خلد کا پہلا ایڈیشن 1845ء میں کانپور ہند سے شائع ہوا۔ دوسرا اور تیسرا ایڈیشن بالترتیب 1847اور 1871 میں لکھنؤسے شائع ہوا، 1876 میں دہلی سے بھی ایک ایڈیشن شائع ہوا۔ پھر ایک عرصہ بعد ایڈیشن 1935 میں مراد آباد سے شائع ہوا۔ بہارِ خلد کا ایک خطی نسخہ جو علامہ کافی علیہ الرحمہ کی ملکیت تھا حکیم سعد اللہ خان متوفی( 1907) کے پوتے پروفیسر محمد ایوب قادری صاحب کے پاس ہے۔ (انوارِ غوثیہ ، ص7)

[9]… حضرت شاہ محمد غوث پشاوری ثم لاہوری محدّثِ وقت تھے، حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی کے معاصرین میں سے تھے، آپ کا علمی شاہکار بخاری شریف کی شرح ہے۔(انوارِ غوثیہ، ص8)

[10]… دعوتِ اسلامی کی مجلس آئی ٹی نے المدینۃ العلمیہ کے تعاون سے حدائق بخشش کی ایک ایپ بنائی ہے جس میں سرچ کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ اس کی مدد سے متعلقہ اشعار ڈھونڈنا کافی آسان ہوگیا ہے، جبکہ اہلِ ذوق کو ایسے اشعار حفظ ہی ہوں گے۔


بہت بڑے عاشقِ رسول حضرت سیِّدُنا اِمام جَلال ُ الدِّین سُیُوطی شافِعی رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے بیداری میں 75بار رسولِ پاک،صاحبِ لولاک ﷺ کی زیارت کی،آپ رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :(پیارے آقاﷺَکے دادا جان)حضرت عبدُالْمُطَّلِب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) میں حجرِ اَسود کے پاس سو رہا تھا کہ میں نے ایک ہولناک خَواب دیکھا، جس کی وجہ سے مجھ پر بہت زیادہ گھبراہٹ طاری ہو گئی، پھر میں ایک قُریشی کاہِن(یعنی قسمت کا حال بتانے والے) کے پاس آیا اوربتایا کہ میں نے رات خَواب میں ایک درخت دیکھا ،جس کی اُونچائی آسمان تک اور شاخیں مَشرِق ومَغرِب تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ اُس درخت سے نکلنے والے نُور کی چمک دَمک سُورج کی روشنی سے سَتّر70 گُنا زائد ہے۔ اُس کے سامنے عرَب وعجم سجدہ ریز ہیں اور اُس کی عظمت، نُور اور بلندی میں ہر آن اِضافہ ہو رہاہے۔ ایک لمحہ وہ چُھپ جاتا ہے تو دُوسرے ہی لمحے ظاہِر ہوجاتاہے۔ قُریش کی ایک جماعت اُس کی شاخوں سے چمٹی ہوئی ہے جبکہ دُوسری جماعت اُسے کاٹنا چاہتی ہے۔ جونہی یہ جماعت اسے کاٹنے کے لئے قریب پہنچی تو ایک نوجوان نے اُنہیں پکڑ لیا، اِس جیسا حُسن و جَمال کا پیکر اور نَظافَت و خُوشبو سے مُعَطَّر نوجوان میں نے کبھی نہیں دیکھا،پھراس خوب رُو (خوبصورت) نوجوان نے اُس جماعت کے لوگوں کی کمریں توڑڈالیں اور آنکھیں نکال دیں ۔

میں نے درخت کا پھل لینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایامگرکچھ نہ لے سکا ۔بالآخر میں نے پوچھا کہ اِس کاپھل کون لے سکتا ہے؟ جواب ملا: صِرف وہ لوگ جو مضبوطی سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ پھر خوف زَدہ حالت میں میری آنکھ کُھل گئی۔حضرت عبدُ الْمُطَّلِب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے کاہِن کے چہرے کو دیکھا تَواس کا رنگ اُڑچکاتھا، پھر اُس نے تعبیر بیان کرتے ہوئے کہا:اگر تمہارا خواب سچّا ہے تَو تُمہاری پُشت سے ایک ایسا فَرزَند پیدا ہوگا جو مشرِق ومغرِب کا مالِک ہوگا اور ایک مخلوق اُس کی خوبیوں کو دیکھ کر اُس سے وابَستہ ہوجائے گی۔ (خَصائِص کُبرٰی،باب رؤیا عبدالمطلب،۱/۶۷)

حضرت عَبدُالمطلب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے جس نُورکوخَواب میں دیکھا وہ12ربیعُ الاول شریف بَمُطابِق 20اپریل 571؁بروزپیر صُبحِ صادِق کی روشن و مُنوَّرسُہانی گھڑی میں ہَمارے پِیارے آقا،حبیبِ کبریا ﷺكی صُورت میں اَزَلی سَعادَتوں اور اَبَدی مُسَرَّتوں کا نُور بَن کر مكہ مُکرَمَہ میں پیدا ہوئے ۔ (اَلْمَوَاہِبُ اللَّدُنِّیَّۃ لِلْقَسْطَلَانِیّ ج۱ ص۶۶۔۷۵ملتقطاً)

جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند

اُس دِل افروزْ ساعت پہ لاکھوں سلام

پِیارے آقا ﷺجب دنیا میں تشریف لائے تو جہالت کا بول بالا تھا، انسانیت دَم توڑ رہی تھی، لہو و لعب میں ڈوبی ہوئی رسم و رواج کا دور دورہ تھا، جُوَا اور شراب نوشی عام تھی، بیواؤں کو زندہ رہنے کا حق نہیں تھا، یتیموں کے سر پر دست شفقت پھیرنے والا کوئی نہیں تھا، کمزور اور بے سہارا لوگوں کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا، خود خانہ کعبہ میں بتوں کی پوجا ہوتی تھی، لڑکیاں زمین میں زندہ دفن کی جاتی تھیں۔

اللہ پاک کے حبیب ﷺ کی ولادتِ با سعادت ہوتے ہی ظُلمَت کے بادَل چَھٹ گئے ، شاہ ِایران کِسریٰ کے مَحل پر زَلزَلہ آیا ، چودہ (14)کُنْگرے گِرگئے ،اِیران کا آتَش کَدہ جو ایک ہزار(1000)سال سے شُعلہ زَن تھا وہ بُجھ گیا اور دَریائے ساوَہ خُشک ہوگیا اورکعبہ کو وجدآگیا ۔(صبح بہاراں ، ص ۲) ، جس سال آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے،آخری نبی ﷺ نے25 سال کی عمر میں حضرت خدیجہ جیسی بیوہ عورت سے نکاح کرکے بیوہ عورتوں کے مقام و مرتبہ کو بلند کردیا، خانہ کعبہ سے بتوں کو نکال پھینکا اور پاک و صاف کیا، ایسی پرنور تعلیم دی کہ سرزمین مکہ کو اُمُّ القریٰ کا درجہ حاصل ہوگیا، سسکتی اور دَم توڑتی ہوئی انسانیت کو سکون مل گیا پوری دنیا میں حق و صداقت کی روشنی پھیل گئی غرضیکہ سرکار دو عالمﷺ کی شخصیت سراپا رحمت ہے، رسول پاک نے نکاح کو آسان بنایا، یتیموں کو نیا لباس پہنایا، ان کی انگلیاں پکڑ کر عیدگاہ لےگئے، جنگ میں ملا ہوا مال غنیمت یتیموں کو دیدیا، گویا کہ آمدِ مصطفیٰ ہوئی روشن زمانہ ہوگیا،اللہ پاک نے اپنے بندوں کے لئے اپنے محبوب کی زندگی کو ماڈَل اور نمونہ بنادیا، بارگاہِ خداوَندی میں وہی اعمال قابلِ قبول ہونگے جو نبی کریمﷺکے طریقے کے مطابق ہونگے۔

چاند سا چمکاتے چہرہ نور برساتے ہوئے آگئے بدرُ الدُّجٰی، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا

جُھک گیاکعبہ سبھی بُت منہ کے بل اَوندھے گِرے دَبْدَبہ آمد کا تھا ، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا

چودہ کنگورے گِرے آتشکدہ ٹھنڈا ہوا سٹپٹا شیطاں گیا ، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا

(وسائل بخشش،ص۱۴۶،۱۴۷)

مولانا زید عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ ، اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی


اللہ تعالیٰ کے دنوں میں سب سے  زیادہ قابل تعظیم حضورتاجدارِ ختم نبوت ﷺکا یوم وِلادت ہے کیونکہ اِسی کے سبب سارے دنوں کو برکت ملی اور اللہ تعالیٰ کے دنوں کو یاد رکھنے کا حکم قرآن کریم نے دیا (پ13،ابراہیم:5)، نیزرحمت الٰہی ملنے پر خوشی کرنے کا حکم قرآن کریم نے دیا (پ11،یونس58)اور اسی قرآن حکیم نے حضوراکرم ﷺ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا (پ17،الانبیاء:107) معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم ﷺ کے دنیا میں تشریف لانے کی خوشی منانا قرآن پاک کے حکم پر عمل کرنا ہے اور ہر پیر کو روزہ رکھ کر اپنا یوم ولادت خود حضور نبی اکرم ﷺ منایا کرتے تھے۔(صحیح مسلم، حدیث:198)

جشن ولادت سے مرادوہ مبارک اجتماع ہے جس میں حضور تاجدارِ دوجہانﷺ کے فضائل،معجزات، خصلتیں،حالات اورحیات مبارکہ کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا جائے(سبل الہدی الرشاد، 1/363)

جشن میلاد النبی ﷺ کے جائز ہونے کو بڑے بڑے علماء اوراِماموں نے بیان کیا،بلکہ بعض نے خاص اس موضوع پر کتابیں لکھیں جن میں علامہ ابن جوزی حنبلی ، امام سیوطی شافعی،حافظ ابن کثیرحنبلی،حافظ الحدیث علامہ سخاوی ،شیخ عبدالحق محدث دہلوی،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اورامام احمد رضا خان حنفی رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے جلیل القدر علماواکابرین شامل ہیں۔

ہم اہلسنت وجماعت کے نزدیک میلاد پاک کی محفل افضل ترین مستحب اور اعلی ترین نیک کاموں میں سے ہے جبکہ اس میں کوئی غیر شرعی بات شامل نہ ہو۔آئیے، میلاد منانے اور سیرت اپنانے کے لیے اس بابرکت مہینے میں درج ذیل اعمال کا اہتمام کریں:

(1)پانچ وقت باجماعت نماز کا اہتمام کریں،قضاء نماز اور اپنے ذمہ لازم زکاۃ اور لوگوں کے قرضے ادا کریں۔

(2)ظاہری وباطنی گناہوں سے سچی توبہ کریں اور اپنے ماتحتوں خاص طورپر اپنی اولاد اور شاگردوں کو گناہوں سے باز رکھیں۔

(3)مسلمان مرد اپنے چہرے کو پیارے آقاﷺ کی سنت داڑھی سے سجائیں اور خواتین خود کو شرعی پردے سے سنواریں۔

(4)ماہِ میلادمیں روزانہ قرآن کریم کی کم از کم تین آیات مبارکہ ترجمہ وتفسیر کے ساتھ پڑھیں(جیسے خزائن العرفان، نورالعرفان، صراط الجنان)۔

(5)پورا مہینہ روزانہ کم ازکم 313بار دُرود شریف پڑھیں۔

(6)حضورتاجدار ختم نبوتﷺ کی احادیث مبارکہ اور سنتوں پر مشتمل کتب کا مطالعہ کریں جیسے ریاض الصالحین،انوار الحدیث، فیضانِ سنت ،سنتیں اور آداب۔

(7)اس بابرکت مہینے میں سیرت مصطفی(از علامہ عبدالمصطفی اعظمی)، شفاء شریف مترجم(ازقاضی عیاض مالکی)،آب کوثر یا البرہان(از مفتی محمد امین صاحب) میں سے کسی ایک کتاب کا ضرور مطالعہ کریں۔

(8)حضورامام الانبیاءﷺکے حسن وجمال،فضائل وخصائص،رفعت وشان،کمالات ومعجزات نیزمحبت وعشق رسول پر مبنی مستند علمائے اہلسنت کے بیانات سنیں۔

(9)کوئی مدرسہ قائم کریں یا اہلسنت کے کسی ایسے مدرسہ وجامعہ کے ساتھ تعاون کریں جو ہمارے بچوں کو اچھی کارکردگی کے ساتھ حافظ وعالم بنانے میں مصروف ہے۔

(10)اپنے ایک بیٹے یا ایک بیٹی کو عالم دین بنانے کی نیت کریں اور اس پر جلد عملی اقدام بھی کریں۔

(11)کسی غریب بالخصوص سید زادے کے گھرایک دو مہینوں کا راشن ڈالوادیں اور وقتا فوقتا ایسے لوگوں کی مدد کرکے دعائیں لیں۔

(12)ممکن ہو تو کسی ہال/بینکوٹ میں غرباء کے لیے پُرتکلف دعوت کا اہتمام کریں مگر یہ ظاہر نہ کریں کہ صرف غریبوں کو بلایا گیا ہے۔

(13)کسی مقروض مسلمان کاسارا یا کچھ قرض ادا کروادیں۔

(14)کسی نادار وغریب کو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کروادیں۔

(15)کسی مریض کا اپنے مال سے علاج کروادیں اورہوسکے تو اُس کے علاج کا سارا خرچ اپنے ذمے لے لیں۔

(16)جلوس میلاد اور محافل کو غیرشرعی اور غیر اخلاقی باتوں سے پاک رکھیں۔

(17)آڈیو/ویڈیو بیانات یا نعتیں ضرور سنیں مگر اُس کی اونچی آواز سے اہل محلہ ،پڑوسیوں یا کسی مریض کو تکلیف نہ پہنچائیں۔

(18)میلاد کی محفلوں میں وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھیں اور بڑی راتوں کے علاوہ محافل کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے کافی ہے ۔

(19)محافل یا جلوس میں یا اِن کی تیاری کے دوران باجماعت نمازوں کا لازمی خیال رکھیں۔

(20)عیدمیلاد النبی ﷺکی خوشی میں گھروں ،محلوں اورمسجدوں میں چراغاں کریں مگر چوری کی بجلی ، سٹرکوں پرر کاوٹوں اور لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف دینے سے لازمی لازمی بچیں۔

(21)گھروں پر خواتین کی محفل میلاد کریں تو کسی سنی صحیح العقیدہ عالمہ یا مُبلِّغہ خاتون کا بیان ضرور رکھوائیں جس میں حضوراکرم ﷺکے فضائل، سیرت اور حسن اخلاق کو بیان کیا جائے۔

(22)ممکن ہوتو سارے گھر والے جمع ہوکر 12دن تک روزانہ 25 منٹ گھرمیں محفل میلاد کا اہتمام کریں جس میں تلاوت و نعت اور 12منٹ کا بیان ہو جس میں حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت کا کوئی گوشہ بیان کیا جائے یا ایک دو معجزات بیان کئے جائیں۔

(23)میوزک اورآج کل بجائے جانے والے دَف کے ساتھ حمد ونعت یامنقبت وقوالی سننا، سنانا گناہ ہے۔لہٰذا اس سے بچیں ،حضور رحمتِ عالم ﷺنے ارشادفرمایا: میں تما م جہانوں کے لیے رحمت وہدایت بن کر آیا ہوں تاکہ بتوں کو مٹادوں ،آلات میوزک کو توڑدوں اورزمانہ جاہلیت کی باتوں کو ختم کردوں۔(معجم کبیر،حدیث:7759)

(24)نامحرم مردوں اور عورتوں کا اختلاط حرام ہے لہٰذاجن محافل میں یہ اور دیگرگناہ ہوں وہاں ہرگز نہ جائیں نیز اپنے گھر کی خواتین کو جلوس میں شرکت یا جلوس دیکھنے جانے کی اجازت نہ دیں۔

(25)ماہِ میلاد بلکہ سارا سال حمد وثنا اور نعتیں سُنیں مگر زیادہ توجہ مستند علمائے کرام کے بیانات پر دیں تاکہ ہمارے عقائد واعمال پختہ ہوں اور ان میں پائی جانے والی غلطیاں دُور ہوں ۔

(26)نعت خواں حضرات سے ہاتھ جوڑ کرگزارش : ایک رات میں سات آٹھ جگہ وقت دینے کے بجائے زیادہ سے زیادہ دو جگہ وقت دیں اورکم از کم ایک جگہ کامل توجہ کے ساتھ پورا بیان سنیں۔

مسلمانوں سے فریاد:عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پرجشن وِلادت منائیں اور حضور رحمت للعالمین ﷺ کی آمد کے مقصد کو پیش نظر رکھیں، سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں اورآپ کی سنتوں کو اپنائیں ۔

نوٹ :یہ تحریرمختلف کتب ورسائل اورمضامین سے اخذ شدہ مفاہیم اور بعض اپنی معروضات کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے۔اللہ کریم ہمیں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے میلاد منانے اور سیرت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ


افغانستان کی سر زمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے کوہستانوں اور دَرُّوں سے ایمان کے قافلے اور اسلام کے لشکر سرزمینِ ہند میں اترے ، ان قافلوں کے پاس دینِ حق کی روشنی ، علم و معرفت کی دولت اور عظمتِ اسلام کا عَلَم ْتھا ان کے ہم رِکاب بادشاہ بھی تھے فاتحین بھی تھےمتبحر علما بھی تھےاور خدا مست اولیا بھی تھے جن کی تشریف آواری نے عالَمِ کفر کو اسلام کا مرکز بنا دیا ۔ڈاکٹر اقبال اسی تابناکی کی منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں

اے آب ِ رُود ِ گنگا! وہ دن ہیں یاد تجھ کو

اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا

توحید کی امنت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

افغانستان سے ہندوستان تشریف لانے والی نامی گرامی ہستیوں اور عبقری شخصیتوں میں قندھار کا ایک علم پرور، سیف و قلم کا مالک خاندان لاہور سے دہلی پھر بریلی شریف پہنچا ، اس خاندان کے جدِّ اعلیٰ سعادت یار خان بڑے علاقے کےمنصب دار تھے ان کی سعادت مندی نے اپنی نسل کو دینِ محمدِ مصطفے کا امین اور عشقِ مصطفیٰ کا سفیر بنا دیا۔اس خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک عشقِ مصطفیٰ کے پیکر اور دینی علوم کے شِناور پیدا ہوئے۔ان میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان کےعشق و علم کو عالمگیر شہرت حاصل ہے، عشق ہے کیا؟ عشق محبت، فریفتگی، چاہ، پریم، پیار ، شوق اور خواہش کی انتہا کا نام ہے۔ عشق کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔عشق نہ تو کوئی تحریک ہےنہ کوئی تنظیم،عشق بلانے سےا ٓتا نہیں ہے اور بھگانے سے جاتا نہیں ہے، عشق قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے،قسمت والے ہی راہِ عشق کے مسافر بنتے ہیں، اعلیٰ حضرت کی اس کیفیتِ دل و جان سے ایک عالَمْ آگاہ ہے، بلکہ ان کے عشق کا چرچا تو غیروں کی محفلوں میں بھی ہے،اس کی وجہ یہی کہ آپ کا خمیر عشقِ مصطفیٰ میں گوندھا گیا، آپ کا پیکر عشقِ رسول کے سانچے میں ڈھالا گیا، اسی لیے آپ کے وجود کا محور بھی عشقِ رسول ہے، آپ کے علم کا حاصل بھی عشقِ رسول ہے، آپ کے افکار کی منزل بھی عشقِ رسول ہے اور آپ کا دین و ایمان بھی عشقِ رسول ہے۔ آپ کے خوں میں حدت بھی عشقِ رسول کی ہے اور آپ کی نبضوں میں ارتعاش بھی عشقِ رسول سے ہے۔ آپ کے جذبوں کا ارتکاز بھی عشقِ رسول سے ہے اورآپ کے من کا گداز بھی عشقِ رسول سے ہے۔ آپ کےقلم کی کاٹ بھی عشقِ رسول کے باعث ہےاورآپ کے چہرے کی شادابی بھی عشقِ رسول کی وجہ سے ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان میں عشقِ رسول کی ایسی جولانی کہاں سے آئی ؟ وہ کون سا مے کدہ تھا اور وہ کون سا ساقی تھا جس نے شرابِ عشقِ احمد کے ایسے جام عطا کئے کہ اعلی حضرت ساری زندگی اسی کی مستی میں مست نظر آتے ہیں، بلکہ اگر کسی کو ایک آدھ قطرہ بھی دیا تو وہ بھی اسی میں مخمور نظر آتا ہے۔ اگر علی وجہ التحقیق کی بات جائے تو وہ مے کدہ آپ کے والد مولانا نقی علی خان کا تھا۔ وہ ساقی کوئی اور نہیں آپ کے والدِ گرامی کی شخصیت تھی،وہ خود بھی عبقریِ وقت تھے، کئی کتابوں کے مصنف تھے، جب بھی قلم اٹھاتے علوم و معارف کے دریا بہا دیتے۔ وہ جب سورہ الم نشرح کی تفسیر لکھنے پر آئے تو عشق رسول کے طوفان مچلنے لگے،نبی کریم کے مرتبہ وجود میں جلوہ گری ، کمالِ حسن ، منصبِ رسالت کی تابشوں ، شمائل و خصائل کی رعنائیوں اور نبوت کی کامیابیوں کے لئے بطورِ خطبہ ایسی ایسی تشبیہات و استعارات و ترکیبات لائے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے ہر ہر ترکیب سے محبت کے صوتے پھوٹتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ بحرِ اُفُقْ سے تلاطم اٹھ رہے ہیں اور الفاظ کے موتی قرطاس کے دامن میں پھینکے جا رہے ہیں ، جب سیدِ انام، رسولِ ذیشان ﷺکا مقامِ تعارف آتا ہے تو زور بیان اور حسن الفاظ کا نظارہ دیکھیں کہتے ہیں۔

٭سرورِ بنی آدم٭ رُوحِ روانِ عالم٭ اقامتِ حدودُ و احکام٭ تعدیلِ ارکانِ اسلام٭ قائدِ فوجِ اسلام٭دافعِ جُیوشِ اصنام٭ نَوْبادۂِ گلزارِ ابراہیم ٭ نَوْرَسِ بہارِ جنتِ نعیم٭ جگر گوشۂِ کانِ کرم ٭دستگیرِ درْمانْدگانِ اُمم٭صِفائے سینٔہ نیّرِ اعظم٭ نورِدیدۂِ ابراہیمُ و آدم ٭امامِ جماعتِ انبیاء ٭مُقتدائے زمرۂ ِاتقیا٭قبلہِ اصحابِ صدق و صفا٭کعبہ ارباب ِ حلمُ و حیا ٭لؤلؤِ بحرِ سخاوتُ وعطا٭ گُہِرِدریائے مروتُ وحیا ٭شمس ِچرخِ اِستواء ٭چراغِ دُوْدمَان ِاِنْجِلاء ٭عُقدہ کُشائے عِقْد ثُریا٭ضیائے دیدۂ ِیدِبیضاء٭قاضی ِمَسند ِحکومت٭ مفتی دین ُو ملت ٭مدلولِ حروفِ مقطعات ٭مَنشاءِ فضائل و کمالات٭حافظِ حدودِ شریعت٭ماحیِ کفرُ و بدعت٭فاتحِ مغلقاتِ حقیقت٭ سرِّاسرار ِطریقت٭لسانِ حجت٭طِراز ِ مملکت ٭ تَراوشِ شبنمِ رحمت٭تُوْتِیائےچشمِ بصیرت٭اصلِ اصولِ سَرابَسْتَانِ مَلَکُوت٭بِیخِ فروغِ نخلستانِ ناسُوت٭فارسِ میدانِ جبروت٭شہسوارِمِضمارِ لاہوت٭شاہبازآشیانِ قربت٭طاؤسِ مَرْرْغْزَارجنت٭شگُوفہ ٔشجرۂِ محبوبیت٭ثمرۂِ سدرہِ مقبولیت ٭جلوۂ  انوارِ ہدایت٭لَمْعانِ شَمُوسِ سعادت٭ نورِ مَردَ ْمکِ انسانیت ٭بِہائے چشمِ نورانیت ٭مرقاتِ معارجِ حقیقت٭حافظِ مفتاحِ سعادت٭کشفِ غطاءِ جہالت ٭ انسانِ عینِ وجود٭ دلیلِ کعبۂ مقصود٭مُنادیِ طریقِ رشاد٭سراجِ اقطارُ و بلاد٭آبروئے چشمہِ خورشید٭چہرہ افروزِ ہلال ِ عید٭ نورِ نگاہ ِشَہود٭مقبول ربِّ وَدود٭ مطلعِ انوارِ ناہید٭تجلی برق ُو خورشید ٭ گلُگْلُوْنہ بخش چہرۂِ گُلْنَار٭نسیمِ اقبالِ بہارِ اَزہار٭ نِگْہَتِ عنبربِیزانِ گلزار٭ جوہرِ اعراضُ وجواہر٭منشاء اصنافِ زواہر٭مُشرق ِدائرۂِ تنویر٭مَشرقِ آفتابِ منیر٭زُہرۂ  جبینِ انوار٭غَرّہ ِجبہۂ اسرار٭بِیاض رُوئے سحر٭ ِطراز فلک قمر٭شمعِ شبستان ماہ ِمنور ٭مہر ِانور٭ زُبدۂ  اہلِ تطہیر٭ملجاء ِصغیرُ و کبیر٭واقفِ خزائنِ اسرار٭کاشفِ بدائعِ افکار٭ زیبِ مجالسِ ابرار٭نورِ عیونِ اخیار٭ اکرم اسلاف٭اشرفِ اشراف٭ عالمِ علومِ حقائق٭جذبِ قلوبِ خلائق٭یوسفِ کنعانِ جمال٭ سلیمانِ ایوانِ جلال٭ناسخِ توریتُ و انجیل٭کاشفِ سرِّمکنون ٭ خازنِ علم ِمخزون٭ وارثِ علومِ اولین٭ مُورثِ کمالاتِ آخرین٭حجت حقُ الیقین٭ تفسیر ِقرآنِ مبین٭ تصحیحِ علومِ متقدمین٭ سندِ انبیاء و مرسلین٭عزیز مصر ِاحسان٭فخرِ یوسف ِکنعان٭رونق ِریاضِ گلشن ٭آرائش ِنگارستانِ چمن٭ طُرَّۂِ نَاصِیہِ سُنْبلِسْتان٭ قُرَّۂِ دِیْدَۂ نَرِگْستان٭گلدستۂ ِبہارِسْتانِ جنان٭مَنزلِ نُصوصِ قطعیہ٭مُظْہِر ِ حالاتِ مُضْمَرہ٭ مُخْبِرِ اخبار ماضیہ٭واقفِ امورِ مستقبلہ٭دستورِقضاۃ وحُکام٭ایضاحِ تیسیرِاحکام٭مقدمہ طبقاتِ بنی آدم٭رہنمائے دینِ محکم و مسلم٭جامع ِاصولِ غرائب معالم٭مصدرِ صحاحِ بخاری و مسلم ٭منبعِ شریعت و حکم٭ مجمع بحر ین حدوث وقدم٭رافعِ لواءِ ہدیٰ ٭حکمتِ بالغہ خدا ٭تقریرِ قصصِ انبیاء٭تحریرِ معارف اصفیاء٭ناطقِ فصل ِخطاب ٭ میزانِ نصابِ احتساب٭ منح منتہی الاِرَب٭لبِ اصول ِادب٭معدنِ عجائب و غرائب٭مدارِ مکارمِ و مناقب ٭اوسط ِطرفین امکان ووجوب٭ واسطہ ربط طالب و مطلوب ٭نیسانِ گُہر بار عنایت٭ ضوء ِمصباح ِعنایت٭مُعْطیِ زادِ آخرت ٭نتیجہ دلائل خیرات ٭لمعانِ مطالعِ مسرات٭ سلم مدارجِ معرفت٭موضحِ ضراطِ مستقیم نجات ٭اقصی معراج اصحاب کمالات٭ قوتِ قلوبِ ممکنات ٭صفاءِ ینا بیعِ طہارات٭ سہیلِ فلکِ ثوابت٭معدنِ نہار سخاوت٭ منطقہ بروج سعادت ٭اسد ِمیدانِ شجاعت ٭اعتدالِ میزانِ عدالت٭سطح خطوط استقامت٭ حاوی سطوح کرامت٭ طبیب ِبیماران ِضلالت٭ نباضِ محمومانِ شقاوت ٭جوارش ِمریضان محبت ٭ معجونِ ضعیفان امت ٭ مقدمۂ قیاس معرفت ٭ ممہد قواعد محبت٭مدرکِ نتائجِ محسوسات ٭مہبطِ اسرارِ مجردات٭ سالکِ مسالک ِطریقت ٭ دانائے رموز حقیقت ٭تخم ِمزرع حسنات ٭ ترغیبِ اہل سعادات٭ جمعِ محاسنِ فتوت٭ کفایت ِحوائج ِخلقت ٭شیرازۂِ مجموعہ ِفصاحت ٭ بہجتِ حدائقِ بلاغت٭ سراجِ وہاجِ ہدایت٭نسخۂ کیمیائے سعادت٭ تکمیلِ دلائلِ نبوت٭ صحیفۂِ احوالِ آخرت٭احیائے علوم و کمالات ٭مطلعِ اشعۂ لمعات٭دلیلِ مناسکِ ملّت٭منقتی ارباب بصیرت ٭کوثرِ عرصۂ قیامت٭ سلسبیل ِباغ ِجنت ٭آب ِحیاتِ رحمت ٭ساحلِ نجاتِ اُمت٭شِناورِ قلزمِ ملاحت٭آبیارِ جُوئے لطافت ٭سحاب دُر افشان ِسخاوت٭سحر جواہر درایت٭طغرائی منشور رسالت٭ وسیلہِ ٔامد اد ِفتاح٭ سبب نزہت ِارواح٭بیاضِ انوارِ مصابیح ٭توضیحِ ضیاءِ تلویح٭نہرِخیابانِ توحید٭ نورِ عینِ خورشید٭مُعَلّمِ دبستانِ تفرید٭مُدَرّسِ مدرسہِ تجرید٭ہادی سبیلِ رَشاد٭استیعابِ قواعد ِسداد٭قلزمِ درد قلائد ٭درج ِجواہرِ عقائد٭ شمس ِبازغہ مشارق ِانوار٭رونقِ ربیعِ بستان ابرار٭عدیمِ اشباہ ونظائر٭ امینِ کنوزوذخائر٭تمہید نوادرِ بصائر ٭ مقتدائے صغیر وکبیر٭ مفتاحِ فتحِ قدیر٭ میزبانِ نزل ابرار٭مفیدِمستفیدانِ اسرار٭ذخیرہِ جواہرِ تفسیر٭ مشکوۃِ مفاتیح ِ تیسیر٭تیسیرِاصولِ تاسیس٭ روضۂِ گلستانِ تقدیس٭اعتدالِ امزجۂ ِ بسائط٭صراح برہانِ قاطع٭ نقایہ دلیل ساطع٭ نورِانوار مطالع٭ تنویرِ منار طوالع٭ ملخص ِمضمرات عوارف٭شرح مبسوط ِمعارف٭ خازنِ کنزِ دقائق٭درِّمختار بحررائق٭زبور غرائب تدقیق ٭تلخیصِ عجائب ِتحقیق٭اوج ِمحدب افلاک ٭رونقِ حفیضِ خاک٭ دُرِّ تاج افاضل ٭ ملتقی بحرِفضائل٭ سرد فتردیوان ازل ٭ خاتم صحف ملل٭ ناقد نقد تنزیل ٭ عقل اول سلسلہ عقول ٭مبدء ضوابط فروع واصول٭رابطہ علت و معلول٭واسطہ جاعل و مجعول ٭قاموس محیط اتقان٭ بلاغ مبین فرقان٭ تبییض درمکنوں٭ موجب سرور محزون ٭ سراجِ شعب ایمان ٭ برزخِ وجوب وامکان٭ خلاصۂِ مآرب سالکین٭ انتہاءِ منہاجِ عارفین ٭ شرفِ ائمہ دین٭تنزیہہ شریعت متین٭حاوی علومِ سابقین٭قانونِ شفاءِ لاحقین٭ عینِ علم وایقان٭حصن حصین امتان٭ غواص بحار عرفان٭ زُبدہ اربابِ احسان٭نسرینِ حدیقۂ فردوسِ بریں٭ رَوح رائحہ رُوح ریاحین٭ نخلْ بندِ بہارِ نوآئین٭رنگ آمیز لالہ زارِ رنگین٭یاقوت نسخۂ امکان٭روح ِروانِ عقیق و مرجان٭ رنگ افزائے چہرۂ ِ اَرْغواں٭زینت کارِگاہ گونا گوں٭ مقوم ِنوع ِانساں٭ ربیعِ فصلِ دوراں٭ زیب نجم گلستاں٭ گوہر محیط احسان٭ابرِگہر بار نیساں٭قوت دلہائے ناتواں ٭ آرام جاں ہائے مشتاقاں ٭مشکبارِ صحرائے ختن٭ گلریزِ دامنِ گلشن٭غالیہ سائے مَشام جان٭عطر آمیز دماغ قدسیان٭ گل ماہتاب باغ آسماں٭ مجلئ نگار خانہ کونین٭ سیارۂ فضائے قاب قوسین ٭مشعل خورتاب لامکان٭تربیع ماہ تاب درخشاں٭مرکز دائرہ زمین وآسماں٭محیط کرۂ فعلیت وامکاں٭ مسند آرائے ربع مسکوں٭ رونق مثلثات گردوں٭ ملتقط کتاب تکوین ٭نہایت مطالب مومنین٭ انسان عیون ایمان ٭ قرۃ عینین انسان٭ روح چشمہ حیوان٭ آشنائے دریائے عرفان ٭تبیین مُتشابہات قرآنیہ ٭ غایت بیان اشارات فرقانیہ٭ تنقیح دلائل کافیہ٭ تصحیح براہین شافیہ٭ وقایہ احکام الہیہ ٭ افق مبین انوارِ شمسیہ٭ عمدہ فتوحات رحمانیہ ٭مخزن مواہب لدنیہ ٭کمال بدور سافرہ٭ طلعت بوارق متجلیہ٭منظور مدارک عالیہ٭مختار عقول کا ملہ٭تہذیب لطائف علمیہ ٭تجرید مقاصد حسنہ٭ نقش فصوص حکمیہ ٭منتخب جواہر مضیہ٭خزانہ زوا ہرازلیہ ٭گنجینۂ جواہرِ قدسیہ ٭مخزن اجناس عالیہ٭مکملِ انواع سافلہ٭مربی نفوس فاضلہ٭معدنِ خصائص کاملہ ٭علاج طبائع مختلفہ٭دافع امراض متضادہ٭تفریح قلوب پژمردہ ٭دوائے دلہائے افسردہ ٭ نتیجہ استقرائے مبادئ عالیہ ٭خلاصہ مدارک ظاہرہ وباطنہ٭جامع لطائف ذہنیہ

٭مجمع انوار خارجیہ٭حقیقت حقائق کلیہ ٭واقف اسرار جزئیہ ٭مبطل مزخرقات فلاسفہ٭ مثبت براہین قاطعہ٭اثبات وحدت مطلقہ٭ برہان احدیت مجردہ٭ خزینہ اسرارِ الہیہ٭گنجینۂ انوار قدسیہ٭ تصفیہ قلوب کاملہ٭ تزکیہ نفوس فاضلہ ٭تشریح حجت بالغہ٭ تصریح واقعات ماضیہ ٭ نگینِ خاتَمِ سروری٭ خاتَمِ نگین ِپیغمبری ٭تراو ش ابر سیرابی٭ ابربہارِ شادابی ٭منشاء فیض وافی٭ مبدء علم کافی٭موردفتح باری ٭تابش نورسراجی٭ہلال عید شادمانی ٭بہارِ باغ کامرانی٭ اختر برج دلبری ٭خورشید سماء سروری٭نورسِ گلشن خوبی٭ چمن آرائے باغ محبوبی٭ لَعْل ِآبْدارِبَدَخْشَان ِرنگینی٭ دُرِّیتیمِ گوش ِمہْ جبینی ٭گلِ گلستانِ خوش خوئی ٭لالۂ چمنستان خوبروئی٭ آئینہ جمال خوبروئی٭ برق سحاب دلجوئی٭ قُمریِ سَرْوِیکتائی ٭تِدْرَوِباغ دانائی٭تَرْطِیْبِ دماغ گلروئی٭ طَراوتِ جوئبار دل جوئی٭چمنِ خیابان زیبائی٭ بہار افزائے گلستان ِرعنائی٭رنگِ رُوئے مجلسِ آرائی٭ رونقِ بزم رنگینْ ادائی٭مربع نشین مسند اکتائی٭ زاویہ گزین گوشہ تنہائی

محترم قارئین ! ذرا غور فرمائیں کہ حضرت علامہ مفتی نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے نبی پاک کی شان میں الفاظ کے کیسے کیسے موتی جمع کئے ہیں یقیناً پڑھنے والا جھوم جھوم اٹھتا ہے جبکہ عربی زبان میں آپ نے جو القاب و اوصاف ذکر کئے ہیں وہ اس سے جد ا ہیں ۔قرونِ اولیٰ سے لیکر آج تک عاشقانِ جمالِ مصطفائی برابر پیدا ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے مگر ، بی بی آمنہ کے لعل، امت کے لجپال، محبوبِ رب ذوالجلال ذکر اور تذکرے سے اپنے وجود کو نور و سرور بخشنے اور دل کی فصلِ بہار کو تازہ و تابندہ رکھنے کی ایسی مثال کہیں نہیں ملتی۔ نبی کریم کےتذکرے پر وارفتگی کا ایسا اظہار اس بات کا مشیر ہے کہ دل میں محبت و عشق کا سمندر موجزن ہے۔ اس خاندان کے معمولات کو دیکھا جائے تو کہنا پڑے گا کہ یہاں کے بڑے ہوں یا چھوٹے ہر ایک کے خمیر میں عشقِ رسول کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا دل عشقِ مصطفیٰ کے شراروں سے شعلہ زن ہے۔ ہر ایک کی آنکھیں سرمۂ عشق مصطفی سے بینا و منور ہیں۔ ہر ایک کی زندگی کا ہر ورق عشقِ مصطفیٰ کے جوبن سے بہار آشنا، بہار آفریں اور بہار پرور بنا ہوا ہے۔ کیوں نہ ہو کہ جب جدِّ اعلیٰ عشقِ رسول کے مقامِ سدرۃ المنتہیٰ پر فائز ہو تو ان کی نسلیں بھی ہر گھڑی عشقِ نبی کے جام لٹانے اور ملت کے سینے عشقِ نبی کے مدینے بنانے میں گزریں گی۔


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تحریر کردہ کتب ورسائل سے پتہ چلتا ہے کہ 105 سے زائد علوم وفنون پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قلم اٹھایا ہے(ماخوذ ازمعارف رضا، ص233، سال1991) جن میں دینی علوم مثلاً قرآن وحدیث ،فقہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ دیگرعلوم وفنون مثلاً سائنس، ریاضی، معاشیات،واقتصادیات ومالیات وغیرہ شامل ہیں،آپ رحمۃ اللہ علیہ نے علوم عقلیہ کی ابتدائی تعلیم تواپنے والد محترم مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ اور مرزا علی العلی رامپوری، مرزا غلام قادر بیگ اور مولانا ابو الحسین احمد نوری مارہروی رحمۃ اللہ علیہم سے حاصل کی لیکن ان علوم میں کمال اپنی خداداد صلاحیتوں سے حاصل کیا ، پھر اپنے والدِ محترم کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے دینی علوم کی طرف متوجہ ہوگئے اور اپنی گراں قدر خدمات سے اس امت کوایسا فیضیاب کیا کہ ہر ایک آپ کے گن گاتا نظر آتا ہے، والد صاحب کی نصیحت پر عمل اور دینی علوم کی ان خدمات کی برکت سے دیگرعلوم میں آپ کو نہ صرف کمال حاصل ہوا بلکہ کئی علوم وفنون کے بہت سے اصول وقواعد کے موجد ٹھہرے۔ (ماخوذ ازمعارف رضا، ص22-23، سال1981) کتب ورسائل کے ساتھ ساتھ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار بھی ان علوم وفنون سے لبریز نظر آتے ہیں۔

ان میں سے کچھ علوم درج ذیل ہیں:

(1) علم لغت(Vocabulary): الفاظ کی بناوٹ اور معانی کا علم۔

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی دو کتابیں ہیں:(۱)اَحْسَنُِ الْجُلُوْہ فِی تَحْقِیْقِ المِیْلِ وَالذرَاعِ وَالْفَرْسَخِ وَالْغُلُوہ(۲)فَتْحُ الْمُعْطِی بِتَحْقِیْقِ مَعْنَی الْخَاطِی وَالْمُخْطِی۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۷۷ مکتبہ نبویہ لاہور)

(2) علم تاریخ(History):

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی تین کتابیں ہیں: (۱)اِعْلَامُ الصَّحَابَۃِالْمُوَافِقِیْنَ لِلْاَمِیْرِ مُعَاوِیَۃَ وَاُمِّ الْمُؤْمِنِیْن(۲)جَمْعُ الْقُرْآنِ و بِمَ عَزْوُِہُ لِعُثْمَان(۳)سرگزشت وماجرائے ندوہ۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۸۹)

(3) علم تکسیر(Fractional Numeral Math):

(۱)اَطَائِبُ الْاِکْسِیْرِ فِی عِلْمِ التَّکْسِیْرِ۔(2) ۱۱۵۲مربَّعات(۳)حاشیہ اَلدُّرُّ الْمَکْنُوْن(4) رسالہ در علمِ تکسیر(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۲)

(4) علم توقیت(Reckoning of Time): اوقات نماز کا علم ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے تاکہ ہر نماز صحیح وقت پر ادا کی جائے، اعلیٰ حضرت اس فن میں بھی یکتائے زمانہ تھے ، آپ ہی نے سب سے پہلے متحدہ پاک وہند میں شمسی سال کے اعتبار سے اوقاتِ نماز کا نقشہ مرتب کیا تھا۔اس فن میں اعلیٰ حضرت نے اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں کم وبیش 16 کتب وحواشی تحریر فرمائے: (۱)اَلْاَنْجَبُ الْاَنِیْقِ فِیْ طُرْقِ التَّعْلِیْقِ (۲)زِیْجُ الْاَوْقَاتِ لِلصَّوْمِ وَالصَّلٰوۃِ(۳)تاجِ توقیت(۴)کَشْفُ الْعِلّۃِ عَنْ سَمْتِ الْقِبْلَۃِ(۵)دَرْءُ الْقُبْحِ عَنْ دَرْکِ وَقْتِ الصُّبْح(۶)سِرُّ الْاَوْقَاتِ (7)تَسْہِیْلُ التَّعْدِیْلِ(8)جدولِ اوقات (9)طلوع وغروب نیرین(10)اِسْتِنْبَاطُ الْاَوْقَاتِ(11)اَلْبُرْہَانُ الْقَوِیْمِ عَلَی الْعَرْضِ وَالتَّقْوِیْمِ (12)اَلْجَوَاہِرُ وَالتَّوْقِیْتُ فِیْ عِلْمِ التَّوْقِیْتِ(13)رؤیتِ ہلالِ رمضان(14)جدولِ ضرب (15)حاشیہ جَامِعُ الْاَفْکَار(16)حاشیہ زُبْدَۃُ الْمُنْتَخَب۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۴)

(5تا7) علم نجوم، ہیئت وفلکیات(اسٹرولوجی واسٹرونومی): علم نجوم یعنی ستاروں اور سیاروں کے متعلق علم۔

علم ہیئت : وہ علم جس میں اجرام ِ فلکی ،زمین اور اس کی گردش و کشش وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے ۔

اعلیٰ حضرت ستاروں اور سیاروں کی چالوں سے اتنے زیادہ باخبر تھے کہ جب آپ سے سوال کیا گیا کہ اہرامِ مصر کب اور کس نے تعمیر کیا تو آپ نے امیر المؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے قول کی روشنی میں اوراس فن میں اپنی مہارت سےجواب دیا کہ اسکی تعمیرات کو12,640 سال8 ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے اور یہ تعمیرات سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے بھی 5,750سال پہلے جنات نے کی تھی ۔(معارف رضا، ص16-17، مجلہ 2013)

ان علوم پر امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی درج ذیل آٹھ کتابیں ہیں:

(1) مَیْلُ الْکَوَاکِبِ وَتَعْدِیْلِ الْاَیَّامِ (2)اِسْتِخْرَاجُ تَقْوِیْمَاتِ کَوَاکِب(3) زَاکِیُ الْبِہَا فِیْ قُوّۃِ الْکَوَاکِبِ وَضُعْفِہَا (4)رِسَالَۃُ ابعَاد قَمَر (5)حاشیہ حَدَائِقُ النُّجُوْم (۶)اِقْمَارُ الْاِنْشِرَاحِ لِحَقِیْقَۃِ الْاِصْبَاحِ(۷)اَلصِّرَاحُ الْمُوْجِزُ فِی تَعْدِیْلِ الْمَرْکَز(۸)جَادَۃُ الطُّلُوْعِ وَالْحَمْرِ لِلسَّیَّارَۃِ وَالنُّجُومِ وَالْقَمْرِ۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۵)

(9-8) علمُ الْحِسَاب وریاضی(Arithmetic & Mathematic): ان پر امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی درج ذیل دس کتابیں ہیں:

(۱)کَلامُ الْفَہِیْمِ فِی سَلَاسِلِ الْجَمْعِ وَالتَّقْسِیْمِ(2)جَدْوَلُ الرِّیَاضِی (3)مسئولیاتِ اَسہام(4)اَلْجَمَلُ الدَّائِرَۃِ فِی خُطُوطِ الدَّائِرَۃِ(5)اَلْکَسْرُ الْعُسْرٰی(6)زَاوِیَۃُ الْاِخْتِلَافِ الْمَنْظَرِ(7)عَزْمُ الْبَازِی فِی جَوِّ الرِّیَاضِی (8)کسورِ اَعشاریہ (9)معدنِ علومی درسنینِ ہجری، عیسوی ورومی(10)حاشیہ جامعِ بہادر خانی ۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۶)

(10) علمِ اَرْثْمَا طِیْقِی (Greek Arithmetic):

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی تین کتابیں ہیں: (۱)اَلْمُوْہِبَاتُ فِی الْمُرَبَّعَاتِ (۲)اَلْبُدُوْرُ فِی اَوْجِ الْمَجْذُوْرِ(۳)کِتَابُ الْاَرْثْمَاطِیْقِی۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۷)

(11) علم جبر ومقابلہ(Algebra):

یہ علم حساب کی فرع ہے۔اس فن میں اعلیٰ حضرت کا ایک رسالہ ہے:(۱)حَلُّ الْمُعَادَلَات لِقَوِیِّ الْمُکَعَّبَاتِ (2)رسالہ جبرومقابلہ (3)حاشیہ اَلْقَوَاعِدُ الْجَلِیْلَۃ۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۷)

(12) علم الزیجات(Astronomical Tables):

اس علم میں اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے: (۱)مُسْفِرُ الْمَطَالِعِ لِلتَّقْوِیْمِ وَالطَّالِعِ(2)حاشیہ زیج بہادر خانی(3)حاشیہ فوائد بہادر خانی(4)حاشیہ برجندی (5)حاشیہ زلالات البرجندی (6)التعلیقات علی جامع بہادر خانی (7)التعلیقات علی زیج الایلخانی (8)التعلیقات علی الزیج الاجد (9)تحقیقات سال مسیحی۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۱۰۱، المصنفات الرضویہ،ص۴2)

(13) علم الجفر(Numerology Cum Literology):اس فن میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بغیر کسی استاد کےاس قدر مہارت حاصل کی کہ اس فن کے کئی قواعد آپ نے خود استخراج فرمائے،عربی زبان میں 6کتابیں ہیں: (1)اَلثَّوِاقِبُ الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْکَوَاکِبِ الدُّرِّیَّۃ(2)اَلْجَدَاوِلُ الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْکَوَاکِبِ الدُّرِّیَّۃ (3)اَلْاَجْوِبَۃُ الرَّضَوِیَّۃ لِلْمَسَائِلِ الْجَفَرِیَّۃ (4)اَلْجَفَرُ الْجَامِع (5)سَفرُ السَّفر عَنِِ الْجَفَرِ بِالْجَفَرِ(6) مُجْتَلَّی الْعُرُوسِ وَالنُّفُوسِ۔

(14) علم ہندسہ(Geometry): خطوط اور زاویوں کا علم ۔

(1)اَلْمَعْنَی الْمُجَلِّی لِلْمُغْنِی وَالظِّلِّی (2)اَلْاَشْکَالُ الْاِقْلِیْدَسْ (3)حاشیہ اصولِ ہندسہ (4)حاشیہ تحریرِ اقلیدس۔

(15) علم مثلث کروی (Science of spherical triangles):

اس فن میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کتابیں ہیں: (1)تلخیص علم مثلث کروی (2)رسالہ در علم مثلث کروی (3)وجوہ زوایا مثلث کروی۔(المصنفات الرضویہ،ص43)

(16) علم العروض(prosody):

اس فن میں امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کافارسی زبان میں ایک حاشیہ ہے : (1)حاشیہ میزان الافکار۔

(18-17) سائنس وہیئت (Science & Physics): اس فن پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی تحریروں اور فتاوی میں بیش بہا خزانہ عطا فرماتے ہوئے کئی سائنسی نظریات بھی پیش کئے ہیں ، اس فن پر آپ کی درج ذیل 3 اردوکتابوں اور 1 عربی حاشیہ کا پتہ چلا ہے: (1) نزولِ آیاتِ قرآن بسکونِ زمین وآسمان(2) فوزِ مُبین دَر رَدِّ حرکتِ زمین (3) مُعینِ مُبین بَہر دَورِ شمس وسکونِ زمین (4)حاشیہ اصولِ طبعی ۔

(19) علم کیمیا (Chemistry):

اس فن میں امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی مہارت کا بہت سی تحریروں پتہ چلتا ہے بالخصوص فتاویٰ رضویہ میں جہاں تیمم کا بیان ہے اس میں آپ نے عمل احتراق (Combustion)کی پانچ صورتیں بیان فرمائی ہیں اور پھر ان پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے جواس فن میں آپ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

(21-20)معاشیات ومالیات(Economics & Finance): اعلیٰ حضرت نے اس شعبہ میں بھی مسلمانوں کی نہ صرف بھرپور رہنمائی فرمائی بلکہ انہیں معاشی استحکام کا راستہ بھی دکھایا اس سلسلے میں آپ نے1912ء میں چار معاشی نکات بھی پیش کئے، اس موضوع پر آپ کی 3 کتابیں ہیں: (1)کِفْلُ الْفَقِیْہِ الْفَاہِمِ فِی اَحْکَامِ قِرْطَاسِ الدَّرَاہِم (2)تدبیرِفلاح ونجات واصلاح (3)اَلمُنٰی وَالدُّرَرْلِمَنْ عَمَدَ مَنِیْ آرْدَرْ

(22) علم ارضیات(Geology):یعنی وہ علم جس میں زمین اور اس کے حصوں کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے، زلزلے کا تعلق بھی اسی علم سے ہے ۔ زلزلہ کیسے آتا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟زلزلہ مختلف علاقوں میں کیوں آتا ہے؟زلزلہ پوری دنیا میں ایک ساتھ کیوں نہیں آتا ؟ زلزلہ کبھی کم شدت کے ساتھ اور کبھی انتہائی شدت کے ساتھ کیوں آتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب اس فن کا ماہر ہی دے سکتا ہے، امام اہلسنّت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے جب سوالات پوچھے گئے تو آپ علیہ الرحمہ نے اپنی فنی مہارت سے ان تمام کے تسلی بخش جوابات مرحمت فرمائے، اسی طرح تیمم کے مسئلہ میں مٹی اور پتھروں کی اقسام وحالتوں پر اپنی تحقیق سے 107 ایسی اقسام کا اضافہ فرمایا ہے جن سے تیمم جائز ہے اور 73 وہ بھی بتائی ہیں جن سے تیمم جائز نہیں، مزید تفصیل کیلئے آپ کا رسالہ ’’ اَلْمَطَرُ السَّعِیْد عَلٰی نَبْتِ جِنْسِ الصَّعِیْد‘‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

(23) علم حجریات(Petrology): یہ علم ارضیات کی ایک شاخ ہے جس میں پتھروں سے متعلق معلومات حاصل کی جاتی ہیں کہ کون سا پتھر، معدنیات، ہیرے جواہرات کہاں اور کیسے بنتے ہیں اور ان کو کس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے، Metalکی تعریف جتنی وضاحت کے ساتھ اعلیٰ حضرت نے فرمائی ہے اتنی وضاحت کے ساتھ علم حجریات والے بھی نہ کرسکے، اس فن میں اعلیٰ حضرت کے 3 رسائل ہیں: (1)حُسْنُ التَّعَمُّم لِبَیَانِ حَدِّ التَّیَمُّم(2)اَلْمَطَرُ السَّعِیْد عَلٰی نَبْتِ جِنْسِ الصَّعِیْد(3)اَلْجِدُّ السَّدِیْد فِیْ نَفْیِ الْاِسْتِعْمَالِ عَنِ الصَّعِیْد۔(ماخوذ ازمعارف رضا، ص17، مجلہ 2013)

(24) علم صوتیات: یہ علم ہیئت کی ایک اہم شاخ ہے جس میں آواز کی لہروں سے متعلق علم حاصل کیا جاتا ہے ، موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے تک آواز کا پہنچنا اسی طرح الٹرا ساؤنڈ کی مشینوں میں بھی آوازکی لہروں سے مدد لی جاتی ہے، اعلیٰ حضرت آواز کی لہروں سے بھی بھرپور واقف تھے ،’’اَلْکَشْفُ شَافِیَا حُکْمُ فُوْنُوْ جِرَافِیا‘‘ نامی کتاب اس فن پر آپ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔(ماخوذ ازمعارف رضا، ص17، مجلہ 2013)

(25) علم البحر(Oceanography): اس علم کی ایک شاخ سمندری موجوں سے تعلق رکھتی ہے جسے Tidesکہا جاتا ہے اور یہ لہریں مختلف قسم کی ہوتی ہیں، ان میں سے ایک قسم کو ’’مدوجزر‘‘یعنی Lunar Tideکہا جاتا ہے،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے’’فوز مبین ‘‘ میں ’’مدووجزر‘‘ کے سبب پر اپنا مؤقف نہ صرف مدلل انداز میں بیان فرمایا بلکہ اس فن میں بھی اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔

(26) علم الوفق:

اس فن میں بھی اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے: (۱)اَلْفَوْزُ بِالْآمَال فِی الْاَوْفَاقِ وَالْاَعْمَالِ۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۳)

(27-26) علم منطق وفلسفہ (Logics & Philosophy):

ان فنون سے متعلقہ امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی چند کتابیں یہ ہیں: (1)مقامع الحدید علی خد المنطق الجدید(2)الکلمۃ الملہمۃ فی الحکمۃ المحکمۃ (3)حاشیہ میر زاہد (4)حاشیہ ملا جلال (5)علم منطق پر ایک رسالہ۔ (المصنفات الرضویہ،ص۴۴)

یہ تو علوم عقلیہ میں آپ کی لکھی ہوئی کتابوں، رسائل اور تحقیقات کی کچھ تفصیل تھی جن کو آپ نے اپنی زندگی میں توجہ نہیں دی اور جن دینی علوم کی خدمت میں آپ متوجہ ہوئے ان کا کچھ اجمالی خاکہ بھی ملاحظہ فرمائیے:

(31-28) علم تفسیر، اصول تفسیر، تجوید وعلوم قرآن:

خاص ان علوم میں آپ کی 21 سے زائد کتابیں اور رسائل ہیں۔

(38-32)علم حدیث، اصول حدیث، اسانیدحدیث، تخریج احادیث،لغت حدیث، جرح وتعدیل اور اسماء الرجال:

ان علوم میں 59کتب ورسائل اور حواشی ہیں۔

(40-39)علم عقائد وکلام اور مناظرہ:

ان علوم پر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی 131کتب ورسائل اور حواشی ہیں۔

(44-41)علم فقہ، اصول فقہ، رسم المفتی اور علم الفرائض:

ان علوم پر آپ کی 266کتب ورسائل اور حواشی ہیں، جن میں 33جلدوں پر مشتمل عظیم فقہی انسائیکلو پیڈیا ’’العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ‘‘ اور7جلدوں پر مشتمل فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’’رد المحتار‘‘ پر آپ کے لاجواب حواشی ’’جد الممتار‘‘ شامل ہیں۔

(47-45)سیرت، فضائل ومناقب:

ان علوم پر 34کتب ورسائل حواشی ہیں۔

(50-48)تصوف، سلوک اور اذکار:

ان موضوعات پر 22کتابیں اور رسائل ہیں۔

(52-51)اخلاق، مواعظ ونصائح:

ان پر 8کتابیں ہیں۔

(55-53)ملفوظات، مکتوبات اور خطبات:

ان موضوعات پر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی 7کتابیں ہیں۔

(56)علم ادب:

اس موضوع پر 23کتابیں اور حواشی ہیں۔

(58-57)علم صرف ونحو:

ان دونوں علوم پر آپ کل 3 کتابیں ہیں جن میں ، علم نحو کی کتاب ’’ہدایۃ النحو‘‘ پر آپ کی عربی زبان میں وہ شرح بھی شامل ہے جو آپ نے صرف 10سال کی عمر میں تحریر فرمائی تھی۔

(59)علم تعبیر:

اس فن کی مشہور کتاب ’’تعطیر الانام‘‘ پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حاشیہ لکھا ہے۔

(ان تفصیلات میں مولانا عبد المبین نعمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب ’’المصنفات الرضویہ‘‘ صفحہ 18 تا 41 سے مدد لی گئی ہے)


امِ عطار کی زندگی سے متعلق ایک مختصر رپورٹ

از:محمد عمرفیاض عطاری مدنی

امیرِاَہل سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی والدہ ماجدہ کا نام امینہ تھا، آپ نیک ، صالحہ اور پرہیزگار خاتون تھیں ۔ اَمیرِ اَہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے والِد ِمحترم حاجی عبدُالرّحمن قادری کے وِصال فرمانے کے بعد بچّوں کی ساری ذِمّہ داری آپ کی والدہ کے کندھوں پر آگئی تھی، اِن کٹھن لمحات میں بھی آپ ہمّت نہ ہاریں، گھر کا نظام بھی اَحسن انداز سے چلایا اور سخت ترین معاشی آزمائشوں میں بھی اپنے بچوں کی اسلامی خُطوط پر تربیت کی۔ جس کا منہ بولتا ثبوت خود امیرِ اَہل سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ذاتِ مقدسہ ہے ۔

امیرِ اَہل سنّت فرماتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ والدہ محترمہ رحمۃ اللہ علیہا کا شروع سے ہی فرائض و واجبات پر عمل کرنے اور کر وانے کا اس قدر ذہن تھا کہ ہم بہن بھائیوں کو چھوٹی عمر سے ہی نمازوں کی تلقین کرتیں اور سختی سے عمل بھی کر واتیں ، بالخُصوص نمازِ فجر کے لئے ہم سب کو لازمی اُٹھاتیں ۔ والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا کی اس طرح تلقین و تربیت کی بَرَکت سے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میری بچپن میں بھی کبھی نمازِ فجر چھوٹی ہو ۔

امیر اہل سنت کے بھائی کی وفات کے تھوڑے ہی عرصے بعد آپ کی والِدۂ محترمہ کا وصال 17 صَفَرُ الْمُظَفّر 1398سن ہجری جمعرات اور جُمُعہ کی درمیانی شب تقریباً سوا 10بجے کراچی کے علاقے میٹھادر میں ہوگیا۔

ایسے اعصاب شکن حالات میں عموماً لوگوں کے ہاتھ سے دامن ِ صبر چھوٹ جاتا ہے اور ان کی زبان سے شکوہ وشکایت کے الفاظ جاری ہوجاتے ہیں ،لیکن امیرِاہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے دل برداشتہ ہونے کے بجائے اپنے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں بصورتِ ا شعار اِستِغاثہ پیش کرتے ہوئے کلام لکھا:

گھٹائیں غم کی چھائیں،دل پریشاں یا رسولَ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

تمہیں ہو میرے دَرْد و دُکھ کا دَرماں یا رسولَ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

میں ننھا تھا، چلا والد، جوانی میں گیا بھائی

بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں چلی ماں یا ر سولَ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں کہ والدۂ مُشفِقَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کا شبِ جُمُعہ کو انتقا ل ہوا۔الحمد للہ عزوجل کلِمۂ طَیِّبَہ اور اِسْتِغفار پڑھنے کے بعد زبان بند ہوئی ۔ غُسْل دینے کے بعد چہرہ نہایت ہی روشن ہوگیا تھا۔ جس حصۂ زمین پر روح قَبْض ہوئی اس میں کئی روز تک خوشبو آتی رہی اورخُصوصاً رات کو جس وقت انتقال ہوا تھا،اس وقت طرح طرح کی خوشبوؤں کی لَپٹَیں آتیں۔ سوئم والے دن صبح کے وقت چند گلاب کے پھول لاکر رکھے تھے جو شام تک تقریباً تروتازہ رہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے یہ پھول اپنی والدہ کی قبْر پر چڑھائے۔ یقین جانیں اُن پھولوں میں ایسی بھینی بھینی خوشبو تھی کہ آج تک مجھے گلاب کے پھولوں سےکبھی ویسی خوشبو سونگھنے کو نہیں ملی، بلکہ گھنٹوں تک وہ خوشبو میرے ہاتھوں سے بھی آتی رہی ۔ سبحان اللہ!!!

ہم اس عظیم ماں کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں اوراپنے تمام قارئین سے گزارش کرتے ہیں کہ جس ماردِ مشفقہ نے ہمیں الیاس قادری صاحب جیسی عظیم ہستی عطا کی ہے ان کے یومِ وصال پر آپ بھی خوب ایصال ِ ثواب اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کیجئے:

اللّٰہ تعالٰی کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کتابیں سیرتِ صحابہ کرام پر تصنیف کی گئی ہیں وہ مختلف گوشوں اور پہلوؤں سے بڑی اہمیت کی حامل اور مرکۃالآراء تصانیف ہیں یہ نہایت مفید اور اہم ترین کام ہے ۔

تراجم ِصحابہ پر تصنیف کردہ کتابیں بے شمار ہیں ان میں مشہور ترین کتابیں یہ ہیں :

الاستیعاب فی معرفة الاصحاب

تالیف : ابن عبد البر رحمةاللہ علیہ

یہ کتاب معرفت ِصحابہ کے موضوع پر اہم ترین کتاب ہے ۔اس کتاب کا نام مصنف نے ’’ الاستیعاب ‘‘رکھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے تمام صحابۂ کرام کے احوال کا احاطہ کر لیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بہت ساری ضروری چیزیں ان سے رہ گئیں۔

اس کتاب میں ساڑے تین ہزار (3500) صحابۂ کرام کے تراجم و حالات قلمبند کئے گئے ہیں اور صحابۂ کرام کے ناموں کو حروف معجم (حروف تہجی)کی ترتیب پر جمع کرتے ہوئے نام کے پہلے حرف کو ملحوظ رکھا گیا ہے لیکن اس کے بعد باقی حروف کا اہتمام متروک ہے ۔ناموں سے فراغت کے بعد مشہور کنیتوں کو بھی حروف معجم کی ترتیب پر رکھا گیا ہے پھر صحابیات کے نام اور ان کی مشہور کنیتیں ذکر کی گئی ہیں ۔

اسد الغابة فی معرفة الصحابة

تالیف : عز الدین ابی الحسن علی بن محمد ابن الاثیر جزری رحمة اللہ علیہ

یہ کتاب اسمائے صحابہ کی معلومات کے لئے بے حد عمدہ کتاب ہے۔ اس کے مؤلف نے اس کتاب کی ترتیب و تنسیق اور جمع و تہذیب میں کافی محنت کی ہے۔ اس کتاب میں 7 ہزار پانچ سو چوَّن (7554) صحابہ ٔکرام کے تراجم کو ذکر کیا گیا ہے چنانچہ حروف معجم کی ترتیب پر اسمائے صحابہ کو ذکر کرتے ہوئے حرف اوّل اور ثانی کی نسبت کرتے ہوئے اسم کے آخر تک اسی طرح حروف معجم کی ترتیب پر ذکر کیا گیاہے ۔

مؤلف کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں : اس کتاب کو میں نے الف، باء ،تاء اورثاء کی ترتیب پر مُدون کیا ہے اور ناموں میں حرفِ اول، حرفِ ثانی اور حرفِ ثالث کو لازم پکڑا ہے۔ اسی طرح آخری اسم تک کیا ہے ۔باپ اور دادا کے ناموں میں بھی یہی طرزرکھا ہے اور قبائل میں بھی یہ طریقہ اپنایا ہے کہ اسمائےصحابہ کو ذکر کیا پھر صحابیات کا تذکرہ کیا۔

الاصابة فی تمییز الصحابة

تالیف : حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمةاللہ علیہ

یہ کتاب اسمائے صحابہ کےحوالے سے جامع تدوین اور کامل و اکمل کتاب ہے۔اس کتاب میں مؤلف نے ان تمام کتابوں سے استفادہ کرکے مواد جمع کیا ہے جو متقدمین علمائےکرام نے اس موضوع پر تصنیف فرما ئی ہیں ۔

اس کتاب میں تمام تر ضروری معلومات کو مرتب کیا گیاہے اور اوہام سے کنارہ کشی کرتے ہوئے مؤلف نےایسے اضافے بھی کئے ہیں جو بعض طرق حدیث میں انہوں نے مناسب سمجھا یا دوسری تصانیف سے اخذ کیاہے جس کی وجہ سے یہ کتاب نہایت مفید اور جامع ہے۔

مصنف علیہ رحمہ نے اس کتاب کو حروف معجم کی ترتیب پر ابن اثیر جزری رحمة اللہ علیہ کی طرح مرتب کیا ہے جس میں پہلے اسمائے صحابہ کوذکر کیا پھر ان کی کنیت پھر اسمائے صحابیات اورپھر ان کی کنیت البتہ اسم اور کنیت میں ہر حرف کی چار تقسیم کی ہے جو حروف معجم کی ترتیب پر ایک اضافہ ہے ۔

حرف کی چار (4) اقسام بنائی ہیں:

قسمِ اول :

یہ قسم ان اصحاب کے بارے میں ہے جن کی صحابیت بطرقِ روایت ثابت ہے خواہ خود راوی نے نقل کیا ہو یا دوسرے کے نقل کرنے سےمعلوم ہویا ان کا ذکر ان الفاظ و عبارات سے ہوا ہو جو صحبتِ رسول ﷺ پر دلالت کریں ۔

قسم ثانی :

یہ قسم اُن حضرات کے بارے میں ہے جوصحابہ تو ہیں لیکن دوسرے صحابہ ٔ کرام کے مقابلے میں عمر میں کافی چھوٹے ہیں، حضور علیہ السلام کے عہد میں پیدا ہوئے اور آپ علیہ السلام کے انتقال کے وقت ان کی تمییز تک نہ پہنچ سکے ۔

قسم ثالث :

یہ قسم ان حضرات کے بارے میں ہے جن کا ذکر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کے زمانے سے پہلے کی کتابوں میں ہے اور وہ مخضرمیں سے ہیں یعنی وہ صحابہ ٔکرام جنہوں نے زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں زمانے پائےہوں اور ان کے بارے میں کو ئی ایسی حدیث مروی نہیں ہے جس میں یہ مذکورہوکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہے یا انہوں نے حضور علیہ السلام کی زیارت کی ہے یہ حضرات بالاتفاق صحابہ میں نہیں ہیں ان کا ذکر تو صرف اس لئے ہوتا ہے کہ یہ طبقہ صحابہ ٔ کرام سے ملاہوا تھا۔

قسم رابع :

یہ قسم ان لوگوں کے بیان میں ہے جن کا ذکر قدیم کتابوں میں صحابۂ کرام کے ناموں کے ضمن میں غلطی سے بطور وہم آگیا ہے لہٰذا اس وہم اور غلطی کا اس میں بیان ہے ۔

اس لئےمذکورہ چاروں قسموں کے ناموں کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے بالخصوص اُس وقت جبکہ صحابۂ کرام کے ناموں کی تحقیق کا سلسلہ چل رہا ہو تاکہ تحقیق کرنے والے کو معلوم ہوجائے کہ یہ شخص صحابی ہے یا نہیں نیزیہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ اقسام اکثر و بیشتر سب سے اہم مانی جاتی ہیں۔

اس کتاب میں تراجم و حالاتِ صحابہ کی تعداد 12 ہزار دوسو سڑسٹھ (12266)ہے جن میں سے 9 ہزار چار سو ستتر(9477) تراجم اُن رِجال کی ہیں جو اپنے اسما سے جانے جاتے ہیں اور 12سو ارسٹھ (1268) تراجم کنیت سے پہچانے جانے والے رواة کے ہیں، اسی طرح15سوبائیس (1522) تراجم خواتین کے اسما وکنیت والے ہیں ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں کُتُب کو صحیح معنی میں سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ


نام کتاب: جَدُّ الْمُمْتار عَلٰی رَدِّ الْمُحْتار

جلدوں کی تعداد: 7

کل صفحات: 4000

فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’فتاوی شامی‘‘ جسے ’’رَدُّ الْمُحْتَار‘‘ بھی کہا جاتا ہے اس پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے انتہائی مفید تحقیقی حواشی تحریر فرمائے ہیں جسے جدید تحقیقی معیار کے مطابق سات جلدوں میں انتہائی مزین انداز میں مکتبۃ المدینہ نے شائع کیا ہے، یہ کتاب در اصل علامہ ابن عابدین شامی قُدِّسَ سِرُّہ السَّامی کی کتاب ردالمحتار پر عربی زبان میں حاشیہ ہے۔ اور’’رد المحتار‘‘ علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمہ کی’’در مختار‘‘ جو کہ امام تمرتاشی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’تنویر الابصار‘‘ کی شرح ہے، اس پر حاشیہ ہے۔

جد الممتار کی کچھ خصوصیات: ویسے تو امام اہلسنّت کا یہ حاشیہ کئی وجوہات کی بناء پر انفرادیت کا حامل ہے جس کا تفصیلی ذکراسکی پہلی جلد میں قبلہ محمد احمد مصباحی دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا ہے ، کچھ درج ذیل ہیں:

(1)فقہی تبحر ووسعت نظر، (2)جزئیات کی فراہمی اور ان کا استخراج،(3)استدلال،(4) غیر منصوص احکام کا استنباط، (5)حل اشکالات، (6)لغزشوں پر تنبیہات،(7) تحقیق طلب مسائل کی تنقیح، (8)مشکل اور مبہم مقامات کی توضیح،(9) اقوال میں تطبیق،(10) مختلف اقوال میں ترجیح، (11)حوالہ جات اور مراجع کا اضافہ،(12) دلائل کی کثرت، (13)اختصاروغیرہ

دعوتِ اسلامی کے اسلامک ریسرچ سینٹر( المدینۃ العلمیہ) کے شعبہ کتب اعلیٰ حضرت کے مدنی علمائے کرام نے اس کتاب میں درج ذیل کام کئے ہیں:

(1)تقدیم وترتیب:

ہر قولہ پر نمبرنگ کا قیام،

جدید عربی رسم لخط کے التزام کے ساتھ ساتھ رموز واوقاف کا اہتمام،

مشکل الفاظ پر اعراب،

کتاب، باب اور فصل کا قیام۔

(2)تخریج وتحقیق (References & Research):

قرآنی آیات، احادیث کریمہ اور عبارتوں کی تخریج۔

وہ کتابیں جو طبع ہی نہیں ہوسکیں اور مخطوطے کی شکل میں ہیں ان کی تخاریج ۔

امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی عادتِ کریمہ ہے کہ کسی مسئلہ میں چند کتابوں کی عبارتیں ذکر کرنے کے بعد اپنے مؤقف کی تائید میں دیگرکئی کتابوں کے صرف نام ذکر فرمادیتے ہیں تو ان کی بھی تخریج کا اہتمام کیا گیا ہے۔

کبھی اس مسئلہ کی تحقیق کسی دوسری جگہ فرماچکے ہوتے ہیں تو اس کی طرف صرف اشارہ فرمادیتے ہیں تو ان کی بھی تخاریج کی کوشش کی گئی ہے۔

امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے رد المحتار پر حواشی کے ساتھ ساتھ کئی علوم وفنون اور کتب پر بھی حواشی رقم فرمائے ہیں اور جد الممتار میں کئی جگہ ان کا حوالہ بھی دیا ہےتو ان حواشی کی تخریج کے ساتھ وہاں بیان کردہ امام کی تحقیق کو بھی کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔

جہاں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے کسی حدیث مبارکہ کی طرف اشارہ کیا ہے تو غوروخوض کے بعد امام کی مرادی حدیث مبارکہ بھی مکمل بیان کردی گئی ہے۔

اپنی رائے،تحقیق اور اضافہ جات کو امام اہلسنّت کی عبارت سے الگ رکھا گیا ہے تاکہ غلطی کی صورت میں مصنف علیہ الرحمہ کا دامن پاک رہے۔

عرب دنیا میں رائج جدید انداز تحقیق وتخریج اختیار کیا گیا ہے۔

(3)تقابل:

پوری کتاب کا ایک سے زائد مرتبہ تقابل کیا گیا ہے۔

اس حاشیہ کی ابتدائی دوجلدیں (کتاب الطہارۃ تاکتاب الطلاق) الجمع الاسلامی مبارکپور ہند سے شائع ہوچکی تھی تویہاں تک کے تقابل اور کام میں بھی اسی نسخہ کو معیار بنایا گیا ہے اس کے بعد کتاب الایمان سے آخرکتاب تک کا مواد مخطوط کی شکل میں تھا لہذا اس کا تقابل مخطوط سے کیا گیا ہے۔

صحتِ متن کیلئے حتی المقدور کوشش کی گئی ہے، اس میں صحتِ عبارت کے ساتھ ساتھ فقہی صحت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ فارسی عبارتیں ماہرین سے چیک کروائی گئی ہیں، اور دیگر فنی ابحاث مثلاً کتاب الصلوۃ میں جہاں علم توقیت کے حوالے سے گفتگو آئی ہے وہاں درجہ اور دقیقہ وغیرہ میں علم توقیت کے اسلامی بھائیوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔

(4)تعریب (Arabic Translation):

جہاں کہیں اردو یا فارسی عبارتیں آئی ہیں ان کی عربی بھی بنائی گئی ہے۔

(5)تراجم (Books Intro. & Persons Biography):

جہاں کہیں امام اہلسنت نے کسی شخصیت یا کتاب کا نام ذکر کیا ہے تو ان کا مختصر تعارف بھی کردیا گیا ہے اسی طرح کتاب کے بھی مصنف کا نام ، اس کتاب کا موضوع وغیرہ بیان کردیا گیا ہے۔

(6)فتاویٰ رضویہ:

اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ فتاویٰ رضویہ میں جہاں کہیں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے تنویر الابصار، در مختار یا رد المحتار کی کسی عبارت پر کوئی کلام فرمایا ہے اسے مکمل تلاش اور چھان بین کے بعد شامل کردیا گیا ہے البتہ اصل حواشی اور فتاویٰ رضویہ کے اضافہ جات میں فرق کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔

(7)فہارس:

اس کتاب کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں 9 طرح فہرستیں بنائی ہیں جنہیں آپ کتاب میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

علماء ومفتیانِ کرام بالخصوص تخصص فی الفقہ کےاسلامی بھائیوں کی سہولت کیلئے امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کا عظیم الشان رسالہ ’’ اَجْلَی الْاِعْلَام اَنَّ الْفَتْوٰی مُطْلَقًا عَلٰی قَوْلِ الْاِمَام ‘‘ کو تحقیق وتخریج کے ساتھ پہلی جلد میں شامل کیا گیا ہے، اللہ پاک کی رحمت سے اب یہ رسالہ بیروت سے بھی شائع ہوچکا ہے۔

الحمد للہ دعوتِ اسلامی کی اس کاوش کو علمائے کرام کی طرف سے بہت سراہا گیا اور کام کرنے والوں کو دعاؤں سے نوازا گیا ، چنانچہ مولانا افتخار احمد مصباحی صاحب دام ظلہ جو جنوبی افریقہ لیڈی اسمتھ میں دار العلوم قادریہ غریب نواز میں شیخ الحدیث بھی ہیں نیز مجمع الاسلامی کے تحت جد الممتار پر ابتداءً کام کرنے والی ٹیم کا حصہ بھی رہے ہیں اور پہلی جلد کے شروع میں ’’حیاۃ الامام احمد رضا‘‘بھی انہی کی تحریر کردہ ہے ، انہیں جب دعوتِ اسلامی کی جانب سے اس کی طباعت کا علم ہوا تو انہوں نے شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت مولانا الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کی دینی خدمات کے اعتراف کے بعد اس پر کام کرنے والوں کا نام لے کر حوصلہ افزائی فرمائی اور دعاؤں سے نوازا، یہ اسی کی برکت ہے کہ امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی غیر مطبوعہ تصانیف پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’ہدایہ‘‘ اور اس کی شروحات (فتح القدیر، عنایہ، کفایہ اور حاشیہ چلپی) پر لکھے گئے حواشی تحقیق وتخریج کے ساتھ دار الکتب العلمیہ بیروت سے شائع ہوچکی ہے اور مزید پرکام جاری ہے۔

جد الممتار کی عالم عرب میں مقبولیت: شیخِ طریقت امیر دعوتِ اسلامی مولانا الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کی خصوصی شفقتوں اور علمائے اہلسنّت کی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے کہ کتاب چھپنے کے بعد چند سالوں میں ہی دنیائے عرب میں بھی اس کا ڈنکا بجنے لگا چنانچہ دار الکتب العلمیہ بیروت کے مالکان نے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ العربیہ اور دار تراث العلمی کے ذمہ داران سے رابطہ کرکے اس کی طباعت کی خواہش ظاہر کی تو تمام جلدوں پر نظرِ ثانی، تصحیح، متروکہ تخاریج وتراجم کا کام کیا گیا ہے اور اللہ پاک کی رحمت اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظر عنایت سے امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عظیم فقہی شاہکار بہت جلد دنیائے عرب سے شائع ہوکر وہاں کے شیوخ، علماء اورمحققین کی مزید آنکھیں ٹھنڈی کرے گا، ان شاء اللہ عزوجل۔

آخر میں اخلاص وقبولیت کیلئے دعاجو اوردعاگو ہوں کہ اللہ کریم دعوتِ اسلامی کے اس چمن اور اس کے نگہبان شیخ طریقت امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہ العالیہ اور جملہ علما ومشائخ اہلسنّت کا سایہ اور شفقتیں تادیر قائم ودائم رکھے۔آمین بجاہ النبی الامین


مفتی محمداعجازولی خان رضوی رحمۃ اللہ علیہ

اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان(1) رحمۃ اللہ علیہ کےخاندان کے وہ افراد جنہو ں نے پاکستان ہجرت کی،ان میں سے ایک اہم شخصیت استاذالعلماء،مفتیِ اسلام،حضرت علامہ مفتی محمد اعجازولی خان رضوی صاحب بھی ہیں، انہوں نے پاکستان کے کئی شہروں میں درس وتدریس کی خدمات سرانجام دیں،ہزاروں طلبگارانِ علم کو علم ومعرفت سے سیراب کیا، ذیل میں ان کے کچھ حالات ذکرکئے جاتے ہیں :

اعلیٰ حضرت سے رشتہ

مفتی اعجازولی خان صاحب کا نسب اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پڑداداحضرت حافظ کاظم علی خان صاحب (2) سے مل جاتا ہے۔نسب نامہ یہ ہے : مفتی محمداعجازولی خان بن مولانا سردارولی خان بن حکیم ہادی علی خان بن رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان بن حافظ کاظم علی خان۔ (3) والدہ کی جانب سے اعلیٰ حضرت رشتے میں آپ کے نانا ہیں کیونکہ مفتی صاحب کی والدہ کنیز فاطمہ اعلیٰ حضرت کی ہمشیرہ حجاب بیگم کی بیٹی ہیں ۔(4)

والدین کا ذکرِخیر

مفتی اعجازولی خان صاحب کے والدِمحترم مولانا سردارولی خان صاحب کی پیدائش1302ھ مطابق 1885ء کو بریلی شریف میں ہوئی ،انھوں نےطویل عمرپائی اور 6صفر1395ھ مطابق18فروری 1975ء کو پیرجوگوٹھ میں انتقال فرمایا۔آپ سراج العارفین مولانا سیّدابوالحسین احمد نوری(5) (سجادہ نشین آستانہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ شریف یوپی ہند) کے مرید تھے۔ مولانا سردارولی خان صاحب کی زوجہ ٔ محترمہ کنیزفاطمہ نیک صالحہ خاتون تھیں، انکی پیدائش1297ھ مطابق 1880ء کو بریلی میں ہوئی اور وصال 1377ھ مطابق1957ء کو پیرجوگوٹھ میں ہوا،دونوں کی قبورمفتی تقدس علی خان صاحب کے مزارکے قریب پیرجوگوٹھ قبرستان (ضلع خیرپورمیرس،سندھ)میں ہیں۔(6) مولانا سردارولی خان صاحب کے چاربیٹے مشہور عالم دین مفتی تقدس علی خان، مفتی اعجازولی خان،عبدالعلی خان،حافظ مقدس علی خان اوردوبیٹیاں محبوب فاطمہ زوجہ شریف محمدخان اورحمیدفاطمہ تھیں۔(7) مولانا سردارولی خان صاحب نے اپنی اہلیہ کے ساتھ 1330ھ مطابق 1912ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔ مفتی اعجازولی صاحب بیان کرتے ہیں : 1330ھ میں میرے والدین کریمین حج کے عازِم ہوئے ، والدہ صاحبہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئیں(8) اور اجازت چاہی، اعلیٰ حضرت نے فرمایا:’’میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں‘‘ پھر فرمایا :’’ میں سچ کہتا ہوں کہ میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں ‘‘ والدہ صاحبہ اس کے بعد حج پر روانہ ہو گئیں۔حطیم شریف میں ایک شب والدہ صاحبہ نفل پڑھ رہی تھیں کہ لوگوں کا ہجوم ہوگیا اور ساتھ والے سب جدا ہو گئے ۔ والدہ صاحبہ بہت گھبرا ئیں اور خیال کیا کہ اعلیٰ حضرت نے فرمایا تھا کہ میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں ، اب اور کون سا وقت آئے گا جس میں مدد فرمائیں گے۔لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ راستہ ملنا دشوار تھا کہ اعلیٰ حضرت کو دیکھا ، آپ نے کچھ عربی میں فرمایا جس کا مطلب معلوم نہ ہو سکا لیکن اس قدر ہجوم کے باوجود راستہ ایسا مل گیا کہ والدہ صاحبہ بآسانی وہاں سے چلی آئیں اور دوسرے دروازہ سے جب حرم شریف کے باہر آئیں تو والدصاحب بھی مل گئے اوراعلیٰ حضرت غائب ہو گئے بریلی آکر عرض کیا تو اعلیٰ حضرت نے سکوت فرمایا۔(9)

پیدائش والقابات

مفتی صاحب 11 ربیع الآخر 1332ھ مطابق 20 مارچ 1914ء میں بریلی شریف میں پیدا ہوئے ۔(10) عقیقہ کی تقریب میں آپ کانام محمدرکھا گیا ،اعجازولی خان عرف قرارپایا ۔(11) آپ اپنا نام اس طرح لکھا کرتے تھے:فقیرقادری محمد اعجازالرضوی عفی عنہ۔(12) آپ کے القابات فخرالاساتذۃ الاعلام،فاضل جلیل،نامورمفتی ،فقیہ المفخم ،شیخ الفقہ ،شیخ الحدیث اوراستاذالعلماوغیرہ ہیں ۔

بچپن اوراعلیٰ حضرت سے تَلَمُّذ(شرفِ شاگردگی)

25شعبان المعظم 1336ھ مطابق 5جون 1918ء کورسم بسم اللہ میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضا نےبسم اللہ شریف پڑھا کر باقاعدہ تعلیم کا آغازفرمایا ،قرآن مجید آپ نے حافظ عبدالکریم قادری صاحب(13) سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی ، حفظ القرآن کی تکمیل حافظ عبدالقادر بریلوی صاحب(14) سے کی ۔(15) مفتی اعجازولی خان صاحب کو بچپن کے تقریبا ً آٹھ سال تک اعلیٰ حضرت کی قربت حاصل رہی ،آپ اعلیٰ حضرت سے اس قدرمانوس تھے کہ اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد بھی اعلیٰ حضرت کے مزارپر حاضرہوکر اپنی مشکلات بیان کردیا کرتے تھے ؛چنانچہ آپ کے بیان کردہ دوواقعات ملاحظہ فرمائیے : ٭ میرا چھوٹا بھائی(حافظ مقدس علی خان ) جومجھے بہت ہی زیادہ پیارا ہے چیچک میں مبتلا ہوا ۔ ایک شب میں استاذ ی مولانا امجدعلی اعظمی صاحب(16) کے مکان پر تھا اور مولوی عبدالمصطفیٰ صاحب(17 ) سے لپٹ کراسی غم میں رو رہا تھا کہ دل میں خیال آیا کیوں نہ اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کروں، آستانہ پر حاضر ہوا اور رو رو کر عرض کیا، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں حکم ہوا ’’اچھا ہوجائے گا۔‘‘فوراً صحت ہو گئی ۔(18) ٭ 4مئی 1935ء(مطابق 30محرم 1354ھ) کو بدایون اور گاؤں کے درمیان دس آدمیوں نے والد صاحب قبلہ پر حملہ کیا اور بہت زیادہ چوٹیں آئیں ۔ صبح 5مئی کو مظفر حسین نے کچھ ایسے الفاظ میں والد صاحب کی حالت بیان کی کہ نہ صرف میں بلکہ تمام لوگ گھبراگئے ۔ فوراً آستانۂ رضویہ پر حاضر ہوا اور عرض کیا ۔ حکم ہوا کہ ’’ اچھے ہیں ‘‘ بدایون جا کر دیکھا تو جیسی حالت بتائی تھی اس سے بہت کم تھی ، 20،22دنوں میں صحت ہو گئی اگر چہ ضربات 18،19تھیں ،مگر صدقے اس کریم کے کہ جس نے صحیح و سالم کر دیا ۔ (19)

دارالعلوم منظراسلام میں داخلہ

مفتی اعجازولی خان صاحب جب کچھ بڑے ہوئے تو دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف(20) میں داخلہ لے لیا،ابتداًتا متوسطات کتب درس نظامیہ اپنے بڑے بھائی مفتی تقدس علی خان(21) ،حضرت مولانا مختاراحمدسلطانپوری ثم بریلوی(22) اور حکیم الاسلام مفتی محمدحسنین رضا خان بریلوی(23) سے پڑھیں،شرح جامی مفتی اعظم ہند محمدمصطفی رضا خان صاحب(24) اور تفسیرجلالین اپنے ماموں زادبھائی مولانا سردارعلی خان عزومیاں بریلوی ثم ملتانی (25) سے پڑھی۔(26)

مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں میں داخلہ

درسیات کی تکمیل کے لیےصدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی(27) کے پاس مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڑھ ،یوپی ہند (28) میں تخمیناً محرم 1356 ھ مطابق مارچ1937ء کو حاضرہوئے، شعبان1356ھ مطابق اکتوبر 1937ء کو سندتکمیل وسندحدیث حاصل کی۔یہاں آپ کو صدرالشریعہ کے شاگردحضرت مولاناحافظ قاری غلام محی الدین رضوی شیری صاحب سے شرفِ تلمذ(شاگردبننے کی سعادت )حاصل ہوا۔(29)

مفتیِ اعظم ہند اورحجۃ الاسلام سے حصولِ سندِحدیث

مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں سے فارغ التحصیل ہوکربریلی شریف آئے تومفتی اعظم ہند مفتی محمدمصطفی رضا خان صاحب سے سندِ حدیث کی درخواست پیش کی، مفتی اعظم ہند نے آپ کو 1356ھ مطابق 1937ھ کو سندِ حدیث عطا فرمائی، بعدازاں حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب(30) نے تقریباً 8ذوالحجہ 1356ھ مطابق9فروری 1938ء کو سندِحدیث عطافرمائی ،اسی عرصے میں الہ آباد یونیورسٹی میں فاضل دینیات کا امتحان دیا اورکامیاب ہونے پرفاضلِ دینیات کی ڈگری حاصل کی ۔ (31)

علمِ جفراورفنِ استخراج میں مہارت

مفتی اعجازولی خان صاحب جیدعالم دین،بہترین مدرس،فقیہ جلیل اورمعقول ومنقول کے جامع تھے ۔اسلامی علوم بالخصوص فقہ وحدیث میں کامل دسترس رکھتے تھے ،آپ کو علم جفر(32) اورفنِ تاریخ گوئی(33) سے بھی دلچسپی تھی ۔مولانا محمدابراہیم خوشترقادری صاحب (34) تحریرفرماتے ہیں :امام احمدرضا کے خاندان میں آپ کو علم جفرسے قدرے مناسبت تھی۔اس کا مشاہدہ راقم الحروف نے خود کیا ہے۔ آپ نے چندسال پہلے ہی مجھے اپنے وصال کی خبردی،پھرمیں نے رمضان سے پہلے اس کی تصدیق چاہی کہ آپ کی پیشگوئی کے مطابق رحلت آپ کی رمضان میں ہوگی ،ہنوزبرقرارہے؟ آپ نے جواباًارشادفرمایا،اب قدرے تبدیلی واقع ہوگئی ہے۔اب یہ سانحہ شوال میں ہوگا ۔مزیدفرماتے ہیں :تحدیثِ نعمت کے طوپر لکھ رہاہوں کہ تاریخِ استخراج کے فن میں حضرت فقیہِ عصرسے میں نے استفادہ کیا ہے۔(35)

بیعت و خلافت

اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان صاحب نے آپ کو رسم بسم اللہ کے موقع پر 25شعبان 1336ھ مطابق 5جون 1918ء کوسلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں داخل فرمایا،حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا خان صاحب نے آپ کو 8ذوالحجہ 1356ھ مطابق9فروری 1938ء کو سلسلہ قادریہ رضویہ حامدیہ کی خلافت عطافرمائی۔(36) 7رجب1383ھ مطابق 24نومبر1963ءکو سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازسیدحسن سنجری(37) کے دربارِگہربارمیں مفتی اعظم ہندعلامہ محمد مصطفی رضا خان نوری صاحب نے آپ کو سلسلہ قادریہ رضویہ نوریہ کی خلافت عطافرمائی ، آپ جیدعالم دین ،صوفی کامل اوراورادووظائف کے پابندتھے ،پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب تحریرفرماتے ہیں :

مفتی صاحب قبلہ علمی مصروفیت کے ساتھ ساتھ خانقاہِ بریلی کے ان تعویذات اوروظائف کے مجازتھے جوشمع شبستان رضا میں درج ہیں ۔ان کی وفات کے بعد دارالعلوم نعمانیہ لاہور(38) میں آج تک ان حضرات کے خطوط آتے ہیں، جو ان سے اپنے مصائب کا روحانی علاج تلاش کرتے تھے ،مزیدتحریرفرماتے ہیں ،مفتی اعجازولی خان 1965ء کی جنگ کے دوران میرے ساتھ اگلے مورچوں پر گئے۔دوسرے لفظوں میں مَیں ان کے ساتھ اگلے مورچوں پر گیا۔ہمارے ساتھ بڑے نامورعلماء اہل سنت کا ایک وفدتھا ۔اگرچہ ہرعالم دین نے اپنے اپنے اندازمیں غازیانِ صف شکن کے سامنے اسلامی جہاد کی فضیلت پرگفتگوکی مگرمفتی اعجازولی خاں مرحوم کا اندازروحانی تھا ،جسے موت وحیات کے درمیان کھڑے جوانوں نے بے حدپسندکیا۔آپ نے بعض نوجوانوں کوایسے وظائف بھی بتائے ،جسے سپاہی سے لے کرکمانڈرتک،ہرایک نے حاصل کرنے میں دلچسپی لی۔(39) جب آپ جامعہ محمدی شریف ،بھوانہ ،ضلع چنیوٹ،(40) میں شیخ الحدیث تھے تو اس دورمیں آپ نے شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمدقمرالدین سیالوی (41) رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں خلافت کا شرف حاصل کیا ۔ (42)

ہند میں تدریس

مفتی اعجازولی خان صاحب نےاسلامی علوم کی تحصیل کے بعد پاکستان ہجرت تک آپ نے تقریبا دس سال ہند میں گزارے ٭آپ نے تخمینا ً 1357ھ مطابق 1938ء تا 1362ھ مطابق 1943ء تک تقریبا چارسال این بی ہائی اسکول بریلی شریف میں ٹیچنگ کی ۔٭اس کے بعد دارالعلوم مظہراسلام بریلی شریف (43) اوردارالعلوم منظراسلام بریلی شریف میں معقولات کی تدریس میں دوسال مدرس رہے ٭اس کے ساتھ مفتی اعظم ہند کی سرپرستی میں رضوی دارالافتا ء بریلی شریف میں فتاویٰ نویسی کرنے لگے ٭ (غالباشوال)1364ھ مطابق (ستمبر)1945ء کو آپ مدرسہ منہاج العلوم پانی پت (44) تشریف لے گئے وہاں آپ نے ایک سال فرائض تدریس سرانجام دینے کے بعدآپ دارالعلوم منظراسلام واپس تشریف لے آئے اور پڑھانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ ٭ہند میں اس دورِ خدمت دین کا اختتام 6صفر 1367ھ مطابق 20دسمبر1945ء کو پاکستان ہجرت کی صورت میں ہوا،اس چھ سالہ تدریسِ درسِ نظامی میں کثیر طلبۂ کرام نےآپ سے استفادہ کیا ۔(45)

جمیعت خدّام الرضا ،بریلی کی رکنیت

مفتی اعجازولی خان صاحب نے قیام بریلی کے دوران جمیعت خدام الرضا میں شمولیت اختیارکی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ محدث اعظم پاکستان مولانا سرداراحمدقادری چشتی صاحب(46) نے 1352ھ مطابق 1933ء کو دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہوکراس میں تدریس شروع فرمائی۔ تواس زمانے میں آپ نے دیگرعلماسے مل کر جمیعت خدام الرضا بریلی بنائی ،جس کا مقصدبذریعہ تحریروتقریرمذہب حقہ اہل سنت وجماعت کی تبلیغ واشاعت اورجلسے جلوسوں کا انتطام کرناتھا ،علامہ سرداراحمدصاحب اس کے صدر،مفتی اعجازولی خان،مفتی وقارالدین قادری اوردیگرعلمااس کے اراکین منتخب ہوئے، اس کے تحت مفتی اعجازولی خان صاحب نے اپنا ایک اشتہار بنام’’ احقاقِ حق وابطال باطل‘‘ 29رجب1355ھ مطابق 16اکتوبر1936ء کو شائع کروایا جو محدث اعظم پاکستان کے کتب خانے میں موجودہے ۔(47)

جماعت رضائے مصطفیٰ میں حصہ

مفتی اعجازولی خان صاحب کل ہندجماعت رضائے مصطفی (48) کے’’ شعبہ اشاعتِ کتب‘‘ سے منسلک تھے چنانچہ مولانا شہاب الدین رضوی صاحب (49) تحریرفرماتے ہیں :مولانا اعجازولی خاں بریلوی نے بھی اشاعتِ کتب میں حصہ لیا اور جماعت کا کچھ باراپنے سرپرلیا۔پوسٹروغیرہ انہیں کے اہتمام سے شائع ہوتے تھے۔(50)

تحریکِ پاکستان میں فعال کردار

مفتی اعجازولی خان صاحب مسلمانوں کے حالات پر بھی گہری نظررکھتے ،حالات حاضرہ سے باخبررہتے اورمسلمانوں کی خیرخواہی کے لیے اہم اقدامات میں بھرپورحصہ لیتےتھے ٭ 1356ھ مطابق1937ء میں آپ مسلمانوں کےحقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت ونصرت کے لیے بیانات کرنے لگے ٭اہل سنت کی عظیم تنظیم ’’آل انڈیا کانفرنس‘‘(51) کاعظیم الشان اجلاس جمادی الاولیٰ 1365ھ مطابق اپریل1946 ء کو اترپردیش کے شہر بنارس میں ہوا جس میں تقریباپانچ سومشائخ عظام،سات ہزارعلمائے اعلام اوردولاکھ سے زائدسنی عوام نے شرکت کی ، اس اجلاس میں مفتی اعجازولی خان صاحب بھی اپنے رفقاکے ساتھ بھرپوراندازمیں شریک ہوئے۔اس میں پاکستان کے حق میں ایک تاریخ فتویٰ بعنوان’’آل انڈیا سنی کانفرنس کے مشاہیرعلماء ومشائخین کا متفقہ فیصلہ ‘‘شائع ہوا،آپ نے اس کی بھرپورحمایت کی۔(52) ٭جب 13صفر1359ھ مطابق23مارچ 1940ء کو لاہور(53) میں قراردادِ پاکستان(54) منظور ہوئی تو آپ اس سے نہ صرف متفق تھے بلکہ اس کی تائیدمیں رضوی دارالافتاء بریلی شریف سےایک فتاویٰ جاری فرمایا ٭جب تحریک پاکستان اپنے جوبن پرتھی تو آپ نے 1945 ء اور1946ء میں مشرقی پنجاب کا دورہ کرکے پاکستان کے حق میں جلسے کئے، لوگوں کو تحریک پاکستان میں حصہ لینے کے لیے تیارکیا ،اس سلسلے میں پیداکئے جانے والے شکوک و شبہات کودورکیا،مخالفین کے دلائل کا بہترین جواب دیا ۔چنانچہ اکابرِتحریک پاکستان میں ہے:

(آل انڈیا کانفرنس میں شرکت کے بعدمفتی صاحب )حصول پاکستان کی منزل کوپانے کے لیے سربکف ِ میدان میں کودے،جگہ جگہ مسلم لیگ کی حمایت میں دورے کئے۔ پنجاب کے اکثراضلاع میں مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا۔(55)

٭23تا25صفرالمظفر 1365ھ مطابق27تا29جنوری 1946ء کو آپ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پچیسویں عرس کےموقع پر بریلی شریف میں پاکستان کےحق میں قراردادمنظورکی گئی،(56) اس میں آپ موجودتھے اورآپ نے اس قراردادکی مکمل حمایت کی ، علمائے اہل سنت کی کوششوں اورعوام اہل سنت کی حمایت سے ہی ہمیں وطن عزیز پاکستان جیسی عظیم نعمت حاصل ہوئی ہے۔

بعدِہجرت تدریس

مفتی اعجازولی خان بہترین مدرس تھے آپ نے تدریسی دنیا میں بڑانام پیداکیا۔بریلی شریف،جھنگ،جہلم،لاہورمیں کتبِ معقول ومنقول کی تدریس میں بڑی شہرت حاصل کی۔شیخ الحدیث والفقہ کی حیثیت سے تو آپ کی ذات مُسلَّم تھی،پاکستان میں آپ کی تدریس زندگی کی کچھ تفصیل ملاحظہ کیجئے:

٭ 6صفر1367 ھ مطابق 20دسمبر1947ء کو آپ نے پاکستان ہجرت کی اورجامعہ محمدی شریف (57) بھوانہ (ضلع چنیوٹ،پنجاب) میں تدریس کا آغازکیا ، 1370 ھ مطابق 1951ء تک آپ یہاں رہے ،بطورمدرس ونائب شیخ الحدیث آپ نے وہاں تین چارسال پڑھایا ۔ (58) آپ کے ایام تدریس میں وہاں فاضل عربی اور دورۂ حدیث کا آغازہوا۔(59)

٭پھرآپ نے 1370 ھ مطابق 1951ء تا1373ھ مطابق 1954ء کی درمیانی مدت میں دارالعلوم اہل سنت و جماعت جہلم (60) میں تدریس فرمائی۔ اس مدرسے میں استاذالحفاظ حافظ محمدسعید کاشمیری صاحب (61) اور استاذالعلما ء مفتی قاضی غلام محمودہزاروی صاحب(62) بھی مدرس رہے ہیں ۔(63)

٭شوال1373ھ مطابق جون 1954ء میں آپ جامعہ نعیمیہ لاہور(64) میں بطورشیخ الحدیث و الفقہ تشریف لے آئے، تقریباً چھ سال بحسن وخوبی یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔٭اسی دوران آپ نے1373ھ مطابق 1954ء میں حضرت داتاگنج بخش سیدعلی ہجویری کے دربارگہربارکے قریب جامعہ گنج بخش (65) قائم فرمایا،اس جامعہ کے قیام میں حضرت سیدمحمدمعصوم شاہ مالک نوری کتب خانہ(66) نے دل کھول کرامداددی ۔حضرت مفتی اعجازولی خاں رضوی رحمۃ اللہ علیہ صبح کو داتاصاحب کی مسجدمیں درسِ قرآن دیتے اور جامعہ گنج بخش کے طلبہ کو پڑھاتے ۔اس مدرسہ نے آہستہ آہستہ اپنا نام پیداکرلیا ۔آپ نے یہاں سے ایک ماہنامہ رسالہ گنج بخش جاری کیا جوکچھ عرصہ چل کردم توڑگیا ۔(67) ٭1375ھ مطابق 1956ء میں مرکزی جامع مسجدمحلہ اسلام پورہ لاہور(68) میں خطیب مقررہوئے ،وہاں آپ نے مدرسہ حامدیہ رضویہ (69) کی بنیادرکھی ،اسے مدرسے اورجامعہ گنج بخش کے مہتمم آپ خود تھے۔

٭1379ھ مطابق1960ء میں انتظامیہ کے اصرارپر آپ اہل سنت کے قدیم دارالعلوم جامعہ نعمانیہ لاہور (70) میں شیخ الحدیث مقررہوئے، آپ نےیہاں تیرہ سال پڑھایا ، جامعہ نعمانیہ کے اس دورمیں وہ عروج نہیں تھا جوپہلے سالوں میں اسے حاصل ہواتھا بحرحال چندباتیں پیش خدمت ہیں: ٭شوال 1384ھ مطابق فروری 1965ءمیں مفتی اعجاز ولی خان صاحب جامعہ نعمانیہ کے شیخ الحدیث اورمولاناسیدمحمداشرف کاظمی صاحب(71) صدرمدرس تھے ۔(72) ٭1389ھ مطابق 1969ء میں مفتی اعجازولی خان (صدرمدرس)انجمن نعمانیہ کی گیارہ رکنی مجلس شوریٰ کے رکن بھی تھے (73) ٭ 1390ھ مطابق 1970ء میں بھی مفتی اعجازولی صاحب صدرمدرس تھے اس سال دورۂ حدیث کے 6،درجہ عربیہ کے15 اوردرجہ حفظ کے 21طلبہ مستقل مدرسے میں تھے ۔(74)٭رمضان 1390ھ مطابق نومبر 1970ء میں مفتی اعجازولی صاحب نے ماہ رمضان میں دورۂ تفسیرقرآن کروانے کا اعلان کیا گیا ،مختلف مدارس کے 28طلبہ نے داخلہ لیا، اسی سال دستارِ فضیلت کا جلسہ بھی ہواجو بوجوہ کئی سالوں سے نہیں ہواتھا،اس جلسے میں ان تمام سالوں میں فارغ التحصیل ہونے ان طلبہ کی دستاربندی ہوئی ۔(75) ٭صفر1392ھ مطابق 2اپریل 1972ء میں انجمن نعمانیہ کا اجلاس ہوا جس میں اراکین انجمن،اساتذہ اورشہرکے دیگرعلمانے شرکت کی، جامعہ نعمانیہ کی حالتِ زارپرغورہوا،مفتی اعجازولی خاں صاحب نے اپنی جیبِ خاص سےجامعہ نعمانیہ کو رقم دی ،مولاناسید غلام یسین شاہ صاحب(76) نے چندہ جمع کرکےجامعہ نعمانیہ کو دیا اوراس اجلاس میں مولانا عبدالستارخاں نیازی صاحب(77) نے بھی بیان کیا ۔(78) ٭رجب 1393ھ مطابق ۲۶اگست ۱۹۷۳ء میں مفتی صاحب نے بطور شیخ الحدیث یہاں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔(79) ٭17رمضان 1393ھ مطابق 14اکتوبر1973ء کو انجمن نعمانیہ کی مجلس شوریٰ کا مشورہ ہوا،اس میں مفتی اعجازولی صاحب کی جمیعت علمائے پاکستان کی مصروفیت کا ذکرآیا جس کی وجہ سے آپ کی دارالعلوم کی جانب توجہ کم ہوگئی تھی چنانچہ فیصلہ ہواکہ مفتی صاحب کو تدریسی فرائض سے سبکدوش کردیا جائے ،مفتی صاحب اس اجلاس میں موجودتھے چنانچہ آپ نے شوریٰ کے اس فیصلے کوتسلیم کرلیا اور 19شوال 1393ھ مطابق 15نومبر1973ء کو مستعفی ہوگئے ۔(80)

٭اس کے بعدجامعہ نظامیہ رضویہ (81)کے شیخ الحدیث بنائے گئے، صرف دودن تشریف لائے اورمرض الموت میں مبتلاہوگئے اوریہاں کے طلبہ آپ سے مستفیض نہ ہوسکے ۔(82)

پاکستان میں مختلف تحاریک میں حصہ

مفتی اعجازولی خان بہترین عالم دین،جید مدرس درس نظامی،صوفی باصفااورپرچوش مجاہدتھے ٭آپ نے 1953ء میں ہونے والی تحریکِ ختمِ نبوت میں بھرپورحصہ لیا ،جس کی وجہ سے(غالباجمادی الاخریٰ 1372ھ مطابق مارچ1953ء سے) تقریباساڑھے تین ماہ سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربندرہے ٭پاکستان میں آل انڈیاسنی کانفرنس کو جمیعت علمائے پاکستان کا نام دیاگیا ،شروع سے آپ اس کے معاون رہے،علامہ ابوالحسنات سیدمحمداحمدقادری صاحب کے دورِ صدارت میں مجلس عاملہ کے رکن ،دورِصدارتِ علامہ عبدالحامدبدیونی میں مغربی پاکستان کے صدر،دورِصدارتِ خواجہ قمرالدین سیالوی میں خازن بنائے گئے ،ربیع الاول1391ھ مطابق مئی 1971ءمیں صوبہ پنجاب کے صدرمنتخب کئے گئے ۔(83) پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب(84) تحریرفرماتے ہیں: مفتی اعجازولی خاں مرحوم اپنی تدریسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ جمیعت علماء پاکستان کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھتے تھے۔آپ جمیعت کے مختلف عہدوں پر منتخب ہوئے اورزندگی بھراس دینی وسیاسی جمیعت میں کام کرتے رہے۔انہیں اس سیاسی وابستگی کی وجہ سے کئی باراپنی ملازمت، امامت اورتدریسی فرائض سے محروم ہوناپڑامگروہ مستقل مزاجی سے اپنی راہ پرگامزن رہے ۔(85)

سیرت کے چندپہلو

مفتی اعجازولی صاحب علم وعمل کے جامع اورحسن اخلاق کے پیکرتھے، عوام وعلماسب سے تعلقات رکھتے،ان کی دینی ودنیاوی رہنمائی فرماتے، نیک اعمال پرابھارتے اور ان کی دنیاوآخرت بہتربنانے کی کوشش کرتے،آپ کے حسن اخلاق کے بارے میں پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب تحریرفرماتے ہیں :

مفتی اعجازولی خاں مرحوم ایک مقتدرعالم دین ہونے کے باوجودبڑے ملنسار،غمگساراوردوست نوازبزرگ تھے ۔وہ نہ کسی پرتنقیدفرماتے اورنہ کسی کی حرف گیری کرتے۔ عقیدہ کے پکے،دل کے سچے اورلوگوں سے پیارومحبت کے خوگرتھے ۔ مزیدتحریرفرماتے ہیں :مفتی اعجازولی خاں مرحوم بڑے خلیق انسان تھے۔مَیں ان کی انکساری اورحسن اخلاق سے اتنا متاثرتھا کہ ایک دن میں نے ازراہ ِتفنن کہہ دیا ،مفتی صاحب !مجھے ڈرہے کہ آپ کو راستہ میں ابلیس کھڑاکرکے سلام کرے تو آپ اسے بھی وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہہ دیں گے ۔فرمانے لگے ،’’نہیں !اتنا بھی خلیق نہیں ہوں ،لاحول ولاقوۃ الاباللہ کا کوڑا مارکراسے بھگادوں گا۔‘‘ مفتی صاحب مرحوم علماء اہل سنت کی محبوب ومرغوب شخصیت تھے ۔تمام علماء کرام ان سے محبت کرتے تھے۔ ان علماء کرام کی علمی مجالس کے علاوہ انہیں حضرت علامہ سید ابوالبرکات(86) صدر نشین انجمن حزب الاحناف لاہورسے بڑی عقیدت تھی، وہ اپنا زیادہ وقت حضرت کی خدمت گزراتے۔(87) علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب(88) تحریرفرماتے ہیں :مفتی اعجازولی خان رحمہ اللہ تعالیٰ حسنِ اخلاق،ایثاروقربانی،حق گوئی، صاف دلی،بے نفسی ،حلم وبردباری ،قوتِ حافظہ ،مسائل فقہیہ کے استحضار،صلابتِ رائےاورتاریخ گوئی میں اپنی مثال آپ تھے ۔(89)

حضرت مولاناقاضی محمد مظفر اقبال رضوی صاحب(90)تحریرفرماتے ہیں :مفتی صاحب سلف کی زندگی کا بہترین نمونہ تھے۔ جو وہ کہتے تھے وہ کرتے بھی تھے۔ وہ منفی طرزِعمل سے ہمیشہ کنارہ کش رہے اور حکمت و تدبر و مثبت طریق کار کی تلقین کرتے تھے۔ وہ ایک معتبر عالم دین، ماہر فقہی اور مبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ حُسن اخلاق، ایثار و قربانی، حق گوئی، بے باکی، صاف دلی، سادگی، بے نفسی، علم و بردباری اور قوی الحافظہ جیسی علی صفات سے متصف تھے جوکہ ایک عالم کی عظمت کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ فتویٰ نویسی میں فیاض ازل نے اس قدر حصہ وافر عطا فرمایا تھا کہ مشکل سے مشکل جزئیات آپ کے نوک زباں رہتے اور قلم برداشتہ صفحۂ قرطاس پر منتقل فرما دیتے۔ فقہ میں آپ کو وہ بلند مقام حاصل تھا کہ علمائے وقت آپ کو فقیہہ العصر کے نام سے یاد کرتے۔ آپ فتویٰ نویسی میں سند کا درجہ رکھتے تھے۔ قوی الحافظہ اس قدر کہ قرآن و احادیث اور فقہا کی عبارات گویا آپ کے صفحات پر لکھی ہوئی تھیں۔ فی البدیہہ تاریخ گوئی میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ تالیف و تصنیف میں بھی آپ مہارت نامہ رکھتے تھے۔(91)

بزرگانِ دین سے عقیدت

مفتی اعجازولی خان صاحب کی تربیت جس خاندان اورماحول میں ہوئی ،وہ خوفِ خدا،عشقِ مصطفی ،محبتِ صحابہ واہل بیت اورعقیدتِ بزرگانِ دین سے مملوتھا ،یہی وجہ ہے کہ آپ ان خصوصیت سے مالامال تھے چنانچہ اکابرتحریک پاکستان میں ہے :بزرگان ِ دین سے بہت عقیدت تھی، یہی وجہ تھی کہ صوفیائے کرام کے حالات بیان کرنے میں انہیں خاصہ عبورحاصل تھا۔آپ کا دل عشق رسول سے سرشارتھا۔بےحدذہین،محنتی،صالح، خوش اخلاق، ملنسار،غیّورخوددار اور جسمانی طورپرتندرست وتواناتھے ۔اپنے تواپنے بیگانے بھی ان کے کمالات کے معترفت تھے:جُداجُداجواوصاف دیگرعلماء میں تھے،وہ سب کے سب اس عاشقِ خدامیں تھے ۔ (92)

تصنیف وتالیف

آپ میدانِ تدریس کے شاہسوارتھے، لیکن اس کے ساتھ آپ نے میدانِ تحریرمیں بھی قدم رکھا، آپ نے کثیرفتاویٰ اورکئی کتب پر مقدمےلکھے ،(93) آپ کی تصانیف یہ ہیں:

(1)تنویرالقرآن علیٰ کنزالایمان؛اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ شہرہ آفاق ترجمہ قرآن کنزالایمان پر حاشیہ ہے ،جس کاسن تصنیف 1368ھ مطابق 1949ءہے ،تیرہ پارے مکمل ہیں جن میں سے کئی طبع شدہ ہیں ۔(94)

(2)تکمیل الحسنات؛یہ پندرہ صفحات پرمشتمل رسالہ ہے جو علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کےفارسی رسالے تحصیل البرکات ببیان معنیٔ التحیات کا اردوترجمہ ہے ،اس کا موضوع فقہ ہے ،اسے نوری کتب خانہ لاہورنے شائع کیا ہے ،سن اشاعت معلوم نہ ہوسکا۔(95)

(3)سلوک المختارترجمہ کشف الاسرار ؛حضرت داتاگنج بخش سیدعلی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے فارسی رسالہ کشف الاسرارکا اردوترجمہ ہے جوچالیس صفحات پر مشتمل ہے اسے لاہوراستقلال پریس نے 1388ھ مطابق1969ء میں شائع کیا ہے ،اس کا موضوع بھی تصوف ہے ۔ (96)

(4)ترجمہ مکتوبات شیخ عبدالحق محدث دہلوی؛یہ مکتوبات فارسی میں ہیں ،انہیں اردوکے قالب میں ڈھالا گیا ہے، ان کا موضوع تصوف ہے۔(97)

(5)قانونِ میراث(6)تسہیل الواضح خلاصہ النحواضح۔ (98)

کتب کی ترویج واشاعت کی کوشش

مفتی اعجازولی خان صاحب صاحبِ مطالعہ ا ورصاحبِ تصنیف وتالیف تھے،یہی وجہ ہے کہ آپ مصنفین وناشرین کی اہمیت سے واقف اوران کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے چنانچہ پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب تحریرفرماتے ہیں : مَیں نے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی(99) کی کتاب ’’تکمیل الایمان ‘‘کا اردوترجمہ کیاتو کتاب چھپتے ہی سب سے پہلے (مفتی اعجازولی صاحب)آگےبڑھےاوربیس کتابیں خریدکرلوگوں میں تقسیم کرتے گئے ۔جب مجھے ’’مرج البحرین ‘‘کے ترجمہ کی سعادت حاصل ہوئی تو ابھی کتاب کی جِلدکی تزئین نہیں ہوئی تھی کہ بیس نسخے خریدکرلے گئے اوراسی رات ماڈل ٹاؤن میں حضرت محدث دہلوی کے سالانہ عرس کی تقریب میں لے جاکرعلماء میں تقسیم کرنے لگے۔یہ بات ان کی علم دوستی اورحضرت شیخ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے علمی کمالات کا اعتراف تھا ۔(100)مفتی اعجازولی صاحب کے مشورے سے ہی مولانا انوارالاسلام رضوی صاحب (101) نے1387ھ مطابق 1967ء میں گنج بخش روڈپر مکتبہ حامدیہ بنایا،اس مکتبہ حامدیہ نے علمائے اہل سنت کی کثیرکتب شائع کیں ۔(102)

تلامذہ (شاگرد)

ہند میں آپ کا زمانۂ تدریس 7 سال اورپاکستان میں تقریبا 26 سال پرمحیط ہے ،ان 33سالوں میں بلاشبہ کثیر علما نے آپ سےاستفادہ کیا چنانچہ اکابرتحریک پاکستان میں ہے: آپ کے شاگردوں کی تعدادتقریباً 5 ہزارہے جواس وقت آزاد کشمیر، مشرقی پنجاب،بھارت،انڈونیشیا،افریقہ،ماریشش،ایران،افغانستان ،امریکہ،کویت،دبئی،اورانگلینڈ میں دین اسلام کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں سےحضرت مولانامحمدابراہیم خوشترقادری (103)مفتی زمن حضرت مفتی سید محمد ریاض الحسن جیلانی رضوی حامدی(104)مولانا حکیم محمدمطیع الرضا قادری (105)،مولانا شاہ محمدنشتر(106) وغیرہ شامل ہیں ۔

شادی واولاد

آپ کی شادی اندازاً ربیع الاول 1357ھ مطابق اپریل 1938ء کواپنی چچازادبہن زہرہ بیگم بنت ابوالحسن خان بن احمدحسن خان بن مہدی علی خان سے ہوئی،آپ کی زوجہ کے پڑدادمہدی علی خان ،مفتی اعجازولی خان صاحب کے دادا حکیم ہادی علی خان کے بھائی تھے ،مہدی علی خان صاحب کی شادی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان صاحب کی سگی پھوپھی (یعنی امام العلماء مولانا رضاعلی خان صاحب(107) کی بیٹی اوررئیس الاتقیاءمولانانقی علی خان صاحب (108) کی سگی بہن)سے ہوئی، ان کے ایک بیٹےاحمدحسن خان تھےان کے دوبیٹے نورالحسن خان اورابوالحسن خان ہوئے ،یہ ابوالحسن خان صاحب مفتی اعجازولی خان صاحب کے سسر اوررشتے میں آپ کے چچالگتے ہیں۔(109) مفتی صاحب کو اللہ پاک نے ایک بیٹے محمد یوسف ظفر پاشا رضوی اورایک بیٹی تحسین فاطمہ سے نوازا،جو کراچی میں رہائش پذیرہیں۔ محمدیوسف ظفرپاشارضوی صاحب کی ولادت 17رمضان1365ھ مطابق 15اگست 1946ء کو بریلی میں ہوئی ،آپ بی ایس سی انجینئرلاہور، ماسٹر آف سائنس انجینئرنگ، یونیورسٹی پیٹرولیم، رومانیہ اورماسٹرآف بزنس ایڈمنسٹریشن، امریکن یونیورسٹی اینڈ لندن ہیں۔ کراچی میں آئل انڈسٹری کے ایگزیکٹو کے عہدے پرملازمت کرتے ہیں ،آپ کی شادی فوزیہ خاتون سے 2جون 1988ء کو ہوئی ۔ مفتی صاحب کی بیٹی تحسین فاطمہ کی ولادت جمادی الاخریٰ 1372 ھ مطابق مارچ 1953ء میں ہوئی، آپ ایم ایس سی فزکس گولڈ میڈلیسٹ ہیں ۔(110)

وفات ومدفن

شوال المکرم 1393ھ مطابق نومبر 1973ءکو آپ بیمارہوگئے ،آپ کو لاہورکے میوہسپتال میں داخل کروادیا گیا، علاج شروع ہوامگرمرض بڑھتا گیا، دوا کی مگر افاقہ نہ ہوااورمفتی صاحب اسی بیماری میں24 شوال 1393ھ/ 20 نومبر 1973ءکو میوہسپتال لاہور میں رات اڑھائی بجے وِصال فرماگئے، نمازجنازہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ سیدابوالبرکات احمدقادری صاحب نے پڑھائی ۔(111) تقریبا ًپچاس ہزارافرادنے آپ کےجنازے میں شرکت کی۔(112) آپ کی خواہش کے مطابق میانی قبرستان لاہور میں دفن کیا گیا ۔(113)

مفتی اعجازولی صاحب کا مزار

راقم الحروف برادرِ اسلامی حاجی محمد ارشدعطاری صاحب (114)کے ہمراہ مفتی صاحب کے مزارپر حاضری کا شرف حاصل کرچکا ہے ۔لاہورمیں ملتان روڈ اورفیروزپورروڈ کے درمیان بہاولپورروڈ ہے جوچوبرجی سے مزنگ جاتے ہوئے میانی قبرستان کے اندرسے گزرتی ہے،اگرہم چوبرجی ملتان روڈ کی جانب سے آئیں تو بائیں طرف غازی علم الدین شہید(115) کے مزارکا بورڈ نظرآتاہے اس سےآگے بہاولپورروڈ پر ہی آئیں تو واصف علی واصف کے مزارسے پہلے بائیں جانب برلب روڈ بالمقابل مزار مہر محمد صوبہ(116) مولانا غلام محمدترنم (117) اورمولانامفتی سید غلام معین الدین نعیمی (118) کے مزارات ہیں ان دونوں کے سرہانے یعنی جانبِ شمال چندقدم چلنے کے بعدمفتی اعجازولی خان صاحب کا مزار ہے ۔(119) مزارکے کتبے پرآپ کا نام ان الفاظ کے ساتھ ہے : استاذالعلمافقیہ العصرحضرت مفتی محمداعجازولی خان رحمۃ اللہ علیہ،شیخ الحدیث دارالعلوم انجمن نعمانیہ لاہوروجامعہ نظامیہ رضویہ لاہورومہتمم مدرسہ حامدیہ رضویہ وخطیب جامعہ حامدیہ رضویہ عمرروڈ اسلام پورہ ۔ اس کے بعد مفتی محمدابراہیم خوشترقادری صاحب کے لکھے ہوئے شعرکنداہیں:

رخصت ہواجہان سے یہ کوئی باکمال

بوجھل ہوئی زمین توفلک غم سے ہے نڈھال

عقبیٰ کی فکردین کا جس کو رہا ملال

"بادابخیرعاقبت"اس کا سن ِ وصال (120)

سب سے نیچے لکھا ہے منجانب بیٹا:ظفرپاشارضوی

حواشی ومراجع

(1) اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ مطابق6جون 1856ءکو بریلی شریف (یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ مطابق28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،فقیہ اسلام ،محدث وقت ،مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم،استاذالفقہاومحدثین ،شیخ الاسلام والمسلمین ،مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔( حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(2)حافظ کاظم علی خان ،درباراودھ کی طرف سے بدایون کے تحصیل دار(سٹی مجسٹریٹ)تھے ،دوسوفوجیوں کی بٹالین آپ کی خدمت میں رہتی تھی ،آپ کو آٹھ گاؤں معافی جاگیرمیں ملےتھے ، مال ومنصب کے باوجودآپ کا میلان دین کی جانب تھا،آپ حافظ قرآن اورحضرت علامہ شاہ نورالحق قادری رازقی فرنگی محلی (متوفی 1237ھ مطابق1882ء)کے مریدوخلیفہ تھے ،ہرسال بارہ ربیع الاول کو محفل میلادکیا کرتےتھے جوخانوادہ رضویہ میں اب بھی ہوتی ہے۔(تجلیات تاج الشریعہ ،83،84)

(3)مفتی اعجازولی خان کا تذکرہ جن کتابوں میں ہے ان میں سے بعض میں اعلیٰ حضرت کے دادامولانا رضا علی خان کوحکیم ہادی علی خان کاوالدلکھا گیا ہے جوکہ درست نہیں ،مفتی اعجازولی خان صاحب کے دادا حکیم ہادی علی خان ،امام العلما مولانا رضا علی خان صاحب کے بھائی رائیس الحکماءحکیم تقی علی خان کے بیٹے ہیں ۔

(4) حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ کراچی،16۔مزیدمعلومات کے لیے راقم کا مقالہ تلمیذ اعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان ایک عہدسازشخصیت کا مطالعہ فرمائیں ۔

(5)سِراجُ العَارِفِین حضرت مولانا سیّد ابوالْحُسَین احمد نُوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ عالِمِ دین،شیخِ طریقت اورصاحِبِ تصانیف ہیں۔1255ھ مطابق1840 ءمیں پیدا ہوئے اور 11رجب 1324ھ مطابق31اگست 1906ءمیں وِصال فرمایا۔ مزارِ پُراَنوار مارہرہ شریف (ضلع ایٹہ یو پی) ہِند میں ہے۔ ”سِرَاجُ الْعَوَارِفِ فِیْ الْوَصَایَا وَالْمَعَارِفِ“ آپ کی اہم کتاب ہے۔(تذکرۂ نوری، ص 146،275،218)

(6) حیات مفتی تقدس علی خان ،تحریک اہل سنت کراچی،5 ۔

(7)حیات مفتی تقدس علی خان ،تحریک اہل سنت کراچی،5 ، ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص57،حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ کراچی،16۔

(8)اعلیٰ حضرت آپ کے سگے ماموں یعنی محرم تھے کیونکہ آپ اعلیٰ حضرت کی ہمشیرہ حجاب بیگم کی بیٹی تھیں ۔ حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ کراچی،16۔

(9)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص885 ۔

(10)تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص 63-65

(11)تذکرہ جمیل ،240

(12)مقالات رضا ،1/72

(13)یہ بریلی شریف کے رہنے والے اوراعلیٰ حضرت کے مرید تھے ،مزید حالات نہ مل سکے ۔

(14)ان کے حالات سے بھی آگاہی نہ ہوسکی ۔

(15)تجلیات تاج الشریعہ ،96

(16)صاحب ِ بہارِ شریعت صدرُالشّریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ولادت 1300ھ مطابق 1883ء کو مدینۃ العُلَماءگھوسی (ضلع مؤ،یوپی)ہند میں ہوئی اور 2 ذیقعدہ1376ھ مطابق31مئی 1957ء کووصال فرمایا،مزارمبارک گھوسی میں ہے۔ آپ جیّدعالم ،بہترین مفتی ،مثالی مدرّس،متقی وپرہیزگار ،استاذالعُلَماء،مصنفِ کتب وفتاویٰ ، مؤثرشخصیت کے مالک اوراکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔اسلامی معلومات کا انسائکلوپیڈیا بہارِ شریعت آپ کی ہی تصنیف ہے۔(تذکرہ صدرالشریعہ،5، 41وغیرہ)

(17)شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفی الازہری بن مفتی امجدعلی اعظمی کی ولادت محرم 1334ھ مطابق1918ءکو بریلی شریف میں ہوئی اورکراچی میں 16ربیع الاول 1410ھ مطابق 18،اکتوبر1989ءکو وصال فرمایا ،دارالعلوم امجدیہ کے مشرقی جانب مزارہے ۔آپ جیدعالم دین ،فاضل جامعۃ الازہرمصر،نائب شیخ الحدیث جامعۃ الاشرفیہ مبارکپور،شیخ الحدیث دارارالعلوم کراچی اورسابقہ ممبرقومی اسمبلی پاکستان تھے ۔(سیرت صدرالشریعہ ،224تا226)

(18)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ مطبوعہ لاہور ص883۔

(19)حیات اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص 884۔

(20) دارالعلوم (مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظراسلام بریلی شریف عالمی شہرت یافتہ اسلامی درس گا ہ ہے جسے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں(غالباماہ شعبان المعظم) 1322ھ مطابق اکتوبر1904ء میں اسے قائم فرمایا ، اس مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت ، سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم برادراعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے حفاظ قرآن، قراء، عالم اور فاضل گریجویٹ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ہے۔(صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132)

(21) تِلْمیذِ اعلیٰ حضرت، مفتی تَقدُّس علی خان رَضَوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی، عالِمِ باعمل، شیخُ الحدیث اور اُستاذُ العُلَما ہیں۔ رجب المرجب 1325ھ مطابق اگست 1907ء میں بریلی شریف میں پیدا ہوئے اور 3رجب 1408ھ مطابق22فروری 1988ءمیں پیرجو گوٹھ ضلع خیرپور میرس سندھ میں وِصال فرمایا، مزار یہاں کے قبرستان میں ہے۔(مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء، ص 268، 273)

(22)ان کے حالات سے آگاہی نہ ہوسکی ۔

(23)شہزادۂ استاذِ زمن، استاذُ العلما حضرتِ مولانا محمد حسنین رضا خان رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1310 ھ مطابق1893 ء کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان صاحب کے بھتیجے، داماد، شاگرد و خلیفہ، جامع معقول و منقول،ذہین وفطین ومحنتی، کئی کُتُب کے مصنف، مدرسِ دار العلوم منظرِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر، بانیِ حسنی پریس و ماہنامہ الرضا و جماعت انصار الاسلام تھے۔ وصال5 صَفَر 1401ھ مطابق14ستمبر1980ء میں فرمایا اور مزار بریلی شریف میں ہے۔ (تجلیات تاج الشریعہ، ص95، صدر العلما محدث بریلوی نمبر، ص77تا81)

(24) شہزادۂِ اعلیٰ حضرت، مفتیِ اعظم ہند، حضرت علّامہ مولانا مفتی محمدمصطفےٰ رضا خان نوری رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 22ذوالحجہ 1310ھ مطابق 7جولائی 1893ء کورضا نگر محلّہ سوداگران بریلی (یوپی،ہند) میں ہوئی۔ آپ فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، جملہ علوم و فنون کے ماہر، جید عالِم، مصنفِ کتب، مفتی و شاعرِ اسلام، شہرۂ آفاق شیخِ طریقت، مرجعِ علما و مشائخ و عوامِ اہلِ سنّت تھے۔ 35سے زائد تصانیف و تالیفات میں سامانِ بخشش اور المکرمۃ النبویۃ فی الفتاوی المصطفویۃ المعروف فتاویٰ مفتی اعظم (یہ چھ جلدوں پرمشتمل ہے اس میں پانچ سوفتاویٰ اور22رسائل ہیں )مشہور ہیں۔ 14 محرّمُ الحرام 1402ھ /13نومبر1981ءمیں وصال فرمایا اور بریلی شریف میں والدِ گرامی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔(جہانِ مفتی اعظم، ص64تا130)

(25)مولاناالحاج سردارعلی خان عزومیاں کی ولادت بریلی میں تخمینا1320ھ مطابق1902ء کو ہوئی اور صفرالمظفر 1374ھ مطابق اکتوبر1954ءکو مدینۃ الاولیا ملتان میں وصال فرمایا ، شاہ شمس قبرستان(قدیم خانیوال روڈ،ملتان) میں برلب سٹرک دفن کیاگیا ۔ آپ تلمیذومرید اعلیٰ حضرت ، عالم دین ،فاضل ومدرس دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف ،خلیفہ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا ،استاذالعلمااورعبادت گزارتھے ۔

(26)الیواقیت المہریہ فی شرح الثورۃ الہندیہ،115۔ اکابرتحریک پاکستان صفحہ 340 میں لکھا ہے:’’ مفتی اعجازولی خان صاحب نے تفسیر جلالین حضرت محدثِ پاکستان مولانا سرداراحمدلائل پوری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں ۔‘‘یہ بات درست نہیں ۔

(27) صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی کے مختصرحالات حاشیہ 16 میں دیکھئے۔

(28)مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڑھ کے بانی نواب ابوبکرخان شیروانی ہیں ،جورئیس،دین دار،حافظ محمد علی خیرآبادی کے مریدتھے ،ان کے انتقال کےبعدبانی مدرسہ کے حقیقی بھائی حاجی محمدخان شیروانی (جوکہ حافظ خیرآبادی کے مرید، پابندصوم وصلوۃ اوراسلامی شاعرتھے ،ان کا مجموعہ کلام دیوانِ حافظی ہے ۔)متولی ہوئے ۔اس مدرسے کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اساتذہ طلبہ کی تمام ضروریات احسن اندازسے پوری کی جاتی تھی ۔مفتی امجدعلی اعظمی ثانی الذکرکے اصرارپر یہاں بطورصدرالمدرسین وشیخ الحدیث 1355ھ مطابق 1936ء کوتشریف لائے اور1362ھ مطابق 1943ء تک یہاں سات سال رہے ۔(ماہنامہ اشرفیہ، صدرالشریعہ نمبر،اکتوبر،نومبر1995ء،80۔سیرت صدرالشریعہ ،50تا53)

(29)تذکرہ جمیل ،240۔استاذالعلما،زینت القراء حضرت مولاناغلام محی الدین رضوی شیری صاحب حضرت شاہ جی محمدشیرمیاں رحمۃ اللہ علیہ کےپوتے اور نواسے تھے ،آپ کی پیدائش پیلی بھیت میں ہوئی اور7رجب 1405ھ مطابق 28فروری 1985ء کو ہوا، مزارہلدوانی نینی تال ہند میں ہے ،آپ حافظ قرآن ،بہترین قاری،علامہ وصی احمدمحدث سورتی،حجۃ الاسلام مفتی حامدرضا خان اور صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی کے شاگرد،حضرت شاہ جی کے مرید اورمفتی اعظم ہندمفتی مصطفی رضا خان کے خلیفہ ہیں ،کئی مدارس میں تدریس بعد ہلدوانی (ضلع نینی تال ،یوپی ہند)میں مدرسہ اشاعت الحق بنایا،آستانہ شیریہ کے نظام کو بھی دیکھا۔آپ استاذالعلما،شیخ الحدیث، صاحب دیوان شاعراورصاحب تصنیف ہیں ۔(مفتی اعظم ہنداوران کے خلفا،530تا535)

(30) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ علامۂ دہر، مفتی اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی اور عربی زبانوں میں عبوررکھنے والےعالم دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال ،شیخ طریقت ،جانشینِ اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے۔ بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ مطابق اپریل1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ مطابق 22مئی 1943ء میں وصال فرمایا ، مراز شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔(فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(31)تذکرہ جمیل ،240، تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص 63،الیواقیت المہریہ فی شرح الثورۃ الہندیہ،115،116،اکابرتحریک پاکستان،340۔آپ کا تذکرہ جب کتابوں میں ہے ،ان میں آپ کے تعلیمی ایام کے بارے میں مختلف سنین درج ہیں ،راقم نے دیگرکتب سے استفادہ کرتے ہوئے اس مضمون میں تواریخ درج کیں ہیں ۔

(32)عِلْمِ جَفْر [عِلمے + جَفْر[وہ علم جس میں حروف و اعداد کے ذریعے سےمختلف احوال کرتے ہیں۔

(33)وہ علم جس میں تاریخ گوئی کے اصول وقواعد اور استخراج کے طریقے سیکھائے جاتے ہیں ۔اعدادشمس اوراعدادقمری کی مدد سے تاریخ بیان کی جاتی ہے ۔

(34)عالمی مبلغِ اسلام علّامہ محمد ابراہیم خَوشْتر صِدّیقی رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1348ھ/1930ء کو بنڈیل (ضلع چوبیس پرگنہ، مغربی بنگال) ہند میں ہوئی۔آپ حافظ قرآن، تَلمیذِ محدّثِ اعظم پاکستان، خلیفہ حجۃ الاسلام و قُطبِ مدینہ، مُصنّف و شاعر، بہترین مدرّس، باعمل مبلغ، بانی سنّی رضوی سوسائٹی انٹرنیشنل اور امام و خطیب جامع مسجد پورٹ لوئس ماریشس تھے۔تصانیف میں ”تذکِرَۂ جمِیل“ اہم ہے۔5جُمادَی الاُخریٰ 1423ھ/24،اگست2002ء کو ماریشس میں وِصال فرمایا مَزارمُبارک سنّی رضوی جا مع مسجد عیدگاہ پورٹ لوئس ماریشس میں ہے۔(ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف، رجب 1435ہجری،ص 56،57،مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء، ص 125تا 129)

(35) تذکرہ جمیل ،240،241۔

(36) تذکرہ جمیل ، 183۔

(37)سلطانُ الہند ، حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین سیّد حَسن سَنْجَری رحمۃ اللہ علیہکی ولادت537ھ میں سجستان (موضع سنجر) ایران میں ہوئی۔ سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے عظیم المَرْتَبَت شیخ، نجیبُ الطرفین سیّد، صاحبِ دیوان شاعراورمشہورترین ولی اللہ ہیں۔ لاکھوں کفّار آپ کے دستِ اقدس پر اسلام لائے۔ 6رجب627ھ کووصال فرمایا، مزارمبارَک اجمیر شریف (راجستھان) ہند میں دُعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے۔ (اخبار الاخیار، ص 23، اقتباس الانوار، ص 344 ،385)

(38)دار العلوم نعمانیہ لاہور کی ایک قدیم اور دینی تعلیم کی معیاری درسگاہ ہے۔یہ امام ابو حنیفہ کی نسبت نعمانیہ کہلاتا ہے، موجودہ عمارت بالمقابل ٹبی تھانہ اندرون ٹیکسالی گیٹ لاہور میں ہے،اس کا آغاز1306ھ مطابق1888ءکو مسجدبوکن خان موچی گیٹ میں ہوا،اس کا عربی حصہ13شوال 1314ھ مطابق 17مارچ1897 ء کو بادشاہی مسجدمیں منتقل کیا گیا،جب اندرون ٹکسالی گیٹ میں دارالعلوم نعمانیہ کادارالاقامہ تعمیرہوگیا تو اس کے پانچ سال بعد اس کا عربی حصہ بادشاہی مسجدسےیہاں منتقل ہوگیا،اس کے 43ویں جلسے کی روئیدادسے معلوم ہوتاہے شعبان1349ھ/دسمبر1930ءتک اس سےچارہزاردوسوتین(4203 ) علمافارغ التحصیل ہوچکے تھے۔ ( امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،26،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور306،73)

(39)مجالس علما،118،119

(40)جامعہ محمدی شریف پنجاب کے شہرچنیوٹ کے ایک قصبے بھوانہ میں وسیع وعریض اراضی پر قائم ایک اسلامی درس گاہ ہے جس میں دینی ودنیاوی تعلیم دی جاتی ہے ،اس دارالعلوم کاتعلق ونسبت آستانہ عالیہ سیال شریف (ضلع سرگودھا )سے ہے۔

(41)شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمرالدین سیالوی چشتی کی ولادت 1324ھ مطابق1906ء سیال شریف ضلع سرگودھا، پنچاب میں ہوئی آپ کا وصال 17رمضان1401ھ مطابق 19جولائی1981ء سیال کو ہوا،آپ کا مزارسیال شریف ضلع سرگودھا میں ہے۔ آپ خانقاہ سیال شریف کے چشم وچراغ،جیدعالم دین، مصنف کتب،مجاہدتحریک پاکستان،مرجع علمااورفعال شخصیت کے مالک تھے۔ ( نور نور چہرے، 333تا347)

(42)فوزالمقال فی خلفاء پیرسیال ،6/575۔

(43)دارالعلوم مظہراسلام بریلی شریف مرکزی جامع مسجدبی بی جی صاحبہ ،بریلی شریف کے محلہ بہاری پور کےبزریہ (یعنی چھوٹےبازار) میں واقع ایک اسلامی درس گا ہ ہے ،یہ 1356ھ مطابق1937ء میں مفتی اعظم ہندمفتی محمدمصطفی رضا خان قادری کی سرپرستی میں قائم ہوئی،بدرالطریقہ حضرت مولانا عبدالعزیز خان بجنوری اس کے پہلے صدرالمدرسین اورمحدث اعظم پاکستان علامہ سرداراحمدقادری چشتی صاحب اس کے منتظم اورشیخ الحدیث مقررہوئے،اس زمانے میں دارالعلوم کی مستقل عمارت نہیں تھی، مسجد کے حجروں اورصحن میں پڑھائی کا سلسلہ ہوتاتھا۔( حیات محدث اعظم ،45)

(44)یہ مدرسہ حضرت مولانا سید غوث علی شاہ پانی پتی رحمۃاللہ علیہ کے مزار(بمقام پانی پت،صوبہ ہریانہ ،ہند)کے ساتھ قائم تھا ۔

(45)تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہور،367۔

(46) محدثِ اعظم پاکستان حضرت علّامہ مولانا محمد سردار احمد قادری چشتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1323ھ مطابق 1905ء میں ضلع گورداسپور (موضع دیال گڑھ مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور یکم شعبان 1382ھ مطابق 28دسمبر1962ءکو وصال فرمایا،آپ کا مزار مبارک فیصل آباد (پنجاب) پاکستان میں ہے۔آپ استاذالعلماء، محدثِ جلیل، شیخِ طریقت، بانیِ سنّی رضوی جامع مسجد و جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام سردارآباد اور اکابرینِ اہلِ سنّت میں سے تھے۔(حیاتِ محدثِ اعظم، ص334،27)

(47)تذکرہ محدث اعظم پاکستان ،88تا90۔

(48)کل ہند جماعت رضائے مصطفی کےبانی وسرپرست اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان تھے ، یہ 7ربیع الاخر1339ھ مطابق 17دسمبر1920 ء کو بنائی گئی،اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد یکے بعددیگرے آپ کے صاحبزادگان حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان اور مفتی اعظم ہند علامہ محمدمصطفی رضا خان سرپرستی وقیادت فرمائی ، اس کا مقصد تقریروتحریرکے ذریعے اسلام کی حفاظت کرنا ،عوام اہل سنت کے دین وایمان کی حفاظت کے لیے جدوجہدکرناتھا، اس کا اہم ترین کارنامہ مسلمانوں کو مرتدبنانے ولہ شدھی تحریک کے اثرات سے بچاکر باعمل وپانندصوم وصلوۃ بناناتھا ، اس کے کئی شعبے تھے مثلا شعبہ ٔ اشاعت کتب،شعبہ ٔ تبلیغ وارشاد،شعبہ ٔ صحافت ،شعبہ دارالافتاء وغیرہ۔ (تاریخ جماعت رضائے مصطفی ،7،42،48 ،49)

(49)مولانا شہاب الدین رضوی صاحب کی تاریخ ولادت 19ربیع الاول 1394ھ مطابق 12،اپریل 1974ء ہے ،آپ عالم دین، فاضل دارالعلوم مظہراسلام بریلی شریف ،مدیر ماہنامہ سنی دنیا ،رکن رضا اکیڈمی بمبئی ،بارہ کتب ورسائل کے مصنف اورمحقق اسکالر ہیں، مشہور کتابوں میں مفتی اعظم اوران کے خلفاہے جو دوجلدوں پر محیط ہے ۔(تاریخ جماعت رضائے مصطفی ،12تا15)

(50)تاریخ جماعت رضائے مصطفی ، 48 ،49۔

(51)آل انڈیا سنی کانفرنس،قیام پاکستان سے پہلے  اہل سنت وجماعت کی ایک سیاسی جماعت تھی جس کےبانی صدرالافاضل حضرت علامہ سیدمحمدنعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ ہیں 20تا23شعبان1343ھ/ 16 تا 19 مارچ 1925کو مراد آباد میں پہلی آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد کیا گیااور آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی مکمل حمایت کی گئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس پارٹی کا نام جمعیت علمائے پاکستان رکھ دیا گیا ۔(مزیددیکھئے علامہ جلال الدین قادردی صاحب کی کتاب ’’تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس 1925ءتا 1947ء‘‘)

(52)تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،225،282۔

(53)لاہورایک قدیم وتاریخی شہرہےمغلیہ عہدمیں لاہورکے اردگردفصیل اورتیرہ دروازے بنائےگئے ، 372ھ کویہ ملتان سلطنت کا حصہ تھا،اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکزہے،اسےپاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباایک کروڑ 11لاکھ ہے۔

(54)22 مارچ سے 24 مارچ، 1940ء کو لاہور کے منٹو(موجودہ اقبال باغ ) پارک(جہاں آج مینارِ پاکستان ہے) میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے عليحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔

(55)اکابرتحریک پاکستان 340،341،تذکرہ اکابراہل سنت ،64۔

(56) البریلویۃ کا تحقیقی اورتنقیدی جائزہ،294۔

(57)جامعہ محمدی شریف کے بارے میں حاشیہ نمبر40 دیکھئے ۔

(58)اس زمانے میں یہاں کے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفی الازہری رحمۃ اللہ علیہ تھے،چنانچہ سیرت صدرالشریعہ میں ہے : (علامہ عبدالمصطفی الازہری)1948ء میں جامعہ محمدی شریف ضلع جھنگ پنجاب میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے تشریف لائے۔ (سیرت صدرالشریعہ،225)

(59)فوزالمقال فی خلفاء پیرسیال ،6/432 ۔

(60)دارالعلوم اہل سنت وجماعت جہلم کےبارے میں مزیدتفصیلات حاصل نہ ہوسکیں ۔

(61)حافظ محمدسعید کاشمیری صاحب میرپورکشمیرکے رہنے والے ہیں ،قیام پاکستان کے بعد جہلم شہرمیں تشریف لے آئے اور دارالعلوم اہل سنت وجماعت کے شعبہ حفظ وقرأت سے منسلک ہوگئے ،آپ کی تقریبا تمام زندگی اشاعت تعلیم قرآن میں گزری ،آپ کے کثیرشاگردوں میں آپ کے بیٹے مبلغ یورپ حضرت مولانا حافظ عبدالقیوم نقشبندی صاحب،ڈاکٹرپیرفضیل عیاض قاسمی ،صاحبزادہ ٔ پیراولیا بادشاہ مولانافاروق احمدوغیرہ شامل ہیں ۔(برطانیہ کے علمااہل سنت ومشائخ ،2/546)

(62)باب ِ علوم ،استاذالعلما مفتی غلام محمودہزاروی صاحب کی ولادت سلطان المناظرین علامہ قاضی محمد عبدالسبحان قادری کے گھر تقریباً 1920ء میں بمقام کھلابٹ(ہزارہ) میں پیدا ہوئےاور16ربیع الاخر1412ھ مطابق 24،اکتوبر1991ءکووصال فرمایا، تدفین جامعہ صدیقہ فیض العلوم خانپورروڈبالمقابل ٹیلی کم سٹاف کالج ہری پورہزارہ کے ایک گوشے میں ہوئی ۔آپ جیدعالم دین ،جامع معقول ومنقول،فارضل مدرسہ خیرآبادیہ دہلی،مدرس درس نظامی ،شیخ القرآن ولتفسیر،تقریبا136کتب ورسائل کے مصنف،شیخ طریقت سلسلہ نقشبندیہ وقادریہ اورمناظراہل سنت تھے ،آپ نے10 سال دارالعلوم اہل سنت وجماعت جہلم میں پڑھایاپھرجہلم میں ہی ایک ادارہ جامعہ اشاعت الاسلام عربیہ غوثیہ قائم فرمایا،اس میں8 سال مدرس وناظم رہے۔ (تذکرہ بابِ علوم رئیس العلماغلام محمود ہزاروی،10 تا30)

(63)برطانیہ کے علمااہل سنت ومشائخ ،2/546۔

(64)دارالعلوم جامعہ نعیمیہ لاہور ایک عظیم و تاریخی دینی درسگا ہ ہے جس کی بنیاد شیخ الحدیث مفتی محمدحسین نعیمی (ولادت: 1342ھ مطابق1923ء۔وفات :14ذیقعدہ 1418ھ مطابق 13مارچ 1998ء )نے تقریبا1372ھ مطابق 1953ء کو مسجدچوک دالگراں میں رکھی تھی،1378ھ مطابق 1959ء کو اسے عید گاہ گڑھی شاہومنتقل کردیا یہ علامہ اقبال روڈ پرواقع ہے ،اس نے دینی علوم کی ترویج میں اہم خدمات سر انجام دیں۔شعبان 1422ھ مطابق مارچ 2021ءمیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے اسے ڈگری ایوارڈنگ دینی انسٹیٹیوٹ کا درجہ دے دیاگیا ہے۔

(65)مرکزی جامعہ گنج بخش داتادر بارلاہورکے بارے میں مزیدمعلومات نہ مل سکیں ۔

(66)عارف ربانی حضرت پیرسیدمحمدمعصوم شاہ نوری قادری نوشاہی کی ولادت 1315ھ کو ایک صوفی گھرانےمیں ہوئی اور29 شوال1388ھ مطابق19جنوری 1969ءکووصال فرمایا ،مزارخانقاہ قادریہ چک سادہ (ضلع گجرات ،پنجاب)میں دفن کئے گئے۔آپ عالم دین،مصنف کتب،شیخ طریقت،حضرت داتاگنج بخش کےعاشق صادق،بانی نوری کتب خانہ،مرجع علماومشائخ ،نوری مسجد(ریلوے اسٹیشن لاہور)سمیت 20مساجد کےبانی اورکئی مدارس کے معاون تھے۔حکیم الامت مفتی احمدیارخان نے آپ کی ترغیب پرکئی کتب تصنیف فرمائیں۔(تذکرہ علمائے اہل سنت، ص247) آپ نے 1945ء میں نوری کتب خانہ کا آغازکیا ،شاید داتادربارمارکیٹ میں یہ پہلا اشا عتی ادارہ تھا،راقم الحروف بچپن میں والدگرامی حاجی محمدصادق چشتی مرحوم کے ساتھ جمعرات کو داتادربارحاضری کے لیے جاتاتو اس کتب خانہ کو دیکھا کرتاتھا ،اس زمانے(1982ء) میں دربارشریف کے قریب جانب مشرق قائم مین گیٹ کے سامنے تھا ،اب یہ حصہ مسجدداتادربارمیں شامل ہوچکا ہے ۔

(67)تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت،367تا369۔

(68)مرکزی جامع مسجدمحلہ اسلام پورعمرروڈلاہور واقع ایک مسجد ہے جس میں عرصہ دارازتک مفتی اعجازولی صاحب امام وخطیب رہے ۔

(69)مدرسہ حامدیہ رضویہ متصل مرکزی جامع مسجداسلام پورہ لاہورکے بارے میں معلومات نہ مل سکیں ۔

(70)جامعہ نعمانیہ لاہورکے بارے میں جاننے کے لیے حاشیہ نمبر 38 کا مطالعہ کیجئے ۔

(71)ان کےحالات نہ ملے سکے ۔

(72)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،301۔

(73)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،284۔

(74)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،286۔

(75)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،286۔

(76)ان کےحالات نہ ملے سکے ۔

(77) مجاہدملت حضرت مولانا محمدعبدالستارخان نیازی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 22ذیقعد1333ھ مطابق یکم اکتوبر1915ء کو موضع اٹک پنیالہ(تحصیل عیسیٰ خیل)ضلع میانوالی میں ہوئی،7صفر1422ھ مطابق یکم مئی2001ء کو میانوالی میں انتقال فرمایا، مزار’’مجاہدملت کمپلیکس‘‘ روکھڑی موڑمیانوالی میں ہے ۔آپ عالم دین،پرچوش مبلغ ،باہمت رہبرورہنما،اخبارخلافت پاکستان کے مدیر ، مجلس اصلاح قوم ،دی پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن،آل پاکستان عوامی تحریک کے بانی،تحریک پاکستان کے متحرک کارکن،تحریک نفاذِ شریعت،تحریک ختم نبوت،تحریک نفاذِ نظام مصطفیٰ میں بھرپورحصہ لیا، قومی اسمبلی اورسینٹ کے رکن بھی رہے۔آپ کا شماراکابرین اہل سنت میں ہوتاہے ۔آپ آستانہ عالیہ میبل شریف ضلع بھکر میں مریداورقطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین احمدمدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔آپ نے اٹھارہ سے زیادہ مقالات وکتب ورسائل تحریرفرمائے۔(تحریک پاکستان میں علماء ومشائخ کا کردار،427)

(78)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،288۔

(79)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،289۔

(80)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،290،291۔

(81)جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور لوہاری گیٹ کے اندرونی حصے میں ایک دینی درس گاہ ہے۔ اس کا افتتاح شوال المکرم 1376ھ مطابق مئی1956 ء کو محدث اعظم پاکستان علامہ محمدسرداراحمدچشتی قادری صاحب نے قدیم تاریخی مسجد خراسیاں اندرون لوہاری دروازہ میں فرمایا،ان کے شاگرد استاذالعلماء شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی نے1381ھ مطابق 1962 ء تک اس کی نگرانی اور آبیاری کی۔ اس کے بعدعلامہ غلام رسول رضوی صاحب نے اسے اپنے ذہین اور محنتی تلمیذ استاذ العلماء حضرت علامہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی صاحب کے سپردکیا ۔

(82)تذکرۂ اکابراہل سنت ،64۔

(83)تذکرۂ اکابراہل سنت ،64۔

(84) حضرت مولانا پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب ضلع گجرات (پنجاب پاکستان)کےایک موضع شہاب دیوال کےایک علمی فاروقی گھرانے میں 1346ھ مطابق 1928 ءکو پیداہوئے اورتقریبا89سال کی عمرمیں16 ؍صفرالمظفر1435ھ مطابق 20دسمبر 2013 کو لاہور میں وصال فرمایا،ان کی تدفین میانی صاحب قبرستان میں خواجہ محمد طاہر بندگی کے مزار اقدس کےمتصل ہوئی۔ آپ ایک متحرک عالم دین،دینی ودنیاوی تعلیم سے مرصع،مکتبہ نبویہ کےبانی ،ناشر ِ رضویات، مدیر ماہنامہ جہان رضا لاہوراور روح رواں مجلس رضااوراکابر علمائے اہل سنت لاہورسےتھے۔ آپ خوش اخلاق،مہمان نوازاورہردل عزیزشخصیت کےمالک تھے ، چھوٹےبڑےسب کو اہمیت دیتے اور علمی کاموں پر حوصلہ افزائی فرمایاکرتےتھے،راقم کئی مرتبہ ان سے ملا،یہ مجھ پرخصوصی شفقت فرماتے اورمجھےاپنا کراچی والادوست کہاکرتےتھے۔

(85)مجالس علما،118۔

(86)مفتیِ اعظم پاکستان، سیّدُ المحدّثین حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قادری رضوی اشرفی استاذُ العُلَماء، شیخ الحدیث، مناظرِ اسلام، بانی و امیر مرکزی دارُالعلوم حِزبُ الاحناف اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 1319 ہجری مطابق1901ء کو محلہ نواب پور اَلْوَر (راجستھان) ہند میں پیدا ہوئے اور مرکز الاولیا لاہور میں 20شوّال 1398ھ مطابق ۲۳،ستمبر 1978ءمیں وِصال فرمایا، مزار مبارک دارُالعلوم حِزب الاحناف داتا دربار مارکیٹ مرکز الاولیاء لاہور میں ہے۔(تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص314-318)

(87)مجالس علماء،117تا119۔

(88)شرفِ ملت حضرت علّامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت23شعبان 1363ھ  13 مطابق اگست  1944ء مزار پور (ضلع ہوشیار پور پنچاب) ہند میں ہوئی۔ آپ استاذالعلماء، شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، مصنف و مترجم کتب، پیرِ طریقت اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 18شعبان 1428ھ مطابق یکم ستمبر2007ء کو وصال فرمایا، مزار مبارک جوڈیشنل کالونی لالہ زار فیز-2 لاہور پاکستان میں ہے۔آپ کاترجمہ قرآن ’’انوارالفرقان فی ترجمۃ معانی القرآن ‘‘یادگارہے۔راقم کوکئی مرتبہ آپ کی بارگاہ میں حاضری کاشرف حاصل ہوا۔(شرفِ ملت نمبر لاہور، ص 126)

(89)تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(90)حضرت مولانا قاضی محمد مظفراقبال رضوی صاحب کی ولادت 9جمادی الاولیٰ1354ھ مطابق 8،اگست 1936ء کو ہوئی اور24 ذوالحجہ 1440ھ مطابق26،اگست 2019ء کو وصال فرمایا ،میانی صاحب قبرستان میں والدگرامی خلیفہ اعلیٰ حضرت مفتی غلام جان ہزاروی کے قریب تدفین ہوئی ۔آپ عالم دین ،فارغ التحصیل دارالعلوم حزب الاحناف لاہور،مدرس درسِ نظامی،خطیب اونچی مسجدجامع شاہ عنایت قادری ،مریدوخلیفہ مفتی اعظم ہنداورچیئرمین سنی ایکشن کمیٹی تھے ۔( حیات فقیہ زماں ،138تا144)

(91)روزنامہ نوائے وقت لاہور29،اگست ، 2013ء۔

(92)اکابرِ تحریک پاکستان ،342۔

(93) تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(94)مرآۃ التصانیف ،21۔

(95)مرآۃ التصانیف ،62۔

(96)مرآۃ التصانیف ،117۔

(97)مرآۃ التصانیف ،112۔

(98)تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(99) شیخ محقق حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحق مُحَدِّثِ دہلوی قادری علیہ رحمۃ اللہ الہادِی کی ولادت 958ھ مطابق1551ء کو دہلی (ہند) میں ہوئی اوریہیں 21ربیعُ الاوّل 1052ھ مطابق 19جون1642ء کو وِصال فرمایا، مَزارمُبارک خانقاہِ قادریہ (نزد باغ مہدیاں بالمقابل قلعہ کہنہ) دہلی ہند میں ہے۔ آپ حافظِ قراٰن،امامُ الْمُحَدِّثِین فِی الْہند، علامۂ دَہر، قطبِ زَماں، کئی کُتُب کے مُصَنِّف اور شارِحِ اَحادیث ہیں۔ دَرجَن(12)سے زائد کُتُب میں مِشْکوٰۃ شریف کی دوشُرُوحات اَشِعَّۃُ اللَّمْعَات (فارسی)اور لَمْعَاتُ التَّنْقِیْح(عربی) بھی شامل ہیں۔ (اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ مترجم،ص93،67، اخبار الاخیار مترجم، ص18،13، شیخ عبد الحق محدثِ دہلوی، ص90)

(100) مجالس علماء،117تا118۔

(101)مولانا انوارالاسلام رضوی1355ھ مطابق 1936ء کو شمس آباد ضلع اٹک میں پیداہوئے ،شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی صاحب اوردیگرعلما سے علم دین حاصل کیا ،دارالعلوم منظراسلام فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہوئے ،جامع مسجد محمدجان صدر لاہورکینٹ میں خطیب مقررہوئے ،جامعہ نظامیہ رضویہ کے مدرس وناظم بنائے گئے ۔پھر مکتبہ حامدیہ میں مصروف ہوئے اورساتھ ساتھ جامعہ شیرازیہ میں اعزازی مدرس ہوئے ۔(تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہور،399 )

(102)مجالس علما256۔

(103)مبلغ اسلام مولانا محمد ابراہیم خوشتررضوی صاحب کا مختصرتعارف حاشیہ نمبر34 میں دیکھئے۔

(104) مفتی زمن حضرت مفتی سیدمحمد ریاض الحسن جیلانی رضوی حامدی صاحب کی ولادت شوال1340ھ مطانق 1914ء کو جودھ پور(راجستھان،ہند)میں ہوئی اور28رمضان 1388ھ مطابق 19دسمبر1968ء کو بحالت سجدہ حیدرآبادسندھ پاکستان میں ہوئی، مزار مبارک ٹنڈویوسف قبرستان میں ہے ،گنبددورسے دکھائی دیتاہے،آپ خاندان غوث الوریٰ کے چشم چراغ،آپ جامعہ منظراسلام بریلی کے فاضل ،مریدوخلیفہ حجۃ اسلام ،مفتی اسلام،صاحب دیوان شاعر،جامع مسجداہل سنت وجماعت (امریکن کوارٹرحیدرآباد)سمیت کئی مساجدکے بانی اورفعال شخصیت کے مالک تھے ،آپ کی 29تصانیف میں ریاض الفتاویٰ (3 جلدیں)یادگارہے ۔(ریاض الفتاویٰ، 1/37 تا62)

(105)حضرت مولانا حکیم مطیع الرضاخاں قادری صاحب کی ولادت موضع چندوس ضلع سنبھل (سابقہ ضلع مرادآباد)یوپی ہندمیں 2ربیع الاخر1346ھ مطابق 29ستمبر1927ءکو ہوئی اوروصال راولپنڈی پاکستان میں6جمادی الاولیٰ 1399ھ مطابق4،اپریل 1979ءکو فرمایا، مدرسہ رضویہ راولپنڈی سے متصل تدفین ہوئی۔آپ فاضل بریلی شریف،شاگردصدرالشریعہ ومفتی اعجازولی خان، مریدحجۃ اسلام علامہ حامدرضا ،خلیفہ مفتی اعظم ہند،سندیافتہ حازق طبیب ،بانی قادری دواخانہ راولپنڈی ،اسلامی شاعر، خطیب جامع مسجدلال کڑتی اوربانی مدرسہ رضویہ راولپنڈی ہیں ۔(تحریک پاکستان میں علماء ومشائخ کا کردار،368،369)

(106)خطیب اسلام حضرت مولانا شاہ محمد نشتر صاحب کی ولادت 4شعبان 1359ھ مطابق 7ستمبر1940ء کو موضع کلاں رقبہ چھاترہ (عباس پور،ضلع پونچھ کشمیر)میں ہوئی آپ عالم دین ،دینی ودنیاوی علوم کے جامع ،مرید بابوجی سرکارگولڑہ شریف، فاضل جامعہ رضویہ منظراسلام فیصل آباداورمفکراسلام ہیں ،مفتی اعجازولی صاحب سے آپ نے جامعہ نعیمیہ لاہورمیں شرف تلمذپایا ۔آپ کافی عرصہ جامع مسجدتبلیغ اسلام بریڈ فورڈ میں امام وخطیب رہے۔(برطانیہ میں علماءاہل سنت اورمشائخ 3/514تا517)

(107) جدِّ اعلیٰ حضرت ،مفتی رضا علی خان نقشبندی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ عالم، شاعر،مفتی اورشیخ طریقت تھے۔1224ھ مطابق1880ء میں پیدا ہوئے اور 2جمادی الاولیٰ1286ھ مطابق 10،اگست 1869ءمیں وصال فرمایا، مزار قبرستان بہاری پورنزدپولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی، ہند) میں ہے۔ (معارف رئیس اتقیا،ص17، مطبوعہ دہلی)

(108)والدِ اعلیٰ حضرت، رئیس المتکلمین مفتی نقی علی خان قادری رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ باعمل عالمِ دین، مفتیِ اسلام، پچیس سے زائد کتب کے مصنّف اور بہترین مدرّس تھے۔ 1246ھ مطابق1831ھ میں بریلی شریف(ہند) میں پیدا ہوئے اور یہیں 30 ذیقعدہ 1297ھ مطابق 3نومبر1880ءمیں وصال فرمایا، مزار مُبارک قبرستان بہاری پور نزد پولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یو پی) ہند میں ہے۔( مولانا نقی علی خان حیات اور علمی و ادبی کارنامے، ص5تا6)

(109)حیات اعلیٰ حضرت مکتبہ رضویہ کراچی،15،16۔

(110)تذکرہ ٔ جمیل ،241۔

(111)تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(112)ماہنامہ عرفات ،خاص نمبرامام اہل سنت ،ستمبر،اکتوبر1975،ص10۔

(113)تذکرہ ٔ جمیل ،241۔

(114)حاجی محمد ارشدعطاری صاحب ایک متشرع ،صالح اورمؤدب شخصیت کے مالک ہیں ،ان کی پیدائش 5ربیع الاخر 1399ھ مطابق 5مارچ 1979 ء کو بلال (بھٹہ)چوک بیدیاں روڈلاہورکینٹ کے علاقے میں ہوئی ،میٹرک کے بعد دعوت اسلامی سے وابستہ ہوئے ، بوجوہ درسِ نظامی نہ کر سکے ،ایم کام کرنے کے بعد مختلف مقامات پر ملازمت کی، آجکل شیخوپورہ کی تین کمپنیز میں ہیڈ آف ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ہیں،درس نظامی کرنے کے لیے جامعۃ المدینہ نائیٹ میں داخلہ لے چکے ہیں،بڑی محنت سے مصروف تعلیم ہیں ،انھوں نے درجہ اولیٰ کے سالانہ امتحان میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے ،درسِ نظامی مکمل کرنے کے بعد تخصص فی الفقہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

(115) غازی علم الدین شہید 8 ذیقعد 1366ھ مطابق 3 دسمبر 1908ء کو لاہور کے ایک علاقے محلہ سرفروشاں میں پیدا ہوئے اور31 اکتوبر 1929ء کوجام شہادت نوش فرمایا۔ کم و بیش چھ لاکھ عشاق رسول نے آپ کے نمازجنازہ میں شرکت کی،مزارمیانی صاحب قبرستان میں ہے ۔

(116)حضرت الحاج مہر محمد صوبہ نقشبندی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ مرتضائیہ لاہور کے عظیم بزرگ ہیں۔ آپ کا سنِ ولادت 1250ھ مطابق1835ءقیاس کیا جاتا ہے جبکہ آپ کی وفات 20صفر1364ھ مطابق 4 فروری 1945ءکو ہوئی۔ آپ پیر صاحب قلعہ شریف والے حضرت الحاج خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول صاحب کے خلیفہ اول ،پیشے کے اعتبارسے کاشتکار اورصاحب کرامت ولی اللہ تھے ۔ آپ کا مزارمیانی قبرستان میں ہے ۔(خواجگان مرتضائیہ، 460تا467)

(117)سحرالبیان خطیب حضرت مولانا غلام محمد ترنم جماعتی صاحب کی ولادت 1320ھ مطابق 1900ء کو امرتسرکے ایک کاشمیری گھرانے میں ہوئی اورلاہورمیں 17محرم 1379ھ مطابق 24جولائی 1959ء کو وصال فرمایا ،آپ عالم دین ،دینی ودنیاوی علوم سے مالامال، اسلامی صاحب دیوان شاعر،بہترین خطیب ،تحریک پاکستان کارکن ،جمعیت علماپاکستان کے مرکزی نائب صدر،خظیب جامع مسجدسول سیکرٹریٹ ،محبوب العلمامؤثرشخصیت کے مالک تھے، تصانیف میں مقدمہ وحوشی بطل نبوت اہم ہے ۔(تحریک پاکستان کے سات ستارے،96تا105،یادرفتگان،2/40)

(118)حضرت مولانامفتی سید غلام معین الدین نعیمی صاحب کی ولادت 14جمادی الاولیٰ 1342ھ مطابق 23دسمبر 1923ءکو مرادآباد ہند میں ہوئی اوروصال لاہورمیں 12جمادی الاخریٰ 1391ھ مطابق4،اگست 1971ء کو ہوا،نمازجنازہ مفتی اعجازولی صاحب نے پڑھائی ،تدفین میانی قبرستان میں کی گئی ،آپ فاضل جامعہ نعیمیہ مرادآباد،صدرالافاضل کے تلمیذوخاص خدمت گار،50 کتب کے مترجم، ہفت روزہ سواداعظم کے اڈیٹراورفعال عالم دین تھے ۔(سیدغلام معین الدین نعیمی حیات وخدمات ،51،153،138،113)

(119)اکابرتحریک پاکستان صفحہ 343میں ہے کہ مفتی اعجازولی خان صاحب کو مولانا غلام محمد ترنم رحمۃ اللہ علیہ کے پہلومیں دفن کیاگیا جوکہ درست نہیں ۔

(120)تذکرہ ٔ جمیل ،241۔