دین ِاسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں روحانیت کی بنیاد ایسے قوانین پر رکھی گئی ہے
جو انسانی جبلّت کے موافق اور اس کی دنیوی
اور اُخروی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے ان روشن اُصولوں پر عمل پیرا
ہوکرمسلمانوں نےدلوں پر حکومت کی ۔ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے اسلامی اصولوں کو ”تصوف“کا عنوان دیا گیااور اس کے
ماہرین کو شیخ اور ولی کے معزز القاب سے جانا جانے لگا۔
ہند
میں تصوف کی آمد:
جب ہندوستان میں اسلام کا نور پہنچا،مسلمان یہاں دعوت ِ دین کا جذبہ لے کر آباد ہوئے، اپنے حسن ِ اخلاق
اور بلند کردار سے لوگوں کو اسلام کی جانب
مائل کیاتو دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اسلام لانے لگے پھر ایک زمانہ وہ آیا جب مسلمانوں نے یہاں تقریباًسات سو سال حکومت کی ۔زمین پر حکومت کی تاریخ کو سات سو سال کی قید
میں مقید کیا جاسکتا ہے،تاریخی یادگار کے طور پر محفوظ کیا جاسکتا ہے اورزمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہنوں سے مٹایا
جاسکتا ہےلیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ دلچسپی کی حامل ہے کہ صوفیائے کرام رحہم اللہ تعالیٰ نے اپنے اعلیٰ اوصاف اور لازوال کردار کی بنا پر دلوں پر حکومت کی لہٰذا ان صوفیاء کے اخلاص ہی کا نتیجہ ہے کہ نہ
تو کبھی لوگوں کے دلوں سے محبت ِ اولیا کے
آثار کو کوئی جبر مٹا سکا ہے اور نہ کوئی قہر فراموش کرواسکا ہے۔ جاگتی آنکھوں سے یہ
ناقابل ِتردید حقیقت دیکھنے کے بعد یہ کہہ
سکتے ہیں کہ دلوں پر آج بھی اولیائے کرام کا راج ہے ،یہ حکومت نہ تو کبھی کمزور ہوئی نہ ہی ان سرکاروں کا بول بالا ہونے سے کوئی روک سکا ہے ۔
سرزمینِ دہلی کا پس منظر
توران قوم کے راجہ نے ایک شہر آباد کیا ،اس شہر کی مٹی بہت ہی نرم
تھی اس وجہ سے لوہے کی سلاخیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ نصب ہوجاتی تھیں اس لیے اس نئے شہر کا
نام”دہلی“رکھا گیا۔آٹھ تورانی راجاؤں نے
اس شہر پر حکومت کی ،راجہ پتھوار کی حکومت آئی اور اس نے سلطان شہاب
الدین غوری سے شکست کھائی اوریوں دہلی پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی ۔(تاریخ
فرشتہ ،۱/۱۳۸)
جب منگولوں کی وجہ سے وسط ایشیامیں ایک طوفان اٹھا ہوا تھا تو اس وقت علما و مشائخ اور شعرا و ادبا کا رُخ دہلی کی جانب ہوااوراس طرح دہلی ایک بین الاقوامی شہر بن گیا۔دہلی اپنی علمی ،سماجی،ثقافتی ، علاقائی حیثیت کی بنا پر ہمیشہ توجہات کا مرکزبنااور اپنی اسی اہمیت کی
بنا پر تقریبا ہر دور ہی میں ”دارالحکومت “ رہا ہے ۔یوں تو ہندوستان کے کئی شہر وں میں بڑے بڑے جلیل القدر
اور عظیم المرتبت صوفیا آرام فرماہیں ، مگردہلی
کے مشائخ کی تاریخ کھنگالنے کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ صوفیائے کرام کی آمد
اور سکونت کی بدولت دہلی ”دارالاولیا“
قرار پایا ۔
دارالاولیا دہلی کے نصیب کی بھی کیا بات ہے ،یہ وہ مبارک سرزمین ہے کہ جس نے سلطانُ الہند خواجہ معین الدین
سیّدحسن اجمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے قدموں سے فیض
پایا ہے اور خواجہ ٔ خواجگان نے یہاں پرچم ِ اسلام نصب فرمایااس سلسلے میں یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے چنانچہ جب حضرت معین الدین اجمیری رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ غزنی سے دہلی تشریف لائے تو آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کچھ لوگوں کو شر ک میں مبتلا دیکھ کر اسلام کی دعوت دی ،زبان ِ خواجہ
سے دعوتِ حق سُن کر ان کے دل حق قبول کرنے پر آمادہ ہوئے اور فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے ، اس گر وہ میں ایک سردار بھی موجود
تھاجسےلسانِ خواجہ سے حمید الدین کا لقب عطا ہوااور پھریہی حمید الدین ”حضرت حمید الدین دہلویرَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ“کے نام
سے معروف ہوئے ۔(تحفۃ الابرار،ص۹۴)
چونکہ مشائخِ کرام کا کردار خُلقِ محمدی کا آئینہ دار تھا اسی لیے لوگ ان کی جانب کھنچے چلے آتے ،لوگوں
کی وارفتگی جاننے کے لیے یہ دلچسپ واقعہ
ملاحظہ کیجیے چنانچہ جب سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےدہلی
کو اپنا مسکن بنا یا تو لوگوں کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا گرویدہ ہو گیا ۔ جب خواجہ معین الدین رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت بختیار کاکی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنے
ساتھ اجمیر لے جانا چا ہا تو اس خبر سے
دہلی میں کہُرام مچ گیا اور جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دہلی سے رخصت ہونے لگے توسلطان شمسُ الدین التمش سمیت تمام شہر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کے پیچھے نکل کھڑا ہوا ،لوگوں کے شوق و وارفتگی کا عالَم یہ تھا کہ جہاں قطبُ الدین
بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ قدم رکھتے اس
جگہ کی خاک کو تبر ک سمجھ کر اٹھا لیاجاتا ،یہ تمام صورت ِ حال دیکھ کر خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے
فرمایا:بختیار! تم یہیں رہو کیوں کہ مخلوق خدا تمہارے جانے سے اضطراب کا شکار
ہےاورمیں ہرگزاس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ بے شماردل خراب و کباب کروں ،جاؤ!
میں نے اس شہر کو تمہاری پناہ میں چھوڑا ۔ (سیر اولیا،ص۱۱۳)
چندمشائخ دہلی کے اسمائے گرامی
مشائخ کرام نے دہلی کو میدان ِ عمل بناکر خون ِ جگر سےاسلام کی آبیاری کی،اِن فلک پیما شخصیتوں
میں چند کے نام ملاحظہ کیجیے :
(1)قطب الاقطاب قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(2)حضرت قاضی حمید الدین ناگوری
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(3)حضرت خواجہ بد ر الدین غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ
(4) حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(5)شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اولیا
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(6)حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(7)حضرت خواجہ امیر خسرو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(8)حضرت خواجہ شمس الدین محمد یحی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(9)حضرت خواجہ علاؤ الدین نیلی چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(10)حضرت خواجہ محی الدین کاشانی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(11)حضرت سیّدابراہیم ایرجی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(12)حضرت مخدوم سماء الدین سہروردی
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(13) حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(14)حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(15)حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(16)محبّ النبی حضرت خواجہ فخرالدین دہلوی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (17)حضرت
خواجہ مرزاجان مظہر شہید رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(18)حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(19)حضرت شاہ محمد فرہاد دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(20)حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(21)حضرت شاہ محمد آفاق مجددی دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(22)حضرت خواجہ ابو سعیدمجددی رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ
ان کے
علاوہ سینکڑوں مشائخ کرام ہیں جنہوں نے دہلی کی سرزمین کو اپنا مسکن بنایا ۔ دہلی میں آرام فرمامشائخ کرام کی حیات ِ مبارکہ کے جس گوشے کا بھی مطالعہ
کیجیےان میں”ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ “کی عملی تفسیر ملے گی۔مشائخ دہلی کی گفتگو کو فصاحت و بلاغت کی چاشنی شگفتہ بنا دیتی، تعبیر و تمثیل کی ندرت اور
ترغیب و ترہیب کی دھمک متلاشیان ِحق کے لیے رہنما بن جاتی۔ مشائخِ دہلی حق کی سربلندی کے لیے ہر دم کوشاں رہے اور اپنی پوری زندگی دعوت ِ دین میں بسر کی۔
اصلاح احوال کے سلسلے میں مشائخ دہلی
کی کوششیں
مشائخ دہلی دنیاکی ہر کشش سے بے نیاز ہوکر دنیا میں رہتے ۔نفس سے ہر دم نبرد
آزما رہتے ،بظاہر بے سر و سامان دِکھنے والوں کے پاس توکل کی دولت وافر مقدار میں موجود ہوتی ،جو بھی ان کے
در پر حاضر ہوتا اس کے دل میں خلوص کا نور بھر دیتے ،درس و تدریس کا اہتمام ہوتا
جس میں ملفوظات کے ذریعے اصلاحِ احوال کی قابل ِ قدرکوششیں کی جاتیں،ان حضرات نے
اپنی زندگی کو مخلوق ِ خدا کے لیے وقف کیا ،جہاں بھی تشریف لے گئےنورِ شریعت سے جہالت
کے اندھیروں کا خاتمہ کیا،ہر علاقے کے لیے مستقل بنیادوں پر تربیت کا انتظام کیااورلوگوں کو اپنا عقیدت مند پاکر دین ِ
اسلام کا خادم بنادیا ۔
مشائخ ِ دہلی نے دعوت ِ دین کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی اور دین ِ اسلام کی ترقی کے لیے جن جن شعبوں میں خصوصی توجہ دی ان
کا اجمالی تذکرہ ملاحظہ کیجیے :
تدریس
:
تدریس کا میدان نہایت وسیع اوراپنی افادیت کے اعتبار سے بہت ہی زیادہ اہمیت کاحامل ہے اسی لیے مشائخ
کرام نے تدریس پر خصوصی توجہ دی ،مشائخ کی تدریس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی میں ایک ہزار مدرسے قائم ہوئے جس میں لاتعداد تشنگان ِ علم اپنی پیاس بجھانے کےلیےان کے در پر حاضری دیتے ۔(تاریخ مشائخ چشت ، ص۱۷۳)
مساجد
کی تعمیر
اسلامی معاشرے میں مسجد کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اسی لیے مشائخ کرام نے مساجد کی تعمیر
اور آباد کاری پر خصوصی توجہ دی ۔
دیگر
ارکان اسلام پر عمل
نماز کی طرح زکوٰۃ، روزہ اور حج بھی ارکانِ
اسلام ہیں ،مشائخ نے لوگوں کو ارکان ِ اسلام کا پابند بنانے کے لیے بھی کوشش فرمائی ۔
ہر
حال میں شریعت کی پیروی :
تصوف
کی بنیادی روح اپنی ذات میں اطاعتِ الہی کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور اطاعتِ الہی کے لیے ضروری ہے کہ بندہ ہر حال میں احکامِ شریعہ کو حرزِ جاں بنائے اسی
لیے مشائخ کرام نے لوگوں کو شرعی احکام کا پابند بنانےکے لیےمستقل بنیادوں پر ذہن سازی کی ۔
اصلاح
نیت:
دعوت
ِ دین کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ”جذبہ ٔ خلوص“ریڑھ
کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہےاور جذبہ ٔخلوص کو کسی بھی قسم کی آمیزش سے پاک رکھنے کے لیے ”اصلاحِ نیت“بہت ضروری ہے اسی لیے مشائخ کرام نے نیت کی
درستی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
استقامت
:
سیدھا راستہ اپنا نا اور پھر اس پر ثابت قدم
رہنااللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خصوصی انعام ہے،
مشائخ کرام نے اپنے معمولات کے ذریعے خلفا اور مریدین کو استقامت کی اہمیت ذہن نشین کروائی ۔
عفو
و درگزر:
امر بالمعروف اور نھی عن المنکر وہ راہ ہے جس میں جگہ جگہ بداخلاقی کے کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور طعن و تشنیع کے سنگریزے برسائے جاتے ہیں جس کا
مقابلہ کرنے کے لیے ”عفو و درگزرکی سنت“ ہی سب سے محفوظ پناہ گا ہ ثابت ہوتی ہے،مشائخِ
کرام کی دینی خدمات کا دائرہ کار جوں جوں وسیع ہوتا گیا دشمنان ِ دین اور
حاسدین کی طرف سے ایذا رسانی کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر انہوں نے عفو و درگزر کی عظیم ُالشان مثالیں قائم فرماکر دشمن کے منصوبے خاک میں ملادیے ۔
تصنیف
و تالیف:
کتاب کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے کتاب اپنے
مصنف کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھتی ہے
اورصدیاں گزرنے کے بعدبھی کتاب ”مصنف کی
مجلس“میں لے جاتی ہے ،مشائخِ دہلی نے
تصنیف و تالیف کی جانب بھی توجہ دی اور کئی علوم پر گراں قدر کُتُب یادگار چھوڑیں ۔
مشائخِ دہلی بعض اوقات زیرِ مطالعہ کتاب کے پیچیدہ مسائل حل فرمادیتے جیساکہ سلسلۂ عالیہ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت سیّدابراہیم ایرجی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ہر علم کی بے انتہا کتابیں مطالعہ کی تھیں اور اس کی تصحیح بھی فرمائی تھی، آپ کتابوں کے مشکل ترین مسائل کو اس طرح حل کردیتے کہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی آپ کے حل کردہ مشکلات کو بغیر استاد کی مدد کے بخوبی سمجھ جاتا ، آپ کے وصال کے بعد آپ کے کتب خانے سے اتنی زیادہ کتابیں برآمد ہوئیں جو ضبطِ تحریر سے باہر ہیں،ان میں سے اکثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں۔(تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ، ص۲۰۸)
مشائخ دہلی کی دعوت کے اثرات
مشائخِ دہلی کی آمد اور سکونت ساکنان ِدہلی کے
لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ، مشائخ کرام کی دعوت سے اُن کا
ظاہر سُدھر ا اور اُن کے باطن کو پُر رونق بنا گیا ۔ مشائخ ِدہلی کی دعوت کے اثرات کے مختلف پہلو ملاحظہ کیجیے :
(1)علم
کے اجالوں سے جہالت کی تاریکی کا خاتمہ :
انسان
کو اشرف المخلوقات کے لقب سے امتیازی
مقام دلانے والا وصف” علم “ہے۔علم کا نور
انسان کومعاشرے میں رہن سہن کا ڈھنگ
سکھلاتا ہے،طرز ِ معاشرت میں عمدگی پیداکرنے کا سلیقہ بتا تا ہے ، بڑوں کا
ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی اچھی عادت اپنانے کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔صوفیائے کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن جہاں
بھی تشریف لے گئے علم کی شمع روشن کی اور جہالت کی تاریکی کا خاتمہ کیا ۔کبھی تو میدانِ تدریس میں اتر کر جہالت کو کیفرِ کردار تک پہنچایا اور
کبھی اپنے علمی فانوس کے ذریعے کسی بھٹکے ہوئے کو راہ دکھانے
کی سعیٔ پیہم فرمائی۔
حضرت
نظام الدین اولیا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی بارگاہ میں کسی بھی قسم کا کوئی اشکال پیش ہوتا تو آپ نو رِ باطن سے اس کا شافی جواب عطا فرماتے یہی وجہ تھی کہ شہر دہلی میں جو لوگ تصوف کا انکار کرتے تھے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے تبحر علمی نے
انہیں اس قدر متاثر کیا کہ وہ آپ کے حلقہ
ٔ ارادت میں شامل ہوگئے۔(محبوب الہی،ص۲۲۶ملخصا)
مشائخ کرام علیہم الرحمہ کے وجودِ مسعود
سے دہلی علم وعرفان کی مشکبار پُر رونق
اکیڈمی بن چکا تھاجس کی بناپردہلی کو” رشک بغداد“ قرار دیا گیا ۔
(2)اخلاقی پستی کا خاتمہ
جس
طرح دماغ کو معطر کرنے کے لیے ”پھو ل “میں ”خوشبو “ کا ہونا ضروری ہے بالکل اسی طرح ”علم “ کو انسانیت کے لیے قابل اِنتفاع
بنانے کے لیے ” حسن اخلاق کی خوشبو“کاہوناضروری ہے کیوں کہ جس”علم“میں”بداخلاقی“ کی بو ہو
اسے حاصل کرنے سے انسان پڑھا لکھا جاہل بن جاتا ہے ۔
دہلی
کےمشائخ کرام نے جہاں فروغ ِ علم کے سلسلے میں کوششیں فرمائیں وہیں انسان کو عمدہ اخلاق اپنانے سے متعلق
خصوصی تربیت دی اور اپنی بافیض صحبت سے معاشرے میں پیدا ہونے والی
اخلاقی برائیوں کا خاتمہ فرمایا۔
(3)شیر
و شکر کرنے کی کوشش:
افراد کے مجموعے کا نام معاشرہ ہے اوراس مجموعے کو توڑنے میں
باہمی رنجشوں،آپس کی ناچاقیوں اور تلخیوں
کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے ۔مشائخ کرام نے عمدہ نصیحت اور حسن ِ تدبیر کے
ذریعے بکھرے ہوئے خاندانوں کی رہنمائی کی اور ان میں صلح جوئی کے جذبات ابھارے،عفو و درگزر اپنانے کی ترغیب دلائی اورنفرت کاخاتمہ کرکے شیر و شکر ہوکر رہنے کی عملی تربیت دی جس کی بدولت اپنے بھائی کے لیے بھلائی چاہنے کے جذبے کو فروغ
ملا۔
(4)علم
نافع کے فروغ کے لیے کوشش
انسان کی ہلاکت و بربادی میں”علم غیرنافع“کا
کردار ہوتا ہے،اس کی بدولت معاشرے میں
فساد پھیلتا ہے اوربعض اوقات فاسد نظریات کے فروغ کی وجہ سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔دہلی میں جب علم کو عروج نصیب ہوا تو اس وقت ایسے عناصر نے بھی پرورش پائی جن کا
علم ”غیرِنافع“ ہونے کی وجہ سے ریت کا پہاڑ تھا اور اس غیرنافع علم کی وجہ
سے غلط نظریات پھیل رہے تھے تو ایسے وقت میں مشائخ کرام ہی نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ان عناصر کا سدِ باب کیا اور ان کے
مہلک اثرات سے معاشرے کو محفوظ رکھنے کے
لیے علم ِ نا فع کی اشاعت میں بھر پور کردارادا کیااور حق و باطل کے مابین
خطِ امتیاز کھینچ کرلوگوں کو گمراہی سے
بچایا۔
(5)اصلاح اعمال کے لیے کوشش
رب ِ
کریم کی بارگاہ سے ایمان لانےاور عملِ
صالح پر استقامت اختیار کرنے پر جنّت کی بشارت سے نوازا گیا ہے اور بے عملی پر عذابِِ نار سے ڈرایا گیا ہے لیکن جب بھی انسان بشارت و تخویف کو فراموش کرتا ہےتواس کا نامہ ٔ اعمال برائیوں سے پُر ہونے لگتا ہے اور پھر بدی کی کثافت نامۂ اعمال کی چمک دمک کو ختم کردیتی ہے ۔مشائخِ
دہلی نے ”اصلاحِ اعمال “پر بھر پور تو جہ
دی اور اپنی فراستِ ایمانی سے ایسے اقدامات کیے کہ جن کی بدولت
لاتعداد افراد تو بہ کرکے راہ راست پر آئے ۔
(6)مفادپرست کلچر کا خاتمہ اور خیر خواہی کو
فروغ
اپنا فائدہ سوچنے کی روش سے انسان کے اندر
بے شمار برائیاں پیدا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کبھی انسان حرص و لالچ کے جال میں پھنس جاتا ہے ، کبھی تکبرکا آسیب اس سے چمٹ جاتا ہے تو کبھی حسد کی آگ میں کود پڑتا ہےاور آخر کارمفادپرستی کی دیمک کے
سبب معاشرتی اقدار رفتہ رفتہ کھوکھلی ہوتی ہیں۔اسی لیےمشائخِ دہلی دوسروں کی تکلیف
کو اپنی تکلیف سمجھنےاور اس کے ازالے کے لیے کوشاں رہنے کی خصوصی تربیت فرماتے
جیساکہ خواجہ نظام الدین اولیاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لوگوں
کے دکھ درد سے حددرجہ رنجیدہ ہوتےاورخلقِ خدا کی پریشانی سے پریشان ہوجاتے، ایک دن خانقاہ میں لوگوں کا ہجوم تھا،
سایہ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ لوگ دھوپ میں بیٹھے ہوئےتھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جب
یہ دیکھا تو لوگوں سے فرمایا:مل جل کر
بیٹھ جاؤ تاکہ دوسروں کے لیے بھی جگہ نکل
آئے۔دھوپ میں لوگ بیٹھے ہیں اور میں جل
رہا ہوں۔(محبوب الہی،ص۲۳۶)ایک موقعے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:جو شخص میرے پاس آتا ہے اپنا
حال مجھ سے بیان کرتاہے اس سے دو چند فکر و تردد اور غم و الم مجھے ہوتاہے ،بڑا سنگدل ہے وہ جس پر اپنے دینی
بھائی کا غم اثر نہ کرے۔(محبوب الہی،ص۲۳۷) ایک مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: قیامت کے
بازار میں کسی سودے کی اتنی قیمت نہ ہوگی جتنی دل کا خیال رکھنےاور دل خوش کرنے کی
۔(محبوب الہی،ص۲۳۷)
مشائخ دہلی نے اپنے اپنے عہدِزریں میں مفاد پرستی کے کلچر کے خاتمے کے
لیے بھر پور کوشش فرمائی اور لوگوں کہ یہ ذہن دیا کہ
1۔
دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیں اور اپنے
اندر ایثار کا جذبہ پیدا کریں۔2۔مخلوق پر
رحم کرکے خالق کی رحمت کے حقدار
بنیں۔3۔کسی کو خود سے کم تر نہ سمجھیں بلکہ عاجزی اختیار کرتے ہوئے ہر ایک کو خود
سے برتر جانیں۔4۔مسلمان کی بروقت مدد کرکے اس کی قلبی طمانیت کا سبب بنیں ۔
الغرض یہ کہ مشائخ دہلی نے بھرپور کوشش
فرمائی کہ مسلمان ایک دوسرے کے خیرخواہ بنیں۔
(7)عبد و معبود کے مابین تعلق اُستوار کرنے کی کوشش
مشائخ کرام مخلوق کو خالق سے جوڑتے ہیں اوراپنی دعوت کے ذریعے انسان کو مقصد ِ تخلیق”عبادت “سے آشنا کرواکر
اُسےخالق ِ حقیقی کے در پر جھکا دیتے ہیں ،مشائخ دہلی نے بھی مخلوق کو خالق سے جوڑاجس کا یہ اثر ملاحظہ کرنے کے لیے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عہد
زریں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں مرد و عورت،غلام ونوکر سب ہی عبادت و ریاضت کے شائق نظر
آتےہیں،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی برکت سےاس دور کے مسلمانوں کی کیفیت یہ ہوچکی تھی کہ شرم کی وجہ سے دنیوی عیش وعشرت کا تذکرہ کرنے سے بھی شرماتے تھے ۔(مراۃ
الاسرار،ص۷۹۲)
جس
عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں اگر اپنے شب و روز ان مشائخ کرام کی سیرت کےسانچے میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کریں، اپنی داعیانہ ذمہ
دار ی کو محسوس کرتے ہوئے اسلام کا پیام ِ
امن دنیا کے سامنے پیش کریں،عجب نہیں کہ
ایک مرتبہ پھر پرچم ِ اسلام اپنی عظمت و جلالت کے ساتھ دنیا بھر میں لہرانے لگے۔
از:مولاناناصر جمال عطاری مدنی
اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی
حدیث
مبارک میں ہے: اللہ پاک جس کے ساتھ
بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔(بخاری شریف،حدیث:71)دین
کی سمجھ میں بنیاد عقائدِ اسلام کی ہےجس
پراعمال کوشرفِ قبولیت والےاعمال کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ بنیاد میں خرابی ہو تو
عمارت چاہے کتنی ہی حسین وجمیل کیوں نہ ہو آخر کار زمین بوس ہو جاتی ہے۔ تعمیر
اپنے معمار کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہے، یہی صورت حال انسان خصوصاً مسلمان کے ساتھ بھی ہے کہ اس کی تعمیر
کس کے زیر سایہ ہوئی،اس کی بنیاد یعنی عقائد کس قدر مضبوط اور درست ہیں،اس میں
کوئی شک نہیں کہ تعمیر اپنے معمار، اولاد والدین کی تربیت اور شاگرد اپنےاستاد کی
قابلیت کا آئینہ و نمونہ ہوتے ہیں، اس تمہید کا مقصد ایک ایسی شخصیت کاتعارف ہے جواپنے والدین کےلیے آنکھوں کی ٹھنڈک
اور اپنے معماروں یعنی اساتذہ کے لیے قابل فخر نمونہ ہے۔ میری
مراد شمس العلماء حضرت مولانامفتی ابو المعالی شمس الدین احمد جعفری جونپوری رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ ہیں۔
شمس
العلماء موصوف نے ایک مذہبی گھرانے
میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد اور نانا جان سے حاصل کی۔ ذہانت
وفطانت من جانب
اللہ ودیعت ہوئی مزید برآں مذکورہ
بزرگوں کی شفقتوں اور محبتوں نے آپ کو گونا گوں صفات کا حامل بنا دیا، حصول علم کی
پیاس اور شوق نے آپ کو متعدد بزرگوں کی بارگاہ تک پہنچایا جن میں صدر الافاضل، فخر
الاماثل حضرت علامہ مولاناسیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی اور صدر الشریعہ، بدر
الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہمانمایاں مقام رکھتے ہیں۔بالخصوص حضرت صدر الشریعہ
کے بارے میں آپ فرماتے ہیں: میرے مخدوم حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کو جملہ
علوم وفنون متداولہ میں کافی درک تھا،بالخصوص معقولات پڑھاتے وقت معقولات کو پانی
پانی کر دیتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ قدرت کی فیاضیوں نے انہیں علم فقہ کا امین
وارث بنا دیا، لوگ دار الافتاء میں فتوے کی مشق کرتے کرتے زندگی تمام کر دیتے ہیں
تاہم اس منصب کو نہیں پہنچ پاتےہیں جو صدر الشریعہ کو قدرت کا عطیہ تھا۔
حضور شمس العلماء بھی اپنے اساتذہ
سے ایسے مستفیض ہوئے کہ معقولات ومنقولات میں ماہر اور فقہ پر گہری نظر رکھتے
تھے،ہر فن میں سیر حاصل گفتگو فرماتے اور معلومات کا دریا بہاتے،کلام کے تجزیے پر
عبور رکھتے اور جب تک اس کے دلائل ومقدمات کو پرکھ نہ لیتے قبول نہ فرماتے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 20 سال کی عمر میں دار العلوم
منظر اسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دس سال کی عمر میں امام اہل سنت،
مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے شرف بیعت حاصل کیا، حجۃ الاسلام مولانا حامد
رضا خان اور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفٰے رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہما نے - خرقہ خلافت عطا فرمایا۔
محترم قارئین!اپنے عقائد ونظریات کی حفاظت اور افکار کی پختگی
کے لیے علمائے حق اور اصحابِ نظر شخصیات کے سائے کی ضرورت ہوتی ہے، جن کی صحبت
ونظر بندے کو کامل وپختہ بنا دیتی ہے،حضور شمس العلماء ایسوں ہی کی صحبت سے فیض یاب ہو کر ایک چمکتا
ستارہ بنے آپ کے مربیان میں آپ کے داد وناناجان کے علاوہ آپ کے اساتذہ پیر طریقت
نمایاں مقام رکھتے ہیں، مذکورہ بالا ہستیاں
کسی تعارف کی محتاج نہیں اور حضور شمس العلماء کی ذات میں ان ہستیوں کی جھلک واضح
نظر آتی ہے۔خصوصاً عقائد کے معاملے میں جہاں کئی ٹھوکر کھا گئے وہاں بھی آپ نے اسلاف کے دامن کو مضبوطی سےتھامےرکھااوراپنی
سیرت وکردارکویادِگار اسلاف بنادیا، ۔
صحابہ کرام کے متعلق نظریہ:
صحابہ کرام کے متعلق آپ کی
تحریر کردہ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:٭ انبیاء ومرسلین کے
بعد تمام مخلوقاتِ الٰہی جن وانس وملک سے افضل صدیق اکبر ہیں۔ (قانونِ شریعت، ص۷۱)٭کسی
صحابی کے ساتھ بد عقیدگی گمراہی وبدمذہبی ہے، حضرت امیر معاویہ،حضرت عمرو بن
عاص،حضرت وحشیرَضِیَ اللہُ عَنْہم وغیرہ
کسی صحابی کی شان میں بے ادبی تبراہے اور اس کا قائل رافضی ہے۔ (قانونِ شریعت، ص۷۱)٭حضرات شیخین کی توہین بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی
فقہاء کے نزدیک کفر ہے۔(قانونِ
شریعت، ص۷۲)حضور شمس العلماء رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ مزیدتحریر
فرماتےہیں:جو صحابہ واہل بیت سےمحبت نہ رکھے وہ گمراہ وبد مذہب ہے۔ (قانون شریعت: ص۷۳) کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کا ہو کسی صحابی کے رتبہ کو
نہیں پہنچتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ کی جنگ خطائے اجتہادی ہے
جو گناہ نہیں اس لیے حضرت امیر معاویہ کو ظالم، باغی سرکش یا کوئی برا کلمہ کہنا
حرام و ناجائز بلکہ تبرا ورفض ہے۔(قانون
شریعت: ص۷۲)
امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہ اور یزید کے متعلق نظریہ:
یونہی کچھ لوگ نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول حضرت
سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شان میں گستاخی کرتے اور معاذ اللہ انہیں
باغی کہتے نظر آتے ہیں، اگر یہ لوگ اپنے آپ کو اہل سنت کہلواتے ہیں تو سن لیں کہ
یہ اہل سنت کا نظریہ نہیں بلکہ جہلاء کا نظریہ ہے اہل سنت کے نظریے کو بالکل واضح
طور پر لکھتے ہوئے حضرت شمس العلماء فرماتے ہیں: جو امام حسین (رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) کو باغی کہے یا یزید کو حق پر بتائےوہ مردود
خارجی مستحق جہنم ہے۔ (قانون
شریعت: ص۷۳)اس مضمون کی وساطت سے
ہم یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ یزید کے بارے میں اسلاف کا کیا عقیدہ تھا تاکہ کسی
گمراہ کی باتیں ہمیں گمراہ نہ کر سکتیں، حضرت علامہ موصوف یزید کے متعلق مسلمانوں
کا عقیدہ واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یزید کے ناحق ہونے میں کیا شبہ ہے البتہ
یزید کو نہ کافر کہیں نہ مسلمان کہیں بلکہ سکوت کریں۔‘‘اس جزئیے سے یزید کو
امیرالمؤمنین کہنے والے ذرا غور فرما لیں کہ علمائے اہل سنت کے نزدیک یزید کی کیا
حیثیت ہے۔
عملی میدان میں یادگارِ اسلاف:
اعتقادیات کے ساتھ عملی میدان میں بھی آپ یادگارِ اسلاف
تھے،تاریخ کےاوراق نے آپ کی سیرت کےجن
واقعات کو محفوظ کررکھا ہے اس میں سے
مختصر یہ چند پہلو پیش خدمت ہے:(1) آپ کا ذوق
ِتلاوت قابل رشک تھا، ہفتے میں ایک قرآن پاک ختم فرماتے ۔(2)فقہی عبارات جلد و صفحہ کے ساتھ آپ کومستحضر رہتیں اور
بوقتِ ضرورت نوکِ زبان پرآجاتیں۔(3)اندازِ تدریس ایسا دلنشین تھاکہ طلبہ کے دل و دماغ میں وہ چیزنقش ہوجاتی ۔(4)آپ کا زہد
و تقویٰ بے مثال تھا ۔(5)اپنےجگرپاروں کی تربیت کاخصوصی اہتمام کررکھا تھا۔
دعا ہے اللہ پاک حضرت کے فیوض سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمائے اور حضرت
کے مرقد پر تاقیامت رحمت ونور کی برسات فرمائے۔ (آمین بجاہ
النبی الکریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)
از:مولانا محمد
امجد خان عطاری مدنی
اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر
،دعوتِ اسلامی )
اللہ تعالیٰ
نے اپنی تخلیق”انسان“ کوشرفِ علم
سے نوازا اوراسے وہ کچھ سکھایا جسے وہ نہ
جانتا تھا۔نبی اکرم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلم بناکر مبعوث فرمایا،آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے” کتاب“ اور ”حکمت“ کی تعلیم دی
جس کا ذکر سورۂ جمعہ آیت2 اور 3 میں موجود ہے ۔ تعلیماتِ نبوی ”کتاب“اور
”حکمت“پرمشتمل تھی اور یہ دونوں ہی وحی الٰہی کےذریعے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حاصل ہوئے لہٰذا یہ دونوں”غایت،مقصود اور
منزل“ ہیں جب کہ دیگر علوم(لغت،فقہ واصولِ فقہ، بلاغت وغیرہ)ان دونوں تک پہنچنے کےوسائل اور ذرائع ہیں۔
علم وہ نعمت ہے جس میں اضافہ طلب کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نےنبی اکرم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیا ہے اسی نعمت کا سوال نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمنےربِِّ کریم سے کیا اور
ہمیں بھی اس کا سوال کرنے کی تعلیم
دی۔نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نمازِ
فجر کے بعد یوں دعا فرماتے:
اے اللہ! میں تجھ سےعلمِ نافع،پاک رزق اورمقبول
عمل کا سوال کرتا ہوں۔(مصنف ابن ابی شیبہ،7/39، حدیث:14)
اس دعائے نبوی میں دو پہلو قابلِ توجہ ہیں :
(1)اس طرح دعا مانگنے کی ہر مسلمان کوضرورت ہے،اگر وہ طالبِ علم ہے تو
علمِ نافع مانگے،اگرطالبِ رزق ہے تو حلال رزق مانگےاور جو دن بھرنیک عمل کررہا ہے وہ بارگاہِ الہی میں قبولیتِ عمل کا
سوال کرے ۔
(2)اس روایت میں نبی کریم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے علم کو ”نافع“سے موصوف کرکے سوال کیا اور غیر نافع
علم سے پناہ مانگی ہےاس سے ہمیں
معلوم ہوا کہ علم کی دو قسمیں ہیں:(1)علمِ نافع(2)علمِ غیر نافع۔
اِس تمہید ی گفتگو سے علم وحکمت اور علم نافع کی ضرورت واہمیت خوب واضح ہوگئی۔ہمارےاسلاف
کوعلم و حکمت کا فہم ملا اور ان نفوس نے اس نعمتِ خداوندی کو کئی ذرائع سے نسلوں میں منتقل کرنے کا بھی انتظام فرمایا۔ ہرزمانے میں دنیا کودانائے علم وحکمت سے نوازا گیا، شمسُ
العلماء ، حضرت علامہ مولانامفتی قاضی ابو المعالی شمس الدین
احمد جعفری رضوی جونپوریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی ذاتِ گرامی بھی
انہی میں سے ایک ہے ۔
(2) جونپورداناعلما و حکما کی سرزمین:
۱۳۶۱ء میں فیروز شاہ تغلق نےایک شہر آباد کیا اور اِ س کا نام اپنےچچا زادبھائی
جونا شاہ کےنام پر” جونپور“رکھااور شہرکو باوقاراوربا رونق بنانے کے لئےعلماء،دانشور
اور صنعت کاروں کواس شہر میں بسادیا۔ دنیا
نے ایک بار پھر وہ زمانہ دیکھا کہ جونپور نے بغداد و قرطبہ کی یادیں تازہ کردیں ،لوگ مصر،عراق،ایران وغیرہ
سے جونپور کی طرف کھنچے چلے آئے۔کچھ
عرصہ گزرنے کے بعد جونپور کو دار السرور،دارالعلم اور شیرازِ ہند کے بلند
پایہ القاب سےشہرت ملنے لگی اوریہ شہرشائقین ِ علم و حکمت کی طلب پوری کرنےاورشوق کی تسکین کا عظیمُ الشان مرکزاوردانائے علم و حکمت کا مسکن بن گیا۔
اللہ تعالیٰ نے٢٨ ذی الحجہ ١٣٢٢ھ مطابق٥ مارچ
١٩٠٥ءکوشمسُ العلماء ، حضرت مولانا مفتی قاضی ابو المعالی شمسُ الدِّین احمد جعفری
رضوی جونپوریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی صورت میں ایک اور دانائے علم وحکمت سے نواز
کر کرم فرمایا۔
شمس ُ العلماء کا سفرِ علم: علم ،معلم و طالب علم اور ان دونوں کے مابین تعلیم دراصل ارکان اربعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم،معلم اورمتعلم کاشرف ”معلوم“ سے ظاہر ہوتاہے اور ”معلوم “یہاں کتاب و سنّت ہیں جس کی تعلیم نےان تینوں(یعنی علم ،معلم اور طالب وعلم)کو شرف سے نوازا ہے ،ان ارکان کی اہمیت
کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حدیثِ پاک
میں بھی عالم ،طالب علم،علم کے سامع اور
محب بننے کاحکم دیا گیا ہےجب کہ بغضِ علم کو ہلاکت اور بربادی کاسبب قرار دیا
گیا ہے۔ (معجم صغیر،حدیث:786) اگر طالبِ علم کوبلند پایہ اساتذہ میسرآجائیں تو
یہ اُس کی کامیابی میں کلیدکردار ادا کرنےاورطالبِ
علم کی حکمت و دانائی کو قابل ِ رشک بنانےمیں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔شمس ُالعلماء کو قابل ِ رشک مقام ومرتبہ آپ کے اساتذہ کی بدولت ملا تھا،قارئین کےسامنے ابتداء سےعروج تک پہنچنے کی مختصرداستان حاضر ہے،ملاحظہ
کیجیے:
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت جدِّامجداورناناجان سے جونپور میں ہوئی ، اس کے
بعدجامعہ نعیمیہ مرادآبادمیں صدرُالافاضل حضرت مولانا سیدمحمدنعیم الدین مراد آبادی
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی خدمت میں حاضر ہوئےاور کسبِ فیض کیا پھردارُالعلوم
معینیہ عثمانیہ میں داخلہ لیااورصدرُالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی
اوردیگراساتذہ سے علوم وفنون حاصل کرنے
میں مصروف رہے ۔١٣٥٢ھ میں جب صدرالشریعہ دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف آگئے تو
آپ بھی ان کے ہمراہ تھے ۔اسی سال آپ دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے فارغ
التحصیل ہوئے۔
اساتذہ کی صحبت ،ان کے چشمہ
ٔ علم سے سیرابی نہ صرف علم اور عقیدہ کی پختگی کا سبب بنی بلکہ اس کا براہِ راست اثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے روز مرہ کے معمولات پر ہوا،پر چم اسلام کو بلند کرنے کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا جذبہ بیدار کرنے میں اساتذہ کی تربیت کا اہم حصہ ہے۔اساتذہ کی شفقتوں اور
عنایتوں نے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی با برکت ذات کو مسلمانوں کے لیے عظیم محسن اور زبردست خیر خواہ بنا دیا ۔
شمسُ العلماء میدان ِ عمل میں: شمسُ العلماء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ جب میدان ِ عمل میں اُترےتو آپ کے طرز عمل سے علمِ نافع کی کرنیں پھوٹنے لگیں۔ آپرَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےتدریس کا
آغازدار العلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے کیا۔جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں بھی
تدریس فرمائی۔مدرسہ منظرحق ٹانڈہ ،مدرسہ حنفی جونپور ہ اورجامعہ رضویہ حمیدیہ بنارس میں آپ صدرُالْمُدَرِّسین
رہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عملی
زندگی کےچند واقعات ملاحظہ کیجیے:
میدان فقہ کے شہسوار:آپ کےفقہ وحدیث کی عبارات کا استحضارورطۂ حیرت
میں ڈال دیتا،کوئی زبانی مسئلہ پوچھتا تو
عربی عبارات پڑھ کرکے حل عطافرماتے، نہ
صرف کتاب کی نشان دہی فرماتے بلکہ جلد و صفحہ متعین فرمادیتےاگر کتاب سامنے
آتی تو جھٹ پٹ مقرر ہ مقام بھی نکال دیتے ۔عمر کے آخری حصے میں شدید علالت کے سبب کئی چیزوں میں دقت کا سامنا ہوتا مگرجب بھی کوئی
دینی مسئلہ پوچھا جاتا تو ذرہ برابر غلطی کے بغیرحل عطافرمادیتے ۔
اللہ تعالیٰ نے شمس العلما کو تفہیم کی غیرمعمولی
صلاحیت سےنوازا تھا، منقولات کی طرح دیگر علوم کے بھی شہ سوار تھے ، آپ کی سیرت کےاس گوشے سے چند
واقعات پیش کرتے ہیں :
ایک
مرتبہ حضرت علامہ قاضی شمس الدین جونپوری رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بریلی شریف سے جون پور بذریعہ ٹرین آرہے تھے،دوران ِ سفرچندلوگ انگریزی زبان میں معرَّف کی تعریف پر بحث ومباحثہ کررہے تھے مگرکوئی نتیجہ
نہیں نکل پارہاتھا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ابتداء میں توملاحظہ فرماتے رہے پھر اُ ن کی دستگیری فرماتے ہوئے گفتگو میں شامل ہوکرانگریزی میں ہی ایسی جامع مانع تعریف کی کہ اُن کی مشکل دور ہوگئی اور وہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سےمتاثر ہوئے ۔ (حیات شمسی ،ص78)
قوسِ قزح کاتجرباتی مشاہدہ:
برسات
کے بعدآسمان کے مشرقی اور مغربی کنارے پرقوس ِ قزح ظاہر ہوتی ہے،قوسِ قزح کے ان
رنگوں کے لئے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایسے وقت میں پانی اوپر کی جانب پھینکنے کا فرماتے کہ جب سورج کی کرنیں بارش کے قطروں پر براہ راست پڑتی ہوں ،چنانچہ ایسا کرنے سےقوسِ قزح کے رنگ دِکھنے لگتے ۔ (حیات
شمسی،ص76)
شمسُ العلما
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جامعہ رضویہ بریلی شریف میں مسندِ تدریس پر رونق افروز تھے ، اس
دوران چند طلبہ نے آپ کی خدمت عرض کی کہ مرقات و شرح تہذیب کے
مسائل یاد نہیں رہتے جس کی وجہ سے اس فن میں خاطر خواہ
فائدہ نہیں اُٹھا پاتے ،آپ اردو میں ایک رسالہ تحریر فرمادیجئے تاکہ اس فن سےفائدہ اٹھانا آسان ہو۔چنانچہ اس پیہم
اصرارکی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےطلبہ کی خیرخواہی کےلئےاردومیں منطق
کارسالہ”قواعدُالنظرفی مجالی الفکر“تحریرفرمایا۔(قواعدُ
النظر، وجہ تصنیف)آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ علومِ عقلیہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے
کہ ان علوم کو ہم دین کےخادم کی حیثیت سے پڑھاتے
ہیں نہ اصل بالذات کی حیثیت سے ۔(حیات شمسی، ص76) آپ کی
تصنیف کردہ کتب میں قانون شریعت کوشہرت آفاق مقبولیت حاصل ہوئی۔
امراضِ جسمانی کے ماہر طبیب: علم و حکمت میں
مہارت کے نظارے تو آپ کرہی چکے ہیں ،اب آپ کوشمس العلماء کی علم ِ طب میں
رسوخ کی ایک جھلک دکھاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں مخلوق ِخدا کی خیرخواہی کاحیرت
انگیز جذبہ عطا فرمایا تھا حاجت مندوں کی
خیر خواہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی
عادات ِ مبارکہ میں شامل تھی، اسی جذبے کے
تحت آپ اپنی طبیّ مہارت کوخلقِ خدا کے جسمانی امراض
کے علاج میں وقف کرچکے تھے ،آپ کے تجویز کردہ نسخوں کااستعمال مریضوں کی شفا
یابی کا بہترین سبب بن چکا تھا۔طبیہ کالج
لکھنو کےسندیافتہ ٹانڈہ کے واحد شہرت
یافتہ حکیم اشفاق احمد شمسُ العلمارَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی نبض
شناسی کے بڑے مدّاح تھے،ان کا کہناتھا کہ
ہمارےگھر میں استعمال ہونے والے تقریبا نسخے شمس العلماء ہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ افسوس!میں اِس فن میں حضرت سے کچھ حاصل نہ کرسکا،صرف میزان الطّب کے کچھ اسباق پڑھے تھے۔(حیات شمسی، ص77) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی یہ فیاضی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم و حکمت کےبے شمار خزانوں سے مالامال فرمایا تھا ۔
شمس العلماء کا ذوق تلاوت:قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی تلاوت کی بھی کیاخوب
فضیلت ہے کہ اللہ پاک خُودتلاوت کرنے والوں
کی مَدح سَرائی (یعنی تعریف) فرمارہا ہے، نیز احادیثِ کریمہ میں بھی ان کےکثیر فضائل وارِد ہوئے ہیں کہ قرآنِ کریم کی
تلاوت کرنے والوں کو اللہ پاک کے خاص بندے فرمایا گیا،نیز جس شخص
نے رِضائے الٰہی کے لئے قرآنِ کریم کی تلاوت کی ہوگی، بروزِ قیامت اسے نہ تو کسی قسم کی گھبراہٹ ہو گی اور نہ ہی ان سے حساب لیا جائے گا۔
شمسُ العلماءرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو
دورِ طالبِ علمی ہی سے ذوقِ تلاوت قابل
رشک تھا،اندازِ تلاوت میں قوانینِ تجوید
کی بھرپور رعایت فرماتے۔
ہفتے میں ایک مرتبہ ختمِ قرآن:شمسُ العلماء عمر کی منزلیں جیسےجیسے طےکرتےگئے ویسے ہی ذوق تلاوت پروان چڑھتا گیا اوراکثر
ہفتے میں ایک قرآن پاک ختم کرنااورجمعرات
کو قرآن ختم کرکےفاتحہ کا اہتمام کرنا زندگی کے اہم ترین معمولات میں شامل ہوگیا۔ عمدگی سےقرآن پاک پڑھنے کا ذوق اپنے نسلوں میں منتقل کرنے کے لئے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے
بچوں کو تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھوانے کا انتظام فرمایا۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے چھوٹے صاحبزادے کو حفظ کروایا کرتے ،ایک مرتبہ صاحب زادے نے
سبق یاد نہ ہونے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا :کیسے یاد نہیں؟میں تمہیں یاد کرکے دِکھاتاہوں،چنانچہ ایک گھنٹے میں یاد کرکے سنادیا اورارشاد فرمایا: اگر مجھ پر دیگر ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو ایک
ماہ میں پورا قرآن ِ پاک حفظ کرلیتا ۔
علم و حکمت کا عملی اظہار:علم
و حکمت کے موتی زبان سے بکھیرنے بھی اچھی بات ہے مگر کمال یہ ہے کہ علم و حکمت کی خوشبو عمل کے
ذریعے بھی پھیلائی جائے ، شمس العلما کی سیرت سے علم و حکمت کا عملی اظہار ہوا کرتا، چنانچہ ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے گھر میں طلبہ کے لئے کھاناتیار ہوا،کھانے میں گوشت تھا جو
پکنے کے بعد تمام کا تمام مدرسے میں بھیج
دیا گیا ،مدرسے میں صدقے کا گوشت آیا ہوا تھاجس سےایک طالبِ علم پیالہ بھر کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی غیرموجودگی میں گھر پر دے گیا ،گھر والوں نے
بھی اُسے پکالیا، ،دسترخوان سجاتوگوشت والے سالن کا پیالہ رکھ دیا،جب آپ تشریف
لائے تو گوشت کا سالن ملاحظہ فرماکرپوچھا:”یہ کہاں سے آیا۔“اس کی ساری تفصیل عرض کردی گئی جسے سننے کے بعد آپ کو جلال آگیا ، ارشاد فرمایا:مدرسے کا کھانا کس نے
قبول کیا؟کیا یہ ”پکانے “کی اجرت میں نہیں آئے گا؟یہ تو صدقے کا ہےاور مدرسے کے
طلبہ کے لیے ہے ؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے اِ
س واقعے کے ذریعے اپنے گھر والوں کو ایک مسئلہ بھی ذہن
نشین کرادیا ۔مالِ وقف کے معاملے میں
یہ احتیاط ہمارے لئےبھی راہِ عمل کو واضح کررہی ہے ۔
حکمت و
دانائی کا تقاضا یہی ہے کہ جہاں بندہ دوسروں کو نفع پہنچائے وہیں خود بھی دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے کی کوشش جاری رکھےشمسُ العلماء کی سیرت کا
بنیادی سبق بھی یہی ہے۔ آج بھی غیرنافع علم کےجال میں پھنس جاتی ہے لہٰذاعلم و
حکمت کے طالب کو اس جال سے خود کوبچانے کی شدید ضرورت رہتی ہےاس کےلئےضروری ہے کہ بندہ”امراضِ
علم“(مثلاحسد،تکبر وغیرہ)سےخود کو آزاد کرے ،اپنامحاسبہ کرتا رہے بالخصوص نیت کی چھان بین بھی کرےتاکہ اپنے وقت کو برباد ہونے سے بچاسکے۔اس سلسلے میں امام ذہبی کا رسالہ”بیانُ
زَغَلِ الْعِلْمِ وَّ الْطَلَب“ کا مطالعہ نہایت مفید ہے ۔کاش!آج کے طلبہ کے
لئے کوئی اس طرز پررسالہ لکھے،یقینایہ موجودہ دور کے طلبہ کے ساتھ بہت بڑی خیر خواہی
ہوگی ۔
شمسُ العلماء ، حضرت مولانامفتی قاضی ابو
المعالی شمس الدین احمد جعفری رضوی جونپوری رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہنے یکم محرم
الحرام ١٤٠١ھ مطابق ٩نومبر١٩٨٠ء وصال فرمایا، محلہ میر مست جونپور (یوپی، ہند) میں آپ کا مزارِ پرانوارہے۔
از: مولاناناصر
جمال عطاری مدنی
اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ،دعوتِ
اسلامی )
کرہ ارض پر بڑی تعداد میں بیکٹیریا رہتے ہیں جن کی بہت
سی اقسام اور شکلیں ہیں اور چھوٹے سائز جو ہماری آنکھ سے نظر نہیں آتےلیکن ان کا
اثر بڑا اور اہم ہے۔ بیکٹیریا کی عظیم دنیا کو ان کی افادیت کے مطابق دو اہم حصوں
میں تقسیم کیا گیا ہے: فائدہ مند بیکٹیریا اور نقصان دہ بیکٹیریا:فائدہ مند
بیکٹیریا اس سیارے پر زندگی کے تسلسل کے لئے ضروری اور ضروری ہیں۔
بڑی تعداد میں بیکٹیریا انسانی جلد اور اس کے کھوکھلے
اعضا میں رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر معدے میں رہنے والے فائدہ مند بیکٹیریا نقصان
دہ بیکٹیریا کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو کہ گیس کا باعث بنتے ہیں
اور کھانے کے ہضم ہونے میں ان کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ایک ہی وقت میں بہت سے قسم
کے بیکٹیریا ہیں جو انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کی صحت کو متاثر کرتے
ہیں۔
بیکٹیریل گیسٹرائٹس کی بیماری:
پیٹ کے درد اور بیکٹیریل انفیکشن کے درمیان گہرا تعلق
ہےاس لئے کوئی بھی ڈاکٹر بیکٹیریل انفیکشن ڈالنے میں کوتاہی نہیں کرتا کیونکہ اگر
کوئی مریض پیٹ میں درد کی شکایت لے کر اس کے پاس آتا ہے تو اس کے امکانات میں پہلی
تشخیص ہوتی ہے۔ بیکٹیریل انفیکشن کی وجہ سے پیٹ کا درد دنیا بھر میں سب سے زیادہ
عام دردوں میں سے ایک ہے، جب معدہ ان بیکٹیریا سے متاثر ہوتا ہے تو اس کے اندر
موجود ٹشوز سوج جاتےاور کمزور ہو جاتے ہیں اور ان کا کام معدے کو تیزابیت والے
ہاضمہ رس سے بچانا ہے۔ گیسٹرائٹس اچانک آ سکتا ہےیا یہ وقت کے ساتھ بڑھ کر دائمی
بن سکتا ہے۔
متعدی بیکٹیریل انفیکشن کی منتقلی کے
طریقے:
نقصان دہ اور متعدی بیکٹیریا معدے میں کئی طریقوں سے
منتقل ہوتے ہیں۔ یہ آلودہ یا بغیر پکے ہوئے کھانے کے ذریعے یا آلودہ پانی پینے یا
دھونے سے کسی شخص کے معدے میں منتقل ہوسکتے ہیں کیونکہ پانی کے ذریعے ان بیکٹیریا
کی منتقلی بیکٹیریل گیسٹرو اینٹرائٹس پھیلانے کے سب سے عام طریقوں میں سے ایک ہے۔
یہ جانوروں کے ذریعے یا بعض ممالک کے سفر سے بھی پھیل سکتے
ہیں جہاں یہ بیکٹیریا مقامی ہیں۔
بیکٹیریل گیسٹرائٹس کی علامات:
متاثرہ شخص جب پیٹ میں جلن کے نتیجے میں بیکٹیریل
انفیکشن سے متاثر ہوتا ہے تو اس میں کئی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن کی شدت ہر شخص کی
قوتِ مدافعت، صحت، عمر، طاقت اور متاثرہ بیکٹیریا کی قسم کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ بیکٹیریل گیسٹرائٹس کی سب سے عام علامات میں سے کچھ اس طرح کی کیفیت
ہوگی۔
پیٹ میں دردخاص طور پر اوپری حصے کے وسط میں،قبض یا
اسہال بعض اوقات خون کے ساتھ ہوتا ہے ، متلی کے ساتھ الٹی بھی ہو سکتی ہے، بھوک نہ
لگنا اور بیمار محسوس ہونا۔
دائمی گیسٹرائٹس:
ان میں پیٹ پھولنے کا احساس، کھانے کے بعد گیس میں
اضافہ، سینے میں درداور غذائی نالی میں بار بار جلن کا محسوس ہونا شامل ہے جس کے
نتیجے میں معدے میں تیزابیت کی واپسی کے نتیجے میں کھانا آہستہ آہستہ خالی ہونے سے
ہاضمہ ہوتا ہےاور مریض کو تکلیف ہو سکتی ہے۔ درجۂ حرارت میں اضافے، سردی لگنے اور
خون کے ساتھ الٹی ہونے سے شخص کو چکر اور
تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔مریض میں پانی کی کمی کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں جو الٹی
اور اسہال سے مائعات کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں اور مریض کو درج ذیل علامات کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔منہ اورجھلیوں کا خشک ہونا، پیشاب کی مقدار میں کمی،بار بار
پیاس کا احساس، پٹھوں میں درد ، وزن میں کمی اورمعدے میں خون بہنا جس کی وجہ سے
خون کے ساتھ الٹی بھی آتی ہے۔
بیکٹیریا گیسٹرائٹس کا سبب بنتے ہیں:
بشمول خون اور پاخانہ کے نمونے کا تجزیہ اسی طرح خون اور
پاخانہ کی ثقافتوں کا پتہ لگانے کے لئے بیکٹیریا کی قسم جو سوزش کا سبب بنتے ہیں
یا خون میں زہر کی موجودگی کا پتہ لگاتے ہیں۔ ان اینٹی بائیوٹکس کی ان اقسام کا
پتہ لگانے کے لئے (جن کے خلاف مریض مناسب علاج کرنے کے لئے مزاحم نہیں کرتا) ڈاکٹر
سانس کا ٹیسٹ کرتا ہےاور پیٹ کے ایکسرے کا
بھی کہہ سکتا ہے، بعض اوقات گیسٹروسکوپی
بھی کی جاتی ہے جہاں ڈاکٹر علامات کی بنیاد پر ضروری لیبارٹری ٹیسٹ کا انتخاب کرتا
ہے۔
قارئین کے لئے چند مفید مشورے :
()کھانا تیار کرنے اور اسے اچھی طرح پکانے میں صفائی کا
خاص خیال رکھیں۔
()پانی کی کمی یا مریض کی ناقص غذائیت سے پرہیز کریں کیونکہ
اس سے بیماری مزید بڑھ جاتی ہے۔
()کھانے سے پہلے ہمیشہ صابن اور پانی سے ہاتھ دھوئیں اور
دوسرے لوگوں کے تولیوں کے بجائے سینیٹری ٹوائلٹ پیپر کا استعمال کریں تاکہ ہاتھ دھونے
کے بعد خشک ہوجائیں۔ ضروری لیبارٹری ٹیسٹ اور علاج کے لئےجلد از جلد ڈاکٹر سے رجوع
کریں۔
امید ہے کہ میڈیکل کی یہ معلومات آپ کے لئےمفید ثابت ہوں
گی ۔ضرور اس معلومات کو اپنی زندگی میں نافذ کیجئے لیکن ایک بات یاد رکھیں کسی
تکلیف کی صورت میں ماہر معالج سے ضرور رابطہ کریں ۔معلومات سے فائدہ ہوتو اسے نیکی
سمجھ کر دوسروں تک ضرور پہنچائیں ۔ہمارے حق میں دعا کردیجئے گا۔
نام و نسب : سفیان بن عیینہ بن ابی عمران الھِلالی الکوفی ثُم المکّی
کنیت : ابو محمد
القاب : محدثِ حرم ، امام الکبیر ، حافظُ العصر ، شیخ الاسلام
ولادت : آپ کی ولادت 107 ھ کو کوفہ میں ہوئی آپ کے والد
اس وقت کے والیِ کوفہ یوسف بن عمر ثقفی کے عتاب کی وجہ سے گھربار چھوڑ کر مکہ
منتقل ہوگئے اور حرم مکہ کے جوار میں مستقل سکونت اختیار فرمالی اس وقت آپ کی عمر
13 سال تھی اور آپ کے نو (9) بھائی تھے جن میں پانچ (5) بھائی
اہل علم و علماء میں شمار ہوتے تھے ۔
تحصیل علم : چار سال کی عمر میں مکمل حفظ کرلیا اور سات سال کی عمر میں حدیث کی کتابت
و روایت کرنے لگے۔ یہ سلسلہ 15 سال تک جاری
رہا، مگر طبیعت اس طرف مائل نہ ہوئی
چنانچہ والد نے ارشاد فرمایا کہ پیارے آپ کے بچپن کا زمانہ ختم ہوا اب چونکہ آپ
باشعور ہو گئے ہو۔ لہذا مکمل طور پر تحصیل علم میں لگ جاؤ مگر اس راہ میں سب سے زیادہ
ضروری یہ ہےکہ اہل علم کی اطاعت و خدمت کی جائے اگر تم اہل علم کی اطاعت و خدمت
کرتے ہو تو ان کے علم و فضل کی دولت سے فیض یاب ہوگے۔ آپ پوری عمر اس نصیحت پر عمل
کرتے رہے مکہ اس وقت آئمہ تابعین کا مرکز تھا حضرات امام زہری ابن جریج علیہ الرحمہ اور بہت سے آئمہ کی مجالس قائم ہوتی تھیں جب
باضابطہ تحصیل علم کے لیے آمادہ ہوئے تو تمام علماء مکہ بالخصوص حضرت ابن شہاب زہری اور عمرو بن دینار علیہما الرحمہ کی مجلس درس میں شریک ہونے لگے جب تک یہاں آپ
کا قیام رہا۔ پھر کوفہ آگئے اور وہاں کے
اہل علم سے استفادہ کیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ستاسی (87) تابعین کی زیارت سے
مشرف ہوئے۔
قوت حافظہ :
اللہ
پاک نے ابن عیینہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ کو کمال کا حافظہ اور فہم عطاء فرمایا تھا آپ کے خود کا بیان ہے کہ ”ما کتبت شیئا قط الا شیئا
حفظتہ قبل ان اکتبہ “ میں کسی بھی چیز کولکھنے سے قبل اس کو یاد
کرلیتاتھا۔
اساتذہ و شیوخ :
آپ کے
شیوخ حدیث اور اساتذہ کی فہرست طویل ہے چند معروف و مشہور کے نام یہ ہیں :
٭امام ہشام بن
عروہ ٭امام
یحییٰ بن سعید انصاری ٭امام سلیمان اعمش ٭امام سفیان ثوری ٭امام
ابن جریج ٭امام
شعبہ ٭امام
حمید طویل ٭امام ابو الزناد ٭امام شہاب زہری ٭امام سلیمان احول رحمھم اللہ
تلامذہ:
٭امام سلیمان
اعمش ٭امام
ابن جریج ٭امام
شعبہ۔ یہ تینوں حضرات آپ کے اساتذہ ہیں جن کا شمار آپ کے تلامذہ میں بھی ہوتا ہے۔
ان کے
علاوہ ٭امام
شافعی ٭امام
یحییٰ القطان ٭امام یحییٰ بن معین ٭امام عبد اللہ بن مبارک ٭امام علی بن مدینی ٭امام
احمد بن حنبل ٭امام عبد الرازق ٭امام اسحاق بن راہویہ رحمھم اللہ جیسے نامور
ہستی آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔
عبادت و ریاضت :
آپ
علم کے ساتھ ساتھ عبادت وریاضت میں بھی بلند مقام رکھتے تھے آپ قائم اللیل اور زہد
و قناعت میں اپنے معاصرین میں خاصی شہرت رکھتے تھے ساٹھ (60) سال
تک جو کی روٹی بغیر سالن کے تناول فرمائی عمر بھر ستر (70) حج
فرمائے۔
آپ کے
متعلق حضرت علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”ما فی اصحاب الزہری اتقی
من ابن عیینہ “ امام زہری کے شاگردوں میں ابن عیینہ
سے بڑا متقی کوئ نہیں۔
امام ابن عیینہ بحیثیت محدث :
آپ کے
علم حدیث وفہم حدیث میں تمام آئمہ حدیث کا اتفاق ہے اور فن حدیث اور مہارت میں
تمام محدثین کے نزدیک مسلم الثبوت ہیں ابن عیینہ علمی جلالت اور کثرت روایت کے
لحاظ سے دوسرے بہت سے اتباع تابعین پر آپ فوقیت رکھتے ہیں چنانچہ
٭امام
احمد بن عبداللہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں کہ آپ کا شمار حکماء حدیث میں ہوتا ہے۔
٭امام
عبد الرحمن بن مہدی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابن عیینہ کو حدیث کی
تفسیر اور حدیث کے متفرق الفاظ جمع کرنے میں مہارت حاصل تھی ۔
٭امام
شعبہ اپنے شاگردوں سے کہتے جس کو عمرو بن دینار کی مرویات معلوم نہ ہوں اسے ابنِ
عیینہ کے پاس جانا چاہیے۔
ابن
عیینہ کا درس حدیث کا حلقہ بہت وسیع تھا مگر ایام حج میں جب عالم اسلام کے محدثین
و علماء حرمین طیبین حاضر ہوتے تو ان کے
حلقہ درس میں بڑا ازدحام ہوتا تھا۔
امام ابن عیینہ بحیثیت مفسر و
فقیہہ :
امام ابن عیینہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی
حدیث کے ساتھ ساتھ تفسیر اور فقہ میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔
چنانچہ
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”ما رأیت احدا من الفقہاء اعلم
بالقرآن و السنن منہ “ میں نے فقہاء میں سے کسی کو ابن عیینہ سے زیادہ
قرآن وسنت کا عالم نہیں دیکھا ۔
امام اعظم اور ابن عیینہ :
آپ جب
کوفہ پہنچے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے اصحاب درس سے فرمایا
تمہارے پاس عمرو بن دینار کی مرویات کا حافظ آگیا چنانچہ ان کی مرویات سے استفادہ
کے لیے آنے لگے۔ چنانچہ آپ (یعنی سفیان بن عیینہ رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا
بیان ہے کہ جس نے مجھے سب سے پہلے محدث بنایا وہ ابوحنیفہ ہیں ۔
امام ابن عیینہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ
کے علم وفضل کے متعلق اقوال علماء :
آپ کے
ذوق علم و وسعت مندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ علم تفسیر وحدیث کے بڑے امام بن گئے۔ اکابر آئمہ آپ کی عظمت کے معترف ہوگئے ۔
٭امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں کہ ”لولا
مالک و سفیان لذھب علم الحجاز“ اگر امام مالک و سفیان بن عیینہ نہ
ہوتے تو حجاز کا علم ختم ہوجاتا ۔
٭امام عبد
الرحمن بن مہدی رحمۃ
اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں ”کان
اعلم الناس بحدیث اھل الحجاز“ وہ اہل حجاز کے حدیثوں کے سب سے بڑے عالم تھے۔
٭امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں ”ھو
احفظ من حماد بن زید ابن عیینہ“ حماد بن زید سے بڑے حافظ الحدیث تھے۔
٭امام ابن حبان
رحمۃ اللّٰہ
علیہ
فرماتے ہیں ”کان
من الحفاظ المتقنین و اھل الورع و الدین ابن عیینہ“ متقن حفاظ
حدیث میں سے تھے و صاحب تقوی اور دیندار تھے ۔
٭امام احمد بن
حنبل رحمۃ
اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں ”ما
رأیت اعلم بالسنن منہ“ میں نے ان سے زیادہ حدیث کا جاننے والا کوئی نہیں
دیکھا ۔
ملفوظات سفیان بن عیینہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ
:
آپ
علم و عمل کے پیکر اور کم گو تھے مگر جب بھی گفتگو فرماتے زبان اقدس سے علم و حکمت
کے موتی جھڑتے تھے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
٭زہد دراصل صبر
اور موت کے انتظار کا نام ہے۔
٭علم نفع نہ دے
تو ضرر پہنچائے گا۔
٭جب کوئی عالم لا ادری کہنا
چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنی ہلاکت کا سامان کرتا ہے ۔
وفات :
حسن
بن عمران رحمۃ
اللّٰہ علیہ
کا بیان ہے کہ میں سفیان بن عیینہ کے آخری حج میں ان کے ساتھ تھا مزدلفہ میں آپ نے یہ دعا مانگی کہ ”اے اللہ مزدلفہ
کی اس زیارت کو میری آخری زیارت مت بنا“ پھر ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ میں
ستر سال سے برابر یہ دعا کرتا رہا ہوں مگر اب مجھے اللہ پاک سے شرم آرہی ہے کہ کس
قدر زیادہ میں نے خدا سے اس کا سوال کیا چنانچہ آپ اس حج سے واپسی ہوئے تو پھر حج
کا موقع نہ ملا اور اسی سال یکم رجب
المرجب 198 ھ کو دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کیا اور مکۃ المکرمہ کے قبرستان
جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے ۔ اللہ پاک کی ان پر رحمت نازل فرمائے ۔ آمین
حوالہ جات :
٭سیر
اعلام النبلاء ٭تہذیب الاسماء ٭تاریخ بغداد ٭تہذیب
التہذیب ٭تذکرۃ الحفاظ ٭وفیات الاعیان ٭
صفوةالصفوة ٭اولیاء رجال حدیث
از: احمد رضا مغل
عطاری مدنی
متخصص فی الحدیث ،
عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی
سرکارِ دو عالم نورِ مُجَسم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا جب بھی تذکرہ کیا جائے یا ان کی سیرت
کو پڑھا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک
کااپنا ہی مقام ہے چاہے وہ صحابی ہوں یا صحابیہ ہوں ہر ایک کی زندگی مسلمانوں کے لئے ایسا نمونہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہر
ایک کے لئے دین اسلام پر چلنا آسان اور ہر ایک اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا
سکتا ہے۔
جس طرح صحابۂ کرام علیہم الرضوان سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے اور ان کے فرمان پر عمل کرنے کو ہر چیز
پر فوقیت دیتے تھے اسی طرح صحابیات کا بھی یہ معمول تھا کہ وہ اپنی جان و مال اور اولاد
سے بڑھ کر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتی تھیں جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے تم میں سے کوئی اس
وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اُس کی اولاد،ماں باپ اور تمام لوگوں
سے محبوب نہ ہو جاؤں ۔ یہاں تک کہ بعض روایتوں
میں آتا ہے کہ جو چیزیں عورتوں کو عام طور
پر بہت پسند ہوا کرتی ہیں اگر اس کے متعلق
آپ علیہ السلام منع فرمادیتے تو
وہ اسے بھی قربان کردیا کرتی تھیں ۔ اسی طرح اگر سرکار علیہ السلام جنگ کا
اعلان کردیں تو وہ اپنے شوہروں اور اپنے بیٹوں کو بلا جھجک جنگ میں بھیج دیا کرتی
تھیں۔
آج ہم انہیں میں سے ایک صحابیہ کے بارے میں بات
کریں گے جنہیں صحابیہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ علیہ السلام کی زوجہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے ۔ ہماری مراد اُمُّ
المؤمنین حضرت سیدتنا جُوَیریہ بنت حارث رضی اللہ عنھا ہیں ۔
نام اور قبیلہ: اسلام
لانے سے پہلے آپ کا نام برّہ بنتِ حارث تھا۔آپ رضی اللہ عنھا کا تعلق قبیلہ بنی مصطلق سے تھا ،حضور علیہ السلام سے نکاح سے پہلے آپ مسافع بن صفوان کے نکاح میں تھیں ۔
حسن وجمال:اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: کَانَتْ جویریۃ
امْرَأَۃً حُلْوَۃً مُّلَاحَۃً لَّا یَکَادُ یَرَاھَا اَحَدٌ اِلَّا اَخَذَتْ
بِنَفْسِہ یعنی حضرت
جُوَیریہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا نِہَایَت شِیریں
و ملیح حسن والی عورت تھی جو بھی انہیں دیکھتا گَرْوِیدہ ہوئے بغیر نہ رہتا۔( السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، غزوة بنى المصطلق،ج2ص380)
آپ رضی اللہ عنھاقبیلہ
بنی مصطلق کے سردارحارِث بن ضِرَار کی
بیٹی تھی ،حارث بن ضرار( جو کہ بعدمیں ایمان لے آئے تھے) نے اہلِ مکہ کے ساتھ مل کرمسلمانوں سے جنگ کرنے کامنصوبہ بنا یا تو یہ خبر حضور ﷺتک
پہنچ گئی۔ آپ ﷺنے تصدیق کے لئے حضرت بریدہ
رضی اللہ
عنہ کو قبیلہ مصطلق میں بھیجا جنہوں
نے اس قبیلے میں جا کر احوال معلوم کئے اور واپس آکر اُن کے تمام ناپاک ارادوں کے
متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا ،آپ
صلی اللہ
علیہ وسلم نے لوگوں کو جنگ کے لئے بلا یا تو صحابۂ کرام
لبیک کہتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو گئےپھر آپ علیہ السلام نے جنگ میں پیش قدمی کی اور کفار کے ساتھ جنگ کی۔ اللہ تبارک وتعالٰی نے مسلمانوں کواس جنگ میں فتح عطا کی،جنگ کے بعد700سے زائد کفار کو قیدی
بنا لیا گیا ان ہی میں قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارِث بن ضِرَار کی بیٹی حضرت برّہ رضی اللہ عنھابھی شامل
تھیں۔جب مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو آپ رضی اللہ عنھا
، حضرت سیِّدُنا ثابِت بن قیس رَضِیَ اللہُ
عَنۡہُ اور ان کے ایک چچا زاد بھائی کےحصّے میں آئیں، حضرتِ سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ
عَنۡہُ نے ان کے حصّے کے بدلے مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا
اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا کے اپنے
کھجوروں کے دَرَخْت انہیں دے دیئےکیوں کہ آپ رضی
اللہ عنھاایک سردار کی بیٹی تھی تو انہیں غلام بن کر رہنا گوارہ نہ ہوا، اس لئے انہوں نے حضرتِ سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ
عَنۡہُ سے آزادی
کا مطالبہ کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے
9
اُوْقِیَہ سونے پر انہیں مُکَاتَبہ کر دیا۔ (آقا اپنے غُلام سے مال کی
ایک مقدار مُقَرَّر کر کے یہ کہہ دے کہ اتنا ادا کر دے تو آزاد ہے اور غُلام اسے
قبول بھی کر لے اب یہ مُکَاتَب ہو گیا)۔
حضورﷺسے نکاح: آپ
رضی اللہ عنھا
کا اتنی بڑی رقم ادا کرنا مشکل تھا اس لئے آپ حضورﷺکی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئیں
اور اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی توآپﷺنے فرمایا:کیا یہ مناسب نہ
ہو گا کہ میں تمہارا زرِمکاتبت ادا کر کے تم سے نکاح کر لوں ،آپ رضی اللہ عنھا
نے بخوشی اس پیش کش کو قبول کر لیا تو آپ ﷺنے حضرتِ
سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ سے حضرت
برّہ رَضِیَ اللہُ
عَنۡھا کو خریدا اور آزاد کر کے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡھا سے نکاح کر لیا۔( السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، غزوة بنى المصطلق،ج2
ص377تا379)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم برّہ
نام رکھنے کو ناپسند فرماتے تھےاور اگر یہ
نام کسی کا ہوتا تو تبدیل فرمادیتے، اس لئے آپ
نےان کا نام برّہ سے تبدیل کر کے جویریہ
رکھ دیا۔(المستدرک علی الصحیحن ،ج5،ص36،الحدیث6861)
کثرتِ عبادت: آپ رَضِیَ اللہُ
عَنۡھا بااخلاق ہونے کے ساتھ
ساتھ کثرت سے عبادت کرنے والی بھی تھیں۔ روایات
میں آتا ہے : ایک مرتبہ حضور ﷺان کے پاس سے فجر کی نماز کےبعد تشریف لے گئےحضرت
جویریہ اس وقت اپنی سجدہ گاہ میں تھیں پھر سرکارﷺ چاشت کے وقت واپس تشریف آئے تو
حضرت جویریہ اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھیں ،آپ ﷺنے پوچھاکہ تم تب سے یہیں بیٹھی ہو جیسا میں
تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟ آپ رَضِیَ اللہُ
عَنۡھا نےعرض کی:جی ہاں! تو حضور
ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے تمہارے بعد (یعنی تمہارے پاس سے جانے
کے بعد)4ایسے کلمات تین بار پڑھے ہیں کہ تم نے دن بھر میں جو کچھ بھی پڑھا اگر اس سے ان 4 کلمات کا وزن کیا جائے تو وہ 4 کلمات بھاری ہو جائیں گے۔ (وہ کلمات یہ ہیں)سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ عَدَدَ خَلْقِہِ وَ
رِضَا نَفْسِہِ وَزِنَۃَ عَرْشِہِ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ۔(صحيح مسلم،ص: 1119،حدیث:2726)
جنہوں نے آپ سے روایات لیں: حضرتِ سیِّدُنا عبد الله بن عبّاس، حضرتِ سیِّدُنا جابِر بن عبد الله ، حضرتِ
سیِّدُنا عبد
الله بن عُمَر ، حضرتِ سیِّدُنا عبید بن سبّاق اور
حضرت جویریہ کے بھائی کے بیٹے حضرت طفیل رَضِیَ
اللہُ عَنۡہُم نے آپ رَضِیَ
اللہُ عَنۡہَا سے
روایات لی ہیں۔(شرح علامۃالزرقانی،ج4،ص428)
وصالِ پُرملال: آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا ماہِ ربیع الاول بمطابق50ھ کو65 سال کی عمر میں
اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئیں،ایک قول کے مطابق آپ کی وفات 56سال کی عمر میں ہوئی۔مروان
بن حکم جوکہ اس وقت مدینہ منورہ کا حاکم تھا اُس نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کا
جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی
تدفین کی گئی۔(ایضاً)
تحریر:
غیاث الدین عطاری مدنی
اسکالراسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ(دعوتِ اسلامی)
از قلم: ابوالحقائق راشدعلی رضوی
عطاری مدنی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وِلادتِ اقدس
کی تاریخ کے حوالے سے مسلمانوں میں بسا اوقات یہ شورش پھیلائی جاتی ہے کہ امامِ
اہلسنت، اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نےتو سرورِ
دوعالَم صلی
اللہ علیہ وسلم
کی تاریخ ِ وِلادت 8 ربیع الاوّل بیان فرمائی ہے ،حالانکہ مسلمانانِ عالَم وِلادتِ
رسول صلی
اللہ علیہ وسلم
کا جشن 12 ربیع الاوّل کے دن مناتے ہیں۔یہ
شورش پھیلانےوالوں کے کیا کیا مذموم مقاصد ہوسکتے ہیں ،حقیقتِ حال تو ربِّ علیم
وخبیر ہی جانے۔ لیکن اس کا ایک مقصد یہ
معلوم ہوتاہے کہ اس طرح مسلمان جشنِ ولادت
کے اہتمام کے معاملے میں شک و شبہ کا شکار ہوجائیں اور اس مقدَّس و محمود عمل کی بجاآوری سے دُور ہوجائیں ،کہ جب اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک 12 ربیع
الاوّل سیِّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وِلادت ہی نہیں ہےتو ہم اِس تاریخ کو
یومِ وِلادت قرار دے کر اس کا خاص احترام و اہتمام کیوں کرتے ہیں؟
اگرتحقیق و دیانت کے تناظر
میں اِس معاملے کو دیکھا جائے تو حقیقتِ حال اِس شوشے کے بالکل برخلاف ظاہر ہوتی ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا موقف تاریخِ
ولادتِ مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم
کے بارے میں کیا ہے،اسے جاننے سے پہلے چند بنیادی باتیں پیشِ نظر رکھنا بڑا مفید
ہوگا۔چنانچہ ذیل میں ان کا بیان ملاحظہ
ہو:
تاریخی
معاملات کو سمجھنے کا درست طریقہ:
تاریخی معاملات کو
سُلجھانے ،سمجھنے اور سمجھانے کے لئے چند باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھنا انتہائی
ضروری ہوتاہے۔ ان باتوں کو بالائےطاق رکھ
کر کسی تاریخی مسئلے کو حل کرنے کاعام طور پرنتیجہ یا تو کسی غلط فہمی کا وُجود
میں آنا ہوتاہے یا بندہ مغالطے کا شکار ہوکر رہ جاتاہے۔پھر ایسا شخص خود بھی
حقیقتِ امر سے ناآشنا رہتاہے اور دوسروں
کو بھی بہکانےکا باعث بنتاہے۔لہذا درج ذیل نکات کو سمجھ لینا کئی تاریخی مسائل کو
سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔
٭تاریخی اُمور میں
تاریخ کی تعیین سے متعلق عموماً مؤرخین کے کئی اَقوال ہوتے
ہیں۔ انہیں دیکھ کر اِس امر(بات یا
معاملے) کا نہ تو انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس بات میں تذبذب کو راہ دی
جاسکتی ہے ،بلکہ اُن متعارض اورمختلف اَقوال میں سے درست اور راجح قول کی تلاش کی
جائے گی۔قرآنی آیات اور احادیثِ کریمہ میں ناسخ و منسوخ کے معاملے ہی کو دیکھ
لیاجائے ،کئی اَقوال کُتب میں ملتے ہیں۔
لیکن ان مختلف اَقوال کے باوجود مفسرین
اور محدّثین درست قول تک پہنچنے کے لئے تحقیق سے کام لیتے ہیں اور راجح قول کی
نشاندہی فرماکر مسئلے کوحل فرمادیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح تاریخ سے تعلّق رکھنے والے
معاملات میں بھی ہمیں محققین کی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے درست اور راجح قول تک
پہنچنا چاہیئے۔
٭ محقّق جب بھی
تاریخ سے تعلّق رکھنے والے کسی معاملے پر تحقیق کرتا ہے تو دیانت کے تقاضے کو پورا
کرتے ہوئے اُس بارے میں منقول تمام ہی اَقوال کو ذکر کر دیتاہے۔ لیکن نقل کرنے والے محقّق کا اپنا موقف اس حوالے سے
کیا ہےاور اس کے نزدیک کونسا قول درست اور راجح ہے،یہ بات اُس محقّق کےاپنےکلام سے
ہی ظاہر ہوسکتی ہے۔لہذا اس کی تلاش کے لئے متعلقہ موضوع پر اُس محقق کے لکھے ہوئے
تمام تر کلام کوپڑھنا ضروری ہوتاہے ،خواہ وہ کلام ایک ہی جگہ مسطور ہو یا اُس محقّق نے اپنی مختلف کُتب میں اُ س موضوع پر
منتشرطورپر کلام کیا ہو ،اُن سب کامطالعہ کرنا ضروری ہوتاہے۔
٭تاریخی اختلافی
مسائل میں تمام تر اَقوال میں سے کسی بھی
ایک قول کو اپنی مرضی اور خواہش سے اختیار نہیں کیا جاسکتا،نہ ہی اِس کی کوئی علمی
وقعت و حیثیت ہے۔بلکہ یہ دیکھنا ضروری
ہوتاہے کہ اِن اَقوال میں سے کس قول کو اُمّت کے جمہور عُلماء و محققین نے اختیار
کیا ہے اورکس قول پر اکثر نے اعتماد کیا ہے۔لہذا جس قول کو جمہور نے اختیار کیا ہوا ورجس قول پر اُمّت کی اکثریت کا اعتماد
ہو ،وہی قول اپنایا جا ئے گا۔جمہوراور اُمّت کی اکثریت کے موقف کے برخلاف کسی
دوسرے مرجوح اور ضعیف و مردود قول کو لینا راہِ صواب سے ہٹنے اور اُمت میں افتراق و انتشار کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔
٭اگر کوئی محقّق
اپنے کلام میں کسی موضوع کے حوالے سے مختلف اَقوال کو نقل تو کرتاہے، لیکن اپنی
رائے اور موقف کو بیان نہیں کرتا ، تو
ہرگز کسی کویہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی طرف سے اُن اقوال میں سے کسی بھی قول کو اُس
محقّق کا موقف بنا کر پیش کرے۔ یہ بات تحقیق کے منافی اور خیانت و بہتان قرار پاتی
ہے۔
اعلیٰ
حضرت کا اندازِ تحقیق:
اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کوئی عام عالِم یا معمولی محرِّر نہیں تھے
،بلکہ اجتہادی صلاحیتیں رکھنے والے اِسلام کے عظیم محقِّق اور فقیہ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ جس بھی موضوع پر قلم اُٹھاتےہیں تو تحقیق اور
دیانت کے تمام تقاضوں کو نبھاتے ہوئے اُس موضوع کو الم نشرح فرمادیتے ہیں۔جن
معاملات کا تعلّق تاریخ سے ہو،اُن کو بیان کرنے کا طریقہ کار بھی محققانہ اختیار
فرماتے ہیں۔تاریخِ وِلادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ بھی اِسی نوعیت کا ہے ،جسے اعلیٰ
حضرت رحمۃ
اللہ علیہ
نے بڑی تحقیق کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
تاریخِ
وِلادتِ اقدس سے متعلق اعلیٰ حضرت کا موقف:
اعلیٰ حضرت ،امامِ
اہلسنت رحمۃ
اللہ علیہ
نے اپنے شاندار رسالے"نُطْقُ الھِلال بارخ ولاد الحبیب والوصال " میں نبیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت
سے متعلّق تقریباً سات(7) اَقوال تحریر
فرمائے ہیں۔لیکن صرف نقلِ اَقوال پر ہی اِکتفاء نہیں فرمایا،بلکہ تحقیق کے تقاضے
کو پورا کرتے ہوئے اُن سات (7) میں سے ایک قول کی ترجیح کوبھی بیان فرمایاہے۔چنانچہ
اعلیٰ حضرت ،مجدِّدِ اعظم ، امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:" اس (تاریخِ ولادتِ
اقدس کے بارے)میں
اَقوال بہت مختلف ہیں، دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس، سات قول ہیں مگراَشہرواَکثروماخوز
ومعتبربارہویں ہے۔ مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولدِاقدس کی زیارت کرتے
ہیں کما
فی المواھب والمدارج (جیسا کہ مواہب لدنیہ
اورمدارج النبوۃ میں ہے۔ت) اورخاص اس مکانِ جنّت نشان میں اسی تاریخ مجلس
میلاد مقدس ہوتی ہے۔"
(فتاویٰ
رضویہ،26/411،رضافاؤنڈیشن لاہور)
اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کی طرف تاریخِ
ولادتِ اقدس 8 ربیع الاوّل کا قول منسوب کرنے والے غوراور پوری توجہ سے کلامِ امام کے اِس اقتباس کو
ملاحظہ کریں کہ امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے سات(7) اَقوال کو ذکر کرکے کس
قول کو راجح قرار دیا ہے ۔یقیناً وہ 8 ربیع الاوّل نہیں ،بلکہ 12 ربیع الاوّل
ہے۔
نیز فنِ اِفتاء کو سمجھنے والے حضرات ملاحظہ
کریں کہ اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نےتاریخِ ولادتِ اقدس 12 ربیع الاوّل والے قول کو چار(4) اَلفاظِ فتویٰ
"اَشْہَر"،"اَکْثَر"،"ماخوذ"
اور "معتبر" کی تاکید کے ساتھ بیان فرمایاہے۔اِس اُسلوبِ کلام سے
ہی ہر ذی شعور اورمُنصِف مزاج شخص سمجھ
سکتاہے کہ اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سیِّدِ کائنات،فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وِلادت 12
ربیع الاوّل ہی ہے۔
اعلیٰ حضرت ،امامِ
اہلسنت رحمۃ
اللہ علیہ
نے مذکورہ مسئلےکی مزید تحقیق کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ 12 ربیع الاوّل ہی کو سلطانِ
کائنات صلی
اللہ علیہ وسلم کی
تاریخِ وِلادت قرار دینا جمہور کے نزدیک مشہورہے۔چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے
ہیں:" شرع مطہر میں مشہور بین الجمہور(جمہورکےنزدیک کسی امر کےمشہور )ہونے کے لئے وقعتِ عظیم( انتہائی
اہمیت) ہے اور مشہور عند الجمہور ہی 12 ربیع الاوّل ہے۔" (فتاویٰ رضویہ،26/427،رضافاؤنڈیشن لاہور)
تاریخِ
وِلادتِ اقدس کے بارے میں اعلیٰ حضرت کی اُمت کو ترغیب:
اعلیٰ حضرت ،امامِ
اہلسنت رحمۃ
اللہ علیہ نے 12 ربیع الاوّل کے تاریخِ ولادتِ اقدس ہونے
پر اِس بات کو بھی بطورِدلیل ذکرفرمایاہے
کہ اِس پر حرمَین شریفَین اور دیگر بلادِ اسلام کے مسلمانوں کا تعامُل ہے۔تعامُل
کا شرعی احکامات اور معاملات میں دائرۂ اثر کیا ہے،یہ ہراہلِ علم جانتاہے۔پھر آخر
میں امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اُمتِ مسلمہ
کو یہ ترغیب بھی دِلائی ہے کہ اِسی (12 ربیع الاوّل کو یومِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طورپرمنانے)پر
عمل کیا جائے۔چنانچہ امام کی عبارت ملاحظہ ہو:
"تعامُلِ مسلمین حرمَین شریفَین
و مصر و شام بلادِ اسلام و ہندوستان میں 12 ہی پر ہے اس پر عمل کیاجائے۔"
(فتاویٰ رضویہ،26/427،رضافاؤنڈیشن لاہور)
بحمد اللّٰہ!درج بالا چند
سُطور سے یہ واضح ہوگیا کہ تاریخِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سےاعلیٰ
حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کاموقف کیا ہے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کا نچوڑ
کیاہے۔اللہ
کریم
قبولِ حق کی توفیق عطافرمائے۔
کتبہ
ابوالحقائق
راشد علی رضوی عطاری مدنی
7ربیع الاوّل
1443ھ،13 اکتوبر2021ء،شبِ جمعرات
امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ کی سیرت تکریم
انسانیت کا مکمل درس تھی۔ایک دن آپ نے چند لوگوں کو دیکھا جو جذام کے مرض میں
مبتلا تھے اور لوگ انہیں دھتکار رہے تھے، آپ انہیں اپنے گھر لے گئے اور ان کا خیال
رکھا۔ امام زین العابدین کا آستانہ غریبوں، یتیموں اور بے کسوں کے لئے پناہ گاہ
تھا جسے دنیا دھتکارتی اسے امام زین العابدین سینے سے لگا لیتے ۔
آپ رضی
اللہ عنہ کا نام و نسب:
امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ 12 اماموں
میں چوتھے امام ہیں۔ آپ کا اسم گرامی
:علی بن حسین رضی
اللہ عنہما ہے۔آپ کی
کنیت: ابو محمد،ابو الحسن اور ابوبکر ہے۔
حضرت
علی بن حسین رضی
اللہ عنہما کا لقب سجّاد
اور زین العابدین ہے اور آپ نے اسی لقب کے ساتھ شہرت پائی ہے۔آپ کی والدہ ماجدہ
طیبہ طاہرہ عابدہ کا اسمِ گرامی شہر بانو
ہے۔
ولادتِ
باسعادت:
امام
عساکر نے یعقوب بن سفیان فسوی سے نقل کیا
ہے کہ علی بن حسین 33 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن [سیر اَعلام
النبلا، 386/4]
میں علامہ موصوف نے یہ لکھا ہے کہ (شاید) ان کی پیدائش38
ہجری میں ہوئی ہے، علامہ ابوالحجاج جمال الدین یوسف مزّی نے بھی [تہذیب
الکمال، 402/20] یعقوب
بن سفیان سے سن ولادت33 ہجری نقل کیا ہے اور یہی راجح ہے۔
زین العابد ین
کہنے کی وجہ تسمیہ:
آپ کی شخصیت اسمِ
گرامی کے بجائے لقب کے ساتھ زیادہ معروف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امام زین العابدین رضی
اللہ عنہ بہت بڑے عابد
و زاہد تھے۔ امام ابنِ کثیر فرماتے ہے کہ کَانَ یُصَلِّی فی کُلِّ یومٍ و لیلۃٍ اَلْفَ رَکْعَۃٍ آپ
ایک دن اور رات میں ہزار رکعت نماز(نفل) پڑھا کرتے
تھے۔آپ کا یہ معمول آخری وقت تک رہا۔ (تاریخ ابن کثیر ج12،ص482،
مطبوعہ دارالھجر)
شواہد النبوۃ میں ہے کہ آپ ”زین العابدین“
سے اس لئے مشہور ہوئے کہ آپ ایک رات
نمازِ تہجد میں مشغول تھے کہ شیطان ایک سانپ کی شکل میں نمودار ہواتاکہ اس ڈراؤنی شکل سے آپ کو عبادت سے باز رکھ کر عیش و نشاط میں مشغول کردے آپ نے اس کی طرف
توجہ نہ فرمائی یہاں تک کہ سانپ نے آپ کے
پاؤں کا انگوٹھا اپنے منہ میں ڈال لیا لیکن آپ پھر بھی اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔
سانپ نے آپ کے انگوٹھے کو اس سختی سے کاٹا کہ آپ کو درد ہوا آپ نے پھر بھی سانپ کی طرف توجہ نہ کی۔آپ پر اللہ پاک نے ظاہر فرمادیا تھا کہ وہ شیطان
ہے۔آپ نےاُسے بُری طرح زَدُ و کوب کیا
اور پھر فرمایا:”اے ذلیل و خوار کمینہ یہاں سے دور ہوجا“۔جب سانپ چلا
گیا تو آپ کھڑے ہوئے تاکہ درد میں اِفاقہ
ہوجائے۔پھر آپ کو ایک آواز سنائی دی
لیکن بولنے والا نظر نہیں آیا،کہنے والے نے کہا:”آپ زین العابدین ہیں، آپ
زین العابدین ہیں، آپ زین العابدین ہیں“۔ (شواہد النبوت
ص 421)
امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ اور واقعہ کربلا:
حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ کو کہا کہ آپ ہر وقت غم ناک ہی رہتے ہیں اور آپ کے آنسو کبھی خشک نہیں ہوتے، امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ نے اس آدمی کو جواب دیا حضرتِ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت ِ یوسف علیہ السلام گم ہوئے تھے( فوت نہیں ہوئے
تھے) حضر تِ یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں ان کے غم و فِراق میں رو رو کر سفید ہوگئیں میں نے تو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے
گھر کے 18 افراد دشمن کے ہاتھوں ذبح ہوتے ہوئے دیکھے ہیں میں کیسے غم ناک نہ ہوں
اور کیسے نہ روؤں تم دیکھتے نہیں ان
کے غم کی وجہ سے میرے دل کے ٹکڑے ہورہے ہیں۔(البدایہ
والنہایہ ص 107/ ج 09)
سید علی ہجویری داتا گنج بخش لکھتے ہیں کہ جب میدانِ کربلا میں حسین ابن علی
کوفرزندوں سمیت شہید کردیا گیا تو سوائے امام زین العابدین رضی
اللہ عنہ کے مستورات کا کوئی پُرسانِ حال نہیں تھا، وہ بھی بیمار تھے حضرت حسین رضی
اللہ عنہ ان کو علی اصغر کہا کرتے تھے، جب مستورات کو اونٹوں پر
برہنہ (ننگے) سر دمشق میں لے
کر آئے تاکہ یزید بن معاویہ کے سامنے پیش کریں تو اسی اثنا میں کسی نے کہا اے علی (زین العابدین) اور اہل بیت تمہاری صبح کیسی
ہے، امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ نے فرمایا ہماری صبح ہماری قوم کے ہاتھوں میں ایسی ہے جیسے
قومِ موسیٰ کی صبح فرعون اور اس کی قوم کے
ہاتھوں تھی، ان کے مردوں کو قتل کیا جاتا
تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھا جاتا تھا، ہمارے لیے صبح و شام کی تفریق ختم
ہوچکی ہے، یہ ہماری مصیبت کی حقیقت ہے۔(کشف
المحجوب ص78)
امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ کا اخلاق:
امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ کے اخلاقِ حسنہ میں حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کے خلقِ عظیم کی چمک دمک تھی یہی وجہ تھی کہ دشمن نے بھی
امام زین العابدین کے بلند اخلاق کا
اعتراف کیا ہے اور امام زین العابدین محاسنِ اخلاق کے تمام زاویوں اور گوشوں کو لپیٹے ہوئے تھے یعنی
علم و عفو، رحم و کرم، جودو سخا، مہمان
نوازی، عدم تشدد، صبر و قناعت ، نرم
گفتاری، غم خواری، تواضع و انکساری
کے تمام مراتب پر امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ فائز تھے چنانچہ سفیان بن عیینہ کا بیان ہے کہ ایک شخص امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ فلاں شخص آپ کی غیبت کررہا ہے، امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ نے سن کر فرمایا کہ تم میرے ساتھ اس کے پاس چلو وہ بایں وجہ آپ کے ساتھ چلا کہ آپ اس کو ناراض
ہوں گے لیکن امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ جب اس کے پاس پہنچے تو امام نے فرمایا: اے شخص !جو کچھ تم نے میرے متعلق کہا
ہے اگر یہ سچ ہے تو خدا تعالیٰ مجھے بخش دے اگر تم نے غلط کہا ہے تو خدا تعالیٰ تجھے بخش دے پھر آ پ واپس تشریف لے آئے، (نورالابصار 245)
امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ کی سخاوت:
امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ بہت بڑے فیاض اور سخی تھے چونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم
کے بیٹے ہیں لہذا آپ سخاوت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے
نمونہ تھے، حضور
صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات سے بڑھ کر زیادہ سخی تھے، دوست پر بھی سخاوت تھی اور دشمن پر بھی چنانچہ صفوان بن امیہ جب
مقام جعرانہ میں حاضر دربار ہوا تو آپ صلی ا
للہ علیہ وسلم نے
اس کو اتنی تعداد میں اونٹوں اور بکریوں کا ریوڑ عطا فرمادیا کہ دو پہاڑیوں کے
درمیان کا میدان بھر گیا، صفوان مکہ جا کر
بلند آواز سے اپنی قوم(قریش)
سے
کہنے لگا اے لوگو دامنِ اسلام میں آجاؤ محمد صلی اللہ
علیہ وسلم اس
قدر زیادہ مال عطا فرماتے ہیں کہ فقیری کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہتا، حضرت جابر رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم
نے کسی سائل کے جواب میں خواہ وہ کتنی ہی بڑی چیز کا سوال کیوں نہ کر ے لَا(
نہیں)
کا لفظ نہیں فرمایا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت دوست
اور دشمن دونوں پر تھی اسی طر ح آپ کے بیٹے امام زین العابدین کی سخاوت بھی دوست
اور دشمن دونوں کے لیے تھی جیسے رسول پاک صلی ا للہ علیہ وسلم نے
کبھی بھی کسی سائل کے جواب میں لَا( نہیں) نہیں فرمایا، اسی طرح امام زین العابدین رضی
اللہ عنہ نے بھی اپنی
تمام عمر میں کسی سائل کے جواب میں کلمہ
لَا
( نہیں) کا
استعمال نہیں فرمایا۔
امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ کے ارشادات:
ویسے تو امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ کے کئی ارشادات ہیں جن
میں سے چند درجِ ذیل ہیں:
*آپ رضی
اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اے خدا! میں اس سے تمہاری پناہ مانگتا ہوں
کہ لوگوں کی نظر میں میرا ظاہر اچھا ہوجائے او رباطن بگڑ جائے۔
*بعض لوگ خوف کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں
یہ گویا کہ غلاموں کی عبادت ہے، بعض جنت کی طمع میں عبادت کرتے ہیں یہ گویا کہ
سودا گروں کی عبادت ہے کچھ ایسے بھی ہیں جو محض خدا کے لیے عبادت کرتے ہیں یہ
آزادوں کی عبادت ہے۔
*مومن وہ ہے جو اپنا علم اپنی عقل میں
سمو چکا ہے، سوال کرتا ہے کہ سیکھے، خاموش رہتا ہے تاکہ سوچے سمجھے اور عمل کرے۔
*وہ شخص کیسے تمہارا دوست ہوسکتا ہے جب تم اس کی کوئی چیز استعمال کرلو تو اسے خوشی نہ ہو۔
وفات و مزار:
حضرت
سیِّدُنا امام زینُ العابدین علیہ رحمۃ اللہ المُبِین نے14 ربیع الاوّل 94 سن ہجری کو 56سال کی عمرمیں
اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا، مزار مبارک جنَّۃُ البقیع میں ہے۔(سیر اعلام
النبلاء،ج5،ص341 ملتقطاً)
شہادت کے وقت امام زین العابدین58سال کے تھے
۔آپ کے فرزند امام محمدباقرنے آپ کی نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ منورہ میں
اپنے عم بزرگوار حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور دادی خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ
الزہرا
رضی اللہ عنہا کے پہلو میں
جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔(البدایہ
والنہایہ113/ ج09، نورالابصار249)
از:
مولانا زید عطاری مدنی
اسکالر
المدینۃ العلمیہ ( اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی )
سیرتِ رسولِ اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اہمیت ہر مسلمان پر واضح ہے۔ قرآنِ کریم کے بعد مسلمانوں
کیلئے سب سے اہم ترین ماخذ و مصدر پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے
فرمودات، اعمال اور سیرتِ طیبہ ہے۔ رسولِ خدا صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ تمام انسانوں کیلئے عملی نمونہ ہے جسے قرآن ”اسوۂ
حسنہ“ سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے
تو بیجا نہیں کہ قرآن پیدائش سے وفات تک زندگی گزارنے کے احکامات کا مجموعہ ہے اور سیرتِ نبوی اس مجموعہ کی عملی تعبیر
اور تصویر کا نام ہے۔اسلامی عقائد، اعمال، اخلاق، معاشرتی مسائل، انفرادی معاملات،
اجتماعی مسائل، بین الاقوامی تعلقات، روابطِ عامہ، امن کے تقاضے، جنگی قوانین
وغیرہ وغیرہ یہ سب سیرتِ طیّبہ کے موضوعات ہیں اور سیرتِ طیبہ میں ان تمام موضوعات
کا حل موجود ہے۔ اسی وسعت اور ہمہ گیریت کی وجہ سے سیرت کو اسوۂ حسنہ قرار دیا
گیا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان اپنے سامنے
انسانیتِ کاملہ کی ایسی اعلیٰ مثال دیکھتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں کامل و مکمل
نظرآتی ہے یوں مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ سامنے آتا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی مقدس حیات کا اعجاز ہے کہ انسانی زندگی کے جس بھی پہلو کو سامنے رکھ کر
سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال رَسُولُ اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
مبارک زندگی میں نظر آتا ہے۔ سیرتِ طیبہ کی اہمیت پر مبنی مزید تین نکات پیش خدمت
ہیں:
مطالعَۂ سیرت
نبی علیہ
السلام کی
زندگی سے آگہی کا ذریعہ ہے
1. سیرتِ طیبہ کی
اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے مطالعہ سے مسلمان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا
دین کن مراحل سے گزرا، یعنی سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے ایک مسلمان جانتا ہے کہ اللہ کریم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کو کیسی
خاندانی شرافت و عظمت عطا فرمائی، اعلانِ نبوت سے پہلے آپ کی کردار کیسا
تھا؟ بعد میں آپ کا رہن سہن کیسا تھا؟
آپ کا طرزِ زندگی کیا تھا؟ آپ کے اخلاق کیسے تھے؟ وحی کے مراحل ،مدارج کیا کیا تھے؟ اللہ کے
آخری نبی صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دین کی تبلیغ کس طرح سے کی؟ آپ نے تبلیغِ
دین کیلئے کیسی کیسی مشقتیں جھیلیں اور کتنے مصائب برداشت کئے؟ کفار نے آپ کو
روکنے کے لیے کیا کیا حکمتِ عملی اپنائی؟ اللہ کریم نے کفار کے مقابلے میں آپ کی کس طرح سے مدد فرمائی؟ آپ کے معجزات کیا تھے؟ آپ کے ساتھ مٹھی بھر
جانبازوں نے بڑے بڑے لشکروں کو کیسے
پچھاڑا؟ الغرض یہ ساری تفصیلات اور یہ
ساری باتیں سیرتِ طیبہ کے سنہری اور مقدس اوراق کی زینت ہیں، ایک مسلمان ان
معلومات سے اس وقت ہی آگاہ ہو سکتا ہے جب وہ سیرتِ طیبہ کے سنہری اوراق کا مطالعہ
کرے۔
حقوق اللہ اور
حقوق العباد کی بہترین تصویر سیرتِ طیبہ
2. انسانی زندگی
کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو ذاتِ خدا سے متعلق ہے جسے حقوقُ اللہ سے تعبیر کیا جاتا
ہے جبکہ دوسرا پہلو بندوں سے متعلق ہے جسے حقوق العباد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
حقوقُ اللہ میں سے اکثر کا تعلق معاد و آخرت سے ہے جبکہ حقوق العباد میں سے اکثر
کا تعلق معاش اور تمدن سے ہے۔معاد و آخرت کے ضمن میں خدا اور انسان سے متعلق تمام
امور داخل ہیں جیسےعقائد، عبادات، اخروی باز پرس اور جوابدہی وغیرہ۔ جبکہ معاش اور تمدن کے تحت انسان کے انسان سے ہر
طرح کے تعلقات شامل ہیں ، جیسے حاکم کے محکوم سے روابط، خاوند اور بیوی کی رفاقت،
باپ اور بیٹے کا پیار، تاجر اور آجر کے معاملات، پڑوسی و رشتہ دار سے تعلق، دشمن
اور دوست سے رویہ، الغرض معاشرتِ انسانی کا ہر پہلو اس ضمن میں داخل ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں معاد وآخرت اور معاش و تمدن ان دونوں پہلوؤں سے ہمہ جہت، جامع اور احسن ترین زندگی کی
تصویر اگر کسی کی نظر آتی ہے تو وہ بی بی آمنہ کے لعل، رسولِ بےمثال صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
نظرا ٓتی ہے۔ آپ پیداہوئے تو آتش کدے ٹھنڈے پڑ گئے، ظلم اور جبر کے تسلسل کا
اختتام ہوا، آپ نے ہی مظلومیت اور بے بسی کو فخر و شرف کا مقام عطا کیا، آپ نے
ہی تلاشِ معاش میں دیانت و صداقت سے لبریز ایک نئی روشنی دنیا بھر کو عطا فرمائی،
آپ نے ہی جہالت کو شعور، ظلمت کو نور اور فکر کو
گہرائی عطا فرمائی۔ میدانِ جنگ میں جہالت اور ظلم پر مبنی اقدامات کا خاتمہ آپ نے
فرمایا اور رہتی دنیا کے لیے اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں عدل و مساوات پر مبنی زندہ جاوید کردار بھی
آپ ہی نے پیش کیا۔ الغرض انسانیت کو جو
معراج آپ نے عطا فرمائی اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج بھی اگر انسانیت معراج کی متمنی
ہے تو رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے تعلق اور آپ
کی حیاتِ طیبہ کی تعلیمات پر عمل سے ہی یہ معراج انسان کو حاصل ہوسکتی ہے۔
بنیادی مسائل
کا حل سیرتِ طیبہ:
3. آج کے اس
عہدِ جدید میں انسان نے زندگی کے بعض گوشوں میں ترقی ضرور کی ہے مگر انسان کے
بنیادی مسائل اب بھی وہی ہیں جو آج سے سینکڑوں سال پہلے تھے، آج کے انسان نے
جدید اشیا ایجاد کر کے زندگی کے بعض پہلوؤں کو ضرور بدل کر رکھ دیا ہے مگر انسان کی طبیعت و نفسیات اب بھی وہی ہے جو آج سے پہلے تھی۔ نفرت
و عداوت، بغض و حسد، وحشت و بربریت جیسی بری عادات ہوں یا محبت و اخوت، ایثار و قربانی اور صدق و
خلوص جیسی نیک عادات ہوں یہ اب بھی ویسی ہیں اور اتنی ہی ہیں ان میں کوئی کمی
نہیں آئی۔ آج بھی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ سکون اور اطمینان کی تلاش ہے، آج
بھی انسان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ دنیا میں اسے امن و امان کی فضا میسر آ
جائے، آج بھی انسان اس خواب کی تعبیر میں ہے کہ اسے ایسا معاشرہ نصیب ہو جائے
جہاں اس کے ساتھ حق تلفی نہ ہو ، جہاں سب برابر ہوں، وہ جس معاشرے میں رہے وہاں
لوگ اس کے مونس و غمخوار ہوں، اس معاشرے میں عدل و انصاف ہو، حریت و مساوات ہو،
فرداور معاشرے میں باہم ہم آہنگی ہو۔ یہ سب ممکن تو ہے لیکن اس میں سب سے بڑی
رکاوٹ بھی خود انسان ہی ہے، ہر انسان دوسرے انسان سے باہم مربوط ہے، ان کے آپس
میں دسیوں طرح کے مختلف نوعیت کے تعلقات قائم ہیں، ہر انسان کے جذبات، احساسات،
خواہشات اور ضروریات میں بھی فرق ہے، اس
وجہ سے جگہ جگہ مفادات اور اغراض آپس میں ٹکراتی ہیں، ایسے میں کسی کو بھی اوپر
نیچے نہ کرتے ہوئے حدِ اعتدال پر قائم رہنا اور کسی کو دوسرے پر ترجیح نہ دینا بہت
نازک مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کا حل نہ تو سائنس دے سکتی ہے نہ ہی کسی کے افکار و خیالات، بلکہ اس کیلئے عملی نمونہ چاہیے،
ایسی ذات چاہیے جس نے ایسا کر کے دکھایا ہو اور جس کے ماننے والے ایسا کر سکتے
ہوں۔ اور وہ نمونہ ذاتِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے۔ اسی لیے قرآنِ پاک انہیں بہترین
نمونہ قرار دیتا ہے۔ تو اب دنیا میں جہاں بھی انسان موجود ہیں اور انسانی آبادی
پائی جاتی ہے ، وہاں اطمینان و سکون سے لبریز برابری کی زندگی کیلئے دینِ نبی کی
پیروی اور سیرت الرسول کی اطاعت و اتباع لازم ہے۔
ان چند امور
کوسامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آج سیرتِ طیبہ پر مبنی جدید تقاضوں سے ہم
آہنگ ایسے لڑیچر کی شدید ضرورت ہے جو عام انسانوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو
بالخصوص نبی کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
سیرت سے روشناس کرے اور انہیں اپنے کردار کو سیرت کے حقیقی رنگ میں ڈھالنے کی
تحریک دے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیرت اور پیامِ سیرت کو دلچسپ پیرائے،عمدہ اور جدید
طرزِ تحریر میں پیش کیا جائے ، تاکہ ایک مسلمان اس پر عمل کر کے گفتار کے غازی کے
ساتھ ساتھ کردار کا بھی غازی بن سکے۔ الحمدللہ دعوتِ اسلامی کے شعبہ المدینۃ
العلمیہ کا ذیلی شعبہ سیرتِ مصطفیٰ اس اہم کام کیلئے کوشاں ہے۔
از
قلم:مولانا محمد حامد سراج مدنی عطاری
ذمہ
دار شعبہ سیرتِ مصطفیٰ
شمائلِ ترمذی کا تعارف:
شمائلِ رسول پر کئی کتب تصنیف کی گئی ہیں،
لیکن اس سلسلہ میں لکھی گئی اولین تصانیف میں سےا یک امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”الشمائل المحمدیہ“ ہے۔ یہ امام ترمذی کا امت پر احسانِ عظیم ہے کہ آپ
نے عاشقانِ رسول کیلئے ایسی عظیم کتاب تالیف فرما کر فرقت کے ماروں کو لذتِ وصال
سے آشنا کر دیا۔ اب وہ جانِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھ کر ہنس رہے ہیں، خوش ہو رہے ہیں،
غم ناک ہیں اور رو بھی رہے ہیں۔ یقیناًآقا
کریم صلی
اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک تذکار عاشقوں کیلئے دل و جان کا
قرار ہیں۔ ان کی زلفِ دوتا کی بات ہو تو مشامِ جاں معطر ہو جاتے ہیں، رخِ روشن کا تذکرہ ہو تو دل کی کلیاں کھل اٹھتی
ہیں، مبارک مسکان کا ذکر ہو تو انگ انگ مسرت و انبساط میں جھومنے لگتا ہے اور جب
گزر اوقات پر نظر پڑتی ہے تو اشک رواں ہو جاتے ہیں۔
مالکِ
کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دوجہاں
کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں
شمائل پر کثیر کتب موجود ہیں لیکن جو شہرتِ
دوام اور مقبولیتِ عام اللہ پاک نے امام ترمذی کی اس کتاب کو عطا فرمائی ہے وہ
اور کسی کتاب کو حاصل نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق امام ترمذی نے 56 ابواب میں 97
صحابہ و صحابیات سے روایت شدہ 415([1]) احادیث اس طرح سے لائی ہیں کہ لعل و گہر کی ایک خوبصورت لڑی بن گئی ہے۔ ان میں سے
تین چوتھائی احادیث وہ ہیں جو امام ترمذی نے اپنی جامع میں بھی ذکر کی ہیں جبکہ
تقریباً ایک چوتھائی احادیث وہ ہیں جو جامع ترمذی میں نہیں ہیں صرف شمائلِ ترمذی
کا حصہ ہیں۔ حضرت علامہ علی
قاری رحمۃ
اللہ
علیہ نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا
ہی خوب فرمایا: وَمِنْ أَحْسَنِ مَا
صُنِّفَ فِي شَمَائِلِهِ وَأَخْلَاقِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابُ
التِّرْمِذِيِّ ”الْمُخْتَصَرُ الْجَامِعُ
“فِي سِيَرِهِ عَلَى
الْوَجْهِ الْأَتَمِّ بِحَيْثُ إِنَّ مُطَالِعَ هَذَا الْكِتَابِ كَأَنَّهُ
يُطَالِعُ طَلْعَةَ ذَلِكَ الْجَنَابِ. وَيَرَى مَحَاسِنَهُ الشَّرِيفَةَ فِي
كُلِّ بَابٍ. وَقَدْ سَتَرَ قَبْلَ الْعَيْنِ أَهْدَابَهُ وَلِذَا قِيلَ: ”وَالْأُذْنُ تَعْشَقُ قَبْلَ
الْعَيْنِ أَحْيَانًا“ (جمع
الجوامع، 1/2) یعنی آقا کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے اخلاق اور
عاداتِ مبارکہ پر امام ترمذی کی (شمائل
ترمذی) بہت
ہی زبردست کتاب ہے۔ مختصر، جامع اور مکمل۔ مطالعہ کریں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے
سیرتِ طیبہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آپ کی سیرتِ طیبہ کا ہر گوشہ نظروں
میں آجاتا ہے۔ سچ ہے کہ کان آنکھ سے پہلے محبت کے اسیر ہو جاتے ہیں، اسی لیے کہا
جاتا ہے: وَالْأُذْنُ
تَعْشَقُ قَبْلَ الْعَيْنِ أَحْيَانًا
شمائلِ ترمذی پر کام کا جائزہ:
ہماری معلومات کے مطابق اس کتاب کے اردو،
عربی، انگریزی، فرانسیسی، فارسی، سندھی
اور ترکی میں متعدد ترجمے بھی ہوچکے ہیں اور کثیر شروحات بھی لکھی گئی ہیں۔ ہمارا
مقصود تو اس کتاب پر علمائے اہلسنت کے اردو زبان میں کئے جانے والےکام کاجائزہ ہے
لیکن محققین کی دلچسپی کیلئے حروفِ تہجی کے اعتبار سے دیگرزبانوں([2]) کی شروحات، اختصارات اور تراجم کے نام بھی پیش
کئے جا رہے ہیں۔ مؤلف، سنِ اشاعت اور مصدر کا نام بھی پیش ہے:
|
نمبر شمار |
نام کتاب |
مؤلف/شارح |
مکتبۃ/سن اشاعت/مقام |
مصدر |
|
1. |
الاتحاف
الربانیۃ بشرح الشمائل المحمدیۃ |
احمد بن
عبدالجواد الدومی |
1381، مکتبۃ
التجاریۃ، مصر |
مطبوعہ |
|
2. |
اسنی الوسائل
بشرح الشمائل |
العلامۃ اسماعیل
بن محمد العجلونی |
|
ذکرہ البغدادی فی
ایضاح المکنون |
|
3. |
اعذب المناہل علی
الشمائل |
احمد بن جعفر
الکتانی |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص95 |
|
4. |
اختصار الشمائل |
شیخ الاسلام
عبداللہ بن حجازی الشرقاوی |
|
ذکرہ الکتانی فی
فہرس الفہارس |
|
5. |
اوصاف النبی |
الاستاذ سمیع
عباس |
طبع بدار الجیل و
مکتبۃ الزہراء |
مطبوعہ |
|
6. |
اشرف الوسائل |
اسماعیل مفید بن
علی العطار الرومی |
|
ذکرہ سزکین |
|
7. |
اشرف الوسائل الی
فہم الشمائل |
العلامۃ احمد بن
محمد بن حجر المکی الہیتمی |
دارالکتب
العلمیۃ، 1998 |
مطبوعہ |
|
8. |
اشرف الشمائل فی
شرح الشمائل |
محمد صفی اللہ بن
ہبۃ اللہ ترک دہلوی |
|
ششماہی مجلہ
الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015 |
|
9. |
اشرف الوسائل شرح
الشمائل |
الشیخ سیف اللہ
بن نور اللہ بن نور الحق بن عبدالحق الدہلوی |
|
|
|
10. |
اقرب الوسائل فی
شرح الشمائل |
الحافظ الامام
محمد بن عبدالرحمن السخاوی |
|
فہرس الفہارس
،2/990 |
|
11. |
اکمل الوسائل
لرجال الشمائل للترمذی |
عبدالوہاب
المدراسی |
|
|
|
12. |
انجح الوسائل فی
شرح الشمائل |
قاسم بن محمد بن
احمد |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ،ص47 |
|
13. |
ترجمۃ رجال الشمائل للترمذی |
السيد علي كبير
الاله آبادي |
|
|
|
14. |
ترجمۃ الشمائل للترمذی (فارسی زبان میں) |
الشیخ محمد سلام
اللہ رام پوری |
|
محدثِ اعظم حجاز
کی وفات اور سعودی صحافت، ص426 |
|
15. |
ترجمہ شمائل النبویۃ و الخصائل المصطفویۃ (فارسی زبان میں) |
محمد مصلح الدین
لاری |
|
ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون
2015،ص7 |
|
16. |
ترجمہ شمائل النبیﷺ (فارسی زبان میں) |
حاجی محمد کشمیری |
|
ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون
2015،ص7 |
|
17. |
تحفۃ نظامیہ در شرح شمائل النبی (فارسی زبان میں) |
نظام الدین محمد
بن محمد رستم علی بن عبداللہ الخجندی ثم الامن آباد |
|
ششماہی مجلہ
الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص7 |
|
18. |
ترجمہ شمائل النبی (فارسی زبان میں) |
دین محمد |
|
ششماہی مجلہ
الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص7 |
|
19. |
ترجمۃ الشمائل
للترمذی (فرنچ زبان میں) |
شیخ مروان جردلی |
طبع بدار ابن حزم |
محدثِ اعظم حجاز
کی وفات اور سعودی صحافت، ص425 |
|
20. |
تحفۃ الاخیار علی
شمائل المختار |
ابوالحسن علی بن احمد
الحریشی الفاسی |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص52 |
|
21. |
تعلیق الحمائل
فیما اغفلہ شراح الشمائل |
ابو عبداللہ بن
طاہر الکرسیفی التازی |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص78 |
|
22. |
تفسیر الفاظ
الترمذی |
مؤلف مجہول |
|
ذکرہ فؤاد سزگین |
|
23. |
تہذیب الشمائل |
شیخ محمد بن عمر
بن حمزۃ الانطاکی |
|
ذکرہ حاجی خلیفۃ
فی کشف الظنون |
|
24. |
تہذیب الشمائل |
الدکتور مصطفی
البغا |
|
|
|
25. |
تحقیق و تخریج و
تعلیق علی الشمائل المحمدیۃ([3]) |
الشیخ عبدہ علی
کوشک |
مکتبۃ نظام
یعقوبی الخاصۃ، 2021 ء،بحرین |
مطبوعہ |
|
26. |
جمع الوسائل فی
شرح الشمائل([4]) |
العلامۃ الامام
علی بن سلطان القاری |
دارالمعرفۃ،
مصطفی البابی مصر، جامعۃا م القری 2008 |
مطبوعہ |
|
27. |
حاشیۃ باللغۃ
الفارسیۃ |
راجی حاج الحرمین
تلمیذ علی ہمزائی |
|
ذکرہا فؤاد سزکین |
|
28. |
حاشیۃ علی
الشمائل |
القاضی عبدالقار
بن محمد اکرم رامپوری |
|
|
|
29. |
حاشیۃ علی الشمائل |
محمد بن الطیب
الفاسی المدنی |
|
ذکرہا الکتانی فی
فہرس الفہارس |
|
30. |
حاشیۃ علی شرح الشمائل |
محمد بن محمد
النیریزی |
|
ذکرہا البغدادی
فی ایضاح المکنون |
|
31. |
حواشی عبدالکبیر
الکتانی علی الشمائل |
عبدالکبیر بن
محمد الحسنی الادریسی الکتانی |
|
ذکرہا الکتانی فی
فہرس الفہارس |
|
32. |
الحلیۃ المبارکۃ |
|
|
ذکرہ بروکلمان |
|
33. |
حواشی علی متن
الشمائل و شرحہا لابن حجر المکی الہیتمی |
علی بن علی
الشبراملّسی |
|
ذکر ہا الزرکلی
فی الاعلام |
|
34. |
ختم الشمائل |
العلامۃ
عبدالکبیر بن محمد الکتانی |
|
ذکرہ الکتانی فی
فہرس الفہارس |
|
35. |
دررالفضائل شرح
الشمائل |
الشیخ علیم الدین
بن فصیح الدین القنوجی |
|
|
|
36. |
روض الازہار فی
شمائل النبی المختار |
عبدالسلام بن
احمد العمرانی الفاسی |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص91 |
|
37. |
زہر الخمائل علی
الشمائل |
الحافظ عبدالرحمن
بن ابو بکر السیوطی |
مکتبۃا لقرآن،
مصر، 1988 |
مطبوعہ |
|
38. |
شرح باللغۃ
الترکیۃ |
شیخ حسام الدین
نقش بندی |
|
ذکرہ البغدادی فی
ایضاح المکنون |
|
39. |
شرح باللغۃ
الفارسیۃ |
حاجی محمد
الکشمیری |
|
|
|
40. |
شرح باللغۃ
الفارسیۃ |
محمد بن صلاح بن
جلال الاری |
|
ذکرہ حاجی خلیفۃ |
|
41. |
شرح باللغۃ
الفارسیۃ |
لیس بمعلوم |
|
ذکرہ السزکین |
|
42. |
شرح باللغۃ
الفارسیۃ |
الشیخ محمد عاشق
بن عمر الحنفی |
|
|
|
43. |
شرح باللغۃ
الفارسیۃ |
الشیخ محمد فیض
بن محمد البلگرامی |
|
|
|
44. |
شرح |
شیخ ابو عبداللہ
محمد الحجیج التونسی |
|
ذکرہ الشیکخ
مکخلوف فی شجرۃ النور الزکیۃ |
|
45. |
شرح الشمائل |
محمد بن
عبدالرحمن بن زکری المغربی الفاسی |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص55 |
|
46. |
شرح |
فقیہ المالکی ابو
البرکات احمد بن محمد الشہیر بالدردیر |
|
ذکرہ الشیکخ
مکخلوف فی شجرۃ النور الزکیۃ |
|
47. |
شرح الشمائل |
ابوالعباس احمد
بن الطالب بن سودۃ |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص89 |
|
48. |
شرح |
عصام الدین
ابراہیم بن محمد بن عرب شاہ الاسفرائینی |
|
ذکرہ سیزکین و
حاجی خلیفۃ |
|
49. |
شرح |
قاضی ابراہیم بن
مصطفی الوحدی |
|
ذکرہ سیزکین |
|
50. |
شرح |
احمد بن خیر
الدین الکوز لحصاری |
|
ذکرہ
البغدادی فی ایضاح المکنون |
|
51. |
شرح |
العلامۃ الامام
احمد بن محمد القسطلانی |
|
ذکرہ الکتانی |
|
52. |
شرح |
حسن بن عبداللہ
الحبشی |
|
ذکرہ البغدادی فی ہدیۃ العارفین |
|
53. |
شرح البکار
المالکی |
مؤلف مجہول |
|
ذکرہ بروکلمان |
|
54. |
شرح |
عبداللہ الازہری
الحموی الشافعی |
|
ذکرہ
البغدادی فی ایضاح المکنون |
|
55. |
شرح |
سعید بن محمد
الخادمی |
|
ذکرہ
البغدادی فی ایضاح المکنون |
|
56. |
شرح |
سلطان بن احمد
المصری المزاحی |
|
ذکرہ الزرکلی فی الاعلام |
|
57. |
شرح |
العلامۃ عبداللہ
بن حجازی الشرقاوی |
|
ذکرہ
البغدادی فی ایضاح المکنون |
|
58. |
الحواشی النادرۃ
علی الشمائل |
مولانا عبدالنبی
الہندی |
|
|
|
59. |
شرح الشمائل النبویۃ |
ابو العلا ادریس
بن محمد الحسینی العراقی |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص63 |
|
60. |
شرح علی الشمائل |
ابو حامد العربی
بن احمد بن الشیخ التادوی |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص66 |
|
61. |
شرح مختصر
للشمائل ماخوذ من شرحی الہیثمی و جسوس |
محمد بن سعد بن
محمد بن سعید الحسنی التازی |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص83 |
|
62. |
شرح |
علی العدوی |
|
ذکرہ سزگین |
|
63. |
شرح |
الشیخ حسن آفندی |
|
انوارِ غوثیہ،ص6 |
|
64. |
شرح صغیر |
محمد عبدالرؤوف
المناوی |
|
ذکرہ الکتانی فی
فہرس الفہارس |
|
65. |
شرح کبیر |
الحافظ المناوی |
|
ذکرہ الکتانی فی
فہرس الفہارس |
|
66. |
شرح |
قاضی عبداللہ
نجیب العینتابی |
|
ذکرہ
البغدادی فی ایضاح المکنون |
|
67. |
شرح |
قاضی محمد بن
احمد الحریشی |
|
ذکرہ
البغدادی فی ہدیۃ العارفین |
|
68. |
شرح |
ابو عبداللہ بن
محمد البنانی |
|
ذکرہ سزگین |
|
69. |
شرح |
عبدالرحمن بن
احمد الدمشقی |
|
ذکرہ
البغدادی فی ایضاح المکنون |
|
70. |
شرح |
محمد بن شاکر
العقادالمصری |
|
ذکرہ
البغدادی فی ایضاح المکنون |
|
71. |
شرح |
شمس الدین محمد
الحنفی |
|
ذکرہ حاجی
خلیفۃ فی کشف الظنون |
|
72. |
شرح |
محمد بن صلاح بن
جلال اللاری |
|
ذکرہ حاجی
خلیفۃ فی کشف الظنون |
|
73. |
شرح |
نسیم الدین محمد
میرک شاہ |
|
ذکرہ سزگین |
|
74. |
شرح |
محمد شروانی
البخاری |
|
ذکرہ سزگین |
|
75. |
شرح |
الشیخ المفتی
نورالحق بن الشاہ عبدالحق المحدث الدہلوی |
|
انوارِ غوثیہ،ص6 |
|
76. |
شرح |
العلامۃ بدرالدین
محمد بن یوسف الحسنی |
|
ذکرہ الزرکلی فی الاعلام |
|
77. |
شرح |
الشيخ محمد حسين
اليزدي الدهلوي |
|
|
|
78. |
شرح بالفارسیۃ |
حسین بن باقر
الہروی،نثر الشمائل صنفہ لسلیم بن اکبر شاہ |
|
|
|
79. |
شرح بالفارسیۃ |
حسین بن باقر
الہروی،نظم الشمائل، صنفہ لمراد بن اکبر شاہ |
|
|
|
80. |
شرح شمائل النبی (فارسی زبان میں) |
عبدالہادی بن
محمد معصوم |
قبل از 1108
مطابق 1969 |
ششماہی مجلہ الشاہد، شمارہ جنوری تا جون
2015، ص12 |
|
81. |
شرح شمائل
الترمذی |
محمد بن التہامی
گنون |
|
الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص93 |
|
82. |
شرح الشمائل |
ابوالشتاء ابن
الحسن الصنہاجی الفاسی |
|
الشروح المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص97 |
|
83. |
شرح |
مؤلف مجہول |
|
ذکرہ سزگین و
بروکلمان |
|
84. |
شمائل ترمذی (اردو ترجمہ) |
محمد جاوید عالم |
ادارہ پیغام
القرآن لاہور |
|
|
85. |
شرح شمائل ترمذی (فارسی زبان میں) |
حکیم شیر علی
احمد آبادی |
|
|
|
86. |
شرح شمائل ترمذی (فارسی زبان میں) |
مبارک بن کبیر بن
محمد انصاری ملتانی |
|
ششماہی مجلہ
الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص13 |
|
87. |
شرح شمائل النبی (فارسی زبان میں) |
شیخ شہاب الدین
احمد |
|
ششماہی مجلہ
الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص12 |
|
88. |
شرح شمائل ترمذی (فارسی زبان میں) |
محمد مسیح ہمت
خان بن اسلام خان بہادر علوی حسینی بدخشانی |
|
ششماہی مجلہ
الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص13 |
|
89. |
شرح شمائل ترمذی (فارسی زبان میں) |
مصلح الدین محمد
بن صلاح بن جلال بن کمال بن محمد لاری شافعی |
|
ششماہی مجلہ
الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص13 |
|
90. |
شرح |
مؤلف مجہول |
|
نسخۃ فی متحف
ہراۃ بافغانستان |
|
91. |
صلات الشمائل و
کنز الفضائل |
|
|
ذکرہ بروکلمان |
|
92. |
طرر علی الشمائل |
العارف ابو زید
عبدالرحمن الفاسی |
|
|
|
93. |
عنوان الفضائل فی
تلخیص الشمائل |
محمد بن مصطفی
البکری الفلسطینی |
|
ذکرہ الدکتور
المنجد |
|
94. |
العطر الشذی فی
شرح مختصر الشمائل الترمذی |
الفقیہ عبدالمجید
الشرنوبی الازہری |
دار البیروتی، الطبعۃ الثانیہ 2009 ء |
مطبوعہ |
|
95. |
الفتح الايمن
المقبول و الشرح المهدي لاشرف رسول |
الفاضل محمود ابن
عبدالمحسن |
|
ذکرہ
البغدادی فی ایضاح المکنون |
|
96. |
فتیۃ السائل فی
اختصار الشمائل |
محمد بن جعفر الکتانی |
|
ذکرہ الدکتور
المنجد |
|
97. |
الفوائد الجلیلۃ البہیۃ علی الشمائل المحمدیۃ([5]) |
المحدیث محمد ابن قاسم بن جسوس |
طبع فی بولاق و
فی القاہرۃ |
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص58 |
|
98. |
فضائل النبی ترجمہ شمائل ترمذی |
غلام محمد جعفر
صدیقی |
|
قاموس الکتب ،
1/761 |
|
99. |
كتابة علي الشمائل |
الشیخ علی بن زین
الدین الاجہوری |
|
ذکرہ الدکتور
المنجد فی معجم ما الف عن النبی ﷺ |
|
100. |
کشف الشمائل شرح
شمائل النبی (فارسی زبان میں) |
ابراہیم معصوم بن
شیخ زین اولیائی چشتی |
|
ششماہی مجلہ
الشاہد، شمارہ جنوری تا جون 2015، ص13 |
|
101. |
کشف الفضائل |
نور محمد
الکاشانی |
|
ذکرہ برکلمان |
|
102. |
مختار من شرح
الحسن بن اسحاق بن مہدی |
|
|
ذکرہ سزگین |
|
103. |
المواہب اللدنیۃ
علی الشمائل المحمدیۃ |
شیخ الازہر
العلامۃ ابراہیم محمد الباجوری |
مطبوع بالقاہرۃ و
مکتبۃ مصطفی البابی |
مطبوعہ |
|
104. |
المواہب المحمدیۃ
بشرح الشمائل الترمذیہ |
سلیمان بن عمر
المعروف بالجمل |
|
ذکرہ
البغدادی فی ایضاح المکنون |
|
105. |
معین الفضائل فی شرح
الشمائل |
الشیخ محمد بن
فاضل بن محمد حامد العبیدی الحجازی |
|
|
|
106. |
مختصر |
القاضی محمد بن
احمد الحریشی الفاسی |
|
ذکرہ بروکلمان |
|
107. |
المورد الہائل
علی کتاب الشمائل |
محمد عبدالحی
الکتانی |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص101 |
|
108. |
المختصر فی
الشمائل المحمدیۃ و شرحہا |
الاستاذ محمود
سامی بک |
طبع بالقاہرۃ |
|
|
109. |
منیۃ السائل
خلاصۃ الشمائل |
علامۃ محمد
عبدالحی الکتانی |
طبع في مركز التراث
الثقافي المغربي الدار البيضاء الطبعة الاولى 1426 هـ |
|
|
110. |
نشر الشمائل لنشر
الشمائل |
ابو اسحاق
ابراہیم بن محمد التادلی |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص86 |
|
111. |
نظم الشمائل
بالترکیۃ |
مصطفی بن الحسین
المعروف مظلوم زادہ |
|
جہود العلماء فی
بیان الشمائل النبویۃ،ص11 |
|
112. |
نشرالفضائل فی
شرح الشمائل |
ابو الخیر فضل
اللہ بن روزبہان الشیرازی |
|
ذکرہ سزگین |
|
113. |
وسیلۃ الفقیر
المحتاج فی شرح شمائل صحیح اللواء والتاج |
ابو عبداللہ محمد
بن بدرالدین الشاذلی |
|
الشروح المغربیۃ
علی کتاب الشمائل المحمدیۃ، ص68 |
|
114. |
الوسیلۃ الی شفاعۃ النبیﷺ تلخیص الشفاء للعیاض و الشمائل للترمذی |
الشیخ محمد بن
فضل اللہ البرہانپوری |
|
|
|
115. |
الوفا لشرح شمائل
المصطفیٰ |
الشیخ علی بن
ابراہیم الحلبی |
|
ذکرہ البغدادی فی
ایضاح المکنون |
شمائلِ ترمذی پر علمائے اہلسنت کا
کام:
سیرتِ طیبہ کی اصل زبان تو عربی ہے لیکن
اردو نے بھی اس سے خوب کشکول بھرا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شمائل پر ایسی عظیم کتاب
پر کام کا بیان ہو اور اردو زبان تہی دامن رہ جائے۔ اس زبان میں شمائل ترمذی کے ترجمے بھی ہوئے ہیں اور شروحات بھی لکھی گئی
ہیں، اردو زبان میں اہلسنت و جماعت کے اب تک ہونے والے کام کا مختصر جائزہ پیشِ
خدمت ہے :
1. سید باباقادری کی سراج النبوۃ (قلمی) سینٹرل
اسٹیٹ لائبریری، حیدر آباد دکن ہند۔
2. جلال الدین احمد قادری کی شمائلِ محمدیہ، مطبوعہ
ممبئی۔
3. مولانا نور احمد پسروری ثم امرتسری کا ترجمہ شمائلِ
ترمذی، عربی متن کا حامل 88صفحات پر
مشتمل یہ رسالہ امرتسر الیکٹرک پریس سے 1340 ھ میں شائع ہوا۔ (مراۃ التصانیف، ص29)
4. قیام الدین احمد کی شمائلِ محمدیہ، کتب خانہ
مدراس([6])
5. مولانا کرامت علی صدیقی جونپوری کی انوارِ محمدی ترجمہ
شمائلِ ترمذی مطبوعہ میرٹھ 1941 ء
6. علامہ سید کفایت علی کافی([7]) علیہ الرحمہ کا منظوم
ترجمہ بنام بہارِ خلد([8]) اس کا جو نسخہ ہمارے پاس پی ڈی ایف میں ہے وہ
نعیمی کتب خانہ سے شائع ہوا ہے جو 124
چھوٹے صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں عربی متن میں حدیث جبکہ خانوں میں اس کا منظوم
ترجمہ پرانی اردو میں شامل ہے۔ 124 صفحات کے اس منظوم ترجمہ کے بعد 40 صفحات پر مشتمل ”پاکیزہ قول فیصل در استحسانِ
صندل“ بھی کتاب کا حصہ ہے۔
7. علامہ محمد امیر شاہ صاحب قادری گیلانی کی شرح انوارِ
غوثیہ۔ ہمارے پاس جو نسخہ ہےوہ ضیاء الدین پبلی کیشنز کھارادر کراچی سے شائع
ہوا ہے۔ اس کے صفحات کی تعداد 603 ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1972 ء میں عظیم
پبلشنگ ہاؤس پشاور سے شائع ہوا تھا۔ اپنی اولین اشاعت میں یہ کتاب جہازی (11بائی9)سائز کے صفحات پر مشتمل تھی جسے بعد میں سکوڑ کر چھاپا
گیا ہے۔ اس ایڈیشن میں خاصے کی چیز ”افتتاحیہ“ ہے جو پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد
صاحب علیہ الرحمہ کے قلم سے ہے۔ اس افتتاحیہ میں کتاب کی
خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے: مصنف کے جدّ اعلیٰ حضرت شاہ محمد
غوث([9]) پشاوری کا عربی رسالہ اصولِ حدیث مع اردو
ترجمہ کتاب کے ساتھ ہے۔ شاہ صاحب کی مادری زبان پشتو ہے لیکن ترجمہ و شرح سلیس
اردو میں رقم
کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عربی
حل لغات، راویوں کے مستند حالات، ترجمہ، شرح اور مکمل عربی متن، ہر باب کا خلاصہ
اور مقصد، اردو، عربی اور فارسی اشعار یہ سب کتاب کا حصہ ہیں۔ مخالفین کے اقوال
بھی شاملِ کتاب ہیں جبکہ مختلف فقہی، طبی اور عارفانہ نکات بھی کتاب کا حصہ ہیں۔
8. حضرت علامہ صدیق ہزاروی صاحب کا ترجمہ شمائلِ ترمذی،
برکاتی پبلشرز کراچی سے شائع ہے،چھوٹے سائز کے 160 صفحات پر مشتمل ہے۔ شروع میں
رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری صاحب کا حجیتِ حدیث پر مقدمہ بھی ہے۔
9. حضرت علامہ ناصر الدین ناصر مدنی صاحب کی شرح شمائل ترمذی۔ یہ 712 صفحات
پر مشتمل ہے۔ہماری دانست میں فاضل مصنف نے ایک طرح کی احادیث کو عنوان کی شکل دے کر اس سے
متعلق کثیر مواد جمع کر دیا ہے۔
10. امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی اور اور ان کا شمائل ترمذی کا تحقیقی مطالعہ۔ یہ مقالہ ایم اے کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں 1990 میں لکھا گیا ۔ مقالہ نگار منظور حسین ہیں جبکہ نگران ڈاکٹر حمیداللہ عبدالقادر ہیں۔
11. برصغیر میں شمائل النبوی پر ہونےو الے کام کا تاریخی و تنقیدی جائزہ۔ یہ مقالہ پی ایچ ڈی کیلئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں 2009 میں لکھا گیا۔
12. خطیبِ سحر بیاں،
علامہ مولانا ابوالبیان پیر محمد سعید احمد مجددی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح شمائل
ترمذی لکھنا شروع کی تھی جو نامکمل رہ گئی تھی۔ اندازہ ہے کہ یہ شرح بھی البینات
شرح مکتوبات کی طرز پر ہوتی۔
13. حضرت مولانا سید عماد
الدین صاحب زید مجدہ کی العطاء الصمدیۃ فی شرح الشمائل
المحمدیۃ۔ ان سطور کے لکھتے وقت ساڑھے
تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ اعلیٰ حضرت سے اشاعت کے مراحل میں
ہے۔ فاضل مصنف کے بقول عربی متن کے ساتھ ترجمہ اور ضروری مقامات پر حدیث کے نیچےتوضیح
بھی دی گئی ہے، جبکہ ہر باب کے اختتام پر اس کی جملہ احادیث پر شرح کی گئی ہے،
اصلاحی پہلوؤں کو بھی مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ کتاب معلم متعلم اور عوام خواص ہر ایک کیلئے مفید رہے اس کا خیال رکھا
گیا ہے۔
شمائلِ ترمذی پر کام سے متعلق
تجاویز:
ممکنہ
طور پر ہم نے اہلسنت و جماعت کی طرف سے شمائلِ ترمذی پر اب تک ہونے والے اردو زبان
کے کام کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس فہرست سے یہ آشکار ہوتا ہے کہ اہلسنت کی
طرف سے شمائل ترمذی پر کافی کام ہوا ہے۔ لیکن اس کام کا اکثر حصہ پچھلی صدی
میں منصۂ شہود پر آیا ہے۔ اہلسنت کی طرف
سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ، مختصر، جامع اور سلیس اردو شرح کی ضرورت اب بھی باقی
ہے۔ اے کاش کہ کوئی مردِ مجاہد کمر باندھے اور اس ضرورت کو پورا کرے۔ شمائل شریف کی شرح کے کیا
کیا انداز ہو سکتے ہیں اس پر کچھ تجاویز پیشِ خدمت ہیں۔ قدیم و جدید کئی شروحاتِ شمائل دیکھنے کے بعد یہ تجاویز گوش گزار کی جا
رہی ہیں۔ من و عن ان تجاویز پر عمل نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی اس کی فرمائش، مقصود
فقط راہ دکھانا ہے، مسافر جب جادہ پیمائی کرتا ہے تو حکمتِ عملی میں ضروری تبدیلی
کرتا ہی رہتا ہے۔
پہلی تجویز:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صفات سے متعلق ابواب قائم ہوں جو امام ترمذی
نے قائم کئے ہوئے ہیں۔ ان میں اولا اس صفت کا تعارف ہو، پھر نبوی صفت کا تعارف ہو
اور بطور استدلال شمائل ترمذی کی متعلقہ ابواب کی احادیث ذکر کی جائیں۔ ضرورتاً حل
لغات حاشیے میں اور ضروری تشریح ہر حدیث کے بعد دی جائے۔ (اس سلسلے میں
ڈاکٹر وہبہ زحیلی کی شمائل پر کتاب ہے۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بہترین اور زبردست
کام ہے اس کے ضروری مباحث کو فوکس کیا جا سکتا ہے۔ )
دوسری تجویز:ایک انداز
یہ بھی ہو سکتا ہےکہ حدیث، اس کا ترجمہ، حل لغات، اور سلیس انداز میں حدیث کی شرح
اشرف الوسائل اور جمع الوسائل وغیرہ کی طرز پر ہو۔ ضرورتاً واقعات بھی شامل کئے
جائیں۔
تیسری تجویز:ایک انداز
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک باب کی جملہ احادیث مع ترجمہ اور ضروری شرح کے ایک ساتھ
بیان کر دی جائیں۔ باب کے اختتام پر تمام فوائد و احکام جو باب سے ثابت ہوں بیان
کر دیئے جائیں۔
چوتھی تجویز:ایک طریقہ
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شمائل ترمذی کی ایسی شرح ہو جس میں ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی
کتاب کے ضروری اور عام فہم مباحث خلاصے بنا کر ذکر کر دیئے جائیں۔ انداز کتاب وہی
ہو جو کتبِ احادیث کی شروحات کا مروج ہے۔
متفرق ہدایات:
مذکورہ بالا تجاویز کے ساتھ ساتھ اگر ان
ہدایات کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے تو کام کی وقعت اور افادیت کئی گنا بڑھ جائےگی۔
1) اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کےمعروف سلام(مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام) میں اعضائے مبارکہ سے متعلق اشعار ضروری
وضاحت و تفہیم کے ساتھ جابجا ذکر جائیں۔
2) حدائقِ بخشش ([10])میں موجود دیگر نعتیہ اشعار جہاں مختلف عادات
کا بیان ہے انہیں بھی متعلقہ مقامات پر کتاب کا حصہ بنایا جائے۔اس کی چند مثالیں
ملاحظہ ہوں:
جہاں آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دل نشیں و دل ریز تبسم کا بیان ہو وہاں
یہ شعر ہو:
جس
تبسّم نے گلستاں پہ گرائی بجلی
پھر
دِکھا دے وہ ادائے گلِ خنداں ہم کو
جہاں آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے
خرامِ ناز کی بات ہو تو وہاں یہ شعر ہو:
عرش
جس خوبیِ رفتار کا پامال ہوا
دو
قدم چل کے دِکھا سروِ خراماں! ہم کو
آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جمالِ جہاں آرا کی بات ہو تووہاں یہ اشعار
ہوں:
حسن
کھاتا ہے جس کے نمک کی قسم
وہ
مَلیحِ دِل آرا ہمَارا نبی
جِس
کا حُسن اللہ
کو بھی بَھا
گیا
ایسے
پیارے سے محبت کیجیے
3) عوام الناس سے متعلق مباحث و موضوعات پر فوکس کیا جائے، جیسے عمامہ
شریف کے ذکر پر عمامے کتنے رنگوں کے تھے، سائز کیا ہوتا تھا، کم از کم کتنے پیچ عمامہ
میں ہونے چاہئیں ، کس طرح باندھنا چاہیے وغیرہ وغیرہ یہ معلومات شامل ہوں۔
4) غیر ضروری علمی مباحث سے اعرض جبکہ بہت ضروری علمی مباحث
کو خلاصے کی صورت میں ذکر کیا جائے۔
5) ہر ہر وصف سے متعلق واقعات و روایات بھی بطور استشہاد
پیش کئے جا سکتے ہیں۔
6) قرآنِ پاک میں اعضائے مبارکہ کا ذکر ہے ان آیات کو
ضروری تفسیر کے ساتھ شامل کیا جائے۔
7) کتاب میں جہاں بھی کسی صحابی کا ذکر ہو بیانِ روایت یا
دورانِ حدیث، ان کا دو تین لائنوں پر مشتمل مختصر تعارف حاشیے میں شامل کیا جائے۔
8) شمائل میں بعض استعمال کی اشیا کا مختصر ذکر ہے یا ان کی
تعداد کم ہے، اس پر اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
9) استعمال کے کھانوں کے بعض طبی فوائد بھی ذکر کئے جا سکتےہیں۔
10) بعض عاداتِ مبارکہ ایسی ہیں کہ جدید سائنسی تحقیقات سے
ان کے کثیر فوائد سامنے آئے ہیں، وہ تحقیقات بھی شامل کی جا سکتی ہیں۔
یہ دس
نکات پیش کئے گئے ہیں، باقی کام کو کام سکھاتا ہے، کام کرنے والے کے ذہن میں اس سے
اچھےا ور بہترین آئیڈیاز آ سکتے ہیں۔
مولانا محمد
حامد سراج مدنی عطاری
ذمہ دار:
شعبہ سیرتِ مصطفیٰ
[1]…
مکررات ہٹا کر یہ تعداد 397 بنتی ہے۔ ان میں سے 313وہ
ہیں جو جامع ترمذی میں بھی موجود ہیں، بقیہ 84 وہ ہیں جو صرف شمائل کا حصہ ہیں۔
[2]…
ابتدا میں ہم نے صرف
علمائے اہلسنت کے اردو کام کا احاطہ کیا تھا۔ پھر نگرانِ مجلس المدینۃ العلمیہ حضرت مولانا حاجی ابو
ماجد محمد شاہد عطاری حفظہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد اور رہنمائی پر دیگر
زبانوں کی شروحات بھی جمع کی گئی ہیں۔انہوں نے شیخ عبدہ علی کوشک کی شرح عنایت
فرمائی، شیخ نے اس میں تقریباً 72 شروحاتِ
شمائل اور کئی تراجمِ شمائل کے نام ذکر
کئے ہیں، اس تعداد پر مزید اضافہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا، لیکن رکنِ شوریٰ
نے مزید کئی کتب کی طرف رہنمائی فرمائی، جن سے مراجعت کی بدولت ہم 130 کے قریب شروحات و تراجم وغیرہ کے نام ذکر
کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ فجزاہ اللہ خیرا کثیرا
[3]…
یہ عربی زبان میں بہت
زبردست شرح ہے۔ شارح نے ابتدا میں شمائلِ ترمذی پر ہونے والے کام کا مقدور بھر
احاطہ کرنے کی سعی کی ہے اور 72 شروحات کے نام ذکر کئے ہیں۔ہم نے مزید تتبع سے یہ
تعداد 104 تک پہنچا دی، پھر یہ فہرست ملاحظہ کیلئے فاضلِ جلیل، برادرِ مکرم
مولانامحمد عدنان احمد مدنی چشتی عطاری
صاحب کو پیش کی۔ ان کی مشاورت کے بعد یہ تعداد 109 تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے بعد بعض
کتب کی عدم دستیابی پر کام روک دیا گیا ، کتب میسر آنے پر یہ تعداد 130 تک پہنچ
چکی ہے۔
[4]…
حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی زبردست شرح ہے،
اس کے کئی ایڈیشن شائع ہونا اس کی مقبولیت کی دلیل ہیں، اس شرح پر امامِ اہلسنت ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری
رحمۃ اللہ علیہ کا حاشیہ بھی ہے جو غیر مطبوعہ ہے۔ (مراۃ التصانیف، ص32)
[5]…
اس شرح کے دو اختصار
بھی ملتے ہیں، ایک کا نام ہے: اختصار شرح جسوس علی الشمائل۔ یہ عبدالرحمن بن
ابراہیم التغرغرتی کی طرف موسوم ہے۔ (الشروح
المغربیۃ علی کتاب الشمائل المحمدیۃ
للترمذی، ص74) جبکہ دوسرا نام ہے : اختصار شرح الشمائل لجسوس۔ مصنف ہیں محمد بن حسن
الحجوی۔ (الشروح المغربیۃ علی
کتاب الشمائل المحمدیۃ للترمذی، ص99)
[6]…
اردو تراجم و شروح کی
مذکورہ بالا تمام تفصیلات ہم نے قاموس الکتب اردو (از انجمن ترقیِ اردو کراچی)سے حاصل کی ہیں۔
[7]…
علامہ کفایت علی کافی
علیہ الرحمہ نے 1857 ء کی جنگ آزادی میں دہلی و دیگر مقامات پر مجاہدینِ آزادی
کی کمان سنبھالی۔ بالآخر 30 اپریل 1858 ء کو انہیں چوک مراد آبادمیں سولی پر
چڑھایا گیا۔ نعت گوئی میں کما ل درجہ رکھتے تھے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان
قادری علیہ الرحمہ ان کی نعت گوئی سے بہت
متاثر تھے، ایک شعر میں انہیں نعت گو شعراء کا بادشاہ اور خود کو وزیراعظم قرارد
یا ہے۔
[8]…
بہارِ خلد کا پہلا ایڈیشن 1845ء میں کانپور ہند سے شائع ہوا۔ دوسرا اور تیسرا
ایڈیشن بالترتیب 1847اور 1871 میں لکھنؤسے
شائع ہوا، 1876
میں دہلی سے بھی ایک ایڈیشن شائع ہوا۔ پھر ایک عرصہ بعد ایڈیشن 1935 میں مراد آباد سے شائع ہوا۔
بہارِ خلد کا ایک خطی نسخہ جو علامہ کافی علیہ الرحمہ کی ملکیت تھا حکیم سعد اللہ
خان متوفی( 1907) کے پوتے پروفیسر محمد ایوب قادری صاحب کے پاس ہے۔ (انوارِ غوثیہ
، ص7)
[9]…
حضرت شاہ محمد غوث پشاوری ثم لاہوری محدّثِ وقت تھے، حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ
دہلوی کے معاصرین میں سے تھے، آپ کا علمی شاہکار بخاری شریف کی شرح ہے۔(انوارِ غوثیہ، ص8)
[10]…
دعوتِ اسلامی کی مجلس آئی ٹی نے المدینۃ العلمیہ کے تعاون سے حدائق بخشش کی ایک
ایپ بنائی ہے جس میں سرچ کرنے کی سہولت
بھی موجود ہے۔ اس کی مدد سے متعلقہ اشعار ڈھونڈنا کافی آسان ہوگیا ہے، جبکہ اہلِ
ذوق کو ایسے اشعار حفظ ہی ہوں گے۔
بہت بڑے عاشقِ رسول حضرت سیِّدُنا اِمام جَلال ُ الدِّین سُیُوطی
شافِعی رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے
بیداری میں 75بار رسولِ پاک،صاحبِ لولاک ﷺ کی زیارت کی،آپ رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :(پیارے
آقاﷺَکے دادا جان)حضرت عبدُالْمُطَّلِب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) میں حجرِ اَسود کے
پاس سو رہا تھا کہ میں نے ایک ہولناک
خَواب دیکھا، جس کی وجہ سے مجھ پر بہت زیادہ گھبراہٹ طاری ہو گئی، پھر میں ایک قُریشی
کاہِن(یعنی قسمت کا حال بتانے والے) کے پاس آیا اوربتایا کہ میں نے رات خَواب میں ایک درخت دیکھا ،جس کی اُونچائی
آسمان تک اور شاخیں مَشرِق ومَغرِب تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ اُس درخت سے نکلنے والے نُور کی چمک دَمک سُورج
کی روشنی سے سَتّر70 گُنا زائد ہے۔ اُس کے سامنے عرَب وعجم سجدہ ریز ہیں اور اُس کی
عظمت، نُور اور بلندی میں ہر آن اِضافہ ہو رہاہے۔ ایک لمحہ وہ چُھپ جاتا ہے تو
دُوسرے ہی لمحے ظاہِر ہوجاتاہے۔ قُریش کی ایک جماعت اُس کی شاخوں سے چمٹی ہوئی ہے
جبکہ دُوسری جماعت اُسے کاٹنا چاہتی ہے۔ جونہی یہ جماعت اسے کاٹنے کے لئے قریب
پہنچی تو ایک نوجوان نے اُنہیں پکڑ لیا، اِس جیسا حُسن و جَمال کا پیکر اور
نَظافَت و خُوشبو سے مُعَطَّر نوجوان میں نے کبھی نہیں دیکھا،پھراس خوب رُو (خوبصورت)
نوجوان نے اُس جماعت کے لوگوں کی کمریں توڑڈالیں اور آنکھیں
نکال دیں ۔
میں نے درخت کا پھل لینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایامگرکچھ نہ
لے سکا ۔بالآخر میں نے پوچھا کہ اِس کاپھل کون لے سکتا ہے؟ جواب ملا: صِرف وہ لوگ
جو مضبوطی سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ پھر خوف زَدہ حالت میں میری آنکھ کُھل گئی۔حضرت عبدُ
الْمُطَّلِب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں
کہ میں نے کاہِن کے چہرے کو دیکھا تَواس کا رنگ اُڑچکاتھا، پھر اُس نے تعبیر بیان
کرتے ہوئے کہا:اگر تمہارا خواب سچّا ہے تَو تُمہاری پُشت سے ایک ایسا فَرزَند پیدا
ہوگا جو مشرِق ومغرِب کا مالِک ہوگا اور ایک مخلوق اُس کی خوبیوں کو دیکھ کر اُس
سے وابَستہ ہوجائے گی۔ (خَصائِص کُبرٰی،باب رؤیا عبدالمطلب،۱/۶۷)
حضرت عَبدُالمطلب رَضِیَ
اللہُ عَنْہُ نے جس نُورکوخَواب میں دیکھا وہ12ربیعُ الاول شریف
بَمُطابِق 20اپریل 571بروزپیر صُبحِ
صادِق کی روشن و مُنوَّرسُہانی گھڑی میں ہَمارے پِیارے آقا،حبیبِ کبریا ﷺكی صُورت
میں اَزَلی سَعادَتوں اور اَبَدی
مُسَرَّتوں کا نُور بَن کر مكہ مُکرَمَہ میں پیدا ہوئے ۔ (اَلْمَوَاہِبُ اللَّدُنِّیَّۃ
لِلْقَسْطَلَانِیّ ج۱ ص۶۶۔۷۵ملتقطاً)
جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا
چاند
اُس دِل افروزْ ساعت پہ
لاکھوں سلام
پِیارے آقا ﷺجب دنیا میں تشریف لائے تو جہالت کا بول بالا
تھا، انسانیت دَم توڑ رہی تھی، لہو و لعب میں ڈوبی ہوئی رسم و رواج کا دور دورہ
تھا، جُوَا اور شراب نوشی عام تھی، بیواؤں کو زندہ رہنے کا حق نہیں تھا، یتیموں کے سر پر دست شفقت پھیرنے والا کوئی نہیں
تھا، کمزور اور بے سہارا لوگوں کا ساتھ دینے
والا کوئی نہیں تھا، خود خانہ کعبہ میں
بتوں کی پوجا ہوتی تھی، لڑکیاں زمین میں
زندہ دفن کی جاتی تھیں۔
اللہ پاک کے حبیب ﷺ کی ولادتِ با سعادت ہوتے ہی ظُلمَت کے بادَل چَھٹ گئے ، شاہ ِایران
کِسریٰ کے مَحل پر زَلزَلہ آیا ، چودہ (14)کُنْگرے گِرگئے ،اِیران
کا آتَش کَدہ جو ایک ہزار(1000)سال سے شُعلہ زَن
تھا وہ بُجھ گیا اور دَریائے ساوَہ خُشک ہوگیا اورکعبہ کو وجدآگیا ۔(صبح بہاراں ، ص ۲) ، جس سال آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی
کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے
اور قریش خوشحال ہو گئے،آخری نبی ﷺ نے25 سال کی عمر میں حضرت خدیجہ جیسی بیوہ
عورت سے نکاح کرکے بیوہ عورتوں کے مقام و مرتبہ کو بلند کردیا، خانہ کعبہ سے بتوں کو نکال پھینکا اور پاک و
صاف کیا، ایسی پرنور تعلیم دی کہ سرزمین
مکہ کو اُمُّ القریٰ کا درجہ حاصل ہوگیا، سسکتی اور دَم توڑتی ہوئی انسانیت کو سکون مل گیا پوری دنیا میں حق و صداقت
کی روشنی پھیل گئی غرضیکہ سرکار دو عالمﷺ کی شخصیت سراپا رحمت ہے، رسول پاک نے نکاح کو آسان بنایا، یتیموں کو نیا لباس پہنایا، ان کی انگلیاں پکڑ کر عیدگاہ لےگئے، جنگ میں ملا ہوا مال غنیمت یتیموں کو دیدیا،
گویا کہ آمدِ مصطفیٰ ہوئی روشن زمانہ ہوگیا،اللہ پاک نے اپنے بندوں کے لئے اپنے
محبوب کی زندگی کو ماڈَل اور نمونہ بنادیا، بارگاہِ خداوَندی میں وہی اعمال قابلِ قبول
ہونگے جو نبی کریمﷺکے طریقے کے مطابق ہونگے۔
چاند سا چمکاتے چہرہ نور برساتے ہوئے آگئے بدرُ الدُّجٰی، اَھلاً وَّ سَہلاً
مرحبا
جُھک گیاکعبہ سبھی بُت منہ کے بل اَوندھے گِرے دَبْدَبہ آمد کا تھا ، اَھلاً وَّ
سَہلاً مرحبا
چودہ کنگورے گِرے آتشکدہ ٹھنڈا ہوا سٹپٹا شیطاں گیا ، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا
(وسائل بخشش،ص۱۴۶،۱۴۷)
مولانا
زید عطاری مدنی
اسکالر
المدینۃ العلمیہ ، اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی
اللہ
تعالیٰ کے دنوں میں سب سے زیادہ قابل تعظیم
حضورتاجدارِ ختم نبوت ﷺکا یوم وِلادت ہے کیونکہ اِسی کے سبب سارے دنوں کو برکت ملی اور اللہ تعالیٰ کے دنوں کو یاد رکھنے کا حکم
قرآن کریم نے دیا (پ13،ابراہیم:5)، نیزرحمت
الٰہی ملنے پر خوشی کرنے کا حکم قرآن کریم نے دیا (پ11،یونس58)اور اسی قرآن حکیم
نے حضوراکرم ﷺ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت
قرار دیا (پ17،الانبیاء:107) معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم ﷺ کے دنیا میں تشریف لانے
کی خوشی منانا قرآن پاک کے حکم پر عمل کرنا ہے اور ہر پیر کو روزہ رکھ کر اپنا یوم
ولادت خود حضور نبی اکرم ﷺ منایا کرتے تھے۔(صحیح مسلم، حدیث:198)
جشن
ولادت سے مرادوہ مبارک اجتماع ہے جس میں حضور تاجدارِ دوجہانﷺ کے فضائل،معجزات، خصلتیں،حالات اورحیات مبارکہ کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا جائے(سبل
الہدی الرشاد، 1/363)
جشن میلاد
النبی ﷺ کے جائز ہونے کو بڑے بڑے علماء
اوراِماموں نے بیان کیا،بلکہ بعض نے خاص
اس موضوع پر کتابیں لکھیں جن میں علامہ
ابن جوزی حنبلی ، امام سیوطی شافعی،حافظ ابن کثیرحنبلی،حافظ الحدیث علامہ سخاوی ،شیخ
عبدالحق محدث دہلوی،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اورامام احمد رضا خان حنفی رحمہم
اللہ تعالیٰ جیسے جلیل القدر علماواکابرین
شامل ہیں۔
ہم اہلسنت وجماعت کے نزدیک میلاد پاک کی محفل افضل ترین مستحب اور اعلی ترین
نیک کاموں میں سے ہے جبکہ اس میں کوئی غیر شرعی بات شامل نہ ہو۔آئیے، میلاد منانے
اور سیرت اپنانے کے لیے اس بابرکت مہینے میں درج ذیل اعمال کا اہتمام کریں:
(1)پانچ
وقت باجماعت نماز کا اہتمام کریں،قضاء نماز اور اپنے ذمہ لازم زکاۃ اور لوگوں کے
قرضے ادا کریں۔
(2)ظاہری
وباطنی گناہوں سے سچی توبہ کریں اور اپنے ماتحتوں خاص طورپر اپنی اولاد اور
شاگردوں کو گناہوں سے باز رکھیں۔
(3)مسلمان
مرد اپنے چہرے کو پیارے آقاﷺ کی سنت داڑھی سے سجائیں اور خواتین خود کو شرعی پردے
سے سنواریں۔
(4)ماہِ
میلادمیں روزانہ قرآن کریم کی کم از کم تین
آیات مبارکہ ترجمہ وتفسیر کے ساتھ پڑھیں(جیسے خزائن العرفان، نورالعرفان، صراط
الجنان)۔
(5)پورا
مہینہ روزانہ کم ازکم 313بار دُرود شریف
پڑھیں۔
(6)حضورتاجدار
ختم نبوتﷺ کی احادیث مبارکہ اور سنتوں پر مشتمل کتب کا مطالعہ کریں جیسے ریاض
الصالحین،انوار الحدیث، فیضانِ سنت ،سنتیں اور آداب۔
(7)اس
بابرکت مہینے میں سیرت مصطفی(از علامہ عبدالمصطفی اعظمی)، شفاء شریف مترجم(ازقاضی
عیاض مالکی)،آب کوثر یا البرہان(از مفتی محمد امین صاحب) میں سے کسی ایک کتاب کا
ضرور مطالعہ کریں۔
(8)حضورامام
الانبیاءﷺکے حسن وجمال،فضائل وخصائص،رفعت وشان،کمالات ومعجزات نیزمحبت وعشق رسول
پر مبنی مستند علمائے اہلسنت کے بیانات سنیں۔
(9)کوئی مدرسہ قائم کریں یا اہلسنت کے کسی ایسے
مدرسہ وجامعہ کے ساتھ تعاون کریں جو ہمارے بچوں کو اچھی کارکردگی کے ساتھ حافظ
وعالم بنانے میں مصروف ہے۔
(10)اپنے
ایک بیٹے یا ایک بیٹی کو عالم دین بنانے کی نیت کریں اور اس پر جلد عملی اقدام بھی
کریں۔
(11)کسی
غریب بالخصوص سید زادے کے گھرایک دو مہینوں
کا راشن ڈالوادیں اور وقتا فوقتا ایسے لوگوں کی مدد کرکے دعائیں لیں۔
(12)ممکن
ہو تو کسی ہال/بینکوٹ میں غرباء کے لیے پُرتکلف دعوت کا اہتمام کریں مگر یہ ظاہر
نہ کریں کہ صرف غریبوں کو بلایا گیا ہے۔
(13)کسی
مقروض مسلمان کاسارا یا کچھ قرض ادا کروادیں۔
(14)کسی
نادار وغریب کو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کروادیں۔
(15)کسی
مریض کا اپنے مال سے علاج کروادیں اورہوسکے تو اُس کے علاج کا سارا خرچ اپنے ذمے
لے لیں۔
(16)جلوس
میلاد اور محافل کو غیرشرعی اور غیر اخلاقی باتوں سے پاک رکھیں۔
(17)آڈیو/ویڈیو
بیانات یا نعتیں ضرور سنیں مگر اُس کی اونچی آواز سے اہل محلہ ،پڑوسیوں یا کسی مریض
کو تکلیف نہ پہنچائیں۔
(18)میلاد
کی محفلوں میں وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھیں اور بڑی راتوں کے علاوہ محافل کا
دورانیہ زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے کافی ہے ۔
(19)محافل
یا جلوس میں یا اِن کی تیاری کے دوران
باجماعت نمازوں کا لازمی خیال رکھیں۔
(20)عیدمیلاد
النبی ﷺکی خوشی میں گھروں ،محلوں اورمسجدوں میں چراغاں کریں مگر چوری کی بجلی ، سٹرکوں پرر کاوٹوں اور لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف
دینے سے لازمی لازمی بچیں۔
(21)گھروں
پر خواتین کی محفل میلاد کریں تو کسی سنی
صحیح العقیدہ عالمہ یا مُبلِّغہ خاتون کا بیان ضرور رکھوائیں جس میں حضوراکرم ﷺکے
فضائل، سیرت اور حسن اخلاق کو بیان کیا جائے۔
(22)ممکن
ہوتو سارے گھر والے جمع ہوکر 12دن تک روزانہ 25 منٹ گھرمیں محفل میلاد کا اہتمام کریں جس میں تلاوت و نعت اور 12منٹ کا بیان ہو جس میں حضور نبی
کریم ﷺ کی سیرت کا کوئی گوشہ بیان کیا جائے یا ایک دو معجزات بیان کئے جائیں۔
(23)میوزک
اورآج کل بجائے جانے والے دَف کے ساتھ حمد ونعت یامنقبت وقوالی سننا، سنانا گناہ
ہے۔لہٰذا اس سے بچیں ،حضور رحمتِ عالم ﷺنے
ارشادفرمایا: میں تما م جہانوں کے لیے رحمت وہدایت بن کر آیا ہوں تاکہ بتوں کو
مٹادوں ،آلات میوزک کو توڑدوں اورزمانہ جاہلیت کی باتوں کو ختم کردوں۔(معجم کبیر،حدیث:7759)
(24)نامحرم
مردوں اور عورتوں کا اختلاط حرام ہے لہٰذاجن محافل میں یہ اور دیگرگناہ ہوں وہاں ہرگز نہ جائیں نیز اپنے گھر کی خواتین کو جلوس
میں شرکت یا جلوس دیکھنے جانے کی اجازت نہ دیں۔
(25)ماہِ
میلاد بلکہ سارا سال حمد وثنا اور نعتیں سُنیں مگر زیادہ توجہ مستند علمائے کرام
کے بیانات پر دیں تاکہ ہمارے عقائد واعمال پختہ ہوں اور ان میں پائی جانے والی غلطیاں
دُور ہوں ۔
(26)نعت خواں حضرات سے ہاتھ جوڑ کرگزارش : ایک رات میں سات آٹھ جگہ وقت دینے کے بجائے زیادہ سے زیادہ دو جگہ وقت دیں اورکم از کم ایک جگہ کامل توجہ کے ساتھ پورا بیان سنیں۔
مسلمانوں
سے فریاد:عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پرجشن وِلادت منائیں اور حضور رحمت للعالمین ﷺ
کی آمد کے مقصد کو پیش نظر رکھیں، سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں اورآپ کی سنتوں کو
اپنائیں ۔
نوٹ :یہ تحریرمختلف کتب ورسائل اورمضامین سے اخذ شدہ مفاہیم اور بعض اپنی معروضات کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے۔اللہ کریم ہمیں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے میلاد منانے اور سیرت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ
Dawateislami