امِ عطار کی زندگی سے متعلق ایک مختصر رپورٹ

از:محمد عمرفیاض عطاری مدنی

امیرِاَہل سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی والدہ ماجدہ کا نام امینہ تھا، آپ نیک ، صالحہ اور پرہیزگار خاتون تھیں ۔ اَمیرِ اَہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے والِد ِمحترم حاجی عبدُالرّحمن قادری کے وِصال فرمانے کے بعد بچّوں کی ساری ذِمّہ داری آپ کی والدہ کے کندھوں پر آگئی تھی، اِن کٹھن لمحات میں بھی آپ ہمّت نہ ہاریں، گھر کا نظام بھی اَحسن انداز سے چلایا اور سخت ترین معاشی آزمائشوں میں بھی اپنے بچوں کی اسلامی خُطوط پر تربیت کی۔ جس کا منہ بولتا ثبوت خود امیرِ اَہل سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ذاتِ مقدسہ ہے ۔

امیرِ اَہل سنّت فرماتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ والدہ محترمہ رحمۃ اللہ علیہا کا شروع سے ہی فرائض و واجبات پر عمل کرنے اور کر وانے کا اس قدر ذہن تھا کہ ہم بہن بھائیوں کو چھوٹی عمر سے ہی نمازوں کی تلقین کرتیں اور سختی سے عمل بھی کر واتیں ، بالخُصوص نمازِ فجر کے لئے ہم سب کو لازمی اُٹھاتیں ۔ والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا کی اس طرح تلقین و تربیت کی بَرَکت سے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میری بچپن میں بھی کبھی نمازِ فجر چھوٹی ہو ۔

امیر اہل سنت کے بھائی کی وفات کے تھوڑے ہی عرصے بعد آپ کی والِدۂ محترمہ کا وصال 17 صَفَرُ الْمُظَفّر 1398سن ہجری جمعرات اور جُمُعہ کی درمیانی شب تقریباً سوا 10بجے کراچی کے علاقے میٹھادر میں ہوگیا۔

ایسے اعصاب شکن حالات میں عموماً لوگوں کے ہاتھ سے دامن ِ صبر چھوٹ جاتا ہے اور ان کی زبان سے شکوہ وشکایت کے الفاظ جاری ہوجاتے ہیں ،لیکن امیرِاہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے دل برداشتہ ہونے کے بجائے اپنے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں بصورتِ ا شعار اِستِغاثہ پیش کرتے ہوئے کلام لکھا:

گھٹائیں غم کی چھائیں،دل پریشاں یا رسولَ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

تمہیں ہو میرے دَرْد و دُکھ کا دَرماں یا رسولَ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

میں ننھا تھا، چلا والد، جوانی میں گیا بھائی

بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں چلی ماں یا ر سولَ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں کہ والدۂ مُشفِقَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کا شبِ جُمُعہ کو انتقا ل ہوا۔الحمد للہ عزوجل کلِمۂ طَیِّبَہ اور اِسْتِغفار پڑھنے کے بعد زبان بند ہوئی ۔ غُسْل دینے کے بعد چہرہ نہایت ہی روشن ہوگیا تھا۔ جس حصۂ زمین پر روح قَبْض ہوئی اس میں کئی روز تک خوشبو آتی رہی اورخُصوصاً رات کو جس وقت انتقال ہوا تھا،اس وقت طرح طرح کی خوشبوؤں کی لَپٹَیں آتیں۔ سوئم والے دن صبح کے وقت چند گلاب کے پھول لاکر رکھے تھے جو شام تک تقریباً تروتازہ رہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے یہ پھول اپنی والدہ کی قبْر پر چڑھائے۔ یقین جانیں اُن پھولوں میں ایسی بھینی بھینی خوشبو تھی کہ آج تک مجھے گلاب کے پھولوں سےکبھی ویسی خوشبو سونگھنے کو نہیں ملی، بلکہ گھنٹوں تک وہ خوشبو میرے ہاتھوں سے بھی آتی رہی ۔ سبحان اللہ!!!

ہم اس عظیم ماں کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں اوراپنے تمام قارئین سے گزارش کرتے ہیں کہ جس ماردِ مشفقہ نے ہمیں الیاس قادری صاحب جیسی عظیم ہستی عطا کی ہے ان کے یومِ وصال پر آپ بھی خوب ایصال ِ ثواب اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کیجئے:

اللّٰہ تعالٰی کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کتابیں سیرتِ صحابہ کرام پر تصنیف کی گئی ہیں وہ مختلف گوشوں اور پہلوؤں سے بڑی اہمیت کی حامل اور مرکۃالآراء تصانیف ہیں یہ نہایت مفید اور اہم ترین کام ہے ۔

تراجم ِصحابہ پر تصنیف کردہ کتابیں بے شمار ہیں ان میں مشہور ترین کتابیں یہ ہیں :

الاستیعاب فی معرفة الاصحاب

تالیف : ابن عبد البر رحمةاللہ علیہ

یہ کتاب معرفت ِصحابہ کے موضوع پر اہم ترین کتاب ہے ۔اس کتاب کا نام مصنف نے ’’ الاستیعاب ‘‘رکھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے تمام صحابۂ کرام کے احوال کا احاطہ کر لیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بہت ساری ضروری چیزیں ان سے رہ گئیں۔

اس کتاب میں ساڑے تین ہزار (3500) صحابۂ کرام کے تراجم و حالات قلمبند کئے گئے ہیں اور صحابۂ کرام کے ناموں کو حروف معجم (حروف تہجی)کی ترتیب پر جمع کرتے ہوئے نام کے پہلے حرف کو ملحوظ رکھا گیا ہے لیکن اس کے بعد باقی حروف کا اہتمام متروک ہے ۔ناموں سے فراغت کے بعد مشہور کنیتوں کو بھی حروف معجم کی ترتیب پر رکھا گیا ہے پھر صحابیات کے نام اور ان کی مشہور کنیتیں ذکر کی گئی ہیں ۔

اسد الغابة فی معرفة الصحابة

تالیف : عز الدین ابی الحسن علی بن محمد ابن الاثیر جزری رحمة اللہ علیہ

یہ کتاب اسمائے صحابہ کی معلومات کے لئے بے حد عمدہ کتاب ہے۔ اس کے مؤلف نے اس کتاب کی ترتیب و تنسیق اور جمع و تہذیب میں کافی محنت کی ہے۔ اس کتاب میں 7 ہزار پانچ سو چوَّن (7554) صحابہ ٔکرام کے تراجم کو ذکر کیا گیا ہے چنانچہ حروف معجم کی ترتیب پر اسمائے صحابہ کو ذکر کرتے ہوئے حرف اوّل اور ثانی کی نسبت کرتے ہوئے اسم کے آخر تک اسی طرح حروف معجم کی ترتیب پر ذکر کیا گیاہے ۔

مؤلف کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں : اس کتاب کو میں نے الف، باء ،تاء اورثاء کی ترتیب پر مُدون کیا ہے اور ناموں میں حرفِ اول، حرفِ ثانی اور حرفِ ثالث کو لازم پکڑا ہے۔ اسی طرح آخری اسم تک کیا ہے ۔باپ اور دادا کے ناموں میں بھی یہی طرزرکھا ہے اور قبائل میں بھی یہ طریقہ اپنایا ہے کہ اسمائےصحابہ کو ذکر کیا پھر صحابیات کا تذکرہ کیا۔

الاصابة فی تمییز الصحابة

تالیف : حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمةاللہ علیہ

یہ کتاب اسمائے صحابہ کےحوالے سے جامع تدوین اور کامل و اکمل کتاب ہے۔اس کتاب میں مؤلف نے ان تمام کتابوں سے استفادہ کرکے مواد جمع کیا ہے جو متقدمین علمائےکرام نے اس موضوع پر تصنیف فرما ئی ہیں ۔

اس کتاب میں تمام تر ضروری معلومات کو مرتب کیا گیاہے اور اوہام سے کنارہ کشی کرتے ہوئے مؤلف نےایسے اضافے بھی کئے ہیں جو بعض طرق حدیث میں انہوں نے مناسب سمجھا یا دوسری تصانیف سے اخذ کیاہے جس کی وجہ سے یہ کتاب نہایت مفید اور جامع ہے۔

مصنف علیہ رحمہ نے اس کتاب کو حروف معجم کی ترتیب پر ابن اثیر جزری رحمة اللہ علیہ کی طرح مرتب کیا ہے جس میں پہلے اسمائے صحابہ کوذکر کیا پھر ان کی کنیت پھر اسمائے صحابیات اورپھر ان کی کنیت البتہ اسم اور کنیت میں ہر حرف کی چار تقسیم کی ہے جو حروف معجم کی ترتیب پر ایک اضافہ ہے ۔

حرف کی چار (4) اقسام بنائی ہیں:

قسمِ اول :

یہ قسم ان اصحاب کے بارے میں ہے جن کی صحابیت بطرقِ روایت ثابت ہے خواہ خود راوی نے نقل کیا ہو یا دوسرے کے نقل کرنے سےمعلوم ہویا ان کا ذکر ان الفاظ و عبارات سے ہوا ہو جو صحبتِ رسول ﷺ پر دلالت کریں ۔

قسم ثانی :

یہ قسم اُن حضرات کے بارے میں ہے جوصحابہ تو ہیں لیکن دوسرے صحابہ ٔ کرام کے مقابلے میں عمر میں کافی چھوٹے ہیں، حضور علیہ السلام کے عہد میں پیدا ہوئے اور آپ علیہ السلام کے انتقال کے وقت ان کی تمییز تک نہ پہنچ سکے ۔

قسم ثالث :

یہ قسم ان حضرات کے بارے میں ہے جن کا ذکر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کے زمانے سے پہلے کی کتابوں میں ہے اور وہ مخضرمیں سے ہیں یعنی وہ صحابہ ٔکرام جنہوں نے زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں زمانے پائےہوں اور ان کے بارے میں کو ئی ایسی حدیث مروی نہیں ہے جس میں یہ مذکورہوکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہے یا انہوں نے حضور علیہ السلام کی زیارت کی ہے یہ حضرات بالاتفاق صحابہ میں نہیں ہیں ان کا ذکر تو صرف اس لئے ہوتا ہے کہ یہ طبقہ صحابہ ٔ کرام سے ملاہوا تھا۔

قسم رابع :

یہ قسم ان لوگوں کے بیان میں ہے جن کا ذکر قدیم کتابوں میں صحابۂ کرام کے ناموں کے ضمن میں غلطی سے بطور وہم آگیا ہے لہٰذا اس وہم اور غلطی کا اس میں بیان ہے ۔

اس لئےمذکورہ چاروں قسموں کے ناموں کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے بالخصوص اُس وقت جبکہ صحابۂ کرام کے ناموں کی تحقیق کا سلسلہ چل رہا ہو تاکہ تحقیق کرنے والے کو معلوم ہوجائے کہ یہ شخص صحابی ہے یا نہیں نیزیہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ اقسام اکثر و بیشتر سب سے اہم مانی جاتی ہیں۔

اس کتاب میں تراجم و حالاتِ صحابہ کی تعداد 12 ہزار دوسو سڑسٹھ (12266)ہے جن میں سے 9 ہزار چار سو ستتر(9477) تراجم اُن رِجال کی ہیں جو اپنے اسما سے جانے جاتے ہیں اور 12سو ارسٹھ (1268) تراجم کنیت سے پہچانے جانے والے رواة کے ہیں، اسی طرح15سوبائیس (1522) تراجم خواتین کے اسما وکنیت والے ہیں ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں کُتُب کو صحیح معنی میں سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ


نام کتاب: جَدُّ الْمُمْتار عَلٰی رَدِّ الْمُحْتار

جلدوں کی تعداد: 7

کل صفحات: 4000

فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’فتاوی شامی‘‘ جسے ’’رَدُّ الْمُحْتَار‘‘ بھی کہا جاتا ہے اس پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے انتہائی مفید تحقیقی حواشی تحریر فرمائے ہیں جسے جدید تحقیقی معیار کے مطابق سات جلدوں میں انتہائی مزین انداز میں مکتبۃ المدینہ نے شائع کیا ہے، یہ کتاب در اصل علامہ ابن عابدین شامی قُدِّسَ سِرُّہ السَّامی کی کتاب ردالمحتار پر عربی زبان میں حاشیہ ہے۔ اور’’رد المحتار‘‘ علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمہ کی’’در مختار‘‘ جو کہ امام تمرتاشی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’تنویر الابصار‘‘ کی شرح ہے، اس پر حاشیہ ہے۔

جد الممتار کی کچھ خصوصیات: ویسے تو امام اہلسنّت کا یہ حاشیہ کئی وجوہات کی بناء پر انفرادیت کا حامل ہے جس کا تفصیلی ذکراسکی پہلی جلد میں قبلہ محمد احمد مصباحی دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا ہے ، کچھ درج ذیل ہیں:

(1)فقہی تبحر ووسعت نظر، (2)جزئیات کی فراہمی اور ان کا استخراج،(3)استدلال،(4) غیر منصوص احکام کا استنباط، (5)حل اشکالات، (6)لغزشوں پر تنبیہات،(7) تحقیق طلب مسائل کی تنقیح، (8)مشکل اور مبہم مقامات کی توضیح،(9) اقوال میں تطبیق،(10) مختلف اقوال میں ترجیح، (11)حوالہ جات اور مراجع کا اضافہ،(12) دلائل کی کثرت، (13)اختصاروغیرہ

دعوتِ اسلامی کے اسلامک ریسرچ سینٹر( المدینۃ العلمیہ) کے شعبہ کتب اعلیٰ حضرت کے مدنی علمائے کرام نے اس کتاب میں درج ذیل کام کئے ہیں:

(1)تقدیم وترتیب:

ہر قولہ پر نمبرنگ کا قیام،

جدید عربی رسم لخط کے التزام کے ساتھ ساتھ رموز واوقاف کا اہتمام،

مشکل الفاظ پر اعراب،

کتاب، باب اور فصل کا قیام۔

(2)تخریج وتحقیق (References & Research):

قرآنی آیات، احادیث کریمہ اور عبارتوں کی تخریج۔

وہ کتابیں جو طبع ہی نہیں ہوسکیں اور مخطوطے کی شکل میں ہیں ان کی تخاریج ۔

امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی عادتِ کریمہ ہے کہ کسی مسئلہ میں چند کتابوں کی عبارتیں ذکر کرنے کے بعد اپنے مؤقف کی تائید میں دیگرکئی کتابوں کے صرف نام ذکر فرمادیتے ہیں تو ان کی بھی تخریج کا اہتمام کیا گیا ہے۔

کبھی اس مسئلہ کی تحقیق کسی دوسری جگہ فرماچکے ہوتے ہیں تو اس کی طرف صرف اشارہ فرمادیتے ہیں تو ان کی بھی تخاریج کی کوشش کی گئی ہے۔

امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے رد المحتار پر حواشی کے ساتھ ساتھ کئی علوم وفنون اور کتب پر بھی حواشی رقم فرمائے ہیں اور جد الممتار میں کئی جگہ ان کا حوالہ بھی دیا ہےتو ان حواشی کی تخریج کے ساتھ وہاں بیان کردہ امام کی تحقیق کو بھی کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔

جہاں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے کسی حدیث مبارکہ کی طرف اشارہ کیا ہے تو غوروخوض کے بعد امام کی مرادی حدیث مبارکہ بھی مکمل بیان کردی گئی ہے۔

اپنی رائے،تحقیق اور اضافہ جات کو امام اہلسنّت کی عبارت سے الگ رکھا گیا ہے تاکہ غلطی کی صورت میں مصنف علیہ الرحمہ کا دامن پاک رہے۔

عرب دنیا میں رائج جدید انداز تحقیق وتخریج اختیار کیا گیا ہے۔

(3)تقابل:

پوری کتاب کا ایک سے زائد مرتبہ تقابل کیا گیا ہے۔

اس حاشیہ کی ابتدائی دوجلدیں (کتاب الطہارۃ تاکتاب الطلاق) الجمع الاسلامی مبارکپور ہند سے شائع ہوچکی تھی تویہاں تک کے تقابل اور کام میں بھی اسی نسخہ کو معیار بنایا گیا ہے اس کے بعد کتاب الایمان سے آخرکتاب تک کا مواد مخطوط کی شکل میں تھا لہذا اس کا تقابل مخطوط سے کیا گیا ہے۔

صحتِ متن کیلئے حتی المقدور کوشش کی گئی ہے، اس میں صحتِ عبارت کے ساتھ ساتھ فقہی صحت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ فارسی عبارتیں ماہرین سے چیک کروائی گئی ہیں، اور دیگر فنی ابحاث مثلاً کتاب الصلوۃ میں جہاں علم توقیت کے حوالے سے گفتگو آئی ہے وہاں درجہ اور دقیقہ وغیرہ میں علم توقیت کے اسلامی بھائیوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔

(4)تعریب (Arabic Translation):

جہاں کہیں اردو یا فارسی عبارتیں آئی ہیں ان کی عربی بھی بنائی گئی ہے۔

(5)تراجم (Books Intro. & Persons Biography):

جہاں کہیں امام اہلسنت نے کسی شخصیت یا کتاب کا نام ذکر کیا ہے تو ان کا مختصر تعارف بھی کردیا گیا ہے اسی طرح کتاب کے بھی مصنف کا نام ، اس کتاب کا موضوع وغیرہ بیان کردیا گیا ہے۔

(6)فتاویٰ رضویہ:

اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ فتاویٰ رضویہ میں جہاں کہیں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے تنویر الابصار، در مختار یا رد المحتار کی کسی عبارت پر کوئی کلام فرمایا ہے اسے مکمل تلاش اور چھان بین کے بعد شامل کردیا گیا ہے البتہ اصل حواشی اور فتاویٰ رضویہ کے اضافہ جات میں فرق کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔

(7)فہارس:

اس کتاب کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں 9 طرح فہرستیں بنائی ہیں جنہیں آپ کتاب میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

علماء ومفتیانِ کرام بالخصوص تخصص فی الفقہ کےاسلامی بھائیوں کی سہولت کیلئے امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کا عظیم الشان رسالہ ’’ اَجْلَی الْاِعْلَام اَنَّ الْفَتْوٰی مُطْلَقًا عَلٰی قَوْلِ الْاِمَام ‘‘ کو تحقیق وتخریج کے ساتھ پہلی جلد میں شامل کیا گیا ہے، اللہ پاک کی رحمت سے اب یہ رسالہ بیروت سے بھی شائع ہوچکا ہے۔

الحمد للہ دعوتِ اسلامی کی اس کاوش کو علمائے کرام کی طرف سے بہت سراہا گیا اور کام کرنے والوں کو دعاؤں سے نوازا گیا ، چنانچہ مولانا افتخار احمد مصباحی صاحب دام ظلہ جو جنوبی افریقہ لیڈی اسمتھ میں دار العلوم قادریہ غریب نواز میں شیخ الحدیث بھی ہیں نیز مجمع الاسلامی کے تحت جد الممتار پر ابتداءً کام کرنے والی ٹیم کا حصہ بھی رہے ہیں اور پہلی جلد کے شروع میں ’’حیاۃ الامام احمد رضا‘‘بھی انہی کی تحریر کردہ ہے ، انہیں جب دعوتِ اسلامی کی جانب سے اس کی طباعت کا علم ہوا تو انہوں نے شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت مولانا الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کی دینی خدمات کے اعتراف کے بعد اس پر کام کرنے والوں کا نام لے کر حوصلہ افزائی فرمائی اور دعاؤں سے نوازا، یہ اسی کی برکت ہے کہ امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی غیر مطبوعہ تصانیف پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’ہدایہ‘‘ اور اس کی شروحات (فتح القدیر، عنایہ، کفایہ اور حاشیہ چلپی) پر لکھے گئے حواشی تحقیق وتخریج کے ساتھ دار الکتب العلمیہ بیروت سے شائع ہوچکی ہے اور مزید پرکام جاری ہے۔

جد الممتار کی عالم عرب میں مقبولیت: شیخِ طریقت امیر دعوتِ اسلامی مولانا الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کی خصوصی شفقتوں اور علمائے اہلسنّت کی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے کہ کتاب چھپنے کے بعد چند سالوں میں ہی دنیائے عرب میں بھی اس کا ڈنکا بجنے لگا چنانچہ دار الکتب العلمیہ بیروت کے مالکان نے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ العربیہ اور دار تراث العلمی کے ذمہ داران سے رابطہ کرکے اس کی طباعت کی خواہش ظاہر کی تو تمام جلدوں پر نظرِ ثانی، تصحیح، متروکہ تخاریج وتراجم کا کام کیا گیا ہے اور اللہ پاک کی رحمت اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظر عنایت سے امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عظیم فقہی شاہکار بہت جلد دنیائے عرب سے شائع ہوکر وہاں کے شیوخ، علماء اورمحققین کی مزید آنکھیں ٹھنڈی کرے گا، ان شاء اللہ عزوجل۔

آخر میں اخلاص وقبولیت کیلئے دعاجو اوردعاگو ہوں کہ اللہ کریم دعوتِ اسلامی کے اس چمن اور اس کے نگہبان شیخ طریقت امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہ العالیہ اور جملہ علما ومشائخ اہلسنّت کا سایہ اور شفقتیں تادیر قائم ودائم رکھے۔آمین بجاہ النبی الامین


مفتی محمداعجازولی خان رضوی رحمۃ اللہ علیہ

اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان(1) رحمۃ اللہ علیہ کےخاندان کے وہ افراد جنہو ں نے پاکستان ہجرت کی،ان میں سے ایک اہم شخصیت استاذالعلماء،مفتیِ اسلام،حضرت علامہ مفتی محمد اعجازولی خان رضوی صاحب بھی ہیں، انہوں نے پاکستان کے کئی شہروں میں درس وتدریس کی خدمات سرانجام دیں،ہزاروں طلبگارانِ علم کو علم ومعرفت سے سیراب کیا، ذیل میں ان کے کچھ حالات ذکرکئے جاتے ہیں :

اعلیٰ حضرت سے رشتہ

مفتی اعجازولی خان صاحب کا نسب اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پڑداداحضرت حافظ کاظم علی خان صاحب (2) سے مل جاتا ہے۔نسب نامہ یہ ہے : مفتی محمداعجازولی خان بن مولانا سردارولی خان بن حکیم ہادی علی خان بن رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان بن حافظ کاظم علی خان۔ (3) والدہ کی جانب سے اعلیٰ حضرت رشتے میں آپ کے نانا ہیں کیونکہ مفتی صاحب کی والدہ کنیز فاطمہ اعلیٰ حضرت کی ہمشیرہ حجاب بیگم کی بیٹی ہیں ۔(4)

والدین کا ذکرِخیر

مفتی اعجازولی خان صاحب کے والدِمحترم مولانا سردارولی خان صاحب کی پیدائش1302ھ مطابق 1885ء کو بریلی شریف میں ہوئی ،انھوں نےطویل عمرپائی اور 6صفر1395ھ مطابق18فروری 1975ء کو پیرجوگوٹھ میں انتقال فرمایا۔آپ سراج العارفین مولانا سیّدابوالحسین احمد نوری(5) (سجادہ نشین آستانہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ شریف یوپی ہند) کے مرید تھے۔ مولانا سردارولی خان صاحب کی زوجہ ٔ محترمہ کنیزفاطمہ نیک صالحہ خاتون تھیں، انکی پیدائش1297ھ مطابق 1880ء کو بریلی میں ہوئی اور وصال 1377ھ مطابق1957ء کو پیرجوگوٹھ میں ہوا،دونوں کی قبورمفتی تقدس علی خان صاحب کے مزارکے قریب پیرجوگوٹھ قبرستان (ضلع خیرپورمیرس،سندھ)میں ہیں۔(6) مولانا سردارولی خان صاحب کے چاربیٹے مشہور عالم دین مفتی تقدس علی خان، مفتی اعجازولی خان،عبدالعلی خان،حافظ مقدس علی خان اوردوبیٹیاں محبوب فاطمہ زوجہ شریف محمدخان اورحمیدفاطمہ تھیں۔(7) مولانا سردارولی خان صاحب نے اپنی اہلیہ کے ساتھ 1330ھ مطابق 1912ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔ مفتی اعجازولی صاحب بیان کرتے ہیں : 1330ھ میں میرے والدین کریمین حج کے عازِم ہوئے ، والدہ صاحبہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئیں(8) اور اجازت چاہی، اعلیٰ حضرت نے فرمایا:’’میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں‘‘ پھر فرمایا :’’ میں سچ کہتا ہوں کہ میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں ‘‘ والدہ صاحبہ اس کے بعد حج پر روانہ ہو گئیں۔حطیم شریف میں ایک شب والدہ صاحبہ نفل پڑھ رہی تھیں کہ لوگوں کا ہجوم ہوگیا اور ساتھ والے سب جدا ہو گئے ۔ والدہ صاحبہ بہت گھبرا ئیں اور خیال کیا کہ اعلیٰ حضرت نے فرمایا تھا کہ میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں ، اب اور کون سا وقت آئے گا جس میں مدد فرمائیں گے۔لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ راستہ ملنا دشوار تھا کہ اعلیٰ حضرت کو دیکھا ، آپ نے کچھ عربی میں فرمایا جس کا مطلب معلوم نہ ہو سکا لیکن اس قدر ہجوم کے باوجود راستہ ایسا مل گیا کہ والدہ صاحبہ بآسانی وہاں سے چلی آئیں اور دوسرے دروازہ سے جب حرم شریف کے باہر آئیں تو والدصاحب بھی مل گئے اوراعلیٰ حضرت غائب ہو گئے بریلی آکر عرض کیا تو اعلیٰ حضرت نے سکوت فرمایا۔(9)

پیدائش والقابات

مفتی صاحب 11 ربیع الآخر 1332ھ مطابق 20 مارچ 1914ء میں بریلی شریف میں پیدا ہوئے ۔(10) عقیقہ کی تقریب میں آپ کانام محمدرکھا گیا ،اعجازولی خان عرف قرارپایا ۔(11) آپ اپنا نام اس طرح لکھا کرتے تھے:فقیرقادری محمد اعجازالرضوی عفی عنہ۔(12) آپ کے القابات فخرالاساتذۃ الاعلام،فاضل جلیل،نامورمفتی ،فقیہ المفخم ،شیخ الفقہ ،شیخ الحدیث اوراستاذالعلماوغیرہ ہیں ۔

بچپن اوراعلیٰ حضرت سے تَلَمُّذ(شرفِ شاگردگی)

25شعبان المعظم 1336ھ مطابق 5جون 1918ء کورسم بسم اللہ میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضا نےبسم اللہ شریف پڑھا کر باقاعدہ تعلیم کا آغازفرمایا ،قرآن مجید آپ نے حافظ عبدالکریم قادری صاحب(13) سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی ، حفظ القرآن کی تکمیل حافظ عبدالقادر بریلوی صاحب(14) سے کی ۔(15) مفتی اعجازولی خان صاحب کو بچپن کے تقریبا ً آٹھ سال تک اعلیٰ حضرت کی قربت حاصل رہی ،آپ اعلیٰ حضرت سے اس قدرمانوس تھے کہ اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد بھی اعلیٰ حضرت کے مزارپر حاضرہوکر اپنی مشکلات بیان کردیا کرتے تھے ؛چنانچہ آپ کے بیان کردہ دوواقعات ملاحظہ فرمائیے : ٭ میرا چھوٹا بھائی(حافظ مقدس علی خان ) جومجھے بہت ہی زیادہ پیارا ہے چیچک میں مبتلا ہوا ۔ ایک شب میں استاذ ی مولانا امجدعلی اعظمی صاحب(16) کے مکان پر تھا اور مولوی عبدالمصطفیٰ صاحب(17 ) سے لپٹ کراسی غم میں رو رہا تھا کہ دل میں خیال آیا کیوں نہ اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کروں، آستانہ پر حاضر ہوا اور رو رو کر عرض کیا، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں حکم ہوا ’’اچھا ہوجائے گا۔‘‘فوراً صحت ہو گئی ۔(18) ٭ 4مئی 1935ء(مطابق 30محرم 1354ھ) کو بدایون اور گاؤں کے درمیان دس آدمیوں نے والد صاحب قبلہ پر حملہ کیا اور بہت زیادہ چوٹیں آئیں ۔ صبح 5مئی کو مظفر حسین نے کچھ ایسے الفاظ میں والد صاحب کی حالت بیان کی کہ نہ صرف میں بلکہ تمام لوگ گھبراگئے ۔ فوراً آستانۂ رضویہ پر حاضر ہوا اور عرض کیا ۔ حکم ہوا کہ ’’ اچھے ہیں ‘‘ بدایون جا کر دیکھا تو جیسی حالت بتائی تھی اس سے بہت کم تھی ، 20،22دنوں میں صحت ہو گئی اگر چہ ضربات 18،19تھیں ،مگر صدقے اس کریم کے کہ جس نے صحیح و سالم کر دیا ۔ (19)

دارالعلوم منظراسلام میں داخلہ

مفتی اعجازولی خان صاحب جب کچھ بڑے ہوئے تو دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف(20) میں داخلہ لے لیا،ابتداًتا متوسطات کتب درس نظامیہ اپنے بڑے بھائی مفتی تقدس علی خان(21) ،حضرت مولانا مختاراحمدسلطانپوری ثم بریلوی(22) اور حکیم الاسلام مفتی محمدحسنین رضا خان بریلوی(23) سے پڑھیں،شرح جامی مفتی اعظم ہند محمدمصطفی رضا خان صاحب(24) اور تفسیرجلالین اپنے ماموں زادبھائی مولانا سردارعلی خان عزومیاں بریلوی ثم ملتانی (25) سے پڑھی۔(26)

مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں میں داخلہ

درسیات کی تکمیل کے لیےصدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی(27) کے پاس مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڑھ ،یوپی ہند (28) میں تخمیناً محرم 1356 ھ مطابق مارچ1937ء کو حاضرہوئے، شعبان1356ھ مطابق اکتوبر 1937ء کو سندتکمیل وسندحدیث حاصل کی۔یہاں آپ کو صدرالشریعہ کے شاگردحضرت مولاناحافظ قاری غلام محی الدین رضوی شیری صاحب سے شرفِ تلمذ(شاگردبننے کی سعادت )حاصل ہوا۔(29)

مفتیِ اعظم ہند اورحجۃ الاسلام سے حصولِ سندِحدیث

مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں سے فارغ التحصیل ہوکربریلی شریف آئے تومفتی اعظم ہند مفتی محمدمصطفی رضا خان صاحب سے سندِ حدیث کی درخواست پیش کی، مفتی اعظم ہند نے آپ کو 1356ھ مطابق 1937ھ کو سندِ حدیث عطا فرمائی، بعدازاں حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب(30) نے تقریباً 8ذوالحجہ 1356ھ مطابق9فروری 1938ء کو سندِحدیث عطافرمائی ،اسی عرصے میں الہ آباد یونیورسٹی میں فاضل دینیات کا امتحان دیا اورکامیاب ہونے پرفاضلِ دینیات کی ڈگری حاصل کی ۔ (31)

علمِ جفراورفنِ استخراج میں مہارت

مفتی اعجازولی خان صاحب جیدعالم دین،بہترین مدرس،فقیہ جلیل اورمعقول ومنقول کے جامع تھے ۔اسلامی علوم بالخصوص فقہ وحدیث میں کامل دسترس رکھتے تھے ،آپ کو علم جفر(32) اورفنِ تاریخ گوئی(33) سے بھی دلچسپی تھی ۔مولانا محمدابراہیم خوشترقادری صاحب (34) تحریرفرماتے ہیں :امام احمدرضا کے خاندان میں آپ کو علم جفرسے قدرے مناسبت تھی۔اس کا مشاہدہ راقم الحروف نے خود کیا ہے۔ آپ نے چندسال پہلے ہی مجھے اپنے وصال کی خبردی،پھرمیں نے رمضان سے پہلے اس کی تصدیق چاہی کہ آپ کی پیشگوئی کے مطابق رحلت آپ کی رمضان میں ہوگی ،ہنوزبرقرارہے؟ آپ نے جواباًارشادفرمایا،اب قدرے تبدیلی واقع ہوگئی ہے۔اب یہ سانحہ شوال میں ہوگا ۔مزیدفرماتے ہیں :تحدیثِ نعمت کے طوپر لکھ رہاہوں کہ تاریخِ استخراج کے فن میں حضرت فقیہِ عصرسے میں نے استفادہ کیا ہے۔(35)

بیعت و خلافت

اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان صاحب نے آپ کو رسم بسم اللہ کے موقع پر 25شعبان 1336ھ مطابق 5جون 1918ء کوسلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں داخل فرمایا،حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا خان صاحب نے آپ کو 8ذوالحجہ 1356ھ مطابق9فروری 1938ء کو سلسلہ قادریہ رضویہ حامدیہ کی خلافت عطافرمائی۔(36) 7رجب1383ھ مطابق 24نومبر1963ءکو سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازسیدحسن سنجری(37) کے دربارِگہربارمیں مفتی اعظم ہندعلامہ محمد مصطفی رضا خان نوری صاحب نے آپ کو سلسلہ قادریہ رضویہ نوریہ کی خلافت عطافرمائی ، آپ جیدعالم دین ،صوفی کامل اوراورادووظائف کے پابندتھے ،پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب تحریرفرماتے ہیں :

مفتی صاحب قبلہ علمی مصروفیت کے ساتھ ساتھ خانقاہِ بریلی کے ان تعویذات اوروظائف کے مجازتھے جوشمع شبستان رضا میں درج ہیں ۔ان کی وفات کے بعد دارالعلوم نعمانیہ لاہور(38) میں آج تک ان حضرات کے خطوط آتے ہیں، جو ان سے اپنے مصائب کا روحانی علاج تلاش کرتے تھے ،مزیدتحریرفرماتے ہیں ،مفتی اعجازولی خان 1965ء کی جنگ کے دوران میرے ساتھ اگلے مورچوں پر گئے۔دوسرے لفظوں میں مَیں ان کے ساتھ اگلے مورچوں پر گیا۔ہمارے ساتھ بڑے نامورعلماء اہل سنت کا ایک وفدتھا ۔اگرچہ ہرعالم دین نے اپنے اپنے اندازمیں غازیانِ صف شکن کے سامنے اسلامی جہاد کی فضیلت پرگفتگوکی مگرمفتی اعجازولی خاں مرحوم کا اندازروحانی تھا ،جسے موت وحیات کے درمیان کھڑے جوانوں نے بے حدپسندکیا۔آپ نے بعض نوجوانوں کوایسے وظائف بھی بتائے ،جسے سپاہی سے لے کرکمانڈرتک،ہرایک نے حاصل کرنے میں دلچسپی لی۔(39) جب آپ جامعہ محمدی شریف ،بھوانہ ،ضلع چنیوٹ،(40) میں شیخ الحدیث تھے تو اس دورمیں آپ نے شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمدقمرالدین سیالوی (41) رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں خلافت کا شرف حاصل کیا ۔ (42)

ہند میں تدریس

مفتی اعجازولی خان صاحب نےاسلامی علوم کی تحصیل کے بعد پاکستان ہجرت تک آپ نے تقریبا دس سال ہند میں گزارے ٭آپ نے تخمینا ً 1357ھ مطابق 1938ء تا 1362ھ مطابق 1943ء تک تقریبا چارسال این بی ہائی اسکول بریلی شریف میں ٹیچنگ کی ۔٭اس کے بعد دارالعلوم مظہراسلام بریلی شریف (43) اوردارالعلوم منظراسلام بریلی شریف میں معقولات کی تدریس میں دوسال مدرس رہے ٭اس کے ساتھ مفتی اعظم ہند کی سرپرستی میں رضوی دارالافتا ء بریلی شریف میں فتاویٰ نویسی کرنے لگے ٭ (غالباشوال)1364ھ مطابق (ستمبر)1945ء کو آپ مدرسہ منہاج العلوم پانی پت (44) تشریف لے گئے وہاں آپ نے ایک سال فرائض تدریس سرانجام دینے کے بعدآپ دارالعلوم منظراسلام واپس تشریف لے آئے اور پڑھانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ ٭ہند میں اس دورِ خدمت دین کا اختتام 6صفر 1367ھ مطابق 20دسمبر1945ء کو پاکستان ہجرت کی صورت میں ہوا،اس چھ سالہ تدریسِ درسِ نظامی میں کثیر طلبۂ کرام نےآپ سے استفادہ کیا ۔(45)

جمیعت خدّام الرضا ،بریلی کی رکنیت

مفتی اعجازولی خان صاحب نے قیام بریلی کے دوران جمیعت خدام الرضا میں شمولیت اختیارکی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ محدث اعظم پاکستان مولانا سرداراحمدقادری چشتی صاحب(46) نے 1352ھ مطابق 1933ء کو دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہوکراس میں تدریس شروع فرمائی۔ تواس زمانے میں آپ نے دیگرعلماسے مل کر جمیعت خدام الرضا بریلی بنائی ،جس کا مقصدبذریعہ تحریروتقریرمذہب حقہ اہل سنت وجماعت کی تبلیغ واشاعت اورجلسے جلوسوں کا انتطام کرناتھا ،علامہ سرداراحمدصاحب اس کے صدر،مفتی اعجازولی خان،مفتی وقارالدین قادری اوردیگرعلمااس کے اراکین منتخب ہوئے، اس کے تحت مفتی اعجازولی خان صاحب نے اپنا ایک اشتہار بنام’’ احقاقِ حق وابطال باطل‘‘ 29رجب1355ھ مطابق 16اکتوبر1936ء کو شائع کروایا جو محدث اعظم پاکستان کے کتب خانے میں موجودہے ۔(47)

جماعت رضائے مصطفیٰ میں حصہ

مفتی اعجازولی خان صاحب کل ہندجماعت رضائے مصطفی (48) کے’’ شعبہ اشاعتِ کتب‘‘ سے منسلک تھے چنانچہ مولانا شہاب الدین رضوی صاحب (49) تحریرفرماتے ہیں :مولانا اعجازولی خاں بریلوی نے بھی اشاعتِ کتب میں حصہ لیا اور جماعت کا کچھ باراپنے سرپرلیا۔پوسٹروغیرہ انہیں کے اہتمام سے شائع ہوتے تھے۔(50)

تحریکِ پاکستان میں فعال کردار

مفتی اعجازولی خان صاحب مسلمانوں کے حالات پر بھی گہری نظررکھتے ،حالات حاضرہ سے باخبررہتے اورمسلمانوں کی خیرخواہی کے لیے اہم اقدامات میں بھرپورحصہ لیتےتھے ٭ 1356ھ مطابق1937ء میں آپ مسلمانوں کےحقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت ونصرت کے لیے بیانات کرنے لگے ٭اہل سنت کی عظیم تنظیم ’’آل انڈیا کانفرنس‘‘(51) کاعظیم الشان اجلاس جمادی الاولیٰ 1365ھ مطابق اپریل1946 ء کو اترپردیش کے شہر بنارس میں ہوا جس میں تقریباپانچ سومشائخ عظام،سات ہزارعلمائے اعلام اوردولاکھ سے زائدسنی عوام نے شرکت کی ، اس اجلاس میں مفتی اعجازولی خان صاحب بھی اپنے رفقاکے ساتھ بھرپوراندازمیں شریک ہوئے۔اس میں پاکستان کے حق میں ایک تاریخ فتویٰ بعنوان’’آل انڈیا سنی کانفرنس کے مشاہیرعلماء ومشائخین کا متفقہ فیصلہ ‘‘شائع ہوا،آپ نے اس کی بھرپورحمایت کی۔(52) ٭جب 13صفر1359ھ مطابق23مارچ 1940ء کو لاہور(53) میں قراردادِ پاکستان(54) منظور ہوئی تو آپ اس سے نہ صرف متفق تھے بلکہ اس کی تائیدمیں رضوی دارالافتاء بریلی شریف سےایک فتاویٰ جاری فرمایا ٭جب تحریک پاکستان اپنے جوبن پرتھی تو آپ نے 1945 ء اور1946ء میں مشرقی پنجاب کا دورہ کرکے پاکستان کے حق میں جلسے کئے، لوگوں کو تحریک پاکستان میں حصہ لینے کے لیے تیارکیا ،اس سلسلے میں پیداکئے جانے والے شکوک و شبہات کودورکیا،مخالفین کے دلائل کا بہترین جواب دیا ۔چنانچہ اکابرِتحریک پاکستان میں ہے:

(آل انڈیا کانفرنس میں شرکت کے بعدمفتی صاحب )حصول پاکستان کی منزل کوپانے کے لیے سربکف ِ میدان میں کودے،جگہ جگہ مسلم لیگ کی حمایت میں دورے کئے۔ پنجاب کے اکثراضلاع میں مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا۔(55)

٭23تا25صفرالمظفر 1365ھ مطابق27تا29جنوری 1946ء کو آپ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پچیسویں عرس کےموقع پر بریلی شریف میں پاکستان کےحق میں قراردادمنظورکی گئی،(56) اس میں آپ موجودتھے اورآپ نے اس قراردادکی مکمل حمایت کی ، علمائے اہل سنت کی کوششوں اورعوام اہل سنت کی حمایت سے ہی ہمیں وطن عزیز پاکستان جیسی عظیم نعمت حاصل ہوئی ہے۔

بعدِہجرت تدریس

مفتی اعجازولی خان بہترین مدرس تھے آپ نے تدریسی دنیا میں بڑانام پیداکیا۔بریلی شریف،جھنگ،جہلم،لاہورمیں کتبِ معقول ومنقول کی تدریس میں بڑی شہرت حاصل کی۔شیخ الحدیث والفقہ کی حیثیت سے تو آپ کی ذات مُسلَّم تھی،پاکستان میں آپ کی تدریس زندگی کی کچھ تفصیل ملاحظہ کیجئے:

٭ 6صفر1367 ھ مطابق 20دسمبر1947ء کو آپ نے پاکستان ہجرت کی اورجامعہ محمدی شریف (57) بھوانہ (ضلع چنیوٹ،پنجاب) میں تدریس کا آغازکیا ، 1370 ھ مطابق 1951ء تک آپ یہاں رہے ،بطورمدرس ونائب شیخ الحدیث آپ نے وہاں تین چارسال پڑھایا ۔ (58) آپ کے ایام تدریس میں وہاں فاضل عربی اور دورۂ حدیث کا آغازہوا۔(59)

٭پھرآپ نے 1370 ھ مطابق 1951ء تا1373ھ مطابق 1954ء کی درمیانی مدت میں دارالعلوم اہل سنت و جماعت جہلم (60) میں تدریس فرمائی۔ اس مدرسے میں استاذالحفاظ حافظ محمدسعید کاشمیری صاحب (61) اور استاذالعلما ء مفتی قاضی غلام محمودہزاروی صاحب(62) بھی مدرس رہے ہیں ۔(63)

٭شوال1373ھ مطابق جون 1954ء میں آپ جامعہ نعیمیہ لاہور(64) میں بطورشیخ الحدیث و الفقہ تشریف لے آئے، تقریباً چھ سال بحسن وخوبی یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔٭اسی دوران آپ نے1373ھ مطابق 1954ء میں حضرت داتاگنج بخش سیدعلی ہجویری کے دربارگہربارکے قریب جامعہ گنج بخش (65) قائم فرمایا،اس جامعہ کے قیام میں حضرت سیدمحمدمعصوم شاہ مالک نوری کتب خانہ(66) نے دل کھول کرامداددی ۔حضرت مفتی اعجازولی خاں رضوی رحمۃ اللہ علیہ صبح کو داتاصاحب کی مسجدمیں درسِ قرآن دیتے اور جامعہ گنج بخش کے طلبہ کو پڑھاتے ۔اس مدرسہ نے آہستہ آہستہ اپنا نام پیداکرلیا ۔آپ نے یہاں سے ایک ماہنامہ رسالہ گنج بخش جاری کیا جوکچھ عرصہ چل کردم توڑگیا ۔(67) ٭1375ھ مطابق 1956ء میں مرکزی جامع مسجدمحلہ اسلام پورہ لاہور(68) میں خطیب مقررہوئے ،وہاں آپ نے مدرسہ حامدیہ رضویہ (69) کی بنیادرکھی ،اسے مدرسے اورجامعہ گنج بخش کے مہتمم آپ خود تھے۔

٭1379ھ مطابق1960ء میں انتظامیہ کے اصرارپر آپ اہل سنت کے قدیم دارالعلوم جامعہ نعمانیہ لاہور (70) میں شیخ الحدیث مقررہوئے، آپ نےیہاں تیرہ سال پڑھایا ، جامعہ نعمانیہ کے اس دورمیں وہ عروج نہیں تھا جوپہلے سالوں میں اسے حاصل ہواتھا بحرحال چندباتیں پیش خدمت ہیں: ٭شوال 1384ھ مطابق فروری 1965ءمیں مفتی اعجاز ولی خان صاحب جامعہ نعمانیہ کے شیخ الحدیث اورمولاناسیدمحمداشرف کاظمی صاحب(71) صدرمدرس تھے ۔(72) ٭1389ھ مطابق 1969ء میں مفتی اعجازولی خان (صدرمدرس)انجمن نعمانیہ کی گیارہ رکنی مجلس شوریٰ کے رکن بھی تھے (73) ٭ 1390ھ مطابق 1970ء میں بھی مفتی اعجازولی صاحب صدرمدرس تھے اس سال دورۂ حدیث کے 6،درجہ عربیہ کے15 اوردرجہ حفظ کے 21طلبہ مستقل مدرسے میں تھے ۔(74)٭رمضان 1390ھ مطابق نومبر 1970ء میں مفتی اعجازولی صاحب نے ماہ رمضان میں دورۂ تفسیرقرآن کروانے کا اعلان کیا گیا ،مختلف مدارس کے 28طلبہ نے داخلہ لیا، اسی سال دستارِ فضیلت کا جلسہ بھی ہواجو بوجوہ کئی سالوں سے نہیں ہواتھا،اس جلسے میں ان تمام سالوں میں فارغ التحصیل ہونے ان طلبہ کی دستاربندی ہوئی ۔(75) ٭صفر1392ھ مطابق 2اپریل 1972ء میں انجمن نعمانیہ کا اجلاس ہوا جس میں اراکین انجمن،اساتذہ اورشہرکے دیگرعلمانے شرکت کی، جامعہ نعمانیہ کی حالتِ زارپرغورہوا،مفتی اعجازولی خاں صاحب نے اپنی جیبِ خاص سےجامعہ نعمانیہ کو رقم دی ،مولاناسید غلام یسین شاہ صاحب(76) نے چندہ جمع کرکےجامعہ نعمانیہ کو دیا اوراس اجلاس میں مولانا عبدالستارخاں نیازی صاحب(77) نے بھی بیان کیا ۔(78) ٭رجب 1393ھ مطابق ۲۶اگست ۱۹۷۳ء میں مفتی صاحب نے بطور شیخ الحدیث یہاں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔(79) ٭17رمضان 1393ھ مطابق 14اکتوبر1973ء کو انجمن نعمانیہ کی مجلس شوریٰ کا مشورہ ہوا،اس میں مفتی اعجازولی صاحب کی جمیعت علمائے پاکستان کی مصروفیت کا ذکرآیا جس کی وجہ سے آپ کی دارالعلوم کی جانب توجہ کم ہوگئی تھی چنانچہ فیصلہ ہواکہ مفتی صاحب کو تدریسی فرائض سے سبکدوش کردیا جائے ،مفتی صاحب اس اجلاس میں موجودتھے چنانچہ آپ نے شوریٰ کے اس فیصلے کوتسلیم کرلیا اور 19شوال 1393ھ مطابق 15نومبر1973ء کو مستعفی ہوگئے ۔(80)

٭اس کے بعدجامعہ نظامیہ رضویہ (81)کے شیخ الحدیث بنائے گئے، صرف دودن تشریف لائے اورمرض الموت میں مبتلاہوگئے اوریہاں کے طلبہ آپ سے مستفیض نہ ہوسکے ۔(82)

پاکستان میں مختلف تحاریک میں حصہ

مفتی اعجازولی خان بہترین عالم دین،جید مدرس درس نظامی،صوفی باصفااورپرچوش مجاہدتھے ٭آپ نے 1953ء میں ہونے والی تحریکِ ختمِ نبوت میں بھرپورحصہ لیا ،جس کی وجہ سے(غالباجمادی الاخریٰ 1372ھ مطابق مارچ1953ء سے) تقریباساڑھے تین ماہ سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربندرہے ٭پاکستان میں آل انڈیاسنی کانفرنس کو جمیعت علمائے پاکستان کا نام دیاگیا ،شروع سے آپ اس کے معاون رہے،علامہ ابوالحسنات سیدمحمداحمدقادری صاحب کے دورِ صدارت میں مجلس عاملہ کے رکن ،دورِصدارتِ علامہ عبدالحامدبدیونی میں مغربی پاکستان کے صدر،دورِصدارتِ خواجہ قمرالدین سیالوی میں خازن بنائے گئے ،ربیع الاول1391ھ مطابق مئی 1971ءمیں صوبہ پنجاب کے صدرمنتخب کئے گئے ۔(83) پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب(84) تحریرفرماتے ہیں: مفتی اعجازولی خاں مرحوم اپنی تدریسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ جمیعت علماء پاکستان کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھتے تھے۔آپ جمیعت کے مختلف عہدوں پر منتخب ہوئے اورزندگی بھراس دینی وسیاسی جمیعت میں کام کرتے رہے۔انہیں اس سیاسی وابستگی کی وجہ سے کئی باراپنی ملازمت، امامت اورتدریسی فرائض سے محروم ہوناپڑامگروہ مستقل مزاجی سے اپنی راہ پرگامزن رہے ۔(85)

سیرت کے چندپہلو

مفتی اعجازولی صاحب علم وعمل کے جامع اورحسن اخلاق کے پیکرتھے، عوام وعلماسب سے تعلقات رکھتے،ان کی دینی ودنیاوی رہنمائی فرماتے، نیک اعمال پرابھارتے اور ان کی دنیاوآخرت بہتربنانے کی کوشش کرتے،آپ کے حسن اخلاق کے بارے میں پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب تحریرفرماتے ہیں :

مفتی اعجازولی خاں مرحوم ایک مقتدرعالم دین ہونے کے باوجودبڑے ملنسار،غمگساراوردوست نوازبزرگ تھے ۔وہ نہ کسی پرتنقیدفرماتے اورنہ کسی کی حرف گیری کرتے۔ عقیدہ کے پکے،دل کے سچے اورلوگوں سے پیارومحبت کے خوگرتھے ۔ مزیدتحریرفرماتے ہیں :مفتی اعجازولی خاں مرحوم بڑے خلیق انسان تھے۔مَیں ان کی انکساری اورحسن اخلاق سے اتنا متاثرتھا کہ ایک دن میں نے ازراہ ِتفنن کہہ دیا ،مفتی صاحب !مجھے ڈرہے کہ آپ کو راستہ میں ابلیس کھڑاکرکے سلام کرے تو آپ اسے بھی وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہہ دیں گے ۔فرمانے لگے ،’’نہیں !اتنا بھی خلیق نہیں ہوں ،لاحول ولاقوۃ الاباللہ کا کوڑا مارکراسے بھگادوں گا۔‘‘ مفتی صاحب مرحوم علماء اہل سنت کی محبوب ومرغوب شخصیت تھے ۔تمام علماء کرام ان سے محبت کرتے تھے۔ ان علماء کرام کی علمی مجالس کے علاوہ انہیں حضرت علامہ سید ابوالبرکات(86) صدر نشین انجمن حزب الاحناف لاہورسے بڑی عقیدت تھی، وہ اپنا زیادہ وقت حضرت کی خدمت گزراتے۔(87) علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب(88) تحریرفرماتے ہیں :مفتی اعجازولی خان رحمہ اللہ تعالیٰ حسنِ اخلاق،ایثاروقربانی،حق گوئی، صاف دلی،بے نفسی ،حلم وبردباری ،قوتِ حافظہ ،مسائل فقہیہ کے استحضار،صلابتِ رائےاورتاریخ گوئی میں اپنی مثال آپ تھے ۔(89)

حضرت مولاناقاضی محمد مظفر اقبال رضوی صاحب(90)تحریرفرماتے ہیں :مفتی صاحب سلف کی زندگی کا بہترین نمونہ تھے۔ جو وہ کہتے تھے وہ کرتے بھی تھے۔ وہ منفی طرزِعمل سے ہمیشہ کنارہ کش رہے اور حکمت و تدبر و مثبت طریق کار کی تلقین کرتے تھے۔ وہ ایک معتبر عالم دین، ماہر فقہی اور مبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ حُسن اخلاق، ایثار و قربانی، حق گوئی، بے باکی، صاف دلی، سادگی، بے نفسی، علم و بردباری اور قوی الحافظہ جیسی علی صفات سے متصف تھے جوکہ ایک عالم کی عظمت کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ فتویٰ نویسی میں فیاض ازل نے اس قدر حصہ وافر عطا فرمایا تھا کہ مشکل سے مشکل جزئیات آپ کے نوک زباں رہتے اور قلم برداشتہ صفحۂ قرطاس پر منتقل فرما دیتے۔ فقہ میں آپ کو وہ بلند مقام حاصل تھا کہ علمائے وقت آپ کو فقیہہ العصر کے نام سے یاد کرتے۔ آپ فتویٰ نویسی میں سند کا درجہ رکھتے تھے۔ قوی الحافظہ اس قدر کہ قرآن و احادیث اور فقہا کی عبارات گویا آپ کے صفحات پر لکھی ہوئی تھیں۔ فی البدیہہ تاریخ گوئی میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ تالیف و تصنیف میں بھی آپ مہارت نامہ رکھتے تھے۔(91)

بزرگانِ دین سے عقیدت

مفتی اعجازولی خان صاحب کی تربیت جس خاندان اورماحول میں ہوئی ،وہ خوفِ خدا،عشقِ مصطفی ،محبتِ صحابہ واہل بیت اورعقیدتِ بزرگانِ دین سے مملوتھا ،یہی وجہ ہے کہ آپ ان خصوصیت سے مالامال تھے چنانچہ اکابرتحریک پاکستان میں ہے :بزرگان ِ دین سے بہت عقیدت تھی، یہی وجہ تھی کہ صوفیائے کرام کے حالات بیان کرنے میں انہیں خاصہ عبورحاصل تھا۔آپ کا دل عشق رسول سے سرشارتھا۔بےحدذہین،محنتی،صالح، خوش اخلاق، ملنسار،غیّورخوددار اور جسمانی طورپرتندرست وتواناتھے ۔اپنے تواپنے بیگانے بھی ان کے کمالات کے معترفت تھے:جُداجُداجواوصاف دیگرعلماء میں تھے،وہ سب کے سب اس عاشقِ خدامیں تھے ۔ (92)

تصنیف وتالیف

آپ میدانِ تدریس کے شاہسوارتھے، لیکن اس کے ساتھ آپ نے میدانِ تحریرمیں بھی قدم رکھا، آپ نے کثیرفتاویٰ اورکئی کتب پر مقدمےلکھے ،(93) آپ کی تصانیف یہ ہیں:

(1)تنویرالقرآن علیٰ کنزالایمان؛اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ شہرہ آفاق ترجمہ قرآن کنزالایمان پر حاشیہ ہے ،جس کاسن تصنیف 1368ھ مطابق 1949ءہے ،تیرہ پارے مکمل ہیں جن میں سے کئی طبع شدہ ہیں ۔(94)

(2)تکمیل الحسنات؛یہ پندرہ صفحات پرمشتمل رسالہ ہے جو علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کےفارسی رسالے تحصیل البرکات ببیان معنیٔ التحیات کا اردوترجمہ ہے ،اس کا موضوع فقہ ہے ،اسے نوری کتب خانہ لاہورنے شائع کیا ہے ،سن اشاعت معلوم نہ ہوسکا۔(95)

(3)سلوک المختارترجمہ کشف الاسرار ؛حضرت داتاگنج بخش سیدعلی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے فارسی رسالہ کشف الاسرارکا اردوترجمہ ہے جوچالیس صفحات پر مشتمل ہے اسے لاہوراستقلال پریس نے 1388ھ مطابق1969ء میں شائع کیا ہے ،اس کا موضوع بھی تصوف ہے ۔ (96)

(4)ترجمہ مکتوبات شیخ عبدالحق محدث دہلوی؛یہ مکتوبات فارسی میں ہیں ،انہیں اردوکے قالب میں ڈھالا گیا ہے، ان کا موضوع تصوف ہے۔(97)

(5)قانونِ میراث(6)تسہیل الواضح خلاصہ النحواضح۔ (98)

کتب کی ترویج واشاعت کی کوشش

مفتی اعجازولی خان صاحب صاحبِ مطالعہ ا ورصاحبِ تصنیف وتالیف تھے،یہی وجہ ہے کہ آپ مصنفین وناشرین کی اہمیت سے واقف اوران کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے چنانچہ پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب تحریرفرماتے ہیں : مَیں نے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی(99) کی کتاب ’’تکمیل الایمان ‘‘کا اردوترجمہ کیاتو کتاب چھپتے ہی سب سے پہلے (مفتی اعجازولی صاحب)آگےبڑھےاوربیس کتابیں خریدکرلوگوں میں تقسیم کرتے گئے ۔جب مجھے ’’مرج البحرین ‘‘کے ترجمہ کی سعادت حاصل ہوئی تو ابھی کتاب کی جِلدکی تزئین نہیں ہوئی تھی کہ بیس نسخے خریدکرلے گئے اوراسی رات ماڈل ٹاؤن میں حضرت محدث دہلوی کے سالانہ عرس کی تقریب میں لے جاکرعلماء میں تقسیم کرنے لگے۔یہ بات ان کی علم دوستی اورحضرت شیخ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے علمی کمالات کا اعتراف تھا ۔(100)مفتی اعجازولی صاحب کے مشورے سے ہی مولانا انوارالاسلام رضوی صاحب (101) نے1387ھ مطابق 1967ء میں گنج بخش روڈپر مکتبہ حامدیہ بنایا،اس مکتبہ حامدیہ نے علمائے اہل سنت کی کثیرکتب شائع کیں ۔(102)

تلامذہ (شاگرد)

ہند میں آپ کا زمانۂ تدریس 7 سال اورپاکستان میں تقریبا 26 سال پرمحیط ہے ،ان 33سالوں میں بلاشبہ کثیر علما نے آپ سےاستفادہ کیا چنانچہ اکابرتحریک پاکستان میں ہے: آپ کے شاگردوں کی تعدادتقریباً 5 ہزارہے جواس وقت آزاد کشمیر، مشرقی پنجاب،بھارت،انڈونیشیا،افریقہ،ماریشش،ایران،افغانستان ،امریکہ،کویت،دبئی،اورانگلینڈ میں دین اسلام کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں سےحضرت مولانامحمدابراہیم خوشترقادری (103)مفتی زمن حضرت مفتی سید محمد ریاض الحسن جیلانی رضوی حامدی(104)مولانا حکیم محمدمطیع الرضا قادری (105)،مولانا شاہ محمدنشتر(106) وغیرہ شامل ہیں ۔

شادی واولاد

آپ کی شادی اندازاً ربیع الاول 1357ھ مطابق اپریل 1938ء کواپنی چچازادبہن زہرہ بیگم بنت ابوالحسن خان بن احمدحسن خان بن مہدی علی خان سے ہوئی،آپ کی زوجہ کے پڑدادمہدی علی خان ،مفتی اعجازولی خان صاحب کے دادا حکیم ہادی علی خان کے بھائی تھے ،مہدی علی خان صاحب کی شادی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان صاحب کی سگی پھوپھی (یعنی امام العلماء مولانا رضاعلی خان صاحب(107) کی بیٹی اوررئیس الاتقیاءمولانانقی علی خان صاحب (108) کی سگی بہن)سے ہوئی، ان کے ایک بیٹےاحمدحسن خان تھےان کے دوبیٹے نورالحسن خان اورابوالحسن خان ہوئے ،یہ ابوالحسن خان صاحب مفتی اعجازولی خان صاحب کے سسر اوررشتے میں آپ کے چچالگتے ہیں۔(109) مفتی صاحب کو اللہ پاک نے ایک بیٹے محمد یوسف ظفر پاشا رضوی اورایک بیٹی تحسین فاطمہ سے نوازا،جو کراچی میں رہائش پذیرہیں۔ محمدیوسف ظفرپاشارضوی صاحب کی ولادت 17رمضان1365ھ مطابق 15اگست 1946ء کو بریلی میں ہوئی ،آپ بی ایس سی انجینئرلاہور، ماسٹر آف سائنس انجینئرنگ، یونیورسٹی پیٹرولیم، رومانیہ اورماسٹرآف بزنس ایڈمنسٹریشن، امریکن یونیورسٹی اینڈ لندن ہیں۔ کراچی میں آئل انڈسٹری کے ایگزیکٹو کے عہدے پرملازمت کرتے ہیں ،آپ کی شادی فوزیہ خاتون سے 2جون 1988ء کو ہوئی ۔ مفتی صاحب کی بیٹی تحسین فاطمہ کی ولادت جمادی الاخریٰ 1372 ھ مطابق مارچ 1953ء میں ہوئی، آپ ایم ایس سی فزکس گولڈ میڈلیسٹ ہیں ۔(110)

وفات ومدفن

شوال المکرم 1393ھ مطابق نومبر 1973ءکو آپ بیمارہوگئے ،آپ کو لاہورکے میوہسپتال میں داخل کروادیا گیا، علاج شروع ہوامگرمرض بڑھتا گیا، دوا کی مگر افاقہ نہ ہوااورمفتی صاحب اسی بیماری میں24 شوال 1393ھ/ 20 نومبر 1973ءکو میوہسپتال لاہور میں رات اڑھائی بجے وِصال فرماگئے، نمازجنازہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ سیدابوالبرکات احمدقادری صاحب نے پڑھائی ۔(111) تقریبا ًپچاس ہزارافرادنے آپ کےجنازے میں شرکت کی۔(112) آپ کی خواہش کے مطابق میانی قبرستان لاہور میں دفن کیا گیا ۔(113)

مفتی اعجازولی صاحب کا مزار

راقم الحروف برادرِ اسلامی حاجی محمد ارشدعطاری صاحب (114)کے ہمراہ مفتی صاحب کے مزارپر حاضری کا شرف حاصل کرچکا ہے ۔لاہورمیں ملتان روڈ اورفیروزپورروڈ کے درمیان بہاولپورروڈ ہے جوچوبرجی سے مزنگ جاتے ہوئے میانی قبرستان کے اندرسے گزرتی ہے،اگرہم چوبرجی ملتان روڈ کی جانب سے آئیں تو بائیں طرف غازی علم الدین شہید(115) کے مزارکا بورڈ نظرآتاہے اس سےآگے بہاولپورروڈ پر ہی آئیں تو واصف علی واصف کے مزارسے پہلے بائیں جانب برلب روڈ بالمقابل مزار مہر محمد صوبہ(116) مولانا غلام محمدترنم (117) اورمولانامفتی سید غلام معین الدین نعیمی (118) کے مزارات ہیں ان دونوں کے سرہانے یعنی جانبِ شمال چندقدم چلنے کے بعدمفتی اعجازولی خان صاحب کا مزار ہے ۔(119) مزارکے کتبے پرآپ کا نام ان الفاظ کے ساتھ ہے : استاذالعلمافقیہ العصرحضرت مفتی محمداعجازولی خان رحمۃ اللہ علیہ،شیخ الحدیث دارالعلوم انجمن نعمانیہ لاہوروجامعہ نظامیہ رضویہ لاہورومہتمم مدرسہ حامدیہ رضویہ وخطیب جامعہ حامدیہ رضویہ عمرروڈ اسلام پورہ ۔ اس کے بعد مفتی محمدابراہیم خوشترقادری صاحب کے لکھے ہوئے شعرکنداہیں:

رخصت ہواجہان سے یہ کوئی باکمال

بوجھل ہوئی زمین توفلک غم سے ہے نڈھال

عقبیٰ کی فکردین کا جس کو رہا ملال

"بادابخیرعاقبت"اس کا سن ِ وصال (120)

سب سے نیچے لکھا ہے منجانب بیٹا:ظفرپاشارضوی

حواشی ومراجع

(1) اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ مطابق6جون 1856ءکو بریلی شریف (یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ مطابق28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،فقیہ اسلام ،محدث وقت ،مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم،استاذالفقہاومحدثین ،شیخ الاسلام والمسلمین ،مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔( حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(2)حافظ کاظم علی خان ،درباراودھ کی طرف سے بدایون کے تحصیل دار(سٹی مجسٹریٹ)تھے ،دوسوفوجیوں کی بٹالین آپ کی خدمت میں رہتی تھی ،آپ کو آٹھ گاؤں معافی جاگیرمیں ملےتھے ، مال ومنصب کے باوجودآپ کا میلان دین کی جانب تھا،آپ حافظ قرآن اورحضرت علامہ شاہ نورالحق قادری رازقی فرنگی محلی (متوفی 1237ھ مطابق1882ء)کے مریدوخلیفہ تھے ،ہرسال بارہ ربیع الاول کو محفل میلادکیا کرتےتھے جوخانوادہ رضویہ میں اب بھی ہوتی ہے۔(تجلیات تاج الشریعہ ،83،84)

(3)مفتی اعجازولی خان کا تذکرہ جن کتابوں میں ہے ان میں سے بعض میں اعلیٰ حضرت کے دادامولانا رضا علی خان کوحکیم ہادی علی خان کاوالدلکھا گیا ہے جوکہ درست نہیں ،مفتی اعجازولی خان صاحب کے دادا حکیم ہادی علی خان ،امام العلما مولانا رضا علی خان صاحب کے بھائی رائیس الحکماءحکیم تقی علی خان کے بیٹے ہیں ۔

(4) حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ کراچی،16۔مزیدمعلومات کے لیے راقم کا مقالہ تلمیذ اعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان ایک عہدسازشخصیت کا مطالعہ فرمائیں ۔

(5)سِراجُ العَارِفِین حضرت مولانا سیّد ابوالْحُسَین احمد نُوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ عالِمِ دین،شیخِ طریقت اورصاحِبِ تصانیف ہیں۔1255ھ مطابق1840 ءمیں پیدا ہوئے اور 11رجب 1324ھ مطابق31اگست 1906ءمیں وِصال فرمایا۔ مزارِ پُراَنوار مارہرہ شریف (ضلع ایٹہ یو پی) ہِند میں ہے۔ ”سِرَاجُ الْعَوَارِفِ فِیْ الْوَصَایَا وَالْمَعَارِفِ“ آپ کی اہم کتاب ہے۔(تذکرۂ نوری، ص 146،275،218)

(6) حیات مفتی تقدس علی خان ،تحریک اہل سنت کراچی،5 ۔

(7)حیات مفتی تقدس علی خان ،تحریک اہل سنت کراچی،5 ، ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص57،حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ کراچی،16۔

(8)اعلیٰ حضرت آپ کے سگے ماموں یعنی محرم تھے کیونکہ آپ اعلیٰ حضرت کی ہمشیرہ حجاب بیگم کی بیٹی تھیں ۔ حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ کراچی،16۔

(9)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص885 ۔

(10)تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص 63-65

(11)تذکرہ جمیل ،240

(12)مقالات رضا ،1/72

(13)یہ بریلی شریف کے رہنے والے اوراعلیٰ حضرت کے مرید تھے ،مزید حالات نہ مل سکے ۔

(14)ان کے حالات سے بھی آگاہی نہ ہوسکی ۔

(15)تجلیات تاج الشریعہ ،96

(16)صاحب ِ بہارِ شریعت صدرُالشّریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ولادت 1300ھ مطابق 1883ء کو مدینۃ العُلَماءگھوسی (ضلع مؤ،یوپی)ہند میں ہوئی اور 2 ذیقعدہ1376ھ مطابق31مئی 1957ء کووصال فرمایا،مزارمبارک گھوسی میں ہے۔ آپ جیّدعالم ،بہترین مفتی ،مثالی مدرّس،متقی وپرہیزگار ،استاذالعُلَماء،مصنفِ کتب وفتاویٰ ، مؤثرشخصیت کے مالک اوراکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔اسلامی معلومات کا انسائکلوپیڈیا بہارِ شریعت آپ کی ہی تصنیف ہے۔(تذکرہ صدرالشریعہ،5، 41وغیرہ)

(17)شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفی الازہری بن مفتی امجدعلی اعظمی کی ولادت محرم 1334ھ مطابق1918ءکو بریلی شریف میں ہوئی اورکراچی میں 16ربیع الاول 1410ھ مطابق 18،اکتوبر1989ءکو وصال فرمایا ،دارالعلوم امجدیہ کے مشرقی جانب مزارہے ۔آپ جیدعالم دین ،فاضل جامعۃ الازہرمصر،نائب شیخ الحدیث جامعۃ الاشرفیہ مبارکپور،شیخ الحدیث دارارالعلوم کراچی اورسابقہ ممبرقومی اسمبلی پاکستان تھے ۔(سیرت صدرالشریعہ ،224تا226)

(18)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ مطبوعہ لاہور ص883۔

(19)حیات اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص 884۔

(20) دارالعلوم (مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظراسلام بریلی شریف عالمی شہرت یافتہ اسلامی درس گا ہ ہے جسے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں(غالباماہ شعبان المعظم) 1322ھ مطابق اکتوبر1904ء میں اسے قائم فرمایا ، اس مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت ، سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم برادراعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے حفاظ قرآن، قراء، عالم اور فاضل گریجویٹ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ہے۔(صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132)

(21) تِلْمیذِ اعلیٰ حضرت، مفتی تَقدُّس علی خان رَضَوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی، عالِمِ باعمل، شیخُ الحدیث اور اُستاذُ العُلَما ہیں۔ رجب المرجب 1325ھ مطابق اگست 1907ء میں بریلی شریف میں پیدا ہوئے اور 3رجب 1408ھ مطابق22فروری 1988ءمیں پیرجو گوٹھ ضلع خیرپور میرس سندھ میں وِصال فرمایا، مزار یہاں کے قبرستان میں ہے۔(مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء، ص 268، 273)

(22)ان کے حالات سے آگاہی نہ ہوسکی ۔

(23)شہزادۂ استاذِ زمن، استاذُ العلما حضرتِ مولانا محمد حسنین رضا خان رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1310 ھ مطابق1893 ء کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان صاحب کے بھتیجے، داماد، شاگرد و خلیفہ، جامع معقول و منقول،ذہین وفطین ومحنتی، کئی کُتُب کے مصنف، مدرسِ دار العلوم منظرِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر، بانیِ حسنی پریس و ماہنامہ الرضا و جماعت انصار الاسلام تھے۔ وصال5 صَفَر 1401ھ مطابق14ستمبر1980ء میں فرمایا اور مزار بریلی شریف میں ہے۔ (تجلیات تاج الشریعہ، ص95، صدر العلما محدث بریلوی نمبر، ص77تا81)

(24) شہزادۂِ اعلیٰ حضرت، مفتیِ اعظم ہند، حضرت علّامہ مولانا مفتی محمدمصطفےٰ رضا خان نوری رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 22ذوالحجہ 1310ھ مطابق 7جولائی 1893ء کورضا نگر محلّہ سوداگران بریلی (یوپی،ہند) میں ہوئی۔ آپ فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، جملہ علوم و فنون کے ماہر، جید عالِم، مصنفِ کتب، مفتی و شاعرِ اسلام، شہرۂ آفاق شیخِ طریقت، مرجعِ علما و مشائخ و عوامِ اہلِ سنّت تھے۔ 35سے زائد تصانیف و تالیفات میں سامانِ بخشش اور المکرمۃ النبویۃ فی الفتاوی المصطفویۃ المعروف فتاویٰ مفتی اعظم (یہ چھ جلدوں پرمشتمل ہے اس میں پانچ سوفتاویٰ اور22رسائل ہیں )مشہور ہیں۔ 14 محرّمُ الحرام 1402ھ /13نومبر1981ءمیں وصال فرمایا اور بریلی شریف میں والدِ گرامی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔(جہانِ مفتی اعظم، ص64تا130)

(25)مولاناالحاج سردارعلی خان عزومیاں کی ولادت بریلی میں تخمینا1320ھ مطابق1902ء کو ہوئی اور صفرالمظفر 1374ھ مطابق اکتوبر1954ءکو مدینۃ الاولیا ملتان میں وصال فرمایا ، شاہ شمس قبرستان(قدیم خانیوال روڈ،ملتان) میں برلب سٹرک دفن کیاگیا ۔ آپ تلمیذومرید اعلیٰ حضرت ، عالم دین ،فاضل ومدرس دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف ،خلیفہ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا ،استاذالعلمااورعبادت گزارتھے ۔

(26)الیواقیت المہریہ فی شرح الثورۃ الہندیہ،115۔ اکابرتحریک پاکستان صفحہ 340 میں لکھا ہے:’’ مفتی اعجازولی خان صاحب نے تفسیر جلالین حضرت محدثِ پاکستان مولانا سرداراحمدلائل پوری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں ۔‘‘یہ بات درست نہیں ۔

(27) صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی کے مختصرحالات حاشیہ 16 میں دیکھئے۔

(28)مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڑھ کے بانی نواب ابوبکرخان شیروانی ہیں ،جورئیس،دین دار،حافظ محمد علی خیرآبادی کے مریدتھے ،ان کے انتقال کےبعدبانی مدرسہ کے حقیقی بھائی حاجی محمدخان شیروانی (جوکہ حافظ خیرآبادی کے مرید، پابندصوم وصلوۃ اوراسلامی شاعرتھے ،ان کا مجموعہ کلام دیوانِ حافظی ہے ۔)متولی ہوئے ۔اس مدرسے کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اساتذہ طلبہ کی تمام ضروریات احسن اندازسے پوری کی جاتی تھی ۔مفتی امجدعلی اعظمی ثانی الذکرکے اصرارپر یہاں بطورصدرالمدرسین وشیخ الحدیث 1355ھ مطابق 1936ء کوتشریف لائے اور1362ھ مطابق 1943ء تک یہاں سات سال رہے ۔(ماہنامہ اشرفیہ، صدرالشریعہ نمبر،اکتوبر،نومبر1995ء،80۔سیرت صدرالشریعہ ،50تا53)

(29)تذکرہ جمیل ،240۔استاذالعلما،زینت القراء حضرت مولاناغلام محی الدین رضوی شیری صاحب حضرت شاہ جی محمدشیرمیاں رحمۃ اللہ علیہ کےپوتے اور نواسے تھے ،آپ کی پیدائش پیلی بھیت میں ہوئی اور7رجب 1405ھ مطابق 28فروری 1985ء کو ہوا، مزارہلدوانی نینی تال ہند میں ہے ،آپ حافظ قرآن ،بہترین قاری،علامہ وصی احمدمحدث سورتی،حجۃ الاسلام مفتی حامدرضا خان اور صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی کے شاگرد،حضرت شاہ جی کے مرید اورمفتی اعظم ہندمفتی مصطفی رضا خان کے خلیفہ ہیں ،کئی مدارس میں تدریس بعد ہلدوانی (ضلع نینی تال ،یوپی ہند)میں مدرسہ اشاعت الحق بنایا،آستانہ شیریہ کے نظام کو بھی دیکھا۔آپ استاذالعلما،شیخ الحدیث، صاحب دیوان شاعراورصاحب تصنیف ہیں ۔(مفتی اعظم ہنداوران کے خلفا،530تا535)

(30) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ علامۂ دہر، مفتی اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی اور عربی زبانوں میں عبوررکھنے والےعالم دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال ،شیخ طریقت ،جانشینِ اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے۔ بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ مطابق اپریل1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ مطابق 22مئی 1943ء میں وصال فرمایا ، مراز شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔(فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(31)تذکرہ جمیل ،240، تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص 63،الیواقیت المہریہ فی شرح الثورۃ الہندیہ،115،116،اکابرتحریک پاکستان،340۔آپ کا تذکرہ جب کتابوں میں ہے ،ان میں آپ کے تعلیمی ایام کے بارے میں مختلف سنین درج ہیں ،راقم نے دیگرکتب سے استفادہ کرتے ہوئے اس مضمون میں تواریخ درج کیں ہیں ۔

(32)عِلْمِ جَفْر [عِلمے + جَفْر[وہ علم جس میں حروف و اعداد کے ذریعے سےمختلف احوال کرتے ہیں۔

(33)وہ علم جس میں تاریخ گوئی کے اصول وقواعد اور استخراج کے طریقے سیکھائے جاتے ہیں ۔اعدادشمس اوراعدادقمری کی مدد سے تاریخ بیان کی جاتی ہے ۔

(34)عالمی مبلغِ اسلام علّامہ محمد ابراہیم خَوشْتر صِدّیقی رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1348ھ/1930ء کو بنڈیل (ضلع چوبیس پرگنہ، مغربی بنگال) ہند میں ہوئی۔آپ حافظ قرآن، تَلمیذِ محدّثِ اعظم پاکستان، خلیفہ حجۃ الاسلام و قُطبِ مدینہ، مُصنّف و شاعر، بہترین مدرّس، باعمل مبلغ، بانی سنّی رضوی سوسائٹی انٹرنیشنل اور امام و خطیب جامع مسجد پورٹ لوئس ماریشس تھے۔تصانیف میں ”تذکِرَۂ جمِیل“ اہم ہے۔5جُمادَی الاُخریٰ 1423ھ/24،اگست2002ء کو ماریشس میں وِصال فرمایا مَزارمُبارک سنّی رضوی جا مع مسجد عیدگاہ پورٹ لوئس ماریشس میں ہے۔(ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف، رجب 1435ہجری،ص 56،57،مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء، ص 125تا 129)

(35) تذکرہ جمیل ،240،241۔

(36) تذکرہ جمیل ، 183۔

(37)سلطانُ الہند ، حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین سیّد حَسن سَنْجَری رحمۃ اللہ علیہکی ولادت537ھ میں سجستان (موضع سنجر) ایران میں ہوئی۔ سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے عظیم المَرْتَبَت شیخ، نجیبُ الطرفین سیّد، صاحبِ دیوان شاعراورمشہورترین ولی اللہ ہیں۔ لاکھوں کفّار آپ کے دستِ اقدس پر اسلام لائے۔ 6رجب627ھ کووصال فرمایا، مزارمبارَک اجمیر شریف (راجستھان) ہند میں دُعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے۔ (اخبار الاخیار، ص 23، اقتباس الانوار، ص 344 ،385)

(38)دار العلوم نعمانیہ لاہور کی ایک قدیم اور دینی تعلیم کی معیاری درسگاہ ہے۔یہ امام ابو حنیفہ کی نسبت نعمانیہ کہلاتا ہے، موجودہ عمارت بالمقابل ٹبی تھانہ اندرون ٹیکسالی گیٹ لاہور میں ہے،اس کا آغاز1306ھ مطابق1888ءکو مسجدبوکن خان موچی گیٹ میں ہوا،اس کا عربی حصہ13شوال 1314ھ مطابق 17مارچ1897 ء کو بادشاہی مسجدمیں منتقل کیا گیا،جب اندرون ٹکسالی گیٹ میں دارالعلوم نعمانیہ کادارالاقامہ تعمیرہوگیا تو اس کے پانچ سال بعد اس کا عربی حصہ بادشاہی مسجدسےیہاں منتقل ہوگیا،اس کے 43ویں جلسے کی روئیدادسے معلوم ہوتاہے شعبان1349ھ/دسمبر1930ءتک اس سےچارہزاردوسوتین(4203 ) علمافارغ التحصیل ہوچکے تھے۔ ( امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،26،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور306،73)

(39)مجالس علما،118،119

(40)جامعہ محمدی شریف پنجاب کے شہرچنیوٹ کے ایک قصبے بھوانہ میں وسیع وعریض اراضی پر قائم ایک اسلامی درس گاہ ہے جس میں دینی ودنیاوی تعلیم دی جاتی ہے ،اس دارالعلوم کاتعلق ونسبت آستانہ عالیہ سیال شریف (ضلع سرگودھا )سے ہے۔

(41)شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمرالدین سیالوی چشتی کی ولادت 1324ھ مطابق1906ء سیال شریف ضلع سرگودھا، پنچاب میں ہوئی آپ کا وصال 17رمضان1401ھ مطابق 19جولائی1981ء سیال کو ہوا،آپ کا مزارسیال شریف ضلع سرگودھا میں ہے۔ آپ خانقاہ سیال شریف کے چشم وچراغ،جیدعالم دین، مصنف کتب،مجاہدتحریک پاکستان،مرجع علمااورفعال شخصیت کے مالک تھے۔ ( نور نور چہرے، 333تا347)

(42)فوزالمقال فی خلفاء پیرسیال ،6/575۔

(43)دارالعلوم مظہراسلام بریلی شریف مرکزی جامع مسجدبی بی جی صاحبہ ،بریلی شریف کے محلہ بہاری پور کےبزریہ (یعنی چھوٹےبازار) میں واقع ایک اسلامی درس گا ہ ہے ،یہ 1356ھ مطابق1937ء میں مفتی اعظم ہندمفتی محمدمصطفی رضا خان قادری کی سرپرستی میں قائم ہوئی،بدرالطریقہ حضرت مولانا عبدالعزیز خان بجنوری اس کے پہلے صدرالمدرسین اورمحدث اعظم پاکستان علامہ سرداراحمدقادری چشتی صاحب اس کے منتظم اورشیخ الحدیث مقررہوئے،اس زمانے میں دارالعلوم کی مستقل عمارت نہیں تھی، مسجد کے حجروں اورصحن میں پڑھائی کا سلسلہ ہوتاتھا۔( حیات محدث اعظم ،45)

(44)یہ مدرسہ حضرت مولانا سید غوث علی شاہ پانی پتی رحمۃاللہ علیہ کے مزار(بمقام پانی پت،صوبہ ہریانہ ،ہند)کے ساتھ قائم تھا ۔

(45)تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہور،367۔

(46) محدثِ اعظم پاکستان حضرت علّامہ مولانا محمد سردار احمد قادری چشتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1323ھ مطابق 1905ء میں ضلع گورداسپور (موضع دیال گڑھ مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور یکم شعبان 1382ھ مطابق 28دسمبر1962ءکو وصال فرمایا،آپ کا مزار مبارک فیصل آباد (پنجاب) پاکستان میں ہے۔آپ استاذالعلماء، محدثِ جلیل، شیخِ طریقت، بانیِ سنّی رضوی جامع مسجد و جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام سردارآباد اور اکابرینِ اہلِ سنّت میں سے تھے۔(حیاتِ محدثِ اعظم، ص334،27)

(47)تذکرہ محدث اعظم پاکستان ،88تا90۔

(48)کل ہند جماعت رضائے مصطفی کےبانی وسرپرست اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان تھے ، یہ 7ربیع الاخر1339ھ مطابق 17دسمبر1920 ء کو بنائی گئی،اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد یکے بعددیگرے آپ کے صاحبزادگان حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان اور مفتی اعظم ہند علامہ محمدمصطفی رضا خان سرپرستی وقیادت فرمائی ، اس کا مقصد تقریروتحریرکے ذریعے اسلام کی حفاظت کرنا ،عوام اہل سنت کے دین وایمان کی حفاظت کے لیے جدوجہدکرناتھا، اس کا اہم ترین کارنامہ مسلمانوں کو مرتدبنانے ولہ شدھی تحریک کے اثرات سے بچاکر باعمل وپانندصوم وصلوۃ بناناتھا ، اس کے کئی شعبے تھے مثلا شعبہ ٔ اشاعت کتب،شعبہ ٔ تبلیغ وارشاد،شعبہ ٔ صحافت ،شعبہ دارالافتاء وغیرہ۔ (تاریخ جماعت رضائے مصطفی ،7،42،48 ،49)

(49)مولانا شہاب الدین رضوی صاحب کی تاریخ ولادت 19ربیع الاول 1394ھ مطابق 12،اپریل 1974ء ہے ،آپ عالم دین، فاضل دارالعلوم مظہراسلام بریلی شریف ،مدیر ماہنامہ سنی دنیا ،رکن رضا اکیڈمی بمبئی ،بارہ کتب ورسائل کے مصنف اورمحقق اسکالر ہیں، مشہور کتابوں میں مفتی اعظم اوران کے خلفاہے جو دوجلدوں پر محیط ہے ۔(تاریخ جماعت رضائے مصطفی ،12تا15)

(50)تاریخ جماعت رضائے مصطفی ، 48 ،49۔

(51)آل انڈیا سنی کانفرنس،قیام پاکستان سے پہلے  اہل سنت وجماعت کی ایک سیاسی جماعت تھی جس کےبانی صدرالافاضل حضرت علامہ سیدمحمدنعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ ہیں 20تا23شعبان1343ھ/ 16 تا 19 مارچ 1925کو مراد آباد میں پہلی آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد کیا گیااور آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی مکمل حمایت کی گئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس پارٹی کا نام جمعیت علمائے پاکستان رکھ دیا گیا ۔(مزیددیکھئے علامہ جلال الدین قادردی صاحب کی کتاب ’’تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس 1925ءتا 1947ء‘‘)

(52)تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،225،282۔

(53)لاہورایک قدیم وتاریخی شہرہےمغلیہ عہدمیں لاہورکے اردگردفصیل اورتیرہ دروازے بنائےگئے ، 372ھ کویہ ملتان سلطنت کا حصہ تھا،اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکزہے،اسےپاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباایک کروڑ 11لاکھ ہے۔

(54)22 مارچ سے 24 مارچ، 1940ء کو لاہور کے منٹو(موجودہ اقبال باغ ) پارک(جہاں آج مینارِ پاکستان ہے) میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے عليحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔

(55)اکابرتحریک پاکستان 340،341،تذکرہ اکابراہل سنت ،64۔

(56) البریلویۃ کا تحقیقی اورتنقیدی جائزہ،294۔

(57)جامعہ محمدی شریف کے بارے میں حاشیہ نمبر40 دیکھئے ۔

(58)اس زمانے میں یہاں کے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفی الازہری رحمۃ اللہ علیہ تھے،چنانچہ سیرت صدرالشریعہ میں ہے : (علامہ عبدالمصطفی الازہری)1948ء میں جامعہ محمدی شریف ضلع جھنگ پنجاب میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے تشریف لائے۔ (سیرت صدرالشریعہ،225)

(59)فوزالمقال فی خلفاء پیرسیال ،6/432 ۔

(60)دارالعلوم اہل سنت وجماعت جہلم کےبارے میں مزیدتفصیلات حاصل نہ ہوسکیں ۔

(61)حافظ محمدسعید کاشمیری صاحب میرپورکشمیرکے رہنے والے ہیں ،قیام پاکستان کے بعد جہلم شہرمیں تشریف لے آئے اور دارالعلوم اہل سنت وجماعت کے شعبہ حفظ وقرأت سے منسلک ہوگئے ،آپ کی تقریبا تمام زندگی اشاعت تعلیم قرآن میں گزری ،آپ کے کثیرشاگردوں میں آپ کے بیٹے مبلغ یورپ حضرت مولانا حافظ عبدالقیوم نقشبندی صاحب،ڈاکٹرپیرفضیل عیاض قاسمی ،صاحبزادہ ٔ پیراولیا بادشاہ مولانافاروق احمدوغیرہ شامل ہیں ۔(برطانیہ کے علمااہل سنت ومشائخ ،2/546)

(62)باب ِ علوم ،استاذالعلما مفتی غلام محمودہزاروی صاحب کی ولادت سلطان المناظرین علامہ قاضی محمد عبدالسبحان قادری کے گھر تقریباً 1920ء میں بمقام کھلابٹ(ہزارہ) میں پیدا ہوئےاور16ربیع الاخر1412ھ مطابق 24،اکتوبر1991ءکووصال فرمایا، تدفین جامعہ صدیقہ فیض العلوم خانپورروڈبالمقابل ٹیلی کم سٹاف کالج ہری پورہزارہ کے ایک گوشے میں ہوئی ۔آپ جیدعالم دین ،جامع معقول ومنقول،فارضل مدرسہ خیرآبادیہ دہلی،مدرس درس نظامی ،شیخ القرآن ولتفسیر،تقریبا136کتب ورسائل کے مصنف،شیخ طریقت سلسلہ نقشبندیہ وقادریہ اورمناظراہل سنت تھے ،آپ نے10 سال دارالعلوم اہل سنت وجماعت جہلم میں پڑھایاپھرجہلم میں ہی ایک ادارہ جامعہ اشاعت الاسلام عربیہ غوثیہ قائم فرمایا،اس میں8 سال مدرس وناظم رہے۔ (تذکرہ بابِ علوم رئیس العلماغلام محمود ہزاروی،10 تا30)

(63)برطانیہ کے علمااہل سنت ومشائخ ،2/546۔

(64)دارالعلوم جامعہ نعیمیہ لاہور ایک عظیم و تاریخی دینی درسگا ہ ہے جس کی بنیاد شیخ الحدیث مفتی محمدحسین نعیمی (ولادت: 1342ھ مطابق1923ء۔وفات :14ذیقعدہ 1418ھ مطابق 13مارچ 1998ء )نے تقریبا1372ھ مطابق 1953ء کو مسجدچوک دالگراں میں رکھی تھی،1378ھ مطابق 1959ء کو اسے عید گاہ گڑھی شاہومنتقل کردیا یہ علامہ اقبال روڈ پرواقع ہے ،اس نے دینی علوم کی ترویج میں اہم خدمات سر انجام دیں۔شعبان 1422ھ مطابق مارچ 2021ءمیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے اسے ڈگری ایوارڈنگ دینی انسٹیٹیوٹ کا درجہ دے دیاگیا ہے۔

(65)مرکزی جامعہ گنج بخش داتادر بارلاہورکے بارے میں مزیدمعلومات نہ مل سکیں ۔

(66)عارف ربانی حضرت پیرسیدمحمدمعصوم شاہ نوری قادری نوشاہی کی ولادت 1315ھ کو ایک صوفی گھرانےمیں ہوئی اور29 شوال1388ھ مطابق19جنوری 1969ءکووصال فرمایا ،مزارخانقاہ قادریہ چک سادہ (ضلع گجرات ،پنجاب)میں دفن کئے گئے۔آپ عالم دین،مصنف کتب،شیخ طریقت،حضرت داتاگنج بخش کےعاشق صادق،بانی نوری کتب خانہ،مرجع علماومشائخ ،نوری مسجد(ریلوے اسٹیشن لاہور)سمیت 20مساجد کےبانی اورکئی مدارس کے معاون تھے۔حکیم الامت مفتی احمدیارخان نے آپ کی ترغیب پرکئی کتب تصنیف فرمائیں۔(تذکرہ علمائے اہل سنت، ص247) آپ نے 1945ء میں نوری کتب خانہ کا آغازکیا ،شاید داتادربارمارکیٹ میں یہ پہلا اشا عتی ادارہ تھا،راقم الحروف بچپن میں والدگرامی حاجی محمدصادق چشتی مرحوم کے ساتھ جمعرات کو داتادربارحاضری کے لیے جاتاتو اس کتب خانہ کو دیکھا کرتاتھا ،اس زمانے(1982ء) میں دربارشریف کے قریب جانب مشرق قائم مین گیٹ کے سامنے تھا ،اب یہ حصہ مسجدداتادربارمیں شامل ہوچکا ہے ۔

(67)تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت،367تا369۔

(68)مرکزی جامع مسجدمحلہ اسلام پورعمرروڈلاہور واقع ایک مسجد ہے جس میں عرصہ دارازتک مفتی اعجازولی صاحب امام وخطیب رہے ۔

(69)مدرسہ حامدیہ رضویہ متصل مرکزی جامع مسجداسلام پورہ لاہورکے بارے میں معلومات نہ مل سکیں ۔

(70)جامعہ نعمانیہ لاہورکے بارے میں جاننے کے لیے حاشیہ نمبر 38 کا مطالعہ کیجئے ۔

(71)ان کےحالات نہ ملے سکے ۔

(72)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،301۔

(73)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،284۔

(74)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،286۔

(75)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،286۔

(76)ان کےحالات نہ ملے سکے ۔

(77) مجاہدملت حضرت مولانا محمدعبدالستارخان نیازی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 22ذیقعد1333ھ مطابق یکم اکتوبر1915ء کو موضع اٹک پنیالہ(تحصیل عیسیٰ خیل)ضلع میانوالی میں ہوئی،7صفر1422ھ مطابق یکم مئی2001ء کو میانوالی میں انتقال فرمایا، مزار’’مجاہدملت کمپلیکس‘‘ روکھڑی موڑمیانوالی میں ہے ۔آپ عالم دین،پرچوش مبلغ ،باہمت رہبرورہنما،اخبارخلافت پاکستان کے مدیر ، مجلس اصلاح قوم ،دی پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن،آل پاکستان عوامی تحریک کے بانی،تحریک پاکستان کے متحرک کارکن،تحریک نفاذِ شریعت،تحریک ختم نبوت،تحریک نفاذِ نظام مصطفیٰ میں بھرپورحصہ لیا، قومی اسمبلی اورسینٹ کے رکن بھی رہے۔آپ کا شماراکابرین اہل سنت میں ہوتاہے ۔آپ آستانہ عالیہ میبل شریف ضلع بھکر میں مریداورقطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین احمدمدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔آپ نے اٹھارہ سے زیادہ مقالات وکتب ورسائل تحریرفرمائے۔(تحریک پاکستان میں علماء ومشائخ کا کردار،427)

(78)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،288۔

(79)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،289۔

(80)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،290،291۔

(81)جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور لوہاری گیٹ کے اندرونی حصے میں ایک دینی درس گاہ ہے۔ اس کا افتتاح شوال المکرم 1376ھ مطابق مئی1956 ء کو محدث اعظم پاکستان علامہ محمدسرداراحمدچشتی قادری صاحب نے قدیم تاریخی مسجد خراسیاں اندرون لوہاری دروازہ میں فرمایا،ان کے شاگرد استاذالعلماء شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی نے1381ھ مطابق 1962 ء تک اس کی نگرانی اور آبیاری کی۔ اس کے بعدعلامہ غلام رسول رضوی صاحب نے اسے اپنے ذہین اور محنتی تلمیذ استاذ العلماء حضرت علامہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی صاحب کے سپردکیا ۔

(82)تذکرۂ اکابراہل سنت ،64۔

(83)تذکرۂ اکابراہل سنت ،64۔

(84) حضرت مولانا پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب ضلع گجرات (پنجاب پاکستان)کےایک موضع شہاب دیوال کےایک علمی فاروقی گھرانے میں 1346ھ مطابق 1928 ءکو پیداہوئے اورتقریبا89سال کی عمرمیں16 ؍صفرالمظفر1435ھ مطابق 20دسمبر 2013 کو لاہور میں وصال فرمایا،ان کی تدفین میانی صاحب قبرستان میں خواجہ محمد طاہر بندگی کے مزار اقدس کےمتصل ہوئی۔ آپ ایک متحرک عالم دین،دینی ودنیاوی تعلیم سے مرصع،مکتبہ نبویہ کےبانی ،ناشر ِ رضویات، مدیر ماہنامہ جہان رضا لاہوراور روح رواں مجلس رضااوراکابر علمائے اہل سنت لاہورسےتھے۔ آپ خوش اخلاق،مہمان نوازاورہردل عزیزشخصیت کےمالک تھے ، چھوٹےبڑےسب کو اہمیت دیتے اور علمی کاموں پر حوصلہ افزائی فرمایاکرتےتھے،راقم کئی مرتبہ ان سے ملا،یہ مجھ پرخصوصی شفقت فرماتے اورمجھےاپنا کراچی والادوست کہاکرتےتھے۔

(85)مجالس علما،118۔

(86)مفتیِ اعظم پاکستان، سیّدُ المحدّثین حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قادری رضوی اشرفی استاذُ العُلَماء، شیخ الحدیث، مناظرِ اسلام، بانی و امیر مرکزی دارُالعلوم حِزبُ الاحناف اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 1319 ہجری مطابق1901ء کو محلہ نواب پور اَلْوَر (راجستھان) ہند میں پیدا ہوئے اور مرکز الاولیا لاہور میں 20شوّال 1398ھ مطابق ۲۳،ستمبر 1978ءمیں وِصال فرمایا، مزار مبارک دارُالعلوم حِزب الاحناف داتا دربار مارکیٹ مرکز الاولیاء لاہور میں ہے۔(تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص314-318)

(87)مجالس علماء،117تا119۔

(88)شرفِ ملت حضرت علّامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت23شعبان 1363ھ  13 مطابق اگست  1944ء مزار پور (ضلع ہوشیار پور پنچاب) ہند میں ہوئی۔ آپ استاذالعلماء، شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، مصنف و مترجم کتب، پیرِ طریقت اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 18شعبان 1428ھ مطابق یکم ستمبر2007ء کو وصال فرمایا، مزار مبارک جوڈیشنل کالونی لالہ زار فیز-2 لاہور پاکستان میں ہے۔آپ کاترجمہ قرآن ’’انوارالفرقان فی ترجمۃ معانی القرآن ‘‘یادگارہے۔راقم کوکئی مرتبہ آپ کی بارگاہ میں حاضری کاشرف حاصل ہوا۔(شرفِ ملت نمبر لاہور، ص 126)

(89)تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(90)حضرت مولانا قاضی محمد مظفراقبال رضوی صاحب کی ولادت 9جمادی الاولیٰ1354ھ مطابق 8،اگست 1936ء کو ہوئی اور24 ذوالحجہ 1440ھ مطابق26،اگست 2019ء کو وصال فرمایا ،میانی صاحب قبرستان میں والدگرامی خلیفہ اعلیٰ حضرت مفتی غلام جان ہزاروی کے قریب تدفین ہوئی ۔آپ عالم دین ،فارغ التحصیل دارالعلوم حزب الاحناف لاہور،مدرس درسِ نظامی،خطیب اونچی مسجدجامع شاہ عنایت قادری ،مریدوخلیفہ مفتی اعظم ہنداورچیئرمین سنی ایکشن کمیٹی تھے ۔( حیات فقیہ زماں ،138تا144)

(91)روزنامہ نوائے وقت لاہور29،اگست ، 2013ء۔

(92)اکابرِ تحریک پاکستان ،342۔

(93) تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(94)مرآۃ التصانیف ،21۔

(95)مرآۃ التصانیف ،62۔

(96)مرآۃ التصانیف ،117۔

(97)مرآۃ التصانیف ،112۔

(98)تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(99) شیخ محقق حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحق مُحَدِّثِ دہلوی قادری علیہ رحمۃ اللہ الہادِی کی ولادت 958ھ مطابق1551ء کو دہلی (ہند) میں ہوئی اوریہیں 21ربیعُ الاوّل 1052ھ مطابق 19جون1642ء کو وِصال فرمایا، مَزارمُبارک خانقاہِ قادریہ (نزد باغ مہدیاں بالمقابل قلعہ کہنہ) دہلی ہند میں ہے۔ آپ حافظِ قراٰن،امامُ الْمُحَدِّثِین فِی الْہند، علامۂ دَہر، قطبِ زَماں، کئی کُتُب کے مُصَنِّف اور شارِحِ اَحادیث ہیں۔ دَرجَن(12)سے زائد کُتُب میں مِشْکوٰۃ شریف کی دوشُرُوحات اَشِعَّۃُ اللَّمْعَات (فارسی)اور لَمْعَاتُ التَّنْقِیْح(عربی) بھی شامل ہیں۔ (اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ مترجم،ص93،67، اخبار الاخیار مترجم، ص18،13، شیخ عبد الحق محدثِ دہلوی، ص90)

(100) مجالس علماء،117تا118۔

(101)مولانا انوارالاسلام رضوی1355ھ مطابق 1936ء کو شمس آباد ضلع اٹک میں پیداہوئے ،شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی صاحب اوردیگرعلما سے علم دین حاصل کیا ،دارالعلوم منظراسلام فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہوئے ،جامع مسجد محمدجان صدر لاہورکینٹ میں خطیب مقررہوئے ،جامعہ نظامیہ رضویہ کے مدرس وناظم بنائے گئے ۔پھر مکتبہ حامدیہ میں مصروف ہوئے اورساتھ ساتھ جامعہ شیرازیہ میں اعزازی مدرس ہوئے ۔(تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہور،399 )

(102)مجالس علما256۔

(103)مبلغ اسلام مولانا محمد ابراہیم خوشتررضوی صاحب کا مختصرتعارف حاشیہ نمبر34 میں دیکھئے۔

(104) مفتی زمن حضرت مفتی سیدمحمد ریاض الحسن جیلانی رضوی حامدی صاحب کی ولادت شوال1340ھ مطانق 1914ء کو جودھ پور(راجستھان،ہند)میں ہوئی اور28رمضان 1388ھ مطابق 19دسمبر1968ء کو بحالت سجدہ حیدرآبادسندھ پاکستان میں ہوئی، مزار مبارک ٹنڈویوسف قبرستان میں ہے ،گنبددورسے دکھائی دیتاہے،آپ خاندان غوث الوریٰ کے چشم چراغ،آپ جامعہ منظراسلام بریلی کے فاضل ،مریدوخلیفہ حجۃ اسلام ،مفتی اسلام،صاحب دیوان شاعر،جامع مسجداہل سنت وجماعت (امریکن کوارٹرحیدرآباد)سمیت کئی مساجدکے بانی اورفعال شخصیت کے مالک تھے ،آپ کی 29تصانیف میں ریاض الفتاویٰ (3 جلدیں)یادگارہے ۔(ریاض الفتاویٰ، 1/37 تا62)

(105)حضرت مولانا حکیم مطیع الرضاخاں قادری صاحب کی ولادت موضع چندوس ضلع سنبھل (سابقہ ضلع مرادآباد)یوپی ہندمیں 2ربیع الاخر1346ھ مطابق 29ستمبر1927ءکو ہوئی اوروصال راولپنڈی پاکستان میں6جمادی الاولیٰ 1399ھ مطابق4،اپریل 1979ءکو فرمایا، مدرسہ رضویہ راولپنڈی سے متصل تدفین ہوئی۔آپ فاضل بریلی شریف،شاگردصدرالشریعہ ومفتی اعجازولی خان، مریدحجۃ اسلام علامہ حامدرضا ،خلیفہ مفتی اعظم ہند،سندیافتہ حازق طبیب ،بانی قادری دواخانہ راولپنڈی ،اسلامی شاعر، خطیب جامع مسجدلال کڑتی اوربانی مدرسہ رضویہ راولپنڈی ہیں ۔(تحریک پاکستان میں علماء ومشائخ کا کردار،368،369)

(106)خطیب اسلام حضرت مولانا شاہ محمد نشتر صاحب کی ولادت 4شعبان 1359ھ مطابق 7ستمبر1940ء کو موضع کلاں رقبہ چھاترہ (عباس پور،ضلع پونچھ کشمیر)میں ہوئی آپ عالم دین ،دینی ودنیاوی علوم کے جامع ،مرید بابوجی سرکارگولڑہ شریف، فاضل جامعہ رضویہ منظراسلام فیصل آباداورمفکراسلام ہیں ،مفتی اعجازولی صاحب سے آپ نے جامعہ نعیمیہ لاہورمیں شرف تلمذپایا ۔آپ کافی عرصہ جامع مسجدتبلیغ اسلام بریڈ فورڈ میں امام وخطیب رہے۔(برطانیہ میں علماءاہل سنت اورمشائخ 3/514تا517)

(107) جدِّ اعلیٰ حضرت ،مفتی رضا علی خان نقشبندی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ عالم، شاعر،مفتی اورشیخ طریقت تھے۔1224ھ مطابق1880ء میں پیدا ہوئے اور 2جمادی الاولیٰ1286ھ مطابق 10،اگست 1869ءمیں وصال فرمایا، مزار قبرستان بہاری پورنزدپولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی، ہند) میں ہے۔ (معارف رئیس اتقیا،ص17، مطبوعہ دہلی)

(108)والدِ اعلیٰ حضرت، رئیس المتکلمین مفتی نقی علی خان قادری رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ باعمل عالمِ دین، مفتیِ اسلام، پچیس سے زائد کتب کے مصنّف اور بہترین مدرّس تھے۔ 1246ھ مطابق1831ھ میں بریلی شریف(ہند) میں پیدا ہوئے اور یہیں 30 ذیقعدہ 1297ھ مطابق 3نومبر1880ءمیں وصال فرمایا، مزار مُبارک قبرستان بہاری پور نزد پولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یو پی) ہند میں ہے۔( مولانا نقی علی خان حیات اور علمی و ادبی کارنامے، ص5تا6)

(109)حیات اعلیٰ حضرت مکتبہ رضویہ کراچی،15،16۔

(110)تذکرہ ٔ جمیل ،241۔

(111)تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(112)ماہنامہ عرفات ،خاص نمبرامام اہل سنت ،ستمبر،اکتوبر1975،ص10۔

(113)تذکرہ ٔ جمیل ،241۔

(114)حاجی محمد ارشدعطاری صاحب ایک متشرع ،صالح اورمؤدب شخصیت کے مالک ہیں ،ان کی پیدائش 5ربیع الاخر 1399ھ مطابق 5مارچ 1979 ء کو بلال (بھٹہ)چوک بیدیاں روڈلاہورکینٹ کے علاقے میں ہوئی ،میٹرک کے بعد دعوت اسلامی سے وابستہ ہوئے ، بوجوہ درسِ نظامی نہ کر سکے ،ایم کام کرنے کے بعد مختلف مقامات پر ملازمت کی، آجکل شیخوپورہ کی تین کمپنیز میں ہیڈ آف ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ہیں،درس نظامی کرنے کے لیے جامعۃ المدینہ نائیٹ میں داخلہ لے چکے ہیں،بڑی محنت سے مصروف تعلیم ہیں ،انھوں نے درجہ اولیٰ کے سالانہ امتحان میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے ،درسِ نظامی مکمل کرنے کے بعد تخصص فی الفقہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

(115) غازی علم الدین شہید 8 ذیقعد 1366ھ مطابق 3 دسمبر 1908ء کو لاہور کے ایک علاقے محلہ سرفروشاں میں پیدا ہوئے اور31 اکتوبر 1929ء کوجام شہادت نوش فرمایا۔ کم و بیش چھ لاکھ عشاق رسول نے آپ کے نمازجنازہ میں شرکت کی،مزارمیانی صاحب قبرستان میں ہے ۔

(116)حضرت الحاج مہر محمد صوبہ نقشبندی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ مرتضائیہ لاہور کے عظیم بزرگ ہیں۔ آپ کا سنِ ولادت 1250ھ مطابق1835ءقیاس کیا جاتا ہے جبکہ آپ کی وفات 20صفر1364ھ مطابق 4 فروری 1945ءکو ہوئی۔ آپ پیر صاحب قلعہ شریف والے حضرت الحاج خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول صاحب کے خلیفہ اول ،پیشے کے اعتبارسے کاشتکار اورصاحب کرامت ولی اللہ تھے ۔ آپ کا مزارمیانی قبرستان میں ہے ۔(خواجگان مرتضائیہ، 460تا467)

(117)سحرالبیان خطیب حضرت مولانا غلام محمد ترنم جماعتی صاحب کی ولادت 1320ھ مطابق 1900ء کو امرتسرکے ایک کاشمیری گھرانے میں ہوئی اورلاہورمیں 17محرم 1379ھ مطابق 24جولائی 1959ء کو وصال فرمایا ،آپ عالم دین ،دینی ودنیاوی علوم سے مالامال، اسلامی صاحب دیوان شاعر،بہترین خطیب ،تحریک پاکستان کارکن ،جمعیت علماپاکستان کے مرکزی نائب صدر،خظیب جامع مسجدسول سیکرٹریٹ ،محبوب العلمامؤثرشخصیت کے مالک تھے، تصانیف میں مقدمہ وحوشی بطل نبوت اہم ہے ۔(تحریک پاکستان کے سات ستارے،96تا105،یادرفتگان،2/40)

(118)حضرت مولانامفتی سید غلام معین الدین نعیمی صاحب کی ولادت 14جمادی الاولیٰ 1342ھ مطابق 23دسمبر 1923ءکو مرادآباد ہند میں ہوئی اوروصال لاہورمیں 12جمادی الاخریٰ 1391ھ مطابق4،اگست 1971ء کو ہوا،نمازجنازہ مفتی اعجازولی صاحب نے پڑھائی ،تدفین میانی قبرستان میں کی گئی ،آپ فاضل جامعہ نعیمیہ مرادآباد،صدرالافاضل کے تلمیذوخاص خدمت گار،50 کتب کے مترجم، ہفت روزہ سواداعظم کے اڈیٹراورفعال عالم دین تھے ۔(سیدغلام معین الدین نعیمی حیات وخدمات ،51،153،138،113)

(119)اکابرتحریک پاکستان صفحہ 343میں ہے کہ مفتی اعجازولی خان صاحب کو مولانا غلام محمد ترنم رحمۃ اللہ علیہ کے پہلومیں دفن کیاگیا جوکہ درست نہیں ۔

(120)تذکرہ ٔ جمیل ،241۔


راقم الحروف کچھ عرصے سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے خلفا وتلامذۂ اعلیٰ حضرت پر کام کررہاہے ،اس سلسلے میں ان کے خاندان ومتوسلین سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی رہتاہے ،اٹھارہ انیس ماہ پہلےاستاذالعلماء مفتی تقدس علی خان صاحب اورشیخ الحدیث مفتی اعجاز ولی خان صاحب پر کام کرنے کے لیے کتب کا مطالعہ شروع کیا، اگرچہ یہ کتب پہلے بھی پڑھ چکا تھا ،بحرحال معلومات ہوئیں کہ مفتی اعجازولی خان صاحب کے بیٹے حاجی ظفرپاشاصاحب کراچی میں مقیم ہیں ،فون پر ان سے رابطہ کیا ،ملاقات کا بھی عرض کیا پھر دیگر مصروفیت کی وجہ سے ملاقات نہ کرسکا،مفتی تقدس علی خان صاحب پررسالہ بنام’’ تلمیذِ اعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان ایک عہدسازشخصیت‘‘5جولائی 2021ءاور مفتی اعجازولی خان صاحب پررسالہ بنام’’ تذکرۂ تلمیذاعلیٰ حضرت مفتی محمداعجازولی خان‘‘29اگست 2021ءکومکمل کرنے کی سعادت پائی اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب اور’’الور‘‘کے مشائخ پر کام کا آغازکیا ۔

دودن پہلے برادرِ اسلامی فیصل عطاری (شعبہ حج وعمرہ دعوت اسلامی)سےعالمی مدنی مرکزفیضان مدینہ کراچی میں ملاقات ہوئی ،ان سے حاجی ظفرپاشاصاحب سےملاقات ارینج کرنے کا کہہ رکھا تھا کیونکہ یہ بھی کلفٹن میں ظفرپاشاصاحب کے قریب ہی رہتے ہیں ،انھوں نے دورا نِ ملاقات میری بات بھی کروائی اورآج مورخہ 12ستمبر2021ء ملاقات کا وقت بھی سیٹ کرلیا ،چنانچہ طے شدہ وقت بارہ بجے سے پہلے ہی ہم ان کے گھر پہنچ گئے ،ابتدائی تعارف کے بعد مفتی اعجازولی خان صاحب اوران کے خاندان کے بارے میں کافی بات چیت ہوئی، اس گفتگو میں حاجی ظفرپاشاصاحب سےجو نئی باتیں معلوم ہوئیں، وہ درج ذیل ہیں :

٭مفتی اعجازولی خان صاحب بریلی سے کراچی میں ہجرت کرکے آئے ۔ آپ درس وتدریس اور فتوی نویسی سے تعلق رکھتے تھے اور کراچی میں کوئی ایسامقام نہ ملاجہاں تدریس کا سلسلہ شروع کرسکیں لہٰذا شہزادۂ صدرالشریعہ مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری صاحب (جو اس زمانے میں جامعہ محمدی بھوانہ چینوٹ ضلع جھنگ میں شیخ الحدیث تھے ) نےآپ کو وہاں بلالیا،جب مفتی صاحب کی بیٹی تحسین فاطمہ کی ولادت کا وقت قریب آیا تو آپ اپنی فیملی کولے کر کراچی گئے کیونکہ بھوانہ چینوٹ شہرسے دورایک قصبہ ہے جہاں اس زمانے میں بہتر طبی سہولیات موجودنہ تھیں ۔بیٹی تحسین فاطمہ کی پیدائش 26جنوری 1951ء مطابق 17 ربیع الاخر 1370ھ کو کراچی میں ہوئی، ان کی پیدائش کے بعد آپ نے وہاں جانے کا ارادہ کیا تو فیملی وہاں جانے کے لیے راضی نہ ہوئی۔ اس کے بعد جلدہی آپ نے راولپنڈی پھر جہلم میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب نے جامع مسجدداتادربارلاہورکے سامنے ایک مکان کرائے پرلیا ،اس میں جامعہ گنج بخش شروع فرمایا جب دارالعلوم نعمانیہ لاہورمیں آپ کی مصروفیت زیادہ ہوئیں تو اس جامعہ کا انتظام مولانا اول شاہ صاحب (برادرِ نسبتی بانی جامعہ نعیمیہ لاہورمفتی محمدحسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ)نے سنبھال لیا۔

٭بریلی شریف میں مفتی اعجازولی خان صاحب سے جن اہم علمانے ابتدائی درس نظامی کی کتب پڑھیں ان میں صدرالعلمامفتی تحسین رضا خان صاحب،شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری صاحب،مفتی محمدحسین رضوی (بانی جامعہ رضویہ سکھر) اور مولانا معین الدین شافعی رحمۃ اللہ علیہم بھی شامل ہیں ،لاہورکے اہم علمامیں مولانا عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمدصدیق ہزاروی صاحب دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا شمارآپ کے شاگردوں میں ہوتا ہے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب ہرماہِ رمضان میں عرصہ درازتک مختلف جامعات میں دورۂ قرآن بھی کرواتے رہے،جن میں جامعہ نعمانیہ لاہور،جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیرآ بادضلع گوجرانوالہ ، جامعہ حنفیہ دار العلوم اشرف المدارس اوکاڑہ،جامعہ حامدیہ رضویہ لاہور شامل ہیں ،وزیرآبادمیں آپ نے دو تین سال یہ خدمت سرانجام دی ،ہرروز صبح وزیرآبادتشریف لے جاتے اورسہ پہروہاں سے لاہورآیا کرتے تھے ۔یہی معمول اوکاڑہ کے لئے بھی رہا۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے وصال کے بعد اسلام پورہ جامعہ مسجدمیں شرفِ ملّت علامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ خطابت اورنمازپڑھا تے تھے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کی کتب ، فتاوی وتصانیف وغیرہ لاہورسے کراچی لانے کے لیے ریل میں بیلٹی کروائی ،جب یہ سامان کراچی پہنچاتو یہاں شدیدبارش ہورہی تھی،اس بارش میں یہ علمی خزانہ ضائع ہوگیا جس کا افسوس ہے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے فتاویٰ ماہنامہ رضائے مصطفی گجرانوالہ ، ماہنامہ سواداعظم لاہور،ماہنامہ گنج بخش لاہورمیں شائع ہوتے تھے ،حاجی شفیع محمدصاحب (خلیفۂ مفتی تقدس علی خان رحمۃ اللہ علیہ )کے چھوٹے بھائی نے کچھ فتاویٰ اور قرآن پاک اعلیٰ حضرت کے ترجمے کی تشریح اور تفسیر اعجازالقرآن شائع کرنے کا پروگرام بنایا تھا مگروہ اس میں کامیاب نہ ہوئے۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے والدگرامی حاجی سردارولی خان صاحب پیشے کے اعتبارسے زمین دارتھے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے کل چار بھائی اوردوبہنیں تھیں ،سب سے بڑے بھائی شیخ الحدیث مفتی تقدس علی خان رحمۃ اللہ علیہ تھے۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے منجھلے بھائی عبدالعلی خان صاحب کاانتقال 1978ء میں دل کے عارضہ میں کراچی میں ہوا،آپ کی تدفین شہداقبرستان عزیزآباد میں کی گئی ۔ آپ کا ایک بیٹاجاویدعلی خان ہیں جس کی ایک بیٹی ہے ،عبدالعلی خان صاحب کی دوبیٹیاں ہیں غزالہ(ان کے دوبیٹے ہیں ) اور سیما (ان کا ایک بیٹااوردوبیٹیاں ہیں ) حیات ہیں اور امریکہ میں مقیم ہے۔ دو اور بیٹیاں نزہت ، نگہت صاحبہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ نزہت صاحبہ کے دو بیٹے ہیں اور امریکہ میں مقیم ہیں۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے بھائی حافظ مقدس علی خان صاحب شادی کے دس بارہ دن کے بعد روڈ ایکسیڈنٹ میں جون 1960ء میں وفات پاگئے ،ان کی تدفین طارق روڈ کراچی کے قبرستان میں کی گئی۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کی بہن محبوب فاطمہ کی شادی شریف محمدخان صاحب سے ہوئی ،ان کی رہائش لکھیم پور یوپی ہندمیں تھی،ان کے ایک بیٹے حنیف محمدخان تھے ،جن کے چاریاپانچ بیٹے ہیں ،اُن میں سے ایک اسدحنیف خان میرے رابطے میں ہیں۔ محبوب فاطمہ صاحبہ کا انتقال تقریباً 1986ء میں ہوا۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کی دوسری چھوٹی بہن حمیدفاطمہ کی شادی آغاشوکت علی خان صاحب سے ہوئی ،یہ کراچی میں ہجرت کرکے آگئے تھے،ان کے چاربیٹے اورچاربیٹیاں ہیں،بیٹوں کے نام آغا شفقت علی خان ،آغاشاہ عالم خان،آغانورعالم خان اورآغا فیض عالم ہیں ۔ اس میں شفقت علی خان کا 2019 ءمیں اور فیض عالم کا 2006 ءمیں انتقال ہو چکا ہے۔ دو بیٹیاں بھی انتقال کر چکی ہیں اور سب کراچی کے سوسائٹی قبرستان میں مدفون ہیں۔ یہ (مفتی اعجازولی خان صاحب کی بہن حمیدفاطمہ)میری ساس صاحبہ بھی ہیں ان کی بیٹی فوزیہ خاتون کا نکاح مجھ سے 1988 ء میں ہو ا، نکاح شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے پڑھایا ۔

٭میرا نام والدہ نے محمدیوسف خان رکھا ، دَدْھیال کی طرف سے میرانام ظفرعلی خان رکھا گیا ،یوں میرا خاندانی نام ظفرعلی خان ہے،جب کہ میرے خاندان کے ایک فرد چھوٹے پھوپا اور خسر آغاشوکت علی خان صاحب نےمجھے پاشاکا لقب دیا۔(کیونکہ ان کا حیدرآباددکن بہت آنا جانا تھا اوروہاں لفظ پاشا کا استعمال کثرت سےہوتاہے) جب اسکول میں نام لکھوانے کی باری آئی تو میرا نام ظفرپاشالکھوایا گیا،اسی نام ظفرپاشا سے پہچان ہے۔میری پیدائش 6رمضان 1364 ھ مطابق 15اگست 1945ء کو بریلی میں ہوئی۔

مذکورہ گفتگوکے دوران انھوں نے پھل بھی پیش کئے اوراپنے ہاتھوں سے گرین ٹی بنا کرپلائی ۔اختتام پرراقم نے ان کی خدمت میں اپنے لکھے ہوئے دونوں رسائل٭تلمیذ اعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان ایک عہدسازشخصیت اور٭تذکرۂ تلمیذاعلیٰ حضرت مفتی محمداعجازولی خان پیش کئے اوردرخواست کی کہ ان کامطالعہ فرمائیں اورکہیں تصحیح کرنی ہوتو اس کی نشاندہی فرمادیں ، حاجی ظفرپاشا صاحب نے اس کی حامی بھرلی،اس کے بعد بردارم فیصل عطاری صاحب نے پاشا صاحب کو عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی آنے کی دعوت دی اوریوں یہ ملاقات اختتام پذیرہوئی ،پاشاصاحب رخصت کرنے کےلیے فلیٹ سےباہربھی تشریف لائے،اللہ پاک انہیں صحت وسلامتی والی لمبی عمر عطافرمائے ۔

واپسی پر نمازظہردعوتِ اسلامی کے زیراہتمام تعمیرہونے والی خوبصورت مسجدفیضان جیلان کلفٹن میں پڑھی ،حسنِ اتفاق کہ یہاں دعوت اسلامی کے شعبے FGRF کے تحت بلڈکیمپ لگانے کا سلسلہ تھا ،جس کا افتتاح راقم کی دعا سے ہوا۔ اس کے بعد برادرم فیصل عطاری صاحب نے اپنے فلیٹ میں پُرتکلف کھانے کا اہتمام کررکھا تھا چنانچہ ان کے ہاں جانا ہوا،بعدطعام واپسی ہوئی، اللہ پاک فیصل بھائی کو دونوں جہاں کی بھلائیوں سے مالامال فرمائے ،یہ ملاقات انکے تعاون سے ہوئی ،راقم اس پر ان کا شکر گزار ہے، ان کی والدہ بیمارہیں، قارئین ان کی صحت کی دعافرمائیں ۔

از: ابوماجدمحمدشاہدعطاری مدنی

(رکنِ مرکزی مجلسِ شوریٰ،دعوتِ اسلامی)

12 ستمبر2021ء ، 10:15


سرزمینِ پاک و ہند کو یہ اعزاز حاصل  ہے کہ بہت سے اللہ والوں نے اس سرزمین کا رُخ کیا ہےاور شجرۂ اسلام کی آبیاری اور نورِ حق کی شمع ِ ہدایت روشن کرکے تبلیغِ اسلام کا فریضہ نہایت جانفشانی سے ادا کیا ہے۔ انہی روشن اور تابندہ ہستیوں میں ایک نابغۂ روزگار ہستی ”حضرت سیّدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ “ کی ہے جنہوں نے شب و روز محنت شاقہ کی بدولت بندگانِ حق کو اللہ کی راہ پر چلایا،انہیں محبتِ رسول کے جام بھر بھر کر پلائے ۔ داتا صاحب نے اپنی نگاہِ فیض سے صراطِ مستقیم سے بھٹکے ہوئے افراد کو راہِ حق کا مسافر بنادیا۔آپ کا چشمۂ فیض کم و بیش دس صدیوں سے جاری ہے اوراب تک تشنگانِ علم و عرفان کو سیراب کرتا چلا آرہا ہے۔

پیدائش: آپ کی ولادت کم و بیش 400ھ میں غزنی افغانستان میں ہوئی۔ آپ کے خاندان نے غزنی شہر کے دو علاقوں جُلّاب اور ہجویر میں رہائش اختیار کی جبھی آپ کو ہجویری اور جُلّابی بھی کہا جاتا ہے۔ (مدینۃ الاولیاء، ص468)

ابتدائی تعلیم: ہوش سنبھالتے ہی آپ کو تعلیم کےلئے مکتب بھیج دیا گیا جہاں حروف شناسی کے بعد آپ نے قرآنِ پاک مکمل پڑھ لیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بچپن سے ہی محنت اور جانفشانی کے ساتھ علمِ دین حاصل کرنا شروع کردیا تھا، آپ حصولِ علم میں اتنا مشغول رہتے کہ نہ تو کھانے پینے کا خیال رہتا اور نہ ہی گرد و پیش کی کوئی خبر۔ حضرت خواجہ مستان شاہ کابلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جن کا دل اللہ کی طرف مُتَوَجّہ ہو وہ دنیا کی نعمتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ۔ حضرت سیدنا علی بن عثمان ہجویری سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ دینی مدرسہ میں تقریباً بارہ تیرہ سال کی عمر میں زیرِ تعلیم رہے۔حصولِ علم کے جَذبہ سے سَرشار تعلیم میں اتنا مشغول ہوتےکہ صبح سے شام ہو جاتی مگر پانی تک پینے کی فرصت نہ ملتی ۔ (اللہ کے خاص بندے ، ص459)

کہا جاتا ہے کہ حصولِ علم دین کی خاطر حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف ممالک کا سفر اختیار کیا ہے ، صرف خراسان ہی کے تین سو مشائخ کی خدمت میں حاضری دی اور ان کے عِلم و حِکمت کے پُر بہار گلستانوں سے خوشہ چینی کر کے اپنا دامن بھرتے رہے، آپ کے اساتذہ کی فہرست بڑی طویل ہے۔ (کشف المحجوب، ص181)

حضور داتا علی ہجویری اور سلطان محمود غزنوی علیہما الرحمہ: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ داتا صاحب سلطان محمود غزنوی کے قائم کردہ مدرسے میں زیرِ تعلیم رہے ہیں۔ ایک روز کا واقعہ ہے سلطان محمود غزنوی اس عظیم درس گاہ میں تشریف لائے تو تما م طلبا ء زیارت کے لیے دوڑے لیکن حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ مطالعے میں اس قدر مشغول تھے کہ آپ کو سلطان کی آمد کی خبر ہی نہ ہوئی ۔ اُستاد صاحب نے پکارا:دیکھو علی! کون آیا ہے ؟ اب کیا تھا ایک طرف سلطان محمود غزنوی اور دوسری جانب ایک کمسن طالب علم۔عجیب منظر تھا ، سلطان محمود غزنوی نے اس نوعمر طالب علم (یعنی داتا صاحب) پر ایک نظر ڈالی لیکن تجلیات کی تاب نہ لاتے ہوئے فوراً نظریں جھکا دیں اور استاد صاحب سے کہا: ”اللہ کی قسم ! یہ بچہ خدا کی طرف راغب ہے، ایسے طالبِ علم اس مدرسے کی زینت ہیں “۔ (اللہ کے خاص بندے ، ص460)

داتا صاحب کی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات: حضرت سیّدُنا علی خوّاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :حضرت سیدنا خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تین شرطیں ہیں ، جس میں یہ تین شرائط نہ ہوں وہ آپ سے ملاقات نہیں کرسکتا اگرچہ جن و انس میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہو۔(1)وہ سنّت کا عامل ہو، بدعتی نہ ہو۔(2)دنیا پر حریص نہ ہو،اگر وہ ایک روٹی بھی دوسرے دن کے لیے بچا کر رکھے تب بھی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات نہیں کر سکے گا۔(3)مسلمانوں کے لیے اس کا سینہ بالکل صاف ہو، نہ تو اس کے دل میں کینہ ہو نہ ہی حسد اورنہ ہی وہ کسی پرتکبر کرتا ہو ۔ حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ عاملِ سنّت،حرص ِ دنیا سے کوسوں دور اور مسلمانوں کے خیرخوا ہ تھے اسی لیے آپ نے حضرت سیدنا خضر علیہ السلام سے نہ صر ف ملاقات فرمائی بلکہ آپ کی صحبت میں رہ کر ظاہر ی و باطنی علوم حاصل فرمائے ، آپ کی حضرت سیدنا خضر علیہ السلام سے بہت ہی گہری دوستی تھی۔ (المیزان الخضریہ ، ص15، کشف المحجوب، دیباچہ، ص16)

داتا صاحب کی لاہور آمد: حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ حضرت احمد حماد سرخسی اور حضرت ابوسعید ہجویری علیہما الرحمۃ کو ساتھ لے کر تین افراد کے قافلے کی صورت میں لاہور تشریف لائے اور لاہور کے علاقے بیرون بھاٹی دروازہ میں قیام فرماکرکفر و شرک کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے اس شہر کو نورِ اسلام سے روشن فرمادیا۔ (سیدِ ہجویر، ص118)

تصانیف: آپ نے مخلوقِ خدا کی خیر خواہی کے لىے کئی گراں قدرکتب تصنىف فرمائیں جن کے نام یہ ہیں: (1) منہاج الدین (2) دیوان (3) اسرار الخرق والمؤنات(4) کتاب البیان لاہل العیان(5) بحر القلوب(6) الرعایۃ بحقو ق اللہ (7) کتاب فنا و بقاء(8) شرح کلام ِ منصور حلاج(9) ایمان (10)کشف المحجوب ۔ افسوس!فی زمانہ آپ کی کتابوں میں سےصرف کَشفُ المحجوب ہی بآسانی دستیاب ہے ۔ (حیات و افکار حضرت داتا گنج بخش، ص52)

حضور داتا صاحب کے متعلق متفرق معلومات:

٭ حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ خواجہ ابوالفضل محمد بن حسن خُتَّلی جنیدی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ ٭حضرت سیّدُنا داتا علی ہجویر ی رحمۃ اللہ علیہ حنفی المذہب تھے۔ ٭آپ نجیب الطرفین تھے، یعنی والد حسنی سید اور والدہ حسینی سادات سے تھیں۔ ٭آپ کا شجرۂ طریقت 09واسطوں سے امیر المؤمین مولیٰ علی المرتضیٰ شیرِخدا رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ ٭ داتاصاحب نے مؤذنِ رسول حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے مزار پر بحالتِ خواب امام الانبیاء آنحضرت ﷺ اور امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کی زیارت کی۔

وفات و مدفن: آپ رحمۃ اللہ علیہ کاوصالِ پُرملال اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک 20صفرالمظفر ۴۶۵ ؁ ھ کوہوا۔ آپ کامزارمنبعِ انواروتجلیات لاہورپاکستان میں بھاٹی دروازے کے بیرونی حصے میں ہے،اسی مناسبت سے لاہور کو مرکز الالیاء اورداتا نگر بھی کہا جاتا ہے۔( سیّدِ ہجویر، ص143)

آپ کا مزار ، مرجعِ اولیا و علما: آپ کےمزار کو انوار و تجلیات کا مرکز ہونے کی وجہ سے خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے، اپنے وقت کے بڑے بڑے اولیاء کرام رحمہم اللہ السلام جیسےسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام بابافریدمسعود گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ حاضر ہوتے رہے ہیں جبکہ متاخرین میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، پیر مہر علی شاہ گولڑوی، شہزادۂ اعلی حضرت حامد رضا خان ،صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی اور خلیفۂ اعلی حضرت،محدثِ اعظم ہند ابوالمحامدمحمد محدث کچھوچھوی، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی،امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیّد دیدارعلی شاہ محدث اَلوَری رحمۃ اللہ علیہم نے حاضری بھی دی۔ (مدینۃ الاولیاء، ص475)

گنج بخش فیض عالم مظہرِ نورِ خدا

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما


مشہور تابعی بزرگ ، کروڑوں لوگوں کے پیشوا ،  امام المعقول والمنقول، سراج الامۃ امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ اس امت پر ربّ کریم کا ایک عظیم احسان ہیں ۔آپ نے اپنی حیات مستعار کو خدمتِ اسلام کے لیے وقف کردیا،قرآن وسنت پر عمل کے لیے رہنما اصول مقرر کیے اور مسائل واحکام اخذ کرکے امت ِمرحومہ کے لیے شریعت پر عمل آسان بنایا۔آپ کے فقہی مذہب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ اسی کے پیروکار موجود ہیں ۔

فقہ حنفی کے مسائل کی تائیدوتوثیق کے لیے بہت سے اکابر علمائے کرام نے اپنی کتب میں وہ احادیثِ مبارکہ اور آثارِطیبہ یکجا کردئیے جو فقہِ حنفی کا ماخذومستدل ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فقہ حنفی پرعمل کرنے والے درحقیقت طریقہ نبوی اور سنتِ مصطفی کی اتباع کرتے ہیں۔حنفی فقہائےکرام اور علمائےعظام نے اسی عنوان پردرج ذیل کتب لکھی ہیں:

(1)کتاب الآثار: (شاگردِ امام اعظم ،امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 189ھ)

اس میں آپ نے امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت کردہ احادیث وآثار ذکر فرمائی ہیں اور اس کتاب کی ترتیب میں فقہی منہج اختیار فرمایا ہے، اس کتاب کو آپ کی امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ سے مرویات کا مجموعہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

(2)موطا امام محمد: (محررِ مذہب، امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات:189ھ)

یہ امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ سے سنی گئی روایات کا مجموعہ ہے لیکن اس میں روایتوں کے بعد زیادہ تر اپنے استاذ امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہکےفقہی مذہب کی بھی وضاحت فرمائی ہے ، اس کی کئی شروحات وحواشی موجود ہیں جس میں حضرت علی بن سلطان قاری حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات:1014ھ) کی شرح ’’فتح المغطا شرح الموطا‘‘اور علامہ عبد الحی لکھنوی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات:1304 ھ) کا حاشیہ’’التعلیق الممجدعلی موطا الامام محمد‘‘ معروف ہیں ۔ 1431ھ مطابق 2010ء میں علامہ شمسُ الہدی مصباحی کی شرح ”منائح الفضل و المنن “ کےنام سے منظر عام پر آئی،یہ شرح اپنے طرزِ استدلال کے اعتبار سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے ۔

(3)شرح معانی الآثار: (امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات:321ھ)

یہ فقہِ حنفی میں دلائل مذہبِ احناف کے حوالے سے بہت عمدہ تصنیف ہے جس میں آپ نے احکام اور فقہی مسائل کی احادیث ذکر فرمائی ہیں اور طریقہ یہ اختیار فرمایا ہے کہ سب سے پہلے اپنے فقہی مذہب کے خلاف والوں کی مستدل احادیث ذکر فرمائیں پھر احناف کا مؤقف اور اسکی تائید میں احادیث بیان فرماکر اس کی ترجیح بھی بیان فرمادی ہے، چونکہ یہ فقہی طور پر حنفی تھے اس لئے انہوں نے اکثر احناف کے مؤقف کو ہی دلائل سے راجح قرار دیا ہے البتہ کچھ مسائل میں ان کے تفردات بھی ہیں، اس عظیم کتاب کی بہت شروحات لکھی گئیں جن میں حافظ ابو محمد علی بن زکریا منبجی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 686ھ) کی’’اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب‘‘ اور امام بدر الدین محمود بن محمدعینی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 855ھ) کی دو شروحات ’’نخب الافکار‘‘ اور ’’مبانی الاخیار‘‘ بھی ہیں نیز امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 1340 ھ) کی اس پر تعلیقات بھی موجود ہیں اور صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 1367ھ) کا شاندارمفصل حاشیہ”کشف الاستار“ اس کتاب کی شروح وحواشی میں خوبصورت اضافہ ہےنیز استاذ الاساتذہ ابن داودمولانا عبد الواحد عطاری مدنی دام ظلہ جو کئی درسی کتب کے محشی بھی ہیں، نے علامہ بدر الدین عینی کی ’’نخب الافکار‘‘، امام اہلسنّت ، مولانامحدث وصی احمد سورتی (وفات: 1334ھ)اور صدر الشریعہ کے حواشی وتعلیقات سے استفادہ کرتے ہوئے ’’مبانی الابرار‘‘ کے نام سے حاشیہ تحریر فرمایا ہے جو المدینۃ العلمیہ کے شعبہ درسی کتب کی کوششوں سے عنقریب مکتبۃ المدینہ سے منظرِ عام پر آئے گا۔ان شاء اللہ العزیز

(4)شرح مشکل الآثار: (امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃُ اللہِ علیہ ، وفات: 321ھ)

یہ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے فقہی تونہیں کہی جاسکتی لیکن امام یوسف بن موسی لمطی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ نے امام ابوالولیدباجی مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ’’مختصرشرح مشکل الآثار‘‘کی جو تلخیص کی ہے اس میں ’’شرح مشکل الآثار‘‘ کی روایتوں سے مذہبِ احناف کا اثبات کیا ہے ، یہ کتاب اس کیلئے اصل اور متن کا درجہ رکھتی ہے اس لئے اس کو بھی دلائلِ مذہبِ احناف میں شمار کیا گیاہے،امام ابوجعفر طحاوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ’’شرح مشکل الٓاثار‘‘میں بظاہر متعارض نظر آنے والی احادیثِ کریمہ میں تطبیق بیان فرمائی ہے اور طریقہ یہ اختیار فرمایا ہے کہ ہر باب میں جداجدا موقف کی تائید کرنے والی احادیث ذکر فرمائیں پھر ان کی ایسی توضیح بیان فرمائی کہ ان کا تعارض ختم ہو، 1,000سے زیادہ ابواب قائم کئے گئے ہیں البتہ فقہی ترتیب کا التزام نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ کتاب کے شروع میں وضو سے متعلقہ احادیث ہیں تو کتاب کے آخر میں بھی، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کتاب میں آپ کامقصد فقہی احکام کااستخراج نہیں تھا البتہ کہیں کہیں فقہی مسائل اختصار وخلاصہ کے ساتھ ملتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس کا شمار مذہبِ حنفی کی فقہی کتابوں میں نہیں کیا جاتا۔ ابو الولید سلیمان بن خلف باجی مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 474ھ) نے ’’شرح مشکل الآثار‘‘ کی احادیث کے طرق واسانید کو حذف کیں اور ایک باب کی احادیث ایک ساتھ جمع کرتے ہوئے اسے مرتب کیا پھر امام بدر الدین عینی (وفات: 855ھ) کے استاذ اور صاحبِ غایۃ البیان علامہ اتقانی (وفات: 758ھ ) کے شاگردابو المحاسن یوسف بن موسی لمطی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 803ھ )نے ابو الولید باجی (وفات: 474ھ) نے جو اختصار کیا تھا اس کی تلخیص’’المعتصر من المختصر من مشکل الاثار‘‘ نامی کتاب لکھ کر کی جس میں آپ نے اختلافِ ائمہ بالخصوص مذہب احناف کو ’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں موجود روایتوں اور دیگر دلائل کی روشنی میں نہ صرف بیان فرمایا ہے بلکہ جہاں جہاں ابوالولید باجی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فقہی مسائل میں مذہبِ احناف پرشبہات وارد کئے تھے ان کے جوابات بھی دئیے ۔

(5)التجرید: (امام ابو الحسین احمد بن محمد جعفر بغدادی قدوری رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 428ھ)

یہ کتاب فقہی مسائل میں احناف وشوافع کے اختلاف کی وضاحت میں امام قدوریرحمۃُ اللہِ علیہ کا کئی جلدوں پر مشتمل زبردست فقہی شاہکار ہے جس میں اسلوب یہ اختیار کیا گیا ہے اس کہ کسی بھی مسئلہ میں پہلے امام اعظم ، صاحبین اور دیگر فقہائے احناف کا پھر امام شافعی اور ان کے مذہب کے فقہائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کامؤقف ذکر کیا گیاہے اس کے بعد احناف کے دلائل پھر شوافع کے دلائل اور ان پر شبہات اور احناف کے مؤقف ودلائل پر وارد ہونے والے شبہات کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں ۔

(6)ہدایہ شرح بدایۃ المبتدی: (امام ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 593ھ)

یہ فقہِ حنفی کی بہت ہی معروف ومشہور کتاب ہے ، اس کی اہمیت وعظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ’’کشف الظنون‘‘ کے مصنف حاجی خلیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ متوفی: 1067ھ نے اس کی 60 سے زائدشروحات، حواشی تعلیقات گنوائی ہیں نیز امام اہلسنّت مولانا شاہ احمدرضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 1340ھ) کی ہدایہ اور اس کی شروحات پر تعلیقات جو’’التعلیقات الرضویۃ علی الہدایۃ وشروحہا‘‘کے نام سے راقمُ الحرف کی تحقیق کے ساتھ بیروت کے معروف عالمی اشاعتی ادارےدار الکتب العلمیہ سے شائع ہوئی ہے اس میں 71شروحات وحواشی وتعلیقات وغیرہ شمار کی گئی ہیں ۔

امام مرغینانی رحمۃُ اللہِ علیہ کا اس کتاب میں اسلوب یہ ہے کہ آپ نے پہلے اپنے مختار مذہب کو ذکر فرمایا ہے پھر اختلافِ ائمہ اور ان کے دلائل پھر آخر میں اپنی دلیل کے ساتھ مخالفین کے دلائل کے جوابات دئیے ہیں، جہاں آپ نے مذہبِ احناف کی تائید میں عقلی دلائل بیان فرمائے ہیں وہیں احادیث وآثار سے بھی دلائل ذکر فرمائے ہیں لیکن بعد میں کچھ مخالفین نے ان احادیث وآثار کے ثبوت وصحت پر اعتراضات کئے تو بہت سے علمائے کرام نے ان کی تخاریج وماخذ کے ثبوت پر کتابیں لکھیں جن میں امام علی بن عثمان ماردینی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 750ھ) کی ’’التنبیہ علی احادیث الہدایۃ والخلاصۃ‘‘،امام عبد اللہ بن یوسف زیلعی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات:762ھ) کی ’’نصب الرایۃ‘‘، امام محی الدین عبد القادر قرشی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 775ھ) کی ’’عنایہ‘‘ اور امام احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 852ھ )کی ’’الدرایۃفی تخریج احادیث الہدایۃ‘‘ شامل ہیں۔

(7)فتح القدیر: (امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد سیواسی المعروف بابن الہمام رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 861ھ)

اسے ’’ہدایہ‘‘ کی سب سے بہترین شرح قرار دیا گیاہے جس میں ہدایہ کی عبارتوں کی تشریح کے ساتھ ساتھ، اختلافِ ائمہ بالخصوص فقۂ حنفی کے مسائل کو کتاب وسنت ودیگر دلائل سے نہ صرف ثابت کیا گیاہے بلکہ جہاں احناف احادیث وآثار سے دی گئی کسی دلیل پر جرح کی گئی ہے تو اس کا جواب بھی دیا گیاہےلیکن علامہ ابن ہمام رحمۃُ اللہِ علیہ کتاب الوکالۃ تک ہی لکھ پائے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی پھر آگے امام شمس الدین احمد قاضی زادہ رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 988ھ) نے ’’نتائج الافکار‘‘ کے نام سے اس بے مثال شرح کو مکمل کیا۔ یہ کتاب دنیا کے کئی مکتبوں نے کئی جلدوں میں تحقیق شدہ شائع کی ہے۔

(8)نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ: (امام عبد اللہ بن یوسف زیلعی رحمۃُ اللہِ علیہ متوفی: 762ھ)

یہ دراصل فقہِ حنفی کی بہت ہی مشہور کتاب’’ہدایہ‘‘شرح ہے جس میں ہدایہ میں مذکور احادیث وآثار کی نہ صرف تخاریج بلکہ مزید روایتوں کااضافہ،ان کی سند، حدیث کا حکم اورجرح وتعدیل بھی بیان کی گئی ہےنیز احکام میں احناف کی مؤید روایتوں کا بھی اس طرح ذکر کہ منصف مزاج قاری اس نتیجہ پر پہنچے کہ احناف کے مذہب میں ہرفقہی باب کے مسائل کی دلیل احادیث وآثار سے موجود ہے۔یہ کتاب پاک وہند وعرب کے بیسیوں مکتبوں نے کئی جلدوں میں شائع کی ہے ۔

(9)فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ:(امام علی بن سلطان قاری رحمۃُ اللہِ علیہ وفات:1014ھ)

یہ صدر الشریعہ عبید اللہ بن مسعود رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 747ھ) کی کتاب ’’نقایہ‘‘ کی شرح ہے ، علامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس کتاب کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ امام طحاوی، امام ابوبکر رازی اور امام قدوری وغیرہ متقدمین احناف نے مذہبِ احناف کے قرآن وسنت سے دلائل ذکر فرمائے، بعد میں آنے والوں نے انہی پر اعتمادر واقتصار کیا توکچھ مخالفین نے مذہبِ احناف پر اعتراضات کئے تو میں نے سوچا کہ ’’نقایہ‘‘ کی ایسی شرح لکھوں جس میں مسائل کی توضیح وتشریح اوراختلافِ ائمہ کے ساتھ ساتھ مذہبِ احناف کے دلائل قرآن وسنت کی روشنی میں ذکر کروں تو میں نے یہ کتاب لکھی۔یہ کتاب پاک وہند کے ساتھ ساتھ بیروت سے 3جلدوں میں تحقیق شدہ شائع ہوچکی ہے۔

(10) فتح المنان فی اثبات مذہب النعمان: (شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 1052ھ)

یہ احادیث وآثار سے مذہبِ حنفی کے اثبات میں بہت لا جواب کتاب ہے جو اسی مقصد کیلئے ہی لکھی گئی ہے جیساکہ کتاب کے نام سے بھی ظاہر ہے ۔ شیخ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ نےاس میں مذہبِ احناف کےفقہی احکام کی روایتوں کو ’’مشکوۃ المصابیح ‘‘کی طرز پر جمع فرمایا ہے اورساتھ ہی دیگر مذاہب (مالکی، شافعی اور حنبلی) کے مسائل کوبھی آسان اور مختصر انداز میں بیان فرمایا ہے اوراحناف کے مؤقف کو احادیث وروایات کے دلائل سے ثابت فرمایا ہے۔

(11) عقود الجواہر المنیفۃ فی ادلۃ الامام ابی حنیفۃ: (علامہ مرتضیٰ زَبیدی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 1205 ھ)

مذہبِ احناف کے احادیث سے تائیدی دلائل میں لکھی گئی کتابوں میں یہ کتاب عمدہ اضافہ ہے جس میں فقہی ترتیب کے مطابق احکام کی وہ روایتیں جو امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہیں اور وہ لفظی یا معنوی طور پر صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں مصنف نے انہیں جمع کرتے ہوئے اس کی اسنادی حیثیت بھی واضح فرمائی ہے اور جہاں کسی روایت پر کلام تھا اس کی تائیدات ذکر فرماکر اس کا جواب بھی دیا ہے ۔

(12) آثار السنن: (امام ابو الخیرمحمد ظہیر احسن نیموی بہاری رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 1322ھ )

اس کتاب میں علامہ نیموی رحمۃُ اللہِ علیہ نے 1113 روایتوں کو راوی کے نام اور اس کے ماخذ کے ساتھ ذکرفرمایا ہے نیز ان روایتوں پر اصولِ حدیث کی روشنی میں فنی ابحاث بھی فرمائی ہیں لیکن کتاب کی تکمیل سے پہلے ہی آپ کا وصال ہوگیا۔ آپ کے بیٹے مولاناعبد الرشیدفوقانی اپنے والد کی تصانیف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے مختلف فنون پر بہت سی کتابیں لکھیں جن میں سے ایک یہ کتاب بھی ہے،اس کا دوسرا جزء 1314ھ میں لکھا اور اس بات کی وضاحت انہوں نے اپنی کتاب ’’التعلیق‘‘ کے پہلے صفحہ پر بھی لکھی ہے لیکن وہ اسے مکمل نہ کرسکے ، تیسرے جزء کی کتابُ الزکوۃ کا کچھ حصہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا میرے پاس ہے لیکن نامکمل ہونے کی وجہ سے اس کو شائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘اس کتاب کو کئی مکتبوں نے شائع کیا ہے،المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) کے شعبہ درسی کتب کے رکن استاذُ العلماء مولانا احمد رضا شامی صاحب زیدعلمہ نے اس کتاب پرتحقیق وتخریج کا عمدہ کام کیا ہے جو عنقریب شائع ہوکر اہلِ علم کی تشنگی دور کرے گا ان شاء اللہ الکریم ۔

(13) صحیح البہاری: (ماہرِ علم توقیت ، ملک العلماءمولانا ظفر الدین محدث بہاری رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 1382ھ)

اس کا نام ’’جامع الرضوی ‘‘بھی ہے یہ ملک العلماءکا 6 جلدوں پر مشتمل عمدہ علمی کارنامہ ہے جس کی پہلی جلد میں آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ سے اہلِ سنّت وجماعت کے عقائد کو ثابت کیا گیا ہے بقیہ 5 جلدوں میں فقہی ترتیب کے مطابق فقہِ حنفی کی تائید پر مشتمل احادیث ذکر کی گئی ہیں جس میں عقائد ِاہلسنّت کےساتھ ساتھ احناف کے فقہی مسائل کو بھی دلائل احادیث سے ثابت کیا گیا ہے۔ پہلی جلد 1930ء اور بقیہ 3جلدیں 1937-1932ء کے دوران مطبع برقی، پٹنہ سے شائع ہوئی ، مولانامفتی ابوحمزہ محمدحسان عطاری مدنی دام ظلہ نے مکمل کتاب پر تحقیق وتخریج کے کام کا بیڑا اٹھایا اور الحمد للہ اس کی پہلی جلد شائع بھی ہوچکی ہے مزید بھی جلد منظرعام پر آئیں گی ، ان شاء اللہ الکریم۔

(14)زجاجۃ المصابیح: (علامہ ابو الحسنات عبد اللہ محدث حیدرآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 1384ھ )

یہ امام خطیب تبریزی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 737ھ) کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’مشکوۃ المصابیح‘‘ کی طرز پر فقہِ حنفی کے مسائل کی احادیث سے تائید اوران کی تشریح پر مشتمل کتاب ہے جس کے بارے میں خود مصنف عبد اللہ محدث حیدرآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ امام خطیب تبریزی رحمۃُ اللہِ علیہ نے جب ’’مشکوۃ المصابیح‘‘ میں وہ احادیث ذکر فرمائی ہیں جو امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ کے فقہی مذہب کی تائید میں ہیں تو اکثر میرے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ میں بھی اسی طرح کی کتاب لکھوں جس میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کے فقہی مذہب کی تائیدی روایتوں کو ذکر کروں لیکن میری بے سر وسامانی مانع رہی اسی دوران خواب میں خاتم النبیین رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی سلام وجوابِ سلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے علم وحکمت بھرے مبارک سینے سے لگالیاجس کی برکت سے میرا شرحِ صدر ہوا اور اس کام کی جملہ مشکلات آسان ہوگئیں تو میں نے یہ کتاب لکھنے کیلئے کمر باندھی اور بحمد اللہ اس کتاب میں ہر حدیث لکھتے وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درودِ پاک پڑھنے کا التزام کیا اور اس کتاب کا نام ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ رکھا۔‘‘کتاب کا اسلوب یہ ہےکہ اس میں احکام ومسائل سے متعلق احناف کے مستدلات جمع کیے گئے ہیں البتہ جس طرح ’’مشکوۃ‘‘ میں ہر باب کےتحت فصلیں قائم ہیں اس میں ایسا نہیں ہے بلکہ ہر باب کی ایک ہی فصل ہےاور اس کی ابتدا میں متعلقہ آیات واحادیث پھر ان سے مستنبط احکام، اختلافِ ائمہ،دلائلِ حنفیہ، ان کی وجوہ ترجیح اور دیگر احادیث وآثار سے ان کی تائید بیان کی گئی ہے،احادیث میں پہلےوہ احادیث جو ترجمۃ الباب سے مطابقت رکھتی ہیں وہ لائی گئی ہیں پھرضمنی اور التزامی دلائل ذکر کئے گئے ہیں، یہ کتاب پاک وہندسےمترجم شائع ہوئی ہے لیکن حال ہی میں ترکی کے ایک مکتبہ ’’دار السمان‘‘ نے اسے 5 جلدوں میں تحقیق وتخریج کے ساتھ عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے۔

اب اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے ’’فتح المنان‘‘کا اسلوب اور اس پر المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) کی طرف سے کیے گئے کام کاتعارفی جائزہ پیش کرتے ہیں :

اسلوب:

۞حضرت مصنف شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فقہی کتابوں کی طرح کتاب اور ابواب بندی کا قیام نیزابواب اور فصول میں باب الجنائز کے آخر تک’’مشکاۃ المصابیح‘‘ کی طرز کو اپنایا ہے۔

۞ باب الجنائز کے آخر تک ان کا یہ اسلوب ہے کہ پہلے احادیثِ مبارکہ ذکر فرماتے ہیں پھر اس فصل کے آخر میں اس مسئلہ میں فقہائے کرام کے اختلاف کو ذکرکردیتے ہیں۔

۞ مذاہبِ اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) کا آسان انداز میں انہی کی فقہی کتابوں سے دلائل کے ساتھ بیان۔

۞ مذہبِ حنفی کا بیان اور اس کی تائید میں احادیث ِ کریمہ پیش کرتے ہیں۔

۞ احادیثِ کریمہ نقل کرنے کے دوران جہاں لفظ ’’اَخْرَجَ‘‘ استعمال فرمایا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ روایت ’’جامع الاصول‘‘ سے لی گئی ہے ۔

۞ جہاں لفظ ’’رَوَی‘‘ استعمال کیا ہے اس سے مراد ہے کہ یہ روایت ’’کنز العمال‘‘ سے لی گئی ہے۔

احادیث میں ماخذ کتب:

”فتح المنان“ میں جن کتابوں سے احادیثِ مبارکہ لی گئی ہیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:

(1) موطا امام محمد: امام محمد بن حسن شیبانی، (وفات: 189ھ( (2) سنن الدارمی: امام عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی، (وفات: 255ھ( (3)جامع الاصول: ابو سادات مبارک بن محمد ابن اثیرجزری، (وفات:606ھ((4) مشکاۃ المصابیح: امام محمد بن عبد اللہ خطیب تبریزی ، (وفات:741ھ((5) کنز العمال: امام علی متقی ہندی، (وفات: 975ھ(

فقہ میں ماخذ کتب:

فقہ حنفی : فتح القدیر: امام کمال الدین ابن ہمام حنفی، (وفات: 861ھ(

فقہ شافعی : الحاوی الکبیر : ابو الحسن علی بن محمد ماوردی بصری، (وفات: 450ھ(

فقہ مالکی : رسالۃ ابن ابی زید : ابو محمد عبد اللہ بن زید قیروانی ، (وفات: 386ھ(

فقہ حنبلی : کتاب الخرقی: ابو القاسم عمر بن حسین خرقی ، (وفات: 334ھ(

اس کے علاوہ شیخ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ نے چاروں مذاہب کی مختلف کتب سے بھی حوالے دئیے ہیں۔

اس پر کام کرنے کی وجہ:

یہ کتاب لاہور اورملتان سے شائع ہوئی تھی لیکن تصحیح وتحقیق سے خالی تھی، کتاب کی عظمت اس پرمزید کام کی متقاضی تھی لہٰذا اس پر تصحیح،تخریج وتحقیق کاکام شروع کیا گیا، اس سلسلہ میں دومخطوطوں کو سامنے رکھاگیا کر کام شروع کیا گیا جن میں سے ایک سندھ کانسخہ تھا اور ایک ہند کا، سندھ والےمخطوطے کو معیار بناتے ہوئے نسخۂ ام بنایا گیا ہے۔

سندھی نسخہ کا عکس/ ہندی نسخہ کا عکس دیکھنے کے لئے نیچے لنک پر کیجئے

Aks-Sindhi -& -Hindi-Nuskha

المدینۃ العلمیہ کی طرف سے کئے جانے والے کام:

جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ (دعوتِ اسلامی) کے تخصص فی الحدیث کے طلبائے کرام سے ان کے اساتذۂ کرام مولانا مفتی محمد حسان رضاعطاری مدنی اور مولانا احمد رضا شامی دام ظلہما نے اس پر کام شروع کروایا اور گاہے گاہے ان کی سرپرستی ورہنمائی بھی فرماتے رہےپھر یہ کام المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) منتقل ہوا اور قبلہ مفتی حسان صاحب زیدعلمہ کی سرپرستی میں راقمُ الحروف کی زیرِنگرانی یہ عظیم کام جاری ہے جو اسلامی بھائیوں کی کوششوں اور مفتی صاحب کی ذاتی دلچسپی سے بہت جلد مکمل ہوکر منظر عام پر آئے گا ان شاء اللہ الکریم ۔

اس کتاب پر تحقیق وتخریج وغیرہ کے حوالے سے جو کام جاری ہیں ان کی کچھ تفصیل حسب ِذیل ہے:

(1) تقدیم ومقدمہ: کتاب پر کئے جانے والے کاموں کی تفصیل، مخطوطات کے عکس، شیخِ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ کے حالات اور کتاب میں استعمال ہونے والی اصطلاحات ورموز کا قیام ۔

(2) تشکیل اوراوقاف ورموز:جدید عربی رسمُ لخط کے التزام کے ساتھ ساتھ اوقاف ورموز کا اہتمام اورمشکل الفاظ پر اعراب ۔

(3)تخریج: قرآنی آیات، احادیث کریمہ اور عبارتوں کی تخریج نیزغیرمطبوعہ اور مخطوطات کی شکل میں موجود کتب سے بھی تخاریج کا اہتمام۔

(4) دراسۃ الاسانید: روایتوں اورراویوں کے اعتبار سے احادیث کی تحقیق۔

(5)تراجم:جہاں شیخ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ نے کسی شخصیت یا کتاب کا نام ذکر کیا ہے وہاں ان کا مختصر تعارف ،اسی طرح کتاب کے مصنف کا نام اور موضوع وغیرہ کابیان ۔

(6)تقابل :پوری کتاب کا سندھی اور ہندی مخطوط کے نسخوں سے تقابل وتصحیح اور ضروری مقامات پر حاشیہ میں اختلافِ نسخ کی وضاحت۔

(7)پروف ریڈنگ: لفظی غلطی کا امکان کم کرنے کے لیے پوری کتاب کی ایک سے زیادہ مرتبہ پروف ریڈنگ ۔

(8)فہارس: آیات واحادیث،تراجم اعلام وکتب ، موضوعات ، اشاریات کی فہرستوں نیز مصادر التحقیق کا قیام۔

یہ تمام اور دیگر ضمنی کام مکمل کرکے حسنِ صوری ومعنوی کے ساتھ اس کتاب کو عرب دنیا سے شائع کروانے کا ارادہ ہے، دعاگو ہیں کہ اللہ کریم اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے طفیل اس کام کو بخیر وخوبی پایۂ تکمیل تک پہنچائے ،قبلہ مفتی حسان صاحب اور کتاب پرکام کرنے والے افراد مولانا اکرم عطاری مدنی، مولانا عاصم عطاری مدنی ، مولانا منصور عطاری اور مولانا احمد رضاعمر عطاری مدنی کے علم وعمل میں برکتیں عطافرمائے ، دعوتِ اسلامی اور المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) کو مزید ترقی وعروج عطافرمائے اور ہمیں اخلاص کے ساتھ دینِ اسلام ومسلکِ اہلسنّت کی خوب خدمت کرنے کی توفیق بخشے۔ اٰمین بجاہ محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔


محدث سہارن پوری کا ترمذی پر حاشیہ:

یہ شروحات سے لیا گیا مختصر حاشیہ ہے جو پڑھنے والوں اور پڑھانے والوں کے لیے مفید ہے۔ اس کے متعلق محشی کے شاگردِ رشید الاسد الاشد حضرت مولانا وصی احمد محدثِ سورتی جو کہ امام احمد رضا خان قادری بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کے گہرے دوستوں میں سے ہیں، فرماتے ہیں:

میں نے جب درسی کتب کی تکمیل سے فراغت پائی تو وہ مبارک فن اور بلند وبالا علم جس کی باتیں سب سے بہترین ہوتی ہیں اس مبارک فن یعنی علم حدیث کی تحصیل کے لیے میں سید الفقہاء، علامۃ الدہر، ترجمانِ قرآن و حدیث ، حافظ الوقت شیخ احمد علی محدث سہارن پوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اللہ پاک آپ کو اپنی ظاہری ومعنوی مغفرت سے ڈھانپ لے۔میں نے آپ سے کتب صحاح ستہ اور مؤطا امام محمد پڑھیں اور سنیں، آپ مجھ سے راضی تھے اور میں آپ کی برکتوں سے مسرور تھا۔ آپ نے مجھے اپنی روایت کردہ اور سماعت کردہ روایات کی عام اجازت عطا فرمائی ، مجھے ان کی تدریس اور نشر واشاعت میں لگ جانے کا حکم دیا اور مجھے برکت کی دعاؤں سے نواز کر رخصت فرمایا۔ (مقدمہ شرح معانی الآثار،1/5)

محدث سہارن پوری کے نظریات:

میں نے صحیح بخاری شریف اور جامع ترمذی شریف پر آپ کے حواشی کا چیدہ چیدہ مطالعہ کیا تو جن باتوں میں آپ نے اہل سنت وجماعت کی موافقت فرمائی اور جن عقائد وفقہی فروعی مسائل میں اہل سنت کی مخالفت کی انہیں میں نے الگ کرلیا۔جن عقیدوں میں آپ نے اہل سنت کی موافقت کی ہے ان میں سے یہ ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غیب جانتے ہیں اور یہ کہ قیامت میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کبیرہ گناہ والوں کی شفاعت فرمائیں گے اور یوں ہی جن فروعی مسائل میں آپ نے اہل سنت کی موافقت کی ہے ان میں سے یہ ہے کہ صالحین کے مزارات پر حاضری کے لیے سفر کرکے جانا جائز ہے اوریہ کہ صالحین کی قبروں کے پاس مسجدیں بنانا جائز ہے۔ ہم ذیل میں ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔

حضورِ اقدس کے علم غیب کا عقیدہ:

(1)باب ”غریب مہاجرین جنت میں امیر مہاجرین سے پہلے جائیں گے“ میں حدیث ہے: ”غریب لوگ امیروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: یہ ہرگز گمان نہ کرنا کہ تقدیر کی یہ بات اور اس جیسی دیگر باتیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک زبان پر کسی اندازے یا اتفاق سے جاری ہوتی ہیں، نہیں بلکہ یہ اس راز کی وجہ سے ہیں جس سے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم واقف ہیں اور اس نسبت کی وجہ سے ہیں جس کا احاطہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علم شریف نے کررکھا ہے کیونکہ آپ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔جیسا کہ شرح طیبی میں ہے۔ (حاشیہ جامع ترمذی،2/58)

(2)باب”کسی کو انتقال کے بعد جب کفن پہنادیا جائے تب اس کے پاس جانا“ میں حدیث کے جزء ”میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا“ کے تحت فرماتے ہیں: ”مَا“ یا تو موصولہ ہے یا استفہامیہ ہے۔ داؤدی کہتے ہیں: ”میرے ساتھ کیا کیا جائے گا“ یہ الفاظ (راوی کا) وہم ہیں درست یوں ہے کہ ”اس کے ساتھ کیا کیا جائےگا“ یعنی عثمان رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے ساتھ۔ ایک قول یہ ہے کہ حضورپاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اس فرمان ”میرے ساتھ کیا کیا جائے گا“ میں احتمال ہے کہ یہ آپ کو اپنی مغفرت کا علم دیئے جانے سے پہلے کی بات ہو یا یہ مراد ہو سکتا ہے کہ ”میرے ساتھ دنیا میں کیا معاملہ ہوگا“ یا تفصیلی علم کی نفی مراد ہوسکتی ہے۔ (حاشیہ صحیح بخاری، 1/166)

(3)باب ”دنیا کی چمک دمک سے اور اس میں باہم فخر کرنے سے ڈراوا“ میں حدیث ہے: ”خدا کی قسم! میں ابھی اپنے حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: اس سے وہ حوض ثابت ہوتا ہے جس پرپیاسے امتی آکر سیراب ہوں گے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ حوض پیدا ہوچکا ہے اور اس فرمان میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے معجزے کے طور پر غیب کی خبر ارشاد فرمائی ہے۔ (حاشیہ صحیح بخاری،2/951)

(4)باب ”فرمانِ الٰہی ﴿m:"E'vâu[U"O اور فرمانِ الٰہی ﴿½²ï©"s2 ›z¡"“ کے تحت فرماتے ہیں: اس باب کا مقصد ربِّ کریم کے لیے صفتِ علم کو ثابت کرنا ہے اور اس میں معتزلہ کا رد بھی ہے کیونکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ خدا بغیر علم کے عالم ہے۔ چنانچہ امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے یہاں پانچ آیتوں کے پانچ اجزاء ذِکْر فرمائے۔ فرمانِ باری تعالی میں ﴿ c“ocƒ¿"p کا مطلب ہے پسندیدہ رسول۔ رسول سے یا تو سارے رسول عَلَیْہِمُ السَّلَام مراد ہیں یا جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام مراد ہیں کیونکہ وہ رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلَام کی بارگاہ میں پیغامِ الٰہی لاتے تھے۔ غیب سے کیا مراد ہے اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اپنے عمومی معنی پر ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ خاص وحی سے متعلق غیبی باتیں مراد ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ علمِ قیامت سے متعلق غیبی باتیں مراد ہیں لیکن یہ قول ضعیف ہے کیونکہ قیامت کا علم ان علوم میں سے ہے جنہیں اللہ پاک نے اپنے علم کے لیے خاص فرمایا ہے۔ ہاں یہ صورت ہوسکتی ہے کہ اس قول کے قائل نے یہ بات اختیار کی ہو کہ استثناء منقطع ہے۔ یعنی اس صورت میں یہ قول ضعیف نہیں ہوگا۔ (حاشیہ صحیح بخاری،2/1097)

حضور کے بلانے پردوران نماز بھی حکم ماننا واجب ہے:

(1)باب ”بیٹا نماز میں ہو اور ماں بُلائے“ کے تحت فرماتے ہیں: صاحب توضیح رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: ہمارے اصحاب تصریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضورنبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خصائص میں سے ہے کہ اگرا ٓپ کسی شخص کو بُلائیں اور وہ نماز میں ہو تب بھی اسے حکم ماننا واجب ہوگا (کہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوجائے) اور اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی ۔ یہ امام عینی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا فرمان ہے۔ (صحیح بخاری،1/161)

(2)باب ”سورۃ الفاتحہ کے متعلق جو وارد ہوا“ میں فرمانِ باری تعالی ﴿q§³"º2»“[6)"Z" کے تحت فرماتے ہیں: یہ آیتِ مبارکہ دلیل ہے کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بلانے پر حاضر ہونا واجب ہے، اگر حاضر نہ ہوا تو گنہگار ہوگا۔ (صحیح بخاری،2/642)

کبیرہ گناہ والوں کو حضورِ اقدس ﷺ کی شفاعت ملنے کا عقیدہ:

(1)باب ”حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اپنی قوم کو عذاب سے ڈرانا“ میں حدیث ہے: ”اے فاطمہ! اے اولادِ عبد المطلب! میں تمہارے لیے اللہ پاک کی کسی چیز کا (بذات خود) مالک نہیں ہوں، ہاں! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: یعنی بغیر اذنِ الٰہی کے(میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں) ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ ڈرانے اور خوف دلانے کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔ (لمعات) (جامع ترمذی،2/55)

(2)سورۃ الشعراء کی تفسیر میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جو فرمان آیا ہے: ”اے اولادِ عبد المطلب! میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے اللہ پاک کے اِذن کے بغیر (میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں)۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ خوف دِلانے اورڈراوے کے لیےفرمایا،ورنہ ان (اولادِ عبد المطلب) میں سے بعض کے فضائل ثابت ہیں اور ان کا جنت میں داخل ہونا، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اپنے اہلِ بیت کی اور عمومی طور پر اہلِ عرب اور اپنی امت کی شفاعت فرمانا اور ان کے حق میں آپ کی شفاعت قبول ہونا بھی احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ احادیث مبارکہ اس معاملے کے بعد وارد ہوئی ہوں۔ طیبی۔ (حاشیہ جامع ترمذی،2/149)

(3)باب ”شفاعت کے متعلق جو وارد ہوا“ میں حدیث ہے: ”میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہے۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: یعنی گناہ مٹانے کے لیے شفاعت۔ رہی درجات کی بلندی کے لیے شفاعت تو وہ ہر متقی و پرہیز گاراور اولیائے کرام کے لیے ہے اوراس پراہلِ اسلام کا اتفاق ہے۔ لمعات میں ایسا ہی ہے۔ (حاشیہ جامع ترمذی،2/66)

(4)دعوتوں کے باب میں حدیث ہے: ”ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہوتی ہے۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: حدیث کے سیاق سے یہ سمجھ آتا ہے کہ عادتِ الٰہی ہے کہ ہر نبی کو ان کی امت کے لیے ایک دعا کی اجازت دی جاتی ہے جسے اللہ پاک قبول فرماتا ہے، ( گویایہ فرمایا کہ ) ہر نبی نے دنیا میں دُعا فرمالی اور ان کی دعا قبول کرلی گئی لیکن میں نے اپنی دعا کو مؤخر کیا اور بچائے رکھا تاکہ قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کروں پس روز محشر میری دعا ہر اس بندے کو پہنچےگی جس کا ایمان پر خاتمہ ہوا ہوگا۔ لمعات (حاشیہ جامع ترمذی،2/200)

ہاں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لیے علوم خمسہ بشمول قیامت کے علم کے بارے میں جو عقیدہ ہے اس میں محشی نے اس حدیث پاک ”پانچ چیزیں اللہ پاک ہی جانتا ہے“ کے ظاہر پر عمل کیا اور اہل سنت و جماعت کے اختیارکردہ موقف کی مخالفت کی ہے اوریہ اس تحقیق کے خلاف ہے جو محقق علمائے کرام نے آیات واحادیث کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے بیان فرمائی ہے جیسا کہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتابِ مستطاب ”الدولۃ المکیۃ“ اور اس کے حاشیہ ”الفیوض الملکیۃ“ میں اس کی بہترین تفصیل فرمائی ہے۔

یاد رکھو! یہ اختلاف محض راجح اور مختار نظریہ متعین کرنے میں ہے،اس لیے نہیں کہ اس کے قائل کو کافر و مشرک قرار دے دیا جائے جیسا کہ وہابیہ کا طریقہ ہے۔ یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ محشی خود کہہ چکے ہیں: یہ قول ضعیف ہے کیونکہ قیامت کا علم ان علوم میں سے ہے جنہیں اللہ پاک نے اپنے علم کے لیے خاص فرمایا ہے ہاں یہ صورت ہوسکتی ہے کہ اس قول کے قائل نے یہ بات اختیار کی ہو کہ استثناء منقطع ہے۔ (حاشیہ صحیح بخاری،2/1097)یعنی اگر ان قائلین کا مؤقف یہ ہو کہ حدیث شریف میں جو استثناء وارد ہوا ہے وہ استثناء منقطع ہے تو اس صورت میں یہ قول ضعیف نہیں ہوگا۔

اہلِ حق اور وہابیہ کے درمیان جن اختلافی فروعی مسائل میں محشی نے اہلِ سنت وجماعت کی موافقت کی ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

مزارات صالحین پر حاضری کے لیے سفر کاجائز ہونا:

باب ”مسجدِ مکہ ومسجدِ مدینہ میں نماز کی فضیلت“ میں حدیث ”کجاوے نہ باندھے جائیں“ کے تحت فرماتے ہیں: کجاوے باندھنا سفر سے کنایہ ہے یعنی قربِ الٰہی پانے کی نیت سے ان تین جگہوں کے علاوہ کسی جگہ کا رُخ نہ کیا جائے اور اس کی وجہ ان جگہوں کی تعظیم ہے۔ صالحین کے مزارات اور دیگر فضیلت والی جگہوں کے لیے سفر کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ کوئی حرام کہتا ہے اور کسی کے نزدیک جائز کہتا ہے۔ یہ مجمع البحار میں فرمایا گیا۔ فتح الباری میں ہے کہ شیخ ابو محمد جوینی اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے حرام کہتے ہیں اور قاضی حسین نے اسی کواختیار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ امام الحرمین اور دیگر شافعی علما کے نزدیک درست یہ ہے کہ یہ حرام نہیں ہے اوراس حدیثِ مبارکہ کے متعلق انہوں نے کئی جوابات دئیے ہیں: ایک یہ ہے کہ حدیث کا مطلب ہے کہ سفر کرنے میں کامل فضیلت تب ہے جب ان مسجدوں کی طرف سفر کیا جائے ورنہ دیگر مسجدوں کی طرف سفر کرنا محض جائز ہے ۔ ایک جواب یہ ہے کہ حدیث کا مطلب ہے کہ خاص نماز کے لیے کسی مسجد کا سفر کرنا ہو تو انہیں مساجد کی طرف سفر کیا جائے اوررہا کسی نیک بندے (یا اُس کے مزار) کی زیارت وغیرہ کے ارادے سے سفر تو وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ۔اس کی تائید مسند احمد کی یہ حدیث پاک کرتی ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:” نمازی کے لیے روا نہیں کہ مسجدِ حرام، مسجدِ اقصی اور میری مسجد (نبوی) کے علاوہ کسی مسجد کی طرف نماز کے لیے کجاوہ باندھے۔“ امام ابن حجر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا کلام ختم ہوا اور عینی (عمدۃ القاری)میں بھی ایسا ہی ہے۔ (صحیح بخاری،1/158،رقم الحاشیہ:6)

کسی ولی کی قبرکے پاس مسجد بنانے کا جواز:

باب ”حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی علالت اور وصالِ ظاہری“ میں حدیث ہے: ”یہودونصاری پر خدا کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔“ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی امت کو اس عمل سے ڈرایا اور تنبیہ فرمائی ۔ امام بیضاوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: یہودی اورعیسائی انبیائے کرام کی تعظیم کے لیے ان کی قبروں کو سجدہ کرتے تھے، ان قبروں کو قبلہ بناکر نماز میں ان کی طرف منہ کرتے تھے اور ان قبروں کو اپنا معبود بنا رکھا تھا، تو حضور نبی کریمصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان پر لعنت فرمائی اور اپنی امت کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ البتہ جو کسی نیک وصالح کی قبر کے پاس مسجد بنائے اور اس سے قبر کی تعظیم یا اس کی طرف توجہ مقصود نہ ہو بلکہ اس نیک وصالح کے قرب کی برکت حاصل کرنا مقصد ہو تو وہ اس وعید میں داخل نہ ہوگا۔ لمعات میں ہے: امام نووی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ احادیث صحیحہ کے مطابق تبرک اور تعظیم کےطور پر قبر کی طرف یا قبر کے پاس نماز نہ پڑھی جائے اور اسے یقینی حرام سمجھنا ضروری ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اس میں یعنی از روئے تبرک وتعظیم انبیا واولیا کی قبروں کی طرف نماز پڑھنے کی حرمت میں کسی کو اختلاف ہوگا۔ امام نووی کا کلام ختم ہوا۔ امام تورپشتی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:اگر بندے کو قبروں کے پاس ایسی جگہ مل جائے جو نماز کے لیے بنائی گئی ہو یا اس جگہ میں قبروں کی طرف توجہ (رُخ کرنے)سے نمازی محفوظ ہوجائے تو اسےکوئی ممانعت نہیں ۔ لمعات کا کلام ختم ہوا۔شرح طیبی اور مرقاۃ کے کلام کا حاصل بھی یہی ہے۔ (صحیح بخاری،2/639)

حدیث میں مذکورحکم ”قبروں کو برابر کردو“ کا معنی ومفہوم:

محدث سہارن پوری نے اس حدیث شریف لاَتَدْعُ قَبْرًا مُشْرِفًا اِلَّا سَوَّیْتَہُ یعنی کوئی اٹھی ہوئی قبر برابر کیے بغیر نہ چھوڑنا“کی شرح وہابی نظریہ کے خلاف وبرعکس کی ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں: ”قبرا مشرفا“ کا مطلب ہے اونچی قبر یعنی جس قبر پرعمارت بنائی گئی جس سے وہ اونچی ہوگئی ۔وہ قبر مراد نہیں جسے مٹی پتھر ریت اور کنکریوں سے اونچا کیا گیا ہوحتی کہ وہ زمین سے الگ نظر آنے لگے۔ ” برابر کرنے“ کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہموار کردیا جائے، نہ یہ کہ اسے زمین کے ساتھ برابر کردیا جائے،یوں روایتوں کے درمیان تطبیق ہوجائے گی۔ شرح الشیخ میں ایسا ہی ہے۔ امام ابن ہمام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس پر محمول ہے کہ وہ لوگ عمارت بناکر قبریں اونچی کردیتے تھے(اس سے منع کیا گیا)۔ قبر کو کوہان نما بنانایا زمین سے اس قدر اونچی کردینا کہ زمین سے بالکل الگ نظر آئے ہم حدیث پاک سے یہ مراد نہیں لیتے۔وَاللہُ اَعْلَم اور اللہ بہتر جانتا ہے۔ آپ کا کلام ختم ہوا۔ ایک قول کے مطابق سنت یہ ہے کہ قبر کو ایک بالشت اونچا کیا جائے۔ امام ابنِ حبان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قبرِ انوراسی طرح ہے۔ یہ بات شیخ محدثِ دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے لمعات میں ارشاد فرمائی ہے۔ (جامع ترمذی،1/125)اس سب کے برعکس وہابیہ کے نزدیک قبرکو برابر کردینے سے مراد اُسے زمین کے برابر کردینا ہے اور وہ لوگ اسے لازم وواجب سمجھتے ہیں اور مسلمانوں اور قابل احترام شخصیات کی قبروں کی توہین کی بھی پروا نہیں کرتے۔

امامت میں خلیفہ کرنے کی ضرورت نہ بھی ہو تب حضور اکرمﷺ امام ہوسکتے ہیں اور آپ چاہیں تو آپ کی تشریف آوری پر پہلے سے امامت کروانے والا مقتدی بن جاتا ہے:

حدیث شریف میں ہے: ”جب لوگوں نےبہت زیادہ تصفیق(یعنی ہاتھ کی پشت پرزورسے ہاتھ مارکر آواز پیدا) کی تو حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ متوجہ ہوئے۔۔۔ پھر حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ عَنْہ پیچھے ہوئے یہاں تک کہ صف میں برابر ہوگئے اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی“ اس کے تحت کہتے ہیں: علامہ عینی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا پیچھے ہونا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا آگےبڑھ جاناآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خصائص سے ہے۔ امام ابن عبد البر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس بات پر اجماع کا دعوی کیا ہے کہ یہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں۔ (حاشیہ صحیح بخاری،1/94) باب ”جو لوگوں کی امامت کے لیے آیا“

یہ بالکل وہی نظریہ ہے جسے سیدی حافظِ ملت ودین مولانا شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتاب ”العذاب الشدید“ میں اختیار فرمایا ہے۔

فروعی مسائل میں محشی کا اہل سنت سے اختلاف:

وہ فروعی مسائل جن میں محشی نے اہل سنت سے اختلاف کیا ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

”قبرپرکھجور کی ٹہنی رکھنے“ کے باب میں فرماتے ہیں: اس عنوان سے مؤلف کی غرض اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ قبر پر ٹہنی رکھنا میت کو فائدہ نہیں دیتا جس طرح قبر پر خیمے سے سایہ کرنا میت کو فائدہ نہیں دیتا بلکہ نیک عمل اسے فائدہ دیتا ہے اور یوں ہی قبر پر بیٹھنے، اُس پراونچی عمارت بنانے اور قبر پھلانگنے سے میت کو کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ میت کو نفع نقصان اس کے اپنے عمل سے ہوتا ہے کسی اور چیز سے نہیں اور جو قبر پر کھجورکی ٹہنی رکھنے کے متعلق حضورِنبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاعمل حدیث پاک میں آیا ہے وہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ خاص ہے۔ (صحیح بخاری،1/182،رقم الحاشیہ:1)

یوں ہی”کھجور کی ٹہنی رکھنے“ کے باب ہی میں کہتے ہیں: امام ابن ہمام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ قبر پر بیٹھنا اور قبر کوپیروں سے روندنا مکروہ ہے۔ کلام ختم ہوا۔ اس سے مراد مکروہِ تنزیہی ہے جس کی حقیقت خلافِ اولیٰ ہے جیسا کہ امام ابنِ ملک نے ”المبارق شرح المشارق“ میں یہ بات صاف طور پر بیان کی ہے۔ چنانچہ ”قبروں پر نہ بیٹھو“ کے بیان میں فرماتے ہیں:یہ ممانعت تنزیہی ہے کیونکہ اس میں میت کی بے قدری ہے اور بعض علما نے اسے مکروہ قرار نہیں دیا ہے کیونکہ حضرت عبْدُ اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ قبروں پر بیٹھتے تھے اور یہ کہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ قبروں پر لیٹ جاتے تھے اور یہ علماممانعت والی حدیث کو ”قبرپر پیشاب کے لیے بیٹھنے “ پر محمول کرتے ہیں۔ کلام ختم ہوا۔ حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ شرح موطأ میں فرماتے ہیں: ممانعت تنزیہی ہے اور حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا عمل توہین نہ ہونے کی صورت میں اجازت و رخصت پر محمول ہے ۔ کلام ختم ہوا۔ اور بہتر یہ ہے کہ اختلاف سے بچنے کے لیے اجتناب ہی کیا جائے۔ (صحیح بخاری،1/182)

حواشی میں محشی کی عادت:

محشی کی عمومی عادت ہے کہ وہ حدیث کی شرح میں بزرگوں کا کلام نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں منقول کلام کے علاوہ اپنی طرف سے کم ہی کچھ کہتے ہیں، شروحات سے جو نقل فرماتے ہیں وہ یا تو بعینہ لفظوں کے ساتھ نقل فرماتے ہیں یا اس کا خلاصہ ذِکْر کرتے ہیں اور میں انہیں نقل کرنے میں قابلِ اعتماد ہی سمجھتا ہوں ہاں لیکن اچھے اور معمولی میں کچھ فرق نہیں کرتے ہیں بلکہ حدیث سے کیا کچھ ثابت ہوتا ہے یا کیا استنباط ہوتا ہے اس کے متعلق جو مختلف آراء ہوتی ہیں ان میں سے مضبوط اور کمزور بات، صحیح اور ہلکی بات میں فرق کیے بغیر محدث سہارن پوری اپنے حواشی میں ذِکْر کردیتے ہیں پس ان مختلف صورتوں اور الگ الگ آراء میں حق چھپ کر رہ جاتا ہے،پھر ہر کوئی اپنی پسند کی رائے لے لیتا ہے اور اس شرح سے ہر کوئی راضی ہوجاتا ہے۔کتنی ایسی جگہیں ہیں جہاں حق وباطل میں فرق کرنے کے لیے وضاحت کی ضرورت تھی لیکن وہاں یہ خاموش رہتے ہیں یا صرف لفظ وغیرہ کی شرح پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں کہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عبارتوں کی طرح ان کی شخصیت بھی مبہم ہوگئی ہے، لیکن ہم ان کے بارے میں بد گمانی نہیں کرتے اور نہ ہی شریعت اس کی اجازت دیتی ہے، میرے نزدیک فیصلہ کن بات یہ ہے کہ وہ علمائے اہل سنت میں سے ہیں لیکن ہمارے لیے سند اور حجت نہیں ہیں کیونکہ اختلافی معاملات میں حق وراجح موقف بیان کرنے میں وہ تساہل سے کام لیتے ہیں لہذا جو ان کے حواشی سے استفادہ کرتا ہے اسے چاہیے کہ ان حواشی کا مطالعہ گہری نظر اور کامل غور وفکر کے ساتھ کرے تاکہ صاف باتوں کو میلی باتوں سے جدا کرسکے اور ان پر ایسا بھروسا نہ کرے جیسا لمعات، عینی اور مرقاۃ پر کیا جاتا ہے۔ یہ ہر معاملے میں نہیں ہے بلکہ انہی معاملات میں دھیان رکھنے کی ضرورت ہے جن میں خاص کرآج کے زمانے میں اہل حق اور اہل باطل کے درمیان اختلاف ہے۔ یہ میری رائے ہے اور امید ہے کہ ہمارے علمائے کرام کے نزدیک بھی یہ بات درست ہوگی۔

نزہۃ الخواطر سے محشی کا تعارف:

نزہۃ الخواطر میں محدث سہارن پوری کے تعارف میں لکھا ہے:

سہارن پور میں پیدائش وپرورش ہوئی۔ کچھ ابتدائی تعلیم اپنے شہر کے اساتذہ سے حاصل کی۔ پھر دہلی کی طرف سفر کیا اور شیخ مملوک علی نانوتوی سے تعلیم حاصل کی اور حدیث کی سند میں اس سلسلہ سے وابستہ ہوئے: محدث سہارن پوری کے استاد شیخ وجیہ الدین سہارن پوری، ان کے استاد شیخ عبد الحق بن ہبۃ اللہ برہانوی اور ان کے استاد شیخ عبد القادر بن ولی اللہ دہلوی ہیں۔ پھر مکہ شریف کا سفر کیاحج بَیْتُ اللہ شریف کی سعادت سے مشرف ہوئے، صحاح ستہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی بن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے شیخ اسحاق بن محمد افضل دہلوی مہاجر مکی سے پڑھیں اور ان سے اجازتِ حدیث بھی حاصل کی۔ مدینہ منورہ کا سفر کیا اور درِ حضور کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا۔ پھر ہندوستان لوٹ آئے اور مسندِ تدریس پر براجمان ہوئے اور حصول رزق کے لیے تجارت کو ذریعۂ معاش بنایا۔ وہ سچے، امانت دار اور حدیث پر گہری نظر رکھنے والے عالم تھے۔ اپنی زندگی صحاح ستہ بالخصوص بخاری شریف کی تدریس وتصحیح میں لگادی ۔ دس سال تک بخاری شریف پڑھائی،اس کی تصحیح کی اور اس پر تفصیلی حاشیہ لکھا۔6 جمادی الاولی 1297 سن ہجری کو سہارن پور شہر میں فالج سے انتقال ہوا اور وہیں سپردِ خاک ہوئے۔

محمد نظام الدین رضوی مصباحی

مدرس ومفتی جامعہ اشرفیہ مبارک پور۱۵-۰۵-۱۴۲۳

27-7-2002

عربی سے ترجمہ: محمد عباس مدنی عطاری

تقابل ونظرثانی: محمد آصف اقبال عطاری مدنی 


تحریر: مولانا سید کریم الدین عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ،دعوتِ اسلامی)

قراٰنی آیات ،کثیر احادیث ، تمام صحابہ و اہلبیت ،تمام امت ،سارے مجتہدین، سب مفسرین، محدیثین، تمام فقہا و متکلمین اور پوری امتِ محمد یہ کا 1400 سوسال سے حتمی اور یقینی فیصلہ ہے جس میں دو رائے بالکل نہیں کہ” حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عزوجل کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا جو کہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی ہوا یا ہوسکتا ہے وہ کافر ہے کیونکہ وہ قرآنی آیات اور کثیر متواتر احادیث اور صحابہ کرام سے لیکر اب تک جو صحیح اور یقینی مفہوم جو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملا اور ہم تک پہنچا اس کا انکار کرنے والا ہے ۔

7 ستمبرکو یوم تحفظ ختم نبوت ہے اس میں کیا بل پاس کیا گیا ؟

07ستمبر 1974کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں ختمِ نبوت کا تاریخی بل پیش کیاگیا۔آخرکار قومی اسمبلی نے اپنے فیصلےکا اعلان کیا کہ "مرزا قادیانی کے ماننے والے ہر دو گروپ غیر مسلم ہیں اور اس شق کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنادیا گیا۔ قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد وعدہ کیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کی جائے گی، تاکہ قادیانی اپنے لئے اسلام اور مسلمان کا لفظ اور دیگر اسلامی اصطلاحات استعمال نہ کرسکیں، مگر اس سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور قانون سازی نہ کی جاسکی تا آنکہ۱۹۸۴ء میں ایک بار پھر تحریک کو منظم کیا گیا جس کے نتیجے میں امتناع قادیانیت "آرڈیننس منظور ہوا جس کی رو سے قادیانیوں کے لئے اپنے آپ کو مسلمان کہنا یا کہلوانا، اپنی عبادت گاہ کو مسجد قرار دینا ، اذان دینا، کلمہ طیبہ کا بیج لگانا، مرزا غلام احمد کو نبی کہنا، اس کے ساتھیوں کو صحابی اور اس کی بیویوں کو امہات المؤمنین کہنا وغیرہ الفاظ کا استعمال قابلِ تعزیر جرم قرار دیا گیا۔" (روزنامہ جنگ)

اللہ رب العزت قرآنِ مجید میں فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجمۂ کنزُالایمان:محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے

تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت تفسیر میں ہے : (محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔تو حضرت زید کے بھی آپ حقیقت میں باپ نہیں کہ ان کی منکوحہ آپ کے لئے حلال نہ ہوتی ، قاسم و طیّب و طاہر و ابراہیم حضور کے فرزند تھے مگر وہ اس عمر کو نہ پہنچے کہ انہیں مرد کہا جائے ، انہوں نے بچپن میں وفات پائی ۔

(ہاں اللہ کے رسول ہیں) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔۔

اور سب رسول ناصح شفیق اور واجب التوقیر و لازم الطاعۃ ہونے کے لحاظ سے اپنی اُمّت کے باپ کہلاتے ہیں بلکہ ان کے حقوق حقیقی باپ کے حقوق سے بہت زیادہ ہیں لیکن اس سے اُمّت حقیقی اولاد نہیں ہو جاتی اور حقیقی اولاد کے تمام احکام وراثت وغیرہ اس کے لئے ثابت نہیں ہوتے ۔

(اور سب نبیوں کے پچھلے) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔۔

یعنی آخر الانبیاء کہ نبوّت آپ پر ختم ہو گئی آپ کی نبوّت کے بعد کسی کو نبوّت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسٰی علیہ السلام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نبوّت پہلے پا چکے ہیں مگر نُزول کے بعد شریعتِ محمّدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظّمہ کی طرف نماز پڑھیں گے ، حضور کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے ، نصِّ قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیثِ تو حدِّ تواتر تک پہنچتی ہیں ۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور سب سے پچھلے نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضور کی نبوّت کے بعد کسی اور کو نبوّت ملنا ممکن جانے ، وہ ختمِ نبوّت کا منکِر اور کافِر خارج از اسلام ہے ۔(پ:22،الاحزاب:40) (خزائن العرفان ص:783 مکتبۃ المدینۃ)

عقیدہ ختم نبوتکے متعلق جتنے مضامین ماہنامہ فیضان مدینہ میں شائع ہوئے ہیں ان کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہے۔ اس کو ملاحظہ فرمانے کے لئے لنک حاضر ہے۔۔ https://data2.dawateislami.net/Data/Books/Download/ur/pdf/2020/2145-1.pdf?fn=aqeeda-khatam-e-nabuwat

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)

ترجمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے

ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔

{ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں ۔} جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نکاح فرمالیاتوکفاراورمنافقین یہ کہنے لگے کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے !اس پریہ آیت نازل ہوئی اورارشادفرمایاگیاکہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم میں سے کسی کے باپ نہیں تو حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بھی آپ حقیقت میں باپ نہیں کہ ان کی مَنکوحہ آپ کے لئے حلال نہ ہوتی ۔یاد رہے کہ حضرت قاسم ، طیب ، طاہر اور ابراہیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حقیقی فرزند تھے مگر وہ اس عمر کو نہ پہنچے کہ انہیں رجال یعنی مرد کہا جائے کیونکہ وہ بچپن میں ہی وفات پاگئے تھے۔ (آیت میں مذکراولاد کی نفی نہیں بلکہ رجال یعنی بڑی عمر کے مردوں میں سے کسی کے باپ ہونے کی نفی ہے۔) (خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۵۰۳، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۳۵۵، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۹۴۳، ملتقطاً)

{ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ: لیکن اللہ کے رسول ہیں ۔} آیت کے شروع کے حصہ میں فرمایا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن جیسے جسمانی باپ ہوتا ہے ایسے ہی روحانی باپ بھی ہوتا ہے تو فرمادیا کہ اگرچہ یہ مردوں میں سے کسی کے جسمانی باپ نہیں ہیں لیکن روحانی باپ ہیں یعنی اللہ کے رسول ہیں توآیت کے اِس حصے سے مراد یہ ہوا کہ تما م رسول امت کو نصیحت کرنے ،ان پر شفقت فرمانے، یونہی امت پر ان کی تعظیم و توقیر اور اطاعت لازم ہونے کے اعتبار سے اُمت کے باپ کہلاتے ہیں بلکہ اُن کے حقوق حقیقی باپ کے حقوق سے بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امت ان کی حقیقی اولاد بن گئی اور حقیقی اولاد کے تمام احکام اس کے لئے ثابت ہوگئے بلکہ وہ صرف ان ہی چیزوں کے اعتبار سے امت کے باپ ہیں جن کا ذکر ہوا اورنبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی چونکہ اللہ کے رسول ہیں اور حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ان کی حقیقی اولاد نہیں ،تو ان کے بارے میں بھی وہی حکم ہے جو دوسرے لوگوں کے بارے میں ہے ۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۵۰۳، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۹۴۳، ملتقطاً)

{ َ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ: اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔} یعنی محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آخری نبی ہیں کہ اب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۵۰۳)

نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا آخری نبی ہو نا قطعی ہے:

یاد رہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیَّت قرآن و حدیث و اِجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور اَحادیث تَواتُر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اِجماعِ قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں ۔ جو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہ ماننا، اللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی کو اَحد، صَمد، لَا شَرِیْکَ لَہ (یعنی ایک، بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرضِ اوّل ومَناطِ ایمان ہے، یونہی مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بِعثَت کو یقیناً محال وباطل جاننا فرضِ اَجل وجزئِ اِیقان ہے۔ ’’وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ نص ِقطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: جزاء اللّٰہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ، ۱۵ / ۶۳۰)

ختمِ نبوت سے متعلق10اَحادیث:

یہاں نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے سے متعلق10اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری مثال اورمجھ سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین وجمیل ایک گھربنایا،مگراس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ،لوگ اس کے گردگھومنے لگے اورتعجب سے یہ کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟پھرآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا میں (قصر ِنبوت کی) وہ اینٹ ہوں اورمیں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ہوں ۔( مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین، ص۱۲۵۵، الحدیث: ۲۲(۲۲۸۶))

(2)حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیااورمیں نے اس کے مشرقوں اورمغربوں کودیکھ لیا۔ (اور اس حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ) عنقریب میری امت میں تیس کذّاب ہوں گے، ان میں سے ہرایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خَاتَمَ النَّبِیّٖن ہوں اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں ہے ۔( ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، ۴ / ۱۳۲، الحدیث: ۴۲۵۲)

(3)حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے چھ وجوہ سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فضیلت دی گئی ہے ۔(1)مجھے جامع کلمات عطاکیے گئے ہیں ۔ (2)رعب سے میری مددکی گئی ہے۔ (3)میرے لیے غنیمتوں کوحلال کر دیا گیا ہے۔ (4)تمام روئے زمین کومیرے لیے طہارت اورنمازکی جگہ بنادیاگیاہے ۔(5)مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجاگیاہے۔ (6)اورمجھ پرنبیوں (کے سلسلے) کوختم کیاگیاہے۔( مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵(۵۲۳))

(4)حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میرے متعدد نام ہیں ، میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی اسماء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۴ / ۳۸۲، الحدیث: ۲۸۴۹)

(5)حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور یہ بات بطورِ فخرنہیں کہتا، میں تمام پیغمبروں کا خاتَم ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلا شفاعت قبول کیا گیا ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں فرماتا ۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۶۳، الحدیث: ۱۷۰)

(6)حضرت عرباض بن ساریہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میں اللہ تعالیٰ کے حضور لوحِ محفوظ میں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (لکھا) تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔(مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث العرباض بن ساریۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،۶ / ۸۷، الحدیث:۱۷۱۶۳)

(7)حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ،اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔( ترمذی،کتاب الرؤیا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،باب ذہبت النبوّۃ وبقیت المبشَّرات،۴ / ۱۲۱،الحدیث:۲۲۷۹)

(8)حضرت سعدبن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے ارشاد فرمایا: ’’اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوسٰی غَیْرَ اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ‘‘(مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علیّ بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ، ص۱۳۱۰، الحدیث: ۳۱(۲۴۰۴)) یعنی کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم یہاں میری نیابت میں ایسے رہو جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام جب اپنے رب سے کلام کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی نیابت میں چھوڑ گئے تھے، ہاں یہ فرق ہے کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی تھے جبکہ میری تشریف آوری کے بعد دوسرے کے لئے نبوت نہیں اس لئے تم نبی نہیں ہو۔

(9)حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شَمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دو کندھوں کے درمیان مہر ِنبوت تھی اور آپ خاتَمُ النَّبِیِّیْن تھے۔(ترمذی،کتاب الرؤیا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،باب ذہبت النبوّۃ وبقیت المبشَّرات،۴ / ۱۲۱، الحدیث: ۲۲۷۹)

(10)حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ،لہٰذا تم اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں پڑھو،اپنے مہینے کے روزے رکھو،اپنے مالوں کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرو ،اپنے حُکّام کی اطاعت کرو (اور) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔(معجم الکبیر، صدی بن العجلان ابو امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، محمد بن زیاد الالہانی عن ابی امامۃ، ۸ / ۱۱۵، الحدیث: ۷۵۳۵)

کثیر دلائل جاننے کے لئے:

نوٹ: حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ختمِ نبوت کے دلائل اور مُنکروں کے رد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی14ویں جلد میں موجود رسالہ ’’اَلْمُبِیْن خَتْمُ النَّبِیِّیْن‘‘ (حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کے دلائل) اور15ویں جلد میں موجود رسالہ ’’جَزَاءُ اللہِ عَدُوَّہٗ بِاِبَائِہٖ خَتْمَ النُّبُوَّۃِ‘‘ (ختم نبوت کا انکار کرنے والوں کا رد) اور مطالعہ فرمائیں ۔(صراط الجنان جلد8 صفحہ 46-50 مکتبۃ المدینہ)

اگر اس کے لحاظ سے مزید مطالعہ فرمانا چاہیں تو پرفیسر محمد امین آسی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "تحفظ ختم نبوت جلد دوم" کے صفحے 1007 سے لیکر 1023 تک جو کتا ب ختم نبوت پر لکھی گئیں اس میں اُن مختلف رسائل کا نام ا ور تعارف لکھا گیا ہے اور اس رسائل میں جو بڑا کام کیا گیا اور وہ کئی جلدوں پر مشتمل ہے اور وہ مفتی امین صاحب کا ایک انسائیکلوپیڈیا کتاب بنام "عقیدہ ختم نبوت" جو کہ تقریبا 13 سے 14 جلدوں پر مشتمل ہے اس کوبھی مطالعہ فرماسکتے ہیں۔آپ کو کافی معلومات حاصل ہوسکتی ہے۔جزاک اللہ عزوجل ۔

اللہ عزوجل ہمارے اور ہمارے موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے ایمان و عقیدےکی حفاظت فرمائے اور ہمیں ہمیشہ مرتے دم تک دین اسلام پر قائم ودائم رکھے اوراسی کے ساتھ عمر درازی بالخیر فرمائے اور جب خاتمہ ہو تو ۔ایمان پر، دین اسلام پر خاتمہ فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین


شکریہ  امیر اہل سنت ، شکریہ دعوت اسلامی

اللہ کریم نے دنیا میں انسانوں کی فلاح و بہبود ، ان کی اصلاح اور کردار کو سنوارنے کے لئے وقتا فوقتا انبیاءکرام کواس دنیا میں بھیجا، ہر نبی نے لوگوں کواللہ کریم کی وحدانیت اور اس کے آگے سربسجود ہونےکی دعوت دی اور اپنے افعال و کردار کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کی ۔ سب نبیوں کے آخر میں اللہ کریم نے انسانوں کو اپنا پیارا محبوب عطافرمایااور قیامت تک کے لیے نبوت کا دروازہ بند کردیااور انبیاء کی بعثت کے اس مقصد کو اپنے محبوب کی امت کے ذمہ لگا دیا، جیساکہ قرآن مجید ،فرقان حمید کےپارہ 4 سورۂ ال عمران میں اس بات کو یوں بیان کیا:

وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔

ترجمہ :اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (سورہ اٰل عمران، آیت 104)

قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے مصنفین کا تصنیف کرنا، مقررین کا تقریر کرنا، مبلغین کا بیان کرنا، انفرادی طور پر لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا وغیرہ، یہ سب کام تبلیغِ دین کے زمرے میں آتے ہیں اور بقدرِ اخلاص ہر ایک کو اس کی فضیلت ملتی ہے۔

تبلیغ قَولی بھی ہوتی ہے اور عملی بھی اور بسااوقات عملی تبلیغ قولی تبلیغ سے زیادہ مُؤثّر ہوتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام ،تابعین و تبع تابعین اور دیگر بزرگان دین نے بھی لوگوں کی اصلاح کے لئے مختلف طریقے اپنائے اور کثیر لوگوں کے ایمان و عقائد کو محفوظ کرکے انہیں خالق کائنات کے مقرب و محبوب بندوں میں شامل کروانے کی کوششیں کی ۔ نبی کریم کی سنتوں کے پیکر،صحابہ کرام وتابعیناور بزرگان دین کی سچی محبت سےلبریز اللہ کےایک نیک بندےاور کراچی کے ایک چھوٹے سے علاقے کی ایک مسجد کے ایک امام نے 2ستمبر1981 میں مسلمانوں کی اصلاح کرنے اور ان کے کردار کو سنوارنے کے لئے ایک تحریک بنام ”دعوتِ اسلامی “ بنائی اور اس تحریک کا ایک مقصد رکھا کہ ”مجھےاپنی اور ساری دنیاکے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے “

اور یہ بات مشہور ہےکہ ترغیب کے لئے سراپائے ترغیب بننا پڑتاہے ،اللہ کےاس نیک بندے نے اپنے کردار سے اس بات کو سچ کردکھایا اور لوگ ان کے قول و فعل سے متاثر ہونے لگےاسلام کی بہاریں نظر آناشروع ہوگئیں۔ مسلمانوں کے عقائد و نظریات اور ان کے کردار کو سنوارنے کے لئے مساجد کی تعمیر ات شروع ہو گئیں ۔ بچوں اور نو جوانوں کو قرآن و حدیث کی تعلیمات سے آشنا کرنے کے لئے ہر طرف مدارس کی تعمیرات شروع ہو گئیں ۔ان مدارس کی کامیابی اس طرح روز روشن کی طرح واضح ہو رہی ہیں کہ ان سے فارغ التحصیل مدنی علماء سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں دین متین کی خدمت اور لوگوں کو نبی کریم کی سنتوں اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آشنا کررہے ہیں۔

اسلام کی تعلیمات پر عمل پیراامیر اہل سنت کےتربیت یافتہ مریدین کو دیکھ کر آج لوگ یہ بات کہنے پرمجبور ہوگئے کہ یہی لوگ اسلام پرعمل کرنے والےلوگ ہیں،جنہوں نے دین اسلام کی تعلیمات کو دیکھنا ہوتو ان کے کردار کو دیکھ لیں ۔

آج دنیا میں اگر کسی بھی شخصیت کی کامیابی اور نا کامی کا فیصلہ کرناہوتو اس کی دو چیزوں کو دیکھا جاتاہے ۔ (1) اس نے کہا کیا تھا؟ (2) اور کیا کیاہے ؟

اللہ پاک کےفضل و کرم سے قبلہ شیخ طر یقت، امیر اہل سنت نے آج تک جو جو باتیں کیں الحمدللہ! ان کو کرکےدیکھایا ۔ لاکھوں لوگ ان کے دامن سے وابستہ ہوکر نیک ، نمازی بن گئے، کئی غیرمسلمانوں کو دامن اسلام سے وابستہ ہونےکی سعادت نصیب ہو گئی ۔ 2ستمبر 2021 کو اس تحریک کو 40سال مکمل ہونے جارہے ہیں اور ان چالیس سالوں کے اندر اللہ پاک کے فضل و کرم ،نبی کریم کی نظر عنایت اور بزرگان ِ دین کے فیضان سے مالامال اس تحریک نے جس شعبے میں بھی قدم رکھا وہ اپنی مثال آپ ہے ، حالات زمانہ کےحساب سے امتِ مسلمہ کو جس جس شعبے کی ضرورت پیش آتی رہی یہ تحریک اس شعبے میں امت مسلمہ کی خدمت کرتی نظر آئی اور تاریخ میں سنہری حروف سے لکھاجائے گا کہ

جب کرونا جیسی مہلک وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو اس وقت تھلیسیمیا کےمریضوں کو خون دینے سے لے کر لاک ڈاون کی وجہ سے تقریبا 25لاکھ غریب مسلمانوں کے گھروں میں راشن پہنچا کر خیر خواہی امت کا حق ادا کیا۔

اسی طرح جب صحابہ کرام کی شان میں نازیبا کلمات کہے جانے لگےتو اس مرد قلندر نے ہرصحابی نبی جنتی جنتی کانعرہ دے کر مسلمانوں کے عقائد ونظریات کو محفوظ کیا۔

قبلہ شیخ طریقت امیر اہل سنت اور آپ کی تحریک دعوت اسلا می کا شکریہ ادا کریں تو کس کس پہلو سے کریں؟ دعوت اسلامی ا ب تک80 سے زائد شعبہ جات میں اسلام کی تعلیمات کو عام کرتی نظرآ رہی ہے۔ بندۂ ناچیز ترمذی شریف کی اس حدیثِ مبارکہ پر عمل کی نیت سے کہ جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ کیا اس نے اللہ کا بھی شکرادا نہ کیا۔(ترمذی ،3/384،حدیث:1962 )

قبلہ امیر اہل سنت اور تمام اراکین شوری کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے ” شکریہ امیراہل سنت ، شکریہ دعوت اسلامی “ اور ساتھ ہی دعوت اسلامی کو 40 سال دین متین کی خدمت کرنے پرحضرت علامہ مولانا محمد الیا س عطار قادری اور اراکین شوری اور تمام دعوت اسلامی والوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔

اللہ کریم قبلہ شیخ طریقت ، امیراہل سنت ، تمام اراکین شوری ( جو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات دین کی خدمت کے لئے صرف کر رہے ہیں ان سب )کو اور تمام دعوت اسلامی والوں کو بے شمار برکتیں عطافرمائے اور اس تحریک کو مزید دنیا بھر میں دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عام کرنے کے توفیق عطافرمائے۔

آمین

عبدالجبار عطاری مدنی

المدینۃ العلمیہ (شعبہ ذمہ دار رسائل دعوت اسلامی )

1/9/2021

الحمد اللہ علی احسانہ امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کےاخلاص ،لگن اور شب و روز کی مسلسل کاوشوں کےنتیجے میں اَب2021ءبمطابق 1443ھ میں دعوت اسلامی کو 40 سال مکمل ہونے جارہے ہیں۔

اس سلسلے میں رواں سال 2 ستمبر2021ء بروز جمعرات کو عالمی مدنی مزکز فیضان مدینہ میں 40 واں یومِ دعوت اسلامی منایا جائے گا جس میں امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے اور نگرانِ شوریٰ مولانا حاجی محمد عمران عطاری دعوتِ اسلامی کی اصلاح معاشرہ کےحوالےسے کی جانےوالی دینی خدمات سے آگاہی دیں گے۔اس موقع پر امیر ِدعوت اسلامی مولانا محمدالیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نےاسلامی بھائیوں کو شکرانے کے 2 رکعت نفل ادا کرنےکی ترغیب بھی دلائی ہے۔

یومِ دعوت اسلامی کا بنیادی مقصد اللہ پاک کی اس نعمت کا شکر ادا کرنا ہےکہ اس نے ہمیں اس پُر فتن دور میں ایسا دینی ماحول عطا کیا جس نے معاشرے کےکتنے ہی بگڑےہوئے لوگوں کو سنوارا۔ بزرگان دین علیہ الرحمہ نےہر دور میں امت مسلمہ کی اصلاح کےلئےشریعت کےاندر رہتےہوئےاصلاح کےمختلف انداز اپنائے تاکہ مسلمان خواب غفلت سےبیدار ہوں اور غیر مسلم اسلام کی طرف مائل ہوں ۔ دعوت اسلامی نےبھی اپنے بزرگوں کےنقش قدم پر چلتےہوئےکتنےہی بےنمازیوں کو نمازی بنادیا اور ان میں سےکتنوں کو امامت کورس کرواکرمنصب امامت پر فائزکردیا ۔پاکستان انتظامی امور کے نگران رکن شوریٰ حاجی شاھد عطاری دعوت اسلامی کاتعارف پیش کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ کیا بعید ایسے افراد ہی امامت کورس بھی کرواتےہوں، بدکردار لوگوں کو باکردار مسلمان بنادیا،سنت سےدور کتنےہی افراد کوشارع سنت کے رستےپر گامزن کردیا ،اسی طرح فیشن پَرست اوربےپردہ عورتوں کو چادر و چار دیوار ی کا درس دیگر انہیں شرعی پردہ کرنےوالا بنادیا ۔مزیدامیر اہل سنت کےتربیت یافتہ مبلغین کی انفرادی کوشش اور مدنی چینل دیکھ کر کتنےہی غیر مسلم ایمان کی دولت سےمالامال ہوگئے۔مسلمانوں کو نصیحت کرنےکاحکم رب کریم عزوجل نے دیا ہے۔جیساکہ ارشاد خداوندی ہے:

وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ ترجمہ: اور سمجھاؤکہ سمجھانامسلمانوں کوفائدہ دیتاہے۔(الذاریات:51/55)

اسی طرح دعوت اسلامی کادینی کام جیل خانہ جات میں بھی ہے،جیل میں ایسے لوگوں کی کثرت ہوتی ہے جو عموماًقراٰن و سنت کی تعلیم سے بے بہرہ ہوتے ہیں، اسی وجہ سے نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر قتل و غارت ، فائرنگ، دہشت گردی، توڑ پھوڑ، چوری، ڈکیتی، زناکاری، منشیات فروشی، جوا اور نہ جانے کیسے کیسے جرائم میں مبتلا ہوکربالآخر جیل کی چار دیواری میں مقیّد ہوجاتے ہیں ۔ الحمد للّٰہ عَزَّوَجَلَّ قَیدیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے جیل خانوں میں بھی دعوتِ اسلامی کےشعبہ فیضانِ قراٰن کے ذریعے دینی کام کا سلسلہ جاری ہے ۔ کراچی سینٹرل جیل میں قیدیوں کو عالم بنانے کےلئے جامعۃ ُالْمدینہ کا بھی سلسلہ ہے ۔ کئی ڈاکواور جَرائم پیشہ افراد جیل کے اند ر ہونے والے دینی کاموں سے مُتأَثِّر ہوکر تائب ہونے کے بعدرِہا ئی پاکر عاشِقانِ رسول کے ساتھ مَدَنی قافلوں کے مسافر بننے اور سُنّتوں بھری زندگی گزارنے کی سعادت پارہے ہیں۔

اللہ کی رحمت ہےیہ دعوت اسلامی اللہ کی نعمت ہے یہ دعوت اسلامی

آقا کی عنایت ہے یہ دعوت اسلامی امت کی خیرخواہی یہ دعوت اسلامی

دعوت اسلامی نےمعاشرے کی اصلاح میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی

بزرگانِ دِین کا مُعاشرے کی اصلاح  کا جذبہ مرحبا! اَلْحَمْدُلِلّٰہ!بُزرگانِ دِین کی صحبت سےتربیتِ یافتہ شیخِ طریقت،امیراہل سنّت بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانامحمدالیاس عطارقادِری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ بھی مُعاشرےکی اصلاح کرنےکےمعاملےمیں بےحد ایکٹو (Active) ہیں۔آپ اِصلاحِ مُعاشرہ کے لئے کئی اہم کاموں میں مصروف ہیں،آپ لوگوں کو نرمی ومحبت سےنیکی کی دعوت دےکرگناہوں سےروکنے کےلئےہردم کوشاں ہیں۔اَمیراہل سنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ جہاں انفرادی کوشش کے ذریعے مُعاشرے کی اصلاح کررہےہیں،وہیں آپ اپنے بیانات اورمدنی مذاکروں کے ذریعےبھی مُعاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کررہے ہیں،آپ کےبیانات اورمدنی مذاکرے تاثیرکاتیربن کراثراندازہورہےہیں۔

آپ کے سنّتوں بھرے اِصلاحی بیانات اور مدنی مذاکروں  کوسننےوالوں کی توجہ کاعَالَم دیکھنے کے قابل ہوتاہے۔ عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کےسُنّتوں بھرے اجتماعات ہوں یاہرہفتےکوہونےوالامدنی مذاکرہ کثیر عاشقانِ رسول آپ کےبیان اوررنگ برنگے مدنی پھولوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں،بذریعہ مدنی چینل،اِنٹرنیٹ دیکھنےاور سننے والوں کی تعداد اس کےعلاوہ ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ آپ کےبیانات و مدنی مذاکرے بذریعہ مدنی چینل گھروں،دکانوں(Shops) ،جامعات وغیرہ میں بھی نہایت شوق سےسُنےجاتےہیں۔ان بیانات کومکتبۃ المدینہ شائع کرتاہے۔

آپ کااندازِبیان بےحد سادہ اور عام فہم اور سمجھانے کاطریقہ ایساہمدردانہ ہوتاہےکہ سننےوالےکےدل میں اُترتا چلا جاتا ہے ۔ لاکھوں مسلمان آپ کے بیانات کی برکت سے تائب ہوکر راہِ راست پرآچکےہیں اِسی طرح دعوتِ اسلامی نےکتنوں کوقراٰن مجید کی تعلیم دی اور کتنےہی دنیادار لوگوں کو درس نظامی کرواکر عالم اورمفتی بنادیا جواَب دینِ اسلام کی خدمت سر انجام دے رہے،اور کتنے ہی لوگوں کو دعوت اسلامی نےمدینے اور مدینے والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کےعشق ومحبت کےجام گھول کر پلادیئےجو کہ ایمان کاحصہ ہے۔ اس لئے معاشرے میں جب دعوت اسلامی کا نام لیا جاتا ہےتو ذہن میں ایسے افراد کاتصور آتا ہےجو مدینہ کی محبت سےسرشار ،پیارےآقا صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنےوالے،دین پر چلنے والے،اور دوسروں کو نیکی کی دعوت دیکر انہیں بھی دین پر عمل کروانےوالےہے۔

”یوم دعوت اسلامی پر دعوت اسلامی نے اب تک جتنے بھی دینی، اصلاحی و فلاحی کاموں کے مراحل طے کرلئے ہیں ان کے بارےمیں ایک تفصیلی خاکہ پیش کیا جائیگا جس سے اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو مزید دینی کام کرنے میں رغبت ملے گی۔

اللہ پاک کےفضل و کرم اور مصطفیٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نظر عنایت سے دعوت اسلامی دن بہ دن ترقی کی منازل طے کررہی ہے۔ شیخِ طریقت امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں جب سے دعوت اسلامی بنی ہے جب سے اَب تک ا یک پل کےلئے بھی پیچھے نہیں ہوئی، ترقی کےمنازل ہی طے کررہی ہے ۔اللہ پاک آپ دامت برکاتہم العالیہ کےاس باغ کو سدا پھلتا پھولتا رکھے ۔ امین

آپ دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے چند رُفقاء کےساتھ ملکر 1981ء میں اس عظیم کاروان کاآغاز اس مدنی مقصد کےتحت فرمایا کہ ’’مجھےاپنی اور ساری دنیا کےلوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے‘‘۔آپ فرماتے ہیں کہ میں اکیلا ہی چلاتھا جانب منزل ایک ایک آتا رہا کارواں بنتا رہا ۔

دعوتِ اسلامی کے بنیادی مقصد پر امیر اہل سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اپنے شب روز کو وقف کردیا ، یہی وجہ ہے کہ آپ کی مسلسل کوشش و جد وجہد کے نتیجے میں اللہ پاک نے آپ کو کامیابی عطا فرمائی ہے۔ عربی کا مشہورمقولہ ہے مَنْ جَدَّ وَجَدَ یعنی ’’جس نے کوشِش کی اُس نے پا لیا‘‘۔

مزید آپ کو علمائے اہل سنت مدظلہم العالی کی تائید بھی حاصل ہوتی رہی۔ دینی کاموں کے لئے حضرت علامہ مولاناشفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسجد ”گلزار حبیب“ جو کہ سولجر بازار میں واقع ہے امیر اہلسنت دَامَت بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اسے پیش کردیا ،اسی وجہ سے گلزار حبیب مسجد کو دعوت اسلامی کااولین مدنی مرکز بھی کہا جاتاہے۔

گلزار حبیب مسجد سے شروع ہونےوالا یہ دینی کام آج دنیا کےتقریبا200 ممالک تک پہنچ چکا ہے۔اس کےعلاوہ دعوت اسلامی 100 سےزائد شعبہ جات میں اصلاح معاشرہ کے لئے دینی متین کی سنتوں کی خدمت سرانجام دےرہی ہے۔ دعوت اسلامی نے اصلاح معاشرہ کے حوالے سے اپنےمدنی مقصد کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے۔

(1) اپنی اصلاح کےلئے رسالہ بنام ’’نیک اعمال ‘‘

(2)ساری دنیا کی اصلاح کےلئے ”مدنی قافلہ“

رسالہ بنام ’’نیک اعمال ‘‘ کےبارے میں امیر اہل سنت فرماتے ہیں یہ اسلامی زندگی کاگزارنے کاآسان طریقہ ہے۔اسں میں موجود سوالات پر عمل کرنے کی برکت سےآپ اپنی زندگی کےشب وروز کو دین اسلام کی تعلیمات کےمطابق گزار سکتےہے اور مدنی قافلہ کےبارےمیں آپ فرماتے ہیں مدنی قافلہ دعوت اسلامی کےلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔اور آج مدنی قافلوں کی برکت سےدنیا بھر میں دعوت اسلامی کےدینی کاموں کی دھوم دھام ہے۔

لحد میں عشقِ رُخِ شہ کا داغ لے کے چلے اندھیری رات سُنی تھی چراغ لے کے چلے

ترے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے

(حدائق بخش،ص:369)


اقوامِ عالم کی تاریخ پڑھ کر جہاں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کے علاوہ دیگر تمام مذاہب نے عورت کے خانگی ،ملی  اور معاشرتی حقوق پامال کرکے اسے زوال و انحطاط کے تحت الثری تک پہنچایا ہے وہیں یہ حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام ہی نے عورت کے تمام حقوق کی اولین علم برداری کرکے اسے ثریا جیسی رفعت و بلندی عطا کی ہے لہٰذا مَردوں کے علاوہ خواتین کو بھی اسلام کا نہ صرف احسان مند رہنا چاہئے بلکہ اسی کی تعلیمات کا بھی پابند رہنا چاہئے کیونکہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کی صرف رسمی آواز ہی بلند نہیں کی بلکہ حقوق بھی متعین کئے” وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(پ2،البقرۃ:228) (ترجمہ کنز الایمان: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق)اور مردوں کو ان حقوق کی ادائیگی کا پابند بھی کیا،حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرمایا،خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلِہٖ وَ اَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ یعنی تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لئے بہتر ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنے اہلِ خانہ کے لئے بہتر ہوں۔(ابنِ ماجہ، 2/ 478، حدیث: 1977)نیز عورت کی قدر و اہمیت یوں اجاگر کی کہ فرمایا: الدنیا متاع و خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ، دنیا متاع ہے دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے۔(مسلم،ص595، حدیث:3643) بہرحال اسلام نے ہر معاملے میں عورتوں کی رعایت و حمایت کی ،قرآنِ کریم میں جابجا مردوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کیا گیا ،اللہ پاک نے”یٰۤاَیُّهَا النَّاس “اور ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “فرما کر ہر جگہ مردوں اور عورتوں سے ایک ساتھ خطاب فرمایا اس کے علاوہ متعدد مقامات پر عورتوں کے لئے خصوصی احکامات بھی بیان فرمائے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی مسلمان خواتین کی درخواست پر ان کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک دن مخصوص فرما دیا تھا جس میں خواتینِ اسلام طے شدہ مقام پر اجتماعی طور پر رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے دینی احکامات سیکھا کرتی تھیں۔(بخاری ،4 / 510، حدیث: 7310) بلا شبہ حالات کی نزاکت، مسلمان کی عملی حالت اور دینی معلومات کی قلّت کی وجہ سے آج بھی اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق یہ سلسلہ جاری رکھا جائے ۔الحمد للہ ! دنیا کی سب سے بڑی مذہبی اور عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی نے یہ بیڑا اٹھایا اور اسلامی بھائیوں کو نیکی کی راہ پر چلانے کے علاوہ اس خیر و بھلائی میں اسلامی بہنوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا ،یہی وجہ ہے کہ شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے مدنی مذاکروں ، نگرانِ شوری کے مدنی مکالموں اور دعوتِ اسلامی کے سنتوں بھرے اجتماعات میں ان کی بھی دینی تربیت کی جاتی ہے، نیز امیرِ اہلسنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ اور المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)کی تحریر کردہ خصوصی تالیفات بھی اسی سلسلے کی کَڑیاں ہیں۔الحمد للہ! اب اسلامی بہنوں کے لئے ایک زبردست خوشخبری یہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے علمی و تحقیقی ادارے المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)میں ”فیضانِ صحابیات و صالحات “کے نام سے خصوصی شعبے کا قیام کردیا گیا ہے ،آئندہ اسلامی بہنوں سے متعلق جو بھی دینی لیٹریچر المدینۃُ العلمیہ کی طرف سے منظرِ عام پر آئے گا اس کا تحریری کام اسی شعبے ”فیضانِ صحابیات و صالحات “کے تحت ہی کیا جائے گا۔ اب تک الحمدُ للہ اس شعبے سے درج ذیل 17کتب و رسائل منظرِ عام پر آچکے ہیں:(1) فیضانِ امہاتُ المؤمنین(2)فیضانِ عائشہ صدیقہ (3) فیضانِ خدیجۃ الکبریٰ (4)فیضانِ حضرت آسیہ (5)فیضانِ بی بی ام سلیم (6)فیضانِ بی بی مریم(7) ازواجِ انبیاء کی حکایات (8) صحابیات اورپردہ (9) صحابیات اورعشقِ رسول (10) بارگاہِ رسالت میں صحابیات کےنذرانے (11) صحابیات اورنصیحتوں کےمدنی پھول(12) صحابیات اورشوقِ علمِ دین(13) صحابیات اور شوقِ عبادت (14) صحابیات وصالحات اور صبر (15) صحابیات وصالحات اورراہِ خدا میں خرچ کرنا (16) صحابیات اوردین کی خاطر قربانیاں (17) اسلامی بہنوں کے 8 دینی کام۔

مندرجہ ذیل3 کتب زیر طبع ہیں:

(1) علاقائی دورہ اسلامی بہنیں (2) ہفتہ وار مدنی مذاکرہ اسلامی بہنیں(3)آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے شہزادے و شہزادیاں۔

آئندہ کے اہداف: آئندہ کے اہداف میں 2 کتابیں ”صحابیات و صالحات کی 123 حکایات“ اور ”8 دینی کام (مجلّد) “ شامل ہیں جو تکمیل کے مراحل میں پہنچ چکی ہیں اور عنقریب منظرِ عام پر ہوں گی۔

نیزسیرت نگاری کے علاوہ ایک اضافی اور اہم کام کا ہدف بھی شعبہ ” فیضان صحابیات و صالحات“کے سپرد کیا گیا ہے اور وہ کام ہے ”ماہنامہ خواتین (ویب ایڈیشن)“الحمد للہ یہ بھی بہت جلد اس شعبہ کی عظیم کاوش کی صورت میں منظرِ عام پر آکر اسلامی بہنوں کی دلی مسرّت کا سامان اور دینی معلومات و تربیت کا بہترین ذریعہ بننے والا ہے۔