سرکارِ دو عالم نورِ مُجَسم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا جب بھی تذکرہ کیا جائے یا ان کی سیرت کو پڑھا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کااپنا ہی مقام ہے چاہے وہ صحابی ہوں یا صحابیہ ہوں ہر ایک کی زندگی مسلمانوں کے لئے ایسا نمونہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہر ایک کے لئے دین اسلام پر چلنا آسان اور ہر ایک اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا سکتا ہے۔

جس طرح صحابۂ کرام علیہم الرضوان سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے اور ان کے فرمان پر عمل کرنے کو ہر چیز پر فوقیت دیتے تھے اسی طرح صحابیات کا بھی یہ معمول تھا کہ وہ اپنی جان و مال اور اولاد سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتی تھیں جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اُس کی اولاد،ماں باپ اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہو جاؤں ۔ یہاں تک کہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ جو چیزیں عورتوں کو عام طور پر بہت پسند ہوا کرتی ہیں اگر اس کے متعلق آپ علیہ السلام منع فرمادیتے تو وہ اسے بھی قربان کردیا کرتی تھیں ۔ اسی طرح اگر سرکار علیہ السلام جنگ کا اعلان کردیں تو وہ اپنے شوہروں اور اپنے بیٹوں کو بلا جھجک جنگ میں بھیج دیا کرتی تھیں۔

آج ہم انہیں میں سے ایک صحابیہ کے بارے میں بات کریں گے جنہیں صحابیہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ علیہ السلام کی زوجہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے ۔ ہماری مراد اُمُّ المؤمنین حضرت سیدتنا جُوَیریہ بنت حارث رضی اللہ عنھا ہیں ۔

نام اور قبیلہ: اسلام لانے سے پہلے آپ کا نام برّہ بنتِ حارث تھا۔آپ رضی اللہ عنھا کا تعلق قبیلہ بنی مصطلق سے تھا ،حضور علیہ السلام سے نکاح سے پہلے آپ مسافع بن صفوان کے نکاح میں تھیں ۔

حسن وجمال:اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: کَانَتْ جویریۃ امْرَأَۃً حُلْوَۃً مُّلَاحَۃً لَّا یَکَادُ یَرَاھَا اَحَدٌ اِلَّا اَخَذَتْ بِنَفْسِہ یعنی حضرت جُوَیریہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا نِہَایَت شِیریں و ملیح حسن والی عورت تھی جو بھی انہیں دیکھتا گَرْوِیدہ ہوئے بغیر نہ رہتا۔( السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، غزوة بنى المصطلق،ج2ص380)

آپ رضی اللہ عنھاقبیلہ بنی مصطلق کے سردارحارِث بن ضِرَار کی بیٹی تھی ،حارث بن ضرار( جو کہ بعدمیں ایمان لے آئے تھے) نے اہلِ مکہ کے ساتھ مل کرمسلمانوں سے جنگ کرنے کامنصوبہ بنا یا تو یہ خبر حضور ﷺتک پہنچ گئی۔ آپ ﷺنے تصدیق کے لئے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کو قبیلہ مصطلق میں بھیجا جنہوں نے اس قبیلے میں جا کر احوال معلوم کئے اور واپس آکر اُن کے تمام ناپاک ارادوں کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جنگ کے لئے بلا یا تو صحابۂ کرام لبیک کہتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو گئےپھر آپ علیہ السلام نے جنگ میں پیش قدمی کی اور کفار کے ساتھ جنگ کی۔ اللہ تبارک وتعالٰی نے مسلمانوں کواس جنگ میں فتح عطا کی،جنگ کے بعد700سے زائد کفار کو قیدی بنا لیا گیا ان ہی میں قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارِث بن ضِرَار کی بیٹی حضرت برّہ رضی اللہ عنھابھی شامل تھیں۔جب مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو آپ رضی اللہ عنھا ، حضرت سیِّدُنا ثابِت بن قیس رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ اور ان کے ایک چچا زاد بھائی کےحصّے میں آئیں، حضرتِ سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ نے ان کے حصّے کے بدلے مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا کے اپنے کھجوروں کے دَرَخْت انہیں دے دیئےکیوں کہ آپ رضی اللہ عنھاایک سردار کی بیٹی تھی تو انہیں غلام بن کر رہنا گوارہ نہ ہوا، اس لئے انہوں نے حضرتِ سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ سے آزادی کا مطالبہ کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے 9 اُوْقِیَہ سونے پر انہیں مُکَاتَبہ کر دیا۔ (آقا اپنے غُلام سے مال کی ایک مقدار مُقَرَّر کر کے یہ کہہ دے کہ اتنا ادا کر دے تو آزاد ہے اور غُلام اسے قبول بھی کر لے اب یہ مُکَاتَب ہو گیا)۔

حضورﷺسے نکاح: آپ رضی اللہ عنھا کا اتنی بڑی رقم ادا کرنا مشکل تھا اس لئے آپ حضورﷺکی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئیں اور اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی توآپﷺنے فرمایا:کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ میں تمہارا زرِمکاتبت ادا کر کے تم سے نکاح کر لوں ،آپ رضی اللہ عنھا نے بخوشی اس پیش کش کو قبول کر لیا تو آپ ﷺنے حضرتِ سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ سے حضرت برّہ رَضِیَ اللہُ عَنۡھا کو خریدا اور آزاد کر کے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡھا سے نکاح کر لیا۔( السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، غزوة بنى المصطلق،ج2 ص377تا379)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم برّہ نام رکھنے کو ناپسند فرماتے تھےاور اگر یہ نام کسی کا ہوتا تو تبدیل فرمادیتے، اس لئے آپ نےان کا نام برّہ سے تبدیل کر کے جویریہ رکھ دیا۔(المستدرک علی الصحیحن ،ج5،ص36،الحدیث6861)

کثرتِ عبادت: آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡھا بااخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ کثرت سے عبادت کرنے والی بھی تھیں۔ روایات میں آتا ہے : ایک مرتبہ حضور ﷺان کے پاس سے فجر کی نماز کےبعد تشریف لے گئےحضرت جویریہ اس وقت اپنی سجدہ گاہ میں تھیں پھر سرکارﷺ چاشت کے وقت واپس تشریف آئے تو حضرت جویریہ اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھیں ،آپ ﷺنے پوچھاکہ تم تب سے یہیں بیٹھی ہو جیسا میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟ آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡھا نےعرض کی:جی ہاں! تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے تمہارے بعد (یعنی تمہارے پاس سے جانے کے بعد)4ایسے کلمات تین بار پڑھے ہیں کہ تم نے دن بھر میں جو کچھ بھی پڑھا اگر اس سے ان 4 کلمات کا وزن کیا جائے تو وہ 4 کلمات بھاری ہو جائیں گے۔ (وہ کلمات یہ ہیں)سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ عَدَدَ خَلْقِہِ وَ رِضَا نَفْسِہِ وَزِنَۃَ عَرْشِہِ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ۔(صحيح مسلم،ص: 1119،حدیث:2726)

جنہوں نے آپ سے روایات لیں: حضرتِ سیِّدُنا عبد الله بن عبّاس، حضرتِ سیِّدُنا جابِر بن عبد الله ، حضرتِ سیِّدُنا عبد الله بن عُمَر ، حضرتِ سیِّدُنا عبید بن سبّاق اور حضرت جویریہ کے بھائی کے بیٹے حضرت طفیل رَضِیَ اللہُ عَنۡہُم نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا سے روایات لی ہیں۔(شرح علامۃالزرقانی،ج4،ص428)

وصالِ پُرملال: آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا ماہِ ربیع الاول بمطابق50ھ کو65 سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئیں،ایک قول کے مطابق آپ کی وفات 56سال کی عمر میں ہوئی۔مروان بن حکم جوکہ اس وقت مدینہ منورہ کا حاکم تھا اُس نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کا جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی تدفین کی گئی۔(ایضاً)

تحریر: غیاث الدین عطاری مدنی

اسکالراسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ(دعوتِ اسلامی)