سیرتِ طیبہ کی اہمیت 

Sat, 16 Oct , 2021
3 years ago

سیرتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اہمیت ہر مسلمان پر واضح ہے۔ قرآنِ کریم کے بعد مسلمانوں کیلئے سب سے اہم ترین ماخذ و مصدر پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فرمودات، اعمال اور سیرتِ طیبہ ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ تمام انسانوں کیلئے عملی نمونہ ہے جسے قرآن ”اسوۂ حسنہ“ سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو بیجا نہیں کہ قرآن پیدائش سے وفات تک زندگی گزارنے کے احکامات کا مجموعہ ہے اور سیرتِ نبوی اس مجموعہ کی عملی تعبیر اور تصویر کا نام ہے۔اسلامی عقائد، اعمال، اخلاق، معاشرتی مسائل، انفرادی معاملات، اجتماعی مسائل، بین الاقوامی تعلقات، روابطِ عامہ، امن کے تقاضے، جنگی قوانین وغیرہ وغیرہ یہ سب سیرتِ طیّبہ کے موضوعات ہیں اور سیرتِ طیبہ میں ان تمام موضوعات کا حل موجود ہے۔ اسی وسعت اور ہمہ گیریت کی وجہ سے سیرت کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان اپنے سامنے انسانیتِ کاملہ کی ایسی اعلیٰ مثال دیکھتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں کامل و مکمل نظرآتی ہے یوں مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ سامنے آتا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مقدس حیات کا اعجاز ہے کہ انسانی زندگی کے جس بھی پہلو کو سامنے رکھ کر سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک زندگی میں نظر آتا ہے۔ سیرتِ طیبہ کی اہمیت پر مبنی مزید تین نکات پیش خدمت ہیں:

مطالعَۂ سیرت نبی علیہ السلام کی زندگی سے آگہی کا ذریعہ ہے

1. سیرتِ طیبہ کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے مطالعہ سے مسلمان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دین کن مراحل سے گزرا، یعنی سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے ایک مسلمان جانتا ہے کہ اللہ کریم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کیسی خاندانی شرافت و عظمت عطا فرمائی، اعلانِ نبوت سے پہلے آپ کی کردار کیسا تھا؟ بعد میں آپ کا رہن سہن کیسا تھا؟ آپ کا طرزِ زندگی کیا تھا؟ آپ کے اخلاق کیسے تھے؟ وحی کے مراحل ،مدارج کیا کیا تھے؟ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دین کی تبلیغ کس طرح سے کی؟ آپ نے تبلیغِ دین کیلئے کیسی کیسی مشقتیں جھیلیں اور کتنے مصائب برداشت کئے؟ کفار نے آپ کو روکنے کے لیے کیا کیا حکمتِ عملی اپنائی؟ اللہ کریم نے کفار کے مقابلے میں آپ کی کس طرح سے مدد فرمائی؟ آپ کے معجزات کیا تھے؟ آپ کے ساتھ مٹھی بھر جانبازوں نے بڑے بڑے لشکروں کو کیسے پچھاڑا؟ الغرض یہ ساری تفصیلات اور یہ ساری باتیں سیرتِ طیبہ کے سنہری اور مقدس اوراق کی زینت ہیں، ایک مسلمان ان معلومات سے اس وقت ہی آگاہ ہو سکتا ہے جب وہ سیرتِ طیبہ کے سنہری اوراق کا مطالعہ کرے۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بہترین تصویر سیرتِ طیبہ

2. انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو ذاتِ خدا سے متعلق ہے جسے حقوقُ اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ دوسرا پہلو بندوں سے متعلق ہے جسے حقوق العباد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حقوقُ اللہ میں سے اکثر کا تعلق معاد و آخرت سے ہے جبکہ حقوق العباد میں سے اکثر کا تعلق معاش اور تمدن سے ہے۔معاد و آخرت کے ضمن میں خدا اور انسان سے متعلق تمام امور داخل ہیں جیسےعقائد، عبادات، اخروی باز پرس اور جوابدہی وغیرہ۔ جبکہ معاش اور تمدن کے تحت انسان کے انسان سے ہر طرح کے تعلقات شامل ہیں ، جیسے حاکم کے محکوم سے روابط، خاوند اور بیوی کی رفاقت، باپ اور بیٹے کا پیار، تاجر اور آجر کے معاملات، پڑوسی و رشتہ دار سے تعلق، دشمن اور دوست سے رویہ، الغرض معاشرتِ انسانی کا ہر پہلو اس ضمن میں داخل ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں معاد وآخرت اور معاش و تمدن ان دونوں پہلوؤں سے ہمہ جہت، جامع اور احسن ترین زندگی کی تصویر اگر کسی کی نظر آتی ہے تو وہ بی بی آمنہ کے لعل، رسولِ بےمثال صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نظرا ٓتی ہے۔ آپ پیداہوئے تو آتش کدے ٹھنڈے پڑ گئے، ظلم اور جبر کے تسلسل کا اختتام ہوا، آپ نے ہی مظلومیت اور بے بسی کو فخر و شرف کا مقام عطا کیا، آپ نے ہی تلاشِ معاش میں دیانت و صداقت سے لبریز ایک نئی روشنی دنیا بھر کو عطا فرمائی، آپ نے ہی جہالت کو شعور، ظلمت کو نور اور فکر کو گہرائی عطا فرمائی۔ میدانِ جنگ میں جہالت اور ظلم پر مبنی اقدامات کا خاتمہ آپ نے فرمایا اور رہتی دنیا کے لیے اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں عدل و مساوات پر مبنی زندہ جاوید کردار بھی آپ ہی نے پیش کیا۔ الغرض انسانیت کو جو معراج آپ نے عطا فرمائی اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج بھی اگر انسانیت معراج کی متمنی ہے تو رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے تعلق اور آپ کی حیاتِ طیبہ کی تعلیمات پر عمل سے ہی یہ معراج انسان کو حاصل ہوسکتی ہے۔

بنیادی مسائل کا حل سیرتِ طیبہ:

3. آج کے اس عہدِ جدید میں انسان نے زندگی کے بعض گوشوں میں ترقی ضرور کی ہے مگر انسان کے بنیادی مسائل اب بھی وہی ہیں جو آج سے سینکڑوں سال پہلے تھے، آج کے انسان نے جدید اشیا ایجاد کر کے زندگی کے بعض پہلوؤں کو ضرور بدل کر رکھ دیا ہے مگر انسان کی طبیعت و نفسیات اب بھی وہی ہے جو آج سے پہلے تھی۔ نفرت و عداوت، بغض و حسد، وحشت و بربریت جیسی بری عادات ہوں یا محبت و اخوت، ایثار و قربانی اور صدق و خلوص جیسی نیک عادات ہوں یہ اب بھی ویسی ہیں اور اتنی ہی ہیں ان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آج بھی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ سکون اور اطمینان کی تلاش ہے، آج بھی انسان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ دنیا میں اسے امن و امان کی فضا میسر آ جائے، آج بھی انسان اس خواب کی تعبیر میں ہے کہ اسے ایسا معاشرہ نصیب ہو جائے جہاں اس کے ساتھ حق تلفی نہ ہو ، جہاں سب برابر ہوں، وہ جس معاشرے میں رہے وہاں لوگ اس کے مونس و غمخوار ہوں، اس معاشرے میں عدل و انصاف ہو، حریت و مساوات ہو، فرداور معاشرے میں باہم ہم آہنگی ہو۔ یہ سب ممکن تو ہے لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی خود انسان ہی ہے، ہر انسان دوسرے انسان سے باہم مربوط ہے، ان کے آپس میں دسیوں طرح کے مختلف نوعیت کے تعلقات قائم ہیں، ہر انسان کے جذبات، احساسات، خواہشات اور ضروریات میں بھی فرق ہے، اس وجہ سے جگہ جگہ مفادات اور اغراض آپس میں ٹکراتی ہیں، ایسے میں کسی کو بھی اوپر نیچے نہ کرتے ہوئے حدِ اعتدال پر قائم رہنا اور کسی کو دوسرے پر ترجیح نہ دینا بہت نازک مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کا حل نہ تو سائنس دے سکتی ہے نہ ہی کسی کے افکار و خیالات، بلکہ اس کیلئے عملی نمونہ چاہیے، ایسی ذات چاہیے جس نے ایسا کر کے دکھایا ہو اور جس کے ماننے والے ایسا کر سکتے ہوں۔ اور وہ نمونہ ذاتِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے۔ اسی لیے قرآنِ پاک انہیں بہترین نمونہ قرار دیتا ہے۔ تو اب دنیا میں جہاں بھی انسان موجود ہیں اور انسانی آبادی پائی جاتی ہے ، وہاں اطمینان و سکون سے لبریز برابری کی زندگی کیلئے دینِ نبی کی پیروی اور سیرت الرسول کی اطاعت و اتباع لازم ہے۔

ان چند امور کوسامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آج سیرتِ طیبہ پر مبنی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایسے لڑیچر کی شدید ضرورت ہے جو عام انسانوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت سے روشناس کرے اور انہیں اپنے کردار کو سیرت کے حقیقی رنگ میں ڈھالنے کی تحریک دے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیرت اور پیامِ سیرت کو دلچسپ پیرائے،عمدہ اور جدید طرزِ تحریر میں پیش کیا جائے ، تاکہ ایک مسلمان اس پر عمل کر کے گفتار کے غازی کے ساتھ ساتھ کردار کا بھی غازی بن سکے۔ الحمدللہ دعوتِ اسلامی کے شعبہ المدینۃ العلمیہ کا ذیلی شعبہ سیرتِ مصطفیٰ اس اہم کام کیلئے کوشاں ہے۔

از قلم:مولانا محمد حامد سراج مدنی عطاری

ذمہ دار شعبہ سیرتِ مصطفیٰ