امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ کی سیرت تکریم
انسانیت کا مکمل درس تھی۔ایک دن آپ نے چند لوگوں کو دیکھا جو جذام کے مرض میں
مبتلا تھے اور لوگ انہیں دھتکار رہے تھے، آپ انہیں اپنے گھر لے گئے اور ان کا خیال
رکھا۔ امام زین العابدین کا آستانہ غریبوں، یتیموں اور بے کسوں کے لئے پناہ گاہ
تھا جسے دنیا دھتکارتی اسے امام زین العابدین سینے سے لگا لیتے ۔
آپ رضی
اللہ عنہ کا نام و نسب:
امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ 12 اماموں
میں چوتھے امام ہیں۔ آپ کا اسم گرامی
:علی بن حسین رضی
اللہ عنہما ہے۔آپ کی
کنیت: ابو محمد،ابو الحسن اور ابوبکر ہے۔
حضرت
علی بن حسین رضی
اللہ عنہما کا لقب سجّاد
اور زین العابدین ہے اور آپ نے اسی لقب کے ساتھ شہرت پائی ہے۔آپ کی والدہ ماجدہ
طیبہ طاہرہ عابدہ کا اسمِ گرامی شہر بانو
ہے۔
ولادتِ
باسعادت:
امام
عساکر نے یعقوب بن سفیان فسوی سے نقل کیا
ہے کہ علی بن حسین 33 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن [سیر اَعلام
النبلا، 386/4]
میں علامہ موصوف نے یہ لکھا ہے کہ (شاید) ان کی پیدائش38
ہجری میں ہوئی ہے، علامہ ابوالحجاج جمال الدین یوسف مزّی نے بھی [تہذیب
الکمال، 402/20] یعقوب
بن سفیان سے سن ولادت33 ہجری نقل کیا ہے اور یہی راجح ہے۔
زین العابد ین
کہنے کی وجہ تسمیہ:
آپ کی شخصیت اسمِ
گرامی کے بجائے لقب کے ساتھ زیادہ معروف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امام زین العابدین رضی
اللہ عنہ بہت بڑے عابد
و زاہد تھے۔ امام ابنِ کثیر فرماتے ہے کہ کَانَ یُصَلِّی فی کُلِّ یومٍ و لیلۃٍ اَلْفَ رَکْعَۃٍ آپ
ایک دن اور رات میں ہزار رکعت نماز(نفل) پڑھا کرتے
تھے۔آپ کا یہ معمول آخری وقت تک رہا۔ (تاریخ ابن کثیر ج12،ص482،
مطبوعہ دارالھجر)
شواہد النبوۃ میں ہے کہ آپ ”زین العابدین“
سے اس لئے مشہور ہوئے کہ آپ ایک رات
نمازِ تہجد میں مشغول تھے کہ شیطان ایک سانپ کی شکل میں نمودار ہواتاکہ اس ڈراؤنی شکل سے آپ کو عبادت سے باز رکھ کر عیش و نشاط میں مشغول کردے آپ نے اس کی طرف
توجہ نہ فرمائی یہاں تک کہ سانپ نے آپ کے
پاؤں کا انگوٹھا اپنے منہ میں ڈال لیا لیکن آپ پھر بھی اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔
سانپ نے آپ کے انگوٹھے کو اس سختی سے کاٹا کہ آپ کو درد ہوا آپ نے پھر بھی سانپ کی طرف توجہ نہ کی۔آپ پر اللہ پاک نے ظاہر فرمادیا تھا کہ وہ شیطان
ہے۔آپ نےاُسے بُری طرح زَدُ و کوب کیا
اور پھر فرمایا:”اے ذلیل و خوار کمینہ یہاں سے دور ہوجا“۔جب سانپ چلا
گیا تو آپ کھڑے ہوئے تاکہ درد میں اِفاقہ
ہوجائے۔پھر آپ کو ایک آواز سنائی دی
لیکن بولنے والا نظر نہیں آیا،کہنے والے نے کہا:”آپ زین العابدین ہیں، آپ
زین العابدین ہیں، آپ زین العابدین ہیں“۔ (شواہد النبوت
ص 421)
امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ اور واقعہ کربلا:
حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ کو کہا کہ آپ ہر وقت غم ناک ہی رہتے ہیں اور آپ کے آنسو کبھی خشک نہیں ہوتے، امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ نے اس آدمی کو جواب دیا حضرتِ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت ِ یوسف علیہ السلام گم ہوئے تھے( فوت نہیں ہوئے
تھے) حضر تِ یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں ان کے غم و فِراق میں رو رو کر سفید ہوگئیں میں نے تو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے
گھر کے 18 افراد دشمن کے ہاتھوں ذبح ہوتے ہوئے دیکھے ہیں میں کیسے غم ناک نہ ہوں
اور کیسے نہ روؤں تم دیکھتے نہیں ان
کے غم کی وجہ سے میرے دل کے ٹکڑے ہورہے ہیں۔(البدایہ
والنہایہ ص 107/ ج 09)
سید علی ہجویری داتا گنج بخش لکھتے ہیں کہ جب میدانِ کربلا میں حسین ابن علی
کوفرزندوں سمیت شہید کردیا گیا تو سوائے امام زین العابدین رضی
اللہ عنہ کے مستورات کا کوئی پُرسانِ حال نہیں تھا، وہ بھی بیمار تھے حضرت حسین رضی
اللہ عنہ ان کو علی اصغر کہا کرتے تھے، جب مستورات کو اونٹوں پر
برہنہ (ننگے) سر دمشق میں لے
کر آئے تاکہ یزید بن معاویہ کے سامنے پیش کریں تو اسی اثنا میں کسی نے کہا اے علی (زین العابدین) اور اہل بیت تمہاری صبح کیسی
ہے، امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ نے فرمایا ہماری صبح ہماری قوم کے ہاتھوں میں ایسی ہے جیسے
قومِ موسیٰ کی صبح فرعون اور اس کی قوم کے
ہاتھوں تھی، ان کے مردوں کو قتل کیا جاتا
تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھا جاتا تھا، ہمارے لیے صبح و شام کی تفریق ختم
ہوچکی ہے، یہ ہماری مصیبت کی حقیقت ہے۔(کشف
المحجوب ص78)
امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ کا اخلاق:
امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ کے اخلاقِ حسنہ میں حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کے خلقِ عظیم کی چمک دمک تھی یہی وجہ تھی کہ دشمن نے بھی
امام زین العابدین کے بلند اخلاق کا
اعتراف کیا ہے اور امام زین العابدین محاسنِ اخلاق کے تمام زاویوں اور گوشوں کو لپیٹے ہوئے تھے یعنی
علم و عفو، رحم و کرم، جودو سخا، مہمان
نوازی، عدم تشدد، صبر و قناعت ، نرم
گفتاری، غم خواری، تواضع و انکساری
کے تمام مراتب پر امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ فائز تھے چنانچہ سفیان بن عیینہ کا بیان ہے کہ ایک شخص امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ فلاں شخص آپ کی غیبت کررہا ہے، امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ نے سن کر فرمایا کہ تم میرے ساتھ اس کے پاس چلو وہ بایں وجہ آپ کے ساتھ چلا کہ آپ اس کو ناراض
ہوں گے لیکن امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ جب اس کے پاس پہنچے تو امام نے فرمایا: اے شخص !جو کچھ تم نے میرے متعلق کہا
ہے اگر یہ سچ ہے تو خدا تعالیٰ مجھے بخش دے اگر تم نے غلط کہا ہے تو خدا تعالیٰ تجھے بخش دے پھر آ پ واپس تشریف لے آئے، (نورالابصار 245)
امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ کی سخاوت:
امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ بہت بڑے فیاض اور سخی تھے چونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم
کے بیٹے ہیں لہذا آپ سخاوت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے
نمونہ تھے، حضور
صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات سے بڑھ کر زیادہ سخی تھے، دوست پر بھی سخاوت تھی اور دشمن پر بھی چنانچہ صفوان بن امیہ جب
مقام جعرانہ میں حاضر دربار ہوا تو آپ صلی ا
للہ علیہ وسلم نے
اس کو اتنی تعداد میں اونٹوں اور بکریوں کا ریوڑ عطا فرمادیا کہ دو پہاڑیوں کے
درمیان کا میدان بھر گیا، صفوان مکہ جا کر
بلند آواز سے اپنی قوم(قریش)
سے
کہنے لگا اے لوگو دامنِ اسلام میں آجاؤ محمد صلی اللہ
علیہ وسلم اس
قدر زیادہ مال عطا فرماتے ہیں کہ فقیری کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہتا، حضرت جابر رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم
نے کسی سائل کے جواب میں خواہ وہ کتنی ہی بڑی چیز کا سوال کیوں نہ کر ے لَا(
نہیں)
کا لفظ نہیں فرمایا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت دوست
اور دشمن دونوں پر تھی اسی طر ح آپ کے بیٹے امام زین العابدین کی سخاوت بھی دوست
اور دشمن دونوں کے لیے تھی جیسے رسول پاک صلی ا للہ علیہ وسلم نے
کبھی بھی کسی سائل کے جواب میں لَا( نہیں) نہیں فرمایا، اسی طرح امام زین العابدین رضی
اللہ عنہ نے بھی اپنی
تمام عمر میں کسی سائل کے جواب میں کلمہ
لَا
( نہیں) کا
استعمال نہیں فرمایا۔
امام زین
العابدین رضی
اللہ عنہ کے ارشادات:
ویسے تو امام
زین العابدین رضی
اللہ عنہ کے کئی ارشادات ہیں جن
میں سے چند درجِ ذیل ہیں:
*آپ رضی
اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اے خدا! میں اس سے تمہاری پناہ مانگتا ہوں
کہ لوگوں کی نظر میں میرا ظاہر اچھا ہوجائے او رباطن بگڑ جائے۔
*بعض لوگ خوف کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں
یہ گویا کہ غلاموں کی عبادت ہے، بعض جنت کی طمع میں عبادت کرتے ہیں یہ گویا کہ
سودا گروں کی عبادت ہے کچھ ایسے بھی ہیں جو محض خدا کے لیے عبادت کرتے ہیں یہ
آزادوں کی عبادت ہے۔
*مومن وہ ہے جو اپنا علم اپنی عقل میں
سمو چکا ہے، سوال کرتا ہے کہ سیکھے، خاموش رہتا ہے تاکہ سوچے سمجھے اور عمل کرے۔
*وہ شخص کیسے تمہارا دوست ہوسکتا ہے جب تم اس کی کوئی چیز استعمال کرلو تو اسے خوشی نہ ہو۔
وفات و مزار:
حضرت
سیِّدُنا امام زینُ العابدین علیہ رحمۃ اللہ المُبِین نے14 ربیع الاوّل 94 سن ہجری کو 56سال کی عمرمیں
اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا، مزار مبارک جنَّۃُ البقیع میں ہے۔(سیر اعلام
النبلاء،ج5،ص341 ملتقطاً)
شہادت کے وقت امام زین العابدین58سال کے تھے
۔آپ کے فرزند امام محمدباقرنے آپ کی نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ منورہ میں
اپنے عم بزرگوار حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور دادی خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ
الزہرا
رضی اللہ عنہا کے پہلو میں
جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔(البدایہ
والنہایہ113/ ج09، نورالابصار249)
از:
مولانا زید عطاری مدنی
اسکالر
المدینۃ العلمیہ ( اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی )