اللہ تعالیٰ  نے اپنی تخلیق”انسان“ کوشرفِ علم سے نوازا اوراسے وہ کچھ سکھایا جسے وہ نہ جانتا تھا۔نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلم بناکر مبعوث فرمایا،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے” کتاب“ اور ”حکمت“ کی تعلیم دی جس کا ذکر سورۂ جمعہ آیت2 اور 3 میں موجود ہے ۔ تعلیماتِ نبوی ”کتاب“اور ”حکمت“پرمشتمل تھی اور یہ دونوں ہی وحی الٰہی کےذریعے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حاصل ہوئے لہٰذا یہ دونوں”غایت،مقصود اور منزل“ ہیں جب کہ دیگر علوم(لغت،فقہ واصولِ فقہ، بلاغت وغیرہ)ان دونوں تک پہنچنے کےوسائل اور ذرائع ہیں۔

علم وہ نعمت ہے جس میں اضافہ طلب کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نےنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیا ہے اسی نعمت کا سوال نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےربِِّ کریم سے کیا اور ہمیں بھی اس کا سوال کرنے کی تعلیم دی۔نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نمازِ فجر کے بعد یوں دعا فرماتے:

اے اللہ! میں تجھ سےعلمِ نافع،پاک رزق اورمقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔(مصنف ابن ابی شیبہ،7/39، حدیث:14)

اس دعائے نبوی میں دو پہلو قابلِ توجہ ہیں :

(1)اس طرح دعا مانگنے کی ہر مسلمان کوضرورت ہے،اگر وہ طالبِ علم ہے تو علمِ نافع مانگے،اگرطالبِ رزق ہے تو حلال رزق مانگےاور جو دن بھرنیک عمل کررہا ہے وہ بارگاہِ الہی میں قبولیتِ عمل کا سوال کرے ۔

(2)اس روایت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے علم کو ”نافع“سے موصوف کرکے سوال کیا اور غیر نافع علم سے پناہ مانگی ہےاس سے ہمیں معلوم ہوا کہ علم کی دو قسمیں ہیں:(1)علمِ نافع(2)علمِ غیر نافع۔

اِس تمہید ی گفتگو سے علم وحکمت اور علم نافع کی ضرورت واہمیت خوب واضح ہوگئی۔ہمارےاسلاف کوعلم و حکمت کا فہم ملا اور ان نفوس نے اس نعمتِ خداوندی کو کئی ذرائع سے نسلوں میں منتقل کرنے کا بھی انتظام فرمایا۔ ہرزمانے میں دنیا کودانائے علم وحکمت سے نوازا گیا، شمسُ العلماء ، حضرت علامہ مولانامفتی قاضی ابو المعالی شمس الدین احمد جعفری رضوی جونپوریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ذاتِ گرامی بھی انہی میں سے ایک ہے ۔

(2) جونپورداناعلما و حکما کی سرزمین:

۱۳۶۱ء میں فیروز شاہ تغلق نےایک شہر آباد کیا اور اِ س کا نام اپنےچچا زادبھائی جونا شاہ کےنام پر” جونپور“رکھااور شہرکو باوقاراوربا رونق بنانے کے لئےعلماء،دانشور اور صنعت کاروں کواس شہر میں بسادیا۔ دنیا نے ایک بار پھر وہ زمانہ دیکھا کہ جونپور نے بغداد و قرطبہ کی یادیں تازہ کردیں ،لوگ مصر،عراق،ایران وغیرہ سے جونپور کی طرف کھنچے چلے آئے۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جونپور کو دار السرور،دارالعلم اور شیرازِ ہند کے بلند پایہ القاب سےشہرت ملنے لگی اوریہ شہرشائقین ِ علم و حکمت کی طلب پوری کرنےاورشوق کی تسکین کا عظیمُ الشان مرکزاوردانائے علم و حکمت کا مسکن بن گیا۔

اللہ تعالیٰ نے٢٨ ذی الحجہ ١٣٢٢ھ مطابق٥ مارچ ١٩٠٥ءکوشمسُ العلماء ، حضرت مولانا مفتی قاضی ابو المعالی شمسُ الدِّین احمد جعفری رضوی جونپوریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی صورت میں ایک اور دانائے علم وحکمت سے نواز کر کرم فرمایا۔

شمس ُ العلماء کا سفرِ علم: علم ،معلم و طالب علم اور ان دونوں کے مابین تعلیم دراصل ارکان اربعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم،معلم اورمتعلم کاشرف ”معلوم“ سے ظاہر ہوتاہے اور ”معلوم “یہاں کتاب و سنّت ہیں جس کی تعلیم نےان تینوں(یعنی علم ،معلم اور طالب وعلم)کو شرف سے نوازا ہے ،ان ارکان کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حدیثِ پاک میں بھی عالم ،طالب علم،علم کے سامع اور محب بننے کاحکم دیا گیا ہےجب کہ بغضِ علم کو ہلاکت اور بربادی کاسبب قرار دیا گیا ہے۔ (معجم صغیر،حدیث:786) اگر طالبِ علم کوبلند پایہ اساتذہ میسرآجائیں تو یہ اُس کی کامیابی میں کلیدکردار ادا کرنےاورطالبِ علم کی حکمت و دانائی کو قابل ِ رشک بنانےمیں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔شمس ُالعلماء کو قابل ِ رشک مقام ومرتبہ آپ کے اساتذہ کی بدولت ملا تھا،قارئین کےسامنے ابتداء سےعروج تک پہنچنے کی مختصرداستان حاضر ہے،ملاحظہ کیجیے:

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت جدِّامجداورناناجان سے جونپور میں ہوئی ، اس کے بعدجامعہ نعیمیہ مرادآبادمیں صدرُالافاضل حضرت مولانا سیدمحمدنعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی خدمت میں حاضر ہوئےاور کسبِ فیض کیا پھردارُالعلوم معینیہ عثمانیہ میں داخلہ لیااورصدرُالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی اوردیگراساتذہ سے علوم وفنون حاصل کرنے میں مصروف رہے ۔١٣٥٢ھ میں جب صدرالشریعہ دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف آگئے تو آپ بھی ان کے ہمراہ تھے ۔اسی سال آپ دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہوئے۔

اساتذہ کی صحبت ،ان کے چشمہ ٔ علم سے سیرابی نہ صرف علم اور عقیدہ کی پختگی کا سبب بنی بلکہ اس کا براہِ راست اثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے روز مرہ کے معمولات پر ہوا،پر چم اسلام کو بلند کرنے کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا جذبہ بیدار کرنے میں اساتذہ کی تربیت کا اہم حصہ ہے۔اساتذہ کی شفقتوں اور عنایتوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی با برکت ذات کو مسلمانوں کے لیے عظیم محسن اور زبردست خیر خواہ بنا دیا ۔

شمسُ العلماء میدان ِ عمل میں: شمسُ العلماء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جب میدان ِ عمل میں اُترےتو آپ کے طرز عمل سے علمِ نافع کی کرنیں پھوٹنے لگیں۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےتدریس کا آغازدار العلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے کیا۔جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں بھی تدریس فرمائی۔مدرسہ منظرحق ٹانڈہ ،مدرسہ حنفی جونپور ہ اورجامعہ رضویہ حمیدیہ بنارس میں آپ صدرُالْمُدَرِّسین رہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عملی زندگی کےچند واقعات ملاحظہ کیجیے:

میدان فقہ کے شہسوار:آپ کےفقہ وحدیث کی عبارات کا استحضارورطۂ حیرت میں ڈال دیتا،کوئی زبانی مسئلہ پوچھتا تو عربی عبارات پڑھ کرکے حل عطافرماتے، نہ صرف کتاب کی نشان دہی فرماتے بلکہ جلد و صفحہ متعین فرمادیتےاگر کتاب سامنے آتی تو جھٹ پٹ مقرر ہ مقام بھی نکال دیتے ۔عمر کے آخری حصے میں شدید علالت کے سبب کئی چیزوں میں دقت کا سامنا ہوتا مگرجب بھی کوئی دینی مسئلہ پوچھا جاتا تو ذرہ برابر غلطی کے بغیرحل عطافرمادیتے ۔

اللہ تعالیٰ نے شمس العلما کو تفہیم کی غیرمعمولی صلاحیت سےنوازا تھا، منقولات کی طرح دیگر علوم کے بھی شہ سوار تھے ، آپ کی سیرت کےاس گوشے سے چند واقعات پیش کرتے ہیں :

ایک مرتبہ حضرت علامہ قاضی شمس الدین جونپوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بریلی شریف سے جون پور بذریعہ ٹرین آرہے تھے،دوران ِ سفرچندلوگ انگریزی زبان میں معرَّف کی تعریف پر بحث ومباحثہ کررہے تھے مگرکوئی نتیجہ نہیں نکل پارہاتھا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ابتداء میں توملاحظہ فرماتے رہے پھر اُ ن کی دستگیری فرماتے ہوئے گفتگو میں شامل ہوکرانگریزی میں ہی ایسی جامع مانع تعریف کی کہ اُن کی مشکل دور ہوگئی اور وہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سےمتاثر ہوئے ۔ (حیات شمسی ،ص78)

قوسِ قزح کاتجرباتی مشاہدہ:

برسات کے بعدآسمان کے مشرقی اور مغربی کنارے پرقوس ِ قزح ظاہر ہوتی ہے،قوسِ قزح کے ان رنگوں کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایسے وقت میں پانی اوپر کی جانب پھینکنے کا فرماتے کہ جب سورج کی کرنیں بارش کے قطروں پر براہ راست پڑتی ہوں ،چنانچہ ایسا کرنے سےقوسِ قزح کے رنگ دِکھنے لگتے ۔ (حیات شمسی،ص76)

شمسُ العلما رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جامعہ رضویہ بریلی شریف میں مسندِ تدریس پر رونق افروز تھے ، اس دوران چند طلبہ نے آپ کی خدمت عرض کی کہ مرقات و شرح تہذیب کے مسائل یاد نہیں رہتے جس کی وجہ سے اس فن میں خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھا پاتے ،آپ اردو میں ایک رسالہ تحریر فرمادیجئے تاکہ اس فن سےفائدہ اٹھانا آسان ہو۔چنانچہ اس پیہم اصرارکی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےطلبہ کی خیرخواہی کےلئےاردومیں منطق کارسالہ”قواعدُالنظرفی مجالی الفکر“تحریرفرمایا۔(قواعدُ النظر، وجہ تصنیف)آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علومِ عقلیہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ان علوم کو ہم دین کےخادم کی حیثیت سے پڑھاتے ہیں نہ اصل بالذات کی حیثیت سے ۔(حیات شمسی، ص76) آپ کی تصنیف کردہ کتب میں قانون شریعت کوشہرت آفاق مقبولیت حاصل ہوئی۔

امراضِ جسمانی کے ماہر طبیب: علم و حکمت میں مہارت کے نظارے تو آپ کرہی چکے ہیں ،اب آپ کوشمس العلماء کی علم ِ طب میں رسوخ کی ایک جھلک دکھاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں مخلوق ِخدا کی خیرخواہی کاحیرت انگیز جذبہ عطا فرمایا تھا حاجت مندوں کی خیر خواہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عادات ِ مبارکہ میں شامل تھی، اسی جذبے کے تحت آپ اپنی طبیّ مہارت کوخلقِ خدا کے جسمانی امراض کے علاج میں وقف کرچکے تھے ،آپ کے تجویز کردہ نسخوں کااستعمال مریضوں کی شفا یابی کا بہترین سبب بن چکا تھا۔طبیہ کالج لکھنو کےسندیافتہ ٹانڈہ کے واحد شہرت یافتہ حکیم اشفاق احمد شمسُ العلمارَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی نبض شناسی کے بڑے مدّاح تھے،ان کا کہناتھا کہ ہمارےگھر میں استعمال ہونے والے تقریبا نسخے شمس العلماء ہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ افسوس!میں اِس فن میں حضرت سے کچھ حاصل نہ کرسکا،صرف میزان الطّب کے کچھ اسباق پڑھے تھے۔(حیات شمسی، ص77) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی یہ فیاضی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم و حکمت کےبے شمار خزانوں سے مالامال فرمایا تھا ۔

شمس العلماء کا ذوق تلاوت:قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی تلاوت کی بھی کیاخوب فضیلت ہے کہ اللہ پاک خُودتلاوت کرنے والوں کی مَدح سَرائی (یعنی تعریف) فرمارہا ہے، نیز احادیثِ کریمہ میں بھی ان کےکثیر فضائل وارِد ہوئے ہیں کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والوں کو اللہ پاک کے خاص بندے فرمایا گیا،نیز جس شخص نے رِضائے الٰہی کے لئے قرآنِ کریم کی تلاوت کی ہوگی، بروزِ قیامت اسے نہ تو کسی قسم کی گھبراہٹ ہو گی اور نہ ہی ان سے حساب لیا جائے گا۔

شمسُ العلماءرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو دورِ طالبِ علمی ہی سے ذوقِ تلاوت قابل رشک تھا،اندازِ تلاوت میں قوانینِ تجوید کی بھرپور رعایت فرماتے۔

ہفتے میں ایک مرتبہ ختمِ قرآن:شمسُ العلماء عمر کی منزلیں جیسےجیسے طےکرتےگئے ویسے ہی ذوق تلاوت پروان چڑھتا گیا اوراکثر ہفتے میں ایک قرآن پاک ختم کرنااورجمعرات کو قرآن ختم کرکےفاتحہ کا اہتمام کرنا زندگی کے اہم ترین معمولات میں شامل ہوگیا۔ عمدگی سےقرآن پاک پڑھنے کا ذوق اپنے نسلوں میں منتقل کرنے کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے بچوں کو تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھوانے کا انتظام فرمایا۔

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے چھوٹے صاحبزادے کو حفظ کروایا کرتے ،ایک مرتبہ صاحب زادے نے سبق یاد نہ ہونے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا :کیسے یاد نہیں؟میں تمہیں یاد کرکے دِکھاتاہوں،چنانچہ ایک گھنٹے میں یاد کرکے سنادیا اورارشاد فرمایا: اگر مجھ پر دیگر ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو ایک ماہ میں پورا قرآن ِ پاک حفظ کرلیتا ۔

علم و حکمت کا عملی اظہار:علم و حکمت کے موتی زبان سے بکھیرنے بھی اچھی بات ہے مگر کمال یہ ہے کہ علم و حکمت کی خوشبو عمل کے ذریعے بھی پھیلائی جائے ، شمس العلما کی سیرت سے علم و حکمت کا عملی اظہار ہوا کرتا، چنانچہ ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے گھر میں طلبہ کے لئے کھاناتیار ہوا،کھانے میں گوشت تھا جو پکنے کے بعد تمام کا تمام مدرسے میں بھیج دیا گیا ،مدرسے میں صدقے کا گوشت آیا ہوا تھاجس سےایک طالبِ علم پیالہ بھر کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی غیرموجودگی میں گھر پر دے گیا ،گھر والوں نے بھی اُسے پکالیا، ،دسترخوان سجاتوگوشت والے سالن کا پیالہ رکھ دیا،جب آپ تشریف لائے تو گوشت کا سالن ملاحظہ فرماکرپوچھا:”یہ کہاں سے آیا۔“اس کی ساری تفصیل عرض کردی گئی جسے سننے کے بعد آپ کو جلال آگیا ، ارشاد فرمایا:مدرسے کا کھانا کس نے قبول کیا؟کیا یہ ”پکانے “کی اجرت میں نہیں آئے گا؟یہ تو صدقے کا ہےاور مدرسے کے طلبہ کے لیے ہے ؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اِ س واقعے کے ذریعے اپنے گھر والوں کو ایک مسئلہ بھی ذہن نشین کرادیا ۔مالِ وقف کے معاملے میں یہ احتیاط ہمارے لئےبھی راہِ عمل کو واضح کررہی ہے ۔

حکمت و دانائی کا تقاضا یہی ہے کہ جہاں بندہ دوسروں کو نفع پہنچائے وہیں خود بھی دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے کی کوشش جاری رکھےشمسُ العلماء کی سیرت کا بنیادی سبق بھی یہی ہے۔ آج بھی غیرنافع علم کےجال میں پھنس جاتی ہے لہٰذاعلم و حکمت کے طالب کو اس جال سے خود کوبچانے کی شدید ضرورت رہتی ہےاس کےلئےضروری ہے کہ بندہ”امراضِ علم“(مثلاحسد،تکبر وغیرہ)سےخود کو آزاد کرے ،اپنامحاسبہ کرتا رہے بالخصوص نیت کی چھان بین بھی کرےتاکہ اپنے وقت کو برباد ہونے سے بچاسکے۔اس سلسلے میں امام ذہبی کا رسالہ”بیانُ زَغَلِ الْعِلْمِ وَّ الْطَلَب“ کا مطالعہ نہایت مفید ہے ۔کاش!آج کے طلبہ کے لئے کوئی اس طرز پررسالہ لکھے،یقینایہ موجودہ دور کے طلبہ کے ساتھ بہت بڑی خیر خواہی ہوگی ۔

شمسُ العلماء ، حضرت مولانامفتی قاضی ابو المعالی شمس الدین احمد جعفری رضوی جونپوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے یکم محرم الحرام ١٤٠١ھ مطابق ٩نومبر١٩٨٠ء وصال فرمایا، محلہ میر مست جونپور (یوپی، ہند) میں آپ کا مزارِ پرانوارہے۔

از: مولاناناصر جمال عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ،دعوتِ اسلامی )