دین ِاسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں روحانیت کی بنیاد ایسے قوانین پر رکھی گئی ہے
جو انسانی جبلّت کے موافق اور اس کی دنیوی
اور اُخروی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے ان روشن اُصولوں پر عمل پیرا
ہوکرمسلمانوں نےدلوں پر حکومت کی ۔ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے اسلامی اصولوں کو ”تصوف“کا عنوان دیا گیااور اس کے
ماہرین کو شیخ اور ولی کے معزز القاب سے جانا جانے لگا۔
ہند
میں تصوف کی آمد:
جب ہندوستان میں اسلام کا نور پہنچا،مسلمان یہاں دعوت ِ دین کا جذبہ لے کر آباد ہوئے، اپنے حسن ِ اخلاق
اور بلند کردار سے لوگوں کو اسلام کی جانب
مائل کیاتو دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اسلام لانے لگے پھر ایک زمانہ وہ آیا جب مسلمانوں نے یہاں تقریباًسات سو سال حکومت کی ۔زمین پر حکومت کی تاریخ کو سات سو سال کی قید
میں مقید کیا جاسکتا ہے،تاریخی یادگار کے طور پر محفوظ کیا جاسکتا ہے اورزمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہنوں سے مٹایا
جاسکتا ہےلیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ دلچسپی کی حامل ہے کہ صوفیائے کرام رحہم اللہ تعالیٰ نے اپنے اعلیٰ اوصاف اور لازوال کردار کی بنا پر دلوں پر حکومت کی لہٰذا ان صوفیاء کے اخلاص ہی کا نتیجہ ہے کہ نہ
تو کبھی لوگوں کے دلوں سے محبت ِ اولیا کے
آثار کو کوئی جبر مٹا سکا ہے اور نہ کوئی قہر فراموش کرواسکا ہے۔ جاگتی آنکھوں سے یہ
ناقابل ِتردید حقیقت دیکھنے کے بعد یہ کہہ
سکتے ہیں کہ دلوں پر آج بھی اولیائے کرام کا راج ہے ،یہ حکومت نہ تو کبھی کمزور ہوئی نہ ہی ان سرکاروں کا بول بالا ہونے سے کوئی روک سکا ہے ۔
سرزمینِ دہلی کا پس منظر
توران قوم کے راجہ نے ایک شہر آباد کیا ،اس شہر کی مٹی بہت ہی نرم
تھی اس وجہ سے لوہے کی سلاخیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ نصب ہوجاتی تھیں اس لیے اس نئے شہر کا
نام”دہلی“رکھا گیا۔آٹھ تورانی راجاؤں نے
اس شہر پر حکومت کی ،راجہ پتھوار کی حکومت آئی اور اس نے سلطان شہاب
الدین غوری سے شکست کھائی اوریوں دہلی پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی ۔(تاریخ
فرشتہ ،۱/۱۳۸)
جب منگولوں کی وجہ سے وسط ایشیامیں ایک طوفان اٹھا ہوا تھا تو اس وقت علما و مشائخ اور شعرا و ادبا کا رُخ دہلی کی جانب ہوااوراس طرح دہلی ایک بین الاقوامی شہر بن گیا۔دہلی اپنی علمی ،سماجی،ثقافتی ، علاقائی حیثیت کی بنا پر ہمیشہ توجہات کا مرکزبنااور اپنی اسی اہمیت کی
بنا پر تقریبا ہر دور ہی میں ”دارالحکومت “ رہا ہے ۔یوں تو ہندوستان کے کئی شہر وں میں بڑے بڑے جلیل القدر
اور عظیم المرتبت صوفیا آرام فرماہیں ، مگردہلی
کے مشائخ کی تاریخ کھنگالنے کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ صوفیائے کرام کی آمد
اور سکونت کی بدولت دہلی ”دارالاولیا“
قرار پایا ۔
دارالاولیا دہلی کے نصیب کی بھی کیا بات ہے ،یہ وہ مبارک سرزمین ہے کہ جس نے سلطانُ الہند خواجہ معین الدین
سیّدحسن اجمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے قدموں سے فیض
پایا ہے اور خواجہ ٔ خواجگان نے یہاں پرچم ِ اسلام نصب فرمایااس سلسلے میں یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے چنانچہ جب حضرت معین الدین اجمیری رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ غزنی سے دہلی تشریف لائے تو آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کچھ لوگوں کو شر ک میں مبتلا دیکھ کر اسلام کی دعوت دی ،زبان ِ خواجہ
سے دعوتِ حق سُن کر ان کے دل حق قبول کرنے پر آمادہ ہوئے اور فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے ، اس گر وہ میں ایک سردار بھی موجود
تھاجسےلسانِ خواجہ سے حمید الدین کا لقب عطا ہوااور پھریہی حمید الدین ”حضرت حمید الدین دہلویرَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ“کے نام
سے معروف ہوئے ۔(تحفۃ الابرار،ص۹۴)
چونکہ مشائخِ کرام کا کردار خُلقِ محمدی کا آئینہ دار تھا اسی لیے لوگ ان کی جانب کھنچے چلے آتے ،لوگوں
کی وارفتگی جاننے کے لیے یہ دلچسپ واقعہ
ملاحظہ کیجیے چنانچہ جب سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےدہلی
کو اپنا مسکن بنا یا تو لوگوں کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا گرویدہ ہو گیا ۔ جب خواجہ معین الدین رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت بختیار کاکی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنے
ساتھ اجمیر لے جانا چا ہا تو اس خبر سے
دہلی میں کہُرام مچ گیا اور جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دہلی سے رخصت ہونے لگے توسلطان شمسُ الدین التمش سمیت تمام شہر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کے پیچھے نکل کھڑا ہوا ،لوگوں کے شوق و وارفتگی کا عالَم یہ تھا کہ جہاں قطبُ الدین
بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ قدم رکھتے اس
جگہ کی خاک کو تبر ک سمجھ کر اٹھا لیاجاتا ،یہ تمام صورت ِ حال دیکھ کر خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے
فرمایا:بختیار! تم یہیں رہو کیوں کہ مخلوق خدا تمہارے جانے سے اضطراب کا شکار
ہےاورمیں ہرگزاس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ بے شماردل خراب و کباب کروں ،جاؤ!
میں نے اس شہر کو تمہاری پناہ میں چھوڑا ۔ (سیر اولیا،ص۱۱۳)
چندمشائخ دہلی کے اسمائے گرامی
مشائخ کرام نے دہلی کو میدان ِ عمل بناکر خون ِ جگر سےاسلام کی آبیاری کی،اِن فلک پیما شخصیتوں
میں چند کے نام ملاحظہ کیجیے :
(1)قطب الاقطاب قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(2)حضرت قاضی حمید الدین ناگوری
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(3)حضرت خواجہ بد ر الدین غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ
(4) حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(5)شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اولیا
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(6)حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(7)حضرت خواجہ امیر خسرو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(8)حضرت خواجہ شمس الدین محمد یحی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(9)حضرت خواجہ علاؤ الدین نیلی چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(10)حضرت خواجہ محی الدین کاشانی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(11)حضرت سیّدابراہیم ایرجی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(12)حضرت مخدوم سماء الدین سہروردی
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(13) حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(14)حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(15)حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(16)محبّ النبی حضرت خواجہ فخرالدین دہلوی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (17)حضرت
خواجہ مرزاجان مظہر شہید رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(18)حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(19)حضرت شاہ محمد فرہاد دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(20)حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(21)حضرت شاہ محمد آفاق مجددی دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(22)حضرت خواجہ ابو سعیدمجددی رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ
ان کے
علاوہ سینکڑوں مشائخ کرام ہیں جنہوں نے دہلی کی سرزمین کو اپنا مسکن بنایا ۔ دہلی میں آرام فرمامشائخ کرام کی حیات ِ مبارکہ کے جس گوشے کا بھی مطالعہ
کیجیےان میں”ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ “کی عملی تفسیر ملے گی۔مشائخ دہلی کی گفتگو کو فصاحت و بلاغت کی چاشنی شگفتہ بنا دیتی، تعبیر و تمثیل کی ندرت اور
ترغیب و ترہیب کی دھمک متلاشیان ِحق کے لیے رہنما بن جاتی۔ مشائخِ دہلی حق کی سربلندی کے لیے ہر دم کوشاں رہے اور اپنی پوری زندگی دعوت ِ دین میں بسر کی۔
اصلاح احوال کے سلسلے میں مشائخ دہلی
کی کوششیں
مشائخ دہلی دنیاکی ہر کشش سے بے نیاز ہوکر دنیا میں رہتے ۔نفس سے ہر دم نبرد
آزما رہتے ،بظاہر بے سر و سامان دِکھنے والوں کے پاس توکل کی دولت وافر مقدار میں موجود ہوتی ،جو بھی ان کے
در پر حاضر ہوتا اس کے دل میں خلوص کا نور بھر دیتے ،درس و تدریس کا اہتمام ہوتا
جس میں ملفوظات کے ذریعے اصلاحِ احوال کی قابل ِ قدرکوششیں کی جاتیں،ان حضرات نے
اپنی زندگی کو مخلوق ِ خدا کے لیے وقف کیا ،جہاں بھی تشریف لے گئےنورِ شریعت سے جہالت
کے اندھیروں کا خاتمہ کیا،ہر علاقے کے لیے مستقل بنیادوں پر تربیت کا انتظام کیااورلوگوں کو اپنا عقیدت مند پاکر دین ِ
اسلام کا خادم بنادیا ۔
مشائخ ِ دہلی نے دعوت ِ دین کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی اور دین ِ اسلام کی ترقی کے لیے جن جن شعبوں میں خصوصی توجہ دی ان
کا اجمالی تذکرہ ملاحظہ کیجیے :
تدریس
:
تدریس کا میدان نہایت وسیع اوراپنی افادیت کے اعتبار سے بہت ہی زیادہ اہمیت کاحامل ہے اسی لیے مشائخ
کرام نے تدریس پر خصوصی توجہ دی ،مشائخ کی تدریس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی میں ایک ہزار مدرسے قائم ہوئے جس میں لاتعداد تشنگان ِ علم اپنی پیاس بجھانے کےلیےان کے در پر حاضری دیتے ۔(تاریخ مشائخ چشت ، ص۱۷۳)
مساجد
کی تعمیر
اسلامی معاشرے میں مسجد کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اسی لیے مشائخ کرام نے مساجد کی تعمیر
اور آباد کاری پر خصوصی توجہ دی ۔
دیگر
ارکان اسلام پر عمل
نماز کی طرح زکوٰۃ، روزہ اور حج بھی ارکانِ
اسلام ہیں ،مشائخ نے لوگوں کو ارکان ِ اسلام کا پابند بنانے کے لیے بھی کوشش فرمائی ۔
ہر
حال میں شریعت کی پیروی :
تصوف
کی بنیادی روح اپنی ذات میں اطاعتِ الہی کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور اطاعتِ الہی کے لیے ضروری ہے کہ بندہ ہر حال میں احکامِ شریعہ کو حرزِ جاں بنائے اسی
لیے مشائخ کرام نے لوگوں کو شرعی احکام کا پابند بنانےکے لیےمستقل بنیادوں پر ذہن سازی کی ۔
اصلاح
نیت:
دعوت
ِ دین کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ”جذبہ ٔ خلوص“ریڑھ
کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہےاور جذبہ ٔخلوص کو کسی بھی قسم کی آمیزش سے پاک رکھنے کے لیے ”اصلاحِ نیت“بہت ضروری ہے اسی لیے مشائخ کرام نے نیت کی
درستی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
استقامت
:
سیدھا راستہ اپنا نا اور پھر اس پر ثابت قدم
رہنااللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خصوصی انعام ہے،
مشائخ کرام نے اپنے معمولات کے ذریعے خلفا اور مریدین کو استقامت کی اہمیت ذہن نشین کروائی ۔
عفو
و درگزر:
امر بالمعروف اور نھی عن المنکر وہ راہ ہے جس میں جگہ جگہ بداخلاقی کے کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور طعن و تشنیع کے سنگریزے برسائے جاتے ہیں جس کا
مقابلہ کرنے کے لیے ”عفو و درگزرکی سنت“ ہی سب سے محفوظ پناہ گا ہ ثابت ہوتی ہے،مشائخِ
کرام کی دینی خدمات کا دائرہ کار جوں جوں وسیع ہوتا گیا دشمنان ِ دین اور
حاسدین کی طرف سے ایذا رسانی کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر انہوں نے عفو و درگزر کی عظیم ُالشان مثالیں قائم فرماکر دشمن کے منصوبے خاک میں ملادیے ۔
تصنیف
و تالیف:
کتاب کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے کتاب اپنے
مصنف کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھتی ہے
اورصدیاں گزرنے کے بعدبھی کتاب ”مصنف کی
مجلس“میں لے جاتی ہے ،مشائخِ دہلی نے
تصنیف و تالیف کی جانب بھی توجہ دی اور کئی علوم پر گراں قدر کُتُب یادگار چھوڑیں ۔
مشائخِ دہلی بعض اوقات زیرِ مطالعہ کتاب کے پیچیدہ مسائل حل فرمادیتے جیساکہ سلسلۂ عالیہ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت سیّدابراہیم ایرجی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ہر علم کی بے انتہا کتابیں مطالعہ کی تھیں اور اس کی تصحیح بھی فرمائی تھی، آپ کتابوں کے مشکل ترین مسائل کو اس طرح حل کردیتے کہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی آپ کے حل کردہ مشکلات کو بغیر استاد کی مدد کے بخوبی سمجھ جاتا ، آپ کے وصال کے بعد آپ کے کتب خانے سے اتنی زیادہ کتابیں برآمد ہوئیں جو ضبطِ تحریر سے باہر ہیں،ان میں سے اکثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں۔(تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ، ص۲۰۸)
مشائخ دہلی کی دعوت کے اثرات
مشائخِ دہلی کی آمد اور سکونت ساکنان ِدہلی کے
لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ، مشائخ کرام کی دعوت سے اُن کا
ظاہر سُدھر ا اور اُن کے باطن کو پُر رونق بنا گیا ۔ مشائخ ِدہلی کی دعوت کے اثرات کے مختلف پہلو ملاحظہ کیجیے :
(1)علم
کے اجالوں سے جہالت کی تاریکی کا خاتمہ :
انسان
کو اشرف المخلوقات کے لقب سے امتیازی
مقام دلانے والا وصف” علم “ہے۔علم کا نور
انسان کومعاشرے میں رہن سہن کا ڈھنگ
سکھلاتا ہے،طرز ِ معاشرت میں عمدگی پیداکرنے کا سلیقہ بتا تا ہے ، بڑوں کا
ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی اچھی عادت اپنانے کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔صوفیائے کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن جہاں
بھی تشریف لے گئے علم کی شمع روشن کی اور جہالت کی تاریکی کا خاتمہ کیا ۔کبھی تو میدانِ تدریس میں اتر کر جہالت کو کیفرِ کردار تک پہنچایا اور
کبھی اپنے علمی فانوس کے ذریعے کسی بھٹکے ہوئے کو راہ دکھانے
کی سعیٔ پیہم فرمائی۔
حضرت
نظام الدین اولیا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی بارگاہ میں کسی بھی قسم کا کوئی اشکال پیش ہوتا تو آپ نو رِ باطن سے اس کا شافی جواب عطا فرماتے یہی وجہ تھی کہ شہر دہلی میں جو لوگ تصوف کا انکار کرتے تھے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے تبحر علمی نے
انہیں اس قدر متاثر کیا کہ وہ آپ کے حلقہ
ٔ ارادت میں شامل ہوگئے۔(محبوب الہی،ص۲۲۶ملخصا)
مشائخ کرام علیہم الرحمہ کے وجودِ مسعود
سے دہلی علم وعرفان کی مشکبار پُر رونق
اکیڈمی بن چکا تھاجس کی بناپردہلی کو” رشک بغداد“ قرار دیا گیا ۔
(2)اخلاقی پستی کا خاتمہ
جس
طرح دماغ کو معطر کرنے کے لیے ”پھو ل “میں ”خوشبو “ کا ہونا ضروری ہے بالکل اسی طرح ”علم “ کو انسانیت کے لیے قابل اِنتفاع
بنانے کے لیے ” حسن اخلاق کی خوشبو“کاہوناضروری ہے کیوں کہ جس”علم“میں”بداخلاقی“ کی بو ہو
اسے حاصل کرنے سے انسان پڑھا لکھا جاہل بن جاتا ہے ۔
دہلی
کےمشائخ کرام نے جہاں فروغ ِ علم کے سلسلے میں کوششیں فرمائیں وہیں انسان کو عمدہ اخلاق اپنانے سے متعلق
خصوصی تربیت دی اور اپنی بافیض صحبت سے معاشرے میں پیدا ہونے والی
اخلاقی برائیوں کا خاتمہ فرمایا۔
(3)شیر
و شکر کرنے کی کوشش:
افراد کے مجموعے کا نام معاشرہ ہے اوراس مجموعے کو توڑنے میں
باہمی رنجشوں،آپس کی ناچاقیوں اور تلخیوں
کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے ۔مشائخ کرام نے عمدہ نصیحت اور حسن ِ تدبیر کے
ذریعے بکھرے ہوئے خاندانوں کی رہنمائی کی اور ان میں صلح جوئی کے جذبات ابھارے،عفو و درگزر اپنانے کی ترغیب دلائی اورنفرت کاخاتمہ کرکے شیر و شکر ہوکر رہنے کی عملی تربیت دی جس کی بدولت اپنے بھائی کے لیے بھلائی چاہنے کے جذبے کو فروغ
ملا۔
(4)علم
نافع کے فروغ کے لیے کوشش
انسان کی ہلاکت و بربادی میں”علم غیرنافع“کا
کردار ہوتا ہے،اس کی بدولت معاشرے میں
فساد پھیلتا ہے اوربعض اوقات فاسد نظریات کے فروغ کی وجہ سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔دہلی میں جب علم کو عروج نصیب ہوا تو اس وقت ایسے عناصر نے بھی پرورش پائی جن کا
علم ”غیرِنافع“ ہونے کی وجہ سے ریت کا پہاڑ تھا اور اس غیرنافع علم کی وجہ
سے غلط نظریات پھیل رہے تھے تو ایسے وقت میں مشائخ کرام ہی نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ان عناصر کا سدِ باب کیا اور ان کے
مہلک اثرات سے معاشرے کو محفوظ رکھنے کے
لیے علم ِ نا فع کی اشاعت میں بھر پور کردارادا کیااور حق و باطل کے مابین
خطِ امتیاز کھینچ کرلوگوں کو گمراہی سے
بچایا۔
(5)اصلاح اعمال کے لیے کوشش
رب ِ
کریم کی بارگاہ سے ایمان لانےاور عملِ
صالح پر استقامت اختیار کرنے پر جنّت کی بشارت سے نوازا گیا ہے اور بے عملی پر عذابِِ نار سے ڈرایا گیا ہے لیکن جب بھی انسان بشارت و تخویف کو فراموش کرتا ہےتواس کا نامہ ٔ اعمال برائیوں سے پُر ہونے لگتا ہے اور پھر بدی کی کثافت نامۂ اعمال کی چمک دمک کو ختم کردیتی ہے ۔مشائخِ
دہلی نے ”اصلاحِ اعمال “پر بھر پور تو جہ
دی اور اپنی فراستِ ایمانی سے ایسے اقدامات کیے کہ جن کی بدولت
لاتعداد افراد تو بہ کرکے راہ راست پر آئے ۔
(6)مفادپرست کلچر کا خاتمہ اور خیر خواہی کو
فروغ
اپنا فائدہ سوچنے کی روش سے انسان کے اندر
بے شمار برائیاں پیدا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کبھی انسان حرص و لالچ کے جال میں پھنس جاتا ہے ، کبھی تکبرکا آسیب اس سے چمٹ جاتا ہے تو کبھی حسد کی آگ میں کود پڑتا ہےاور آخر کارمفادپرستی کی دیمک کے
سبب معاشرتی اقدار رفتہ رفتہ کھوکھلی ہوتی ہیں۔اسی لیےمشائخِ دہلی دوسروں کی تکلیف
کو اپنی تکلیف سمجھنےاور اس کے ازالے کے لیے کوشاں رہنے کی خصوصی تربیت فرماتے
جیساکہ خواجہ نظام الدین اولیاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لوگوں
کے دکھ درد سے حددرجہ رنجیدہ ہوتےاورخلقِ خدا کی پریشانی سے پریشان ہوجاتے، ایک دن خانقاہ میں لوگوں کا ہجوم تھا،
سایہ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ لوگ دھوپ میں بیٹھے ہوئےتھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جب
یہ دیکھا تو لوگوں سے فرمایا:مل جل کر
بیٹھ جاؤ تاکہ دوسروں کے لیے بھی جگہ نکل
آئے۔دھوپ میں لوگ بیٹھے ہیں اور میں جل
رہا ہوں۔(محبوب الہی،ص۲۳۶)ایک موقعے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:جو شخص میرے پاس آتا ہے اپنا
حال مجھ سے بیان کرتاہے اس سے دو چند فکر و تردد اور غم و الم مجھے ہوتاہے ،بڑا سنگدل ہے وہ جس پر اپنے دینی
بھائی کا غم اثر نہ کرے۔(محبوب الہی،ص۲۳۷) ایک مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: قیامت کے
بازار میں کسی سودے کی اتنی قیمت نہ ہوگی جتنی دل کا خیال رکھنےاور دل خوش کرنے کی
۔(محبوب الہی،ص۲۳۷)
مشائخ دہلی نے اپنے اپنے عہدِزریں میں مفاد پرستی کے کلچر کے خاتمے کے
لیے بھر پور کوشش فرمائی اور لوگوں کہ یہ ذہن دیا کہ
1۔
دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیں اور اپنے
اندر ایثار کا جذبہ پیدا کریں۔2۔مخلوق پر
رحم کرکے خالق کی رحمت کے حقدار
بنیں۔3۔کسی کو خود سے کم تر نہ سمجھیں بلکہ عاجزی اختیار کرتے ہوئے ہر ایک کو خود
سے برتر جانیں۔4۔مسلمان کی بروقت مدد کرکے اس کی قلبی طمانیت کا سبب بنیں ۔
الغرض یہ کہ مشائخ دہلی نے بھرپور کوشش
فرمائی کہ مسلمان ایک دوسرے کے خیرخواہ بنیں۔
(7)عبد و معبود کے مابین تعلق اُستوار کرنے کی کوشش
مشائخ کرام مخلوق کو خالق سے جوڑتے ہیں اوراپنی دعوت کے ذریعے انسان کو مقصد ِ تخلیق”عبادت “سے آشنا کرواکر
اُسےخالق ِ حقیقی کے در پر جھکا دیتے ہیں ،مشائخ دہلی نے بھی مخلوق کو خالق سے جوڑاجس کا یہ اثر ملاحظہ کرنے کے لیے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عہد
زریں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں مرد و عورت،غلام ونوکر سب ہی عبادت و ریاضت کے شائق نظر
آتےہیں،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی برکت سےاس دور کے مسلمانوں کی کیفیت یہ ہوچکی تھی کہ شرم کی وجہ سے دنیوی عیش وعشرت کا تذکرہ کرنے سے بھی شرماتے تھے ۔(مراۃ
الاسرار،ص۷۹۲)
جس
عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں اگر اپنے شب و روز ان مشائخ کرام کی سیرت کےسانچے میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کریں، اپنی داعیانہ ذمہ
دار ی کو محسوس کرتے ہوئے اسلام کا پیام ِ
امن دنیا کے سامنے پیش کریں،عجب نہیں کہ
ایک مرتبہ پھر پرچم ِ اسلام اپنی عظمت و جلالت کے ساتھ دنیا بھر میں لہرانے لگے۔
از:مولاناناصر جمال عطاری مدنی
اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی