بہت بڑے عاشقِ رسول حضرت سیِّدُنا اِمام جَلال ُ الدِّین سُیُوطی شافِعی رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے بیداری میں 75بار رسولِ پاک،صاحبِ لولاک ﷺ کی زیارت کی،آپ رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :(پیارے آقاﷺَکے دادا جان)حضرت عبدُالْمُطَّلِب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) میں حجرِ اَسود کے پاس سو رہا تھا کہ میں نے ایک ہولناک خَواب دیکھا، جس کی وجہ سے مجھ پر بہت زیادہ گھبراہٹ طاری ہو گئی، پھر میں ایک قُریشی کاہِن(یعنی قسمت کا حال بتانے والے) کے پاس آیا اوربتایا کہ میں نے رات خَواب میں ایک درخت دیکھا ،جس کی اُونچائی آسمان تک اور شاخیں مَشرِق ومَغرِب تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ اُس درخت سے نکلنے والے نُور کی چمک دَمک سُورج کی روشنی سے سَتّر70 گُنا زائد ہے۔ اُس کے سامنے عرَب وعجم سجدہ ریز ہیں اور اُس کی عظمت، نُور اور بلندی میں ہر آن اِضافہ ہو رہاہے۔ ایک لمحہ وہ چُھپ جاتا ہے تو دُوسرے ہی لمحے ظاہِر ہوجاتاہے۔ قُریش کی ایک جماعت اُس کی شاخوں سے چمٹی ہوئی ہے جبکہ دُوسری جماعت اُسے کاٹنا چاہتی ہے۔ جونہی یہ جماعت اسے کاٹنے کے لئے قریب پہنچی تو ایک نوجوان نے اُنہیں پکڑ لیا، اِس جیسا حُسن و جَمال کا پیکر اور نَظافَت و خُوشبو سے مُعَطَّر نوجوان میں نے کبھی نہیں دیکھا،پھراس خوب رُو (خوبصورت) نوجوان نے اُس جماعت کے لوگوں کی کمریں توڑڈالیں اور آنکھیں نکال دیں ۔

میں نے درخت کا پھل لینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایامگرکچھ نہ لے سکا ۔بالآخر میں نے پوچھا کہ اِس کاپھل کون لے سکتا ہے؟ جواب ملا: صِرف وہ لوگ جو مضبوطی سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ پھر خوف زَدہ حالت میں میری آنکھ کُھل گئی۔حضرت عبدُ الْمُطَّلِب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے کاہِن کے چہرے کو دیکھا تَواس کا رنگ اُڑچکاتھا، پھر اُس نے تعبیر بیان کرتے ہوئے کہا:اگر تمہارا خواب سچّا ہے تَو تُمہاری پُشت سے ایک ایسا فَرزَند پیدا ہوگا جو مشرِق ومغرِب کا مالِک ہوگا اور ایک مخلوق اُس کی خوبیوں کو دیکھ کر اُس سے وابَستہ ہوجائے گی۔ (خَصائِص کُبرٰی،باب رؤیا عبدالمطلب،۱/۶۷)

حضرت عَبدُالمطلب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے جس نُورکوخَواب میں دیکھا وہ12ربیعُ الاول شریف بَمُطابِق 20اپریل 571؁بروزپیر صُبحِ صادِق کی روشن و مُنوَّرسُہانی گھڑی میں ہَمارے پِیارے آقا،حبیبِ کبریا ﷺكی صُورت میں اَزَلی سَعادَتوں اور اَبَدی مُسَرَّتوں کا نُور بَن کر مكہ مُکرَمَہ میں پیدا ہوئے ۔ (اَلْمَوَاہِبُ اللَّدُنِّیَّۃ لِلْقَسْطَلَانِیّ ج۱ ص۶۶۔۷۵ملتقطاً)

جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند

اُس دِل افروزْ ساعت پہ لاکھوں سلام

پِیارے آقا ﷺجب دنیا میں تشریف لائے تو جہالت کا بول بالا تھا، انسانیت دَم توڑ رہی تھی، لہو و لعب میں ڈوبی ہوئی رسم و رواج کا دور دورہ تھا، جُوَا اور شراب نوشی عام تھی، بیواؤں کو زندہ رہنے کا حق نہیں تھا، یتیموں کے سر پر دست شفقت پھیرنے والا کوئی نہیں تھا، کمزور اور بے سہارا لوگوں کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا، خود خانہ کعبہ میں بتوں کی پوجا ہوتی تھی، لڑکیاں زمین میں زندہ دفن کی جاتی تھیں۔

اللہ پاک کے حبیب ﷺ کی ولادتِ با سعادت ہوتے ہی ظُلمَت کے بادَل چَھٹ گئے ، شاہ ِایران کِسریٰ کے مَحل پر زَلزَلہ آیا ، چودہ (14)کُنْگرے گِرگئے ،اِیران کا آتَش کَدہ جو ایک ہزار(1000)سال سے شُعلہ زَن تھا وہ بُجھ گیا اور دَریائے ساوَہ خُشک ہوگیا اورکعبہ کو وجدآگیا ۔(صبح بہاراں ، ص ۲) ، جس سال آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے،آخری نبی ﷺ نے25 سال کی عمر میں حضرت خدیجہ جیسی بیوہ عورت سے نکاح کرکے بیوہ عورتوں کے مقام و مرتبہ کو بلند کردیا، خانہ کعبہ سے بتوں کو نکال پھینکا اور پاک و صاف کیا، ایسی پرنور تعلیم دی کہ سرزمین مکہ کو اُمُّ القریٰ کا درجہ حاصل ہوگیا، سسکتی اور دَم توڑتی ہوئی انسانیت کو سکون مل گیا پوری دنیا میں حق و صداقت کی روشنی پھیل گئی غرضیکہ سرکار دو عالمﷺ کی شخصیت سراپا رحمت ہے، رسول پاک نے نکاح کو آسان بنایا، یتیموں کو نیا لباس پہنایا، ان کی انگلیاں پکڑ کر عیدگاہ لےگئے، جنگ میں ملا ہوا مال غنیمت یتیموں کو دیدیا، گویا کہ آمدِ مصطفیٰ ہوئی روشن زمانہ ہوگیا،اللہ پاک نے اپنے بندوں کے لئے اپنے محبوب کی زندگی کو ماڈَل اور نمونہ بنادیا، بارگاہِ خداوَندی میں وہی اعمال قابلِ قبول ہونگے جو نبی کریمﷺکے طریقے کے مطابق ہونگے۔

چاند سا چمکاتے چہرہ نور برساتے ہوئے آگئے بدرُ الدُّجٰی، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا

جُھک گیاکعبہ سبھی بُت منہ کے بل اَوندھے گِرے دَبْدَبہ آمد کا تھا ، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا

چودہ کنگورے گِرے آتشکدہ ٹھنڈا ہوا سٹپٹا شیطاں گیا ، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا

(وسائل بخشش،ص۱۴۶،۱۴۷)

مولانا زید عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ ، اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی