از قلم: ابوالحقائق راشدعلی رضوی عطاری مدنی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وِلادتِ اقدس کی تاریخ کے حوالے سے مسلمانوں میں بسا اوقات یہ شورش پھیلائی جاتی ہے کہ امامِ اہلسنت، اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نےتو سرورِ دوعالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ِ وِلادت 8 ربیع الاوّل بیان فرمائی ہے ،حالانکہ مسلمانانِ عالَم وِلادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن 12 ربیع الاوّل کے دن مناتے ہیں۔یہ شورش پھیلانےوالوں کے کیا کیا مذموم مقاصد ہوسکتے ہیں ،حقیقتِ حال تو ربِّ علیم وخبیر ہی جانے۔ لیکن اس کا ایک مقصد یہ معلوم ہوتاہے کہ اس طرح مسلمان جشنِ ولادت کے اہتمام کے معاملے میں شک و شبہ کا شکار ہوجائیں اور اس مقدَّس و محمود عمل کی بجاآوری سے دُور ہوجائیں ،کہ جب اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک 12 ربیع الاوّل سیِّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وِلادت ہی نہیں ہےتو ہم اِس تاریخ کو یومِ وِلادت قرار دے کر اس کا خاص احترام و اہتمام کیوں کرتے ہیں؟

اگرتحقیق و دیانت کے تناظر میں اِس معاملے کو دیکھا جائے تو حقیقتِ حال اِس شوشے کے بالکل برخلاف ظاہر ہوتی ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا موقف تاریخِ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا ہے،اسے جاننے سے پہلے چند بنیادی باتیں پیشِ نظر رکھنا بڑا مفید ہوگا۔چنانچہ ذیل میں ان کا بیان ملاحظہ ہو:

تاریخی معاملات کو سمجھنے کا درست طریقہ:

تاریخی معاملات کو سُلجھانے ،سمجھنے اور سمجھانے کے لئے چند باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھنا انتہائی ضروری ہوتاہے۔ ان باتوں کو بالائےطاق رکھ کر کسی تاریخی مسئلے کو حل کرنے کاعام طور پرنتیجہ یا تو کسی غلط فہمی کا وُجود میں آنا ہوتاہے یا بندہ مغالطے کا شکار ہوکر رہ جاتاہے۔پھر ایسا شخص خود بھی حقیقتِ امر سے ناآشنا رہتاہے اور دوسروں کو بھی بہکانےکا باعث بنتاہے۔لہذا درج ذیل نکات کو سمجھ لینا کئی تاریخی مسائل کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔

٭تاریخی اُمور میں تاریخ کی تعیین سے متعلق عموماً مؤرخین کے کئی اَقوال ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر اِس امر(بات یا معاملے) کا نہ تو انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس بات میں تذبذب کو راہ دی جاسکتی ہے ،بلکہ اُن متعارض اورمختلف اَقوال میں سے درست اور راجح قول کی تلاش کی جائے گی۔قرآنی آیات اور احادیثِ کریمہ میں ناسخ و منسوخ کے معاملے ہی کو دیکھ لیاجائے ،کئی اَقوال کُتب میں ملتے ہیں۔ لیکن ان مختلف اَقوال کے باوجود مفسرین اور محدّثین درست قول تک پہنچنے کے لئے تحقیق سے کام لیتے ہیں اور راجح قول کی نشاندہی فرماکر مسئلے کوحل فرمادیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح تاریخ سے تعلّق رکھنے والے معاملات میں بھی ہمیں محققین کی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے درست اور راجح قول تک پہنچنا چاہیئے۔

٭ محقّق جب بھی تاریخ سے تعلّق رکھنے والے کسی معاملے پر تحقیق کرتا ہے تو دیانت کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے اُس بارے میں منقول تمام ہی اَقوال کو ذکر کر دیتاہے۔ لیکن نقل کرنے والے محقّق کا اپنا موقف اس حوالے سے کیا ہےاور اس کے نزدیک کونسا قول درست اور راجح ہے،یہ بات اُس محقّق کےاپنےکلام سے ہی ظاہر ہوسکتی ہے۔لہذا اس کی تلاش کے لئے متعلقہ موضوع پر اُس محقق کے لکھے ہوئے تمام تر کلام کوپڑھنا ضروری ہوتاہے ،خواہ وہ کلام ایک ہی جگہ مسطور ہو یا اُس محقّق نے اپنی مختلف کُتب میں اُ س موضوع پر منتشرطورپر کلام کیا ہو ،اُن سب کامطالعہ کرنا ضروری ہوتاہے۔

٭تاریخی اختلافی مسائل میں تمام تر اَقوال میں سے کسی بھی ایک قول کو اپنی مرضی اور خواہش سے اختیار نہیں کیا جاسکتا،نہ ہی اِس کی کوئی علمی وقعت و حیثیت ہے۔بلکہ یہ دیکھنا ضروری ہوتاہے کہ اِن اَقوال میں سے کس قول کو اُمّت کے جمہور عُلماء و محققین نے اختیار کیا ہے اورکس قول پر اکثر نے اعتماد کیا ہے۔لہذا جس قول کو جمہور نے اختیار کیا ہوا ورجس قول پر اُمّت کی اکثریت کا اعتماد ہو ،وہی قول اپنایا جا ئے گا۔جمہوراور اُمّت کی اکثریت کے موقف کے برخلاف کسی دوسرے مرجوح اور ضعیف و مردود قول کو لینا راہِ صواب سے ہٹنے اور اُمت میں افتراق و انتشار کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔

٭اگر کوئی محقّق اپنے کلام میں کسی موضوع کے حوالے سے مختلف اَقوال کو نقل تو کرتاہے، لیکن اپنی رائے اور موقف کو بیان نہیں کرتا ، تو ہرگز کسی کویہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی طرف سے اُن اقوال میں سے کسی بھی قول کو اُس محقّق کا موقف بنا کر پیش کرے۔ یہ بات تحقیق کے منافی اور خیانت و بہتان قرار پاتی ہے۔

اعلیٰ حضرت کا اندازِ تحقیق:

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کوئی عام عالِم یا معمولی محرِّر نہیں تھے ،بلکہ اجتہادی صلاحیتیں رکھنے والے اِسلام کے عظیم محقِّق اور فقیہ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ جس بھی موضوع پر قلم اُٹھاتےہیں تو تحقیق اور دیانت کے تمام تقاضوں کو نبھاتے ہوئے اُس موضوع کو الم نشرح فرمادیتے ہیں۔جن معاملات کا تعلّق تاریخ سے ہو،اُن کو بیان کرنے کا طریقہ کار بھی محققانہ اختیار فرماتے ہیں۔تاریخِ وِلادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ بھی اِسی نوعیت کا ہے ،جسے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی تحقیق کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔

تاریخِ وِلادتِ اقدس سے متعلق اعلیٰ حضرت کا موقف:

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاندار رسالے"نُطْقُ الھِلال بارخ ولاد الحبیب والوصال " میں نبیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت سے متعلّق تقریباً سات(7) اَقوال تحریر فرمائے ہیں۔لیکن صرف نقلِ اَقوال پر ہی اِکتفاء نہیں فرمایا،بلکہ تحقیق کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے اُن سات (7) میں سے ایک قول کی ترجیح کوبھی بیان فرمایاہے۔چنانچہ اعلیٰ حضرت ،مجدِّدِ اعظم ، امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:" اس (تاریخِ ولادتِ اقدس کے بارے)میں اَقوال بہت مختلف ہیں، دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس، سات قول ہیں مگراَشہرواَکثروماخوز ومعتبربارہویں ہے۔ مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولدِاقدس کی زیارت کرتے ہیں کما فی المواھب والمدارج (جیسا کہ مواہب لدنیہ اورمدارج النبوۃ میں ہے۔ت) اورخاص اس مکانِ جنّت نشان میں اسی تاریخ مجلس میلاد مقدس ہوتی ہے۔"

(فتاویٰ رضویہ،26/411،رضافاؤنڈیشن لاہور)

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کی طرف تاریخِ ولادتِ اقدس 8 ربیع الاوّل کا قول منسوب کرنے والے غوراور پوری توجہ سے کلامِ امام کے اِس اقتباس کو ملاحظہ کریں کہ امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے سات(7) اَقوال کو ذکر کرکے کس قول کو راجح قرار دیا ہے ۔یقیناً وہ 8 ربیع الاوّل نہیں ،بلکہ 12 ربیع الاوّل ہے۔

نیز فنِ اِفتاء کو سمجھنے والے حضرات ملاحظہ کریں کہ اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نےتاریخِ ولادتِ اقدس 12 ربیع الاوّل والے قول کو چار(4) اَلفاظِ فتویٰ "اَشْہَر"،"اَکْثَر"،"ماخوذ" اور "معتبر" کی تاکید کے ساتھ بیان فرمایاہے۔اِس اُسلوبِ کلام سے ہی ہر ذی شعور اورمُنصِف مزاج شخص سمجھ سکتاہے کہ اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سیِّدِ کائنات،فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وِلادت 12 ربیع الاوّل ہی ہے۔

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ مسئلےکی مزید تحقیق کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ 12 ربیع الاوّل ہی کو سلطانِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وِلادت قرار دینا جمہور کے نزدیک مشہورہے۔چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:" شرع مطہر میں مشہور بین الجمہور(جمہورکےنزدیک کسی امر کےمشہور )ہونے کے لئے وقعتِ عظیم( انتہائی اہمیت) ہے اور مشہور عند الجمہور ہی 12 ربیع الاوّل ہے۔" (فتاویٰ رضویہ،26/427،رضافاؤنڈیشن لاہور)

تاریخِ وِلادتِ اقدس کے بارے میں اعلیٰ حضرت کی اُمت کو ترغیب:

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے 12 ربیع الاوّل کے تاریخِ ولادتِ اقدس ہونے پر اِس بات کو بھی بطورِدلیل ذکرفرمایاہے کہ اِس پر حرمَین شریفَین اور دیگر بلادِ اسلام کے مسلمانوں کا تعامُل ہے۔تعامُل کا شرعی احکامات اور معاملات میں دائرۂ اثر کیا ہے،یہ ہراہلِ علم جانتاہے۔پھر آخر میں امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اُمتِ مسلمہ کو یہ ترغیب بھی دِلائی ہے کہ اِسی (12 ربیع الاوّل کو یومِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طورپرمنانے)پر عمل کیا جائے۔چنانچہ امام کی عبارت ملاحظہ ہو:

"تعامُلِ مسلمین حرمَین شریفَین و مصر و شام بلادِ اسلام و ہندوستان میں 12 ہی پر ہے اس پر عمل کیاجائے۔"

(فتاویٰ رضویہ،26/427،رضافاؤنڈیشن لاہور)

بحمد اللّٰہ!درج بالا چند سُطور سے یہ واضح ہوگیا کہ تاریخِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سےاعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کاموقف کیا ہے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کا نچوڑ کیاہے۔اللہ کریم قبولِ حق کی توفیق عطافرمائے۔

کتبہ

ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی

7ربیع الاوّل 1443ھ،13 اکتوبر2021ء،شبِ جمعرات