معروف بزرگ جامع شریعت و طریقت حضرتِ
مَعْرُوف کَرْخِی رحمۃُ اللہِ علیہ کےپاس ایک شخص آیااور کہا حضرت آج ایک عجیب
واقعہ ہوا ”میرے گھر والوں
نے مچھلی کھانے کی فرمائش کی۔میں نے بازار سے مچھلی خریدی اور اسے گھر پہنچانے کے
لئے ایک کم عمر مزدور بلایا، اس نے مچھلی
اٹھائی اور میرے پیچھے چل دیا۔راستے میں اذان کی آواز سنائی دی اس لڑکے نے کہا:”چچا
جان ! اذان ہو رہی ہے آئیے نماز پڑھ لیں؟”اس کی یہ بات سن کر مجھے ایسا لگا جیسے
وہ نو عمر لڑکا مجھےغفلت کی نیندسے جگارہا ہے۔ میں نے کہا” کیوں نہیں!آؤ پہلے نماز
پڑھ لیتے ہیں،اُس نے مچھلی وُضو خانےپر رکھی اور مسجد میں داخل ہو گیا۔ ہم نے
جماعت کے ساتھ نماز ادا کی اور گھر آگئے، میں نے گھر والوں کواس نیک اورکم عمر
مزدور کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگے:”اِس سے کہو آج دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ
کھالے۔”میں نے اسے دعوت دی تو اس نے کہا کہ میرا روزہ ہے، میں نے کہا،افطاری ہمارے
ساتھ کرلینا۔اُس نے کہاٹھیک ہے،آپ مجھے مسجد کا راستہ بتادیں، میں نے اُسے مسجد
پہنچا دیاوہ مغرب تک مسجد ہی میں رہا ۔ نماز کے بعدمیں نے کہا:”اللہ پاک تجھ پر
رَحَم فرمائے،آؤ گھر چلتے ہیں۔ اس نے کہا:” کیوں نہ ہم عشاء کی نماز پڑھ کر
چلیں؟میں نے اپنے دل میں کہا اس کی بات مان لینے ہی میں بھلائی ہے، اسی لئے مَیں
مسجد میں
رُک گیا،نمازِ عشاء کے بعد ہم گھر آئے، ہم سب نے کھاناکھایا اور اپنے اپنے کمروں میں
سوگئے نوعمر نیک لڑکے کو ہم نے مہمانوں والے کمرے میں سلادیا،میری ایک پیدائشی
معذور لڑکی تھی جو چلنے پھرنے سے معذور تھی اور اسی حالت میں 20 سال گزر چکے تھے۔
رات کے آخری پہر دروازے پر کسی نے دستک دی، میں نے کہا، کون ہے؟میری اُسی معذور بیٹی نے پکار کر کہا: میں
فلاں لڑکی ہوں، میں نے کہاوہ تو چلنے پھرنے سےمعذور ہے اور ہر وقت اپنے کمرے ہی
میں رہتی ہے تم وہ کیسے ہوسکتی ہو؟اس نے کہا:”میں وہی ہوں، ہم نے دروازہ کھولا تو
واقعی ہمارے سامنے وہی لڑکی موجود تھی،میں نے کہا”تم ٹھیک کیسے ہوگئی؟اس نے کہا :میں
نے آپ لوگوں کی آوازیں سنیں تھیں کہ آج ہمارے ہاں ایک نیک مہمان آیا ہے، میرے دل
میں خیال آیا کہ اس نیک مہمان کے وسیلے سے دعا کروں شاید اسی کے صدقے اللہ پاک
مجھے شفا عطا فرمادے، لہٰذامیں نےاللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کی”اے میرے پاک رب،
اس مہمان کے صدقے میری بیماری ختم فرمادے اور مجھےصحت عطا فرما۔“یہ دعا کرتے ہی
میں فورا ٹھیک ہوگئی اوراللہ پاک کے حکم سے میرے ہاتھ پاؤں کام کرنے لگے اور میں
خود چل کر یہاں آئی ہوں، لڑکی کی یہ بات سُن
کر میں فوراً اُس کمرے کی طرف گیا جس میں وہ لڑکا تھا۔وہاں کوئی بھی نہیں تھا،میں
باہردروازے کی طرف گیا تو وہ بھی بند تھا، معلوم نہیں ہمارا نوعمر مہمان کہاں غائب
ہوگیا۔حضرتِ مَعْرُوف کَرْخِی رحمۃُ اللہِ علیہ نے یہ واقعہ سن کر
فرمایا: ”اللہ پاک کے اولیاء میں کم عمر بچے بھی ہوتے ہیں اور بڑی عمروالے بھی، وہ
لڑکا اللہ پاک کا ولی تھا۔ (عیون الحکایات، 2/ 34)
حکایت سے حاصل ہونے والے فوائد
معزز قارئین!اس چھوٹی سی حکایت میں ہمارے لئے بے انتہا قیمتی موتی پوشیدہ
ہیں آئیے انہیں ڈھونڈ کر ان کے ذریعے اپنے اخلاق و عادات کو مزین کرنے کی کوشش
کرتے ہیں :
(1) نماز انتہائی اہم ہے نماز کو اہم الفرائض یعنی اللہ کریم کے فرض کئے گئے کاموں میں سب سے اہم فرض، نماز کی اہمیت کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز ہی کے متعلق ہوگا، نماز پڑھنا
اولیائے کرام کا معمول رہا ہے اور حقیقی ولی وہی ہے جو اللہ پاک کے فرائض کی ادائیگی میں عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ کوشش
کرے نہ یہ کہ مختلف حیلے بہانوں سے اور اپنے آپ کو پہنچا ہوا ثابت کرنے کے لئے
فرائض و واجبات ترک کرتا پھرے، حضور غوث العالم شیخ بہاء الحق والدین ابو محمد زکریا
ملتانی رحمۃُ اللہِ علیہ تو یہاں تک
فرماتے ہیں: مجھے جو کچھ بھی حاصل ہوا نماز سے حاصل ہوا۔( فوائد الفواد ،ص63) (2) اللہ کا ولی ہونے کے لئے 50/ 60 سال
عمر اور داڑھی کا سفید ہونا ضروری نہیں بلکہ بزرگی اور ولایت کم عمری یہاں تک کہ
دودھ پینے کی عمر میں بھی مل سکتی ہے اور کئی اولیائے کرام تو مادر زاد ولی تھے
جیسے کہ غوث الاعظم،شیخ محی الدین ابومحمد عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ پیدائشی طور پر ولایت کا شرف رکھتے تھے۔(3) چوتھی بات یہ پتا چلی کہ کسی کو
اچھے کاموں کی ترغیب دینا اور برے کاموں سے روکنا ایک اچھا کام ہے مگر یہ کام صرف
زبانی حد تک نہ ہو بلکہ جو کہہ رہے ہیں، جس کام کی دعوت آپ دے رہے ہیں، جس کام سے
لوگوں کو روک رہے ہیں، اُس کا آغاز اپنی ذات سے کریں اور اپنے کردار کو ان برے
اعمال سے صاف رکھیں۔ (4) نیک لوگوں سے ملتے رہنا چاہئے اور ہو سکے تو ان کو اپنے ہاں مدعو کرنا چاہئے
کہ اصل دعوت کے حق دار نیک لوگ ہیں۔ (5)اگر
کوئی دعوت دے تو حتی الامکان اسے قبول
کرنا چاہئے ، دعوت قبول کرنا سنت رسول نبوی بھی ہے۔ (6)انبیائے کرام اور دیگر نیک و صالح افراد کے
وسیلے سے جو دعا مانگی جائے اللہ پاک اسے شرفِ قبولیت عطا فرماتا ہے لہٰذا جب بھی
دعا مانگیں تو کسی کا وسیلہ بارگاہِ الہی میں پیش کریں۔ (7) نیک لوگوں کے قرب میں
رحمت برستی ہے لہٰذا صالحین کے مزارات اور جو بزرگ علمائے کرام و مشائخ موجودہ ہیں
ان کی بارگاہ میں وقتاً فوقتاً حاضری کو اپنا معمول بنالیجئے۔(8)اگر آپ کسی کے اجیر (Employee)ہیں کسی
کے ماتحت کام کرتے ہیں تو کوئی بھی ایسا کام اس دوران کرنے سے گریز کریں جو اجارے
کے تقاضوں کے خلاف ہو حتی کہ نوافل ادا
کرنےکے لئے بھی مستاجر (Employer) کی اجازت لیں جیسا کہ حکایت میں مذکور ہوا کہ ان کم
سن ولی اللہ نے ادائیگی نماز کے لئے بھی اجازت طلب کی ۔
مضمون نگار:مولانا محمد حسین بشیر عطاری مدنی