برھانِ ملّت کی عظمت وشان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ کے چہیتے شاگرد اور منہ بولے بیٹے تھے۔ آپ عموماً سفید عمامہ سر پر زیب فرماتے ،چہرہ نہایت خوبصورت اور نورانی تھا ،گفتگو فرماتے تو یوں معلوم ہوتا گویا پھول جھڑ رہے ہوں گستاخانِ رسول کا معاملہ آتا تو مداہنت کو راہ نہ دیتے، مسلکِ اہلسنت و جماعت کے نہایت معتبر اور مستند ترجمان کی حیثیت رکھتے تھے۔ تحریر و تقریر اوراجلاس ومحفل ہر جگہ فکر ِرضا کے امین و پاسبان تھے۔

نام و نسب :

عبد الباقی محمد برھان الحق بن عید الاسلام مولانا عبدالسلام بن مولانا عبدالکریم یوں ۔

آپ کا سلسلہ نسب اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ سے ملتا ہے یعنی آپ نسباً صدیقی ہیں ۔

القاب :

برھان الملت ، برھان الاسلام ، برھان الطب و الحمکۃ ۔

امام اہلسنت کی جانب سے عطاکردہ القاب و خطاب :

ناصر الدین المتین ، کاسر رؤس المفسرین ، قرۃ عینی و درۃ زینی ،برھان السنہ ،یا وادی و راحتہ کبدی ۔

ولادتِ باسعادت :

بروز جمعرات 21 ربیع الاوّل 1310 ھ بمطابق 1894ء بروز جمعرات کو بعد نمازِ فجر ہندوستان کے شہر جبل پور میں ہوئی، ہوا کچھ یوں کہ آپ کے دادا جان فجر کے بعد تلاوتِ قراٰنِ پاک فرما رہے تھے تو دادی جان نے ولادت کی خبر سنائی تو اس وقت آیۃ کریمہ ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا‘‘ وردِ زبان تھی سنتے ہی فرمایا برھان آگیا ۔

تعلیم و تعلّم :

1315ھ میں رسمِ بسم اللّٰہ سے تعلیم کا آغاز ہوا ، آپ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں " میری تعلیم صبح 12 بارہ بجے ظہر کے بعد عصر تک اور عشا کے بعد سے 10 بجے رات تک ہوتی تھی، عربی والد ِماجد سے اورفارسی چچا بشیر الدین صاحب سے پڑھی" 1329ھ میں آپ نے علوم ِعقلیہ و نقلیہ میں مہارت پیدا کرلی ،9 سال کی کم عمری میں پہلی بار مرتبہ بارگاہ ِعزت مآب ﷺ میں نعتِ رسول تحریر فرمائی جس مطلع کا مصرعہ یہ ہے:" نام تیرا یا نبی میرا مفرح جان ہے "

آپ نے 1329ھ کو فتوی لکھنا شروع کیا پھر 1335ھ سے دارالافتاء عیدالاسلام کی پوری ذمہ داری سنبھال لی ۔

بیعت و خلافت :

1335ھ میں ولیِ کامل، پیر ِطریقتِ، رہبرِ شریعت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے دستِ مبارک پر بیعت ہوئے پھر 26 جمادی الثانی 1337 ھ کو جبل پور میں جلسۂ عام میں امام ِاہلسنت نے 45 علوم اور گیارہ سلاسل طریقت و احادیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔

ازواج و اولاد :

آپ کی اولاد میں 3 صاحبزادے اور 2 صاحبزادیاں تھیں :

(1)مولانا محمد انور احمد صاحب ۔

(2)مولانا مفتی محمود احمد صاحب۔

(3)مولانا محمد حامد احمد صدیقی صاحب۔

نعت گوئی :

یوں تو شاعری کی ابتداآپ نے کم عمری سے کردی تھی کما سبق جوانی میں ایسی ایسی نعتیں لکھیں جن کو بارگاہ ِامامِ علم و ادب میں قبولیت سے نوازا گیا ،تعریف و مدح کی سند جاری کی گئی، بائیس 22 سال کی عمر میں آپ کا لکھوا ہوا فارسی کلام جب بریلی شریف میں امام اہل سنت کے سامنے پڑھا گیا تو امام اہل سنت پاؤں سمیٹ کر باادب بیٹھ گئے پھر درج ذیل کلام کے اشعار پڑھے گئے:

حضور سیّد خیرُ الورٰی سلام علیک

بارگاہِ شفیعُ الورٰی سلام علیک

روم بسوئے تو بر ہر قدم کنم سجدہ

نوائے قلب شود سیدا سلام علیک الخ

کلام کے مکمل اشعار سن کراعلیٰ حضرت نے فرمایا :کہ یہ اشعار برھان میاں نے لکھے ہیں ماشاءاللہ ،بارک اللہ پھر فرمایا میں غور کررہا تھا کہ جامی کے طرز پر کس نے طبع آزمائی کی ہے، کہاں ہیں برھان میاں ۔حضرت برھان ملت دارالافتاءمیں بیٹھے تھے حکم سن کر حاضرِ بارگاہ ہوئے، سرکار ِاعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا :حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللّہ عنہ نے حضور ﷺ سے نعت پیش کرنے کی اجازت چاہی حضور نے منبر پر کھڑے ہوکر سنانے کی اجازت دی، ( آپ ﷺ نے) نعت شریف کو بہت پسند فرمایا اورجسمِ اقدس پر شامی چادر تھی جوانہوں نےاتار کر حضرت حسان رضی اللّہ عنہ کے جسم پر اڑھادی، فقیر کیا حاضر کرے؟ اتنا فرما یااوراپنا عمامہ اتار کر حضرت برھانِ ملت کے جھکے ہوئے سرکو سرفراز فرما کر دعائے درازیِ عمر و ترقیِ علم و عمل و استقامت فرمائی ۔

امامِ اہلسنت کا عطاکردہ عمامہ شریف آج بھی تبرکات میں محفوظ ہے اورعید میلاد النبی و جلوس ِغوثیہ قادریہ میں تقریر کے دوران صاحب ِسجادہ اسے پہنتے ہیں۔

اشعار میں آپ کا تخلص ’’ برھان ‘‘ ہے آپ کی بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں نذرانۂ عقیدت دیوان جس کا نام ’’جذبات برھان‘‘ ہے۔

اساتذہ کرام :

امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ۔

جدِّ امجد حضرت مولانا شاہ عبدالکریم رحمۃ اللّٰہ علیہ ۔

والد ِمحترم حضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

عم محترم حضرت قاری بشیر الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

مولانا ظہور حسین مجددی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

مولانا جلال میر پیشاوری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

مولانا رحم الہی رحمۃ اللّٰہ علیہ ( مدرس اول منظر الاسلام بریلی شریف )۔

صحبت امام اہلسنت :

علومِ ظاہری کے بعد باطنی علوم ( علوم شریعت و طریقت ) کے حصول کے لئے آپ بریلی شریف روانہ ہوئے اورکم وبیش 3 سال 1333ھ سے 1335ھ تک امام ِاہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی صحبت میں رہے ۔

خاندانی امتیاز :

پروفیسر مسعود احمد صاحب جذباتِ برھان میں رقم طراز ہیں : یہ امتیاز صرف آپ کے خاندان کو حاصل ہے کہ آپ کے خاندان کے تین جلیل القدر شخصیات کو امام ِاہلسنت احمد رضا سے خلافت حاصل ہے۔

اسی طرح آپ کے خاندان کو یہ بھی امتیاز حاصل ہوا کہ امام احمد رضا کے خاندان کے باہر آپ کے پہلے خلیفہ حضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام قادری رضوی ہوئے اور حضرت مفتی محمد برھان الحق قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے جبکہ خاندان کے اندر یہ امتیاز صرف حجۃالاسلام مولانا حامد رضا خان قادری رضوی کو حاصل ہوا کہ وہ پہلے خلیفہ ہوئے اور حضرت مفتی ِاعظم ہند محمد مصطفیٰ رضا خان قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے ۔

مزید یہ کہ آپ کے چچا جان کو بھی فاضل ِبریلوی سے خلافت حاصل تھی بحمد اللہ خانوادہ اسلامیہ برھانیہ کو خانوادہ رضویہ سے جو قرب و فضل حاصل ہوا کسی اور خانوادے یا فرد کو حاصل نہ ہوا ۔

خلفا:

آپ کے خلفاکی فہرست طویل ہے جن میں چند مشہورخلفایہ ہیں :

حضرت مولانا مفتی محمود احمد قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

حضرت مولانا محمد انور صاحب۔

تاجُ الشریعہ حضرت مولانا مفتی اختر رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

توصیفِ ملت حضرت مولانا توصیف رضا خان دام ظلہ ۔

شمس العلماء حضرت مولانا مفتی نظام الدین ابن حافظ مبارک صاحب۔

حضرت مولانا مفتی نظام الدین رضوی دام ظلہ ( مفتی جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ ) ۔

حضرت مولانا شمس الھدٰی قادری رضوی دام ظلہ ( استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ )

یوں ہی آپ کے مریدین و احباب کی فہرست بہت طویل ہے ان میں سے پاکستان کا ایک بہت بڑا نام جانشینِ مفتی ِاعظم پاکستان ،مہتمم جامعہ غوثیہ رضویہ، استاذ العلماء ، فقیہُ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ابراھیم القادری دام ظلہ بھی آپ کے مریدین میں سے ہیں۔

تقرر بحیثیتِ مفتی بریلی شریف :

1339ھ کو امامِ اہلسنت نے آپ کو بریلی شریف میں مفتی ِشرح کے منصب کے لئے تقرری فرمائی، برھان ِملت ایک مقام پر فرماتے ہیں :کہ اعلیٰ حضرت کے چھوٹے صاحبزادے مولانا مصطفیٰ رضا خان اور مولانا امجد علی صاحب ہم تینوں ساتھ کھانا کھاتے اور ہمارازیادہ وقت دارالافتاء ہی میں گزرتاتھا۔

زیارتِ حرمینِ شریفین :

پہلی بار زیارتِ حرمین کے لئےحضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام علیہ الرحمہ کے ہمراہ تشریف لے گئے پھر دوسری بار 1376ھ زیارت کے لئے روانہ ہوئے۔

تحریکِ پاکستان :

آپ آل انڈیا سنی جمیعت العلماء کے صدر بھی رہے، 1385ھ میں مسلم متحد محاذ چھتیس گڑھ کے صدر ہوئے، 1940ھ میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد ملک کے عرض و طول میں دورے کئے جن میں سندھ ،پنجاب اورخیبر پختونخواہ میں تقاریر فرمائیں۔ تحریکِ پاکستان کے لئے سخت جدو جہد کی ،قائد اعظم محمد علی جناح نے آپ کی کوشش کو بہت سراہا اوراظہار ِتشکر کے لئے خط بھی لکھا ۔

تصانیف :

حضرت برھانِ ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصانیف کی تعداد 26 ہے اور 9 خطبے جو ملک کی مختلف کانفرنسوں میں بحیثیت صدر و سرپرست بذاتِ خود تحریر فرمائے ۔خوش آئین بات یہ بھی ہے کہ آپ کی مطبوع و غیر مطبوع کُتُب محفوظ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :

( 1 ) المواھب البرہانیہ بالفتاوی السلامیہ و البرہانیہ یہ فتاوٰی 19 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جس کے ہزاروں صفحات ہیں بعض فتاوے تو اتنے اہم ہیں اور تفصیلی ہیں کہ ایک ہی فتوٰ ےمیں ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے ۔

( 2 ) البرہان الاجلى فیما یجوز بی تقبیل امکان الصلحاء ۔

( 3 ) درۃ الفکر فی مسائل الصیام و عید الفطر ۔

(4 ) اجلال الیقین بتقدیس سید المرسلین ( اس کتاب پر سید اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تقریظ بھی موجود ہے ) ۔

( 5 ) اتمام حجۃ۔

( 6 ) روح الوردہ فی نفخ سوالات ہردہ ۔

( 7 ) اسلام اور ولایتی کپڑا ۔

( 8 ) چہار فقہی فتوے ۔

( 9 ) المسلک الأظہر فی تحقیق آزر ۔

( 10 ) فقہ الہلال الشہادات رویۃ الہلال ۔

( 11 ) المعجرۃ العظمی المحمدیہ ۔

( 12 ) تعلیم الاسلام فی تمییز الاحکام ۔

( 13 ) إکرامِ امام احمد رضا۔

( 14 ) صیانۃ الصلوات عن حیل البدعات ۔

( 15 ) حیات اعلی حضرت کا ایک ورق ۔

( 16 ) سوانح امام دین مجدِّد مأہ ِحاضرہ ۔

( 17 ) إکرامات ِمجدد اعظم ۔

( 18 ) نیر جلال مجدِّد اعظم ۔

( 19 ) حالات ارتقاء عیدالسلام۔

( 20 ) مسئلہ گائے قربانی ۔

( 21 ) چاند کی شرعی حیثیت۔

( 22 ) زبدۃ الاصفیاء صدرُ الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی ۔

( 23 ) حیات حضرت مولانا عبدالکریم صاحب۔

وصال :

26 ربیع الاول 1405 ھ بمطابق 20 دسمبر 1985ء شبِ جمعہ 95 سال کی عمر میں دار ِفانی کو رخصت کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا۔ نماز جنازہ وصیت کے مطابق حضرت مولانا مفتی محمود احمد رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پڑھائی۔ آپ کامزارِ مبارک جبل پور شریف میں مرجعِ خلائق ہے۔

عاقبتِ برھان کی فیض رضا سے بن گئی

ہے یہی اپنا وسیلہ بس خدا کے سامنے

اللہ عزوجل ان پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے ،آمین۔

حوالہ جات :

تذکرہ ٔبرھانِ ملت ۔برھانِ ملت سے ایک انٹرویو۔حیاتِ برھانِ ملت۔جذباتِ برھان۔

از قلم : احمد رضا مغل مدنی

(متخصص فی الحدیث ، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی)

25 اکتوبر 2021

بمطابق 18 ربیع الاول 1442