قوتِ گویائی(Speaking Power)انسان کی وہ امتیازی قابلیت وصلاحیت (Specific Ability)ہے جس کی وجہ سے وہ تمام جانداروں میں سب سے نمایاں وممتازہے ، اپنی اِ سی قوت کو کام میں لاکر انسان نے اُجڑے دیار(ویران شہر) بسائے ہیں اور بستے دیار اُجاڑے ہیں ،روتوں کو ہنسایا ہے اور ہنستوں کو رُلایا ہے ، رنج و غم کے ماروں کومسرت و شادمانی کے لفظوں سے شاہراہ ِ حیات (زندگی کی راہ)پرنہ صرف چلنے بلکہ دوڑنے کا حوصلہ دیا ہے، انہی لفظوں سے شاہراہِ حیات پر دوڑنے والوں کوگھیسٹ کا اُتارا ہے ، انسان کے لفظ پھول بن کربھی برس سکتے ہیں اور پتھر بن کر بھی اور جب الفاظ پتھر بن کر برستے ہیں تو لفظوں کی جنگ (Word War) آخرکار عالمی جنگ(World War) کی صورت اختیار کرجاتی ہے ۔ انسان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا مختصر جائزہ آپ نے ملاحظہ کیاجس سے آپ کے ذہن میں انسانی الفاظ(Human Wording) کےدرست استعمال کی قدر و قیمت اور غلط استعمال کی صورت میں تباہی و بربادی کاخاکہ بیٹھ گیا ہو گا۔ آئیے! اب عظیم انسانوں کے الفاظ سے دنیا میں برپا ہونے والے انقلاب کا مختصر تاریخی جائزہ ملاحظہ کرتے ہیں ۔ جب انسان کو اس کائنات پر اتارا گیا تو اِسے اپنا مطلوب و مقصودسمجھانے کے لئے بامقصد آواز، پُر اثر لہجہ اور معنی خیز تاثُرات سے بھی نوازا گیا۔انسان نے بارگاہ ِ الٰہی سے ملنے والے اِس انمول نعمت کا بھر پور استعمال کیا اور اس کا ئنات کو اپنے الفاظ سے محبت کے پھول کھلائے اورترقی و کامیابی کے اُفق(آسمان) پر اُونچی اُڑان اُڑ کرخود کو قابل ِ حیرت بلندی پر پہنچادیا ،یہ تمام خصوصیات آپ کو انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے مبارک، پاکیزہ اور دل نواز کلام میں نظرآئیں گی اور اُ ن کے وسیلے سے ان کے صحبت یافتہ پھر جلیلُ القدر اولیا اور معزز علما کے یہاں بدرجہ اتم ملاحظہ کی جاسکتیں ہیں ۔

ملفوظات :عہد بہ عہد(ابتداء سےعصر حاضر تک کا اجمالی جائزہ)

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمکے اِس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد نورِ اسلام سےدنیا کو منوّر کرنے کی ذمہ داری صحابۂ کرام پر عائد ہوتی تھی جسے ان حضرات نے اِس خوبی سے نبھایاکہ اِس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ صحابہ کرام عَلَیْہِمْ الرِّضْوَانُ نے اپنے شب و روز تربیت، کردار سازی اور علمی آبیاری میں صرف کیے،صحابہ کرام عَلَیْہِمْ الرِّضْوَانُ کی زیارت کرنے والے حضرات تابعین کے معزز اور محترم لقب سے پہچانے گئے ۔ان حضرات کے صحبت یافتہ جلیلُ القدر علما اور باعظمت اولیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ امتِ محبوب کی رہنمائی کریں لہٰذا اِن نفوسِ قدسیہ نے اِس ذمہ داری کو احسن انداز میں پورا کیا اور وہ نقوش چھوڑے جو آنے والی نسلوں کے لئے نشانِ راہ کے طور پر اُبھرے اور روشن مینارے بن کر ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ۔

یہ نفوسِ قدوسیہ میدانِ علم کے شہسوارتو تھے ہی ،باعمل ہونے میں بھی بے مثال تھے ،اِن حضرات کےملفوظات سےایسے خوشبوؤں کی لپٹیں آتیں جسے محسوس کرکے ان کو اہم ترین سمجھنے والا قلم کے ذریعے کاغذ میں محفوظ کردیتا یو ں گراں قدراقوال کو محفوظ کرنے کا سلسلہ چل نکلاجو آج تک جاری ہے۔ان ملفوظات میں اپنے عہد کےتاریخی گوشے،لوگوں کے رجحانات اورعقائد و اعمال کے قابل ِ اصلاح پہلوؤں کو بخوبی سمودیا گیا ہے۔یوں تو بالعموم تقریبا ہرموضوع کی کتب میں ہی بزرگان ِ دین کے اقوال مل جاتے ہیں مگرہماری معلومات کے مطابق عربی کتب میں بالخصوص کتب ِ تاریخ،کتب اعلام وطبقات،کتبِ و عظ ونصیحت اور کتب خطبات و مکتوبات اِن اقوال سے مالامال ہیں۔

برعظیم میں ملفوظات کی روایت:

برِّعظیم پاک و ہند کولاتعداد اولیائےکرامرحمہم اللہ السلام نے شرفِ قیام سے نوازا،دعوت ِ اسلام کے ذریعے جہالت و گمراہی کے اندھیروں میں ڈو بتی اور سسکتی ہوئی انسانیت کونہ صرف سہارا دیابلکہ اس تنگ و تاریک دلدل سے نکالا،شرعی احکامات سے آگاہی فراہم کی،مقصدِ حیات(عبادتِ خدا) کی جانب رہنمائی فرمائی ، شاہراہ زندگی کو طے کرنے کا سلیقہ سکھایا،صبرو شکر،زہدو قناعت جیسےخوب صورت اسباق سےلوگوں کی شخصیت کو تراشا،شعور (ادب وآداب)کی اصلاح کی،ذہن کو بیدار کیااسی لیےاس خطےمیں تشریف لانے والے اولیائےکرام رحمہم اللہ السلام کےملفوظات کو خوش نصیب لوگوں نے سرآنکھوں پررکھااورحرزِ جاں بنایا۔چونکہ ملفوظات کا یہ قیمتی خزانہ ہدایت و رہنمائی ، تربیت و اصلاح اور اعلیٰ اخلاق کے انمول ہیروں کوسمیٹے ہوئے تھااس لیے اس خطےکے”ملفوظات“کو اصنافِ ادب(علم ادب کی قسموں) اور علوم تاریخ میں بیش بہا اور گراں قدر سرمایہ سمجھا گیا اور برعظیم کےعہد بہ عہد مطالعے کے لیےاہم ترین ماخذ میں شمار کیا گیا ۔یادرہے کہ بزرگان دین کےاقوال و ارشادات کو”ملفوظات“کانام برعظیم پاک ہند میں دیا گیاہے اسی لئےعربی میں لکھی جانے والی کتب(مثلاکتب ِ تاریخ،کتب اعلام وطبقات،کتبِ و عظ ونصیحت اور کتب خطبات و مکتوبات)میں بزرگوں کے اقوال و ارشادات تو ملتے ہیں مگرانہیں” ملفوظات“ کا عنوان نہیں دیا جاتا ۔

از:مولاناناصرجمال عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ( اسلامک ریسرچ سینٹردعوتِ اسلامی)