محدث سہارن پوری کا ترمذی پر حاشیہ:

یہ شروحات سے لیا گیا مختصر حاشیہ ہے جو پڑھنے والوں اور پڑھانے والوں کے لیے مفید ہے۔ اس کے متعلق محشی کے شاگردِ رشید الاسد الاشد حضرت مولانا وصی احمد محدثِ سورتی جو کہ امام احمد رضا خان قادری بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کے گہرے دوستوں میں سے ہیں، فرماتے ہیں:

میں نے جب درسی کتب کی تکمیل سے فراغت پائی تو وہ مبارک فن اور بلند وبالا علم جس کی باتیں سب سے بہترین ہوتی ہیں اس مبارک فن یعنی علم حدیث کی تحصیل کے لیے میں سید الفقہاء، علامۃ الدہر، ترجمانِ قرآن و حدیث ، حافظ الوقت شیخ احمد علی محدث سہارن پوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اللہ پاک آپ کو اپنی ظاہری ومعنوی مغفرت سے ڈھانپ لے۔میں نے آپ سے کتب صحاح ستہ اور مؤطا امام محمد پڑھیں اور سنیں، آپ مجھ سے راضی تھے اور میں آپ کی برکتوں سے مسرور تھا۔ آپ نے مجھے اپنی روایت کردہ اور سماعت کردہ روایات کی عام اجازت عطا فرمائی ، مجھے ان کی تدریس اور نشر واشاعت میں لگ جانے کا حکم دیا اور مجھے برکت کی دعاؤں سے نواز کر رخصت فرمایا۔ (مقدمہ شرح معانی الآثار،1/5)

محدث سہارن پوری کے نظریات:

میں نے صحیح بخاری شریف اور جامع ترمذی شریف پر آپ کے حواشی کا چیدہ چیدہ مطالعہ کیا تو جن باتوں میں آپ نے اہل سنت وجماعت کی موافقت فرمائی اور جن عقائد وفقہی فروعی مسائل میں اہل سنت کی مخالفت کی انہیں میں نے الگ کرلیا۔جن عقیدوں میں آپ نے اہل سنت کی موافقت کی ہے ان میں سے یہ ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غیب جانتے ہیں اور یہ کہ قیامت میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کبیرہ گناہ والوں کی شفاعت فرمائیں گے اور یوں ہی جن فروعی مسائل میں آپ نے اہل سنت کی موافقت کی ہے ان میں سے یہ ہے کہ صالحین کے مزارات پر حاضری کے لیے سفر کرکے جانا جائز ہے اوریہ کہ صالحین کی قبروں کے پاس مسجدیں بنانا جائز ہے۔ ہم ذیل میں ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔

حضورِ اقدس کے علم غیب کا عقیدہ:

(1)باب ”غریب مہاجرین جنت میں امیر مہاجرین سے پہلے جائیں گے“ میں حدیث ہے: ”غریب لوگ امیروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: یہ ہرگز گمان نہ کرنا کہ تقدیر کی یہ بات اور اس جیسی دیگر باتیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک زبان پر کسی اندازے یا اتفاق سے جاری ہوتی ہیں، نہیں بلکہ یہ اس راز کی وجہ سے ہیں جس سے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم واقف ہیں اور اس نسبت کی وجہ سے ہیں جس کا احاطہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علم شریف نے کررکھا ہے کیونکہ آپ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔جیسا کہ شرح طیبی میں ہے۔ (حاشیہ جامع ترمذی،2/58)

(2)باب”کسی کو انتقال کے بعد جب کفن پہنادیا جائے تب اس کے پاس جانا“ میں حدیث کے جزء ”میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا“ کے تحت فرماتے ہیں: ”مَا“ یا تو موصولہ ہے یا استفہامیہ ہے۔ داؤدی کہتے ہیں: ”میرے ساتھ کیا کیا جائے گا“ یہ الفاظ (راوی کا) وہم ہیں درست یوں ہے کہ ”اس کے ساتھ کیا کیا جائےگا“ یعنی عثمان رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے ساتھ۔ ایک قول یہ ہے کہ حضورپاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اس فرمان ”میرے ساتھ کیا کیا جائے گا“ میں احتمال ہے کہ یہ آپ کو اپنی مغفرت کا علم دیئے جانے سے پہلے کی بات ہو یا یہ مراد ہو سکتا ہے کہ ”میرے ساتھ دنیا میں کیا معاملہ ہوگا“ یا تفصیلی علم کی نفی مراد ہوسکتی ہے۔ (حاشیہ صحیح بخاری، 1/166)

(3)باب ”دنیا کی چمک دمک سے اور اس میں باہم فخر کرنے سے ڈراوا“ میں حدیث ہے: ”خدا کی قسم! میں ابھی اپنے حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: اس سے وہ حوض ثابت ہوتا ہے جس پرپیاسے امتی آکر سیراب ہوں گے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ حوض پیدا ہوچکا ہے اور اس فرمان میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے معجزے کے طور پر غیب کی خبر ارشاد فرمائی ہے۔ (حاشیہ صحیح بخاری،2/951)

(4)باب ”فرمانِ الٰہی ﴿m:"E'vâu[U"O اور فرمانِ الٰہی ﴿½²ï©"s2 ›z¡"“ کے تحت فرماتے ہیں: اس باب کا مقصد ربِّ کریم کے لیے صفتِ علم کو ثابت کرنا ہے اور اس میں معتزلہ کا رد بھی ہے کیونکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ خدا بغیر علم کے عالم ہے۔ چنانچہ امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے یہاں پانچ آیتوں کے پانچ اجزاء ذِکْر فرمائے۔ فرمانِ باری تعالی میں ﴿ c“ocƒ¿"p کا مطلب ہے پسندیدہ رسول۔ رسول سے یا تو سارے رسول عَلَیْہِمُ السَّلَام مراد ہیں یا جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام مراد ہیں کیونکہ وہ رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلَام کی بارگاہ میں پیغامِ الٰہی لاتے تھے۔ غیب سے کیا مراد ہے اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اپنے عمومی معنی پر ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ خاص وحی سے متعلق غیبی باتیں مراد ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ علمِ قیامت سے متعلق غیبی باتیں مراد ہیں لیکن یہ قول ضعیف ہے کیونکہ قیامت کا علم ان علوم میں سے ہے جنہیں اللہ پاک نے اپنے علم کے لیے خاص فرمایا ہے۔ ہاں یہ صورت ہوسکتی ہے کہ اس قول کے قائل نے یہ بات اختیار کی ہو کہ استثناء منقطع ہے۔ یعنی اس صورت میں یہ قول ضعیف نہیں ہوگا۔ (حاشیہ صحیح بخاری،2/1097)

حضور کے بلانے پردوران نماز بھی حکم ماننا واجب ہے:

(1)باب ”بیٹا نماز میں ہو اور ماں بُلائے“ کے تحت فرماتے ہیں: صاحب توضیح رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: ہمارے اصحاب تصریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضورنبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خصائص میں سے ہے کہ اگرا ٓپ کسی شخص کو بُلائیں اور وہ نماز میں ہو تب بھی اسے حکم ماننا واجب ہوگا (کہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوجائے) اور اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی ۔ یہ امام عینی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا فرمان ہے۔ (صحیح بخاری،1/161)

(2)باب ”سورۃ الفاتحہ کے متعلق جو وارد ہوا“ میں فرمانِ باری تعالی ﴿q§³"º2»“[6)"Z" کے تحت فرماتے ہیں: یہ آیتِ مبارکہ دلیل ہے کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بلانے پر حاضر ہونا واجب ہے، اگر حاضر نہ ہوا تو گنہگار ہوگا۔ (صحیح بخاری،2/642)

کبیرہ گناہ والوں کو حضورِ اقدس ﷺ کی شفاعت ملنے کا عقیدہ:

(1)باب ”حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اپنی قوم کو عذاب سے ڈرانا“ میں حدیث ہے: ”اے فاطمہ! اے اولادِ عبد المطلب! میں تمہارے لیے اللہ پاک کی کسی چیز کا (بذات خود) مالک نہیں ہوں، ہاں! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: یعنی بغیر اذنِ الٰہی کے(میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں) ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ ڈرانے اور خوف دلانے کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔ (لمعات) (جامع ترمذی،2/55)

(2)سورۃ الشعراء کی تفسیر میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جو فرمان آیا ہے: ”اے اولادِ عبد المطلب! میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے اللہ پاک کے اِذن کے بغیر (میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں)۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ خوف دِلانے اورڈراوے کے لیےفرمایا،ورنہ ان (اولادِ عبد المطلب) میں سے بعض کے فضائل ثابت ہیں اور ان کا جنت میں داخل ہونا، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اپنے اہلِ بیت کی اور عمومی طور پر اہلِ عرب اور اپنی امت کی شفاعت فرمانا اور ان کے حق میں آپ کی شفاعت قبول ہونا بھی احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ احادیث مبارکہ اس معاملے کے بعد وارد ہوئی ہوں۔ طیبی۔ (حاشیہ جامع ترمذی،2/149)

(3)باب ”شفاعت کے متعلق جو وارد ہوا“ میں حدیث ہے: ”میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہے۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: یعنی گناہ مٹانے کے لیے شفاعت۔ رہی درجات کی بلندی کے لیے شفاعت تو وہ ہر متقی و پرہیز گاراور اولیائے کرام کے لیے ہے اوراس پراہلِ اسلام کا اتفاق ہے۔ لمعات میں ایسا ہی ہے۔ (حاشیہ جامع ترمذی،2/66)

(4)دعوتوں کے باب میں حدیث ہے: ”ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہوتی ہے۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: حدیث کے سیاق سے یہ سمجھ آتا ہے کہ عادتِ الٰہی ہے کہ ہر نبی کو ان کی امت کے لیے ایک دعا کی اجازت دی جاتی ہے جسے اللہ پاک قبول فرماتا ہے، ( گویایہ فرمایا کہ ) ہر نبی نے دنیا میں دُعا فرمالی اور ان کی دعا قبول کرلی گئی لیکن میں نے اپنی دعا کو مؤخر کیا اور بچائے رکھا تاکہ قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کروں پس روز محشر میری دعا ہر اس بندے کو پہنچےگی جس کا ایمان پر خاتمہ ہوا ہوگا۔ لمعات (حاشیہ جامع ترمذی،2/200)

ہاں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لیے علوم خمسہ بشمول قیامت کے علم کے بارے میں جو عقیدہ ہے اس میں محشی نے اس حدیث پاک ”پانچ چیزیں اللہ پاک ہی جانتا ہے“ کے ظاہر پر عمل کیا اور اہل سنت و جماعت کے اختیارکردہ موقف کی مخالفت کی ہے اوریہ اس تحقیق کے خلاف ہے جو محقق علمائے کرام نے آیات واحادیث کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے بیان فرمائی ہے جیسا کہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتابِ مستطاب ”الدولۃ المکیۃ“ اور اس کے حاشیہ ”الفیوض الملکیۃ“ میں اس کی بہترین تفصیل فرمائی ہے۔

یاد رکھو! یہ اختلاف محض راجح اور مختار نظریہ متعین کرنے میں ہے،اس لیے نہیں کہ اس کے قائل کو کافر و مشرک قرار دے دیا جائے جیسا کہ وہابیہ کا طریقہ ہے۔ یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ محشی خود کہہ چکے ہیں: یہ قول ضعیف ہے کیونکہ قیامت کا علم ان علوم میں سے ہے جنہیں اللہ پاک نے اپنے علم کے لیے خاص فرمایا ہے ہاں یہ صورت ہوسکتی ہے کہ اس قول کے قائل نے یہ بات اختیار کی ہو کہ استثناء منقطع ہے۔ (حاشیہ صحیح بخاری،2/1097)یعنی اگر ان قائلین کا مؤقف یہ ہو کہ حدیث شریف میں جو استثناء وارد ہوا ہے وہ استثناء منقطع ہے تو اس صورت میں یہ قول ضعیف نہیں ہوگا۔

اہلِ حق اور وہابیہ کے درمیان جن اختلافی فروعی مسائل میں محشی نے اہلِ سنت وجماعت کی موافقت کی ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

مزارات صالحین پر حاضری کے لیے سفر کاجائز ہونا:

باب ”مسجدِ مکہ ومسجدِ مدینہ میں نماز کی فضیلت“ میں حدیث ”کجاوے نہ باندھے جائیں“ کے تحت فرماتے ہیں: کجاوے باندھنا سفر سے کنایہ ہے یعنی قربِ الٰہی پانے کی نیت سے ان تین جگہوں کے علاوہ کسی جگہ کا رُخ نہ کیا جائے اور اس کی وجہ ان جگہوں کی تعظیم ہے۔ صالحین کے مزارات اور دیگر فضیلت والی جگہوں کے لیے سفر کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ کوئی حرام کہتا ہے اور کسی کے نزدیک جائز کہتا ہے۔ یہ مجمع البحار میں فرمایا گیا۔ فتح الباری میں ہے کہ شیخ ابو محمد جوینی اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے حرام کہتے ہیں اور قاضی حسین نے اسی کواختیار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ امام الحرمین اور دیگر شافعی علما کے نزدیک درست یہ ہے کہ یہ حرام نہیں ہے اوراس حدیثِ مبارکہ کے متعلق انہوں نے کئی جوابات دئیے ہیں: ایک یہ ہے کہ حدیث کا مطلب ہے کہ سفر کرنے میں کامل فضیلت تب ہے جب ان مسجدوں کی طرف سفر کیا جائے ورنہ دیگر مسجدوں کی طرف سفر کرنا محض جائز ہے ۔ ایک جواب یہ ہے کہ حدیث کا مطلب ہے کہ خاص نماز کے لیے کسی مسجد کا سفر کرنا ہو تو انہیں مساجد کی طرف سفر کیا جائے اوررہا کسی نیک بندے (یا اُس کے مزار) کی زیارت وغیرہ کے ارادے سے سفر تو وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ۔اس کی تائید مسند احمد کی یہ حدیث پاک کرتی ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:” نمازی کے لیے روا نہیں کہ مسجدِ حرام، مسجدِ اقصی اور میری مسجد (نبوی) کے علاوہ کسی مسجد کی طرف نماز کے لیے کجاوہ باندھے۔“ امام ابن حجر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا کلام ختم ہوا اور عینی (عمدۃ القاری)میں بھی ایسا ہی ہے۔ (صحیح بخاری،1/158،رقم الحاشیہ:6)

کسی ولی کی قبرکے پاس مسجد بنانے کا جواز:

باب ”حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی علالت اور وصالِ ظاہری“ میں حدیث ہے: ”یہودونصاری پر خدا کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔“ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی امت کو اس عمل سے ڈرایا اور تنبیہ فرمائی ۔ امام بیضاوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: یہودی اورعیسائی انبیائے کرام کی تعظیم کے لیے ان کی قبروں کو سجدہ کرتے تھے، ان قبروں کو قبلہ بناکر نماز میں ان کی طرف منہ کرتے تھے اور ان قبروں کو اپنا معبود بنا رکھا تھا، تو حضور نبی کریمصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان پر لعنت فرمائی اور اپنی امت کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ البتہ جو کسی نیک وصالح کی قبر کے پاس مسجد بنائے اور اس سے قبر کی تعظیم یا اس کی طرف توجہ مقصود نہ ہو بلکہ اس نیک وصالح کے قرب کی برکت حاصل کرنا مقصد ہو تو وہ اس وعید میں داخل نہ ہوگا۔ لمعات میں ہے: امام نووی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ احادیث صحیحہ کے مطابق تبرک اور تعظیم کےطور پر قبر کی طرف یا قبر کے پاس نماز نہ پڑھی جائے اور اسے یقینی حرام سمجھنا ضروری ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اس میں یعنی از روئے تبرک وتعظیم انبیا واولیا کی قبروں کی طرف نماز پڑھنے کی حرمت میں کسی کو اختلاف ہوگا۔ امام نووی کا کلام ختم ہوا۔ امام تورپشتی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:اگر بندے کو قبروں کے پاس ایسی جگہ مل جائے جو نماز کے لیے بنائی گئی ہو یا اس جگہ میں قبروں کی طرف توجہ (رُخ کرنے)سے نمازی محفوظ ہوجائے تو اسےکوئی ممانعت نہیں ۔ لمعات کا کلام ختم ہوا۔شرح طیبی اور مرقاۃ کے کلام کا حاصل بھی یہی ہے۔ (صحیح بخاری،2/639)

حدیث میں مذکورحکم ”قبروں کو برابر کردو“ کا معنی ومفہوم:

محدث سہارن پوری نے اس حدیث شریف لاَتَدْعُ قَبْرًا مُشْرِفًا اِلَّا سَوَّیْتَہُ یعنی کوئی اٹھی ہوئی قبر برابر کیے بغیر نہ چھوڑنا“کی شرح وہابی نظریہ کے خلاف وبرعکس کی ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں: ”قبرا مشرفا“ کا مطلب ہے اونچی قبر یعنی جس قبر پرعمارت بنائی گئی جس سے وہ اونچی ہوگئی ۔وہ قبر مراد نہیں جسے مٹی پتھر ریت اور کنکریوں سے اونچا کیا گیا ہوحتی کہ وہ زمین سے الگ نظر آنے لگے۔ ” برابر کرنے“ کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہموار کردیا جائے، نہ یہ کہ اسے زمین کے ساتھ برابر کردیا جائے،یوں روایتوں کے درمیان تطبیق ہوجائے گی۔ شرح الشیخ میں ایسا ہی ہے۔ امام ابن ہمام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس پر محمول ہے کہ وہ لوگ عمارت بناکر قبریں اونچی کردیتے تھے(اس سے منع کیا گیا)۔ قبر کو کوہان نما بنانایا زمین سے اس قدر اونچی کردینا کہ زمین سے بالکل الگ نظر آئے ہم حدیث پاک سے یہ مراد نہیں لیتے۔وَاللہُ اَعْلَم اور اللہ بہتر جانتا ہے۔ آپ کا کلام ختم ہوا۔ ایک قول کے مطابق سنت یہ ہے کہ قبر کو ایک بالشت اونچا کیا جائے۔ امام ابنِ حبان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قبرِ انوراسی طرح ہے۔ یہ بات شیخ محدثِ دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے لمعات میں ارشاد فرمائی ہے۔ (جامع ترمذی،1/125)اس سب کے برعکس وہابیہ کے نزدیک قبرکو برابر کردینے سے مراد اُسے زمین کے برابر کردینا ہے اور وہ لوگ اسے لازم وواجب سمجھتے ہیں اور مسلمانوں اور قابل احترام شخصیات کی قبروں کی توہین کی بھی پروا نہیں کرتے۔

امامت میں خلیفہ کرنے کی ضرورت نہ بھی ہو تب حضور اکرمﷺ امام ہوسکتے ہیں اور آپ چاہیں تو آپ کی تشریف آوری پر پہلے سے امامت کروانے والا مقتدی بن جاتا ہے:

حدیث شریف میں ہے: ”جب لوگوں نےبہت زیادہ تصفیق(یعنی ہاتھ کی پشت پرزورسے ہاتھ مارکر آواز پیدا) کی تو حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ متوجہ ہوئے۔۔۔ پھر حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ عَنْہ پیچھے ہوئے یہاں تک کہ صف میں برابر ہوگئے اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی“ اس کے تحت کہتے ہیں: علامہ عینی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا پیچھے ہونا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا آگےبڑھ جاناآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خصائص سے ہے۔ امام ابن عبد البر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس بات پر اجماع کا دعوی کیا ہے کہ یہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں۔ (حاشیہ صحیح بخاری،1/94) باب ”جو لوگوں کی امامت کے لیے آیا“

یہ بالکل وہی نظریہ ہے جسے سیدی حافظِ ملت ودین مولانا شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتاب ”العذاب الشدید“ میں اختیار فرمایا ہے۔

فروعی مسائل میں محشی کا اہل سنت سے اختلاف:

وہ فروعی مسائل جن میں محشی نے اہل سنت سے اختلاف کیا ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

”قبرپرکھجور کی ٹہنی رکھنے“ کے باب میں فرماتے ہیں: اس عنوان سے مؤلف کی غرض اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ قبر پر ٹہنی رکھنا میت کو فائدہ نہیں دیتا جس طرح قبر پر خیمے سے سایہ کرنا میت کو فائدہ نہیں دیتا بلکہ نیک عمل اسے فائدہ دیتا ہے اور یوں ہی قبر پر بیٹھنے، اُس پراونچی عمارت بنانے اور قبر پھلانگنے سے میت کو کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ میت کو نفع نقصان اس کے اپنے عمل سے ہوتا ہے کسی اور چیز سے نہیں اور جو قبر پر کھجورکی ٹہنی رکھنے کے متعلق حضورِنبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاعمل حدیث پاک میں آیا ہے وہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ خاص ہے۔ (صحیح بخاری،1/182،رقم الحاشیہ:1)

یوں ہی”کھجور کی ٹہنی رکھنے“ کے باب ہی میں کہتے ہیں: امام ابن ہمام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ قبر پر بیٹھنا اور قبر کوپیروں سے روندنا مکروہ ہے۔ کلام ختم ہوا۔ اس سے مراد مکروہِ تنزیہی ہے جس کی حقیقت خلافِ اولیٰ ہے جیسا کہ امام ابنِ ملک نے ”المبارق شرح المشارق“ میں یہ بات صاف طور پر بیان کی ہے۔ چنانچہ ”قبروں پر نہ بیٹھو“ کے بیان میں فرماتے ہیں:یہ ممانعت تنزیہی ہے کیونکہ اس میں میت کی بے قدری ہے اور بعض علما نے اسے مکروہ قرار نہیں دیا ہے کیونکہ حضرت عبْدُ اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ قبروں پر بیٹھتے تھے اور یہ کہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ قبروں پر لیٹ جاتے تھے اور یہ علماممانعت والی حدیث کو ”قبرپر پیشاب کے لیے بیٹھنے “ پر محمول کرتے ہیں۔ کلام ختم ہوا۔ حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ شرح موطأ میں فرماتے ہیں: ممانعت تنزیہی ہے اور حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا عمل توہین نہ ہونے کی صورت میں اجازت و رخصت پر محمول ہے ۔ کلام ختم ہوا۔ اور بہتر یہ ہے کہ اختلاف سے بچنے کے لیے اجتناب ہی کیا جائے۔ (صحیح بخاری،1/182)

حواشی میں محشی کی عادت:

محشی کی عمومی عادت ہے کہ وہ حدیث کی شرح میں بزرگوں کا کلام نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں منقول کلام کے علاوہ اپنی طرف سے کم ہی کچھ کہتے ہیں، شروحات سے جو نقل فرماتے ہیں وہ یا تو بعینہ لفظوں کے ساتھ نقل فرماتے ہیں یا اس کا خلاصہ ذِکْر کرتے ہیں اور میں انہیں نقل کرنے میں قابلِ اعتماد ہی سمجھتا ہوں ہاں لیکن اچھے اور معمولی میں کچھ فرق نہیں کرتے ہیں بلکہ حدیث سے کیا کچھ ثابت ہوتا ہے یا کیا استنباط ہوتا ہے اس کے متعلق جو مختلف آراء ہوتی ہیں ان میں سے مضبوط اور کمزور بات، صحیح اور ہلکی بات میں فرق کیے بغیر محدث سہارن پوری اپنے حواشی میں ذِکْر کردیتے ہیں پس ان مختلف صورتوں اور الگ الگ آراء میں حق چھپ کر رہ جاتا ہے،پھر ہر کوئی اپنی پسند کی رائے لے لیتا ہے اور اس شرح سے ہر کوئی راضی ہوجاتا ہے۔کتنی ایسی جگہیں ہیں جہاں حق وباطل میں فرق کرنے کے لیے وضاحت کی ضرورت تھی لیکن وہاں یہ خاموش رہتے ہیں یا صرف لفظ وغیرہ کی شرح پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں کہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عبارتوں کی طرح ان کی شخصیت بھی مبہم ہوگئی ہے، لیکن ہم ان کے بارے میں بد گمانی نہیں کرتے اور نہ ہی شریعت اس کی اجازت دیتی ہے، میرے نزدیک فیصلہ کن بات یہ ہے کہ وہ علمائے اہل سنت میں سے ہیں لیکن ہمارے لیے سند اور حجت نہیں ہیں کیونکہ اختلافی معاملات میں حق وراجح موقف بیان کرنے میں وہ تساہل سے کام لیتے ہیں لہذا جو ان کے حواشی سے استفادہ کرتا ہے اسے چاہیے کہ ان حواشی کا مطالعہ گہری نظر اور کامل غور وفکر کے ساتھ کرے تاکہ صاف باتوں کو میلی باتوں سے جدا کرسکے اور ان پر ایسا بھروسا نہ کرے جیسا لمعات، عینی اور مرقاۃ پر کیا جاتا ہے۔ یہ ہر معاملے میں نہیں ہے بلکہ انہی معاملات میں دھیان رکھنے کی ضرورت ہے جن میں خاص کرآج کے زمانے میں اہل حق اور اہل باطل کے درمیان اختلاف ہے۔ یہ میری رائے ہے اور امید ہے کہ ہمارے علمائے کرام کے نزدیک بھی یہ بات درست ہوگی۔

نزہۃ الخواطر سے محشی کا تعارف:

نزہۃ الخواطر میں محدث سہارن پوری کے تعارف میں لکھا ہے:

سہارن پور میں پیدائش وپرورش ہوئی۔ کچھ ابتدائی تعلیم اپنے شہر کے اساتذہ سے حاصل کی۔ پھر دہلی کی طرف سفر کیا اور شیخ مملوک علی نانوتوی سے تعلیم حاصل کی اور حدیث کی سند میں اس سلسلہ سے وابستہ ہوئے: محدث سہارن پوری کے استاد شیخ وجیہ الدین سہارن پوری، ان کے استاد شیخ عبد الحق بن ہبۃ اللہ برہانوی اور ان کے استاد شیخ عبد القادر بن ولی اللہ دہلوی ہیں۔ پھر مکہ شریف کا سفر کیاحج بَیْتُ اللہ شریف کی سعادت سے مشرف ہوئے، صحاح ستہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی بن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے شیخ اسحاق بن محمد افضل دہلوی مہاجر مکی سے پڑھیں اور ان سے اجازتِ حدیث بھی حاصل کی۔ مدینہ منورہ کا سفر کیا اور درِ حضور کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا۔ پھر ہندوستان لوٹ آئے اور مسندِ تدریس پر براجمان ہوئے اور حصول رزق کے لیے تجارت کو ذریعۂ معاش بنایا۔ وہ سچے، امانت دار اور حدیث پر گہری نظر رکھنے والے عالم تھے۔ اپنی زندگی صحاح ستہ بالخصوص بخاری شریف کی تدریس وتصحیح میں لگادی ۔ دس سال تک بخاری شریف پڑھائی،اس کی تصحیح کی اور اس پر تفصیلی حاشیہ لکھا۔6 جمادی الاولی 1297 سن ہجری کو سہارن پور شہر میں فالج سے انتقال ہوا اور وہیں سپردِ خاک ہوئے۔

محمد نظام الدین رضوی مصباحی

مدرس ومفتی جامعہ اشرفیہ مبارک پور۱۵-۰۵-۱۴۲۳

27-7-2002

عربی سے ترجمہ: محمد عباس مدنی عطاری

تقابل ونظرثانی: محمد آصف اقبال عطاری مدنی