راقم الحروف کچھ عرصے سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے خلفا وتلامذۂ اعلیٰ حضرت پر کام کررہاہے ،اس سلسلے میں ان کے خاندان ومتوسلین سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی رہتاہے ،اٹھارہ انیس ماہ پہلےاستاذالعلماء مفتی تقدس علی خان صاحب اورشیخ الحدیث مفتی اعجاز ولی خان صاحب پر کام کرنے کے لیے کتب کا مطالعہ شروع کیا، اگرچہ یہ کتب پہلے بھی پڑھ چکا تھا ،بحرحال معلومات ہوئیں کہ مفتی اعجازولی خان صاحب کے بیٹے حاجی ظفرپاشاصاحب کراچی میں مقیم ہیں ،فون پر ان سے رابطہ کیا ،ملاقات کا بھی عرض کیا پھر دیگر مصروفیت کی وجہ سے ملاقات نہ کرسکا،مفتی تقدس علی خان صاحب پررسالہ بنام’’ تلمیذِ اعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان ایک عہدسازشخصیت‘‘5جولائی 2021ءاور مفتی اعجازولی خان صاحب پررسالہ بنام’’ تذکرۂ تلمیذاعلیٰ حضرت مفتی محمداعجازولی خان‘‘29اگست 2021ءکومکمل کرنے کی سعادت پائی اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب اور’’الور‘‘کے مشائخ پر کام کا آغازکیا ۔

دودن پہلے برادرِ اسلامی فیصل عطاری (شعبہ حج وعمرہ دعوت اسلامی)سےعالمی مدنی مرکزفیضان مدینہ کراچی میں ملاقات ہوئی ،ان سے حاجی ظفرپاشاصاحب سےملاقات ارینج کرنے کا کہہ رکھا تھا کیونکہ یہ بھی کلفٹن میں ظفرپاشاصاحب کے قریب ہی رہتے ہیں ،انھوں نے دورا نِ ملاقات میری بات بھی کروائی اورآج مورخہ 12ستمبر2021ء ملاقات کا وقت بھی سیٹ کرلیا ،چنانچہ طے شدہ وقت بارہ بجے سے پہلے ہی ہم ان کے گھر پہنچ گئے ،ابتدائی تعارف کے بعد مفتی اعجازولی خان صاحب اوران کے خاندان کے بارے میں کافی بات چیت ہوئی، اس گفتگو میں حاجی ظفرپاشاصاحب سےجو نئی باتیں معلوم ہوئیں، وہ درج ذیل ہیں :

٭مفتی اعجازولی خان صاحب بریلی سے کراچی میں ہجرت کرکے آئے ۔ آپ درس وتدریس اور فتوی نویسی سے تعلق رکھتے تھے اور کراچی میں کوئی ایسامقام نہ ملاجہاں تدریس کا سلسلہ شروع کرسکیں لہٰذا شہزادۂ صدرالشریعہ مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری صاحب (جو اس زمانے میں جامعہ محمدی بھوانہ چینوٹ ضلع جھنگ میں شیخ الحدیث تھے ) نےآپ کو وہاں بلالیا،جب مفتی صاحب کی بیٹی تحسین فاطمہ کی ولادت کا وقت قریب آیا تو آپ اپنی فیملی کولے کر کراچی گئے کیونکہ بھوانہ چینوٹ شہرسے دورایک قصبہ ہے جہاں اس زمانے میں بہتر طبی سہولیات موجودنہ تھیں ۔بیٹی تحسین فاطمہ کی پیدائش 26جنوری 1951ء مطابق 17 ربیع الاخر 1370ھ کو کراچی میں ہوئی، ان کی پیدائش کے بعد آپ نے وہاں جانے کا ارادہ کیا تو فیملی وہاں جانے کے لیے راضی نہ ہوئی۔ اس کے بعد جلدہی آپ نے راولپنڈی پھر جہلم میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب نے جامع مسجدداتادربارلاہورکے سامنے ایک مکان کرائے پرلیا ،اس میں جامعہ گنج بخش شروع فرمایا جب دارالعلوم نعمانیہ لاہورمیں آپ کی مصروفیت زیادہ ہوئیں تو اس جامعہ کا انتظام مولانا اول شاہ صاحب (برادرِ نسبتی بانی جامعہ نعیمیہ لاہورمفتی محمدحسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ)نے سنبھال لیا۔

٭بریلی شریف میں مفتی اعجازولی خان صاحب سے جن اہم علمانے ابتدائی درس نظامی کی کتب پڑھیں ان میں صدرالعلمامفتی تحسین رضا خان صاحب،شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری صاحب،مفتی محمدحسین رضوی (بانی جامعہ رضویہ سکھر) اور مولانا معین الدین شافعی رحمۃ اللہ علیہم بھی شامل ہیں ،لاہورکے اہم علمامیں مولانا عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمدصدیق ہزاروی صاحب دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا شمارآپ کے شاگردوں میں ہوتا ہے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب ہرماہِ رمضان میں عرصہ درازتک مختلف جامعات میں دورۂ قرآن بھی کرواتے رہے،جن میں جامعہ نعمانیہ لاہور،جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیرآ بادضلع گوجرانوالہ ، جامعہ حنفیہ دار العلوم اشرف المدارس اوکاڑہ،جامعہ حامدیہ رضویہ لاہور شامل ہیں ،وزیرآبادمیں آپ نے دو تین سال یہ خدمت سرانجام دی ،ہرروز صبح وزیرآبادتشریف لے جاتے اورسہ پہروہاں سے لاہورآیا کرتے تھے ۔یہی معمول اوکاڑہ کے لئے بھی رہا۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے وصال کے بعد اسلام پورہ جامعہ مسجدمیں شرفِ ملّت علامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ خطابت اورنمازپڑھا تے تھے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کی کتب ، فتاوی وتصانیف وغیرہ لاہورسے کراچی لانے کے لیے ریل میں بیلٹی کروائی ،جب یہ سامان کراچی پہنچاتو یہاں شدیدبارش ہورہی تھی،اس بارش میں یہ علمی خزانہ ضائع ہوگیا جس کا افسوس ہے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے فتاویٰ ماہنامہ رضائے مصطفی گجرانوالہ ، ماہنامہ سواداعظم لاہور،ماہنامہ گنج بخش لاہورمیں شائع ہوتے تھے ،حاجی شفیع محمدصاحب (خلیفۂ مفتی تقدس علی خان رحمۃ اللہ علیہ )کے چھوٹے بھائی نے کچھ فتاویٰ اور قرآن پاک اعلیٰ حضرت کے ترجمے کی تشریح اور تفسیر اعجازالقرآن شائع کرنے کا پروگرام بنایا تھا مگروہ اس میں کامیاب نہ ہوئے۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے والدگرامی حاجی سردارولی خان صاحب پیشے کے اعتبارسے زمین دارتھے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے کل چار بھائی اوردوبہنیں تھیں ،سب سے بڑے بھائی شیخ الحدیث مفتی تقدس علی خان رحمۃ اللہ علیہ تھے۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے منجھلے بھائی عبدالعلی خان صاحب کاانتقال 1978ء میں دل کے عارضہ میں کراچی میں ہوا،آپ کی تدفین شہداقبرستان عزیزآباد میں کی گئی ۔ آپ کا ایک بیٹاجاویدعلی خان ہیں جس کی ایک بیٹی ہے ،عبدالعلی خان صاحب کی دوبیٹیاں ہیں غزالہ(ان کے دوبیٹے ہیں ) اور سیما (ان کا ایک بیٹااوردوبیٹیاں ہیں ) حیات ہیں اور امریکہ میں مقیم ہے۔ دو اور بیٹیاں نزہت ، نگہت صاحبہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ نزہت صاحبہ کے دو بیٹے ہیں اور امریکہ میں مقیم ہیں۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے بھائی حافظ مقدس علی خان صاحب شادی کے دس بارہ دن کے بعد روڈ ایکسیڈنٹ میں جون 1960ء میں وفات پاگئے ،ان کی تدفین طارق روڈ کراچی کے قبرستان میں کی گئی۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کی بہن محبوب فاطمہ کی شادی شریف محمدخان صاحب سے ہوئی ،ان کی رہائش لکھیم پور یوپی ہندمیں تھی،ان کے ایک بیٹے حنیف محمدخان تھے ،جن کے چاریاپانچ بیٹے ہیں ،اُن میں سے ایک اسدحنیف خان میرے رابطے میں ہیں۔ محبوب فاطمہ صاحبہ کا انتقال تقریباً 1986ء میں ہوا۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کی دوسری چھوٹی بہن حمیدفاطمہ کی شادی آغاشوکت علی خان صاحب سے ہوئی ،یہ کراچی میں ہجرت کرکے آگئے تھے،ان کے چاربیٹے اورچاربیٹیاں ہیں،بیٹوں کے نام آغا شفقت علی خان ،آغاشاہ عالم خان،آغانورعالم خان اورآغا فیض عالم ہیں ۔ اس میں شفقت علی خان کا 2019 ءمیں اور فیض عالم کا 2006 ءمیں انتقال ہو چکا ہے۔ دو بیٹیاں بھی انتقال کر چکی ہیں اور سب کراچی کے سوسائٹی قبرستان میں مدفون ہیں۔ یہ (مفتی اعجازولی خان صاحب کی بہن حمیدفاطمہ)میری ساس صاحبہ بھی ہیں ان کی بیٹی فوزیہ خاتون کا نکاح مجھ سے 1988 ء میں ہو ا، نکاح شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے پڑھایا ۔

٭میرا نام والدہ نے محمدیوسف خان رکھا ، دَدْھیال کی طرف سے میرانام ظفرعلی خان رکھا گیا ،یوں میرا خاندانی نام ظفرعلی خان ہے،جب کہ میرے خاندان کے ایک فرد چھوٹے پھوپا اور خسر آغاشوکت علی خان صاحب نےمجھے پاشاکا لقب دیا۔(کیونکہ ان کا حیدرآباددکن بہت آنا جانا تھا اوروہاں لفظ پاشا کا استعمال کثرت سےہوتاہے) جب اسکول میں نام لکھوانے کی باری آئی تو میرا نام ظفرپاشالکھوایا گیا،اسی نام ظفرپاشا سے پہچان ہے۔میری پیدائش 6رمضان 1364 ھ مطابق 15اگست 1945ء کو بریلی میں ہوئی۔

مذکورہ گفتگوکے دوران انھوں نے پھل بھی پیش کئے اوراپنے ہاتھوں سے گرین ٹی بنا کرپلائی ۔اختتام پرراقم نے ان کی خدمت میں اپنے لکھے ہوئے دونوں رسائل٭تلمیذ اعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان ایک عہدسازشخصیت اور٭تذکرۂ تلمیذاعلیٰ حضرت مفتی محمداعجازولی خان پیش کئے اوردرخواست کی کہ ان کامطالعہ فرمائیں اورکہیں تصحیح کرنی ہوتو اس کی نشاندہی فرمادیں ، حاجی ظفرپاشا صاحب نے اس کی حامی بھرلی،اس کے بعد بردارم فیصل عطاری صاحب نے پاشا صاحب کو عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی آنے کی دعوت دی اوریوں یہ ملاقات اختتام پذیرہوئی ،پاشاصاحب رخصت کرنے کےلیے فلیٹ سےباہربھی تشریف لائے،اللہ پاک انہیں صحت وسلامتی والی لمبی عمر عطافرمائے ۔

واپسی پر نمازظہردعوتِ اسلامی کے زیراہتمام تعمیرہونے والی خوبصورت مسجدفیضان جیلان کلفٹن میں پڑھی ،حسنِ اتفاق کہ یہاں دعوت اسلامی کے شعبے FGRF کے تحت بلڈکیمپ لگانے کا سلسلہ تھا ،جس کا افتتاح راقم کی دعا سے ہوا۔ اس کے بعد برادرم فیصل عطاری صاحب نے اپنے فلیٹ میں پُرتکلف کھانے کا اہتمام کررکھا تھا چنانچہ ان کے ہاں جانا ہوا،بعدطعام واپسی ہوئی، اللہ پاک فیصل بھائی کو دونوں جہاں کی بھلائیوں سے مالامال فرمائے ،یہ ملاقات انکے تعاون سے ہوئی ،راقم اس پر ان کا شکر گزار ہے، ان کی والدہ بیمارہیں، قارئین ان کی صحت کی دعافرمائیں ۔

از: ابوماجدمحمدشاہدعطاری مدنی

(رکنِ مرکزی مجلسِ شوریٰ،دعوتِ اسلامی)

12 ستمبر2021ء ، 10:15