سرزمینِ پاک و ہند کو یہ اعزاز
حاصل ہے کہ بہت سے اللہ والوں نے اس
سرزمین کا رُخ کیا ہےاور شجرۂ اسلام کی
آبیاری اور نورِ حق کی شمع ِ ہدایت روشن کرکے تبلیغِ اسلام کا فریضہ نہایت جانفشانی سے ادا
کیا ہے۔ انہی روشن اور تابندہ ہستیوں میں ایک نابغۂ روزگار ہستی ”حضرت سیّدنا داتا
علی ہجویری رحمۃ
اللہ علیہ “ کی ہے جنہوں نے شب و روز محنت شاقہ کی بدولت بندگانِ حق کو اللہ کی راہ پر
چلایا،انہیں محبتِ رسول کے جام بھر بھر کر پلائے ۔ داتا صاحب نے اپنی
نگاہِ فیض سے صراطِ مستقیم سے بھٹکے ہوئے افراد کو راہِ حق کا مسافر بنادیا۔آپ کا
چشمۂ فیض کم و بیش دس صدیوں سے جاری ہے اوراب تک تشنگانِ علم و عرفان کو سیراب کرتا چلا آرہا ہے۔
پیدائش: آپ کی
ولادت کم و بیش 400ھ میں غزنی افغانستان میں
ہوئی۔ آپ کے خاندان نے غزنی شہر کے دو
علاقوں جُلّاب اور ہجویر میں رہائش اختیار کی جبھی آپ کو ہجویری اور جُلّابی بھی
کہا جاتا ہے۔ (مدینۃ الاولیاء،
ص468)
ابتدائی تعلیم: ہوش
سنبھالتے ہی آپ کو تعلیم کےلئے مکتب بھیج دیا گیا جہاں حروف شناسی کے
بعد آپ نے قرآنِ پاک مکمل پڑھ لیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے
بچپن سے ہی محنت
اور جانفشانی کے ساتھ علمِ دین حاصل کرنا شروع کردیا تھا، آپ حصولِ علم میں اتنا
مشغول رہتے کہ نہ تو کھانے پینے کا خیال رہتا اور نہ ہی گرد و پیش کی کوئی خبر۔
حضرت خواجہ مستان شاہ کابلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جن
کا دل اللہ کی طرف مُتَوَجّہ ہو وہ دنیا کی نعمتوں کی طرف آنکھ
اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ۔ حضرت سیدنا علی بن عثمان ہجویری سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ دینی مدرسہ میں تقریباً بارہ تیرہ سال کی عمر میں زیرِ تعلیم
رہے۔حصولِ علم کے جَذبہ سے سَرشار تعلیم میں
اتنا مشغول ہوتےکہ صبح سے شام ہو جاتی مگر پانی تک پینے کی فرصت
نہ ملتی ۔ (اللہ کے خاص بندے ، ص459)
کہا جاتا ہے کہ حصولِ علم دین کی خاطر حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف
ممالک کا سفر اختیار کیا ہے ، صرف خراسان ہی کے تین سو مشائخ کی خدمت میں حاضری دی اور ان کے عِلم و حِکمت کے پُر بہار گلستانوں
سے خوشہ چینی کر کے اپنا دامن بھرتے رہے، آپ کے اساتذہ کی فہرست بڑی طویل ہے۔ (کشف المحجوب، ص181)
حضور داتا علی
ہجویری اور سلطان محمود غزنوی علیہما الرحمہ: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ
داتا صاحب سلطان محمود غزنوی کے قائم کردہ
مدرسے میں زیرِ تعلیم رہے ہیں۔ ایک روز کا واقعہ ہے سلطان محمود غزنوی اس عظیم درس
گاہ میں تشریف لائے تو تما م طلبا ء زیارت
کے لیے دوڑے لیکن حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ مطالعے میں
اس قدر مشغول تھے کہ آپ کو سلطان کی آمد کی خبر ہی نہ ہوئی ۔ اُستاد صاحب نے پکارا:دیکھو علی! کون آیا ہے ؟ اب
کیا تھا ایک طرف سلطان محمود غزنوی اور دوسری
جانب ایک کمسن طالب علم۔عجیب منظر تھا ، سلطان
محمود غزنوی نے اس نوعمر طالب علم (یعنی داتا صاحب) پر ایک نظر ڈالی لیکن تجلیات کی تاب نہ لاتے ہوئے
فوراً نظریں جھکا دیں اور استاد صاحب سے کہا: ”اللہ کی قسم ! یہ بچہ خدا کی طرف راغب ہے، ایسے طالبِ علم اس مدرسے کی زینت ہیں “۔ (اللہ کے خاص بندے ، ص460)
داتا صاحب کی حضرت
خضر علیہ السلام سے ملاقات: حضرت سیّدُنا علی خوّاص رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں :حضرت سیدنا خضر علیہ
السلام سے ملاقات کی تین شرطیں ہیں ، جس میں
یہ تین شرائط نہ ہوں وہ آپ سے
ملاقات نہیں کرسکتا اگرچہ جن و انس میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہو۔(1)وہ سنّت کا عامل ہو، بدعتی نہ ہو۔(2)دنیا پر حریص نہ ہو،اگر وہ ایک روٹی بھی دوسرے دن کے لیے بچا کر رکھے تب
بھی حضرت خضر علیہ
السلام سے ملاقات نہیں کر سکے گا۔(3)مسلمانوں کے
لیے اس کا سینہ بالکل صاف ہو، نہ تو اس کے دل میں کینہ ہو نہ ہی حسد اورنہ ہی وہ کسی پرتکبر کرتا ہو ۔ حضرت سیدنا
داتا علی ہجویری رحمۃ
اللہ علیہ عاملِ سنّت،حرص ِ دنیا سے کوسوں دور اور مسلمانوں
کے خیرخوا ہ تھے اسی لیے آپ نے حضرت سیدنا
خضر علیہ السلام سے نہ
صر ف ملاقات فرمائی بلکہ آپ کی صحبت میں رہ
کر ظاہر ی و باطنی علوم حاصل فرمائے ، آپ کی حضرت
سیدنا خضر علیہ
السلام سے بہت ہی گہری دوستی تھی۔ (المیزان الخضریہ
، ص15، کشف المحجوب، دیباچہ، ص16)
داتا صاحب کی لاہور
آمد: حضرت سیدنا
داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ حضرت احمد
حماد سرخسی اور حضرت ابوسعید ہجویری علیہما
الرحمۃ کو ساتھ لے
کر تین افراد کے قافلے کی صورت میں لاہور تشریف لائے اور لاہور کے علاقے بیرون بھاٹی دروازہ میں قیام فرماکرکفر و
شرک کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے اس شہر کو
نورِ اسلام سے روشن فرمادیا۔ (سیدِ ہجویر، ص118)
تصانیف: آپ نے مخلوقِ
خدا کی خیر خواہی کے لىے کئی گراں قدرکتب تصنىف فرمائیں جن کے نام یہ ہیں: (1) منہاج الدین
(2) دیوان (3) اسرار الخرق والمؤنات(4) کتاب البیان لاہل العیان(5) بحر القلوب(6)
الرعایۃ بحقو ق اللہ (7) کتاب فنا و بقاء(8) شرح کلام ِ منصور حلاج(9)
ایمان (10)کشف المحجوب ۔ افسوس!فی زمانہ آپ کی کتابوں میں سےصرف کَشفُ المحجوب ہی بآسانی
دستیاب ہے ۔ (حیات و افکار
حضرت داتا گنج بخش، ص52)
حضور داتا صاحب کے
متعلق متفرق معلومات:
٭ حضرت داتا
علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ خواجہ
ابوالفضل محمد بن حسن خُتَّلی جنیدی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید
تھے۔ ٭حضرت سیّدُنا داتا علی ہجویر ی رحمۃ اللہ علیہ حنفی المذہب
تھے۔ ٭آپ نجیب الطرفین تھے، یعنی والد حسنی سید اور والدہ حسینی سادات سے تھیں۔ ٭آپ کا شجرۂ طریقت 09واسطوں سے
امیر المؤمین مولیٰ علی المرتضیٰ شیرِخدا رضی اللہ عنہ سے
جا ملتا ہے۔ ٭ داتاصاحب نے مؤذنِ رسول
حضرت بلال حبشی رضی
اللہ عنہ کے مزار پر بحالتِ خواب امام الانبیاء آنحضرت ﷺ اور امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کی زیارت کی۔
وفات و مدفن: آپ رحمۃ اللہ علیہ کاوصالِ پُرملال
اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک 20صفرالمظفر ۴۶۵ ھ کوہوا۔
آپ کامزارمنبعِ انواروتجلیات لاہورپاکستان میں بھاٹی دروازے کے بیرونی حصے میں
ہے،اسی مناسبت سے لاہور کو مرکز الالیاء اورداتا نگر بھی کہا جاتا ہے۔( سیّدِ ہجویر، ص143)
آپ کا مزار ، مرجعِ
اولیا و علما: آپ کےمزار کو انوار و تجلیات کا مرکز ہونے کی وجہ سے خصوصی
اہمیت حاصل رہی ہے، اپنے وقت کے بڑے بڑے اولیاء کرام رحمہم اللہ السلام جیسےسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام
بابافریدمسعود گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ حاضر ہوتے رہے ہیں جبکہ متاخرین میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، پیر مہر علی شاہ گولڑوی، شہزادۂ اعلی حضرت حامد رضا خان ،صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین
مراد آبادی اور خلیفۂ اعلی حضرت،محدثِ اعظم
ہند ابوالمحامدمحمد محدث کچھوچھوی، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی،امام المحدثین
حضرت علامہ مفتی سیّد دیدارعلی شاہ محدث اَلوَری رحمۃ
اللہ علیہم نے حاضری بھی دی۔ (مدینۃ الاولیاء، ص475)
گنج بخش فیض عالم مظہرِ نورِ
خدا |
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را
راہنما |