مولانا ابومعاویہ محمد منعم عطاری مدنی
اسکالر
اسلامک ریسرچ سینٹر ، دعوتِ اسلامی
عموماً شخصیات فکر و نظر کو نئی
آگہی تو دیتی ہیں مگر عمل سے دور رہتی ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ خود تو شیشے
کے بنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے رہیں جبکہ ان کے نام لیوا گر می و سردی کی سختیاں
برداشت کریں،اورتصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ شخصیات ہی ہوتی ہیں جو کایہ پلٹ دیتی
ہیں، شخصیات ہی ہوتی ہیں جو انقلاب آفریں بھی ہوتی ہیں اور انقلاب انگیز
بھی، شخصیات ہی ہوتی ہیں جو وقت کا رخ
بدلتی ہیں، طوفانوں سے ٹکراتی ہیں اور ناقۂ بےزِمام کو سوئے قطار لے جاتی ہیں، مگر آج میں جس شخصیت پر لکھنے جا رہا
ہوں وہ بجا طور پر ایک انقلاب آفریں
شخصیت ہیں،وہ فکر کو تازگی بھی دیتے ہیں اور عمل کا نمونہ بھی ہیں ، وہ سمع و بصر کو جنت کا رستہ بھی دکھاتے ہیں اور مَن کی دنیا کو اُجلا
بھی کرتے ہیں، وہ نظریات کی ایک نئی دنیا بھی دکھاتے ہیں اور عمل کا خوبصورت نقش
بھی سامنے لاتے ہیں، وہ استقامت و جہدِ مسلسل کے کوہِ گراں ہیں، وہ حکمت و دانائی کے
پیکر ہیں، وہ بندہ نواز بھی ہیں بندہ پروربھی اور علم و عمل کے نیر اعظم بھی، وہ
شریعت و طریقت کے جامع بھی ہیں اور محبت و
مودت کے مخزن بھی۔ اُن کی حیات میں کمالات و محاسن کا ایک پورا جہان ہے۔ اُن کی زندگی کا گلستان
متنوع اور رنگارنگ پھولوں سے مزین ہے۔ اُن
کی حیات کا ہر ہر ورق یقینِ محکم اور جُہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔اُن کا خاندان نہ کوئی سرکاری منصب رکھتا تھا نہ
رئیسانہ ٹھاٹ باٹ، نہ عالمانہ جاہ و جلال مگر آپ میں دین کی حکمرانی بھی ہے اور دین داری کا سچا
حسن و جمال بھی، جنہیں اپنا پیٹ بھی پالنا تھا گھروالوں کیلئے بھی کام کرنا تھا،
ان کی زندگی میں غربت کی آہیں بھی تھیں، مفلسی کی سسکیاں بھی تھیں ، ان سب چیزوں کے باوجود علما سے مراجعت اور
ذاتی شوق و لیاقت کی بنا پر آج وہ طریقت و شریعت کے آفتاب و ماہتاب ہیں۔ وہ امت کے
رہنما بھی ہیں،اوران کے سچے خیر خواہ بھی، جو حکمت و دانائی کے پیکر، عجز و انکسار
کے خوگر، تقویٰ و پرہیزگاری کے سنگم اور ملنساری و خودداری کی زندہ دلیل ہیں جو
منزل کی تلاش میں جادہ پیمائی کو نکلے تھے توخود ہی میرِ قافلہ بھی تھے اور اس
قافلے کے اکیلے مسافر بھی مگر آج ان کا کاروانِ رحمت دعوتِ اسلامی کی صورت میں
دنیا بھر میں دین کا پیغام عام کررہا ہے۔ اُن کی خدمتِ خلق، غم گساری و ہم دردی، رہ نمائی و
ہمت افزائی، مہربانی و سخاوت، رحمدلی و
نرمی، اکابر کی عظمت و اصاغر سے شفقت، خودداری و پامردی، پُرتاثیر مواعظ و نصائح
اور دیگر اخلاقِ عالیہ کا دورانیہ دعوتِ اسلامی کی ابتدا بلکہ اس سے بھی پہلے سے
لے کر اس کے ہر ہر لمحے، شہرِ کراچی کے چپے چپے بلکہ ملکِ پاکستان کے گوشے گوشے
میں پھیلا ہوا ہے۔ اُن کی خطابت میں عالمانہ نکات، فلسفیانہ گفتگو، فصیح و بلیغ عبارات، فی البدیہ
مقفی مسجع جملے نہ سہی مگر اُن کے سیدھے سادھے جملوں نے ہزاروں ، لاکھوں افراد کے
دلوں میں انقلاب برپا کر دیا اور انہیں سنتوں کی راہوں کا مسافر بنا دیا۔ اُن کے
تحریر بھی ایسی دلکش و دل پذیر ہوتی کہ قاری کا دل موہ لیتی اور اسے عمل پر آمادہ
کرتی ہے۔ اُن
کی شفقتیں اور عنایتیں ایسی ہیں کہ جو ایک بار ملتا ہے ایسا سرشار ہوتا ہے کہ
زندگی بھر کیلئے گرویدہ ہو جاتا ہے۔اُن کی راتیں بھی تبلیغِ دین کیلئے ہیں اور دن بھی تبلیغِ دین
کیلئے، اُن کی زندگی کا ایک ایک دن سنتوں کی خدمت میں گزرتا نظر آتا ہے۔ اُن کی ایک صدائے دل نواز نے
لاک ڈاؤن کے کٹھن ایام میں بلڈ کے امراض میں مبتلا حسرت و یاس کی تصویر بنے مریضوں
کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔ اُن کے چمنستانِ تربیت کی عطر بیز، رنگیں فضاؤں اور نشیلی
ہواؤں نے صرف دعوتِ اسلامی کے گلستان کو نہیں مہکایا بلکہ ہر طرف بادِ بہار کا
سماں باندھا ہے۔انہوں نے مسلمانوں کی پستیِ اخلاق، دنائتِ طبع، بغض و عناد، حسد
وکینہ، کذب و افترا، اختلاف و افتراق، بے حیائی و بےشرمی اور ان جیسی درجنوں برائیوں کے خلاف علمِ جہاد
بلند کیا اور اپنے دلنشیں اور من موہنے انداز میں سادہ و دلپذیر الفاظ کا سہارا لے
کر لوگوں کے قلوب میں اخلاقِ عالیہ کی عظمت، بزرگی اورفوائد کے ان مٹ نقوش مرتسم
کئے۔ آج جب دنیا بھر کا میڈیا و سوشل میڈیا مسلمانوں سے شرم و حیا کی دولتِ بے بہا چھین لینا چاہتا ہے تو اُس
مردِ کامل نے بے حیائی اور میوزک سے پاک خالص علمی و دینی چینل کا تحفہ امت کو
دیا۔
الغرض کون سے ایسے نیک اوصاف ہیں
جو ہمیں اپنے ممدوح کی شخصیت میں نظر نہیں آتے، دور اندیشی کا کوہِ گراں کہا جائے، عاجزی و انکساری کا پیکر کہا جائے یا جہدِ مسلسل
کا استعارہ قرار دیا جائے ، سادگی،عاجزی،تحمل،تدبر،تفکر،صبر،قناعت،مطانت،جراءت،ہمت،ذہانت،فطانت،فقاہت
علمیت،صداقت،حکمت،سخاوت،محبت،شفقت،رقت،عفو،درگزر،عیب پوشی،دلجوئی، غمخواری، خیرخواہی،دلجوئی،ہمدردی،حوصلہ
افزائی،خوش مزاجی،خوش اخلاقی،پرہیزگاری،تصلب فی الدین،تصلب فی المسلک، خوف خدا،حب
الٰہی،عشق رسول،الفت صحابہ،حب اہل بیت، عقیدتِ اسلاف،جذبۂ نیکی کی دعوت،فکر امت،شوق
مطالعہ،ذوق عبادت، وسعت نظری،اطاعتِ شریعت،اتباعِ سنت،اشاعت قرآن وسنت،فکررضا،ذکررضا،حب
رضا،ادب علماء،محبت صلحاء، اعلاء کلمۃالحق،احقاق حق، ابطال باطل،قیام مدارس و
مساجد،کثرت تصنیف و تالیف،شعر و سخن میں دلچسپی
اور اس کا صحیح استعمال، نورانیت، روحانیت
اور رضویت سمیت کئی ایسے اوصاف ہیں جن کو ملا کر اگر کسی شخصیت کا تصور باندھا
جائے تو ایک ہی شخصیت ذہن میں آتی ہے ۔
جنہیں
ہم شیخِ طریقت، امیر اہلسنت، پیرِطریقت،رہبرِ
شریعت، برہانِ شریعت، گنجینہ رموزِ شریعت، آفتاب ہدایت، منبع رشد وہدایت، واقفِ
اسرارِ حقیقت، آفتاب ولایت، منبعِ جود و سخا، کرامتِ غوثِ اعظم، ولیٔ کامِل، صوفیٔ
باصفا، پیکرِ علم و حیا، عالمِ ربانی، عارفِ صمدانی، عالی مرتبت،پروانۂ شمع
رسالت، یادگارِ اسلاف، نمونۂ اسلاف، بقیۃ السلف، عمدۃ الخلف، سرمایہ ملک و ملت، آفتابِ
علم و حکمت، مقبول عوام و خواص، مبلغِ فکر
رضا، پاسبانِ مسلک رضا، نباض قوم،امیر اہلسنت بانیِ دعوتِ اسلامی، الحاج ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت
برکاتہم القدسیہ کے نام سے جانتے ہیں۔ جو بانئ دعوت اسلامی ہیں،جو سلسلہ قادریہ کے
شیخ ہیں،جو دنیا میں مسلک اعلحضرت کی پہچان ہیں،جو رضویت کے پاسبان ہیں،جو ناموس
صحابہ واہل بیت کے علمبردار ہیں، اللہ کریم انہیں عافیتوں والی عمرخضری عطا فرمائے
آمین