اربعین ِعثمانی

Tue, 27 Jul , 2021
2 years ago

مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ،دامادِ رسول، اِمَامُ الْاَسْخِیَاء، پیکرِ شرم و حیا حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان پر مشتمل 40 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجموعہ بنام

اَربعیْنِ عثمانی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنط اَمَّا بَعْدُ!

فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط

اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک فرامین پڑھنا، سننا، یاد کرنا، انہیں دوسروں تک پہنچانا اور ممکنہ صورت میں ان پر عمل کرنا ایک مسلمان کے لئے دنیا و آخرت میں فلاح و نجات کا باعث ہے۔فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: نَضَّرَ اللَّہُ اِمْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیْثًا فَحَفِظَہٗ حَتّٰی یُبَلِّغَہٗ  یعنی اللہ پاک اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اور اسے یاد کر لیا یہاں تک کہ اسے (دوسروں تک) پہنچا دیا۔(ابوداؤد،3/450،حدیث:3660)

بالخصوص 40 حدیثیں یاد کرنے یا انہیں کسی بھی طرح مسلمانوں تک پہنچانے کی فضیلت کئی حدیثوں میں بیان کی گئی ہے۔ اس بارے میں 2 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ فرمائیے:

(1)مَنْ حَفِظَ عَلٰی اُمَّتِيْ اَرْبَعِيْنَ حَدِيْثًا يَنْفَعُهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَ بِهَا قِيْلَ لَهٗ اَدْخِلْ مِنْ اَيِّ اَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتَ یعنی جس شخص نے میری امت تک 40 ایسی حدیثیں پہنچائیں جن سے اللہ پاک نے میری امت کو فائدہ پہنچایا تو (قیامت کے دن)اس شخص سے کہا جائے گا:جنت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔ (حلیۃ الاولیا،4/210،حدیث:5280)

(2)مَا مِنْ مُسْلِم ٍيَحْفَظُ عَلٰى اُمَّتِىْ اَرْبَعِيْنَ حَدِيْثًا يُعَلِّمُهُمْ بِهَا اَمْرَ دِيْنِهِمْ اِلَّا جِيْءَ بِهٖ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقِيْلَ لَهٗ: اِشْفَعْ لِمَنْ شِئْتَ یعنی جو بھی مسلمان میری امت تک 40 ایسی حدیثیں پہنچائے جن کے ذریعے انہیں دین کے احکام سکھائے تو قیامت کے دن اسے لاکر کہا جائے گا:تم جس کی چاہو شفاعت کرلو۔(جامع بیان العلم و فضلہ،ص63)

اس مفہوم کی احادیث کے پیشِ نظر ہر دور میں اہلِ علم مختلف عنوانات پر 40 احادیثِ مبارکہ کے گلدستے سجا کر مسلمانوں تک پہنچاتے رہے۔ ان خوش نصیبوں کی صف میں خود کو شامل کرانے اور احادیث میں بیان کردہ فضائل پانے کے لئے راقمُ الحروف نے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب پر مشتمل ’’اربعینِ عثمانی‘‘مرتب کی ہے۔

اس مجموعے میں فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعراب لگانے اور بزرگانِ دین کی کتابوں سے شرح حدیث ذکر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔

تمام اسلامی بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس تالیف کاخود مطالعہ فرمائیں ، دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں اور اگر اس میں کسی بھی قسم کی شرعی، فنی، اعرابی یا ادبی غلطی پائیں تو راقم کو اس فون نمبر (03002505936) پرضرور مطلع فرمائیں تاکہ اگلی بار کام کے موقع پر درست کیا جاسکے۔

(1) لِكُلِّ نَبِيٍّ رَفِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَرَفِيقِي فِيهَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ یعنی جنت میں ہر نبی کا کوئی(خاص) ساتھی ہوتاہے اور میرے(خصوصی) جنتی ساتھی عثمان ہیں ۔ (ابن ماجہ،1 /78، حدیث:109)

شرح: اس حدیث میں حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے لئے رفاقتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو خوش خبری بیان کی گئی وہ مُطْلَق ہے اور دنیا و آخرت دونوں کو شامل ہے۔یہ فرمانِ عالی شان صحابۂ كرام علیہم الرضوان میں سے کسی اور کے لئے رَفاقت کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی علیہ السلام کے لئے کوئی خاص رفیق ہوتا ہے جبکہ رحمتِ عالَم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کئی خاص رُفقاء ہیں۔حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو خصوصاً ذکر کرنے میں آپ کے بلند و بالا مقام و مرتبے کے طرف اشارہ ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،10/432)

(2) حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے:میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہمراہ موجود تھا کہ ایک شخص نے حاضر ہوکر ہاتھ ملانے کا شرف حاصل کیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم        نے اپنا مبارک ہاتھ نہ کھینچا یہاں تک کہ اس شخص نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور پھر عرض گزار ہوا:یارسول اللہ!عثمان آرہے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِمْرُؤٌ مِّنْ اَهْلِ الْجَنَّةِ یعنی وہ ایک جنتی آدمی ہیں۔ (معجم اوسط،1/99،حدیث:300)

(3) عُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ یعنی عثمان جنتی ہیں۔(ابوداؤد،4/279،حدیث:4649)

شرح:یعنی سب سے پہلے جانے والوں کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔(فیض القدیر،4/399)

(4) حضرت سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: اللہ کے حبیب     صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھے باغ کے دروازے کی حفاظت کا حکم فرمایا۔ایک صاحب نے دروازے پر آکر حاضری کی اجازت طلب کی۔ارشاد فرمایا:انہیں آنے کی اجازت دو اور جنت کی خوش خبری بھی سنادو،یہ آنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ   تھے۔ اس کے بعد ایک اور صاحب نے اجازت طلب کی،ان سے متعلق بھی یہی ارشاد ہوا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی بشارت سناؤ،یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  تھے ۔ اس کے بعد تیسرے صاحب نے حاضری کی اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ تَوَقُّفْ کرنے کے بعد ارشاد فرمایا: اِئْذَنْ لَّهٗ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوٰى سَتُصِيبُهٗ یعنی انہیں آنے کی اجازت دو اور جنت کی خوش خبری بھی سناؤ ایک مصیبت کے ساتھ جو عنقریب انہیں پہنچے گی۔جب میں نے  حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ   کو یہ فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنایا  تو انہوں نے(جنت کی خوشخبری پر) حمدِ خداوندی  بجا لانے کے بعد فرمایا: (اس مصیبت پر صبر کرنے کے معاملے میں)اللہ مددگار ہے۔ (بخاری،2/529، حدیث: 3695،3693،لمعات التنقیح،9/648)

شرح :حضرت عثمانِ غنی ( رضی اللہ عنہ  )نے دونوں چیزوں پر خدا کا شکر کیا مگر بلا و فتنہ پر اللہ سے مدد مانگی کہ مجھے صبر کی توفیق ملے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/410)

(5) مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ یعنی جو تنگی والے لشکر(غزوۂ تبوک)کے لئے تیاری کا سامان مہیا کرے تو اس کے لئے جنت ہے۔ (یہ فرمانِ عالیشان سن کر) حضرت سیدنا عثمانِ غنی  رضی اللہ عنہ  نے لشکر کے لئے سامان پیش کیا۔ (بخاری،2/529)

(6) حضرت سيدنا عبدالله بن حوالہ رضی اللہ عنہ   كا بيان ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(غیبی خبر دیتے ہوئے )ارشاد فرمایا: ذَاتَ يَوْمٍ تَهْجُمُوْنَ عَلٰى رَجُلٍ مُعْتَجِرٍ بِبُرْدَةٍ يُبَايِعُ النَّاسَ مِنْ اَهْلِ الْجَنَّةِ یعنی ایک دن تم لوگ ایک ایسے جنتی شخص کے پاس داخل ہوگے جو سر پر چادر اوڑھے ہوئے لوگوں سے بیعت لے رہا ہوگا۔پھر جب (خلافتِ عثمانی کے آغاز کے موقع پر)میں حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ   کے پاس گیا تو وہ سر پر دھاری دار چادر اوڑھے ہوئے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے۔ (مستدرک،6 /77، حديث:4589)

(7) رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا:کیا جنت میں بجلی کی چمک ہو گی؟ارشاد فرمایا: نَعَمْ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهٖ اِنَّ عُثْمَانَ لَيَتَحَوَّلُ مِنْ مَنْزلٍ اِلٰى مَنْزِلٍ فَتَبْرُقُ لَهُ الْجَنَّةُ یعنی ہاں،اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!جب عثمان (جنت میں )ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوں گے تو جنت ان کے لئے بجلی کی طرح چمکے گی۔ (مستدرک،6/78،حديث:4590)

(8) الله کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے رُومہ نامی کنواں خرید کر مسلمانوں پر صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی تو حضرت سیدنا عثمانِ غنی  رضی اللہ عنہ   نے 400 دینارکے بدلے اس کنویں کو خریدا اور مسلمانوں پر صدقہ کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو اس بات کی خبر ملی تو آپ نے دعا فرمائی:اَللّٰهُمَّ اَوْجِبْ لَهُ الْجَنَّةَ یعنی اے اللہ !عثمان کے لئے جنت کو لازم فرمادے۔(الطبقات الکبری،1/392)

(9) شہزادیٔ رسول حضرت سيده امِ كلثوم رضی الله عنہا نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر سوال کیا:یارسول اللہ! کیا فاطمہ کے شوہر (علی المرتضیٰ)میرے شوہر (عثمانِ غنی)سے افضل ہیں؟سرکارِ دوعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ارشاد فرمایا: زَوْجُكِ يُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُوْلُهٗ وَيُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَاَزِيْدُكِ لَوْ قَدْ دَخَلْتِ الْجَنَّةَ فَرَاَيْتِ مَنْزِلَہٗ لَمْ تَريٰ اَحَدًا مِّنَ اَصْحَابِيْ يَعْلُوْهُ فِيْ مَنْزِلَتِهٖ یعنی تمہارے شوہر سے اللہ و رسول محبت فرماتے ہیں اور وہ اللہ و رسول سے محبت کرتے ہیں۔ایک بات مزید بتادوں،اگر تم جنت میں جاکر اپنے شوہر کا ٹھکانہ دیکھو تو میرے صحابہ میں سے کسی کا ٹھکانہ ان سے بلند و بالا نہیں دیکھو گی۔ (مجمع الزوائد، 9/100، حدیث:14532)

(10) لَيَدْخُلَنَّ بِشَفَاعَةِ عُثْمَانَ سَبْعُوْنَ اَلْفًا كُلُّهُمْ قَدْ اِسْتَوْجَبُواالنَّارَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ یعنی عثمان کی شفاعت کی بدولت 70 ہزار ایسے افراد جن پر دوزخ لازم ہوچکی ہوگی وہ بلاحساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔ (کنزالعمال،6 /269، جزء:11، حدیث:32806)

شرح:ان 70 ہزار افراد کا دوزخ میں داخلہ لازم ہوچکا ہوگا لیکن حضرت عثمانِ غنی   رضی اللہ عنہ   کے اِکرام(عزت و تعظیم) کے لئے اللہ پاک ان لوگوں سے متعلق آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا۔(التنویر،9/217)

(11)اَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ یعنی ميری امت میں سے سب سےسچے حیادار عثمان ہیں۔(ابن ماجہ،1/102،حديث:154)

شرح:حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ   اللہ پاک اور اس کی مخلوق سے بہت حیا فرمانے والے تھے یہاں تک کہ اپنی بیویوں سے اور تنہائی میں بھی شرم و حیا فرماتے تھے۔آپ کی اس شرم و حیا کی بدولت اللہ پاک کے فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے تھے۔حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ہے:اِنَّ الْحَيَاءَ مِنْ الْاِيمَانِ یعنی حیا ایمان سے ہے(بخاری،1/19،حدیث:24) تو گویا کہ مذکورہ بالا حدیث میں یہ فرمایا گیا کہ سب سے زیادہ ایمان والے عثمان ہیں۔ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا:اَلْحَيَاءُ لَا يَاْتِيْ اِلَّا بِخَيْرٍیعنی شرم و حیا صرف بھلائی ہی لاتی ہے۔(بخاری،4/131،حدیث:6117)تو گویا کہ اوپر والی حدیث میں یہ فرمایا گیا کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ  سے صرف خیر و بھلائی ہی ظاہر ہوتی ہے یا پھر آپ صرف خیر و بھلائی کا ہی ارتکاب فرماتے ہیں۔(فیض القدیر،1/588)

(12)مَرَّ بِيْ عُثْمَانُ وَعِنْدِيْ مَلَكٌ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ شَهِيْدٌ يَقْتُلُهٗ قَوْمُهٗ اِنَّا لَنَسْتَحْيِيْ مِنْهُ یعنی عثمان میرے پاس سے گزرے تو فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس موجود تھا۔اس فرشتے نے کہا:یہ شہید ہیں جنہیں ان کی قوم قتل کرے گی ،بے شک ہم (فرشتے) ان سے حیا کرتے ہیں ۔(معجم كبير، 5/159، حدیث:4939)

(13)ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حجرے میں اس طرح آرام فرمارہےتھے کہ مبارک رانیں یا پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں۔(اس دوران )حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حاضری کی اجازت مانگی تو انہیں اسی حالت میں اجازت د ی اور (ان سے)گفتگو فرمائی،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حاضری کا اِذن طلب کیا تو انہیں بھی اسی حالت میں اجازت دی اور (ان سے)گفتگو فرمائی۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حاضری کی اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور لباس مبارک کو درست فرمایا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر بات چیت کرتے رہے۔جب آپ چلے گئے تو میں نے عرض کی:حضراتِ ابوبکر و عمر آئے تو آپ نے کچھ تکلف نہیں فرمایا لیکن حضرت عثمان کی آمد پر آپ اٹھ بیٹھے اور لباس کو درست فرمایا(اس کا کیا سبب ہے؟)نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلَا اَسْتَحِيْ مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِيْ مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ یعنی کیا میں اس مرد سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔(مسلم،ص1004،حدیث:6209)

شرح :شیخِ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :سرکارِ دوعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے حیا کرنے سے مراد ان کی تعظیم و توقیر کرنا ہے۔(لمعات التنقیح،9/636)

امام ابنِ حجر ہیتمی مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس حدیثِ پاک میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی ایک عظیم فضیلت کا بیان ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کے نزدیک آپ کی کس قدر عظمت و منزلت ہے نیز یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شرم و حیاء ایک اچھی صفت ہے جو فرشتوں کی صفات میں سے ہے۔(فتح الالٰہ، 10/578)

امام بدرالدین محمود بن احمد عینی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سركارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد ہونے کی وجہ سے بھی اس بات کے زیادہ حقدار تھے کہ آپ سے حیا کی جائے کیونکہ انسان اپنے سسر کی نسبت داماد سے زیادہ حیا کرتا ہے۔(عمدۃ القاری،11/426)

(14) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مبارک بستر پرحضرت عائشہ صدیقہ کی چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حاضری کی اجازت چاہی۔سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حال میں انہیں اجازت دی اور وہ اپنی ضرورت پوری کرکے چلے گئے۔اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حاضری کا اذن مانگا تو انہیں اسی حال میں اجازت عطا فرمائی اور وہ بھی اپنی ضرورت مکمل کرکے چلےگئے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پھر میں نے حاضری کا اذن مانگا تو رحمتِ عالم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ بیٹھے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: اِجْمَعِي عَلَيْكِ ثِيَابَكِ یعنی اپنا لباس درست کرلو۔میں حاضرِ خدمت ہوکر اپنی ضرورت پوری کرکے چلا گیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض گزار ہوئیں: یا رسول اللہ!کیا وجہ ہے کہ آپ نے حضرات ِابوبکر و عمر کے لئے اس طرح اہتمام نہیں فرمایا جیسے حضرت عثمان کے لئے فرمایا۔سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَيِيٌّ وَاِِنِّيْ خَشِيْتُ اِنْ اَذِنْتُ لَهٗ عَلیٰ تِلْكَ الْحَالِ اَنْ لَّا يَبْلُغَ اِلَيَّ فِي حَاجَتِهٖ یعنی عثمان ایک شرمیلے مرد ہیں۔مجھے یہ اندیشہ تھا کہ اگر میں نے انہیں اسی حالت میں آنے کی اجازت دی تو وہ مجھ سے اپنی ضرورت بیان نہیں کرسکیں گے۔ (مسلم، ص1004، حدیث: 6209)

شرح:یعنی اگر ہم ان کے سامنے اسی بے تکلفی سے لیٹے رہے تو وہ اتنے شرمیلے ہیں کہ یہاں نہ بیٹھ سکیں گے ،نہ مجھ سے بات کرسکیں گے، نہ وہ عرض پوری کرسکیں گے جس کے لئے وہ یہاں آئے تھے۔(مراٰۃ المناجیح،8/393)

(15) عُثْمَانُ رَجُلٌ ذُوْ حَيَاءٍ سَاَلْتُ رَبِّيْ اَنْ لَّا يُوْقِفَه ٗ لِلْحِسَابِ فَشَفَّعَنِيْ یعنی عثمان ایک شرمیلے مردہیں۔میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ انہیں حساب لینے کے لئے کھڑا نہ کرے تو اس نے میری شفاعت قبول فرمالی۔ (تاریخ دمشق،39/97)

(16)عُثْمَانُ اَحْیَا اُمَّتِيْ وَاَكْرَمُهَا یعنی عثمان میری امت میں سے سب سے زیادہ باحیا اور سخی ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء،1/93،حدیث:157)

شرح:امت سے مراد وہ افراد ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں موجود تھے یا پھر قیامت تک دنیا میں آنے والے مسلمان مراد ہیں۔ (التنویر،7/204)

امام محمد عبدالرؤف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :شرم و حیا ایک ایسا وصف ہے جس سے دیگر خوبیاں جنم لیتی ہیں۔منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرنے کے بعد حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے اپنا سیدھا ہاتھ کبھی شرم گاہ پر نہیں لگایا،اسلام لانے کے بعد سے آپ ہر جمعہ کوایک غلام آزاد فرماتے ،آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی مجموعی تعداد تقریباً 2400ہے۔آپ نے اسلام لانے سے پہلے اور بعد کبھی چوری یا زنا کا اِرتکاب نہ کیااور سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں حفظِ قراٰن کا اعزاز پایا۔ (فیض القدیر،4/399)

(17)اَلسَّخَاءُ شَجَرَةٌ فِى الْجَنَّةِ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ غُصْنٌ مِّنْ اَغْصَانِهَا یعنی سخاوت ایک جنّتی درخت ہےاورعثمان بن عفان اُس کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہیں۔ (کنز العمال،جز :11، 6/273،حدیث: 32849)

(18)حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ يَّبْتَاعُ مِرْبَدَ بَنِيْ فُلَان ٍغَفَرَ اللهُ لَهٗ یعنی جو فلاں لوگوں کی مِرْبدَ (وہ زمین جس میں کھجوریں سکھائی جاتی ہیں)خرید لے ،اللہ پاک اس کی مغفرت فرمائے۔ میں نے وہ زمین 20 ہزار یا 25 ہزار میں خرید لی۔جب میں نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اس بات کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِجْعَلْهُ فِيْ مَسْجِدِنَا وَاَجْرُهٗ لَكَ یعنی اس زمین کو ہماری مسجد میں شامل کردو،اس کا ثواب تمہیں ملے گا۔(نسائی،ص518، حدیث :3179)

(19)سركارِ نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کو غزوۂ تبوک کے لئے(راہِ خدا میں ) خرچ کرنے کی ترغیب دلارہے تھے کہ حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر عرض گزار ہوئے: یارسول اللہ! ایک سو اونٹ تمام ضروری سامان کے ہمراہ اللہ کی راہ میں دینے کی میں ذمہ داری لیتا ہوں۔حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دوبارہ ترغیب دلائی تو آپ نے 200اونٹ اور تیسری بار ترغیب دلانے پر 300 اونٹ تمام ضروری سامان سمیت پیش کرنے کی نیت فرمائی۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے ہوئے منبر شریف سے نیچے تشریف لے آئے: مَا عَلٰى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهٖ مَا عَلٰى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهٖ یعنی اس کے بعد عثمان جو کچھ کرے اس پر مُؤَاخذہ نہیں،اس کے بعد عثمان جو کچھ کرے اس پر مُؤَاخذہ نہیں۔ (ترمذی، 5/391، حديث:3720)

شرح:یعنی یہ نیکی کرنے کے بعد ان کے کسی عمل پر انہیں گناہ نہیں ملے گا،مراد یہ ہے کہ ان کا یہ عمل ان کی تمام خطاؤں کے لئے کفارہ بن گیا ہے۔یہ فرمانِ عالیشان ایسے ہی ہے جیسے اہلِ بدر سے متعلق فرمایا گیا: لَعَلَّ اللَّهَ اِطَّلَعَ عَلٰى اَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْیعنی بے شک اللہ پاک نے اہلِ بدر کی طرف خصوصی توجہ كركے ارشاد فرمایا:تم جو چاہے کرو،تحقیق میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔(مسلم،ص1040،حدیث:6401،لمعات التنقیح،9/638)

حضورِ انور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے تین بار چندہ کی اپیل کی ۔ہر بار میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)نے سو، دو سو، تین سو اونٹ کا مع سامان کے اعلان کیا ، کسی کو بولنے کا موقع ہی نہ دیا،چھ سو اونٹ مع سامان کا بھی اعلان کیا اور ایک ہزار اشرفیوں کا بھی جیساکہ دوسری روایات میں ہے۔خیال رہے کہ یہ تو ان کا اعلان تھا مگر حاضر کرنے کے وقت 950 اونٹ، پچاس گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں پیش کیں، پھر بعد میں دس ہزار اشرفیاں اور پیش کیں ۔ (مراٰۃ المناجیح،8/395)

(20) غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار(سونے کی اشرفیاں)اپنی آستین میں لائے اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں ڈال دیں۔سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اشرفیوں کو الٹ پلٹ کر ملاحظہ فرمانے لگے اور پھر دو مرتبہ ارشاد فرمایا: مَاضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ یعنی آج کے بعد عثمان جو بھی کریں ان کا کوئی عمل انہیں نقصان نہ دے گا۔ (ترمذی، 5/392، حديث:3721)

شرح:اس فرمان عالی میں حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)کو تین بشارتیں دی گئیں: ایک یہ کہ ان کے سارے گذشتہ گناہ اور خطائیں معاف ہوگئیں ،ان کا آج کا یہ عمل ان کا کفارہ بن گیا۔دوسرے یہ(کہ) آئندہ وہ گناہوں سے محفوظ رہیں گے۔ تیسرے یہ کہ ان کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ (مراٰۃ المناجیح،8/396)

(21)حضرت سيدنا ابومسعود رضی الله عنہ كا بيان ہے:ہم ایک جہاد کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ موجود تھے کہ لوگوں کو کھانے پینے کے سامان کی کمی کا سامنا ہوا یہاں تک کہ میں نے مسلمانوں کے چہرے پر غم جبکہ منافقین کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ معاملہ ملاحظہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: وَاللهِ لاَ تَغِيْبُ الشَّمْسُ حَتّٰى يَاتِيَكُمُ اللهُ بِرِزْقٍ یعنی اللہ پاک کی قسم!سورج غروب ہونے سے پہلے اللہ کریم تمہیں رزق عطا فرمادے گا۔(یہ سن کر) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو یقین ہوگیا کہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خبر کو پورا کردیں گے،چنانچہ آپ نے کھانے کے سامنے سے لدے ہوئے 14اونٹ خریدے اور ان میں سے 9 بارگاہِ رسالت میں پہنچادیے۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو عرض کیا گیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں یہ تحفہ بھیجا ہے۔ اس موقع پر مسلمانوں کے چہرے پر خوشی جبکہ منافقین کے چہرے پر غم کے آثار نمایاں ہوئے اور میں نے سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے دونوں مبارک ہاتھ اس طرح اٹھارکھے ہیں کہ بغلوں کی سفیدی دیکھی جاسکتی ہے اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے لئے ایسی دعا فرمارہے ہیں کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد میں نے آپ کو کسی کے لئے ایسی دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ (معجم اوسط،5/258، حدیث:7255)

(22) حضرت سيدنا ابوہريره رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں(پردے کے احکام نازل ہونے سے پہلے) شہزادیٔ رسول ،زوجۂ عثمانِ غنی حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا تو ان کے ہاتھ میں کنگھی تھی۔ فرمانے لگیں:ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس سے تشریف لے گئے۔ میں نے سرِ انور میں کنگھی کی ،(اس دوران)آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: كَيْفَ تَجِدِيْنَ اَبَا عَبْدِ اللهتم ابو عبداللہ (یعنی عثمانِ غنی)کو کیسا پاتی ہو؟میں نے عرض کی:اچھا پاتی ہوں۔ارشاد فرمایا: اَكْرِمِيْهِ فَاِنَّهٗ مِنْ اَشْبَهِ اَصْحَابِيْ بِيْ خُلُقاً یعنی ان کی عزت کرو کیونکہ وہ میرے ان صحابہ میں سے ہیں جن کی سیرت میری سیرت سے مُشابہ (یعنی ملتی جلتی)ہے۔ (مستدرك،8/414، حديث:7027 )

(23) حضرت سيدنا عثمانِ غنی رضی ا للہ عنہ اپنی زوجہ ،شہزادیٔ رسول حضرت رقیہ رضی اللہ عنہاکے ہمراہ جب ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تو کچھ عرصے تک ان دونوں کی کوئی خبر نہ آئی ۔رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لاکر ان کے بارے میں کسی خبر سے متعلق دریافت فرماتے تھے۔ایک دن ایک عورت نے آکر ان کی خبر پہنچائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ عُثْمَانَ اَوَّلُ مَنْ هَاجَرَ اِلَى اللهِ بِاَهْلِهٖ بَعْدَ لُوْطٍ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کے بعد عثمان وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ اللہ پاک کی طرف ہجرت کی۔(معجم كبير،1/90،حدیث:143)

شرح:اسلام کے ابتدائی دور میں جب مشرکین کے مظالم دن بدن بڑھنے لگے تو رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا:حبشہ میں ایک ایسا بادشاہ موجود ہے جس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا ۔اگر تم وہاں چلے جاؤ تو اللہ پاک تمہارے لئے کشادگی فرمادے گا۔اس فرمانِ عالیشان پر مسلمانوں نے دو مرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کی جس میں سے پہلی ہجرت اعلانِ نبوت کے 5ویں سال رجب کے مہینے میں ہوئی ۔پہلی بار ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک قول کے مطابق 15 تھی جن میں سے 11مرد اور 4عورتیں تھیں۔یہ حضرات پیدل سمندر تک گئے اور پھر وہاں سے آدھے دینار پر کشتی کرائے پر لے کر حبشہ پہنچے۔اس ہجرت کے لئے پہل کرنے والے حضرت عثمانِ غنی اور آپ کی زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہما تھے۔اس ہجرت کے بعد کچھ عرصے تک ان حضرات کی کوئی خیر خبر موصول نہ ہوئی یہاں تک کہ ایک عورت نے حاضر ہوکر بارگاہِ رسالت میں عرض کیا:میں نے ان دونوں کو اس حال میں دیکھا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ کو سواری پر بٹھا کر کہیں لے جارہے تھے۔(فتح الباری،8/161)

(24) حضرت سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے:حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے غزوۂ بدر سے غیر حاضری کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی ان کی زوجیت میں تھیں اور وہ بیمار تھیں۔نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: اِنَّ لَكَ اَجْرَ رَجُلٍ مِّمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهٗ یعنی تمہیں غزوۂ بدر میں شریک ہونے والوں کے برابر ثواب بھی ملے گا اور مالِ غنیمت میں سے حصہ بھی۔ (بخاری،2/352،حديث:3130)

شرح:حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ (رضی اللہ عنہا) حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجیت میں تھیں اور غزوۂ بدر کے موقع پر سخت علیل اور جاں بلب تھیں حتی کہ اسی اثناء میں وصال فرماگئیں۔ان کی تیمار داری کے لئے حضرت عثمان کو حکم ہوا کہ گھر ہی رہو،تم کو غزوے میں شرکت کا ثواب بھی ملے گااور مالِ غنیمت سے حصہ بھی۔حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب بدر سے مدینۂ طیبہ واپس ہوئے تو وہ دفن بھی ہوچکی تھیں،فتح کی بشارت لے کر جب زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ مدینۂ طیبہ پہنچے تو دفنائی جارہی تھیں۔جس صبح کو ان کا وصال ہوا اسی دن حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلممدینۂ طیبہ پہنچے۔(نزہۃ القاری،4/233)

(25) غزوۂ بدر کے دن رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا: اِنَّ عُثْمَانَ اِنْطَلَقَ فِيْ حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةِ رَسُولِ اللَّهِ وَاِنِّيْ اُبَايِعُ لَهٗ یعنی عثمان اللہ کے کام اور اس کے رسول کے کام کے لئے گئے ہیں،ان کی طرف سے میں بیعت کرتا ہوں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت میں ان کے لئے حصہ مقرر فرمایا اور ان کے علاوہ کسی اور غیر حاضر شخص کا حصہ مقرر نہیں فرمایا۔ (ابوداؤد،3/98،حديث:2726)

شرح:یہ فرمانِ عالی بدر کی غنیمت تقسیم فرماتے وقت کا ہے۔خیال رہے کہ جنابِ رقیہ(رضی اللہ عنہا) کی تیمارداری حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت تھی مگر اس کو اﷲ رسول کا کام فرمایا گیا۔معلوم ہوا کہ حضور کی فرمانبرداری رب تعالی کی اطاعت ہے۔(اس موقع پر) حضور ِانور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا بایاں(Left) ہاتھ اٹھایا اور فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اپنے داہنے(Right) ہاتھ کو فرمایا کہ یہ ہمارا ہاتھ ہے اور خود ہی حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) کی طرف سے بیعت کی۔ اس بیعتِ عثمان کا واقعہ دوبار ہوا:ایک تو غزوۂ بدر میں، دوسرے بیعتُ الرضوان میں مقامِ حدیبیہ میں، یہ ہے حضرت عثمان کی شان رضی اللہ عنہ۔

دستِ حبیبِ خدا جو کہ یَدُ اﷲ تھا

ہاتھ بنا آپ کا ،آپ وہ ذی شان ہیں

(مراٰۃ المناجیح،5/601)

(26) مَا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ اُمَّ كُلْثُوْمٍ اِلَّا بِوَحْيٍ مِّنَ السَّماءِ یعنی میں نے عثمان کا ام کلثوم سے نکاح آسمان سے آنے والی وحی(یعنی اللہ پاک کے حکم)کی وجہ سے کیا ہے۔(معجم اوسط،4/77،حدیث:5269)

(27) يَا عُثْمَانُ هَذَا جِبْرِيلُ أَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ قَدْ زَوَّجَكَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِمِثْلِ صَدَاقِ رُقَيَّةَ عَلَى مِثْلِ صُحْبَتِهَایعنی اے عثمان!یہ جبریل ہیں جنہوں نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ اللہ پاک نے تمہارا نکاح رقیہ کے مہر جتنے مہر پر امِ کلثوم سے فرمادیا ہے اور ان کے ساتھ بھی ویسا ہی حسنِ سلوک لازم ہوگا ۔(ابن ماجہ،1/79،حدیث:110)

شرح:ظاہر یہ ہے کہ خود اللہ پاک نے یہ نکاح فرمادیا جیسا کہ ازواجِ مطہرات کا معاملہ ہے ،مثلاً ام المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا ترجمۂ کنزالعرفان: پھر جب زید نے اس سے حاجت پوری کرلی تو ہم نے آپ کا اس کے ساتھ نکاح کردیا۔(پ22،احزاب:37،حاشیۃ سندی علی ابن ماجہ،1/79)

(28) حضرت سيدنا عثمانِ غنی رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی دوسری شہزادی(حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا ) کو میرے نکاح میں دیتے وقت ارشاد فرمایا:لَوْ اَنَّ عِنْدِيْ عَشْرًا لَزَوَّجْتُكَهُنَّ وَاحِدَةً بَعْدَ وَاحِدَةٍ فَاِنِّيْ عَنْكَ لَرَا ض ٍ یعنی ا گر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے وہ سب تمہارے نکاح میں دے دیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں۔ (معجم اوسط،4/322،حدیث:6116)

(29)حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں موجود رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہزادی(حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا)کے وصال کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا:زَوِّجُوْا عُثْمَانَ لَوْ كَانَ لِيْ ثَالِثَةٌ لَزَوَّجْتُهٗ وَ مَا زَوَّجْتُهٗ اِلَّا بِالْوَحْيِ مِنَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ یعنی عثمان کا نکاح کرواؤ۔اگر میری کوئی تیسری (غیر شادی شدہ)بیٹی موجود ہوتی تو میں (اس سے)عثمان کا نکاح کروادیتا اور میں نے عثمان کا (اپنی 2 بیٹیوں سے)نکاح صرف اللہ پاک کے حکم سے کروایا تھا۔ (معجم کبیر،17/184،حدیث:490)

(30) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :(مجھے وہ وقت یاد ہے جب)اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مبارک پیٹھ کے ساتھ مجھ سے ٹیک لگاکر تشریف فرماتھے اورحضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ حاضرِ خدمت تھے۔ جبریلِ امین علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن نازل کررہے تھے اور آپ حضرت عثمان سے ارشاد فرمارہے تھے: اُكْتُبْ يَا عُثَيْم یعنی اے عثمان! لکھو۔ اللہ پاک نے آپ کو یہ مقام و مرتبہ اس لئے عطا فرمایا کیونکہ آپ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں عزت والے تھے۔(مسند احمد،10/101،حدیث:26190)

شرح :سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو’’ يَا عُثَيْم ‘‘ کہہ کر پکارنا محبت اور شفقت کے طور پر تھا۔اس روایت سے بارگاہِ رسالت میں آپ کا مقام و مرتبہ ظاہر ہوتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کاتِبینِ وحی میں سے ہیں۔(زرقانی علی المواہب،4/541)

(31) اَللّٰهُمَّ قَدْ رَضِيْتُ عَنْ عُثْمَانَ فَارْضَ عَنَهْ یعنی اے اللہ!میں عثمان سے راضی ہوں،تُو بھی اس سے راضی ہوجا۔(تاریخِ دمشق،39/53)

(32) الله كے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا: لِيَنْهَضْ كُلُّ رَجُلٍ مِّنْكُمْ اِلٰى كُفْوِهٖ یعنی تم میں سے ہر شخص اٹھ کر اپنے ہم پَلَّہ کے پاس چلا جائے۔یہ فرماکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور ا نہیں گلے لگاکر ارشاد فرمایا: اَنْتَ وَلِيِّيْ فِي الدُّنْيَاوَالْآخِرَةِ یعنی تم دنیا وآخرت میں میرےدوست ہو۔ (مستدرک،6/75، حديث:4586)

(33)اِنِّيْ سَاَلْتُ عُثْمَانَ حَاجَةً سِرًّا فَقَضَاهَا سِرًّا فَسَاَلْتُ اللهَ اَنْ لَّا يُحَاسِبَ عُثْمَانَ یعنی میں نے پوشیدہ طور پر عثمان سے ایک ضرورت کا ذکر کیا تو انہوں نے خفیہ طور پر اسے پورا کردیا ، اس پر میں نے اللہ پاک سے دعا فرمائی کہ وہ عثمان سے حساب و کتاب نہ لے۔ (مرقاۃ المفاتیح،10/432،الریاض النضرہ،2/31)

(34) يَا عُثْمَانُ اِنَّهٗ لَعَلَّ اللَّهَ يُقَمِّصُكَ قَمِيصًا فَاِنْ اَرَادُوْكَ عَلٰى خَلْعِهٖ

فَلَا تَخْلَعْهُ لَهُمْ یعنی اے عثمان! اللّٰہ پاک تمہیں ایک قمیص پہنائے گا، اگر لوگ تم سے وہ قمیص اُتارنا چاہیں تو تم ان کی وجہ سے اُسے مت اتارنا۔ (ترمذی،5/394،حدیث:3725)

شرح:یعنی اللّٰہ تعالٰی آپ کو خِلافت عطا فرمائے گا۔ لوگ تم کو معزول کرنا چاہیں گے، تم ان کے کہنے سے خلافت سے دَسْت بَرْدَار نہ ہونا کیونکہ تم حق پر ہوگے وہ باطل پر۔(مراٰۃ المناجیح،8/402)جب باغیوں نے حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ سے خلافت سے دست برداری کا مطالبہ کیا تو اسی فرمانِ عالی شان کے پیشِ نظر آپ نے دست برداری سے انکار فرمادیا۔(مرقاۃ المفاتیح،10/442)

یعنی عثمان صاحبِ قمیصِ ہُدیٰ

حُلّہ پوشِ شہادت پہ لاکھوں سلام

(حدائقِ بخشش،ص312)

(35)سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرضِ وصال میں ارشاد فرمایا: وَدِدْتُ اَنَّ عِنْدِيْ بَعْضَ اَصْحَابِيْ یعنی میں چاہتا ہے کہ میرے صحابہ میں سے کوئی میرے پاس ہو۔حاضرین نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلانے کے بارے میں پوچھا تو آپ خاموش رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق دریافت کیا تو بھی آپ نے سُکوت فرمایا۔تیسری بار عرض کی گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو آپ کے پاس بُلالائیں ۔ارشاد فرمایا:ہاں۔چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حاضرِ خدمت ہوکر خدمتِ اقدس میں تنہا بیٹھ گئے۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ گفتگو فرمائی جسے سن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔جب(خلافت کے آخری دنوں میں) باغیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے مکانِ عالیشان کا محاصرہ کرلیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا اور میں اس پر صبر کروں گا۔(ابن ماجہ،1 /80، حدیث:113)

شرح:یعنی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ اگر لوگ تمہیں خلافت سے دست بردار کرانے کی کوشش کریں تو ان کی بات مت ماننا یا پھر یہ وصیت فرمائی تھی کہ میں صبر کروں اور (محاصرہ کرنے والوں سے)لڑائی نہ کروں۔ (لمعات التنقیح،9/644)

(36) حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک فتنے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق ارشاد فرمایا: يُقْتَلُ فِيهَا هَذَا مَظْلُومًا یعنی اس فتنے کے دوران انہیں مظلومیت کی حالت میں شہید کردیا جائے گا۔(ترمذی،5/395،حدیث:3728)

(37) حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:تم میرے بعد اختلاف اور فتنہ دیکھو گے۔ایک شخص نے عرض کی:یا رسول اللہ!آپ ہمیں اس وقت کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:عَلَيْكُمْ بِالْاَمِيْرِ وَاَصْحَابِهٖیعنی (مسلمانوں کے)امیر اور ان کے رفقاء کو لازم پکڑ لینا۔(مشکوٰۃ المصابیح،2/426،حدیث:6082)

شرح: یعنی اس وقت حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) خلیفۂ برحق ہوں گے، ان کے ساتھی حق پر ہوں گے۔ تم سب کو امان عثمان کے دامن میں ملے گی۔(مراٰۃ المناجیح، 8/408)

(38) حضرت سيدنا مُرَّہ بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ فتنوں کا ذکر فرمایا اور ان فتنوں کو بہت قریب بتایا ۔اتنے میں ایک صاحب چادر اوڑھے ہوئے وہاں سے گزرے۔سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:هٰذَا يَوْمَئِذٍ عَلَى الْهُدىٰیعنی اس دن یہ شخص ہدايت پر ہوگا۔میں نے اٹھ کر دیکھاتو وہ صاحب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔میں نے ان کا چہرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کرکے پوچھا:آپ ان کے بارے میں فرمارہے ہیں؟ ارشاد فرمایا:نَعَمْ یعنی ہاں۔ (ترمذی، 5/393، حديث:3724)

شرح :یہاں فتنوں سے مراد وہ جنگ و جِدال ہیں جو حضور ِ انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے (وصالِ ظاہری کے)بعد مسلمانوں میں ہونے والے تھے۔(مراٰۃ المناجیح،8/401)

(39) سرکارِ دوعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضراتِ ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے ہمراہ اُحُد پہاڑ پر قدم رَنجہ فرمایا تو پہاڑ ہلنے لگا۔ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک پاؤں سے ٹھوکر مار کر پہاڑ سے ارشاد فرمایا:اُثْبُتْ اُحُدُ فَاِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَ شَهِيدَانِ یعنی اےاُحُد!ساکن ہوجا!تجھ پرایک نبی،ایک صدیق اور دوشہید موجودہیں۔(بخاری،2/524،حدیث: 3675،ابوداؤد، 4/280، حدیث:4651 )

شرح: یہ حضرات یا تو احد پہاڑ اور وہاں پر شہداء کے مزارات کی زیارت کرنے تشریف لے گئے تھے یا ویسے ہی سیر و سیاحت کے لیے چڑھے تھے،پہاڑ خوشی میں وَجد کرنے اور ہلنے لگا کہ آج مجھ پر ایسے قدم آئے۔معلوم ہوا کہ اللہ کے مقبول بندے ولی ساری خَلْقَت کے محبوب ہوتے ہیں، ان کی تشریف آوری سے سب خوشیاں مناتے ہیں، انہیں پتھر اور پہاڑ بھی جانتے ہیں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کے انجام سے خبردار ہیں کہ فرمایا :ان میں سے دو صحابہ شہید ہو کر وفات پا جائیں گے۔ (مِراٰۃ المناجیح، ج8،ص408 )

امام ابنِ مُلَقِّن رحمة الله عليه فرماتے ہیں: اس حدیث سے ان حضرات کی فضیلت ظاہر ہے۔(التوضیح لشرح الجامع الصحیح،20/272)

شِہَابُ الْمِلَّۃِ وَ الدِّین اما م احمد بن محمد خَفَاجی مصری حنفی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:اُحُد پہاڑ کا ہلنا یا تو اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیبت اور اللہ پاک کے خوف کے سبب تھا یا پھر اتفاق سے ان حضرات کی تشریف آوری کے وقت زلزلہ آگیا تھا جس کی وجہ سے پہاڑ ہلنے لگا۔سرکارِ دوعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑ کو ساکن رہنے اور حرکت نہ کرنے کا حکم فرمایا ۔اللہ پاک نے پہاڑ میں سمجھ بوجھ اور زندگی پیدا فرمائی تھی کیونکہ پہاڑ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم سنا بھی اور اس کی تعمیل بھی کی۔(نسیم الریاض،4/36)

امام ابن حجر مکی ہیتمی شافعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :اُحُد پہاڑ کا ہلنا فخر کی وجہ سے تھا (کہ مجھ پر کن عظیم ہستیوں کے قدم پڑے ہیں)۔(فتح الالہ،10/584)

ایک ٹھوکر میں اُحُد کا زَلزلہ جاتا رہا

رکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں

(حدائقِ بخشش،ص87)

(40) رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا لیکن آپ نے اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں فرمائی۔صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی :یا رسول اللہ!ہم نے اس سے پہلے نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کی نمازِ جنازہ ترک فرمائی ہو۔ ارشاد فرمایا:اِنَّهٗ كَانَ يُبْغِضُ عُثْمَانَ فَاَبْغَضَهُ اللَّهُ یعنی یہ شخص عثمانِ غنی سے دشمنی رکھتا تھا تو اللہ پاک بھی اس سے دشمنی رکھتا ہے۔ (ترمذی، 5/396، حدیث:3729)

شرح:حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میت پر نمازِ جنازہ ادا کرنا میت کےلئے دعا اور شفاعت پر مشتمل ہوتا ہے اور وہ شخص (اپنے اس گناہ کے باعث)اس سعادت سے محروم رہا،اللہ پاک کی پناہ۔اس حدیث شریف میں یہ ذکر نہیں ہے کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسروں کو بھی اس شخص کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے منع فرمادیا،ممکن ہے کہ آپ نے خود اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھی ہو اور دوسرے حضرات نے پڑھ لی ہو جیسا کہ ایک مقروض شخص کے بارے میں منقول ہے۔(نسیم الریاض،4/525)

اللہ کریم’’اربعینِ عثمانی‘‘کو قبول فرمائے ، اسے مُؤَلِّف اور اس کے والدین و اہلِ خانہ کے لئے مغفرت کا سبب بنائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

رُک جائیں مرے کام حسنؔ ہو نہیں سکتا

فیضان مددگار ہے عثمانِ غنی کا

(ذوقِ نعت،ص81)