الوداع ماہِ رمضان

Thu, 6 May , 2021
3 years ago

الوداع ماہِ رمضان

از: محمد کاشف سلیم عطاری مدنی

رائٹراسلامک ریسرچ سینٹردعوتِ اسلامی( المدینۃ العلمیہ )

رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو الوداعی خطبہ پڑھا جاتا ہے جو اسلامی نقطۂ نظر سے نہ صرف جائز بلکہ اچھا کام ہے لہذا اگر کوئی ضروری نہ سمجھتے ہوئے اسےپڑھتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کی بدولت لوگو ں کو خاص رقت والی کیفیت حاصل ہوتی ہے اور لوگ روتے آنسو بہاتے ہیں اور ان میں بڑی تعداد اپنےگنا ہوں پر نادم ہوکر توبہ کرتی ہے ۔

اگرچہ اس خطبہ کا ثبوت نبی پاکصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اور صحابہ وتابعین رضوانُ اللہ علیہم اجمعین کے مقدس دور سے نہیں ملتا پھر بھی شریعت کی نظر میں یہ ایک اچھا کام ہے کیونکہ یہ عمل شریعت کے کسی قانون کے خلاف نہیں نیز اس کے اغراض ومقاصد میں لوگوں کی اصلاح کا عظیم مقصد بھی موجود ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْءٌ ([1]) یعنی جس شخص نےاسلام میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا پھر بعد میں اس طریقے کو اپنایا گیاتو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس نیک کام جاری کرنے والےکے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔

الوداعی اشعار کے جائز ونیک عمل ہونے پر چنددلائل

(1) جب کسی چیز کے کرنے یااس سے رکنے کے بارے میں کوئی دلیل نہ ہو تو علماء وفقہائے کرام کی بہت بڑی تعداد کا نظریہ یہ ہے کہ ایسی چیز جائز ہوتی ہے۔([2])

(2)اللہ پاک کا فرمان ہے: ترجمۂ کنز الایمان: اور بھلے کام کرو اس اُمید پر کہ تمہیں چھٹکارا ہو۔17،الحج:77) تو یہ اشعار پڑھنا بھی یقیناً بھلائی اور نیکی کا کام ہے کیونکہ ان کو پڑھ کر اور سن کر ایک خاص رقت حاصل ہوتی ہے اور دل نرم پڑتا ہے جس کے نتیجے میں انسان گناہوں سے توبہ کرتا اور نیکیوں کی طرف بڑھتا ہے جوکہ نیک کام ہے۔

(3)یہ اشعار عموماًوعظ ونصیحت پر بھی مشتمل ہوتےہیں اور وعظ ونصیحت کا حکم تو خود قرآنِ پاک میں موجود ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجَمۂ کنز الایمان : تو تم نصیحت فرماؤ اگر نصیحت کام دے ۔30،الاعلی :9)

(4) بے شک یہ مقدس مہینا اللہ پاک کی نشانیوں میں سے ہے۔ ([3]) اور اللہ پاک کی نشانیوں کی تعظیم اور ان کا احترام دل کی پرہیزگاری کی دلیل ہے جیساکہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوا:ترجَمۂ کنز الایمان: اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔ 17، الحج:32) اور الوداع کے ذریعے رمضان المبارک کی تعظیم اور احترام دلوں میں بڑھتا ہے ۔

(۵) نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے شعبان المعظم کے آخر میں استقبالِ رمضان کا خطبہ پڑھنا ، اس کی آمد کی خوشخبری دینا اور اس کی عظمت بیان فرمانا ثابت ہے([4]) اور جب یہ سب نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ثابت ہے تو اس کے جانے پر حسرت وافسوس کرنا اور الوداعی اشعار کے منع ہونے کی کوئی دلیل نہیں، اسی طرح آمدِ رمضان اور رخصتِ رمضان دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد(opposite) ہیں تو جس طرح اس کے آنے پر خوش ہونا اور اس کا استقبال کرنا شریعت کو پسند ہے اسی طرح اس کے جانے پر حسرت وندامت ظاہر کرنا بھی شریعتِ مطہرہ کو پسند ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے استقبالِ رمضان کے مبارک عمل نے گویا الوداع کے جائز ہونے کی طرف رہنمائی فرمادی۔

(۶) علمائے اہلسنّت کی بڑی تعدادکا رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو الوداع پڑھنا اس کے جائز ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ روایتوں میں ہے: مَا رَأَى الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللهِ حَسَنٌ ([5]) جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ پاک کے یہاں بھی اچھا ہے ۔

کئی سو برس پہلے کے جیدعلمائے کرام رحمہم اللہ سے الوداعی خطبہ کا ثبوت

(7) علامہ ابوالفرج عبد الرحمن ابن جوزی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات597ھ) نے ’’وداعِ رمضان‘‘ کے نام سے پورا رسالہ(Booklet) تحریر فرمایا ہے ۔

(8) علامہ حافظ ابن رجب حنبلی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات795ھ)نے اپنی کتاب ’’لطائف المعارف‘‘([6]) میں پورا ایک باب(Chapter) ’’وداعِ رمضان ‘‘کے نام سےقائم فرمایا ہے۔

(9) علامہ ابن حجر مکی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات974ھ)نے"اَلنُّخَبُ الْجَلِیْلةُ فِی الْخُطَبِ الْجَزِیْلَة"([7]) نام سے ایک کتاب لکھی جس میں رمضان المبارک کو ان الفاظ سے الوداع فرمایا ہے:: اے روزوں، تراویح، نوافل اور روشنیوں کے مہینے تجھ پر سلام ہو، ہم تجھے الوداع کہتے ہیں۔

الوداعی خطبہ سے متعلق بعض وسوسے اور ان کے جوابات

پہلا وسوسہ

وداعِ رمضان پر مشتمل خطبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ، صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم، تابعین اور تبع تابعین رحمۃُ اللہِ علیہم کسی سے ثابت نہیں لہٰذا یہ بدعت وگمراہی ہے۔

جواب

اگر اس دلیل کو درست مانا جائے تو وداعِ رمضان کے خطبہ کے علاوہ دیگر خطبوں پر جو بڑے بڑے علمائے کرام نے کتابیں لکھیں اور خطباءِ کرام اپنےخطبوں میں جو اضافے کرتے ہیں وہ سب بھی ان مقدس ہستیوں سے ثابت نہیں حالانکہ وہ رائج ہیں([8])اورنہ کوئی ان پر اعتراض کرتا ہے تو پھر صرف الوداعی خطبہ پر ہی اعتراض کیوں!

جمعۃ المبارک اور دیگر خطبوں سے اصل مقصد لوگوں کو اللہ پاک کے انعامات یاددلانا، اس کے عذاب سے ڈرانا ، شریعت کے احکامات بتانا اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا ہے تو جس خطبہ میں بھی یہ چیزیں ہونگی تو خطبہ کااصل مقصد حاصل ہوجائے گا چاہے اس خطبہ کے الفاظ اور معنی نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ، صحابۂ کرام،تابعین اورتبع تابعین رضی اللہُ عنہم سے ثابت ہوں یا نئے بنائے گئے ہوں ، لہٰذا ہر وہ خطبہ جوشرعی مقاصد پر پورا اترتا ہو وہ جائز ہے اور الوداعی خطبہ بھی اس میں شامل ہے۔

دوسرا وسوسہ

رمضان المبارک کے جانے پر حسرت وافسوس کا اظہار کرنا غیر شرعی کام ہے کیونکہ روزہ افطار کرنا خوشی اور مسرت کا ایک سبب ہے جیساکہ حدیث پاک میں بھی ہے۔([9])

جواب

حدیثِ پاک میں افطار کے وقت جس فرحت وخوشی کا ذکر ہے اس سے مراد انسانی عادت ہے کہ اس کی طبیعت کوخوشی ہوتی ہے ، شرعی فرحت مراد نہیں کیونکہ نیک لوگوں کو تو روزے اور دیگر عبادتوں کی بجاآوری میں فرحت حاصل ہوتی ہے اور ان بابرکت دنوں کے گزرنے پر انہیں دکھ اور ملال ہوتا ہے۔

تیسرا وسوسہ

پانچوں ارکانِ اسلام برابر ہیں پھر صرف رمضان المبارک کے ہی گزرنے پر افسوس کیا جاتا ہے دیگر پر نہیں؟

جواب

زکوٰۃ کی ادائیگی کا شریعتِ مطہرہ کی طرف سے کوئی وقت خاص نہیں اور نہ ہی تمام لوگوں کو ایک ساتھ ادائیگی کا شریعت نے پابند کیا ہے لہٰذا اس پر حسرت وافسوس نہیں کیا جاسکتاجبکہ رمضان المبارک کا مہینا سب مسلمانوں کیلئے ایک ہی ہے، اس ماہِ مبارک کی بے شمار برکتیں ہیں تو اس کا ہر گزرتا، دن افسوس وحسرت کا باعث ہے، کیا عجب اگلا رمضان نصیب ہو یا نہ ہواورجہاں تک نماز کی بات ہے تو ہر نماز کا وقت مقرر ہے نیزنماز کے پورے وقت میں عام مغفرت کی بشارت رمضان المبارک جیسی نہیں ہے اوراس بات میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ حج کے ایام بہت برکت والے ہیں لیکن افعالِ حج کی ادائیگی صرف حاجیوں پر لازم ہے دیگر لوگوں پر نہیں جبکہ روزہ ایسی عبادت ہے جو سب مسلمانوں پریکساں فرض ہے۔

چوتھا وسوسہ

خطبۃ الوداع کی حدیث من گھڑت ہے اورمن گھڑت حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔

جواب

جس خطبۃ الوداع کو علمائے کرام نے من گھڑت قراردیا ہے ([10]) اس سے مراد وہ خطبہ ہے جسے نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وفات ظاہری سے کچھ پہلے منبر پر فرمانے اور اسکے بعد کوئی خطبہ ارشاد نہ فرمانے کا دعوی کیا گیا ہے اور اسے ’’خطبۃ الوداع‘‘ کا نام دیا گیاہے ، ایک جیسے نام کی وجہ سے رمضان المبارک کے الوداعی خطبہ پر اُس من گھڑت خطبہ کا حکم لگانا کسی طرح بھی درست نہیں ،مختصر یہ کہ الوداعی خطبہ جائز ہے البتہ اگر علمائے کرام یہ محسوس کریں کہ عوام اسے فرض وواجب سمجھنے لگے ہیں تو عوام کی غلط فہمی دور کرنے کیلئےکبھی کبھار اس کو ترک بھی کردیں ۔

خطبۃ الوداع نوحہ نہیں ہے

پانچواں وسوسہ

خطبۃ الوداع کے الفاظ کے نتیجے میں لوگوں کا رونا نوحہ ہے او ر نوحہ کی ممانعت صحیح حدیثوں سے ثابت ہے۔

جواب

’’نوحہ‘‘ کا معنی لغت کی کتابوں میں ’’رونے‘‘ کے ملتے ہیں اب چاہے وہ رونا آواز کے ساتھ ہو یا بغیر آواز کے ۔

شریعت کی رو سے نوحہ یعنی میّت کے اوصاف بڑھاچڑھاکر بیان کر نا اور آواز سے رونا جس کو ’’بَین‘‘ کہتے ہیں یہ حرام ہے اور حدیثوں میں اسی طرح کے رونے سے ممانعت ہے اسی وجہ سے ترمذی شریف کی روایت میں ’’صَوْت عِنْدَ مُصِیْبَة‘‘ کے الفاظ ہیں جس سے مراد کسی شخص کے انتقال پربلند آواز سے رونا ہے۔

اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے شہزادے حضرت ابراہیم رضی اللہُ عنہ کی وفات پر روئے تو آپ کے صحابی حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہُ عنہ نے دلی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کیا آپ نے ہمیں رونے سے منع نہیں فرمایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے دو آوازوں سے منع کیا تھا : (1) مصیبت کے وقت آواز نکال کر منہ نوچنے اور گریبان پھاڑنے سے (2) مزمار سے۔صحابیِ رسول رضی اللہُ عنہ نے صرف رونے کو نوحہ سمجھا مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے واضح فرمادیا کہ میت پر صرف رونا نوحہ نہیں بلکہ آواز کے ساتھ رونا اور منہ نوچنا،گریبان پھاڑنا ’’نوحہ‘‘ ہے۔([11])

الوداعی خطبہ اور الوداعی اشعار پڑھنے والوں میں سے کوئی بھی عموماً نوحہ والی حالت نہیں اپناتا بلکہ الوداعی الفاظ کہتے ہوئے صرف آنسو بہاتے ہیں اور یہ منع نہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے شہزادے کے وصال پر جو الفاظ ارشاد فرمائے تھے اس میں ’’فراق‘‘ کا لفظ موجود ہے نیز روایتوں سے آنسو مبارک بہانا بھی ثابت ہے۔نیز الفراق اور الوداع کے الفاظ استعمال کرنے کو بے صبری بھی نہیں کہا جاسکتا بلکہ چیخنا چلانا، بال نوچنا، سینہ پیٹنا گریبان پھاڑنا یہ چیزیں بے صبری اور نوحہ ہیں جن کے بارے میں انبیائے کرام کے سردار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو گریبان پھاڑے، منہ پیٹے اور جاہلیت کا پکارنا پکارے (یعنی نوحہ کرے) وہ ہم میں سے نہیں۔([12]) الوداع میں ان سے کوئی بھی کام نہیں ہوتا۔

حاصل یہ ہے کہ ماہِ رمضان المبارک کووداع کرنا شرعی طور پر نہ صرف جائز بلکہ اچھی نیتوں کے ساتھ باعثِ اجر وثواب ہے البتہ اس میں شرعی حدود وقیود کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ اللہ پاک ہمیں رمضان المبارک کا حقیقی عاشق اور قدردان بنائے نیز مسلمانوں کو تشویش میں ڈالنے کیلئے اس مبارک عمل پر بلا وجہ بے جا اعتراضات کرنے والوں کو بھی ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین



[1]… "مسلم"، کتاب العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ او سیئۃ… الخ، ص1102، حدیث: 6800۔

[2]… "ردالمحتار"،کتاب الطہارۃ،مطلب:المختار أنّ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ،1/234۔

[3]… "شرح النووی علی مسلم"،کتاب الایمان، باب کل مؤمن مسلم… الخ ،الجزءالاول،1/148۔

[4]… "شعب الایمان"،باب فی الصیام ،فضائل شہر رمضان،3/305،حدیث:3608۔

[5]… "مسند احمد" ،مسند عبد اللہ بن مسعود ،2/16، حدیث:3600۔

[6]… "لطائف المعارف"، ص249-237۔

[7]… "النخب الجلیلۃ فی الخطب الجزیلۃ "، الخطبۃ الرابعۃ  لوداع شہر رمضان ، ص127۔

[8]… اس کی ایک مثال حضرت علامہ ابن حجر رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب"اَلنُّخَبُ الْجَلِیْلةُ فِی الْخُطَبِ الْجَزِیْلَة" ہے جس میں آپ نے ہر اسلامی مہینے کےہر جمعہ کے الگ الگ خطبے تحریر فرمائے جو یقیناً آپ کے اضافے ہیں۔

[9]… "مسلم"،کتاب الصیام،باب فضل الصیام،ص447،حدیث:2706۔

[10]… "اللآلی المصنوعۃ" ،کتاب المواعظ والوصایا،2/311۔

[11]…"شرح معانی الآثار" ،کتاب الکراہیۃ،باب البکاء علی المیت ،4/108-107۔

[12]… "بخاری "،کتاب الجنائز، باب لیس منا من ضرب الخدود ، 1/ 439 ،حدیث:1297۔