بچوں  کے لئے لکھنا یوں تو آسان ہے کہ بیٹھا جائے، قلم پکڑا جائے اور ساری معلومات کو سمیٹ دیا جائے پھر نتیجۃً یہ سمجھا جائے کہ ہمارے لکھے ہوئے سے بچے احساسِ ذمہ داری، خود اعتمادی اور بلند عزائم پانے میں کامیاب ہوجائیں گے، نیک امنگوں سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین صلاحیتوں اور قابلیتوں کے حامل ہوں گے اور آگے چل کر اپنے دین، قوم اور ملک کے لئے ضرور مفید ثابت ہوں گے، لیکن! کیا یہ نتائج بچوں کی طبیعت، ذہنی رجحانات اور دلی لگاؤ کا لحاظ رکھے بغیر حاصل ہوں گے؟، ان کی عمر، دلچسپی اور الفاظوں کے ذخیرے کی رعایت کئے بغیر مل جائیں گے؟ ہرگز نہیں !

اسی لئے میرے عزیز! بچوں کے لئے لکھتے ہوئے آپ کو بچہ بننا پڑے گا، ان کی نفسیات، رجحانات اور دلی میلانات کو سمجھنا پڑے گا اور پسند و ناپسند، جبلی اور نفسیاتی تقاضوں کا دھیان رکھنا ہوگا تبھی وہ آپ کی تحریر میں دلچسپی لیں گے اور آپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔

ذیل میں اسی پس منظر کی وجہ سے بچوں کے لکھاریوں کے لئے 15مفید اور کارآمد اصول پیش کئے جارہے ہیں ، انہیں قبول فرمائیے، عمل میں لائیے اور نتیجہ پائیے۔

(1)لکھنے سے پہلے کے کام:(Before Writing)

(01)بچوں کے لئے کچھ بھی لکھنے سے پہلے آپ کو طے کرنا ہوگا کہ آپ کیا پیغام دینے جارہے ہیں؟، اس تحریر کے ذریعے سے چھوٹے سے دماغ میں کیا بٹھانا چاہتے ہیں؟، ورنہ تحریر بے مقصد ہوجائے گی یا مضمون اور سبق میں کوئی ربط ہی نہیں رہے گا۔ یقین نہیں آتا تو ایک مثال پڑھ لیجئے:

کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک کوے کی کہانی پڑھی تھی، کہ سرداری حاصل کرنے کے لئے اس نے ایک تدبیر کی، سب پرندوں کے پنکھ جمع کئے، اور رنگ برنگی بن کر سرداری حاصل کرلی لیکن جب دوسروں کو اس حقیقت کا پتا چلا تو انہوں نے خوب اس کی درگت بنائی۔ اس کے بعد کہانی سے درس دیتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:

”اچھا اخلاق سب سے بڑی خوب صورتی ہے“۔

لہٰذا یہ طریقہ غلط ہے کہ لکھنے کے بعدتانے بانے ملا کر زبردستی نتیجہ اخذ کیا جائے اور کڑوی دوائی کی طرح بچے کو پکڑ کر پلایا جائے۔

(02)اس کے ساتھ دوسری اہم چیز جس کی لکھنے سے پہلے رعایت کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اس مضمون کی وساطت سے جو پیغام آپ دینا چارہے ہیں وہ کس عمر کے بچوں کے لئےہے؟ لکھنے سے پہلے آپ کو متعین کرنا ہوگا کہ یہ پیغام کس عمر کے بچوں کے لئے ہے؟ پندرہ سال کے بچے کے لئے چڑے چڑی کی کہانی اتنی ہی غیر دلچسپ اور بور ہوگی جتنی کہ 8 سال سے کم عمر بچے کے لئے سائنسی معلوماتی کہانی۔

عمر کے تعین ہی سے مضمون کی بہت سی چیزیں متعین ہوتی ہیں مثلاً بنیادی خیال، پلاٹ، اندازِ بیاں، زبان، اس کی طوالت وغیرہ ۔آپ کی معلومات کے لئے یہ نقشہ پیش ہے جس میں ایج لمٹ کے اعتبار سے مضمون یا کتاب کا حجم بتایا گیا ہے۔

0 سے 3 سال تک

200 الفاظ

2 سے پانچ سال تک

200 سے 500 الفاظ

3 سے 7 سال تک

500 سے 800 الفاظ

4 سے 8 سال تک

600 سے 1000 الفاظ

5 سے 10 سال تک

3000 سے 10000 الفاظ

7 سے 12 سال تک

10،000 سے 30،000 الفاظ

(2)لکھتے وقت کے کام: (During Writing)

بچوں کے لئے لکھتے وقت جن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ذیل میں انہیں بیان کیا جارہا ہے۔

(01)ہر مضمون کے تین بنیادی عناصر ہوتے ہیں:

ابتدا، نفس مضمون اور خاتمہ ، مگر جب بات بچوں کی ہو تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، ہر عنصرکی پوری پوری رعایت رکھنا ضروری ہوجاتی ہے۔

ابتداء کو کیسے دلکش بنانا ہے؟، آخر سے آگے آنا ہے یا یا درمیان سے شروع کرنا ہے ؟ کردار کا تعارف بیانی ہوگا یا عملی؟درمیان مضمو ن میں سلاست اور تجسس کیسے برقرار رکھنا ہے؟ مکالمہ جات کو کیسے طول دیتے ہیں ؟ خاتمہ میں مسئلہ کا حل دیا جاتا ہے یا کسی اور موڑ کا پتا بتاکر رخصت ہوجاتے ہیں ؟ان ساری چیزوں کی معلومات ہونی چاہئے اور استعمال بھی آنا چاہئے، اگر اب تک پتا نہیں ہیں تو انہیں سیکھئے، لکھاریوں کے مضامین میں تلاش کیجئے،نوٹ کیجئے اور پھر استعمال کیجئے۔

(02)لکھتے وقت انداز چاہے روایتی ہو یا آب بیتی، اس میں بیان، عمل، حرکت اور مکالمے سب کا رنگ ہونا چاہئے لیکن اس طرح کہ کوئی حصہ بھی زیادہ طوالت کا شکار نہ ہو۔ جیساکہ

شعیب ۔۔۔شعیب۔۔شہاب صاحب نےلان میں اخبار پڑھتے ہوئے کہا۔

کمرے میں بال بناتے ہوئے شعیب نے جواب دیا: جی آیا ،بابا جان!

بیٹا! شاپنگ کے لئے جانا ہے، جلدی کرو، دیر ہورہی ہے ۔

جی بابا جان! میں تو تیار ہوں، شعیب لان میں آچکا تھا، و ہ بس علیزہ آپی اورآمنہ تیار ہورہی ہیں،

(03)لکھتے وقت آپ کو یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ جس عمر اور علمی کیفیت کے بچہ کو آ پ شروع میں دکھا رہے ہیں آخر تک اس کا لیول اسی طرح رہنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ شروع میں وہ بالکل بھولا نظر آئے اور آخر تک پہنچتے پہنچتے ایسا محسوس ہو کہ وہ تو سب جانتا ہے ۔

جیساکہ ایک کہانی کے شروع میں بچے کی علمی حیثیت واضح کرتے ہوئے لکھا جاتا ہے:

بابا جان کے ساتھ جب گھر کی طرف واپسی ہوئی تو میں نے بابا جان سے پوچھا:

بابا جان ! امام بخاری کون تھے؟

لیکن آخر میں وہی بچہ معصومانہ سوال کرتے ہوئے صاحب کشف الظنون کا چھوٹا بھائی محسوس ہوتا ہے:

بابا جان! امام بخاری نے بخاری شریف کیوں لکھی؟

موطا امام مالک، امام اعظم کی، کتاب الآثار، جامع سفیان ثوری، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق اور عبد اللہ ابن مبارک جیسے بڑے بڑے بزرگوں کی کتابیں موجود تھی۔ میں نے بابا جان سے پوچھا۔

(04)یوں ہی بچہ سے جب کوئی بات کہلوائی جائے تو اس کی سطح کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، ایسا نہ ہو سات سالہ ناصر کتابوں کے حوالہ دے رہا ہو، حدیث عربی متن کے ساتھ بتارہا ہو، معاشرے کی تباہی کے اسباب شمار کروا رہا ہو ، مطلب کہ پوری کہانی میں فطری پن کو برقراررکھنا کہانی کی تاثیر کا سبب بنے گا۔

(05)لکھتے وقت بچہ کے ذخیرہ الفاظ کی رعایت کرنا ایک ضروری امر ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ابتدا میں لکھنے والے آسان ہی لکھتے ہیں لیکن جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے واپس اپنی عمر کے لحاظ سے فطری زبان کی کی طرف لوٹ جاتے ہیں، اس لیے اپنے لکھے ہوئے ٹکڑوں کو بار بار دہرانا ضروری ہے۔

(01)جملے چھوٹے ہوں، بچوں کو طویل بیانیےیا زیادہ بیانیے پسند نہیں ہوتے۔

(02)تحریر میں مناسب تکرارہو، جملوں کو دہرایا جائے تاکہ ان کے ننھےذہن میں آپ کے خیالات اپنی جگہ بنا سکیں۔

(03)خیال رہے کہ ضرورت سے زیادہ منظر کشی،نصیحت کے طویل مواعظ، ربط کا فقدان یا صریح تضاد بچوں کی دلچسپی کے ختم ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔

(04)آخری بات یہ ہے کہ ان سب چیزوں سے آپ کی تحریر پڑھنا، سمجھنا آسان ہوجائے گی، اور سچ کہا ہے کسی نے: ’’آسانی سے پڑھی جانے والے تحریر بہت مشکل سے لکھی جاتی ہے۔‘‘

(3)لکھنے کے بعد کے کام: (After Writing)

تحریر لکھنے کے بعد درج ذیل چیزیں عمل میں لانے سے آپ کی تحریر میں نکھار پیدا ہوگا اور دن بہ دن حسن بڑھے گا:

(01)مضمون لکھ لینے کے بعد کچھ دیر کے لئے وقفہ کریں،اسے چھوڑ دیں، وقت ہو تو ایک دن کا وقفہ کریں۔

(02)دوسرے دن مضمون پر نظر ثانی کریں، قاری کے پڑھنے سے قبل ایک بار خود پڑھیں، جارج پلمٹن کو (03)انٹرویو دیتے ہوئے ہیمنگوے نے کہا تھا: اپنالکھا ہوا دوبارہ پڑھئے۔یہ آپ کی تحریر میں نکھار لانے کا سبب بنے گا۔

(04)دوسری بار پڑھتے ہوئے جملوں کی ترتیب اور ربط کا بغور مطالعہ کریں، ان کی نوک پلک سنواریں، املاء دیکھیں،اسے درست کریں۔

(05)اس کے بعد کسی تجربہ کار کو چیک کرائیں اور اچھے مشورے کو قبول کریں۔


بچوں  کے لئے لکھنا یوں تو آسان ہے کہ بیٹھا جائے، قلم پکڑا جائے اور ساری معلومات کو سمیٹ دیا جائے پھر نتیجۃً یہ سمجھا جائے کہ ہمارے لکھے ہوئے سے بچے احساسِ ذمہ داری، خود اعتمادی اور بلند عزائم پانے میں کامیاب ہوجائیں گے، نیک امنگوں سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین صلاحیتوں اور قابلیتوں کے حامل ہوں گے اور آگے چل کر اپنے دین، قوم اور ملک کے لئے ضرور مفید ثابت ہوں گے، لیکن! کیا یہ نتائج بچوں کی طبیعت، ذہنی رجحانات اور دلی لگاؤ کا لحاظ رکھے بغیر حاصل ہوں گے؟، ان کی عمر، دلچسپی اور الفاظوں کے ذخیرے کی رعایت کئے بغیر مل جائیں گے؟ ہرگز نہیں !

اسی لئے میرے عزیز! بچوں کے لئے لکھتے ہوئے آپ کو بچہ بننا پڑے گا، ان کی نفسیات، رجحانات اور دلی میلانات کو سمجھنا پڑے گا اور پسند و ناپسند، جبلی اور نفسیاتی تقاضوں کا دھیان رکھنا ہوگا تبھی وہ آپ کی تحریر میں دلچسپی لیں گے اور آپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔

ذیل میں اسی پس منظر کی وجہ سے بچوں کے لکھاریوں کے لئے 15مفید اور کارآمد اصول پیش کئے جارہے ہیں ، انہیں قبول فرمائیے، عمل میں لائیے اور نتیجہ پائیے۔

(1)لکھنے سے پہلے کے کام:(Before Writing)

(01)بچوں کے لئے کچھ بھی لکھنے سے پہلے آپ کو طے کرنا ہوگا کہ آپ کیا پیغام دینے جارہے ہیں؟، اس تحریر کے ذریعے سے چھوٹے سے دماغ میں کیا بٹھانا چاہتے ہیں؟، ورنہ تحریر بے مقصد ہوجائے گی یا مضمون اور سبق میں کوئی ربط ہی نہیں رہے گا۔ یقین نہیں آتا تو ایک مثال پڑھ لیجئے:

کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک کوے کی کہانی پڑھی تھی، کہ سرداری حاصل کرنے کے لئے اس نے ایک تدبیر کی، سب پرندوں کے پنکھ جمع کئے، اور رنگ برنگی بن کر سرداری حاصل کرلی لیکن جب دوسروں کو اس حقیقت کا پتا چلا تو انہوں نے خوب اس کی درگت بنائی۔ اس کے بعد کہانی سے درس دیتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:

”اچھا اخلاق سب سے بڑی خوب صورتی ہے“۔

لہٰذا یہ طریقہ غلط ہے کہ لکھنے کے بعدتانے بانے ملا کر زبردستی نتیجہ اخذ کیا جائے اور کڑوی دوائی کی طرح بچے کو پکڑ کر پلایا جائے۔

(02)اس کے ساتھ دوسری اہم چیز جس کی لکھنے سے پہلے رعایت کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اس مضمون کی وساطت سے جو پیغام آپ دینا چارہے ہیں وہ کس عمر کے بچوں کے لئےہے؟ لکھنے سے پہلے آپ کو متعین کرنا ہوگا کہ یہ پیغام کس عمر کے بچوں کے لئے ہے؟ پندرہ سال کے بچے کے لئے چڑے چڑی کی کہانی اتنی ہی غیر دلچسپ اور بور ہوگی جتنی کہ 8 سال سے کم عمر بچے کے لئے سائنسی معلوماتی کہانی۔

عمر کے تعین ہی سے مضمون کی بہت سی چیزیں متعین ہوتی ہیں مثلاً بنیادی خیال، پلاٹ، اندازِ بیاں، زبان، اس کی طوالت وغیرہ ۔آپ کی معلومات کے لئے یہ نقشہ پیش ہے جس میں ایج لمٹ کے اعتبار سے مضمون یا کتاب کا حجم بتایا گیا ہے۔

0 سے 3 سال تک

200 الفاظ

2 سے پانچ سال تک

200 سے 500 الفاظ

3 سے 7 سال تک

500 سے 800 الفاظ

4 سے 8 سال تک

600 سے 1000 الفاظ

5 سے 10 سال تک

3000 سے 10000 الفاظ

7 سے 12 سال تک

10،000 سے 30،000 الفاظ

(2)لکھتے وقت کے کام: (During Writing)

بچوں کے لئے لکھتے وقت جن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ذیل میں انہیں بیان کیا جارہا ہے۔

(01)ہر مضمون کے تین بنیادی عناصر ہوتے ہیں:

ابتدا، نفس مضمون اور خاتمہ ، مگر جب بات بچوں کی ہو تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، ہر عنصرکی پوری پوری رعایت رکھنا ضروری ہوجاتی ہے۔

ابتداء کو کیسے دلکش بنانا ہے؟، آخر سے آگے آنا ہے یا یا درمیان سے شروع کرنا ہے ؟ کردار کا تعارف بیانی ہوگا یا عملی؟درمیان مضمو ن میں سلاست اور تجسس کیسے برقرار رکھنا ہے؟ مکالمہ جات کو کیسے طول دیتے ہیں ؟ خاتمہ میں مسئلہ کا حل دیا جاتا ہے یا کسی اور موڑ کا پتا بتاکر رخصت ہوجاتے ہیں ؟ان ساری چیزوں کی معلومات ہونی چاہئے اور استعمال بھی آنا چاہئے، اگر اب تک پتا نہیں ہیں تو انہیں سیکھئے، لکھاریوں کے مضامین میں تلاش کیجئے،نوٹ کیجئے اور پھر استعمال کیجئے۔

(02)لکھتے وقت انداز چاہے روایتی ہو یا آب بیتی، اس میں بیان، عمل، حرکت اور مکالمے سب کا رنگ ہونا چاہئے لیکن اس طرح کہ کوئی حصہ بھی زیادہ طوالت کا شکار نہ ہو۔ جیساکہ

شعیب ۔۔۔شعیب۔۔شہاب صاحب نےلان میں اخبار پڑھتے ہوئے کہا۔

کمرے میں بال بناتے ہوئے شعیب نے جواب دیا: جی آیا ،بابا جان!

بیٹا! شاپنگ کے لئے جانا ہے، جلدی کرو، دیر ہورہی ہے ۔

جی بابا جان! میں تو تیار ہوں، شعیب لان میں آچکا تھا، و ہ بس علیزہ آپی اورآمنہ تیار ہورہی ہیں،

(03)لکھتے وقت آپ کو یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ جس عمر اور علمی کیفیت کے بچہ کو آ پ شروع میں دکھا رہے ہیں آخر تک اس کا لیول اسی طرح رہنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ شروع میں وہ بالکل بھولا نظر آئے اور آخر تک پہنچتے پہنچتے ایسا محسوس ہو کہ وہ تو سب جانتا ہے ۔

جیساکہ ایک کہانی کے شروع میں بچے کی علمی حیثیت واضح کرتے ہوئے لکھا جاتا ہے:

بابا جان کے ساتھ جب گھر کی طرف واپسی ہوئی تو میں نے بابا جان سے پوچھا:

بابا جان ! امام بخاری کون تھے؟

لیکن آخر میں وہی بچہ معصومانہ سوال کرتے ہوئے صاحب کشف الظنون کا چھوٹا بھائی محسوس ہوتا ہے:

بابا جان! امام بخاری نے بخاری شریف کیوں لکھی؟

موطا امام مالک، امام اعظم کی، کتاب الآثار، جامع سفیان ثوری، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق اور عبد اللہ ابن مبارک جیسے بڑے بڑے بزرگوں کی کتابیں موجود تھی۔ میں نے بابا جان سے پوچھا۔

(04)یوں ہی بچہ سے جب کوئی بات کہلوائی جائے تو اس کی سطح کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، ایسا نہ ہو سات سالہ ناصر کتابوں کے حوالہ دے رہا ہو، حدیث عربی متن کے ساتھ بتارہا ہو، معاشرے کی تباہی کے اسباب شمار کروا رہا ہو ، مطلب کہ پوری کہانی میں فطری پن کو برقراررکھنا کہانی کی تاثیر کا سبب بنے گا۔

(05)لکھتے وقت بچہ کے ذخیرہ الفاظ کی رعایت کرنا ایک ضروری امر ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ابتدا میں لکھنے والے آسان ہی لکھتے ہیں لیکن جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے واپس اپنی عمر کے لحاظ سے فطری زبان کی کی طرف لوٹ جاتے ہیں، اس لیے اپنے لکھے ہوئے ٹکڑوں کو بار بار دہرانا ضروری ہے۔

(01)جملے چھوٹے ہوں، بچوں کو طویل بیانیےیا زیادہ بیانیے پسند نہیں ہوتے۔

(02)تحریر میں مناسب تکرارہو، جملوں کو دہرایا جائے تاکہ ان کے ننھےذہن میں آپ کے خیالات اپنی جگہ بنا سکیں۔

(03)خیال رہے کہ ضرورت سے زیادہ منظر کشی،نصیحت کے طویل مواعظ، ربط کا فقدان یا صریح تضاد بچوں کی دلچسپی کے ختم ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔

(04)آخری بات یہ ہے کہ ان سب چیزوں سے آپ کی تحریر پڑھنا، سمجھنا آسان ہوجائے گی، اور سچ کہا ہے کسی نے: ’’آسانی سے پڑھی جانے والے تحریر بہت مشکل سے لکھی جاتی ہے۔‘‘

(3)لکھنے کے بعد کے کام: (After Writing)

تحریر لکھنے کے بعد درج ذیل چیزیں عمل میں لانے سے آپ کی تحریر میں نکھار پیدا ہوگا اور دن بہ دن حسن بڑھے گا:

(01)مضمون لکھ لینے کے بعد کچھ دیر کے لئے وقفہ کریں،اسے چھوڑ دیں، وقت ہو تو ایک دن کا وقفہ کریں۔

(02)دوسرے دن مضمون پر نظر ثانی کریں، قاری کے پڑھنے سے قبل ایک بار خود پڑھیں، جارج پلمٹن کو (03)انٹرویو دیتے ہوئے ہیمنگوے نے کہا تھا: اپنالکھا ہوا دوبارہ پڑھئے۔یہ آپ کی تحریر میں نکھار لانے کا سبب بنے گا۔

(04)دوسری بار پڑھتے ہوئے جملوں کی ترتیب اور ربط کا بغور مطالعہ کریں، ان کی نوک پلک سنواریں، املاء دیکھیں،اسے درست کریں۔

(05)اس کے بعد کسی تجربہ کار کو چیک کرائیں اور اچھے مشورے کو قبول کریں۔


شرح فقہ اکبر (از ملا علی قاری) جامعات المدینہ نیز تنظیم المدارس کے درجہ سابعہ کے نصاب میں شامل ہے اسی لئے چند ماہ قبل المدینۃ العلمیہ نے شرح فقہ اکبر کو مکتبۃ المدینہ سے شائع کروانے کا ارادہ کیا۔اس کتاب پر شعبہ درسی کتب نے کام کیالیکن کام کے دوران کتاب کے چند ایسے مقامات سامنے آئے جن میں شرعی اغلاط تھیں چنانچہ ایسے مقامات پر فتاوی رضویہ ودیگر کتب سے حاشیہ لگا کر واضح کر دیاگیا نیز صحیح مسئلہ وموقف بھی بیان کردیاگیا جیسا کہ علمیہ کا اسلوب ہے۔کتاب چھپنے کے لئے پریس پر چلی گئی اور اس بات کو چند ماہ گزر گئے۔ مجلس علمیہ کی ایک اچھی عادت ہے کہ وقتاً فوقتاً کام کے حوالے سے پوچھ گچھ رکھتی ہے کہ کس کتاب پر کیا کام کیا ہورہا ہے وغیرہ، لہٰذا آج سے کچھ عرصہ قبل میرا مجلس کے ساتھ بیٹھنا ہوا تومجلس نے کام کے بارے میں پوچھا، میں نے تمام کارکردگی پیش کردی۔ اسی دوران شرح فقہ اکبر کے بارے میں بھی بات چلی تو فقیر نے اس کے بارے میں بھی مختصرا ًبتایا لیکن جب مجلس کو پتا چلا کہ ہم نے اس کتاب کی متعددشرعی اغلاط کودرست کیا ہے حتی کہ وہ اغلاط جو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے دَور سے چلی آرہی ہیں انکی بھی تصحیح کردی گئی ہےنیز متن کی تصحیح میں حتی الامکان کافی توجہ دی گئی ہے تو نگران مجلس المدینہ العلمیہ ورکن شوری جناب مولانا محمد شاہد عطاری مدنی نے ارشاد فرمایا کہ جو کام آپ نے کیا ہے اگر اسکا کچھ تعارف ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو آپ کا کام ایک نظر میں سامنے آجائے گااور ہم اسے کسی ماہنامے یا شمارے میں شائع کردیں گےچنانچہ مجھے بھی اس کی افادیت کا اندازہ ہوگیا کہ اسطرح اہل علم حضرات تک ہم صحیح دینی مواد پہنچاسکیں گےنیز دعوتِ اسلامی اور اعلی حضرت کا نام مبارک مزید روشن کر سکیں گے۔الغرض انھوں نے اس بات کا اصرار بھی کیا اور ترغیب بھی دلائی، انکی اسی ترغیب کے سبب" شرح فقہ اکبر پر علمیہ کے کام" کے سلسلے میں کچھ لکھنے کا قصد کیا۔ اہل علم وفن بالخصوص علماء کرام سے گزارش ہےکہ اگر اس میں کوئی کوتاہی ہو تو ضرور مطلع فرمائیں۔ انسان بہر حال خطاء کا پتلا ہے غلطی کا امکان پھر بھی باقی ہے۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان۔

شرح فقہ اکبر پر مختلف زاویوں سے کام کیا گیا ہے ، اس کام میں سے چند مقامات کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔ غیر اللہ پر لفظِ قیوم کے اطلاق کو جائز لکھا تھا ہم نے ثابت کیا کہ یہ ناجائز ہے اورکتاب میں الحاق ہے۔

۲۔ لکھا تھا کہ "یہ جائز نہیں کہ ابن ملجم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اور ابو لؤلؤ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاتل کہا جائے کیونکہ انکا قاتل ہونا تواتر ویقین سے ثابت نہیں"۔ ہم نے اسے درست کردیا اور لکھا: جی ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم نے حضرت علی کو اور ابو لؤلؤ نے حضرت عمر کو قتل کیا (رضی اللہ عنہما)، کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے۔

۳۔ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں والدینِ کریمین کے عدمِ ایمان کا قول کیا ہے۔اور اس کی بنیاد امام اعظم کی اس عبارت پر رکھی: (ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر) (الفقه الاكبر)، لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ یہ عبارت امامِ اعظم کی نہیں، مزید برآں ملا علی قاری کا اپنے موقف سے رجوع ثابت کیا۔

۴۔ سید المکاشفین شیخ ابن عربی (متوفٰی638ھ) جلیل القدر ولی وصوفی بزرگ گزرے ہیں لیکن ملا علی قاری نے غلطی کی بنا پر انکا رد کیا اور کہا کہ یہ قبولِ ایمانِ فرعون کے قائل ہیں۔ ہم نے ثابت کیا کہ ایسا نہیں ہے۔

پہلی مثال

شرح فقہ اکبر میں ہے

فما سمّى به الربّ نفسه وسمّى به مخلوقاته مثل الحيّ والقيّوم والعليم والقدير, أو سمّى به بعض صفات عباده, فنحن نعقل بقلوبنا معاني هذه الأسماء في حق الله.....إلخ([1])

اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ بعض اسماء ایسے ہیں جن کا اطلاق اللہ تعالی نے خود اپنی ذات پر بھی کیا ہے اور ان سے بندوں کو بھی موسوم فرمایا ہے جیسے حی ،قیوم، علیم، قدیر۔تو ایسے اسماء کے معانی کو ہم اللہ تعالی اور بندوں دونوں کے حق میں دل سے تسلیم کرتے ہیں لیکن فرق کے ساتھ یعنی اللہ بھی حی ہے اور بندہ بھی لیکن اللہ خود سے حی ہے اور بندہ خدا کے بنائے سے، اللہ ازل سے حی ہے اور ابد تک لیکن بندہ حادث اور فانی ہے۔ وعلی ھذا القیاس البواقی الی فروق کثیرۃ۔

لیکن شرح فقہ اکبر کی مذکورہ عبارت میں ایک فحش غلطی ہے جس کی وجہ آگے آرہی ہے۔

غلطی یہ ہے کہ اس عبارت میں غیر اللہ پر لفظ (قیوم) کے اطلاق کو جائز کہا گیا ہے حالانکہ یہ جائز نہیں۔ ہمارے موقف کی تائید امام اہل سنت اعلی حضرت کی اس عبارت سے ہوتی ہے۔

[ہماری نظر میں ہیں وہ کلمات جو اکابر اولیاء سے گزر کر اکابر علماء معتمدین مثل امام ابن حجر مکی وملا علی قاری وغیرہما کی کتب مطبوعہ میں پائے جاتے ہیں، اور ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ الحاقی ہیں، ایک ہلکی نظیر علی قاری کی شرح فقہ اکبر صفحہ ۴۷ پر ہے:

ماسمی بہ الرب نفسہ وسمی بہ مخلوقاتہ مثل الحی والقیوم والعلیم والقدیر([2]) ۔

نا م کہ رب تعالٰی نے اپنے لئے اور مخلوق کے لئے مقرر فرمائے وہ مثل حی، قیوم، علیم، قدیر ہیں۔ (ت)

اس میں مخلوقات پر قیوم کے اطلاق کا جواز ہے حالانکہ ائمہ فرماتے ہیں کہ غیر خدا کو قیوم کہنا کفر ہے۔

مجمع الانہر میں ہے: اذا اطلق علی المخلوق من الاسماء المختصۃ بالخالق نحو القدوس والقیوم والرحمٰن وغیرھا یکفر([3]) ۔

جو اللہ تعالٰی کے مخصوص ناموں میں سے کسی نام کا اطلاق مخلوق پر کرے، جیسے قدوس، قیوم اور رحمن وغیرہ تو وہ کافر ہوجائے گا۔ (ت)

اسی طرح او رکتابوں میں ہے۔حتی کہ خود اسی شرح فقہ اکبر صفحہ ۲۴۵ میں ہے:

من قال لمخلوق یا قدوس اوالقیوم او الرحمٰن کفر ([4])۔

جو کسی مخلوق کو قدوس یا قیوم یا رحمٰن کہے کافر ہوجائے۔

پھر کیونکر مان سکتے ہیں کہ وہ صفحہ ۴۷ کی عبارت علی قاری کی ہے ضرور الحاق ہے۔](فتاوی رضویہ 15/560)

شرح فقہ اکبر پر کام کے دوران جب ہم اس مقام پر پہنچے تو ہم نے حاشیہ لگا کر عبارت کے سقم کو ظاہر کر دیا۔ فلله الحمد.

دوسری مثال

شرح فقہ اکبر میں ہے:

بل لا يجوز أن يقال إن ابن ملجم قتل عليا رضي الله عنه ولا أبو لؤلؤة قتل عمر رضي الله عنه فإن ذلك لم يثبت متواترا([5]).

اس عبارت میں بھی ایک فحش غلطی ہے کہ جائز کو ناجائز لکھ دیا ہےاور کہا گیا ہے کہ:

[یہ جائز نہیں کہ ابن ملجم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اور ابو لؤلؤ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاتل کہا جائے کیونکہ ان کا قاتل ہونا تواتر ویقین سے ثابت نہیں]

حالانکہ صحیح عبارت یہ ہے:

صحیح عبارت: نعم يجوز أن يقال: قتل ابن ملجم عليا رضي الله عنه وقتل أبو لؤلؤة عمر رضي الله عنه، فإن ذلك ثبت متواترا.

یعنی جی ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم نے حضرت علی کو اور ابو لؤلؤ نے حضرت عمر کو قتل کیا (رضی اللہ عنہما)، کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے۔

اب اسکی دلیل ملاحظہ فرمائیں۔

دلیلِ اول: امامِ اہل سنت اعلی حضرت فرماتے ہیں:

وقع هاهنا في نسخة شرح الفقه الأكبر الشائعة في بلادنا تحريف شديد فنُقل فيها لفظ الإحياء هكذا: بل لايجوز أن يقال إن ابن ملجم قتل عليا ولا أبو لؤلؤ قتل عمر فإن ذلك لم يثبت متواترا.هـ, وهو باطل صريح كما لا يخفى, والصواب ما نقلتُ فليتنبه. (الزمزمة القُمرية, ص:27)

اعلی حضرت کے اس قول سے پتا چلا کہ عبارت میں تحریف ہوئی ہے۔نوٹ: اعلی حضرت نے جو صحیح عبارت بیان فرمائی وہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔

دلیلِ ثانی: شرح فقہ اکبر میں احیاء العلوم کی جس عبارت کا تذکرہ کیا گیا ہے اسے اگر احیاء العلوم میں دیکھا جائے تو اس طرح ہے:

نعم يجوز أن يقال: قتل ابن ملجم عليا وقتل أبو لؤلؤة عمر رضي الله عنهما, فإن ذلك ثبت متواترا. (احیاء علوم الدین ۳/۱۵۴ دار صادر بیروت)

اسی طرح دار المعرفہ والی احیاء العلوم میں ہے اور اسی طرح شاملہ میں ہے۔اور یہ عبارت بعینہ اسی طرح ہے جس طرح اعلی حضرت نے بیان فرمائی۔

افسوس: لیکن ہمیں افسوس وحیرانی اس بات کی ہے کہ ہمارے پاس موجود شرح فقہ اکبر کے جتنے بھی مطبوعے یا نسخے ہیں (مطبوعہ صورت میں اور نیٹ سے حاصل کئے گئے پی ڈی ایف نسخے) سب میں احیاء العلوم سے نقل کردہ عبارت غلط مرقوم ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ حیرانی اس وقت ہوئی کہ جب بیروت (دار البشائر الاسلامیہ )کی چھپی ہوئی شرح فقہ اکبر دیکھی کہ عبارت وہی کی وہی غلط۔ مزید برآں یہ حیرانی یہاں نہ رکی بلکہ ترقی کر کے اس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ گئی جب اسی بیروت والی شرح فقہ اکبر(کے مبحوث عنہ مقام) پر محشی کا حاشیہ دیکھا وہ حاشیہ کیا تھا ملاحظہ فرمائیے:

إذن لِمَا ذا قتلهما أصحابُ رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ أليس لأنه ثبت لديهم قتلُهما؟ اللهم بلى([6]).

یعنی اگر اس بات کو صحیح مان لیا جائے(کہ قاتلین کا یقینی طور پر پتا نہیں چلا تھا یا انکا قاتل ہونا تواتر سے ثابت نہیں) تو پھر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قتل کیوں کیا ، کیا اس وجہ سےنہیں کہ انکا قتل کرنا صحابہ کے نزدیک ثابت ہو گیا تھا؟ کیوں نہیں، ضرور(ثابت ہو گیا تھا)۔

یہ حاشیہ محشی نے ایک اشکال واعتراض کی صورت میں لگایا ہے لیکن یہ اعتراض تو اس صورت میں ہوگا جب عبارت کو درست مان لیا جائے جیسا کہ لفظِ اذن سے ظاہر ہے([7])۔دوسری بات یہ کہ ان دونوں کو صحابہ کرام نے قتل کیا تھا تو اس میں بھی کلام ہے۔

حیرانی اس وجہ سے ہوئی کہ محشی کو یہاں حاشیہ لگانے کے بجائے احیاء العلوم میں یہ عبارت دیکھنی چاہئے تھی کیونکہ یہ عبارت احیاء العلوم کے حوالے سے شرح فقہ اکبر میں نقل کی گئی ہے، اگر محشی احیاء العلوم میں دیکھ لیتے تو انہیں بخوبی اندازہ بلکہ علم ہو جاتا کہ یہ عبارت امام غزالی کی نہیں ہے، لہذ ا اس عبارت پر مذکورہ حاشیہ (بصورتِ اشکال واعتراض) لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

بہرحال ہم نے شرح فقہ اکبر پر علمیہ کی طرف سے کام کے دوران اس مقام پر تحقیقی حاشیہ لگا دیا ہے۔

تیسری مثال

ایمانِ والدینِ کریمین (فداہما ابی وامی)

مشہور ہے کہ ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے والدینِ کریمین کے عدم ایمان کا قول کیا ہے۔ہم نے اس مقام پر تحقیق کے بعد ایک محتاط حاشیہ لگایا ہے۔ قبل اسکے کہ ہم اس حاشیہ کا خلاصہ بیان کریں۔یہ جان لینا ضروری ہے کہ ملا علی قاری نے یہ موقف کیوں اختیار کیا۔ اس موقف کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ملا علی قاری کے سامنے فقہ اکبر( مصنف امام اعظم ) کا جو متن تھا اس میں کاتب کی غلطی([8]) سے یا کسی کی تحریف سے یہ عبارت مذکور تھی:

(ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر)([9]).

یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا کفر پر خاتمہ ہوا۔ (معاذ اللہ)

ملا علی قاری نےیہ گمان کر کے کہ امام اعظم جیسے عظیم مجتہد نے جب یہ قول کہا ہے توضرور درست ہوگا اسی کو اختیار کیا اور اسی کے دلائل دئیے۔ حالانکہ یہ قول امامِ اعظم کا نہیں بلکہ انکی عبارت میں تحریف یا کاتب کی غلطی تھی۔

اب آئیےاسکی تفصیل کی طرف۔

جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ مذکورہ بالا عبارت میں تحریف یا کاتب کی غلطی ہے۔اب صحیح عبارت ملاحظہ فرمائیں۔

(ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ما ماتا على الكفر).

اس عبارت کا ترجمہ ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین کا خاتمہ کفر پر نہیں ہوا۔

دیکھئے کس طرح صرف ایک حرف([10])سے عبارت کا مفہوم واضح ودرست ہو گیا۔اس عبارت کے صحیح اور اس سے پچھلی عبارت کے غلط ہونے کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:

دلائل:

امام زاہد کوثری فرماتے ہیں:

الحمد للہ خود میں نے اور میرے دوستوں نے دار الکتب المصریہ میں موجود فقہ اکبر کے دو قدیم نسخوں میں ما ماتا کے الفاظ اور مکتبہ شیخ الاسلام کے دو قدیم نسخوں میں ماتا علی الفطرۃ کے الفاظ دیکھے ہیں اور ملا علی قاری نے جو شرح کی ہے وہ غلط نسخہ کی بنیاد پر ہے، یہ ان سے بے ادبی ہوگئی ہے اللہ کریم انھیں معاف فرمائے([11])۔

علامہ طحطاوی فرماتے ہیں:

وہ جو فقہ اکبر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا یہ امامِ اعظم کے خلاف سازش ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فقہ اکبر کے مستند نسخوں میں ایسا کچھ بھی نہیں([12])۔

شیخ محمد بن ابراہیم بیجوری متوفی 1276فرماتے ہیں:

یہ امامِ اعظم کے خلاف سازش ہے ان کا دامن اس بات سے بری ہے اور ملا علی قاری (اللہ انکی مغفرت کرے) سے غلطی ہوئی کہ ایسا شنیع کلمہ کہا([13])۔

عبارت کا سقم:

قطع نظر ان دلائل کہ جو ہم نے ذکر کئے صرف عبارت پر ہی غور کر لیا جائے تو بخوبی انداز لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں کچھ گڑبڑ ضرور ہےآئیے اب سقم عبارت دیکھتے ہیں:

ملا علی قاری نے جو متن اختیار کیا ہے اسکی پوری عبارت یہ ہے:

(ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر وأبو طالب عمّه مات كافراً)

یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا خاتمہ کفر پر ہوا اور ابو طالب حضور کا چچا بھی کفر پر مرا۔

عربی جاننے والے حضرات کے ذہن میں فورا یہاں یہ اشکال وارد ہو گا کہ جب والدین کریمین اور ابو طالب دونوں کا خاتمہ کفر پر ہوا توان کو الگ الگ کیوں ذکر کیا بلکہ عربی اسلوب کے مطابق سب کو یکجا کرکے یوں کہا جاسکتا تھا:

ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو طالب ماتوا كفارا.

یعنی والدینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا۔

نہ یہ کہ والدین کا کفرالگ بیان کیا جائے اور ابو طالب کا الگ اور کہا جائے:

(ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر) (وأبو طالب عمّه مات كافراً).

بخلاف اس صورت کے کہ جب اِسے اُس طرح پڑھا جائے جیسے صحیح عبارت ہم نے بیان کی اور وہ یہ ہے:

(ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ما ماتا على الكفر) (وأبو طالب عمّه مات كافراً).

آپ نے خود دیکھ لیا کہ کس طرح عبارت صحیح عربی طرز واسلوب میں آکر مستقیم ہوگئی([14])۔ وللہ الحمد

تحریف کی وجوہات:

اتنی بات ذہن نشین کر لینے کے بعد آئیے اب تحریف کی وجہ بھی علما کی زبانی سنتے ہیں چنانچہ:

امام زاہد کوثری فرماتے ہیں: بعض نسخوں میں (ماتا على الفطرة) ہےاور½الفطرة¼ کا رسم الخط ½الكفر¼ سے ملتا جلتا ہے لہذا یہ خطِ کوفی میں باآسانی ½الكفر¼ میں تحریف وتبدیل ہو سکتا ہے([15])۔

حافظ علامہ محمد مرتضٰی زبیدی (شارح احیاء العلوم وقاموس) اپنے رسالے "الإنتصار لِوالدَي النبي المختار" میں فرماتے ہیں:میں نے ہمارے شیخ احمد بن مصطفٰی عمری حلبی مفتیِ لشکر ، عالمِ معمر کے ہاں جو کچھ لکھا ہوا دیکھا اسکا معنی ومفہوم کچھ اس طرح ہے کہ: ناسخ وکاتب نے جب لفظ ما ماتا میں ما کا تکرار دیکھا تو یہ گمان کیا کہ ایک ما زائد ہو گیا ہے لہذا اسے حذف کردیا پھر یہ غلط عبارت والا نسخہ پھیل گیا۔ اور اسکے غلط ہونے پر دلیل سیاق ِ خبر ہے کیونکہ اگر ابو طالب وابوین کریمین ایک ہی حالت (یعنی کفر) پر ہوتے تو مصنف ایک ہی جملہ کہہ کر تینوں کو ایک ہی حکم میں جمع فرماتےنہ یہ کہ دو جملوں میں تذکرہ کرتے باوجود یہ کہ ان تینوں کے حکم میں کوئی تخالف نہ ہوتا([16])۔

ملا علی قاری کا اپنے موقف سے رجوع:

ملا علی قاری علیہ رحمۃ الباری نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا اور ابوین کریمین کے ثبوتِ ایمان کے قائل ہو گئے تھے چنانچہ خود شرح شفا میں فرماتے ہیں:

(وأما إسلام أبويه ففيه أقوال، والأصح إسلامهما على ما اتفق عليه الأجلّة من الأمة كما بينه السيوطي في رسائله الثلاث المؤلفة). ("شرح الشفا" للقاري, 1/605)

یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان کے بارے میں چند اقوال ہیں اور سب سے صحیح قول انکے اسلام کا ہے جس پر امت کے جلیل القدر علماء کا اتفاق ہے جیسا کہ امام سیوطی نے اپنے تین رسالوں میں بیان فرمایا۔

اسی شرح شفا میں ایک اور جگہ ملا علی قاری فرماتے ہیں:

(وأما ما ذكروا من إحيائه عليه الصلاة والسلام أبويَه فالأصح أنه وقع على ما عليه الجُمهور الثقات، كما قال السيوطي في رسائله الثلاث المؤلفات). ("شرح الشفا" للقاري, 1/651)

یعنی یہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے والدین کو (انکے انتقال کے بعد) زندہ فرمایا (اور پھر وہ آپ علیہ السلام پر ایمان لائے) یہ درست ہے اور اسی بات پر جمہور ثقات متفق ہیں جیسا کہ سیوطی نے اپنے تصنیف کردہ تین رسائل میں فرمایا۔

نوٹ: ملا علی قاری شرح شفا کی تالیف سے 1011ھ میں فارغ ہوئے یعنی اپنی وفات سے صرف تین سال پہلے، لہذا یہ انکی آخری تالیفات میں سے ہے۔

ثبوتِ ایمان پر علما کی تالیفات وتصنیفات:

اگر فقہ اکبر کی عبارت درست ہوتی اور امامِ اعظم کا یہی موقف ہوتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا تو کثیر علما ثبوتِ ایمانِ والدین کریمین پر تصنیفات وتالیفات کا خاص اہتمام نہ کرتے اس موضوع پر علما نے جو کثیر کتب تالیف وتصنیف کی ہیں ہم ان کا مکمل احصاء وشمار تو نہیں کر سکتے لیکن ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:

(١).."شمول الإسلام لأصول الرسول الكرام" للمجدد الأعظم الإمام أحمد رضا خان, ت1340هـ

(٢).."مطلب في نجاة أبويه صلى الله عليه وسلم" للعلامة السيد محمد عبد الله الجرداني الشافعي, ت1331هـ

(٣).."الانتصار لوالدي النبي المختار" للإمام مرتضي الزبيدي, ت1205هـ

(4).."حديقة الصفا في والدي المصطفى" للعلامة أبو محفوظ الكريم المعصومي الهندي, ت1430هـ

(5).."منهاج السنة في كون أبوي النبي في الجنة" للعلامة ابن طولون الدمشقي الحنفي, ت953هـ

(6).."رسالة في أبوي النبي" لأحمد بن سليمان بن كمال باشا, ت940هـ

(7).."انباء الاصطفاء في حق آباء المصطفى" لمحمد بن قاسم بن يعقوب الأماسي, ت940هـ

(8).."تحقيق آمال الداجين في أن والدي المصطفى بفضل الله في الدارين من الناجين" للإمام ابن الجزار المصري, كان حياً سنة984هـ

(9).."الجوهرة المضية في حق أبوي خير البرية" لصالح بن محمد تمرتاشي الغزي, ت1055هـ

(10).."تأديب المتمردين في حق الأبوين" لعبد الأحد بن مصطفى السيواسي, ت1061هـ

(١1).."تحقيق النصرة للقول بإيمان أهل الفَترة"

(12).."منحة البارئ في إصلاح زلة القارئ" كلاهما لحسن بن علي بن يحيى العجيمي المكي, ت1113هـ

(١3).."السرور والفرج في حياة إيمان والدي الرسول" لمحمد بن أبي بكر المرعشي ساجقلي, ت1150هـ

(١4).."تحفة الصفا فيما يتعلق بأبوي المصطفى" لأحمد بن عمر الديربي الغنيمي الأزهري الشافعي, ت1151هـ

(١5).."بسط اليدين لإكرام الأبوين" لمحمد غوث بن ناصر الدين المدراسي ت 1238هـ

(١6).."القول المسدد في نجاة والدي محمد" لمحمد بن عبد الرحمن الأهدل الحسيني ت 1258هـ.

امام سیوطی کے چھے رسائل:

(١7)..مسالك الحنفاء في والدي المصطفى

(١8)..الدرج المنيفة في الآباء الشريفة

(١9)..المقامة السندسية في النسبة المصطفوية

(20)..التعظيم والمنة في أن أبوي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الجنة

(21)..نشر العلمين المنيفين في إحياء الأبوين الشريفين

(22)..السبل الجلية في الآباء العلية.

چوتھی مثال۔

سید المکاشفین شیخ ابن عربی (متوفٰی638ھ) جلیل القدر ولی وصوفی بزرگ گزرے ہیں([17]) ان کی متعدد عظیم تصنیفات بھی ہیں جن میں سے الفتوحات المکیہ اور فصوص الحکم بہت مشہور ہیں۔ ان کے بارے میں بعض لوگوں میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ انھوں نے اپنی تصنیفات میں فرعون کے ایمان کا قول کیا ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں بلکہ انکی عبارات سے بعض لوگوں نے دھوکاکھایا اور انکے خلاف ہوگئے چنانچہ ملا علی قاری نے بھی شرح فقہ اکبر میں شیخ اکبر ابن عربی کا رد کیا اور کہا کہ میں نے ابن عربی و جلال دوانی کے رد میں مستقل رسالہ لکھا ہے([18]) اور اسمیں فرعون کے ایمان کے قول کا رد کیا ہے([19])۔

شرح فقہ اکبر پر کام کے دوران جب ہم اس مقام پر پہنچے تو ہم نے یہاں ایک حاشیہ لگایا جس میں شیخِ اکبر کے بارے میں غلط تأثر کو رفع کیا اور ثابت کیا کہ شیخ اکبراس اعتراض سے بری الذمہ ہیں۔

آئیے اب ہم اپنے حاشیے کا خلاصہ بیان کرتے ہیں:

خلاصہ یہ ہے کہ شیخ اکبرکی عبارت سےایمانِ فرعون کا مفہوم اخذ کرنا درست نہیں اور اگر اس قسم کی کوئی عبارت ہے جس سے ایسا مفہوم نکلتا ہو تو وہ مصروف عن الظاہر ہے۔([20])

الیواقیت والجواہر للشعرانی میں ہے کہ امام نووی سے جب ابن عربی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

تلك أمة قد خلت، لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عقل وشعور رکھنے والے ہر شخص پر حرام ہے کہ اللہ کے کسی بھی ولی کے بارے میں برا گمان وخیال رکھے بلکہ اُس پر یہ واجب ہے کہ اولیاء کے اقوال وافعال کی اچھی تاویل کرے جب تک کہ خود انکے درجے ومرتبے تک نہ پہنچ جائے([21])۔اور اس تاویل سے قلیل التوفیق ہی عاجز رہے گا([22])۔

یاد رہے کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے جان بوجھ کر اپنی تصنیفات میں ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جنکے معانی تک غیر اہل شخص کی رسائی ممکن نہ ہو اور صرف وہی حضرات سمجھ سکیں جنکو سمجھانا مقصود ہو۔ مثال کے طور پر حضرت موصوف کا ایک شعر ہے جس میں خدا کو یوں پکارتے ہیں:

يا من يراني ولا أراه

كم ذا أراه ولا يراني

لفظی ترجمہ: اے وہ ذات جو مجھے دیکھتی ہے اور میں اسے نہیں دیکھتا۔۔۔کتنی مرتبہ میں تو اسے دیکھتا ہوں لیکن وہ مجھے نہیں دیکھتی۔

اس شعر سے جب کسی نے دھوکہ کھا کر حضرت موصوف سے پوچھا کہ اسکا معنی بتائیں تو آپ نے فی الفور جواب دیا:

يا من يراني مجرما

ولا أراه آخذا

كم ذا أراه منعما

ولا يراني لائذا

ترجمہ: اے وہ ذات (ذاتِ خدا) جو مجھے جرم کرتے دیکھتی ہے۔۔۔۔اور میں اسے گرفت کرتے نہیں دیکھتا

اور کتنی مرتبہ میں اسے نعمتوں کی بارش کرتے دیکھتا ہوں۔۔۔۔ اور وہ مجھے اپنی پناہ میں آتا نہیں دیکھتی([23])

قارئینِ کرام آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہو گاکہ کس طرح حضرت کے لفظ ولایرانی (وہ مجھے نہیں دیکھتا) سے اشتباہ پیدا ہوااور کس طرح حضرت نے ولایرانی لائذا کہہ کر اپنی مراد بتا دی۔اسی لئے علما نے فرمایا کہ صوفیا کی بظاہر غلط نظرآنے والی عبارات یا انکے اقوال میں جتنا ممکن ہوسکے تاویل سے کام لیکر انکے اچھے معانی بیان کئے جائیں۔ موجودہ دور میں بھی بعض لوگ اپنی کم فہمی یا ذاتی عناد کی بنا پراولیا وصوفیا کی باتوں کا غلط مقصد بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں صوفیا نے فرمایا:

حرامٌ عليهم النظرُ في كتبنا.

یعنی ایسے لوگوں کے لئے ہماری کتابوں کو دیکھنا حرام ہے۔کیوں کہ یا تو وہ خود کفر میں پڑ سکتے ہیں یا اولیا کی تکفیر کردیں گے۔

اور یہ الزام کہ شیخ اکبر نے ایمان فرعون کا قول کیا ہے تو اسکی تردید میں امام عبد الوہاب شعرانی فرماتے ہیں:

منکر ومخالف کا ایک دعوٰی یہ ہے کہ شیخ اکبر قبولِ ایمانِ فرعون کے قائل ہیں تو یہ شیخ پر کذب وافتراء ہے کیونکہ شیخ اکبر خود اپنی کتاب الفتوحات المکیہ کے باسٹھویں باب میں تصریح فرماتے ہیں کہ فرعون اُن اہل نار میں سے ہے جو کبھی بھی آگ سے نہ نکلیں گے۔اور فتوحات، شیخ کی آخری تالیفات میں سے ہے کیونکہ وہ انتقال سے تین سال قبل اس کتاب کی تالیف سے فارغ ہوئے([24])۔

امامِ اہل سنت اعلی حضرت کاابن عربی کے بارے میں موقف:

آئیے اب اس تمام تر بحث کواعلی حضرت کے ارشادات در بارہ شیخِ اکبر پر ختم کرتے ہیں۔ تاکہ ختمِ سخن ہو اور کلام کی مزید حاجت نہ رہے۔ہم یہاں صر ف ان القابات کا ذکر کریں گے جواعلی حضرت نے شیخ اکبر اور انکی تالیف الفتوحات المکیہ کو دئیے ہیں تاکہ آپ خود شیخِ اکبر کے مقام ومرتبہ کا اندازہ لگا سکیں، القابات یہ ہیں:

(١)حضرت سیدی امام المکاشفین محی الملۃ والدین شیخ اکبر ابن عربی (٢) امامِ اجل, عارف کبیر (٣) اما م الطریقۃ بحر الحقیقۃسیدنا شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی الله تعالى عنه فتوحات مکیہ شریف([25]) میں فرماتے ہیں (٤)حضر ت خاتم الولایۃ المحمدیۃ فی زمانہ بحر الحقائق ولسان القوم بجنانہ وبیانہ سیدی شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نَفَعَنا اللهُ فی الدّارَين بفَيضانه.

ختم شد



([1]) (منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر اللہ سبحانہ اوجد المخلوقات مصطفی البابی مصر ص۳۹)

([2]) (منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر اللہ سبحانہ اوجد المخلوقات مصطفی البابی مصر ص۳۹)

([3]) (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحرثم ان الفاظ الکفر انواع دار احیا التراث العربی بیروت۱/ ۶۹۰)

([4]) ( منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر فصل فی الکفر صریحا وکنایۃ مصطفی البابی مصر ص۱۹۳)

([5]) ( منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر , مصطفی البابی مصر ص72)

([6]) ( منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر , دار البشائر الاسلامیہ بیروت، ص216)

([7]) تقدیرِ عبارت یوں ہوگی: اذا صح ہذا فلما ذا قتلہمااصحاب۔۔۔۔۔۔الخ۔

([8]) جیسا کہ امام زاہد کوثری فرماتےہیں: وعليّ القاري بنى شرحَه على النسخة الخاطئة وأساء الأدب سامحه الله. (مقدمة "العالم والمتعلم" للكوثري ص:7)

([9]) ( منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر , دار البشائر الاسلامیہ بیروت، ص310)

([10]) (ما حرفِ نفی ہے)

([11]) امام زاہد کوثری کی عبارت یہ ہے: وإني بحمد الله رأيت لفظ (ما ماتا) في نسختين بدار الكتب المصرية قديمتين كما رأى بعض أصدقائي لفظَي ½ما ماتا¼ و½ماتا على الفِطرة¼ في نسختين قديمتين بمكتبة شيخ الإسلام, وعليّ القاري بنى شرحَه على النسخة الخاطئة وأساء الأدب سامحه الله. (مقدمة "العالم والمتعلم" للكوثري ص:7)

([12]) علامہ طحطاوی کی عبارت یہ ہے: وما في "الفقه الأكبر" من أن والدَيه صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر فمدسوس على الإمام, ويدل عليه أن النسخ المعتمدة منه ليس فيها شيء من ذلك. (حاشية الطحطاوي على الدر,كتاب النكاح, باب نكاح الكافر, ٢/٨٠)

([13]) علامہ بیجوری کی عبارت یہ ہے: ما نقل عن أبي حنيفة في "الفقه الأكبر" من أن والدَي المصطفى ماتا على الكفر فمدسوس عليه، وحاشاه أن يقول ذلك. وغلط ملا علي القاري غفر الله له في كلمة شنيعة قالها. (تحفة المريد شرح جوهرة التوحيد ص:69)

([14]) اس تمام بحث کو کسی نے یوں بیان کیا ہے: الذي يقرأ: (وأبو طالب مات كافرا) بعد النص الذي نقله ملا عليّ القاري يقول معترضاً حالا: إذا كان والدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر وأبو طالب كذلك فكان حق الكلام أن يكون هكذا: ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو طالب ماتوا كفارا، لا أن يذكر كفر أبويه صلى الله عليه وسلم وحده ويذكر كفر أبي طالب عقبه وحده.

([15]) امام زاہد کوثری کی عبارت یہ ہے: ففي بعض تلك النسخ: (ماتا على الفطرة) و½الفطرة¼ سهلة التحريف إلى ½الكفر¼ في الخط الكوفي. (مقدمة "العالم والمتعلم" للكوثري ص:7)

([16]) حافظ علامہ محمد مرتضٰی زبیدی کی عبارت یہ ہے: وكنتُ رأيتها بخطه عند شيخنا أحمد بن مصطفى العمري الحلبي مفتي العسكر العالم المعمر ما معناه: إن الناسخ لمّا رأى تكرُّر ½ما¼ في ½ما ماتا¼ ظن أن إحداهما زائدة فحذفها فذاعت نسختُه الخاطئة، ومن الدليل على ذلك سياق الخبر لأن أبا طالب والأبوين لو كانوا جميعاً على حالة واحدة لجمع الثلاثة في الحكم بجملة واحدة لا بجملتين مع عدم التخالف بينهم في الحكم. (مقدمة "العالم والمتعلم" للكوثري ص:7)

([17]) انکی پیدائش کا واقعہ مشہور ہے کہ انکے والد گرامی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی چنانچہ آپ غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ جناب میرے ہاں اولاد نہیں دعا فرمائیں کہ نیک وصالح اولاد ملے۔ غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے سر جھکا کر مراقبہ فرمایا اور کچھ دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا کہ تمہارے نصیب میں اولاد نہیں ہے، لیکن انہیں بزرگوں سے لینے کے آداب معلوم تھے عرض گزار ہوئے کہ حضرت اگر میرے مقدر میں اولاد ہوتی تو میں آپ سے لینے کیوں آتا، میں تو اپنے مقدر میں آپ سے اولاد لکھوانے آیا ہوں۔ یہ سن کر غوث اعظم جلال میں آگئے اور فرمایا : ادھر آؤ اور میری پشت سے اپنی پشت رگڑو، میری صلب میں صرف ایک بیٹا رہتا ہے یہ لے جاؤ، اس طرح محی الدین ابن عربی پیدا ہوئے۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: میری تقدیر بری ہو تو بھلی کردے کہ ہے۔۔۔محو واثبات کے دفتر پر کروڑا تیرا

([18]) اس رسالہ کا نام ہے : فرالعون ممن یدّعی ایمان فرعون۔ (ایضاح المکنون، ھدیۃ العارفین)

([19]) ملا علی قاری کی عبارت یہ ہے: وفيه رد على ابن العربي ومن تبعه كالجلال الدواني, وقد ألفت رسالة مستقلة في تحقيق هذه المسألة وبينت ما وقع لهم من الوهم فى المواضع المشكلة وأتيت بوضوح الأدلة المستجمعة من الكتاب والسنة ونصوص الأئمة. (منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر , دار البشائر الاسلامیہ بیروت، ص98)

([20]) یعنی اسکا ظاہر ی معنی مراد نہیں۔

([21]) اور جب انکے مرتبے پر پہنچ جائے گا تو انکے قول کے صحیح معنی خود جان لے گا اور صرف اندازے سے تاویل نہیں کرنی پڑے گی. (علمیہ)

([22]) فسئل الإمام محي الدين النووي عن الشيخ محي الدين بن عربي فقال: تلك أمة قد خلت, ولكن الذي عندنا أنه يحرم على كل عاقل أن يسيء الظن بأحد من أولياء الله عزوجل ويجب عليه أن يؤول أقوالهم وأفعالهم ما دام لم يلحق بدرجتهم ولا يعجز عن ذلك إلا قليل التوفيق. (اليواقيت والجواهر للشعراني, ص:12)

([23]) یعنی (گناہوں کو چھوڑ کر) اپنی پناہ میں آتا نہیں دیکھتی۔ (علمیہ)

([24]) قال الإمام عبد الوهاب الشعراني قدس سره الرباني: ومِن دعوى المنكِر أن الشيخ يقول بقبول إيمان فرعون وذلك كذب وافتراء على الشيخ، فقد صرح الشيخ في الباب الثاني والستين من "الفتوحات" بأن فرعون من أهل النار الذين لا يخرجون منها أبد الآبدين و"الفتوحات" من أواخر مؤلفاته فإنه فرغ منها قبل موته بنحو ثلاث سنين. (اليواقيت والجواهر, ص:17)

([25]) اس لفظ سے فتوحات مکیہ کی شرافت ومنزلت کا پتا چلتا ہے، اگر شیخ اکبر نے اس میں ایمانِ فرعون کا قول اختیار کیا ہوتا تو اعلی حضرت اس کتاب کو" شریف" نہ فرماتے، فافہم۔ (علمیہ)


دینی کتب کا مطالعہ کرنے والے بخوبی  جانتے ہیں کہ حوالہ جات میں بارہا فردوس الاخبار ، الفردوس بماثور الخطاب ، مسند الفردوس کے نام آتے ہیں ، کئی طلبہ ناواقفیت کی بنا پر ان کتب کو ایک ہی کتاب کا نام سمجھ لیتے ہیں جبکہ بعض طلبہ ایک کتاب کے نام کو دوسری کتاب کا نام سمجھ بیٹھتے ہیں ، سو اس طرح کی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے یہ مضمون ترتیب دیا گیا ہے جس میں ضمناً مختلف علمی و منہجی فوائد ذکر کیے گئے ہیں ۔

بنیادی مقدمات:

اصل موضوع سے پہلے چند ایک باتیں عرض کرتا ہو ں ، اللہ نے چاہا تو طلبہ کرام کے لیے مفید ثابت ہونگی :

٭طالب علم کو چاہیے کہ جس علم کو بھی پڑھے ، تو پڑھنے کیساتھ اس علم پر لکھی کتابوں کی معرفت حاصل کرے کہ اس فن کی بنیادی اور مشہور کتابیں کون کون سی ہیں ، ان کے مصنف کون ہیں ، کس صدی سے ان کا تعلق ہے ،اسی طرح کتاب کا کیا منہج واسلوب ہے اور اگر اس کتاب پر شروح وحواشی وغیرہ لکھے گئے ہیں تو وہ کونسے ہیں وغیرہ ۔

٭ کسی علم یا فن میں تخصص اور مہارت کا ارادہ رکھنے والا وہ طالب علم جواس فن میں اپنی تحقیقی خدمات بھی سرانجام دینا چاہتا ہو یہ اس کے لئے انتہائی ضروری ہے ، کیونکہ اگر اسے کتابوں کے عروج و ارتقا کا معلوم نہ ہوگا تو وہ فن کے ارتقا کو کیسے سمجھے گا اور کس طرح تسلسل کیساتھ فن کو پڑھ اور سمجھ سکے گا ۔ یہاں میں اپنے دور کے ایک بڑے امام کی عبارت ذکر کرتا ہوں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتابوں کی صحیح معرفت کتنی ضروری ہے ۔ چنانچہ امام ابو العباس احمد بن خطیب فرماتے ہیں : یہ بات جان لو ! کہ کتابو ں اور ان کے مصنفین کی معرفت فنون میں سے ایک فن ہے اور لا جواب و کمال فن ہے ، اسی طرح فقہاء کے طبقات اور کس فقیہ کا کس زمانے سے تعلق رہا ، اس کو جاننا بھی طالب علم کے لیے انتہائی ضروری ہے ، اسی طرح جو اس طالب علم کے زمانے میں لکھا جارہا ہے اس کا بھی علم ہونا ضروری ہے ۔ ( فہرس الفہارس ،ج1، ص 84)

٭ اب کتاب کے منج واسلوب سے آگہی کے طریقےذکرکئے جاتے ہیں :

1)کتاب کا نام : عام طور پر ہمارے اسلاف کتب کے نام ایسے رکھتے ہیں کہ پڑھ کر ہی کتاب کی اہمیت اور اس کے اسلوب پر بھی اجمالی نظر پڑ جاتی ہے ۔جیسے بخاری شریف کا اصل نام ” الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ وسننہ و ایامہ“ہے ، اگر ہم اس نام کی روشنی میں صحیح بخاری کا منہج لکھیں تو کتاب تیار ہوسکتی ہے۔

2)مقدمہ ِ کتاب : عام طور پر ہمارے ائمہ ِ اسلام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ مقدمہ میں کتاب لکھنے کی وجہ اور اس کا اسلوب بیان کردیتے ہیں ، مثلا اس میں کس علم پر گفتگو ہوگی؟ کتنے ابواب ہونگے؟اور ان ابواب کے تحت کتنی فصول ہونگی؟ ( اگر اس کا شاندار نظارہ کرنا چاہیں تو ایک نظر امام غزالی کے لکھے ہوئے احیاء علوم الدین کے مقدمہ کو پڑھ لیجیے ) ۔ دور حاضر میں تحقیق و تصنیف کا معیاری طریقہ جسے ” البحث العلمی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اس میں بتایا جاتا ہے کہ مصنف پر لازم ہے کہ وہ کتاب کی ابتدا میں واضح کردے کہ وہ یہ کتاب کیوں لکھ رہا ہے ، اس نے یہ موضوع کیوں اختیار کیا اور کتاب لکھنے کا کیا طریقہ کار ہوگا وغیرہ وغیرہ۔اس طریقہ بحث کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ اس کے لانے والے اور سب سے پہلے پیش کرنے والے ” مغربی ماہرین ِ تعلیم “ ہیں حالانکہ ان ماہرین ِ تعلیم کے دنیا میں آنے سے بہت پہلے ہمارے ائمہ دین اپنی کتابوں کے شروع میں مقدمہ کے نام سے یہ ساری چیزیں ذکر کرتے آرہے ہیں ۔ بس اس وقت یہ نیا نام نہ تھا تو کیا نام نہ ہونے سے یا نام کے آج ہونے سے فیصلہ ہوگا کہ کون اس طریقہ ِ تصنیف کا موجد ہے ۔ خلاصہ یہ کہ یہ بات واضح ہے کہ تصنیف و تالیف میں اس طریقہ ِ تصنیف کے موجد ہمارے ائمہ اسلام ہی ہیں ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایک غلط رواج چلا ہوا ہے کہ جب کتاب شروع کی جاتی ہے تو یہ کہہ کر کہ ” اصل کتاب ہے“ ، مقدمہ چھڑوا دیا جاتاہے ، یوں طالب علم پوری کتاب پڑھ لینے کے باوجود بھی صحیح انداز میں اسلوب ِ کتاب بیان کرنے سے عاجز رہتا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ مقدمہ پڑھا جائے بلکہ انتہائی توجہ سے استاد ہی پڑھا دے کہ مقدمات الکتب کنوز مخفیۃ ۔

3)کتاب کا دقتِ نظری سے مطالعہ کرکے اسلوب و منہج کا استقرا کرنا :کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کرکے اس کے منہج واسلوب سے آگائی ہوسکتی ہے ۔

4) تعارف علم وکتب پر لکھی کتب کا مطالعہ :

وہ کتابیں جن میں علوم اسلامیہ اور ان علوم کی کتابوں کا تعارف ہو ، اسی طرح وہ کتابیں جن میں مصنفین کا تعارف ذکر کیا جاتا ہے مثلا کشف الظنون ، ہدیۃ العارفین ، مفتاح السعادۃ ، خاص حدیث کے موضوع پر ” الرسالۃ المستطرفہ فی بیان کتب السنۃ المشرفہ “اسی طرح فقہائے ا حناف کے لیے ” الطبقات السنیہ فی تراجم الحنفیۃ“ وغیرہ ( اللہ نے چاہا تو اس موضوع پر ایک مقالہ لکھا جائے گا )، الغرض اپنے فن سے متعلقہ کتاب لیکر اس کے مصنف کے احوال کو دیکھا جائے ۔

اب اختصار کیساتھ اصل موضوع پر آتا ہوں ۔

شہاب الاخبار فی الحکم والامثال والمواعظ والآداب

سب سے پہلے امام شہاب بن سلامہ القضاعی ( م454) نے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نےاخلاق و آداب کے موضوع پر اپنی مسموعات میں سے اسناد کو ذکر کیے بغیر 1200قصار (چھوٹی) احادیث جمع کیں ،جس کا نام انھوں نے ”شہاب الاخبار فی الحکم والامثال والمواعظ والآداب“رکھا ۔ یہ الگ سے تو مطبوع نہیں ہے البتہ دار النوادر سے ایک شرح کیساتھ چند سال قبل شائع ہوئی ہے ۔

مسند الشہاب :

امام قضاعی نے مذکورہ کتاب کے علاوہ ایک اور کتاب لکھی جس میں ”شہاب الاخبار “ کی سندوں کو ذکر کیا بنام ” مسند الشہاب فی الحکم والامثال والمواعظ والآداب “۔ اس میں اولا متن کا ایک جز ذکر کرکے اس کی سند ذکر کرتے ہیں اور پھر پورا متن ذکر کردیتے ہیں ۔ یہ دو جلدوں میں مطبوع ہے ۔

فردوس الاخبار :

پھر امام ابو شجاع شیرُوَیہ بن شھردار بن شیرویہ الدیلمی الہمدانی (م 509) آئے ،انھوں نے مسند شہاب پر اضافے اور اسلوب کی تبدیلی کیساتھ ایک کتاب مرتب کی ۔ کتاب کے نام میں دو قول ہیں ، خود مصنف نے کتاب کے مقدمہ میں ” الفردوس بماثور الخطاب “ ذکر کیا جبکہ علامہ عبد الحی الکتانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” فردوس الاخبار بماثور الخطاب المخرج علی کتاب الشہاب “ذکر کیا ہے ۔( الرسالۃ المستطرفہ ،ص:73، ط: دار البشائر الاسلامیہ )۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ عام طور پر ہمارے یہاں کے مطبوعہ نسخوں پر اس کا نام ” مصنف کے ذکر کردہ نام سے ہٹ کر ”فردوس الاخبار“لکھا ہوتا ہے ، مثلا دار الفکر بیروت ،دار الکتاب العربی وغیرہ کے نسخوں پر ” فردوس الاخبار “ نام لکھا ہے ، جبکہ دار الکتب العلمیہ کے سن 2010 میں چھپے ہوئے نسخے پر ” مسند الفردوس وہو الفردوس بماثور الخطاب “ لکھا ہے ، (ہمارے ہاں دونوں نسخے موجودہیں ۔)اس میں نام کی تصحیح تو ہوگئی ، لیکن مسند الفردوس لکھ کر قارئین کو اشتبا میں ڈال دیا حتی کہ بعض طلبہ اس سے سمجھنے لگے کہ ” الفردوس بماثور الخطاب “ کا دوسرا نام مسند الفردوس ہے اور ایک کتاب ہے جس کا نام فردوس الاخبار بماثور الخطاب “ ہے ۔ حالانکہ فردوس الاخبار اور الفردوس بماثور الخطاب یہ دونوں ایک ہی کتاب کے نام ہیں جبکہ مسند الفردوس ایک دوسری کتاب ہے جو ان کے بیٹے نے لکھی ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اس میں احادیث کی تعداد کتنی ہے ؟ مقدمہ میں بیان کیا کہ اس میں دس ہزار احادیث ہیں (فردوس الاخبار ،ج1،ص 40)جبکہ ہمارے یہاں مطبوعہ نسخے میں 9056 ہیں ۔

لطيف  نکتہ : مصنف  کا  نام ” شیرویہ “ ہے ، اس طرح کے دیگر نام  بھی ہیں  مثلا  سیبویہ ، راہویہ وغیرہ   ان  کو  کس طرح پڑھا جائے گا  اس سے متعلق دو قول ہیں :

1)علمائے نحو  کے نزدیک: واو  اور اس سے پہلے والے حرف پر زبر  ، یاء  پر جزم  ، پھر ہاء ہے  یعنی سیبَوَیْہ، شیرَوَیْہ وغیرہ۔ہمارے ہاں یہی رائج ہے۔

2) علمائے حدیث کے نزدیک :   جس طرح فارسی میں پڑھا جاتا ہے ، اسی طرح پڑھتے ہیں  ۔واو سے پہلے والے حرف پر پیش ، واو پر جزم ، یاء کے فتحہ  ، پھر ہاء ساکن  ۔ یعنی سیبُوْیَہ، شیرُوْیَہ وغیرہ  ( تدریب الراوی ، ص338)

الفردوس بماثور الخطاب کا منہج و اسلوب :

الفردوس بماثور الخطاب کی اصل ” مسند شہاب “ ہے ، لہذا اس تناظر میں کتاب کا جو اسلوب سامنے آیا ، اس کے چند نکات پیش ہیں :

۱)احادیث کی سندوں کا حذف ۔

۲)احادیث کو مختصر کرکے ذکر کرنا ۔ اگر کہیں طویل حدیث آجائے تو مختصر ذکر کرکے ” الحدیث “ کہہ کر رک جانا ۔

۳)ہر حدیث کے شروع میں عبارت سے الگ کرکے صحابی راوی کا نام ذکر کرناجسے ” ہامش الکتاب “ کہتے ہیں ( ہمارے مطبوعہ نسخوں میں عبارت کیساتھ ہی ذکر کردیا جاتا ہے) ۔

۴)حروفِ معجم کی ترتیب پر ابواب بندی ۔ ( خیال رہے کہ اس کتاب میں حروف معجم کی ترتیب پر ابواب ہیں ، جبکہ امام سیوطی علیہ الرحمہ کی الجامع الصغیر میں احا دیث ہیں )۔

۵)احادیث کو الفاظ کے ہم شکل ہونے کے اعتبار سے فصول میں تقسیم کرنا ۔

مسند الفردوس :

صاحب ”الفردوس بماثور الخطاب “ کے بیٹے ” امام ابو منصور شَھَردار بن شیرُویہ (م 558)“آئے ، انھوں نے الفردوس بماثور الخطاب پر یہ کام کیا کہ اس کی اسانید جمع کیں اور احادیث کا اضافہ بھی کیا ۔امام ذہبی لکھتے ہیں : حافظ الحديث امام شهردار بن شیرویہ الدیلمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد ِ محترم کی کتاب ” الفردوس بماثور الخطاب “ کی اسانید جمع کی ہیں ، میں نے شہرِ مَرْوْ میں اس کا ایک مکمل اور مہذب نسخہ دیکھا تھا۔ ( سیر اعلام النبلاء ، ج20، ص 376)۔ اس كا نام كيا ہے اس میں دو قول ہیں : عام مخطوطات پر ” مسند الفردوس “ لکھا ہے ،جبکہ امام عبد الروف مناوی رحمۃ اللہ علیہ اور امام عبد الحئی الکتانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” إبانة الشبه في معرفة كيفية الوقوف على ما في كتاب الفردوس من علامات الحروف“ ذکر کیا ہے ۔( فیض القدیر ، ج1، ص 37۔ الرسالۃ المستطرفہ ، ص 73)

احادیث کی تعداد ”17000“ سے زیادہ ہیں ۔(تسديد القوس في ترتيب مسند الفردوس ، مخطوط )

مسند الفردوس کا منہج و اسلوب :

مسند الفردوس ابھی تک شائع نہیں ہوئی ، تسدید القوس جو حافظ ابن حجر کا لکھا ہوا مسند الفردوس کا اختصار ہے ، وہ بھی ابھی تک مکمل شائع نہیں ہوا، تسدید القوس کے کچھ حصے دار الکتاب العربی والی” الفردوس بماثور الخطاب “ کیساتھ شائع ہیں ۔البتہ اس ” تسدید القوس مختصر مسند الفرودس “ کا کامل مخطوط پی ڈی ایف میں ہمارے پاس موجود ہے ۔ ابتدا ء میں حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس کے مقدمہ کا کچھ حصہ ذکر کیا ہے ، جس کی مدد سے ہم نے مسند الفردوس کا اسلوب تحریر کیا ہے ۔ اسی طرح حافظ ابن حجر کا اس کتاب پر ایک اور کام بنام ”زہر الفردوس “ جو ” الغرائب الملتقطہ“ سے بھی معروف ہے ، جو چند سال قبل ہی شائع ہوا ہے اس کے مقدمہ سے بھی ہم نے معاونت لی ہے ۔

1)ابتدا ء ایک مقدمہ لکھا ، جس میں کتاب لکھنے کی وجہ بتائی کہ اپنے والد ” امام ابو شجاع الدیلمی م 509“کی مذکورہ کتاب میں موجود احادیث کی اسناد ذکر کرنا۔

2)احادیث کی ترتیب میں تبدیلی نہیں کی بل کہ اصلِ کتاب ” الفردوس بماثور الخطاب “کی ترتیب کو ہی برقرار رکھا ہے ۔

3) الفردوس پر احادیث کا اضافہ ۔ چونکہ ان کے والدمحترم نے احادیث قصار کا التزام کیا تھا ،لیکن انھوں نے کام کو وسعت دی اور طویل احادیث کو بھی ذکر کیا ۔ جس کے سبب احادیث کی تعداد 17000 ہزار سے بھی بڑھ گئی۔

4) الفردوس بماثور الخطاب ، اسی طرح اضافہ کردہ احادیث کی تخریج بھی کی ، تخریج میں صحیحین سے ابتدا کرتے ہیں اگر اس میں نہ ہو تو دیگر کتب کے حوالے ذکر کرتے ہیں۔

5)تخریج میں انھوں نے کتب ِ مستخرجا ت کا اسلوب اپنایا ہے کہ تھوڑی بہت لفظی تبدیلی کے باوجود حوالہ مُسَلَّم ہوتا ہے جب کہ حدیث کا سیاق و سباق ایک ہی رہے اور اس حدیث کے راوی صحابی بھی ایک ہی ہوں ۔

6)ابتدا ء میں کتب کے اشارات بیان کردیے ہیں تاکہ تخریج میں تکرار سے بچا جاسکے۔

7)اولا حدیث ذکر کرتے ہیں ، پھر مکمل سند بیان کرکے ”الحدیث“ لکھ کر سابقہ متن کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔

8،9،10)الفاظ میں اختلاف ہو تو اسے بھی بیان کرتے ہیں، اسی طرح بعض اوقات مشکل الفاظ کے معانی بھی بیان کرتے ہیں۔ بسااوقات یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث ان کے علاوہ کس کس صحابی سے مروی ہے ۔

اس کتاب میں مصنف نے ان کتب سے بھی احادیث لی ہیں جو مفقود ہوچکی ، اسی طرح ایسی احادیث بھی ہیں جو مشہور و معروف کتب میں نہیں پائی جاتی اور مصنف نے محنت کرکے انہیں جمع کیا ہے ، اس لیے علما نے تخریج ِ حدیث کے لیے اسے حدیث کا ایک اہم مصدر قرار دیا ۔

اس کتاب پر ہونے والے کام :

حافظ ابن حجر م 856نے اس کتاب پر دو کام کیے :

تسدید القوس فی ترتیب مسند الفردوس :

اس میں حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس کا اختصار کیا ہے ۔ طریقہ کار یہ ہے کہ ہر حدیث کا ابتدائی حصہ یا معروف حصہ ذکر کرتے ہیں ، اس کے ساتھ تخریج بھی کرتے ہیں کہ کس کتاب میں یہ روایت موجود ہے ۔

منہج و اسلوب :

اس کتاب میں حافظ ابن حجر کے پیش نظر اختصار ہے ۔ انھوں نے تین چیزوں میں اختصار سے کام لیا ہے :

1)احادیث ذکر کرنے میں : کیونکہ حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس میں ذکر کردہ تمام احادیث ذکر نہیں کیں ، بل کہ ان میں سے احادیث کو منتخب کیا ہے ۔

2)متن ِ حدیث میں اختصار: حافظ ابن حجر متن حدیث بھی مکمل ذکر نہیں کرتے بلکہ اس کا ایک معروف حصہ ذکرکردیتے ہیں ۔

3) طریقہ ِتخریج میں اختصار: صاحب مسند الفردوس کا تخریج میں کیا انداز ہے ، پیچھے گزر چکا ، چونکہ تخریج بھی کتاب کی طوالت کا سبب تھا ، اسی لیے حافظ ابن حجر نے تخریج میں بھی اختصار کیا بایں طور کہ محض مصنفِ کتاب کا نام ذکر کیا ۔ البتہ ضرورتاً کتاب کا نام بھی ذکر کردیتے ہیں ۔

زہر الفردوس :

بعض نے اس کا نام ” الغرائب الملتقطہ“ بھی ذکر کیا ہےشائع شدہ نسخے میں یہیں نام لکھاہے لیکن صحیح طور پر”زہر الفردوس “ ہی ثابت ہے ، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے حالات و سوانح پر لکھی کتاب میں آپ کے جلیل القدر شاگرد ” امام عبد الرحمن السخاوی “ نے اس کا نام یہی ذکر کیا ہے ۔ دیکھیے : الجواہر والدر ر،ج2، ص 667

زہر الفردوس پر منہج و اسلوب کے طریقوں کی تطبیق :

1)کتاب کا نام : زہر الفردوس۔الغرائب الملتقطہ ( چونکہ یہ نام بھی منقول ہے اس لیے اسے بھی لیا گیا ہے) : اس نام کا جب دقیق نظر سے جائزہ لیا تو یہ امور واضح ہوئے :

حافظ ابن حجر کی اس کتاب کا تعلق ” مسند الفردوس “ سے ہے یعنی یہ مسند الفردوس پر کسی نوعیت کا کام ہے ۔

زہر کا اصولی اور اساسی معنی ہے : خوبصورتی ، چمک دمک وغیرہ ، چونکہ پھول بھی ایک خوبصورت شے ہے اس لیے اسے بھی ” زہر یا زہرۃ “ کہا جاتا ہے ۔ اس کی مناسبت جو سمجھ آرہی ہے ، وہ یہ ہے : : در اصل مسند الفردوس میں احادیث دو طرح کی ہیں : بعض احادیث وہ ہیں جو معروف ہیں اور دیگر کتب ِ مشہورہ میں بھی بآسانی مل جاتی ہیں جبکہ دیگر بعض احادیث غیر معروف کتب میں پائے جانے کی وجہ سے بآسانی نہیں ملتی۔لہذا اس کتاب کا اصل کمال اور حسن ” ان احادیث کا ایک جگہ مل جانا “ ہے ،لہذا معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر اپنی اس کتا ب میں مسند الفردوس سے فقط انہی احادیث کا انتخاب کریں گے جو زیادہ معروف نہیں ہیں ، اسی لیے اس کا دوسرا نام ” الغرائب الملتقطہ من مسند الفردوس “ ہے یعنی مسند الفردوس سے ان احادیث کا انتخاب جو زیادہ معروف نہیں ۔

2)مقدمہ ِ کتاب : حافظ ابن حجر نے مقدمہ کتاب کے طور پر چند سطور ذکر کی ہیں ، ان سے جو منہج و اسلوب سامنے آیا وہ نکات کی صورت میں پیش ہے :

۱)اس کتاب میں درج احادیث مسند الفردوس کا ایک حصہ ہیں ، پوری کتاب پر کام نہیں ہے ۔

۲)حافظ ابن حجر نے منتخب کردہ احادیث کا ” اسماء الرجال “ کے اعتبار سے تعین کیا ہے کہ آیا وہ حدیث صحیح ، حسن یا ضعیف ہے ۔ ( یہ حافظ ابن حجر نے مقدمہ میں بیان کیا ہے لیکن آگے جا کر احادیث پر حکم لگانے میں ہر جگہ اسے ملحوظ نہیں رکھا۔)

۳) حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس سے جن احادیث کا انتخاب کیا ہے ان میں سے اکثر احادیث ” غیر معروف کتب“ سے لی گئی ہیں ، اس بات کو بیان کرکے حافظ ابن حجر نے مشہورکے نام ذکر کیے ہیں : کتب ستہ ، مسند امام شافعی ، مسند امام احمد ، امام طبرانی کی تینوں معاجم ، مسند ابو یعلی ، مسند احمد بن منیع، مسند ابو داود الطیالسی ، مسند حارث بن ابو اسامہ ۔

پھر لکھا کہ اس کے علاوہ دیگر کتب سے لی ہوئی احادیث ، اسی طرح وہ حدیثیں جن کی سند صاحب مسند الفردوس نے ذکر کی لیکن کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا یا ان کے والد نے ذکر کیں لیکن بیٹے نے اس کی تخریج نہیں کی ، اس طرح کی تمام احادیث اس تعلیق میں مذکور ہیں۔ ( اس میں الغرائب الملتقطہ کے مقدمہ سے بھی مدد لی گئی ہے )

3)کتاب کا دقتِ نظری سے مطالعہ کرکے اسلوب و منہج کا استقرا کرنا : استقرا سے جو اسلوب و مناہج واضح ہوئے ، ان میں سے بعض یہ ہیں :

1) کتاب کے شروع میں ایک مقدمہ ذکر کیا ، جس میں مختصر اسلوب واضح کیا۔

۲)اصل ( مسند الفردوس ) کی ترتیب پر ہی احادیث کو باقی رکھا ۔

۳) احادیث کو صاحب کتاب کی سند سے ذکر کرنا ۔

۴) بسااوقات حافظ ابن حجرتخریج کرنے میں اختصار کے پیش ِ نظر صاحب ِکتاب کی مصنف ِ کتاب تک ذکر کردہ سند کو حذف کردیتے ہیں ، فقط مصنف کا نام ذکر کردیتے ہیں۔

۵) کبھی کبھار احادیث کو بالمعنی بھی روایت کرتے اور الفاظ ِ حدیث میں تقدیم و تاخیر کرتے ہیں ۔

۶) امام دیلمی کی سند میں اگر کہیں سقط واقع ہوا ہے تو اسے اصل کے مطابق مکمل کردیتے ہیں ۔

۷)بسااوقات حدیث ذکر کرنے کے بعد کسی راوی کا حال بھی ذکر کردیتے ہیں، راوی کا حال بیان کرنے میں یاتو اپنا تحقیقی حکم نقل کرتے ہیں یا پھر کسی ناقد کا قول ذکر کرتے ہیں۔

۸) کبھی کبھار راویِ حدیث کی کسی نے متابعت کی ہو تو اس کی جانب اشارہ کردیتے ہیں۔

۹) سند ا حدیث مرفوع ہے یا موقوف، اسی طرح متصل ہے یا منقطع ،ا س میں اگر اختلاف تو اسے بیان کرتے ہیں ۔

۱۰) بعض اوقات حدیث ذکر کرنے کے بعد اس پر صریح حکم بھی ذکر کردیتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ، یہ ضعیف ہے وغیرہ وغیرہ

۱۱) چند ایک مقامات پر احادیث میں آنے والے مشکل اور غریب الفاظ کے معانی بھی ذکر کیے ہیں ۔

۱۲) بسااوقات ایک صحابی سے حدیث کو ذکر کرکے دوسرے صحابی سے مروی ہونے کی جانب اشارہ کردیتے ہیں۔

قاسم بن قطلو بغا: اسی طرح حافظ ابن حجر کے شاگرد رشید ” امام حافظ قاسم بن قطلوبغا الحنفی رحمۃ اللہ علیہ “ نے بھی مسند الفردوس پر ایک کام کیا تھا ( فہرس الفہارس ، ج2، ص :972)لیکن یہ مطبوع نہیں ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ یہ ان کتب میں سے ہے جو ہم تک نہ پہنچی۔

الفردوس بماثور الخطاب میں موجوداحادیث کی تخریج کے لیے اقدامات:

چونکہ الفردوس بماثور الخطاب میں بغیر سند کے احادیث ہیں اور وہ کتاب جس میں اس کی اسانید جمع کی گئی ہیں وہ مخطوط ہے تو ایسی صورت میں اگر کہیں الفردوس سے حدیث آئے تو یہ اقدامات کیے جائیں :

1)” زہر الفردوس “ کو لازما دیکھئے کہ اس میں حافظ ابن حجر نے کافی احادیث بالخصوص غیر معروف احادیث کی اسانید جمع کردی ہیں اور ساتھ ہی کئی ایک مقامات پر راویوں پر حکم بھی لگایا ہے ، اسی طرح بعض احادیث پر بھی حکم لگایا ہے ۔

2)اگر اس میں نہ ملے تو ” کتب ستہ“ میں اجمالی طور پر دیکھنے کے لیے ” جامع الاصول فی احادیث الرسول “ کو دیکھئے کہ اس میں کتب ستہ کی احادیث کو مکررات کے بغیر جمع کردیا گیا ہے ۔

3(اسی طرح مجمع الزوائد میں دیکھئے کہ اس میں مسانید ثلاثہ ” مسند احمد ، مسند ابو یعلی اور مسند بزار “ اور امام طبرانی کی معاجم ثلاثہ ” المعجم الکبیر ، المعجم الصغیر اور المعجم الاوسط ) کو جمع کردیا گیا ہے ۔

4)اس میں نہ ملے تو کنز العمال میں تلاش کریں وہاں اکثر طور پر مل جائے گی اور ساتھ میں مصدر سے تخریج بھی ہوگی ،یوں اصل مصدر تک پہنچ سکتے ہیں ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علم ِ نافع ، عمل صالح عطا فرمائے اور مطالعے کا شوق و ذوق دے ! آمین 


لائبریری" لاطینی" زبان کا لفظ ہے جو "لائبر "سےبنا ہے اس کا معنی ہے کتاب ،سادہ الفاظ میں یوں سمجھئے کہ لائبریری اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کتابوں، رسالوں، اخباروں اور معلوماتی مواد کو جمع کیا جاتا ہے۔ اردواور فارسی میں اس کےلئے کتب خانہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جب کہ عربی میں اس کا مترادف لفظ خزانة الکتب ،مکتبہ اور دارالکتب ہے۔لائبریری دراصل ایسا عظیم مقام ہے جہاں ہزاروں سالوں کا فکری و علمی اثاثہ لاکھوں کروڑوں اربابِ علم و دانش کی ذہنی اور قلمی کاوشوں کا ثمرہ اور حاصل جمع ہوتا ہے۔ جہاں الہامی کتب، بعض انسانی استعداد اور شعوری وسعت کے مفاہیم کے لفظی مجموعے، محدّثین و مفسّرین کی تفاسیر و شروحات کا مجموعہ،محققین و مفکرین کی تحقیقات و افکارکا علمی خزانہ، مصنفین و مترجمین کی کتب و تراجم ،انسانی تحریرات کا سرمایہ، علوم و فنون کی دولت،شاعروں، نثرنگاروں، ادیبوں اور خطیبوں کی قلمی فتوحات کا ذخیرہ یکجا ایک چھت کے نیچے میسر ہوتا ہے۔ لائبریری میں داخل ہونے والا لاکھوں نابغہ روزگار صفحہ ہستی کے شاہکار لوگوں سے بغل گیر اور ہم کلام ہوتا ہے اور ان کی فکری روشنی سے جہانِ ذہن و قلب کو جگمگاتا ہے ۔

لائبریری کی اہمیت

لائبریری علم و فکر اور تعلیم و تعلم کا مظہر و مرکز ہے ’’کتب‘‘سفاہت سے معرفت، جہالت سے علم اور ظلمات سے نور کی طرف لے جاتی ہیں ، کسی بھی قوم کو کسی بھی میدان میں عملی تجربات سے قبل نظریات اور اصول چاہئیں جن کی حفاظت و ترویج گاہیں لائبریریز ہیں ،جن کی اہمیت و افادیت کو مہذب قوموں نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے۔ اہل علم کسی ملک میں پائی جانے والی لائبریرز کو اس ملک کی ثقافتی ، تعلیمی اور صنعتی ترقی کا نہ صرف پیمانہ بلکہ قومی ورثہ قرار دیتے ہیں۔ اگر کسی ملک کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو وہاں پر موجود تعلیمی اداروں کو دیکھا جائے اور تعلیمی اداروں کی ترقی کاجائزہ لیناہوتو وہاں پر موجودلائبریرز کودیکھا جائے۔ جہاں لائبریریز آباد ہوں گی وہاں تعلیمی ادارے بھی اسی قدر تعلیم و تحقیق میں فعال ہوں گے۔ جس کا لازمی نتیجہ ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی اور عوام کی خوشحالی ہے۔ تاریخ بھی اُنہی قوموں کا احترام کرتی ہے جو اپنے عِلمی سرمائے کی حِفاظت کرنا جانتی ہیں۔ مہنگائی کے اِس دور میں نئی کتابیں خریدنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اس لئے ذاتی لائبریری بنانا بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے تو اس اعتبار سے بھی لائبریریزکی اہمیت کہیں بڑھ جاتی ہے، پھرہر انسان کی اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ بعض تاریخی کتابیں پسند کرتے ہیں۔ بعض ادبی، بعض سیاسی اور بعض دینی کتابوں کا شوق رکھتے ہیں۔ ایک لائبریری میں مختلف موضوعات سے متعلق کتابیں ہوتی ہیں اور ایک موضوع پر بہت سے کتابیں مل جاتی ہیں اور انسان بیک وقت ایک موضوع پر ہر قسم کے خیالات سے استفادہ کر سکتا ہے۔ تجزیے، تحقیق، رائے اور بھی بہت سے ذریعے ہیں لائبریری کی افادیت کو بیان کرنے کے لیے مگر مُختصراً یہ کہ جیسے ہر شے کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے لیے ایک ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کتابی کلچر کو بڑھانے کے لیے معاشرے میں لائبریریوں کی ضرورت ہے۔

لائبریری کی ضرورت کیوں ؟

کتاب کی اہمیت وضرورت سے کسی بھی ذی شعور کو انکار کی راہ نہیں ہے ، کتاب پڑھنے سے جہاں ذہن کھلتا ہے فکر و خیال نکھرتے ہیں وہیں پر یہی کتاب زندگی کےنشیب و فراز کی بہترین مددگار بھی ہے مگر یہ سب مُہذب و دینی کتابوں سے ہی حاصل ہو سکتا ہے نہ کہ وہ کتابیں جو فحاشی کو فروغ دیں۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جدید ٹیکنالوجی نے ہر کام آسان کر دیا ہے ، ہم ہزارں لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ اپنے موبائل لیپ ٹاپ میں رکھ سکتے ہیں ان کو کھولنا، سرچ کرنا اور اپنے مطلوبہ مواد تک پہنچنا نہایت ہی آسان ہو چکا ہے تو پھرلائبریری کی ضرورت کیوں؟تو یاد رہے کہ تعلیم و تعلم کے لئے جہاں کتاب استاد اور تعلیمی ادارے کی سخت ضرورت ہے وہیں لائبریری کا ہونا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کی ٹیکنالوجی تک پہنچ ہم سے زیادہ ہے مگر اُن کے ہاں ابھی بھی پبلک لائبریریز کھُلی رہتی ہیں، کیوں کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ٹیبلٹ یا موبائل سے پڑھنے کی نسبت کتاب سے پڑھی گئی تحریر جلد سمجھ آ جاتی ہے اور یاد بھی رہتی ہے۔ماہر نفسیات کے مطابق جب ہم کوئی چیز پڑھتے ہیں تو ہمارا ذہن متواتر اس کا موازنہ کرتا رہتا ہے اور اسی کے مطابق نقوش کھینچ لیتا ہے جو کہ مُستقبل کے لیے ہمیں یاد رہ جاتے ہیں۔ بنسبت اسکرین کے پڑھنے سے کتاب سے پڑھنے والے الفاظ کی نقشہ سازی نہایت واضح ہوتی ہے۔ کتاب کی دائیں اور بائیں صفحے اور آٹھ کونے الفاظ کی جگہ کو یاد رکھنے کا سبب ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے بنسبت اسکرین پہ ریڈنگ کے کتاب پر ریڈنگ بھی آسان ہو جاتی ہے۔ کتاب پر پڑھنا اسکرین پر پڑھنے سے زیادہ جسمانی وجود رکھتا ہے۔اس لیے دُنیا میں ٹیکنالوجی کی اس قدر ترقی کے باوجود لوگ اسکرین سے پڑھنے کے بجائے کتاب سے پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، اور پھر جب بات کتاب پڑھنے کی آتی ہے تو گھر کے بجائے لائبریری کو فوقیت دینا بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ لائبریری ایک ایسا ماحول پیدا کر دیتی ہے جہاں کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ماہر نفسیات کے مطابق ہم پڑھتے وقت دو طرح سے تھک جاتے ہیں ایک نفسیاتی حوالے سے، دوسرا جسمانی حوالے سے۔ لائبریری میں پڑھنے کا یہ فائدہ ہے کہ انسان نفسیاتی تھکاوٹ کا کم شکار رہتا ہے کیونکہ ہم اپنے ارد گرد لوگوں کو پڑھنے میں مصروف دیکھتے ہیں تو ذہن اس بات پر آمادہ ہو جاتا ہے کہ اُن کی طرح ہم بھی نہیں تھکے ہیں۔لائبریری کا ایک سب سے اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ ہر طالب علم ہر کتاب کو نہیں خرید سکتا، مگر لائبریری میں اُنہیں کئی بہترین کتابیں میسر ہو سکتی ہیں۔ لائبریری صرف کتابیں یا کتب بینی کےلیےایک ماحول مہیانہیں کرتی بلکہ یہ معاشرے کا وہ حصہ ہے جہاں باقاعدہ مُستقبل کی نشوونما ہو رہی ہوتی ہے۔ یہیں پر طلبا اپنی سوچ کے مطابق دوسرےا فراد سے ملتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ معلومات بانٹتے ہیں، کتابوں کے اوپر اپنی رائے پیش کرتے ہیں، تجزیے کرتے ہیں، جس سے ان کی معلومات میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

لائبریری اور کتب کی درجہ بندی

لائبریری میں درجہ بندی (classification) ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اگر کتب کی ترتیب درست نہ ہو اور مواد بکھرا ہوا ہو تو لائبریری کے فوائد و ثمرات کماحقہ حاصل نہ ہوں گے،درجہ بندی دراصل اس علمی عمل کو کہتے ہیں کہ جس کے تحت مختلف اقسام کی اجناس،یا علوم میں امتیاز اور تفریق چند خصوصیات کی بنیاد پر کی جائےیعنی کتابوں یا دیگر موجود مواد کو کسی خاصیت کی بنا پر الگ الگ کردیناجیسے علوم کے مطابق کتب کو الگ الگ خانوں میں رکھنا، اس طرح فقہ کی کتب الگ اور حدیث کی کتب الگ ہو جائیں گی، اسی طرح زبان وار، ملک وار، یا فن وار کتب کو الگ الگ رکھا جائے ۔ اب درجہ بندی کیسے کی جائے؟ کونسا طریقہ اپنایا جائے ؟اس میں لائبریری کا عملہ اپنی کتب و مواد کو مد نظر رکھ کر ہی کرے گا کیونکہ مواد کی نوعیت کے حساب سے درجہ بندی میں بھی فرق ہو گا ۔

لائبریری میں موجود کتب کی اقسام

لائبریری میں موجود ،مصادر و مراجع اور کتب کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔عمومی دائرۃ المعارف (General Encyclopedias)

مخصوص دائرۃ المعارف (Specialized Encyclopedia)

عمومی معاجم (General Dictionaries)

مخصوص معاجم (Specialized Dictionaries)

سالانہ کارکردگی پر مبنی کتب (Year Books)

سوانح عمریاں (Biographies)

حوالہ جاتی کتب (Bibliographies)

تحقیقی مجلات(Periodicals)

رسائل و اخبارات(News Papers and Magazines)

نایاب کتابیں (Reserved Books)

فہارس(Indexes)

کتابیں (Books)

مخطوطات(Manuscripts)

تحقیقی مقالات (Theses Dissertations)

لائبریری سے کتاب لینے کے اصول

لائبریریز سے کتاب کا حصول مخصوص نظام کے تحت ہوتا ہے اور یہ نظام لائبریریوں کے منتظمین خود طے کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس نظام میں اختلاف پایا جاتا ہے البتہ جو چیزیں تقریباً لائبریرز میں مشترک ہوتی ہیں وہ پیشِ خدمت ہیں ۔

کتاب کے حصول کی شرائطکتاب حاصل کرنے کے اوقاتلائبریری سے حاصل کردہ کتب کی تعدادکتاب واپس کرنے کی مدتوہ کتابیں جو جاری نہیں کی جاتیں محتاط انداز میں دی جانے والی کتب کتاب ضائع ہو جانے کا تاوان (تحقیق و تدوین کا طریقہ کار،ص 52تا56)

لائبریرین کی خصوصیات

جس طرح لائبریرین کے بغیر لائبریری کا نظام کامیاب نہیں ہو سکتا اسی طرح اگر لائبریرین میں چند خصوصیات نہ ہوں تو بھی یہ نظام ناکامی کا منہ دیکھتا ہے لہذا لائبریرین کے لئےدرج ذیل چند خصوصیات کا حامل ہونا انتہائی ضروری ہے ۔

لائبریری میں موجود تمام کتابی اور غیر کتابی مواد سے کلّی طور پر شناسائی قارئین کےمزاج ،ذوق و شوق سے آگاہی لائبریری کے مواد کا انتخاب اور اس کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت و قابلیتقارئین کے سوالات کا تجزیہ کرنےاور احسن طریقےسے اس کا حل نکالنے کی قابلیتقارئین کے لائبریری کے استعمال اور مواد سے مستفیدہونے میں خوشدلی سے مدد اور تعاون کرنا لائبریرین اعلی اخلاق کا مالک ہو نے کے ساتھ ساتھ ملنساری اورصبر و تحمل جیسی خوبیوں سے سرشار ہو ۔

گھر میں لائبریری بنانے کے فوائد

دنیا میں کونسے ایسے والدین ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے دینی و دنیوی معلومات میں آگے بڑھیں ؟ یقیناً کوئی نہیں ۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اپنا زیادہ سے زیادہ وقت علمی سر گرمیوں میں گزارے ،اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے گھر میں ایک خوبصورت، دلکش اور پرسکون لائبریری کا ہونا انتہائی ضروری ہے جس میں دینی و دنیوی ایسی کتب جو معتبر مواد پر مشتمل ہوں اور غیر اخلاقی مواد سے پاک ہوں موجود ہوں ۔ گھر میں لائبریر ی كے چند فوائد پیشِ خدمت ہیں ۔

گھر میں موجود لائبریری بچوں کی اخلاقی تربیت کرنے میں بہترین معاون ثابت ہوتی ہے۔گھر میں لائبریری کے وجود سے بچوں میں علم دوستی اور سیکھنےکا رجحان پروان چڑھتا ہے۔گھر میں موجود لائبریری بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافہ کر کےان کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے۔کم عمری میں کتب سے آشنائی ہوجائےتو طویل مدتی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔گھر میں لائبریری کا اثر ایسا ہے جیسے بچوں نے کئی سال کی اضافی تعلیم حاصل کر رکھی ہو۔جو بچے ہوم لائبریریوں میں پلے بڑھے ہوتے ہیں ان کا علم اپنے ہم عمر بچوں سے زیادہ ہوتا ہے۔گھر میں موجود لائبریری ہماری ذہنی و فکری نشوونما کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں بری صحبت سے بھی دور رکھتی ہے ۔کسی دانشور نے کہا تھا کہ جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے۔

ایک تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کتابیں نوعمری میں ایک لڑکے یا لڑکی کی پڑھنے کی صلاحیت،اور انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی جیسے ہنر کو کس طرح بڑھاتی ہیں۔ اس کے لیے 2011ء سے 2015ء کے درمیان 31ملکوں کے ایک لاکھ 60ہزار نو عمر افراد کا مشاہدہ کیا تھا۔ تحقیق میں نوجوانوں سے سوال کیا گیاکہ جب آپ 16سال کے تھے، اس وقت آپ کے گھر میں اندازاً کتنی کتابیں موجود تھیں؟(ان کتابوں میں نصابی کتب شامل نہیں اور ایک میٹر کے شیلف میں تقریباً40کتابیں رکھی جاسکتی ہیں)تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس گھر میں 80یا اس سے زائد کتابیں موجود ہوں، وہاں بچے اورنوجوان پڑھنے کی صلاحیت،ہندسوں کے علم اور انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے ہنر میں اُن بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگے ہوتے ہیں جن کے گھر میں کتابیں نہیں ہوتیں ۔ وہ والدین جو چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو گھر کی لائبریری کے خاطر خواہ فوائد پہنچیں، وہ گھر میں زیادہ سے زیادہ کتابیں رکھیں ۔

المدینہ لائبریری اورامیراہلسنت

محترم قارئین!شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہفرماتے ہیں: دینی کتب کا مطالعہ اپنی عادت بنالیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ آپ کی نسلوں کو فائدہ ہوگا۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ہفتہ وار رسالے کےمطالعہ کا ایسا ذہن دیا ہے کہ آج بلامبالغہ ملک و بیرونِ ملک میں لاکھوں لوگ ہر ہفتے رسالہ پڑھتے اور سنتے ہیں ۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنے اپنے قول و عمل دونوں سے مطالعہ اور لائبریری بنانے کی ترغیب دلائی ہے آپ نے اپنے ذوقِ مطالعہ کی تسکین اور تحریری کام کے لئے کتب خانہ بھی بنایا۔جس کی کتابوں میں رفتہ رفتہ اِضافہ ہوتا گیا اور آج علمِ قرآن وحدیث عقائدفقہ اورتصوف کے درجنوں  موضوعات پر سینکڑوں  کتب ورسائل آپ کی لائبریری کی زینت ہیں  جن میں ترجمۂ کنزالایمان مع تفسیر خزائن العرفان ، فتاوٰ ی رضویہ ،بہارِ شریعت اور اِحیاء العلوم سرِفہرست ہیں۔آپ نے کتابوں کو محض جمع نہیں  کیا بلکہ مسلسل مطالعہ ،غور وفکر اور عملی کوششیں  آپ کے کردارِ عظیم کا حصہ ہیں اگر آپ بھی اپنی گھر میں ایک خوبصورت اور مختصر المدینہ لائبریری بنانا چاہتے ہیں تو اپنے شہر کے مکتبۃ المدینہ کی طرف رجوع کیجئے اس کے مکمل پیکجز بنے ہوئے ہیں۔ امیرِ اہلسنت اور المدینۃ العلمیہ کی تحریر کردہ 400کتب و رسائل کا مجموعہ المدینہ لائبریری 28ہزار800 میں لے سکتے ہیں ۔

اس کے علاوہ پاکستان کے 10بڑے شہروں میں المدینہ لائبریری کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس لائبریری میں قرآنیات، حدیثِ پاک اور اس کی شرح، فقہی مسائل، تاریخ اسلام اور دیگرسینکڑوں موضوعات پر کتب و رسائل موجود ہیں ۔اگر آپ کتب خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے تو المدینہ لائبریری سافٹ وئیر بھی موجود ہےجو بہت ہی مفید اور معاون سافٹ وئیر ہے ۔ اس میں کتب کی مخصوص کلیکشن موجود ہے۔ اس سافٹ وئیر میں جو کتب مکتبہ المدینہ سے شائع ہوتی ہیں انہیں سرچ ایبل شکل میں سافٹ وئیر میں ڈھالا گیا ہے اس کی چند خصوصیات پیشِ خدمت ہیں :

20سے زائد اسلامی موضوعات  کی کیٹگری کے تحت علمی وتحقیقی اسلوبِ تصنیف وتالیف کے اعلی معیارکی حاملزیور طبع سے آراستہ مکتبۃ المدینہ کی 500 سے زائد مطبوعاتامیر اہلسنت کی  117 کتابوں کے علاوہ صراط الجنان مکمل ،فتاوی رضویہ مکمل،بہارشریعت مکمل،احیاء علوم الدین مکمل،اللہ والوں کی 7 جلدیں،فیضان فاروق اعظم 2 جلدیں،فیضان ریاض الصالحین 2 جلدیں،27 واجبات حج نیز  اس کے علاوہ ملفوظات امیر اہلسنت اور مدنی مذاکرہ کی موصول ہونے والی قسطیں۔ رسائل دعوت اسلامی  وغیرہ وغیرہ۔ہر کیٹگری  میں حروف تہجی کے اعتبار سے کتابوں کی ترتیبسرچنگ کی بہترین سہولت اور بک مار کنگ  کے ذریعے یادداشت کا تحفظ

کتب اور ہمارےاسلاف

دینی علوم کا عظیم سرمایہ ہمیں جن بزرگوں کے ذریعے ملا ہے انہوں نے کس قدر تکالیف و مصائب برداشت کر کے یہ عظیم سرمایہ ہم تک پہنچایا ہے اگر ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو ان لوگوں کی قربانیاں پڑھ کر انسانی عقل حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتی ہے یقیناً یہ لوگ علم دوست تھے۔

امام احمد بن محمد المقری جو زبردست محدث تھے آپ کو ایک کتاب سے حوالہ نقل کرنے کے لیے 70 دن کا سفر کرنا پڑا۔ خود فرماتے ہیں کہ وہ کتاب اس حالت میں تھی کہ" ولو عرضت على خبَّاز برغيف لم يقبلها "اگر وہ کتاب کسی نان بائی کو دے کر ایک روٹی بھی خریدنا چاہتے تو شاید وہ اس پر بھی تیار نہ ہوتا۔(تذکرۃ الحفاظ للذہبی،3/121)خطیب تبریزی کو عربی زبان و قواعد پر غیر معمولی مہارت حاصل تھی۔ آپ کو ایک مرتبہ ابو منصور کی کتاب "تہذیب اللغہ"کہیں سے مل گئی۔ آپ نے ارادہ کیا کہ اس کتاب کے مندرجات کو کسی ماہر زبان سے تحقیقی طور پر سمجھیں۔ لوگوں نے ابوالعلاء المعری کا نام پیش کیا۔ آپ نے کتاب تھیلے میں ڈالی، اس تھیلے کو بغل میں لٹکایا اور تبریز سے ’’معرہ‘‘ کی جانب چل پڑے۔ آپ کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ سواری کا انتظام کر سکتے۔"فنفذ العرق من ظهره إليها فأثر فيها البلل، وهي ببعض الوقوف ببغداد، وإذ رآها من لا يعرف صورة الحال فيها ظن أنها غريقة، وليس بها سوى عرق الخطيب المذكور"اس لیے دھوپ میں پیدل چلنے سے پسینہ آیا اور اس کا اثر تھیلے اور کتاب تک پہنچا، نتیجتاً کتاب پسینہ سے تر ہو گئی۔ اب اگر کوئی اس کتاب کو دیکھتا اور اسے صحیح صورت حال کا پتہ نہ ہوتا تو وہ یہی خیال کرتا کہ شاید پانی میں بھیگ گئی ہے حالانکہ اس پر صرف خطیب تبریزی کا پسینہ تھا۔ (وفیات الاعیان،6/192)حضرت علی بن احمد کے پاس’’الجمھرۃ فی علم اللغۃ‘‘ کا ایک بہت ہی عمدہ نسخہ تھا۔ ایک مرتبہ غربت نے اسے بیچنے پر مجبور کر دیا۔ شریف مرتضیٰ ابوالقاسم نے 60 دینار میں خرید لیا جب اس کا ورق پلٹا تو اس پر ابوالحسن کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اشعار نظر آئے جن کا ترجمہ یہ ہے:میں20 سال تک اس کتاب سے مانوس رہنے کے بعد آج اس کو بیچ رہا ہوں۔ اس کے چھوٹ جانے سے میرا غم بہت بڑھ گیا ہے۔ قرضوں کی وجہ سے اگر عمر قید بھی ہو جاتی تو پرواہ نہ تھی مگر یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی اس کو بیچنا پڑے گا لیکن کیا کروں، کمزوری، ناداری اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی وجہ سے حالات نے یہ دن دکھائے۔ میں بہتے ہوئے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکا اور کسی دل جلے غمزدہ کی طرح یوں کہا :ضرورت کبھی کبھی عمدہ چیزوں کو اپنے آقا سے جدا ہونے پر مجبور کر دیتی ہے حالانکہ وہ انہیں اپنے پاس سے الگ نہیں کرنا چاہتا۔(وفيات الاعيان، 1 / 337)شریف مرتضیٰ نے جب کتاب پر لکھے ہوئے یہ اشعار پڑھے تو اس کا دل بھر آیا اور اس نے کتاب کا نسخہ واپس کر دیا اور دینار اْن ہی کے پاس رہنے دئیے۔

محترم قارئین!تاریخِ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی علوم کی تدوین و تالیف، پُرفضا و شاداب مقامات، نہروں کے کنارے یا سایہ دار درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر نہیں ہوئی بلکہ یہ کام خواہشات کی قربانی دے کر ہوا ہے۔ اس کے لیے سخت گرمیوں میں پیاس کی ناقابلِ برداشت تکالیف اٹھانی پڑی ہیں اور رات بھر ٹمٹماتے چراغوں کے سامنے جاگنا پڑا ہے۔

لائبریریوں کی تاریخ

لائبریریوں کی تاریخ جہاں دلچسپ ہے وہیں سبق آموز بھی ہے ،دنیا کی سب سے پہلی لائبریری کب وجود میں آئی؟ شاید اس کا کوئی حتمی جواب تو نہ ملے کیونکہ روز بروز ہونے والی تحقیقات سے کچھ نیا ہی نتیجہ نکل رہا ہوتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ لائبریریز کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی قدیم انسان کی تہذیب ہے۔ شروع سے ہی انسان نے ہر دور میں حاصل ہونے والے علم کا ریکارڈ رکھنے کی کوشش کی ہے۔تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لائبریریوں کا آغاز اس وقت سے ہوا جب انسان کے پاس لکھنے کے لئے کاغذ قلم نہ تھا اور وہ مٹی کی تختیوں، چمڑے اور ہڈیوں پر تحریر کو محفوظ کرتا تھا۔آج جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے اور ڈیجیٹل لائبریریوں نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ آشور بنی پال،سکندریہ لائبریری ، عیسائیوں ، ایرانی، ساسانی، یونانی، رومی کتب خانے ، عربوں کے کتب خانے یورپ اور برصغیر کے حکمرانوں کے کتب خانے بہت مشہور ہیں۔قدیم دور کے کتب خانوں میں آشور بنی پال، کتب خانہ سکندریہ اور کتب خانہ پرگامم قابل ذکر ہیں۔ اشور بنی پال کی لائبریری میں اس وقت کا لکھا گیا زیادہ تر ادب موجود تھا ۔(سکندریہ کی لائبریری کی داستان،ص16) مصر کے نئے حکمران خاندان نے اقتدار سنبھالا اور سکندریہ کو دانش وروں کا شہر بنا دیا ۔اس خاندان کے حکمرانوں نے علم و فن سے بہت زیادہ محبت کی تھی اور مصر کے قدیم علمی خزانوں کو دوبارہ دریافت کر کے دنیا کے لئے مفید بنایا تھا اگرچہ فرعونوں نے بھی سقارا میں عظیم اہرام تعمیر کر کے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ اب سکندریہ نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا اور اس کے علم و کمال نے دنیا کو اپنی طرف کھینچا تھا ، سکندریہ کی مشہور لائبریری "ٹالمی اول" نے شروع کی اور "ٹالمی دوم" کے دورِ حکومت میں مکمل ہوئی ۔ٹالمی دوم نے اپنے ماتحت ریاستوں کے حکمرانوں اور مختلف علوم کے علما کو دعوت دی کہ اس عظیم لائبریری کے لئے کتابیں جمع کریں اور علماکتابیں تحریر کریں ،زیادہ تر کتابیں خریدی گئیں اور لاکھوں کتابیں مختلف علوم کے علما سے تحریر کروائی گئیں کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ سکندریہ کی لائبریری میں کئی لاکھ کتابیں تھیں۔سٹرابولکھتا ہے کہ قدیم "ڈورک" زبان اور قدیم یونانی زبان میں لکھی گئی کتابیں جو کہ نام ور شاعروں اور فلسفیو ں کی تھیں ۔رہوڈس کے بازار سے سونے کے ساتھ تول کر خریدی گئیں اور ان کتابوں کے عوض سونا دیا گیا تھا۔(اقتباس ازسکندریہ کی لائبریری کی داستان،ص38)یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا کا پہلا منظم کتب خانہ سکندریہ تھا اور اس میں منہ مانگی قیمت پر کتب خرید کر رکھی جاتی تھیں اس میں رکھے گئے مواد کو مضامین کے اعتبار سے رکھا جاتا تھا۔ اس کا قیام 323 ق۔م میں مصر میں عمل میں آیا اور اس میں ذخیرہ کتب 9لاکھ تھا۔ یونانی کتب خانوں میں کتب خانہ ارسطو، کتب خانہ افلاطون اور پرگامم کا کتب خانہ قدیم ترین ہیں۔افلاطون کے متعلق قیاس کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس بھی ایک شاندار کتب خانہ موجود تھا جو اس کی وفات کے بعد کہا ں گیا کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے البتہ ارسطو کے کتب خانے کے حوالے سے تاریخی شواہد موجود ہیں۔ یہ کتب خانہ سینکڑوں کتابوں پر مشتمل تھا جو کہ ایک اندازے کے مطابق4سو رولز پر مشتمل تھا۔ نجی کتب خانوں کا بانی ارسطو کو کہا جا تا ہے۔ ارسطو نے کتب خانوں کی تنظیم و ترتیب سائنسی بنیادوں پر رکھنا شروع کی تھی۔ قدیم یونان کا دوسرا اہم ترین کتب خانہ پرگامم ہے جسے اتالوسی دوم نے 137ء سے 159ء تک قائم کیا۔ پرگامم کا مواد پیپرس رولز اور پارجمنٹ پر مشتمل تھا اور یہ ذخیرہ دولاکھ کے لگ بھگ تھا۔ یونانی کتب خانوں میں ادب، تاریخ ، سائنس ، ریاضی ، فلسفہ ، مذہبیات ، سیاسیات اور اخلاقیات جیسے موضوعات پر ذخیرہ کتب زیادہ تھا۔سرزمین روم میں عوامی کتب خانے ، نجی کتب ا ور مخصوص کتب خانے موجود تھے۔ 360ء سے 370ء تک روم میں 28عوامی کتب خانے موجود تھے۔روم کے یہ تمام کتب خانے16ویں صدی تک نیست و نابود ہو گئے۔چوتھی یا پانچویں صدی عیسوی میں برصغیر پاک و ہند میں کتب خانے موجود تھے۔کتب خانہ نالندہ یونیورسٹی، وکرم شلا اورسرسوتی بھنڈار برصغیر کے قدیم کتب خانے ہیں۔ پرانے وقتوں کے عظیم کتب خانوں کی دو اہم خصوصیات علم دوستی اور حکمرانوں کی ذاتی دلچسپی اور ان کی ہیت و تنظیم میں ہم آہنگی تھی۔

دنیائے جدید کی دس بڑی لائبریریاں

ایسی لائبریریاں بنانا جہاں علم وحکمت ایک عام آدمی کی دسترس میں آجائےیہ یقیناًنوع انسان کی ایک بہت بڑی کاوش ہے، دنیا کی چند بڑی اور چند دلچسپ لائبریریوں کےنام پیشِ خدمت ہیں ۔

امریکی کانگریس کی لائبریریبرٹش لائبریری لندن انگلینڈنیویارک پبلک لائبریری نیویارکرشین ا سٹیٹ لائبریرینیشنل لائبریری آف رشیانیشنل ڈائٹ لائبریری جاپان نیشنل لائبریری آف چائنا نیشنل لائبریری آف فرانسبودلیئن لائبریری،آکسفورڈ برطانیہبوسٹن پبلک لائبریری

ترکی کی عظیم الشان لائبریری

ترکی جہاں اہل علم حضرات کا مرکز ہے وہیں دینی کتب و دلکش لائبریزز کا مظہر بھی ہے ترکی صدارتی کمپلیکس میں بنائی گئی لائبریری میں 40 لاکھ سے زائد کتابیں رکھی گئی ہیں جبکہ وہاں 5 ہزار افراد بیک وقت مطالعہ کر سکتے ہیں ترکی اردو کی رپورٹ کے مطابق انقرہ کی اس عظیم الشان لائبریری میں ایک کروڑ 20 لاکھ الیکٹرانک اور ساڑھے 5 لاکھ ای کتب کے ساتھ ساتھ تاریخی دستاویزات بھی موجود ہیں ، جہاں بیک وقت 5 ہزار افراد مطالعہ کرسکتےہیں صدارتی کمپلیکس کا کل رقبہ 125 ہزار مربع میٹر ہے، جس کی تعمیر کا آغاز 2016ء میں کیا گیا تھا۔(ترکی اردو ویب سائٹ)

لائبریریاں جو مٹ گئیں

اسلام کی تاریخ جہاں دلچسپ واقعات سے بھری پڑی ہے وہیں دردناک حقائق بھی اسی تاریخ کا جُزْوِ لَایُنْفَک ہیں انہی حقائق میں سےایک دردناک حقیقت لائبریریز کو جلانا اور مٹانا بھی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے دینی علوم کا کثیر حصہ دنیا سے ختم ہو گیا ،مختصرا ًچند واقعات حسبِ ذیل ہیں ۔

D503 ہجری میں طرابلس (لیبیا) پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تو وہاں کے کتب خانوں کو جلا دیا۔D656 ہجری میں ہلاکو خان نے بغداد تاراج کرنے کے بعد وہاں کے عظیم الشان کتب خانوں کو دریائے دجلہ میں پھینکوا دیا۔ دریائے دجلہ میں ڈالی جانے والی کتب کی تعداد 6 لاکھ سےزائد تھی۔Dتاتاریوں نے بغداد کے کتب خانے تباہ کئے اور تمام کتب دریا میں ڈا ل دیں جس سے دریا کا پانی سیاہ ہو گیا۔تاتاریوں کا یہ سیلاب صرف بغداد تک ہی محدود نہ رہا بلکہ ترکستان ، خراسان، فارس، عراق اور شام سے گزرا اور تمام علمی یادگاریں مٹاتا چلا گیا۔D اسپین میں عیسائی غلبے کے بعد وہاں کے کتب خانے جلا دیئے گئے۔Cardinal XimenesDنے ایک ہی دن میں 80 ہزار کتب نذر آتش کر دیں۔ Dصلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے مصر، شام،ا سپین اور دیگر اسلامی ممالک کے کتب خانوں کو بری طرح جلا کر تباہ و برباد کر دیا۔ ان کتب کی تعداد 30لاکھ سے زائد تھی۔Dقاضی ابن عمار نے طرابلس میں عالیشان کتب خانے کی تاسیس کی جس میں ایک لاکھ سے زائد کتابیں تھیں۔یہ کتب خانہ صلیبی جنگوں کے دوران برباد کر دیا گیا۔Dفاطمین مصرکے دور میں قاہرہ کے قصرشاہی کا عدیم النظیرکتب خانہ تمام اسلامی دنیا کے کتب خانوں پر سبقت لے گیا تھا اسے جلا دیا گیا ۔ Dصاحب بن عباد وزیر کا عظیم الشان کتب خانہ’’ جو دارالکتب رے ‘‘کے نام سے معروف تھا،اسے جلا کر تباہ کر دیا گیا ۔Dبغدادکے محلہ کرخ میں دارالعلم نام سے ایک لائبریری تھی جس میں دس ہزار سے زائد ایسی کتب تھیں جو خود مصنفین یا مشہور خطاطوں کی لکھی ہوئی تھیں ، دنیا میں اس سے بہتر کوئی کتب خانہ نہ تھا، یہ مایہ ناز کتب خانہ 451ھ میں جلا دیا گیا۔ Dبغداد میں ابو جعفر محمد بن حسن طوسی کا کتب خانہ 385ھ تا 420ھ کئی مرتبہ جلایا گیا۔آخری مرتبہ 448میں اسطرح جلایا گیا کہ اس کا نام بھی باقی نہ بچا۔D549ھ میں ایک گروہ نے ماوراء4 النہر سے آکر نیشا پور کے کتب خانے جلا دیئے۔(ماخوذازویب سائٹ)

ابومعاویہ محمد منعم مدنی (شعبہ سیرت النبی)

اسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ)

14 رجب المرجب 1442ھ

27 فروری 2021ء


(گزشتہ مضمون میں بارگاہِ رسالت میں ہونے والے سوالات کی10صورتوں کا تعارفی تذکرہ ہوا تھا اور ایک صورت کی مثال پیش کی گئی تھی، مزید چند صورتوں کی مثالیں ملاحظہ کیجئے)

(2)بعض دفعہ ایک ہی سوال بار بار کیا جاتا لیکن نبی کریم ﷺ پھر بھی جواب ارشاد فرماتے چنانچہ

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا غَزَا يَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّکْرَ مَالَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا شَيْئَ لَهُ فَأَعَادَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَقُولُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا شَيْئَ لَهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنْ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ

حضرت سیدنا ابومامہ باھلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور عرض کرنے لگا: آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو صرف دولت اور نام ونمود کے لئے جہاد کرے، اس کے لئے کیا اجر ہے؟ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کے لئے کچھ نہیں(یعنی کوئی اجر نہیں) ۔ اس آدمی نے تین بار اسی سوال کو دہرایا، رسولِ کریم ﷺ نے یہی فرمایا کہ اس کے لئے کچھ نہیں، اس کے بعد آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کے واسطے ہو اور جو اسی کی رضا کے لئے کیا گیا ہو۔(سنن نسائی، کتاب الجہاد، باب من غزا یلتمس الاجر والذکر، جلد6، صفحہ25، حدیث:3140 مكتب المطبوعات الإسلامیۃ - حلب)

دیکھا آپ نے!رسولِ کریم ﷺ نے تین بار جواب ارشاد فرمایا اور بالآخر اپنے جواب کی تفصیلی وجہ بھی ارشاد فرمادی جو کہ ایک قانون اور اصول کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ”ہر وہ عمل جو خالصتاً اللہ رب العزّت کی رضا کے لئے نہ ہو وہ مقبول نہیں“۔

اسی طرح حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت ہے :

أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ أَفْضَلِ الْأَعْمَالِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةُ. قَالَ: ثُمَّ مَهْ، قَالَ ثُمَّ:الصَّلَاةُ قَالَ: ثُمَّ مَهْ، قَالَ: ثُمَّ الصَّلَاةُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ،

ایک شخص پیارے نبی ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور آپ سے سب سے افضل عمل کے بارے میں سوال کیا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”الصلوٰۃ“ یعنی نماز، اس نے پوچھا اس کے بعد، فرمایا: پھر نماز، عرض کیا: پھر، ارشاد فرمایا: پھر نماز، (رسول کریم ﷺ نے ) تین بار نماز کا فرمایا۔(صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب فضل الصلوات الخمس، ذکر الخبرالدال۔۔الخ، جلد5، صفحہ8، حدیث:1722، مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

(3)مختلف مواقع پر ایک ہی سوال کا دہرایا جانا

بعض سوالات ایسے بھی تھے کہ مختلف مواقع پر بار بار دہرائے جاتے، رسولِ کریم ﷺ پھر بھی جواب ارشاد فرماتے، لیکن اکثر حالات و افراد کے اعتبار سے پہلے کی نسبت جواب الگ ہوتا، جیسا کہ صرف ایک سوال”کون سا عمل افضل ہے؟“ کے ہمیں احادیث کریمہ میں کئی جوابات ملتے ہیں، مثلاً(۱) زبان کی حفاظت کرنا([1]) (۲)اپنے بھائی سے خوش ہوکر ملنا یا اُس کا قرض ادا کردینا یااسے کھانا کھلانا([2]) (۳)طویل قیام([3]) (۴)وقت پر نماز پڑھنا([4])(۵)صبر اور سخاوت([5]) یہ سب مختلف مواقع وافراد کے اعتبار سے ایک ہی سوال کے جوابات ہیں۔

(4)افضل ایمان، اسلام اور عمل کے متعلق سوالات کے جواب دینا

ہر بندہ اس اعتبار سے سوچتا ہے کہ کون سا کام زیادہ بہتر رہے گا،راہِ خدا میں خرچ کرنے کا جذبہ رکھنے والے سوچتے ہیں کہ کیا اور کہاں خرچ کرنا بہتر رہے گا، علمِ دین کا حریص سوچتاہے کہ اس وقت کون سی کتاب پڑھنا زیادہ بہتر رہے گا الغرض ہر کسی کی سوچ اس کے مقصد کی غماز ہے، اسی طرح صحابہ کرام بھی اس پہلو سے سوچا کرتے تھے اور رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں اس طرز کے سوالات کرتے تھے کہ کون سا ایمان یا کون سا اسلام افضل ہے؟ چنانچہ ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں رسولِ کریم ﷺ نے نہ صرف سوال کرنے والے بلکہ رہتی دنیا تک کے ہرفرد معاشرہ کو ایک ایسا نسخہ سمجھادیا جو ایک صالح معاشرے کی بنیاد بنتاہے،بخاری شریف میں ہے:

قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ، قَالَ: مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ، وَيَدِهِ

لوگوں نے عرض کی:یارسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ۔(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ای الاسلام افضل، صفحہ13، حدیث:11)

قارئینِ کرام! غور تو کیجئے کہ کیسے معلم اور عظیم رہبر و رہنما تھے کہ ایک مختصر سے جملے میں کس قدر وسیع معانی و نتائج اور عظیم تَر معاشرتی فوائد پر مشتمل جواب ارشاد فرمایا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ ایسے دو اعضاء ہیں جو اکثر لڑائی جھگڑوں کا باعث ہوتے ہیں اور معاشرتی امن و امان تو تباہ کرتے ہیں۔

(بقیہ آنے والی قسط میں )



([1]): كتاب الصمت و آداب اللسان لابن ابی الدنیا، باب حفظ اللسان وفضل الصمت، صفحه47,رقم:8دارالکتاب العربی،بیروت

([2]):مکارم الاخلاق للطبرانی، باب فضل معونۃ المسلمین۔۔الخ، صفحہ344، رقم:91 دارالکتب العلمیہ، بیروت

([3]):سنن ابی داؤد ،کتاب التطوع ، با ت افتتاح صلاۃ اللیل بر کعتین ، جلد2، صفحہ36، حدیث:1325، المكتبۃ العصريۃ، صيدا - بيروت

([4]):صحیح بخاری ، کتاب التوحید، باب وسمی النبی الصلاۃ عملاً۔۔الخ، صفحہ1862، حدیث:7534 دارابن کثیر، بیروت

([5]):الجامع لشعب الايمان ، السبعون من شعب الایمان، باب فی الصبر علی المصائب..الخ، جلد12، صفحہ192، حدیث:9263, مکتبۃ الرشد،ریاض


معلّمِ اعظم، جنابِ رسولِ اکرم ﷺ کی مبارک سیرت سے معلوم ہونے والے طرقِ تربیت و تفہیم میں سے ایک طریقہ ”سوال و جواب“ کا ہے۔ حضور نبی رحمت ﷺ نے اس طریقہ کو کئی اعتبار سے متعارف فرمایا۔ اسے سادہ سے الفاظ میں ہم ”سوال کی آزادی(Freedom of Question)“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں آپ ﷺ کا کیا کیا انداز ہوتا تھا اس کا مختصر سا خاکہ یوں ہے:

1. سوال دَر سوال ہونے پر بھی جواب دینا

2. ایک شخص کا بار بار ایک ہی سوال ہونا اور آپ کا پھر بھی جواب دینا

3. مختلف مواقع پر ایک ہی سوال ہونا او رپھر بھی جواب دینا۔

4. افضل ایمان، اسلام اور عمل کے متعلق سوالات کے جواب دینا ۔

5. کسی فضیلت، اجر یا مقام دلانے والے اعمال کے متعلق ہونے والے سوالات کا جواب دینا

6. دوسرے کو کسی عمل پر ملنے والے اجر کا سن کر سوال کرنا اور آپ کا جواب دینا

7. سوال کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنا

8. مختلف اعمال کے اجر و ثواب کے متعلق سوالات کا جواب دینا

9. اچھے اور برے عمل یا ایک ہی عمل کے اچھے اور برے انداز یا نیت کے بارے میں تقابلاً ہونے والے سوالات کے جواب دینا

10. عقائد کی توضیح اور مابعد آنے والوں کی تعلیم پر مشتمل سوال کرنا اور رسولِ کریم ﷺ کا سمجھانا

چونکہ لوگوں کے سوال کرنے کی نفسیات الگ الگ ہوتی ہیں اسی لئے سوالات مندرجہ بالا صورتیں سامنے آتی تھیں، رسولِ کریم ﷺ نے ان سوالات کے جوابات میں کیا کیا رہنمائی فرمائی اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:

(1)بعض اوقات سوال در سوال کا ایک طویل سلسلہ بھی چل نکلتا چنانچہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضر ی دی اور عرض کی کہ دنیا وآخرت کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں تو معلّمِ کامل و اکمل، رسولِ جمیل و اجمل محمد مصطفےٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا:پوچھو! جو پوچھنا چاہتے ہو۔

آنے والے نے عرض کی:میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:اللہ سے ڈرو،سب سے بڑے عالم بن جاؤ گے۔

عرض کی : میں سب سے زیادہ غنی بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:قناعت اِختیار کرو، غنی ہوجاؤ گے۔

عرض کی : میں لوگوں میں سب سے بہتر بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچاتا ہو ،تم لوگوں کیلئے نفع بخش بن جاؤ۔

عرض کی : میں چاہتا ہوں کہ سب سے زیادہ عدل کرنے والا بن جاؤں۔

ارشادفرمایا:جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کیلئے بھی پسند کرو، سب سے زیادہ عادِل بن جاؤ گے۔

عرض کی : میں بار گاہِ الٰہی میں خاص مقام حاصل کرنا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:ذکرُ اللہ کی کثرت کرو،اللہ تعالیٰ کے خاص بندے بن جاؤ گے ۔

عرض کی: اچھا اور نیک بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ کی عبادت یوں کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہواور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔

عرض کی: میں کامِل ایمان والا بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:اپنے اخلاق اچھے کر لو،کامل ایمان والے بن جاؤ گے۔

عرض کی: (اللہ تعالیٰ کا) فرمانبردار بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ کے فرائض کا اہتمام کرو،اس کے مُطِیع( وفرمانبردار) بن جاؤ گے۔

عرض کی: (روزقیامت) گناہوں سے پاک ہوکر اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا: غسلِ جنابت خوب اچھی طرح کیا کرو،اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملو گے کہ تم پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔

عرض کی: میں چاہتا ہوں کہ روزِ قیامت میرا حشر نورمیں ہو۔

ارشادفرمایا:کسی پر ظُلْم مت کرو،تمہارا حَشْر نُور میں ہوگا۔

عرض کی: میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم فرمائے۔

ارشادفرمایا:اپنی جان پر اور مخلوقِ خدا پر رحم کرو ،اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا۔

عرض کی:گناہوں میں کمی چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا: اِستغفار کرو،گناہوں میں کمی ہوگی۔

عرض کی: زیادہ عزت والا بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے بارے میں شکوہ وشکایت مت کرو،سب سے زیادہ عزت دار بن جاؤ گے۔

عرض کی:رِزْق میں کشادگی چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:ہمیشہ باوضو رہو،تمہارے رزق میں فراخی آئے گی ۔

عرض کی:اللہ و رسول کا محبوب بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:اللہ ورسول کی محبوب چیزوں کو محبوب اور ناپسند چیزوں کو ناپسند رکھو۔

عرض کی:اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے امان کا طلب گار ہوں۔

ارشادفرمایا:کسی پر غصہ مت کرو،اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے امان پاجاؤ گے۔

عرض کی:دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:حرام سے بچو،تمہاری دعائیں قبول ہوں گی۔

عرض کی: چاہتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے لوگوں کے سامنے رُسوا نہ فرمائے۔

ارشادفرمایا:اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو ،لوگوں کے سامنے رُسوا نہیں ہوگے۔

عرض کی:چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری پردہ پوشی فرمائے۔

ارشادفرمایا: اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب چھپاؤ،اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری پردہ پوشی فرمائے گا۔

عرض کی: کون سی چیز میرے گناہوں کو مٹاسکتی ہے؟

ارشادفرمایا:آنسو، عاجزی اور بیماری ۔

عرض کی: کون سی نیکی اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے افضل ہے؟

ارشادفرمایا:اچھے اخلاق،تواضُع، مصائب پر صبر اور تقدیر پر راضی رہنا۔

عرض کی:سب سے بڑی برائی کیا ہے؟ کون سی برائی اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے بڑی ہے؟

ارشادفرمایا:برے اخلاق اور بُخْل ۔

عرض کی:اللہ تعالیٰ کے غَضَب کو کیا چیز ٹھنڈا کرتی ہے ؟

ارشادفرمایا:پوشیدہ صدقہ کرنااور صِلہ رحمی۔

عرض کی:کونسی چیز دوزخ کی آگ کو بجھاتی ہے؟

ارشادفرمایا:روزہ۔

(کنزالعمال، حرف المیم، کتاب المواعظ والرقائق۔۔الخ، فصل فی جامع المواعظ والخطب، خطب النبی ﷺ و مواعظہ، جلد16، صفحہ127، حدیث:44154)

قارئین ذرا غور تو کیجئے! کیاکمال کا علم ، حوصلہ اور حلم تھا کہ سوال پر سوال ہو رہے ہیں اور آپ ہیں کہ جواب دینے میں ذرا اکتاہٹ نہیں، اورپھر ہر سوال کا جواب کیسا جامع اور نہایت دوراندیشی پر مبنی عطا فرمایا، غورکیا جائے تو ہر جواب اپنے اندر حکمت کے سمندر سموئے ہوئے ہے۔

(بقیہ آنے والی قسط میں )


غیر مستند اور بے حوالہ بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اورباحوالہ اور  مستند بات اپنی افادیت اور اہمیت رکھتی ہے۔ کسی بات کےمستند ہونے کا تعلق اس سے بھی ہے کہ وہ بات کس کتاب میں موجود ہے اور وہ کتاب کس پایہ کی ہےتاکہ انکار کرنے والے کو موقع نہ ملےپھر کتاب کے نام اور صفحہ نمبر تک رسائی سےاس مقام کا پتا چلتا ہے۔اس رسائی دینےکےعمل کو تخریج اورحوالہ سےتعبیر کرتے ہیں ۔ڈاکٹر محمد طحان اپنی کتاب ”اصول التخریج ودراسات الاسانید“کے صفحہ 12تا13پر تخریج کی وضاحت کرتے ہوئے اس کے حسب ذیل معانی بیان کرتے ہیں:

1۔اصلی مصادر میں حدیث کے مقام کی دلالت بتانا جس میں اس کو سند کے ساتھ بیان کیا گیا ہوپھر ضرورت کے وقت اس کا مرتبہ بیان کرنا۔

2۔کسی چیز کو باضابطہ انداز سے لکھنا اور اس کا پورا حوالہ دینا تخریج کہلاتا ہے۔

3۔کتب فقہ وتفسیر وغیرہ کی احادیث کو جداگانہ مجموعوں میں جمع کرنا۔

4۔حدیث کی کسی کتاب سے خاص قسم کی احادیث مثلاً مرفوع،متصل،مرسل وغیرہ کو الگ کرنا۔

5۔حدیث کا حوالہ دینے کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھنا کہ یہ حدیث ہمیں کہاں سے ملے گی،درست نشان دہی کے اس عمل کو”تخریج حدیث“کہتے ہیں۔(الزاد المطلوب بتخریج احادیث کشف المحجوب، دیباچہ، ص11)

ڈائریکٹر محکمہ مذہبی امور واوقاف پنجاب ڈاکٹر طاہر رضابخاری”الزاد المطلوب بتخریج احادیث کشف المحجوب“ کے دیباچہ میں تخریج کے مختلف معانی کی وضاحت کرنے کے بعدتخریج حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: تخریج حدیث سےمراد حدیث کو اس کتاب کی طرف منسوب کرنا جس میں ابتدا ً وہ بیان ہوئی ہوں ،وہ کتاب مسند ، جامع ،سنن اور معجم ہوسکتی ہے۔گویا حدیث کی تخریج سے اس بات کا پتا چلتا ہےکہ اس حدیث کو کن آئمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں کن مقامات پر بیان کیا ہے۔حدیث کے اصلی مصادر تک رسائی کے لئے ”فن تخریج حدیث“باقاعدہ حیثیت اختیار کرتے ہوئے حدیث کے اصلی مصادر اور ان کے آئمہ تک رسائی کو عام کئے ہوئے ہے۔(الزاد المطلوب بتخریج احادیث کشف المحجوب،دیباچہ،ص11،12)

علامہ شیخ احمد بن محمد حسنی ادریسی مغربی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(وفات1380ہجری)”حصول التفریج باصول التخریج“میں لکھتے ہیں:تخریج احادیث کو ان کتب کی طرف منسوب کرنا ہے جن میں وہ بیان ہوئی ہیں۔ان پر صحت اور ضعف،قبول ورَدکے لحاظ سے کلام کیا جائےاور ان میں موجود علل کو بیان کیا جائے یا محض اصل کی طرف منسوب کردیا جائے۔(حصول التفریج باصول التخریج،ص21)

خلاصَۂ کلام یہ ہےکہ تخریج اور حوالہ میں اس بات کی طرف راہنمائی ہوتی ہےوہ بات کہاں لکھی ہے اور اسے کس نے لکھا ہے۔

تخریج کی اہمیت وضرورت:

تخریج اور حوالہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اہل فہم اس کی ضرورت کا انکار نہیں کرسکتے۔جو بات باحوالہ ہوتی ہے لوگ اس بات کو قبول کرنے میں جھجکتے نہیں۔ دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔اصل مقام کی نشان دہی اور وہاں تک رسائی ہوجاتی ہے۔باحوالہ بات کی اہمیت اور افادیت بڑھ جاتی ہے۔تخریج سےبسا اوقات کسی بات کے قبول یا رد کا بھی پتا چلتا ہے۔منکر کو انکار کا موقع نہیں ملتا۔معترض اعتراض کرنے سے گریز کرتا ہے۔بغیر تخریج والی بات کو قبول کرنے میں اذہان سبقت نہیں کرتے اور اس کی اہمیت بھی زیادہ نہیں ہوتی بلکہ اکثرایسی بات کو رد کردیا جاتا ہے۔بسا اوقات تخریج سے کسی بات کا سیاق وسباق بھی پتا چل جاتا ہے۔

تخریج جلد کیسےکی جائے؟

بعض امور اور چیزیں ایسی ہیں جن کو مدنظر رکھ کر تخریج کی جائے تویہ عمل قدرے آسان ہوجاتا ہے ۔ حوالہ جلد ملتا ہے اور وقت بھی بچتا ہے۔ وہ امور حسب ذیل ہیں:

(1)کتب حدیث کے آخرمیں آج کل”اطراف احادیث “بھی ذکر کی جاتی ہیں۔ان کی مدد سے حدیث جلدی اور باآسانی مل جاتی ہے۔حدیث کے ابتدائی دو تین لفظوں کو اطراف احادیث سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

(2)حدیث وفقہ کی کتابوں میں اکثر کتاب،ابواب اور فصول ہوتی ہیں ۔مطلوب حوالے کے مضمون پر غور کیا جائے کہ اس کا تعلق کس کس کتاب ،باب یا فصل سے ہوسکتا ہے یوں بھی تخریج جلد مل جاتی ہے ۔مثلا کسی روایت میں عقیدہ،اخلاق اور فضیلت تینوں باتیں پائی جارہی ہوں تو وہ عموماکتاب الایمان،کتاب الزھد،کتاب الرقاق یا کتاب الفضائل میں مل جایا کرتی ہے۔

(3)مطلوب مضمون کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب میں شامل فہرست مضامین سے ضرور استفادہ کیا جائے ،ڈائریکٹ تلاش کرنے کے مقابلے میں اس طرح تخریج جلد مل جاتی ہے ۔

(4)سوفٹ ویئرز اور آن لائن مکتبوں کی مدد سے تخریج کرنا اور حوالہ تلاش کرنا بہت آسان ہوگیا ہے ۔مطلوبہ لفظ سرچ کے آپشن میں ڈالا اور چندلمحات میں تخریج ہماری نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے۔کچھ سوفٹ ویئرزاور آن لائن مکتبے یہ ہیں۔(i)المصحف الرقمی(قرآن مجید میں تلاش کے حوالے سے ایک بہترین سوفٹ ویئر ہے)( i i)مکتبۃ التفسیر وعلوم القرآن(قرآن مجید اور اس کی تفاسیر سے متعلق ایک منفرد سوفٹ ویئر ہے)( i i i)موسوعۃ الحدیث الشریف(iv)مکتبۃ السیرۃ النبویۃ(v)مکتبۃ الاعلام والرجال(vi)مکتبۃ الفقہ واصولہ (vii)مکتبۃ الاخلاق والزہد (viii)المکتبۃ الوقفیہ (ix)المکتبۃ الشاملہ(یہ ایک جامع لائبریری ہے۔یہ صرف ایک ذخیرہ کتب نہیں بلکہ اس میں اپنی ضرورت کے مطابق اضافہ اور کمی بھی کرسکتے ہیں)

(5)کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کا نظام موجودہ دور میں حوالہ وتخریج تلاش کرنے والوں کے لئے آسان ترین اور تیز ترین ذریعہ ہے۔آپ گوگل کے سرچ انجن میں کوئی لفظ یا جملہ ڈالتے ہیں اور چند سیکنڈ میں بہت سارے نتائج آپ کے سامنے ہوتے ہیں۔

متروکہ اور مشکل تخاریج کے حوالے سے راہنمائی:

بسا اوقات کوئی تخریج بار بار ڈھونڈنے کے باوجود نہیں مل رہی ہوتی ہے یا تخریج مشکل ہونے کی وجہ سے چھوڑ دی جاتی ہے۔تخریج نہ ملنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔کبھی تلا ش کرتے ہوئے درست الفاظ کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ۔ کبھی مطلوب بات کوہم صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے جس کی وجہ سے تخریج کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔جس چیز کی تخریج کررہے ہوتے ہیں وہ بات ان الفاظ سے تو نہیں مل رہی ہوتی ہے لیکن اس سے ملتے جلتے الفاظ سے مل جاتی ہے۔ایسی صورت میں ان ملتے جلتے الفاظ سے تخریج کردینی چاہیے اور آخر میں مفہوماً یا بتغیر کا اضافہ کردیا جائے۔کبھی کتاب سے کوئی بات نہیں مل رہی ہوتی ہے مگر سوفٹ ویئرز اورنیٹ کے ذریعےوہ مل جاتی ہے۔

تخریج کرنے میں غلطیاں اور مشکلات:

حوالہ دینے اورتخریج کرنے میں کبھی جلد بازی،کبھی غوروفکر نہ کرنے،کبھی بات کو نہ سمجھنے اور کبھی کتابت وکمپوزنگ وغیرہ کے سبب غلطیاں ہوجاتی ہیں۔اسی طرح کبھی مؤلف سے تسامح یا پھر ناشر کی غفلت کی وجہ سے حوالہ غلط درج ہوجاتا ہے۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں چنانچہ بہارشریعت حصہ3جلد 1صفحہ615پرہے : سُترہ بقدر ایک ہاتھ کے اونچا اور انگلی برابر موٹا ہو اور زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ اونچا ہو۔ (درمختار ردالمحتار)

اسلامک ریسرچ سینٹر( المدینۃ العلمیہ)کی طرف سے اس پر یہ حاشیہ دیا گیا:یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ ردالمحتار میں ہے: سنت یہ ہے کہ نمازی او ر سترہ کے درمیان فاصلہ زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ ہو۔

بہارشریعت حصہ7جلد 2صفحہ76پرہے :اگر مہر مؤجل (جس کی میعاد موت یا طلاق تھی)یا مطلق تھا اور طلاق یا موت واقع ہوئی تو اب یہ بھی معجل ہو جائے گا یعنی فی الحال مطالبہ کر سکتی ہے اگرچہ طلاقِ رجعی ہو مگر رجعی میں رجوع کے بعد پھر مؤجل ہوگيا۔

اسلامک ریسرچ سینٹر( المدینۃ العلمیہ)کی طرف سے اس پر یہ حاشیہ دیا گیا:بہارشریعت کے تمام نسخوں میں یہاں عبارت ایسے ہی مذکورہے، غالباًیہاں کتابت کی غلطی ہے کیونکہ عالمگیری اورردالمحتارمیں ہے کہ رجوع کے بعد پھرمؤجل نہیں ہوگا۔

کبھی کسی کتاب کا حوالہ مؤلف کی کتاب سے پہلے والی کتابوں میں نہیں ملتا تو بعد والی کسی کتاب سے حوالہ نقل کردیا جاتا ہے۔حوالہ نقل کرنے والے کی غفلت کہیں یا پھر بھول ،جس کتاب سے حوالہ منقول ہوتا ہے وہ بات اسی کتاب کے حوالے سے وہاں منقول ہوتی ہے۔مثلاً قوت القلوب کی کسی روایت کی تخریج ”اتحاف السادۃ المتقین“سے کی جائے اور وہاں اس روایت کے ذکر کے بعد یہ ہوکہ اس روایت کو امام ابو طالب مکی علیہ الرحمہ نے قوت القلوب میں ذکر کیا ہےاور اس کے علاوہ کوئی حوالہ نہ ہو۔گویا اس صورت میں ہم قوت القلوب کی تخریج قوت القلوب سے ہی کررہے ہیں اور ایسا کرنا درایت اور اصول تخریج کے خلاف ہے۔اس طرح کی بہت سی چیزیں حوالوں کی چھان بین کے دوران سامنے آتی ہیں۔

تخریج کرنے اور حوالہ دینے میں یہ غلطی بھی ہوتی ہےکہ غیر مستند کتاب سے حوالہ دے دیاجاتاہے ۔چنانچہ پاک وہند میں نورنامہ جو منظوم انداز میں میلاد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ذکر پرمشتمل ہے اور اردو زبان میں ہے ایک زمانہ تک بڑی شہرت کا حامل اور عوام میں خاصا مقبول رہا ہے۔ بعض لکھنے والوں نے اس کے اشعار اور روایات کو نقل بھی کیا ہےحالانکہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:نورنامہ کی روایت بے اصل ہے اس کو پڑھنا جائز نہیں ہے۔(فتاوی رضویہ،26/610)

تخریج حدیث میں مدارج کتب(مصادر اولی):

حدیث کی تخریج کرتے ہوئے کتب حدیث کے مدارج کو بھی دیکھا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہےیہ حدیث فُلاں حدیث کی کتاب میں ہے ۔حدیث کی کتابوں میں سب سے بڑا مرتبہ بخاری شریف کا ہے جسے اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللہ (یعنی قرآن پاک کے بعد صحیح ترین کتاب) کہا گیاہے۔پھرصحیح مسلم اور اس کے بعد سننِ اربعہ(سنن ترمذی ، سنن نسائی،سنن ابوداود،سنن ابن ماجہ)کا مرتبہ ہے۔ بعض علما نے ”سنن ابن ماجہ “ کی جگہ ”موطا امام مالک“ یا ”سنن دارمی“ کا رُتبہ بیان کیا ہےاور بعض اہل علم نے ”ابن ماجہ“کےبعد”موطا امام مالک“یا ”سنن دارمی“کا ذکر کیا ہے۔(الرسالۃ المستطرفۃ، ص82)امام علم وفن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہنے صحیحین اور سنن اربعہ کے بعدمسانید امام اعظم، موطا وکتاب الآثار امام محمد،کتاب الخراج امام ابویوسف ، کتاب الحج امام عیسٰی بن ابان،شرح معانی الآثار اور مشکل الآثار امام طحاوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کا ذکرکیا ہے۔ (فتاوی رضویہ ،29/632)

صحاح ،سنن،مسانید،معاجم،مصنف اور موطا کی وضاحت:

صحاح “صحیح کی جمع ہے،اس سےمراد وہ کتابیں ہیں جن کے مصنفین نے صحیح احادیث جمع کرنے کا التزام کیا ہے۔صحیح وہ حدیث ہے جس کے تمام راوی عادل اور تام الضبط ہوں ، اس کی سند ابتدا سے انتہا تک متصل ہو نیز وہ حدیث علّتِ خفیہ قادحہ اور شذوذ سے بھی محفوظ ہو۔(تیسیر مصطلح الحدیث، ص23) ”سنن“ سے مراد حدیث کی وہ کتابیں ہیں جن میں ابوابِ فقہ کی ترتیب پر فقط احادیث ِاحکام جمع کی گئی ہوں۔مسانید سے مرادحدیث کی وہ کتابیں جن میں ہر صحابی کی مرویات الگ الگ جمع کی جائیں۔”معاجم“حدیث کی وہ کتابیں جن میں اسمائے شیوخ کی ترتیب سے احادیث لائی جائیں۔(تیسیر مصطلح الحدیث،ص128)”مصنف اور موطا“حدیث کی وہ کتاب جس میں ترتیب ابواب فقہ پر ہو اور احادیثِ مرفوعہ کے ساتھ موقوف ومقطوع احادیث بھی مذکور ہو ۔ ( جامع الاحادیث ، 1/567)

کتب صحاح ،سنن اور مسانید(مصادر ثانیہ):

کتب صحاح،سنن اور مسانید بہت ساری ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:

صحاح:(۱)منتقی الاخبار (۲)صحیح ابن سکن (۳)الاحادیث المختارہ (۴)صحیح ابن حبان (۵)صحیح ابن خزیمہ وغیرہ۔

سنن:(۱) سنن الدار قطنی(۲)سنن الکبری للنسائی(۳)سنن الکبری والصغری للبیھقی(۴)معرفۃ السنن والآثار للبیھقی(۵)مسند رویانی(۶)الادب المفرد للبخاری(۷)مستدرک للحاکم(۸)سنن سعید بن منصور (۱۰)شرح السنہ للبغوی وغیرہ۔

مسانید:(۱)مسند امام احمد(۲)مصنف عبدالرزاق(۳)مصنف ابن ابی شیبہ(۴)مسند شافعی (۵) مسند حمیدی (۶)مسند ربیع (۷) مسند عبد اللہ بن مبارک (۸)مسند ابن شیبہ(۹)مسند طیالسی (۱۰)مسند اسحاق بن راہویہ (۱۱)مسند بزار (۱۲)معاجم ومسند الشامیین للطبرانی (۱۳)مسند ابی یعلی(۱۴)مسند ابن الجعد(۱۵)مسند شہاب (۱۶)مسند حارث (۱۷)مسند ابی عوانہ وغیرہ۔

نوٹ:امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہنے صحاح کے درجہ میں منتقی الاخبار،صحیح ابن سکن ، الاحادیث المختارہ اور صحیح ابنِ حبان کوبیان کیا ہےاور سنن کے درجہ میں مسند رویانی کو بھی شامل کیا ہے۔ (ماخوذازفتاوی رضویہ،۴/۲۱۰)

امام ابو القاسم طبرانی(وفات360ہجری)رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکی معاجم(معجم کبیر،معجم اوسط،معجم صغیر) اور مصنفین(مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ )مسانید کے درجے میں ہیں۔مسانید میں سب سے اعلیٰ درجہ مسند امام احمد کا ہے۔(فتاوی رضویہ،۴/۲۱۰)

بعض وہ کتب جن سے حوالے دیئے جاتے ہیں(مصادر ثالثہ):

(۱)حلیۃ الاولیاء (۲)کُتب ابنِ ابی الدنیا (۲)کتب ابو الشیخ(۳)محدثین کی کتب زہدوغیرہ۔

کتب تخریج:(۱)جامع الاصول لابن اثیر جزری(۲)الترغیب والترہیب للمنذری(۳)اتحاف الخیرۃ المھرۃ للبوصیری (۴)کنزالعمال(۵)مجمع الزوائد(۶)جمع الجوامع اور جامع الاحادیث وجامع الصغیرللسیوطی وغیرہ

کتب تاریخ واسماء الرجال:(۱)الکامل لابن عدی(۲)تاریخ بغداد(۳)ابن عساکر(۴)کتاب الثقات لابن حبان (۵)معرفۃ الصحابہ لابی نعیم(۶)معجم الصحابۃ للبغوی وغیرہ

شروحاتِ حدیث:(۱)شرح صحیح مسلم للنووی (۲)شرح بخاری للکرمانی (۳)عمدۃ القاری(۴)فتح الباری (۵)ارشاد الساری (۶)شرح بخاری لابن بطال وغیرہ۔

فقہ حنفی کی تخریج میں مدارج کتب:

فقہ حنفی کی کتابوں کی بات کریں تو کتب حدیث کی طرح ان کے بھی مدارج ہیں۔فقہ حنفی کی کتابوں میں پہلا مرتبہ متون کاہے۔متون وہ کتابیں کہلاتی ہیں جو نقل مذہب کےلئے لکھی گئی ہیں۔(فتاوی رضویہ، ۴/۲۰۸)ان کتابوں میں کتب اصول سے مسائل ذکر کئے جاتے ہیں۔کتبِ اصول امام محمد بن حسن شیبانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (وفات189ہجری) کی چھ کتابیں ہیں:(1)جامع کبیر(2) جامع صغیر(3) مبسوط(اسے ”اصل “بھی کہتے ہیں) (4) زیادات(5) سِیر کبیر(6) سیر صغیر۔ان کتب کو چونکہ فقہ حنفی میں فتوی اور اجتہاد کےلئے اصل اور مرجع ہونے کی حیثیت حاصل ہے اس لئے انہیں اصول کہا جاتا ہے۔(پیش لفظ،فتاوی شامی(مترجم) ،جلداول،ص25) نیز ان کتابوں کو ظاہر الروایہ بھی کہاجاتا ہے،ظاہر الروایہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں میں درج مسائل امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے ثقہ لوگوں نے بیان کیےہیں اور جن کا ثبوت تواتر اور شہرت سے ہے۔ (رد المحتار،مطلب رسم المفتی،1/163)ان کتب اصول اور ظاہر الروایہ کے مسائل کو امام محمد حاکم شہید رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(ت334ہجری) نے اپنی کتاب کافی میں جمع کردیا ہے۔ (رد المحتار،مطلب رسم المفتی،1/167)متون کے بعدشروحات اور اس کے بعد فتاوی کارُتبہ ہے۔(فتاوی رضویہ،۴/۲۰۸)

کتبِ متون:جیسےمختصر الطحاوی،مختصر الکرخی،قدوری،کنز، وافی، نقایہ،اصلاح،مختار،مجمع البحرین، مواہب الرحمٰن ،ملتقی، ہدایہ اور اس کے علاوہ دیگر جو نقل مذہب کے لئے لکھی گئی ہیں ۔(فتاوی رضویہ،۴ /۲۰۸)

کتبِ شروح:کتبِ اصول کی شرحیں جو ائمہ نے لکھیں ،مبسوط امام سرخسی، بدائع ملک العلماء، تبیین الحقائق، فتح القد یر، عنایہ، بنایہ، غا یۃ البیان، درایہ، کفایہ، نہایہ، حلیہ، غنیہ، البحرالرائق، النہرالفائق، درر احکام، دُرمختار، جامع المضمرات، جوہرہ نیرہ، ایضاح، غنیہ، شرنبلالی، حواشی خیر الدین رملی، ردالمحتار، منحۃ الخالق وغیرہ۔(فتاوی رضویہ،۴/۲۰۹)

کتبِ فتاویٰ: خانیہ، خلاصہ، بزازیہ، خزانۃ المفتین، جواہر الفتاوی، محیطات(محیط برہانی اور محیط سرخسی)، ذخیرہ، واقعاتِ ناطفی، واقعات صدر شہید، نوازل ، مجموع النوازل، ولوالجیہ، ظہیریہ، عمدہ، کبری، صغری، تتمہ الفتاوٰی، صیرفیہ، فصول عمادی،فصول استروشنی، جامع صغار، تاتارخانیہ، ہندیہ، فتاوٰی خیریہ، العقود الدریہ، فتاوی رضویہ۔ (فتاوی رضویہ، ۴/۲۰۹ملخصاً)

نوٹ:کتب فتاوی میں سب سے پہلے لکھی جانے والی کتاب امام ابو اللیث سمرقندی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکی کتاب ”نوازل“ ہے۔ (رد المحتار،مطلب رسم المفتی،1/163)


مشہورشیخ طریقت ،امیرِملت حضرت مولاناسیدجماعت علی شاہ محدث علی پوری(1) رحمۃ اللہ علیہ1332ھ /1914ء میں لاہور(2) کی جامع مسجدپوٹلیاں اندرون لوہاری گیٹ(3) میں قیام فرماتھے،اتنے میں ایک ذی وجاہت مگر جسمانی طورپر دبلےپتلے عالمِ دین،سیاہ اچکن،سیاہ رامپوری ٹوپی اور موری دارپاجامہ زیب تن کئے تشریف لائے، امیرِملّت فوراًکھڑے ہوگئے، ان سے معانقہ کیا(گلےملے)،ہاتھوں اور پاؤں کا بوسہ لیا، انھوں نے امیرِملّت سےپوچھا کہ آپ کاکیا حال ہے؟امیرِملّت نے جواب دیا کہ حضور!اللہ تعالیٰ کا شکرہے ،آپ نے جوکچھ عطافرمایاہے اسی کا فیض ہے۔(4) آپ جانتے ہیں وہ عالم دین کون تھے ؟یہ اپنے وقت کے مشہورعالمِ دین، استاذ العلما، جامع منقول ومعقول ،مفتیِ اسلام ، ادیبِ عربی حضرت مولانا مفتی محمدعبداللہ ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ان کا مختصرذکر کیا جاتاہے:

پیدائش :

مفتی محمد عبداللہ ٹونکی کے آباواجدادہند کی ریاست بہارکے رہنے والے تھے،کافی عرصہ پہلے یہ ریاست ٹونک (راجستھان) (5) کے محلہ گھورکھپوریوں والا میں منتقل ہوگئے، مفتی صاحب یہیں شیخ صابرعلی صاحب کےگھر 1266ھ / 1850ء کو پیدا ہوئے۔ (6)

تعلیم وتربیت :

ابتدائی تعلیم علمائے ٹونک سے حاصل کی، حفظِ قرآن کی سعادت بھی پائی، شاگردِ علامہ فضلِ حق خیرآبادی (7) حکیم سیّددائم علی عظیم آبادی(8) سے بھی استفادہ کیا (9) طویل عرصہ استاذالاساتذہ، استاذالہندعلامہ محمد لطف اللہ علی گڑھی(10) رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں علوم عقلیہ کی تحصیل کی،دورۂ حدیث شریف افضل المحدثین فی زمانہ، محشّی صحیح بخاری حضرت علامہ حافظ احمدعلی سہارنپوری(11) رحمۃ اللہ علیہ سے کیا (12) انہیں کی نسبت سےآپ اپنے نام کےساتھ احمدی بھی لکھا کرتے تھےچنانچہ عقد الدُّرَر فی جید نزھۃ النظر صفحہ 193میں لکھتے ہیں :واناالعبدالاثیم محمدن المدعو بعبداللہ الٹونکی توطنا،والاحمدی تلمذا،والحنفی مذہباً۔

فراغت کےبعدبھی تحصیلِ علوم کی پیاس باقی رہی اورلاہورآکر علامہ فیض الحسن سہارنپوری (13) رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردگی اختیارکی اور ادبیات عربی کی تعلیم پائی، 1886ء میں گورنمنٹ اورینٹل کالج سےمولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔(14)

بیعت وارادت :

مفتی صاحب اپنےعظیم المرتبت شاگردامیرِملّت پیرسیدجماعت علی شاہ محدّث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اورکارناموں سےمتاثرتھےاورعلم وفضل کے کوہِ گراں ہونےکے باوجود اپنےزندگی کے آخری حصےمیں امیرملت کے ہاتھ پر بیعت کرکے سلسلۂ نقشبندیہ میں داخل ہوگئے۔(15)

اعلیٰ حضرت سے استفادہ:

آپ نے امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے مختلف مسائل پرمشتمل استفتاء بھیجے،جن کےجوابات فتاویٰ رضویہ(16) کی چارجلدوں میں موجود ہیں، (1)فتاویٰ رضویہ جلد12صفحہ169 (2) فتاویٰ رضویہ جلد18 صفحہ 359 (3)فتاویٰ رضویہ جلد19 صفحہ292 (4) فتاویٰ رضویہ جلد26 صفحہ 278یوں مفتی صاحب بذریعہ خط وکتابت اعلیٰ حضرت سےمستفیض ہوئے ۔

علمی مقام:

مفتی صاحب فقہِ اسلامی،ادب عربی اورفلسفہ قدیمہ پر عبوررکھتے تھے۔اسلامی قانون اور شرعی تنازعات میں آپ کا فیصلہ سند مانا جاتا تھا۔شاعرِمشرق ڈاکٹرمحمداقبال مرحوم(17) نے آپ سے استفادہ کیااورشاگردگی کا شرف پایا۔(18) چنانچہ دانائے رازمیں ہے : مفتی محمد عبداللہ ٹونکی عربی میں ان کے استاد، شعر و شاعری کی محفلوں میں ان کے ہم جلیس، ان کے بزرگ ہر اعتبار سے واجب الاحترام، مگر اس کے باوجود بے تکلف دوست بشرطیکہ لفظ دوستی میں تفاوت عمر کا لحاظ رکھ لیا جائے۔ (19) ڈاکٹر اقبال ان کے درسِ حَمَاسَہ(عربی شاعری کی ایک کتاب) میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے ۔(20) ڈاکٹراقبال مفتی صاحب کےبارے میں کہاکرتے تھے کہ اس ناتواں جسم میں علم وفضل کا اتناذخیرہ ہےکہ کُوزے میں دریابندہونےکی مثل اِن پر صادق آتی ہے۔(21) آپ عربی میں اشعاربھی لکھاکرتے تھے۔(22)

اخلاق وعادات:

مفتی صاحب عالمِ باعمل،متقی وپرہیزگاراورحسنِ اخلاق کے پیکرتھے،مخالفین بھی آپ کےپاس آکرآپ کے گرویدہ ہوکرواپس جاتے تھے ۔طلبہ آپ سے علومِ دینیہ کےساتھ ساتھ تصوف کے اسرارورموزبھی حاصل کرتے تھے۔وہ بہت کم بولتے تھے مگرجب بولتےتو ان کا ایک ایک لفظ مستندہوتاتھا،مفتی صاحب ہر شام بازارِ حکیماں میں حکیم شہبازدین کی علمی وادبی بیٹھک میں بیٹھا کرتےتھے،اس مجلس میں موجودلوگوں کو قرآنی احکام کی حکمتوں سے آگاہ کیاکرتےتھے ، آپ پان کا استعمال کرتے اورگفتگوکرتےوقت اپنے منہ پر رومال رکھ لیا کرتے تھے۔(23)

تدریسی خدمات:

٭آپ نے تدریس کا آغازدہلی میں قائم مدرسہ مولانا عبدالرّب دہلوی (24) سے کیا ایک عرصہ وہاں پڑھاتے رہے(25) ٭یکم مئی 1883ء میں لاہورکےمشہورعلمی ادارے گورنمنٹ اورینٹل کالج(26) کے عربی مدرس مقررہوئے۔٭1887ء میں علامہ فیض الحسن صاحب کے انتقال فرمانے کے بعد صدر مدرس بنادئیے گئے۔ ٭کچھ عرصہ بعدشعبہ عربی کے سپرنٹنڈنٹ ہوگئے۔ ٭1897ءمیں آپ کو اورینٹل کالج کاقائم مقام پرنسپل بھی بنایاگیا۔٭1903ء میں آپ کو شمس العلماءکا خطاب دیا گیا۔٭1917ء کو آپ ریٹائرڈ ہوئے۔یوں ان 34 سال کے دوران آپ اورینٹل کالج میں نہایت جانفشانی کے ساتھ ادب عربی اورعلوم اسلامیہ کی ترویج واشاعت میں مصروف رہے۔(27) سینکڑوں طلبہ نےآپ سے استفادہ کیا۔ ٭کالج سے فراغت کے بعدلاہور(جسے آپ اپناوطن ثانی فرمایاکرتےتھے)کوداغِ مفارقت دے کر لکھنؤ اورپھرمدرسہ عالیہ کلکتہ (28) میں تشریف لےگئے،وہاں چندسال صدرمدرس کے طورپرعلومِ اسلامیہ کی تدریس فرماتے رہے۔آپ تدریس عربی کے اعلیٰ پائے کےمدرس،ناظم وناشراورعربی درسگاہوں کی قدیم تعلیم کے ماہر تھے۔ (29)

علمائےلاہورمیں شمارکرنے کی وجہ :

مفتی صاحب اگرچہ لاہور کے باشندے نہیں تھے اور نہ ہی یہاں انتقال فرمایا مگر چونکہ آپ نے لاہور میں ایک متحرک ومؤثر عالم دین کی حیثیت سے تقریبا34 سال گزارے، اس لئے آپ کو لاہور کے علما میں شمار کیا جاتا ہے۔آپ کی رہائش محلہ بازار حکیماں بھاٹی گیٹ(30) میں تھی۔ (31)

انجمن نعمانیہ لاہورمیں خدمات :

1857ء کی تحریک آزادی کےبعدبرّعظیم میں اسلامی علوم کی حوصلہ شکنی اوربیخ کنی کا سلسلہ جاری تھا، جمادی الاخریٰ1305ھ/مارچ1887ء میں کچھ دردمندعلما اور زُعمائے اہلِ سنت لاہور نے تحفظِ عقائدِ اہلِ سنّت ،علومِ اسلامیہ کی ترویج و اِشاعت،عوامِ اہلِ سنت کی دینی تربیت ، اورباہمی اتحادواتفاق کے لیے انجمن خادم علومِ اسلامیہ المعروف انجمن نعمانیہ لاہور(32) کوقائم فرمایا، اس کے تحت 5صفر 1305ھ /23 اکتوبر 1887ء کو مدرسہ علومِ اسلامیہ المعروف دارالعلوم نعمانیہ (33) شروع کیاگیا جس نے سالہاسال خدمتِ دین سرانجام دیں ، 1908ء کو یتیم خانہ، 1906ء کو دارالاقامہ اور 1913ء میں شعبہ اشاعت کتب حنفیہ اورلائبریری کا آغاز ہوا۔ (34) ٭حضرت مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب انجمن نعمانیہ کے بانی ار اکین میں شامل تھے۔(35) آپ اگرچہ گورنمنٹ اورینٹل کالج میں عربی کے پروفیسرومدرس تھے مگر انجمن کو پورا پورا وقت دیتے تھے ٭آپ مجلس انتظامیہ کے رکن اور شعبۂ تعلیم کے ناظم بھی تھے ٭ ابتدائی سالوں کے ناظم امتحانات بھی رہے۔ شروع کے چار سالوں ( 1893 تا 1896ء) کے نتائج انجمن کے سالانہ رسالوں میں شائع ہوئے ہیں جس پر آپ کے دستخط بھی موجود ہیں ٭آپ نے انجمن کےصدر ثانی کی حیثیت سے بھرپور خدمت انجام دیں۔٭ انجمن کے سالانہ جلسوں میں مقامی اور دور دراز سے آئے ہوئے علماء کی تقار یرہوا کرتی تھیں آپ بھی ان جلسوں میں خطاب فرمایا کرتے تھے آپ کی ایک تحریر ی تقریر انجمن کی سالانہ رسالہ1314ھ/1897ء میں شائع بھی ہوئی ہے، تقریر سے قبل آپ کو ان القاب سے نوازا گیا،’’ عالم لوذعی و فاضل المصی مولوی حافظ مفتی محمد عبداللہصاحب ٹونکی عربی پروفیسر یونیورسٹی آف پنجاب و دبیر مجلس انجمن مستشارُالعلماء لاہور،تقریر کا عنوان ہے:’’ مذہب کسے کہتے ہیں اور وہ کیا چیز ہے؟‘‘یہ تقریر 18 صفحات(9تا26) پر مشتمل ہے۔(36) ٭ربیع الاول 1329ھ /مارچ 1911ء کو اسلامیہ کالج لاہورکےوسیع وعریض گراؤنڈمیں انجمن نعمانیہ کے تحت عیدمیلادالنبی کا جلسہ ہوا جس میں مفتی عبداللہٹونکی ،علامہ غلام دستگیرقصوری(37) امیرملت اورڈاکٹراقبال نے تقاریرکیں(38) ٭آپ انجمن کے سالانہ جلسوں میں شرکت فرماتے اورتقریرفرماکرعوام اہلسنت کے علم وعمل میں اضافےکی کوشش فرماتے،چنانچہ رجب 1314ھ /جنوری 1897ء کوانجمن کے موچی دروازے میں ہونےوالےسالانہ جلسے میں مفتی صاحب نے تقریرکی۔ (39)

انجمن حمایتِ اسلام میں خدمات :

مسلمانوں میں دنیاوی تعلیم عام کرنے ،غریبوں اوریتیموں کی کفالت کرنے کے لئے خلیفہ حمیدالدین احمدقاضی لاہور(40) نے اپنے رفقاکےساتھ مل کر 3ذوالحجہ 1301ھ /24ستمبر1884ءمسجدبوکن خان موچی گیٹ لاہور(41) میں انجمن حمایتِ اسلام کا آغازکیا (42) اس انجمن نےاسکول وکالج کھولنےاورطلبہ کوجدیدعلوم سےروشناس کرنے میں اہم کرداراداکیا(43) مفتی صاحب اس کے صدراورعرصہ دراز تک اس کی کئی کمیٹیوں کے چئیرمین رہے ، اورینٹل کالج کی تدریس کے بعد اس کےجلسوں میں شرکت کرتے اوراپنےوعظ سےلوگوں کو اسلام کی سنہری تعلیمات سےآگاہ کرتےتھے ،(44)

انجمن نعمانیہ اورانجمن حمایت اسلام کویکجاکرنے کی کوشش:

٭ان دونوں انجمنوں کامقصدچونکہ مسلمانوں میں تعلیم کوعام کرنا تھا ،انجمن نعمانیہ دینی اور انجمن حمایتِ اسلام دنیاوی تعلیم عام کررہی تھی، دردمندمسلمانوں نے سوچا کہ ان دونوں کو یکجا کرکے ایک ایساعظیم تعلیمی ادارہ قائم کیاجائےجو دینی اوردنیاوی علوم کاسرچشمہ ہو (45)چنانچہ6ربیع الاول1315ھ/ 5اگست 1897ء کوبادشاہی مسجد لاہور(46) میں دونوں کے اراکین کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب انجمن حمایت اسلام کی جانب سے شریک ہوئے تھے ،اسی اجلاس میں دونوں انجمنوں کے زُعَمانے ایک دوسرے کا مؤقف سنا اورمزیداجلاس کا طے کیا، دیگراجلاس کےبعدبھی دونوں انجمنوں کے یکجاہونےپراتفاق نہ ہوسکا،البتہ انجمن حمایت اسلام نےانجمن نعمانیہ کے علمی تعاون سے اپنےتحت علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت کےلیے ایک ادارہ بنانےکا طے کیاتاکہ ان کے ہاں جس کام کی کمی ہے وہ پوری ہوسکے،اسی کے بعدمدرسہ حمیدیہ کا آغازکیاگیا ۔ (47)

مدرسہ حمیدیہ میں تدریس:

٭ انجمن حمایت اسلام کے تحت 20جمادی الاولیٰ 1315ھ / 17،اکتوبر1897ء کو بنام مدرسہ حمیدیہ دارلعلوم کاآغازہوا۔مولانا مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب انجمن نعمانیہ کے ساتھ ساتھ مدرسہ حمیدیہ سے بھی وابستہ تھے ، آپ کے ساتھ انجمن نعمانیہ کے کئی علما مثلاً مولانا غلام اللہ قصوری (48) مولانا محمد ذاکر بگوی (49) اور مولاناپروفیسر اصغر علی روحی (50) وغیرہ نے اس مدرسےمیں بھی پڑھانے کا سلسلہ رکھا، یہ مدرسہ 1328ھ/1910ء تک قائم رہا۔ (51)

انجمن مستشارالعلماء کاآغاز:

مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب نے مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کے لیے5ربیع الاخر1304ھ/ یکم جنوری 1887ء میں انجمن مستشارالعلمالاہورکی بینادرکھی اوراس کے ناظم عمومی مقررہوئے،اس کا مقصد جدیدمسائل پر جیدعلماء سے آرالے کر ان پر غورکرنا اورایک متفقہ مؤقف قوم کو پیش کرنا تھا ، (52) دیگرمفتیان کرام کے علاوہ دارالعلوم نعمانیہ کے فارغ التحصیل مفتی نورحسن ولدفیض بخش کھوکھرصاحب بحیثیت مفتی مقررہوئے ، (53) اس انجمن کی لائبریری کے لیے امیرملت سیدجماعت علی شاہ(سرپرست انجمن مستشارُالعلماء)، حضرت مولانا مفتی غلام محمدبگوی(صدرانجمن مستشارُالعلماء) (54) اوردیگرافرادپرمشتمل ایک وفدامرتسرگیا، وہاں کے عوام وخوص کو اس کے مقاصدسے آگاہ کیا ،اس موقعہ پرانجمن اسلامیہ امرتسرکےشیخ صادق مرحوم نےکتب کےلیے پچاس روپے دئیے۔ (55) مفتی محمدعبداللہ ٹونکی صاحب نے اس انجمن کی شاندارلائبریری قائم کی جو بادشاہی مسجدمیں تھی ، (56) مگر انجمن مستشارالعلما اپنے مقاصدکو درست اندازمیں نہ نبھاسکی اورمرورزمانہ کے ساتھ ساتھ اس مجلس پر کچھ ناپسندیدہ لوگ قابض ہوگئے جیساکہ حضرت مولاناپیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب (57) تحریرفرماتےہیں :’’انجمن نعمانیہ لاہورنے اس انجمن کی ناقص کارکردگی اورعقیدے میں ناپختگی کی وجہ سے یکم جولائی (1901ءمطابق 14ربیع الاول 1319ھ)کو(اس سے)علیحدگی اختیارکرنے کا اعلان کیا۔ (58)

انجمن خدام الصوفیہ کے اجلاسات میں شرکت:امیرملت محدث علی پوری نے1319ھ/ 1901 ء میں ایک دینی اوررفاحی تحریک ’’انجمن خدام الصوفیہ (59) قائم فرمائی جس کے تحت کئی دینی مدارس،مساجد اوررفاحی ادارےبنائےگئے ،مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب اس انجمن کےجلسوں میں تشریف لاتےکسی نہ کسی نشست میں صدارت فرماتےاوردعائےخیرسے نوازاکرتے تھے۔ (60)

ردقادیانیت :

جب امیرملت نے فتنۂ قادیانیت (61) کی سرکوبی کےلیےجدوجہد شروع فرمائی ،تو علامہ عبداللہ ٹونکی صاحب نےان کا بھرپورساتھ دیا ۔٭20ربیع الاخر1326ھ/22مئی 1908ء امیرملت نےشاہی مسجدمیں خطبہ جمعہ دیااورعوام اہلسنت کےسامنے ختم نبوت کے موضوع پرگفتگوفرمائی ،فتنہ قادیانیت کےبارےمیں لوگوں کوآگاہ کیا ،اس میں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب بھی تشریف فرماتھے،انھوں نے اس خطبے کی تائیدوحمایت فرمائی،٭اسی زمانےمیں امیرملت نے لاہورشہرمیں مسئلہ ختم نبوت پر جلسوں کاسلسلہ شروع کیاجوتقریباایک ماہ تک جاری رہا، مفتی صاحب ان جلسوں میں شریک ہوتےاورخصوصی دعاؤں سےنوازتے۔ (62)

ردبدمذہبیت:

آپ کی حیات میں نت نئےفتنےاٹھے ،آپ نے علمائے اہل سنت کے ساتھ مل کر ان کا ردفرمایاجس کی کچھ تفصیل بیان کی جاتی ہے :

(1)1302ھ میں عقائد و معمولات اہل سنت خصوصا میلاد و فاتحہ وغیرہ کے بارے میں ایک فتنہ اٹھا جس کا رد حضرت مولانا علامہ محمدعبدالسمیع رامپوری (63) رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مبسوط کتاب’’ انوارساطعہ دربیان مولودوفاتحہ‘‘ لکھ کرفرمایا، (64) یہ کتاب بلاشبہ جہاں تفریق بین المسلمین کی تاریخ اور اس کے اسباب و عوامل پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے وہیں علم غیب ، مسئلہ حاضرو ناضر اور دوسرے اہم علمی و فقہی مسائل و مباحث کی گرہیں بھی کھولتی ہے،اس کتاب کی تائیدعرب عجم کےکثیرجیدعلماکرام نےکی، مگرجن کی قسمت میں ہدایت نہیں تھی انھوں نے اس کے جواب میں کفریہ کلمات پر مشتمل کتاب “براہین قاطعہ‘‘لکھ ڈالی۔

براہین قاطعہ جس کے نام سے شائع ہوئی تھی،وہ شخص اپنے رفقاکےساتھ حضرت مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کےپاس آیاجس کا ذکرآپ نےاپنےدومکتوبات میں فرمایاہے اس کا خلاصہ علامہ غلام دستگیرمحدث قصوری صاحب ان الفاظ کے ساتھ تحریرفرماتے ہیں : مولوی خلیل احمد مع اپنے حواریوں کے میرے پاس آئے اور مسئلہ امکان و کذب باری تعالیٰ کا حکم پوچھا، میں نے جواب دیا کہ اس کا قائل میرے نزدیک اہل سنت سے خارج ہے کیونکہ علما عقائد نے کذب باری تعالیٰ کو ممتنع لکھا ہے۔اُنہوں نے شرح مواقف مقصد فروع معتزلہ علی اصولہم سے عبارت پیش کی ،میں نے اس کا یہ جواب دیا کہ اس کا جواب مسلم الثبوت اور اس کی شرح میں ہے کہ صحیح امتناع ذاتی ہے الخ (65)

(2)مذکورخلیل احمد کا برادرانہ تعلق حضرت علامہ مفتی غلام دستگیرمحدث قصوری صاحب کے ساتھ تھا ،انھوں نے اس کو سمجھایا مگروہ بازنہ آیا بلکہ آپ سے مناظرہ کرنے پر اترآیا، تاریخ میں یہ ’’ مناظرۂ بہاولپور‘‘کےنام سےمشہورہے جوکہ شوال 1306ھ/مئی 1889ء کو ہوا،اس مناظرے میں اُس شخص کوذلت آمیزشکست ہوئی اوراسے ریاست بہاولپورسے شہربدریعنی نکال دیاگیا۔ (66) اس مناظرے میں مفتی غلام دستگیرصاحب کو مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کی نہ صرف علمی حمایت حاصل تھی بلکہ آپ فرماتے ہیں : میری(عبداللہ ٹونکی کی) خوشی تھی کہ اس مناظرہ میں بھی شامل ہوتا مگر عدمِ فر صت سے نہ ہوسکااور مجھے غالب امید ہے کہ اِمکانِ کذب کے قائل مغلوب ہوں گے او رخدا کو پاک کہنے والے منصور(کامیاب) ہوں گے۔ (67)

(3)استاذالعلماحضرت علامہ حافظ احمد حسن کانپوری (68) نے ”ابطالِ امکانِ کذب‘‘کےموضوع پر ایک رسالہ’’تنزیہ الرحمن عن شائبہ الکذب والنقصان ‘‘ تحریر فرمایا ،مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب نے اس پر تقریظ لکھی جو آپ کی حمیتِ مذہب کا پتادیتا ہے،آپ کی یہ تقریظ عربی میں ہے،اس کا ترجمہ پیش کیاجاتا ہے : تمہارا رب، عزت والا رب ان باتوں سے پاک ہے جو باتیں یہ لوگ بنارہے ہیں۔ پیغمبروں پر سلام ہو۔ سب خوبیاں اللہ پاک کی ہیں جو سارے جہان کا ربّ ہے۔ حمد وصلوۃ کے بعد! یہ خوشنما وباکمال رسالہ اور نفیس وعالی مقالہ ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ جھوٹ اور غلط بیانی ممکن ہونے سے ربِّ کریم کی ذات پاک ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ خامی وعیب کے امکان سے ذاتِ خداوندی منزّہ ہے، یہ رسالہ اپنے شان دار وخوش گوار فیضانات سے نگاہ والوں کو جھمادے گا اور اپنے کامل وظاہر سیلاب سے‘ بہکی بہکی باتیں کرنے والوں کے پاؤں اکھاڑ دے گا، اس سے عقل وبرکت والوں کے سینے کشادہ ہوں گےاور جاہل کمینوں کے دلوں میں گھٹن ہوگی، دانش مندی وحقانیت والوں کے دل خوشی سے جھوم اٹھیں گے اور فتنہ وفساد والوں کی آنکھوں میں آشوب اتر آئے گا۔ اس رسالے کی باتیں غالب برہانوں سے آراستہ ہیں اور اس کے مضامین منہ زور دلیلوں سے سجے ہیں، اس رسالے کی دلیلوں کے نوکیلے نیزے‘ راہِ حق سے ہٹ کر چلنے والے گمراہوں کے نظریات کے جگر پھاڑ دیں گے، اس سالے کے ثبوتوں کی آزمودہ پتلی تلواریں‘ ہٹ دھرمی کے راستے میں دلچسپی رکھنے والوں کے باطل مذہبوں کے کاندھے چیر دیں گی، اس کے صاف ستھرے بیان کے ہتھوڑے‘ کذبِ باری تعالیٰ کا امکان وجواز ماننے والوں کی خیالی کہانیوں کو پاش پاش کردیں گے، اس کے روشن بیان کے کوڑے‘ جھوٹ اور بہتان والوں کے پلندوں کی کمر توڑ دیں گے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا کیوں کہ یہ جس ہستی کا رسالہ ہے وہ ہیں بلند مرتبہ علامہ، علم کے چھلکتے سمندر، صاحبِ نگاہْ فاضل، حق وباطل میں فرق کرنے والے واقفِ احوال، درستی بھری عقل، روشن سمجھ داری، بھری ذہانت، پختہ اندازِ فکر، ٹھوس رائے اور مستحکم دانائی والے، عزیزِ دلنواز، مشفقِ ذی شان، پُرانے ساتھی اور عظیم دوست مولانا حافظ احمد حسن صاحب، اللہ پاک انھیں زمانے کی مصیبتوں اور نئے نئے نکلنے والے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ منقولی علوم کی باگیں بلا اختلاف آپ کے ہاتھ میں ہیں، اکثر عقلی فنون کی لگامیں بلا مزاحمت آپ کے قابو میں ہیں، دور ونزدیک والے ان کی فضیلتوں کے نور سے روشنی لیتے ہیں، پیٹ بھرے اور بھوکے ان کی عظمتوں کے درخت سے پھل لیتے ہیں۔

آپ کی تقریر کے تیر اس قوم کی لغزشوں کے دلوں میں پیوست ہوجاتے ہیں جس قوم کا رشید گمراہ ہے اور جن کا سچا جھوٹا ہے۔ آپ کی تحریر کے نیزے اُس قوم کی غلطیوں کے سینے میں گڑے ہوئے ہیں جن کا خلیل تہی دامن ہے اور جن کا امین خائن ہے۔ آپ نے ان کی بے بنیاد باتوں کو پُرزے پُرزے کردیا، ان کی بے حقیقت کہانیوں کے چیتھڑے اُڑادیے، ان کی باتوں پر کالک مَل دی، اُن کی گمراہیوں کی آنکھیں بے نُور کردِیں، ان کے بھائیوں (شیطانوں) کے وسوسوں کے لشکر تہس نہس کردیے، اُن کے بے جان خیالوں کے ڈھیر ریزہ ریزہ کردیے، اُن پر قیامت ڈھادی اور اُن پر مَوت کی بارش برسائی۔ جیسا کہ یکے بعد دیگرے دو مرتبہ میں نے آمنا سامنا کرکے، آڑے ہاتھوں لے کر اور مقابلہ کرکے ان کا حشر کیا جب لاہور میں یہ لوگ ٹولیاں بناکر آئے اور جمگھٹ لگایا، وہ لاہور جو روشنی وتابناکی میں چمکتے سورج اور چاند کے ہالے کی طرح ہے، ربِّ کریم مجھے اور اس شہر کو زمانے کی بُرائیوں اور خوشی کی رکاوٹوں سے محفوظ رکھے۔ چنانچہ یہ تتر بتر ہوگئے، بکھر گئے، خاک ہوگئے، شکست کھاگئے، آنکھ بچاکر کھسک گئے اور مٹی میں مل گئے جیسے پھیلی ہوئی ٹڈیاں ہوں یا بکھری ہوئی باریک چیونٹیاں ہوں۔ الغرض! ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی۔سب خوبیاں اللہ پاک کی ہیں جو سارے جہان کا ربّ ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور آپ کے سب آل واصحاب پر رحمتیں اور سلام ہوں۔ تیری رحمت سے یہ سوال ہے اے سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ربّ۔بندہ گنہ گار مفتی محمد عبداللہ عفی عنہ کی یہ تحریر ہے ۔ (69)

(4)علامہ احمدحسن کانپوری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب’’تنزیہ الرحمن‘‘کتاب کے ردمیں ایک کتاب الجہدالمقل فی تنزیہ المعز والمذل لکھی گئی ،جب مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کو اس کا علم ہواتو آپ نےاس کا جواب15جمادی الاولیٰ 1308ھ/27دسمبر1890ء کو عربی رسالے ’’ عجالۃ الراکب فی امتناع کذب الواجب “کی صورت میں لکھ کردیا،یہ عربی ادب کا مرقع ہے۔ (70) مفتی عبداللہ ٹونکی نے الجہدالمقل کے مصنف سے امکان کذب کے موضوع پر 19رمضان 1306ھ/19مئی 1889ءکو لاہورمیں مناظرہ کیا ،ایسے دلائل دئیے کہ مدمقابل مرعوب ولاجواب ہوگیا ۔ (71)

(6)یکم صفر1305ھ /19،اکتوبر1887ءکو ایک شخص نے طواف قبورکوجائز قراردیا ،اس کاردکرتےہوئے مفتی غلام دستگیرمحدث قصوری صاحب نےایک رسالہ کشف الستورعن طواف القبورلکھا ،مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب نے تحریری طورپر اس کی تائیدفرمائی۔ (72)

وراثت کاقانون اورگورنرپنجاب سےملاقات:

1333ھ/ 1915ء میں حکومت ہندوستان نے وراثت کا قانون بنایاجس میں لوگوں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ اپنی مرضی سے وراثت کی تقسیم کرسکتے ہیں ،شرعی طریقہ کارکے مطابق کریں یا اپنےرسم ورواج کے مطابق،علمااہل سنت کے لیے یہ قانون باعث اضطراب تھا،چنانچہ انجمن نعمانیہ لاہورنے جیدعلماء ومفتیان کرام اورمسلمان وکلاپرمشتمل ایک وفدبنایاجس میں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب بھی شامل تھے ،اس وفدنےگورنرپنجاب سے جاکرملاقات کی اوراس قانون کو واپس لینے پرگفتگوکی ۔ (73)

تحریرات وکتب :

تبلیغ دین کا ایک اہم ذریعہ تحریربھی ہے بلکہ تحریرکئی امتیازات کی بنا پرتقریرسےزیادہ مؤثرہوتی ہے ، آپ اس کی اہمیت سےبخوبی واقف تھےچنانچہ آپ نے کئی مضامین اورکتب تحریرفرمائیں جن کی تفصیل بیان کی جاتی ہے :

(1)عقد الدررفی جید نزہۃ النظر:نخبۃ الفکر اصول حدیث پر ایک اہم تصنیف ہے جو درس نظامی میں شامل ہے ،مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب اس فن میں یدطولیٰ رکھتے تھے ،آپ نے یہ کتاب طلبہ کو کئی مرتبہ پڑھائی ،چنانچہ آپ نے اس پر عربی میں حاشیہ لکھنے کا فیصلہ کیا ، آپ کا لکھا گیا حاشیہ آج بھی طلبہ واساتذہ کے لیے راحت کا سامان ہے،غالباپہلی مرتبہ 1320ھ میں مطبع مجتبائی دہلی نے122صفحات پراسےشائع کیا، (74) بعدمیں کئی مطابع نےاسے شائع کیا ہے،دورحاضرکے تصنیف وتالیف اورتحقیق وتراجم کا عظیم ادارے المدینۃ العلمیہ (Research Centre Islamic) (75) نے اسے بہترین اندازمیں شائع کرنےکا فیصلہ کیاہے۔

(2)عجالۃ الراکب فی امتناع کذب الواجب:

مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب نے45صفحات پرمشتمل یہ رسالہ 15جمادی الاولیٰ 1308ھ/27دسمبر1890ء کو رسالہ جہدالمقل فی تنزیہ المعز والمذل کے جواب میں لکھا ، (76) یہ رسالہ مولاناکرم بخش صاحب نےمطبع اسلامیہ لاہور سےشائع کیاتھا۔

(3)حاشیہ میرایساغوجی (77) اسےچندسال پہلے1436 ھ ذوالحجہ /ستمبر2015ءمیں دارالاسلام لاہور(جامع مسجدومحلہ مولانا روحی ،اندرون بھاٹی گیٹ )نےشائع کیاہےاور یہ1894ءمیں مطبع عزیزی لاہورسے شائع شدہ نسخے کاعکس ہے۔

(4) رسالہ تقلید ،اسےانجمن نعمانیہ کےشعبۂ اشاعتِ کتبِ حنفیہ نے 1331ھ/1913ء کوشائع کیا۔ (78)

(5)تحریراقلیدس مترجم (79)

(6)تعلیقات المفتی علیٰ شرح سلم العلوم:یہ کتاب مطبع اسلامیہ لاہور سےشائع ہوئی۔

(7)الکلام الرشیق ۔ (80)

(8)مجموعہ فتاویٰ بنام شرح محمدی چارجلد (81)

(9) حاشیہ الأنوار الزاهية في ديوان أبي العتاهية۔ (82)

مفتی غلام احمدحافظ آبادی کا تعاون:

قیام لاہورمیں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کو استاذالعلمامفتی غلام احمدحافظ آبادی (83) کا علمی تعاون رہا،مفتی صاحب کے لکھے گئے حواشی پر استاذالعلماتصحیحات فرماتے ،بوقت ملاقات ان کے سقم سے آگاہ فرماتے جنہیں مفتی صاحب تسلیم کیا کرتے تھے۔ (84)

وفات:کالکتہ قیام کےدوران آپ پرفالج کا حملہ ہوا،وہاں سے بھوپال اپنےبیٹےمفتی انوارالحق (85) کےپاس چلے گئے، وہاں صاحب فراش رہے ،علاج معالجہ کا سلسلہ جاری رہا ،بالاخرتقریباًستر(70)سال کی عمرمیں 24صفر 1339ھ/ 7نومبر1920ءکو انتقال فرماگئے۔آپ کی رحلت سے اہل اسلام عربی زبان کے فاضل اجل، اسلامی شریعت کےماہراورکثیرالفوائدشخصیت سےمحروم ہوگئے ۔ (86)

حواشی وحوالاجات

(1) امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ نقشبندی محدّثِ علی پوری رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ حافِظُ القراٰن، عالمِ باعمل، شیخُ المشائخ، مسلمانانِ برِّعظیم کے متحرّک راہنما اور مرجعِ خاص وعام تھے۔ ایک زمانہ آپ سے مستفیض ہوا، پیدائش 1257ھ/1842 ء میں ہوئی اور 26ذیقعدہ 1370ھ میں وصال فرمایا، مزار مبارک علی پورسیّداں (ضلع نارووال، پنچاب) پاکستان میں مرجعِ خَلائق ہے۔ (تذکرہ اکابرِ اہل سنّت،ص 113تا117)

(2) لاہورایک قدیم وتاریخی شہرہےمغلیہ عہدمیں لاہورکے اردگردفصیل اورتیرہ دروازے بنائےگئے ،372ھ کویہ ملتان سلطنت کا حصہ تھا،اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکزہے،اسےپاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباایک کروڑ 11لاکھ ہے۔

(3)مسجد پٹولیاں لوہاری دروازے (وہ دروازہ جوقدیم فصیل میں بجانب جنوب واقع ہے،اہل سنت کی مرکزی درسگاہ جامعہ نظامیہ رضویہ ،اسی کے اندر واقع ہے)کے اندر لوہاری منڈی میں موجود ہے۔ یہ مسجدکئی سوسال سےقائم ہے، 1282ھ /1865 ءمیں میاں عمرو دین لاہوری صاحب نے اس کی تجدیدکی ،1321ھ/1903ءمیں اسے پھربنایاگیا، اب موجودہ دورمیں مسجد جدید طرز پر تعمیر کی گئی ہے۔ پرانی عمارت موجود نہیں۔

(4)خلاصہ ازاساتذہ امیرملت ،56،57

(5)ٹونک ہندوستان کے صوبہ راجستھان کی ایک مسلم نوابی ریاست تھی جسے 1798ء میں ایک مسلمان حکمران نواب محمدعامرخان نے قائم کیا ،اس کے پانچویں اورآخری حاکم نواب محمدسعادت خان نے 1947ء میں اس کا الحاق ہندوستان کےساتھ کردیا تھا،یہ علوم و فنون، شعر و شاعری اور ارباب فکر و نظر کی سرزمین تھی۔

(6)اساتذہ امیرملت صفحہ 53میں پیدائش کاسن 1850 ء اورامام احمدرضااورعلمائے لاہورصفحہ 65میں 1854ء لکھاہے۔

(7)قائدِ جنگِ آزادی حضرت علامہ محمدفضلِ حق خیر آبادی چشتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1212ھ/ 1797ء کوخیرآباد،ضلع سیتا پور (یوپی،ہند) میں ہوئی اور وصال 12صفر 1278ھ کو جزیرہ انڈمان میں ہوا۔ مزار یہیں ساؤتھ پوائنٹ پورٹ بلیرمیں ہے۔ آپ علوم عقیلہ و نقلیہ کے ماہر، منطق و حکمت میں ایک معتبر نام، استاذالعلماء، سلسلہ خیرآبادیہ کے چشم و چراغ، لکھنؤ کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) اردو و عربی کے شاعر، کئی کتب کے مصنف اور مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ (ماہنامہ جامِ نور دہلی، اکتوبر 2011ء)

(8)حضرت مولانا حکیم سیددائم علی عظیم آبادی جامع معقول ومنقول تھے، پٹنہ بہارکے رہنےوالےتھے ،حازق حکیم کے طورپرشہرت پائی ،نواب آف ریاست ٹونک نے انہیں استاذطبیب کےطورپر ٹونک بلالیا اوریہ یہیں رہائش پذیرہوگئے،آپ حاجی امداداللہ مہاجرمکی کے مریدوخلیفہ تھے۔(امام احمدرضا اورعلمائےلاہور،138)

(9)خلاصہ ازاساتذہ امیرملت ،56،57

(10) استاذُالکل حضرت مولانا مفتی محمد لُطفُاللہ علی گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت پلکھنے (لکھنؤ، یوپی) ہند میں 1244ھ/1828ء میں ہوئی اور 9ذوالحجہ 1334ھ کو علی گڑھ میں وصال فرمایا، تدفین مزار حضرت جمالُ العارِفین رحمۃ اللہ علیہ کے قُرب میں ہوئی، آپ جلیلُ القدر عالمِ دین، مؤثر و فَعَّال شخصیت اور جامعِ علومِ عقلیہ و نقلیہ تھے، محدثِ اعظم ہند، علّامہ سیّد احمد محدثِ کچھوچھوی، علّامہ وصی احمد محدثِ سورتی اور علّامہ احمد حسن کانپوری رحمۃ اللہ علیہم سمیت سینکڑوں علما آپ کے شاگرد ہیں۔( استاذالعلماء، ص6،32، تذکرہ محدث سورتی، ص46 تا 50 )

(11)افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری کی ولادت1225ھ/ 1810ء اوروصال 6؍جمادی الاولیٰ 1297ھ / 16؍اپریل 1880ء کوتقریباً بہتر (72)سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔ آپ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردخاک کیے گئے۔آپ حافظ قرآن،عالم اجل،استاذالاساتذہ،محدث کبیر اور کثیرالفیض شخصیت کےمالک تھے ، اشاعت احادیث میں آپ کی کوشش آب زرسےلکھنےکےقابل ہیں ،آپ نے صحاح ستہ اوردیگرکتب احادیث کی تدریس،اشاعت،حواشی اوردرستیٔ متن میں آپ نے جو کوششیں کی وہ مثالی ہیں۔ استاذالمحدثین حضرت علامہ وصی احمدمحدث سورتی ،استاذالعلماء مفتی سیددیدارعلی شاہ محدث لاہوری،قبلہ عالم پیرسیدمہرعلی شاہ گولڑوی وغیرھم آپ کے مشہورشاگردہیں ۔(حدائق حنفیہ،510،صحیح البخاری مع الحواشی النافعۃ، مقدمہ،1/37)

(12)تذکرہ علمائے اہل سنت،159

(13) امام الادب حضرت مولانا فیض الحسن سہارنپوری کی پیدائش 1232ھ /1816ء کومحلہ شاہ ولایت سہارنپورمیں پیداہوئے اور6فروری 1887ءکو لاہورمیں وصال فرمایا، قبرستان درہ آلی سہارنپورمیں دفن کیا گیا، آپ نےصدرالصدوردہلی مفتی صدرالدین آزردہ،علامہ فضل حق خیرآبادی،علامہ شاہ احمدسعیدمجددی وغیرہ اجل علماسے جملہ علوم ادب،فقہ واصول فقہ،حدیث وطب میں کامل مہارت حاصل کی ، حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی کے ہاتھ پربیعت کی ،آپ 1870ء میں گورنمنٹ اورینٹل کالج کے پہلے عربی کےپروفیسرمقررہوئے ،رسالہ شفاء الصدورکےمدیربھی رہے،عربی تصانیف میں فیض القاموس،شرح تاریخ تیموری،ضوءالمشکوۃ اختصارایلاقی،شرح حماسہ وغیرہ اہم ہیں ۔آپ نے علامہ غلام دستگیرقصوری صاحب کی کتاب تقدیس الوکیل عن توہین الرشیدوالخلیل اورعلامہ عبدالسمیع رامپوری کی کتاب انوارساطعہ دربیان مولودوفاتحہ دونوں کی تائیدکرتے ہوئےان پر تقاریظ بھی لکھیں۔(تذکرہ علمائے اہلسنت وجماعت لاہور،166تا189،انوارساطعہ،540 )

(14)اساتذہ امیرملت ،56،57

(15)اساتذہ امیرملت،56

(16)فتاویٰ رضویہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان کےفتاویٰ کا مجموعہ ہے جوقدیم بارہ (12)جلدوں پر مشتمل ہے،مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدعبدالقیوم قادری ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ نے اہل سنت کے مرکزی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہورمیں شعبان 1408ھ/ مارچ 1988ء کو ایک تحقیقی ادارہ بنام رضا فاؤنڈیشن بنایا جس کا مقصدتصانیف اعلیٰ حضرت کو جدیداندازمیں شائع کرنا ہے اس کے تحت فتاویٰ رضویہ کی تخریج اورترتیب جدیدپر کام شروع ہوا اور رجب1426 ھ/اگست 2005ء کومکمل ہوا،اب فتاویٰ رضویہ کی 33جلدیں ہیں ،جس میں 30جلدیں فتاویٰ، دو جلدیں فہرست اورایک جلداشاریہ پر مشتمل ہے۔یہ بلند فقہی شاہکارمجموعی طورپر21656صفحات، 6847سوالوں کےجوابات اور206 رسائل پرمشتمل ہے جبکہ ہزاروں مسائل ضمنازیربحث آئے ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ ،30/5،10)

(17)ڈاکٹرمحمداقبال کی پیدائش1294ھ/1877ء کو سیالکوٹ اوروفات20صفر 1357ھ / 21 اپریل 1938ء لاہور میں ہوئی ،آپ معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔

(18)اساتذہ امیرملت،54

(19)دنائے راز،98

(20)دنائے راز،246

(21)پیرزادہ اقبال احمد فاروقی ’’تذکرہ علمائے اہلسنت و جماعت لاہور ‘‘ ص 251

(22)نثر الجواهر والدرر في علماء القرن الرابع عشر،1/588

(23)سیرت امیرملت،59،مجالس علما،299،300

(24)مولانا عبدالرب دہلوی عظیم عالم دین تھے،علوم عقلیہ ونقلیہ پردسترس،عربی ادب میں ماہراوربہترین ومؤثر واعظ بھی تھے،محرم 1305ھ/اکتوبر1887ء کووفات پائی۔(تذکرہ علمائےہند،260 )

(25)نثر الجواهر والدرر في علماء القرن الرابع عشر،1/588

(26)1870ء میں حکومت نے طے کیاکہ مشرقی علوم کی تعلیم کے لیے اورینٹل اسکول بنایا جائے جو بعدمیں اورینٹل کالج بنا،اس کے بنیادی مقاصدمیں مشرقی علوم کی ترقی وفروغ ،مشرقی زبانوں کی تدریس اوردوسری ملکی زبانوں کی حوصلہ افزائی تھی،علامہ فیض الحسن سہارنپوری صاحب اس کے شعبہ عربی کے پہلے صدرمدرس بنائے گئے ۔(تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہور،166)

(27)اساتذہ امیرملت ،56،57

(28)1780ء کلکتہ (صوبہ مغربی بنگال)میں اسلامی علوم کی اشاعت کے لیے مدرسہ عالیہ قائم کیاگیا،کئی جلیل القدر علماء نے اس میں درسِ نظامی پڑھااورپڑھایاہے،اب اسےیونیورسٹی کادرجہ دےدیا گیاہے،یہ مذہبی اور جدید تعلم کا امتزاج ہے۔

(29)اساتذہ امیرملت،58)

(30)مشہورہے یمین الدولہ ابو القاسم محمود غزنوی( 971 ء – 1030ء)نے جب لاہورکوفتح کیا تو لاہورکی فصیل کی مغربی دیوارمیں جو دروازہ حضرت داتاگنج بخش سیدعلی ہجویری کےمزار کی سمت واقع ہےاس کا نام راجپوت بھٹی قبیلے کے نام پر بھاٹی گیٹ رکھا گیا ،مغل بادشاہ اکبرکے دورِ حکومت میں اسے دوبارہ تعمیرکیا گیا ۔اسی میں بازارحکیماں واقع ہے ،یہ وہی بازارہے جس میں شاعرمشرق دوران تعلیم مقیم رہے،یہ مقام بطوریادگارموجودہے ۔

(31)امام احمدرضا اورعلمائےلاہور،66،67

(32)اس انجمن کے مقاصدیہ تھے،(1)ارکان اسلام کا استحکام۔(2)اہل اسلام کے اخلاق اورمعاشرت کی تہذیب علیٰ قانون شرعیہ۔(3)علوم عربیہ اسلامیہ کوجواس ملک میں کالعدم ہوگئے ہیں (انہیں) سرسبزکرنا۔ (4)عموماًاسلام اورخصوصاََملتِ حنفیہ کی تائیدکرنی۔(5)رسومِ خلافِ شرع کے انسدادکی کوشش (6)اہل اسلام میں باہمی اتفاق کی کوشش۔(7)حکامِ وقت کی خدمت میں مفاداسلام کےمتعلق باادب گذارشات (8)قومی ہمدردی کاروائیوں میں بے ریائی کا نمونہ دکھلانا(9)اغراض صدرحاصل کرنے کےلیےعلوم اسلامیہ کی اعلیٰ تعلیم کا ایک مدرسہ قائم کرنا جس میں بلافیس کے شائقانِ علم دیں کو پوری ۔۔۔تک تعلیم حاصل ہونے سے اورحسب ضرورت خوراک وسامان ضرورت وغیرہ سے بھی امدادکی جاوے۔(10)اس مدرسے کےابتدائی حصے میں مسلمان بچوں کو حنفی فقہ کی تعلیم دینااوراعمال شرعیہ کی پابندی کروانا۔(امام احمدرضا اورعلمائےلاہور156 )

(33)دار العلوم نعمانیہ لاہور کی ایک قدیم اور دینی تعلیم کی معیاری درسگاہ ہے۔یہ امام ابو حنیفہ کی نسبت نعمانیہ کہلاتا ہے،موجودہ عمارت بالمقابل ٹبی تھانہ اندرون ٹیکسالی گیٹ لاہور میں ہے،اس کا آغاز1306ھ /1888ءکو مسجدبوکن خان موچی گیٹ میں ہوا،اس کا عربی حصہ13شوال 1314ھ/ 17مارچ1897 ء کو بادشاہی مسجدمیں منتقل کیا گیا،جب اندرون ٹکسالی گیٹ میں دارالعلوم نعمانیہ کادارالاقامہ تعمیرہوگیا تو اس کے پانچ سال بعد اس کا عربی حصہ بادشاہی مسجدسےیہاں منتقل ہوگیا،اس کے 43ویں جلسے کی روئیدادسے معلوم ہوتاہے شعبان1349ھ/دسمبر1930ءتک اس سےچارہزاردوسوتین(4203 ) علمافارغ التحصیل ہوچکے تھے۔( امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،26،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور306،73)

(34)امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،26،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور 84،83،103 ،17،18،25

(35) امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،155

(36) امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،132،131

(37) مناظرِاہلِ سنّت،حضرت علامہ غلام دستگیر قصوری ہاشمی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت اندرونِ موچی دروازہ لاہور میں ہوئی۔ جیدعالمِ دین، مناظرِاسلام، مصنّفِ کتب اور مجازِطریقت تھے۔ پندرہ(15) سے زیادہ تصانیف میں تقدیسُ الوکیل کو شہرت حاصل ہوئی۔ 20محرم1315ھ/ 21جون1897ء کو وصال فرمایا، مزارمبارک بڑا قبرستان (کچہری روڈ) قصور پاکستان میں ہے۔ (رسائل محدث قصوری، ص65،47)

(38)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،24،101

(39)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور، 50

(40)زبدہ علمائے کاملین حضرت مولاناقاضی خلیفہ حافظ حمیدالدین صدیقی بن استاذالکل خلیفہ غلام اللہ لاہوری کی پیدائش 1842ءیا1830ء اور1315ھ /1897ء کووفات ہوئی،آپ فاضل یگانہ ،جیدعالم دین، لاہورکے قاضی (Judge)اورانجمن حمایت اسلام کے بانی وپہلے صدرتھے،انہیں کی نسبت سے انجمن نے 17،اکتوبر1897ء /20جمادی الاولیٰ 1315ھ کو مدرسہ حمیدیہ لاہورکا آغازکیا ۔انجمن نعمانیہ کے بھی خیرخواہ اورمعاون تھے ،انجمن نعمانیہ کا پہلےجلسے (30محرم1306ھ)میں بھی شریک تھے ، بعدوفات1898ء کے انجمن نعمانیہ کے سالانہ جلسے میں آپ کی یادمیں ایک منقبت پڑھی گئی۔مفتی غلام دستگیرمحدث قصوری کی شہرہ آفاق کتاب تقدیس الوکیل اوردیگرکتب مثلاعروۃ المقلدین ،عمدۃ الابیان میں آپ کی تصدیقات وتقاریظ موجودہیں۔ (امام احمدرضا اورعلمائےلاہور،132،26، صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،32،رسائل محدث قصوری، 172،359،732)

(41)مسجدبوکن خان :اندرون موچی گیٹ اورشاہ عالمی گیٹ کے درمیان پیرڈھل رحمۃاللہ علیہ کا مزارہےاسی نسبت سےیہ محلہ پیرڈھل کہلاتاہے،اس محلےمیں مسجدبوکن خان ہے ،یوں تو یہ مسجدکئی سوسال پرانی ہے مگر1257ھ/1841ء میں ایک شخص بوکن خان نےاس کی نئی تعمیرات کرائیں،مسجدکےتین محربیں بنوائیں،مسجدکاصحن پختہ کروایا،(یہ ابھی بھی موجودہیں)جنوبی حصےمیں طلبہ علم دین کےلیے کمرے تعمیرکروائے،اورایک حصےمیں مختلف درختوں پر مشتمل باغیچہ بنوایا،یہ دونوں حصےاب ختم ہوچکےہیں ۔

(42)تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت لاہور،249

(43)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،51

(44)اساتذہ امیرملت،53

(45) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،51

(46)اس کا قدیم نام عالمگیری مسجدہےیہ مغل بادشاہ محمدمحی الدین اورنگ زیب عالمگیرغازی 1084ھ/1673ء نےبنوائی،اب یہ لاہورکی شناخت بن گئی ہے۔ یہ شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں،مرورزمانہ کے ساتھ یہ مسجدویران ہوگئی،مسلمانان لاہورکی تحریک پر حکومت برطانیہ نے 1856ءکو مسلمانوں کے حوالے کردی ،مولانا قاضی حافظ احمددین بگوی اس کے پہلے امام وخطیب مقررہوئے ،1869ءمیں مفتی غلام محمدبگوی،پھرمولانا محمدذاکربگوی اس کے بعدمولانا شفیق بگوی نے یہ ذمہ داری نبھائی۔مزیدتفصیل دیکھئے: تذکرہ بگویہ 1/93،تذکرہ علماء اہلسنت وجماعت ،122

(47) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،53،57

(48) مولاناغلام اللہ قصوری قرشی حنفی کی پیدائش قصورمیں1266ھ / 1850ء کوہوئی اور1341ھ /1922ء کولاہورمیں وصال فرمایا،تدفین قصورمیں ہوئی،دیناوی تعلیم حاصل کرکے ریاست فریدکوٹ میں مشیرمال مقررہوئے ،پھرزندگی میں انقلاب آیا،ملازمت چھوڑکر علوم دینیہ کی تحصیل میں مصروف ہوگئےاور علمائے لاہورسے اسلامی علوم میں رسوخ حاصل کیا،اورمدرسہ حمیدیہ پھرمدرسہ رحیمیہ نیلاگنبدلاہورکے مدرس بن گئے،پھریکے بعددیگرے مدرس اسلامیہ ہائی اسکول امرتسر(11سال)فیروزپورہائی اسکول(8 سال)اورچیفس کالج لاہورمیں سترہ (17)سال عربی واسلامیات کے پروفیسررہے اورآپ 1922ء میں ریٹائرڈ ہوئے،آپ حضرت مہرصوبانقشبندی کے مریدوخلیفہ تھے(تذکرہ علمائےاہلسنت وجماعت لاہور،248تا256)

(49) سندالسالکین حضرت مولانا محمدذاکربگوی کی ولادت 1293ھ/1876ء کو بھیرہ ضلع سرگودھا میں ہوئی اور13ربیع الاول1334ھ/20جنوری1916ء کو لاہوروفات پائی ،انہیں خانقاہ بگویہ بھیرہ شریف میں دفن کیاگیا ،آپ جیدعالم دین،مدرس مدرسہ حمیدیہ لاہور،خلیفہ مجازآستانہ عالیہ سیال شریف ،زہدوتقویٰ کے پیکر، عبادت کے شوقین اور صاحب کرامت تھے۔(تذکاربگویہ،1/ 213تا292)

(50) سبحان عصرحضرت مولاناپروفیسراصغر علی روحی 1284ھ/1876ءکو گجرات میں پیداہوئے اور 3128رمضان 1373ھ /مئی 1954ء میں وصال فرمایا، آپ کا مزار کٹھالہ ضلع گجرات میں مسجد سے ملحق ، برلب شاہرا ہ عظیم ( جی ۔ ٹی ۔ روڈ) واقع ہے آپ عالم دین،عربی وفارسی کےماہراورشاعرتھے،آپ اورینٹل کالج اوراسلامیہ کالج میں عربی پروفیسررہے، علمی و ادبی پرچہ الہدی کے مدیرمسئول کے طورپر بھی خدمات سرانجام دیں ۔آپ نے تفسیرقرآن(2پارے)دیوان فارسی (6 ہزاراشعار)اوردیوان عربی (5سواشعار)سمیت کئی کتب تصنیف فرمائیں ۔(تذکرہ اکابراہل سنت ،60)

(51) امام احمدرضا اورعلمائےلاہور،132،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،57،53

(52) اساتذہ امیرملت،57

(53) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،137

(54) عالم باعملحضرت مولانا مفتى حافظ غلام محمد بگوى رحمۃ اللہ علیہکی ولادت ایک علمی گھرانے میں 1255ھ/1839 ءکو بگہ (تحصیل پنڈ دادنخان )ضلع جہلم میں ہوئی، علم دین والدِگرا می استاذالکل مولانا غلام محی الدین بگوی سے حاصل کیا، سلسلہ نقشبندیہ میں خواجہ فقیرمحمد چوراہی سے بیعت وخلافت کا شرف پایا، حصول علم و عرفان کے لئے لاہور آگئے،علم وتقویٰ کی وجہ سےیہاں عام و خواص کا رجوع آپ کی جانب تھا، آپ کی کوششوں سے لاہور کی بادشاہی مسجد آباد ہوئی اور آپ اس کے امام وخطیب،متولی اور صدردارالافتاءبنائے گئے، آپ انجمن نعمانیہ لاہورکے بانیان میں سے بھی تھے ،آپ کا وصال 4جمادی الاخریٰ 1318ھ/29ستمبر1900ء کو ہوا۔مزارمیانی قبرستان میں ہے۔(تذکرہ علماء اہلسنت و جماعت لاہور، ص218،امام احمدرضا اورعلمائے لاہور، 155)

(55) اساتذہ امیرملت،57

(56) تذکاربگویہ 1/131

(57) حضرت مولانا پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب ضلع گجرات (پنجاب پاکستان)کےایک موضع شہاب دیوال کےایک علمی فاروقی گھرانے میں 1346ھ/1928 ءکو پیداہوئے اورتقریبا89سال کی عمرمیں16 ؍صفرالمظفر1435ھ 20دسمبر 2013 کو لاہور میں وصال فرمایا،ان کی تدفین میانی صاحب قبرستان میں خواجہ محمد طاہر بندگی کے مزار اقدس کےمتصل ہوئی۔ آپ ایک متحرک عالم دین،دینی ودنیاوی تعلیم سے مرصع،مکتبہ نبویہ کےبانی ،ناشر ِ رضویات، مدیر ماہنامہ جہان رضا لاہوراور روح رواں مجلس رضااوراکابر علمائے اہل سنت لاہورسےتھے۔ آپ خوش اخلاق،مہمان نوازاورہردل عزیزشخصیت کےمالک تھے ، چھوٹےبڑےسب کو اہمیت دیتے اورعلمی کاموں پر حوصلہ افزائی فرمایاکرتےتھے،راقم کئی مرتبہ ان سے ملا،یہ مجھ پرخصوصی شفقت فرماتے اورمجھےاپنا کراچی والادوست کہاکرتےتھے۔

(58) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،66

(59) 1319ھ/1901ء کو امیرملت پیرسیدجماعت علی شاہ محدث علی پوری نےاس کی بنیادرکھی ،اس کے مقاصدیہ تھے (1)اتحادجمیع سلاسل تصوف(2)اشاعت اسلام وتصوف(3)تردیدالز۱مات خلاف اسلام وتصوف(4)تردیدمذاہب باطلہ ،اس کےپہلےصدربھی آپ تھے،اس کی شاخیں ہندبھرمیں تھیں ،اس کے تحت کئی مدارس،مساجد،یتیم خانےقائم ہوئے،1904ء میں اس کے تحت ایک ماہنامہ ’’انوارالصوفیہ‘‘،اوردیگررسائل مثلامبلغ قصور،لمعات الصوفیہ سیالکوٹ،الفقیہ امرتسر،الجماعت امرتسربھی جاری ہوئے ،کئی مدارس مثلا مدرسہ نقشبندیہ علی پورسیداں،اس کی شاخیں میسور،قصور ،گجرات،سانگلہ ہل ،ڈسکہ وغیرہ میں قائم ہوئیں۔ (مزید دیکھئے: سیرت امیرملت350تا449)

(60)اساتذہ امیرملت،57

(61) 1889ء میں مرزاغلام احمدقادیانی(1835ءتا1908ء) نامی شخص نےمسیح موعود، مہدی آخر الزمان اور نبی ہونے کا دعویٰ کیا ،انبیائے کرام بالخصوص حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کیں ،اس نے 1889ء میں باقاعدہ بیعت کا آغازکیا،ارتدادکے اس فتنےکی بنیادرکھی۔(بہارشریعت،1/190)

(62) اساتذہ امیرملت،56،سیرت امیرملت،248

(63) صاحبِ انوارِ ساطعہ مولانا محمد عبدُالسمیع بیدل انصاری رام پوری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت رام پور منہیاراں (ضلع سہارن پور یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ جید عالم، مصنفِ کتب، شاعرِ اسلام اور سلسلۂ چشتیہ صابریہ کے شیخِ طریقت تھے۔ یکم محرم 1318ھ/یکم مئی1900ء کو وصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک قبرستان رؤسائے لال کُرتی میرٹھ (یوپی) ہند میں ہے۔ اپنی کتاب ”انوارِ ساطعہ در بیانِ مولود و فاتحہ“ کی وجہ سے معروف ہیں۔( نورِ ایمان، ابتدائیہ، تذکرۂ علمائے اہلسنت، ص167)

(64) انوارساطعہ،15

(65) تقدیس الوکیل،85

(66) رسائل محدث قصوری،89

(67) تقدیس الوکیل،85

(68) استاذالعلماء، امامِ معقولات و منقولات حضرت مولانا شاہ احمدحسن محدث کانپوری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1296ھ /1879ءمیں پٹیالہ (مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور وصال 3صفر 1322ھ /19،اپریل1904ء کو کانپور (یوپی) ہند میں فرمایا، آپ کا مزار پرانوار یہیں بساطیوں والے قبرستان نزد پنجابی محلہ میں ہے۔ آپ جید عالم، مدرسمدرسہ فیض عالَم کانپور، مصنف و شارحِ کتب، دوستِ اعلیٰ حضرت اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ تصانیف میں رسالہ تَنْزِیْہُ الرَّحْمٰن کو شہرت حاصل ہوئی۔ (تذکرہ محدث سورتی، ص298تا301، کانپور نزدیک سے دور تک، ص25,30)

(69) تنزیہ الرحمن عن شائبہ الکذب والنقصان، 65،66۔اس تقریظ کا ترجمہ ادارۂ تصنیف و تالیف وتراجم و تحقیق المدینۃ العلمیۃ (Research Centre Islamic)کے فاضل نوجوان مولانامحمدعباس عطاری مدنی صاحب نے کیا ہے،راقم اس پر ان کا شکرگزارہے ۔ابوماجدعطاری۔

(70) تقدیس الوکیل،86،87

(71) مولانا محمود احمد قادری تذکرہ علمائے اہلسنت ص 159 مطبوعہ انڈیا۔

(72) رسائل محدث قصوری،415

(73) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،124

(74) تذکرہ علمائے اہلسنت ص 160

(75)المدینۃ العلمیۃ (Research Centre Islamic) اسلامی تعلیمات عام کرنےوالا علمی، تحقیقی اورتصنیفی ادارہ ہے جو عالم اسلام کی عالمگیرتحریک دعوت اسلامی کےعالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ میں قائم ہے اس کی ایک شاخ فیضان مدینہ مدینہ ٹاؤن فیصل آبادمیں بھی قائم ہے ، دونوں شاخوں میں 118افراد کاعملہ تصنیف وتالیف یاترجمہ وتحقیق یامعاونت میں مصروف ہے، جنوری2021ء تک 606کتب ورسائل پر کام مکمل ہوچکا ہے، 30 کتب و رسائل پر کام جاری ہے۔ المدینۃ العلمیۃ کے کتب و ر سائل کی تین سال (2017 تا 2019ء)کی کارکردگی کے مطابق ایککروڑ 80لاکھ(8,304,1281) سے زائد فروخت اور نواسی لاکھ (8,974,694) سے زائدمرتبہ ڈاؤن لوڈ ہوچکی ہیں جس سےیہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اس ادارے کے علمی و تحقیقی لٹریچركو خواص کے ساتھ عوامی پذیرائی بھی حاصل ہے ۔

(76) مولانا محمود احمد قادری تذکرہ علمائے اہلسنت ص 159 مطبوعہ انڈیا۔

(77) مراۃ التصانیف،165

(78) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور 83

(79) مراۃ التصانیف،174

(80) تذکرہ علمائے اہلسنت ص 159

(81) اساتذہ امیرملت ،59

(82) مراۃ التصانیف،139

(83) استاذالعلمامفتی غلام محمدحافظ آبادی کی ولادت 1273ھ/1856ء کو کوٹ اسحاق(یونین کونسل ضلع حافظ آباد،پنجاب،پاکستان)میں پیداہوئےاوریہیں 3ربیع الاول1325ھ/16،اپریل1907ء کو وصال فرمایا۔آپ جامع معقول ومنقول،فقیہ وقت،ماہرادب عربی،صدرالمدرسین ومفتی اعظم دارالعلوم نعمانیہ اورہزاروں علماکے استاذہیں۔(تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت لاہور،221)

(84) تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت لاہور،222

(85) جوریاست بھوپال میں محکمۂ تعلیم کے ناظم اوردیوان غالب کے نسخہ حمیدیہ کےمرتب وناشرتھے۔

(86) اساتذہ امیرملت،59


اسلام دینِ فطرت ہے اور دیکھا جائے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام دینِ تعلیم و تعلم، دینِ علم، دینِ حکمت و دانائی، دینِ تربیت و تفہیم بھی ہے۔ علم کے حصول، علم کی اہمیت اور علم کی افضلیت پر جس قدر اسلام  نے زور دیا ہے، کسی بھی دوسرے معاشرے میں اس کی نظیر قطعا ًنہیں ملتی۔

گزشتہ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ اللہ رب العزّت کے حبیب احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ ﷺ کا فرمان ہے: ” اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماًیعنی مجھے مُعلّم بناکر بھیجا گیا۔(ابنِ ماجہ،1/150،حدیث:229)

چنانچہ جب ہم پیارے رسولِ کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور احادیثِ مبارکہ کا مُطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے کس کس انداز میں تعلیم و تعلم کو ترویج دیا۔ کائنات کے سب سے کامیاب ترین مُعلم و مُربِی نے انسانی طبیعت و مزاج کے موافق ہر طریقہ سے تعلیم کو متعارف (Introduce) کروایا، ان میں سے ایک اہم ترین انداز ”حاضرین کو سوال کرنے کا ذہن دینا، انہیں سوال کرنے کی آزادی دینا اور ان کے سوالات کے مناسب اور ان کے حال و طبیعت و ضرورت و مقصود کے موافق جواب دینا“ بھی ہے۔

اس طریقۂ تعلیم کی تائید و اہمیت قراٰنِ کریم کی آیتِ مبارکہ سے بھی واضح ہوتی ہے:

فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ( ۴۳) 14 ، النحل: 43)

ترجمۂ کنز الایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھواگر تمہیں علم نہ ہو۔

رسولِ کریم ﷺ نے یہ انداز کئی طرح سے لوگوں میں عام فرمایا ، کبھی تو علم نہ ہونے کی وجہ سے غلطی کر بیٹھنے پر سوال کرنے اور نامعلوم کو معلوم کرنے کا فرمایا چنانچہ

حضرت جابر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفرمیں گئے تو ہم میں سے ایک شخص کو پتھر لگ گیا، جس نے اس کے سرمیں زخم کردیا پھر اسے احتلام ہوگیا تو اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم میرے لئے تیمم کی اجازت پاتے ہو وہ بولے تیرے لئے تیمم کی اجازت نہیں پاتے، تو پانی پر قادر ہے اس نے غسل کرلیا پس مر گیا، جب ہم حضور انورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کو اس کی خبر دی گئی، آپ نے فرمایا انہیں خداغارت کرے اسے انہوں نے ماردیا، جب جانتے نہ تھے پوچھ کیوں نہ لیا! ”شِفَاءُ الْـعِیِّ السُّؤَالُ بےعلمی کا عِلاج سوال ہے، اسے یہ کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اوراپنے زخم پرکپڑا لپیٹ لیتاپھر اس پر ہاتھ پھیرلیتا اورباقی کوجسم دھو ڈالتا۔ (سنن ابی داؤد، 1/154، حدیث:336)

اسی طرح علم کے متعلق سوال کی اہمیت و ضرورت کو جس قدر رسولِ کریم ﷺ نے اُجاگر فرمایا اس کی بھی نظیر نہیں چنانچہ ارشاد فرمایا:

مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ القِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ

جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپایا تو اللہ قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائے گا۔(سنن ترمذی، 4/295،حدیث2658)

بعض مواقع ایسے بھی آئے کہ رسولِ کریم ﷺ نے اعلانیہ فرمایا کہ مجھ سے جو چاہو پوچھو چنانچہ امام بیہقی نقل فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ،فَنَادَى رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: إِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ ، قَالَ: فَمَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: الْإِخْلَاصُ، قَالَ: فَمَا الْيَقِينُ؟ قَالَ: التَّصْدِيقُ بالْقيامةِ

یعنی تم مجھ سے جو چاہو پوچھو! تو ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ ارشاد فرمایا:نماز قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنا، اس نے عرض کیا: ایمان کیا ہے؟ ارشاد فرمایا:اخلاص، عرض کیا:یقین کیا ہے؟ ارشاد فرمایا:قیامت کی تصدیق کرنا یعنی قیامت کے آنے پر صدق ِدل سے یقین رکھنا۔“(الجامع لشعب الایمان، 9/174، حدیث:6442 مکتبۃ الرشد)

نبی آخرالزماں ،سرداردوجہاں ﷺ کے سوال و جواب والے طریقہ تربیت و تفہیم کے حوالے سے آپ کی مبارک سیرت اور احادیث کا مطالعہ کرنے سے عقائدو مسائل، معیشت ومعاشرت(Economy and Sociology) ، اخلاق (Ethic)، دینیات،معلومات اور دیگر کئی طرح کے موضوعات پر صحابہ و صحابیت کے سوالات اور پیارے رسولِ کریم ﷺ کے جوابات ملتے ہیں ان میں سے تین سوالات مع جوابات ملاحظہ کیجئے:

کونسا فرقہ نجات پائے گا؟:حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ بن عَمْرو رضی اللہ عنہما سے رِوایَت ہے ، رسولِ رَحْمَت ﷺ نے فرمایا : بنی اِسرائیل 72 فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری اُمَّت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ، ان میں سے ایک کے عِلاوہ سب جہنّم میں جائیں گے ۔ صحابۂ کِرام نے عَرْض کی: یَارَسُولَ اللہ !صَلَّی اللّٰہُ علیک وسلم ! کونسا فرقہ نجات پائے گا؟اِرشَاد فرمایا: جو میرے اور میرے صحابہ کےطریقے پر ہو گا ۔ (سنن ترمذی ، 4/291، حدیث: 2650)

اگر استطاعت نہ ہو تو؟:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر مسلمان پر صَدَقَہ ہے ۔ صحابۂ کِرام نے عَرْض کی: اگر نہ پائے ؟ اِرشَاد فرمایا: اپنے ہاتھ سے کام کرے ، اپنے کو نَفْع پہنچائے اور صَدَقَہ بھی دے ۔ عَرْض کی: اگر اس کی اِسْتِطاعَت نہ ہو یا نہ کرے ؟ اِرشَاد فرمایا: صاحِبِ حاجَت پریشان کی اِعَانَت ( مَدَد) کرے ۔ عَرْض کی: اگر یہ بھی نہ کرے ؟فرمایا: نیکی کا حُکْم کرے ۔ عَرْض کی: اگر یہ بھی نہ کرے ؟ فرمایا: شر سے باز رہے کہ یہی اُس کے لئے صَدَقَہ ہے۔ (صحیح بخاری ، 4/105، حدیث:6022)

رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج:ایک مرتبہ ایک صحابی کی زوجہ محترمہ نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں ایسا سوال بھیج دیا کہ بعد میں آنے والے عُشَّاق کے وارے نیارے ہوگئے، چنانچہ روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حج کا رادہ فرمایا تو ایک عورت نے اپنے شوہر سے عرض کی کہ میں بھی سرکار دوجہاں ﷺ کے ساتھ حج کرنا چاہتی ہوں، ان صحابی کے پاس زوجہ کے لئے سواری کا انتظام نہ تھا اسے لئے منع کردیا اور ان کا ایک سوال رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ کون سا عمل آپ ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے؟ تو رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:رمضان ميں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کی طرح ہے۔ (سنن ابی داؤد، 2/297، حدیث:1990)

یہ رسولِ کریم ﷺ کی تربیت و تفہیم کا ہی اثر تھا کہ صحابہ و صحابیات کا ہر ہر معاملے میں پیارے مصطفےٰﷺ سے رہنمائی لینے اور سوالات کرکے جواب پانے کا معمول تھا۔

اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا انصاری صحابیات کی اسی حوالے سے تعریف کرتے ہوئے فرماتی ہیں:”اَنصاری خواتین کتنی اچھّی ہیں کہ دِینی مَسَائِل سیکھنے میں ہچکچاہٹ نہیں رکھتیں۔“ (صحیح مسلم ،صفحہ147، حدیث:750)

یہ رسولِ کریم ﷺ کے اندازِ تربیت و تفہیم کے ایک پہلو”سوال کرنے کی عام اجازت ہونا اور علم کے لئے سوال کی اہمیت اُجاگر کرنا“ کے تحت سیرتِ سرورِ کائنات ﷺ کا مختصر سا ذکر ہوا، اللہ کریم ہمیں بھی علم دین حاصل کرنے کے لئے علمائے کرام سے فیض لینے کی توفیق عطا فرمائے۔

مدنی مذاکرہ اور فروغِ علم : اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ! عاشِقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دَعْوَتِ اِسْلَامی میں بھی رسولِ کریم ﷺ کی عطا سے سوال و جواب کی صورت میں عِلْمی فیضان عام کیا جارہا ہے۔

دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں میں سے ایک اہم ترین کام ہفتہ وار مَدَنی مُذاکَرہ ہے، حقیقت یہی ہے کہ رسولِ کریم ﷺ کے سوال و جواب والے پیارے اور نِرالے انداز کو دعوتِ اسلامی نے بہت رواج دیا ہے، اور اس کی ترویج میں دعوتِ اسلامی اور بانی دعوتِ اسلامی کا بہت بڑا کردار ہے، یہ مدنی مذاکرہ ہر ہفتے کو بعد نمازِ عشاء جبکہ پورے سال میں اہم مواقع مثلا رمضان المبارک کا پورا مہینا، عیدین کی راتوں، ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتوں، محرم الحرام کی ابتدائی دس راتوں، 25صفرالمظفر، ربیع الاول کی ابتدائی 12راتوں، ربیع الثانی کی ابتدائی11راتوں میں ، یومِ صدیق اکبر، یومِ غریب نواز، شبِ معراج، شب ِبَراءَت ، نیوائیرنائٹ اور دیگر بھی کئی اہم مواقع پر منعقد کیا جاتاہے جس میں شیخ ِطریقت، امیرِ اہل ِسُنَّت حضرت علامہ مولانامحمد الیاس عطارقادری دامت برکاتہم العالیہ مختلف موضُوعات پر پوچھے گئے سوالات کے جوابات عَطا فرماتے ہیں۔

آپ کی طرف سے دئیے گئے جوابات کو الحمد للہ تحریری صورت میں عام کرنے کی بھی سعی کی جاتی ہے۔ دعوتِ اسلامی کا علمی و تحقیقی ادارہ المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Centre) اب تک مدنی مذاکرے کی کم و بیش 150 سے زائد اقساط کو تحریری صورت میں دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرچکاہے۔ ان میں سے کئی رسائل جُداگانہ طور پر جبکہ ابتدائی 25 اقساط کی ایک مجموعی جلد بنام ”ملفوظاتِ امیر اہل سنت“ شائع ہو کر مکتبۃ المدینہ پر سیل کے لئے بھی دستیاب ہے۔ 


اللہ ربُّ العزّت نے حضرت آدم علیہ السلام سے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ تک مختلف اوقات میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءو رسل کو مبعوث فرمایا۔ ان نفوسِ قدسیہ کی بعثت کے کچھ نا کچھ عظیم و اہم مقاصد ہوتے تھے جنہیں قرآنِ کریم ، احادیثِ مبارکہ اور سابقہ کتبِ سماویہ میں بھی بیان کیا گیا ہے، تمام انبیائے کرام کی بعثت میں توحیدِ باری تعالیٰ کا پرچار، مخلوقِ خدا کو حلال و حرام کی تمیز سکھانا اور اُخروی زندگی کی تیاری کرنے کا ذہن دینا جیسے امور تقریباًمشترک ہیں۔

اگر ہم قرآن پاک اور سیرت شاہِ لولاک کا مطالعہ کریں تو پتا چلتاہے کہ سرورکائنات محمد مصطفےٰ ﷺ کئی اہم و اعظم امور کے لئے مبعوث فرمائے گئے،ان میں سے ایک مقصد وہ ہے جس کے بارے میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے دعا مانگی:رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠(۱۲۹)

ترجمہ:اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بےشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔(پارہ1، البقرۃ:129)

سورہ اٰل عمران میں بھی اسی مقصد کا بیان ہوا ہے:لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴) (پارہ4، سورۃ اٰل عمران:164)

ترجمہ:بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انھیں پاک کرتااور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

اسی طرح سورۃ الجمعہ میں ارشاد فرمایا:هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ(۲) (پارہ28، سورۃ الجمعۃ:2)

ترجمہ:وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں اور بےشک وہ اس سے پہلے ضرور کُھلی گمراہی میں تھے

ان آیاتِ مبارکہ میں ”آیاتِ کریمہ کی تلاوت “ ،”کتاب و حکمت سکھانا“، اور ”ستھرا و پاکیزہ کرنا“ ان تین باتوں کا مشترک ذکر ہوا ہے اور ان تینوں کا مستفاد تعلیم اور تربیت و تفہیم ہے۔

تو نتیجہ یہ ہوا کہ انبیائے کرام کے مقاصد بعثت میں سے یہ ایک بہت اہم مقصد تھا جسے بلاشبہ تمام انبیاء کرام نے پورا فرمایا، جبکہ اس پہلو میں جو انداز رسول اللہ ﷺ نے اختیار فرمایا نہ تو اس کی نظیر ملتی ہے اور نہ اس جیسے دوررَس نتائج کہیں ملتے ہیں، یوں کہئے کہ آپ ﷺ کائنات کے سب سے عظیم، مدبر، مفکر اور کامیاب ترین معلم ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ خود آپ ﷺ نے اپنے مقصد بعثت کو ایک مقام پر یوں بیان فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً یعنی مجھے مُعلّم بناکر بھیجا گیا۔(ابنِ ماجہ، 1/150،حدیث:229)

یوں تو رسولِ مكرم ﷺ کی مبارک زندگانی کا ہر لمحہ کائنات کے لئے رحمت اور سیکھنے والوں کے لئے ذریعہ تعلیم اور آپ ﷺ کی ہر ادا خواہ مبارک بچپن کی ہو یا بے داغ جوانی کی ہر طرح سے ذریعہ تربیت و تفہیم ہے، البتہ 40سال کی عمر مبارکہ میں اعلانِ نبوت سے لے سفرِ آخرت تک آپ ﷺ نے جس انداز و طریقہ سے مخلوقِ خدا کی تربیت فرمائی اس کی مثال کہیں نہیں۔

اندازہ کیجئے کہ وہ عرب جو صدیوں سے اَن پڑھ تھے، صحراؤں میں رہتے تھے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر سالوں تک لڑائیاں لڑتے تھے، یہود و نصاریٰ انہیں اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہتے تھے، علم و عرفان کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا، خال ہی کوئی لکھنا پڑھنا جانتا تھا ان حالات میں رسولِ رحمت ﷺ نے کیسی علم کی روح پھونک دی، کیسی تعلم کی چنگاری سلگا دی کہ صرف ایک صدی ہی میں سارے عالم میں اسلام اور اہل اسلام کے علم و عرفان کا سورج بلند ہوگیا۔

آخر کیا انداز و ادائے تعلیم و تربیت تھی کہ وہ لوگ جن کی طبیعتوں میں سختی تھی، انداز جری تھا اور باہم مزاجی اختلافات عروج پر تھے ان کو زمانے کے لئے ہدایت کے ستارے بنادیا، آپ ﷺ نے ان کے اختلاف مزاج کو کتنا برداشت فرمایا اور ان کی طرف سے اذیّت پر کتنا صبر کیا اور ان کی تربیت کے لئے کیسے کیسے طریقے و انداز اپنائے کہ یہی لوگ آپ کے گرد پروانہ وار رہنے لگے، آپ کی خاطر زمانے کے بڑے بڑے مغروروں اور متکبروں سے ٹکرا گئے، آپ کو کائنات کے ہر معزز بلکہ اپنے آباء و اجداد پر بھی ترجیح دینے لگے، آپ کی اطاعت و محبت کی خاطر اپنے پیاروں کو چھوڑ دیا، جائے پیدائش جہاں ان کے بچپن کی یادیں تھیں، جہاں انہوں نے جوانی کو چھوا تھا،جن گلیوں میں کھیلتے بچپن گزارا تھا سب کچھ آپ کے لئے چھوڑ گئے۔

سیرتِ طیبہ اور ذخیرۂ حدیثِ مبارکہ میں غوطہ زن ہونے سے موتیوں اور ہیروں سے بھی کہیں زیادہ قیمتی ان امور اور طریقوں کا پتا چلتا ہے جو کائنات کے سب سے کامیاب ترین معلم و مربّی نے اپنائے۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ سے جو تربیت و تفہیم کے انداز معلوم ہوتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

1. سوالیہ انداز یعنی کسی چیز کے بارے میں اولا سوال کرنا اور پھر اس کا جواب دینا

2. خبردار اور متنبہ کرکے سمجھانا

3. صیغہ امر کے ساتھ سمجھانا

4. بیان نتیجہ کے ساتھ سمجھانا

5. مزاج و عادات اور نفسیات کو پیشِ نظر رکھنا

6. مرتبے کے لائق سلوک فرمانا

7. ہر کسی کو اس کی غلطی پر براہ راست نہ سمجھانا بلکہ اجتماعی طور پر اس غلط طرزِ فکر اور نامناسب عمل کی اصلاح فرمادینا

8. اگر غلطی پر براہِ راست تنبیہ مقصود ہوتی تو انتہائی نرمی اور محبت بھرے انداز میں سمجھانا

9. پریشانی، بیماری اور ضروریاتِ زندگی کے معامَلات میں بھی تربیت فرمانا

10. بیماروں کی عیادت و تربیت فرمانا

11. مثال بیان کرکے سمجھانا

12. تشبیہ دے کر سمجھانا

13. ذِہْنی سطح کا خیال رکھنا

14. عقائد اور فرائض کی تربیت کا زیادہ اہتمام فرمانا

15. بے کار مَشاغِل کی تشنیع کرنا اور ان سے اجتناب کروانا

16. طالبِ علم کو مرحبا کہنا

17. سائل کی طرف توجہ رکھنا

18. سامعین کو خاموش ہونے کی نصیحت کرنا اور متوجّہ کرنا

19. نام یا کنیت سے مُخاطب کرنا

20. سوال پر حوصلہ افزائی کرنا

21. مسلسل سوالات کا بھی نرمی و خوش اخلاقی سے جواب دینا

22. تربیت کے لئے قَولی اور عَملی دونوں طریقے اپنانا

23. بات واضح اور آسان کرنا

24. حسبِ ضرورت بات کو دُہرانا

25. ہاتھ کے اشارے سے سمجھانا

26. لائنوں اور نقشے وغیرہ کے ذریعے سمجھانا

27. طلبہ کے لئے دعا کرنا

28. ہر میسر موقع پر تربیت کا اہتمام کرنا

29. سامعین کو قریب ہونے کا فرمانا

30. ہاتھ یا بازو پکڑ کر سمجھانا

31. تنبیہ اور تفہیم کے لئے کبھی ضرب لگانا

32. دو یا زائد چیزوں یا افراد کے باہمی تقابل سے سمجھانا

33. پہلے مجمل یعنی مختصر بیان کرنا پھر تفصیل سے سمجھانا

34. صراحۃ بیان فرمانا

35. قابلِ پردہ باتوں کوکنایۃ سمجھانا

36. سوال کرنے کی اجازت دینا

37. جواب میں سوال سے زیادہ باتیں بھی ارشاد فرمانا

38. اپنے سامنے دوسروں کو تربیت کا موقع دینا

یہ چند اندازِ تربیت بیان کئے گئے ہیں، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اگلی اقساط میں ان کی تفصیل اور تربیت و تفہیم کے مزید طریقوں کا بیان کیا جائے گا۔


کسی بھی معاشرے (Society) کو ترقی و کامیابی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اوّلاً اس کے افراد کی درست تربیت ضروری ہے کیونکہ معاشرہ انہی افراد کا مجموعہ ہوتاہے، جہاں افرادی تربیت کا اہتمام نہ ہوتو وہ معاشرہ اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے زوال پذیر رہتاہے۔ کائنات کے سب سے بڑے عقل مند ، دانشور، مصلح، منتظم اور مربی و معلم جنابِ سرورِ کائنات محمد مصطفےٰ ﷺ کے مبارک کردار و عمل سے پتا چلتا ہے کہ اوّلاً افرادی قوت کو درست سمت گامزن کیا جائے، ان کے نظریات، اعمال، کردار، گفتار اور جملہ متعلقات حیات کی درجہ بدرجہ تربیت کی جائے تو ایک مضبوط اور ستھرا معاشرہ قائم ہوتاہے۔

یہاں ایک یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ جب کسی بھی فرد یا معاشرے کی تربیت کسی خاص نظامِ فکر کے مطابق کرنی ہو تو ان کے سامنے ایک ایسے عملی نمونے کو رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ جسے دیکھ کر معاشرہ اپنے شب و روز اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ صرف اصول و ضوابط مجمل و مفصل بیان کردینا کافی نہیں ہوتا۔ اللہ کریم کا نظام کائنات اس پر ایک قوی ترین گواہ ہے کہ رب تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس کی اصلاح کے لئے جہاں احکام و اصول بصورتِ کتب سماویہ دئیے وہیں ہر کتاب کے ساتھ ایک رسول اور پیغمبر کو بھی مبعوث فرمایا جو ربِّ کریم کی ان تعلیمات و احکام کا کامل نمونہ ہوتے تھے۔ انبیاء کرام کا مبارک کردار و عمل قوموں کو ان کی کتب پر عمل کرنا آسان کردیتا تھا۔

اسی طرح خالقِ کائنات نے قراٰن کریم کی تعلیمات و احکامات جو کہ رہتی دنیا تک کے لئے ذریعہ ہدایت و اصلاح ہیں ان کو سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کے لئے عملی نمونہ دیکھنے کے لئے شاہِ موجودات جنابِ محمد مصطفےٰ ﷺ کے کردار و عمل کو ہمارے سامنے عیاں فرمایا۔

احکامات و قوانین پر عمل درآمد کے لئے عملی نمونہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ جب ایک ذات ان اصول و تعلیمات کا عملی پیکر بن کر سامنے آتی ہے تو انسانی ذہن خود بخود ان کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور ان کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں کسی شک و شبہ یا اعتراض و تنقیص کا شکار نہیں رہتا۔

قراٰنِ کریم مکمل ضابطۂ حیات ہے، یہ کتابِ معظم رہتی دنیا تک کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے بلکہ یوں کہئے کہ حیاتِ انسانی کے شب و روز کے لئے ایک قانونی دستاویز ہے اور اصول و ضوابط اور احکام و قوانین کے اس آئینِ الٰہی کا واحد و یکتا کامل و اکمل نمونہ ہمارے پیارے نبی محمد مصطفےٰ ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات ہے۔

قراٰنِ کریم اور رسولِ عظیم دونوں کے لازم و ملزوم ہونے کا بیان بھی بڑادلچسپ ہے وہ یوں کہ قراٰنِ پاک رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت کو ہمارے لئے کامل عملی نمونہ قرار دیتا ہے، چنانچہ سورۃ الاحزاب کی آیت21 میں ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمۂ کنزالایمان:بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ۔

اور جب ہم رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی و اطاعت، آپ کی مبارک سیرت و حیات اور اخلاق و کردار کے بارے میں جاننے کی طرف بڑھتے ہیں تو صدیقۂ کائنات، محبوبہ محبوبِ ربّ العالمین اُمُّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ طیّبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کا مبارک فرمان: كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ یعنی قراٰن ان کے خُلق ہی کا تو بیان ہے۔(مسنداحمد، 9/380، حدیث: 24655) سامنے آتا ہے۔

خلاصہ یہ نکلا کہ اگر رسولِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک اَخلاق و سیرت کو جاننے اور سمجھنے کے لئے قراٰنِ کریم کا پڑھنا ضروری ہے اورتو قراٰنِ کریم پر عمل کو آسان بنانے کے لئے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت و حیات کا مطالعہ ضروری ہے۔

آج کے پُرفتن دور میں جہاں ہر طرف اخلاقی زبوں حالی عام ہے، رشتوں کی قدریں کھوتی جارہی ہیں، باہمی پیارمحبت اور امن و آشتی کا ماحول نفسی نفسی میں بدلتا جارہاہے، تربیت و رہنمائی کرنے والے خال خال ملتے ہیں، مستقبل کے معمار تیار کرنے والے خود زمانۂ حال کے معمار کہلانے کے قابل نہیں، معاشرے سے اچھے خصائل ختم ہوتے جارہے ہیں، غور کیا جائے تو اس گمراہی اور پستی کا شکار ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ ہم مسلمانوں کی اپنے دین اور سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت سے لاعلمی یا پھر علم ہوتے ہوئے بھی غیروں کے طریقوں کو اپنانے کی رَوِش ہے۔

ہم تین سال کے بچے کو مہنگے سے مہنگے اسکول و ٹیوشن کے ذریعے آٹھ آٹھ گھنٹے تک M for Mango سکھانے کا اہتمام تو کرتے ہیں لیکن میم سے محمد(ﷺ) سکھانے کے لئے یا تو بالکل ہی انتظام نہیں اور اگر ہے تو وہی صرف بیس سے تیس منٹ۔ ہم بیس بیس سال تک دنیوی نصابی کتابیں تو پڑھ لیتے ہیں، غیر نصابی مطالعہ بهی اتنا کہ سینکڑوں رسالے، ناول، ڈائجسٹ، ماہانہ میگزین، اخباریں اور ناجانے کیا کیا چاٹ گئے لیکن کبھی اپنے پیارے و محسن نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی کو مکمل نہیں پڑھا۔

كتنے ہی ایسے نوجوان ملتے ہیں جو سکون کی تلاش، مستقبل کی تعمیر، بہترین اخلاقی اقدار، خوش رہنے کے طریقے، غم بھلانے کے ذرائع اور اس جیسے کئی اہم موضوعات و مسائل پر غیرمسلم مصنفین کی کتب اور ان کے لٹریچر کے حوالے دیتے، پڑھتے اور دوسروں کو ترغیب دلاتے ہیں، ان بےچاروں کو اتنا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان مسائل کے جو حل اور جو طریقے اللہ کے کامل و اکمل شاہکار ، مدینے کے تاجدار محمد عربی ﷺ نے دئیے ہیں یہ دنیا کے ماہرین نفسیات تو ابھی ان کے عشر عشیر تک نہیں پہنچے۔

آخر وہ کون سا ایشو ہے، وہ کون سی پریشانی ہے، وہ کون سا اہم سے اہم تر معاملہ ہے جس کے بارے میں رسولِ عربی، آخری نبی ﷺ نے اپنے کردار، گفتار اور تعلیمات سے رہنمائی نہ فرمائی ہو، اور بھلا ہو بھی کیسے سکتاہے کہ قراٰنِ کریم ایک مکمل ضابطۂ حیات اور آپ ﷺ اس کتابِ عظیم کے کامل عامل اور قراٰن کے آپ کے خلق کا بیان کار ہے۔

یادرکھئے! سیرتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور معاشرتی و اخلاقی تربیت میں آپ ﷺ کے مبارک کردار و انداز کا مطالعہ جہاں ہمیں اخلاقی پستیوں سے نکالے گا وہیں اس کے دیگر بھی بہت سے انفرادی و اجتماعی اور اقتصادی و معاشرتی فوائد ہیں۔

معاشرے کی ہدایت و راہنمائی، اصلاحِ احوال اور تربیت کے لئے ایک استاذ، مبلغ، مصلح اور راہنما کو کیسا ہونا چاہئے؟ رسولِ کریم ﷺ کی مبارک سیرت و فرامین میں اس کا ایک پورا نصاب قولی اور عملی دونوں صورتوں میں موجود ہے۔

مطالعۂ سیرت سے پتا چلتا ہے کہ وہ کیا اندازِ حیات اور کیا تعلیمات تھیں جن کی بدولت خانہ جنگی میں الجھے ہوئے قبائل عرب دنیا کی مضبوط ترین طاقت بن کر ابھرے۔

وہ کیسا کردار تھا کہ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردینے والے معاشرے کے لوگ سارے جہان کی بیٹیوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کا درس دینے والے بن گئے۔

جی ہاں! یہ رسولِ عربی ﷺ ہی کی سیرت و تعلیمات تھیں جن سے بدولت مختصر ترین عرصے میں عرب کے ناخواندہ لوگ عظیم اسکالر اور آسمانِ ہدایت کے تارے بن گئے اور راستوں اور بازاروں میں سامان رکھ کر بیچنے والے چھوٹے تاجر ساری دنیا کے اقتصادی نظام میں انقلاب لے آئے۔

یہ کردارِ حبیبِ کِردِگار ہی ہے کہ جس سے ایک باپ کو پتا چلتا ہے کہ بیٹیوں کی تربیت کیسے کرنی ہے؟ شادی شدہ بیٹی کے گھر جانے کا انداز کیا رکھنا ہے؟ بیٹی کے شوہر کے ساتھ کیا انداز رکھنا ہے؟ اولاد کو دشمن ستائیں تو صبر کیسے کرنا ہے؟

یہ بی بی آمنہ کے لعل ہی کی زندگانی ہے جس سے بیٹے کو درس ملتاہے کہ سگی ماں تو سگی ماں ہے ، صرف دودھ پلانے والی ماں کی تعظیم کیسے کرنی ہے؟ ماں باپ کے وِصال کے بعد بھی ان کے حقوق کا کیا کیا خیال رکھنا ہے۔

یہ بی بی عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ کے محبوب ہی کی ذا ت ہے جس سے شوہرو ں کو پتا چلتاہے کہ بیویوں میں باہم حقوق کی ادائیگی کا کامل خیال کیسے رکھا جاتاہے۔

دیواروں اور کمروں پر مشتمل جگہ کو گھر کا نام دینے والی عورت کے حقوق کیا ہیں اور کیسے ادا کرنے ہیں یہ کردارِ رسولِ عربی سے ہی پتا چلتاہے، یہ انہیں کی مبارک تعلیم ہے کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاَهْلِهِ، وَاَنَا خَيْرُكُمْ لِاَهْلِي یعنی تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لئے بہترین ہو اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لئے تم سب سے بہترین ہوں۔( ترمذی،5/475،حدیث:3921)

ایک خاندان، ادارے، قبیلے یا علاقے کی قیادت کرنے والوں کو کامل نمونہ برائے عمل انہیں کی مبارک ذات میں ملتا ہے۔

الغرض استاد ہو یا شاگر، مالک ہو یا نوکر، باپ ہو یا بیٹا، تاجر ہو یا گاہک حاکم ہو یا رعایا رسول اللہ ﷺ کی مبارک سیرت اور فرامین کے آئینہ میں ہر کسی کے لئے ترقی و کامیابی اور فلاح موجود ہے۔ کس کو، کس طرح اور کیا کچھ سیرت و فرامینِ مصطفےٰ سے ملتا ہے۔ اس کا اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سلسلہ وار کالمز میں بیان کیا جائے گا۔اللہ کریم ہمیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی پیر وی کا جذبہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم