دینی کتب کا مطالعہ کرنے والے بخوبی  جانتے ہیں کہ حوالہ جات میں بارہا فردوس الاخبار ، الفردوس بماثور الخطاب ، مسند الفردوس کے نام آتے ہیں ، کئی طلبہ ناواقفیت کی بنا پر ان کتب کو ایک ہی کتاب کا نام سمجھ لیتے ہیں جبکہ بعض طلبہ ایک کتاب کے نام کو دوسری کتاب کا نام سمجھ بیٹھتے ہیں ، سو اس طرح کی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے یہ مضمون ترتیب دیا گیا ہے جس میں ضمناً مختلف علمی و منہجی فوائد ذکر کیے گئے ہیں ۔

بنیادی مقدمات:

اصل موضوع سے پہلے چند ایک باتیں عرض کرتا ہو ں ، اللہ نے چاہا تو طلبہ کرام کے لیے مفید ثابت ہونگی :

٭طالب علم کو چاہیے کہ جس علم کو بھی پڑھے ، تو پڑھنے کیساتھ اس علم پر لکھی کتابوں کی معرفت حاصل کرے کہ اس فن کی بنیادی اور مشہور کتابیں کون کون سی ہیں ، ان کے مصنف کون ہیں ، کس صدی سے ان کا تعلق ہے ،اسی طرح کتاب کا کیا منہج واسلوب ہے اور اگر اس کتاب پر شروح وحواشی وغیرہ لکھے گئے ہیں تو وہ کونسے ہیں وغیرہ ۔

٭ کسی علم یا فن میں تخصص اور مہارت کا ارادہ رکھنے والا وہ طالب علم جواس فن میں اپنی تحقیقی خدمات بھی سرانجام دینا چاہتا ہو یہ اس کے لئے انتہائی ضروری ہے ، کیونکہ اگر اسے کتابوں کے عروج و ارتقا کا معلوم نہ ہوگا تو وہ فن کے ارتقا کو کیسے سمجھے گا اور کس طرح تسلسل کیساتھ فن کو پڑھ اور سمجھ سکے گا ۔ یہاں میں اپنے دور کے ایک بڑے امام کی عبارت ذکر کرتا ہوں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتابوں کی صحیح معرفت کتنی ضروری ہے ۔ چنانچہ امام ابو العباس احمد بن خطیب فرماتے ہیں : یہ بات جان لو ! کہ کتابو ں اور ان کے مصنفین کی معرفت فنون میں سے ایک فن ہے اور لا جواب و کمال فن ہے ، اسی طرح فقہاء کے طبقات اور کس فقیہ کا کس زمانے سے تعلق رہا ، اس کو جاننا بھی طالب علم کے لیے انتہائی ضروری ہے ، اسی طرح جو اس طالب علم کے زمانے میں لکھا جارہا ہے اس کا بھی علم ہونا ضروری ہے ۔ ( فہرس الفہارس ،ج1، ص 84)

٭ اب کتاب کے منج واسلوب سے آگہی کے طریقےذکرکئے جاتے ہیں :

1)کتاب کا نام : عام طور پر ہمارے اسلاف کتب کے نام ایسے رکھتے ہیں کہ پڑھ کر ہی کتاب کی اہمیت اور اس کے اسلوب پر بھی اجمالی نظر پڑ جاتی ہے ۔جیسے بخاری شریف کا اصل نام ” الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ وسننہ و ایامہ“ہے ، اگر ہم اس نام کی روشنی میں صحیح بخاری کا منہج لکھیں تو کتاب تیار ہوسکتی ہے۔

2)مقدمہ ِ کتاب : عام طور پر ہمارے ائمہ ِ اسلام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ مقدمہ میں کتاب لکھنے کی وجہ اور اس کا اسلوب بیان کردیتے ہیں ، مثلا اس میں کس علم پر گفتگو ہوگی؟ کتنے ابواب ہونگے؟اور ان ابواب کے تحت کتنی فصول ہونگی؟ ( اگر اس کا شاندار نظارہ کرنا چاہیں تو ایک نظر امام غزالی کے لکھے ہوئے احیاء علوم الدین کے مقدمہ کو پڑھ لیجیے ) ۔ دور حاضر میں تحقیق و تصنیف کا معیاری طریقہ جسے ” البحث العلمی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اس میں بتایا جاتا ہے کہ مصنف پر لازم ہے کہ وہ کتاب کی ابتدا میں واضح کردے کہ وہ یہ کتاب کیوں لکھ رہا ہے ، اس نے یہ موضوع کیوں اختیار کیا اور کتاب لکھنے کا کیا طریقہ کار ہوگا وغیرہ وغیرہ۔اس طریقہ بحث کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ اس کے لانے والے اور سب سے پہلے پیش کرنے والے ” مغربی ماہرین ِ تعلیم “ ہیں حالانکہ ان ماہرین ِ تعلیم کے دنیا میں آنے سے بہت پہلے ہمارے ائمہ دین اپنی کتابوں کے شروع میں مقدمہ کے نام سے یہ ساری چیزیں ذکر کرتے آرہے ہیں ۔ بس اس وقت یہ نیا نام نہ تھا تو کیا نام نہ ہونے سے یا نام کے آج ہونے سے فیصلہ ہوگا کہ کون اس طریقہ ِ تصنیف کا موجد ہے ۔ خلاصہ یہ کہ یہ بات واضح ہے کہ تصنیف و تالیف میں اس طریقہ ِ تصنیف کے موجد ہمارے ائمہ اسلام ہی ہیں ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایک غلط رواج چلا ہوا ہے کہ جب کتاب شروع کی جاتی ہے تو یہ کہہ کر کہ ” اصل کتاب ہے“ ، مقدمہ چھڑوا دیا جاتاہے ، یوں طالب علم پوری کتاب پڑھ لینے کے باوجود بھی صحیح انداز میں اسلوب ِ کتاب بیان کرنے سے عاجز رہتا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ مقدمہ پڑھا جائے بلکہ انتہائی توجہ سے استاد ہی پڑھا دے کہ مقدمات الکتب کنوز مخفیۃ ۔

3)کتاب کا دقتِ نظری سے مطالعہ کرکے اسلوب و منہج کا استقرا کرنا :کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کرکے اس کے منہج واسلوب سے آگائی ہوسکتی ہے ۔

4) تعارف علم وکتب پر لکھی کتب کا مطالعہ :

وہ کتابیں جن میں علوم اسلامیہ اور ان علوم کی کتابوں کا تعارف ہو ، اسی طرح وہ کتابیں جن میں مصنفین کا تعارف ذکر کیا جاتا ہے مثلا کشف الظنون ، ہدیۃ العارفین ، مفتاح السعادۃ ، خاص حدیث کے موضوع پر ” الرسالۃ المستطرفہ فی بیان کتب السنۃ المشرفہ “اسی طرح فقہائے ا حناف کے لیے ” الطبقات السنیہ فی تراجم الحنفیۃ“ وغیرہ ( اللہ نے چاہا تو اس موضوع پر ایک مقالہ لکھا جائے گا )، الغرض اپنے فن سے متعلقہ کتاب لیکر اس کے مصنف کے احوال کو دیکھا جائے ۔

اب اختصار کیساتھ اصل موضوع پر آتا ہوں ۔

شہاب الاخبار فی الحکم والامثال والمواعظ والآداب

سب سے پہلے امام شہاب بن سلامہ القضاعی ( م454) نے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نےاخلاق و آداب کے موضوع پر اپنی مسموعات میں سے اسناد کو ذکر کیے بغیر 1200قصار (چھوٹی) احادیث جمع کیں ،جس کا نام انھوں نے ”شہاب الاخبار فی الحکم والامثال والمواعظ والآداب“رکھا ۔ یہ الگ سے تو مطبوع نہیں ہے البتہ دار النوادر سے ایک شرح کیساتھ چند سال قبل شائع ہوئی ہے ۔

مسند الشہاب :

امام قضاعی نے مذکورہ کتاب کے علاوہ ایک اور کتاب لکھی جس میں ”شہاب الاخبار “ کی سندوں کو ذکر کیا بنام ” مسند الشہاب فی الحکم والامثال والمواعظ والآداب “۔ اس میں اولا متن کا ایک جز ذکر کرکے اس کی سند ذکر کرتے ہیں اور پھر پورا متن ذکر کردیتے ہیں ۔ یہ دو جلدوں میں مطبوع ہے ۔

فردوس الاخبار :

پھر امام ابو شجاع شیرُوَیہ بن شھردار بن شیرویہ الدیلمی الہمدانی (م 509) آئے ،انھوں نے مسند شہاب پر اضافے اور اسلوب کی تبدیلی کیساتھ ایک کتاب مرتب کی ۔ کتاب کے نام میں دو قول ہیں ، خود مصنف نے کتاب کے مقدمہ میں ” الفردوس بماثور الخطاب “ ذکر کیا جبکہ علامہ عبد الحی الکتانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” فردوس الاخبار بماثور الخطاب المخرج علی کتاب الشہاب “ذکر کیا ہے ۔( الرسالۃ المستطرفہ ،ص:73، ط: دار البشائر الاسلامیہ )۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ عام طور پر ہمارے یہاں کے مطبوعہ نسخوں پر اس کا نام ” مصنف کے ذکر کردہ نام سے ہٹ کر ”فردوس الاخبار“لکھا ہوتا ہے ، مثلا دار الفکر بیروت ،دار الکتاب العربی وغیرہ کے نسخوں پر ” فردوس الاخبار “ نام لکھا ہے ، جبکہ دار الکتب العلمیہ کے سن 2010 میں چھپے ہوئے نسخے پر ” مسند الفردوس وہو الفردوس بماثور الخطاب “ لکھا ہے ، (ہمارے ہاں دونوں نسخے موجودہیں ۔)اس میں نام کی تصحیح تو ہوگئی ، لیکن مسند الفردوس لکھ کر قارئین کو اشتبا میں ڈال دیا حتی کہ بعض طلبہ اس سے سمجھنے لگے کہ ” الفردوس بماثور الخطاب “ کا دوسرا نام مسند الفردوس ہے اور ایک کتاب ہے جس کا نام فردوس الاخبار بماثور الخطاب “ ہے ۔ حالانکہ فردوس الاخبار اور الفردوس بماثور الخطاب یہ دونوں ایک ہی کتاب کے نام ہیں جبکہ مسند الفردوس ایک دوسری کتاب ہے جو ان کے بیٹے نے لکھی ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اس میں احادیث کی تعداد کتنی ہے ؟ مقدمہ میں بیان کیا کہ اس میں دس ہزار احادیث ہیں (فردوس الاخبار ،ج1،ص 40)جبکہ ہمارے یہاں مطبوعہ نسخے میں 9056 ہیں ۔

لطيف  نکتہ : مصنف  کا  نام ” شیرویہ “ ہے ، اس طرح کے دیگر نام  بھی ہیں  مثلا  سیبویہ ، راہویہ وغیرہ   ان  کو  کس طرح پڑھا جائے گا  اس سے متعلق دو قول ہیں :

1)علمائے نحو  کے نزدیک: واو  اور اس سے پہلے والے حرف پر زبر  ، یاء  پر جزم  ، پھر ہاء ہے  یعنی سیبَوَیْہ، شیرَوَیْہ وغیرہ۔ہمارے ہاں یہی رائج ہے۔

2) علمائے حدیث کے نزدیک :   جس طرح فارسی میں پڑھا جاتا ہے ، اسی طرح پڑھتے ہیں  ۔واو سے پہلے والے حرف پر پیش ، واو پر جزم ، یاء کے فتحہ  ، پھر ہاء ساکن  ۔ یعنی سیبُوْیَہ، شیرُوْیَہ وغیرہ  ( تدریب الراوی ، ص338)

الفردوس بماثور الخطاب کا منہج و اسلوب :

الفردوس بماثور الخطاب کی اصل ” مسند شہاب “ ہے ، لہذا اس تناظر میں کتاب کا جو اسلوب سامنے آیا ، اس کے چند نکات پیش ہیں :

۱)احادیث کی سندوں کا حذف ۔

۲)احادیث کو مختصر کرکے ذکر کرنا ۔ اگر کہیں طویل حدیث آجائے تو مختصر ذکر کرکے ” الحدیث “ کہہ کر رک جانا ۔

۳)ہر حدیث کے شروع میں عبارت سے الگ کرکے صحابی راوی کا نام ذکر کرناجسے ” ہامش الکتاب “ کہتے ہیں ( ہمارے مطبوعہ نسخوں میں عبارت کیساتھ ہی ذکر کردیا جاتا ہے) ۔

۴)حروفِ معجم کی ترتیب پر ابواب بندی ۔ ( خیال رہے کہ اس کتاب میں حروف معجم کی ترتیب پر ابواب ہیں ، جبکہ امام سیوطی علیہ الرحمہ کی الجامع الصغیر میں احا دیث ہیں )۔

۵)احادیث کو الفاظ کے ہم شکل ہونے کے اعتبار سے فصول میں تقسیم کرنا ۔

مسند الفردوس :

صاحب ”الفردوس بماثور الخطاب “ کے بیٹے ” امام ابو منصور شَھَردار بن شیرُویہ (م 558)“آئے ، انھوں نے الفردوس بماثور الخطاب پر یہ کام کیا کہ اس کی اسانید جمع کیں اور احادیث کا اضافہ بھی کیا ۔امام ذہبی لکھتے ہیں : حافظ الحديث امام شهردار بن شیرویہ الدیلمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد ِ محترم کی کتاب ” الفردوس بماثور الخطاب “ کی اسانید جمع کی ہیں ، میں نے شہرِ مَرْوْ میں اس کا ایک مکمل اور مہذب نسخہ دیکھا تھا۔ ( سیر اعلام النبلاء ، ج20، ص 376)۔ اس كا نام كيا ہے اس میں دو قول ہیں : عام مخطوطات پر ” مسند الفردوس “ لکھا ہے ،جبکہ امام عبد الروف مناوی رحمۃ اللہ علیہ اور امام عبد الحئی الکتانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” إبانة الشبه في معرفة كيفية الوقوف على ما في كتاب الفردوس من علامات الحروف“ ذکر کیا ہے ۔( فیض القدیر ، ج1، ص 37۔ الرسالۃ المستطرفہ ، ص 73)

احادیث کی تعداد ”17000“ سے زیادہ ہیں ۔(تسديد القوس في ترتيب مسند الفردوس ، مخطوط )

مسند الفردوس کا منہج و اسلوب :

مسند الفردوس ابھی تک شائع نہیں ہوئی ، تسدید القوس جو حافظ ابن حجر کا لکھا ہوا مسند الفردوس کا اختصار ہے ، وہ بھی ابھی تک مکمل شائع نہیں ہوا، تسدید القوس کے کچھ حصے دار الکتاب العربی والی” الفردوس بماثور الخطاب “ کیساتھ شائع ہیں ۔البتہ اس ” تسدید القوس مختصر مسند الفرودس “ کا کامل مخطوط پی ڈی ایف میں ہمارے پاس موجود ہے ۔ ابتدا ء میں حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس کے مقدمہ کا کچھ حصہ ذکر کیا ہے ، جس کی مدد سے ہم نے مسند الفردوس کا اسلوب تحریر کیا ہے ۔ اسی طرح حافظ ابن حجر کا اس کتاب پر ایک اور کام بنام ”زہر الفردوس “ جو ” الغرائب الملتقطہ“ سے بھی معروف ہے ، جو چند سال قبل ہی شائع ہوا ہے اس کے مقدمہ سے بھی ہم نے معاونت لی ہے ۔

1)ابتدا ء ایک مقدمہ لکھا ، جس میں کتاب لکھنے کی وجہ بتائی کہ اپنے والد ” امام ابو شجاع الدیلمی م 509“کی مذکورہ کتاب میں موجود احادیث کی اسناد ذکر کرنا۔

2)احادیث کی ترتیب میں تبدیلی نہیں کی بل کہ اصلِ کتاب ” الفردوس بماثور الخطاب “کی ترتیب کو ہی برقرار رکھا ہے ۔

3) الفردوس پر احادیث کا اضافہ ۔ چونکہ ان کے والدمحترم نے احادیث قصار کا التزام کیا تھا ،لیکن انھوں نے کام کو وسعت دی اور طویل احادیث کو بھی ذکر کیا ۔ جس کے سبب احادیث کی تعداد 17000 ہزار سے بھی بڑھ گئی۔

4) الفردوس بماثور الخطاب ، اسی طرح اضافہ کردہ احادیث کی تخریج بھی کی ، تخریج میں صحیحین سے ابتدا کرتے ہیں اگر اس میں نہ ہو تو دیگر کتب کے حوالے ذکر کرتے ہیں۔

5)تخریج میں انھوں نے کتب ِ مستخرجا ت کا اسلوب اپنایا ہے کہ تھوڑی بہت لفظی تبدیلی کے باوجود حوالہ مُسَلَّم ہوتا ہے جب کہ حدیث کا سیاق و سباق ایک ہی رہے اور اس حدیث کے راوی صحابی بھی ایک ہی ہوں ۔

6)ابتدا ء میں کتب کے اشارات بیان کردیے ہیں تاکہ تخریج میں تکرار سے بچا جاسکے۔

7)اولا حدیث ذکر کرتے ہیں ، پھر مکمل سند بیان کرکے ”الحدیث“ لکھ کر سابقہ متن کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔

8،9،10)الفاظ میں اختلاف ہو تو اسے بھی بیان کرتے ہیں، اسی طرح بعض اوقات مشکل الفاظ کے معانی بھی بیان کرتے ہیں۔ بسااوقات یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث ان کے علاوہ کس کس صحابی سے مروی ہے ۔

اس کتاب میں مصنف نے ان کتب سے بھی احادیث لی ہیں جو مفقود ہوچکی ، اسی طرح ایسی احادیث بھی ہیں جو مشہور و معروف کتب میں نہیں پائی جاتی اور مصنف نے محنت کرکے انہیں جمع کیا ہے ، اس لیے علما نے تخریج ِ حدیث کے لیے اسے حدیث کا ایک اہم مصدر قرار دیا ۔

اس کتاب پر ہونے والے کام :

حافظ ابن حجر م 856نے اس کتاب پر دو کام کیے :

تسدید القوس فی ترتیب مسند الفردوس :

اس میں حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس کا اختصار کیا ہے ۔ طریقہ کار یہ ہے کہ ہر حدیث کا ابتدائی حصہ یا معروف حصہ ذکر کرتے ہیں ، اس کے ساتھ تخریج بھی کرتے ہیں کہ کس کتاب میں یہ روایت موجود ہے ۔

منہج و اسلوب :

اس کتاب میں حافظ ابن حجر کے پیش نظر اختصار ہے ۔ انھوں نے تین چیزوں میں اختصار سے کام لیا ہے :

1)احادیث ذکر کرنے میں : کیونکہ حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس میں ذکر کردہ تمام احادیث ذکر نہیں کیں ، بل کہ ان میں سے احادیث کو منتخب کیا ہے ۔

2)متن ِ حدیث میں اختصار: حافظ ابن حجر متن حدیث بھی مکمل ذکر نہیں کرتے بلکہ اس کا ایک معروف حصہ ذکرکردیتے ہیں ۔

3) طریقہ ِتخریج میں اختصار: صاحب مسند الفردوس کا تخریج میں کیا انداز ہے ، پیچھے گزر چکا ، چونکہ تخریج بھی کتاب کی طوالت کا سبب تھا ، اسی لیے حافظ ابن حجر نے تخریج میں بھی اختصار کیا بایں طور کہ محض مصنفِ کتاب کا نام ذکر کیا ۔ البتہ ضرورتاً کتاب کا نام بھی ذکر کردیتے ہیں ۔

زہر الفردوس :

بعض نے اس کا نام ” الغرائب الملتقطہ“ بھی ذکر کیا ہےشائع شدہ نسخے میں یہیں نام لکھاہے لیکن صحیح طور پر”زہر الفردوس “ ہی ثابت ہے ، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے حالات و سوانح پر لکھی کتاب میں آپ کے جلیل القدر شاگرد ” امام عبد الرحمن السخاوی “ نے اس کا نام یہی ذکر کیا ہے ۔ دیکھیے : الجواہر والدر ر،ج2، ص 667

زہر الفردوس پر منہج و اسلوب کے طریقوں کی تطبیق :

1)کتاب کا نام : زہر الفردوس۔الغرائب الملتقطہ ( چونکہ یہ نام بھی منقول ہے اس لیے اسے بھی لیا گیا ہے) : اس نام کا جب دقیق نظر سے جائزہ لیا تو یہ امور واضح ہوئے :

حافظ ابن حجر کی اس کتاب کا تعلق ” مسند الفردوس “ سے ہے یعنی یہ مسند الفردوس پر کسی نوعیت کا کام ہے ۔

زہر کا اصولی اور اساسی معنی ہے : خوبصورتی ، چمک دمک وغیرہ ، چونکہ پھول بھی ایک خوبصورت شے ہے اس لیے اسے بھی ” زہر یا زہرۃ “ کہا جاتا ہے ۔ اس کی مناسبت جو سمجھ آرہی ہے ، وہ یہ ہے : : در اصل مسند الفردوس میں احادیث دو طرح کی ہیں : بعض احادیث وہ ہیں جو معروف ہیں اور دیگر کتب ِ مشہورہ میں بھی بآسانی مل جاتی ہیں جبکہ دیگر بعض احادیث غیر معروف کتب میں پائے جانے کی وجہ سے بآسانی نہیں ملتی۔لہذا اس کتاب کا اصل کمال اور حسن ” ان احادیث کا ایک جگہ مل جانا “ ہے ،لہذا معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر اپنی اس کتا ب میں مسند الفردوس سے فقط انہی احادیث کا انتخاب کریں گے جو زیادہ معروف نہیں ہیں ، اسی لیے اس کا دوسرا نام ” الغرائب الملتقطہ من مسند الفردوس “ ہے یعنی مسند الفردوس سے ان احادیث کا انتخاب جو زیادہ معروف نہیں ۔

2)مقدمہ ِ کتاب : حافظ ابن حجر نے مقدمہ کتاب کے طور پر چند سطور ذکر کی ہیں ، ان سے جو منہج و اسلوب سامنے آیا وہ نکات کی صورت میں پیش ہے :

۱)اس کتاب میں درج احادیث مسند الفردوس کا ایک حصہ ہیں ، پوری کتاب پر کام نہیں ہے ۔

۲)حافظ ابن حجر نے منتخب کردہ احادیث کا ” اسماء الرجال “ کے اعتبار سے تعین کیا ہے کہ آیا وہ حدیث صحیح ، حسن یا ضعیف ہے ۔ ( یہ حافظ ابن حجر نے مقدمہ میں بیان کیا ہے لیکن آگے جا کر احادیث پر حکم لگانے میں ہر جگہ اسے ملحوظ نہیں رکھا۔)

۳) حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس سے جن احادیث کا انتخاب کیا ہے ان میں سے اکثر احادیث ” غیر معروف کتب“ سے لی گئی ہیں ، اس بات کو بیان کرکے حافظ ابن حجر نے مشہورکے نام ذکر کیے ہیں : کتب ستہ ، مسند امام شافعی ، مسند امام احمد ، امام طبرانی کی تینوں معاجم ، مسند ابو یعلی ، مسند احمد بن منیع، مسند ابو داود الطیالسی ، مسند حارث بن ابو اسامہ ۔

پھر لکھا کہ اس کے علاوہ دیگر کتب سے لی ہوئی احادیث ، اسی طرح وہ حدیثیں جن کی سند صاحب مسند الفردوس نے ذکر کی لیکن کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا یا ان کے والد نے ذکر کیں لیکن بیٹے نے اس کی تخریج نہیں کی ، اس طرح کی تمام احادیث اس تعلیق میں مذکور ہیں۔ ( اس میں الغرائب الملتقطہ کے مقدمہ سے بھی مدد لی گئی ہے )

3)کتاب کا دقتِ نظری سے مطالعہ کرکے اسلوب و منہج کا استقرا کرنا : استقرا سے جو اسلوب و مناہج واضح ہوئے ، ان میں سے بعض یہ ہیں :

1) کتاب کے شروع میں ایک مقدمہ ذکر کیا ، جس میں مختصر اسلوب واضح کیا۔

۲)اصل ( مسند الفردوس ) کی ترتیب پر ہی احادیث کو باقی رکھا ۔

۳) احادیث کو صاحب کتاب کی سند سے ذکر کرنا ۔

۴) بسااوقات حافظ ابن حجرتخریج کرنے میں اختصار کے پیش ِ نظر صاحب ِکتاب کی مصنف ِ کتاب تک ذکر کردہ سند کو حذف کردیتے ہیں ، فقط مصنف کا نام ذکر کردیتے ہیں۔

۵) کبھی کبھار احادیث کو بالمعنی بھی روایت کرتے اور الفاظ ِ حدیث میں تقدیم و تاخیر کرتے ہیں ۔

۶) امام دیلمی کی سند میں اگر کہیں سقط واقع ہوا ہے تو اسے اصل کے مطابق مکمل کردیتے ہیں ۔

۷)بسااوقات حدیث ذکر کرنے کے بعد کسی راوی کا حال بھی ذکر کردیتے ہیں، راوی کا حال بیان کرنے میں یاتو اپنا تحقیقی حکم نقل کرتے ہیں یا پھر کسی ناقد کا قول ذکر کرتے ہیں۔

۸) کبھی کبھار راویِ حدیث کی کسی نے متابعت کی ہو تو اس کی جانب اشارہ کردیتے ہیں۔

۹) سند ا حدیث مرفوع ہے یا موقوف، اسی طرح متصل ہے یا منقطع ،ا س میں اگر اختلاف تو اسے بیان کرتے ہیں ۔

۱۰) بعض اوقات حدیث ذکر کرنے کے بعد اس پر صریح حکم بھی ذکر کردیتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ، یہ ضعیف ہے وغیرہ وغیرہ

۱۱) چند ایک مقامات پر احادیث میں آنے والے مشکل اور غریب الفاظ کے معانی بھی ذکر کیے ہیں ۔

۱۲) بسااوقات ایک صحابی سے حدیث کو ذکر کرکے دوسرے صحابی سے مروی ہونے کی جانب اشارہ کردیتے ہیں۔

قاسم بن قطلو بغا: اسی طرح حافظ ابن حجر کے شاگرد رشید ” امام حافظ قاسم بن قطلوبغا الحنفی رحمۃ اللہ علیہ “ نے بھی مسند الفردوس پر ایک کام کیا تھا ( فہرس الفہارس ، ج2، ص :972)لیکن یہ مطبوع نہیں ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ یہ ان کتب میں سے ہے جو ہم تک نہ پہنچی۔

الفردوس بماثور الخطاب میں موجوداحادیث کی تخریج کے لیے اقدامات:

چونکہ الفردوس بماثور الخطاب میں بغیر سند کے احادیث ہیں اور وہ کتاب جس میں اس کی اسانید جمع کی گئی ہیں وہ مخطوط ہے تو ایسی صورت میں اگر کہیں الفردوس سے حدیث آئے تو یہ اقدامات کیے جائیں :

1)” زہر الفردوس “ کو لازما دیکھئے کہ اس میں حافظ ابن حجر نے کافی احادیث بالخصوص غیر معروف احادیث کی اسانید جمع کردی ہیں اور ساتھ ہی کئی ایک مقامات پر راویوں پر حکم بھی لگایا ہے ، اسی طرح بعض احادیث پر بھی حکم لگایا ہے ۔

2)اگر اس میں نہ ملے تو ” کتب ستہ“ میں اجمالی طور پر دیکھنے کے لیے ” جامع الاصول فی احادیث الرسول “ کو دیکھئے کہ اس میں کتب ستہ کی احادیث کو مکررات کے بغیر جمع کردیا گیا ہے ۔

3(اسی طرح مجمع الزوائد میں دیکھئے کہ اس میں مسانید ثلاثہ ” مسند احمد ، مسند ابو یعلی اور مسند بزار “ اور امام طبرانی کی معاجم ثلاثہ ” المعجم الکبیر ، المعجم الصغیر اور المعجم الاوسط ) کو جمع کردیا گیا ہے ۔

4)اس میں نہ ملے تو کنز العمال میں تلاش کریں وہاں اکثر طور پر مل جائے گی اور ساتھ میں مصدر سے تخریج بھی ہوگی ،یوں اصل مصدر تک پہنچ سکتے ہیں ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علم ِ نافع ، عمل صالح عطا فرمائے اور مطالعے کا شوق و ذوق دے ! آمین 


لائبریری" لاطینی" زبان کا لفظ ہے جو "لائبر "سےبنا ہے اس کا معنی ہے کتاب ،سادہ الفاظ میں یوں سمجھئے کہ لائبریری اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کتابوں، رسالوں، اخباروں اور معلوماتی مواد کو جمع کیا جاتا ہے۔ اردواور فارسی میں اس کےلئے کتب خانہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جب کہ عربی میں اس کا مترادف لفظ خزانة الکتب ،مکتبہ اور دارالکتب ہے۔لائبریری دراصل ایسا عظیم مقام ہے جہاں ہزاروں سالوں کا فکری و علمی اثاثہ لاکھوں کروڑوں اربابِ علم و دانش کی ذہنی اور قلمی کاوشوں کا ثمرہ اور حاصل جمع ہوتا ہے۔ جہاں الہامی کتب، بعض انسانی استعداد اور شعوری وسعت کے مفاہیم کے لفظی مجموعے، محدّثین و مفسّرین کی تفاسیر و شروحات کا مجموعہ،محققین و مفکرین کی تحقیقات و افکارکا علمی خزانہ، مصنفین و مترجمین کی کتب و تراجم ،انسانی تحریرات کا سرمایہ، علوم و فنون کی دولت،شاعروں، نثرنگاروں، ادیبوں اور خطیبوں کی قلمی فتوحات کا ذخیرہ یکجا ایک چھت کے نیچے میسر ہوتا ہے۔ لائبریری میں داخل ہونے والا لاکھوں نابغہ روزگار صفحہ ہستی کے شاہکار لوگوں سے بغل گیر اور ہم کلام ہوتا ہے اور ان کی فکری روشنی سے جہانِ ذہن و قلب کو جگمگاتا ہے ۔

لائبریری کی اہمیت

لائبریری علم و فکر اور تعلیم و تعلم کا مظہر و مرکز ہے ’’کتب‘‘سفاہت سے معرفت، جہالت سے علم اور ظلمات سے نور کی طرف لے جاتی ہیں ، کسی بھی قوم کو کسی بھی میدان میں عملی تجربات سے قبل نظریات اور اصول چاہئیں جن کی حفاظت و ترویج گاہیں لائبریریز ہیں ،جن کی اہمیت و افادیت کو مہذب قوموں نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے۔ اہل علم کسی ملک میں پائی جانے والی لائبریرز کو اس ملک کی ثقافتی ، تعلیمی اور صنعتی ترقی کا نہ صرف پیمانہ بلکہ قومی ورثہ قرار دیتے ہیں۔ اگر کسی ملک کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو وہاں پر موجود تعلیمی اداروں کو دیکھا جائے اور تعلیمی اداروں کی ترقی کاجائزہ لیناہوتو وہاں پر موجودلائبریرز کودیکھا جائے۔ جہاں لائبریریز آباد ہوں گی وہاں تعلیمی ادارے بھی اسی قدر تعلیم و تحقیق میں فعال ہوں گے۔ جس کا لازمی نتیجہ ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی اور عوام کی خوشحالی ہے۔ تاریخ بھی اُنہی قوموں کا احترام کرتی ہے جو اپنے عِلمی سرمائے کی حِفاظت کرنا جانتی ہیں۔ مہنگائی کے اِس دور میں نئی کتابیں خریدنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اس لئے ذاتی لائبریری بنانا بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے تو اس اعتبار سے بھی لائبریریزکی اہمیت کہیں بڑھ جاتی ہے، پھرہر انسان کی اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ بعض تاریخی کتابیں پسند کرتے ہیں۔ بعض ادبی، بعض سیاسی اور بعض دینی کتابوں کا شوق رکھتے ہیں۔ ایک لائبریری میں مختلف موضوعات سے متعلق کتابیں ہوتی ہیں اور ایک موضوع پر بہت سے کتابیں مل جاتی ہیں اور انسان بیک وقت ایک موضوع پر ہر قسم کے خیالات سے استفادہ کر سکتا ہے۔ تجزیے، تحقیق، رائے اور بھی بہت سے ذریعے ہیں لائبریری کی افادیت کو بیان کرنے کے لیے مگر مُختصراً یہ کہ جیسے ہر شے کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے لیے ایک ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کتابی کلچر کو بڑھانے کے لیے معاشرے میں لائبریریوں کی ضرورت ہے۔

لائبریری کی ضرورت کیوں ؟

کتاب کی اہمیت وضرورت سے کسی بھی ذی شعور کو انکار کی راہ نہیں ہے ، کتاب پڑھنے سے جہاں ذہن کھلتا ہے فکر و خیال نکھرتے ہیں وہیں پر یہی کتاب زندگی کےنشیب و فراز کی بہترین مددگار بھی ہے مگر یہ سب مُہذب و دینی کتابوں سے ہی حاصل ہو سکتا ہے نہ کہ وہ کتابیں جو فحاشی کو فروغ دیں۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جدید ٹیکنالوجی نے ہر کام آسان کر دیا ہے ، ہم ہزارں لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ اپنے موبائل لیپ ٹاپ میں رکھ سکتے ہیں ان کو کھولنا، سرچ کرنا اور اپنے مطلوبہ مواد تک پہنچنا نہایت ہی آسان ہو چکا ہے تو پھرلائبریری کی ضرورت کیوں؟تو یاد رہے کہ تعلیم و تعلم کے لئے جہاں کتاب استاد اور تعلیمی ادارے کی سخت ضرورت ہے وہیں لائبریری کا ہونا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کی ٹیکنالوجی تک پہنچ ہم سے زیادہ ہے مگر اُن کے ہاں ابھی بھی پبلک لائبریریز کھُلی رہتی ہیں، کیوں کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ٹیبلٹ یا موبائل سے پڑھنے کی نسبت کتاب سے پڑھی گئی تحریر جلد سمجھ آ جاتی ہے اور یاد بھی رہتی ہے۔ماہر نفسیات کے مطابق جب ہم کوئی چیز پڑھتے ہیں تو ہمارا ذہن متواتر اس کا موازنہ کرتا رہتا ہے اور اسی کے مطابق نقوش کھینچ لیتا ہے جو کہ مُستقبل کے لیے ہمیں یاد رہ جاتے ہیں۔ بنسبت اسکرین کے پڑھنے سے کتاب سے پڑھنے والے الفاظ کی نقشہ سازی نہایت واضح ہوتی ہے۔ کتاب کی دائیں اور بائیں صفحے اور آٹھ کونے الفاظ کی جگہ کو یاد رکھنے کا سبب ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے بنسبت اسکرین پہ ریڈنگ کے کتاب پر ریڈنگ بھی آسان ہو جاتی ہے۔ کتاب پر پڑھنا اسکرین پر پڑھنے سے زیادہ جسمانی وجود رکھتا ہے۔اس لیے دُنیا میں ٹیکنالوجی کی اس قدر ترقی کے باوجود لوگ اسکرین سے پڑھنے کے بجائے کتاب سے پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، اور پھر جب بات کتاب پڑھنے کی آتی ہے تو گھر کے بجائے لائبریری کو فوقیت دینا بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ لائبریری ایک ایسا ماحول پیدا کر دیتی ہے جہاں کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ماہر نفسیات کے مطابق ہم پڑھتے وقت دو طرح سے تھک جاتے ہیں ایک نفسیاتی حوالے سے، دوسرا جسمانی حوالے سے۔ لائبریری میں پڑھنے کا یہ فائدہ ہے کہ انسان نفسیاتی تھکاوٹ کا کم شکار رہتا ہے کیونکہ ہم اپنے ارد گرد لوگوں کو پڑھنے میں مصروف دیکھتے ہیں تو ذہن اس بات پر آمادہ ہو جاتا ہے کہ اُن کی طرح ہم بھی نہیں تھکے ہیں۔لائبریری کا ایک سب سے اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ ہر طالب علم ہر کتاب کو نہیں خرید سکتا، مگر لائبریری میں اُنہیں کئی بہترین کتابیں میسر ہو سکتی ہیں۔ لائبریری صرف کتابیں یا کتب بینی کےلیےایک ماحول مہیانہیں کرتی بلکہ یہ معاشرے کا وہ حصہ ہے جہاں باقاعدہ مُستقبل کی نشوونما ہو رہی ہوتی ہے۔ یہیں پر طلبا اپنی سوچ کے مطابق دوسرےا فراد سے ملتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ معلومات بانٹتے ہیں، کتابوں کے اوپر اپنی رائے پیش کرتے ہیں، تجزیے کرتے ہیں، جس سے ان کی معلومات میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

لائبریری اور کتب کی درجہ بندی

لائبریری میں درجہ بندی (classification) ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اگر کتب کی ترتیب درست نہ ہو اور مواد بکھرا ہوا ہو تو لائبریری کے فوائد و ثمرات کماحقہ حاصل نہ ہوں گے،درجہ بندی دراصل اس علمی عمل کو کہتے ہیں کہ جس کے تحت مختلف اقسام کی اجناس،یا علوم میں امتیاز اور تفریق چند خصوصیات کی بنیاد پر کی جائےیعنی کتابوں یا دیگر موجود مواد کو کسی خاصیت کی بنا پر الگ الگ کردیناجیسے علوم کے مطابق کتب کو الگ الگ خانوں میں رکھنا، اس طرح فقہ کی کتب الگ اور حدیث کی کتب الگ ہو جائیں گی، اسی طرح زبان وار، ملک وار، یا فن وار کتب کو الگ الگ رکھا جائے ۔ اب درجہ بندی کیسے کی جائے؟ کونسا طریقہ اپنایا جائے ؟اس میں لائبریری کا عملہ اپنی کتب و مواد کو مد نظر رکھ کر ہی کرے گا کیونکہ مواد کی نوعیت کے حساب سے درجہ بندی میں بھی فرق ہو گا ۔

لائبریری میں موجود کتب کی اقسام

لائبریری میں موجود ،مصادر و مراجع اور کتب کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔عمومی دائرۃ المعارف (General Encyclopedias)

مخصوص دائرۃ المعارف (Specialized Encyclopedia)

عمومی معاجم (General Dictionaries)

مخصوص معاجم (Specialized Dictionaries)

سالانہ کارکردگی پر مبنی کتب (Year Books)

سوانح عمریاں (Biographies)

حوالہ جاتی کتب (Bibliographies)

تحقیقی مجلات(Periodicals)

رسائل و اخبارات(News Papers and Magazines)

نایاب کتابیں (Reserved Books)

فہارس(Indexes)

کتابیں (Books)

مخطوطات(Manuscripts)

تحقیقی مقالات (Theses Dissertations)

لائبریری سے کتاب لینے کے اصول

لائبریریز سے کتاب کا حصول مخصوص نظام کے تحت ہوتا ہے اور یہ نظام لائبریریوں کے منتظمین خود طے کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس نظام میں اختلاف پایا جاتا ہے البتہ جو چیزیں تقریباً لائبریرز میں مشترک ہوتی ہیں وہ پیشِ خدمت ہیں ۔

کتاب کے حصول کی شرائطکتاب حاصل کرنے کے اوقاتلائبریری سے حاصل کردہ کتب کی تعدادکتاب واپس کرنے کی مدتوہ کتابیں جو جاری نہیں کی جاتیں محتاط انداز میں دی جانے والی کتب کتاب ضائع ہو جانے کا تاوان (تحقیق و تدوین کا طریقہ کار،ص 52تا56)

لائبریرین کی خصوصیات

جس طرح لائبریرین کے بغیر لائبریری کا نظام کامیاب نہیں ہو سکتا اسی طرح اگر لائبریرین میں چند خصوصیات نہ ہوں تو بھی یہ نظام ناکامی کا منہ دیکھتا ہے لہذا لائبریرین کے لئےدرج ذیل چند خصوصیات کا حامل ہونا انتہائی ضروری ہے ۔

لائبریری میں موجود تمام کتابی اور غیر کتابی مواد سے کلّی طور پر شناسائی قارئین کےمزاج ،ذوق و شوق سے آگاہی لائبریری کے مواد کا انتخاب اور اس کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت و قابلیتقارئین کے سوالات کا تجزیہ کرنےاور احسن طریقےسے اس کا حل نکالنے کی قابلیتقارئین کے لائبریری کے استعمال اور مواد سے مستفیدہونے میں خوشدلی سے مدد اور تعاون کرنا لائبریرین اعلی اخلاق کا مالک ہو نے کے ساتھ ساتھ ملنساری اورصبر و تحمل جیسی خوبیوں سے سرشار ہو ۔

گھر میں لائبریری بنانے کے فوائد

دنیا میں کونسے ایسے والدین ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے دینی و دنیوی معلومات میں آگے بڑھیں ؟ یقیناً کوئی نہیں ۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اپنا زیادہ سے زیادہ وقت علمی سر گرمیوں میں گزارے ،اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے گھر میں ایک خوبصورت، دلکش اور پرسکون لائبریری کا ہونا انتہائی ضروری ہے جس میں دینی و دنیوی ایسی کتب جو معتبر مواد پر مشتمل ہوں اور غیر اخلاقی مواد سے پاک ہوں موجود ہوں ۔ گھر میں لائبریر ی كے چند فوائد پیشِ خدمت ہیں ۔

گھر میں موجود لائبریری بچوں کی اخلاقی تربیت کرنے میں بہترین معاون ثابت ہوتی ہے۔گھر میں لائبریری کے وجود سے بچوں میں علم دوستی اور سیکھنےکا رجحان پروان چڑھتا ہے۔گھر میں موجود لائبریری بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافہ کر کےان کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے۔کم عمری میں کتب سے آشنائی ہوجائےتو طویل مدتی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔گھر میں لائبریری کا اثر ایسا ہے جیسے بچوں نے کئی سال کی اضافی تعلیم حاصل کر رکھی ہو۔جو بچے ہوم لائبریریوں میں پلے بڑھے ہوتے ہیں ان کا علم اپنے ہم عمر بچوں سے زیادہ ہوتا ہے۔گھر میں موجود لائبریری ہماری ذہنی و فکری نشوونما کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں بری صحبت سے بھی دور رکھتی ہے ۔کسی دانشور نے کہا تھا کہ جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے۔

ایک تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کتابیں نوعمری میں ایک لڑکے یا لڑکی کی پڑھنے کی صلاحیت،اور انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی جیسے ہنر کو کس طرح بڑھاتی ہیں۔ اس کے لیے 2011ء سے 2015ء کے درمیان 31ملکوں کے ایک لاکھ 60ہزار نو عمر افراد کا مشاہدہ کیا تھا۔ تحقیق میں نوجوانوں سے سوال کیا گیاکہ جب آپ 16سال کے تھے، اس وقت آپ کے گھر میں اندازاً کتنی کتابیں موجود تھیں؟(ان کتابوں میں نصابی کتب شامل نہیں اور ایک میٹر کے شیلف میں تقریباً40کتابیں رکھی جاسکتی ہیں)تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس گھر میں 80یا اس سے زائد کتابیں موجود ہوں، وہاں بچے اورنوجوان پڑھنے کی صلاحیت،ہندسوں کے علم اور انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے ہنر میں اُن بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگے ہوتے ہیں جن کے گھر میں کتابیں نہیں ہوتیں ۔ وہ والدین جو چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو گھر کی لائبریری کے خاطر خواہ فوائد پہنچیں، وہ گھر میں زیادہ سے زیادہ کتابیں رکھیں ۔

المدینہ لائبریری اورامیراہلسنت

محترم قارئین!شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہفرماتے ہیں: دینی کتب کا مطالعہ اپنی عادت بنالیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ آپ کی نسلوں کو فائدہ ہوگا۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ہفتہ وار رسالے کےمطالعہ کا ایسا ذہن دیا ہے کہ آج بلامبالغہ ملک و بیرونِ ملک میں لاکھوں لوگ ہر ہفتے رسالہ پڑھتے اور سنتے ہیں ۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنے اپنے قول و عمل دونوں سے مطالعہ اور لائبریری بنانے کی ترغیب دلائی ہے آپ نے اپنے ذوقِ مطالعہ کی تسکین اور تحریری کام کے لئے کتب خانہ بھی بنایا۔جس کی کتابوں میں رفتہ رفتہ اِضافہ ہوتا گیا اور آج علمِ قرآن وحدیث عقائدفقہ اورتصوف کے درجنوں  موضوعات پر سینکڑوں  کتب ورسائل آپ کی لائبریری کی زینت ہیں  جن میں ترجمۂ کنزالایمان مع تفسیر خزائن العرفان ، فتاوٰ ی رضویہ ،بہارِ شریعت اور اِحیاء العلوم سرِفہرست ہیں۔آپ نے کتابوں کو محض جمع نہیں  کیا بلکہ مسلسل مطالعہ ،غور وفکر اور عملی کوششیں  آپ کے کردارِ عظیم کا حصہ ہیں اگر آپ بھی اپنی گھر میں ایک خوبصورت اور مختصر المدینہ لائبریری بنانا چاہتے ہیں تو اپنے شہر کے مکتبۃ المدینہ کی طرف رجوع کیجئے اس کے مکمل پیکجز بنے ہوئے ہیں۔ امیرِ اہلسنت اور المدینۃ العلمیہ کی تحریر کردہ 400کتب و رسائل کا مجموعہ المدینہ لائبریری 28ہزار800 میں لے سکتے ہیں ۔

اس کے علاوہ پاکستان کے 10بڑے شہروں میں المدینہ لائبریری کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس لائبریری میں قرآنیات، حدیثِ پاک اور اس کی شرح، فقہی مسائل، تاریخ اسلام اور دیگرسینکڑوں موضوعات پر کتب و رسائل موجود ہیں ۔اگر آپ کتب خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے تو المدینہ لائبریری سافٹ وئیر بھی موجود ہےجو بہت ہی مفید اور معاون سافٹ وئیر ہے ۔ اس میں کتب کی مخصوص کلیکشن موجود ہے۔ اس سافٹ وئیر میں جو کتب مکتبہ المدینہ سے شائع ہوتی ہیں انہیں سرچ ایبل شکل میں سافٹ وئیر میں ڈھالا گیا ہے اس کی چند خصوصیات پیشِ خدمت ہیں :

20سے زائد اسلامی موضوعات  کی کیٹگری کے تحت علمی وتحقیقی اسلوبِ تصنیف وتالیف کے اعلی معیارکی حاملزیور طبع سے آراستہ مکتبۃ المدینہ کی 500 سے زائد مطبوعاتامیر اہلسنت کی  117 کتابوں کے علاوہ صراط الجنان مکمل ،فتاوی رضویہ مکمل،بہارشریعت مکمل،احیاء علوم الدین مکمل،اللہ والوں کی 7 جلدیں،فیضان فاروق اعظم 2 جلدیں،فیضان ریاض الصالحین 2 جلدیں،27 واجبات حج نیز  اس کے علاوہ ملفوظات امیر اہلسنت اور مدنی مذاکرہ کی موصول ہونے والی قسطیں۔ رسائل دعوت اسلامی  وغیرہ وغیرہ۔ہر کیٹگری  میں حروف تہجی کے اعتبار سے کتابوں کی ترتیبسرچنگ کی بہترین سہولت اور بک مار کنگ  کے ذریعے یادداشت کا تحفظ

کتب اور ہمارےاسلاف

دینی علوم کا عظیم سرمایہ ہمیں جن بزرگوں کے ذریعے ملا ہے انہوں نے کس قدر تکالیف و مصائب برداشت کر کے یہ عظیم سرمایہ ہم تک پہنچایا ہے اگر ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو ان لوگوں کی قربانیاں پڑھ کر انسانی عقل حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتی ہے یقیناً یہ لوگ علم دوست تھے۔

امام احمد بن محمد المقری جو زبردست محدث تھے آپ کو ایک کتاب سے حوالہ نقل کرنے کے لیے 70 دن کا سفر کرنا پڑا۔ خود فرماتے ہیں کہ وہ کتاب اس حالت میں تھی کہ" ولو عرضت على خبَّاز برغيف لم يقبلها "اگر وہ کتاب کسی نان بائی کو دے کر ایک روٹی بھی خریدنا چاہتے تو شاید وہ اس پر بھی تیار نہ ہوتا۔(تذکرۃ الحفاظ للذہبی،3/121)خطیب تبریزی کو عربی زبان و قواعد پر غیر معمولی مہارت حاصل تھی۔ آپ کو ایک مرتبہ ابو منصور کی کتاب "تہذیب اللغہ"کہیں سے مل گئی۔ آپ نے ارادہ کیا کہ اس کتاب کے مندرجات کو کسی ماہر زبان سے تحقیقی طور پر سمجھیں۔ لوگوں نے ابوالعلاء المعری کا نام پیش کیا۔ آپ نے کتاب تھیلے میں ڈالی، اس تھیلے کو بغل میں لٹکایا اور تبریز سے ’’معرہ‘‘ کی جانب چل پڑے۔ آپ کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ سواری کا انتظام کر سکتے۔"فنفذ العرق من ظهره إليها فأثر فيها البلل، وهي ببعض الوقوف ببغداد، وإذ رآها من لا يعرف صورة الحال فيها ظن أنها غريقة، وليس بها سوى عرق الخطيب المذكور"اس لیے دھوپ میں پیدل چلنے سے پسینہ آیا اور اس کا اثر تھیلے اور کتاب تک پہنچا، نتیجتاً کتاب پسینہ سے تر ہو گئی۔ اب اگر کوئی اس کتاب کو دیکھتا اور اسے صحیح صورت حال کا پتہ نہ ہوتا تو وہ یہی خیال کرتا کہ شاید پانی میں بھیگ گئی ہے حالانکہ اس پر صرف خطیب تبریزی کا پسینہ تھا۔ (وفیات الاعیان،6/192)حضرت علی بن احمد کے پاس’’الجمھرۃ فی علم اللغۃ‘‘ کا ایک بہت ہی عمدہ نسخہ تھا۔ ایک مرتبہ غربت نے اسے بیچنے پر مجبور کر دیا۔ شریف مرتضیٰ ابوالقاسم نے 60 دینار میں خرید لیا جب اس کا ورق پلٹا تو اس پر ابوالحسن کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اشعار نظر آئے جن کا ترجمہ یہ ہے:میں20 سال تک اس کتاب سے مانوس رہنے کے بعد آج اس کو بیچ رہا ہوں۔ اس کے چھوٹ جانے سے میرا غم بہت بڑھ گیا ہے۔ قرضوں کی وجہ سے اگر عمر قید بھی ہو جاتی تو پرواہ نہ تھی مگر یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی اس کو بیچنا پڑے گا لیکن کیا کروں، کمزوری، ناداری اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی وجہ سے حالات نے یہ دن دکھائے۔ میں بہتے ہوئے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکا اور کسی دل جلے غمزدہ کی طرح یوں کہا :ضرورت کبھی کبھی عمدہ چیزوں کو اپنے آقا سے جدا ہونے پر مجبور کر دیتی ہے حالانکہ وہ انہیں اپنے پاس سے الگ نہیں کرنا چاہتا۔(وفيات الاعيان، 1 / 337)شریف مرتضیٰ نے جب کتاب پر لکھے ہوئے یہ اشعار پڑھے تو اس کا دل بھر آیا اور اس نے کتاب کا نسخہ واپس کر دیا اور دینار اْن ہی کے پاس رہنے دئیے۔

محترم قارئین!تاریخِ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی علوم کی تدوین و تالیف، پُرفضا و شاداب مقامات، نہروں کے کنارے یا سایہ دار درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر نہیں ہوئی بلکہ یہ کام خواہشات کی قربانی دے کر ہوا ہے۔ اس کے لیے سخت گرمیوں میں پیاس کی ناقابلِ برداشت تکالیف اٹھانی پڑی ہیں اور رات بھر ٹمٹماتے چراغوں کے سامنے جاگنا پڑا ہے۔

لائبریریوں کی تاریخ

لائبریریوں کی تاریخ جہاں دلچسپ ہے وہیں سبق آموز بھی ہے ،دنیا کی سب سے پہلی لائبریری کب وجود میں آئی؟ شاید اس کا کوئی حتمی جواب تو نہ ملے کیونکہ روز بروز ہونے والی تحقیقات سے کچھ نیا ہی نتیجہ نکل رہا ہوتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ لائبریریز کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی قدیم انسان کی تہذیب ہے۔ شروع سے ہی انسان نے ہر دور میں حاصل ہونے والے علم کا ریکارڈ رکھنے کی کوشش کی ہے۔تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لائبریریوں کا آغاز اس وقت سے ہوا جب انسان کے پاس لکھنے کے لئے کاغذ قلم نہ تھا اور وہ مٹی کی تختیوں، چمڑے اور ہڈیوں پر تحریر کو محفوظ کرتا تھا۔آج جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے اور ڈیجیٹل لائبریریوں نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ آشور بنی پال،سکندریہ لائبریری ، عیسائیوں ، ایرانی، ساسانی، یونانی، رومی کتب خانے ، عربوں کے کتب خانے یورپ اور برصغیر کے حکمرانوں کے کتب خانے بہت مشہور ہیں۔قدیم دور کے کتب خانوں میں آشور بنی پال، کتب خانہ سکندریہ اور کتب خانہ پرگامم قابل ذکر ہیں۔ اشور بنی پال کی لائبریری میں اس وقت کا لکھا گیا زیادہ تر ادب موجود تھا ۔(سکندریہ کی لائبریری کی داستان،ص16) مصر کے نئے حکمران خاندان نے اقتدار سنبھالا اور سکندریہ کو دانش وروں کا شہر بنا دیا ۔اس خاندان کے حکمرانوں نے علم و فن سے بہت زیادہ محبت کی تھی اور مصر کے قدیم علمی خزانوں کو دوبارہ دریافت کر کے دنیا کے لئے مفید بنایا تھا اگرچہ فرعونوں نے بھی سقارا میں عظیم اہرام تعمیر کر کے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ اب سکندریہ نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا اور اس کے علم و کمال نے دنیا کو اپنی طرف کھینچا تھا ، سکندریہ کی مشہور لائبریری "ٹالمی اول" نے شروع کی اور "ٹالمی دوم" کے دورِ حکومت میں مکمل ہوئی ۔ٹالمی دوم نے اپنے ماتحت ریاستوں کے حکمرانوں اور مختلف علوم کے علما کو دعوت دی کہ اس عظیم لائبریری کے لئے کتابیں جمع کریں اور علماکتابیں تحریر کریں ،زیادہ تر کتابیں خریدی گئیں اور لاکھوں کتابیں مختلف علوم کے علما سے تحریر کروائی گئیں کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ سکندریہ کی لائبریری میں کئی لاکھ کتابیں تھیں۔سٹرابولکھتا ہے کہ قدیم "ڈورک" زبان اور قدیم یونانی زبان میں لکھی گئی کتابیں جو کہ نام ور شاعروں اور فلسفیو ں کی تھیں ۔رہوڈس کے بازار سے سونے کے ساتھ تول کر خریدی گئیں اور ان کتابوں کے عوض سونا دیا گیا تھا۔(اقتباس ازسکندریہ کی لائبریری کی داستان،ص38)یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا کا پہلا منظم کتب خانہ سکندریہ تھا اور اس میں منہ مانگی قیمت پر کتب خرید کر رکھی جاتی تھیں اس میں رکھے گئے مواد کو مضامین کے اعتبار سے رکھا جاتا تھا۔ اس کا قیام 323 ق۔م میں مصر میں عمل میں آیا اور اس میں ذخیرہ کتب 9لاکھ تھا۔ یونانی کتب خانوں میں کتب خانہ ارسطو، کتب خانہ افلاطون اور پرگامم کا کتب خانہ قدیم ترین ہیں۔افلاطون کے متعلق قیاس کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس بھی ایک شاندار کتب خانہ موجود تھا جو اس کی وفات کے بعد کہا ں گیا کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے البتہ ارسطو کے کتب خانے کے حوالے سے تاریخی شواہد موجود ہیں۔ یہ کتب خانہ سینکڑوں کتابوں پر مشتمل تھا جو کہ ایک اندازے کے مطابق4سو رولز پر مشتمل تھا۔ نجی کتب خانوں کا بانی ارسطو کو کہا جا تا ہے۔ ارسطو نے کتب خانوں کی تنظیم و ترتیب سائنسی بنیادوں پر رکھنا شروع کی تھی۔ قدیم یونان کا دوسرا اہم ترین کتب خانہ پرگامم ہے جسے اتالوسی دوم نے 137ء سے 159ء تک قائم کیا۔ پرگامم کا مواد پیپرس رولز اور پارجمنٹ پر مشتمل تھا اور یہ ذخیرہ دولاکھ کے لگ بھگ تھا۔ یونانی کتب خانوں میں ادب، تاریخ ، سائنس ، ریاضی ، فلسفہ ، مذہبیات ، سیاسیات اور اخلاقیات جیسے موضوعات پر ذخیرہ کتب زیادہ تھا۔سرزمین روم میں عوامی کتب خانے ، نجی کتب ا ور مخصوص کتب خانے موجود تھے۔ 360ء سے 370ء تک روم میں 28عوامی کتب خانے موجود تھے۔روم کے یہ تمام کتب خانے16ویں صدی تک نیست و نابود ہو گئے۔چوتھی یا پانچویں صدی عیسوی میں برصغیر پاک و ہند میں کتب خانے موجود تھے۔کتب خانہ نالندہ یونیورسٹی، وکرم شلا اورسرسوتی بھنڈار برصغیر کے قدیم کتب خانے ہیں۔ پرانے وقتوں کے عظیم کتب خانوں کی دو اہم خصوصیات علم دوستی اور حکمرانوں کی ذاتی دلچسپی اور ان کی ہیت و تنظیم میں ہم آہنگی تھی۔

دنیائے جدید کی دس بڑی لائبریریاں

ایسی لائبریریاں بنانا جہاں علم وحکمت ایک عام آدمی کی دسترس میں آجائےیہ یقیناًنوع انسان کی ایک بہت بڑی کاوش ہے، دنیا کی چند بڑی اور چند دلچسپ لائبریریوں کےنام پیشِ خدمت ہیں ۔

امریکی کانگریس کی لائبریریبرٹش لائبریری لندن انگلینڈنیویارک پبلک لائبریری نیویارکرشین ا سٹیٹ لائبریرینیشنل لائبریری آف رشیانیشنل ڈائٹ لائبریری جاپان نیشنل لائبریری آف چائنا نیشنل لائبریری آف فرانسبودلیئن لائبریری،آکسفورڈ برطانیہبوسٹن پبلک لائبریری

ترکی کی عظیم الشان لائبریری

ترکی جہاں اہل علم حضرات کا مرکز ہے وہیں دینی کتب و دلکش لائبریزز کا مظہر بھی ہے ترکی صدارتی کمپلیکس میں بنائی گئی لائبریری میں 40 لاکھ سے زائد کتابیں رکھی گئی ہیں جبکہ وہاں 5 ہزار افراد بیک وقت مطالعہ کر سکتے ہیں ترکی اردو کی رپورٹ کے مطابق انقرہ کی اس عظیم الشان لائبریری میں ایک کروڑ 20 لاکھ الیکٹرانک اور ساڑھے 5 لاکھ ای کتب کے ساتھ ساتھ تاریخی دستاویزات بھی موجود ہیں ، جہاں بیک وقت 5 ہزار افراد مطالعہ کرسکتےہیں صدارتی کمپلیکس کا کل رقبہ 125 ہزار مربع میٹر ہے، جس کی تعمیر کا آغاز 2016ء میں کیا گیا تھا۔(ترکی اردو ویب سائٹ)

لائبریریاں جو مٹ گئیں

اسلام کی تاریخ جہاں دلچسپ واقعات سے بھری پڑی ہے وہیں دردناک حقائق بھی اسی تاریخ کا جُزْوِ لَایُنْفَک ہیں انہی حقائق میں سےایک دردناک حقیقت لائبریریز کو جلانا اور مٹانا بھی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے دینی علوم کا کثیر حصہ دنیا سے ختم ہو گیا ،مختصرا ًچند واقعات حسبِ ذیل ہیں ۔

D503 ہجری میں طرابلس (لیبیا) پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تو وہاں کے کتب خانوں کو جلا دیا۔D656 ہجری میں ہلاکو خان نے بغداد تاراج کرنے کے بعد وہاں کے عظیم الشان کتب خانوں کو دریائے دجلہ میں پھینکوا دیا۔ دریائے دجلہ میں ڈالی جانے والی کتب کی تعداد 6 لاکھ سےزائد تھی۔Dتاتاریوں نے بغداد کے کتب خانے تباہ کئے اور تمام کتب دریا میں ڈا ل دیں جس سے دریا کا پانی سیاہ ہو گیا۔تاتاریوں کا یہ سیلاب صرف بغداد تک ہی محدود نہ رہا بلکہ ترکستان ، خراسان، فارس، عراق اور شام سے گزرا اور تمام علمی یادگاریں مٹاتا چلا گیا۔D اسپین میں عیسائی غلبے کے بعد وہاں کے کتب خانے جلا دیئے گئے۔Cardinal XimenesDنے ایک ہی دن میں 80 ہزار کتب نذر آتش کر دیں۔ Dصلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے مصر، شام،ا سپین اور دیگر اسلامی ممالک کے کتب خانوں کو بری طرح جلا کر تباہ و برباد کر دیا۔ ان کتب کی تعداد 30لاکھ سے زائد تھی۔Dقاضی ابن عمار نے طرابلس میں عالیشان کتب خانے کی تاسیس کی جس میں ایک لاکھ سے زائد کتابیں تھیں۔یہ کتب خانہ صلیبی جنگوں کے دوران برباد کر دیا گیا۔Dفاطمین مصرکے دور میں قاہرہ کے قصرشاہی کا عدیم النظیرکتب خانہ تمام اسلامی دنیا کے کتب خانوں پر سبقت لے گیا تھا اسے جلا دیا گیا ۔ Dصاحب بن عباد وزیر کا عظیم الشان کتب خانہ’’ جو دارالکتب رے ‘‘کے نام سے معروف تھا،اسے جلا کر تباہ کر دیا گیا ۔Dبغدادکے محلہ کرخ میں دارالعلم نام سے ایک لائبریری تھی جس میں دس ہزار سے زائد ایسی کتب تھیں جو خود مصنفین یا مشہور خطاطوں کی لکھی ہوئی تھیں ، دنیا میں اس سے بہتر کوئی کتب خانہ نہ تھا، یہ مایہ ناز کتب خانہ 451ھ میں جلا دیا گیا۔ Dبغداد میں ابو جعفر محمد بن حسن طوسی کا کتب خانہ 385ھ تا 420ھ کئی مرتبہ جلایا گیا۔آخری مرتبہ 448میں اسطرح جلایا گیا کہ اس کا نام بھی باقی نہ بچا۔D549ھ میں ایک گروہ نے ماوراء4 النہر سے آکر نیشا پور کے کتب خانے جلا دیئے۔(ماخوذازویب سائٹ)

ابومعاویہ محمد منعم مدنی (شعبہ سیرت النبی)

اسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ)

14 رجب المرجب 1442ھ

27 فروری 2021ء


غیر مستند اور بے حوالہ بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اورباحوالہ اور  مستند بات اپنی افادیت اور اہمیت رکھتی ہے۔ کسی بات کےمستند ہونے کا تعلق اس سے بھی ہے کہ وہ بات کس کتاب میں موجود ہے اور وہ کتاب کس پایہ کی ہےتاکہ انکار کرنے والے کو موقع نہ ملےپھر کتاب کے نام اور صفحہ نمبر تک رسائی سےاس مقام کا پتا چلتا ہے۔اس رسائی دینےکےعمل کو تخریج اورحوالہ سےتعبیر کرتے ہیں ۔ڈاکٹر محمد طحان اپنی کتاب ”اصول التخریج ودراسات الاسانید“کے صفحہ 12تا13پر تخریج کی وضاحت کرتے ہوئے اس کے حسب ذیل معانی بیان کرتے ہیں:

1۔اصلی مصادر میں حدیث کے مقام کی دلالت بتانا جس میں اس کو سند کے ساتھ بیان کیا گیا ہوپھر ضرورت کے وقت اس کا مرتبہ بیان کرنا۔

2۔کسی چیز کو باضابطہ انداز سے لکھنا اور اس کا پورا حوالہ دینا تخریج کہلاتا ہے۔

3۔کتب فقہ وتفسیر وغیرہ کی احادیث کو جداگانہ مجموعوں میں جمع کرنا۔

4۔حدیث کی کسی کتاب سے خاص قسم کی احادیث مثلاً مرفوع،متصل،مرسل وغیرہ کو الگ کرنا۔

5۔حدیث کا حوالہ دینے کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھنا کہ یہ حدیث ہمیں کہاں سے ملے گی،درست نشان دہی کے اس عمل کو”تخریج حدیث“کہتے ہیں۔(الزاد المطلوب بتخریج احادیث کشف المحجوب، دیباچہ، ص11)

ڈائریکٹر محکمہ مذہبی امور واوقاف پنجاب ڈاکٹر طاہر رضابخاری”الزاد المطلوب بتخریج احادیث کشف المحجوب“ کے دیباچہ میں تخریج کے مختلف معانی کی وضاحت کرنے کے بعدتخریج حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: تخریج حدیث سےمراد حدیث کو اس کتاب کی طرف منسوب کرنا جس میں ابتدا ً وہ بیان ہوئی ہوں ،وہ کتاب مسند ، جامع ،سنن اور معجم ہوسکتی ہے۔گویا حدیث کی تخریج سے اس بات کا پتا چلتا ہےکہ اس حدیث کو کن آئمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں کن مقامات پر بیان کیا ہے۔حدیث کے اصلی مصادر تک رسائی کے لئے ”فن تخریج حدیث“باقاعدہ حیثیت اختیار کرتے ہوئے حدیث کے اصلی مصادر اور ان کے آئمہ تک رسائی کو عام کئے ہوئے ہے۔(الزاد المطلوب بتخریج احادیث کشف المحجوب،دیباچہ،ص11،12)

علامہ شیخ احمد بن محمد حسنی ادریسی مغربی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(وفات1380ہجری)”حصول التفریج باصول التخریج“میں لکھتے ہیں:تخریج احادیث کو ان کتب کی طرف منسوب کرنا ہے جن میں وہ بیان ہوئی ہیں۔ان پر صحت اور ضعف،قبول ورَدکے لحاظ سے کلام کیا جائےاور ان میں موجود علل کو بیان کیا جائے یا محض اصل کی طرف منسوب کردیا جائے۔(حصول التفریج باصول التخریج،ص21)

خلاصَۂ کلام یہ ہےکہ تخریج اور حوالہ میں اس بات کی طرف راہنمائی ہوتی ہےوہ بات کہاں لکھی ہے اور اسے کس نے لکھا ہے۔

تخریج کی اہمیت وضرورت:

تخریج اور حوالہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اہل فہم اس کی ضرورت کا انکار نہیں کرسکتے۔جو بات باحوالہ ہوتی ہے لوگ اس بات کو قبول کرنے میں جھجکتے نہیں۔ دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔اصل مقام کی نشان دہی اور وہاں تک رسائی ہوجاتی ہے۔باحوالہ بات کی اہمیت اور افادیت بڑھ جاتی ہے۔تخریج سےبسا اوقات کسی بات کے قبول یا رد کا بھی پتا چلتا ہے۔منکر کو انکار کا موقع نہیں ملتا۔معترض اعتراض کرنے سے گریز کرتا ہے۔بغیر تخریج والی بات کو قبول کرنے میں اذہان سبقت نہیں کرتے اور اس کی اہمیت بھی زیادہ نہیں ہوتی بلکہ اکثرایسی بات کو رد کردیا جاتا ہے۔بسا اوقات تخریج سے کسی بات کا سیاق وسباق بھی پتا چل جاتا ہے۔

تخریج جلد کیسےکی جائے؟

بعض امور اور چیزیں ایسی ہیں جن کو مدنظر رکھ کر تخریج کی جائے تویہ عمل قدرے آسان ہوجاتا ہے ۔ حوالہ جلد ملتا ہے اور وقت بھی بچتا ہے۔ وہ امور حسب ذیل ہیں:

(1)کتب حدیث کے آخرمیں آج کل”اطراف احادیث “بھی ذکر کی جاتی ہیں۔ان کی مدد سے حدیث جلدی اور باآسانی مل جاتی ہے۔حدیث کے ابتدائی دو تین لفظوں کو اطراف احادیث سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

(2)حدیث وفقہ کی کتابوں میں اکثر کتاب،ابواب اور فصول ہوتی ہیں ۔مطلوب حوالے کے مضمون پر غور کیا جائے کہ اس کا تعلق کس کس کتاب ،باب یا فصل سے ہوسکتا ہے یوں بھی تخریج جلد مل جاتی ہے ۔مثلا کسی روایت میں عقیدہ،اخلاق اور فضیلت تینوں باتیں پائی جارہی ہوں تو وہ عموماکتاب الایمان،کتاب الزھد،کتاب الرقاق یا کتاب الفضائل میں مل جایا کرتی ہے۔

(3)مطلوب مضمون کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب میں شامل فہرست مضامین سے ضرور استفادہ کیا جائے ،ڈائریکٹ تلاش کرنے کے مقابلے میں اس طرح تخریج جلد مل جاتی ہے ۔

(4)سوفٹ ویئرز اور آن لائن مکتبوں کی مدد سے تخریج کرنا اور حوالہ تلاش کرنا بہت آسان ہوگیا ہے ۔مطلوبہ لفظ سرچ کے آپشن میں ڈالا اور چندلمحات میں تخریج ہماری نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے۔کچھ سوفٹ ویئرزاور آن لائن مکتبے یہ ہیں۔(i)المصحف الرقمی(قرآن مجید میں تلاش کے حوالے سے ایک بہترین سوفٹ ویئر ہے)( i i)مکتبۃ التفسیر وعلوم القرآن(قرآن مجید اور اس کی تفاسیر سے متعلق ایک منفرد سوفٹ ویئر ہے)( i i i)موسوعۃ الحدیث الشریف(iv)مکتبۃ السیرۃ النبویۃ(v)مکتبۃ الاعلام والرجال(vi)مکتبۃ الفقہ واصولہ (vii)مکتبۃ الاخلاق والزہد (viii)المکتبۃ الوقفیہ (ix)المکتبۃ الشاملہ(یہ ایک جامع لائبریری ہے۔یہ صرف ایک ذخیرہ کتب نہیں بلکہ اس میں اپنی ضرورت کے مطابق اضافہ اور کمی بھی کرسکتے ہیں)

(5)کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کا نظام موجودہ دور میں حوالہ وتخریج تلاش کرنے والوں کے لئے آسان ترین اور تیز ترین ذریعہ ہے۔آپ گوگل کے سرچ انجن میں کوئی لفظ یا جملہ ڈالتے ہیں اور چند سیکنڈ میں بہت سارے نتائج آپ کے سامنے ہوتے ہیں۔

متروکہ اور مشکل تخاریج کے حوالے سے راہنمائی:

بسا اوقات کوئی تخریج بار بار ڈھونڈنے کے باوجود نہیں مل رہی ہوتی ہے یا تخریج مشکل ہونے کی وجہ سے چھوڑ دی جاتی ہے۔تخریج نہ ملنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔کبھی تلا ش کرتے ہوئے درست الفاظ کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ۔ کبھی مطلوب بات کوہم صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے جس کی وجہ سے تخریج کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔جس چیز کی تخریج کررہے ہوتے ہیں وہ بات ان الفاظ سے تو نہیں مل رہی ہوتی ہے لیکن اس سے ملتے جلتے الفاظ سے مل جاتی ہے۔ایسی صورت میں ان ملتے جلتے الفاظ سے تخریج کردینی چاہیے اور آخر میں مفہوماً یا بتغیر کا اضافہ کردیا جائے۔کبھی کتاب سے کوئی بات نہیں مل رہی ہوتی ہے مگر سوفٹ ویئرز اورنیٹ کے ذریعےوہ مل جاتی ہے۔

تخریج کرنے میں غلطیاں اور مشکلات:

حوالہ دینے اورتخریج کرنے میں کبھی جلد بازی،کبھی غوروفکر نہ کرنے،کبھی بات کو نہ سمجھنے اور کبھی کتابت وکمپوزنگ وغیرہ کے سبب غلطیاں ہوجاتی ہیں۔اسی طرح کبھی مؤلف سے تسامح یا پھر ناشر کی غفلت کی وجہ سے حوالہ غلط درج ہوجاتا ہے۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں چنانچہ بہارشریعت حصہ3جلد 1صفحہ615پرہے : سُترہ بقدر ایک ہاتھ کے اونچا اور انگلی برابر موٹا ہو اور زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ اونچا ہو۔ (درمختار ردالمحتار)

اسلامک ریسرچ سینٹر( المدینۃ العلمیہ)کی طرف سے اس پر یہ حاشیہ دیا گیا:یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ ردالمحتار میں ہے: سنت یہ ہے کہ نمازی او ر سترہ کے درمیان فاصلہ زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ ہو۔

بہارشریعت حصہ7جلد 2صفحہ76پرہے :اگر مہر مؤجل (جس کی میعاد موت یا طلاق تھی)یا مطلق تھا اور طلاق یا موت واقع ہوئی تو اب یہ بھی معجل ہو جائے گا یعنی فی الحال مطالبہ کر سکتی ہے اگرچہ طلاقِ رجعی ہو مگر رجعی میں رجوع کے بعد پھر مؤجل ہوگيا۔

اسلامک ریسرچ سینٹر( المدینۃ العلمیہ)کی طرف سے اس پر یہ حاشیہ دیا گیا:بہارشریعت کے تمام نسخوں میں یہاں عبارت ایسے ہی مذکورہے، غالباًیہاں کتابت کی غلطی ہے کیونکہ عالمگیری اورردالمحتارمیں ہے کہ رجوع کے بعد پھرمؤجل نہیں ہوگا۔

کبھی کسی کتاب کا حوالہ مؤلف کی کتاب سے پہلے والی کتابوں میں نہیں ملتا تو بعد والی کسی کتاب سے حوالہ نقل کردیا جاتا ہے۔حوالہ نقل کرنے والے کی غفلت کہیں یا پھر بھول ،جس کتاب سے حوالہ منقول ہوتا ہے وہ بات اسی کتاب کے حوالے سے وہاں منقول ہوتی ہے۔مثلاً قوت القلوب کی کسی روایت کی تخریج ”اتحاف السادۃ المتقین“سے کی جائے اور وہاں اس روایت کے ذکر کے بعد یہ ہوکہ اس روایت کو امام ابو طالب مکی علیہ الرحمہ نے قوت القلوب میں ذکر کیا ہےاور اس کے علاوہ کوئی حوالہ نہ ہو۔گویا اس صورت میں ہم قوت القلوب کی تخریج قوت القلوب سے ہی کررہے ہیں اور ایسا کرنا درایت اور اصول تخریج کے خلاف ہے۔اس طرح کی بہت سی چیزیں حوالوں کی چھان بین کے دوران سامنے آتی ہیں۔

تخریج کرنے اور حوالہ دینے میں یہ غلطی بھی ہوتی ہےکہ غیر مستند کتاب سے حوالہ دے دیاجاتاہے ۔چنانچہ پاک وہند میں نورنامہ جو منظوم انداز میں میلاد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ذکر پرمشتمل ہے اور اردو زبان میں ہے ایک زمانہ تک بڑی شہرت کا حامل اور عوام میں خاصا مقبول رہا ہے۔ بعض لکھنے والوں نے اس کے اشعار اور روایات کو نقل بھی کیا ہےحالانکہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:نورنامہ کی روایت بے اصل ہے اس کو پڑھنا جائز نہیں ہے۔(فتاوی رضویہ،26/610)

تخریج حدیث میں مدارج کتب(مصادر اولی):

حدیث کی تخریج کرتے ہوئے کتب حدیث کے مدارج کو بھی دیکھا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہےیہ حدیث فُلاں حدیث کی کتاب میں ہے ۔حدیث کی کتابوں میں سب سے بڑا مرتبہ بخاری شریف کا ہے جسے اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللہ (یعنی قرآن پاک کے بعد صحیح ترین کتاب) کہا گیاہے۔پھرصحیح مسلم اور اس کے بعد سننِ اربعہ(سنن ترمذی ، سنن نسائی،سنن ابوداود،سنن ابن ماجہ)کا مرتبہ ہے۔ بعض علما نے ”سنن ابن ماجہ “ کی جگہ ”موطا امام مالک“ یا ”سنن دارمی“ کا رُتبہ بیان کیا ہےاور بعض اہل علم نے ”ابن ماجہ“کےبعد”موطا امام مالک“یا ”سنن دارمی“کا ذکر کیا ہے۔(الرسالۃ المستطرفۃ، ص82)امام علم وفن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہنے صحیحین اور سنن اربعہ کے بعدمسانید امام اعظم، موطا وکتاب الآثار امام محمد،کتاب الخراج امام ابویوسف ، کتاب الحج امام عیسٰی بن ابان،شرح معانی الآثار اور مشکل الآثار امام طحاوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کا ذکرکیا ہے۔ (فتاوی رضویہ ،29/632)

صحاح ،سنن،مسانید،معاجم،مصنف اور موطا کی وضاحت:

صحاح “صحیح کی جمع ہے،اس سےمراد وہ کتابیں ہیں جن کے مصنفین نے صحیح احادیث جمع کرنے کا التزام کیا ہے۔صحیح وہ حدیث ہے جس کے تمام راوی عادل اور تام الضبط ہوں ، اس کی سند ابتدا سے انتہا تک متصل ہو نیز وہ حدیث علّتِ خفیہ قادحہ اور شذوذ سے بھی محفوظ ہو۔(تیسیر مصطلح الحدیث، ص23) ”سنن“ سے مراد حدیث کی وہ کتابیں ہیں جن میں ابوابِ فقہ کی ترتیب پر فقط احادیث ِاحکام جمع کی گئی ہوں۔مسانید سے مرادحدیث کی وہ کتابیں جن میں ہر صحابی کی مرویات الگ الگ جمع کی جائیں۔”معاجم“حدیث کی وہ کتابیں جن میں اسمائے شیوخ کی ترتیب سے احادیث لائی جائیں۔(تیسیر مصطلح الحدیث،ص128)”مصنف اور موطا“حدیث کی وہ کتاب جس میں ترتیب ابواب فقہ پر ہو اور احادیثِ مرفوعہ کے ساتھ موقوف ومقطوع احادیث بھی مذکور ہو ۔ ( جامع الاحادیث ، 1/567)

کتب صحاح ،سنن اور مسانید(مصادر ثانیہ):

کتب صحاح،سنن اور مسانید بہت ساری ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:

صحاح:(۱)منتقی الاخبار (۲)صحیح ابن سکن (۳)الاحادیث المختارہ (۴)صحیح ابن حبان (۵)صحیح ابن خزیمہ وغیرہ۔

سنن:(۱) سنن الدار قطنی(۲)سنن الکبری للنسائی(۳)سنن الکبری والصغری للبیھقی(۴)معرفۃ السنن والآثار للبیھقی(۵)مسند رویانی(۶)الادب المفرد للبخاری(۷)مستدرک للحاکم(۸)سنن سعید بن منصور (۱۰)شرح السنہ للبغوی وغیرہ۔

مسانید:(۱)مسند امام احمد(۲)مصنف عبدالرزاق(۳)مصنف ابن ابی شیبہ(۴)مسند شافعی (۵) مسند حمیدی (۶)مسند ربیع (۷) مسند عبد اللہ بن مبارک (۸)مسند ابن شیبہ(۹)مسند طیالسی (۱۰)مسند اسحاق بن راہویہ (۱۱)مسند بزار (۱۲)معاجم ومسند الشامیین للطبرانی (۱۳)مسند ابی یعلی(۱۴)مسند ابن الجعد(۱۵)مسند شہاب (۱۶)مسند حارث (۱۷)مسند ابی عوانہ وغیرہ۔

نوٹ:امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہنے صحاح کے درجہ میں منتقی الاخبار،صحیح ابن سکن ، الاحادیث المختارہ اور صحیح ابنِ حبان کوبیان کیا ہےاور سنن کے درجہ میں مسند رویانی کو بھی شامل کیا ہے۔ (ماخوذازفتاوی رضویہ،۴/۲۱۰)

امام ابو القاسم طبرانی(وفات360ہجری)رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکی معاجم(معجم کبیر،معجم اوسط،معجم صغیر) اور مصنفین(مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ )مسانید کے درجے میں ہیں۔مسانید میں سب سے اعلیٰ درجہ مسند امام احمد کا ہے۔(فتاوی رضویہ،۴/۲۱۰)

بعض وہ کتب جن سے حوالے دیئے جاتے ہیں(مصادر ثالثہ):

(۱)حلیۃ الاولیاء (۲)کُتب ابنِ ابی الدنیا (۲)کتب ابو الشیخ(۳)محدثین کی کتب زہدوغیرہ۔

کتب تخریج:(۱)جامع الاصول لابن اثیر جزری(۲)الترغیب والترہیب للمنذری(۳)اتحاف الخیرۃ المھرۃ للبوصیری (۴)کنزالعمال(۵)مجمع الزوائد(۶)جمع الجوامع اور جامع الاحادیث وجامع الصغیرللسیوطی وغیرہ

کتب تاریخ واسماء الرجال:(۱)الکامل لابن عدی(۲)تاریخ بغداد(۳)ابن عساکر(۴)کتاب الثقات لابن حبان (۵)معرفۃ الصحابہ لابی نعیم(۶)معجم الصحابۃ للبغوی وغیرہ

شروحاتِ حدیث:(۱)شرح صحیح مسلم للنووی (۲)شرح بخاری للکرمانی (۳)عمدۃ القاری(۴)فتح الباری (۵)ارشاد الساری (۶)شرح بخاری لابن بطال وغیرہ۔

فقہ حنفی کی تخریج میں مدارج کتب:

فقہ حنفی کی کتابوں کی بات کریں تو کتب حدیث کی طرح ان کے بھی مدارج ہیں۔فقہ حنفی کی کتابوں میں پہلا مرتبہ متون کاہے۔متون وہ کتابیں کہلاتی ہیں جو نقل مذہب کےلئے لکھی گئی ہیں۔(فتاوی رضویہ، ۴/۲۰۸)ان کتابوں میں کتب اصول سے مسائل ذکر کئے جاتے ہیں۔کتبِ اصول امام محمد بن حسن شیبانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (وفات189ہجری) کی چھ کتابیں ہیں:(1)جامع کبیر(2) جامع صغیر(3) مبسوط(اسے ”اصل “بھی کہتے ہیں) (4) زیادات(5) سِیر کبیر(6) سیر صغیر۔ان کتب کو چونکہ فقہ حنفی میں فتوی اور اجتہاد کےلئے اصل اور مرجع ہونے کی حیثیت حاصل ہے اس لئے انہیں اصول کہا جاتا ہے۔(پیش لفظ،فتاوی شامی(مترجم) ،جلداول،ص25) نیز ان کتابوں کو ظاہر الروایہ بھی کہاجاتا ہے،ظاہر الروایہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں میں درج مسائل امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے ثقہ لوگوں نے بیان کیےہیں اور جن کا ثبوت تواتر اور شہرت سے ہے۔ (رد المحتار،مطلب رسم المفتی،1/163)ان کتب اصول اور ظاہر الروایہ کے مسائل کو امام محمد حاکم شہید رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(ت334ہجری) نے اپنی کتاب کافی میں جمع کردیا ہے۔ (رد المحتار،مطلب رسم المفتی،1/167)متون کے بعدشروحات اور اس کے بعد فتاوی کارُتبہ ہے۔(فتاوی رضویہ،۴/۲۰۸)

کتبِ متون:جیسےمختصر الطحاوی،مختصر الکرخی،قدوری،کنز، وافی، نقایہ،اصلاح،مختار،مجمع البحرین، مواہب الرحمٰن ،ملتقی، ہدایہ اور اس کے علاوہ دیگر جو نقل مذہب کے لئے لکھی گئی ہیں ۔(فتاوی رضویہ،۴ /۲۰۸)

کتبِ شروح:کتبِ اصول کی شرحیں جو ائمہ نے لکھیں ،مبسوط امام سرخسی، بدائع ملک العلماء، تبیین الحقائق، فتح القد یر، عنایہ، بنایہ، غا یۃ البیان، درایہ، کفایہ، نہایہ، حلیہ، غنیہ، البحرالرائق، النہرالفائق، درر احکام، دُرمختار، جامع المضمرات، جوہرہ نیرہ، ایضاح، غنیہ، شرنبلالی، حواشی خیر الدین رملی، ردالمحتار، منحۃ الخالق وغیرہ۔(فتاوی رضویہ،۴/۲۰۹)

کتبِ فتاویٰ: خانیہ، خلاصہ، بزازیہ، خزانۃ المفتین، جواہر الفتاوی، محیطات(محیط برہانی اور محیط سرخسی)، ذخیرہ، واقعاتِ ناطفی، واقعات صدر شہید، نوازل ، مجموع النوازل، ولوالجیہ، ظہیریہ، عمدہ، کبری، صغری، تتمہ الفتاوٰی، صیرفیہ، فصول عمادی،فصول استروشنی، جامع صغار، تاتارخانیہ، ہندیہ، فتاوٰی خیریہ، العقود الدریہ، فتاوی رضویہ۔ (فتاوی رضویہ، ۴/۲۰۹ملخصاً)

نوٹ:کتب فتاوی میں سب سے پہلے لکھی جانے والی کتاب امام ابو اللیث سمرقندی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکی کتاب ”نوازل“ ہے۔ (رد المحتار،مطلب رسم المفتی،1/163)


مشہورشیخ طریقت ،امیرِملت حضرت مولاناسیدجماعت علی شاہ محدث علی پوری(1) رحمۃ اللہ علیہ1332ھ /1914ء میں لاہور(2) کی جامع مسجدپوٹلیاں اندرون لوہاری گیٹ(3) میں قیام فرماتھے،اتنے میں ایک ذی وجاہت مگر جسمانی طورپر دبلےپتلے عالمِ دین،سیاہ اچکن،سیاہ رامپوری ٹوپی اور موری دارپاجامہ زیب تن کئے تشریف لائے، امیرِملّت فوراًکھڑے ہوگئے، ان سے معانقہ کیا(گلےملے)،ہاتھوں اور پاؤں کا بوسہ لیا، انھوں نے امیرِملّت سےپوچھا کہ آپ کاکیا حال ہے؟امیرِملّت نے جواب دیا کہ حضور!اللہ تعالیٰ کا شکرہے ،آپ نے جوکچھ عطافرمایاہے اسی کا فیض ہے۔(4) آپ جانتے ہیں وہ عالم دین کون تھے ؟یہ اپنے وقت کے مشہورعالمِ دین، استاذ العلما، جامع منقول ومعقول ،مفتیِ اسلام ، ادیبِ عربی حضرت مولانا مفتی محمدعبداللہ ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ان کا مختصرذکر کیا جاتاہے:

پیدائش :

مفتی محمد عبداللہ ٹونکی کے آباواجدادہند کی ریاست بہارکے رہنے والے تھے،کافی عرصہ پہلے یہ ریاست ٹونک (راجستھان) (5) کے محلہ گھورکھپوریوں والا میں منتقل ہوگئے، مفتی صاحب یہیں شیخ صابرعلی صاحب کےگھر 1266ھ / 1850ء کو پیدا ہوئے۔ (6)

تعلیم وتربیت :

ابتدائی تعلیم علمائے ٹونک سے حاصل کی، حفظِ قرآن کی سعادت بھی پائی، شاگردِ علامہ فضلِ حق خیرآبادی (7) حکیم سیّددائم علی عظیم آبادی(8) سے بھی استفادہ کیا (9) طویل عرصہ استاذالاساتذہ، استاذالہندعلامہ محمد لطف اللہ علی گڑھی(10) رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں علوم عقلیہ کی تحصیل کی،دورۂ حدیث شریف افضل المحدثین فی زمانہ، محشّی صحیح بخاری حضرت علامہ حافظ احمدعلی سہارنپوری(11) رحمۃ اللہ علیہ سے کیا (12) انہیں کی نسبت سےآپ اپنے نام کےساتھ احمدی بھی لکھا کرتے تھےچنانچہ عقد الدُّرَر فی جید نزھۃ النظر صفحہ 193میں لکھتے ہیں :واناالعبدالاثیم محمدن المدعو بعبداللہ الٹونکی توطنا،والاحمدی تلمذا،والحنفی مذہباً۔

فراغت کےبعدبھی تحصیلِ علوم کی پیاس باقی رہی اورلاہورآکر علامہ فیض الحسن سہارنپوری (13) رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردگی اختیارکی اور ادبیات عربی کی تعلیم پائی، 1886ء میں گورنمنٹ اورینٹل کالج سےمولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔(14)

بیعت وارادت :

مفتی صاحب اپنےعظیم المرتبت شاگردامیرِملّت پیرسیدجماعت علی شاہ محدّث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اورکارناموں سےمتاثرتھےاورعلم وفضل کے کوہِ گراں ہونےکے باوجود اپنےزندگی کے آخری حصےمیں امیرملت کے ہاتھ پر بیعت کرکے سلسلۂ نقشبندیہ میں داخل ہوگئے۔(15)

اعلیٰ حضرت سے استفادہ:

آپ نے امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے مختلف مسائل پرمشتمل استفتاء بھیجے،جن کےجوابات فتاویٰ رضویہ(16) کی چارجلدوں میں موجود ہیں، (1)فتاویٰ رضویہ جلد12صفحہ169 (2) فتاویٰ رضویہ جلد18 صفحہ 359 (3)فتاویٰ رضویہ جلد19 صفحہ292 (4) فتاویٰ رضویہ جلد26 صفحہ 278یوں مفتی صاحب بذریعہ خط وکتابت اعلیٰ حضرت سےمستفیض ہوئے ۔

علمی مقام:

مفتی صاحب فقہِ اسلامی،ادب عربی اورفلسفہ قدیمہ پر عبوررکھتے تھے۔اسلامی قانون اور شرعی تنازعات میں آپ کا فیصلہ سند مانا جاتا تھا۔شاعرِمشرق ڈاکٹرمحمداقبال مرحوم(17) نے آپ سے استفادہ کیااورشاگردگی کا شرف پایا۔(18) چنانچہ دانائے رازمیں ہے : مفتی محمد عبداللہ ٹونکی عربی میں ان کے استاد، شعر و شاعری کی محفلوں میں ان کے ہم جلیس، ان کے بزرگ ہر اعتبار سے واجب الاحترام، مگر اس کے باوجود بے تکلف دوست بشرطیکہ لفظ دوستی میں تفاوت عمر کا لحاظ رکھ لیا جائے۔ (19) ڈاکٹر اقبال ان کے درسِ حَمَاسَہ(عربی شاعری کی ایک کتاب) میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے ۔(20) ڈاکٹراقبال مفتی صاحب کےبارے میں کہاکرتے تھے کہ اس ناتواں جسم میں علم وفضل کا اتناذخیرہ ہےکہ کُوزے میں دریابندہونےکی مثل اِن پر صادق آتی ہے۔(21) آپ عربی میں اشعاربھی لکھاکرتے تھے۔(22)

اخلاق وعادات:

مفتی صاحب عالمِ باعمل،متقی وپرہیزگاراورحسنِ اخلاق کے پیکرتھے،مخالفین بھی آپ کےپاس آکرآپ کے گرویدہ ہوکرواپس جاتے تھے ۔طلبہ آپ سے علومِ دینیہ کےساتھ ساتھ تصوف کے اسرارورموزبھی حاصل کرتے تھے۔وہ بہت کم بولتے تھے مگرجب بولتےتو ان کا ایک ایک لفظ مستندہوتاتھا،مفتی صاحب ہر شام بازارِ حکیماں میں حکیم شہبازدین کی علمی وادبی بیٹھک میں بیٹھا کرتےتھے،اس مجلس میں موجودلوگوں کو قرآنی احکام کی حکمتوں سے آگاہ کیاکرتےتھے ، آپ پان کا استعمال کرتے اورگفتگوکرتےوقت اپنے منہ پر رومال رکھ لیا کرتے تھے۔(23)

تدریسی خدمات:

٭آپ نے تدریس کا آغازدہلی میں قائم مدرسہ مولانا عبدالرّب دہلوی (24) سے کیا ایک عرصہ وہاں پڑھاتے رہے(25) ٭یکم مئی 1883ء میں لاہورکےمشہورعلمی ادارے گورنمنٹ اورینٹل کالج(26) کے عربی مدرس مقررہوئے۔٭1887ء میں علامہ فیض الحسن صاحب کے انتقال فرمانے کے بعد صدر مدرس بنادئیے گئے۔ ٭کچھ عرصہ بعدشعبہ عربی کے سپرنٹنڈنٹ ہوگئے۔ ٭1897ءمیں آپ کو اورینٹل کالج کاقائم مقام پرنسپل بھی بنایاگیا۔٭1903ء میں آپ کو شمس العلماءکا خطاب دیا گیا۔٭1917ء کو آپ ریٹائرڈ ہوئے۔یوں ان 34 سال کے دوران آپ اورینٹل کالج میں نہایت جانفشانی کے ساتھ ادب عربی اورعلوم اسلامیہ کی ترویج واشاعت میں مصروف رہے۔(27) سینکڑوں طلبہ نےآپ سے استفادہ کیا۔ ٭کالج سے فراغت کے بعدلاہور(جسے آپ اپناوطن ثانی فرمایاکرتےتھے)کوداغِ مفارقت دے کر لکھنؤ اورپھرمدرسہ عالیہ کلکتہ (28) میں تشریف لےگئے،وہاں چندسال صدرمدرس کے طورپرعلومِ اسلامیہ کی تدریس فرماتے رہے۔آپ تدریس عربی کے اعلیٰ پائے کےمدرس،ناظم وناشراورعربی درسگاہوں کی قدیم تعلیم کے ماہر تھے۔ (29)

علمائےلاہورمیں شمارکرنے کی وجہ :

مفتی صاحب اگرچہ لاہور کے باشندے نہیں تھے اور نہ ہی یہاں انتقال فرمایا مگر چونکہ آپ نے لاہور میں ایک متحرک ومؤثر عالم دین کی حیثیت سے تقریبا34 سال گزارے، اس لئے آپ کو لاہور کے علما میں شمار کیا جاتا ہے۔آپ کی رہائش محلہ بازار حکیماں بھاٹی گیٹ(30) میں تھی۔ (31)

انجمن نعمانیہ لاہورمیں خدمات :

1857ء کی تحریک آزادی کےبعدبرّعظیم میں اسلامی علوم کی حوصلہ شکنی اوربیخ کنی کا سلسلہ جاری تھا، جمادی الاخریٰ1305ھ/مارچ1887ء میں کچھ دردمندعلما اور زُعمائے اہلِ سنت لاہور نے تحفظِ عقائدِ اہلِ سنّت ،علومِ اسلامیہ کی ترویج و اِشاعت،عوامِ اہلِ سنت کی دینی تربیت ، اورباہمی اتحادواتفاق کے لیے انجمن خادم علومِ اسلامیہ المعروف انجمن نعمانیہ لاہور(32) کوقائم فرمایا، اس کے تحت 5صفر 1305ھ /23 اکتوبر 1887ء کو مدرسہ علومِ اسلامیہ المعروف دارالعلوم نعمانیہ (33) شروع کیاگیا جس نے سالہاسال خدمتِ دین سرانجام دیں ، 1908ء کو یتیم خانہ، 1906ء کو دارالاقامہ اور 1913ء میں شعبہ اشاعت کتب حنفیہ اورلائبریری کا آغاز ہوا۔ (34) ٭حضرت مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب انجمن نعمانیہ کے بانی ار اکین میں شامل تھے۔(35) آپ اگرچہ گورنمنٹ اورینٹل کالج میں عربی کے پروفیسرومدرس تھے مگر انجمن کو پورا پورا وقت دیتے تھے ٭آپ مجلس انتظامیہ کے رکن اور شعبۂ تعلیم کے ناظم بھی تھے ٭ ابتدائی سالوں کے ناظم امتحانات بھی رہے۔ شروع کے چار سالوں ( 1893 تا 1896ء) کے نتائج انجمن کے سالانہ رسالوں میں شائع ہوئے ہیں جس پر آپ کے دستخط بھی موجود ہیں ٭آپ نے انجمن کےصدر ثانی کی حیثیت سے بھرپور خدمت انجام دیں۔٭ انجمن کے سالانہ جلسوں میں مقامی اور دور دراز سے آئے ہوئے علماء کی تقار یرہوا کرتی تھیں آپ بھی ان جلسوں میں خطاب فرمایا کرتے تھے آپ کی ایک تحریر ی تقریر انجمن کی سالانہ رسالہ1314ھ/1897ء میں شائع بھی ہوئی ہے، تقریر سے قبل آپ کو ان القاب سے نوازا گیا،’’ عالم لوذعی و فاضل المصی مولوی حافظ مفتی محمد عبداللہصاحب ٹونکی عربی پروفیسر یونیورسٹی آف پنجاب و دبیر مجلس انجمن مستشارُالعلماء لاہور،تقریر کا عنوان ہے:’’ مذہب کسے کہتے ہیں اور وہ کیا چیز ہے؟‘‘یہ تقریر 18 صفحات(9تا26) پر مشتمل ہے۔(36) ٭ربیع الاول 1329ھ /مارچ 1911ء کو اسلامیہ کالج لاہورکےوسیع وعریض گراؤنڈمیں انجمن نعمانیہ کے تحت عیدمیلادالنبی کا جلسہ ہوا جس میں مفتی عبداللہٹونکی ،علامہ غلام دستگیرقصوری(37) امیرملت اورڈاکٹراقبال نے تقاریرکیں(38) ٭آپ انجمن کے سالانہ جلسوں میں شرکت فرماتے اورتقریرفرماکرعوام اہلسنت کے علم وعمل میں اضافےکی کوشش فرماتے،چنانچہ رجب 1314ھ /جنوری 1897ء کوانجمن کے موچی دروازے میں ہونےوالےسالانہ جلسے میں مفتی صاحب نے تقریرکی۔ (39)

انجمن حمایتِ اسلام میں خدمات :

مسلمانوں میں دنیاوی تعلیم عام کرنے ،غریبوں اوریتیموں کی کفالت کرنے کے لئے خلیفہ حمیدالدین احمدقاضی لاہور(40) نے اپنے رفقاکےساتھ مل کر 3ذوالحجہ 1301ھ /24ستمبر1884ءمسجدبوکن خان موچی گیٹ لاہور(41) میں انجمن حمایتِ اسلام کا آغازکیا (42) اس انجمن نےاسکول وکالج کھولنےاورطلبہ کوجدیدعلوم سےروشناس کرنے میں اہم کرداراداکیا(43) مفتی صاحب اس کے صدراورعرصہ دراز تک اس کی کئی کمیٹیوں کے چئیرمین رہے ، اورینٹل کالج کی تدریس کے بعد اس کےجلسوں میں شرکت کرتے اوراپنےوعظ سےلوگوں کو اسلام کی سنہری تعلیمات سےآگاہ کرتےتھے ،(44)

انجمن نعمانیہ اورانجمن حمایت اسلام کویکجاکرنے کی کوشش:

٭ان دونوں انجمنوں کامقصدچونکہ مسلمانوں میں تعلیم کوعام کرنا تھا ،انجمن نعمانیہ دینی اور انجمن حمایتِ اسلام دنیاوی تعلیم عام کررہی تھی، دردمندمسلمانوں نے سوچا کہ ان دونوں کو یکجا کرکے ایک ایساعظیم تعلیمی ادارہ قائم کیاجائےجو دینی اوردنیاوی علوم کاسرچشمہ ہو (45)چنانچہ6ربیع الاول1315ھ/ 5اگست 1897ء کوبادشاہی مسجد لاہور(46) میں دونوں کے اراکین کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب انجمن حمایت اسلام کی جانب سے شریک ہوئے تھے ،اسی اجلاس میں دونوں انجمنوں کے زُعَمانے ایک دوسرے کا مؤقف سنا اورمزیداجلاس کا طے کیا، دیگراجلاس کےبعدبھی دونوں انجمنوں کے یکجاہونےپراتفاق نہ ہوسکا،البتہ انجمن حمایت اسلام نےانجمن نعمانیہ کے علمی تعاون سے اپنےتحت علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت کےلیے ایک ادارہ بنانےکا طے کیاتاکہ ان کے ہاں جس کام کی کمی ہے وہ پوری ہوسکے،اسی کے بعدمدرسہ حمیدیہ کا آغازکیاگیا ۔ (47)

مدرسہ حمیدیہ میں تدریس:

٭ انجمن حمایت اسلام کے تحت 20جمادی الاولیٰ 1315ھ / 17،اکتوبر1897ء کو بنام مدرسہ حمیدیہ دارلعلوم کاآغازہوا۔مولانا مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب انجمن نعمانیہ کے ساتھ ساتھ مدرسہ حمیدیہ سے بھی وابستہ تھے ، آپ کے ساتھ انجمن نعمانیہ کے کئی علما مثلاً مولانا غلام اللہ قصوری (48) مولانا محمد ذاکر بگوی (49) اور مولاناپروفیسر اصغر علی روحی (50) وغیرہ نے اس مدرسےمیں بھی پڑھانے کا سلسلہ رکھا، یہ مدرسہ 1328ھ/1910ء تک قائم رہا۔ (51)

انجمن مستشارالعلماء کاآغاز:

مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب نے مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کے لیے5ربیع الاخر1304ھ/ یکم جنوری 1887ء میں انجمن مستشارالعلمالاہورکی بینادرکھی اوراس کے ناظم عمومی مقررہوئے،اس کا مقصد جدیدمسائل پر جیدعلماء سے آرالے کر ان پر غورکرنا اورایک متفقہ مؤقف قوم کو پیش کرنا تھا ، (52) دیگرمفتیان کرام کے علاوہ دارالعلوم نعمانیہ کے فارغ التحصیل مفتی نورحسن ولدفیض بخش کھوکھرصاحب بحیثیت مفتی مقررہوئے ، (53) اس انجمن کی لائبریری کے لیے امیرملت سیدجماعت علی شاہ(سرپرست انجمن مستشارُالعلماء)، حضرت مولانا مفتی غلام محمدبگوی(صدرانجمن مستشارُالعلماء) (54) اوردیگرافرادپرمشتمل ایک وفدامرتسرگیا، وہاں کے عوام وخوص کو اس کے مقاصدسے آگاہ کیا ،اس موقعہ پرانجمن اسلامیہ امرتسرکےشیخ صادق مرحوم نےکتب کےلیے پچاس روپے دئیے۔ (55) مفتی محمدعبداللہ ٹونکی صاحب نے اس انجمن کی شاندارلائبریری قائم کی جو بادشاہی مسجدمیں تھی ، (56) مگر انجمن مستشارالعلما اپنے مقاصدکو درست اندازمیں نہ نبھاسکی اورمرورزمانہ کے ساتھ ساتھ اس مجلس پر کچھ ناپسندیدہ لوگ قابض ہوگئے جیساکہ حضرت مولاناپیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب (57) تحریرفرماتےہیں :’’انجمن نعمانیہ لاہورنے اس انجمن کی ناقص کارکردگی اورعقیدے میں ناپختگی کی وجہ سے یکم جولائی (1901ءمطابق 14ربیع الاول 1319ھ)کو(اس سے)علیحدگی اختیارکرنے کا اعلان کیا۔ (58)

انجمن خدام الصوفیہ کے اجلاسات میں شرکت:امیرملت محدث علی پوری نے1319ھ/ 1901 ء میں ایک دینی اوررفاحی تحریک ’’انجمن خدام الصوفیہ (59) قائم فرمائی جس کے تحت کئی دینی مدارس،مساجد اوررفاحی ادارےبنائےگئے ،مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب اس انجمن کےجلسوں میں تشریف لاتےکسی نہ کسی نشست میں صدارت فرماتےاوردعائےخیرسے نوازاکرتے تھے۔ (60)

ردقادیانیت :

جب امیرملت نے فتنۂ قادیانیت (61) کی سرکوبی کےلیےجدوجہد شروع فرمائی ،تو علامہ عبداللہ ٹونکی صاحب نےان کا بھرپورساتھ دیا ۔٭20ربیع الاخر1326ھ/22مئی 1908ء امیرملت نےشاہی مسجدمیں خطبہ جمعہ دیااورعوام اہلسنت کےسامنے ختم نبوت کے موضوع پرگفتگوفرمائی ،فتنہ قادیانیت کےبارےمیں لوگوں کوآگاہ کیا ،اس میں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب بھی تشریف فرماتھے،انھوں نے اس خطبے کی تائیدوحمایت فرمائی،٭اسی زمانےمیں امیرملت نے لاہورشہرمیں مسئلہ ختم نبوت پر جلسوں کاسلسلہ شروع کیاجوتقریباایک ماہ تک جاری رہا، مفتی صاحب ان جلسوں میں شریک ہوتےاورخصوصی دعاؤں سےنوازتے۔ (62)

ردبدمذہبیت:

آپ کی حیات میں نت نئےفتنےاٹھے ،آپ نے علمائے اہل سنت کے ساتھ مل کر ان کا ردفرمایاجس کی کچھ تفصیل بیان کی جاتی ہے :

(1)1302ھ میں عقائد و معمولات اہل سنت خصوصا میلاد و فاتحہ وغیرہ کے بارے میں ایک فتنہ اٹھا جس کا رد حضرت مولانا علامہ محمدعبدالسمیع رامپوری (63) رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مبسوط کتاب’’ انوارساطعہ دربیان مولودوفاتحہ‘‘ لکھ کرفرمایا، (64) یہ کتاب بلاشبہ جہاں تفریق بین المسلمین کی تاریخ اور اس کے اسباب و عوامل پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے وہیں علم غیب ، مسئلہ حاضرو ناضر اور دوسرے اہم علمی و فقہی مسائل و مباحث کی گرہیں بھی کھولتی ہے،اس کتاب کی تائیدعرب عجم کےکثیرجیدعلماکرام نےکی، مگرجن کی قسمت میں ہدایت نہیں تھی انھوں نے اس کے جواب میں کفریہ کلمات پر مشتمل کتاب “براہین قاطعہ‘‘لکھ ڈالی۔

براہین قاطعہ جس کے نام سے شائع ہوئی تھی،وہ شخص اپنے رفقاکےساتھ حضرت مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کےپاس آیاجس کا ذکرآپ نےاپنےدومکتوبات میں فرمایاہے اس کا خلاصہ علامہ غلام دستگیرمحدث قصوری صاحب ان الفاظ کے ساتھ تحریرفرماتے ہیں : مولوی خلیل احمد مع اپنے حواریوں کے میرے پاس آئے اور مسئلہ امکان و کذب باری تعالیٰ کا حکم پوچھا، میں نے جواب دیا کہ اس کا قائل میرے نزدیک اہل سنت سے خارج ہے کیونکہ علما عقائد نے کذب باری تعالیٰ کو ممتنع لکھا ہے۔اُنہوں نے شرح مواقف مقصد فروع معتزلہ علی اصولہم سے عبارت پیش کی ،میں نے اس کا یہ جواب دیا کہ اس کا جواب مسلم الثبوت اور اس کی شرح میں ہے کہ صحیح امتناع ذاتی ہے الخ (65)

(2)مذکورخلیل احمد کا برادرانہ تعلق حضرت علامہ مفتی غلام دستگیرمحدث قصوری صاحب کے ساتھ تھا ،انھوں نے اس کو سمجھایا مگروہ بازنہ آیا بلکہ آپ سے مناظرہ کرنے پر اترآیا، تاریخ میں یہ ’’ مناظرۂ بہاولپور‘‘کےنام سےمشہورہے جوکہ شوال 1306ھ/مئی 1889ء کو ہوا،اس مناظرے میں اُس شخص کوذلت آمیزشکست ہوئی اوراسے ریاست بہاولپورسے شہربدریعنی نکال دیاگیا۔ (66) اس مناظرے میں مفتی غلام دستگیرصاحب کو مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کی نہ صرف علمی حمایت حاصل تھی بلکہ آپ فرماتے ہیں : میری(عبداللہ ٹونکی کی) خوشی تھی کہ اس مناظرہ میں بھی شامل ہوتا مگر عدمِ فر صت سے نہ ہوسکااور مجھے غالب امید ہے کہ اِمکانِ کذب کے قائل مغلوب ہوں گے او رخدا کو پاک کہنے والے منصور(کامیاب) ہوں گے۔ (67)

(3)استاذالعلماحضرت علامہ حافظ احمد حسن کانپوری (68) نے ”ابطالِ امکانِ کذب‘‘کےموضوع پر ایک رسالہ’’تنزیہ الرحمن عن شائبہ الکذب والنقصان ‘‘ تحریر فرمایا ،مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب نے اس پر تقریظ لکھی جو آپ کی حمیتِ مذہب کا پتادیتا ہے،آپ کی یہ تقریظ عربی میں ہے،اس کا ترجمہ پیش کیاجاتا ہے : تمہارا رب، عزت والا رب ان باتوں سے پاک ہے جو باتیں یہ لوگ بنارہے ہیں۔ پیغمبروں پر سلام ہو۔ سب خوبیاں اللہ پاک کی ہیں جو سارے جہان کا ربّ ہے۔ حمد وصلوۃ کے بعد! یہ خوشنما وباکمال رسالہ اور نفیس وعالی مقالہ ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ جھوٹ اور غلط بیانی ممکن ہونے سے ربِّ کریم کی ذات پاک ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ خامی وعیب کے امکان سے ذاتِ خداوندی منزّہ ہے، یہ رسالہ اپنے شان دار وخوش گوار فیضانات سے نگاہ والوں کو جھمادے گا اور اپنے کامل وظاہر سیلاب سے‘ بہکی بہکی باتیں کرنے والوں کے پاؤں اکھاڑ دے گا، اس سے عقل وبرکت والوں کے سینے کشادہ ہوں گےاور جاہل کمینوں کے دلوں میں گھٹن ہوگی، دانش مندی وحقانیت والوں کے دل خوشی سے جھوم اٹھیں گے اور فتنہ وفساد والوں کی آنکھوں میں آشوب اتر آئے گا۔ اس رسالے کی باتیں غالب برہانوں سے آراستہ ہیں اور اس کے مضامین منہ زور دلیلوں سے سجے ہیں، اس رسالے کی دلیلوں کے نوکیلے نیزے‘ راہِ حق سے ہٹ کر چلنے والے گمراہوں کے نظریات کے جگر پھاڑ دیں گے، اس سالے کے ثبوتوں کی آزمودہ پتلی تلواریں‘ ہٹ دھرمی کے راستے میں دلچسپی رکھنے والوں کے باطل مذہبوں کے کاندھے چیر دیں گی، اس کے صاف ستھرے بیان کے ہتھوڑے‘ کذبِ باری تعالیٰ کا امکان وجواز ماننے والوں کی خیالی کہانیوں کو پاش پاش کردیں گے، اس کے روشن بیان کے کوڑے‘ جھوٹ اور بہتان والوں کے پلندوں کی کمر توڑ دیں گے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا کیوں کہ یہ جس ہستی کا رسالہ ہے وہ ہیں بلند مرتبہ علامہ، علم کے چھلکتے سمندر، صاحبِ نگاہْ فاضل، حق وباطل میں فرق کرنے والے واقفِ احوال، درستی بھری عقل، روشن سمجھ داری، بھری ذہانت، پختہ اندازِ فکر، ٹھوس رائے اور مستحکم دانائی والے، عزیزِ دلنواز، مشفقِ ذی شان، پُرانے ساتھی اور عظیم دوست مولانا حافظ احمد حسن صاحب، اللہ پاک انھیں زمانے کی مصیبتوں اور نئے نئے نکلنے والے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ منقولی علوم کی باگیں بلا اختلاف آپ کے ہاتھ میں ہیں، اکثر عقلی فنون کی لگامیں بلا مزاحمت آپ کے قابو میں ہیں، دور ونزدیک والے ان کی فضیلتوں کے نور سے روشنی لیتے ہیں، پیٹ بھرے اور بھوکے ان کی عظمتوں کے درخت سے پھل لیتے ہیں۔

آپ کی تقریر کے تیر اس قوم کی لغزشوں کے دلوں میں پیوست ہوجاتے ہیں جس قوم کا رشید گمراہ ہے اور جن کا سچا جھوٹا ہے۔ آپ کی تحریر کے نیزے اُس قوم کی غلطیوں کے سینے میں گڑے ہوئے ہیں جن کا خلیل تہی دامن ہے اور جن کا امین خائن ہے۔ آپ نے ان کی بے بنیاد باتوں کو پُرزے پُرزے کردیا، ان کی بے حقیقت کہانیوں کے چیتھڑے اُڑادیے، ان کی باتوں پر کالک مَل دی، اُن کی گمراہیوں کی آنکھیں بے نُور کردِیں، ان کے بھائیوں (شیطانوں) کے وسوسوں کے لشکر تہس نہس کردیے، اُن کے بے جان خیالوں کے ڈھیر ریزہ ریزہ کردیے، اُن پر قیامت ڈھادی اور اُن پر مَوت کی بارش برسائی۔ جیسا کہ یکے بعد دیگرے دو مرتبہ میں نے آمنا سامنا کرکے، آڑے ہاتھوں لے کر اور مقابلہ کرکے ان کا حشر کیا جب لاہور میں یہ لوگ ٹولیاں بناکر آئے اور جمگھٹ لگایا، وہ لاہور جو روشنی وتابناکی میں چمکتے سورج اور چاند کے ہالے کی طرح ہے، ربِّ کریم مجھے اور اس شہر کو زمانے کی بُرائیوں اور خوشی کی رکاوٹوں سے محفوظ رکھے۔ چنانچہ یہ تتر بتر ہوگئے، بکھر گئے، خاک ہوگئے، شکست کھاگئے، آنکھ بچاکر کھسک گئے اور مٹی میں مل گئے جیسے پھیلی ہوئی ٹڈیاں ہوں یا بکھری ہوئی باریک چیونٹیاں ہوں۔ الغرض! ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی۔سب خوبیاں اللہ پاک کی ہیں جو سارے جہان کا ربّ ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور آپ کے سب آل واصحاب پر رحمتیں اور سلام ہوں۔ تیری رحمت سے یہ سوال ہے اے سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ربّ۔بندہ گنہ گار مفتی محمد عبداللہ عفی عنہ کی یہ تحریر ہے ۔ (69)

(4)علامہ احمدحسن کانپوری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب’’تنزیہ الرحمن‘‘کتاب کے ردمیں ایک کتاب الجہدالمقل فی تنزیہ المعز والمذل لکھی گئی ،جب مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کو اس کا علم ہواتو آپ نےاس کا جواب15جمادی الاولیٰ 1308ھ/27دسمبر1890ء کو عربی رسالے ’’ عجالۃ الراکب فی امتناع کذب الواجب “کی صورت میں لکھ کردیا،یہ عربی ادب کا مرقع ہے۔ (70) مفتی عبداللہ ٹونکی نے الجہدالمقل کے مصنف سے امکان کذب کے موضوع پر 19رمضان 1306ھ/19مئی 1889ءکو لاہورمیں مناظرہ کیا ،ایسے دلائل دئیے کہ مدمقابل مرعوب ولاجواب ہوگیا ۔ (71)

(6)یکم صفر1305ھ /19،اکتوبر1887ءکو ایک شخص نے طواف قبورکوجائز قراردیا ،اس کاردکرتےہوئے مفتی غلام دستگیرمحدث قصوری صاحب نےایک رسالہ کشف الستورعن طواف القبورلکھا ،مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب نے تحریری طورپر اس کی تائیدفرمائی۔ (72)

وراثت کاقانون اورگورنرپنجاب سےملاقات:

1333ھ/ 1915ء میں حکومت ہندوستان نے وراثت کا قانون بنایاجس میں لوگوں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ اپنی مرضی سے وراثت کی تقسیم کرسکتے ہیں ،شرعی طریقہ کارکے مطابق کریں یا اپنےرسم ورواج کے مطابق،علمااہل سنت کے لیے یہ قانون باعث اضطراب تھا،چنانچہ انجمن نعمانیہ لاہورنے جیدعلماء ومفتیان کرام اورمسلمان وکلاپرمشتمل ایک وفدبنایاجس میں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب بھی شامل تھے ،اس وفدنےگورنرپنجاب سے جاکرملاقات کی اوراس قانون کو واپس لینے پرگفتگوکی ۔ (73)

تحریرات وکتب :

تبلیغ دین کا ایک اہم ذریعہ تحریربھی ہے بلکہ تحریرکئی امتیازات کی بنا پرتقریرسےزیادہ مؤثرہوتی ہے ، آپ اس کی اہمیت سےبخوبی واقف تھےچنانچہ آپ نے کئی مضامین اورکتب تحریرفرمائیں جن کی تفصیل بیان کی جاتی ہے :

(1)عقد الدررفی جید نزہۃ النظر:نخبۃ الفکر اصول حدیث پر ایک اہم تصنیف ہے جو درس نظامی میں شامل ہے ،مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب اس فن میں یدطولیٰ رکھتے تھے ،آپ نے یہ کتاب طلبہ کو کئی مرتبہ پڑھائی ،چنانچہ آپ نے اس پر عربی میں حاشیہ لکھنے کا فیصلہ کیا ، آپ کا لکھا گیا حاشیہ آج بھی طلبہ واساتذہ کے لیے راحت کا سامان ہے،غالباپہلی مرتبہ 1320ھ میں مطبع مجتبائی دہلی نے122صفحات پراسےشائع کیا، (74) بعدمیں کئی مطابع نےاسے شائع کیا ہے،دورحاضرکے تصنیف وتالیف اورتحقیق وتراجم کا عظیم ادارے المدینۃ العلمیہ (Research Centre Islamic) (75) نے اسے بہترین اندازمیں شائع کرنےکا فیصلہ کیاہے۔

(2)عجالۃ الراکب فی امتناع کذب الواجب:

مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب نے45صفحات پرمشتمل یہ رسالہ 15جمادی الاولیٰ 1308ھ/27دسمبر1890ء کو رسالہ جہدالمقل فی تنزیہ المعز والمذل کے جواب میں لکھا ، (76) یہ رسالہ مولاناکرم بخش صاحب نےمطبع اسلامیہ لاہور سےشائع کیاتھا۔

(3)حاشیہ میرایساغوجی (77) اسےچندسال پہلے1436 ھ ذوالحجہ /ستمبر2015ءمیں دارالاسلام لاہور(جامع مسجدومحلہ مولانا روحی ،اندرون بھاٹی گیٹ )نےشائع کیاہےاور یہ1894ءمیں مطبع عزیزی لاہورسے شائع شدہ نسخے کاعکس ہے۔

(4) رسالہ تقلید ،اسےانجمن نعمانیہ کےشعبۂ اشاعتِ کتبِ حنفیہ نے 1331ھ/1913ء کوشائع کیا۔ (78)

(5)تحریراقلیدس مترجم (79)

(6)تعلیقات المفتی علیٰ شرح سلم العلوم:یہ کتاب مطبع اسلامیہ لاہور سےشائع ہوئی۔

(7)الکلام الرشیق ۔ (80)

(8)مجموعہ فتاویٰ بنام شرح محمدی چارجلد (81)

(9) حاشیہ الأنوار الزاهية في ديوان أبي العتاهية۔ (82)

مفتی غلام احمدحافظ آبادی کا تعاون:

قیام لاہورمیں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کو استاذالعلمامفتی غلام احمدحافظ آبادی (83) کا علمی تعاون رہا،مفتی صاحب کے لکھے گئے حواشی پر استاذالعلماتصحیحات فرماتے ،بوقت ملاقات ان کے سقم سے آگاہ فرماتے جنہیں مفتی صاحب تسلیم کیا کرتے تھے۔ (84)

وفات:کالکتہ قیام کےدوران آپ پرفالج کا حملہ ہوا،وہاں سے بھوپال اپنےبیٹےمفتی انوارالحق (85) کےپاس چلے گئے، وہاں صاحب فراش رہے ،علاج معالجہ کا سلسلہ جاری رہا ،بالاخرتقریباًستر(70)سال کی عمرمیں 24صفر 1339ھ/ 7نومبر1920ءکو انتقال فرماگئے۔آپ کی رحلت سے اہل اسلام عربی زبان کے فاضل اجل، اسلامی شریعت کےماہراورکثیرالفوائدشخصیت سےمحروم ہوگئے ۔ (86)

حواشی وحوالاجات

(1) امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ نقشبندی محدّثِ علی پوری رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ حافِظُ القراٰن، عالمِ باعمل، شیخُ المشائخ، مسلمانانِ برِّعظیم کے متحرّک راہنما اور مرجعِ خاص وعام تھے۔ ایک زمانہ آپ سے مستفیض ہوا، پیدائش 1257ھ/1842 ء میں ہوئی اور 26ذیقعدہ 1370ھ میں وصال فرمایا، مزار مبارک علی پورسیّداں (ضلع نارووال، پنچاب) پاکستان میں مرجعِ خَلائق ہے۔ (تذکرہ اکابرِ اہل سنّت،ص 113تا117)

(2) لاہورایک قدیم وتاریخی شہرہےمغلیہ عہدمیں لاہورکے اردگردفصیل اورتیرہ دروازے بنائےگئے ،372ھ کویہ ملتان سلطنت کا حصہ تھا،اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکزہے،اسےپاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباایک کروڑ 11لاکھ ہے۔

(3)مسجد پٹولیاں لوہاری دروازے (وہ دروازہ جوقدیم فصیل میں بجانب جنوب واقع ہے،اہل سنت کی مرکزی درسگاہ جامعہ نظامیہ رضویہ ،اسی کے اندر واقع ہے)کے اندر لوہاری منڈی میں موجود ہے۔ یہ مسجدکئی سوسال سےقائم ہے، 1282ھ /1865 ءمیں میاں عمرو دین لاہوری صاحب نے اس کی تجدیدکی ،1321ھ/1903ءمیں اسے پھربنایاگیا، اب موجودہ دورمیں مسجد جدید طرز پر تعمیر کی گئی ہے۔ پرانی عمارت موجود نہیں۔

(4)خلاصہ ازاساتذہ امیرملت ،56،57

(5)ٹونک ہندوستان کے صوبہ راجستھان کی ایک مسلم نوابی ریاست تھی جسے 1798ء میں ایک مسلمان حکمران نواب محمدعامرخان نے قائم کیا ،اس کے پانچویں اورآخری حاکم نواب محمدسعادت خان نے 1947ء میں اس کا الحاق ہندوستان کےساتھ کردیا تھا،یہ علوم و فنون، شعر و شاعری اور ارباب فکر و نظر کی سرزمین تھی۔

(6)اساتذہ امیرملت صفحہ 53میں پیدائش کاسن 1850 ء اورامام احمدرضااورعلمائے لاہورصفحہ 65میں 1854ء لکھاہے۔

(7)قائدِ جنگِ آزادی حضرت علامہ محمدفضلِ حق خیر آبادی چشتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1212ھ/ 1797ء کوخیرآباد،ضلع سیتا پور (یوپی،ہند) میں ہوئی اور وصال 12صفر 1278ھ کو جزیرہ انڈمان میں ہوا۔ مزار یہیں ساؤتھ پوائنٹ پورٹ بلیرمیں ہے۔ آپ علوم عقیلہ و نقلیہ کے ماہر، منطق و حکمت میں ایک معتبر نام، استاذالعلماء، سلسلہ خیرآبادیہ کے چشم و چراغ، لکھنؤ کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) اردو و عربی کے شاعر، کئی کتب کے مصنف اور مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ (ماہنامہ جامِ نور دہلی، اکتوبر 2011ء)

(8)حضرت مولانا حکیم سیددائم علی عظیم آبادی جامع معقول ومنقول تھے، پٹنہ بہارکے رہنےوالےتھے ،حازق حکیم کے طورپرشہرت پائی ،نواب آف ریاست ٹونک نے انہیں استاذطبیب کےطورپر ٹونک بلالیا اوریہ یہیں رہائش پذیرہوگئے،آپ حاجی امداداللہ مہاجرمکی کے مریدوخلیفہ تھے۔(امام احمدرضا اورعلمائےلاہور،138)

(9)خلاصہ ازاساتذہ امیرملت ،56،57

(10) استاذُالکل حضرت مولانا مفتی محمد لُطفُاللہ علی گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت پلکھنے (لکھنؤ، یوپی) ہند میں 1244ھ/1828ء میں ہوئی اور 9ذوالحجہ 1334ھ کو علی گڑھ میں وصال فرمایا، تدفین مزار حضرت جمالُ العارِفین رحمۃ اللہ علیہ کے قُرب میں ہوئی، آپ جلیلُ القدر عالمِ دین، مؤثر و فَعَّال شخصیت اور جامعِ علومِ عقلیہ و نقلیہ تھے، محدثِ اعظم ہند، علّامہ سیّد احمد محدثِ کچھوچھوی، علّامہ وصی احمد محدثِ سورتی اور علّامہ احمد حسن کانپوری رحمۃ اللہ علیہم سمیت سینکڑوں علما آپ کے شاگرد ہیں۔( استاذالعلماء، ص6،32، تذکرہ محدث سورتی، ص46 تا 50 )

(11)افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری کی ولادت1225ھ/ 1810ء اوروصال 6؍جمادی الاولیٰ 1297ھ / 16؍اپریل 1880ء کوتقریباً بہتر (72)سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔ آپ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردخاک کیے گئے۔آپ حافظ قرآن،عالم اجل،استاذالاساتذہ،محدث کبیر اور کثیرالفیض شخصیت کےمالک تھے ، اشاعت احادیث میں آپ کی کوشش آب زرسےلکھنےکےقابل ہیں ،آپ نے صحاح ستہ اوردیگرکتب احادیث کی تدریس،اشاعت،حواشی اوردرستیٔ متن میں آپ نے جو کوششیں کی وہ مثالی ہیں۔ استاذالمحدثین حضرت علامہ وصی احمدمحدث سورتی ،استاذالعلماء مفتی سیددیدارعلی شاہ محدث لاہوری،قبلہ عالم پیرسیدمہرعلی شاہ گولڑوی وغیرھم آپ کے مشہورشاگردہیں ۔(حدائق حنفیہ،510،صحیح البخاری مع الحواشی النافعۃ، مقدمہ،1/37)

(12)تذکرہ علمائے اہل سنت،159

(13) امام الادب حضرت مولانا فیض الحسن سہارنپوری کی پیدائش 1232ھ /1816ء کومحلہ شاہ ولایت سہارنپورمیں پیداہوئے اور6فروری 1887ءکو لاہورمیں وصال فرمایا، قبرستان درہ آلی سہارنپورمیں دفن کیا گیا، آپ نےصدرالصدوردہلی مفتی صدرالدین آزردہ،علامہ فضل حق خیرآبادی،علامہ شاہ احمدسعیدمجددی وغیرہ اجل علماسے جملہ علوم ادب،فقہ واصول فقہ،حدیث وطب میں کامل مہارت حاصل کی ، حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی کے ہاتھ پربیعت کی ،آپ 1870ء میں گورنمنٹ اورینٹل کالج کے پہلے عربی کےپروفیسرمقررہوئے ،رسالہ شفاء الصدورکےمدیربھی رہے،عربی تصانیف میں فیض القاموس،شرح تاریخ تیموری،ضوءالمشکوۃ اختصارایلاقی،شرح حماسہ وغیرہ اہم ہیں ۔آپ نے علامہ غلام دستگیرقصوری صاحب کی کتاب تقدیس الوکیل عن توہین الرشیدوالخلیل اورعلامہ عبدالسمیع رامپوری کی کتاب انوارساطعہ دربیان مولودوفاتحہ دونوں کی تائیدکرتے ہوئےان پر تقاریظ بھی لکھیں۔(تذکرہ علمائے اہلسنت وجماعت لاہور،166تا189،انوارساطعہ،540 )

(14)اساتذہ امیرملت ،56،57

(15)اساتذہ امیرملت،56

(16)فتاویٰ رضویہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان کےفتاویٰ کا مجموعہ ہے جوقدیم بارہ (12)جلدوں پر مشتمل ہے،مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدعبدالقیوم قادری ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ نے اہل سنت کے مرکزی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہورمیں شعبان 1408ھ/ مارچ 1988ء کو ایک تحقیقی ادارہ بنام رضا فاؤنڈیشن بنایا جس کا مقصدتصانیف اعلیٰ حضرت کو جدیداندازمیں شائع کرنا ہے اس کے تحت فتاویٰ رضویہ کی تخریج اورترتیب جدیدپر کام شروع ہوا اور رجب1426 ھ/اگست 2005ء کومکمل ہوا،اب فتاویٰ رضویہ کی 33جلدیں ہیں ،جس میں 30جلدیں فتاویٰ، دو جلدیں فہرست اورایک جلداشاریہ پر مشتمل ہے۔یہ بلند فقہی شاہکارمجموعی طورپر21656صفحات، 6847سوالوں کےجوابات اور206 رسائل پرمشتمل ہے جبکہ ہزاروں مسائل ضمنازیربحث آئے ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ ،30/5،10)

(17)ڈاکٹرمحمداقبال کی پیدائش1294ھ/1877ء کو سیالکوٹ اوروفات20صفر 1357ھ / 21 اپریل 1938ء لاہور میں ہوئی ،آپ معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔

(18)اساتذہ امیرملت،54

(19)دنائے راز،98

(20)دنائے راز،246

(21)پیرزادہ اقبال احمد فاروقی ’’تذکرہ علمائے اہلسنت و جماعت لاہور ‘‘ ص 251

(22)نثر الجواهر والدرر في علماء القرن الرابع عشر،1/588

(23)سیرت امیرملت،59،مجالس علما،299،300

(24)مولانا عبدالرب دہلوی عظیم عالم دین تھے،علوم عقلیہ ونقلیہ پردسترس،عربی ادب میں ماہراوربہترین ومؤثر واعظ بھی تھے،محرم 1305ھ/اکتوبر1887ء کووفات پائی۔(تذکرہ علمائےہند،260 )

(25)نثر الجواهر والدرر في علماء القرن الرابع عشر،1/588

(26)1870ء میں حکومت نے طے کیاکہ مشرقی علوم کی تعلیم کے لیے اورینٹل اسکول بنایا جائے جو بعدمیں اورینٹل کالج بنا،اس کے بنیادی مقاصدمیں مشرقی علوم کی ترقی وفروغ ،مشرقی زبانوں کی تدریس اوردوسری ملکی زبانوں کی حوصلہ افزائی تھی،علامہ فیض الحسن سہارنپوری صاحب اس کے شعبہ عربی کے پہلے صدرمدرس بنائے گئے ۔(تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہور،166)

(27)اساتذہ امیرملت ،56،57

(28)1780ء کلکتہ (صوبہ مغربی بنگال)میں اسلامی علوم کی اشاعت کے لیے مدرسہ عالیہ قائم کیاگیا،کئی جلیل القدر علماء نے اس میں درسِ نظامی پڑھااورپڑھایاہے،اب اسےیونیورسٹی کادرجہ دےدیا گیاہے،یہ مذہبی اور جدید تعلم کا امتزاج ہے۔

(29)اساتذہ امیرملت،58)

(30)مشہورہے یمین الدولہ ابو القاسم محمود غزنوی( 971 ء – 1030ء)نے جب لاہورکوفتح کیا تو لاہورکی فصیل کی مغربی دیوارمیں جو دروازہ حضرت داتاگنج بخش سیدعلی ہجویری کےمزار کی سمت واقع ہےاس کا نام راجپوت بھٹی قبیلے کے نام پر بھاٹی گیٹ رکھا گیا ،مغل بادشاہ اکبرکے دورِ حکومت میں اسے دوبارہ تعمیرکیا گیا ۔اسی میں بازارحکیماں واقع ہے ،یہ وہی بازارہے جس میں شاعرمشرق دوران تعلیم مقیم رہے،یہ مقام بطوریادگارموجودہے ۔

(31)امام احمدرضا اورعلمائےلاہور،66،67

(32)اس انجمن کے مقاصدیہ تھے،(1)ارکان اسلام کا استحکام۔(2)اہل اسلام کے اخلاق اورمعاشرت کی تہذیب علیٰ قانون شرعیہ۔(3)علوم عربیہ اسلامیہ کوجواس ملک میں کالعدم ہوگئے ہیں (انہیں) سرسبزکرنا۔ (4)عموماًاسلام اورخصوصاََملتِ حنفیہ کی تائیدکرنی۔(5)رسومِ خلافِ شرع کے انسدادکی کوشش (6)اہل اسلام میں باہمی اتفاق کی کوشش۔(7)حکامِ وقت کی خدمت میں مفاداسلام کےمتعلق باادب گذارشات (8)قومی ہمدردی کاروائیوں میں بے ریائی کا نمونہ دکھلانا(9)اغراض صدرحاصل کرنے کےلیےعلوم اسلامیہ کی اعلیٰ تعلیم کا ایک مدرسہ قائم کرنا جس میں بلافیس کے شائقانِ علم دیں کو پوری ۔۔۔تک تعلیم حاصل ہونے سے اورحسب ضرورت خوراک وسامان ضرورت وغیرہ سے بھی امدادکی جاوے۔(10)اس مدرسے کےابتدائی حصے میں مسلمان بچوں کو حنفی فقہ کی تعلیم دینااوراعمال شرعیہ کی پابندی کروانا۔(امام احمدرضا اورعلمائےلاہور156 )

(33)دار العلوم نعمانیہ لاہور کی ایک قدیم اور دینی تعلیم کی معیاری درسگاہ ہے۔یہ امام ابو حنیفہ کی نسبت نعمانیہ کہلاتا ہے،موجودہ عمارت بالمقابل ٹبی تھانہ اندرون ٹیکسالی گیٹ لاہور میں ہے،اس کا آغاز1306ھ /1888ءکو مسجدبوکن خان موچی گیٹ میں ہوا،اس کا عربی حصہ13شوال 1314ھ/ 17مارچ1897 ء کو بادشاہی مسجدمیں منتقل کیا گیا،جب اندرون ٹکسالی گیٹ میں دارالعلوم نعمانیہ کادارالاقامہ تعمیرہوگیا تو اس کے پانچ سال بعد اس کا عربی حصہ بادشاہی مسجدسےیہاں منتقل ہوگیا،اس کے 43ویں جلسے کی روئیدادسے معلوم ہوتاہے شعبان1349ھ/دسمبر1930ءتک اس سےچارہزاردوسوتین(4203 ) علمافارغ التحصیل ہوچکے تھے۔( امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،26،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور306،73)

(34)امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،26،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور 84،83،103 ،17،18،25

(35) امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،155

(36) امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،132،131

(37) مناظرِاہلِ سنّت،حضرت علامہ غلام دستگیر قصوری ہاشمی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت اندرونِ موچی دروازہ لاہور میں ہوئی۔ جیدعالمِ دین، مناظرِاسلام، مصنّفِ کتب اور مجازِطریقت تھے۔ پندرہ(15) سے زیادہ تصانیف میں تقدیسُ الوکیل کو شہرت حاصل ہوئی۔ 20محرم1315ھ/ 21جون1897ء کو وصال فرمایا، مزارمبارک بڑا قبرستان (کچہری روڈ) قصور پاکستان میں ہے۔ (رسائل محدث قصوری، ص65،47)

(38)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،24،101

(39)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور، 50

(40)زبدہ علمائے کاملین حضرت مولاناقاضی خلیفہ حافظ حمیدالدین صدیقی بن استاذالکل خلیفہ غلام اللہ لاہوری کی پیدائش 1842ءیا1830ء اور1315ھ /1897ء کووفات ہوئی،آپ فاضل یگانہ ،جیدعالم دین، لاہورکے قاضی (Judge)اورانجمن حمایت اسلام کے بانی وپہلے صدرتھے،انہیں کی نسبت سے انجمن نے 17،اکتوبر1897ء /20جمادی الاولیٰ 1315ھ کو مدرسہ حمیدیہ لاہورکا آغازکیا ۔انجمن نعمانیہ کے بھی خیرخواہ اورمعاون تھے ،انجمن نعمانیہ کا پہلےجلسے (30محرم1306ھ)میں بھی شریک تھے ، بعدوفات1898ء کے انجمن نعمانیہ کے سالانہ جلسے میں آپ کی یادمیں ایک منقبت پڑھی گئی۔مفتی غلام دستگیرمحدث قصوری کی شہرہ آفاق کتاب تقدیس الوکیل اوردیگرکتب مثلاعروۃ المقلدین ،عمدۃ الابیان میں آپ کی تصدیقات وتقاریظ موجودہیں۔ (امام احمدرضا اورعلمائےلاہور،132،26، صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،32،رسائل محدث قصوری، 172،359،732)

(41)مسجدبوکن خان :اندرون موچی گیٹ اورشاہ عالمی گیٹ کے درمیان پیرڈھل رحمۃاللہ علیہ کا مزارہےاسی نسبت سےیہ محلہ پیرڈھل کہلاتاہے،اس محلےمیں مسجدبوکن خان ہے ،یوں تو یہ مسجدکئی سوسال پرانی ہے مگر1257ھ/1841ء میں ایک شخص بوکن خان نےاس کی نئی تعمیرات کرائیں،مسجدکےتین محربیں بنوائیں،مسجدکاصحن پختہ کروایا،(یہ ابھی بھی موجودہیں)جنوبی حصےمیں طلبہ علم دین کےلیے کمرے تعمیرکروائے،اورایک حصےمیں مختلف درختوں پر مشتمل باغیچہ بنوایا،یہ دونوں حصےاب ختم ہوچکےہیں ۔

(42)تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت لاہور،249

(43)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،51

(44)اساتذہ امیرملت،53

(45) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،51

(46)اس کا قدیم نام عالمگیری مسجدہےیہ مغل بادشاہ محمدمحی الدین اورنگ زیب عالمگیرغازی 1084ھ/1673ء نےبنوائی،اب یہ لاہورکی شناخت بن گئی ہے۔ یہ شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں،مرورزمانہ کے ساتھ یہ مسجدویران ہوگئی،مسلمانان لاہورکی تحریک پر حکومت برطانیہ نے 1856ءکو مسلمانوں کے حوالے کردی ،مولانا قاضی حافظ احمددین بگوی اس کے پہلے امام وخطیب مقررہوئے ،1869ءمیں مفتی غلام محمدبگوی،پھرمولانا محمدذاکربگوی اس کے بعدمولانا شفیق بگوی نے یہ ذمہ داری نبھائی۔مزیدتفصیل دیکھئے: تذکرہ بگویہ 1/93،تذکرہ علماء اہلسنت وجماعت ،122

(47) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،53،57

(48) مولاناغلام اللہ قصوری قرشی حنفی کی پیدائش قصورمیں1266ھ / 1850ء کوہوئی اور1341ھ /1922ء کولاہورمیں وصال فرمایا،تدفین قصورمیں ہوئی،دیناوی تعلیم حاصل کرکے ریاست فریدکوٹ میں مشیرمال مقررہوئے ،پھرزندگی میں انقلاب آیا،ملازمت چھوڑکر علوم دینیہ کی تحصیل میں مصروف ہوگئےاور علمائے لاہورسے اسلامی علوم میں رسوخ حاصل کیا،اورمدرسہ حمیدیہ پھرمدرسہ رحیمیہ نیلاگنبدلاہورکے مدرس بن گئے،پھریکے بعددیگرے مدرس اسلامیہ ہائی اسکول امرتسر(11سال)فیروزپورہائی اسکول(8 سال)اورچیفس کالج لاہورمیں سترہ (17)سال عربی واسلامیات کے پروفیسررہے اورآپ 1922ء میں ریٹائرڈ ہوئے،آپ حضرت مہرصوبانقشبندی کے مریدوخلیفہ تھے(تذکرہ علمائےاہلسنت وجماعت لاہور،248تا256)

(49) سندالسالکین حضرت مولانا محمدذاکربگوی کی ولادت 1293ھ/1876ء کو بھیرہ ضلع سرگودھا میں ہوئی اور13ربیع الاول1334ھ/20جنوری1916ء کو لاہوروفات پائی ،انہیں خانقاہ بگویہ بھیرہ شریف میں دفن کیاگیا ،آپ جیدعالم دین،مدرس مدرسہ حمیدیہ لاہور،خلیفہ مجازآستانہ عالیہ سیال شریف ،زہدوتقویٰ کے پیکر، عبادت کے شوقین اور صاحب کرامت تھے۔(تذکاربگویہ،1/ 213تا292)

(50) سبحان عصرحضرت مولاناپروفیسراصغر علی روحی 1284ھ/1876ءکو گجرات میں پیداہوئے اور 3128رمضان 1373ھ /مئی 1954ء میں وصال فرمایا، آپ کا مزار کٹھالہ ضلع گجرات میں مسجد سے ملحق ، برلب شاہرا ہ عظیم ( جی ۔ ٹی ۔ روڈ) واقع ہے آپ عالم دین،عربی وفارسی کےماہراورشاعرتھے،آپ اورینٹل کالج اوراسلامیہ کالج میں عربی پروفیسررہے، علمی و ادبی پرچہ الہدی کے مدیرمسئول کے طورپر بھی خدمات سرانجام دیں ۔آپ نے تفسیرقرآن(2پارے)دیوان فارسی (6 ہزاراشعار)اوردیوان عربی (5سواشعار)سمیت کئی کتب تصنیف فرمائیں ۔(تذکرہ اکابراہل سنت ،60)

(51) امام احمدرضا اورعلمائےلاہور،132،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،57،53

(52) اساتذہ امیرملت،57

(53) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،137

(54) عالم باعملحضرت مولانا مفتى حافظ غلام محمد بگوى رحمۃ اللہ علیہکی ولادت ایک علمی گھرانے میں 1255ھ/1839 ءکو بگہ (تحصیل پنڈ دادنخان )ضلع جہلم میں ہوئی، علم دین والدِگرا می استاذالکل مولانا غلام محی الدین بگوی سے حاصل کیا، سلسلہ نقشبندیہ میں خواجہ فقیرمحمد چوراہی سے بیعت وخلافت کا شرف پایا، حصول علم و عرفان کے لئے لاہور آگئے،علم وتقویٰ کی وجہ سےیہاں عام و خواص کا رجوع آپ کی جانب تھا، آپ کی کوششوں سے لاہور کی بادشاہی مسجد آباد ہوئی اور آپ اس کے امام وخطیب،متولی اور صدردارالافتاءبنائے گئے، آپ انجمن نعمانیہ لاہورکے بانیان میں سے بھی تھے ،آپ کا وصال 4جمادی الاخریٰ 1318ھ/29ستمبر1900ء کو ہوا۔مزارمیانی قبرستان میں ہے۔(تذکرہ علماء اہلسنت و جماعت لاہور، ص218،امام احمدرضا اورعلمائے لاہور، 155)

(55) اساتذہ امیرملت،57

(56) تذکاربگویہ 1/131

(57) حضرت مولانا پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب ضلع گجرات (پنجاب پاکستان)کےایک موضع شہاب دیوال کےایک علمی فاروقی گھرانے میں 1346ھ/1928 ءکو پیداہوئے اورتقریبا89سال کی عمرمیں16 ؍صفرالمظفر1435ھ 20دسمبر 2013 کو لاہور میں وصال فرمایا،ان کی تدفین میانی صاحب قبرستان میں خواجہ محمد طاہر بندگی کے مزار اقدس کےمتصل ہوئی۔ آپ ایک متحرک عالم دین،دینی ودنیاوی تعلیم سے مرصع،مکتبہ نبویہ کےبانی ،ناشر ِ رضویات، مدیر ماہنامہ جہان رضا لاہوراور روح رواں مجلس رضااوراکابر علمائے اہل سنت لاہورسےتھے۔ آپ خوش اخلاق،مہمان نوازاورہردل عزیزشخصیت کےمالک تھے ، چھوٹےبڑےسب کو اہمیت دیتے اورعلمی کاموں پر حوصلہ افزائی فرمایاکرتےتھے،راقم کئی مرتبہ ان سے ملا،یہ مجھ پرخصوصی شفقت فرماتے اورمجھےاپنا کراچی والادوست کہاکرتےتھے۔

(58) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،66

(59) 1319ھ/1901ء کو امیرملت پیرسیدجماعت علی شاہ محدث علی پوری نےاس کی بنیادرکھی ،اس کے مقاصدیہ تھے (1)اتحادجمیع سلاسل تصوف(2)اشاعت اسلام وتصوف(3)تردیدالز۱مات خلاف اسلام وتصوف(4)تردیدمذاہب باطلہ ،اس کےپہلےصدربھی آپ تھے،اس کی شاخیں ہندبھرمیں تھیں ،اس کے تحت کئی مدارس،مساجد،یتیم خانےقائم ہوئے،1904ء میں اس کے تحت ایک ماہنامہ ’’انوارالصوفیہ‘‘،اوردیگررسائل مثلامبلغ قصور،لمعات الصوفیہ سیالکوٹ،الفقیہ امرتسر،الجماعت امرتسربھی جاری ہوئے ،کئی مدارس مثلا مدرسہ نقشبندیہ علی پورسیداں،اس کی شاخیں میسور،قصور ،گجرات،سانگلہ ہل ،ڈسکہ وغیرہ میں قائم ہوئیں۔ (مزید دیکھئے: سیرت امیرملت350تا449)

(60)اساتذہ امیرملت،57

(61) 1889ء میں مرزاغلام احمدقادیانی(1835ءتا1908ء) نامی شخص نےمسیح موعود، مہدی آخر الزمان اور نبی ہونے کا دعویٰ کیا ،انبیائے کرام بالخصوص حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کیں ،اس نے 1889ء میں باقاعدہ بیعت کا آغازکیا،ارتدادکے اس فتنےکی بنیادرکھی۔(بہارشریعت،1/190)

(62) اساتذہ امیرملت،56،سیرت امیرملت،248

(63) صاحبِ انوارِ ساطعہ مولانا محمد عبدُالسمیع بیدل انصاری رام پوری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت رام پور منہیاراں (ضلع سہارن پور یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ جید عالم، مصنفِ کتب، شاعرِ اسلام اور سلسلۂ چشتیہ صابریہ کے شیخِ طریقت تھے۔ یکم محرم 1318ھ/یکم مئی1900ء کو وصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک قبرستان رؤسائے لال کُرتی میرٹھ (یوپی) ہند میں ہے۔ اپنی کتاب ”انوارِ ساطعہ در بیانِ مولود و فاتحہ“ کی وجہ سے معروف ہیں۔( نورِ ایمان، ابتدائیہ، تذکرۂ علمائے اہلسنت، ص167)

(64) انوارساطعہ،15

(65) تقدیس الوکیل،85

(66) رسائل محدث قصوری،89

(67) تقدیس الوکیل،85

(68) استاذالعلماء، امامِ معقولات و منقولات حضرت مولانا شاہ احمدحسن محدث کانپوری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1296ھ /1879ءمیں پٹیالہ (مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور وصال 3صفر 1322ھ /19،اپریل1904ء کو کانپور (یوپی) ہند میں فرمایا، آپ کا مزار پرانوار یہیں بساطیوں والے قبرستان نزد پنجابی محلہ میں ہے۔ آپ جید عالم، مدرسمدرسہ فیض عالَم کانپور، مصنف و شارحِ کتب، دوستِ اعلیٰ حضرت اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ تصانیف میں رسالہ تَنْزِیْہُ الرَّحْمٰن کو شہرت حاصل ہوئی۔ (تذکرہ محدث سورتی، ص298تا301، کانپور نزدیک سے دور تک، ص25,30)

(69) تنزیہ الرحمن عن شائبہ الکذب والنقصان، 65،66۔اس تقریظ کا ترجمہ ادارۂ تصنیف و تالیف وتراجم و تحقیق المدینۃ العلمیۃ (Research Centre Islamic)کے فاضل نوجوان مولانامحمدعباس عطاری مدنی صاحب نے کیا ہے،راقم اس پر ان کا شکرگزارہے ۔ابوماجدعطاری۔

(70) تقدیس الوکیل،86،87

(71) مولانا محمود احمد قادری تذکرہ علمائے اہلسنت ص 159 مطبوعہ انڈیا۔

(72) رسائل محدث قصوری،415

(73) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،124

(74) تذکرہ علمائے اہلسنت ص 160

(75)المدینۃ العلمیۃ (Research Centre Islamic) اسلامی تعلیمات عام کرنےوالا علمی، تحقیقی اورتصنیفی ادارہ ہے جو عالم اسلام کی عالمگیرتحریک دعوت اسلامی کےعالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ میں قائم ہے اس کی ایک شاخ فیضان مدینہ مدینہ ٹاؤن فیصل آبادمیں بھی قائم ہے ، دونوں شاخوں میں 118افراد کاعملہ تصنیف وتالیف یاترجمہ وتحقیق یامعاونت میں مصروف ہے، جنوری2021ء تک 606کتب ورسائل پر کام مکمل ہوچکا ہے، 30 کتب و رسائل پر کام جاری ہے۔ المدینۃ العلمیۃ کے کتب و ر سائل کی تین سال (2017 تا 2019ء)کی کارکردگی کے مطابق ایککروڑ 80لاکھ(8,304,1281) سے زائد فروخت اور نواسی لاکھ (8,974,694) سے زائدمرتبہ ڈاؤن لوڈ ہوچکی ہیں جس سےیہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اس ادارے کے علمی و تحقیقی لٹریچركو خواص کے ساتھ عوامی پذیرائی بھی حاصل ہے ۔

(76) مولانا محمود احمد قادری تذکرہ علمائے اہلسنت ص 159 مطبوعہ انڈیا۔

(77) مراۃ التصانیف،165

(78) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور 83

(79) مراۃ التصانیف،174

(80) تذکرہ علمائے اہلسنت ص 159

(81) اساتذہ امیرملت ،59

(82) مراۃ التصانیف،139

(83) استاذالعلمامفتی غلام محمدحافظ آبادی کی ولادت 1273ھ/1856ء کو کوٹ اسحاق(یونین کونسل ضلع حافظ آباد،پنجاب،پاکستان)میں پیداہوئےاوریہیں 3ربیع الاول1325ھ/16،اپریل1907ء کو وصال فرمایا۔آپ جامع معقول ومنقول،فقیہ وقت،ماہرادب عربی،صدرالمدرسین ومفتی اعظم دارالعلوم نعمانیہ اورہزاروں علماکے استاذہیں۔(تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت لاہور،221)

(84) تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت لاہور،222

(85) جوریاست بھوپال میں محکمۂ تعلیم کے ناظم اوردیوان غالب کے نسخہ حمیدیہ کےمرتب وناشرتھے۔

(86) اساتذہ امیرملت،59


کسی بھی معاشرے (Society) کو ترقی و کامیابی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اوّلاً اس کے افراد کی درست تربیت ضروری ہے کیونکہ معاشرہ انہی افراد کا مجموعہ ہوتاہے، جہاں افرادی تربیت کا اہتمام نہ ہوتو وہ معاشرہ اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے زوال پذیر رہتاہے۔ کائنات کے سب سے بڑے عقل مند ، دانشور، مصلح، منتظم اور مربی و معلم جنابِ سرورِ کائنات محمد مصطفےٰ ﷺ کے مبارک کردار و عمل سے پتا چلتا ہے کہ اوّلاً افرادی قوت کو درست سمت گامزن کیا جائے، ان کے نظریات، اعمال، کردار، گفتار اور جملہ متعلقات حیات کی درجہ بدرجہ تربیت کی جائے تو ایک مضبوط اور ستھرا معاشرہ قائم ہوتاہے۔

یہاں ایک یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ جب کسی بھی فرد یا معاشرے کی تربیت کسی خاص نظامِ فکر کے مطابق کرنی ہو تو ان کے سامنے ایک ایسے عملی نمونے کو رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ جسے دیکھ کر معاشرہ اپنے شب و روز اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ صرف اصول و ضوابط مجمل و مفصل بیان کردینا کافی نہیں ہوتا۔ اللہ کریم کا نظام کائنات اس پر ایک قوی ترین گواہ ہے کہ رب تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس کی اصلاح کے لئے جہاں احکام و اصول بصورتِ کتب سماویہ دئیے وہیں ہر کتاب کے ساتھ ایک رسول اور پیغمبر کو بھی مبعوث فرمایا جو ربِّ کریم کی ان تعلیمات و احکام کا کامل نمونہ ہوتے تھے۔ انبیاء کرام کا مبارک کردار و عمل قوموں کو ان کی کتب پر عمل کرنا آسان کردیتا تھا۔

اسی طرح خالقِ کائنات نے قراٰن کریم کی تعلیمات و احکامات جو کہ رہتی دنیا تک کے لئے ذریعہ ہدایت و اصلاح ہیں ان کو سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کے لئے عملی نمونہ دیکھنے کے لئے شاہِ موجودات جنابِ محمد مصطفےٰ ﷺ کے کردار و عمل کو ہمارے سامنے عیاں فرمایا۔

احکامات و قوانین پر عمل درآمد کے لئے عملی نمونہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ جب ایک ذات ان اصول و تعلیمات کا عملی پیکر بن کر سامنے آتی ہے تو انسانی ذہن خود بخود ان کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور ان کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں کسی شک و شبہ یا اعتراض و تنقیص کا شکار نہیں رہتا۔

قراٰنِ کریم مکمل ضابطۂ حیات ہے، یہ کتابِ معظم رہتی دنیا تک کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے بلکہ یوں کہئے کہ حیاتِ انسانی کے شب و روز کے لئے ایک قانونی دستاویز ہے اور اصول و ضوابط اور احکام و قوانین کے اس آئینِ الٰہی کا واحد و یکتا کامل و اکمل نمونہ ہمارے پیارے نبی محمد مصطفےٰ ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات ہے۔

قراٰنِ کریم اور رسولِ عظیم دونوں کے لازم و ملزوم ہونے کا بیان بھی بڑادلچسپ ہے وہ یوں کہ قراٰنِ پاک رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت کو ہمارے لئے کامل عملی نمونہ قرار دیتا ہے، چنانچہ سورۃ الاحزاب کی آیت21 میں ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمۂ کنزالایمان:بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ۔

اور جب ہم رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی و اطاعت، آپ کی مبارک سیرت و حیات اور اخلاق و کردار کے بارے میں جاننے کی طرف بڑھتے ہیں تو صدیقۂ کائنات، محبوبہ محبوبِ ربّ العالمین اُمُّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ طیّبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کا مبارک فرمان: كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ یعنی قراٰن ان کے خُلق ہی کا تو بیان ہے۔(مسنداحمد، 9/380، حدیث: 24655) سامنے آتا ہے۔

خلاصہ یہ نکلا کہ اگر رسولِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک اَخلاق و سیرت کو جاننے اور سمجھنے کے لئے قراٰنِ کریم کا پڑھنا ضروری ہے اورتو قراٰنِ کریم پر عمل کو آسان بنانے کے لئے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت و حیات کا مطالعہ ضروری ہے۔

آج کے پُرفتن دور میں جہاں ہر طرف اخلاقی زبوں حالی عام ہے، رشتوں کی قدریں کھوتی جارہی ہیں، باہمی پیارمحبت اور امن و آشتی کا ماحول نفسی نفسی میں بدلتا جارہاہے، تربیت و رہنمائی کرنے والے خال خال ملتے ہیں، مستقبل کے معمار تیار کرنے والے خود زمانۂ حال کے معمار کہلانے کے قابل نہیں، معاشرے سے اچھے خصائل ختم ہوتے جارہے ہیں، غور کیا جائے تو اس گمراہی اور پستی کا شکار ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ ہم مسلمانوں کی اپنے دین اور سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت سے لاعلمی یا پھر علم ہوتے ہوئے بھی غیروں کے طریقوں کو اپنانے کی رَوِش ہے۔

ہم تین سال کے بچے کو مہنگے سے مہنگے اسکول و ٹیوشن کے ذریعے آٹھ آٹھ گھنٹے تک M for Mango سکھانے کا اہتمام تو کرتے ہیں لیکن میم سے محمد(ﷺ) سکھانے کے لئے یا تو بالکل ہی انتظام نہیں اور اگر ہے تو وہی صرف بیس سے تیس منٹ۔ ہم بیس بیس سال تک دنیوی نصابی کتابیں تو پڑھ لیتے ہیں، غیر نصابی مطالعہ بهی اتنا کہ سینکڑوں رسالے، ناول، ڈائجسٹ، ماہانہ میگزین، اخباریں اور ناجانے کیا کیا چاٹ گئے لیکن کبھی اپنے پیارے و محسن نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی کو مکمل نہیں پڑھا۔

كتنے ہی ایسے نوجوان ملتے ہیں جو سکون کی تلاش، مستقبل کی تعمیر، بہترین اخلاقی اقدار، خوش رہنے کے طریقے، غم بھلانے کے ذرائع اور اس جیسے کئی اہم موضوعات و مسائل پر غیرمسلم مصنفین کی کتب اور ان کے لٹریچر کے حوالے دیتے، پڑھتے اور دوسروں کو ترغیب دلاتے ہیں، ان بےچاروں کو اتنا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان مسائل کے جو حل اور جو طریقے اللہ کے کامل و اکمل شاہکار ، مدینے کے تاجدار محمد عربی ﷺ نے دئیے ہیں یہ دنیا کے ماہرین نفسیات تو ابھی ان کے عشر عشیر تک نہیں پہنچے۔

آخر وہ کون سا ایشو ہے، وہ کون سی پریشانی ہے، وہ کون سا اہم سے اہم تر معاملہ ہے جس کے بارے میں رسولِ عربی، آخری نبی ﷺ نے اپنے کردار، گفتار اور تعلیمات سے رہنمائی نہ فرمائی ہو، اور بھلا ہو بھی کیسے سکتاہے کہ قراٰنِ کریم ایک مکمل ضابطۂ حیات اور آپ ﷺ اس کتابِ عظیم کے کامل عامل اور قراٰن کے آپ کے خلق کا بیان کار ہے۔

یادرکھئے! سیرتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور معاشرتی و اخلاقی تربیت میں آپ ﷺ کے مبارک کردار و انداز کا مطالعہ جہاں ہمیں اخلاقی پستیوں سے نکالے گا وہیں اس کے دیگر بھی بہت سے انفرادی و اجتماعی اور اقتصادی و معاشرتی فوائد ہیں۔

معاشرے کی ہدایت و راہنمائی، اصلاحِ احوال اور تربیت کے لئے ایک استاذ، مبلغ، مصلح اور راہنما کو کیسا ہونا چاہئے؟ رسولِ کریم ﷺ کی مبارک سیرت و فرامین میں اس کا ایک پورا نصاب قولی اور عملی دونوں صورتوں میں موجود ہے۔

مطالعۂ سیرت سے پتا چلتا ہے کہ وہ کیا اندازِ حیات اور کیا تعلیمات تھیں جن کی بدولت خانہ جنگی میں الجھے ہوئے قبائل عرب دنیا کی مضبوط ترین طاقت بن کر ابھرے۔

وہ کیسا کردار تھا کہ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردینے والے معاشرے کے لوگ سارے جہان کی بیٹیوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کا درس دینے والے بن گئے۔

جی ہاں! یہ رسولِ عربی ﷺ ہی کی سیرت و تعلیمات تھیں جن سے بدولت مختصر ترین عرصے میں عرب کے ناخواندہ لوگ عظیم اسکالر اور آسمانِ ہدایت کے تارے بن گئے اور راستوں اور بازاروں میں سامان رکھ کر بیچنے والے چھوٹے تاجر ساری دنیا کے اقتصادی نظام میں انقلاب لے آئے۔

یہ کردارِ حبیبِ کِردِگار ہی ہے کہ جس سے ایک باپ کو پتا چلتا ہے کہ بیٹیوں کی تربیت کیسے کرنی ہے؟ شادی شدہ بیٹی کے گھر جانے کا انداز کیا رکھنا ہے؟ بیٹی کے شوہر کے ساتھ کیا انداز رکھنا ہے؟ اولاد کو دشمن ستائیں تو صبر کیسے کرنا ہے؟

یہ بی بی آمنہ کے لعل ہی کی زندگانی ہے جس سے بیٹے کو درس ملتاہے کہ سگی ماں تو سگی ماں ہے ، صرف دودھ پلانے والی ماں کی تعظیم کیسے کرنی ہے؟ ماں باپ کے وِصال کے بعد بھی ان کے حقوق کا کیا کیا خیال رکھنا ہے۔

یہ بی بی عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ کے محبوب ہی کی ذا ت ہے جس سے شوہرو ں کو پتا چلتاہے کہ بیویوں میں باہم حقوق کی ادائیگی کا کامل خیال کیسے رکھا جاتاہے۔

دیواروں اور کمروں پر مشتمل جگہ کو گھر کا نام دینے والی عورت کے حقوق کیا ہیں اور کیسے ادا کرنے ہیں یہ کردارِ رسولِ عربی سے ہی پتا چلتاہے، یہ انہیں کی مبارک تعلیم ہے کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاَهْلِهِ، وَاَنَا خَيْرُكُمْ لِاَهْلِي یعنی تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لئے بہترین ہو اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لئے تم سب سے بہترین ہوں۔( ترمذی،5/475،حدیث:3921)

ایک خاندان، ادارے، قبیلے یا علاقے کی قیادت کرنے والوں کو کامل نمونہ برائے عمل انہیں کی مبارک ذات میں ملتا ہے۔

الغرض استاد ہو یا شاگر، مالک ہو یا نوکر، باپ ہو یا بیٹا، تاجر ہو یا گاہک حاکم ہو یا رعایا رسول اللہ ﷺ کی مبارک سیرت اور فرامین کے آئینہ میں ہر کسی کے لئے ترقی و کامیابی اور فلاح موجود ہے۔ کس کو، کس طرح اور کیا کچھ سیرت و فرامینِ مصطفےٰ سے ملتا ہے۔ اس کا اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سلسلہ وار کالمز میں بیان کیا جائے گا۔اللہ کریم ہمیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی پیر وی کا جذبہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


(1) حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: عالم کی موت دینِ اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے کہ جب تک رات اور دن بدلتے رہیں گے کوئی چیز اس شِگاف کو نہیں بھر سکتی۔( جامع بیان العلم وفضلہ،ص213،رقم:654)حضرت سیّدنا سفیان بن عُیَیْنَہ رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں: لاعلموں کے لئے بھلا اہلِ علم کی وفات سے زیادہ سخت مصیبت اور کیا ہوسکتی ہے۔( شرح السنۃ للبغوی،1/249)

(2) حضرت کعب فرماتے ہیں:تم پر لازم ہے کہ علم کے چلے جانے سے پہلے اسے حاصل کرلو، بےشک اہلِ علم کا وفات پانا علم کا جانا ہے ، عالم کی موت گویا ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، عالم کی موت ایک ایسی دراڑ ہے جو بھری نہیں جاسکتی، ایک ایسا شگاف ہے جو پُر نہیں ہوسکتا، علما پر میرے ماں باپ قربان، ان کے بغیر لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 31)

(3) حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا:کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کیسے کمزور ہوگا؟ لوگوں نے عرض کی: کیسے؟ فرمایا:جیسے جانور اپنے موٹاپے سے کمزوری کی طرف جاتاہے، اور جیسے کپڑا طویل عرصہ پہننے سے کمزور ہوجاتاہے اور جیسے درہم طویل عرصہ چلتے رہنے سے گھِس جاتاہے، ہوگا یوں کہ ایک قبیلہ میں دو عالم ہوں گے، پس جب ان میں سے ایک فوت ہوجائے گا تو آدھا علم جاتا رہے گا اور جب دوسرے کا انتقال ہوجائے گا تو سارا علم جاتا رہے گا۔ (اخلاق العلماء للآجری،صفحہ33)

(4) حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:لوگ اس وقت تک خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک کہ پہلے سے دوسرا علم حاصل کرتا رہے گا، پس جب کبھی پہلا فوت ہوگیا اور دوسرے نے اس سے علم نہ سیکھا تو یہ لوگوں کی ہلاکت ہوگی (یعنی جب علم اگلی نسل تک نہ جائے گا تو گویا وہ لوگ ہلاک ہوجائیں گے)۔ (سنن دارمی، المقدمہ، باب ذھاب العلم، جلد1، صفحہ314، حدیث:255)

(5) حضرت سیّدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ شیاطین نے ابلیس سے کہا: اے ہمارے آقا! کیا معاملہ ہے ؟ ہم نے دیکھا ہے کہ آپ ایک عالم کی موت پر جتنا خوش ہوتے ہیں عابد کی موت پر نہیں ہوتے؟ ابلیس نے کہا: چلو میرے ساتھ آؤ، وہ سب چل پڑے اور ایک عبادت گزار کے پاس آئے جو نماز پڑھ رہا تھا، (وہ نماز سے فارغ ہوا تو ) ابلیس نے اسے کہا: ہم آپ سےایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ کیا آپ کا رب اس بات پر قادر ہے کہ وہ ساری دنیا کو ایک انڈے میں ڈال دے؟ اس عابد نے کہا: نہیں، ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا: کیا تم نے دیکھا کہ وہ اسی وقت کافر ہوچکا ہے، پھر وہ ایک عالم کے پاس آئے جو اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا باتوں اور خوش طبعی میں مصروف تھا، ابلیس نے کہا: ہم آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں؟ عالمِ دین نے کہا: پوچھیں، ابلیس نے کہا: کیا آپ کا رب اس بات پر قادر ہے کہ وہ ساری دنیا کو ایک انڈے میں ڈال دے؟ انہوں نے کہا: بالکل کرسکتاہے؟ ابلیس نے کہا: کیسے؟ عالمِ دین نے کہا: جب وہ اس کا ارداہ فرمائے گا تو صرف کن فرمائے گا اور ہوجائے گا۔ ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا: دیکھا تم لوگوں نے، یہ اپنے نفس کے پیچھے نہیں چلتا اور یہی چیز مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہے۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ127، رقم:127)

(6) علم حاصل كرو اس سے پہلے کہ یہ قبض کرلیا جائے، علم کاقبض ہونا اہلِ علم کے وصال سے ہوتاہے، عالم اور متعلم یعنی دینی استاد اور شاگرد دونوں خیر میں حصہ دار ہوتے ہیں، ان کے علاوہ تمام کے تمام لوگوں میں کوئی خیر نہیں، بے شک لوگوں میں سے سب سے بڑا غنی وہ عالم ہے جس کے علم کے لوگ محتاج ہوں، پس جو کوئی اس کی طرف حاجت لاتاہے نفع پاتاہے، اگر لوگ اس کے علم سے بے پرواہ ہو جائیں تو بھی عالم کو اپنے علم کا وہ نفع ضرور ملتا ہے جو اللہ کریم نے اس میں رکھا ہے، کیا بات ہے ؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے علما رخصت ہوتے جارہے ہیں اور بے علم لوگ علم حاصل نہیں کرتے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ علم رکھنے والا پہلا رخصت ہوجائے اور دوسرے نے اس سے علم نہ سیکھا ہو، اگر علم والا مزید علم کی طلب کرے تو اس سے علم میں اضافہ ہی ہوگا کچھ نقصان نہ ہوگا، اوراگر جاہل علم کی طلب کرے تو علم کو موجود پائے گا، آخر کیا بات ہے کہ میں تمہیں کھانے سے سیر تو دیکھ رہا ہوں لیکن علم سے خالی دیکھ رہاہوں۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ602، رقم:1036)

(7) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسولِ کریم ﷺ کو فرماتے سنا:طالب علم کو جب راہِ طلبِ علم میں موت آجائے تو وہ شہادت کی موت ہے۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ121، رقم:115)

(8) حضرت سیّدنا عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے: جیسے جیسے علما کا وصال ہوتا جائے گا حق کا اثر کم ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ جہالت کی کثرت ہوجائے گی اور علماء رخصت ہوجائیں گے، پس لوگ اپنی جہالت پر ہی عمل کریں گے اور جاہلوں سے ہی دین سیکھیں گے اور راہِ راست سے گمراہ ہوجائیں گے۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ 603، رقم:1038)

علمی شخصیات کے وصال پر اہلِ دانش کا اظہارِ افسوس

حضرت سیّدنا عبدُاللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے امیر ُالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے وصال پر فرمایا:میں سمجھتا ہوں کہ آج علم کے دس میں سے نو حصّے چلے گئے۔( معجم کبیر،9/163، رقم:8809)

جب حضرت سیّدنا زید بن ثابت کا وصال ہوا تو حضرت سیدنا عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس طرح علم رخصت ہوتاہے، تحقیق آج علمِ کثیر دفن کردیا گیا۔(مستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ، جلد3، صفحہ484، حدیث:5810)

حضرت ابوایّوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب مجھے اہل سنت میں سے کسی فرد کے فوت ہونے کی خبر ملتی ہے تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے اعضاء میں سے کوئی عضو جدا ہوگیا ہو۔(حلیۃ الاولیاء، ایوب سختیابی، جلد3، صفحہ9)

ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

تعلیم و تعلم کی فضیلت و اہمیت کو ہم جانتے ہیں، علمائے کرام تعلیم و تعلیم کی وجہ سے باعثِ شرف و فضل ہیں، وہ کسی کو دنیا کا مال نہیں دیتے بلکہ علم سکھاتے ہیں اسی لئے دینِ اسلام میں ان کو فوقیت حاصل ہے، ان کی زندگیاں اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کو راہِ حق کی جانب بلانے کے لئے ہوتی ہیں،علماء گمراہوں کو ہدایت کی جانب بلاتے ہیں، لوگوں کی جانب سے اذیتوں پر صبر کرتے ہیں، مردہ دلوں کو کتابِ الٰہی کے ذریعے زندہ کرتے ہیں، بصیرت سے اندھوں کو اللہ کے نور سے بینا کرتے ہیں، شیطان کے ہاتھوں قتل ہونے والے کتنے ہی ایسے ہیں کہ جن کو علما نے زندہ کردیااور کتنے ہی ہیں کہ جو گمراہی کے گڑھے میں تھے علما نے ان کو راہِ راست دکھائی۔یاد رہے کہ جو اپنے نفس کے لئے جیتا ہے جلد مرجاتاہے اور جو نفس کی بجائے کسی اچھے مقصد کے لئے جیتا ہے تو برسوں زندہ رہتاہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! علماکا وصال فرما جانا ہمارے لئے لمحۂ فِکریہ ہے، اس لئے اَشد ضرورت ہے کہ ہم علمائے کرام کی قدرو توقیر اورعلمِ دین کے حصول کی جانب متوجہ ہوں، اپنے بچوں کو حافظِ قراٰن اور عالمِ دین بنائیں۔ ([1])

علماہی کے دَم سے علم کا وجود ہے جب اللہ پاک اس دنیا سے علما کو اُٹھالے گا تو ان کی جگہ جاہل بیٹھ جائیں گے اور دین کے حوالے سے ایسی باتیں کریں گے کہ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ انٹرنیٹ پر اپنی مرضی کی دینی تشریحات اور عقائدِ اہلِ سنّت کے مخالفین کی موجودگی ہمارے دور میں عام ہے۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے علاقے اور شہر کے عاشقانِ رسول علمائے کرام کا دامن تھام لے اور ہر طرح کے معاملے میں صرف مفتیانِ اہلِ سنّت سے شرعی راہنمائی لے۔

نیز نوجوان علما کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی حفاظت، نئی نسل کی اخلاقی وعلمی تربیت کے لئے تقریر و بیان، تدریس اور تحریر جیسے اہم ترین مَحاذوں پر اپنے اَکابِر کی کمی کو پوراکرنے کی کوشش کریں۔

کسی عالمِ دین کے وصال پر یہ ذہن نہ بنالیں کہ اب امت ختم ہوگئی ، نہیں نہیں بلکہ جو اہلِ علم ، علمائے کرام و مفتیانِ عظام حیات ہیں ان کو غنیمت جانیں، ان کے وجود پر اللہ کا شکر ادا کریں اور ان کے دامن سے مخلص ہو کر وابستہ ہوجائیں۔

ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم علمِ دین سیکھنے سکھانے کے لئے کمر کس لیں، عوام و خواص سبھی کو علمِ دین کی جانب متوجہ ہونے کی اشد ضرورت ہے، دینی طلبہ کو تو بہت ضرورت ہے کہ دین سمجھنے اور علم کی گہرائی تک جانے کے لئے خوب محنت کریں۔ طلبا کو یاد رکھنا چاہئے کہ بڑے بڑے علمائے کرام و مفتیان عظام نے یونہی مقام نہیں پایا انہوں نے اپنی زندگیاں علم دین کی طلب میں گزاردیں، علم کے لئے مال خرچ کیا جمع نہیں کیا، سفر کئے ایک ہی جگہ آرام میں نہیں رہے، صبر کیا ، رضائے الٰہی پر راضی رہے، عاجزی و انکساری کو اپنایا۔



([1])اپنے بچوں کو حافظِ قراٰن بنانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مدارسُ المدینہ اور عالمِ دین بنانے کے لئے جامعاتُ المدینہ میں داخلہ دلوائیے۔


تحقیق کسے کہتے ہیں؟

Sat, 23 Jan , 2021
3 years ago

تحقیق کی لغوی واصطلاحی تعریف :

تحقیق ’’حق‘‘ سے مشتق ہے اور حق کہتے ہیں درست ومحکم شے کو،اس کے تمام مشتقات میں حقیقت سے ہم آہنگی اور استحکام کا مفہوم پایاجاتاہے۔تحقیق کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے حضرت علامہ شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’التحقیق :اثبات المسألۃ بدلیلھایعنی مسئلے کو اس کی دلیل کے ساتھ ثابت کرنا۔‘‘(التعریفات،حرف التاء،ص40) علمی تحقیق کی تعریف یوں بھی کی گئی ہے:” کسی معین میدان میں ایسی منظم سعی وکوشش جس کا مقصد حقائق اور اصولوں کی دریافت ہو ۔“ بعض نے یہ کہا : دقیق اور منضبط مطالعہ جس کا ہدف کسی مسئلے کی وضاحت یا حل ہو اور اس مطالعہ کے طریقے اور اصول مسئلے کے مزاج اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ ایک تعریف یہ ہے: منظم جستجو اور کھوج جس میں علمی حقائق کے لیے متعین شدہ مختلف اسالیب اور علمی مناہج اختیار کئے جائیں اور جس سے مقصود ان علمی حقائق کی صحت کی تحقیق یا ان میں ترمیم یا اضافہ ہو۔(تحقیق وتدوین کا طریقہ کار،ص22) باالفاظ دیگر استدلال ،شواہد اور مآخذ کی بینادپر کسی نظریہ کو ثابت کرنے یاکسی شے کو محکم بنانے یاکسی بات کی درستی کو ثابت کرنے یا کسی امر کی حقیقت کو آشکار کرنے کے لئے باقاعدہ اور مربوط فکری وعلمی جدوجہدکو تحقیق کہتے ہیں۔

تحقیق کے تقاضے اور احتیاطیں :

جس طرح ہرکام کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں یوں ہی تحقیق کے بھی کچھ تقاضے اور احتیاطیں ہیں ،مثلاً

(۱) تحقیق کا خواہش مند متعلقہ موضوع کی مبادیات سے واقف ہو ۔

(۲)موضوع سے متعلق کتب ومراجع سے مراجعت کی صلاحیت رکھتا ہو۔

(۳)تحقیق کرنے والا خوب چھان بین سے کام لے،جان نہ چھڑائے۔

(۴)گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کرے،سرسری وسطحی مطالعے پر اکتفا ءنہ کرے۔

(۵)درایت وروایت میں مہارت وممارست رکھتاہو۔

(۶)دورانِ تحقیق اصل موضوع سے نہ ہٹے ۔

(۷)اندازِ بیان سادہ اور واضح ہو،تعبیرات گنجلک پن اور جھول سے پاک ہوں۔

میدان تحقیق کی مختلف جہتیں:

بدلتے زمانے، تغیرات عالم اور علمی ترقی کے سبب جس طرح ہر علم وفن میں تنوع اور توسیع ہوتی جارہی ہے ٹھیک اسی طرح ”تحقیق“ کا میدان بھی بڑا وسیع ہوتا جارہا ہے،تحقیقات کی جہتوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔دور حاضر میں درج ذیل علمی کام بھی تحقیق کے دائرے میں آتے ہیں:

(01)متعدد نسخوں سے تقابل کرکے کسی کتاب کا صحیح ترین نسخہ تیار کرنا۔جیسے المدینۃ العلمیہ کی پیش کردہ” بہارشریعت“

(02)مخطوطے کی تصحیح کرکے اسے کتابی شکل میں پیش کردینا۔مثلا جدالممتار علی رد المحتار ،التعلیقات الرضویۃ علی الحدیقۃ الندیۃ از المدینۃ العلمیہ

(03)کسی مشکل متن کی تسہیل وتوضیح کی غرض سے اُس پر حاشیہ نگاری کرنا ،اس پربین السطور کا اہتمام کرنا یا قوسین میں معانی کی وضاحت کردینا۔جیسے مفتی نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ ” فضل العلم والعلماء“ ،امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ ”اسماع الاربعین“ اوراستاد عبدالواحد مدظلہ العالی کا حاشیہ” الفرح الکامل علی شرح ماۃ عامل“

(04)کسی مفصل وطویل کتاب کی تلخیص کرنا۔جیسے مختصرمنہاج العابدین ،لباب الاحیاء(المدینۃ العلمیہ سے ان خلاصوں کے تراجم شائع ہوچکے ہیں)

(05) کتب ورسائل کی تخریج کرکے اس میں درج حوالہ جات کوکتاب،باب،فصل، جلداور صفحہ نمبر کی قیودات کے ساتھ بیان کردینا۔اسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ )کی کتب میں یہ طریقہ کار رائج ہے۔

(06)کتاب کے اصلاح طلب یا توضیح کے متقاضی مقامات پر تحقیقی حواشی کا اہتمام کرنا،اس کی کثیر صورتیں بنتی ہیں جن میں سے یہاں 11صورتیں اور اُن کی مثالیں ذکرکی جاتی ہیں :

علمی تحقیق کی 11 صورتیں:

(۱)بسا اوقات کسی عبارت کے ظاہر سے اہلسنّت کے کسی مسلمہ عقیدہ یا معمول پر زدپڑرہی ہوتی ہے ۔محقق کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مقام کی احسن طریقے پر تحقیق وتفہیم کرے۔مثلاً

اصلاح اعمال(ترجمہ الحدیقۃ الندیہ)،ج1،ص678پر مذکورہے:’’اورحدیث شریف میں وارِد ’’سختی نہ کرو‘‘کامعنی یہ ہے کہ لوگوں کوحاجات طلب کرنے اوران کے پوراکرنے کے لئے مخلوق کے پاس نہ بھیجو۔‘‘…اس پر یہ تحقیقی حاشیہ دیاگیاہے کہ’’مطلب یہ ہے کہ حقیقی طورپرحاجات کواللہ عزوجل ہی پورافرماتاہے اورایک بندۂ مومن کاعقیدہ بھی یہی ہوناچاہئے کہ حقیقۃً کارسازاللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے اوریہ مراد نہیں کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور اولیائے عظام رحمہم اللہ السلام کی بارگاہوں سے حاجات طلب کرنے اورانہیں وسیلہ بنانے کی ممانعت ہے ۔ورنہ احادیث ِ مبارَکہ میں تعارُض لازم آئے گا۔کیونکہ ۔۔۔۔۔الخ۔

(۲)بعض اوقات کسی کتاب پر اعتماد کرتے ہوئے اس میں وارداصل ماخذذکر کردیا جاتاہے جبکہ اس میں وہ روایت موجود نہیں ہوتی۔لہٰذا ایسے مقام پر وضاحت ناگزیر ہوتی ہے۔مثلاً

بہار شریعت ،ج3،ص65 پرحدیث یوں مذکورہے ::ترمذی نے ام المؤمنین عائشہ رضی االلہ تعالی عنہا سے روایت کی ،رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہدیہ کرو کہ اس سے حسد دور ہوجاتا ہے ۔‘‘…اس پراسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ) نے یہ حاشیہ دیا :’’یہ روایت ترمذی میں نہیں ملی ہاں مشکوۃ المصابیح میں موجود ہے جہاں ترمذی کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے ۔(مشکوۃالمصابیح ،ج۲،ص۱۸۷۔حدیث:۳۰۲۷،مطبوعہ: دارالفکر بیروت)

(۳)کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قول کسی اور کا ہوتاہے اور بیان کسی اور کے حوالے سے ہوجاتاہے ۔اب تحقیق اس بات کی متقاضی ہے کہ اصل قائل کا نام دلیل کے ساتھ ظاہر کیا جائے۔مثلاً

(i)اصلاح اعمال ،ج1،ص517 پر ہے:’’ تَنْوِیْرُالْاَبْصَار‘‘میں ہے : ’’اگرکسی نے بلا طہار ت دو رکعتوں کی منت مانی توحضرت سیِّدُناامام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ (متوفی۱۵۰ھ)کے نزدیک ان دورکعتوں کوطہارت کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔‘‘اس پر المدینۃ العلمیہ کی طرف سے لکھا گیاہے کہ’’یہاں کتابت کی غلطی ہے کیونکہ یہ حکم حضرت سیِّدُنا امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (متوفی۱۸۲ھ) کے نزدیک ہے ۔جیساکہ تنویرالابصار کی شرح درمحتار، کتاب الصلاۃ ، باب الوتر والنوافل ، جلد2کے صفحہ595پر اس کی صراحت موجود ہے اور ایسا ہی فتح القدیر ،کتاب الایمان ،فصل فی الکفارۃ، جلد5کے صفحہ87پر ہے۔

(ii)احیاء العلوم ،ج۳،ص۱۵۲(مطبوعہ: دارصادربیروت) میں مروی ہے کہ سیدنا کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جمعہ کی آخری ساعت قبولیت کی گھڑی ہے۔‘‘اس پر علامہ مرتضیٰ زبید ی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :یہ تو حضرت سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے جیساکہ سنن ابی داود اور نسائی میں مروی ہے۔ (اتحاف،ج۳،ص۴۶۱مطبوعہ :دارالکتب العلمیہ بیروت)اور سنن نسائی میں ہے کہ سیدنا کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ شروع میں اس بات کے قائل تھے کہ’’ یہ قبولیت کی ساعت سال میں ایک مرتبہ ہوتی ہے۔‘‘ پھر آپ نے اس سے رجوع کرلیا تھالیکن آخری ساعت کی’’ تعیین ‘‘ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے ۔(سنن النسائی ،ص۶۴۲،حدیث:۱۴۲۷،مطبوعہ: دارالکتب العلمیہ بیروت)

(۴)کبھی کسی روایت کو زیادتی کے ساتھ ذکر کردیا جاتا ہے حالانکہ وہ زیادتی کے ساتھ مروی نہیں ہوتی۔یہاں اس زیادتی کی نشاندہی ضروری ہے۔مثلاً

ردالمحتار،ج5،ص198(مطبوعہ دارلثقافۃ والتراث دمشق) پر علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’قد روی فی حدیث ابی ہریرۃ :ان المؤمن لا ینجس حیا ولا میتا ۔‘‘…اس پرردالمحتارکے محقق لکھتے ہیں کہ :یہ روایت’’حیاً ولا میتاً‘‘ کی زیادتی کے ساتھ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہمیں نہیں ملی۔

(۵)کبھی کتابت کی غلطی سے ’’ واحد کا صیغہ‘‘ جمع اور’’ جمع کا صیغہ ‘‘واحد ہوجاتاہے۔ایسے مقام کی نشاندہی لازمی ہے۔مثلاً

کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب ،صفحہ نمبر42پر نزہۃ القاری ،ج1،ص 239کے حوالے سے اقتباس نقل کیا گیاہے (جس میں یہ بھی ہے): ’’یونہی وہ باتیں جن کا ثبوت قطعی ہے مگر ان کادین سے ہونا عوام وخواص سب کو معلوم نہیں تو وہ بھی ضروریاتِ دین سے نہیں ،جیسے صلبی بیٹی کے ساتھ اگر پوتی ہو تو پوتی کو چھٹا حصہ ملیگا۔‘‘…اس پربانی دعوتِ اسلامی ، قبلہ شیخ طریقت، امیراہلسنّت زید مجدہ الکریم نے تحریر فرمایا:’’نزہۃ القاری ‘‘کے نسخوں میں اس جگہ ’’بیٹی‘‘کے بجائے ’’بیٹیوں‘‘لکھا ہے جو کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ ’’المسایرہ‘‘ صفحہ ۳۶۰پر تحریر فرماتے ہیں :جن کا ثبوت قطعی ہے مگر وہ ضروریات دین کی حد کون نہ پہنچا ہو جیسے (میراث میں) صلبی بیٹی کے ساتھ اگر پوتی ہوتو پوتی کو چھٹا حصہ ملنے کا حکم اجماع امت سے ثابت ہے۔۔۔۔۔الخ

(۶)بعض دفعہ ملتا جلتا ہونے کے باعث مولف ،قائل یا راوی وغیرہ کا نام بدل جاتاہے۔محقق کو چاہیے کہ اصل نام کو بیان کردے۔مثلاً

ردالمحتار،ج5،ص365پر علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکرفرمایا:ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہر سال شہدائے اُحد کی قبور پر تشریف لے جایا کرتے تھے ۔‘‘اس پر محقق فرماتے ہیں :یہ روایت ’’ابن شبہ‘‘ نے تاریخ المدینۃ المنورۃمیں نقل کی ہے۔’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں یہ روایت موجود نہیں یعنی یہاں’’ابن شبہ‘‘ کو ’’ابن ابی شیبہ‘‘ گمان کرلیا گیا۔

(۷)کبھی کسی فقہی مسئلے کی وضاحت ناگزیر ہوتی ہے ۔لہٰذا تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے ۔مثلاً

بہار شریعت ،ج3،ص341پر ہے:جس کے دانت نہ ہوں(اس کی قربانی ناجائز ہے)اس پراسلامک ریسرچ سینٹر ( المدینۃ العلمیہ) کی طرف سے یہ تحقیق دی گئی ہے:’’یعنی ایساجانورجوگھاس کھانے کی صلاحیت نہ رکھتاہو،ہاں!اگرگھاس کھانے کی صلاحیت رکھتاہوتواس کی قربانی جائزہے جیساکہ بحرالرائق،ج۸، ص ۳۲۳، الھدایۃ،ج۲،ص۳۵۹، تبیین الحقائق،ج۶،ص۴۸۱، الفتاوی الخانیۃ،ج۲،ص۳۳۴، الفتاوی الھندیۃ،ج۵،ص۲۹۸ پرمذکورہے۔‘‘

(۸)کبھی ایسا ہوتا ہے کہ توجہ نہ ہونے یا نسخہ کی تبدیلی یاکتابت میں غلطی یا الفاظ کے ہم شکل ہونے کے سبب لفظ ہی بدل جاتاہے ۔ایسے مقام پراصل سے مراجعت کرکے درست لفظ کی تحقیق وتعیین ناگزیر ہوتی ہے ۔مثلاً

اصلاح اعمال ،ج1،ص557 پر ’’ المواھب اللدنیۃ“سے منقول ہے :’’ کیونکہ علمِ لدنی روحانی کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ …الخ۔‘‘…اس پر امام اہلسنّت ، امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ (متوفی۱۳۴۰ھ)نے حاشیہ میں فرمایا:’’(لفظ المواہب ج۶،ص۳۶۰)رحمانی بالنسبۃ الی الرحمٰن عزوجل وہو الاوفق الاصح۔۱۲یعنی المواہب اللدنیۃ، ج۶،ص ۳۶۰ (دارالکتب العلمیۃ کے نسخے مطبوعہ 1996ء کے مطابق ج۲،ص۴۹۲) پرروحانی کے بجائے رحمانی ہے اور رحمن عزوجل کی طرف نسبت کے اعتبار سے یہ ہی زیادہ صحیح اور مناسب ہے۔‘‘

(۹)بسا اوقات کتابت کی غلطی یا مؤلف کے تسامح سے کتاب میں یہ صراحت ہوتی ہے کہ فلاں کتاب میں یہ روایت فلاں صحابی سے مروی ہے۔وہ روایت اس کتاب میں موجود توہوتی ہے لیکن دوسرے صحابی سے مروی ہوتی ہے ۔مثلاً

بہارشریعت ،ج3،ص 563پر ہے :طبرانی نے اوسط میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہ حضور(صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاکہ ’’لڑکا یتیم ہو تو اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے میں آگے کو لائے اور بچہ کا باپ ہو تو ہاتھ پھیرنے میں گردن کی طرف لے جائے۔‘‘ اس پرالمدینۃ العلمیہ کی طرف سے یہ تحریر کیا گیاہے :’’یہ روایت طبرانی اوسط میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے ۔‘‘

(۱۰)بعض اوقات کسی مسئلہ میں دلیل کے طور پرضعیف حدیث نقل ہوجاتی ہے ۔مُحقِّق ومُخَرِّج کی ذمہ داری ہے کہ اس کے ضعف کودلیل کے ساتھ واضح کرے ۔مثلاً

اصلاح اعمال ،ج1،ص100 پرہے :مختار قول یہ ہے کہ ہمزہ کو ترک کر دیا جائے کیونکہ حضورنبی کریم،رء وف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی لغت بھی یہی ہے۔ مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ نبوی میں حاضرہو کر عرض کی:’’یا نبیٔ اللہ۔‘‘ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ا س سے ارشاد فرمایا:’’میں نبیٔ اللہ نہیں بلکہ نبیُّ اللہ ہوں۔‘‘اس پراسلامک ریسرچ سینٹر کی طرف سے یہ حاشیہ دیا گیا ہے:’’اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعدحضرت سیدناامام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں:’’ابو علی نے کہا: اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔(اس کے بعد آپ فرماتے ہیں) اس حدیث کے ضعیف ہونے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نبی ٔکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کرنے والے شاعر (صحابی ) نے سرکارِمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے یاخاتمَ النباء(یعنی اے آخری نبی ) کہا (اور ہمزہ کے ساتھ نباء لفظ ِنبیٔ بالھمزہ کی جمع ہے) اور سرکارِمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا اس بات سے انکار منقول نہیں۔‘‘(الجامع لاحکام القران للقرطبی تحت الایۃ:۶۱’’لاتدخلوابیوت النبی۔۔۔۔۔ الایۃ،ج ۱، ص۳۴۹)

(۱۱)کبھی عبارت کے ظاہری مفہوم سے سخت مغالطے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔لہٰذا اس کے سد باب کے لئے محقق ومدلل حاشیہ ضروری ہوتاہے ۔مثلاً

اصلاح اعمال ،ج1،ص601 پرتحریر ہے :’’لہٰذا کفر کوباعتبارِکفر برا سمجھا جائے نہ کہ اس معین کافر کو۔‘‘اس المدینۃ العلمیہ نے یہ تحقیقی حاشیہ دیاہے: ’’یاد رہے کافرکوبراسمجھنے اوراس کی تعظیم وعزت افزائی میں فرق ہے ۔کفارکی تعظیم وتکریم کفرہے ۔چنانچہ،مجدداعظم ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ(متوفی ۱۳۴۰ھ) ’’فتاوی ظہیریہ، الاشباہ والنظائر اور درمختار‘‘کے حوالے سے تحریرفرماتے ہیں:لَوْسَلَّمَ عَلَی الذِّمِّیِّ تَبْجِیْلًا یُکْفَرُلِاَنَّ تَبْجِیْلَ الْکَافِرِ کُفْرٌ وَلَوْقَالَ لِمَجُوْسِیٍّ یَااُسْتَاذُتَبْجِیْلًاکَفَرَ ترجمہ:اگرکسی مسلمان نے کسی ذمی کافرکوبطورِعزت و توقیرسلام کیاتووہ کافرہوجائے گاکیونکہ کافرکی عزت افزائی کفرہےاوراگرکسی نے آتش پرست(یعنی آگ کے پجاری )کوتعظیم کے طورپر ’’اے استاذ‘‘ کہا تووہ کافرہوگیا۔ (فتاوی رضویہ، ج۶،ص۱۹۳)نیز کفارکے ساتھ حسنِ سلوک ، کفراورکفرپرمددواعانت کے علاوہ دیگرمعاملات میں ہوسکتا ہے مثلاً مشرک پڑوسی کے ساتھ حق پڑوس کی ادائیگی اور کافر باپ کی غیرکفریہ معاملات میں اطاعت وغیرہ، ورنہ کفارسے موالات (یعنی میل جول )ناجائزوحرام ہے۔چنانچہ،سیِّدی اعلی حضرت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۳۴۰ھ) ارشاد فرماتے ہیں: ’’قرآنِ عظیم نے بکثرت آیتوںمیں تمام کفارسے موالات(یعنی میل جول،باہمی اتحاد،آپس کی دوستی)قطعاًحرام فرمائی، مجوس (آگ کے پجاری) ہوں خواہ یہودونصار یٰ (یہودی وعیسائی) ہوں، خواہ ہُنُود(ہندو)اورسب سے بدترمُرتدانِ عُنُود(دینِ حق سے بغاوت کرنے والے مرتدین ) (فتاوی رضویہ، ج۱۵،ص۲۷۳)، ہاں! دنیوی معاملات مثلاًخرید و فروخت وغیرہ(اس کی شرائط کے ساتھ) جس سے دین پرضرر(یعنی نقصان)نہ ہو مرتدین کے علاوہ کسی سے ممنوع نہیں(فتاوی رضویہ، ج۲۴،ص۳۳۱مُلَخَّصًا )مزیدتفصیل کے لئے فتاوی رضویہ شریف کے مذکورہ مقامات کامطالعہ فرمالیجئے۔


جس طرح اللہ پاک کی اِطاعت و فرمانبرداری بالاتفاق عُمدہ وپسندیدہ عمل ہےاسی طرح اس کی نافرمانی اورگناہ کا کام بھی بالاتفاق بُرا و ناپسندیدہ فعل ہے۔ گناہ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک گناہ صغیرہ دوسرے گناہ کبیرہ۔ اس مضمون میں کبیرہ گناہوں کے بارے میں بتایا جائے گا، اِنْ شَآءَ اللہ !

کبیرہ گناہ کسے کہتے ہیں ؟

٠جو شخص گناہوں میں سےکسی ایسےگناہ کا ارتکاب کرے جس کا بدلہ دنیا میں حَدیعنی سزاہے مثلاًقتل، زنا یا چوری وغیرہ

٠ ایسا گناہ کرے جس کے مُتعلق آخرت میں عذاب یا غضَبِ الٰہی کی وعید ہو

٠ اُس گناہ کےمُرتکِب پر ہمارےنبی حضرت محمدمصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان سے لعنت کی گئی ہو

٠وہ گناہ جِس کا مُرتکِب قراٰن و سُنّت میں بیان کی گئی کسی سخت وعید کا مُسْتحِق ہوتو وہ کبیرہ گناہ ہے۔ (الکبائر،ص8، الزواجر ، 1/12، اشعۃ اللمعات،77/1)

گناہِ کبیرہ کی تعداد:

گناہِ کبیرہ کتنے ہیں؟ ان کی تعداد کیا ہے اس میں اختلاف ہے۔ایک روایت سے پتا چلتا ہے کہ سات ہیں دوسری روایت میں نو کی تعداد بتائی گئی ہے جبکہ حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ کیا گناہ کبیرہ سات ہیں؟

تو آپ نے فرمایا: کہ گناہِ کبیرہ کی تعداد سات سو تک ہے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ مختلف روایتوں میں جو گناہ کبیرہ کی تعداد بتائی گئی وہ حصرکے لیے نہیں بلکہ مثال کے طور پر ہے ورنہ اور بھی بہت سے گناہ کبیرہ ہیں۔ (منتخب حدیثیں،ص116،115)

50کبیرہ گناہ:

بحیثیت مسلمان چونکہ ہم پرکبیرہ گناہوں سے بچنا لازم ہے اور بچنے کے لئے ان کا جاننا ضروری ہے، اس لئے ذیل میں پچاس کبیرہ گناہ بیان کئے جارہے ہیں تاکہ ان کی معرفت حاصل ہو اور ان سے بچا جاسکے۔

(1) اللہ پاک کا کسی کو شریک ٹھہرانا (2)قتلِ ناحق (3)جادو کرنا (4)نماز چھوڑنا (5)زکوٰۃ نہ دینا (6)والدین کی نافرمانی کرنا (7)سود کھانا (8)ظلماً یتیم کا مال کھانا (9)رَمَضان کے روزے بلا عذر چھوڑنا (10)زِنا کرنا (11)جھوٹی قسم کھانا (12)خود کشی کرنا (13)دَیُّوثی (14)خِیانت کرنا (15)ریاکاری (16)پیشاب سے نہ بچنا (17)مُردار کا گوشت کا کھانا (18)ناجائز ٹیکس وُصول کرنا (19)اِحسان جتانا (20) لواطت (21)کاہِن اور نجومی کو سچا جاننا (22)شوہر کی نافرمانی کرنا (23)قطع تَعلّقی کرنا (24)نوحہ کرنا اور چہرا پیٹنا (25)نسب پر طعن کرنا (26)تکبر سے تہبند لٹکانا (27)مرد کا ریشمی لباس پہننا (28)مرد کا سونا استعمال کرنا (29)سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا (30)بد شگونی (31)سونا چاندی کے برتن میں کھانا پینا (32)ناپ تول میں ڈنڈی مارنا (33)اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا (34)جوا کھیلنا (35)نماز جمعہ ترک کرنا (36)مسلمانوں کی جاسوسی کرنا (37)نسب بدلنا (38)اولیاء اللہ سے عداوت رکھنا (39)چغلی کھانا (40)کپڑےیا دیوار میں تصویر بنانا (41)مردوں کا زنانی اورعورتوں کا مردانی وضع اپنانا (42)قراٰن و سنّت کے خلاف فیصلہ کرنا (43)ڈاکہ ڈالنا (44)ظلماً لوگوں کا مال لینا (45)پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا (46)حاکم کا اپنی رعایا کو دھوکا دینا (47)شراب پینا (48)میدانِ جہاد سے بھاگنا (49)رسولُ اللہ پر جھوٹ باندھنا (50) صحابہ کو برا بھلا کہنا۔ (الکبائر، الزواجر)


محرّمُ الحرام 1331ھ کی ایک مبارک شب تھی ،ایک صالح جوان ،صاحبِ بصیرت عالم دین مدینہ شریف میں محوِاِستراحَت (یعنی سورہے) تھے،خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،حضراتِ شیخین کریمین یعنی حضرت ابوبکرصدیق(1) اور حضرت عمرفاروقِ اعظم (2)رضی اللہ عنہما جلوہ فرماہیں، تھوڑی دیربعد حضراتِ شیخین تشریف لے جاتے ہیں ،یہ تنہانبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس رہ جاتے ہیں، آگے بڑھ کر نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےمبارک ہاتھ پکڑکر اپنےسینےپر رکھتے ہوئےچلنےلگتےہیں اورعقائدسے متعلق یکے بعددیگرے تین سوالات عرض کرتے ہیں،نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہرسوال کے بعد انہیں جواب عطافرماکر آخرمیں یہ ارشادفرماتے ہیں کہ ’’جواحمدرضا خاں کہتے ہیں وہ حق وصِدق (سچ)ہے۔‘‘یہ خواب دیکھنے والے اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ(3) سے اتنا متاثرہوئے کہ مدینہ شریف میں ہی نیت کرلی کہ میں اعلیٰ حضرت کے پاس بریلی شریف(4) ضرورجاؤں گا اورآپ کی زیارت کروں گا۔(5) پھر جب آپ ہند آئے تو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے،شرفِ تلمذحاصل کرکے اجازتِ حدیث اورسلسلۂ قادریہ رضویہ میں خلافت سے سرفراز ہوئے(6) ۔ یہ عظیم ہستی ضلع چکوال (پنجاب، پاکستان) (7) کےگاؤں اوڈھروال(8) اورچکوڑہ (9) کے علامہ قاضی محمدنورقادری صاحب ہیں۔جن کا مختصرتذکرہ آنے والی سطور میں ملاحظہ کیجئے:

ولادت: خلیفۂ اعلیٰ حضرت،عالمِ رَبَّانی حضرت مولانا قاضی ابوالفخر محمد نور قادری سُنی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 13 رجب 1307ھ مطابق 5مارچ 1890ء موضع اوڈھروال (ضلع چکوال، پنجاب، پاکستان) کےایک علمی کہوٹ قریشی گھرانے میں ہوئی۔والدِ گرامی حضرت مولانا قاضی عالم نور قریشی اور دادا حافظ محمد سرداراحمد قریشی رحمۃ اللہ علیہما تھے۔ آپ کی ذاتی ڈائری میں تحریر کردہ خاندانی شجرے کے مطابق آپ کا سلسلۂ نسب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچاجان حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ (10) سے جا ملتاہے۔(11)

علمی خاندان کےچشم وچراغ:آپ کاخاندان کئی پشتوں سے علم وفضل کا گہوارہ ہے، آپ کےداداجان حضرت علامہ حافظ محمد سردار احمد قریشی صاحب بحرالعلوم حافظ محمدعظیم پشاوری (12)رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد،جیّدعالمِ دین،محقق ومدقّق اور استاذُ العلماتھے۔ شیخ طریقت خواجہ حافظ غلام نبی للہی (13)،عالمِ شہیر مولانا حافظ عبدُالحلیم کریالوی (14) اوران کے بیٹے مولانا عالم نورقریشیرحمۃ اللہ علیہم آپ کےہی شاگردہیں۔(15)

تعلیم وتربیت: کمزور بینائی کے باوجود آپ کوحصولِ علم کابہت شوق تھا،والدِگرامی حضرت مولاناقاضی عالم نورصاحب سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے علاقے کے جید علما سے استفادہ کیا۔اترپردیش ہندبھی تشریف لےگئے، شاہجہانپور(16) اور دیگر شہروں میں علمِ دین حاصل کیا، آپ بہت ذہین وفطین تھے ۔دیگرعلوم کے ساتھ ساتھ عربی زبان پر کامل دسترس رکھتےتھے اور اپنے زمانے کے علمائے کرام سے عربی زبان میں مراسلت کیا کرتے تھے۔(17)

حرمین شریفین میں حاضری:شوال المکرّم 1329ھ مطابق اکتوبر 1911ء کو حرمین طیبین حاضرہوکرحج کی سعادت سے بہرہ ورہوئے۔ قطبِ مکۂ مکرمہ ، شیخُ الدلائل حضرت مولانا شاہ عبد الحق صدیقی محدث الہ آبادی نقشبندی حنفی مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ (18) سے جملہ علوم اور اَورَاد و وَظائف کی اجازت حاصل کی۔ اس کے بعد تین سال مدینہ منورہ میں مقیم رہے اورعلمائے مدینہ سے خوب استفادہ کیا۔(19) یہاں آپ ’’صوفی‘‘کےلقب سے معروف تھے۔آپ نے1330ھ کو مدینہ شریف میں حضرت مولاناسیّداحمدعلی رامپوری(20) اورحضرت مولانا کریم اللہ پنجابی(21)رحمۃ اللہ علیہما سےملاقاتیں کیں، انہوں نے آپ کی دعوت بھی کی ،ان حضرات نےانہیں اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّۃ کےبعض مضامین سنائے،جسےسن کرآپ خوش ہوئے، مولانا کریم اللہ صاحب نےانہیں تقریظ لکھنےکا کہا،آپ نےفرمایا کہ میں وطن لوٹ رہا ہوں وہاں جاکراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سےملاقات بھی کروں گا اوراچھے اندازسےتقریظ بھی لکھوں گا۔(22) علامہ احمدعلی صاحب نے علامہ شیخ یوسف نبہانی رحمۃ اللہ علیہ(23) کی کتاب ’’جواہرُالبحار‘‘ (24) اپنے دستخط کے ساتھ آپ کو عطافرمائی۔(25)

حرمین شریفین سے واپسی: ذیقعدۃ الحرام 1331ھ مطابق اکتوبر 1913ء میں نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بذریعہ خواب آپ کو حج کرنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹنے کا حکم فرمایا۔چنانچہ حج سے پہلے آپ نےمدینہ شریف کوالوداع کہتے ہوئے ایک دردبھرافِراقیہ قصیدہ لکھا جوآپ کی ڈائری میں موجودہے۔وطن واپس آکرآپ کی مولاناکریمُ اللہ صاحب سےمراسلت جاری رہی مگر اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّۃ پر تقریظ لکھ سکےیا نہیں اس کی صراحت نہیں مل سکی۔ البتہ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب النیرالوضی فی علم النبی تحریر فرمائی۔ (26)

بیعت واجازت: ابتدائی عمر میں سلسلۂ چشتیہ کےشیخ طریقت سیّدصاحب کی صحبت یابیعت کا شرف پایا۔ (27) آپ کو آستانہ عالیہ قادریہ گیلانیہ بغداد شریف کے سجادہ نشین حضرت شیخ سیّدعلی قادری گیلانی سے بھی سندِاجازت حاصل تھی۔حرمین طیبین سے واپسی پر بریلی شریف حاضرہوئے اور اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہسے شرفِ تلمذحاصل کرکےاجازت حدیث اورسلسلۂ قادریہ رضویہ میں خلافت سے سرفراز ہوئے، (28) اعلیٰ حضرت نے آپ کو جو الاجازات المتينه لعلماء بكة والمدينة کا نسخہ اپنے دستخط کے ساتھ عطا فرمایا وہ ان کے ورثا کے پاس محفوظ ہے۔

اس پر علامہ محمدنورقادری صاحب کی یہ تحریر ہے: یقول الفقیر كان اللہ تعالی له ان أوّل إجازتی فی ھذہ "الإجازات المتینة" قول مولانا و شیخنا صاحب الحجة القاھرة مؤید الملة الطاھرة مؤلّف التألیفات النافعة عالم أهل السنّة والجماعة نخبة أهل العلم والعرفان الشیخ المفسر المحدّث الفقیه الحافظ الحاج أحمد رضا خان البریلوی عاشق النبی الآمر(صلی اللہ تعالی علیه وعلی آله وسلم)سلمہ ربہ القوی بسم اللہ الرحمن الرحیم.فی ص ۱۲ الی قوله: وھو یرید العدوان من بعد فی ص۱۳۔ وبعده قوله: یامولاناالفاضل الحسن الشمائل ص۱۷ ۔لکن ۔۔۔الجلیلة أي: قول ال۔۔۔۔وآخر کل۔۔۔اتفقت العبارات ۔۔۔منھا وغیرھا الی قوله آخر الاجازة والحمدللہ رب العالمین ص۲۳ .منھا وقد أجزت بھا وبکلّ ما أجازنی به مولانا الشیخ العارف محمد عبد الحق المکی وغیرہ من المشائخ رحمھم اللہ المنعم وکلّ من کان أهلاً لذلك من أولادي وأقاربي بشرطها المذكور في محلّه، ربنا تقبل منّا إنّك أنت السميع العليم وصلّى الله تعالى وسلّم وعلى سيّدنا محمد وآله الكريم.كتبه بقلمه الفقير إلى مولاه محمد نور السنّي الحنفي القادري ساكن أوہڈر وال ضلع جهلم، كان الله تعالى له بمحمد النبي الآمر صلّى الله تعالى عليه وآله وسلّم يوم الأربعاء ٢٣ رجب المرجب ١٣۳۲۔

یعنی فقیر(اللہ پاک اس سے راضی ہو) کہتا ہےکہ ہمارے سردار اور شیخ ، دلائلِ قاہرہ دینے والے، پاکیزہ دین کے مددگار،لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی کتابوں کے مصنف، اہل سنّت وجماعت کے عالم، اہلِ علم ومعرفت میں ممتاز، مفسر ،محدث ، فقیہ ،حافظ، حاجی احمد رضا خان بریلوی ، نیکیوں کا حکم فرمانے والےاور برائیوں سے روکنے والے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سچے عاشق ، اللہ پاک انہیں سلامت رکھے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب ’’الاجازات المتینه‘‘ میں مجھے پہلی اجازت ان مقامات پر ان الفاظ سے دی:صفحہ 12: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے صفحہ 13: ’’ وھو یرید العدوان من بعد‘‘ تک۔اس کے بعد صفحہ 17 پر ان کے اس قول: ’’ یامولاناالفاضل الحسن الشمائل ‘‘سے ان کی آخری اجازت تک، الحمد للہ رب العلمین صفحہ 23 تک۔ بیشک (الاجازات المتینہ میں) جو مجھے اجازتیں ملی ہیں اورمولانا شیخ عارف محمد عبد الحق مکی وغیرہ مشائخ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے جو اجازتیں دی ہیں ان سب کی ان شرائط پر جو اس کے مقام پر مذکور ہیں ، اپنی اولاد اور قریبی لوگوں میں سے اہل افراد کو اجازت دیتا ہوں ، اے اللہ! تو ہم سےاس کوقبول فرما بیشک تو ہی سب سے بہتر سننے اور جاننے والا ہے اور اللہ پاک درود وسلام نازل فرمائے۔ ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی عزت والی آل پر ۔اپنے پروردگار کامحتاج اوڈھروال ضلع جہلم (29) کے رہائشی محمد نور سنی حنفی قادری نے 23رجب 1332ھ ہجری کو اسے اپنے قلم سے لکھا ہے، اللہ پاک نیکیوں کا حکم فرمانے والے اور برائیوں سے روکنے والے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکےصدقےاس سے راضی ہو۔(30) اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کو یہ اجازت ذیقعدۃ الحرام 1331ھ مطابق اکتوبر 1913ء کے بعد 23رجب 1332ھ مطابق 17جون 1914ء سے پہلےحاصل ہوئی ۔

علمی مقام :آپ عالمِ جلیل،مفتیِ اسلام،صوفی ِباصفا ،شاعراورمصنف تھے۔ عربی ،اردواورپنجابی میں نظم ونثرمیں کامل دسترس تھی ،علمائے اہلسنت سے عربی میں مراسلت بھی فرماتے تھے۔جن علماسے آپ کا رابطہ تھا ان میں سے حضرت قبلہ عالم پیرمہرعلی شاہ گولڑوی(31) حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری(32) ،صدرُالافاضل علامہ نعیمُ الدّین مرادآبادی(33) اورحضرت علامہ فیضُ الحسن فیض(34) رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔(35)

خدمات دین ،تصنیف وتالیف:آپ نے اپنی زندگی کو علمِ دین کے حصول اوراس کی اشاعت کے لیے وقف کر رکھا تھا ۔ آپ نے عربی، اردو اور پنجابی میں نظم ونثرپر مشتمل 15 کتب تصنیف کیں ،جن کے نام یہ ہیں:

(1) دفع الجہال عن تکرار الجماعة(عربی )، (2)دفع الجہال عن تکرار الجماعة (اردو)، (3) المباحثۃ المعمدة قضاء السنة قبل الجمعة (اردو) (4) ردّ الشہاب علی المفتری الکذاب (اردو )، (5)مجموعہ المورد الروی فی المولا النبی (پنجابی منظوم)،(6)المراة الحلیہ للحلیة النبویة (پنجابی،منظوم)،(7) سلوک اکمل السبیل یا التوجہ الی افضل الرسول (پنجابی ، منظوم)، (8) احسن النغم فی مدح الغوث الاعظم (پنجابی منظوم) ۔(9) الخزی المزید (اردو، مطبوعہ) ، (10) التوضیحات لمافی اشعة اللمعات (عربی) (11) قول الکلم فی ظہر الجمعة(عربی مسودہ)، (12) النیرالوضی فی علم النبی(عربی مسودہ)،(13) قہدالاھوتی(عربی مسودہ)، (14) ضرب الحدیدعلی راس الرشید (عربی مسودہ) ، (15)الدود الجلیل لتاویلات الذلیل (عربی مسودہ)۔ (36)

علماسے روابط :آپ برصغیرپاک وہندکے کئی جیدعلماسے رابطے میں تھے ۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ کی جوكتاب شائع ہوتی وہ بریلی شریف سےآپ کوبھیج دی جاتی ۔(37) صدرُالافاضل حضرت علامہ مولانا سیدمحمدنعیمُ الدّین مرادآبادی کے ساتھ عربی میں مراسلت رہی۔آپ کے کئی فتاویٰ اس وقت کےمشہور ہفتہ روزہ سراجُ الاخبار(38) میں شائع ہوئے ۔(39)

سیرت وعادات:آپ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سچے عاشق،متبع سنت،صالح کردارکےمالک،شرم وحیاکے پیکراوروضع قطع میں سنّتِ رسول کے پابندتھے۔(40)

شادی واولاد:آپ کی شادی موضع چکوڑہ(ضلع چکوال)کے ایک علمی خاندان میں ہوئی ۔اس کے بعدآپ مستقل چکوڑہ میں رہائش پذیر ہوگئے ۔ آپ کے بیٹے حضرت مولانا قاضی حکیم احمدچکوڑوی طب وحکمت میں مشہور، اورآپ کے علمی جانشین تھے۔اسی طرح آپ کے خاندان کے مولانا حکیم محمد فاروق صاحب بہترین حکیم اورجامع مسجدچکوڑہ کے امام ہیں۔(41)

وفات ومدفن:1914ء کے آخراور1915ء کےشروع میں چکوال میں طاعون کی بیماری پھیل گئی، گھر کے گھر ویران ہوگئے،آپ کا وصال اسی طاعون کی بیماری میں صفرُالمظفریاربیعُ الاول 1333ھ مطابق جنوری 1915ء (42) کوکلمہ شہادت پڑھتےہوئے ہوگیا ،آپ کےخاندان کی چھ عورتیں بھی اسی دن فوت ہوئیں ،سب کا جنازہ اکٹھاہوا۔ (43) آپ کو قبرستان میاں صاحب بابا عبدالشکور(رحمۃ اللہ علیہ)موضع اوڈھروال(44) میں دفن کیا گیا۔جہاں آج بھی آپ کامزارموجودہے۔(45)

علامہ محمدنورقادری صاحب کے مزارپرحاضری کے احوال: راقم کچھ سالوں سے خلفائے وتلامذہ اعلیٰ حضرت کی معلومات ،ان کے وابستگان سے ملاقات اوران کے مزارات کی زیارات میں مصروف ہے، حضرت علامہ مفتی قاضی محمدنورقادری صاحب کےبارے میں سب سےزیادہ معلومات مصنفِ کتب کثیرہ ومنتظم اعلیٰ بہاء الدین زکریالائبریری چکوال پیرزادہ عابدحسین شاہ صاحب (46)سےحاصل ہوئیں ،ان سے ملاقات کا اشتیاق رہا، دعوت اسلامی کی برکت سے چنداسلامی بھائیوں کے ہمراہ ان سے دوملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ایک سفرجو راولپنڈی سےمشہورپنجابی صوفی شاعر محمدبخش قادری(47) کے شہرکھڑی شریف اور میرپورکشمیرتک ہواجس میں مبلغ دعوت اسلامی محمدحمادعطاری اورمحمدخورشیدعطاری صاحب میرے ہمراہ تھے،یہ 7جنوری 2016ء (27ربیع الاول1437ھ)کی خوشگوارصبح تھی،خورشیدبھائی نے پُرتکلف ناشتہ کروایا،انہیں کی گاڑی میں راولپنڈی سے بذریعہ موٹروےچکوال کے لیے روانہ ہوئے، غالبادوگھنٹے میں چکوال پہنچ گئے، پیرزادہ عابدصاحب انتظارمیں تھے،مرکزی ڈاکخانہ چکوال کےقریب حضرت مولانا ڈاکٹرعبدالواحد الازہری صاحب(48) کی مسجدحسینیہ حنفیہ میں ڈاکٹرصاحب اورعابدصاحب سے ملاقات ہوئی، الاجازات المتينه لعلماء بكة والمدينة کاعلامہ محمدنورصاحب کا وہ ذاتی نسخہ دیکھا جو انہیں اعلیٰ حضرت سے حاصل ہواتھا۔اس کے بعدایک اسکول میں جانا ہوا جس کے ایک ٹیچرچکوڑہ کےتھے یہیں علامہ محمدنورصاحب کی بیاض کی زیارت کی، ان ہی کےہمراہ چکوڑہ گاؤں جانا ہوا، علامہ محمدنور صاحب کےخاندان کے کئی افرادسےملاقات ہوئی اورعلامہ صاحب کا ذکرخیرہوتارہا ۔ علامہ صاحب کی مسجدکے امام وخطیب صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو غالباًآپ کے پوتے کے بیٹے تھے ۔ان کے ساتھ چکوڑہ قبرستان میں آپ کےمزارپرانوارکی زیارت کی ، ہمیں کھڑی شریف میں ہونے والے دعوت اسلامی کے ہفتہ واراجتماع میں پہنچنا تھا اس لیے بعدِظہروہاں سے روانہ ہوئے۔ راستے میں شدید پارش اورچکوال تاجی ٹی روڈ راستے کی خرابی کی وجہ سےتاخیر ہوگئی ،جب کھڑی شریف پہنچےتو بارش کا سلسلہ جاری تھا،بعدِنمازمغرب ہفتہ واراجتماع میں بیان کرنے کی سعادت ملی۔ اس کے بعد کھانا کھایا اورمیرپورکے لیے روانہ ہوگئےاور ایک گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے،مقامِ قیام پر پہنچ کر حمادبھائی اورخورشیدبھائی راولپنڈی روانہ ہوگئے ۔

(کتبہ: ابوماجد محمد شاہد عطاری مدنی عفی عنہ، 8جمادی الاولیٰ 1442ھ مطابق 24دسمبر2020ء، بمقام عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی)

حواشی ومراجع

(1)۔ ام المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنوتمیم کے چشم و چراغ، قریش کی مُقتدِر شخصیت، اَفْضَلُ الْبَشَر بَعْدَ الْاَنْبِیَاءِ ، سفر و حضر میں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رفیق اور مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہیں۔ ولادت واقعۂ فیل کے تقریباً ڈھائی سال بعدمکّہ شریف (عرب شریف) میں ہوئی۔ 22 جُمادَی الاُخریٰ 13 ہجری کو مدینۂ منوّرہ میں وِصال فرمایا اور حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پَہلو میں دفن ہوئے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 21تا 66)

(2)۔ امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا ابوحفص عمر فاروقِ اعظم عِدَوِی قرشی رضی اللہ عنہ کی ولادت واقعۂ فیل کے 13سال بعد مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ دورِ جاہلیت میں علمِ انساب، گھڑ سواری، پہلوانی اور لکھنے پڑھنے میں ماہر اور قریش کے سردار و سفیر تھے، اعلانِ نبوت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے۔ آپ جلیلُ القدر صحابی، دینِ اسلام کی مؤثر شخصیت، قاضیِ مدینہ، قوی و امین، مبلغ عظیم، خلیفۂ ثانی، پیکرِ زہد و تقویٰ، عدل و انصاف میں ضربُ المثل اور عظیم منتظم و مدبر تھے۔ آپ کے ساڑھے 10سالہ دورِخلافت میں اسلامی حدود تقریباً سوا 22 لاکھ مربع میل تک پھیل گئیں۔ آپ نے یکم محرم 24ھ کو مدینہ شریف میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ (تاریخ الخلفاء، ص 86تا117، العبر فی خبر من غبر، 1/20)

(3)۔ اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1272ھ کو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ کو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،تاجدارفقہاو محدثین، مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(4)۔ بریلی Bareilly)):یہ بھارت کے صوبے اترپردیش میں واقع ہے، دریائے گنگا کے کنارے یہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ دریا کی خوشگوار فضاء نے اس کے حسن میں موثر کردار ادا کیا ہے۔

(5)۔ علماء عرب کےخطوط فاضل بریلوی کےنام،111

(6)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،120

(7)۔ ضلع چکوال:چکوال پاکستان کے صوبے پنجاب کے شمالی حصے میں واقع ہے، دار الحکومت پاکستان اسلام آباد سے جانب جنوب یہ ایک سوبائیس (122)کلومیٹرفاصلے پر ہے، یہ آثار ِ قدیمہ کی جنت ہے، یہاں دو کروڑ 20 لاکھ پرانے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں، موجودہ چکوال شہر آٹھویں صدی عیسوی میں ماسٹر منہاس قوم نے آباد کیا۔انگریزی دور میں یہ ضلع جہلم کا حصہ تھا۔1985 میں اسے ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ اس وقت ضلع چکوال چھ ہزار پانچ سو چوبیس (6524) مربع كلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے، یہ پانچ تحصیلوں چکوال، کلر کہار، چوآسیدن شاہ، تلہ گنگ اورلاوہ جبکہ 68 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے ، یہاں کی ایک تعداد پاک فوج میں ملازم ہے، یہاں کی ریوڑیاں بہت مشہور ہیں ،مشہور نعت گو شاعر خالد محمود مرحوم کا تعلق بھی چکوال سے ہے ان کی وہ نعت جس کا مطلع ہے یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے، بہت مقبول ہے، موجودہ آبادی تقریبا ایک لاکھ ہے، ۔(نگر نگر پنجاب 131 تا 136)ر اقم کے سسرال ملوٹ (تحصیل کلر کہار ضلع چکوال )کے رہنے والے ہیں۔

(8)۔ اوڈھروال: Odherwal) پاکستان کا ایک پاکستان کی یونین کونسلیں جو ضلع چکوال میں واقع ہے۔ یہ تحصیل چکوال کا قصبہ ہے،شہرچکوال سے جانب مغرب ساڑھےچارکلومیٹرفاصلے پرہے۔تیرہویں اورچودھویں صدی ہجری میں یہ دینی علوم وفنون حاصل کرنے کا مرکز تھا ۔

(9)۔ چکوڑہ: Chakora) پاکستان کا ایک گاؤں جو پنجاب ضلع چکوال میں واقع ہے۔ جو یونین کونسل اوڈھروال میں ہے،یہ چکوال شہر سےجانب مغرب ڈیڑھ میل(تقریبا 6کلومیٹر) برلب تلہ گنگ روڈ واقع ہے۔جب 1985ء میں چکوال کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو چکوڑہ میں غازی آباد کمپلکیس بنایا گیا جو جدید و قدیم طرزِ تعمیر کا مرقع ہے،یہ چکوال تلہ کنگ روڈ کے جنوبی کنارے واقع ہے۔(نگر نگر پنجاب ، 133)

(10)۔نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا جان حضرتِ سَیِّدُنا ابوالْفَضْل عبّاس ہاشِمی قُرَشِی مکّی رضی اللہ عنہ عامُ الِفیل سے 3 سال قبل مَکَّۂ مُکَرَّمہ میں پیدا ہوئے اور 14 رجب 32ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وِصال فرمایا، تدفین جَنّتُ الْبَقِیع میں ہوئی۔(تاریخِ مدینہ دمشق، 26/273،379)

(11)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،118

(12)۔ بحرُالعلوم حضرت علّامہ حافظ محمد عظیم واعظ پشاوری رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادَت 1205ھ اور وِصال 24جُمادَی الاُولٰی 1275ھ کو فرمایا، عَربی، فارسی، پَشتو اور پنجابی زبان میں عُبور رکھنے والے جَیِّد عالمِ دین، واعظِ شِیریں بیان، نقشبندی بزرگ، استاذُالعلماء اور خطیب و امام جامع مسجد خواجہ مَعروف علاقہ گنج پشاور تھے۔( علماء و مشائخِ سرحد، ص 128تا137)

(14)۔بدۃ الکاملین حضرت مولاناخواجہ غلام نبی للّٰہی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1234ھ کو للہ شریف (تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم) کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی ،ابتدائی تعلیم والدمحترم ،حضرت مولاناسردارحمد(چکوال)علامہ حافظ درازمحمداحسن پشاوری وغیرہ سےحاصل کی،مولانا خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری(قصور) سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں مریدہوکرخلافت سےسرفرازہوئے،زندگی بھردرس وتدریس اوررشدوہدایت میں گزارکر 21؍ربیع الاول  1307ھ کووصال فرمایا ،مزارخانقاہ عالیہ للہ شریف میں ہے ۔آپ حافظ قرآن ،عالم باعمل ،شیخ طریقت ،صاحب کرامت بزرگ اوربانی خانقاہ للہ شریف ہیں ۔(تذکرہ اعلیٰ حضرت للہی،65۔ تذکرہ اکابرِ اہلسنت،363)

(14)۔مولانا حافظ عبدالحلیم کریالوی رحمۃ اللہ علیہ کریالہ (تحصیل وضلع چکوال)کےایک علمی گھرانےمیں پیداہوئے ،آپ حافظ قرآن،مفتی زمانہ،خوش الحان مقرراورصاحب تصنیف بزرگ تھے،اعلیٰ حضرت امام احمدرضاسےگہرے تعلقات تھے ،ایک عرصہ تک ممبئی (ہند)میں خدمات دین میں مصروف رہے ،ان کی ایک کتاب احترازالصالحین عن شرورالفاسقین پر اعلیٰ حضرت امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ نے1301ھ میں ایک تقریظ بھی لکھی۔(تقاریظ امام احمدرضا ،80)

(15)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،118 ۔

(16)۔ شاہجہاں پور : Shahjahanpur) بھارت کا ایک شہر جو اتر پردیش میں واقع ہے ۔

(17)۔تاریخ الدولۃ المکیہ ص68

(18)۔ شیخُ الدلائل حضرت مولانا محمد عبدالحق صدیقی محدثِ الٰہ آبادی، نقشبندی حنفی مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1252ھ ضلع نیوان الٰہ آباد (یوپی) ہند میں ہوئی اور وصال16شوَّالُ المکرَّم 1333ھ مکّۃُ المکرمہ میں ہوا۔ آپ استاذُالعلماء، مفسرِقراٰن، صوفیِ باصفا، قطبِ مکۂ مکرمہ، جامع علم و عمل، مقرّظِ حسامُ الحرمین اور اکابر علمائے اہلِ سنّت سے ہیں۔ متعدد تصانیف میں الاکلیل علیٰ مدارک التنزیل مطبوع ہے۔(الاعلام للزرکلی، 6/186، انوارِ قطبِ مدینہ،ص73، 189،191)

(19)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119

(20)۔ مولانا سیداحمدعلی رامپوری رحمۃ اللہ علیہ یوپی ہند کے رہنےوالے تھے ،آپ مدینہ شریف گئے تو وہیں رہائش اختیارکرلی ،الدولۃ المکیۃ کے تقاریظ لینے میں کافی کوشش فرمائی ،خودبھی عربی میں تقریظ لکھی ،اعلیٰ حضرت سے رابطے میں رہتے تھے،ان کے کئی مکتوب شائع شدہ ہیں ،(تاریخ الدولۃ المکیۃ،64)

(21)۔ مولاناکریم اللہ پنجابی رحمۃ اللہ علیہ عالم دین،علامہ عبدالحق مکی رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ،صاحب طریقت اورخیرخواہ اہلسنت تھے،عقائداہلسنت کےتحفظ واشاعت میں مخلص ومتحرک ہونےکی وجہ سے مولانا کریم اللہ جانبازفی سبیل کے لقب سے ملقب ہوئے،(تاریخ الدولۃ المکیۃ،65)

(22)۔ علماء عرب کےخطوط فاضل بریلوی کےنام،111

(23)۔ عاشقِ رسول حضرت شیخ یوسف بن اسماعیل نَبہانی اَزْہَری رحمۃ اللہ علیہ شافِعی فقیہ،صوفی،قاضی ، شاعر اور کثیرکتب کے مصنف ہیں، سَعَادَۃُ الدَّارَیْن،جامع کراماتِ اولیاءاور شَواهِدُ الحق مشہورِ زمانہ تصانیف ہیں، 1265 ھ قصبۂ اِجْزِم(نزدحیفاشمالی فلسطین) میں پیدا ہوئے،اوائلِ رَمَضان 1350ھ کو وصال فرمایا، مزارِ مبارک بیروت (لبنان) میں ہے۔ ( شواهد الحق، ص 3،8)

(24)۔ جواہرالبہار فی فضائل النبی المختار سیرت مصطفی پر عربی میں کتاب ہے ، علامہ یوسف نبہانی نے پچاس سے زائدعلمائے اہل سنت کی تحریرات کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ یہ مستقل ایک تصنیف معلوم ہوتی ہے ۔ پوری کتاب سیرت النبی ، خصائص،شمائل،مغازی، فضائل النبی ،معجزات، معاشرت النبی،عشق مصطفی، کمالات نبی جیسے عنوانات ومودسے لبریز ہے ،اس کا اردومیں ترجمہ علمائے اہلسنت مثلاعلامہ عبدالحکیم شرف قادری،علامہ عبدالحکیم شاہ جہان ہوری وغیرہ نے کیا ۔

(25)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119

(26)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119،تاریخ الدولۃ المکیۃ،69

(27)۔ علماء عرب کےخطوط فاضل بریلوی کےنام،110

(28)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119،تاریخ الدولۃ المکیۃ،69

(29)۔ اوڈھروال،پہلے ضلع جہلم میں تھا،مگر1985ء میں جب چکوال کو ضلع بنایاگیاتواب یہ اس کا حصہ ہے۔

(30)۔مخطوط الاجازات المتینہ،مخطوط کے سرور ق کی مطلوبہ عبارت کی تکمیل اوراس کاترجمہ محقق اسلامک ریسرچ سینٹرالمدینۃالعلمیہ مولاناحافظ کاشف سلیم عطاری مدنی صاحب نے کیا ہے،راقم اِس پر اُن کا شکرگذارہے۔ابوماجدعطاری

(31)۔ قبلۂ عالم، تاجدارِگولڑہ حضرت پیر سیّد مہر علی شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1275ھ میں گولڑہ شریف (اسلام آباد، پنجاب) پاکستان میں ہوئی اور29 صفر 1356ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزار گولڑہ شریف میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔ آپ جید عالمِ دین، مرجعِ علما، شیخِ طریقت، کئی کتب کے مصنف، مجاہدِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر اور عظیم و مؤثر شخصیت کے مالک تھے ۔(مہرِ منیر، ص61، 335، فیضانِ پیر مہر علی شاہ، ص4، 32 )

(32)۔ امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ نقشبندی محدّثِ علی پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ حافِظُ القراٰن، عالمِ باعمل، شیخُ المشائخ، مسلمانانِ برِّعظیم کے متحرّک راہنما اور مرجعِ خاص وعام تھے۔ ایک زمانہ آپ سے مستفیض ہوا، پیدائش 1257ھ میں ہوئی اور 26ذیقعدہ 1370ھ میں وصال فرمایا، مزار مبارک علی پورسیّداں (ضلع نارووال، پنچاب) پاکستان میں مرجعِ خَلائق ہے۔ (تذکرہ اکابرِ اہل سنّت،ص 113تا117)

(33)۔ صدرُالاَفاضِل حضرت علامہ حافظ سیّد محمدنعیم الدّین مُرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1300ھ مُرادآباد (ہند) میں ہوئی اور آپ نے 18ذوالحجہ 1367ھ کو وفات پائی۔دینی عُلوم کے ماہِر، شیخُ الحدیث، مُفَّسِّرقراٰن، مُناظِرِذيشان،مُفتیٔ اسلام ،درجن سے زائد کُتُب کے مصنف،قومی رَہنما وقائد،شیخِ طریقت، اسلامی شاعر،بانیِ جامعہ نعیمیہ مُرادآباد، اُستاذُالعُلَمااوراکابرینِ اہلِ سنّت میں سے تھے۔کُتُب میں تفسیرِخزائنُ العِرفان مشہور ہے۔(حیات صدرالافاضل،ص9تا19)

(34)۔ علامہ ٔ زمن حضرتِ مولانافیض الحسن فیض رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1300ھ کو بھیں چکوال کے علمی گھرانے میں ہوئی اورجمادی الاولیٰ 1347ھ کووصال فرمایا۔آپ بہترین عالم دین ،عربی ادیب وشاعر،مدرس جامعہ نعمانیہ لاہور،استاذالعلمااورکئی عربی کتب کےمترجم ہیں ۔امیرحزب اللہ حضرت پیرسیدفضل شاہ جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ آپ کے مشہورشاگردہیں ۔(تذکرۂ علمائے اہل سنت ضلع چکوال،83)

(35)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،120

(36)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،120

(37)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،45

(38) ۔ ہفتہ روزہ سراج الاخبار(1885ءتا1917ء):صاحب حدائق الحنفیہ حضرت مولانا فقیرمحمدجہلمی رحمۃ اللہ علیہ (25،اکتوبر1916ء/27ذوالحجہ1334ھ)نے1302ء کو اپنے مطبع سراج المطابع جہلم سے ہفتہ واراخبارسراج الاخبارجاری کیا،اس کی اشاعت کچھ انقطاع سے کم وبیش سولہ (16)سال جاری رہی۔اس کےمدیرغازی اسلام،مناظراہل سنت حضرت مولانا کرم الدین دبیرسیالوی رحمۃ اللہ علیہ (وفات 17جولائی 1946ء/17شعبان 1365ھ)تھے۔(ردقادنیت اورسُنی صحافت،37،46،61)

(39)۔ سراج الاخبار،6فروری1915ء،ص17

(40)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،121

(41)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،122

(42)۔آپ کےمزارکےکتبے پروفات کی تاریخ 1914ء لکھی ہوئی ہے جوکہ درست نہیں،کیونکہ سراج الاخبار،6فروری1915ءمیں آپ کی وفات کا تذکرہ ہےجس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے صفرُالمظفریاربیعُ الاول 1333ھ مطابق جنوری 1915ء کووصال فرمایا۔

(43)۔ سراج الاخبار،6فروری1915ء،ص17

(44)۔ حضرت میاں صاحب باباعبدالشکوررحمۃ اللہ علیہ ،اڈھروال کی علمی وروحانی شخصیت،باکرامت ولی اللہ ،عوام وخواص کےمرجع اورصاحب کرامت بزرگ تھے،انھوں نےگیارہویں صدی ہجری اسی گاؤں دینی مدرسہ قائم فرمایا،جواب بھی موجودہے، اس سے ایک زمانہ مستفیض ہوا۔ان کا مزارمرجع خاص وعام ہے۔(تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،55)

(45)۔ تاریخ الدولۃ المکیہ ص68

(46)۔پیرزادہ عابدحسین شاہ صاحب، یادگاراسلاف حضرت مولانا پیرانورحسین شاہ رحمۃا للہ علیہ (بانی بہاوالدین زکریالائبریری وسابق امام ومدرس جامع مسجدحنفیہ رضویہ چھونبی ضلع چکوال)کے بیٹے اورعلمی جانشین ہیں ،آپ عمدہ علمی وتحقیق ذوق کے حامل ،اردووعربی ادب سے آشنا،صحافتِ عرب کا گہرائی سےمطالعہ کرنے والے ،تراجم علمائے عرب وعجم سے خوب واقف اورحُسنِ اخلاق کے مالک ہیں ۔ طویل مدت حجازمقدس میں گزاری،عرب کے اہل علم سے ذاتی مراسم اوررابطے ہیں ،بیس (20)سے زیادہ کتب ومضامین کے مصنف ہیں ،کتب میں تاریخ الدولۃ المکیۃ،امام احمدرضا محدث بریلوی اورعلمائے مکہ مکرمہ ،محدث حجازاورسعودی صحافت اورتذکرہ سنوسی مشایخ اہم ہیں ۔ آجکل چکوال میں رہائش پذیرہیں ۔راقم کئی مرتبہ ان سے ملاقات کرچکا ہے۔(مزیددیکھئے :ماہنامہ سوئےحجازدسمبر2020ء،ص59،دمشق کے غَلایینی علماء،76)

(47)۔ رُومیِ کشمیر، صاحبِ سیفُ المُلوک حضرت میاں محمد بخش قادری رحمۃ اللہ علیہ عالمِ دین، مُصنِّف، پنچابی شاعر اور ولیِ کامل تھے، آپ 1246ھ کو موضع چک بہرام (ضلع گجرات) پاکستان میں پیدا ہوئے اور 7ذوالحجہ1324ھ کو وِصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک کھڑی شریف (ضلع میر پور) کشمیر میں مرجَعِ خاص و عام ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام، 1/455تا469)

(48)۔حضرت مولانا ڈاکٹرعبدالواحدالازہری صاحب موضع وروال (یونین کونسل،ضلع چکوال )کے رہنےوالےہیں ،قاہرہ مصرمیں بارہ(12) سال مقیم رہے،اس دوران جامعۃ الازہرسے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی،اس کے بعدپاکستان آئےاوربین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آبادمیں پروفیسرہوئے،آپ جامعہ سعیدیہ غوثیہ (متصل جامعہ مسجدحسینیہ حنفیہ مرکزی ڈاکخانہ چکوال) اوردیگرمدارس کےبانی وسرپرست ہیں۔راقم ان سے شرف ملاقات پاچکا ہے۔(مزیددیکھئے :ماہنامہ سوئےحجازدسمبر2020ء،ص65)


رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اسلافِ امت نے اہلِ اسلام کو قیامت کے دن کی تیاری کرنے اور اپنی آخرت سنوارنے کی نصیحتیں کرنے کے ساتھ ساتھ کئی ایسی علامات و اسباب کا بھی ذکر کیا جن کے بعد قیامت قائم ہوگی۔ انہیں اسلامی اصطلاح میں علاماتِ قیامت کہا جاتاہے۔ قیامت کی ان علامات میں سے ایک بہت ہی فکرانگیز علامت علمائے دین کا انتقال فرماجانا بھی ہے۔ فی زمانہ اگر غور کیا جائے تو یہ علامتِ قیامت اپنا آپ ظاہر کرچکی ہے۔ علما کا وصال ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ علما کا دنیا سے جانا دراصل علم کا اُٹھنا ہے اور دنیا کا علم سے محروم ہونا کائنات کا سب سے بڑا نقصان ہے۔

امامِ اہلِ سنت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قیامت قریب ہے ، اچھے لوگ اُٹھتے جاتے ہیں ، جو جاتا ہے اپنا نائب نہیں چھوڑتا، امام بخاری نے انتقال فرمایا تو نوّے ہزار شاگرد محدّث چھوڑے، سیدنا امامِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انتقال فرمایا اور ایک ہزار مجتہدین اپنے شاگرد چھوڑے، محدّث ہونا علم کا پہلا زینہ ہے اور مجتہد ہونا آخری منزل! اور اب ہزار مرتے ہیں اور ایک بھی ( نائب ) نہیں چھوڑتے۔( ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص238)

امامِ اہلِ سنّت، مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان بہت ہی قابل فکر و تشویش ہے۔یہ بات آپ نے 100سال سے بھی پہلے فرمائی تھی تو آج 100سال بعد بھلا کیا حال ہوگا؟ وہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

مسندِ احمد میں ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”امت اس وقت تک شریعت پر قائم رہے گی جب تک کہ ان میں تین چیزیں ظاہر نہ ہوجائیں:(1)علم کا قبض ہونا(2)ولدالزنا کی کثرت اور (3)صقارون، عرض کی گئی یارسول اللہ ! صقارون کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ آخری زمانہ کے لوگ ہیں جن کی باہم ملتے وقت کی تحیت ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہوگی۔“(مسند احمد جلد 24، صفحہ 391، حدیث: 15628)

اس حدیث پاک کے تناظر میں دیکھا جائے تو قیامت کی یہ نشانیاں پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، ہر آئے دن کوئی نہ کوئی عظیم و جلیل القدر عالم دین دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔

خطبہ حجۃ الوداع میں سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے لوگو! علم لے لو اس سے پہلے کہ وہ قبض کرلیا جائے، اس سے پہلے کہ وہ اٹھا لیا جائے۔(مسند احمد، جلد36، صفحہ621، حدیث:22290)

علم کا اٹھ جانا کس قدر ناقابلِ تلافی نقصان ہے اس کی حقیقت وہی سمجھ سکتا ہے جو علم اور اس کے فوائد و ثمرات کو جانتا اور سمجھتاہے۔ ایک عالم دین کا دنیا سے جانا گویا کہ ہمارا وراثت انبیاء سے محروم ہونا ہے کیونکہ انبیائے کرام کی وراثت علم ہے اور اس وراثت کے حامل علما ہی ہیں، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے علم کے اٹھ جانے کی کیفیت اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی خبر ان الفاظ میں ارشاد فرمائی:اِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ العِلْمَ اِنْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلٰكِنْ يَّقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتّٰى اِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَاَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَاَضَلُّوا یعنی اﷲ پاک علم کو بندوں(کے سینوں ) سے کھینچ کر نہ اٹھائے گا بلکہ علما کی وفات سےعلم اٹھائے گا، حتّٰی کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے، جن سے مسائل پوچھے جائیں گے وہ بغیر علم فتویٰ دیں گے، تو وہ خودبھی گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے۔( بخاری، 1/54حدیث:100)

اہلِ معرفت و علم کے نزدیک علماء کے وصال کا نقصان

(1) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک اللہ کریم لوگوں کو علم دینے کے بعد ان سے واپس نہیں کھینچتا، بلکہ علماء کو لےجاتاہے، پس جب بھی کسی عالم کو لے جاتاہے تو اس کے ساتھ اس کا علم بھی چلاجاتاہے، یہاں تک کہ وہ باقی رہ جائیں گے جن کے پاس کوئی علم نہ ہوگا پس وہ گمراہ ہوں گے۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 32)

(2) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: عالم کی موت ایک ایسی مصیبت ہے جس کا کوئی مداوا نہیں، ایسا شگاف ہے جو بند نہیں ہوسکتا، ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، ایک عالم کی موت کی نسبت پورے قبیلے کی موت آسان ہے(یعنی جو نقصان پورے قبیلے کی موت سے ہوتاہے، عالم کی موت کے نقصان سے بہت کم ہے)(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ170، رقم:179)

(3) امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کریم کے مقرر کردہ حلال اور حرام کی سمجھ رکھنے والے ا یک عالم کی موت کے آگے ایسے ہزارعبادت گزاروں کی موت بھی کم ہے جو دن کو روزہ رکھنے والے اور رات کو قیام کرنے والے ہوں۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، ص42، رقم:115)

(4) شیرِ ِخدا حضرت سیّدنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم سے منقول ہے :جب عالم وفات پاتا ہے تو 77 ہزار مقربین فرشتے رخصت کرنے کے لئے اس کے ساتھ جاتے ہیں اور عالم کی موت اسلام میں ایسا رَخْنَہ ہے جسے قیامت تک بند نہیں کیا جاسکتا۔( الفقیہ و المتفقہ، 2/198، رقم :856)

(5) حضرت سیّدنا سعید بن جُبیر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ علما کا دنیا سے جانا لوگوں کی ہلاکت کی علامت ہے۔( سنن دارمی،1/90، حدیث :241)

(6) حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: عالم کی موت دینِ اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے کہ جب تک رات اور دن بدلتے رہیں گے کوئی چیز اس شِگاف کو نہیں بھر سکتی۔( جامع بیان العلم وفضلہ،ص213،رقم:654)حضرت سیّدنا سفیان بن عُیَیْنَہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لاعلموں کے لئے بھلا اہلِ علم کی وفات سے زیادہ سخت مصیبت اور کیا ہوسکتی ہے۔( شرح السنۃ للبغوی،1/249)

(7) حضرت کعب فرماتے ہیں:تم پر لازم ہے کہ علم کے چلے جانے سے پہلے اسے حاصل کرلو، بےشک اہلِ علم کا وفات پانا علم کا جانا ہے ، عالم کی موت گویا ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، عالم کی موت ایک ایسی دراڑ ہے جو بھری نہیں جاسکتی، ایک ایسا شگاف ہے جو پُر نہیں ہوسکتا، علما پر میرے ماں باپ قربان، ان کے بغیر لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 31)

(8) حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا:کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کیسے کمزور ہوگا؟ لوگوں نے عرض کی: کیسے؟ فرمایا:جیسے جانور اپنے موٹاپے سے کمزوری کی طرف جاتاہے، اور جیسے کپڑا طویل عرصہ پہننے سے کمزور ہوجاتاہے اور جیسے درہم طویل عرصہ چلتے رہنے سے گھِس جاتاہے، ہوگا یوں کہ ایک قبیلہ میں دو عالم ہوں گے، پس جب ان میں سے ایک فوت ہوجائے گا تو آدھا علم جاتا رہے گا اور جب دوسرے کا انتقال ہوجائے گا تو سارا علم جاتا رہے گا۔ (اخلاق العلماء للآجری،صفحہ33) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(جاری ہے)


تحریر: ابوالنّور محمد راشد علی عطّاری مدنی

یکم ربیع الاول1442ھ

روایت میں ہے:

من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ

جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔

مجھے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی سے منسلک ہوئے 15سال سے زائد عرصہ ہوگیاہے، میں اگرچہ دعوتِ اسلامی کے اندر کا ہوں، کسی کے ذہن میں شاید یہ آئے کہ گھر کا بندہ ہے گھر کے قصیدے پڑھ رہا ہےلیکن

واللہ! آج بالکل غیر اختیاری طور پر امیرِ اہلِ سنّت علّامہ الیاس قادری اور دعوتِ اسلامی کا شکریہ ادا کرنے کا دل کررہا ہے۔

بالکل غیر جانبدار رہ کر

جی ہاں!

یوں تو علامہ الیاس قادری صاحب نے زندگی کے کئی شعبہ جات میں انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔

قریہ قریہ تعلیم قراٰن کے مدارس کھول دیئے

جگہ جگہ تقسیم وراثتِ انبیاء کے مراکز یعنی جامعات المدینہ کھول دیئے

اور نہ جانے کیا کیا انقلابی خدمات ہیں لیکن میں یہاں صرف ایک ڈیپارٹ کی بات کرنا چاہوں گا وہ ہے ”آئی ٹی مجلس دعوتِ اسلامی“

گزشتہ ہفتے نیت بنی کہ رسولِ کریم ﷺ کی آمد کے پیارے مہینے ربیع الاول کو اس بار بالکل الگ انداز میں منانا ہے، جس کے لئے فیصلہ ہو ا کہ پورا مہینہ سیرتِ رسولِ کریم ﷺ پربیانات کئے جائیں، ایک جدول بنایا جائے، ہر روز الگ موضوع ہو ،

جو پہلے دن کا موضوع منتخب ہوا وہ ہے

”رسول اللہ ﷺ کی شان قراٰن کی روشنی میں“

اب معاملہ تھا اس موضوع پر مواد جمع کرنے کا،

یوں تو مارکیٹ میں اس موضوع پر کتب بھی موجود ہیں اور انٹرنیٹ پر طرح طرح کے کالم بھی

لیکن اپنا ارادہ تھا کہ اپنی محنت

بس جو پہلا اور آخری ذریعہ ہاتھ آیا وہ تھا

علامہ محمد الیاس قادری صاحب کی دعوتِ اسلامی کی طرف سے بنایا گیا سافٹ وئیر

القراٰن الکریم

جی ہاں اس سافٹ وئیر میں آیات، ترجمہ اور تفسیر سرچ کرنے کا آپشن ہے، اس میں متن قراٰن، ترجمہ کنزالایمان اور تفسیر خزائن العرفان سرچ و کاپی پیسٹ کی سہولت کے ساتھ موجود ہے،

بس بیٹھے بیٹھے جو جو شانِ رسالت پر نکتہ ذہن میں آتا گیا اسے لکھتا گیا اور اس کی آیت منٹ سے بھی کم دورانیہ میں اس سافٹ وئیر کے ذریعہ سے ملتی گئی،

الحمد للہ صرف ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ میں 30 صفحات کا آیات قراٰنیہ و ترجمہ کنزالایمان کا مجموعہ تیار ہوگیا۔

شکریہ ! شکریہ! شکریہ!

اے الیاس قادری!(دام اللہ ظلک علینا) اے دعوتِ اسلامی!

اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تِری دھوم مچی ہو


نام کتاب: جَدُّ الْمُمْتارعَلٰی رَدِّ الْمُحْتار

جلدوں کی تعداد: 7

کل صفحات: 4000

فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’فتاوی شامی‘‘ جسے ’’رَدُّ الْمُحْتَار‘‘ بھی کہا جاتا ہے اس پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے انتہائی مفید تحقیقی حواشی تحریر فرمائے ہیں جسے جدید تحقیقی معیار کے مطابق سات جلدوں میں انتہائی مزین انداز میں مکتبۃ المدینہ نے شائع کیا ہے، یہ کتاب در اصل علامہ ابن عابدین شامی قُدِّسَ سِرُّہ السَّامی کی کتاب ردالمحتار پر عربی زبان میں حاشیہ ہے۔ اور’’رد المحتار‘‘ علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمہ کی’’در مختار‘‘ جو کہ امام تمرتاشی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’تنویر الابصار‘‘ کی شرح ہے، اس پر حاشیہ ہے۔دعوتِ اسلامی کی مجلس المدینۃ العلمیہ کے شعبہ کتب اعلیٰ حضرت کے مدنی علمائے کرام نے اس کتاب میں درج ذیل کام کئے ہیں:

(1)تقدیم وترتیب (Presentation) :

٭ہر ”قَولُہُ“ پر نمبرنگ کا قیام ٭جدید عربی رسم لخط کے التزام کے ساتھ ساتھ رموز واوقاف کا اہتمام ٭مشکل الفاظ پر اعراب ٭کتاب، باب اور فصل کا قیام۔

(2)تخریج وتحقیق (References & Research):

٭قرآنی آیات، احادیث کریمہ اور عبارتوں کی تخریج ٭وہ کتابیں جو طبع ہی نہیں ہوسکیں اور مخطوطے کی شکل میں ہیں ان کی تخاریج

امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی عادتِ کریمہ ہے کہ کسی مسئلہ میں چند کتابوں کی عبارتیں ذکر کرنے کے بعد اپنے مؤقف کی تائید میں دیگرکئی کتابوں کے صرف نام ذکر فرمادیتے ہیں تو ان کی بھی تخریج کا اہتمام کیا گیا ہے۔

کبھی اس مسئلہ کی تحقیق کسی دوسری جگہ فرماچکے ہوتے ہیں تو اس کی طرف صرف اشارہ فرمادیتے ہیں تو ان کی بھی تخاریج کی کوشش کی گئی ہے۔

امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے رد المحتار پر حواشی کے ساتھ ساتھ کئی علوم وفنون اور کتب پر بھی حواشی رقم فرمائے ہیں اور جد الممتار میں کئی جگہ ان کا حوالہ بھی دیا ہےتو ان حواشی کی تخریج کے ساتھ وہاں بیان کردہ امام کی تحقیق کو بھی کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔

جہاں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے کسی حدیث مبارکہ کی طرف اشارہ کیا ہے تو غوروخوض کے بعد امام کی مرادی حدیث مبارکہ بھی مکمل بیان کردی گئی ہے۔

اپنی رائے،تحقیق اور اضافہ جات کو امام اہلسنّت کی عبارت سے الگ رکھا گیا ہے تاکہ غلطی کی صورت میں مصنف علیہ الرحمہ کا دامن پاک رہے۔

عرب دنیا میں رائج جدید اندازِ تحقیق وتخریج اختیار کیا گیا ہے۔

(3)تقابل (Comparison) :

پوری کتاب کا ایک سے زائد مرتبہ تقابل کیا گیا ہے۔

اس حاشیے کی ابتدائی دوجلدیں (کتاب الطہارۃ تاکتاب الطلاق) الجمع الاسلامی مبارکپور ہند سے شائع ہوچکی تھیں تویہاں تک کے تقابل اور کام میں بھی اسی نسخہ کو معیار بنایا گیا ہے اس کے بعد کتاب الایمان سے آخرکتاب تک کا مواد مخطوطے کی شکل میں تھا لہذا اس کا تقابل مخطوطے سے کیا گیا ہے۔

صحتِ متن کیلئے حتی المقدور کوشش کی گئی ہے، اس میں صحتِ عبارت کے ساتھ ساتھ فقہی صحت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ فارسی عبارتیں ماہرین سے چیک کروائی گئی ہیں، اور دیگر فنی ابحاث مثلاً کتاب الصلوۃ میں جہاں علم توقیت کے حوالے سے گفتگو آئی ہے وہاں درجہ اور دقیقہ وغیرہ میں علم توقیت کے ماہرین سے بھی مدد لی گئی ہے۔

(4)تعریب (Arabic Translation):

جہاں کہیں اردو یا فارسی عبارتیں آئی ہیں ان کی عربی بھی بنائی گئی ہے۔

(5)تراجم (Books Intro. & Persons Biography):

جہاں کہیں امام اہلسنت نے کسی شخصیت یا کتاب کا نام ذکر کیا ہے تو ان کا مختصر تعارف بھی کردیا گیا ہے اسی طرح کتاب کے مصنف کا نام ، اس کتاب کا موضوع وغیرہ بیان کردیا گیا ہے۔

(6)فتاویٰ رضویہ:

اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ فتاویٰ رضویہ میں جہاں کہیں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے تنویر الابصار، در مختار یا رد المحتار کی کسی عبارت پر کوئی کلام فرمایا ہے۔ اسے مکمل تلاش اور چھان بین کے بعد شامل کردیا گیا ہے البتہ اصل حواشی اور فتاویٰ رضویہ کے اضافہ جات میں فرق کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔

(7)فہارس:(Indexes)

اس کتاب کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں 9 طرح کی فہرستیں بنائی گئی ہیں جنہیں آپ کتاب میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

علماء ومفتیانِ کرام بالخصوص تخصص فی الفقہ کےاسلامی بھائیوں کی سہولت کیلئے امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کا عظیم الشان رسالہ ’’ اَجْلَی الْاِعْلَام اَنَّ الْفَتْوٰی مُطْلَقًا عَلٰی قَوْلِ الْاِمَام ‘‘ کو تحقیق وتخریج کے ساتھ پہلی جلد میں شامل کیا گیا ہے، بحمد اللہ اب یہ رسالہ علیحدہ بیروت سے بھی شائع ہوچکا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی کی اس کاوش کو علمائے کرام کی طرف سے خوب سراہا گیا اور اس پر تحقیقی کام کرنے والوں کو دعاؤں سے نوازا گیا۔ اسی کی برکت ہے کہ امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی غیر مطبوعہ تصانیف پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور اس وقت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’’ہدایہ‘‘ اور اس کی شروحات (فتح القدیر، عنایہ، کفایہ اور حاشیہ چلپی) پر لکھے گئے حواشی پر مندرجہ بالا انداز پر کام کرکے طباعت کیلئے بیروت روانہ کردیا گیا ہے جو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ عنقریب شائع ہوجائے گی، آخر میں اخلاص وقبولیت کیلئے دعاجو ہوں اوردعاگو ہوں کہ اللہ کریم اس چمن اور اس کے نگہبان شیخ طریقت امیر اہلسنّت حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری اور جملہ علما ومشائخ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا سایہ اور شفقتیں تادیر قائم ودائم رکھے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم