(1) حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: عالم کی موت دینِ اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے کہ جب تک رات اور دن بدلتے رہیں گے کوئی چیز اس شِگاف کو نہیں بھر سکتی۔( جامع بیان العلم وفضلہ،ص213،رقم:654)حضرت سیّدنا سفیان بن عُیَیْنَہ رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں: لاعلموں کے لئے بھلا اہلِ علم کی وفات سے زیادہ سخت مصیبت اور کیا ہوسکتی ہے۔( شرح السنۃ للبغوی،1/249)

(2) حضرت کعب فرماتے ہیں:تم پر لازم ہے کہ علم کے چلے جانے سے پہلے اسے حاصل کرلو، بےشک اہلِ علم کا وفات پانا علم کا جانا ہے ، عالم کی موت گویا ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، عالم کی موت ایک ایسی دراڑ ہے جو بھری نہیں جاسکتی، ایک ایسا شگاف ہے جو پُر نہیں ہوسکتا، علما پر میرے ماں باپ قربان، ان کے بغیر لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 31)

(3) حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا:کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کیسے کمزور ہوگا؟ لوگوں نے عرض کی: کیسے؟ فرمایا:جیسے جانور اپنے موٹاپے سے کمزوری کی طرف جاتاہے، اور جیسے کپڑا طویل عرصہ پہننے سے کمزور ہوجاتاہے اور جیسے درہم طویل عرصہ چلتے رہنے سے گھِس جاتاہے، ہوگا یوں کہ ایک قبیلہ میں دو عالم ہوں گے، پس جب ان میں سے ایک فوت ہوجائے گا تو آدھا علم جاتا رہے گا اور جب دوسرے کا انتقال ہوجائے گا تو سارا علم جاتا رہے گا۔ (اخلاق العلماء للآجری،صفحہ33)

(4) حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:لوگ اس وقت تک خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک کہ پہلے سے دوسرا علم حاصل کرتا رہے گا، پس جب کبھی پہلا فوت ہوگیا اور دوسرے نے اس سے علم نہ سیکھا تو یہ لوگوں کی ہلاکت ہوگی (یعنی جب علم اگلی نسل تک نہ جائے گا تو گویا وہ لوگ ہلاک ہوجائیں گے)۔ (سنن دارمی، المقدمہ، باب ذھاب العلم، جلد1، صفحہ314، حدیث:255)

(5) حضرت سیّدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ شیاطین نے ابلیس سے کہا: اے ہمارے آقا! کیا معاملہ ہے ؟ ہم نے دیکھا ہے کہ آپ ایک عالم کی موت پر جتنا خوش ہوتے ہیں عابد کی موت پر نہیں ہوتے؟ ابلیس نے کہا: چلو میرے ساتھ آؤ، وہ سب چل پڑے اور ایک عبادت گزار کے پاس آئے جو نماز پڑھ رہا تھا، (وہ نماز سے فارغ ہوا تو ) ابلیس نے اسے کہا: ہم آپ سےایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ کیا آپ کا رب اس بات پر قادر ہے کہ وہ ساری دنیا کو ایک انڈے میں ڈال دے؟ اس عابد نے کہا: نہیں، ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا: کیا تم نے دیکھا کہ وہ اسی وقت کافر ہوچکا ہے، پھر وہ ایک عالم کے پاس آئے جو اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا باتوں اور خوش طبعی میں مصروف تھا، ابلیس نے کہا: ہم آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں؟ عالمِ دین نے کہا: پوچھیں، ابلیس نے کہا: کیا آپ کا رب اس بات پر قادر ہے کہ وہ ساری دنیا کو ایک انڈے میں ڈال دے؟ انہوں نے کہا: بالکل کرسکتاہے؟ ابلیس نے کہا: کیسے؟ عالمِ دین نے کہا: جب وہ اس کا ارداہ فرمائے گا تو صرف کن فرمائے گا اور ہوجائے گا۔ ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا: دیکھا تم لوگوں نے، یہ اپنے نفس کے پیچھے نہیں چلتا اور یہی چیز مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہے۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ127، رقم:127)

(6) علم حاصل كرو اس سے پہلے کہ یہ قبض کرلیا جائے، علم کاقبض ہونا اہلِ علم کے وصال سے ہوتاہے، عالم اور متعلم یعنی دینی استاد اور شاگرد دونوں خیر میں حصہ دار ہوتے ہیں، ان کے علاوہ تمام کے تمام لوگوں میں کوئی خیر نہیں، بے شک لوگوں میں سے سب سے بڑا غنی وہ عالم ہے جس کے علم کے لوگ محتاج ہوں، پس جو کوئی اس کی طرف حاجت لاتاہے نفع پاتاہے، اگر لوگ اس کے علم سے بے پرواہ ہو جائیں تو بھی عالم کو اپنے علم کا وہ نفع ضرور ملتا ہے جو اللہ کریم نے اس میں رکھا ہے، کیا بات ہے ؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے علما رخصت ہوتے جارہے ہیں اور بے علم لوگ علم حاصل نہیں کرتے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ علم رکھنے والا پہلا رخصت ہوجائے اور دوسرے نے اس سے علم نہ سیکھا ہو، اگر علم والا مزید علم کی طلب کرے تو اس سے علم میں اضافہ ہی ہوگا کچھ نقصان نہ ہوگا، اوراگر جاہل علم کی طلب کرے تو علم کو موجود پائے گا، آخر کیا بات ہے کہ میں تمہیں کھانے سے سیر تو دیکھ رہا ہوں لیکن علم سے خالی دیکھ رہاہوں۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ602، رقم:1036)

(7) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسولِ کریم ﷺ کو فرماتے سنا:طالب علم کو جب راہِ طلبِ علم میں موت آجائے تو وہ شہادت کی موت ہے۔(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ121، رقم:115)

(8) حضرت سیّدنا عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے: جیسے جیسے علما کا وصال ہوتا جائے گا حق کا اثر کم ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ جہالت کی کثرت ہوجائے گی اور علماء رخصت ہوجائیں گے، پس لوگ اپنی جہالت پر ہی عمل کریں گے اور جاہلوں سے ہی دین سیکھیں گے اور راہِ راست سے گمراہ ہوجائیں گے۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ 603، رقم:1038)

علمی شخصیات کے وصال پر اہلِ دانش کا اظہارِ افسوس

حضرت سیّدنا عبدُاللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے امیر ُالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے وصال پر فرمایا:میں سمجھتا ہوں کہ آج علم کے دس میں سے نو حصّے چلے گئے۔( معجم کبیر،9/163، رقم:8809)

جب حضرت سیّدنا زید بن ثابت کا وصال ہوا تو حضرت سیدنا عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس طرح علم رخصت ہوتاہے، تحقیق آج علمِ کثیر دفن کردیا گیا۔(مستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ، جلد3، صفحہ484، حدیث:5810)

حضرت ابوایّوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب مجھے اہل سنت میں سے کسی فرد کے فوت ہونے کی خبر ملتی ہے تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے اعضاء میں سے کوئی عضو جدا ہوگیا ہو۔(حلیۃ الاولیاء، ایوب سختیابی، جلد3، صفحہ9)

ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

تعلیم و تعلم کی فضیلت و اہمیت کو ہم جانتے ہیں، علمائے کرام تعلیم و تعلیم کی وجہ سے باعثِ شرف و فضل ہیں، وہ کسی کو دنیا کا مال نہیں دیتے بلکہ علم سکھاتے ہیں اسی لئے دینِ اسلام میں ان کو فوقیت حاصل ہے، ان کی زندگیاں اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کو راہِ حق کی جانب بلانے کے لئے ہوتی ہیں،علماء گمراہوں کو ہدایت کی جانب بلاتے ہیں، لوگوں کی جانب سے اذیتوں پر صبر کرتے ہیں، مردہ دلوں کو کتابِ الٰہی کے ذریعے زندہ کرتے ہیں، بصیرت سے اندھوں کو اللہ کے نور سے بینا کرتے ہیں، شیطان کے ہاتھوں قتل ہونے والے کتنے ہی ایسے ہیں کہ جن کو علما نے زندہ کردیااور کتنے ہی ہیں کہ جو گمراہی کے گڑھے میں تھے علما نے ان کو راہِ راست دکھائی۔یاد رہے کہ جو اپنے نفس کے لئے جیتا ہے جلد مرجاتاہے اور جو نفس کی بجائے کسی اچھے مقصد کے لئے جیتا ہے تو برسوں زندہ رہتاہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! علماکا وصال فرما جانا ہمارے لئے لمحۂ فِکریہ ہے، اس لئے اَشد ضرورت ہے کہ ہم علمائے کرام کی قدرو توقیر اورعلمِ دین کے حصول کی جانب متوجہ ہوں، اپنے بچوں کو حافظِ قراٰن اور عالمِ دین بنائیں۔ ([1])

علماہی کے دَم سے علم کا وجود ہے جب اللہ پاک اس دنیا سے علما کو اُٹھالے گا تو ان کی جگہ جاہل بیٹھ جائیں گے اور دین کے حوالے سے ایسی باتیں کریں گے کہ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ انٹرنیٹ پر اپنی مرضی کی دینی تشریحات اور عقائدِ اہلِ سنّت کے مخالفین کی موجودگی ہمارے دور میں عام ہے۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے علاقے اور شہر کے عاشقانِ رسول علمائے کرام کا دامن تھام لے اور ہر طرح کے معاملے میں صرف مفتیانِ اہلِ سنّت سے شرعی راہنمائی لے۔

نیز نوجوان علما کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی حفاظت، نئی نسل کی اخلاقی وعلمی تربیت کے لئے تقریر و بیان، تدریس اور تحریر جیسے اہم ترین مَحاذوں پر اپنے اَکابِر کی کمی کو پوراکرنے کی کوشش کریں۔

کسی عالمِ دین کے وصال پر یہ ذہن نہ بنالیں کہ اب امت ختم ہوگئی ، نہیں نہیں بلکہ جو اہلِ علم ، علمائے کرام و مفتیانِ عظام حیات ہیں ان کو غنیمت جانیں، ان کے وجود پر اللہ کا شکر ادا کریں اور ان کے دامن سے مخلص ہو کر وابستہ ہوجائیں۔

ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم علمِ دین سیکھنے سکھانے کے لئے کمر کس لیں، عوام و خواص سبھی کو علمِ دین کی جانب متوجہ ہونے کی اشد ضرورت ہے، دینی طلبہ کو تو بہت ضرورت ہے کہ دین سمجھنے اور علم کی گہرائی تک جانے کے لئے خوب محنت کریں۔ طلبا کو یاد رکھنا چاہئے کہ بڑے بڑے علمائے کرام و مفتیان عظام نے یونہی مقام نہیں پایا انہوں نے اپنی زندگیاں علم دین کی طلب میں گزاردیں، علم کے لئے مال خرچ کیا جمع نہیں کیا، سفر کئے ایک ہی جگہ آرام میں نہیں رہے، صبر کیا ، رضائے الٰہی پر راضی رہے، عاجزی و انکساری کو اپنایا۔



([1])اپنے بچوں کو حافظِ قراٰن بنانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مدارسُ المدینہ اور عالمِ دین بنانے کے لئے جامعاتُ المدینہ میں داخلہ دلوائیے۔