شرح فقہ اکبر (از ملا علی قاری) جامعات المدینہ نیز تنظیم المدارس کے درجہ سابعہ کے نصاب میں شامل ہے اسی لئے چند
ماہ قبل المدینۃ العلمیہ نے شرح فقہ اکبر کو مکتبۃ المدینہ سے شائع کروانے کا ارادہ کیا۔اس کتاب پر شعبہ درسی کتب نے
کام کیالیکن کام کے دوران کتاب کے چند
ایسے مقامات سامنے آئے جن میں شرعی اغلاط تھیں چنانچہ ایسے مقامات پر فتاوی
رضویہ ودیگر کتب سے حاشیہ لگا کر واضح کر دیاگیا نیز صحیح مسئلہ وموقف بھی
بیان کردیاگیا جیسا کہ علمیہ کا اسلوب ہے۔کتاب چھپنے کے لئے پریس پر چلی گئی اور
اس بات کو چند ماہ گزر گئے۔ مجلس علمیہ کی ایک اچھی عادت ہے کہ وقتاً فوقتاً کام
کے حوالے سے پوچھ گچھ رکھتی ہے کہ کس کتاب پر کیا کام کیا ہورہا ہے وغیرہ، لہٰذا
آج سے کچھ عرصہ قبل میرا مجلس کے ساتھ بیٹھنا ہوا تومجلس نے کام کے بارے میں
پوچھا، میں نے تمام کارکردگی پیش کردی۔ اسی دوران شرح فقہ اکبر کے بارے میں بھی
بات چلی تو فقیر نے اس کے بارے میں بھی مختصرا ًبتایا لیکن جب مجلس کو پتا چلا کہ
ہم نے اس کتاب کی متعددشرعی اغلاط کودرست
کیا ہے حتی کہ وہ اغلاط جو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے دَور سے چلی آرہی ہیں انکی
بھی تصحیح کردی گئی ہےنیز متن کی تصحیح میں حتی الامکان کافی توجہ دی گئی ہے تو
نگران مجلس المدینہ العلمیہ ورکن شوری جناب مولانا محمد شاہد عطاری مدنی نے
ارشاد فرمایا کہ جو کام آپ نے کیا ہے اگر اسکا کچھ تعارف ایک جگہ جمع کر دیا جائے
تو آپ کا کام ایک نظر میں سامنے آجائے گااور ہم اسے کسی ماہنامے یا شمارے میں
شائع کردیں گےچنانچہ مجھے بھی اس کی افادیت کا اندازہ ہوگیا کہ اسطرح اہل علم
حضرات تک ہم صحیح دینی مواد پہنچاسکیں گےنیز دعوتِ اسلامی اور اعلی حضرت کا نام مبارک مزید روشن کر سکیں گے۔الغرض انھوں
نے اس بات کا اصرار بھی کیا اور ترغیب بھی دلائی، انکی اسی ترغیب کے سبب"
شرح فقہ اکبر پر علمیہ کے کام" کے سلسلے میں کچھ لکھنے کا قصد کیا۔ اہل
علم وفن بالخصوص علماء کرام سے گزارش ہےکہ اگر اس میں کوئی کوتاہی ہو تو ضرور مطلع
فرمائیں۔ انسان بہر حال خطاء کا پتلا ہے غلطی کا امکان پھر بھی باقی ہے۔ واللہ
المستعان وعلیہ التکلان۔
شرح فقہ اکبر پر مختلف زاویوں سے کام کیا گیا ہے ، اس کام
میں سے چند مقامات کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ غیر اللہ پر لفظِ قیوم کے اطلاق کو جائز لکھا تھا ہم نے ثابت کیا کہ یہ ناجائز ہے
اورکتاب میں الحاق ہے۔
۲۔ لکھا تھا کہ "یہ جائز نہیں کہ ابن ملجم کو حضرت علی
رضی اللہ عنہ کا اور ابو لؤلؤ کو
حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کا قاتل کہا جائے
کیونکہ انکا قاتل ہونا تواتر ویقین سے ثابت نہیں"۔ ہم نے اسے درست کردیا اور
لکھا: جی ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم نے حضرت علی کو اور ابو لؤلؤ نے حضرت
عمر کو قتل کیا (رضی اللہ عنہما)، کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے۔
۳۔ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں والدینِ کریمین کے عدمِ
ایمان کا قول کیا ہے۔اور اس کی بنیاد امام اعظم کی اس عبارت پر رکھی:
(ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر) (الفقه الاكبر)، لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ یہ عبارت امامِ اعظم کی نہیں،
مزید برآں ملا علی قاری کا اپنے موقف سے رجوع ثابت کیا۔
۴۔ سید المکاشفین شیخ ابن عربی (متوفٰی638ھ) جلیل القدر ولی وصوفی بزرگ گزرے ہیں
لیکن ملا علی قاری نے غلطی کی بنا پر انکا رد کیا اور کہا کہ یہ قبولِ ایمانِ
فرعون کے قائل ہیں۔ ہم نے ثابت کیا کہ
ایسا نہیں ہے۔
پہلی مثال
شرح فقہ اکبر میں ہے
فما سمّى به الربّ نفسه وسمّى به مخلوقاته مثل الحيّ والقيّوم والعليم
والقدير, أو سمّى به بعض
صفات عباده, فنحن نعقل بقلوبنا معاني هذه الأسماء في حق الله.....إلخ([1])
اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ بعض اسماء ایسے ہیں جن کا اطلاق اللہ تعالی نے خود اپنی ذات پر بھی کیا
ہے اور ان سے بندوں کو بھی موسوم فرمایا ہے جیسے حی ،قیوم، علیم، قدیر۔تو ایسے اسماء
کے معانی کو ہم اللہ تعالی اور بندوں دونوں کے حق میں دل سے تسلیم کرتے ہیں لیکن
فرق کے ساتھ یعنی اللہ بھی حی ہے اور بندہ بھی لیکن اللہ خود سے حی ہے اور بندہ خدا کے
بنائے سے، اللہ ازل سے حی ہے اور ابد تک لیکن بندہ حادث اور فانی ہے۔ وعلی
ھذا القیاس البواقی الی فروق کثیرۃ۔
لیکن شرح فقہ اکبر کی مذکورہ عبارت میں ایک فحش غلطی ہے جس کی وجہ آگے آرہی
ہے۔
غلطی یہ ہے کہ اس عبارت میں غیر اللہ پر لفظ (قیوم) کے اطلاق کو جائز کہا گیا ہے حالانکہ یہ جائز
نہیں۔ ہمارے موقف کی تائید امام اہل سنت اعلی حضرت کی اس عبارت سے ہوتی ہے۔
[ہماری نظر میں ہیں وہ کلمات جو اکابر اولیاء سے گزر کر اکابر علماء معتمدین
مثل امام ابن حجر مکی وملا علی قاری وغیرہما کی کتب مطبوعہ میں پائے جاتے ہیں، اور
ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ الحاقی ہیں، ایک ہلکی نظیر علی قاری کی شرح فقہ اکبر صفحہ
۴۷ پر ہے:
ماسمی بہ الرب نفسہ وسمی بہ مخلوقاتہ مثل الحی والقیوم
والعلیم والقدیر([2]) ۔
نا م کہ رب تعالٰی نے اپنے لئے اور مخلوق کے لئے مقرر فرمائے وہ
مثل حی، قیوم، علیم، قدیر ہیں۔ (ت)
اس میں مخلوقات
پر قیوم کے اطلاق کا جواز ہے حالانکہ ائمہ فرماتے ہیں کہ غیر خدا کو قیوم کہنا کفر
ہے۔
مجمع الانہر میں ہے: اذا اطلق علی المخلوق من الاسماء المختصۃ
بالخالق نحو القدوس والقیوم والرحمٰن وغیرھا یکفر([3]) ۔
جو اللہ تعالٰی کے مخصوص ناموں میں سے کسی نام کا اطلاق مخلوق
پر کرے، جیسے قدوس، قیوم اور رحمن وغیرہ تو وہ کافر ہوجائے گا۔ (ت)
اسی طرح او رکتابوں میں ہے۔حتی کہ خود اسی شرح فقہ اکبر صفحہ ۲۴۵
میں ہے:
من قال لمخلوق یا قدوس اوالقیوم او الرحمٰن کفر ([4])۔
جو کسی مخلوق کو قدوس یا قیوم یا رحمٰن کہے کافر ہوجائے۔
پھر کیونکر مان سکتے ہیں
کہ وہ صفحہ ۴۷ کی عبارت علی قاری کی ہے ضرور الحاق ہے۔](فتاوی رضویہ 15/560)
شرح فقہ اکبر پر کام کے دوران جب ہم اس مقام پر پہنچے تو ہم نے حاشیہ لگا کر
عبارت کے سقم کو ظاہر کر دیا۔ فلله
الحمد.
دوسری مثال
شرح فقہ اکبر میں ہے:
بل لا يجوز أن
يقال إن ابن ملجم قتل عليا رضي الله عنه ولا أبو لؤلؤة قتل عمر رضي الله عنه فإن
ذلك لم يثبت متواترا([5]).
اس عبارت میں بھی ایک فحش غلطی ہے کہ
جائز کو ناجائز لکھ دیا ہےاور کہا گیا ہے کہ:
[یہ جائز نہیں کہ ابن ملجم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اور ابو لؤلؤ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاتل کہا جائے کیونکہ ان کا قاتل ہونا تواتر
ویقین سے ثابت نہیں]
حالانکہ صحیح عبارت یہ ہے:
صحیح
عبارت: نعم
يجوز أن يقال: قتل ابن ملجم عليا رضي الله عنه وقتل أبو لؤلؤة عمر رضي الله عنه،
فإن ذلك ثبت متواترا.
یعنی جی ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم نے حضرت علی کو اور ابو لؤلؤ نے حضرت
عمر کو قتل کیا (رضی اللہ عنہما)، کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے۔
اب اسکی دلیل ملاحظہ فرمائیں۔
دلیلِ
اول: امامِ اہل سنت اعلی حضرت فرماتے ہیں:
وقع هاهنا في
نسخة شرح الفقه الأكبر الشائعة في بلادنا تحريف شديد فنُقل فيها لفظ الإحياء هكذا:
بل لايجوز أن يقال إن ابن ملجم قتل عليا ولا أبو لؤلؤ قتل عمر فإن ذلك لم يثبت
متواترا.هـ, وهو باطل صريح كما لا يخفى, والصواب ما نقلتُ فليتنبه. (الزمزمة
القُمرية, ص:27)
اعلی حضرت کے اس قول سے پتا چلا کہ عبارت میں تحریف ہوئی ہے۔نوٹ: اعلی حضرت نے
جو صحیح عبارت بیان فرمائی وہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔
دلیلِ
ثانی: شرح فقہ اکبر میں احیاء العلوم کی جس عبارت کا تذکرہ کیا
گیا ہے اسے اگر احیاء العلوم میں دیکھا جائے تو اس طرح ہے:
نعم يجوز أن
يقال: قتل ابن ملجم عليا وقتل أبو لؤلؤة عمر رضي الله عنهما, فإن ذلك ثبت متواترا. (احیاء علوم الدین ۳/۱۵۴ دار صادر بیروت)
اسی طرح دار المعرفہ والی احیاء العلوم میں ہے اور اسی طرح شاملہ میں ہے۔اور
یہ عبارت بعینہ اسی طرح ہے جس طرح اعلی حضرت نے بیان فرمائی۔
افسوس: لیکن ہمیں افسوس وحیرانی اس بات کی ہے کہ ہمارے پاس موجود
شرح فقہ اکبر کے جتنے بھی مطبوعے یا نسخے ہیں (مطبوعہ صورت میں اور نیٹ سے حاصل کئے گئے پی ڈی ایف نسخے) سب میں احیاء
العلوم سے نقل کردہ عبارت غلط مرقوم ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ حیرانی اس وقت ہوئی
کہ جب بیروت (دار البشائر الاسلامیہ )کی چھپی ہوئی شرح فقہ اکبر دیکھی کہ
عبارت وہی کی وہی غلط۔ مزید برآں یہ حیرانی یہاں نہ رکی بلکہ ترقی کر کے اس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ گئی جب اسی بیروت والی شرح فقہ اکبر(کے مبحوث عنہ مقام) پر محشی کا حاشیہ دیکھا وہ حاشیہ کیا تھا ملاحظہ فرمائیے:
إذن لِمَا ذا قتلهما أصحابُ رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ أليس لأنه ثبت
لديهم قتلُهما؟ اللهم بلى([6]).
یعنی اگر اس بات کو صحیح مان لیا جائے(کہ قاتلین کا
یقینی طور پر پتا نہیں چلا تھا یا انکا قاتل ہونا تواتر سے ثابت نہیں) تو پھر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قتل
کیوں کیا ، کیا اس وجہ سےنہیں کہ انکا قتل کرنا صحابہ کے نزدیک ثابت ہو گیا تھا؟
کیوں نہیں، ضرور(ثابت ہو گیا تھا)۔
یہ حاشیہ محشی نے ایک اشکال واعتراض کی صورت میں لگایا ہے لیکن یہ اعتراض تو
اس صورت میں ہوگا جب عبارت کو درست مان لیا جائے جیسا کہ لفظِ اذن سے ظاہر ہے([7])۔دوسری بات یہ کہ ان دونوں کو صحابہ کرام نے قتل کیا تھا تو
اس میں بھی کلام ہے۔
حیرانی اس وجہ سے ہوئی کہ محشی کو یہاں حاشیہ لگانے کے بجائے احیاء العلوم میں
یہ عبارت دیکھنی چاہئے تھی کیونکہ یہ عبارت احیاء العلوم کے حوالے سے شرح فقہ اکبر
میں نقل کی گئی ہے، اگر محشی احیاء العلوم میں دیکھ لیتے تو انہیں بخوبی اندازہ
بلکہ علم ہو جاتا کہ یہ عبارت امام غزالی کی نہیں ہے، لہذ ا اس عبارت پر مذکورہ
حاشیہ (بصورتِ اشکال واعتراض) لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
بہرحال ہم نے شرح فقہ اکبر پر علمیہ کی طرف سے کام کے دوران اس مقام پر تحقیقی حاشیہ لگا دیا ہے۔
تیسری مثال
ایمانِ والدینِ کریمین (فداہما ابی وامی)
مشہور ہے کہ ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
والدینِ کریمین کے عدم ایمان کا قول کیا ہے۔ہم نے اس مقام پر تحقیق کے بعد ایک
محتاط حاشیہ لگایا ہے۔ قبل اسکے کہ ہم اس حاشیہ کا خلاصہ بیان کریں۔یہ جان لینا
ضروری ہے کہ ملا علی قاری نے یہ موقف کیوں اختیار کیا۔ اس موقف کو اختیار کرنے کی
وجہ یہ ہے کہ ملا علی قاری کے سامنے فقہ اکبر( مصنف امام اعظم ) کا جو متن تھا اس میں کاتب کی غلطی([8]) سے یا کسی کی تحریف سے یہ عبارت
مذکور تھی:
(ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر)([9]).
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا کفر پر خاتمہ ہوا۔ (معاذ اللہ)
ملا علی قاری نےیہ گمان کر کے کہ امام اعظم جیسے عظیم مجتہد نے جب یہ قول کہا ہے توضرور درست ہوگا اسی کو
اختیار کیا اور اسی کے دلائل دئیے۔ حالانکہ یہ قول امامِ اعظم کا نہیں بلکہ انکی
عبارت میں تحریف یا کاتب کی غلطی تھی۔
اب آئیےاسکی تفصیل کی طرف۔
جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ مذکورہ بالا عبارت میں تحریف یا کاتب کی غلطی
ہے۔اب صحیح عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
(ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم ما ماتا على الكفر).
اس عبارت کا ترجمہ ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین کا خاتمہ کفر
پر نہیں ہوا۔
دیکھئے کس طرح صرف ایک حرف([10])سے عبارت کا مفہوم واضح ودرست ہو گیا۔اس عبارت کے صحیح اور
اس سے پچھلی عبارت کے غلط ہونے کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
دلائل:
امام
زاہد کوثری فرماتے ہیں:
الحمد للہ خود میں نے اور میرے دوستوں نے دار الکتب المصریہ میں موجود فقہ اکبر کے دو قدیم نسخوں میں ما ماتا کے
الفاظ اور مکتبہ شیخ الاسلام کے دو قدیم نسخوں میں ماتا علی الفطرۃ کے الفاظ دیکھے
ہیں اور ملا علی قاری نے جو شرح کی ہے وہ غلط نسخہ کی بنیاد پر ہے، یہ ان سے بے ادبی ہوگئی ہے اللہ کریم انھیں معاف فرمائے([11])۔
علامہ
طحطاوی فرماتے ہیں:
وہ جو فقہ اکبر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا خاتمہ ایمان
پر نہیں ہوا یہ امامِ اعظم کے خلاف سازش ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فقہ اکبر کے
مستند نسخوں میں ایسا کچھ بھی نہیں([12])۔
شیخ
محمد بن ابراہیم بیجوری متوفی 1276فرماتے ہیں:
یہ امامِ اعظم کے خلاف سازش ہے ان کا دامن اس بات سے بری ہے اور ملا علی قاری (اللہ انکی مغفرت کرے) سے غلطی ہوئی کہ ایسا شنیع کلمہ کہا([13])۔
عبارت کا سقم:
قطع نظر ان دلائل کہ جو ہم نے ذکر کئے صرف عبارت پر ہی غور کر لیا جائے تو
بخوبی انداز لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں کچھ گڑبڑ ضرور ہےآئیے اب سقم عبارت دیکھتے
ہیں:
ملا علی قاری نے جو متن اختیار کیا ہے اسکی پوری عبارت یہ ہے:
(ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر وأبو طالب عمّه مات كافراً)
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا خاتمہ کفر پر ہوا اور ابو طالب حضور کا چچا بھی کفر پر مرا۔
عربی جاننے والے حضرات کے ذہن میں فورا یہاں یہ اشکال وارد ہو گا کہ جب والدین
کریمین اور ابو طالب دونوں کا خاتمہ کفر پر ہوا توان کو الگ الگ کیوں ذکر کیا
بلکہ عربی اسلوب کے مطابق سب کو یکجا کرکے
یوں کہا جاسکتا تھا:
ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم وأبو طالب ماتوا كفارا.
یعنی والدینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا۔
نہ یہ کہ والدین
کا کفرالگ بیان کیا جائے اور ابو طالب کا الگ اور کہا جائے:
(ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر) (وأبو طالب عمّه مات كافراً).
بخلاف اس صورت کے
کہ جب اِسے اُس طرح پڑھا جائے جیسے صحیح عبارت ہم نے بیان کی اور وہ یہ ہے:
(ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم ما ماتا على الكفر) (وأبو طالب عمّه مات كافراً).
آپ نے خود دیکھ
لیا کہ کس طرح عبارت صحیح عربی طرز واسلوب میں آکر مستقیم ہوگئی([14])۔ وللہ
الحمد
تحریف کی وجوہات:
اتنی بات ذہن نشین کر لینے کے بعد آئیے اب تحریف کی وجہ بھی علما کی زبانی
سنتے ہیں چنانچہ:
امام
زاہد کوثری فرماتے ہیں: بعض نسخوں میں (ماتا على
الفطرة) ہےاور½الفطرة¼ کا رسم الخط
½الكفر¼ سے ملتا جلتا ہے لہذا یہ خطِ کوفی
میں باآسانی ½الكفر¼ میں تحریف
وتبدیل ہو سکتا ہے([15])۔
حافظ
علامہ محمد مرتضٰی زبیدی (شارح احیاء العلوم وقاموس) اپنے رسالے
"الإنتصار لِوالدَي النبي المختار" میں فرماتے ہیں:میں نے ہمارے شیخ احمد بن مصطفٰی عمری حلبی مفتیِ لشکر ،
عالمِ معمر کے ہاں جو کچھ لکھا ہوا دیکھا اسکا معنی ومفہوم کچھ اس طرح ہے کہ: ناسخ
وکاتب نے جب لفظ ما ماتا میں ما کا تکرار دیکھا تو یہ گمان کیا کہ ایک ما زائد ہو
گیا ہے لہذا اسے حذف کردیا پھر یہ غلط عبارت والا نسخہ پھیل گیا۔ اور اسکے غلط ہونے
پر دلیل سیاق ِ خبر ہے کیونکہ اگر ابو طالب وابوین کریمین ایک ہی حالت (یعنی کفر) پر ہوتے تو مصنف ایک
ہی جملہ کہہ کر تینوں کو ایک ہی حکم میں جمع فرماتےنہ یہ کہ دو جملوں میں تذکرہ
کرتے باوجود یہ کہ ان تینوں کے حکم میں کوئی تخالف نہ ہوتا([16])۔
ملا علی قاری کا اپنے موقف سے رجوع:
ملا علی قاری علیہ رحمۃ الباری نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا اور ابوین
کریمین کے ثبوتِ ایمان کے قائل ہو گئے تھے چنانچہ خود شرح شفا میں فرماتے ہیں:
(وأما إسلام
أبويه ففيه أقوال، والأصح إسلامهما على ما اتفق عليه الأجلّة من الأمة كما بينه
السيوطي في رسائله الثلاث المؤلفة). ("شرح
الشفا" للقاري, 1/605)
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان کے بارے میں
چند اقوال ہیں اور سب سے صحیح قول انکے اسلام کا ہے جس پر امت کے جلیل القدر علماء
کا اتفاق ہے جیسا کہ امام سیوطی نے اپنے تین رسالوں میں بیان فرمایا۔
اسی شرح شفا میں ایک اور جگہ ملا علی قاری فرماتے ہیں:
(وأما ما ذكروا
من إحيائه عليه الصلاة والسلام أبويَه فالأصح أنه وقع على ما عليه الجُمهور
الثقات، كما قال السيوطي في رسائله الثلاث المؤلفات). ("شرح
الشفا" للقاري, 1/651)
یعنی یہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے
والدین کو (انکے انتقال کے بعد) زندہ فرمایا (اور پھر وہ آپ علیہ السلام پر ایمان
لائے) یہ درست ہے اور اسی بات پر جمہور ثقات متفق ہیں جیسا کہ سیوطی نے اپنے تصنیف
کردہ تین رسائل میں فرمایا۔
نوٹ: ملا علی قاری شرح شفا کی تالیف سے 1011ھ میں فارغ ہوئے
یعنی اپنی وفات سے صرف تین سال پہلے، لہذا یہ انکی آخری تالیفات میں سے ہے۔
ثبوتِ ایمان پر علما کی تالیفات وتصنیفات:
اگر فقہ اکبر کی عبارت درست ہوتی اور امامِ اعظم کا یہی موقف ہوتا کہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے والدین کا خاتمہ ایمان
پر نہیں ہوا تو کثیر علما ثبوتِ ایمانِ والدین کریمین پر تصنیفات وتالیفات کا خاص
اہتمام نہ کرتے اس موضوع پر علما نے جو کثیر کتب تالیف وتصنیف کی ہیں ہم ان کا
مکمل احصاء وشمار تو نہیں کر سکتے لیکن ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
(١).."شمول الإسلام لأصول
الرسول الكرام" للمجدد الأعظم الإمام أحمد
رضا خان, ت1340هـ
(٢).."مطلب في نجاة أبويه صلى الله عليه وسلم" للعلامة السيد محمد عبد الله الجرداني الشافعي, ت1331هـ
(٣).."الانتصار لوالدي النبي المختار" للإمام مرتضي الزبيدي, ت1205هـ
(4).."حديقة الصفا في والدي المصطفى" للعلامة أبو
محفوظ الكريم المعصومي الهندي, ت1430هـ
(5).."منهاج السنة في كون
أبوي النبي في الجنة" للعلامة ابن
طولون الدمشقي الحنفي, ت953هـ
(6).."رسالة في أبوي
النبي" لأحمد بن
سليمان بن كمال باشا, ت940هـ
(7).."انباء الاصطفاء في حق
آباء المصطفى" لمحمد بن قاسم بن يعقوب الأماسي, ت940هـ
(8).."تحقيق
آمال الداجين في أن والدي المصطفى بفضل الله في الدارين من الناجين" للإمام ابن
الجزار المصري, كان حياً سنة984هـ
(9).."الجوهرة المضية في حق أبوي
خير البرية" لصالح بن
محمد تمرتاشي الغزي, ت1055هـ
(10).."تأديب المتمردين في
حق الأبوين" لعبد الأحد بن مصطفى السيواسي, ت1061هـ
(١1).."تحقيق النصرة للقول
بإيمان أهل الفَترة"
(12).."منحة البارئ في إصلاح زلة القارئ" كلاهما لحسن
بن علي بن يحيى العجيمي المكي, ت1113هـ
(١3).."السرور والفرج في حياة إيمان والدي الرسول" لمحمد بن أبي بكر المرعشي ساجقلي, ت1150هـ
(١4).."تحفة الصفا فيما يتعلق
بأبوي المصطفى" لأحمد بن عمر الديربي الغنيمي الأزهري الشافعي, ت1151هـ
(١5).."بسط اليدين لإكرام
الأبوين" لمحمد غوث بن ناصر الدين
المدراسي ت 1238هـ
(١6).."القول المسدد في
نجاة والدي محمد" لمحمد بن عبد
الرحمن الأهدل الحسيني ت 1258هـ.
امام سیوطی کے چھے
رسائل:
(١7)..مسالك الحنفاء في والدي
المصطفى
(١8)..الدرج المنيفة في الآباء
الشريفة
(١9)..المقامة السندسية في
النسبة المصطفوية
(20)..التعظيم والمنة في أن أبوي
رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الجنة
(21)..نشر العلمين المنيفين في
إحياء الأبوين الشريفين
(22)..السبل الجلية في الآباء
العلية.
چوتھی مثال۔
سید المکاشفین شیخ ابن عربی (متوفٰی638ھ) جلیل القدر ولی وصوفی بزرگ گزرے ہیں([17]) ان کی متعدد عظیم تصنیفات بھی ہیں جن میں سے الفتوحات
المکیہ اور فصوص الحکم بہت مشہور ہیں۔ ان کے بارے میں بعض لوگوں میں یہ مشہور
ہوگیا تھا کہ انھوں نے اپنی تصنیفات میں فرعون کے ایمان کا قول کیا ہے حالانکہ یہ
بات درست نہیں بلکہ انکی عبارات سے بعض
لوگوں نے دھوکاکھایا اور انکے خلاف ہوگئے چنانچہ ملا علی قاری نے بھی شرح فقہ اکبر
میں شیخ اکبر ابن عربی کا رد کیا اور کہا کہ میں نے ابن عربی و جلال دوانی کے رد
میں مستقل رسالہ لکھا ہے([18]) اور اسمیں فرعون کے ایمان کے قول کا رد کیا ہے([19])۔
شرح فقہ اکبر پر کام کے دوران جب ہم اس مقام پر پہنچے تو ہم نے یہاں ایک حاشیہ
لگایا جس میں شیخِ اکبر کے بارے میں غلط تأثر کو رفع کیا اور ثابت کیا کہ شیخ
اکبراس اعتراض سے بری الذمہ ہیں۔
آئیے اب ہم اپنے حاشیے کا خلاصہ بیان کرتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ شیخ اکبرکی عبارت سےایمانِ فرعون کا مفہوم اخذ کرنا درست نہیں
اور اگر اس قسم کی کوئی عبارت ہے جس سے ایسا مفہوم نکلتا ہو تو وہ مصروف عن الظاہر
ہے۔([20])
الیواقیت والجواہر للشعرانی میں ہے کہ امام نووی سے جب ابن عربی کے بارے میں
پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
تلك أمة
قد خلت، لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عقل وشعور رکھنے والے ہر شخص پر حرام ہے کہ اللہ کے
کسی بھی ولی کے بارے میں برا گمان وخیال رکھے بلکہ اُس پر یہ واجب ہے کہ اولیاء کے
اقوال وافعال کی اچھی تاویل کرے جب تک کہ خود انکے درجے ومرتبے تک نہ پہنچ جائے([21])۔اور اس تاویل سے قلیل التوفیق ہی عاجز رہے گا([22])۔
یاد رہے کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے جان بوجھ کر اپنی تصنیفات میں ایسے
الفاظ استعمال کئے ہیں جنکے معانی تک غیر اہل شخص کی رسائی ممکن نہ ہو اور صرف وہی
حضرات سمجھ سکیں جنکو سمجھانا مقصود ہو۔ مثال کے طور پر حضرت موصوف کا ایک شعر ہے
جس میں خدا کو یوں پکارتے ہیں:
يا من يراني
ولا أراه |
|
كم ذا أراه
ولا يراني |
لفظی ترجمہ: اے وہ ذات جو مجھے دیکھتی ہے اور میں اسے نہیں دیکھتا۔۔۔کتنی
مرتبہ میں تو اسے دیکھتا ہوں لیکن وہ مجھے نہیں دیکھتی۔
اس شعر سے جب کسی نے دھوکہ کھا کر حضرت موصوف سے پوچھا کہ اسکا معنی بتائیں تو آپ نے فی الفور
جواب دیا:
يا من يراني
مجرما |
|
ولا أراه
آخذا |
كم ذا أراه
منعما |
|
ولا يراني
لائذا |
ترجمہ: اے وہ ذات (ذاتِ خدا) جو مجھے جرم کرتے دیکھتی ہے۔۔۔۔اور میں اسے گرفت
کرتے نہیں دیکھتا
اور کتنی مرتبہ میں اسے
نعمتوں کی بارش کرتے دیکھتا ہوں۔۔۔۔ اور وہ مجھے اپنی پناہ میں آتا نہیں دیکھتی([23])
قارئینِ کرام آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہو گاکہ کس طرح حضرت کے لفظ ولایرانی (وہ
مجھے نہیں دیکھتا) سے اشتباہ پیدا ہوااور کس طرح حضرت نے ولایرانی لائذا کہہ کر
اپنی مراد بتا دی۔اسی لئے علما نے فرمایا کہ صوفیا کی بظاہر غلط نظرآنے والی
عبارات یا انکے اقوال میں جتنا ممکن ہوسکے تاویل سے کام لیکر انکے اچھے معانی بیان
کئے جائیں۔ موجودہ دور میں بھی بعض لوگ اپنی کم فہمی یا ذاتی عناد کی بنا پراولیا
وصوفیا کی باتوں کا غلط مقصد بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں صوفیا نے
فرمایا:
حرامٌ عليهم
النظرُ في كتبنا.
یعنی ایسے لوگوں کے لئے ہماری کتابوں کو دیکھنا حرام
ہے۔کیوں کہ یا تو وہ خود کفر میں پڑ سکتے ہیں یا اولیا کی تکفیر کردیں گے۔
اور یہ الزام کہ شیخ اکبر نے ایمان فرعون کا قول کیا ہے تو اسکی تردید میں
امام عبد الوہاب شعرانی فرماتے ہیں:
منکر ومخالف کا ایک دعوٰی یہ ہے کہ شیخ اکبر قبولِ ایمانِ فرعون کے قائل ہیں
تو یہ شیخ پر کذب وافتراء ہے کیونکہ شیخ
اکبر خود اپنی کتاب الفتوحات المکیہ کے باسٹھویں باب میں تصریح فرماتے ہیں کہ
فرعون اُن اہل نار میں سے ہے جو کبھی بھی آگ سے نہ نکلیں گے۔اور فتوحات، شیخ کی
آخری تالیفات میں سے ہے کیونکہ وہ انتقال
سے تین سال قبل اس کتاب کی تالیف سے فارغ
ہوئے([24])۔
امامِ
اہل سنت اعلی حضرت کاابن عربی کے بارے میں موقف:
آئیے اب اس تمام تر بحث کواعلی حضرت
کے ارشادات در بارہ شیخِ اکبر پر ختم کرتے ہیں۔ تاکہ ختمِ سخن ہو اور کلام کی مزید
حاجت نہ رہے۔ہم یہاں صر ف ان القابات کا ذکر کریں گے جواعلی حضرت نے شیخ اکبر اور
انکی تالیف الفتوحات المکیہ کو دئیے ہیں تاکہ آپ خود شیخِ اکبر کے مقام ومرتبہ کا
اندازہ لگا سکیں، القابات یہ ہیں:
(١)حضرت سیدی امام المکاشفین محی الملۃ والدین شیخ
اکبر ابن عربی (٢) امامِ اجل, عارف کبیر (٣) اما م الطریقۃ بحر الحقیقۃسیدنا
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی الله تعالى عنه فتوحات مکیہ
شریف([25]) میں فرماتے ہیں (٤)حضر ت خاتم
الولایۃ المحمدیۃ فی زمانہ بحر الحقائق ولسان القوم بجنانہ وبیانہ سیدی شیخ اکبر
محی الدین ابن عربی نَفَعَنا اللهُ فی
الدّارَين بفَيضانه.
ختم شد
([8]) جیسا کہ امام زاہد کوثری فرماتےہیں:
وعليّ القاري بنى شرحَه على النسخة الخاطئة وأساء الأدب سامحه الله. (مقدمة "العالم والمتعلم" للكوثري ص:7)
([11]) امام زاہد کوثری کی
عبارت یہ ہے: وإني بحمد الله رأيت لفظ (ما ماتا) في نسختين بدار الكتب
المصرية قديمتين كما رأى بعض أصدقائي لفظَي ½ما ماتا¼ و½ماتا على الفِطرة¼ في
نسختين قديمتين بمكتبة شيخ الإسلام, وعليّ القاري بنى شرحَه على النسخة الخاطئة وأساء الأدب سامحه الله. (مقدمة "العالم والمتعلم"
للكوثري ص:7)
([12]) علامہ طحطاوی کی
عبارت یہ ہے: وما
في "الفقه الأكبر" من أن والدَيه صلى الله عليه وسلم
ماتا على الكفر فمدسوس على الإمام, ويدل عليه أن النسخ المعتمدة منه ليس فيها شيء
من ذلك.
(حاشية الطحطاوي على الدر,كتاب النكاح, باب نكاح الكافر, ٢/٨٠)
([13]) علامہ بیجوری کی
عبارت یہ ہے: ما نقل عن
أبي حنيفة في "الفقه الأكبر"
من أن والدَي المصطفى ماتا على الكفر فمدسوس عليه، وحاشاه أن يقول ذلك. وغلط ملا
علي القاري غفر الله له في كلمة شنيعة قالها. (تحفة
المريد شرح جوهرة التوحيد ص:69)
([14]) اس تمام بحث کو کسی
نے یوں بیان کیا ہے: الذي
يقرأ: (وأبو طالب مات كافرا) بعد النص الذي نقله ملا عليّ القاري يقول معترضاً
حالا: إذا كان والدا رسول الله صلى
الله عليه وسلم ماتا على الكفر وأبو طالب كذلك فكان حق الكلام أن يكون
هكذا:
ووالدا رسول الله صلى
الله عليه وسلم
وأبو طالب ماتوا كفارا، لا أن يذكر كفر أبويه صلى
الله عليه وسلم وحده ويذكر كفر أبي طالب عقبه وحده.
([15]) امام زاہد کوثری کی
عبارت یہ ہے: ففي بعض تلك النسخ: (ماتا على
الفطرة) و½الفطرة¼ سهلة التحريف إلى ½الكفر¼ في الخط الكوفي. (مقدمة "العالم والمتعلم" للكوثري ص:7)
([16]) حافظ علامہ محمد
مرتضٰی زبیدی کی عبارت یہ ہے: وكنتُ رأيتها بخطه عند شيخنا أحمد بن مصطفى العمري
الحلبي مفتي العسكر العالم المعمر ما معناه: إن الناسخ لمّا رأى تكرُّر ½ما¼ في
½ما ماتا¼ ظن أن إحداهما زائدة فحذفها فذاعت نسختُه الخاطئة، ومن الدليل على ذلك
سياق الخبر لأن أبا طالب والأبوين لو كانوا جميعاً على حالة واحدة لجمع الثلاثة في
الحكم بجملة واحدة لا بجملتين مع عدم التخالف بينهم في الحكم. (مقدمة "العالم والمتعلم"
للكوثري ص:7)
([17]) انکی پیدائش کا واقعہ
مشہور ہے کہ انکے والد گرامی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی چنانچہ آپ غوثِ اعظم رضی
اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ جناب میرے ہاں اولاد نہیں دعا
فرمائیں کہ نیک وصالح اولاد ملے۔ غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے سر جھکا کر مراقبہ
فرمایا اور کچھ دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا کہ تمہارے نصیب میں اولاد نہیں ہے، لیکن
انہیں بزرگوں سے لینے کے آداب معلوم تھے عرض گزار ہوئے کہ حضرت اگر میرے مقدر میں
اولاد ہوتی تو میں آپ سے لینے کیوں آتا، میں تو اپنے مقدر میں آپ سے اولاد
لکھوانے آیا ہوں۔ یہ سن کر غوث اعظم جلال میں آگئے اور فرمایا : ادھر آؤ اور
میری پشت سے اپنی پشت رگڑو، میری صلب میں صرف ایک بیٹا رہتا ہے یہ لے جاؤ، اس طرح
محی الدین ابن عربی پیدا ہوئے۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: میری تقدیر بری ہو تو بھلی
کردے کہ ہے۔۔۔محو واثبات کے دفتر پر کروڑا تیرا
([19]) ملا علی قاری کی
عبارت یہ ہے: وفيه رد على ابن العربي ومن تبعه
كالجلال الدواني, وقد ألفت رسالة مستقلة في تحقيق هذه المسألة وبينت ما وقع لهم من
الوهم فى المواضع المشكلة وأتيت بوضوح الأدلة المستجمعة من الكتاب والسنة ونصوص
الأئمة. (منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر , دار البشائر الاسلامیہ بیروت، ص98)
([21]) اور جب انکے مرتبے پر
پہنچ جائے گا تو انکے قول کے صحیح معنی خود جان لے گا اور صرف اندازے سے تاویل
نہیں کرنی پڑے گی. (علمیہ)
([22]) فسئل
الإمام محي الدين النووي عن الشيخ محي الدين بن عربي
فقال: تلك أمة قد خلت, ولكن الذي عندنا أنه يحرم على كل عاقل أن يسيء الظن بأحد من
أولياء الله عزوجل ويجب عليه أن يؤول أقوالهم وأفعالهم ما
دام لم يلحق بدرجتهم ولا يعجز عن ذلك إلا قليل التوفيق.
(اليواقيت والجواهر للشعراني, ص:12)
([24]) قال الإمام عبد
الوهاب الشعراني قدس سره الرباني: ومِن دعوى المنكِر
أن الشيخ يقول بقبول إيمان فرعون وذلك كذب وافتراء على الشيخ، فقد صرح الشيخ في
الباب الثاني والستين من "الفتوحات" بأن فرعون من أهل النار الذين لا
يخرجون منها أبد الآبدين و"الفتوحات" من أواخر مؤلفاته فإنه فرغ منها
قبل موته بنحو ثلاث سنين. (اليواقيت والجواهر, ص:17)