دینی کتب کا مطالعہ کرنے والے بخوبی  جانتے ہیں کہ حوالہ جات میں بارہا فردوس الاخبار ، الفردوس بماثور الخطاب ، مسند الفردوس کے نام آتے ہیں ، کئی طلبہ ناواقفیت کی بنا پر ان کتب کو ایک ہی کتاب کا نام سمجھ لیتے ہیں جبکہ بعض طلبہ ایک کتاب کے نام کو دوسری کتاب کا نام سمجھ بیٹھتے ہیں ، سو اس طرح کی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے یہ مضمون ترتیب دیا گیا ہے جس میں ضمناً مختلف علمی و منہجی فوائد ذکر کیے گئے ہیں ۔

بنیادی مقدمات:

اصل موضوع سے پہلے چند ایک باتیں عرض کرتا ہو ں ، اللہ نے چاہا تو طلبہ کرام کے لیے مفید ثابت ہونگی :

٭طالب علم کو چاہیے کہ جس علم کو بھی پڑھے ، تو پڑھنے کیساتھ اس علم پر لکھی کتابوں کی معرفت حاصل کرے کہ اس فن کی بنیادی اور مشہور کتابیں کون کون سی ہیں ، ان کے مصنف کون ہیں ، کس صدی سے ان کا تعلق ہے ،اسی طرح کتاب کا کیا منہج واسلوب ہے اور اگر اس کتاب پر شروح وحواشی وغیرہ لکھے گئے ہیں تو وہ کونسے ہیں وغیرہ ۔

٭ کسی علم یا فن میں تخصص اور مہارت کا ارادہ رکھنے والا وہ طالب علم جواس فن میں اپنی تحقیقی خدمات بھی سرانجام دینا چاہتا ہو یہ اس کے لئے انتہائی ضروری ہے ، کیونکہ اگر اسے کتابوں کے عروج و ارتقا کا معلوم نہ ہوگا تو وہ فن کے ارتقا کو کیسے سمجھے گا اور کس طرح تسلسل کیساتھ فن کو پڑھ اور سمجھ سکے گا ۔ یہاں میں اپنے دور کے ایک بڑے امام کی عبارت ذکر کرتا ہوں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتابوں کی صحیح معرفت کتنی ضروری ہے ۔ چنانچہ امام ابو العباس احمد بن خطیب فرماتے ہیں : یہ بات جان لو ! کہ کتابو ں اور ان کے مصنفین کی معرفت فنون میں سے ایک فن ہے اور لا جواب و کمال فن ہے ، اسی طرح فقہاء کے طبقات اور کس فقیہ کا کس زمانے سے تعلق رہا ، اس کو جاننا بھی طالب علم کے لیے انتہائی ضروری ہے ، اسی طرح جو اس طالب علم کے زمانے میں لکھا جارہا ہے اس کا بھی علم ہونا ضروری ہے ۔ ( فہرس الفہارس ،ج1، ص 84)

٭ اب کتاب کے منج واسلوب سے آگہی کے طریقےذکرکئے جاتے ہیں :

1)کتاب کا نام : عام طور پر ہمارے اسلاف کتب کے نام ایسے رکھتے ہیں کہ پڑھ کر ہی کتاب کی اہمیت اور اس کے اسلوب پر بھی اجمالی نظر پڑ جاتی ہے ۔جیسے بخاری شریف کا اصل نام ” الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ وسننہ و ایامہ“ہے ، اگر ہم اس نام کی روشنی میں صحیح بخاری کا منہج لکھیں تو کتاب تیار ہوسکتی ہے۔

2)مقدمہ ِ کتاب : عام طور پر ہمارے ائمہ ِ اسلام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ مقدمہ میں کتاب لکھنے کی وجہ اور اس کا اسلوب بیان کردیتے ہیں ، مثلا اس میں کس علم پر گفتگو ہوگی؟ کتنے ابواب ہونگے؟اور ان ابواب کے تحت کتنی فصول ہونگی؟ ( اگر اس کا شاندار نظارہ کرنا چاہیں تو ایک نظر امام غزالی کے لکھے ہوئے احیاء علوم الدین کے مقدمہ کو پڑھ لیجیے ) ۔ دور حاضر میں تحقیق و تصنیف کا معیاری طریقہ جسے ” البحث العلمی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اس میں بتایا جاتا ہے کہ مصنف پر لازم ہے کہ وہ کتاب کی ابتدا میں واضح کردے کہ وہ یہ کتاب کیوں لکھ رہا ہے ، اس نے یہ موضوع کیوں اختیار کیا اور کتاب لکھنے کا کیا طریقہ کار ہوگا وغیرہ وغیرہ۔اس طریقہ بحث کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ اس کے لانے والے اور سب سے پہلے پیش کرنے والے ” مغربی ماہرین ِ تعلیم “ ہیں حالانکہ ان ماہرین ِ تعلیم کے دنیا میں آنے سے بہت پہلے ہمارے ائمہ دین اپنی کتابوں کے شروع میں مقدمہ کے نام سے یہ ساری چیزیں ذکر کرتے آرہے ہیں ۔ بس اس وقت یہ نیا نام نہ تھا تو کیا نام نہ ہونے سے یا نام کے آج ہونے سے فیصلہ ہوگا کہ کون اس طریقہ ِ تصنیف کا موجد ہے ۔ خلاصہ یہ کہ یہ بات واضح ہے کہ تصنیف و تالیف میں اس طریقہ ِ تصنیف کے موجد ہمارے ائمہ اسلام ہی ہیں ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایک غلط رواج چلا ہوا ہے کہ جب کتاب شروع کی جاتی ہے تو یہ کہہ کر کہ ” اصل کتاب ہے“ ، مقدمہ چھڑوا دیا جاتاہے ، یوں طالب علم پوری کتاب پڑھ لینے کے باوجود بھی صحیح انداز میں اسلوب ِ کتاب بیان کرنے سے عاجز رہتا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ مقدمہ پڑھا جائے بلکہ انتہائی توجہ سے استاد ہی پڑھا دے کہ مقدمات الکتب کنوز مخفیۃ ۔

3)کتاب کا دقتِ نظری سے مطالعہ کرکے اسلوب و منہج کا استقرا کرنا :کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کرکے اس کے منہج واسلوب سے آگائی ہوسکتی ہے ۔

4) تعارف علم وکتب پر لکھی کتب کا مطالعہ :

وہ کتابیں جن میں علوم اسلامیہ اور ان علوم کی کتابوں کا تعارف ہو ، اسی طرح وہ کتابیں جن میں مصنفین کا تعارف ذکر کیا جاتا ہے مثلا کشف الظنون ، ہدیۃ العارفین ، مفتاح السعادۃ ، خاص حدیث کے موضوع پر ” الرسالۃ المستطرفہ فی بیان کتب السنۃ المشرفہ “اسی طرح فقہائے ا حناف کے لیے ” الطبقات السنیہ فی تراجم الحنفیۃ“ وغیرہ ( اللہ نے چاہا تو اس موضوع پر ایک مقالہ لکھا جائے گا )، الغرض اپنے فن سے متعلقہ کتاب لیکر اس کے مصنف کے احوال کو دیکھا جائے ۔

اب اختصار کیساتھ اصل موضوع پر آتا ہوں ۔

شہاب الاخبار فی الحکم والامثال والمواعظ والآداب

سب سے پہلے امام شہاب بن سلامہ القضاعی ( م454) نے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نےاخلاق و آداب کے موضوع پر اپنی مسموعات میں سے اسناد کو ذکر کیے بغیر 1200قصار (چھوٹی) احادیث جمع کیں ،جس کا نام انھوں نے ”شہاب الاخبار فی الحکم والامثال والمواعظ والآداب“رکھا ۔ یہ الگ سے تو مطبوع نہیں ہے البتہ دار النوادر سے ایک شرح کیساتھ چند سال قبل شائع ہوئی ہے ۔

مسند الشہاب :

امام قضاعی نے مذکورہ کتاب کے علاوہ ایک اور کتاب لکھی جس میں ”شہاب الاخبار “ کی سندوں کو ذکر کیا بنام ” مسند الشہاب فی الحکم والامثال والمواعظ والآداب “۔ اس میں اولا متن کا ایک جز ذکر کرکے اس کی سند ذکر کرتے ہیں اور پھر پورا متن ذکر کردیتے ہیں ۔ یہ دو جلدوں میں مطبوع ہے ۔

فردوس الاخبار :

پھر امام ابو شجاع شیرُوَیہ بن شھردار بن شیرویہ الدیلمی الہمدانی (م 509) آئے ،انھوں نے مسند شہاب پر اضافے اور اسلوب کی تبدیلی کیساتھ ایک کتاب مرتب کی ۔ کتاب کے نام میں دو قول ہیں ، خود مصنف نے کتاب کے مقدمہ میں ” الفردوس بماثور الخطاب “ ذکر کیا جبکہ علامہ عبد الحی الکتانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” فردوس الاخبار بماثور الخطاب المخرج علی کتاب الشہاب “ذکر کیا ہے ۔( الرسالۃ المستطرفہ ،ص:73، ط: دار البشائر الاسلامیہ )۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ عام طور پر ہمارے یہاں کے مطبوعہ نسخوں پر اس کا نام ” مصنف کے ذکر کردہ نام سے ہٹ کر ”فردوس الاخبار“لکھا ہوتا ہے ، مثلا دار الفکر بیروت ،دار الکتاب العربی وغیرہ کے نسخوں پر ” فردوس الاخبار “ نام لکھا ہے ، جبکہ دار الکتب العلمیہ کے سن 2010 میں چھپے ہوئے نسخے پر ” مسند الفردوس وہو الفردوس بماثور الخطاب “ لکھا ہے ، (ہمارے ہاں دونوں نسخے موجودہیں ۔)اس میں نام کی تصحیح تو ہوگئی ، لیکن مسند الفردوس لکھ کر قارئین کو اشتبا میں ڈال دیا حتی کہ بعض طلبہ اس سے سمجھنے لگے کہ ” الفردوس بماثور الخطاب “ کا دوسرا نام مسند الفردوس ہے اور ایک کتاب ہے جس کا نام فردوس الاخبار بماثور الخطاب “ ہے ۔ حالانکہ فردوس الاخبار اور الفردوس بماثور الخطاب یہ دونوں ایک ہی کتاب کے نام ہیں جبکہ مسند الفردوس ایک دوسری کتاب ہے جو ان کے بیٹے نے لکھی ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اس میں احادیث کی تعداد کتنی ہے ؟ مقدمہ میں بیان کیا کہ اس میں دس ہزار احادیث ہیں (فردوس الاخبار ،ج1،ص 40)جبکہ ہمارے یہاں مطبوعہ نسخے میں 9056 ہیں ۔

لطيف  نکتہ : مصنف  کا  نام ” شیرویہ “ ہے ، اس طرح کے دیگر نام  بھی ہیں  مثلا  سیبویہ ، راہویہ وغیرہ   ان  کو  کس طرح پڑھا جائے گا  اس سے متعلق دو قول ہیں :

1)علمائے نحو  کے نزدیک: واو  اور اس سے پہلے والے حرف پر زبر  ، یاء  پر جزم  ، پھر ہاء ہے  یعنی سیبَوَیْہ، شیرَوَیْہ وغیرہ۔ہمارے ہاں یہی رائج ہے۔

2) علمائے حدیث کے نزدیک :   جس طرح فارسی میں پڑھا جاتا ہے ، اسی طرح پڑھتے ہیں  ۔واو سے پہلے والے حرف پر پیش ، واو پر جزم ، یاء کے فتحہ  ، پھر ہاء ساکن  ۔ یعنی سیبُوْیَہ، شیرُوْیَہ وغیرہ  ( تدریب الراوی ، ص338)

الفردوس بماثور الخطاب کا منہج و اسلوب :

الفردوس بماثور الخطاب کی اصل ” مسند شہاب “ ہے ، لہذا اس تناظر میں کتاب کا جو اسلوب سامنے آیا ، اس کے چند نکات پیش ہیں :

۱)احادیث کی سندوں کا حذف ۔

۲)احادیث کو مختصر کرکے ذکر کرنا ۔ اگر کہیں طویل حدیث آجائے تو مختصر ذکر کرکے ” الحدیث “ کہہ کر رک جانا ۔

۳)ہر حدیث کے شروع میں عبارت سے الگ کرکے صحابی راوی کا نام ذکر کرناجسے ” ہامش الکتاب “ کہتے ہیں ( ہمارے مطبوعہ نسخوں میں عبارت کیساتھ ہی ذکر کردیا جاتا ہے) ۔

۴)حروفِ معجم کی ترتیب پر ابواب بندی ۔ ( خیال رہے کہ اس کتاب میں حروف معجم کی ترتیب پر ابواب ہیں ، جبکہ امام سیوطی علیہ الرحمہ کی الجامع الصغیر میں احا دیث ہیں )۔

۵)احادیث کو الفاظ کے ہم شکل ہونے کے اعتبار سے فصول میں تقسیم کرنا ۔

مسند الفردوس :

صاحب ”الفردوس بماثور الخطاب “ کے بیٹے ” امام ابو منصور شَھَردار بن شیرُویہ (م 558)“آئے ، انھوں نے الفردوس بماثور الخطاب پر یہ کام کیا کہ اس کی اسانید جمع کیں اور احادیث کا اضافہ بھی کیا ۔امام ذہبی لکھتے ہیں : حافظ الحديث امام شهردار بن شیرویہ الدیلمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد ِ محترم کی کتاب ” الفردوس بماثور الخطاب “ کی اسانید جمع کی ہیں ، میں نے شہرِ مَرْوْ میں اس کا ایک مکمل اور مہذب نسخہ دیکھا تھا۔ ( سیر اعلام النبلاء ، ج20، ص 376)۔ اس كا نام كيا ہے اس میں دو قول ہیں : عام مخطوطات پر ” مسند الفردوس “ لکھا ہے ،جبکہ امام عبد الروف مناوی رحمۃ اللہ علیہ اور امام عبد الحئی الکتانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” إبانة الشبه في معرفة كيفية الوقوف على ما في كتاب الفردوس من علامات الحروف“ ذکر کیا ہے ۔( فیض القدیر ، ج1، ص 37۔ الرسالۃ المستطرفہ ، ص 73)

احادیث کی تعداد ”17000“ سے زیادہ ہیں ۔(تسديد القوس في ترتيب مسند الفردوس ، مخطوط )

مسند الفردوس کا منہج و اسلوب :

مسند الفردوس ابھی تک شائع نہیں ہوئی ، تسدید القوس جو حافظ ابن حجر کا لکھا ہوا مسند الفردوس کا اختصار ہے ، وہ بھی ابھی تک مکمل شائع نہیں ہوا، تسدید القوس کے کچھ حصے دار الکتاب العربی والی” الفردوس بماثور الخطاب “ کیساتھ شائع ہیں ۔البتہ اس ” تسدید القوس مختصر مسند الفرودس “ کا کامل مخطوط پی ڈی ایف میں ہمارے پاس موجود ہے ۔ ابتدا ء میں حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس کے مقدمہ کا کچھ حصہ ذکر کیا ہے ، جس کی مدد سے ہم نے مسند الفردوس کا اسلوب تحریر کیا ہے ۔ اسی طرح حافظ ابن حجر کا اس کتاب پر ایک اور کام بنام ”زہر الفردوس “ جو ” الغرائب الملتقطہ“ سے بھی معروف ہے ، جو چند سال قبل ہی شائع ہوا ہے اس کے مقدمہ سے بھی ہم نے معاونت لی ہے ۔

1)ابتدا ء ایک مقدمہ لکھا ، جس میں کتاب لکھنے کی وجہ بتائی کہ اپنے والد ” امام ابو شجاع الدیلمی م 509“کی مذکورہ کتاب میں موجود احادیث کی اسناد ذکر کرنا۔

2)احادیث کی ترتیب میں تبدیلی نہیں کی بل کہ اصلِ کتاب ” الفردوس بماثور الخطاب “کی ترتیب کو ہی برقرار رکھا ہے ۔

3) الفردوس پر احادیث کا اضافہ ۔ چونکہ ان کے والدمحترم نے احادیث قصار کا التزام کیا تھا ،لیکن انھوں نے کام کو وسعت دی اور طویل احادیث کو بھی ذکر کیا ۔ جس کے سبب احادیث کی تعداد 17000 ہزار سے بھی بڑھ گئی۔

4) الفردوس بماثور الخطاب ، اسی طرح اضافہ کردہ احادیث کی تخریج بھی کی ، تخریج میں صحیحین سے ابتدا کرتے ہیں اگر اس میں نہ ہو تو دیگر کتب کے حوالے ذکر کرتے ہیں۔

5)تخریج میں انھوں نے کتب ِ مستخرجا ت کا اسلوب اپنایا ہے کہ تھوڑی بہت لفظی تبدیلی کے باوجود حوالہ مُسَلَّم ہوتا ہے جب کہ حدیث کا سیاق و سباق ایک ہی رہے اور اس حدیث کے راوی صحابی بھی ایک ہی ہوں ۔

6)ابتدا ء میں کتب کے اشارات بیان کردیے ہیں تاکہ تخریج میں تکرار سے بچا جاسکے۔

7)اولا حدیث ذکر کرتے ہیں ، پھر مکمل سند بیان کرکے ”الحدیث“ لکھ کر سابقہ متن کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔

8،9،10)الفاظ میں اختلاف ہو تو اسے بھی بیان کرتے ہیں، اسی طرح بعض اوقات مشکل الفاظ کے معانی بھی بیان کرتے ہیں۔ بسااوقات یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث ان کے علاوہ کس کس صحابی سے مروی ہے ۔

اس کتاب میں مصنف نے ان کتب سے بھی احادیث لی ہیں جو مفقود ہوچکی ، اسی طرح ایسی احادیث بھی ہیں جو مشہور و معروف کتب میں نہیں پائی جاتی اور مصنف نے محنت کرکے انہیں جمع کیا ہے ، اس لیے علما نے تخریج ِ حدیث کے لیے اسے حدیث کا ایک اہم مصدر قرار دیا ۔

اس کتاب پر ہونے والے کام :

حافظ ابن حجر م 856نے اس کتاب پر دو کام کیے :

تسدید القوس فی ترتیب مسند الفردوس :

اس میں حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس کا اختصار کیا ہے ۔ طریقہ کار یہ ہے کہ ہر حدیث کا ابتدائی حصہ یا معروف حصہ ذکر کرتے ہیں ، اس کے ساتھ تخریج بھی کرتے ہیں کہ کس کتاب میں یہ روایت موجود ہے ۔

منہج و اسلوب :

اس کتاب میں حافظ ابن حجر کے پیش نظر اختصار ہے ۔ انھوں نے تین چیزوں میں اختصار سے کام لیا ہے :

1)احادیث ذکر کرنے میں : کیونکہ حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس میں ذکر کردہ تمام احادیث ذکر نہیں کیں ، بل کہ ان میں سے احادیث کو منتخب کیا ہے ۔

2)متن ِ حدیث میں اختصار: حافظ ابن حجر متن حدیث بھی مکمل ذکر نہیں کرتے بلکہ اس کا ایک معروف حصہ ذکرکردیتے ہیں ۔

3) طریقہ ِتخریج میں اختصار: صاحب مسند الفردوس کا تخریج میں کیا انداز ہے ، پیچھے گزر چکا ، چونکہ تخریج بھی کتاب کی طوالت کا سبب تھا ، اسی لیے حافظ ابن حجر نے تخریج میں بھی اختصار کیا بایں طور کہ محض مصنفِ کتاب کا نام ذکر کیا ۔ البتہ ضرورتاً کتاب کا نام بھی ذکر کردیتے ہیں ۔

زہر الفردوس :

بعض نے اس کا نام ” الغرائب الملتقطہ“ بھی ذکر کیا ہےشائع شدہ نسخے میں یہیں نام لکھاہے لیکن صحیح طور پر”زہر الفردوس “ ہی ثابت ہے ، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے حالات و سوانح پر لکھی کتاب میں آپ کے جلیل القدر شاگرد ” امام عبد الرحمن السخاوی “ نے اس کا نام یہی ذکر کیا ہے ۔ دیکھیے : الجواہر والدر ر،ج2، ص 667

زہر الفردوس پر منہج و اسلوب کے طریقوں کی تطبیق :

1)کتاب کا نام : زہر الفردوس۔الغرائب الملتقطہ ( چونکہ یہ نام بھی منقول ہے اس لیے اسے بھی لیا گیا ہے) : اس نام کا جب دقیق نظر سے جائزہ لیا تو یہ امور واضح ہوئے :

حافظ ابن حجر کی اس کتاب کا تعلق ” مسند الفردوس “ سے ہے یعنی یہ مسند الفردوس پر کسی نوعیت کا کام ہے ۔

زہر کا اصولی اور اساسی معنی ہے : خوبصورتی ، چمک دمک وغیرہ ، چونکہ پھول بھی ایک خوبصورت شے ہے اس لیے اسے بھی ” زہر یا زہرۃ “ کہا جاتا ہے ۔ اس کی مناسبت جو سمجھ آرہی ہے ، وہ یہ ہے : : در اصل مسند الفردوس میں احادیث دو طرح کی ہیں : بعض احادیث وہ ہیں جو معروف ہیں اور دیگر کتب ِ مشہورہ میں بھی بآسانی مل جاتی ہیں جبکہ دیگر بعض احادیث غیر معروف کتب میں پائے جانے کی وجہ سے بآسانی نہیں ملتی۔لہذا اس کتاب کا اصل کمال اور حسن ” ان احادیث کا ایک جگہ مل جانا “ ہے ،لہذا معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر اپنی اس کتا ب میں مسند الفردوس سے فقط انہی احادیث کا انتخاب کریں گے جو زیادہ معروف نہیں ہیں ، اسی لیے اس کا دوسرا نام ” الغرائب الملتقطہ من مسند الفردوس “ ہے یعنی مسند الفردوس سے ان احادیث کا انتخاب جو زیادہ معروف نہیں ۔

2)مقدمہ ِ کتاب : حافظ ابن حجر نے مقدمہ کتاب کے طور پر چند سطور ذکر کی ہیں ، ان سے جو منہج و اسلوب سامنے آیا وہ نکات کی صورت میں پیش ہے :

۱)اس کتاب میں درج احادیث مسند الفردوس کا ایک حصہ ہیں ، پوری کتاب پر کام نہیں ہے ۔

۲)حافظ ابن حجر نے منتخب کردہ احادیث کا ” اسماء الرجال “ کے اعتبار سے تعین کیا ہے کہ آیا وہ حدیث صحیح ، حسن یا ضعیف ہے ۔ ( یہ حافظ ابن حجر نے مقدمہ میں بیان کیا ہے لیکن آگے جا کر احادیث پر حکم لگانے میں ہر جگہ اسے ملحوظ نہیں رکھا۔)

۳) حافظ ابن حجر نے مسند الفردوس سے جن احادیث کا انتخاب کیا ہے ان میں سے اکثر احادیث ” غیر معروف کتب“ سے لی گئی ہیں ، اس بات کو بیان کرکے حافظ ابن حجر نے مشہورکے نام ذکر کیے ہیں : کتب ستہ ، مسند امام شافعی ، مسند امام احمد ، امام طبرانی کی تینوں معاجم ، مسند ابو یعلی ، مسند احمد بن منیع، مسند ابو داود الطیالسی ، مسند حارث بن ابو اسامہ ۔

پھر لکھا کہ اس کے علاوہ دیگر کتب سے لی ہوئی احادیث ، اسی طرح وہ حدیثیں جن کی سند صاحب مسند الفردوس نے ذکر کی لیکن کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا یا ان کے والد نے ذکر کیں لیکن بیٹے نے اس کی تخریج نہیں کی ، اس طرح کی تمام احادیث اس تعلیق میں مذکور ہیں۔ ( اس میں الغرائب الملتقطہ کے مقدمہ سے بھی مدد لی گئی ہے )

3)کتاب کا دقتِ نظری سے مطالعہ کرکے اسلوب و منہج کا استقرا کرنا : استقرا سے جو اسلوب و مناہج واضح ہوئے ، ان میں سے بعض یہ ہیں :

1) کتاب کے شروع میں ایک مقدمہ ذکر کیا ، جس میں مختصر اسلوب واضح کیا۔

۲)اصل ( مسند الفردوس ) کی ترتیب پر ہی احادیث کو باقی رکھا ۔

۳) احادیث کو صاحب کتاب کی سند سے ذکر کرنا ۔

۴) بسااوقات حافظ ابن حجرتخریج کرنے میں اختصار کے پیش ِ نظر صاحب ِکتاب کی مصنف ِ کتاب تک ذکر کردہ سند کو حذف کردیتے ہیں ، فقط مصنف کا نام ذکر کردیتے ہیں۔

۵) کبھی کبھار احادیث کو بالمعنی بھی روایت کرتے اور الفاظ ِ حدیث میں تقدیم و تاخیر کرتے ہیں ۔

۶) امام دیلمی کی سند میں اگر کہیں سقط واقع ہوا ہے تو اسے اصل کے مطابق مکمل کردیتے ہیں ۔

۷)بسااوقات حدیث ذکر کرنے کے بعد کسی راوی کا حال بھی ذکر کردیتے ہیں، راوی کا حال بیان کرنے میں یاتو اپنا تحقیقی حکم نقل کرتے ہیں یا پھر کسی ناقد کا قول ذکر کرتے ہیں۔

۸) کبھی کبھار راویِ حدیث کی کسی نے متابعت کی ہو تو اس کی جانب اشارہ کردیتے ہیں۔

۹) سند ا حدیث مرفوع ہے یا موقوف، اسی طرح متصل ہے یا منقطع ،ا س میں اگر اختلاف تو اسے بیان کرتے ہیں ۔

۱۰) بعض اوقات حدیث ذکر کرنے کے بعد اس پر صریح حکم بھی ذکر کردیتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ، یہ ضعیف ہے وغیرہ وغیرہ

۱۱) چند ایک مقامات پر احادیث میں آنے والے مشکل اور غریب الفاظ کے معانی بھی ذکر کیے ہیں ۔

۱۲) بسااوقات ایک صحابی سے حدیث کو ذکر کرکے دوسرے صحابی سے مروی ہونے کی جانب اشارہ کردیتے ہیں۔

قاسم بن قطلو بغا: اسی طرح حافظ ابن حجر کے شاگرد رشید ” امام حافظ قاسم بن قطلوبغا الحنفی رحمۃ اللہ علیہ “ نے بھی مسند الفردوس پر ایک کام کیا تھا ( فہرس الفہارس ، ج2، ص :972)لیکن یہ مطبوع نہیں ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ یہ ان کتب میں سے ہے جو ہم تک نہ پہنچی۔

الفردوس بماثور الخطاب میں موجوداحادیث کی تخریج کے لیے اقدامات:

چونکہ الفردوس بماثور الخطاب میں بغیر سند کے احادیث ہیں اور وہ کتاب جس میں اس کی اسانید جمع کی گئی ہیں وہ مخطوط ہے تو ایسی صورت میں اگر کہیں الفردوس سے حدیث آئے تو یہ اقدامات کیے جائیں :

1)” زہر الفردوس “ کو لازما دیکھئے کہ اس میں حافظ ابن حجر نے کافی احادیث بالخصوص غیر معروف احادیث کی اسانید جمع کردی ہیں اور ساتھ ہی کئی ایک مقامات پر راویوں پر حکم بھی لگایا ہے ، اسی طرح بعض احادیث پر بھی حکم لگایا ہے ۔

2)اگر اس میں نہ ملے تو ” کتب ستہ“ میں اجمالی طور پر دیکھنے کے لیے ” جامع الاصول فی احادیث الرسول “ کو دیکھئے کہ اس میں کتب ستہ کی احادیث کو مکررات کے بغیر جمع کردیا گیا ہے ۔

3(اسی طرح مجمع الزوائد میں دیکھئے کہ اس میں مسانید ثلاثہ ” مسند احمد ، مسند ابو یعلی اور مسند بزار “ اور امام طبرانی کی معاجم ثلاثہ ” المعجم الکبیر ، المعجم الصغیر اور المعجم الاوسط ) کو جمع کردیا گیا ہے ۔

4)اس میں نہ ملے تو کنز العمال میں تلاش کریں وہاں اکثر طور پر مل جائے گی اور ساتھ میں مصدر سے تخریج بھی ہوگی ،یوں اصل مصدر تک پہنچ سکتے ہیں ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علم ِ نافع ، عمل صالح عطا فرمائے اور مطالعے کا شوق و ذوق دے ! آمین