تحقیق کسے کہتے ہیں؟

Sat, 23 Jan , 2021
3 years ago

تحقیق کی لغوی واصطلاحی تعریف :

تحقیق ’’حق‘‘ سے مشتق ہے اور حق کہتے ہیں درست ومحکم شے کو،اس کے تمام مشتقات میں حقیقت سے ہم آہنگی اور استحکام کا مفہوم پایاجاتاہے۔تحقیق کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے حضرت علامہ شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’التحقیق :اثبات المسألۃ بدلیلھایعنی مسئلے کو اس کی دلیل کے ساتھ ثابت کرنا۔‘‘(التعریفات،حرف التاء،ص40) علمی تحقیق کی تعریف یوں بھی کی گئی ہے:” کسی معین میدان میں ایسی منظم سعی وکوشش جس کا مقصد حقائق اور اصولوں کی دریافت ہو ۔“ بعض نے یہ کہا : دقیق اور منضبط مطالعہ جس کا ہدف کسی مسئلے کی وضاحت یا حل ہو اور اس مطالعہ کے طریقے اور اصول مسئلے کے مزاج اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ ایک تعریف یہ ہے: منظم جستجو اور کھوج جس میں علمی حقائق کے لیے متعین شدہ مختلف اسالیب اور علمی مناہج اختیار کئے جائیں اور جس سے مقصود ان علمی حقائق کی صحت کی تحقیق یا ان میں ترمیم یا اضافہ ہو۔(تحقیق وتدوین کا طریقہ کار،ص22) باالفاظ دیگر استدلال ،شواہد اور مآخذ کی بینادپر کسی نظریہ کو ثابت کرنے یاکسی شے کو محکم بنانے یاکسی بات کی درستی کو ثابت کرنے یا کسی امر کی حقیقت کو آشکار کرنے کے لئے باقاعدہ اور مربوط فکری وعلمی جدوجہدکو تحقیق کہتے ہیں۔

تحقیق کے تقاضے اور احتیاطیں :

جس طرح ہرکام کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں یوں ہی تحقیق کے بھی کچھ تقاضے اور احتیاطیں ہیں ،مثلاً

(۱) تحقیق کا خواہش مند متعلقہ موضوع کی مبادیات سے واقف ہو ۔

(۲)موضوع سے متعلق کتب ومراجع سے مراجعت کی صلاحیت رکھتا ہو۔

(۳)تحقیق کرنے والا خوب چھان بین سے کام لے،جان نہ چھڑائے۔

(۴)گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کرے،سرسری وسطحی مطالعے پر اکتفا ءنہ کرے۔

(۵)درایت وروایت میں مہارت وممارست رکھتاہو۔

(۶)دورانِ تحقیق اصل موضوع سے نہ ہٹے ۔

(۷)اندازِ بیان سادہ اور واضح ہو،تعبیرات گنجلک پن اور جھول سے پاک ہوں۔

میدان تحقیق کی مختلف جہتیں:

بدلتے زمانے، تغیرات عالم اور علمی ترقی کے سبب جس طرح ہر علم وفن میں تنوع اور توسیع ہوتی جارہی ہے ٹھیک اسی طرح ”تحقیق“ کا میدان بھی بڑا وسیع ہوتا جارہا ہے،تحقیقات کی جہتوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔دور حاضر میں درج ذیل علمی کام بھی تحقیق کے دائرے میں آتے ہیں:

(01)متعدد نسخوں سے تقابل کرکے کسی کتاب کا صحیح ترین نسخہ تیار کرنا۔جیسے المدینۃ العلمیہ کی پیش کردہ” بہارشریعت“

(02)مخطوطے کی تصحیح کرکے اسے کتابی شکل میں پیش کردینا۔مثلا جدالممتار علی رد المحتار ،التعلیقات الرضویۃ علی الحدیقۃ الندیۃ از المدینۃ العلمیہ

(03)کسی مشکل متن کی تسہیل وتوضیح کی غرض سے اُس پر حاشیہ نگاری کرنا ،اس پربین السطور کا اہتمام کرنا یا قوسین میں معانی کی وضاحت کردینا۔جیسے مفتی نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ ” فضل العلم والعلماء“ ،امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ ”اسماع الاربعین“ اوراستاد عبدالواحد مدظلہ العالی کا حاشیہ” الفرح الکامل علی شرح ماۃ عامل“

(04)کسی مفصل وطویل کتاب کی تلخیص کرنا۔جیسے مختصرمنہاج العابدین ،لباب الاحیاء(المدینۃ العلمیہ سے ان خلاصوں کے تراجم شائع ہوچکے ہیں)

(05) کتب ورسائل کی تخریج کرکے اس میں درج حوالہ جات کوکتاب،باب،فصل، جلداور صفحہ نمبر کی قیودات کے ساتھ بیان کردینا۔اسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ )کی کتب میں یہ طریقہ کار رائج ہے۔

(06)کتاب کے اصلاح طلب یا توضیح کے متقاضی مقامات پر تحقیقی حواشی کا اہتمام کرنا،اس کی کثیر صورتیں بنتی ہیں جن میں سے یہاں 11صورتیں اور اُن کی مثالیں ذکرکی جاتی ہیں :

علمی تحقیق کی 11 صورتیں:

(۱)بسا اوقات کسی عبارت کے ظاہر سے اہلسنّت کے کسی مسلمہ عقیدہ یا معمول پر زدپڑرہی ہوتی ہے ۔محقق کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مقام کی احسن طریقے پر تحقیق وتفہیم کرے۔مثلاً

اصلاح اعمال(ترجمہ الحدیقۃ الندیہ)،ج1،ص678پر مذکورہے:’’اورحدیث شریف میں وارِد ’’سختی نہ کرو‘‘کامعنی یہ ہے کہ لوگوں کوحاجات طلب کرنے اوران کے پوراکرنے کے لئے مخلوق کے پاس نہ بھیجو۔‘‘…اس پر یہ تحقیقی حاشیہ دیاگیاہے کہ’’مطلب یہ ہے کہ حقیقی طورپرحاجات کواللہ عزوجل ہی پورافرماتاہے اورایک بندۂ مومن کاعقیدہ بھی یہی ہوناچاہئے کہ حقیقۃً کارسازاللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے اوریہ مراد نہیں کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور اولیائے عظام رحمہم اللہ السلام کی بارگاہوں سے حاجات طلب کرنے اورانہیں وسیلہ بنانے کی ممانعت ہے ۔ورنہ احادیث ِ مبارَکہ میں تعارُض لازم آئے گا۔کیونکہ ۔۔۔۔۔الخ۔

(۲)بعض اوقات کسی کتاب پر اعتماد کرتے ہوئے اس میں وارداصل ماخذذکر کردیا جاتاہے جبکہ اس میں وہ روایت موجود نہیں ہوتی۔لہٰذا ایسے مقام پر وضاحت ناگزیر ہوتی ہے۔مثلاً

بہار شریعت ،ج3،ص65 پرحدیث یوں مذکورہے ::ترمذی نے ام المؤمنین عائشہ رضی االلہ تعالی عنہا سے روایت کی ،رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہدیہ کرو کہ اس سے حسد دور ہوجاتا ہے ۔‘‘…اس پراسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ) نے یہ حاشیہ دیا :’’یہ روایت ترمذی میں نہیں ملی ہاں مشکوۃ المصابیح میں موجود ہے جہاں ترمذی کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے ۔(مشکوۃالمصابیح ،ج۲،ص۱۸۷۔حدیث:۳۰۲۷،مطبوعہ: دارالفکر بیروت)

(۳)کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قول کسی اور کا ہوتاہے اور بیان کسی اور کے حوالے سے ہوجاتاہے ۔اب تحقیق اس بات کی متقاضی ہے کہ اصل قائل کا نام دلیل کے ساتھ ظاہر کیا جائے۔مثلاً

(i)اصلاح اعمال ،ج1،ص517 پر ہے:’’ تَنْوِیْرُالْاَبْصَار‘‘میں ہے : ’’اگرکسی نے بلا طہار ت دو رکعتوں کی منت مانی توحضرت سیِّدُناامام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ (متوفی۱۵۰ھ)کے نزدیک ان دورکعتوں کوطہارت کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔‘‘اس پر المدینۃ العلمیہ کی طرف سے لکھا گیاہے کہ’’یہاں کتابت کی غلطی ہے کیونکہ یہ حکم حضرت سیِّدُنا امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (متوفی۱۸۲ھ) کے نزدیک ہے ۔جیساکہ تنویرالابصار کی شرح درمحتار، کتاب الصلاۃ ، باب الوتر والنوافل ، جلد2کے صفحہ595پر اس کی صراحت موجود ہے اور ایسا ہی فتح القدیر ،کتاب الایمان ،فصل فی الکفارۃ، جلد5کے صفحہ87پر ہے۔

(ii)احیاء العلوم ،ج۳،ص۱۵۲(مطبوعہ: دارصادربیروت) میں مروی ہے کہ سیدنا کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جمعہ کی آخری ساعت قبولیت کی گھڑی ہے۔‘‘اس پر علامہ مرتضیٰ زبید ی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :یہ تو حضرت سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے جیساکہ سنن ابی داود اور نسائی میں مروی ہے۔ (اتحاف،ج۳،ص۴۶۱مطبوعہ :دارالکتب العلمیہ بیروت)اور سنن نسائی میں ہے کہ سیدنا کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ شروع میں اس بات کے قائل تھے کہ’’ یہ قبولیت کی ساعت سال میں ایک مرتبہ ہوتی ہے۔‘‘ پھر آپ نے اس سے رجوع کرلیا تھالیکن آخری ساعت کی’’ تعیین ‘‘ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے ۔(سنن النسائی ،ص۶۴۲،حدیث:۱۴۲۷،مطبوعہ: دارالکتب العلمیہ بیروت)

(۴)کبھی کسی روایت کو زیادتی کے ساتھ ذکر کردیا جاتا ہے حالانکہ وہ زیادتی کے ساتھ مروی نہیں ہوتی۔یہاں اس زیادتی کی نشاندہی ضروری ہے۔مثلاً

ردالمحتار،ج5،ص198(مطبوعہ دارلثقافۃ والتراث دمشق) پر علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’قد روی فی حدیث ابی ہریرۃ :ان المؤمن لا ینجس حیا ولا میتا ۔‘‘…اس پرردالمحتارکے محقق لکھتے ہیں کہ :یہ روایت’’حیاً ولا میتاً‘‘ کی زیادتی کے ساتھ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہمیں نہیں ملی۔

(۵)کبھی کتابت کی غلطی سے ’’ واحد کا صیغہ‘‘ جمع اور’’ جمع کا صیغہ ‘‘واحد ہوجاتاہے۔ایسے مقام کی نشاندہی لازمی ہے۔مثلاً

کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب ،صفحہ نمبر42پر نزہۃ القاری ،ج1،ص 239کے حوالے سے اقتباس نقل کیا گیاہے (جس میں یہ بھی ہے): ’’یونہی وہ باتیں جن کا ثبوت قطعی ہے مگر ان کادین سے ہونا عوام وخواص سب کو معلوم نہیں تو وہ بھی ضروریاتِ دین سے نہیں ،جیسے صلبی بیٹی کے ساتھ اگر پوتی ہو تو پوتی کو چھٹا حصہ ملیگا۔‘‘…اس پربانی دعوتِ اسلامی ، قبلہ شیخ طریقت، امیراہلسنّت زید مجدہ الکریم نے تحریر فرمایا:’’نزہۃ القاری ‘‘کے نسخوں میں اس جگہ ’’بیٹی‘‘کے بجائے ’’بیٹیوں‘‘لکھا ہے جو کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ ’’المسایرہ‘‘ صفحہ ۳۶۰پر تحریر فرماتے ہیں :جن کا ثبوت قطعی ہے مگر وہ ضروریات دین کی حد کون نہ پہنچا ہو جیسے (میراث میں) صلبی بیٹی کے ساتھ اگر پوتی ہوتو پوتی کو چھٹا حصہ ملنے کا حکم اجماع امت سے ثابت ہے۔۔۔۔۔الخ

(۶)بعض دفعہ ملتا جلتا ہونے کے باعث مولف ،قائل یا راوی وغیرہ کا نام بدل جاتاہے۔محقق کو چاہیے کہ اصل نام کو بیان کردے۔مثلاً

ردالمحتار،ج5،ص365پر علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکرفرمایا:ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہر سال شہدائے اُحد کی قبور پر تشریف لے جایا کرتے تھے ۔‘‘اس پر محقق فرماتے ہیں :یہ روایت ’’ابن شبہ‘‘ نے تاریخ المدینۃ المنورۃمیں نقل کی ہے۔’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں یہ روایت موجود نہیں یعنی یہاں’’ابن شبہ‘‘ کو ’’ابن ابی شیبہ‘‘ گمان کرلیا گیا۔

(۷)کبھی کسی فقہی مسئلے کی وضاحت ناگزیر ہوتی ہے ۔لہٰذا تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے ۔مثلاً

بہار شریعت ،ج3،ص341پر ہے:جس کے دانت نہ ہوں(اس کی قربانی ناجائز ہے)اس پراسلامک ریسرچ سینٹر ( المدینۃ العلمیہ) کی طرف سے یہ تحقیق دی گئی ہے:’’یعنی ایساجانورجوگھاس کھانے کی صلاحیت نہ رکھتاہو،ہاں!اگرگھاس کھانے کی صلاحیت رکھتاہوتواس کی قربانی جائزہے جیساکہ بحرالرائق،ج۸، ص ۳۲۳، الھدایۃ،ج۲،ص۳۵۹، تبیین الحقائق،ج۶،ص۴۸۱، الفتاوی الخانیۃ،ج۲،ص۳۳۴، الفتاوی الھندیۃ،ج۵،ص۲۹۸ پرمذکورہے۔‘‘

(۸)کبھی ایسا ہوتا ہے کہ توجہ نہ ہونے یا نسخہ کی تبدیلی یاکتابت میں غلطی یا الفاظ کے ہم شکل ہونے کے سبب لفظ ہی بدل جاتاہے ۔ایسے مقام پراصل سے مراجعت کرکے درست لفظ کی تحقیق وتعیین ناگزیر ہوتی ہے ۔مثلاً

اصلاح اعمال ،ج1،ص557 پر ’’ المواھب اللدنیۃ“سے منقول ہے :’’ کیونکہ علمِ لدنی روحانی کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ …الخ۔‘‘…اس پر امام اہلسنّت ، امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ (متوفی۱۳۴۰ھ)نے حاشیہ میں فرمایا:’’(لفظ المواہب ج۶،ص۳۶۰)رحمانی بالنسبۃ الی الرحمٰن عزوجل وہو الاوفق الاصح۔۱۲یعنی المواہب اللدنیۃ، ج۶،ص ۳۶۰ (دارالکتب العلمیۃ کے نسخے مطبوعہ 1996ء کے مطابق ج۲،ص۴۹۲) پرروحانی کے بجائے رحمانی ہے اور رحمن عزوجل کی طرف نسبت کے اعتبار سے یہ ہی زیادہ صحیح اور مناسب ہے۔‘‘

(۹)بسا اوقات کتابت کی غلطی یا مؤلف کے تسامح سے کتاب میں یہ صراحت ہوتی ہے کہ فلاں کتاب میں یہ روایت فلاں صحابی سے مروی ہے۔وہ روایت اس کتاب میں موجود توہوتی ہے لیکن دوسرے صحابی سے مروی ہوتی ہے ۔مثلاً

بہارشریعت ،ج3،ص 563پر ہے :طبرانی نے اوسط میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہ حضور(صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاکہ ’’لڑکا یتیم ہو تو اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے میں آگے کو لائے اور بچہ کا باپ ہو تو ہاتھ پھیرنے میں گردن کی طرف لے جائے۔‘‘ اس پرالمدینۃ العلمیہ کی طرف سے یہ تحریر کیا گیاہے :’’یہ روایت طبرانی اوسط میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے ۔‘‘

(۱۰)بعض اوقات کسی مسئلہ میں دلیل کے طور پرضعیف حدیث نقل ہوجاتی ہے ۔مُحقِّق ومُخَرِّج کی ذمہ داری ہے کہ اس کے ضعف کودلیل کے ساتھ واضح کرے ۔مثلاً

اصلاح اعمال ،ج1،ص100 پرہے :مختار قول یہ ہے کہ ہمزہ کو ترک کر دیا جائے کیونکہ حضورنبی کریم،رء وف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی لغت بھی یہی ہے۔ مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ نبوی میں حاضرہو کر عرض کی:’’یا نبیٔ اللہ۔‘‘ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ا س سے ارشاد فرمایا:’’میں نبیٔ اللہ نہیں بلکہ نبیُّ اللہ ہوں۔‘‘اس پراسلامک ریسرچ سینٹر کی طرف سے یہ حاشیہ دیا گیا ہے:’’اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعدحضرت سیدناامام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں:’’ابو علی نے کہا: اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔(اس کے بعد آپ فرماتے ہیں) اس حدیث کے ضعیف ہونے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نبی ٔکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کرنے والے شاعر (صحابی ) نے سرکارِمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے یاخاتمَ النباء(یعنی اے آخری نبی ) کہا (اور ہمزہ کے ساتھ نباء لفظ ِنبیٔ بالھمزہ کی جمع ہے) اور سرکارِمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا اس بات سے انکار منقول نہیں۔‘‘(الجامع لاحکام القران للقرطبی تحت الایۃ:۶۱’’لاتدخلوابیوت النبی۔۔۔۔۔ الایۃ،ج ۱، ص۳۴۹)

(۱۱)کبھی عبارت کے ظاہری مفہوم سے سخت مغالطے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔لہٰذا اس کے سد باب کے لئے محقق ومدلل حاشیہ ضروری ہوتاہے ۔مثلاً

اصلاح اعمال ،ج1،ص601 پرتحریر ہے :’’لہٰذا کفر کوباعتبارِکفر برا سمجھا جائے نہ کہ اس معین کافر کو۔‘‘اس المدینۃ العلمیہ نے یہ تحقیقی حاشیہ دیاہے: ’’یاد رہے کافرکوبراسمجھنے اوراس کی تعظیم وعزت افزائی میں فرق ہے ۔کفارکی تعظیم وتکریم کفرہے ۔چنانچہ،مجدداعظم ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ(متوفی ۱۳۴۰ھ) ’’فتاوی ظہیریہ، الاشباہ والنظائر اور درمختار‘‘کے حوالے سے تحریرفرماتے ہیں:لَوْسَلَّمَ عَلَی الذِّمِّیِّ تَبْجِیْلًا یُکْفَرُلِاَنَّ تَبْجِیْلَ الْکَافِرِ کُفْرٌ وَلَوْقَالَ لِمَجُوْسِیٍّ یَااُسْتَاذُتَبْجِیْلًاکَفَرَ ترجمہ:اگرکسی مسلمان نے کسی ذمی کافرکوبطورِعزت و توقیرسلام کیاتووہ کافرہوجائے گاکیونکہ کافرکی عزت افزائی کفرہےاوراگرکسی نے آتش پرست(یعنی آگ کے پجاری )کوتعظیم کے طورپر ’’اے استاذ‘‘ کہا تووہ کافرہوگیا۔ (فتاوی رضویہ، ج۶،ص۱۹۳)نیز کفارکے ساتھ حسنِ سلوک ، کفراورکفرپرمددواعانت کے علاوہ دیگرمعاملات میں ہوسکتا ہے مثلاً مشرک پڑوسی کے ساتھ حق پڑوس کی ادائیگی اور کافر باپ کی غیرکفریہ معاملات میں اطاعت وغیرہ، ورنہ کفارسے موالات (یعنی میل جول )ناجائزوحرام ہے۔چنانچہ،سیِّدی اعلی حضرت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۳۴۰ھ) ارشاد فرماتے ہیں: ’’قرآنِ عظیم نے بکثرت آیتوںمیں تمام کفارسے موالات(یعنی میل جول،باہمی اتحاد،آپس کی دوستی)قطعاًحرام فرمائی، مجوس (آگ کے پجاری) ہوں خواہ یہودونصار یٰ (یہودی وعیسائی) ہوں، خواہ ہُنُود(ہندو)اورسب سے بدترمُرتدانِ عُنُود(دینِ حق سے بغاوت کرنے والے مرتدین ) (فتاوی رضویہ، ج۱۵،ص۲۷۳)، ہاں! دنیوی معاملات مثلاًخرید و فروخت وغیرہ(اس کی شرائط کے ساتھ) جس سے دین پرضرر(یعنی نقصان)نہ ہو مرتدین کے علاوہ کسی سے ممنوع نہیں(فتاوی رضویہ، ج۲۴،ص۳۳۱مُلَخَّصًا )مزیدتفصیل کے لئے فتاوی رضویہ شریف کے مذکورہ مقامات کامطالعہ فرمالیجئے۔