بچوں کے لئے لکھنا یوں تو آسان ہے کہ بیٹھا جائے،
قلم پکڑا جائے اور ساری معلومات کو سمیٹ دیا جائے پھر نتیجۃً یہ سمجھا جائے کہ ہمارے
لکھے ہوئے سے بچے احساسِ ذمہ داری، خود اعتمادی اور بلند عزائم پانے میں کامیاب
ہوجائیں گے، نیک امنگوں سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین صلاحیتوں اور قابلیتوں
کے حامل ہوں گے اور آگے چل کر اپنے دین،
قوم اور ملک کے لئے ضرور مفید ثابت ہوں
گے، لیکن! کیا یہ نتائج بچوں کی طبیعت، ذہنی رجحانات اور دلی لگاؤ کا
لحاظ رکھے بغیر حاصل ہوں گے؟، ان کی عمر، دلچسپی اور الفاظوں کے ذخیرے کی رعایت کئے بغیر مل جائیں گے؟ ہرگز نہیں !
اسی
لئے میرے عزیز! بچوں کے لئے لکھتے ہوئے آپ کو بچہ بننا پڑے گا، ان کی نفسیات،
رجحانات اور دلی میلانات کو سمجھنا پڑے گا اور پسند
و ناپسند، جبلی اور نفسیاتی تقاضوں کا دھیان رکھنا ہوگا تبھی وہ آپ کی تحریر میں
دلچسپی لیں گے اور آپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔
ذیل
میں اسی پس منظر کی وجہ سے بچوں کے لکھاریوں کے لئے 15مفید اور کارآمد اصول پیش
کئے جارہے ہیں ، انہیں قبول فرمائیے، عمل میں لائیے اور نتیجہ پائیے۔
(1)لکھنے سے پہلے کے
کام:(Before Writing)
(01)بچوں
کے لئے کچھ بھی لکھنے سے پہلے آپ کو طے کرنا ہوگا کہ آپ کیا پیغام دینے جارہے ہیں؟، اس تحریر کے ذریعے
سے چھوٹے سے دماغ میں کیا بٹھانا چاہتے
ہیں؟، ورنہ تحریر بے مقصد ہوجائے گی یا مضمون اور سبق میں کوئی ربط ہی نہیں رہے گا۔ یقین نہیں آتا تو ایک مثال پڑھ لیجئے:
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک کوے کی کہانی پڑھی
تھی، کہ سرداری حاصل کرنے کے لئے اس نے ایک تدبیر کی، سب پرندوں کے پنکھ جمع کئے،
اور رنگ برنگی بن کر سرداری حاصل کرلی لیکن جب دوسروں کو اس حقیقت کا پتا چلا تو
انہوں نے خوب اس کی درگت بنائی۔ اس کے بعد کہانی سے درس دیتے ہوئے موصوف لکھتے
ہیں:
”اچھا اخلاق سب سے بڑی خوب صورتی ہے“۔
لہٰذا
یہ طریقہ غلط ہے کہ لکھنے کے بعدتانے بانے ملا کر زبردستی نتیجہ اخذ کیا جائے اور
کڑوی دوائی کی طرح بچے کو پکڑ کر پلایا جائے۔
(02)اس
کے ساتھ دوسری اہم چیز جس کی لکھنے سے پہلے رعایت کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اس مضمون کی وساطت سے جو پیغام آپ دینا چارہے ہیں وہ کس عمر کے بچوں کے لئےہے؟
لکھنے سے پہلے آپ کو متعین کرنا ہوگا کہ یہ پیغام کس عمر کے بچوں کے لئے ہے؟ پندرہ سال کے بچے کے لئے چڑے چڑی کی
کہانی اتنی ہی غیر دلچسپ اور بور ہوگی جتنی کہ 8 سال سے کم عمر بچے کے لئے سائنسی
معلوماتی کہانی۔
عمر
کے تعین ہی سے مضمون کی بہت سی چیزیں متعین ہوتی ہیں مثلاً بنیادی خیال، پلاٹ، اندازِ
بیاں، زبان، اس کی طوالت وغیرہ ۔آپ
کی معلومات کے لئے یہ نقشہ پیش ہے جس میں ایج لمٹ کے اعتبار سے مضمون یا کتاب کا حجم بتایا گیا ہے۔
0
سے 3 سال تک |
200
الفاظ |
2 سے پانچ سال تک |
200
سے 500 الفاظ |
3 سے 7 سال تک |
500
سے 800 الفاظ |
4 سے 8 سال تک |
600
سے 1000 الفاظ |
5 سے 10 سال تک |
3000
سے 10000 الفاظ |
7 سے 12 سال تک |
10،000
سے 30،000 الفاظ |
(2)لکھتے وقت کے کام: (During Writing)
بچوں کے لئے لکھتے وقت جن باتوں کا خیال رکھنا
چاہئے ذیل میں انہیں بیان کیا جارہا ہے۔
(01)ہر
مضمون کے تین بنیادی عناصر ہوتے ہیں:
ابتدا، نفس مضمون اور خاتمہ ، مگر جب بات بچوں
کی ہو تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے،
ہر عنصرکی پوری پوری رعایت رکھنا ضروری ہوجاتی ہے۔
ابتداء
کو کیسے دلکش بنانا ہے؟، آخر سے آگے آنا ہے یا یا درمیان سے شروع کرنا ہے ؟ کردار
کا تعارف بیانی ہوگا یا عملی؟درمیان مضمو ن میں سلاست اور تجسس کیسے برقرار رکھنا
ہے؟ مکالمہ جات کو کیسے طول دیتے ہیں ؟ خاتمہ میں مسئلہ کا حل دیا جاتا ہے یا کسی اور موڑ کا پتا بتاکر رخصت ہوجاتے ہیں
؟ان ساری چیزوں کی معلومات ہونی چاہئے اور استعمال بھی آنا چاہئے، اگر اب تک پتا
نہیں ہیں تو انہیں سیکھئے، لکھاریوں کے
مضامین میں تلاش کیجئے،نوٹ کیجئے اور پھر استعمال کیجئے۔
(02)لکھتے
وقت انداز چاہے روایتی ہو یا آب بیتی، اس میں بیان، عمل، حرکت اور مکالمے سب کا رنگ ہونا چاہئے لیکن اس طرح کہ کوئی حصہ بھی زیادہ طوالت کا
شکار نہ ہو۔ جیساکہ
شعیب ۔۔۔شعیب۔۔شہاب صاحب نےلان میں اخبار پڑھتے ہوئے کہا۔
کمرے میں بال بناتے
ہوئے شعیب نے جواب دیا: جی آیا ،بابا جان!
بیٹا! شاپنگ کے لئے جانا ہے، جلدی کرو، دیر ہورہی ہے ۔
جی بابا جان! میں تو تیار ہوں، شعیب لان میں آچکا تھا، و ہ بس علیزہ آپی اورآمنہ تیار ہورہی ہیں،
(03)لکھتے
وقت آپ کو یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ جس عمر
اور علمی کیفیت کے بچہ کو آ پ شروع میں
دکھا رہے ہیں آخر تک اس کا لیول اسی طرح رہنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ شروع میں وہ بالکل بھولا نظر آئے اور آخر تک
پہنچتے پہنچتے ایسا محسوس ہو کہ وہ تو سب جانتا ہے ۔
جیساکہ
ایک کہانی کے شروع میں بچے کی علمی حیثیت
واضح کرتے ہوئے لکھا جاتا ہے:
بابا جان کے ساتھ جب گھر کی طرف واپسی ہوئی تو میں نے بابا جان سے پوچھا:
بابا جان ! امام بخاری کون تھے؟
لیکن
آخر میں وہی بچہ معصومانہ سوال کرتے
ہوئے صاحب کشف الظنون کا چھوٹا بھائی محسوس ہوتا ہے:
بابا جان! امام بخاری نے بخاری شریف کیوں لکھی؟
موطا
امام مالک، امام اعظم کی، کتاب الآثار، جامع سفیان ثوری، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف
عبد الرزاق اور عبد اللہ ابن مبارک جیسے بڑے بڑے بزرگوں کی کتابیں موجود تھی۔ میں
نے بابا جان سے پوچھا۔
(04)یوں
ہی بچہ سے جب کوئی بات کہلوائی جائے تو اس کی سطح کا خیال رکھنا بھی
ضروری ہے، ایسا نہ ہو سات سالہ ناصر کتابوں کے حوالہ دے رہا ہو، حدیث عربی
متن کے ساتھ بتارہا ہو، معاشرے کی تباہی
کے اسباب شمار کروا رہا ہو ، مطلب کہ پوری کہانی میں فطری پن کو برقراررکھنا کہانی کی تاثیر کا سبب بنے گا۔
(05)لکھتے
وقت بچہ کے ذخیرہ الفاظ کی رعایت کرنا ایک ضروری امر ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی ذہن
نشین رہے کہ ابتدا میں لکھنے والے آسان ہی
لکھتے ہیں لیکن جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے واپس اپنی عمر کے لحاظ سے فطری زبان کی
کی طرف لوٹ جاتے ہیں، اس لیے اپنے لکھے ہوئے ٹکڑوں کو بار بار دہرانا ضروری ہے۔
(01)جملے
چھوٹے ہوں، بچوں کو طویل بیانیےیا زیادہ بیانیے پسند نہیں ہوتے۔
(02)تحریر
میں مناسب تکرارہو، جملوں کو دہرایا جائے
تاکہ ان کے ننھےذہن میں آپ کے خیالات اپنی جگہ بنا سکیں۔
(03)خیال
رہے کہ ضرورت سے زیادہ منظر کشی،نصیحت کے طویل مواعظ، ربط کا فقدان یا صریح تضاد
بچوں کی دلچسپی کے ختم ہونے کا سبب
بن سکتے ہیں۔
(04)آخری
بات یہ ہے کہ ان سب چیزوں سے آپ کی تحریر پڑھنا، سمجھنا آسان ہوجائے گی، اور سچ کہا ہے کسی نے: ’’آسانی سے پڑھی جانے
والے تحریر بہت مشکل سے لکھی جاتی ہے۔‘‘
(3)لکھنے کے بعد کے کام: (After Writing)
تحریر
لکھنے کے بعد درج ذیل چیزیں عمل میں لانے سے آپ کی تحریر میں نکھار پیدا ہوگا اور
دن بہ دن حسن بڑھے گا:
(01)مضمون
لکھ لینے کے بعد کچھ دیر کے لئے وقفہ کریں،اسے چھوڑ دیں، وقت ہو تو ایک دن کا وقفہ
کریں۔
(02)دوسرے
دن مضمون پر نظر ثانی کریں، قاری کے پڑھنے سے قبل ایک بار خود پڑھیں، جارج پلمٹن
کو (03)انٹرویو دیتے ہوئے ہیمنگوے نے کہا تھا: اپنالکھا ہوا دوبارہ پڑھئے۔یہ آپ کی
تحریر میں نکھار لانے کا سبب بنے گا۔
(04)دوسری
بار پڑھتے ہوئے جملوں کی ترتیب اور ربط کا
بغور مطالعہ کریں، ان کی نوک پلک سنواریں، املاء دیکھیں،اسے درست کریں۔
(05)اس
کے بعد کسی تجربہ کار کو چیک کرائیں اور اچھے مشورے کو قبول کریں۔