محرّمُ الحرام 1331ھ کی ایک مبارک شب تھی ،ایک صالح جوان ،صاحبِ بصیرت عالم دین مدینہ شریف میں محوِاِستراحَت (یعنی سورہے) تھے،خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،حضراتِ شیخین کریمین یعنی حضرت ابوبکرصدیق(1) اور حضرت عمرفاروقِ اعظم (2)رضی اللہ عنہما جلوہ فرماہیں، تھوڑی دیربعد حضراتِ شیخین تشریف لے جاتے ہیں ،یہ تنہانبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس رہ جاتے ہیں، آگے بڑھ کر نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےمبارک ہاتھ پکڑکر اپنےسینےپر رکھتے ہوئےچلنےلگتےہیں اورعقائدسے متعلق یکے بعددیگرے تین سوالات عرض کرتے ہیں،نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہرسوال کے بعد انہیں جواب عطافرماکر آخرمیں یہ ارشادفرماتے ہیں کہ ’’جواحمدرضا خاں کہتے ہیں وہ حق وصِدق (سچ)ہے۔‘‘یہ خواب دیکھنے والے اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ(3) سے اتنا متاثرہوئے کہ مدینہ شریف میں ہی نیت کرلی کہ میں اعلیٰ حضرت کے پاس بریلی شریف(4) ضرورجاؤں گا اورآپ کی زیارت کروں گا۔(5) پھر جب آپ ہند آئے تو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے،شرفِ تلمذحاصل کرکے اجازتِ حدیث اورسلسلۂ قادریہ رضویہ میں خلافت سے سرفراز ہوئے(6) ۔ یہ عظیم ہستی ضلع چکوال (پنجاب، پاکستان) (7) کےگاؤں اوڈھروال(8) اورچکوڑہ (9) کے علامہ قاضی محمدنورقادری صاحب ہیں۔جن کا مختصرتذکرہ آنے والی سطور میں ملاحظہ کیجئے:

ولادت: خلیفۂ اعلیٰ حضرت،عالمِ رَبَّانی حضرت مولانا قاضی ابوالفخر محمد نور قادری سُنی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 13 رجب 1307ھ مطابق 5مارچ 1890ء موضع اوڈھروال (ضلع چکوال، پنجاب، پاکستان) کےایک علمی کہوٹ قریشی گھرانے میں ہوئی۔والدِ گرامی حضرت مولانا قاضی عالم نور قریشی اور دادا حافظ محمد سرداراحمد قریشی رحمۃ اللہ علیہما تھے۔ آپ کی ذاتی ڈائری میں تحریر کردہ خاندانی شجرے کے مطابق آپ کا سلسلۂ نسب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچاجان حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ (10) سے جا ملتاہے۔(11)

علمی خاندان کےچشم وچراغ:آپ کاخاندان کئی پشتوں سے علم وفضل کا گہوارہ ہے، آپ کےداداجان حضرت علامہ حافظ محمد سردار احمد قریشی صاحب بحرالعلوم حافظ محمدعظیم پشاوری (12)رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد،جیّدعالمِ دین،محقق ومدقّق اور استاذُ العلماتھے۔ شیخ طریقت خواجہ حافظ غلام نبی للہی (13)،عالمِ شہیر مولانا حافظ عبدُالحلیم کریالوی (14) اوران کے بیٹے مولانا عالم نورقریشیرحمۃ اللہ علیہم آپ کےہی شاگردہیں۔(15)

تعلیم وتربیت: کمزور بینائی کے باوجود آپ کوحصولِ علم کابہت شوق تھا،والدِگرامی حضرت مولاناقاضی عالم نورصاحب سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے علاقے کے جید علما سے استفادہ کیا۔اترپردیش ہندبھی تشریف لےگئے، شاہجہانپور(16) اور دیگر شہروں میں علمِ دین حاصل کیا، آپ بہت ذہین وفطین تھے ۔دیگرعلوم کے ساتھ ساتھ عربی زبان پر کامل دسترس رکھتےتھے اور اپنے زمانے کے علمائے کرام سے عربی زبان میں مراسلت کیا کرتے تھے۔(17)

حرمین شریفین میں حاضری:شوال المکرّم 1329ھ مطابق اکتوبر 1911ء کو حرمین طیبین حاضرہوکرحج کی سعادت سے بہرہ ورہوئے۔ قطبِ مکۂ مکرمہ ، شیخُ الدلائل حضرت مولانا شاہ عبد الحق صدیقی محدث الہ آبادی نقشبندی حنفی مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ (18) سے جملہ علوم اور اَورَاد و وَظائف کی اجازت حاصل کی۔ اس کے بعد تین سال مدینہ منورہ میں مقیم رہے اورعلمائے مدینہ سے خوب استفادہ کیا۔(19) یہاں آپ ’’صوفی‘‘کےلقب سے معروف تھے۔آپ نے1330ھ کو مدینہ شریف میں حضرت مولاناسیّداحمدعلی رامپوری(20) اورحضرت مولانا کریم اللہ پنجابی(21)رحمۃ اللہ علیہما سےملاقاتیں کیں، انہوں نے آپ کی دعوت بھی کی ،ان حضرات نےانہیں اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّۃ کےبعض مضامین سنائے،جسےسن کرآپ خوش ہوئے، مولانا کریم اللہ صاحب نےانہیں تقریظ لکھنےکا کہا،آپ نےفرمایا کہ میں وطن لوٹ رہا ہوں وہاں جاکراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سےملاقات بھی کروں گا اوراچھے اندازسےتقریظ بھی لکھوں گا۔(22) علامہ احمدعلی صاحب نے علامہ شیخ یوسف نبہانی رحمۃ اللہ علیہ(23) کی کتاب ’’جواہرُالبحار‘‘ (24) اپنے دستخط کے ساتھ آپ کو عطافرمائی۔(25)

حرمین شریفین سے واپسی: ذیقعدۃ الحرام 1331ھ مطابق اکتوبر 1913ء میں نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بذریعہ خواب آپ کو حج کرنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹنے کا حکم فرمایا۔چنانچہ حج سے پہلے آپ نےمدینہ شریف کوالوداع کہتے ہوئے ایک دردبھرافِراقیہ قصیدہ لکھا جوآپ کی ڈائری میں موجودہے۔وطن واپس آکرآپ کی مولاناکریمُ اللہ صاحب سےمراسلت جاری رہی مگر اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّۃ پر تقریظ لکھ سکےیا نہیں اس کی صراحت نہیں مل سکی۔ البتہ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب النیرالوضی فی علم النبی تحریر فرمائی۔ (26)

بیعت واجازت: ابتدائی عمر میں سلسلۂ چشتیہ کےشیخ طریقت سیّدصاحب کی صحبت یابیعت کا شرف پایا۔ (27) آپ کو آستانہ عالیہ قادریہ گیلانیہ بغداد شریف کے سجادہ نشین حضرت شیخ سیّدعلی قادری گیلانی سے بھی سندِاجازت حاصل تھی۔حرمین طیبین سے واپسی پر بریلی شریف حاضرہوئے اور اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہسے شرفِ تلمذحاصل کرکےاجازت حدیث اورسلسلۂ قادریہ رضویہ میں خلافت سے سرفراز ہوئے، (28) اعلیٰ حضرت نے آپ کو جو الاجازات المتينه لعلماء بكة والمدينة کا نسخہ اپنے دستخط کے ساتھ عطا فرمایا وہ ان کے ورثا کے پاس محفوظ ہے۔

اس پر علامہ محمدنورقادری صاحب کی یہ تحریر ہے: یقول الفقیر كان اللہ تعالی له ان أوّل إجازتی فی ھذہ "الإجازات المتینة" قول مولانا و شیخنا صاحب الحجة القاھرة مؤید الملة الطاھرة مؤلّف التألیفات النافعة عالم أهل السنّة والجماعة نخبة أهل العلم والعرفان الشیخ المفسر المحدّث الفقیه الحافظ الحاج أحمد رضا خان البریلوی عاشق النبی الآمر(صلی اللہ تعالی علیه وعلی آله وسلم)سلمہ ربہ القوی بسم اللہ الرحمن الرحیم.فی ص ۱۲ الی قوله: وھو یرید العدوان من بعد فی ص۱۳۔ وبعده قوله: یامولاناالفاضل الحسن الشمائل ص۱۷ ۔لکن ۔۔۔الجلیلة أي: قول ال۔۔۔۔وآخر کل۔۔۔اتفقت العبارات ۔۔۔منھا وغیرھا الی قوله آخر الاجازة والحمدللہ رب العالمین ص۲۳ .منھا وقد أجزت بھا وبکلّ ما أجازنی به مولانا الشیخ العارف محمد عبد الحق المکی وغیرہ من المشائخ رحمھم اللہ المنعم وکلّ من کان أهلاً لذلك من أولادي وأقاربي بشرطها المذكور في محلّه، ربنا تقبل منّا إنّك أنت السميع العليم وصلّى الله تعالى وسلّم وعلى سيّدنا محمد وآله الكريم.كتبه بقلمه الفقير إلى مولاه محمد نور السنّي الحنفي القادري ساكن أوہڈر وال ضلع جهلم، كان الله تعالى له بمحمد النبي الآمر صلّى الله تعالى عليه وآله وسلّم يوم الأربعاء ٢٣ رجب المرجب ١٣۳۲۔

یعنی فقیر(اللہ پاک اس سے راضی ہو) کہتا ہےکہ ہمارے سردار اور شیخ ، دلائلِ قاہرہ دینے والے، پاکیزہ دین کے مددگار،لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی کتابوں کے مصنف، اہل سنّت وجماعت کے عالم، اہلِ علم ومعرفت میں ممتاز، مفسر ،محدث ، فقیہ ،حافظ، حاجی احمد رضا خان بریلوی ، نیکیوں کا حکم فرمانے والےاور برائیوں سے روکنے والے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سچے عاشق ، اللہ پاک انہیں سلامت رکھے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب ’’الاجازات المتینه‘‘ میں مجھے پہلی اجازت ان مقامات پر ان الفاظ سے دی:صفحہ 12: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے صفحہ 13: ’’ وھو یرید العدوان من بعد‘‘ تک۔اس کے بعد صفحہ 17 پر ان کے اس قول: ’’ یامولاناالفاضل الحسن الشمائل ‘‘سے ان کی آخری اجازت تک، الحمد للہ رب العلمین صفحہ 23 تک۔ بیشک (الاجازات المتینہ میں) جو مجھے اجازتیں ملی ہیں اورمولانا شیخ عارف محمد عبد الحق مکی وغیرہ مشائخ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے جو اجازتیں دی ہیں ان سب کی ان شرائط پر جو اس کے مقام پر مذکور ہیں ، اپنی اولاد اور قریبی لوگوں میں سے اہل افراد کو اجازت دیتا ہوں ، اے اللہ! تو ہم سےاس کوقبول فرما بیشک تو ہی سب سے بہتر سننے اور جاننے والا ہے اور اللہ پاک درود وسلام نازل فرمائے۔ ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی عزت والی آل پر ۔اپنے پروردگار کامحتاج اوڈھروال ضلع جہلم (29) کے رہائشی محمد نور سنی حنفی قادری نے 23رجب 1332ھ ہجری کو اسے اپنے قلم سے لکھا ہے، اللہ پاک نیکیوں کا حکم فرمانے والے اور برائیوں سے روکنے والے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکےصدقےاس سے راضی ہو۔(30) اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کو یہ اجازت ذیقعدۃ الحرام 1331ھ مطابق اکتوبر 1913ء کے بعد 23رجب 1332ھ مطابق 17جون 1914ء سے پہلےحاصل ہوئی ۔

علمی مقام :آپ عالمِ جلیل،مفتیِ اسلام،صوفی ِباصفا ،شاعراورمصنف تھے۔ عربی ،اردواورپنجابی میں نظم ونثرمیں کامل دسترس تھی ،علمائے اہلسنت سے عربی میں مراسلت بھی فرماتے تھے۔جن علماسے آپ کا رابطہ تھا ان میں سے حضرت قبلہ عالم پیرمہرعلی شاہ گولڑوی(31) حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری(32) ،صدرُالافاضل علامہ نعیمُ الدّین مرادآبادی(33) اورحضرت علامہ فیضُ الحسن فیض(34) رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔(35)

خدمات دین ،تصنیف وتالیف:آپ نے اپنی زندگی کو علمِ دین کے حصول اوراس کی اشاعت کے لیے وقف کر رکھا تھا ۔ آپ نے عربی، اردو اور پنجابی میں نظم ونثرپر مشتمل 15 کتب تصنیف کیں ،جن کے نام یہ ہیں:

(1) دفع الجہال عن تکرار الجماعة(عربی )، (2)دفع الجہال عن تکرار الجماعة (اردو)، (3) المباحثۃ المعمدة قضاء السنة قبل الجمعة (اردو) (4) ردّ الشہاب علی المفتری الکذاب (اردو )، (5)مجموعہ المورد الروی فی المولا النبی (پنجابی منظوم)،(6)المراة الحلیہ للحلیة النبویة (پنجابی،منظوم)،(7) سلوک اکمل السبیل یا التوجہ الی افضل الرسول (پنجابی ، منظوم)، (8) احسن النغم فی مدح الغوث الاعظم (پنجابی منظوم) ۔(9) الخزی المزید (اردو، مطبوعہ) ، (10) التوضیحات لمافی اشعة اللمعات (عربی) (11) قول الکلم فی ظہر الجمعة(عربی مسودہ)، (12) النیرالوضی فی علم النبی(عربی مسودہ)،(13) قہدالاھوتی(عربی مسودہ)، (14) ضرب الحدیدعلی راس الرشید (عربی مسودہ) ، (15)الدود الجلیل لتاویلات الذلیل (عربی مسودہ)۔ (36)

علماسے روابط :آپ برصغیرپاک وہندکے کئی جیدعلماسے رابطے میں تھے ۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ کی جوكتاب شائع ہوتی وہ بریلی شریف سےآپ کوبھیج دی جاتی ۔(37) صدرُالافاضل حضرت علامہ مولانا سیدمحمدنعیمُ الدّین مرادآبادی کے ساتھ عربی میں مراسلت رہی۔آپ کے کئی فتاویٰ اس وقت کےمشہور ہفتہ روزہ سراجُ الاخبار(38) میں شائع ہوئے ۔(39)

سیرت وعادات:آپ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سچے عاشق،متبع سنت،صالح کردارکےمالک،شرم وحیاکے پیکراوروضع قطع میں سنّتِ رسول کے پابندتھے۔(40)

شادی واولاد:آپ کی شادی موضع چکوڑہ(ضلع چکوال)کے ایک علمی خاندان میں ہوئی ۔اس کے بعدآپ مستقل چکوڑہ میں رہائش پذیر ہوگئے ۔ آپ کے بیٹے حضرت مولانا قاضی حکیم احمدچکوڑوی طب وحکمت میں مشہور، اورآپ کے علمی جانشین تھے۔اسی طرح آپ کے خاندان کے مولانا حکیم محمد فاروق صاحب بہترین حکیم اورجامع مسجدچکوڑہ کے امام ہیں۔(41)

وفات ومدفن:1914ء کے آخراور1915ء کےشروع میں چکوال میں طاعون کی بیماری پھیل گئی، گھر کے گھر ویران ہوگئے،آپ کا وصال اسی طاعون کی بیماری میں صفرُالمظفریاربیعُ الاول 1333ھ مطابق جنوری 1915ء (42) کوکلمہ شہادت پڑھتےہوئے ہوگیا ،آپ کےخاندان کی چھ عورتیں بھی اسی دن فوت ہوئیں ،سب کا جنازہ اکٹھاہوا۔ (43) آپ کو قبرستان میاں صاحب بابا عبدالشکور(رحمۃ اللہ علیہ)موضع اوڈھروال(44) میں دفن کیا گیا۔جہاں آج بھی آپ کامزارموجودہے۔(45)

علامہ محمدنورقادری صاحب کے مزارپرحاضری کے احوال: راقم کچھ سالوں سے خلفائے وتلامذہ اعلیٰ حضرت کی معلومات ،ان کے وابستگان سے ملاقات اوران کے مزارات کی زیارات میں مصروف ہے، حضرت علامہ مفتی قاضی محمدنورقادری صاحب کےبارے میں سب سےزیادہ معلومات مصنفِ کتب کثیرہ ومنتظم اعلیٰ بہاء الدین زکریالائبریری چکوال پیرزادہ عابدحسین شاہ صاحب (46)سےحاصل ہوئیں ،ان سے ملاقات کا اشتیاق رہا، دعوت اسلامی کی برکت سے چنداسلامی بھائیوں کے ہمراہ ان سے دوملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ایک سفرجو راولپنڈی سےمشہورپنجابی صوفی شاعر محمدبخش قادری(47) کے شہرکھڑی شریف اور میرپورکشمیرتک ہواجس میں مبلغ دعوت اسلامی محمدحمادعطاری اورمحمدخورشیدعطاری صاحب میرے ہمراہ تھے،یہ 7جنوری 2016ء (27ربیع الاول1437ھ)کی خوشگوارصبح تھی،خورشیدبھائی نے پُرتکلف ناشتہ کروایا،انہیں کی گاڑی میں راولپنڈی سے بذریعہ موٹروےچکوال کے لیے روانہ ہوئے، غالبادوگھنٹے میں چکوال پہنچ گئے، پیرزادہ عابدصاحب انتظارمیں تھے،مرکزی ڈاکخانہ چکوال کےقریب حضرت مولانا ڈاکٹرعبدالواحد الازہری صاحب(48) کی مسجدحسینیہ حنفیہ میں ڈاکٹرصاحب اورعابدصاحب سے ملاقات ہوئی، الاجازات المتينه لعلماء بكة والمدينة کاعلامہ محمدنورصاحب کا وہ ذاتی نسخہ دیکھا جو انہیں اعلیٰ حضرت سے حاصل ہواتھا۔اس کے بعدایک اسکول میں جانا ہوا جس کے ایک ٹیچرچکوڑہ کےتھے یہیں علامہ محمدنورصاحب کی بیاض کی زیارت کی، ان ہی کےہمراہ چکوڑہ گاؤں جانا ہوا، علامہ محمدنور صاحب کےخاندان کے کئی افرادسےملاقات ہوئی اورعلامہ صاحب کا ذکرخیرہوتارہا ۔ علامہ صاحب کی مسجدکے امام وخطیب صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو غالباًآپ کے پوتے کے بیٹے تھے ۔ان کے ساتھ چکوڑہ قبرستان میں آپ کےمزارپرانوارکی زیارت کی ، ہمیں کھڑی شریف میں ہونے والے دعوت اسلامی کے ہفتہ واراجتماع میں پہنچنا تھا اس لیے بعدِظہروہاں سے روانہ ہوئے۔ راستے میں شدید پارش اورچکوال تاجی ٹی روڈ راستے کی خرابی کی وجہ سےتاخیر ہوگئی ،جب کھڑی شریف پہنچےتو بارش کا سلسلہ جاری تھا،بعدِنمازمغرب ہفتہ واراجتماع میں بیان کرنے کی سعادت ملی۔ اس کے بعد کھانا کھایا اورمیرپورکے لیے روانہ ہوگئےاور ایک گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے،مقامِ قیام پر پہنچ کر حمادبھائی اورخورشیدبھائی راولپنڈی روانہ ہوگئے ۔

(کتبہ: ابوماجد محمد شاہد عطاری مدنی عفی عنہ، 8جمادی الاولیٰ 1442ھ مطابق 24دسمبر2020ء، بمقام عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی)

حواشی ومراجع

(1)۔ ام المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنوتمیم کے چشم و چراغ، قریش کی مُقتدِر شخصیت، اَفْضَلُ الْبَشَر بَعْدَ الْاَنْبِیَاءِ ، سفر و حضر میں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رفیق اور مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہیں۔ ولادت واقعۂ فیل کے تقریباً ڈھائی سال بعدمکّہ شریف (عرب شریف) میں ہوئی۔ 22 جُمادَی الاُخریٰ 13 ہجری کو مدینۂ منوّرہ میں وِصال فرمایا اور حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پَہلو میں دفن ہوئے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 21تا 66)

(2)۔ امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا ابوحفص عمر فاروقِ اعظم عِدَوِی قرشی رضی اللہ عنہ کی ولادت واقعۂ فیل کے 13سال بعد مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ دورِ جاہلیت میں علمِ انساب، گھڑ سواری، پہلوانی اور لکھنے پڑھنے میں ماہر اور قریش کے سردار و سفیر تھے، اعلانِ نبوت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے۔ آپ جلیلُ القدر صحابی، دینِ اسلام کی مؤثر شخصیت، قاضیِ مدینہ، قوی و امین، مبلغ عظیم، خلیفۂ ثانی، پیکرِ زہد و تقویٰ، عدل و انصاف میں ضربُ المثل اور عظیم منتظم و مدبر تھے۔ آپ کے ساڑھے 10سالہ دورِخلافت میں اسلامی حدود تقریباً سوا 22 لاکھ مربع میل تک پھیل گئیں۔ آپ نے یکم محرم 24ھ کو مدینہ شریف میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ (تاریخ الخلفاء، ص 86تا117، العبر فی خبر من غبر، 1/20)

(3)۔ اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1272ھ کو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ کو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،تاجدارفقہاو محدثین، مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(4)۔ بریلی Bareilly)):یہ بھارت کے صوبے اترپردیش میں واقع ہے، دریائے گنگا کے کنارے یہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ دریا کی خوشگوار فضاء نے اس کے حسن میں موثر کردار ادا کیا ہے۔

(5)۔ علماء عرب کےخطوط فاضل بریلوی کےنام،111

(6)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،120

(7)۔ ضلع چکوال:چکوال پاکستان کے صوبے پنجاب کے شمالی حصے میں واقع ہے، دار الحکومت پاکستان اسلام آباد سے جانب جنوب یہ ایک سوبائیس (122)کلومیٹرفاصلے پر ہے، یہ آثار ِ قدیمہ کی جنت ہے، یہاں دو کروڑ 20 لاکھ پرانے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں، موجودہ چکوال شہر آٹھویں صدی عیسوی میں ماسٹر منہاس قوم نے آباد کیا۔انگریزی دور میں یہ ضلع جہلم کا حصہ تھا۔1985 میں اسے ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ اس وقت ضلع چکوال چھ ہزار پانچ سو چوبیس (6524) مربع كلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے، یہ پانچ تحصیلوں چکوال، کلر کہار، چوآسیدن شاہ، تلہ گنگ اورلاوہ جبکہ 68 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے ، یہاں کی ایک تعداد پاک فوج میں ملازم ہے، یہاں کی ریوڑیاں بہت مشہور ہیں ،مشہور نعت گو شاعر خالد محمود مرحوم کا تعلق بھی چکوال سے ہے ان کی وہ نعت جس کا مطلع ہے یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے، بہت مقبول ہے، موجودہ آبادی تقریبا ایک لاکھ ہے، ۔(نگر نگر پنجاب 131 تا 136)ر اقم کے سسرال ملوٹ (تحصیل کلر کہار ضلع چکوال )کے رہنے والے ہیں۔

(8)۔ اوڈھروال: Odherwal) پاکستان کا ایک پاکستان کی یونین کونسلیں جو ضلع چکوال میں واقع ہے۔ یہ تحصیل چکوال کا قصبہ ہے،شہرچکوال سے جانب مغرب ساڑھےچارکلومیٹرفاصلے پرہے۔تیرہویں اورچودھویں صدی ہجری میں یہ دینی علوم وفنون حاصل کرنے کا مرکز تھا ۔

(9)۔ چکوڑہ: Chakora) پاکستان کا ایک گاؤں جو پنجاب ضلع چکوال میں واقع ہے۔ جو یونین کونسل اوڈھروال میں ہے،یہ چکوال شہر سےجانب مغرب ڈیڑھ میل(تقریبا 6کلومیٹر) برلب تلہ گنگ روڈ واقع ہے۔جب 1985ء میں چکوال کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو چکوڑہ میں غازی آباد کمپلکیس بنایا گیا جو جدید و قدیم طرزِ تعمیر کا مرقع ہے،یہ چکوال تلہ کنگ روڈ کے جنوبی کنارے واقع ہے۔(نگر نگر پنجاب ، 133)

(10)۔نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا جان حضرتِ سَیِّدُنا ابوالْفَضْل عبّاس ہاشِمی قُرَشِی مکّی رضی اللہ عنہ عامُ الِفیل سے 3 سال قبل مَکَّۂ مُکَرَّمہ میں پیدا ہوئے اور 14 رجب 32ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وِصال فرمایا، تدفین جَنّتُ الْبَقِیع میں ہوئی۔(تاریخِ مدینہ دمشق، 26/273،379)

(11)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،118

(12)۔ بحرُالعلوم حضرت علّامہ حافظ محمد عظیم واعظ پشاوری رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادَت 1205ھ اور وِصال 24جُمادَی الاُولٰی 1275ھ کو فرمایا، عَربی، فارسی، پَشتو اور پنجابی زبان میں عُبور رکھنے والے جَیِّد عالمِ دین، واعظِ شِیریں بیان، نقشبندی بزرگ، استاذُالعلماء اور خطیب و امام جامع مسجد خواجہ مَعروف علاقہ گنج پشاور تھے۔( علماء و مشائخِ سرحد، ص 128تا137)

(14)۔بدۃ الکاملین حضرت مولاناخواجہ غلام نبی للّٰہی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1234ھ کو للہ شریف (تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم) کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی ،ابتدائی تعلیم والدمحترم ،حضرت مولاناسردارحمد(چکوال)علامہ حافظ درازمحمداحسن پشاوری وغیرہ سےحاصل کی،مولانا خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری(قصور) سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں مریدہوکرخلافت سےسرفرازہوئے،زندگی بھردرس وتدریس اوررشدوہدایت میں گزارکر 21؍ربیع الاول  1307ھ کووصال فرمایا ،مزارخانقاہ عالیہ للہ شریف میں ہے ۔آپ حافظ قرآن ،عالم باعمل ،شیخ طریقت ،صاحب کرامت بزرگ اوربانی خانقاہ للہ شریف ہیں ۔(تذکرہ اعلیٰ حضرت للہی،65۔ تذکرہ اکابرِ اہلسنت،363)

(14)۔مولانا حافظ عبدالحلیم کریالوی رحمۃ اللہ علیہ کریالہ (تحصیل وضلع چکوال)کےایک علمی گھرانےمیں پیداہوئے ،آپ حافظ قرآن،مفتی زمانہ،خوش الحان مقرراورصاحب تصنیف بزرگ تھے،اعلیٰ حضرت امام احمدرضاسےگہرے تعلقات تھے ،ایک عرصہ تک ممبئی (ہند)میں خدمات دین میں مصروف رہے ،ان کی ایک کتاب احترازالصالحین عن شرورالفاسقین پر اعلیٰ حضرت امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ نے1301ھ میں ایک تقریظ بھی لکھی۔(تقاریظ امام احمدرضا ،80)

(15)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،118 ۔

(16)۔ شاہجہاں پور : Shahjahanpur) بھارت کا ایک شہر جو اتر پردیش میں واقع ہے ۔

(17)۔تاریخ الدولۃ المکیہ ص68

(18)۔ شیخُ الدلائل حضرت مولانا محمد عبدالحق صدیقی محدثِ الٰہ آبادی، نقشبندی حنفی مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1252ھ ضلع نیوان الٰہ آباد (یوپی) ہند میں ہوئی اور وصال16شوَّالُ المکرَّم 1333ھ مکّۃُ المکرمہ میں ہوا۔ آپ استاذُالعلماء، مفسرِقراٰن، صوفیِ باصفا، قطبِ مکۂ مکرمہ، جامع علم و عمل، مقرّظِ حسامُ الحرمین اور اکابر علمائے اہلِ سنّت سے ہیں۔ متعدد تصانیف میں الاکلیل علیٰ مدارک التنزیل مطبوع ہے۔(الاعلام للزرکلی، 6/186، انوارِ قطبِ مدینہ،ص73، 189،191)

(19)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119

(20)۔ مولانا سیداحمدعلی رامپوری رحمۃ اللہ علیہ یوپی ہند کے رہنےوالے تھے ،آپ مدینہ شریف گئے تو وہیں رہائش اختیارکرلی ،الدولۃ المکیۃ کے تقاریظ لینے میں کافی کوشش فرمائی ،خودبھی عربی میں تقریظ لکھی ،اعلیٰ حضرت سے رابطے میں رہتے تھے،ان کے کئی مکتوب شائع شدہ ہیں ،(تاریخ الدولۃ المکیۃ،64)

(21)۔ مولاناکریم اللہ پنجابی رحمۃ اللہ علیہ عالم دین،علامہ عبدالحق مکی رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ،صاحب طریقت اورخیرخواہ اہلسنت تھے،عقائداہلسنت کےتحفظ واشاعت میں مخلص ومتحرک ہونےکی وجہ سے مولانا کریم اللہ جانبازفی سبیل کے لقب سے ملقب ہوئے،(تاریخ الدولۃ المکیۃ،65)

(22)۔ علماء عرب کےخطوط فاضل بریلوی کےنام،111

(23)۔ عاشقِ رسول حضرت شیخ یوسف بن اسماعیل نَبہانی اَزْہَری رحمۃ اللہ علیہ شافِعی فقیہ،صوفی،قاضی ، شاعر اور کثیرکتب کے مصنف ہیں، سَعَادَۃُ الدَّارَیْن،جامع کراماتِ اولیاءاور شَواهِدُ الحق مشہورِ زمانہ تصانیف ہیں، 1265 ھ قصبۂ اِجْزِم(نزدحیفاشمالی فلسطین) میں پیدا ہوئے،اوائلِ رَمَضان 1350ھ کو وصال فرمایا، مزارِ مبارک بیروت (لبنان) میں ہے۔ ( شواهد الحق، ص 3،8)

(24)۔ جواہرالبہار فی فضائل النبی المختار سیرت مصطفی پر عربی میں کتاب ہے ، علامہ یوسف نبہانی نے پچاس سے زائدعلمائے اہل سنت کی تحریرات کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ یہ مستقل ایک تصنیف معلوم ہوتی ہے ۔ پوری کتاب سیرت النبی ، خصائص،شمائل،مغازی، فضائل النبی ،معجزات، معاشرت النبی،عشق مصطفی، کمالات نبی جیسے عنوانات ومودسے لبریز ہے ،اس کا اردومیں ترجمہ علمائے اہلسنت مثلاعلامہ عبدالحکیم شرف قادری،علامہ عبدالحکیم شاہ جہان ہوری وغیرہ نے کیا ۔

(25)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119

(26)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119،تاریخ الدولۃ المکیۃ،69

(27)۔ علماء عرب کےخطوط فاضل بریلوی کےنام،110

(28)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119،تاریخ الدولۃ المکیۃ،69

(29)۔ اوڈھروال،پہلے ضلع جہلم میں تھا،مگر1985ء میں جب چکوال کو ضلع بنایاگیاتواب یہ اس کا حصہ ہے۔

(30)۔مخطوط الاجازات المتینہ،مخطوط کے سرور ق کی مطلوبہ عبارت کی تکمیل اوراس کاترجمہ محقق اسلامک ریسرچ سینٹرالمدینۃالعلمیہ مولاناحافظ کاشف سلیم عطاری مدنی صاحب نے کیا ہے،راقم اِس پر اُن کا شکرگذارہے۔ابوماجدعطاری

(31)۔ قبلۂ عالم، تاجدارِگولڑہ حضرت پیر سیّد مہر علی شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1275ھ میں گولڑہ شریف (اسلام آباد، پنجاب) پاکستان میں ہوئی اور29 صفر 1356ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزار گولڑہ شریف میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔ آپ جید عالمِ دین، مرجعِ علما، شیخِ طریقت، کئی کتب کے مصنف، مجاہدِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر اور عظیم و مؤثر شخصیت کے مالک تھے ۔(مہرِ منیر، ص61، 335، فیضانِ پیر مہر علی شاہ، ص4، 32 )

(32)۔ امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ نقشبندی محدّثِ علی پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ حافِظُ القراٰن، عالمِ باعمل، شیخُ المشائخ، مسلمانانِ برِّعظیم کے متحرّک راہنما اور مرجعِ خاص وعام تھے۔ ایک زمانہ آپ سے مستفیض ہوا، پیدائش 1257ھ میں ہوئی اور 26ذیقعدہ 1370ھ میں وصال فرمایا، مزار مبارک علی پورسیّداں (ضلع نارووال، پنچاب) پاکستان میں مرجعِ خَلائق ہے۔ (تذکرہ اکابرِ اہل سنّت،ص 113تا117)

(33)۔ صدرُالاَفاضِل حضرت علامہ حافظ سیّد محمدنعیم الدّین مُرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1300ھ مُرادآباد (ہند) میں ہوئی اور آپ نے 18ذوالحجہ 1367ھ کو وفات پائی۔دینی عُلوم کے ماہِر، شیخُ الحدیث، مُفَّسِّرقراٰن، مُناظِرِذيشان،مُفتیٔ اسلام ،درجن سے زائد کُتُب کے مصنف،قومی رَہنما وقائد،شیخِ طریقت، اسلامی شاعر،بانیِ جامعہ نعیمیہ مُرادآباد، اُستاذُالعُلَمااوراکابرینِ اہلِ سنّت میں سے تھے۔کُتُب میں تفسیرِخزائنُ العِرفان مشہور ہے۔(حیات صدرالافاضل،ص9تا19)

(34)۔ علامہ ٔ زمن حضرتِ مولانافیض الحسن فیض رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1300ھ کو بھیں چکوال کے علمی گھرانے میں ہوئی اورجمادی الاولیٰ 1347ھ کووصال فرمایا۔آپ بہترین عالم دین ،عربی ادیب وشاعر،مدرس جامعہ نعمانیہ لاہور،استاذالعلمااورکئی عربی کتب کےمترجم ہیں ۔امیرحزب اللہ حضرت پیرسیدفضل شاہ جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ آپ کے مشہورشاگردہیں ۔(تذکرۂ علمائے اہل سنت ضلع چکوال،83)

(35)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،120

(36)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،120

(37)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،45

(38) ۔ ہفتہ روزہ سراج الاخبار(1885ءتا1917ء):صاحب حدائق الحنفیہ حضرت مولانا فقیرمحمدجہلمی رحمۃ اللہ علیہ (25،اکتوبر1916ء/27ذوالحجہ1334ھ)نے1302ء کو اپنے مطبع سراج المطابع جہلم سے ہفتہ واراخبارسراج الاخبارجاری کیا،اس کی اشاعت کچھ انقطاع سے کم وبیش سولہ (16)سال جاری رہی۔اس کےمدیرغازی اسلام،مناظراہل سنت حضرت مولانا کرم الدین دبیرسیالوی رحمۃ اللہ علیہ (وفات 17جولائی 1946ء/17شعبان 1365ھ)تھے۔(ردقادنیت اورسُنی صحافت،37،46،61)

(39)۔ سراج الاخبار،6فروری1915ء،ص17

(40)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،121

(41)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،122

(42)۔آپ کےمزارکےکتبے پروفات کی تاریخ 1914ء لکھی ہوئی ہے جوکہ درست نہیں،کیونکہ سراج الاخبار،6فروری1915ءمیں آپ کی وفات کا تذکرہ ہےجس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے صفرُالمظفریاربیعُ الاول 1333ھ مطابق جنوری 1915ء کووصال فرمایا۔

(43)۔ سراج الاخبار،6فروری1915ء،ص17

(44)۔ حضرت میاں صاحب باباعبدالشکوررحمۃ اللہ علیہ ،اڈھروال کی علمی وروحانی شخصیت،باکرامت ولی اللہ ،عوام وخواص کےمرجع اورصاحب کرامت بزرگ تھے،انھوں نےگیارہویں صدی ہجری اسی گاؤں دینی مدرسہ قائم فرمایا،جواب بھی موجودہے، اس سے ایک زمانہ مستفیض ہوا۔ان کا مزارمرجع خاص وعام ہے۔(تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،55)

(45)۔ تاریخ الدولۃ المکیہ ص68

(46)۔پیرزادہ عابدحسین شاہ صاحب، یادگاراسلاف حضرت مولانا پیرانورحسین شاہ رحمۃا للہ علیہ (بانی بہاوالدین زکریالائبریری وسابق امام ومدرس جامع مسجدحنفیہ رضویہ چھونبی ضلع چکوال)کے بیٹے اورعلمی جانشین ہیں ،آپ عمدہ علمی وتحقیق ذوق کے حامل ،اردووعربی ادب سے آشنا،صحافتِ عرب کا گہرائی سےمطالعہ کرنے والے ،تراجم علمائے عرب وعجم سے خوب واقف اورحُسنِ اخلاق کے مالک ہیں ۔ طویل مدت حجازمقدس میں گزاری،عرب کے اہل علم سے ذاتی مراسم اوررابطے ہیں ،بیس (20)سے زیادہ کتب ومضامین کے مصنف ہیں ،کتب میں تاریخ الدولۃ المکیۃ،امام احمدرضا محدث بریلوی اورعلمائے مکہ مکرمہ ،محدث حجازاورسعودی صحافت اورتذکرہ سنوسی مشایخ اہم ہیں ۔ آجکل چکوال میں رہائش پذیرہیں ۔راقم کئی مرتبہ ان سے ملاقات کرچکا ہے۔(مزیددیکھئے :ماہنامہ سوئےحجازدسمبر2020ء،ص59،دمشق کے غَلایینی علماء،76)

(47)۔ رُومیِ کشمیر، صاحبِ سیفُ المُلوک حضرت میاں محمد بخش قادری رحمۃ اللہ علیہ عالمِ دین، مُصنِّف، پنچابی شاعر اور ولیِ کامل تھے، آپ 1246ھ کو موضع چک بہرام (ضلع گجرات) پاکستان میں پیدا ہوئے اور 7ذوالحجہ1324ھ کو وِصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک کھڑی شریف (ضلع میر پور) کشمیر میں مرجَعِ خاص و عام ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام، 1/455تا469)

(48)۔حضرت مولانا ڈاکٹرعبدالواحدالازہری صاحب موضع وروال (یونین کونسل،ضلع چکوال )کے رہنےوالےہیں ،قاہرہ مصرمیں بارہ(12) سال مقیم رہے،اس دوران جامعۃ الازہرسے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی،اس کے بعدپاکستان آئےاوربین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آبادمیں پروفیسرہوئے،آپ جامعہ سعیدیہ غوثیہ (متصل جامعہ مسجدحسینیہ حنفیہ مرکزی ڈاکخانہ چکوال) اوردیگرمدارس کےبانی وسرپرست ہیں۔راقم ان سے شرف ملاقات پاچکا ہے۔(مزیددیکھئے :ماہنامہ سوئےحجازدسمبر2020ء،ص65)