مشہورشیخ
طریقت ،امیرِملت حضرت مولاناسیدجماعت علی شاہ محدث
علی پوری(1) رحمۃ اللہ علیہ1332ھ /1914ء
میں لاہور(2) کی جامع
مسجدپوٹلیاں اندرون لوہاری گیٹ(3)
میں قیام فرماتھے،اتنے میں ایک ذی وجاہت مگر جسمانی طورپر
دبلےپتلے عالمِ دین،سیاہ اچکن،سیاہ رامپوری ٹوپی اور موری دارپاجامہ زیب تن کئے تشریف
لائے، امیرِملّت فوراًکھڑے ہوگئے، ان سے معانقہ کیا(گلےملے)،ہاتھوں
اور پاؤں کا بوسہ لیا، انھوں نے امیرِملّت سےپوچھا کہ آپ کاکیا حال ہے؟امیرِملّت
نے جواب دیا کہ حضور!اللہ
تعالیٰ کا شکرہے ،آپ نے جوکچھ عطافرمایاہے اسی کا فیض ہے۔(4) آپ جانتے ہیں
وہ عالم دین کون تھے ؟یہ اپنے وقت کے مشہورعالمِ دین، استاذ العلما، جامع منقول
ومعقول ،مفتیِ اسلام ، ادیبِ عربی حضرت مولانا مفتی محمدعبداللہ ٹونکی رحمۃ اللہ
علیہ تھے۔ان کا مختصرذکر کیا جاتاہے:
پیدائش
:
مفتی محمد عبداللہ ٹونکی کے آباواجدادہند کی ریاست بہارکے رہنے والے
تھے،کافی عرصہ پہلے یہ ریاست ٹونک (راجستھان) (5) کے محلہ گھورکھپوریوں والا میں منتقل ہوگئے، مفتی صاحب یہیں شیخ صابرعلی
صاحب کےگھر 1266ھ / 1850ء کو پیدا ہوئے۔ (6)
تعلیم
وتربیت :
ابتدائی تعلیم علمائے ٹونک سے حاصل کی، حفظِ قرآن کی سعادت بھی پائی، شاگردِ علامہ فضلِ حق خیرآبادی (7) حکیم سیّددائم علی عظیم آبادی(8) سے بھی
استفادہ کیا (9) طویل عرصہ استاذالاساتذہ، استاذالہندعلامہ محمد لطف اللہ علی گڑھی(10) رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں علوم عقلیہ کی تحصیل کی،دورۂ حدیث شریف
افضل المحدثین فی زمانہ، محشّی صحیح بخاری
حضرت علامہ حافظ احمدعلی سہارنپوری(11) رحمۃ اللہ علیہ سے کیا (12) انہیں کی نسبت سےآپ اپنے نام کےساتھ احمدی بھی لکھا کرتے
تھےچنانچہ عقد الدُّرَر فی جید نزھۃ النظر
صفحہ 193میں لکھتے ہیں :واناالعبدالاثیم محمدن المدعو بعبداللہ الٹونکی توطنا،والاحمدی
تلمذا،والحنفی مذہباً۔
فراغت
کےبعدبھی تحصیلِ علوم کی پیاس باقی رہی اورلاہورآکر علامہ فیض الحسن سہارنپوری (13) رحمۃ اللہ علیہ کی
شاگردگی اختیارکی اور ادبیات عربی کی تعلیم پائی، 1886ء
میں گورنمنٹ اورینٹل کالج سےمولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔(14)
بیعت
وارادت :
مفتی
صاحب اپنےعظیم المرتبت شاگردامیرِملّت پیرسیدجماعت
علی شاہ محدّث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ کی
شخصیت اورکارناموں سےمتاثرتھےاورعلم وفضل کے کوہِ گراں ہونےکے باوجود اپنےزندگی کے
آخری حصےمیں امیرملت کے ہاتھ پر بیعت کرکے سلسلۂ نقشبندیہ میں داخل ہوگئے۔(15)
اعلیٰ
حضرت سے استفادہ:
آپ نے امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان
رحمۃ اللہ علیہ سے مختلف
مسائل پرمشتمل استفتاء بھیجے،جن کےجوابات
فتاویٰ رضویہ(16) کی چارجلدوں میں موجود ہیں، (1)فتاویٰ رضویہ جلد12صفحہ169
(2)
فتاویٰ رضویہ جلد18
صفحہ 359
(3)فتاویٰ
رضویہ جلد19
صفحہ292 (4) فتاویٰ رضویہ جلد26 صفحہ 278یوں مفتی صاحب بذریعہ خط وکتابت اعلیٰ حضرت سےمستفیض ہوئے ۔
علمی مقام:
مفتی
صاحب فقہِ اسلامی،ادب عربی اورفلسفہ قدیمہ پر عبوررکھتے تھے۔اسلامی قانون اور شرعی
تنازعات میں آپ کا فیصلہ سند مانا جاتا تھا۔شاعرِمشرق ڈاکٹرمحمداقبال مرحوم(17) نے آپ سے
استفادہ کیااورشاگردگی کا شرف پایا۔(18) چنانچہ
دانائے رازمیں ہے : مفتی محمد عبداللہ ٹونکی عربی میں ان کے استاد، شعر و
شاعری کی محفلوں میں ان کے ہم جلیس، ان کے بزرگ ہر اعتبار سے واجب الاحترام، مگر
اس کے باوجود بے تکلف دوست بشرطیکہ لفظ دوستی میں تفاوت عمر کا لحاظ رکھ لیا جائے۔
(19) ڈاکٹر اقبال
ان کے درسِ حَمَاسَہ(عربی شاعری کی ایک کتاب) میں
باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے ۔(20)
ڈاکٹراقبال مفتی صاحب کےبارے میں کہاکرتے تھے کہ اس ناتواں جسم میں
علم وفضل کا اتناذخیرہ ہےکہ کُوزے میں دریابندہونےکی مثل اِن پر صادق آتی ہے۔(21) آپ عربی میں اشعاربھی لکھاکرتے تھے۔(22)
اخلاق
وعادات:
مفتی
صاحب عالمِ باعمل،متقی وپرہیزگاراورحسنِ اخلاق کے پیکرتھے،مخالفین بھی آپ کےپاس
آکرآپ کے گرویدہ ہوکرواپس جاتے تھے ۔طلبہ آپ سے علومِ دینیہ کےساتھ ساتھ تصوف کے
اسرارورموزبھی حاصل کرتے تھے۔وہ بہت کم بولتے تھے مگرجب بولتےتو ان کا ایک ایک لفظ
مستندہوتاتھا،مفتی صاحب ہر شام بازارِ حکیماں میں حکیم شہبازدین کی علمی وادبی
بیٹھک میں بیٹھا کرتےتھے،اس مجلس میں موجودلوگوں کو قرآنی احکام کی حکمتوں سے آگاہ
کیاکرتےتھے ، آپ پان کا استعمال کرتے
اورگفتگوکرتےوقت اپنے منہ پر رومال رکھ لیا کرتے تھے۔(23)
تدریسی
خدمات:
٭آپ نے تدریس کا آغازدہلی میں قائم مدرسہ مولانا عبدالرّب
دہلوی (24) سے کیا ایک عرصہ وہاں پڑھاتے رہے(25) ٭یکم مئی 1883ء میں لاہورکےمشہورعلمی ادارے گورنمنٹ اورینٹل کالج(26) کے عربی مدرس مقررہوئے۔٭1887ء
میں علامہ فیض الحسن صاحب کے انتقال فرمانے کے بعد صدر مدرس بنادئیے گئے۔ ٭کچھ
عرصہ بعدشعبہ عربی کے سپرنٹنڈنٹ ہوگئے۔ ٭1897ءمیں
آپ کو اورینٹل کالج کاقائم مقام پرنسپل بھی بنایاگیا۔٭1903ء
میں آپ کو شمس العلماءکا خطاب دیا گیا۔٭1917ء کو
آپ ریٹائرڈ ہوئے۔یوں ان 34 سال کے دوران آپ اورینٹل کالج
میں نہایت جانفشانی کے ساتھ ادب عربی اورعلوم اسلامیہ کی ترویج واشاعت میں مصروف
رہے۔(27) سینکڑوں
طلبہ نےآپ سے استفادہ کیا۔ ٭کالج سے فراغت کے بعدلاہور(جسے آپ
اپناوطن ثانی فرمایاکرتےتھے)کوداغِ مفارقت دے کر لکھنؤ اورپھرمدرسہ
عالیہ کلکتہ (28) میں تشریف لےگئے،وہاں
چندسال صدرمدرس کے طورپرعلومِ اسلامیہ کی تدریس فرماتے رہے۔آپ تدریس عربی کے اعلیٰ پائے
کےمدرس،ناظم وناشراورعربی درسگاہوں کی قدیم تعلیم کے ماہر تھے۔ (29)
علمائےلاہورمیں
شمارکرنے کی وجہ :
مفتی صاحب اگرچہ لاہور کے باشندے نہیں تھے اور نہ ہی یہاں
انتقال فرمایا مگر چونکہ آپ نے لاہور میں ایک متحرک ومؤثر عالم دین کی حیثیت
سے تقریبا34 سال گزارے، اس لئے آپ کو لاہور کے علما میں شمار کیا جاتا ہے۔آپ
کی رہائش محلہ بازار حکیماں بھاٹی گیٹ(30) میں تھی۔ (31)
انجمن نعمانیہ لاہورمیں خدمات :
1857ء کی تحریک آزادی کےبعدبرّعظیم میں اسلامی علوم کی حوصلہ شکنی اوربیخ کنی کا سلسلہ
جاری تھا، جمادی الاخریٰ1305ھ/مارچ1887ء میں کچھ دردمندعلما اور زُعمائے اہلِ سنت لاہور نے تحفظِ
عقائدِ اہلِ سنّت ،علومِ اسلامیہ کی ترویج و اِشاعت،عوامِ اہلِ سنت کی دینی
تربیت ، اورباہمی اتحادواتفاق کے لیے انجمن خادم علومِ اسلامیہ المعروف انجمن
نعمانیہ لاہور(32) کوقائم فرمایا، اس کے تحت 5صفر 1305ھ /23 اکتوبر 1887ء کو مدرسہ علومِ
اسلامیہ المعروف دارالعلوم نعمانیہ (33) شروع کیاگیا جس نے سالہاسال خدمتِ
دین سرانجام دیں ، 1908ء کو
یتیم خانہ، 1906ء کو دارالاقامہ اور 1913ء میں شعبہ اشاعت کتب حنفیہ اورلائبریری کا آغاز ہوا۔ (34) ٭حضرت مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب
انجمن نعمانیہ کے بانی ار اکین میں شامل تھے۔(35) آپ اگرچہ گورنمنٹ اورینٹل کالج میں عربی کے پروفیسرومدرس تھے مگر انجمن کو
پورا پورا وقت دیتے تھے ٭آپ مجلس انتظامیہ کے رکن اور شعبۂ تعلیم کے
ناظم بھی تھے ٭ ابتدائی سالوں کے ناظم امتحانات بھی رہے۔ شروع کے چار سالوں ( 1893 تا 1896ء) کے نتائج انجمن کے سالانہ رسالوں میں
شائع ہوئے ہیں جس پر آپ کے دستخط بھی موجود ہیں ٭آپ نے انجمن کےصدر ثانی کی حیثیت
سے بھرپور خدمت انجام دیں۔٭ انجمن کے
سالانہ جلسوں میں مقامی اور دور دراز سے
آئے ہوئے علماء کی تقار یرہوا کرتی تھیں
آپ بھی ان جلسوں میں خطاب فرمایا کرتے تھے آپ کی ایک تحریر ی تقریر انجمن کی
سالانہ رسالہ1314ھ/1897ء میں شائع بھی ہوئی ہے، تقریر سے قبل آپ کو ان القاب سے نوازا گیا،’’ عالم
لوذعی و فاضل المصی مولوی حافظ مفتی محمد عبداللہصاحب ٹونکی عربی
پروفیسر یونیورسٹی آف پنجاب و دبیر مجلس انجمن مستشارُالعلماء لاہور،تقریر کا
عنوان ہے:’’ مذہب کسے کہتے ہیں اور وہ کیا چیز ہے؟‘‘یہ تقریر 18 صفحات(9تا26) پر مشتمل ہے۔(36) ٭ربیع الاول 1329ھ /مارچ 1911ء کو اسلامیہ کالج لاہورکےوسیع وعریض گراؤنڈمیں انجمن
نعمانیہ کے تحت عیدمیلادالنبی کا جلسہ ہوا جس میں مفتی عبداللہٹونکی ،علامہ غلام دستگیرقصوری(37) امیرملت اورڈاکٹراقبال نے تقاریرکیں(38) ٭آپ انجمن کے سالانہ جلسوں میں شرکت فرماتے اورتقریرفرماکرعوام اہلسنت کے علم
وعمل میں اضافےکی کوشش فرماتے،چنانچہ رجب 1314ھ /جنوری 1897ء کوانجمن کے موچی دروازے میں ہونےوالےسالانہ جلسے میں مفتی
صاحب نے تقریرکی۔ (39)
انجمن حمایتِ اسلام میں خدمات :
مسلمانوں میں دنیاوی تعلیم عام کرنے ،غریبوں اوریتیموں کی کفالت کرنے کے لئے خلیفہ حمیدالدین احمدقاضی
لاہور(40) نے اپنے رفقاکےساتھ مل کر 3ذوالحجہ 1301ھ /24ستمبر1884ءمسجدبوکن خان موچی گیٹ لاہور(41) میں انجمن حمایتِ اسلام کا آغازکیا (42) اس انجمن نےاسکول وکالج کھولنےاورطلبہ کوجدیدعلوم سےروشناس کرنے میں اہم
کرداراداکیا(43) مفتی صاحب اس کے صدراورعرصہ دراز تک
اس کی کئی کمیٹیوں کے چئیرمین رہے ، اورینٹل کالج کی تدریس کے بعد اس کےجلسوں میں
شرکت کرتے اوراپنےوعظ سےلوگوں کو اسلام کی سنہری تعلیمات سےآگاہ کرتےتھے ،(44)
انجمن نعمانیہ اورانجمن حمایت اسلام کویکجاکرنے کی کوشش:
٭ان دونوں انجمنوں کامقصدچونکہ مسلمانوں میں تعلیم کوعام
کرنا تھا ،انجمن نعمانیہ دینی اور انجمن حمایتِ اسلام دنیاوی تعلیم عام کررہی تھی،
دردمندمسلمانوں نے سوچا کہ ان دونوں کو یکجا کرکے ایک ایساعظیم تعلیمی ادارہ قائم
کیاجائےجو دینی اوردنیاوی علوم کاسرچشمہ ہو (45)چنانچہ6ربیع الاول1315ھ/ 5اگست 1897ء کوبادشاہی مسجد لاہور(46) میں دونوں کے اراکین کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب انجمن حمایت اسلام کی جانب سے شریک ہوئے تھے
،اسی اجلاس میں دونوں انجمنوں کے زُعَمانے ایک دوسرے کا مؤقف سنا اورمزیداجلاس کا
طے کیا، دیگراجلاس کےبعدبھی دونوں انجمنوں کے یکجاہونےپراتفاق نہ ہوسکا،البتہ
انجمن حمایت اسلام نےانجمن نعمانیہ کے علمی تعاون سے اپنےتحت علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت کےلیے ایک ادارہ
بنانےکا طے کیاتاکہ ان کے ہاں جس کام کی کمی ہے وہ پوری ہوسکے،اسی
کے بعدمدرسہ حمیدیہ کا آغازکیاگیا ۔ (47)
مدرسہ حمیدیہ میں تدریس:
٭ انجمن حمایت اسلام کے تحت 20جمادی الاولیٰ 1315ھ / 17،اکتوبر1897ء کو بنام مدرسہ حمیدیہ دارلعلوم کاآغازہوا۔مولانا مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب انجمن نعمانیہ کے ساتھ ساتھ مدرسہ حمیدیہ سے
بھی وابستہ تھے ، آپ کے ساتھ انجمن نعمانیہ کے کئی علما مثلاً مولانا غلام اللہ قصوری (48)
مولانا محمد ذاکر بگوی (49) اور مولاناپروفیسر اصغر علی روحی (50) وغیرہ نے اس مدرسےمیں بھی پڑھانے کا سلسلہ رکھا، یہ مدرسہ 1328ھ/1910ء تک قائم رہا۔ (51)
انجمن
مستشارالعلماء کاآغاز:
مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب نے مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کے لیے5ربیع الاخر1304ھ/ یکم جنوری 1887ء میں انجمن مستشارالعلمالاہورکی بینادرکھی اوراس کے ناظم
عمومی مقررہوئے،اس کا مقصد جدیدمسائل پر جیدعلماء سے آرالے کر ان پر غورکرنا
اورایک متفقہ مؤقف قوم کو پیش کرنا تھا ، (52) دیگرمفتیان کرام کے علاوہ دارالعلوم
نعمانیہ کے فارغ التحصیل مفتی نورحسن ولدفیض بخش کھوکھرصاحب بحیثیت مفتی مقررہوئے
، (53) اس انجمن کی لائبریری کے لیے امیرملت سیدجماعت علی
شاہ(سرپرست انجمن مستشارُالعلماء)، حضرت مولانا مفتی غلام محمدبگوی(صدرانجمن
مستشارُالعلماء) (54) اوردیگرافرادپرمشتمل ایک وفدامرتسرگیا،
وہاں کے عوام وخوص کو اس کے مقاصدسے آگاہ کیا ،اس موقعہ پرانجمن اسلامیہ
امرتسرکےشیخ صادق مرحوم نےکتب کےلیے پچاس روپے دئیے۔ (55) مفتی محمدعبداللہ ٹونکی صاحب نے اس انجمن کی شاندارلائبریری قائم کی جو
بادشاہی مسجدمیں تھی ، (56) مگر انجمن مستشارالعلما اپنے مقاصدکو درست اندازمیں نہ نبھاسکی اورمرورزمانہ
کے ساتھ ساتھ اس مجلس پر کچھ ناپسندیدہ لوگ قابض ہوگئے جیساکہ حضرت مولاناپیرزادہ
اقبال احمدفاروقی صاحب (57) تحریرفرماتےہیں :’’انجمن نعمانیہ لاہورنے اس انجمن کی ناقص
کارکردگی اورعقیدے میں ناپختگی کی وجہ سے یکم جولائی (1901ءمطابق 14ربیع الاول 1319ھ)کو(اس سے)علیحدگی اختیارکرنے کا اعلان کیا۔ (58)
انجمن
خدام الصوفیہ کے اجلاسات میں شرکت:امیرملت
محدث علی پوری نے1319ھ/ 1901
ء میں ایک دینی اوررفاحی تحریک ’’انجمن
خدام الصوفیہ (59) قائم فرمائی جس کے تحت کئی دینی مدارس،مساجد اوررفاحی ادارےبنائےگئے ،مفتی
عبداللہ ٹونکی صاحب اس انجمن کےجلسوں میں
تشریف لاتےکسی نہ کسی نشست میں صدارت فرماتےاوردعائےخیرسے نوازاکرتے تھے۔ (60)
ردقادیانیت :
جب امیرملت نے فتنۂ قادیانیت (61) کی سرکوبی کےلیےجدوجہد شروع فرمائی ،تو علامہ عبداللہ ٹونکی صاحب نےان کا
بھرپورساتھ دیا ۔٭20ربیع الاخر1326ھ/22مئی 1908ء امیرملت نےشاہی مسجدمیں خطبہ جمعہ دیااورعوام اہلسنت
کےسامنے ختم نبوت کے موضوع پرگفتگوفرمائی ،فتنہ قادیانیت کےبارےمیں لوگوں کوآگاہ
کیا ،اس میں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب بھی تشریف فرماتھے،انھوں نے اس خطبے کی
تائیدوحمایت فرمائی،٭اسی زمانےمیں امیرملت نے لاہورشہرمیں مسئلہ ختم نبوت پر جلسوں
کاسلسلہ شروع کیاجوتقریباایک ماہ تک جاری رہا، مفتی صاحب ان جلسوں میں شریک
ہوتےاورخصوصی دعاؤں سےنوازتے۔ (62)
ردبدمذہبیت:
آپ کی حیات میں نت نئےفتنےاٹھے ،آپ نے علمائے اہل سنت کے
ساتھ مل کر ان کا ردفرمایاجس کی کچھ تفصیل بیان کی جاتی ہے :
(1)1302ھ میں عقائد
و معمولات اہل سنت خصوصا میلاد و فاتحہ وغیرہ کے بارے میں ایک فتنہ اٹھا جس کا رد
حضرت مولانا علامہ محمدعبدالسمیع رامپوری (63) رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مبسوط کتاب’’ انوارساطعہ دربیان مولودوفاتحہ‘‘ لکھ
کرفرمایا، (64) یہ کتاب بلاشبہ جہاں تفریق بین المسلمین کی تاریخ اور اس کے
اسباب و عوامل پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے وہیں علم غیب ، مسئلہ حاضرو ناضر اور
دوسرے اہم علمی و فقہی مسائل و مباحث کی گرہیں بھی کھولتی ہے،اس کتاب کی
تائیدعرب عجم کےکثیرجیدعلماکرام نےکی،
مگرجن کی قسمت میں ہدایت نہیں تھی انھوں نے اس کے جواب میں کفریہ کلمات پر مشتمل کتاب “براہین
قاطعہ‘‘لکھ ڈالی۔
براہین قاطعہ جس کے نام سے
شائع ہوئی تھی،وہ شخص اپنے رفقاکےساتھ حضرت مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کےپاس آیاجس
کا ذکرآپ نےاپنےدومکتوبات میں فرمایاہے اس کا خلاصہ علامہ غلام دستگیرمحدث قصوری
صاحب ان الفاظ کے ساتھ تحریرفرماتے ہیں : مولوی خلیل احمد مع اپنے حواریوں کے میرے پاس آئے اور مسئلہ امکان و کذب باری تعالیٰ کا حکم پوچھا، میں نے جواب
دیا کہ اس کا قائل میرے نزدیک اہل سنت سے خارج ہے کیونکہ علما عقائد نے کذب باری
تعالیٰ کو ممتنع لکھا ہے۔اُنہوں نے شرح مواقف مقصد فروع معتزلہ علی اصولہم سے
عبارت پیش کی ،میں نے اس کا یہ جواب دیا کہ اس کا جواب مسلم الثبوت اور اس کی شرح
میں ہے کہ صحیح امتناع ذاتی ہے الخ (65)
(2)مذکورخلیل
احمد کا برادرانہ تعلق حضرت علامہ مفتی غلام دستگیرمحدث قصوری صاحب کے ساتھ تھا
،انھوں نے اس کو سمجھایا مگروہ بازنہ آیا بلکہ آپ سے مناظرہ کرنے پر اترآیا، تاریخ میں یہ ’’ مناظرۂ بہاولپور‘‘کےنام
سےمشہورہے جوکہ شوال 1306ھ/مئی 1889ء کو ہوا،اس مناظرے میں اُس شخص کوذلت آمیزشکست ہوئی
اوراسے ریاست بہاولپورسے شہربدریعنی نکال دیاگیا۔ (66) اس مناظرے میں مفتی غلام
دستگیرصاحب کو مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کی نہ صرف علمی حمایت حاصل تھی بلکہ آپ
فرماتے ہیں : میری(عبداللہ ٹونکی
کی) خوشی تھی کہ اس مناظرہ میں بھی شامل ہوتا مگر عدمِ فر صت سے نہ ہوسکااور مجھے
غالب امید ہے کہ اِمکانِ کذب کے قائل مغلوب ہوں گے او رخدا کو پاک کہنے والے
منصور(کامیاب) ہوں گے۔ (67)
(3)استاذالعلماحضرت
علامہ حافظ احمد حسن کانپوری (68) نے ”ابطالِ امکانِ کذب‘‘کےموضوع پر ایک رسالہ’’تنزیہ الرحمن عن شائبہ
الکذب والنقصان ‘‘ تحریر فرمایا
،مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب نے اس پر تقریظ لکھی جو آپ کی حمیتِ مذہب کا پتادیتا
ہے،آپ کی یہ تقریظ عربی میں ہے،اس کا ترجمہ پیش کیاجاتا ہے : تمہارا رب، عزت والا
رب ان باتوں سے پاک ہے جو باتیں یہ لوگ بنارہے ہیں۔ پیغمبروں پر سلام ہو۔ سب
خوبیاں اللہ پاک کی ہیں جو سارے جہان کا ربّ ہے۔ حمد وصلوۃ
کے بعد! یہ خوشنما وباکمال رسالہ اور نفیس وعالی مقالہ ہے جس میں واضح کیا گیا ہے
کہ جھوٹ اور غلط بیانی ممکن ہونے سے ربِّ کریم کی ذات پاک ہے اور یہ ثابت کیا گیا
ہے کہ خامی وعیب کے امکان سے ذاتِ خداوندی
منزّہ ہے، یہ رسالہ اپنے شان دار وخوش گوار فیضانات سے نگاہ والوں کو جھمادے گا
اور اپنے کامل وظاہر سیلاب سے‘ بہکی بہکی باتیں کرنے والوں کے پاؤں اکھاڑ دے گا،
اس سے عقل وبرکت والوں کے سینے کشادہ ہوں گےاور جاہل کمینوں کے دلوں میں گھٹن
ہوگی، دانش مندی وحقانیت والوں کے دل خوشی سے جھوم اٹھیں گے اور فتنہ وفساد والوں
کی آنکھوں میں آشوب اتر آئے گا۔ اس رسالے کی باتیں غالب برہانوں سے آراستہ ہیں اور
اس کے مضامین منہ زور دلیلوں سے سجے ہیں، اس رسالے کی دلیلوں کے نوکیلے نیزے‘ راہِ
حق سے ہٹ کر چلنے والے گمراہوں کے نظریات کے جگر پھاڑ دیں گے، اس سالے کے ثبوتوں
کی آزمودہ پتلی تلواریں‘ ہٹ دھرمی کے راستے میں دلچسپی رکھنے والوں کے باطل مذہبوں
کے کاندھے چیر دیں گی، اس کے صاف ستھرے بیان کے ہتھوڑے‘ کذبِ باری تعالیٰ کا امکان
وجواز ماننے والوں کی خیالی کہانیوں کو پاش پاش کردیں گے، اس کے روشن بیان کے
کوڑے‘ جھوٹ اور بہتان والوں کے پلندوں کی کمر توڑ دیں گے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا
کیوں کہ یہ جس ہستی کا رسالہ ہے وہ ہیں بلند مرتبہ علامہ، علم کے چھلکتے سمندر،
صاحبِ نگاہْ فاضل، حق وباطل میں فرق کرنے والے واقفِ احوال، درستی بھری عقل، روشن
سمجھ داری، بھری ذہانت، پختہ اندازِ فکر، ٹھوس رائے اور مستحکم دانائی والے، عزیزِ
دلنواز، مشفقِ ذی شان، پُرانے ساتھی اور عظیم دوست مولانا حافظ احمد حسن صاحب، اللہ پاک انھیں زمانے کی مصیبتوں اور نئے نئے نکلنے
والے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ منقولی علوم کی باگیں بلا اختلاف آپ کے ہاتھ میں ہیں،
اکثر عقلی فنون کی لگامیں بلا مزاحمت آپ کے قابو میں ہیں، دور ونزدیک والے ان کی
فضیلتوں کے نور سے روشنی لیتے ہیں، پیٹ بھرے اور بھوکے ان کی عظمتوں کے درخت سے
پھل لیتے ہیں۔
آپ کی تقریر کے تیر اس قوم کی لغزشوں کے دلوں
میں پیوست ہوجاتے ہیں جس قوم کا رشید گمراہ ہے اور جن کا سچا جھوٹا ہے۔ آپ کی تحریر کے نیزے اُس قوم کی غلطیوں
کے سینے میں گڑے ہوئے ہیں جن کا خلیل تہی دامن ہے اور جن کا امین
خائن ہے۔ آپ نے ان کی بے بنیاد باتوں کو پُرزے پُرزے کردیا، ان کی بے حقیقت
کہانیوں کے چیتھڑے اُڑادیے، ان کی باتوں پر کالک مَل دی، اُن کی گمراہیوں کی
آنکھیں بے نُور کردِیں، ان کے بھائیوں (شیطانوں) کے وسوسوں کے لشکر تہس نہس کردیے،
اُن کے بے جان خیالوں کے ڈھیر ریزہ ریزہ کردیے، اُن پر قیامت ڈھادی اور اُن پر
مَوت کی بارش برسائی۔ جیسا کہ یکے بعد دیگرے دو مرتبہ میں نے آمنا سامنا کرکے، آڑے
ہاتھوں لے کر اور مقابلہ کرکے ان کا حشر کیا جب لاہور میں یہ لوگ ٹولیاں بناکر آئے
اور جمگھٹ لگایا، وہ لاہور جو روشنی وتابناکی میں چمکتے سورج اور چاند کے ہالے کی
طرح ہے، ربِّ کریم مجھے اور اس شہر کو زمانے کی بُرائیوں اور خوشی کی رکاوٹوں سے
محفوظ رکھے۔ چنانچہ یہ تتر بتر ہوگئے، بکھر گئے، خاک ہوگئے، شکست کھاگئے، آنکھ
بچاکر کھسک گئے اور مٹی میں مل گئے جیسے پھیلی ہوئی ٹڈیاں ہوں یا بکھری ہوئی باریک
چیونٹیاں ہوں۔ الغرض! ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی۔سب خوبیاں اللہ پاک کی ہیں جو سارے جہان کا ربّ ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور
آپ کے سب آل واصحاب پر رحمتیں اور سلام ہوں۔ تیری رحمت سے یہ سوال ہے اے سب
مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ربّ۔بندہ گنہ گار مفتی محمد عبداللہ عفی عنہ کی یہ
تحریر ہے ۔ (69)
(4)علامہ احمدحسن کانپوری رحمۃ اللہ علیہ کی
کتاب’’تنزیہ الرحمن‘‘کتاب کے ردمیں ایک کتاب الجہدالمقل
فی تنزیہ المعز والمذل لکھی گئی ،جب مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کو اس کا علم ہواتو آپ نےاس کا جواب15جمادی الاولیٰ 1308ھ/27دسمبر1890ء کو عربی رسالے ’’ عجالۃ الراکب فی امتناع کذب الواجب “کی صورت میں لکھ کردیا،یہ عربی ادب کا مرقع ہے۔ (70) مفتی
عبداللہ ٹونکی نے الجہدالمقل کے مصنف سے امکان کذب کے موضوع پر 19رمضان 1306ھ/19مئی 1889ءکو لاہورمیں مناظرہ کیا ،ایسے دلائل دئیے کہ مدمقابل مرعوب ولاجواب ہوگیا ۔ (71)
(6)یکم
صفر1305ھ /19،اکتوبر1887ءکو ایک شخص نے طواف قبورکوجائز قراردیا ،اس کاردکرتےہوئے مفتی غلام دستگیرمحدث
قصوری صاحب نےایک رسالہ کشف الستورعن طواف القبورلکھا ،مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب نے
تحریری طورپر اس کی تائیدفرمائی۔ (72)
وراثت
کاقانون اورگورنرپنجاب سےملاقات:
1333ھ/ 1915ء
میں حکومت ہندوستان نے وراثت کا قانون بنایاجس میں لوگوں کو اجازت دی گئی تھی کہ
وہ اپنی مرضی سے وراثت کی تقسیم کرسکتے ہیں ،شرعی طریقہ کارکے مطابق کریں یا
اپنےرسم ورواج کے مطابق،علمااہل سنت کے لیے یہ قانون باعث اضطراب تھا،چنانچہ انجمن
نعمانیہ لاہورنے جیدعلماء ومفتیان کرام اورمسلمان وکلاپرمشتمل ایک وفدبنایاجس میں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب بھی شامل تھے ،اس وفدنےگورنرپنجاب سے جاکرملاقات
کی اوراس قانون کو واپس لینے پرگفتگوکی ۔ (73)
تحریرات وکتب :
تبلیغ دین کا ایک اہم ذریعہ تحریربھی ہے بلکہ تحریرکئی
امتیازات کی بنا پرتقریرسےزیادہ مؤثرہوتی ہے ، آپ اس کی اہمیت سےبخوبی واقف تھےچنانچہ آپ نے کئی مضامین اورکتب تحریرفرمائیں جن کی تفصیل بیان کی جاتی ہے :
(1)عقد الدررفی جید نزہۃ النظر:نخبۃ
الفکر اصول حدیث پر ایک اہم تصنیف ہے جو درس نظامی میں شامل ہے ،مفتی عبداللہ
ٹونکی صاحب اس فن میں یدطولیٰ رکھتے تھے ،آپ نے یہ کتاب طلبہ کو کئی مرتبہ پڑھائی
،چنانچہ آپ نے اس پر عربی میں حاشیہ لکھنے کا فیصلہ کیا ، آپ کا لکھا گیا حاشیہ آج
بھی طلبہ واساتذہ کے لیے راحت کا سامان ہے،غالباپہلی مرتبہ 1320ھ میں مطبع مجتبائی دہلی نے122صفحات پراسےشائع کیا، (74)
بعدمیں کئی مطابع نےاسے شائع کیا
ہے،دورحاضرکے تصنیف وتالیف اورتحقیق
وتراجم کا عظیم ادارے المدینۃ العلمیہ (Research Centre Islamic) (75) نے اسے بہترین اندازمیں شائع کرنےکا فیصلہ کیاہے۔
(2)عجالۃ الراکب فی امتناع کذب
الواجب:
مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب
نے45صفحات پرمشتمل یہ رسالہ 15جمادی الاولیٰ 1308ھ/27دسمبر1890ء کو رسالہ جہدالمقل فی تنزیہ المعز والمذل کے جواب میں
لکھا ، (76) یہ رسالہ مولاناکرم بخش صاحب نےمطبع اسلامیہ لاہور سےشائع کیاتھا۔
(3)حاشیہ میرایساغوجی (77)
اسےچندسال پہلے1436 ھ ذوالحجہ /ستمبر2015ءمیں دارالاسلام لاہور(جامع مسجدومحلہ
مولانا روحی ،اندرون بھاٹی گیٹ )نےشائع کیاہےاور یہ1894ءمیں مطبع عزیزی لاہورسے شائع شدہ نسخے کاعکس ہے۔
(4)
رسالہ تقلید ،اسےانجمن نعمانیہ کےشعبۂ اشاعتِ کتبِ حنفیہ نے 1331ھ/1913ء
کوشائع کیا۔ (78)
(5)تحریراقلیدس مترجم (79)
(6)تعلیقات المفتی علیٰ شرح سلم العلوم:یہ کتاب مطبع اسلامیہ لاہور سےشائع ہوئی۔
(7)الکلام الرشیق ۔ (80)
(8)مجموعہ فتاویٰ بنام شرح محمدی چارجلد (81)
(9) حاشیہ الأنوار الزاهية في ديوان أبي العتاهية۔ (82)
مفتی
غلام احمدحافظ آبادی کا تعاون:
قیام
لاہورمیں مفتی عبداللہ ٹونکی صاحب کو استاذالعلمامفتی غلام
احمدحافظ آبادی (83) کا علمی تعاون رہا،مفتی صاحب کے لکھے گئے حواشی پر
استاذالعلماتصحیحات فرماتے ،بوقت ملاقات ان کے سقم سے آگاہ فرماتے جنہیں
مفتی صاحب تسلیم کیا کرتے تھے۔ (84)
وفات:کالکتہ قیام کےدوران آپ پرفالج کا حملہ ہوا،وہاں سے بھوپال
اپنےبیٹےمفتی انوارالحق (85) کےپاس چلے گئے، وہاں صاحب فراش رہے ،علاج معالجہ کا سلسلہ جاری رہا ،بالاخرتقریباًستر(70)سال کی عمرمیں 24صفر 1339ھ/ 7نومبر1920ءکو انتقال فرماگئے۔آپ کی رحلت سے اہل اسلام عربی زبان کے
فاضل اجل، اسلامی شریعت کےماہراورکثیرالفوائدشخصیت سےمحروم ہوگئے ۔ (86)
حواشی
وحوالاجات
(1) امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ نقشبندی محدّثِ علی پوری
رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ حافِظُ القراٰن، عالمِ
باعمل، شیخُ المشائخ، مسلمانانِ برِّعظیم کے متحرّک راہنما اور مرجعِ خاص وعام
تھے۔ ایک زمانہ آپ سے مستفیض ہوا، پیدائش 1257ھ/1842 ء میں ہوئی اور 26ذیقعدہ 1370ھ میں وصال
فرمایا، مزار مبارک علی پورسیّداں (ضلع نارووال، پنچاب) پاکستان میں مرجعِ خَلائق
ہے۔ (تذکرہ اکابرِ اہل سنّت،ص 113تا117)
(2) لاہورایک قدیم وتاریخی شہرہےمغلیہ عہدمیں لاہورکے
اردگردفصیل اورتیرہ دروازے بنائےگئے ،372ھ کویہ ملتان سلطنت کا حصہ تھا،اب یہ پاکستان کے
صوبہ پنجاب کا دار الحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکزہے،اسےپاکستان کا
دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباایک کروڑ 11لاکھ ہے۔
(3)مسجد پٹولیاں لوہاری دروازے (وہ دروازہ جوقدیم فصیل
میں بجانب جنوب واقع ہے،اہل سنت کی مرکزی درسگاہ جامعہ نظامیہ رضویہ ،اسی کے اندر
واقع ہے)کے اندر لوہاری منڈی میں موجود ہے۔ یہ مسجدکئی سوسال سےقائم ہے، 1282ھ /1865 ءمیں میاں عمرو دین لاہوری صاحب نے اس کی تجدیدکی ،1321ھ/1903ءمیں اسے پھربنایاگیا، اب موجودہ دورمیں مسجد جدید طرز پر تعمیر کی گئی ہے۔ پرانی عمارت موجود نہیں۔
(4)خلاصہ ازاساتذہ
امیرملت ،56،57
(5)ٹونک ہندوستان کے صوبہ راجستھان کی ایک
مسلم نوابی ریاست تھی جسے 1798ء میں ایک مسلمان حکمران نواب محمدعامرخان
نے قائم کیا ،اس کے پانچویں اورآخری حاکم نواب محمدسعادت خان نے 1947ء میں اس کا الحاق ہندوستان کےساتھ کردیا تھا،یہ علوم و فنون، شعر و شاعری اور ارباب فکر و نظر
کی سرزمین تھی۔
(6)اساتذہ امیرملت صفحہ 53میں پیدائش کاسن 1850 ء اورامام احمدرضااورعلمائے لاہورصفحہ 65میں 1854ء لکھاہے۔
(7)قائدِ جنگِ آزادی حضرت علامہ محمدفضلِ حق خیر آبادی
چشتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1212ھ/ 1797ء کوخیرآباد،ضلع سیتا پور (یوپی،ہند) میں ہوئی اور وصال 12صفر 1278ھ کو جزیرہ انڈمان
میں ہوا۔ مزار یہیں ساؤتھ پوائنٹ پورٹ بلیرمیں ہے۔ آپ علوم عقیلہ و نقلیہ کے ماہر،
منطق و حکمت میں ایک معتبر نام، استاذالعلماء، سلسلہ خیرآبادیہ کے چشم و چراغ، لکھنؤ
کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) اردو و عربی کے شاعر، کئی کتب کے مصنف اور مؤثر ترین
شخصیت کے مالک تھے۔ (ماہنامہ جامِ نور دہلی، اکتوبر 2011ء)
(8)حضرت مولانا حکیم سیددائم علی عظیم آبادی جامع معقول ومنقول
تھے، پٹنہ بہارکے رہنےوالےتھے ،حازق حکیم کے طورپرشہرت پائی ،نواب آف ریاست ٹونک
نے انہیں استاذطبیب کےطورپر ٹونک بلالیا
اوریہ یہیں رہائش پذیرہوگئے،آپ حاجی امداداللہ مہاجرمکی کے مریدوخلیفہ تھے۔(امام
احمدرضا اورعلمائےلاہور،138)
(9)خلاصہ ازاساتذہ
امیرملت ،56،57
(10) استاذُالکل حضرت مولانا مفتی
محمد لُطفُاللہ علی گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت پلکھنے (لکھنؤ، یوپی) ہند میں 1244ھ/1828ء میں ہوئی
اور 9ذوالحجہ 1334ھ کو علی
گڑھ میں وصال فرمایا، تدفین مزار حضرت جمالُ العارِفین رحمۃ اللہ علیہ کے قُرب میں ہوئی، آپ جلیلُ القدر عالمِ دین، مؤثر و فَعَّال شخصیت اور
جامعِ علومِ عقلیہ و نقلیہ تھے، محدثِ اعظم ہند، علّامہ سیّد احمد محدثِ کچھوچھوی،
علّامہ وصی احمد محدثِ سورتی اور علّامہ احمد حسن کانپوری رحمۃ اللہ علیہم سمیت سینکڑوں علما آپ کے شاگرد
ہیں۔( استاذالعلماء، ص6،32، تذکرہ محدث سورتی، ص46 تا 50 )
(11)افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری کی ولادت1225ھ/ 1810ء اوروصال 6؍جمادی الاولیٰ 1297ھ / 16؍اپریل 1880ء کوتقریباً بہتر (72)سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک
کہا ۔ آپ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں
سپردخاک کیے گئے۔آپ حافظ قرآن،عالم اجل،استاذالاساتذہ،محدث کبیر
اور کثیرالفیض شخصیت کےمالک تھے ، اشاعت احادیث میں آپ کی کوشش آب زرسےلکھنےکےقابل
ہیں ،آپ نے صحاح ستہ اوردیگرکتب احادیث کی تدریس،اشاعت،حواشی اوردرستیٔ متن میں آپ نے جو کوششیں کی وہ مثالی ہیں۔ استاذالمحدثین حضرت علامہ وصی احمدمحدث سورتی ،استاذالعلماء مفتی سیددیدارعلی شاہ محدث
لاہوری،قبلہ عالم پیرسیدمہرعلی شاہ گولڑوی وغیرھم آپ کے مشہورشاگردہیں ۔(حدائق حنفیہ،510،صحیح
البخاری مع الحواشی النافعۃ، مقدمہ،1/37)
(12)تذکرہ علمائے اہل سنت،159
(13) امام الادب حضرت مولانا فیض الحسن سہارنپوری کی پیدائش 1232ھ /1816ء کومحلہ شاہ ولایت سہارنپورمیں پیداہوئے اور6فروری 1887ءکو لاہورمیں وصال فرمایا، قبرستان درہ آلی سہارنپورمیں دفن کیا گیا، آپ نےصدرالصدوردہلی مفتی صدرالدین آزردہ،علامہ فضل حق
خیرآبادی،علامہ شاہ احمدسعیدمجددی وغیرہ اجل علماسے جملہ علوم ادب،فقہ واصول
فقہ،حدیث وطب میں کامل مہارت حاصل کی ، حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی کے ہاتھ پربیعت کی ،آپ 1870ء میں گورنمنٹ اورینٹل کالج کے پہلے عربی کےپروفیسرمقررہوئے ،رسالہ
شفاء الصدورکےمدیربھی رہے،عربی تصانیف میں فیض القاموس،شرح تاریخ
تیموری،ضوءالمشکوۃ اختصارایلاقی،شرح حماسہ وغیرہ اہم ہیں ۔آپ نے علامہ غلام
دستگیرقصوری صاحب کی کتاب تقدیس الوکیل عن توہین الرشیدوالخلیل اورعلامہ عبدالسمیع
رامپوری کی کتاب انوارساطعہ دربیان مولودوفاتحہ دونوں کی تائیدکرتے ہوئےان پر
تقاریظ بھی لکھیں۔(تذکرہ علمائے اہلسنت
وجماعت لاہور،166تا189،انوارساطعہ،540 )
(14)اساتذہ امیرملت ،56،57
(15)اساتذہ امیرملت،56
(16)فتاویٰ رضویہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان
کےفتاویٰ کا مجموعہ ہے جوقدیم بارہ (12)جلدوں پر مشتمل ہے،مفتی
اعظم پاکستان مفتی محمدعبدالقیوم قادری ہزاروی رحمۃ
اللہ علیہ نے اہل سنت کے مرکزی جامعہ
نظامیہ رضویہ لاہورمیں شعبان 1408ھ/
مارچ 1988ء کو ایک تحقیقی ادارہ بنام رضا فاؤنڈیشن بنایا جس کا
مقصدتصانیف اعلیٰ حضرت کو جدیداندازمیں شائع کرنا ہے اس کے تحت فتاویٰ رضویہ کی
تخریج اورترتیب جدیدپر کام شروع ہوا اور رجب1426 ھ/اگست 2005ء کومکمل ہوا،اب فتاویٰ رضویہ کی 33جلدیں ہیں ،جس میں 30جلدیں فتاویٰ، دو جلدیں فہرست اورایک جلداشاریہ پر مشتمل ہے۔یہ
بلند فقہی شاہکارمجموعی طورپر21656صفحات، 6847سوالوں کےجوابات اور206 رسائل پرمشتمل ہے جبکہ ہزاروں مسائل ضمنازیربحث آئے ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ ،30/5،10)
(17)ڈاکٹرمحمداقبال کی پیدائش1294ھ/1877ء کو سیالکوٹ
اوروفات20صفر 1357ھ / 21 اپریل 1938ء لاہور میں ہوئی ،آپ معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔
(18)اساتذہ امیرملت،54
(19)دنائے راز،98
(20)دنائے راز،246
(21)پیرزادہ اقبال احمد فاروقی ’’تذکرہ علمائے اہلسنت و جماعت لاہور ‘‘ ص 251
(22)نثر
الجواهر والدرر في علماء القرن الرابع عشر،1/588
(23)سیرت امیرملت،59،مجالس علما،299،300
(24)مولانا عبدالرب دہلوی عظیم عالم دین تھے،علوم
عقلیہ ونقلیہ پردسترس،عربی ادب میں
ماہراوربہترین ومؤثر واعظ بھی تھے،محرم 1305ھ/اکتوبر1887ء کووفات پائی۔(تذکرہ علمائےہند،260 )
(25)نثر الجواهر
والدرر في علماء القرن الرابع عشر،1/588
(26)1870ء میں حکومت نے طے کیاکہ مشرقی علوم
کی تعلیم کے لیے اورینٹل اسکول بنایا جائے جو بعدمیں اورینٹل کالج بنا،اس کے
بنیادی مقاصدمیں مشرقی علوم کی ترقی وفروغ ،مشرقی زبانوں کی تدریس اوردوسری ملکی
زبانوں کی حوصلہ افزائی تھی،علامہ فیض الحسن سہارنپوری صاحب اس کے شعبہ عربی کے
پہلے صدرمدرس بنائے گئے ۔(تذکرہ علماء اہل سنت
وجماعت لاہور،166)
(27)اساتذہ امیرملت ،56،57
(28)1780ء کلکتہ (صوبہ مغربی بنگال)میں اسلامی علوم کی
اشاعت کے لیے مدرسہ عالیہ قائم کیاگیا،کئی جلیل القدر علماء نے اس میں درسِ نظامی
پڑھااورپڑھایاہے،اب اسےیونیورسٹی کادرجہ دےدیا گیاہے،یہ مذہبی اور جدید تعلم کا
امتزاج ہے۔
(29)اساتذہ امیرملت،58)
(30)مشہورہے یمین الدولہ ابو القاسم
محمود غزنوی( 971 ء – 1030ء)نے جب لاہورکوفتح کیا تو لاہورکی فصیل کی مغربی
دیوارمیں جو دروازہ حضرت داتاگنج بخش سیدعلی ہجویری کےمزار کی سمت واقع ہےاس کا نام راجپوت
بھٹی قبیلے کے نام پر بھاٹی گیٹ رکھا گیا ،مغل بادشاہ اکبرکے دورِ حکومت میں اسے
دوبارہ تعمیرکیا گیا ۔اسی میں بازارحکیماں واقع ہے ،یہ وہی بازارہے جس میں شاعرمشرق دوران تعلیم مقیم رہے،یہ مقام
بطوریادگارموجودہے ۔
(31)امام احمدرضا اورعلمائےلاہور،66،67
(32)اس انجمن کے مقاصدیہ تھے،(1)ارکان اسلام کا استحکام۔(2)اہل اسلام کے اخلاق اورمعاشرت کی تہذیب علیٰ
قانون شرعیہ۔(3)علوم عربیہ اسلامیہ کوجواس ملک میں کالعدم
ہوگئے ہیں (انہیں) سرسبزکرنا۔ (4)عموماًاسلام اورخصوصاََملتِ حنفیہ کی
تائیدکرنی۔(5)رسومِ خلافِ شرع کے انسدادکی کوشش (6)اہل
اسلام میں باہمی اتفاق کی کوشش۔(7)حکامِ وقت کی خدمت میں مفاداسلام کےمتعلق
باادب گذارشات (8)قومی ہمدردی کاروائیوں میں بے ریائی کا
نمونہ دکھلانا(9)اغراض صدرحاصل کرنے کےلیےعلوم اسلامیہ کی
اعلیٰ تعلیم کا ایک مدرسہ قائم کرنا جس میں بلافیس کے شائقانِ علم دیں کو پوری
۔۔۔تک تعلیم حاصل ہونے سے اورحسب ضرورت خوراک وسامان ضرورت وغیرہ سے بھی امدادکی
جاوے۔(10)اس مدرسے کےابتدائی حصے میں مسلمان بچوں کو
حنفی فقہ کی تعلیم دینااوراعمال شرعیہ کی پابندی کروانا۔(امام احمدرضا
اورعلمائےلاہور156 )
(33)دار العلوم نعمانیہ
لاہور کی ایک قدیم اور دینی
تعلیم کی معیاری درسگاہ ہے۔یہ امام ابو حنیفہ کی نسبت نعمانیہ کہلاتا ہے،موجودہ عمارت بالمقابل
ٹبی تھانہ اندرون ٹیکسالی گیٹ لاہور میں ہے،اس کا آغاز1306ھ /1888ءکو مسجدبوکن خان موچی گیٹ میں ہوا،اس کا عربی حصہ13شوال 1314ھ/ 17مارچ1897 ء کو بادشاہی مسجدمیں
منتقل کیا گیا،جب اندرون ٹکسالی گیٹ میں دارالعلوم نعمانیہ کادارالاقامہ
تعمیرہوگیا تو اس کے پانچ سال بعد اس کا عربی حصہ بادشاہی مسجدسےیہاں منتقل ہوگیا،اس کے 43ویں جلسے کی روئیدادسے معلوم ہوتاہے شعبان1349ھ/دسمبر1930ءتک اس سےچارہزاردوسوتین(4203
) علمافارغ التحصیل ہوچکے تھے۔( امام احمدرضا اورعلمائےلاہور
،26،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور306،73)
(34)امام احمدرضا اورعلمائےلاہور
،26،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور 84،83،103 ،17،18،25
(35) امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،155
(36) امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،132،131
(37) مناظرِاہلِ سنّت،حضرت علامہ غلام دستگیر قصوری ہاشمی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت اندرونِ موچی دروازہ لاہور میں ہوئی۔ جیدعالمِ دین، مناظرِاسلام،
مصنّفِ کتب اور مجازِطریقت تھے۔ پندرہ(15) سے زیادہ تصانیف میں تقدیسُ الوکیل کو شہرت حاصل ہوئی۔ 20محرم1315ھ/ 21جون1897ء کو وصال فرمایا، مزارمبارک بڑا
قبرستان (کچہری روڈ) قصور پاکستان میں ہے۔ (رسائل محدث قصوری، ص65،47)
(38)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،24،101
(39)صدسالہ تاریخ انجمن
نعمانیہ لاہور، 50
(40)زبدہ علمائے کاملین حضرت مولاناقاضی خلیفہ
حافظ حمیدالدین صدیقی بن استاذالکل خلیفہ غلام اللہ لاہوری کی پیدائش 1842ءیا1830ء اور1315ھ /1897ء کووفات ہوئی،آپ فاضل
یگانہ ،جیدعالم دین، لاہورکے قاضی (Judge)اورانجمن
حمایت اسلام کے بانی وپہلے صدرتھے،انہیں کی نسبت سے انجمن نے 17،اکتوبر1897ء /20جمادی الاولیٰ 1315ھ کو مدرسہ حمیدیہ لاہورکا آغازکیا ۔انجمن نعمانیہ کے بھی خیرخواہ اورمعاون
تھے ،انجمن نعمانیہ کا پہلےجلسے (30محرم1306ھ)میں بھی شریک تھے ،
بعدوفات1898ء کے انجمن نعمانیہ کے سالانہ جلسے میں آپ کی
یادمیں ایک منقبت پڑھی گئی۔مفتی غلام دستگیرمحدث قصوری کی شہرہ آفاق کتاب تقدیس
الوکیل اوردیگرکتب مثلاعروۃ المقلدین
،عمدۃ الابیان میں آپ کی تصدیقات وتقاریظ موجودہیں۔ (امام احمدرضا اورعلمائےلاہور،132،26، صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،32،رسائل محدث قصوری، 172،359،732)
(41)مسجدبوکن خان :اندرون موچی گیٹ اورشاہ عالمی گیٹ کے درمیان پیرڈھل رحمۃاللہ
علیہ کا مزارہےاسی نسبت سےیہ محلہ پیرڈھل کہلاتاہے،اس محلےمیں مسجدبوکن خان ہے
،یوں تو یہ مسجدکئی سوسال پرانی ہے مگر1257ھ/1841ء میں ایک شخص
بوکن خان نےاس کی نئی تعمیرات کرائیں،مسجدکےتین محربیں بنوائیں،مسجدکاصحن پختہ
کروایا،(یہ ابھی بھی موجودہیں)جنوبی حصےمیں طلبہ علم دین کےلیے کمرے تعمیرکروائے،اورایک حصےمیں مختلف درختوں
پر مشتمل باغیچہ بنوایا،یہ دونوں حصےاب ختم ہوچکےہیں ۔
(42)تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت لاہور،249
(43)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،51
(44)اساتذہ امیرملت،53
(45) صدسالہ تاریخ انجمن
نعمانیہ لاہور ،51
(46)اس کا قدیم نام عالمگیری مسجدہےیہ مغل بادشاہ
محمدمحی الدین اورنگ زیب عالمگیرغازی 1084ھ/1673ء نےبنوائی،اب یہ لاہورکی
شناخت بن گئی ہے۔ یہ شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے
پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے
ہیں،مرورزمانہ کے ساتھ یہ مسجدویران ہوگئی،مسلمانان لاہورکی تحریک پر حکومت
برطانیہ نے 1856ءکو مسلمانوں کے حوالے کردی ،مولانا قاضی
حافظ احمددین بگوی اس کے پہلے امام وخطیب مقررہوئے ،1869ءمیں مفتی غلام
محمدبگوی،پھرمولانا محمدذاکربگوی اس کے بعدمولانا شفیق بگوی نے یہ ذمہ داری نبھائی۔مزیدتفصیل
دیکھئے: تذکرہ بگویہ 1/93،تذکرہ علماء اہلسنت وجماعت ،122
(47) صدسالہ تاریخ انجمن
نعمانیہ لاہور ،53،57
(48) مولاناغلام اللہ قصوری
قرشی حنفی کی پیدائش قصورمیں1266ھ / 1850ء کوہوئی اور1341ھ /1922ء کولاہورمیں وصال فرمایا،تدفین قصورمیں
ہوئی،دیناوی تعلیم حاصل کرکے ریاست فریدکوٹ میں مشیرمال مقررہوئے ،پھرزندگی میں
انقلاب آیا،ملازمت چھوڑکر علوم دینیہ کی تحصیل میں مصروف ہوگئےاور علمائے لاہورسے
اسلامی علوم میں رسوخ حاصل کیا،اورمدرسہ حمیدیہ پھرمدرسہ رحیمیہ نیلاگنبدلاہورکے
مدرس بن گئے،پھریکے بعددیگرے مدرس اسلامیہ ہائی اسکول امرتسر(11سال)فیروزپورہائی اسکول(8 سال)اورچیفس کالج لاہورمیں سترہ (17)سال عربی واسلامیات کے پروفیسررہے اورآپ 1922ء میں ریٹائرڈ ہوئے،آپ حضرت مہرصوبانقشبندی کے مریدوخلیفہ تھے(تذکرہ
علمائےاہلسنت وجماعت لاہور،248تا256)
(49) سندالسالکین
حضرت مولانا محمدذاکربگوی کی ولادت 1293ھ/1876ء کو بھیرہ
ضلع سرگودھا میں ہوئی اور13ربیع الاول1334ھ/20جنوری1916ء کو لاہوروفات
پائی ،انہیں خانقاہ بگویہ بھیرہ شریف میں دفن کیاگیا ،آپ جیدعالم دین،مدرس مدرسہ
حمیدیہ لاہور،خلیفہ مجازآستانہ عالیہ سیال شریف ،زہدوتقویٰ کے پیکر، عبادت کے
شوقین اور صاحب کرامت تھے۔(تذکاربگویہ،1/ 213تا292)
(50) سبحان عصرحضرت
مولاناپروفیسراصغر علی روحی 1284ھ/1876ءکو گجرات میں پیداہوئے اور 3128رمضان 1373ھ /مئی
1954ء میں وصال فرمایا، آپ کا مزار کٹھالہ ضلع گجرات میں مسجد سے ملحق ، برلب شاہرا ہ
عظیم ( جی ۔ ٹی ۔ روڈ) واقع ہے آپ عالم دین،عربی وفارسی کےماہراورشاعرتھے،آپ
اورینٹل کالج اوراسلامیہ کالج میں عربی پروفیسررہے، علمی و ادبی پرچہ الہدی کے
مدیرمسئول کے طورپر بھی خدمات سرانجام دیں
۔آپ نے تفسیرقرآن(2پارے)دیوان فارسی (6 ہزاراشعار)اوردیوان عربی (5سواشعار)سمیت کئی کتب تصنیف فرمائیں ۔(تذکرہ اکابراہل سنت ،60)
(51) امام احمدرضا
اورعلمائےلاہور،132،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،57،53
(52) اساتذہ امیرملت،57
(53) صدسالہ تاریخ انجمن
نعمانیہ لاہور ،137
(54) عالم باعملحضرت
مولانا مفتى حافظ غلام محمد بگوى رحمۃ اللہ علیہکی ولادت ایک علمی
گھرانے میں 1255ھ/1839
ءکو بگہ (تحصیل پنڈ دادنخان )ضلع جہلم میں ہوئی، علم دین والدِگرا می استاذالکل مولانا غلام محی الدین بگوی سے حاصل کیا، سلسلہ نقشبندیہ میں
خواجہ فقیرمحمد چوراہی سے بیعت وخلافت کا شرف پایا، حصول علم و عرفان کے لئے لاہور
آگئے،علم وتقویٰ کی وجہ سےیہاں عام و خواص کا رجوع آپ کی جانب تھا، آپ کی کوششوں
سے لاہور کی بادشاہی مسجد آباد ہوئی اور آپ اس کے امام وخطیب،متولی اور
صدردارالافتاءبنائے گئے، آپ انجمن نعمانیہ لاہورکے بانیان میں سے بھی تھے ،آپ کا
وصال 4جمادی
الاخریٰ 1318ھ/29ستمبر1900ء کو ہوا۔مزارمیانی قبرستان میں ہے۔(تذکرہ علماء اہلسنت و
جماعت لاہور، ص218،امام
احمدرضا اورعلمائے لاہور، 155)
(55) اساتذہ امیرملت،57
(56) تذکاربگویہ 1/131
(57) حضرت مولانا پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب ضلع
گجرات (پنجاب پاکستان)کےایک موضع شہاب دیوال کےایک علمی فاروقی گھرانے میں 1346ھ/1928 ءکو پیداہوئے اورتقریبا89سال کی عمرمیں16 ؍صفرالمظفر1435ھ 20دسمبر 2013 کو لاہور میں وصال
فرمایا،ان کی تدفین میانی صاحب قبرستان میں خواجہ محمد طاہر بندگی کے مزار
اقدس کےمتصل ہوئی۔ آپ ایک متحرک عالم دین،دینی ودنیاوی تعلیم سے مرصع،مکتبہ نبویہ
کےبانی ،ناشر ِ رضویات، مدیر ماہنامہ جہان رضا لاہوراور
روح رواں مجلس رضااوراکابر علمائے اہل سنت لاہورسےتھے۔ آپ خوش اخلاق،مہمان
نوازاورہردل عزیزشخصیت کےمالک تھے ، چھوٹےبڑےسب کو اہمیت دیتے اورعلمی کاموں پر
حوصلہ افزائی فرمایاکرتےتھے،راقم کئی مرتبہ ان سے ملا،یہ مجھ پرخصوصی شفقت فرماتے
اورمجھےاپنا کراچی والادوست کہاکرتےتھے۔
(58) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور ،66
(59) 1319ھ/1901ء کو امیرملت پیرسیدجماعت
علی شاہ محدث علی پوری نےاس کی بنیادرکھی ،اس کے مقاصدیہ تھے (1)اتحادجمیع
سلاسل تصوف(2)اشاعت اسلام وتصوف(3)تردیدالز۱مات
خلاف اسلام وتصوف(4)تردیدمذاہب باطلہ ،اس کےپہلےصدربھی آپ
تھے،اس کی شاخیں ہندبھرمیں تھیں ،اس کے تحت کئی مدارس،مساجد،یتیم خانےقائم ہوئے،1904ء میں اس کے تحت
ایک ماہنامہ ’’انوارالصوفیہ‘‘،اوردیگررسائل مثلامبلغ قصور،لمعات الصوفیہ
سیالکوٹ،الفقیہ امرتسر،الجماعت امرتسربھی جاری ہوئے ،کئی مدارس مثلا مدرسہ
نقشبندیہ علی پورسیداں،اس کی شاخیں میسور،قصور ،گجرات،سانگلہ ہل ،ڈسکہ وغیرہ میں قائم ہوئیں۔ (مزید دیکھئے: سیرت امیرملت350تا449)
(60)اساتذہ امیرملت،57
(61) 1889ء میں مرزاغلام احمدقادیانی(1835ءتا1908ء) نامی شخص نےمسیح
موعود، مہدی
آخر الزمان اور نبی ہونے کا دعویٰ کیا ،انبیائے کرام بالخصوص
حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کیں ،اس نے 1889ء میں باقاعدہ بیعت کا
آغازکیا،ارتدادکے اس فتنےکی بنیادرکھی۔(بہارشریعت،1/190)
(62) اساتذہ امیرملت،56،سیرت
امیرملت،248
(63) صاحبِ انوارِ ساطعہ مولانا
محمد عبدُالسمیع بیدل انصاری رام پوری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت رام پور
منہیاراں (ضلع سہارن پور یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ جید عالم، مصنفِ کتب، شاعرِ اسلام
اور سلسلۂ چشتیہ صابریہ کے شیخِ طریقت تھے۔ یکم محرم 1318ھ/یکم
مئی1900ء کو وصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک قبرستان
رؤسائے لال کُرتی میرٹھ (یوپی) ہند میں
ہے۔ اپنی کتاب ”انوارِ ساطعہ در بیانِ مولود و فاتحہ“ کی وجہ سے معروف ہیں۔( نورِ
ایمان، ابتدائیہ، تذکرۂ علمائے اہلسنت، ص167)
(64) انوارساطعہ،15
(65) تقدیس الوکیل،85
(66) رسائل محدث قصوری،89
(67) تقدیس الوکیل،85
(68) استاذالعلماء، امامِ معقولات و منقولات
حضرت مولانا شاہ احمدحسن محدث کانپوری
چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1296ھ /1879ءمیں پٹیالہ (مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور وصال 3صفر 1322ھ /19،اپریل1904ء کو کانپور (یوپی) ہند
میں فرمایا، آپ کا مزار پرانوار یہیں بساطیوں والے قبرستان نزد پنجابی محلہ میں ہے۔
آپ جید عالم، مدرسمدرسہ فیض عالَم کانپور، مصنف و شارحِ کتب، دوستِ اعلیٰ حضرت اور اکابرینِ
اہلِ سنّت سے تھے۔ تصانیف میں رسالہ تَنْزِیْہُ الرَّحْمٰن کو شہرت حاصل ہوئی۔ (تذکرہ محدث سورتی، ص298تا301،
کانپور نزدیک سے دور تک، ص25,30)
(69) تنزیہ الرحمن عن شائبہ الکذب والنقصان، 65،66۔اس
تقریظ کا ترجمہ
ادارۂ تصنیف و تالیف وتراجم و تحقیق المدینۃ العلمیۃ (Research Centre Islamic)کے
فاضل نوجوان مولانامحمدعباس عطاری مدنی صاحب نے کیا ہے،راقم اس پر ان کا شکرگزارہے
۔ابوماجدعطاری۔
(70) تقدیس الوکیل،86،87
(71) مولانا محمود احمد قادری تذکرہ علمائے
اہلسنت ص 159
مطبوعہ انڈیا۔
(72) رسائل محدث قصوری،415
(73) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور
،124
(74) تذکرہ علمائے اہلسنت ص 160
(75)المدینۃ
العلمیۃ (Research Centre Islamic) اسلامی
تعلیمات عام کرنےوالا علمی، تحقیقی اورتصنیفی
ادارہ ہے جو عالم اسلام کی
عالمگیرتحریک دعوت اسلامی کےعالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ میں قائم ہے اس کی ایک
شاخ فیضان مدینہ مدینہ ٹاؤن فیصل آبادمیں
بھی قائم ہے ، دونوں شاخوں میں 118افراد کاعملہ تصنیف وتالیف یاترجمہ وتحقیق یامعاونت میں مصروف ہے، جنوری2021ء تک 606کتب ورسائل پر کام مکمل ہوچکا ہے، 30 کتب و رسائل پر کام جاری ہے۔ المدینۃ
العلمیۃ کے کتب و ر
سائل کی تین سال (2017
تا 2019ء)کی کارکردگی کے مطابق ایککروڑ
80لاکھ(8,304,1281) سے زائد فروخت اور نواسی لاکھ (8,974,694) سے زائدمرتبہ ڈاؤن لوڈ ہوچکی ہیں جس سےیہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اس ادارے کے علمی و تحقیقی لٹریچركو خواص کے ساتھ عوامی پذیرائی بھی
حاصل ہے ۔
(76) مولانا محمود احمد قادری تذکرہ علمائے
اہلسنت ص 159
مطبوعہ انڈیا۔
(77) مراۃ التصانیف،165
(78) صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور 83
(79) مراۃ التصانیف،174
(80) تذکرہ علمائے اہلسنت ص 159
(81) اساتذہ امیرملت ،59
(82) مراۃ التصانیف،139
(83) استاذالعلمامفتی غلام محمدحافظ آبادی کی ولادت 1273ھ/1856ء کو کوٹ اسحاق(یونین کونسل ضلع حافظ آباد،پنجاب،پاکستان)میں
پیداہوئےاوریہیں 3ربیع الاول1325ھ/16،اپریل1907ء کو وصال فرمایا۔آپ جامع معقول ومنقول،فقیہ وقت،ماہرادب
عربی،صدرالمدرسین ومفتی اعظم دارالعلوم نعمانیہ اورہزاروں علماکے استاذہیں۔(تذکرہ
علمائے اہل سنت وجماعت لاہور،221)
(84) تذکرہ علمائے
اہل سنت وجماعت لاہور،222
(85) جوریاست بھوپال میں محکمۂ تعلیم کے ناظم اوردیوان غالب کے نسخہ
حمیدیہ کےمرتب وناشرتھے۔
(86) اساتذہ امیرملت،59